جمعہ، 5 جون، 2015

انعام ندیم کی غزلیں

انعام ندیم کی شاعری مجھے بہت اچھی لگتی ہے، ہر بات جو ہمیں بہت اچھی لگتی ہے، اس کی تاویل فراہم کرانا ضروری نہیں، مگر انعام ندیم کو سادگی سے گہری باتیں کہنے کافن آتا ہے۔ ان کے یہاں خیال کے بہت سے نادر پہلو 'چپکے سے آئے بیٹھے'اسلوب کی چادر میں پوشیدہ سلوٹوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں۔ یہ بقول انعام ندیم، ان کی تازہ غزلیں ہیں، جو بہت سے پڑھنے والوں تک پہنچ نہیں سکی ہیں، ان میں سے کچھ تو ایسی ہیں جو ابھی کسی رسالے میں بھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے 'ادبی دنیا' کو اس لائق سمجھا کہ اسے اپنی تازہ ترین تخلیقات سے نوازیں، اس کےلیے میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔ ادبی دنیا کو اچھے لکھنے والوں کا تعاون مل رہا ہے، جو کہ بہت خوش آئند بات ہے۔

1

تیر ہوتا ہے روانہ میرا
دیکھتے رہیے نشانہ میرا

ہوگئی آتشِ فرقت ٹھنڈی
اب جہنم ہے ٹھکانہ میرا

یہ ستارہ جو نیا ہے اس سے
کوئی رشتہ ہے پرانا میرا

حال پوچھا ہے پلٹ کر اُس نے
کام آیا ہے بہانہ میرا

ترک سکّہ تو ہوا ہے کب کا
منہ چڑاتا ہے خزانہ میرا

بھول جاؤ گے حقیقت میری
یاد رکھو گے فسانہ میرا

رہ گیا جانے کہاں پر دیکھو
آنے والا تھا زمانہ میرا

2

مانگ کر روز ہی لہو مجھ سے
شام ہوتی ہے سرخرو مجھ سے

کوئی منزل نہیں مری منزل
تنگ ہے میری جستجو مجھ سے

ریت پر نقشِ رائیگانی تھا
اور ملتا تھا ہوبہو مجھ سے

میں کسی دوست کے مقابل تھا
خوف کھاتے رہے عدو مجھ سے

چاک دامن کے سی لیے لیکن
زخم ہوتے نہیں رفو مجھ سے

رات نے عہد کر لیا کوئی
اک ستارے کے روبرو مجھ سے

بات سنتا ہے آبشار مری
حال کہتی ہے آبجو مجھ سے

3

روشنی کا خواب دکھلاتا ہوا
اِک ستارہ دُور تک جاتا ہوا

منظروں پر دْھند سی چھائی ہوئی
آنکھ میں بادل سا لہراتا ہوا

دیکھتا ہوں ہر قدم مْڑ مْڑ کے میں
دل سے دنیا کی طرف آتا ہوا

آگیا ہوں میں کسی جنگل کے بیچ
راستوں کے ڈر سے گھبراتا ہوا

کیا خبر اب کے نشانے پر لگے
تیر میری سمت کو آتا ہوا

کوئی آتا ہے اندھیری رات میں
راہ میں تارے سے بکھراتا ہوا

ایک دن پہنچوں گا اْس تعبیر تک
خواب سے آگے گذر جاتا ہوا

کیا کہوں جو بات کہتا ہے مجھے
شاخ پر اِک پھول مرجھاتا ہوا

4

چھوڑ کر خالی مکاں رخصت ہوا
وہ مکیں جانے کہاں رخصت ہوا

راستوں کی دھول میں کھلتا نہیں
کس طرف وہ کارواں رخصت ہوا

سر اْٹھائے لوگ تکتے رہ گئے
اور وہ ابرِ رواں رخصت ہوا

کیا رہے آئندگاں کی سرخوشی
جب ملالِ رفتگاں رخصت ہوا

بھول جانے کا یقیں آنے لگا
یاد رکھنے کا گماں رخصت ہوا

ایک لمحہ لوٹ کر آیا نہیں
یہ برس بھی رائیگاں رخصت ہوا

بیٹھ کر اب آسماں کو دیکھئیے
وہ ستارہ تو میاں رخصت ہوا

5

وہ ہمسفر ہے شاید، وہ ہمسفر نہیں ہے
دل کے معاملے کی دل کو خبر نہیں ہے

سر میں چَٹخ رہا ہے پتھّر کوئی اَنا کا
شیشے پہ دل کے لیکن کوئی اثر نہیں ہے

باہر چمک رہے ہیں سارے وہی ستارے
میرے مکاں کے اندر جن کا گذر نہیں ہے

کارِ جنوں سے مجھ کو فارغ ہی جانیے گا
پہلا سا دشتِ دل میں اب شور و شر نہیں ہے

کوئی چراغ لے کر باہر کھڑا ہے لیکن
دیوارِ تیرگی میں کوئی بھی دَر نہیں ہے

ہم لوگ اس جہاں میں، خوابوں کی اس دْکاں میں
جس شے کو ڈھونڈتے ہیں وہ شے ادِھر نہیں ہے

جی بھر کے دیکھ لیجے دْنیا کا یہ تماشا
بس ایک بار کا ہے، بارِ دگِر نہیں ہے


6

تجھ سے مل کر قرار تھا ہی نہیں
وہ ترا انتظار تھا ہی نہیں

کوئی مشعل بدست تھا جس کا
قافلے میں شمار تھا ہی نہیں

خواب دیکھا نہیں کہ نیندوں سے
رابطہ اُستوار تھا ہی نہیں

حوصلے کو بڑھا لیا آخر
درد پہ اختیار تھا ہی نہیں

وہ شبِ ہجر تھی، چراغوں پر
بھید یہ آشکار تھا ہی نہیں

میں نے جس کو غبار سمجھا تھا
در حقیقت غبار تھا ہی نہیں

میں نے بھی پونچھ ڈالے پھر آنسو
جب کوئی سوگوار تھا ہی نہیں

7

خشک پتّوں کے درمیاں رہئیے
یعنی آسودۂ خزاں رہئیے

دیکھ لیجے مکانِ دل پہلے
پھر جہاں چاہے جی وہاں رہئیے

چھوڑیئے کیا ہے آسماں سے پرے
آپ بس زیرِ آسماں رہئیے

رات کا بھید جاننے کے لیے
اک ستارے کے رازداں رہئیے

زندگی کی امان میں آکر
زندگی بھر کو بے اماں رہئیے

اُس گلی کا پتا نہیں ملتا
اب کہاں جایئے، کہاں رہئیے

اور کچھ خواب کیجیے صاحب
اور کچھ دیر خوش گماں رہئیے

8

کہاں سے آ رہا ہوں کیا بتاؤں
بہت پچھتا رہا ہوں کیا بتاؤں

کسی منظر نے روکا بھی نہیں تھا
کہاں ٹھہرا رہا ہوں کیا بتاؤں

دیا تھا میں کہاں کی رہگزر کا
کہاں جلتا رہا ہوں کیا بتاؤں

زمانہ بڑھ گیا آگے مگر میں
کہاں سویا رہا ہوں کیا بتاؤں

میں اپنے آپ کا انکار کرکے
کسے جھٹلا رہا ہوں کیا بتاؤں

9

نہ دائیں بائیں، نہ اوپر سے ہو کے آیا ہوں
میں اِس فصیل کے اندر سے ہو کے آیا ہوں

ہر ایک بار وہی موجِ بے قرار ملی
ہزار بار سمندر سے ہو کے آیا ہوں

عجب نہیں ہے اگر جھلملا اْٹھوں میں بھی
میں اک دیے کے برابر سے ہو کے آیا ہوں

وہ جس مکان کے اندر بہت اْجالا تھا
میں اْس مکان کے باہر سے ہو کے آیا ہوں

کبھی سیاہ، کبھی زرد اور کبھی سر سبز
عجیب رنگ کے منظر سے ہو کے آیا ہوں

کسے بتاؤں کہ جو حال تھا ستارے کا
میں رات اپنے مقدّر سے ہو کے آیا ہوں

اَٹا ہوا ہوں کسی گردِ بے گھری میں ندیم
یہ اور بات ابھی گھر سے ہو کے آیا ہوں

10

بہاتا ہے کیسا بہاؤ مجھے
اگر نیند میں ہوں، جگاؤ مجھے

چلو ہفت افلاک تو سر ہوئے
زمیں سے کوئی اب اْٹھاؤ مجھے

اِسی گھر میں کھویا گیا ہوں کہیں
کسی دن کبھی ڈھونڈ لاؤ مجھے

بہت چاہ کر بھی نہ آیا کبھی
تمھیں چاہنے کا سَبھاؤ مجھے

لگانے کہیں پیٹھ دیتا نہیں
کسی پَل بھی سینے کا گھاؤ مجھے

کہا تھا مرا کچھ ٹھکانا نہیں
تمھی تھے بضد، اب نبھاؤ مجھے

برَس چشمِ گریہ، بہت ہوگیا
بجھانا ہے اپنا الاؤ مجھے

11

تیرگی، روشنی کا چہرہ ہے
موت بھی زندگی کا چہرہ ہے

آئنے میں کہاں دکھائی دے
جو ترے حیرتی کا چہرہ ہے

یہ نگہ ہے اْسی فرشتے کی
یہ اْسی آدمی کا چہرہ ہے

دشت کی شکل جس کو کہتے ہو
میری دیوانگی کا چہرہ ہے

اِک شناسائی کے دریچے میں
کیسی بیگانگی کا چہرہ ہے

یہ کسی اجنبی کی آنکھیں ہیں
یہ کسی اجنبی کا چہرہ ہے

دیکھ یہ ڈوبتا ہوا سورج!!
دیکھ یہ بے بسی کا چہرہ ہے

12

پھول ہاتھوں میں اُٹھائے رکھوں
اور یہ زخم چھپائے رکھوں

نا اُمیدی ہی بتائے شاید
کب تک اُمید لگائے رکھوں

آج کا دن تو گزرتا ہی نہیں
کام یہ کل پہ اُٹھائے رکھوں

بھُول جائیں نہ ستارے رستہ
میں دیا کوئی جلائے رکھوں

تھام لے گا کبھی وہ ہاتھ ندیمؔ
میں اگر ہاتھ بڑھائے رکھوں

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *