۱
لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ رسالے ’’احیائے علوم‘‘ میں پچھلے کچھ شماروں سے اجتہاد کے موضوع پر مضامین اور پڑھنے والوں کے خطوط کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے رسالے ’’جریدہ‘‘ کے شمارہ ۳۳ میں اقبال کے ان خطبات پر، جن کے مجموعے کا عنوان Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے، قدامت پرست مذہبی نقطۂ نظر سے کیے گئے طویل تبصرے شائع کیے گئے اور یہ اطلاع دی گئی کہ یہ علامہ سید سلیمان ندوی کے خیالات ہیں جنھیں ان کے ایک عقیدت مند مرید ڈاکٹر غلام محمد نے روایت کیا ہے۔ ان تبصروں کو میں نے اسی بحث کی روشنی میں پڑھا جو ’’احیائے علوم‘‘ میں جاری ہے اور اسی پس منظر میں ان تبصروں کے بعض نکات پر اپنے مختصر مضمون ’’اجتہاد اور فیصلہ سازی‘‘ میں اظہارخیال کیا۔ اپنا مضمون ’’احیائے علوم‘‘ کے مدیر سید قاسم محمود کو بھجواتے ہوے مجھے یہ مناسب معلوم ہوا کہ علامہ ندوی سے منسوب ان تبصروں کے وہ اقتباسات الگ سے نقل کر دوں جنھوں نے میرے خیالات کو تحریک دی تھی۔ میں نے ان اقتباسات پر مشتمل متن بھی’’خطبات اقبال پر علامہ سلیمان ندوی کا تبصرہ‘‘ کے عنوان سے سید قاسم محمود کو بھجوا دیا۔ اس متن کے آخر میں یہ وضاحت موجود تھی: ’’(ماخوذ از ’’جریدہ‘‘، شمارہ ۳۳، شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی۔ مدیر: خالد جامعی)‘‘۔ یہ دونوں متن ’’احیائے علوم‘‘ کے شمارہ ۱۳ میں الگ الگ مقامات پر شائع ہوے۔ میرے مضمون کے عنوان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی البتہ اقتباسات کے متن کو یہ سرخی دی گئی: ’’خطبات اقبال، علامہ سید سلیمان ندوی کا بصیرت افروز تبصرہ‘‘۔ اس کے علاوہ اس متن کے ساتھ علامہ ندوی کی ایک تصویر بھی شائع کی گئی۔ ’’احیائے علوم‘‘ کے اس شمارے کی اشاعت کے بعد اقبال اکیڈمی کی طرف سے اکیڈمی کے ناظم محمد سہیل عمر، نائب ناظم احمد جاوید اور ان کے علاوہ خرّم علی شفیق اور چند دیگر اصحاب کا ردعمل سامنے آیا۔ ان تحریروں میں مذکورہ تبصروں کے علامہ ندوی سے منسوب کیے جانے پر شبہات ظاہر کیے گئے اور بعض اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ تحریریں اکیڈمی کی طرف سے شائع کیے جانے والے کتابچے ’’میارا بزم بر ساحل کہ آنجا‘‘ میں شامل کی گئیں اور ان میں سے تین بعد میں ’’احیائے علوم‘‘ کے شمارہ۱۴ میں شائع ہوئیں۔
مذکورہ شمارہ ۱۴ کا انشائیہ نما اداریہ بعنوان ’’کمپیوٹر کی شرارت‘‘ پڑھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔ اس تحریر میں مجھے جن ناکردہ گناہوں کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے ان کا ذکر توذرا آگے چل کر ہو گا، لیکن حیرت کا بڑا سبب یہ ہے کہ کمپیوٹر تک سے اداریہ نویس نے ایسے افعال و اعمال منسوب کر دیے ہیں جو عموماً اس سے منسوب نہیں کیے جاتے۔ سید قاسم محمود صاحب، جن کا نام اس رسالے پر مدیر کے طور پر چھپتا ہے، اداریے میں فرماتے ہیں: ’’اب کمپیوٹر ایڈیٹر بن بیٹھا ہے۔ جو چیز چھپنے کے لیے آتی ہے، غڑاپ سے اپنے پیٹ میں ڈال کر سڑاپ سے باہر نکال دیتا ہے...‘‘ کمپیوٹر اور ای میل کا استعمال اب اردو کے اخباروں اور رسالوں میں خاصا عام ہو گیا ہے اور مدیروں کواشاعت کے لیے بھیجی جانے والی بہت سی تحریریں الیکٹرانک ذرائع سے موصول ہوتی اور کمپیوٹر کی مدد سے اشاعت کے لیے مرتب کی جاتی ہیں، تاہم کمپیوٹر کی غڑاپ اور سڑاپ کے درمیان عموماً رسالے کا مدیر واقع ہوتا ہے جو اس ذریعے سے موصول ہونے والی ہرتحریر کا پرنٹ آؤٹ نکال کر (یا نکلوا کر) اسے غور سے پڑھنے کے بعد ہی اس کے قابلِ اشاعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ’’احیائے علوم‘‘ غالباً اردو کا پہلا رسالہ ہے جس میں مدیر نے یہ پورا عمل کمپیوٹر کو سونپ کر اس کا رابطہ براہ راست شرکت پریس سے کرا دیا ہے اور خود چین کی بنسی بجانے کا شغل اختیار کر لیا ہے۔ میں اردو کے اس پہلے مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ رسالے کے اجرا پر مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ مبارک باد سید قاسم محمود کو دی جائے یا براہِ راست ان کے کمپیوٹر کو۔
لیکن جہاں تک زیربحث مضامین کا تعلق ہے، ان کے سلسلے میں کمپیوٹر کی اس غڑاپ سڑاپ کی قطعی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ یہ دونوں تحریریں جنھیں ’’احیائے علوم‘‘ کے شمارہ ۱۳ میں مختلف مقامات پر شائع کیا گیا، مدیر کے نام خط کے ساتھ ہارڈ کاپی یعنی کاغذ پر نکالے ہوے پرنٹ آؤٹ کی شکل میں (بقول اداریہ نویس’’رجسٹری سے‘‘) بھیجی گئی تھیں، اور خط میں مدیر سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ اگر وہ انھیں شائع کرنے کا فیصلہ کریں تو ان کی سافٹ کاپی بذریعہ ای میل الگ سے بھیجی جا رہی ہے، اس متن کو استعمال کر لیں تاکہ انھیں نئے سرے سے کمپوزنگ نہ کرانی پڑے اور پروف کی غلطیاں نہ ہوں۔ رسید کے طور پر سید قاسم محمود کا ۲۶ جولائی کا لکھا ہوا خط موصول ہوا کہ ’’آپ کے مرسلہ دونوں مضامین دونوں ذریعوں سے مل گئے ہیں۔ توجّہ فرمائی کا شکریہ۔ ہمیں ایسے ہی مضمونوں کی ضرورت ہے،‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب جیساکہ اداریے میں دیے گئے حلفیہ بیان سے انکشاف ہوا ہے، اگر محترم مدیر نے یہ باتیں خط کے ساتھ منسلک مضامین کو پڑھے بغیر ہی لکھ بھیجیں، اور پھر اشاعت کے لیے منتخب کرتے وقت (یا شائع ہونے کے بعد) بھی انھیں پڑھنے کی زحمت نہ کی تو ظاہر ہے کہ اس طرزعمل کا قصوروار کمپیوٹر کے سوا کس کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ یہ فیصلہ بھی یقیناً کمپیوٹر نے کیا ہو گا کہ رسالے کے کن صفحات پر کن تحریروں کو جگہ دی جائے، ان پر کیا عنوان قائم کیا جائے اور کون سی تصویر کہاں لگائی جائے۔ واہ کمپیوٹر جی واہ!
سید قاسم محمود صاحب میرے بزرگ ہیں اور میرے لیے قابل احترام ہیں۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے، مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے۔ یعنی ایک طرف رسالوں کو دیدہ زیب اور دلچسپ بنانے کے بہت سے طریقے ان کی مرتب کی ہوئی مطبوعات کو غور سے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی، تو دوسری طرف یہ بھی سیکھا کہ اشاعت کے لیے آنے والی تحریروں کو پڑھے بغیر شائع کرنا سید قاسم محمود کا ایسا عمل ہے جس کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ واقعہ اردو رسالوں میں کمپیوٹر کے مروج ہونے سے برسوں پہلے کا ہے جب ان کی ادارت میں نکلنے والے ایک ڈائجسٹ میں ممتاز مفتی کا سفرنامۂ حج ’’لبیک‘‘ قسط وار شائع ہوا تھا۔ جب یہ سفرنامہ کتاب کے طور پر چھپا تو اس میں سید قاسم محمود کی ایک تحریر بھی شامل تھی جس میں انھوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ ان قسطوں کو پڑھے بغیر رسالے میں شائع کیا کرتے تھے۔
اپنے رسالے کے مشمولات اور ان کے مضمرات سے ناواقف ہونے کے باعث، اقبال اکیڈمی کے سرکاری عمّال کے شوروغوغا سے سید قاسم محمود اس قدر گھبرا گئے کہ انھوں نے ہر چیز سے اپنی برأت کا اعلان کرتے ہوے یہ بھی نہ دیکھا کہ ’’خطبات اقبال‘‘ پر جن تبصروں سے اقتباسات منتخب کر کے شائع کیے گئے ہیں وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف کے رسالے ’’جریدہ‘‘ کے شمارہ ۳۳ سے لیے گئے ہیں اور اس رسالے کا مکمل حوالہ دیا گیا ہے بلکہ ان میں سے ہر اقتباس پر مذکورہ رسالے کا صفحہ نمبر بھی درج کیا گیا ہے۔ ان تبصروں کو علامہ سید سلیمان ندوی سے’’جریدہ‘‘ کے مدیر خالد جامعی نے منسوب کیا تھا ، اس لیے اس انتساب کی ذمے داری انھی کے سر جاتی ہے، نہ کہ سید قاسم محمود (یا ان کے کمپیوٹر) کے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو یہ ذمے داری اپنے سر لینے سے قطعی قاصر ہوں۔ خالد جامعی نے وضاحت کے طور پر بتایا ہے کہ علامہ ندوی کے ان خیالات کے راوی ڈاکٹر غلام محمد ہیں، اور بظاہر خالد جامعی کو اس امر پر اطمینان معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روایت معتبر ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد کون تھے، میں اس سے ناواقف ہوں، اور شمارہ ۱۴ میں اقبال اکیڈمی کے زیراہتمام تیار کیے ہوے جو وضاحتی مضامین شائع کیے گئے ہیں ان میں بھی ان صاحب کا تعارف نہیں کرایا گیا۔ تاہم محمد سہیل عمر اور خرم علی شفیق نے علامہ ندوی اور ڈاکٹر غلام محمد کے ناموں پر رحمت اﷲ علیہ کی علامت لگائی ہے جس سے اُن دونوں مرحومین کی بابت اِن دونوں کا احترام ظاہر ہوتا ہے۔ ان حضرات نے اس بارے میں کوئی بحث نہیں کی کہ ڈاکٹر غلام محمد کی گواہی علامہ ندوی کے بارے میں (جو بقول خالد جامعی،ڈاکٹر غلام محمد کے شیخ تھے) کس بنیاد پر نامعتبر ہے۔ بہرحال، چونکہ اس بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں، خالد جامعی اس بات کے مکلّف ہیں کہ ان شکوک کو رفع کریں۔
۲
خرم علی شفیق نے ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کے سلسلے میں کئی بیانات دیے ہیں: ’’امالی کے ملفوظات سید سلیمان ندوی صاحب سے منسوب کیے گئے ہیں (اگرچہ اس دعوے کو قبول کرنے میں مجھے تامل ہے)‘‘۔...’’کسی ثبوت کے بغیر یہ ماننے کو دل نہیں چاہتا کہ یہ [علامہ ندوی] ہی کے ارشادات ہیں۔ جب تک ثبوت نہ مل جائے ہمیں مصلحت پسندی کا یہ چہرہ [علامہ ندوی] پر چپکانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴، صفحہ ۲۷۔) اس کے بعد صفحہ ۳۱ پر انھوں نے علامہ ندوی پر تحقیق کرنے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ معلوم کریں کہ یہ ملفوظات واقعی [علامہ ندوی] کے ہیں یا نہیں۔‘‘ آگے چل کر کہتے ہیں: ’’یہاں بھی وہی شک گزرتا ہے کہ یہ [علامہ ندوی] کے ارشادات ہیں یا کسی اور کا خامۂ ہذیان رقم!‘‘ (ص ۳۳) مزید کہتے ہیں: ’’ان امالی میں جس قسم کی ذہنیت سامنے آتی ہے...اسے [علامہ ندوی] سے منسوب کرنے میں ابھی مجھے تامل ہے مگر یہ ملفوظات جس کسی کے بھی ہوں، ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک الجھے ہوئے ذہن کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘ (ص۳۷۔)
ان تمام بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خرم علی شفیق یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ خیالات، جنھیں ڈاکٹر غلام محمد اور خالد جامعی نے علامہ ندوی سے منسوب کیا ہے، ان کے ہیں یا نہیں۔ اگر انتساب کا کوئی حتمی ثبوت خالد جامعی نے پیش نہیں کیا (کہا نہیں جا سکتا کہ سینہ بہ سینہ زبانی روایت سے بڑھ کر کون سا ثبوت ہو سکتا تھا) تو سہیل عمر اور خرم علی شفیق نے بھی قطعی طور پر واضح نہیں کیا کہ یہ زبانی روایت اس مخصوص معاملے میں کیوں ناقابل قبول ہے۔ البتہ خرم علی شفیق نے ان خیالات کا علامہ ندوی کے معروف خیالات سے تضاد بڑی محنت اورقابلیت سے ظاہر کیا ہے۔ تاہم بعض اہل قلم کے معاملے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف ادوار میں ان کی رایوں اور خیالات میں نمایاں تضاد پایا جاتا ہے؛ اس قسم کے ادیبوں میں محمد حسن عسکری مثالی حیثیت رکھتے ہیں جنھوں نے تضادبیانی کو ایک فن لطیف کے درجے پر پہنچا دیا۔ خلاصہ یہ کہ خطباتِ اقبال پر ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کا معاملہ ابھی حتمی طور پر طے ہونا باقی ہے؛ جیسا کہ خرم علی شفیق نے کہا ہے، علامہ ندوی پر تحقیق کرنے والوں کو چاہیے کہ معلوم کریں کہ یہ خیالات ان سے منسوب کیے جانے چاہییں یا نہیں۔
تاہم میری رائے میں ’’جریدہ‘‘ شمارہ ۳۳ میں شائع ہونے والے خیالات کا علامہ ندوی یا کسی اور سے انتساب واحد اہم یا اہم ترین نکتہ نہیں۔ جیساکہ خرم علی شفیق کہتے ہیں، اگر یہ علامہ ندوی کے ’’ملفوظات نہیں ہیں تب بھی یہ خیالات کسی نہ کسی کا نتیجۂ فکر تو ہوں گے،‘‘ چنانچہ ان کا محاکمہ کیا جانا جائز اور ضروری ہے، اور اکیڈمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے اپنے مخصوص زاویۂ نظر سے ایسا کیا بھی ہے۔ میں نے بھی اپنے مختصر مضمون ’’اجتہاد اور فیصلہ سازی‘‘ میں ان میں سے بعض نکات پر اظہارخیال کیا تھا۔ میرے نزدیک یہ بات بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے زیراہتمام (اور ملک کے شہریوں سے وصول کردہ ٹیکسوں کی رقم کے صرف سے) اس قسم کے افسوسناک اور دقیانوسی خیالات کی اشاعت کی جا رہی ہے۔
۳
سہیل عمر کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے مضمون میں بلاتحقیق ان سے یہ منسوب کر دیا کہ انھوں نے شہادت دی ہے کہ اقبال نے رحلت سے پیشتر خطبات سے رجوع کر لیا تھا۔ یہ انتساب بھی میرا نہیں، مدیر ’’جریدہ‘‘ خالد جامعی کا ہے، اور اس ضمن میں میں نے مذکورہ اقتباس سے اوپر کے پیراگراف میں ’’جریدہ‘‘ کے شمارہ ۳۴ کا حوالہ دیا ہے۔ اپنا مضمون لکھتے وقت میں ’’خطبات اقبال‘‘ کے بارے میں سہیل عمر کے نقطۂ نظر سے لاعلم تھا۔ اس کے شائع ہونے کے بعد سہیل عمر سے ای میل پر میری خط و کتابت رہی اور انھوں نے یہ تمام وضاحتی تحریریں، جو ’’احیائے علوم‘‘ کے شمارہ ۱۴ میں شائع کی گئی ہیں، پہلے ای میل کے ذریعے اور پھر اکیڈمی کی طرف سے شائع کردہ کتابچے کی صورت میں، مجھے ارسال کیں۔ میں نے جواباً ان کو اطمینان دلایا کہ اگر میں نے خالد جامعی کی شہادت پر بھروسا کر کے نادانستگی میں ان سے کوئی ایسی بات منسوب کر دی ہے جو انھوں نے نہیں کہی تھی تو مجھے اپنے الفاظ واپس لینے اور معذرت کرنے میں قطعی کوئی عار نہیں ہو گی۔ میں اپنے اس بیان پر اب بھی قائم ہوں ۔ آئیے اب دیکھیں کہ سہیل عمر ’’خطبات اقبال‘‘ کے بارے میں دراصل کیا رائے رکھتے ہیں۔
انھوں نے میری درخواست پر بڑی مہربانی سے اپنی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ (جسے انھوں نے اقبال اکیڈمی کے زیراہتمام شائع کیا ہے) مجھے فراہم کی۔ میں نے اس کتاب کو بڑی دلچسپی سے پڑھا اوراسی دوران مجھے اکیڈمی کے رسالے ’’اقبالیات‘‘ اور بعض دوسری مطبوعات میں ’’خطبات‘‘ کے بارے میں اکیڈمی کے سابق ناظم پروفیسر مرزا محمد منور اور حالیہ نائب ناظم احمد جاوید کے خیالات سے بھی کسی قدر واقف ہونے کا موقع ملا۔ ان مطالعات سے تاثر ملتا ہے کہ اکیڈی کے یہ سابق اور موجودہ کارپردازان اقبال کے خطبات کے بارے میں کئی قسم کے تحفظات رکھتے ہیں، اور چند نامعلوم اسباب کی بنا پر ان کی کوشش رہتی ہے کہ اقبال کے خطبات کو ان کی شاعری کے مقابلے پر لایا جائے اور کسی طرح یہ جتایا جائے کہ خطبات ان کی شاعری کی بہ نسبت کم اہمیت کے حامل ہیں اور کہیں کہیں اقبال کے کام کے ان دونوں اجزا کے درمیان، ان حضرات کی فہم کے مطابق، نقطۂ نظر کا اختلاف پایا جانا بھی خارج از امکان نہیں۔ یہ تاثر اس قسم کی باتوں سے ملتا ہے جن میں سے کچھ ذیل میں درج کی جا رہی ہیں:
محمد سہیل عمر(’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘): ’’علامہ کی شاعری کا بیشتر حصہ آج بھی پہلے کی طرح قابل قدر، فکرانگیز اور پُرتاثیر ہے جبکہ خطبات کا کچھ حصہ اب صرف تاریخی اہمیت کا حامل معلوم ہوتا ہے۔‘‘(صفحہ ۱۱) ’’پہلا سوال جو اقبالیات کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے، یہ ہو گا کہ اصل چیز اقبال کا شعر ہے یا خطبات! شاعری کو اولیت حاصل ہے یا خطبات کو؟ کیا خطبات ہمارے ادبی اور فکری سرمایے میں اسی جگہ کے مستحق ہیں جو شاعری کو حاصل ہے؟ اس بڑے سوال کے ساتھ ضمنی سوالات کی پخ بھی لگی ہوئی ہے کہ خطبات کے مخاطب کون تھے؟ اس کے موضوعات چونکہ متعین اور تحریر فرمائشی تھی نیز وسائلِ مطالعہ و تحقیق ۱۹۲۰۔۱۹۲۸ تک محدود تھے، لہٰذا شاعری کے آزاد، پائدار اور تخلیقی وسیلے کے مقابلے میں خطبات زمانے کے فکری اور سیاسی تقاضوں، معاشرتی عوامل، رجحانات، نفسیاتی ردعمل اور دیگر محرکات کے زیادہ اسیر ہیں ‘‘ (۱۲-۱۱) ’’یہاں ایک ضمنی سوال سر اٹھاتا ہے کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا؟‘‘ (۱۲) ’’خطبات کے بعد علامہ لگ بھگ دس برس زندہ رہے اور مابعد کی شاعری اور دیگر نثری تحریروں میں انہی موضوعات پر اظہار خیال کرتے رہے جو خطبات سے متعلق تھے، لہذا خطوط اور مابعد خطبات کی شاعری کا تعلق خطبات سے طے کیے بغیر ہم علامہ کے پورے فکری تناظر میں خطبات کی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتے۔ اسی بات پر ایک اور پہلو سے غور کرنے کی ضرورت ہے، علامہ کا فکری ارتقا یا مختلف مسائل کے مقابل ان کا موقف کہاں ظاہر ہوا ہے، شاعری میں یا خطبات میں؟ بالفاظ دیگر ان کی شخصیت اور فکر کا زیادہ ارتقایاب میڈیم کون سا ہے؟ کیا وہی زیادہ قابل اعتبار نہ ہو گا؟‘‘ (۱۳)وغیرہ۔
احمد جاوید (ملفوظات بعنوان ’’اقبال—تصور زمان و مکاں پر ایک گفتگو‘‘، ضبط و ترتیب: طارق اقبال، ’’اقبالیات‘‘ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء): ’’اقبال کے کسی خاص تصور کا مطالعہ کرنے چلیں تو آغاز ہی میں ایک مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، اور وہ یہ کہ ان کا ہر تصور شاعری میں بھی بیان ہوا ہے، اور ضروری نہیں کہ شاعری میں اُس کی وہی صورت پائی جائے جو خطبات وغیرہ میں ملتی ہے۔...بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں ان کا موقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ موقف کے الٹ ہے۔‘‘
پروفیسر محمد منور: ’’ہمیں تشکیلِ جدید [خطبات اقبال] کی روشنی میں دور مابعد کے مکتوبات، بیانات، خطبات اور تصریحات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ علامہ کی سوچ ۱۹۲۹ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔ ’فکراقبال تشکیل جدید کے بعد‘ ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔‘‘ (’’علامہ اقبال اور اصول حرکت‘‘، بحوالہ سہیل عمر، ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ ص ۱۵)
جہاں تک خطبات کے بعد اقبال کی طرف سے مختلف موضوعات پر اپنے موقف سے مفروضہ رجوع یا اس پرنظرثانی کا تعلق ہے، خرم علی شفیق نے مرزا منور، خالد جامعی، علامہ ندوی (یا چلیے ان کے راوی ڈاکٹر غلام محمد) وغیرہم کے مفروضات و دعاوی کا بڑی خوبی سے سدباب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطبات کے بین الاقوامی ایڈیشن کے لیے متن کو اقبال نے خود حتمی شکل دی اور یہ ایڈیشن ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔ ’’اگر رجوع وغیرہ کیا ہوتا تو اچھا موقع تھا کہ متن میں تبدیلی کرتے۔ انہوں نے لفظی ترامیم کے سوا کوئی تبدیلی نہ کی۔‘‘ اس سلسلے میں علامہ ندوی سے منسوب ایک بیان پر جس کا تعلق اقبال کے چھٹے خطبے میں شاہ ولی ﷲ کی ’’حجتہ اﷲ البالغہ‘‘ سے ایک عبارت کا حوالہ دینے سے ہے، خرم علی شفیق نے خاصی قائل کن بحث کی ہے۔ ان کے پیش کیے ہوے حقائق کا اطلاق اسی عبارت کے سلسلے میں سہیل عمر کے اس موقف پر بھی ہوتا ہے جو ان کی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ کے ضمیمہ ۳ کے طور پر شامل مضمون ’’سزا یا ناسزا‘‘ میں سامنے آتا ہے۔ اس مضمون کے بارے میں قدرے تفصیل سے آگے بات ہوگی۔
لیکن ان تحریروں سے جن کے اقتباسات اوپر پیش کیے گئے، اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ملتا کہ جب اقبال کے بےشمار پڑھنے والوں کو خطبات اور شاعری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا یا ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا ضروری محسوس نہیں ہوتا تو پھر اکیڈمی کے کارپردازان کو اس سلسلے میں بےتابی کیوں ہے۔غور کرنے پر یہ اندازہ کرنا ممکن ہے کہ خطبات میں اقبال کا اختیارکردہ موقف بیشتر مقامات پر ان حضرات کے سیاسی خیالات سے اسی طرح متصادم ہے جس طرح مذہب کی اس مخصوص (’’روایتی‘‘) تعبیر سے جس پر یہ حضرات عقیدہ رکھتے ہیں۔ ان محترم ومقتدر ہستیوں کا سیاسی اور مذہبی نقطۂ نظر اپنی جگہ، لیکن اس سے یہ کیونکر لازم آیا کہ اقبال کے فکری اور فنی سرمائے کو صرف و محض اسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے اور جہاں کہیں دونوں میں اختلاف پایا جائے وہاں یا تو کسی تاویل کی مدد سے اقبال کے نقطۂ نظر کو جوں توں قابلِ قبول بنایا جائے (یعنی تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے) یا جہاں ایسا کرنا ممکن نہ دکھائی دے وہاں کسی اور ترکیب سے اقبال اکیڈمی کے موقف کو اقبال کے موقف پر فوقیت دی جائے؟
۴
سہیل عمر کی تصنیف ’’خطباتِ اقبال نئے تناظر میں‘‘ ان کے ایم فل کے مقالے کا کتابی روپ ہے۔ اس تصنیف میں سہیل عمر نے ’’خطبات اقبال‘‘ کے مباحث کے تجزیے کی بنیاد مندرجہ ذیل تین مفروضات پر استوار کی ہے:
(۱) پہلا مفروضہ یہ ہے کہ خطبات اقبال کے مخاطبین ایک خاص ذہنی پس منظر رکھتے تھے جو اقبال کے اپنے ذہنی پس منظر سے جدا تھا۔اس مفروضے کی تفصیل سہیل عمر کے الفاظ میں یہ ہے:
’’علامہ کے مخاطبین دوگونہ مشکلات کا شکار تھے۔ ایک طرف وہ صرف انہی مقولات (Categories) کے آشنا یا انہی مقولات کے قائل تھے جو حسّیت پرستی (Empiricism) کے عملی پس منظر نے انہیں فراہم کیے تھے۔ دوسری طرف وہ ان اشکالات اور فکری الجھنوں میں مبتلا تھے جو حسیات پرستی کے مقولات کو ان کے جائز دائرۂ کار سے باہر وارد کرنے سے پیدا ہوئی تھیں۔‘‘ (ص۲۳)
[یہاں میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ Empiricism کا ترجمہ ’’حسیت پرستی‘‘ محلِ نظر ہے اور اس طرزِ تحقیق پر ایک خاص طرح کا اخلاقی حکم لگانے کا قرینہ ہے جس کا قطعی جواز نہیں۔ ایک اور جگہ، صفحہ ۲۸ پر، وہ اسی اصطلاح کا زیادہ مانوس اور درست ترجمہ ’’تجربیت ‘‘ کرتے ہیں۔ اس دورنگی کی مذکورہ تصنیف میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔]
’’علامہ کے مخاطبین ادراک بالحواس کے اسیر ہیں۔‘‘ (۴۳) ’’وہ وحی کے روایتی معنوں میں قائل نہیں ہیں اور جدید علوم کے تحت تشکیل پانے والے ذہن کے نمائندہ ہیں۔‘‘ (۴۸) ’’علامہ کے مخاطبین...اس معروضی اقلیمِ ربانی کے بارے میں طبقۂ متشککین سے تعلق رکھتے تھے...‘‘ (ص۵۳-۵۴)
صفحہ ۹۵ پر انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اقبال ’’مخالف اور متشکک سامعین سے خطاب‘‘ کر رہے تھے۔
ان نہایت سنگین مفروضات (بلکہ الزامات) کے سلسلے میں کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی اور نہ کہیں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقبال کے خطبات کے سامعین کے بارے میں ان معلومات کا ماخذ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سہیل عمر نے دو مقامات پر خود اقبال کا درجِ ذیل بیان اقتباس کیا ہے، جس سے مذکورہ بالا مفروضات کی کسی بھی طرح تصدیق نہیں ہوتی۔ (صفحہ ۱۰ پر یہ اقتباس پیش کرتے ہوے وہ کہتے ہیں کہ ’’علامہ کے متعدد بیانات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک نمائندہ اقتباس دیکھیے۔‘‘ مفروضے کی سنگینی کا تقاضا تھا کہ ان ’’متعدد‘‘ بیانات کو سامنے لایا جاتا اور ان سے تشفی بخش شہادت حاصل کی جاتی کہ واقعی اقبال اپنے مخاطبین کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے۔ اگر یہ واقعی ان متعدد بیانات کا نمائندہ اقتباس ہے تو اس سے اس کی ہرگز وضاحت نہیں ہوتی۔) صفحہ ۲۲ پر دوبارہ اسی اقتباس کو پیش کرتے ہوے سہیل عمر نے اپنی طرف سے یہ تبصرہ کیا ہے کہ اقبال کے مخاطبین کے ’’ذہنی مسائل‘‘ (گویا ذہنی امراض!) سابقہ نسلوں سے مختلف تھے۔ بہرکیف، اقبال کے بیان کا پیش کردہ اقتباس دیکھیے:
’’ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں، اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفۂ اسلام کو فلسفۂ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے، اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔‘‘
اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اپنے خطبات کے ان مخاطبین کے بارے میں اس قسم کی کوئی منفی رائے نہیں رکھتے جیسی سہیل عمر رکھتے ہیں، اور وہ ان تعلیم یافتہ مسلمانوں کی خواہش کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس موضوع پر اپنے تجزیے کو خطبات کی صورت میں تحریر کر کے ان کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔ علاوہ ازیں، وہ دانشِ حاضر سے روشنی پانے والے ان جدید مسلمانوں کے اس خیال کو بھی قابلِ قبول پاتے ہیں کہ اس موضوع پر ’’پرانے تخیلات‘‘ (گویا مذہبِ اسلام کی اس سے پہلے کی، یا روایتی، تعبیروں) میں خامیوں کا ہونا ممکن ہے، اور ان خامیوں کو رفع کیا جانا چاہیے۔
سہیل عمر نے اس بات کے حق میں کسی قسم کی کوئی دلیل یا شہادت پیش نہیں کی کہ اقبال کے خطبات کے ان سامعین کو کس بنا پر اقبال کے ’’مخالف‘‘ نقطۂ نظر کا حامل سمجھا جائے۔ انھوں نے اقبال کا ایک اور بیان ان کی اپنی ’’افتادِ طبع‘‘ کے بارے میں صفحہ ۲۲ پر پیش کیا ہے۔ (جس شے کو انھوں نے خطبات کے سامعین کے ’’ذہنی مسائل‘‘ — گویا ذہنی امراض — قرار دیا تھا وہی شے اقبال کے معاملے میں ان کی ’’افتادِ طبع‘‘ — گویا مجبوری — کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ اگر دونوں مقامات پر ان اصطلاحوں کو ’’نقطۂ نظر‘‘ سے بدل دیا جائے تو وہ تضاد یا تخالف غائب ہو جاتا ہے جسے سہیل عمر ان دونوں اقتباسات میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔) اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوے اقبال کہتے ہیں:
’’میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں۔‘‘
اقبال کا یہ بیان ان خطبات میں ان کے طرزِاستدلال کو سمجھنے کی بہت اہم کلید فراہم کرتا ہے۔ اس بیان میں اس امر پر کسی قسم کی شرمندگی نہیں پائی جاتی کہ وہ مغربی فلسفے کے نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں؛ وہ اسے ایک جائز طریق کار (یا منہاج) سمجھتے ہیں۔’’دانستہ یا نادانستہ‘‘ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ کوئی غلط بات نہیں۔ اقبال کے ان دونوں اقتباسات سے یہ نتیجہ غیرمبہم طور پر برآمد ہوتا ہے کہ ان کا نقطۂ نظر وہی ہے جو ان کے خیال میں ان کے مخاطبین کا ہے، اور اسی بنا پر خطبات اقبال کی ایک نہایت اہم اور بنیادی نوعیت کی فکری سرگرمی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خطبات کی تکمیل کے بعد کی پوری زندگی میں اقبال کے قول اور عمل سے یہ بات ظاہر ہے کہ وہ اپنے ان خطبات کو اپنا ایک اہم اور بنیادی کام سمجھتے رہے اور ان خطبات کے مشمولات یا طرزاستدلال میں انھوں نے کسی ترمیم کی ضرورت محسوس نہ کی؛ اپنی وفات سے چار برس پہلے ان خطبات کا دوسرا، بین الاقوامی ایڈیشن مرتب کرتے ہوے بھی نہیں۔
(۲) سہیل عمر کے تجزیے کا دوسرا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ چونکہ اقبال اپنے مخاطبین کو اپنے مخالف نقطۂ نظر کا حامل سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے ان کے ’’ذہنی مسائل‘‘، ’’اشکالات اور فکری الجھنوں‘‘، ’’استعداد و افتادِ فکر‘‘ وغیرہ کی رعایت کرتے ہوے ، استدلال کی غرض سے وہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے جو سہیل عمر کی رائے میں اقبال کے اپنے نقطۂ نظر سے مختلف بلکہ کہیں کہیں تو اس کی عین ضد ہے۔ سہیل عمر ’’مصلحتِ وقت‘‘ کو اقبال کے اس مفروضہ طریق کار کی اس کی ایک اور وجہ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
یہ ایک بہت بڑا مفروضہ ہے اور سہیل عمر کی تصنیف کے متن کی حد تک کسی قسم کی بنیاد سے قطعی عاری ہے۔ انھوں نے اس کے حق میں کوئی دلیل یا شہادت پیش کرنا ضروری نہیں سمجھا؛ اقبال کا کوئی بیان ایسا نہیں پیش کیا جس سے اس مفروضے کا خفیف ترین جواز بھی نکل سکتا ہو۔ اس نہایت سنگین سقم کے ہوتے ہوے اسے اقبال کے بارے میں سہیل عمر کی بہت بڑی، اور بلاجواز، جسارت سمجھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس مفروضے کے تحت اپنی زیرِنظر تصنیف میں ان کا تجزیاتی طریق کار کچھ اس قسم کا دکھائی دیتا ہے: (الف) وہ اقبال کے خطبے سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں، اور اس کے بعد اس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔ (ب) جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خطبے کے اقتباس میں سائنس، فلسفے یا مذہب کے زیربحث قضیے کی بابت ظاہر کیا گیا موقف خود سہیل عمر کے نقطۂ نظر سے مختلف (بہت سے موقعوں پر متضاد) ہے تو وہ اپنے ہی قائم کردہ بلاجواز مفروضے کو ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوے کہتے ہیں کہ دراصل اقبال کا اپنا نقطۂ نظر وہی تھا جو خود سہیل عمر کا ہے، اور مذکورہ اقتباس میں پیش کردہ موقف انھوں نے صرف ’’مصلحتِ وقت‘‘ یا مخاطبین کے ’’ذہنی مسائل‘‘ کی رعایت سے اختیار کیا تھا۔ سہیل عمر کا یہ طریق کار اس قدر ناقص، غیراطمینان بخش اور افسوسناک ہے کہ اسے درست یا جائز تسلیم کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ کچھ اس طرح کی بات ہے جیسے کہا جائے کہ اقبال سہیل عمر کے نقطۂ نظر کی موافقت میں دن کو سیاہ سمجھتے تھے، لیکن چونکہ ان کے مخاطبین ’’خوگرِ محسوس‘‘ ہونے کی وجہ سے یا مغربی تعلیم پانے کے باعث دن کو روشن دیکھنے کے عادی تھے، اس لیے اقبال نے مصلحت سے کام لیتے ہوے اپنے خطبے میں دن کو سفید قرار دے دیا۔ اب ہمیں چاہیے کہ خطبات میں جہاں جہاں دن کی صفت کے طور پر سفید کا لفظ آئے، اسے سیاہ سمجھیں۔
خطبات اقبال اور ان کے بارے میں اقبال کے قول و عمل سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کی نسبت ایسے معاملے میں جو ان کے فکری اور جذباتی وجود کے لیے اس قدر قریبی اہمیت رکھتا تھا، کسی قسم کی مصلحت پسندی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اسی طرح انھیں مخاطبین کے کسی قسم کے ذہنی و نفسیاتی مسائل کے سلسلے میں ان کو تسکین پہنچانے کی قطعی کوئی مجبوری لاحق نہ تھی۔ اس کے برعکس، وہ اپنے اس فکری عمل میں ان لوگوں کو شریک کرنا چاہتے تھے جو ان کا خیال تھا کہ اس شرکت کی اہلیت اور علمی تیاری رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ بات کہی:
’’مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردوخواں دنیا کو شاید اس سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے (یا سننے والے) کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیرچارہ نہ تھا۔‘‘(ص۲۲)
اردوخواں دنیا کو فائدہ نہ پہنچنے کی وجہ یہ نہیں کہ اردوخواں لوگ ان ’’ذہنی مسائل‘‘ سے آزاد ہیں جو سہیل عمر کے خیال میں اقبال کے مخاطبین کو لاحق ہیں؛ اس واضح بیان کی روشنی میں، وجہ یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک یہ لوگ، مغربی فلسفے کے پس منظر سے ناواقف ہونے کے باعث، ان مباحث کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے جن پر ان خطبات میں گفتگو کی گئی ہے۔
(۳) سہیل عمر کے تجزیے کا تیسرا بنیادی مفروضہ وہ ہے جسے انھوں نے صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ڈاکٹر ظفرالحسن، کے اس خطبۂ صدارت سے اخذ کیا ہے جو اقبال کے چھ خطبات کے سلسلے کے اختتام پر پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر ظفرالحسن کا خیال ہے کہ (الف) اقبال نے جو کام کیا ہے وہ ’’اسلام میں فلسفۂ دین کی تشکیلِ نو یا، بالفاظ دیگر، ایک نئے علم کلام کی تخلیق‘‘ کا کام ہے۔ (ب) علم کلام کا کام یہ واضح کرنا ہے کہ حقائق دینی اور فلسفہ و سائنس میں کوئی عدم مطابقت نہیں ہے، اور (ج) ڈاکٹر صاحب سرسید کے ’’اصول تفسیر اور دیگر تحریروں‘‘ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ علم کلام کا یہ مقصد دو طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے، اور اقبال کا اختیارکردہ طریقہ یہ ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ’’مذہب جو کہتا ہے وہ حقیقت ہے اور فلسفہ و سائنس اس سے متفق ہیں۔ جن مقامات پر اختلاف و تناقض پیدا ہو، وہاں فلسفہ و سائنس کی تردید کی جائے۔‘‘ سہیل عمر اقبال کے اس مفروضہ طور پر اختیارکردہ طریق کار کو ’’اصول تطبیق‘‘ کا نام دیتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ خطبات کے مباحث کو ڈاکٹر ظفرالحسن کی اسی رائے کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے یا دیکھا جانا چاہیے۔ کہتے ہیں، ’’ڈاکٹر ظفرالحسن صاحب کے تبصرے سے یہ واضح ہوا کہ علامہ کا اختیارکردہ منہاج علم اصول تطبیق سے عبارت ہے۔‘‘ (ص۲۱) مزید یہ کہ: ’’ہم یہ دیکھیں گے کہ اصول تطبیق کو مطمحِ نظر بنا کر اور مقولات مسلمہ کو بنیاد بنا کر علامہ نے یہ کام کیسے انجام دیا۔‘‘ (ص۳۷)
خطبات اقبال اپنے موضوع پر اتنا بنیادی نوعیت کا کام ہے اور اپنے محتاط اور کہیں کہیں پیچیدہ طرزِتحقیق و استدلال کے اعتبار سے اتنا عمیق کہ اسے مختلف زاویہ ہاے نگاہ سے پڑھا اور پرکھا جانا ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر ظفرالحسن کا اختیارکردہ زاویۂ نظر بلاشبہ خطبات کے مطالعے کا ایک جائزطریقہ ہے لیکن واحد یا اہم ترین یا دیگر تمام طریقوں کو کالعدم کر دینے والا طریقہ ہرگز نہیں۔ سہیل عمر نے اپنی تصنیف میں اسی زاویۂ نظر کو اختیار کیا ہے، جو بلاشبہ ان کا حق تھا، لیکن وہ اسے قولِ فیصل یا حرفِ آخر کے طور پر پیش کرتے معلوم ہوتے ہیں اور پڑھنے والے کے لیے اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ظفرالحسن نے یہ خطبۂ صدارت اقبال کی موجودگی میں دیا تھا۔ اگر اقبال نے اس موقعے پر یا بعد میں ان کے بیان کردہ زاویۂ نگاہ کی اپنے کسی بیان میں تائید کی ہو تو میں اس سے لاعلم ہوں۔ سہیل عمر نے بھی ایسا کوئی بیان پیش نہیں کیا جس سے اس کی بابت اقبال کی پسندیدگی یا ترجیح ظاہر ہوتی ہو۔ سہیل عمر کا کہنا ہے کہ اقبال نے ’’ اصول تطبیق کو مطمحِ نظر‘‘ اور ’’ مقولاتِ مسلمہ کو بنیاد‘‘ بنایا تھا، اور یہ دعویٰ دلیل یا شہادت کا محتاج ہے، جو فراہم نہیں کی گئی۔ اور جب اقبال کے اپنے بیانات اس زاویۂ نظر کی تردید کرتے دکھائی دیں تو اسے تسلیم کرنا اور بھی دشوار ہو جاتا ہے۔
اقبال ان خطبات میں کیا کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا بیان قطعی غیرمبہم ہے: وہ مغربی فلسفے کے نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں، نہ کہ اسلام کے نقطۂ نگاہ سے مغربی فلسفے کا۔ اور میری رائے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ ان کا یہ طریق کارمذکورہ اصول تطبیق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید مغربی تعلیم سے روشنی پایا ہوا ذہن (جو خود اقبال کا ذہن ہے اور ان کے مخاطبین کا بھی) مذہب اسلام کے حقائق کو کس طرح سمجھ سکتا ہے، اور کیا اس جدید ذہن میں مذہب کے لیے گنجائش موجود ہے۔ خطبات میں زیربحث آنے والے پیچیدہ سوالات سے نبردآزما ہو کر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مغربی فلسفے کی روشنی میں مذہب اسلام کو سمجھنا اور ماننا قطعی ممکن ہے۔ ان کا استدلال متعدد مقامات پر ’’پرانے تخیلات‘‘سے متصادم ہے، اور ایسا ہونا ناگزیر ہے، کیونکہ ان ’’پرانے تخیلات‘‘سے، ان کی ممکنہ خامیوں کے باعث،غیرمطمئن ہونے کے احساس ہی کے نتیجے میں اقبال کو حقائق اسلام کا جدید مغربی تعلیم کی روشنی میں مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
خود سہیل عمر بھی خطبات میں پیش کیے ہوے استدلال کا تجزیہ کرتے ہوے اسے متعدد مقامات پر مذہب کے روایتی تصور (بقولِ اقبال ’’پرانے تخیلات‘‘) سے مختلف یا متصادم پاتے ہیں۔ اس کا اظہار سہیل عمر کئی مختلف طریقوں سے کرتے ہیں، مثلاً: ’’مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبدأ سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔‘‘ (ص۸۷) ’’شعورِ مذہبی جو تقاضا رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان چونکہ قدرت مطلقہ نہیں رکھتا لہٰذا اس کا خالق قادر مطلق ہونا چاہیے۔ یہاں فکراستدلالی اور مذہبی شعور میں فرق واقع ہوتا ہے۔‘‘(ص۸۸-۸۹) ’’یہ نکتہ اﷲ کے علم پر ایک تحدید عائد کرتا ہے اور شعور مذہبی اسے قبول نہیں کر سکتا۔‘‘ (ص۹۱) ’’اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دعا کی معنویت اور جواز کا مندرجہ بالا بیان کس حد تک ہمیں اس تصور کے قریب لے جاتا ہے جو قرآن اور آثار نبوی سے ملتا ہے۔...اس ضمن میں پہلا فرق تو یہ نظر آتا ہے کہ اگرچہ عبادت و دعا کا دینی مفہوم بھی نتائجیت کا پہلو لیے ہوئے ہے تاہم اس کی عملی تاثیر اور نتائج اخروی نوعیت کے ہیں۔ علامہ نے نتائجیت کے پہلو پر زیادہ زور دیا ہے اور... [قرآن کے] نصوص سے عبادت کے مقصود کا جو تصور ابھرتا ہے [اسے] مصلحتاً اجاگر نہیں کیا۔‘‘ (ص۹۵) ’’...وحی کے بارے میں قرآن میں جو نصوص ملتی ہیں ان سے بھی وحی کے معروضی، موجود فی الخارج اور ماوراء طبیعی ہونے ہی کا مفہوم ملتا ہے۔ ان کے مقابلے میں علامہ کے الفاظ سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا حل اس صورت میں ممکن ہے کہ اسے سابقہ مقامات کی طرح سامعین کی رعایت کے لیے قریب الفہم اصطلاح کے استعمال سے تعبیر کیا جائے۔ ان کے سامعین حیاتیاتی علوم، سائنسی تصور اور جغرافیائی احوال سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کی اس ذہنی افتاد اور عملی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے مصلحت خطاب اور مصلحت تفہیم کی خاطر یہ اسلوب اختیار کیا گیا۔‘‘ (ص۱۳۸) ’’شعورِ مذہبی‘‘ کے علاوہ سہیل عمر کے بیان میں ان کے روایتی اور اقبال کے غیرروایتی نقطۂ نظر کا فرق جابجا’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘ جیسے لفظوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
یہی ’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘، نیز ’’شعورمذہبی‘‘ سے اختلاف یا تصادم وغیرہ کے ذہنی مسائل ہیں جن کے سبب مثلاً احمد جاوید، نائب ناظم اقبال اکیڈمی، کو اقبال کے بعض بیانات نقل کرتے وقت ’’نعوذباﷲ‘‘ کہنا پڑتا ہے (موصوف کے کمالات کا قدرے تفصیلی ذکر آنے کو ہے)، اور انھی مسائل کا اظہار روایتی تصورِمذہب کے حامل علما نے اقبال کی زندگی میں اور مابعد اپنی برافروختگی اور فتویٰ پردازی کی شکل میں کیا۔ ’’جریدہ‘‘ کے شمارہ ۳۳ میں خطبات اقبال پر جو تبصرے ڈاکٹر غلام محمد کی زبانی روایت کی سند پر علامہ ندوی سے منسوب کیے گئے، ان میں بھی یہی باتیں زیادہ غیرمصلحت بیں اور دوٹوک انداز سے کہی گئی ہیں۔ خرم علی شفیق نے اپنے مضمون میں واضح کیا ہے کہ اس قسم کے قدامت پرست ردعمل نے اقبال کو آخر تک تشویش میں مبتلا نہیں کیا اور وہ کسی بھی موقعے پر خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہوے تھے۔ سہیل عمر چونکہ ان حضرات کے برخلاف، بوجوہ، اقبال کے خیالات کی بابت نسبتاً نرم رویہ رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے تاویل کی یہ انوکھی راہ نکالی کہ اقبال کو اپنے بیان کردہ طرزِاستدلال سے پیدا ہونے والے ’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘ وغیرہ کا بخوبی احساس تھا، لیکن مصلحتِ وقت کے تقاضے اور مخاطبین کے ذہنی مسائل کے لحاظ نے انھیں یہ طرزِاستدلال اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ سہیل عمر کی نیک نیتی اور تاویل کا انوکھاپن اپنی جگہ، لیکن کسی دلیل کی غیرموجودگی میں اسے تسلیم کرنا ممکن نہیں۔
۵
آئیے خطبات میں اظہار پانے والے اقبال کے نقطۂ نظر کے بعض ایسے نکتوں پر نظر ڈالیں جن سے سہیل عمر متفق نہیں ہیں اور جو ’’جریدہ‘‘ میں شائع کیے جانے والے ان اعتراضات کا بھی ہدف بنے ہیں جن کو علامہ ندوی سے منسوب کیا گیا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ان نکات پر کم و بیش ایک ہی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں، فرق ہے تو بس جذبے کی شدت اور لفظوں کے انتخاب کا۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں سہیل عمر کی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ سے نقل کر رہا ہوں اور ہر انگریزی اقتباس کے آخر میں دیا گیا صفحہ نمبر بھی اسی کتاب سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے انگریزی عبارت کو اردو ترجمے پر ترجیح دی ہے کیونکہ میں نے اردو ترجمے کو بیشتر جگہوں پر اقبال کے انگریزی متن کے مقابلے میں گنجلک، اور بعض مقامات پر ناقص پایا۔ ہر اقتباس کے بعد سہیل عمر کا تبصرہ درج کیا گیا ہے جس میں انھوں نے اقبال کے نقطۂ نظر کی بابت اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں:
Religious experience, I have tried to maintain, is essentially a state of feeling with a cognitive aspect, the contents of which cannot be communicated to others, except in the form of a judgement. Now when a judgement which claims to be the interpretation of a certain region of human experience, not accessible to me, is placed before me for my assent, I am entitled to ask, what is the guarantee of its truth? Are we in possession of a test which would reveal its validity.... Happily we are in possession of tests which do not differ from those applicable to other forms of knowledge. These I call the intellectual test and the pragmatic test. By the intellectual test I mean critical interpretation, without any presuppositions of human experience, generally with a view to discover whether our interpretation leads us ultimately to a reality of the same character as is revealed by religious experience.... In the lecture that follows, I will aply the intellectual test. (p-54-55)
سہیل عمر: ’’سطوربالا میں مذکور امتحان اول کو اس طرح کے وجدان کے لیے قبول کیا جا سکتا ہے جسے ہم نے Psychic تجربات سے منسوب کیا تھا۔ لیکن اس امتحان کو اس ذات کے مشاہدے پر کیونکر لاگو کیا جا سکتا ہے جو ہرتجربے اور واردات سے بالا ہے۔ نیز اگر اس کسوٹی، اس آزمائش کو مشاہدۂ حق کا معیار مان لیا جائے تو Mystic اس وحی قرآنی پر ایمان کی ضرورت سے مستغنی ہو جائے گا جو آنحضرت پر نازل ہوئی کیونکہ اس پیمانے پر تو وہ براہ راست علم حق حاصل کرنے کی استعداد کا حامل قرار پائے گا۔‘‘ (ص۵۵)
The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was: “God! Grant me knowledge of the ultimate nature of things.” (p-48)
سہیل عمر: ’’اس دعا کی معنویت پر ہمیں ذرا غور کرنا ہو گا۔ نیز یہ بھی غور کرنا ہو گا کہ نبی علیہ السلام کے عمیق ترین ایقان اور ایک عام آدمی کے ایمان کے مابین کیا فرق ہے: عام آدمی جو حصول یقین کی خاطراپنے ایمان کی عقلی بنیادیں تلاش کر رہا ہو۔ نیز یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کسی عقیدے کی عقلی بنیادوں کی تلاش کسی معاشرے میں کب جنم لیتی ہے۔ (ص۴۸-۴۹)
Plato despised sense perception which, in his view, yielded mere opinion and no real knowledge. How unlike the Qur’an, which regards hearing and sight as the most valuable Divine gifts and declares them to be accountable to God for their activity in this world. (p-50)
اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے: ادراک بالحواس کے بارے میں افلاطون کا خیال قرآن سے متصادم ہے۔ سہیل عمر کا خیال ہے کہ افلاطون کا قول قرآن سے متصادم نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں:
He [Ghazali] failed to see that thought and intuition are organically related… (p-51)
سہیل عمراس نکتے پر اقبال سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزالی کے مطابق ’’وجدان بہ اعتبار کیفیت و نوعیت فکر سے مختلف نہیں ہے۔ فکر اپنے درجۂ کمال کو پہنچ کر وجدان میں ڈھل جاتی ہے۔‘‘ (ص۵۱)
The heart is a kind of inner intuition or insight which, in the beautiful words of Rumi, feeds on the rays of the sun and brings us into contact with aspects of Reality other than those open to sense perception. It is, according to the Qur’an, something which sees; and its reports, if properly interpreted, are never false…. To describe it as psychic, mystical or supernatural does not detract from its value as experience. (p-53)
سہیل عمرکا خیال یہاں بھی اقبال سے مختلف ہے۔’’قرآن میں ’فواد‘ یا ’قلب‘ کا لفظ بہت سی جگہ آیا ہے۔معانی کے کئی رنگ اس سے متعلق ہیں مگر ہماری سمجھ کے مطابق کہیں بھی اسے حقیقت اولیٰ کا علم حاصل کرنے والی ایسی استعداد کے معنی میں نہیں لایا گیا جو اس عمل میں کوئی فاعلی حیثیت رکھتی ہو۔‘‘ (ص۵۳)
The problem of Christian mysticism alluded to by Professor James has been in fact the problem of all mysticism. The demon in his malice does counterfeit experiences wich creep into the circuit of the mystic state. As we read in the Qur’an: "We have not sent any Apostle or Prophet before thee among whose desires Satan injected not some wrong desire, but God shall bring to naught that which Satan has suggested. Thus shall God affirm His revelation, for God is Knowing and Wise." (22:25) (p-57)
سہیل عمرکہتے ہیں: ’’اس استدلال پر کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ نذیر نیازی صاحب نے اپنے ترجمے کے حاشیے میں صاف لکھا ہے کہ ان کے خیال میں آیت مذکورہ بالا اس جگہ منطبق نہیں ہوتی۔‘‘ (ص۵۸) (نذیر نیازی کا خیال اپنی جگہ، لیکن کیا یہ اقبال کے ردمیں کافی دلیل ہے جن کا واضح طور پر یہ کہنا ہے کہ یہ آیت اس جگہ منطبق ہوتی ہے؟ اس سے تو بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا موقف نذیر نیازی اور سہیل عمر سے مختلف ہے۔)
All I mean to say is that the immediacy of our experience in the mystic state is not without a parallel. It has some sort of resemblance to our normal experience and probably belongs to the same category. (p-62)
The interpretation that the mystic or the prophet puts on the content of his religious consciousness can be conveyed to others in the form of propositions, but the content itself cannot be so transmitted…(p-63)
The incommunicability of mystic experience is due to the fact that it is essentially a matter of inarticulate feeling, untouched by discursive intellect. (p-63)
Inarticulate feeling seeks to fulfil its destiny in idea, which, in its turn, tends to develop… out of itself its own visible garment. (p-64)
سہیل عمر: ’’اگر اس خصوصیت پر زور دیا جائے تو وحی اور الہام کے درمیان امتیاز کی دیوار ڈھے جائے گی کیونکہ علامہ کے الفاظ میں ہر دو صورتوں میں تجربے کے حاصلات اور مافیہ کو منتقل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی فکری تعبیر بصورت منطقی قضایا کا ابلاغ کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ وحی نبوی کے الفاظ ربانی نہیں ہوتے بلکہ نبی کے اپنے ہوتے ہیں اور قرآن کے الفاظ براہ راست منزل من اﷲ نہیں ہیں۔‘‘ (ص۶۴)
The infinity of the Ultimate Ego consists in the infinite inner possibilities of His creative activity of which the universe ‘as known to us’ is only a partial expression. (p-85)
From the Ultimate Ego only egos proceed…. Every atom of Divine energy, however low in the scale of esixtence, is an ego. (p-87)
سہیل عمرکہتے ہیں: ’’یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ظہورذات کا یہ عمل اس عمل خوددمیدگی سے کس طرح مختلف ہے جو اقلیم نامیات یا نموپذیر اشیا میں سامنے آتا ہے نیز یہ کہ اگر انائے مطلق کا ظہورپذیر ہونا اس کے عمل تخلیق کے مترادف ہے تو صفحۂ ہستی پر ظاہر ہونے والی ہر شے کا مبداء اور اصل اس انائے مطلق کی فطرت ہی ہو گا۔ اگر ہر انا ربانی اور قدسی ہے تو اس کا فعالیت کا ہر معلوم بھی ربانی اور قدسی صفت ہو گا: لیکن امرواقعہ یوں نہیں ہے۔ دوسری طرح دیکھئے تو صفحۂ ہستی پر صرف مظاہرخیر ہی نہیں بلکہ شر اور شیطان کے آثار بھی موجود ہیں۔ مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبداء سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔‘‘(ص۸۷)
No doubt, the emergence of egos endowed with power of spontaneous and hence unforeseeable action is, in a sense, a limitation on the freedom of the all-inclusive Ego. But the limitation is not externally imposed. It is born out of His own creative freedom whereby He has chosen finite egos to be participators of His life, power and freedom. (p-89)
سہیل عمر: ’’مگر اختیار یا آزادی مقولات مذہبی میں سے ایک ہے اور انسان کے اخلاقی اور مذہبی شعور کا جزو ہے اگر اس کو بے ساختہ اور ازخود فعلیت کا ہم معنی قرار دیا جائے تو اس کی معنویت جاتی رہے گی اس اعتبار سے تو پودے بھی جزواً آزاد اور جانور پوری طرح آزاد ہیں کیونکہ وہ کسی خارجی دباؤ کے تحت حرکت نہیں کرتے بلکہ اندرونی داعیے سے متحرک ہوتے ہیں۔‘‘(ص۸۹)
The spirit of all true prayer is social. (p-94)
The Islamic form of association in prayer, therefore, besides its cognitive value, is further indicative of the aspiration to realize this essential unity of mankind as a fact in life by demolishing all barriers which stand between man and man. (p-95)
سہیل عمر: ’’عبادت کی معنویت اس کی فی نفسہٖ اور بالذات قدروقیمت سے متعین ہونا چاہیے نہ کہ ان سماجی، نفسیاتی اور عملی نتائج سے جو اس کے ذیلی ضمنی اثرات تو شمار ہو سکتے ہیں مگر اس کا جواز وجود قرار نہیں دیئے جا سکتے۔‘‘(ص۹۵)
A colony of egos of a lower order out of which emerges the ego of a higher order, when their association and interaction reach a certain degree of co-ordination. It is the world reaching the point of self-guidance wherein the Ultimate Reality, perhaps, reveals its secret, and furnishes a clue to its ultimate nature. (p-102)
The Ultimate Ego that makes the emergent emerge is immanent in Nature. (p-102)
سہیل عمر: ’’تخلیق کا تصور جو مذہب کا ایک جزو ہے وہ یہاں پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ ارتقائے صدوری Emergent Evolution کو مل جاتی ہے۔ شعور مذہبی کے لیے آفرینش کا یہ نظریہ بہت وحشت انگیز ہے کیونکہ اس میں پہلا خطرہ تو یہ ہے کہ اس سے انسان اور خدا کی غیریت اور دوئی مٹتی معلوم ہوتی ہے نیز تنزیہ پر زد پڑتی ہے ۔پھر یہ کہ شر اور خیر ایک کل کا جزو دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی قبول کرنا مشکل ہے۔ سوم یہ کہ یہاں غیرنامیاتی اور غیرذی حیاتinorganic سطح وجود سے انکار نظر آتا ہے جو امرواقعہ کے خلاف ہے۔‘‘(ص۱۰۲)
A prophet may be defined as a type of mystic consciousness in which unitary experience tends to overflow its boundaries… (p-115) (p-117)
Another way of judging the value of a prophet’s religious experience, therefore, would be to examine the type of manhood that he has created, and the cultural world that has sprung out of the spirit of his message. (p-116)
سہیل عمر: ’’یہاں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ اس استدلال کے منطقی نتیجے میں ولایت اور نبوت کا فرق اپنی اساس میں باقی نہیں رہتا۔...مسئلہ یوں اٹھتا ہے کہ نبوت کو اختباریت کی کسوٹی پر پرکھنا ایک مناسب بات ہو گی یا نہیں؟‘‘(ص۱۰۲) ’’اس عبارت میںنبی اور نبوت کے تصور کی تفہیم کے لیے اس کو نابغہ کی تشبیہ سے سمجھانے کی سعی کی گئی ہے۔ اس لیے یہ مشکل پیدا ہوتی ہے بظاہر یہ تصورخدا سے منقطع لگتا ہے اور سماجی مصلح یا تخلیقی فنکار سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتا ہے اور اسے خدا کے حوالے کے بغیر بھی کائنات کے لیے استعمال کرنا ممکن ہے۔‘‘ (ص۱۱۷)
The way in which the word wahy (inspiration) is used in the Qur’an shows that the Qur’an regards it as a universal property of life; though its nature and character are different stages of the evolution of life. (p-117)
سہیل عمر: ’’اس عبارت سے پہلا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم یہ لیا جا سکتا ہے کہ وحی فوق الطبیعی اور عالم غیب کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک کاملاً طبعی مظہر ہے۔...ایک اصطلاح شرعی جو شعورمذہبی کا لازمہ ہے اور معروضی حقیقت کے طور پر مذہب کے امرواقعہ ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ سابقہ صفحات میں بیان کردہ تصور وحی کا اس تصور سے منطبق ہونا مشکل نظر آتا ہے۔‘‘ (ص۱۱۸)
The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Qur’an and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality. (p-119) (p-121)
سہیل عمر: ’’...حکومت کو وراثت سے مشروط کسی بھی دین اور تمدن نے تسلیم نہیں کیا۔ البتہ موروثی شہنشاہیت کو یکے از امکانات کے طور پر قبول کیا ہے یا پھر مظاہرزوال میں اس نے غلبہ کر لیا ہے۔ خود اسلام کی تاریخ میں جو ایک طویل سلسلہ ملوکیت نظر آتا ہے وہ اسی امکان کا وقوع درتاریخ ہے۔ اسے رد کرنے سے ہمیں اپنی تاریخ کو رد کرنا ہو گا اور اس سے ان گنت مسائل پیدا ہو جائیں گے۔‘‘ (ص۱۲۲-۱۲۳) لفظ ’’ملوکیت‘‘ کے استعمال کی وضاحت کے طور پر حاشیے میں کہتے ہیں: ’’یہ لفظ بعض مصنفین کی تحریروں میں ایک منفی اور تحقیری مفہوم کا حامل بن کر ابھرا ہے۔ ہم اسے اس کے لغوی معنی میں برت رہے ہیں اور اس سے صرف ایک طرزحکمرانی کی شناخت مقصود جانتے ہیں جو اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔‘‘ (ص۱۳۱)
The world-life intuitively sees its own needs, and at critical moments defines its own direction. This is what, in the language of religion, we call prophetic revelation. It is only natural that Islam should have flashed across the consciousness of a simple people untouched by any of the ancient cultures, and occupying a geographical position where three continents meet together. (p-135)
سہیل عمر: ’’اس اقتباس میں جو لفظ World Life استعمال کیا گیا ہے ...یہ اصطلاح ایک الٰہ شخصی پر ایمان کو مستلزم نہیں ہے۔ اس میں ایک طبیعی تصور کی جھلک ملتی ہے جس سے مذہب مظاہر طبیعی میں سے ایک چیز معلوم ہونے لگتا ہے اور عام انسانی تجربے کی سطح پر آ کر حیاتیاتی تصورات کے قبیل میں سے محسوس ہونے لگتا ہے۔‘‘ (ص۱۳۶)
وغیرہ۔
۶
اقبال خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے جزوی یا کلی طور پر رجوع کرنے پر آمادہ تھے یا نہیں، یہ بحث بہت سے لوگوں نے مختلف موقعوں پر اٹھائی ہے۔ پروفیسر مرزا منور کی رائے خود سہیل عمر نے (تائید اور تحسین کے انداز میں) درج کی ہے کہ ’’علامہ کی سوچ ۱۹۲۹ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔ ’فکراقبال تشکیل جدید کے بعد‘ ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔‘‘ یہ مستقل کتاب تو میری معلومات کے مطابق اب تک نہیں لکھی گئی،اس لیے اس کے مفروضہ نتائج کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ممکن نہیں، البتہ خرّم علی شفیق کے مضمون میں اس موضوع پر خاصی بحث ملتی ہے جس کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اقبال کی فکر ترقی پا کر مرزا منور ، خالد جامعی وغیرہم کی سطح تک نہیں پہنچی تھی (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی ترقی کو اصطلاحاً ’’ترقیِ معکوس‘‘ کہا جاتا ہے) اور ان کے خیالات آخردم تک وہی رہے جو انھوں نے خطبات میں بیان کیے تھے۔ اس مضمون کے جز ۴ میں شاہ ولی ﷲ کی ’’حجتہ ﷲ البالغہ‘‘ کے اس اقتباس کے معاملے کا تجزیہ کیا گیا ہے جو اقبال نے اپنے خطبۂ اجتہاد میں پیش کیا تھا۔ ’’جریدہ‘‘ میں علامہ ندوی سے منسوب تبصروں میں اس معاملے کا جو ذکر آتا ہے ، اسے خرم علی شفیق نے ’’رجوع کی ایک اور فینٹسی‘‘ کے تبصرے کے ساتھ یوں نقل کیا ہے:
’’شاہ ولی اﷲ کے نام سے غلط حوالہ پیش کرنا ایک ایسے خطبے میں جسے علما کی نظر سے گزرنا تھا بڑی جرأت کی بات تھی۔ ماجد صاحب نے اس غلطی کو بھی واضح کیا تھا لیکن مرحوم پر یہ غلطی اس وقت واضح نہ ہو سکی۔ جب اقبال مرحوم پر یہ بات واضح ہو گئی کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہوئی اور امت کے اجماع کے برعکس رائے دی گئی ہے اور دلیل بھی محرف ہے تو وہ دل گرفتہ ہوئے۔ مجھ سے خط و کتابت کے ذریعے استفسار کیا۔دوسرے علما سے بھی رجوع کیا۔ خطبات پر نظرثانی کا وعدہ کر لیا لیکن مہلت نہ ملی۔اقبال مرحوم کے مسودات میں نظرثانی شدہ عبارتیں مل سکتی ہیں۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴، صفحہ۳۶)
خرم علی شفیق کہتے ہیں کہ اس موضوع پر علامہ ندوی سے اقبال کی مراسلت میں اس ’’دل گرفتگی‘‘ کا کوئی شائبہ نہیں ملتا، بلکہ ’’پہلے اجتہاد پر خطبہ دیا تھا، اب پوری کتاب لکھنے کا ارادہ ہے، اور یہ وفات سے صرف بیس مہینے قبل کی بات ہے۔... وہ نظرثانی کا وعدہ کب کیا؟ خطبات کے مباحث سے اقبال کا رجوع ایک ...فینٹسی ہے...‘‘ (ص ۳۷)
عجب اتفاق ہے کہ سہیل عمر کی کتاب کے آخر میں ضمیمہ ۳ کے طور پر شامل ان کے مضمون ’’سزا یا ناسزا‘‘ میں اقبال کے اسی خطبے میں شاہ ولی ﷲ سے منسوب اسی اقتباس کا کم و بیش اسی انداز میں ذکر آیا ہے جس انداز میں علامہ ندوی سے منسوب مندرجہ بالا تبصرے میں۔ (فرق صرف اتنا ہے کہ جس شے کو مندرجہ بالا اقتباس میں ’’دل گرفتگی‘‘ کہا گیا اسے سہیل عمر اقبال کے ’’تحیر‘‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ باقی مضمون واحد ہے۔) دونوں کی اطلاع یہ ہے کہ اقبال نے مذکورہ اقتباس شبلی کی ’’الکلام‘‘ سے لیا تھا۔ سہیل عمربتاتے ہیں کہ ’’شبلی نے جو عبارت الکلام میں درج کی اور جسے علامہ نے اپنے استدلال کے لیے شبلی کے بھروسے پر بنیاد بنایا اس میں اور شاہ ولی ﷲ کی اصل عبارت میں اختلاف ہے۔‘‘ (ص۲۰۱)
آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ اقبال نے شاہ ولی ﷲ کی اس عبارت کو اپنے خطبے میں کس طرح استعمال کیا ہے۔ موضوع زیربحث یہ ہے کہ مذہبی روایات (احادیث) کے کون سے حصوں کا تعلق قانونی معاملات سے ہے اور کن کا قانون کے سوا دیگر معاملات سے۔ قانون سے متعلق روایات میں سے بعض ایسی ہیں جو قبل از اسلام زمانے میں عرب میں مروج تھیں اور جنھیں جوں کا توں اسلامی روایت میں شامل کر لیا گیا۔ اقبال شاہ ولی ﷲ کی عبارت کا اپنے الفاظ میں خلاصہ پیش کر کے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جرائم کی سزاؤں سے متعلق روایات کو، جو عرب قوم کی عادات اور حالات کے مطابق تھیں، جوں کا توں اختیار یا نافذ کیا جانا مناسب نہیں۔
سہیل عمر کہتے ہیں کہ اقبال نے شاہ ولی ﷲ کی مذکورہ عبارت کو ’’اپنے استدلال کے لیے...بنیاد بنایا۔‘‘ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ شاہ ولی ﷲ کا ذکر آنے سے پہلے کے جملوں میں وہ اپنا یہ نقطۂ نظر بیان کر چکے ہیں کہ دونوں قسم کی روایات میں فرق کیا جانا ضروری ہے، یعنی دونوں قسم کی روایات کو نافذ یا اختیار کرنے میں ایک جیسی سختی مناسب نہیں۔ شاہ ولی ﷲ کی عبارت کو اقبال نے دلیل کے طور پر نہیں بلکہ اپنے نقطۂ نظر کی ایک "illuminating" وضاحت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خطبات میں کسی بھی جگہ کسی اسلامی یا مغربی شخصیت کے قول کو دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اقبال نے ہر قول کواپنی دانش کے مطابق پرکھ کر یہ طے کیا ہے کہ وہ اس سے کس حد تک اتفاق یا اختلاف رکھتے ہیں ۔شاہ ولی ﷲ کے قول کو دلیل کے طور پر استعمال کرنا، خود سہیل عمر کے مذکورہ بالا مفروضات کی رو سے بھی، ناموزوں معلوم ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیے، اقبال جن لوگوں سے مخاطب ہیں وہ آپ کے خیال کے مطابق ’’وحی کے وجود یا اس کے ممکن ہونے کے بارے میں ہی متشکک‘‘ (ص۱۸۳) ہیں، اور قرآنی نصوص تک کو کوئی اہمیت نہیں دیتے؛ پھر بھلاشاہ ولی ﷲ کا قول ان کے لیے استدلال کی بنیاد کیونکر بن سکتا ہے؟ شاہ ولی اﷲ سے منسوب عبارت کا خلاصہ اقبال نے اس بنا پر اپنے خطبے میں استعمال کیا ہے کہ وہ ان کے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ خرم علی شفیق نے علامہ ندوی کے نام اقبال کے ۷ اگست ۱۹۳۶ء کے خط کا حوالہ دیا ہے جس میں اقبال انگریزی زبان میں ایک کتاب تحریر کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے کہتے ہیں: ’’اس کتاب میں زیادہ تر قوانینِ اسلام پر بحث ہو گی کہ اس وقت اسی کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ اگراقبال کا موقف اسلام میں شامل قانونی روایات کو (یعنی مثلاًان سزاؤں کو جنھیں ہمارے یہاں بعض لوگ غلط فہمی میں ’’اسلامی سزائیں’’ یا ’’شرعی سزائیں‘‘ کہتے ہیں) جوں کا توں نافذ کرنے کے حق میں ہوتا تو یہ موقف تو ’’پرانے تخیلات‘‘ میں پوری وضاحت سے بیان کردہ موجود ہی تھا، اس پر بحث کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی؟ صاف ظاہر ہے کہ اقبال کا موقف یہ تھا کہ ان سزاؤں کا تعلق عرب کی قبل از اسلام روایات سے تھا جنھیں، اس ’’خاص قوم کی عادات اور حالات کی بنا پر‘‘، اسلامی روایات میں قائم رکھا گیا تھا اور دیگر قوموں اور دیگر حالات میں ان کو جوں کا توں نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اور خرم علی شفیق کی بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال نے اپنے اس موقف میں آخر تک ترمیم نہ کی۔ (اقبال کے علاوہ شبلی بھی اسی رائے کے معلوم ہوتے ہیں۔) سہیل عمر کا موقف اقبال سے متضاد ہے، جیساکہ خطبات کے دیگر متعدد مقامات پر ہے، جو کوئی عجیب بات نہیں۔
پاکستان میں یہ بحث نئے سرے سے اس وقت شروع ہوئی جب جنرل ضیاء الحق کے دوراقتدار میں، جسے پاکستانی عوام کی بہت بڑی تعداد (ایک موقف کے مطابق اکثریت) غاصبانہ آمریت کا دور سمجھتی ہے، وہ عمل شروع کیا گیا جسے اسلامائزیشن کانام دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں ان سزاؤں کا نفاذ بھی شامل تھا، جوایک غیرنمائندہ اور غیرمنتخب اقتدار کے زور پر، کسی مذہبی، آئینی یا اخلاقی اختیار کے بغیر کی گئی قانون سازی تھی، جسے بہت سے لوگ مذہب کی ایک مخصوص تعبیر کو پاکستانی عوام پر ان کی مرضی کے خلاف، یا کم از کم ان کی آزادانہ مرضی معلوم کیے بغیر، زبردستی مسلط کرنے کا عمل سمجھتے ہیں۔ ان قوانین سے پاکستان کے عوام کی بہت بڑی تعداد (یا اکثریت) سخت اختلاف رکھتی ہے اور ان کو منسوخ کرنے کے حق میں ہے۔ جدید دور میں اجتہاد کے پوری طرح اہل مجتہد کے طور پر اقبال کا موقف بھی اس موجودہ عوامی موقف کی واضح طور پر تائید کرتا ہے۔ سہیل عمر اور ان کے ہم خیال حضرات کو اس کے مخالف موقف پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے، لیکن انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے موقف کو متفق علیہ قرار دیں جبکہ دوسرے موقف کی موجودگی اور جمہورامت کی اس کے لیے حمایت کسی ابہام کے بغیر عیاں ہے، اور یہ حق بھی حاصل نہیں کہ تاویل کے ذریعے سے اقبال کو اپنے موقف کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کریں جبکہ اقبال نے اپنے خطبے میں اپنا موقف کسی ابہام کے شائبے کے بغیر بیان کر دیا ہے۔ سہیل عمر کا کہنا ہے:
’’شاہ صاحب کے پورے فکری تناظر میں یہ سوال تو اٹھایا ہی نہیں جا سکتا کہ آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اور اقوام و ملل کی رنگارنگی اور تنوع کے روبرو اسلام کی شرعی سزاؤں کو باقی رکھا جائے یا تبدیل کر دیا جائے؟ یہ سوال ہمارے اقبال شناسی کے حلقوں کا ہو تو ہو، شاہ صاحب کا نہیں ہے۔‘‘ (۲۱۲)
دیانت داری کا تقاضا یہ تھا کہ سہیل عمر اقبال شناسوں کے ساتھ اقبال کو بھی شامل کرتے، کیونکہ یہ سوال ان کا بھی ہے۔ اور اس سوال پر غور کرنے کے بعد اقبال اس غیرمبہم نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان سزاؤں کو نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہ سوال شاہ ولی ﷲ کا ہے یا نہیں، اس نکتے کا تعلق مذکورہ عبارت کے انتساب سے ہے۔ سہیل عمر کے خیال میں اقبال کی بیان کردہ عبارت کو شاہ ولی ﷲ سے منسوب کرنا درست نہیں۔ لیکن یہ بھی متفق علیہ موقف نہیں۔ جن اہلِ رائے حضرات سے سہیل عمر نے اس سلسلے میں استصواب کیا، ان میں سے کئی ایک نے دستیاب شہادتوں کی روشنی میں یہ رائے دی کہ شبلی نے شاہ ولی ﷲ کے موقف کی جو ترجمانی کی ہے وہ درست ہے اور اقبال نے اگر شبلی کی تعبیر کو اختیار کیا ہے تو ٹھیک کیا ہے۔ سہیل عمر کا کہنا ہے کہ شاہ ولی ﷲ کے فکری تناظر میں یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا؛ بعض دوسرے اہل علم حضرات کا کہنا ہے کہ شاہ ولی ﷲ کا مقصودِ کلام وہی ہے جو شبلی اور اقبال نے بیان کیا۔
بحث کے تیسرے نکتے کے طور پر اپنے مضمون میں سہیل عمر اس بات کے حق میں بحث کرتے ہیں کہ اقبال شاہ ولی ﷲ سے اس عبارت کے انتساب سے مطمئن نہیں تھے اور اپنے خطبے پر نظرثانی کرنا چاہتے تھے، لیکن ’’علامہ کی حیات نے اس خطبے کے ترجمے کی نظرثانی یا اصل متن کی نظرثانی شدہ اشاعت مکرر تک وفا نہ کی۔‘‘ (ص۲۱۶) تو سہیل عمر صاحب، خالد جامعی نے آپ سے یہی بیان تو منسوب کیا تھا؛ اس میں ان کی کیا غلطی ہے؟
بہرکیف، اقبال نے ممکن ہے خطبے کا متن تیار کرتے وقت شاہ ولی ﷲ کی کتاب کا اقتباس شبلی کی ’’الکلام‘‘ سے لیا ہو ، لیکن بعد میں (خرم علی شفیق کی تحقیق کے مطابق ۱۹۲۹ء میں) انھوں نے علامہ ندوی کے نام خط میں لکھا تھا کہ ’’شاہ ولی ﷲ کی کتاب بھی نظر سے گزر گئی ہے۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴، ص۳۶)
سہیل عمر مزید کہتے ہیں: ’’علامہ اقبال کا وہ خطبہ جس میں یہ عبارت وارد ہوتی ہے اپنی اولین شکل میں ۱۹۲۴ء کے لگ بھگ تصنیف ہوا۔ موجودہ شکل میں ۱۹۲۸ء میں تیار کیا گیا۔‘‘ (’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘،ص۲۱۶) ’’بہرکیف ۱۹۲۸ء تک کی تحقیقات اور مجموعۂ معلومات کی بنیاد پر جو نتائج فکر مرتب ہوئے انہیں علامہ نے لکھ دیا اور دیگر خطبات کے ہمراہ یہ خطبہ بھی حیدرآباد اور بعد ازاں علی گڑھ میں پیش کیا گیا۔ پھر یہ خطبات طباعت کے مرحلے سے بھی گذر گئے۔‘‘ (ص۲۱۸) ’’گزر گئے‘‘ یوں تو بات کہنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن اس سے گمان ہوتا ہے کہ خطبات طباعت کے مرحلے سے (غالباً اپنے اندرونی داعیے پر) یوں گزر گئے جیسے ’’احیائے علوم‘‘ اس مرحلے سے دبے پاؤں گزر جاتا ہے اور مدیر کو کانوں کان خبر نہیں ہونے پاتی! یا یہ کہ خطبات کا متن اقبال کے علم، مرضی یا اجازت کے بغیر شائع کر دیا گیا تھا۔ تاہم، دستیاب شہادتوں سے ایسا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہی نہیں، بلکہ خرم علی شفیق نے اطلاع دی ہے کہ ۱۹۳۴ء میں خطبات کا بین الاقوامی ایڈیشن اقبال کی نہ صرف مرضی سے بلکہ ان کی نگرانی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد اس قیاس آرائی (خرم علی شفیق کے الفاظ میں ’’فینٹسی’’) کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ اقبال اس عبارت کے انتساب سے مطمئن نہیں تھے اور اس پر، یا اس موضوع کے بارے میں اپنے موقف پر، نظرثانی کرنا چاہتے تھے۔
۷
’’خطبات اقبال‘‘ پر علامہ ندوی سے منسوب تبصروں پر اقبال اکیڈمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے بھی اظہارخیال فرمایا ہے۔ اس اظہارخیال کی ترکیبِ استعمال کو ان سے منسوب مضمون کے آخری پیراگراف میں یوں بیان کیا گیا ہے:
’’ان امالی کے بنیادی اعتراضات پر جو تبصرے کیے گئے ہیں وہ بھی فی البدیہہ ہیں انہیں اسی طرح سے پڑھنا چاہیے۔ جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جائے۔ باقاعدہ تحقیقی جواب لکھنے کے لیے وقت بھی زیادہ چاہیے تھا اور تحریر میں طوالت بھی پیدا ہو جاتی اس لیے اس کی نوبت نہیں آئی ۔ ویسے بھی یہ اعتراضات علمی انداز میں نہیں کیے گئے۔ ان پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب تھا۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘،شمارہ ۱۴، صفحہ۲۶)
نائب ناظم موصوف کی ابتدائی وجہِ شہرت چند برس پیشتر کی وہ گفتگو تھی جو انھوں نے اپنے دو عدد مرعوب مداحوں، آصف فرخی اور قیصرعالم، کے ساتھ فرمائی تھی اور جس کا موضوع تینوں محوگفتگو حضرات کے سابق پیرومرشد محمد حسن عسکری کے کمالات تھے۔ (اس گفتگو کے غیرمدون متن کو الٰہ آباد کے مرحوم رسالے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیا گیا تھا، لیکن جب اس گفتگو کے غیرمہذب لہجے اور اوٹ پٹانگ نفسِ مضمون پر دو غیرمرعوب نقادوں مبین مرزا اور صابر وسیم نے سختی سے گرفت کی تو اس متن کو پاکستان میں شائع کرانے کا ارادہ مصلحتاً ٹال دیا گیا۔ اس گفتگو کو پاکستان میں اب تک شائع نہیں کرایا گیا ہے۔) معلوم ہوتا ہے بےتکان زبانی گفتگو نے احمد جاوید کے اظہارِ ذات کے اصل اسلوب کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اقبال اکیڈمی کے جریدے ’’اقبالیات‘‘ میں احمد جاوید کے ملفوظات شائع کیے جاتے ہیں۔ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں یہ ملفوظات ’’اقبال–تصورزمان ومکاں پر ایک گفتگو‘‘ کے عنوان سے شامل ہیں اور ان کے ’’ضبط و ترتیب‘‘ کا سہرا کسی طارق اقبال کے سر باندھا گیا ہے جو یا تو اکیڈمی میں نائب ناظم کے ماتحت ہونے کی وجہ سے بندگی بیچارگی کے شکار ہوں گے یا پھر موصوف کے مریدوں میں شامل ہوں گے، جن کی تعداد میں اس وقت سے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جب سے انھوں نے ٹیلی وژن کے ایک تجارتی چینل پر وعظ فروشی کا دلچسپ مشغلہ اختیار کیا ہے۔ (یہ مشغلہ علمائے حق کے اس واضح فیصلے کے باوجود اختیار کیا گیا ہے کہ ٹیلی وژن دیکھنا اور اس پر جلوہ افروز ہونا قطعی حرام ہے، اور اس مشغلے سے ہونے والی آمدنی رزقِ حرام کی تعریف میں آتی ہے۔ حوالے کے لیے ملاحظہ کیجیے مولانا یوسف لدھیانوی کی تصنیف ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل۔‘‘) قدرت اﷲ شہاب کے مبینہ خلیفہ اشفاق احمد کے گزر جانے کے بعد ٹیلی وژن کے مہااُپدیشک کی یہ پُول (slot) خالی پڑی تھی، جس میں نائب ناظم نے خود کو بخوبی دھانس لیا (جاے خالی را دیو می گیرد) تاکہ انٹرٹینمنٹ کے رسیا ناظرین کی لذت اندوزی کے تسلسل میں خلل نہ پڑے۔ ان مواعظ کے درمیان واقع ہونے والے تجارتی وقفوں میں ناظرین کو دیگر فروختنی اشیا خریدنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے۔ خیر، جب انٹرٹینر اور انٹرٹینڈ دونوں فریق اس سودے سے خوش ہیں تو ہمارا آپ کا کیا جاتا ہے۔ رہا نائب ناظم موصوف کا ایمان، تو اس کاذکر ہی کیا، رہا رہا نہ رہا نہ رہا۔
اوپر کے اقتباس کی روشنی میں عسکری اور اقبال کی مثالوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ احمد جاوید جس موضوع کو ’’غیرعلمی انداز‘‘ کا حامل خیال فرماتے ہیں اس پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات کم و بیش ہر موضوع پر صادق آتی ہے۔ اس طرزعمل کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ ملفوظات کا متن شائع ہونے پر کوئی اعتراض سامنے آئے تو صاحب ملفوظات بڑی آسانی اور بےنیازی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو زبانی گفتگو تھی جو کسی تیاری اور حوالوں کی موجودگی کے بغیر کی گئی تھی، اور اسے اسی طرح پڑھا جانا چاہیے جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تاہم اس امر کی حکمت بہت سے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ مناسب تیاری کے ساتھ معروف تحقیقی اسلوب میں اظہار خیال سے اجتناب کیوں ضروری ہے۔
اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دانش و علّامگی کا فی البدیہہ وفور اس قدر منھ زور ہے کہ کاغذ اور قلم اس کا ساتھ نہیں دے پاتے۔ پھر موصوف کی پاٹ دار آواز اور پاٹےخانی لہجہ خود ان کے کانوں کواس قدر بھانے لگا ہے کہ نالے کو ذرا دیر کے لیے بھی سینے میں تھامنا ان کے لیے قریب قریب ناممکن ہو گیا ہے۔ (گفتگو سے اور بڑھ جاتا ہے جوشِ گفتگو۔) علاوہ ازیں اس سے اپنی ذات کے بارے میں موصوف کے فرضی تصور کی تصدیق ہوتی ہے کہ کسی اونچی جگہ پر بیٹھے فانی انسانوں کے اشکالات کو اپنی بےمہار گفتگو سے رفع کیے چلے جا رہے ہیں۔ (بقول اقبال: اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھی۔) اپنے اس تصور کی غمازی ان کے فقروں میں اختیارکردہ لہجے سے جابجا ہوا کرتی ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ ’’اقبالیات‘‘ کے محولہ بالا شمارے میں ’’استفسارات‘‘ کے عنوان سے ایک گوشہ قائم کیا گیا ہے جس میں علامہ احمد جاوید کے سامعین اقبال کی شاعری کے بارے میں اپنے استفسارات و اشکالات پیش کرتے ہیں اور پھر موصوف کے جوابات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ (حسنِ اتفاق سے طارق اقبال اپنے تہہ کیے ہوے زانوے تلمّذ، یا بقول یوسفی زانوے تلذّذ، کے ساتھ یہاں بھی موجود ہیں۔) ذیل کی مثالیں نائب ناظم کی گفتگو پر مبنی اسی متن سے لی گئی ہیں: ’’یہ سوال اس لحاظ سے اچھا ہے کہ اس کے ذریعے سے شعرفہمی کے بعض ضروری قاعدے سامنے آ جائیں گے۔ کچھ باتیں نمبروار عرض کی جا رہی ہیں، ان پر غور فرمالیں، تو یہ مسئلہ بلکہ اس طرح کے دیگر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔‘‘ (ص۲۴۰) ’’آئیے آپ کے اشکالات کی طرف چلتے ہیں۔‘‘ ( ۲۴۳) ’’اقبالیات‘‘ کے اسی شمارے میں نائب ناظم نے اقبال کے ایک شارح خواجہ محمد ذکریا کی ’’تفہیم بال جبریل‘‘کی ’’اغلاط اور نقائص‘‘ پر گرفت اور خواجہ صاحب کے مفروضہ اشکالات کو رفع کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ لہجہ بدستور پاٹے خان سے مستعارہے: ’’پہلے خواجہ صاحب کی عبارت یا اس کا خلاصہ انھی کے لفظوں میں نقل کیا جائے گا اور پھر تبصرہ کے عنوان سے اس فہرست کے مشمولات کو کھولا جائے گا۔ اس کے بعد فرہنگ کا جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن پیشتر اس کے اس عمل کا باقاعدہ آغاز کیا جائے، مناسب ہو گا کہ ایک آدھ بات شعر کی تشریح و تفہیم کے اصول و آداب کے حوالے سے عرض کر دی جائے۔‘‘ (ص ۱۴۵) ’’امید ہے اب یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اس شعر کے بارے میں یوں کہنا چاہیے...‘‘ (ص۱۶۷)۔ وغیرہ۔ لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ لہجہ صرف پروفیسر خواجہ محمد ذکریا اور طارق اقبال جیسے لوگوں کے سلسلے میں اختیار کیا جاتا ہے۔ باعثِ تخلیقِ اقبال اکیڈمی — یعنی اقبال — کا بھی ذکر ہو تو اندازِ گفتگو ویسا ہی مربیانہ ، بلکہ سرپرستانہ رہتا ہے۔ موصوف اپنے ملفوظات میں ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’سرِدست ہم اپنی توجہ اسی نکتے پر مرتکز رکھیں گے کہ اقبال دو چیزوں میں پائے جانے والے صریح تناقض کو رفع کیسے کرتے ہیں اور کیوں؟ کیسے کا جواب تو یہ ہے کہ وہ وجہِ تناقض کو نظرانداز کر دیتے ہیں، اور جہاں تک کیوں کا تعلق ہے تو اس کا جواب ہم دے چکے ہیں: کسی پہلے سے موجود خیال کو استدلال اور بیان کی سطحوں پر ثابت اور مستحکم کرنے کے لیے۔‘‘ (ص۱۰۶) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے، ’’پیام مشرق میں اقبال نے ابلیس سے اپنا دفاع اسی پوچ اور بےاصل دعوے اور استدلال پر کروایا ہے...‘‘ (ص۱۵۹-۱۶۰) بال جبریل کی غزل کے شعر (اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی/ خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا) کے ضمن میں ارشاد ہوتا ہے: ’’میں خود اس شعر کی تشریح اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے یہ شعری اعتبار سے معمولی اور فکری اعتبار سے غلط اور قابل اعتراض لگتا ہے۔...اس شعر میں بنیادی طور پر یہی کہا گیا ہے جو میں نے نعوذباﷲ پڑھ کر لکھا۔‘‘ (ص۱۵۸) بال جبریل ہی کی ایک اور غزل کے شعر (باغ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں/ کارجہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر) کے متعلق فرماتے ہیں: ’’...یا تو خدا کو انتظار کروانے والی تعلّی پر ڈھنگ سے گرفت کی جانی چاہیے تھی یا اس کی کوئی ایسی تاویل ہونی چاہیے تھی کہ پڑھنے والا گستاخی کے تاثر سے نکل آتا...‘‘ (ص۱۶۹) یوں تو نائب ناظم کی گفتگو غیرارادی مزاح کے نمونوں سے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اٹی ہوئی ہوتی ہے، لیکن اس شعر کے ذکر میں انھوں نے دانستہ مزاح پیدا کرنے کی بھی کوشش فرمائی ہے: ’’‘کارِجہاں کی درازی‘ کاوہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو چاندرات کو خیّاطوں کے ذہن پر چھایا ہوتا ہے...‘‘ (ص۱۶۹) اسی غزل کے ایک اور شعر (روزِحساب جب مرا، پیش ہو دفترِ عمل/ آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر) پر اپنے مچان کی اونچائی سے خواجہ ذکریا کو ڈپٹتے ہوے فرماتے ہیں: ’’ﷲ کا ندامت محسوس کرنا ﷲ کو نہ ماننے والے کے دماغ میں بھی نہیں آ سکتا۔ اس انتہائی فضول غلطی میں کچھ دخل اس شعر کا بھی ہے لیکن باقی کارنامہ شارح کا ہے۔‘‘ (ص۱۷۰)
محمد حسین آزاد کے اسلوب میں کہا جائے تو احمد جاوید کا پیشہ خوداطمینانی ہے اور تعلّی و مشیخت سے اسے رونق دیتے ہیں۔ انا کے گیس بھرے غبارے کا دھاگا چٹکی میں تھام کر وہ جس اونچائی پر جا پہنچے ہیں وہ انھیں فلکِ ہشتم معلوم ہوتی ہے جہاں سے پروفیسر ذکریا، محمد حسن عسکری، مبین مرزا، صابر وسیم اور باقی سب بندگانِ خدا انھیں حشرات الارض سے بیش دکھائی نہیں دیتے۔ (بقولِ اقبال،’’زیروبالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے‘‘ اور ’’غرورِ زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو/ کہ بندگانِ خدا پر زباں دراز کرے‘‘۔) حد تو یہ ہے کہ اقبال سے بھی وہ یوں خطاب فرماتے ہیں جیسے طارق اقبال سے مخاطب ہوں۔ اب نائب ناظم کو یہ تنبیہ کرنا تو ان کے پیرومرشد کا فرض ہے کہ صاحبزادے، نیچے اتر آئیے، گر پڑے تو خواہ مخواہ پاؤں میں موچ آ جائے گی۔ لیکن اُن حضرت نے اِنھیں ٹی وی پر اداکاری کرنے کے فعلِ حرام سے نہ روکا تو ان سے اپنے برخودغلط مرید کی بہی خواہی کی بھلا کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ کیاعجب کہ احمد جاوید کے ہاتھوں ان کے سابق پیرومرشد عسکری کی درگت دیکھ کر انھوں نے موصوف کو نصیحت کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہو، کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے پہنچے ہوے مرید کی طرح یہی رائے رکھتے ہوں کہ اقبال اکیڈمی کے نائب ناظم کا درجہ (نعوذباﷲ) اقبال سے بڑھ کر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ’’احیائے علوم‘‘ کے شمارہ ۱۴اور ’’اقبالیات‘‘ کے جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شامل احمد جاوید کے فرمودات پڑھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ اکیڈمی کا دستورِ زباں بندی اقبال کو اسی حد تک اپنی بات کہنے کی آزادی دیتا ہے جہاں تک وہ اکیڈمی کے کارپردازان سے متفق ہوں۔ اس حد کو پار کرنے پر انھیں جلالی نائب ناظم کی جھڑکی سننی پڑتی ہے کہ یہاں اقبال سے غلطی ہوئی ہے، یا ان کا ’’شعر جس مضمون پر مبنی ہے وہ نرا شاعرانہ ہے اور عرفانی روایت سے باہر کی چیز ہے۔‘‘ (’’اقبالیات‘‘ ،ص ۱۷۱) گویا اقبال اکیڈمی نہ ہوئی عرفانی روایت اکیڈمی ہو گئی کہ اقبال کی نثرونظم کا جتنا حصہ نام نہاد عرفانی روایت سے باہر ہے وہ اکیڈمی کی اقبال شناسی کے دائرے سے بھی باہرر ہے گا۔ نائب ناظم اس سے بالکل بےنیاز ہیں کہ عرفانی روایت کی جس محدود، تنگ نظر اور متنازعہ فیہ تعریف کوانھوں نے اپنی بیعت کے نتیجے میں اپنی قید بنا رکھا ہے، اس کی پابندی کسی اور پر، یہاں تک کہ اقبال پر بھی لازم نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نائب ناظم کو اپنی ذاتی رائے، خواہ وہ کتنی ہی احمقانہ، بےبنیاد اور اقبال دشمن کیوں نہ ہو، رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل نہیں؛ عبرت کا مقام تو یہ ہے کہ یہ بات زور دے کر کہنی پڑ رہی ہے کہ اقبال اکیڈمی کے تنخواہ دار عمّال کے مقابلے میں اقبال کو بھی تو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگر اقبال شناسی کی اصطلاح کا وہی مطلب ہے جو اس کے لغوی معنوں سے سمجھ میں آتا ہے، تو یہ عمل اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے کہ اپنے اردو اور فارسی کلام، خطبات، اور دیگر تحریروں میں اقبال نے اپنا جو ’’نرا فکری‘‘ اور ’’نرا شاعرانہ‘‘ اظہار کیا ہے، اسے اس کے درست پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے ، اور اس پر ریاست کی پالیسی یا نائب ناظم وغیرہ کے تنگ نظر، دقیانوسی اور قطعی غیرمتفق علیہ مذہبی و سیاسی نظریے کو ٹھونسنے کی کوشش سے باز رہا جائے۔ دوسری صورت میں اس عمل کے لیے اقبال شناسی کے بجاے اقبال تراشی کی اصطلاح زیادہ موزوں ہو گی۔
احمد جاوید اپنی ایک خِلقی معصومیت کے باعث بھی اقبال کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ حقائق کو دریافت کرنے، گہرائی میں جاننے اور درست تناظر میں سمجھنے کی جو تڑپ اور جستجو اقبال کی تمام تحریروں میں، بشمول شاعری اور خطبات، نمایاں طور پر پائی جاتی ہے، وہ موصوف کو بالکل اسی طرح کورا چھوڑ دیتی ہے جیسے مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بےاثر رہتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انھیں تجسّس کی خصوصیت سے منزّہ پیدا کیا گیا ہے۔ (بقول اقبال، ’’دردِ استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں/ جستجوئے رازِ قدرت کا شناسا تو نہیں‘‘۔) ان کے خیال میں نام نہاد عرفانی روایت میں ہر چیز کا جواب پہلے سے فراہم کر دیا گیا ہے اور تمام حقائق گویا لفافوں میں بند موصوف کے سامنے سلیقے سے چنے ہوے رکھے ہیں۔ جب کبھی کوئی سوال (یا نائب ناظم کی مرغوب اصطلاح میں ’’اشکال‘‘) سر اٹھاتا ہے، موصوف فال نکالنے والے طوطے کی سی مستعدی سے متعلقہ لفافے تک پہنچتے ہیں اور اسے کھول کر نہایت خوداطمینانی کے ساتھ اقبال (یا طارق اقبال) کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے ہیں کہ زیربحث شعر یا قول سے بذریعۂ تاویل یہ نکتہ متبادر ہوتا ہے کہ سوئی کی نوک پر ڈھائی فرشتے بیٹھ سکتے ہیں جبکہ عرفانی لفافے میں پونے تین کی تعداد لکھی ہوئی آئی ہے، چنانچہ یہاں اقبال سے غلطی ہوئی، مگر نہ اتنی شدید کہ... وعلیٰ ہذا لقیاس۔ نہ صرف یہ حکم لگانا نائب ناظم کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کہ اقبال کا کون سا ’’نرا شاعرانہ‘‘ مضمون، یا خطبات وغیرہ میں بیان کردہ ’’نرا خطیبانہ‘‘ موقف، نام نہاد عرفانی روایت کے اندر یا باہر ہے، بلکہ یہ فیصلہ بھی وہ چٹکی بجاتے میں کر دیتے ہیں کہ اس کا تعلق حقیقت کے مروجہ عرفانی درجوں میں سے کس درجے سے ہے اور اس کی روشنی میں اقبال وغیرہ کے اعتقادات قابل قبول قرار پاتے ہیں یا نہیں۔ ایسا جنّاتی ’’منہاج‘‘ رکھنے والے نائب ناظم سے یہ توقع کرنا نادانی ہو گی کہ وہ لفافوں کے حلقے سے باہر نکل کر اقبال کے فکری اور شاعرانہ کارنامے کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں جس کی بنیاد ہی اقبال کے وجود کی یہ بےقراری تھی کہ وہ بنے بنائے فرسودہ جوابی لفافوں (یا ’’پرانے تخیلات‘‘) کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور اپنے عہد کے بڑے سوالوں سے نبردآزما ہو کر ان کے تخلیقی جواب وضع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس عمل میں انھیں بہت سے لکیرالدین فقیروں کے اعتراضات اور فتووں وغیرہ کا بارہا سامنا ہوا، جنھیں اقبال نے کبھی اہمیت نہ دی۔ احمد جاوید، ہماری آپ کی بدقسمتی سے، نائب اقبال شناس کے سرکاری عہدے پر فائز ہو گئے ہیں، لیکن ان کا اصل مقام انھی معترضین اور فتویٰ پردازوں کے درمیان ہے جو اقبال کی زندگی میں بھی اپنے فضول کام میں لگے رہے اور بعد کے دور میں بھی۔ ان حضرات کی سمجھ میں اقبال کی وہ سادہ سی بات آنے سے رہی جو انھوں نے اپنی نظم ’’زہد اور رندی‘‘ میں بیان کی ہے (اس نظم کا متن آگے پیش کیا جا رہا ہے) اور جسے کشورناہید نے اپنے لفظوں میں یوں کہا ہے کہ ریش مبارک کی لمبائی چوڑائی اور دبازت کا سخن فہمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
علامہ ندوی سے منسوب اعتراضات کا بزعم خود جواب دیتے ہوے، کئی مقامات پر احمد جاوید کا موقف معترض کے موقف کے نہایت قریب جا پہنچتا ہے، اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فروعی اختلافات کے باوجود دونوں حضرات اس پر متفق ہیں کہ اقبال کی آزاد فکر کے بارے میں فیصلہ ’’پرانے تخیلات‘‘ ہی کے تنگ دائرے میں رہ کر صادر کرنا ہے۔ فکرِ اقبال کی رواں دواں آبجو کو اپنے تنگ خیال نقطۂ نظر کے لوٹے میں بند کرنے کی بےسود مگر پرجوش کوشش دونوں حضرات میں مشترک دکھائی دیتی ہے۔ نمونے کے طور پرعلامہ نائب ناظم کے چند ارشادات دیکھیے:
’’انھوں نے مغرب کو اسلام پر غالب نہیں کیا بلکہ اسلام کو مغرب کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کی اور یہ دکھایا کہ اسلام سے پیدا ہونے والی فکر مغرب کے اسلوب حصول سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ گو کہ میری ذاتی رائے میں مذہبی فکر میں اس طرح کی تطبیق کا عمل ہمیشہ مضر ہوتا ہے اور اس کا ضرر خطبات اقبال میں بھی جابجا نظر آتا ہے ۔ جب ہم دو مختلف چیزوں میں تطبیق کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں فریق ثانی یعنی جس سے تطبیق دینا مقصود ہے لامحالہ مرکزی اور غالب حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔ اسلام اور مغرب میں تالیف و تطبیق کا کوئی بھی عمل مغرب کی مرکزیت اور یک گو نہ فوقیت کے اثبات پر ختم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴،ص۱۰)
’’اپنے فلسفہ حرکت کے بیان میں اقبال جب خدا کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اس میں کئی الجھنیں سر اٹھاتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی غلطی قاری کو یہاں تک نہیں پہنچاتی کہ وہ یہ باور کر سکے کہ اقبال یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ معاذ اللہ خدا یعنی خالق بھی مسلسل تخلیق ہو رہا ہے۔‘‘(ص۱۱)
’’عصرِ حاضر میں زندگی کے تمام شعبوں میں رونما ہونے والے مظاہر ترقی کو حیات اجتماعی کی فلاح کے اسلامی اصول تک پہنچنے کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ اس عمل میں انہیں مغرب یا جدیدیت سے تصادم مول لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اس کی وجہ سے کچھ ناہمواریاں تو یقیناً پیدا ہوتی ہوں گی لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ اقبال کے دینی افکار مغربی فلسفے سے ماخوذ ہیں یا انھوں نے مغربی خیالات کو اسلامی لباس پہنا دیا۔‘‘(ص۱۱)
’’جہاں تک اجتہادِ مطلق کا معاملہ ہے اس میں اقبال سے غلطی ہو ئی۔ اس غلطی کی شدت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھیں کہ اقبال کے ہاں اجتہاد مطلق اپنے حالات کے موافق دین کو ایک بالکل نئی تعبیر دینے کے لیے ہوتا ہے۔ اقبال کے ہاں اجتہاد کا دائرہ محض قانونی امور پر محدود نہیں رہتا بلکہ شریعت کی ان قوتوں اور مصلحتوں کا بھی احاطہ کرتا ہے جن کی بنیاد پر مسلم تہذیب متشکل ہوتی ہے۔‘‘(ص۱۲)
’’اس پورے تصور [جمہوریت] میں فقط ایک چیز ایسی ہے جو محفوظ نہ رہے تو انتشار کا موجب بن سکتی ہے اور وہ ہے رائے دینے کی اہلیت، جس کا اثبات مخالف رائے رکھنے والا بھی کرے۔ اقبال نے اپنے اس خیال میں اس نقطے کو ملحوظ نہیں رکھا کہ یہاں محض عددی اکثریت کافی نہیں ہے بلکہ اصحاب الرائے کی اکثریت درکار ہے۔ جسے مرجوع قرار پانے والی اقلیت بھی رائے دینے کا اہل مانتی ہو۔‘‘ (ص۱۴)
’’ حرکت اور ارتقاء پر اقبال کا یقین بعض مواقع پر ایسی جذباتیت میں بدل جاتا ہے جو آدمی کو اپنی ہی بات سے برآمد ہونے والے فوری نتائج سے بھی غافل کر دیتی ہے حیاتیاتی ارتقاء اور تاریخی حرکت کے تصورات کو یک جان کر کے دین کی حقیقت کے بارے میں چند کلی نوعیت کے مفروضے وضع کر لینا ، اقبال کا مزاج تھا۔‘‘(ص۱۵)
’’اقبال کے اس قول میں کچھ خطرات اس طرح سرایت کیے ہوئے ہیں کہ ان سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (ص۱۵-۱۶)
’’دینی زندگی کمال وجامعیت کے منتہا پر ایمان (Faith) کی قدر اعلیٰ پر استوار ہوتی ہے۔ یہ استواری جب کمزور پڑنے لگتی ہے تو فکر (Thought) بنیادی قدر بن جاتی ہے فکر ایمان کو اپنی خلقی منطق کے مطابق جب تصور سازی اور تعقل کے عمل سے گزارنے میں عاجز ہو جاتی ہے تو یہ چند ان گھڑ تخیلات کی اساس پر ایک ایسا نظام محسوسات پیدا کر لیتی ہے جو حواس کے دائرہ فعلیت سے باہر نکل سکنے کا امکان باور کروا دیتی ہے۔ فکر تھک ہار کر تخیل بن جاتی ہے اور تخیل ظاہر ہے کہ محسوسات میں واقع ہونے والے التباس کا منبع ہے۔...گویا اقبال جس کو ترقی کہہ رہے ہیں وہ اصل میں ایمان کی دست برداری کا نام ہے۔ فکر اور تجربے کے حق میں ۔... اقبال کی پوری بات میں ایک اور خطرہ یہ بھی پوشیدہ ہے کہ وہ [کذا] ماہیت ذہن یعنی انفعال کو ایمان کے سائے سے نکال کر تجربیت کے تحت لانا پڑتا ہے۔‘‘ (ص۱۶)
’’علم نفسیات کے بعض غیرضروری اثرات کی وجہ سے اقبال نے نبی اور وحی کو بھی اپنے زمانے میں مروج نفسیاتی تجزیے کا موضوع بنا لیا اور اس اصول کو نظر انداز کر دیا کہ وحی کی تنزیل اور نبی کا اسے وصول کرنا کوئی تجربہ نہیں ہے بلکہ واقعہ ہے۔‘‘(ص۱۷)
’’اقبال کے یہاں Ego یا Selfکا تصور بعض اخلاقی اور نفسیاتی کمالات کے باوجود انسان اور خدا کے بارے میں ان مذہبی تصورات سے اصلاً متصادم ہے جن پر آج تک کی مذہبی فکر متفق چلی آ رہی ہے۔‘‘ (ص۱۸)
’’وہ [معترضِ اقبال] اگر یہ پوزیشن اختیار کرتے کہ مذہبی زندگی اور اس کے کمالات کی تحقیق کا یہ انداز خود دین کے متعین کردہ کمالات بندگی سے مختلف ہے اور اس سے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی دین داری کم تر درجے پر نظر آتی ہے، تو ایک بات بھی تھی۔‘‘(ص۱۹)
’’ان کا تصور انفرادیت بالکل غیرروایتی ہے اور ایک حد تک ان کے مطالعہ مغرب کا نتیجہ ہے۔ اقبال انسانی انفرادیت کے حدود میں ایسی رومانوی توسیع کر دیتے ہیں کہ بعض مقامات پر آدمی اور خدا کا امتیاز ایک رسمی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔‘‘(ص۲۱)
’’ان کا تصور خدا بہرحال لائق اعتبار نہیں ہے اور بعض ایسے نتائج تک پہنچا دیتا ہے جہاں خدا کو ماننا محض ایک تکلف لگتا ہے۔ علامہ کے نظام الوجود میں انسان مرکزی کا شور اتنا زیادہ ہے کہ خدا کی آواز دب جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا ہونا انسانی وجود کی تکمیل ایک ذریعہ ہے اور بس۔ ‘‘(ص۲۲)
’’ذاتِ الٰہی اور ذاتِ انسانی ، یا الوہی ذاتیت اور انسانی ذاتیت کے تقابل کی ہر جہت میں اقبال جن نتائج تک پہنچتے ہیں، وہ مابعد الطبیعیات کی منطق پر پورے نہیں اترتے۔ اور ان مباحث سے بننے والی فضا میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔...ذات یا انا کے مقولے کو مدار بنا کر اقبالؒ نے خدا اور انسان کے تقابل کی جو فضا ایجاد کی ہے اس میں انسان تو اپنی انفرادیت ثابت کر دیتا ہے لیکن خدا کی انفرادیت دب کر رہ جاتی ہے۔ ‘‘(ص۲۲)
’’مذہبی یا روحانی واردات میں نفس کی شمولیت سے جو حسی وفور پیدا ہو جاتا ہے ، اقبال اسے حقیقت کے علم یا تجربے کی قابل قبول اساس تصور کر لیتے ہیں ۔ اس معاملے میں ان کا انہماک یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ وہ حسی ، نفسی ،روحانی حسی کہ تنزیل وحی کے تجربے کو اصلاً ہم نوع قرار دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ ہماری رائے میں اس سنگین غلطی کا بڑا سبب ان کے تصور خودی میں پوشیدہ ہے۔ ‘‘(ص۲۴-۲۵)
’’ ’جنت و دوزخ احوال ہیں نہ کہ مقامات‘۔ ۔۔ اور ’حیات بعد الموت ہر انسان کا استحقاق نہیں ہے‘۔ ۔۔اقبال کے یہ تصورات ظاہر ہے کہ قرآنی محکمات سے متصادم ہیں۔‘‘ (ص۲۶)
ایک مقام پر تو نائب ناظم موصوف نے حد ہی کر دی۔ فرماتے ہیں:
’’یہاں ہم بھی مجبور ہیں کہ اقبال کی مدافعت کے ارادے کے باوجود ہاتھ کھڑے کر دیں۔‘‘(ص۲۲)
احمد جاوید کے مرشدِمعزول عسکری اگر زندہ ہوتے تو شاید اس قسم کا فقرہ چست کرتے کہ ’’ذرا آپ کو دیکھیے اور آپ کے ارادے کو دیکھیے!‘‘ لیکن خرم علی شفیق تو بحمدﷲ بقیدحیات ہیں اور کہہ ہی سکتے ہیں کہ یہاں کچھ ایسا تاثر ملتا ہے گویا نائب ناظم کی مدافعت اقبال کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ شاعرِ مشرق کے مقام پر بھی ٹھہر نہ پاتے۔ خرم علی شفیق نے اس قسم کے طرزِعمل کی مثال کے طور پر لاہور کی مسجد وزیرخاں کے خطیب دیدار علی کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اقبال کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ’’اس میں اقبال کے خلاف ایسے دلائل پیش کیے جن کے بعد کم سے کم ایک عام مسلمان کی نظر میں اقبال کا ایمان مشکوک ہو جانا چاہیے تھا...نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اقبال کو اپنے دفاع میں کچھ کہنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی، خواص اور عوام نے خطیب دیدار علی صاحب ہی کو رد کر دیا۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴، ص ۲۹) خود اقبال نے ان جانے پہچانے فتویٰ پرداز کرداروں کے بارے میں ایک پرلطف نظم ’’زُہد اور رندی‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی جو ’’بانگ درا‘‘ میں شامل ہے اور احمد جاوید پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ آئیے اس نظم کا ایک بار پھر لطف اٹھائیں:
اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی
تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی
شہرہ تھا بہت آپ کی صوفی مَنشی کا
کرتے تھے ادب ان کا اعالی و ادانی
کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوف میں شریعت
جس طرح کہ الفاظ میں مضمر ہوں معانی
لبریز مئے زُہد سے تھی دل کی صراحی
تھی تہہ میں کہیں دُردِ خیالِ ہمہ دانی
کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی
منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی
مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے
تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی
حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا
اقبال، کہ ہے قمریِ شمشادِ معانی
پابندیِ احکامِ شریعت میں ہے کیسا؟
گو شعر میں ہے رشکِ کلیمِ ہمدانی
سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا
ہے ایسا عقیدہ اثرِ فلسفہ دانی
ہے اس کی طبیعت میں تشیّع بھی ذراسا
تفضیلِ علی ہم نے سنی اس کی زبانی
سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل
مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی
کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے
عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی
گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت
اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی
لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے
بے داغ ہے مانندِسحر اس کی جوانی
مجموعۂ اضداد ہے، اقبال نہیں ہے
دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفقانی
رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی
اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی
ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی
القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے
تادیر رہی آپ کی یہ نغزبیانی
اس شہر میں جو بات ہو، اڑ جاتی ہے سب میں
میں نے بھی سنی اپنے احباّ کی زبانی
اک دن جو سرِ راہ ملے حضرتِ زاہد
پھر چھڑ گئی باتوں میں وہی بات پرانی
فرمایا، شکایت وہ محبت کے سبب تھی
تھا فرض مرا راہ شریعت کی دکھانی
میں نے یہ کہا کوئی گلہ مجھ کو نہیں ہے
یہ آپ کا حق تھا زرہِ قربِ مکانی
خم ہے سرِ تسلیم مرا آپ کے آگے
پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی
گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت
پیدا نہیں کچھ اس سے قصورِ ہمہ دانی
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں، وﷲ نہیں ہے
اس قسم کے مئے زہد سے سرشار اور دُردِ خیالِ ہمہ دانی سے معمور کرداروں کو پاکستانی ٹیکس گذاروں کے خرچ پر اقبال شناسی کی ذمے داری سونپ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے پریس برانچ کے چودھری محمد حسین کا ماہانہ وظیفہ عوامی خزانے سے باندھ کر انھیں منٹو شناسی پر مامور کر دیا جائے۔ لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اقبال اکیڈمی کے عمّال کو جو کام دراصل سونپا گیا ہے وہ اقبال شناسی کا نہیں بلکہ اقبال تراشی کا ہے، یعنی یہ کہ کاٹ پیٹ کر انھیں ریاستی اور عرفانی روایت کے سانچے میں کچھ اس طرح فٹ کیا جائے کہ اقبال کے پاکستانی پڑھنے والے ان کی شاعری اور نثر کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ اور یہی وہ سرکاری طور پر تراشا گیا بےضرراقبال ہے جس کی مدافعت کا ارادہ اکیڈمی کے نائب ناظم باندھتے اورکھولتے رہتے ہیں۔ سرکاری نوکری کی انھی نزاکتوں کا کرشمہ ہے کہ وہ اقبال کے خلاف اپنی مرغوب عرفانی روایت کی رو سے خاصے سنگین اور بنیادی نوعیت کے عتراضات کرنے کے باوجود، اور ان کے متعدد غیرمحتاط خیالات پر نعوذباﷲ، استغفرﷲ اور لاحول ولا پڑھتے رہنے کے باوجود، اقبال کے ایمان کے بارے میں صاف صاف کوئی فتویٰ جاری کرنے سے باز رہتے ہیں اور محض ان کے اعتقادات کے بارے میں شکوک پیدا کرنے اور ان کی مفروضہ لغزشوں پر ناشائستگی سے انھیں سرزنش کرتے رہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ عرفانی روایت کا لوٹا اٹھا کر موصوف بھی ظروف بردارفتویٰ پردازوں کی لمبی قطار میں لگ گئے تو اس سے اقبال کا تو کچھ بگڑنے سے رہا، الٹا اکیڈمی کی طرف سے ہر پہلی تاریخ کو ملنے والا لفافہ ہاتھ سے جاتا رہے گا اور اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محض ٹیلی وژن کی اداکاری کے اکلِ حرام پر انحصار کرنا پڑے گا۔
۸
اقبال اکیڈمی کے سابق ناظم مرزا منور نشان دہی کرتے ہیں کہ اقبال کی فکر خطبات تک پہنچ کر رک نہ گئی تھی۔ موجودہ ناظم سہیل عمر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا۔ اقبال کا مقام تو خیر جو کچھ بھی ہوتا، یہ بات یقینی ہے کہ اگرانھوں نے خطبات نہ لکھے ہوتے تو اقبال اکیڈمی کے کارپردازان کی زندگی زیادہ آسان ہوتی اور وہ رات کو اس فکر میں پڑے بغیر چین کی نیند سویا کرتے کہ خطبات میں اختیارکردہ واضح فکری طریق کار، اور استدلال کے ذریعے وضع کیے ہوے غیرمبہم اجتہادی نتائج کی اہمیت کو کس طرح کم کر کے پیش کیا جائے کہ اقبال کا نقطۂ نظر ریاست کی سیاسی پالیسی اور قدامت پرست مذہبی نظریے سے ہم آہنگ دکھائی دینے لگے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو ایک بڑے شاعر اور اسلامی نظریات کے مفکر اور اجتہاد کی بےمثال صلاحیت رکھنے والے مجتہد کے طور پر اپنے مقام اور اس کی ذمے داریوں کی تو آگاہی تھی، لیکن انھیں اس کا گمان تک نہ تھا کہ بعدازمرگ انھیں ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے تسلیم شدہ سرکاری شاعر و مفکر کے (قطعی غیرشایانِ شان) عہدے پر تعینات کیا جانے والا ہے جس کے تقاضے اور مصلحتیں ان کی اختیارکردہ ذمے داریوں سے قطعی مختلف، بلکہ بعض مقامات پر متضاد ہوں گی۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اقبال اکیڈمی وغیرہ کو انھیں اس بعدازمرگ وضع کردہ سانچے میں فٹ کرنے میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اور ان عمال کے دل میں یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش اقبال نے اپنے ناخواندہ مقام اور ان حضرات کی نوکریوں کا خیال کرتے ہوے کسی قدر احتیاط کا ثبوت دیا ہوتا۔ بدقسمتی سے اقبال نے ایسا نہیں کیا، چنانچہ ان دقتوں کواپنے پیشے کی مشکلات کے طور پر قبول کر کے انھوں نے ان دقتوں سے عہدہ برآ ہونے کے چند دلچسپ طریقے وضع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے جو سہیل عمر نے اپنی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ میں اختیار کیا، اور جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ کسی طرح شاعری کو خطبات کے مدمقابل ٹھہرایا جائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ ان کی شاعری سے، تشریح و تعبیر کی مدد سے، ایک ایسا نقطۂ نظر برآمد کیا جا سکتا ہے جو خطبات میں سامنے آنے والے نقطۂ نظر سے مختلف اور قابلِ ترجیح ہو۔ جو لوگ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں ان کا ذکر سہیل عمر نے اس طرح کیا ہے: ’’ان کی عام دلیل یہ ہے کہ خطبات سوچے سمجھے، جچے تلے، اور غیرجذباتی نثری اظہار کا نمونہ ہیں اور شاعری اس کے برعکس یا بہرحال اس سے کم تر۔ یہ لوگ وہ ہیں جو شاعری پڑھنے یا سمجھنے کے اہل ہی نہیں...اس رویے کا نتیجہ شعرفراموشی ہی ہو سکتا ہے، اور یہی ہوا بھی ہے۔‘‘(ص۱۲) میں نہیں جانتا کہ یہ کن لوگوں کا ذکر ہے، کیونکہ سہیل عمر نے یہ بات کسی شخص کا نام لیے یا کوئی حوالہ دیے بغیر لکھی ہے۔ تاہم ان نامعلوم افراد کے دفاع میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ شاعری پڑھنے یا سمجھنے کی اہلیت ایسی چیز نہیں جس کا اقبال اکیڈمی کے باہر پایا جانا ممکن نہ ہو، لیکن سہیل عمر کے اس بیان میں ایک مغالطہ ایسا ہے جس کی تردیدضروری ہے۔ خطبات کو ’’سوچے سمجھے، جچے تلے، اور غیرجذباتی نثری اظہار کا نمونہ‘‘ قرار دینے کا یہ مطلب کہیں سے بھی نہیں نکلتا کہ ’’شاعری کو اس کے برعکس یا بہرحال اس سے کم تر‘‘ ٹھہرایا جا رہا ہے۔ شاعری میں بعض جگہ شاعر کے غیرمبہم نقطۂ نظر کو پالینا ناممکن نہیں ہوتا۔ اقبال کی شاعری میں جابجا مختلف اہم معاملات پر ان کا نقطۂ نظر بھی صراحت سے سامنے آتا ہے جس کی موجودگی میں ان کی فکر پر اس سے متضاد نقطۂ نظر سے حکم لگانا ممکن نہیں رہتا۔ چند مثالیں دیکھیے جو کسی خاص کوشش کے بغیر چنی گئی ہیں:
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خُم کے سر پہ تم، خشتِ کلیسیا ابھی
گیا ہے تقلید کا زمانہ، مجاز رختِ سفر اٹھائے
ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوقِ تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں
نہیں جنسِ شرابِ آخرت کی آرزو مجھ کو
وہ سوداگر ہوں میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
لیکن شاعری صرف نقطۂ نظر یا اعتقادات کے اظہار یا اعلان پر مشتمل نہیں ہوتی (اگرچہ اکیڈمی کے نائب ناظم کا سلوک اقبال کے شعر کے ساتھ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ پھرتی سے شعر کے قارورے کا امتحان کر کے رپورٹ دے دی جائے کہ اس کی روشنی میں اقبال کا عقیدہ قابل قبول ٹھہرتا ہے یا نہیں)۔ اس کے برعکس خطبات کا متن ایسا ہے جسے اقبال نے ان اجتہادی نتائج کو ممکنہ حد تک واضح اور قابل فہم انداز میں بیان کرنے کی غرض سے تحریر کیا جن پر وہ اپنے اختیارکردہ مخصوص طریق کار اور طرزِ استدلال کی مدد سے پہنچے تھے۔ علاوہ ازیں، شاعری میں اقبال کا خطاب کسی مخصوص گروہ سے نہیں ہے جس کی خصوصیات کے بارے میں کوئی مجموعی حکم لگایا جا سکتا ہو، جبکہ خطبات کے سلسلے میں یہ امر اقبال کے ذہن میں پوری طرح واضح ہے: یہاں وہ برصغیر کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کے ایک مخصوص مقام پر ان جدید ذہن رکھنے والے مسلمانوں سے خطاب کر رہے ہیں جو مغربی فلسفے کی تعلیم سے روشنی حاصل کرنے کی بدولت اقبال کے نزدیک ان مباحث کو سمجھنے کے اہل ہیں جن پر خطبات میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں شاعری کو خطبات کے برعکس یا کم تر سمجھنے کا مفہوم کہاں سے پیدا ہو گیا؟ اور اس کا نتیجہ شعرفراموشی کی صورت میں کیونکر اور کب نکلا؟
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی سے خطاب کے متن نے، جس میں انھوں نے نئی قائم شدہ ریاست کے سیاسی نظام کے رہنما خطوط واضح طور پر بیان کیے تھے، ملک کو اس کے عین مخالف سمت میں لے جانے والے چیرہ دست حکمرانوں اور ان کے سرکاری عمّال کے لیے چنددرچند دشواریاں پیدا کی ہیں، اسی طرح اقبال کے خطبات نے بھی ان حلقوں کو متواتر مشکل میں ڈالے رکھا ہے۔ جس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ اقبال کی شاعری سے نمٹنا ان کے لیے آسانی سے ممکن ہوا ہے۔ البتہ شاعری میں تشریح و تعبیر کی گنجائش نثر میں دیے گئے واضح بیان کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے اور نائب ناظم کی قبیل کے شارحین اسی گنجائش کو تاویل کے کھیل کے میدان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
احمد جاوید نے جب اقبال اکیڈمی میں نوکری پانے کے لیے درخواست دی ہوگی تو یقیناً انٹرویو کے لیے بھی پیش ہوے ہوں گے، اور ثقافت اور کھیل کی وفاقی وزات کے ارباب اختیار کو یقین دلایا ہو گا کہ وہ وزارت اور اکیڈمی کے مطلوبہ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے موزوں قابلیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کھیلوں سے اپنی دلچسپی کے نمونے کے طور پر چڑی ماری کے کھیل میں اپنی کارکردگی کو پیش کیا ہو گا اور انھیں اطمینان دلانے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے کہ اس کھیل کے کرتبوں سے شعرِ اقبال اور فکرِ اقبال کے طائرانِ لاہوتی کو بھی شکار کیا جا سکتا ہے۔ بعد میں، جولائی ۲۰۰۳ء میں، انھیں کسی اور معاملے میں ناسازگار حالات پیش آنے پر مجبور ہو کر چڑی ماری سے تحریری طور پر توبہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا، جس کا متن آپ کراچی کے رسالے ’’دنیازاد‘‘، شمارہ ۹ کے صفحہ ۳۳۰ پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ لیکن توبہ کے باوجود اقبال پر ان کی غلیل بازی بدستور جاری ہے، جس کے چند نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں جن میں ان کا لایا ہوا یہ نادر نکتہ بھی شامل تھا کہ چاند رات کو اپنے پیشے کی دشواریوں کے ہاتھوں خیاطوں کی کیا ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔ نوکری کی عائدکردہ ذمے داریوں کے ہاتھوں خود موصوف کی اپنی ذہنی کیفیت بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف معلوم نہیں ہوتی۔ ’’اقبالیات‘‘ کے محولہ بالا شمارے میں اقبال کے تصور زمان و مکاں سے ہاتھاپائی کرتے ہوے وہ ان سرکاری ذمے داریوں کی تفصیل کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں اُن کا مؤقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ مؤقف کے الٹ ہے۔‘‘( ص ۹۳) ’’دیکھنا یہ ہے کہ یہ فرق حقیقی ہے یا میڈیم کی تبدیلی سے محض تاثر کی سطح پر پیدا ہوا۔ اگر یہ فرق حقیقی ہے تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کا نیا مؤقف کہاں بیان ہوا ہے، اور بالفرض اس فرق میں اگر کوئی حقیقت نہیں ہے تو بھی صرف میڈیم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ امتیاز خطبات میں بیان شدہ مؤقف کو علیٰ حالہٖ رہنے دیتا ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ شاعری کی وجہ سے کہیں کوئی ایسی چیز تو پیدا نہیں ہوتی جو خطبات میں اظہار پانے والے نقطئہ نظر کو اقبال کا حتمی نقطئہ نظر نہ ماننے پر مجبور کرتی ہو؟‘‘ (ص۹۳-۹۴)
اگر کوئی ایسی چیز فطری طریقے سے پیدا ہونے کو تیار نہیں ہوتی تو اسے نظریۂ ضرورت کے تحت زبردستی پیدا کیا جائے گا، کیونکہ مقصود حقیقی ’’خطبات میں اظہار پانے والے نقطئہ نظر‘‘ کا، بقول یوسفی، دف مارنا ہے۔ اس کے دو طریقے مروج ہیں: ایک تو یہ کہ اقبال کے ظاہرکردہ کسی بھی ناپسندیدہ نقطۂ نظر کے سلسلے میں کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ انھوں نے اس پر نظرثانی کر لی تھی، یا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن حیات نے وفا نہ کی، وغیرہ۔ دوسرا طریقہ یہ کہ تاویل کے ذریعے سے یہ دکھانے کی کوشش کی جائے کہ جہاں کہیں اقبال نے دن کو سفید قرار دیا وہاں دراصل ان کی مراد سیاہ رنگ سے تھی۔ یہ کون بڑی بات ہے؛ آخر تاویل ہی سے تو ’’پرانے تخیلات‘‘ کے حامل حضرات، بقول اقبال، قرآن کو پاژند بنایا کرتے تھے۔ نائب ناظم بھی ایسا ہی مبارک ارادہ رکھتے ہیں:
’’...جو تصور بھی اقبال کے شعر میں آیا ہے وہ بعض اوقات اپنے نثری اظہار سے مختلف بلکہ متصادم نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خود فکر کا اندرونی تضاد نہیں ہے بلکہ دو صورتیں ممکن ہیں: یا تو اس طرح کی صورتِ حال فکری ارتقا سے پیدا ہوتی ہے ورنہ ذریعۂ اظہار کی تبدیلی اس فکر کے بنیادی اجزا کی ترکیب میں کوئی انقلاب پیدا کردیتی ہے جس سے اس کی تکمیلی ساخت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں اقبال کے ہاں یہ دونوں صورتیں کارفرما ہیں۔ کچھ مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے اپنی راے پر نظرِ ثانی کی اور بعض معامالات میں موضوع مشترک ہونے کے باوجود ان کے poetic self اور philosophic self کا امتیاز برقرار رہا۔ ایسے مواقع پر تاویل درکار ہے جو اس امتیاز کو محو کیے بغیر کسی فکری دو لختی کے تاثر کو ختم کرسکے۔ ہم یہ کوشش بھی کریںگے۔‘‘ (ص ۹۴)
بسم اﷲ، ضرور کیجیے کوشش، لیکن ذرا احتیاط سے کام لیجیے گا۔ اگر آپ نے دھاندلی کرتے ہوے اقبال پر ان نظریات کو منڈھنے کی کوشش کی جو ان کے نہیں تھے، تو اقبال کو پڑھنے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آپ کے 'academic' self کو، یعنی نائب ناظم کے طور پر آپ کی نوکری کی مجبوریوں کو، خاطر میں نہیں لاتے اور نہ آپ کے electronic self یعنی ’ٹیلی اُپدیشک‘ ہونے سے متاثر ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی نہ کوئی آپ کو ٹوکے گا ضرور، اور پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ مجبور ہو کر آپ کو اپنی اس سرگرمی سے بھی توبہ کا اعلان کرنا پڑ جائے۔ چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی۔
حقیقت یہ ہے کہ خطبات میں اقبال نے اپنا نقطۂ نظرجابجا اتنے صاف لفظوں میں بیان کر دیا ہے کہ اس سلسلے میں کنفیوژن پھیلانے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں، جنھیں سہیل عمر کی تصنیف میں نقل کیا گیا ہے، اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے، اور اکیڈمی کے پسندیدہ نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔
…eternal principles when they are understood to exclude all possibilities of change which according to the Qur’an is one of the greatest signs of God, tend to immobilize what is essentially mobile in its nature…. [T]he immobility of Islam during the last five hundred years illustrates [this principle]. (p-139-140)
…conservative thinkers regarded this movement [of Rationalism] as a force of disintegration , and considered it a danger to the stability of Islam as a social polity. Their main purpose, therefore, was to preserve the social integrity of Islam, and to realize this the only course open to them was to utilize the binding force of Shari’ah and to make the structure of their legal system as rigorous as possible. (p-142)
The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was: “God! Grant me knowledge of the ultimate nature of things.” (p-48)
اس پر احمد جاویدفرماتے ہیں:’’ Rationalism کا اقبال سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔... Rationalism اپنی ہر نوع میں اور ہر جہت میں وحی کا انکار ہے۔ اس کا انحصار ہی اس تصور اور دعوے پر ہے کہ حقیقت تک رسائی کے لیے عقل کافی ہے اور اسے باہر سے کسی رہ نمائی کی حاجت نہیں ہے۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ۱۴، ص۲۴)
This spirit of total other-worldliness in later Sufism… offering the prospect of unrestrained thought on its speculative side, … attracted and finally absorbed the best minds in Islam. The Muslim state was thus left generally in the hands of intellectual mediocrities, and the unthinking masses of Islam, having no personalities of a higher caliber to guide them, found their security only in blindly following the schools. (p-142-143)
The fear of further disintegration, which is only natural in such a period of political decay, the conservative thinkers of Islam focused all their efforts on the one point of preserving the uniform social life for the people by a jealous exclusion of all innovations in the law of Shari’ah as expounded by the early doctors of Islam. (p-143)
... a false reverence for past history and its artificial resurrection constitute no remedy for a people's decay. (p-30)
The most remarkable phenomenon of modern history however is the enormous rapidity with which the world of Islam is spiritually moving towards the West. There is nothing wrong in this movement, for European culture, on its intellectual side, is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam. (p-29)
The theory of Einstein has brought a new vision of the universe and suggest new ways of looking at the problems common to both religion and philosophy. No wonder then that the younger generations of Islam in Asia and Africa demand a fresh orientation of their faith. With the reawakening of Islam, therefore, it is necessary to examine, in an independent spirit, what Europe has thought and how far the conclusions reached by her can help us in the revision and, if necessary, reconstruction, of theological thought in Islam (p-29-30)
They disclose new standards in the light of which we begin to see that our environment is not wholly inviolable and requires revision. (p-30-31)
I propose to undertake a philosophical discussion of some of the basic ideas of Islam, in the hope that this may, at least, be helpful towards a proper understanding of the meaning of Islam as a message to humanity. (p-30)
The only course open to us is to approach modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the light of that knowledge. (p-99)
The truth is that all search of knowledge is essentially a form of prayer. The scientific observer of Nature is a kind of mystic seeker in the act of prayer. (p-94)
The question which confronts him [the Turk] today, and which is likely to confront other Muslim countries in the near future, is whether the Law of Islam is capable of evolution; a question which will require great intellectual effort, and is sure to be answered in the affirmative. (p-146)
In order to create a really effective political unity of Islam, all Muslim countries must first become independent; and then in their totality they should range themselves under one Caliph. Is such a thing possible at the present moment? If not today, one must wait. In the meantime the Caliph must reduce his own house to order and lay the foundations of a workable modern State. (p-145-146)
The republican form of government is not only thoroughly consistent with the spirit of Islam, but has also become a necessity in view of the new forces that are set free in the world of Islam. (p-144)
۹
علامہ نائب ناظم اور علامہ ندوی (بہ روایت زبانی ڈاکٹر غلام محمد) اس بارے میں پوری طرح ہم خیال ہیں کہ ’’ اجتہاد کی صلاحیت ... یقیناً اقبال میں نہیں پائی جاتی ...‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴، ص۱۳) اقبال کے بارے میں یہ فتویٰ ان دیگر فتووں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو ان کی زندگی میں اور بعد کے زمانے میں جاری کیے جاتے رہے ہیں اور اس کا انجام بھی سابقہ فتووں سے مختلف ہونے والا نہیں۔ ان فتووں سے قطع نظر، اقبال نے جدید مغربی تعلیم کی روشنی میں پرانے تخیلات اور تقلیدپرستی سے پیدا ہونے والی خامیوں کو رفع کر کے برصغیر کے مسلمان کے نقطۂ نظر سے مذہب کی معنویت کو نئے سرے سے متعین کیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ جدید دور کے تقاضوں کے مدنظر مذہبی فکر میں کس قسم کی تبدیلیاں کرنا ضروری ہے اور اس اصلاح شدہ مذہبی فکر پر مبنی انفرادی اور اجتماعی عملی فیصلوں کی کیا صورت اس دور کے لیے ممکن اور مناسب ہے۔ اقبال کے پڑھنے والوں کا حق ہے کہ وہ ان کی تحریروں کو ان کے درست تناظر میں پڑھ کر اپنی رائے قائم کریں اور تاویل وغیرہ کے حربوں سے اقبال کے نقطۂ نظر کی صورت مسخ کرنے کی کوششوں کی بھرپورمزاحمت کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں