صدیق عالم بطور افسانہ نگار بہت مشہور ہیں، اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے آخری چھاؤں، لیمپ جلانے والے اور بین شائع ہوچکے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ان کا ایک ناول چارنک کی کشتی بھی منظر عام پر آچکا ہے۔اس سال یعنی 2015میں ان کا پہلا نثری نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ ’پتھر میں کھدی ہوئی کشتی‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔اس مجموعے میں چالیس نثری نظموں کے ساتھ دو طویل نظمیں ’زیبرا کراسنگ پر ٹنگے چہرے‘ اور ’تخلیق کا نوحہ‘ شامل ہیں۔صدیق عالم ایک عمیق فن کار ہیں۔ان کے یہاں ابہام کی مختلف صورتیں موجود ہیں، زیر نظر تحریر ان نظموں کے حوالے سے لکھا گیا صدیق عالم کا وہ دیباچہ ہے، جو ان کے شعری مجموعے میں شامل ہے۔اس دیباچے میں بہت سی باتیں اہم ہیں، جن پر گفتگو ہونی چاہیے یا نثری نظم پر گفتگو کرتے وقت یہ پہلو ہماری نظر میں ہونے چاہیے، چنانچہ میں اسے اپنے بلاگ کے ذریعے شےئر کررہا ہوں تاکہ جن لوگوں تک صدیق عالم کی یہ کتاب نہیں پہنچ سکی ہے،اور وہ ان کی نظموں کو مختلف اردو کے رسائل کی مدد سے پڑھتے رہے ہیں ، ان تک صدیق عالم کا نظرےۂ شاعری پہنچ سکے گا۔مجھے یہ مجموعہ خورشید اکرم صاحب نے عنایت کیا تھا، جس کے لیے میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔
یہ 1983کا واقعہ ہے جب میں نے اپنی زندگی کی پہلی نظم محشرستان لکھی۔یہ آزاد نظم کی ہیت میں پانچ Cantosاور تین سو سے زائد مصرعوں پر مشتمل ایک طویل نظم تھی۔میں حیران تھا اتنی طویل نظم کو اشاعت کے لیے بھیجوں تو کہاں بھیجوں۔میں نے بہت غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر اسے محض اس کی طوالت کے سبب مسترد ہونا ہے جوکہ اسے ہونا ہی ہے تو کیوں نہ اس وقت کے سب سے مقبول اور معیاری ادبی رسالے سے یہ اعزاز حاصل کیا جائے۔تو میں نے اسے لاک اسٹاک اینڈ بیرل شب خون کو پوسٹ کردیا۔دو مہینے کے اندر اندر ’محشرستان‘ شب خون کی زینت بن چکی تھی۔ایسا نہیں تھا کہ میرے پاس خطوط کا تانتا لگ گیا ہو۔اپنی نظم کے تاثر سے میرے لیے کسی mute reactionکی توقع رکھنا بھی مشکل تھا۔میری نظم ایسی نہ تھی کہ فوری طور پر سمجھ لی جائے اور اچھی یا بری کوئی رائے قائم کرلی جائے۔آخر لوگ ’جو چل رہے ہیں کہیں پہ وہ خود ہی اپنے اندر ٹھہر گئے ہیں‘ کی کھائی میں اترنے کا درد سر کیوں مول لیں اگر راہ چلتے انہیں وہ سارے دیدہ زیب view pointsمل جاتے ہوں جہاں سے وہ وادی کی خوبصورت ڈھلانوں سے لے کر دورافتادہ دھندلی چوٹیوں تک کا نظارہ کرسکتے ہوں یا تکان کی صورت میں کسی تناور درخت کے سائے میں نیم غنودگی کا مزہ لے سکتے ہوں۔مجھے اس سے اتفاق ہو یا نہ ہو شاعری کی دنیا کو دیکھنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہوسکتا ہے۔لیکن میرا مسئلہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ادب ہمیشہ میرے لیے ایک قدم آگے کی چیز رہا ہے، وہ ایک قدم جس کے بعد ایک گہری کھائی آپ کی منتظر ہے، جہاں سارے ابعاد بدل جاتے ہیں سفر کا آغاز اور اختتام کھو جاتا ہے،یعنی آپ اپنے باہر بھی اتنا ہی چل رہے ہوتے ہیں جتنا اپنے اندر،یہ گویا quantum leapکی طرح ہے۔جہاں سالمے کے باہر اگر زمان و مکان کی نسبت سے ماورا ایک کائنات موجود ہوتی ہے تو سالمے کے اندر بھی ویسی ہی ایک لا محدود کائنات کا ہونا لازمی ہے۔وہ انٹرنیٹ اور موبائل کا زمانہ بھی نہ تھا اور ہوتا بھی تو اس سے کوئی خاص فرق پڑنے والا نہ تھا۔یوں بھی آج ان کے ذریعے جتنا جھوٹ مشتہر ہورہا ہے اس کی نظیر تاریخ میں شاید ہی رہی ہوگی، دوسری طرف معمولی سے معمولی شخص کے اندر اس نے نرگسیت کا ایک طوفان پیدا کردیا ہے۔مگر مجھے چند بہت ہی دلچسپ رد عمل دیکھنے کو ملے جب استاد محترم نصر غزالی نے کہا کہ اس نظم نے انہیں بار بار پڑھنے پر مجبور کیا،ان کا بہت سارا وقت خراب ہوا اور وہ اسے کھول نہ پائے۔میں نے انہیں مختصر سا جواب دیا، آپ اسے باہر سے کھول نہیں پارہے ہیں اور میں اسے اندر سے کھولنے سے معذور ہوں، میں دعا کرتا ہوں کہ ایک دن یہ دروازہ ٹوٹ جائے اور ہماری ملاقات ہوجائے۔بعد میں میں نثری نظموں کی طرف راغب ہوا تو لوگوں کا حال اور بھی برا تھا۔میں انہیں قصوروار نہیں ٹھہراتا کیونکہ 1984کے آس پاس نثری نظم ایک بالکل ہی بے سواد قسم کی چیز تھی جس کا پرچم چند سرپھرے لوگوں نے اٹھا رکھا تھا۔ظاہر ہے چلے ہوئے راستوں پر چلنے والوں کے لیے کسی unchartered territoryمیں داخل ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔
میں جناب شمس الرحمن فاروقی کا ممنون ہوں کہ انہوں نے نہ صرف میرے اندر کے شاعر کو پہچانا بلکہ شب خون جیسے رسالے میں اتنی طویل اور اتنی مشکل نظم کے لیے جگہ نکالی (جو اپنی طوالت کے نقطۂ نظر سے ہندوستان کے ادبی رسالوں کی تاریخ میں ایک ایسا ریکارڈ ہے جو آج تک ٹوٹا نہیں ہے۔)مجھے یہ قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اگرانہوں نے مجھے یہ breakنہ دیا ہوتا تو شاید وہ میری پہلی اور آخری نظم ثابت ہوتی۔اپنے طویل ادبی سفر میں جانے کتنے قلمکاروں کو جناب شمس الرحمن فاروقی نے اس طرح کے بریک دیے ہوں گے جو اردو ادب کے آسمان پر جگمگارہے ہیں۔
آج میری کم از کم دوسوسے زائد(نثری ، آزاد، پابند، مختصرو طویل)نظمیں مختلف رسالوں میں شائع ہوچکی ہیں۔محبی نعمان شوق اور خورشید اکرم کو ہمیشہ مجھ سے شکایت رہی ہے کہ میں اپنی شاعری کی ان دیکھی کرتا ہوں اور اپنی نظموں کو کتاب کی شکل نہیں دیتا جس کی عدم موجودگی میں میری شاعری کے evaluationمیں کافی مشکلیں پیش آتی ہیں۔شاید اس کے باوجود میں انہیں کبھی کتابی شکل میں نہ لاتا اور اسے posterityکے ذمے چھوڑ دیتا کہ وہ چاہے تو اسے رکھے چاہے تو تلف کردے۔میں کون سا قبر سے اپنی ہڈیوں کے ساتھ آکر اسے دیکھنے والا ہوں۔مگر اسی درمیان مجھے ایک بہت ہی عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ایک دن مجھ پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ میری تقریباً تیس سے چالیس کہانیاں، نوے فیصد ڈرامے اور بے شمار نظمیں اپنے رسالوں کے ساتھ غائب ہوچکی ہیں۔تو میں نے سوچا، posterityکے ذریعے رد کیے جانے کے لیے بھی ان چیزوں کا ٹیبل پر ہونا ضروری ہے۔تو میں نے پرانے رسالوں کی گرد جھاڑنا شروع کردیا۔ان میں سے انتخاب کے لیے مجھے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی دو وجہیں تھیں۔اول تو ظاہر ہے دو سو سے زائد نظمیں اگر ایک کتاب میں شامل کی جائیں تو کتاب چھ سات سو صفحات تک ضخیم ہوہی جائے گی کیونکہ میری زیادہ تر نظمیں دو سے تین صفحات یا ان سے اوپر کی ہوتی ہیں اور شاعری کی کتاب(سوائے کلیات کے)کبھی اتنی ضخیم نہیں ہوسکتی۔دوسری وجہ یہ کہ مختلف genresآپس میں گڈ مڈ ہو کر جانے کیا گل کھلائیں۔آخر میں میں نے فیصلہ کیا کہ آزاد اور پابند نظموں کو کسی بعد کے مجموعے کے لیے رہنے دوں۔نثری نظمیں یوں بھی میری کمزوری رہی ہیں کیونکہ آزاد اور پابند نظموں کے مقابلے مجھے یہ زیادہ challengingنظر آتی ہیں۔نثری نظم میں نہ صرف یہ کہ اس کے داخلی آہنگ یعنی internal rythmکو پکڑے رکھنے کے لیے آپ کے پاس کوئی کوزہ نہیں ہوتا، بلکہ حصار بند ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔دوسری طرف قاری کا mental blockاس کے معروضی مطالعے کے راستے میں اس کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔نثری نظم کے لیے آپ وہی toolsاستعمال نہیں کرسکتے جو نثرپاروں میں استعمال ہوتے ہیں نہ ہی پابند و آزاد نظموں کے toolsیعنی بحرو ردیف و قافیہ کا استعمال آپ کرنا چاہتے ہیں جن کی مدد سے عام شاعر گلی کوچوں میں قاری یا سامع کو ٹھیک اسی طرح اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں جس طرح کتا پکڑنے والے لوہے کے شکنجے سے کتوں کو آسانی سے پکڑ لیتے ہیں۔یہی وہ چیلنج ہے جسے شاعر کو نثری نظم لکھتے وقت قبول کرنا پڑتا ہے اور یہی وہ چور زمین ہے جس میں زیادہ تر نثری نظم لکھنے والے دفن ہوجاتے ہیں۔دراصل نثری نظم ایک آزاد ماحول کی بات کرتی ہے جہاں شاعر اورقاری؍سامع کے درمیان ایک دوستانہ اور کھلی فضا ہوتی ہے، ایک free-playکا منظرنامہ ہوتا ہے۔دراصل جسے کنفیوزڈ قاری نثری نظم سمجھتے ہیں اس کا سارا کھیل ہی اس کے لفظوں کے اندرونی نظام میں پوشیدہ ہے۔شاعری کے اس داخلی آہنگ اور اس کے musical dynamicsکو سمجھنا ایک ایسے قاری کے بس کی بات نہیں جس کا ذہن پہلے سے conditionedہو ۔اور جب ہم musical applicationکی بات کرتے ہیں تو ایک موسیقار سے بہتر کون شاعری کے امکانات کو سمجھ سکتا ہے۔آج ساری دنیا میں فلمی اور غیر فلمی lyricsمیں نوے فیصد نثری نظموں کا استعمال ہوتا ہے کیونکہ موسیقی بحر کی جکڑ بندیوں میں اپنی آزادی کھو بیٹھتی ہے،ظاہر ہے اسے ان جکڑ بندیوں کو توڑ کر لفظ کے درون میں داخل ہونا پڑتا ہے جہاں ایک بے کراں کائنات موجود ہے۔صوتی تجربات کی ساری زمینیں وہیں پائی جاتی ہیں۔خود کلاسیکی کے استاد راگ الاپتے وقت بحر کے زاویہ قائمہ سے نکل کر ایک لفظ یا دو یا تین الفاظ کی تکرار پر خود کو مجبور پاتے ہیں کیونکہ ہر لفظ کے ایٹم کے اندر rythmکی جو انرجی بند ہے اسے ایک گلوکار سے بہتر کون جان سکتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ گلوبل سطح پر فلم، آپیرا اور منظوم ڈراموں میں یہ transitionبہت تیزی سے نہیں ہوا۔اسے اس تک پہنچنے کے لیے دہائیاں لگ گئیں۔پہلی بار جب موسیقی کا زبان سے واسطہ پڑاتو یہ غزل کی ہیت اپنانے پر مجبور ہوئی۔پھر اس نے نظم کی ہیت اپنائی بشرطیکہ وہ غزل کے آس پاس رہے۔پھر آزاد نظم کا دور آیااور اسے کچھ کچھ کھلی ہوا کا احساس ہونے لگا اور اب نثری نظم گلوبل سطح پر اپنے کرشمے دکھارہی ہے۔اس میں چنداں حیرت کی بات نہیں کہ چند exceptionsبھی ہیں جب آپ ساٹھ سال پیچھے جاکر سہگل کا’اک بنگلہ بنے نیارا، بسے اس میں کنبہ سارا‘میں نثری نظم کی آنچ محسوس کرتے ہیں تو دوسری طرف اے آر رحمن ہیں جن کے ننانوے فیصد گیت نثری نظم کی ہیت پر استوار رہتے ہوئے بھی اپنے کچھ کچھ گیتوں میں وہ پابند نظموں یا آزاد نظموں کی طرف راغب نظر آتے ہیں۔یہاں میرا مقصد نثری نظم کی حمایت کرنا نہیں ہے کیونکہ حمایت اس کی کی جاتی ہے جو کمزور ہو۔نثری نظم تو اتنی طاقتور صنف بن چکی ہے کہ آج ساری دنیا میں جو بھی شاعری ہورہی ہے وہ نثری نظم کی ہیت میں ہورہی ہے۔خود افضال احمد سید(جنہیں میں نثری نظم کے حوالے سے برصغیر کا سب سے بڑا زندہ شاعر تسلیم کرتا ہوں)اپنی جن نظموں کی بدولت زندہ رہیں گے وہ ان کی نثری نظمیں ہیں۔یہاں میں یہ بھی بتادوں کہ میں آزاد یا پابند نظموں کو نثری نظموں سے کم تر نہیں سمجھتا۔دراصل ہر نظم کی اپنی internal dynamicsہوتی ہیں جو یہ طے کرتی ہیں کہ اسے آزاد ہونا ہے، پابند رہنا ہے یا نثری پیرہن میں آنا ہے۔ایسا کیوں ہے، یہ بتانا میرے لیے مشکل ہے۔خود میری کوئی نظم کیسے نثری نظم کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے، کیسے پابند ہوجاتی ہے اور کیسے آزاد، میںیہ بتانے سے قاصر ہوں۔مگر ایسا ہوتا ہے اور یہ عمل پوری طرح لاشعوری اور برجستہ ہے۔میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں میں نے اپنی آزاد نظم ’محشرستان‘ کو لکھنے میں وہی تھرل محسوس کیا ہے جو نثری نظم ’تخلیق کا نوحہ‘ یا پابند نظم ’پہلا انسان‘ میں محسوس کیا تھا۔
یہ تو ہوئی genericگفتگو جس پر بحث چلتی رہے گی۔اب میں تھوڑا بہت یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ شاعری میری نظر میں کیا ہے اور میری شاعری کے ابلاغ میں مصیبتیں کیوں کھڑی ہوتی ہیں۔لیکن اب جو میں یہ بتانے والا ہوں وہ ایسا کچھ نہیں ہے کہ آپ اس سے کچھ فیض اٹھا پائیں گے۔لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ کہ آپ ہر کام کسی فائدے کے لیے کریں۔
فرض کیجیے کہ چلتے چلتے ہم ایک ایسے شہر میں پہنچ جاتے ہیں جہاں سارا کچھ تو وہی ہے جو کم و بیش ہمارے شہروں میں ہم دیکھتے آئے ہیں، مگر اس شہر اور ہمارے شہر کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے۔جہاں ہمارے شہر دائمی طور پر اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہیں جنہیں ہم صرف اس لیے دیکھ پاتے ہیں کیونکہ ان میں برقی روشنیوں کا انتظام ہوتا ہے یا سورج یا چاند ان پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں، اس کے برعکس یہ فرضی شہر جس کا میں ذکر کررہا ہوں ہر وقت روشنی میں ڈوبا رہتا ہے، اتنی تیز روشنی کہ اس میں کچھ بھی نظر نہیں آتااور یہ روشنی اس شہر کی زمین، اس کے درودیوار سے پھوٹتی رہتی ہے۔پھر اس شہر کے اسٹریٹ لیمپ جل اٹھتے ہیں۔مگر یہ لیمپ عجیب ہیں، ہمارے اسٹریٹ لیمپ سے بالکل مختلف کیونکہ یہ روشنی کی بجائے اندھیرا انڈیلتے ہیں ۔کچھ اسی طرح سورج اور چاند جب روشن ہوتے ہیں تو وہ روشنی کی بجائے اندھیرا پھینکتے ہیں اور ہماری آنکھیں اس قابل ہوجاتی ہیں کہ اس اندھیرے کی مدد سے روشنی کی شدت کو کم کرکے چیزوں کو دیکھ پائیں۔اس طرح ہمیں شہر کے خط و خال دکھائی دینے لگتے ہیں۔شاعری دراصل اسی عجیب و غریب شہر کی داستان ہے جسے دیکھنے کے لیے آپ کو تیرگی کا سہارا لینا پڑتا ہے، اپنے تحت الشعور کی تیرگی، ماقبل تاریخ کے گپھاؤں کی تیرگی، primordial watersکی تیرگی جسے دیوتا، راکشش اور دانب متھ رہے ہیں۔جہاں پین گو اپنے اولین انڈے کو توڑ کر کائنات کو شکل دے رہا ہے، جہاں کے پانیوں سے نکل کر میڈ جو سا اور افعی زلف عورتیں، اور نیم دیوتا آج کے آرینا میں اپنا پرانا کھیل کھیل رہے ہیں،جہاں تخلیق اپنی روحانی بستیاں بسا رہی ہے، نجات یا غارت کی کہانی لکھ رہی ہے۔کیونکہ ہمارا حال اور کچھ نہیں اس ٹائم کا ہی ایک حصہ ہے جسے ہم ultimate timeکہہ سکتے ہیں جہاں prehistorical time, mythological timeاور historical timeایک ہوجاتے ہیں۔ہمارا وجود وہی روایتی مقدس کہانی ہے جسے ہمارے اندر کا قصہ گو ابتدائے آفرینش سے ، گپھاؤں کے اندر الاؤ کے پہلے دنوں سے دہراتا آرہا ہے اور آج ہم انٹرنیٹ سے مشتہر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔بہت زیادہ روشنی میں شاعری مرجاتی ہے۔دوسری طرف ، شاعری نے اگر روز مرہ کی خارجی سچائیوں سے فرار حاصل نہ کیا، اگر اس نے سننے والوں کو ان کی اپنی عادتوں کے ملبوں سے باہر آنے پر مجبور نہیں کیا، اگر اس نے ultimate timeمیں جینا نہیں سیکھا تو وہ شاعری نہیں ہے۔
2 تبصرے:
صدیق عالم سے میرا پہلا تعارف بطور افسانہ نگار رہا ہے اور ان کی اس حیثیت کا میں معترف ہوں اور مداح بھی۔ ’لیمپ جلانے والے‘ اور پھر ’بین‘ کا بیانیہ ادبی دنیا میں صدیق عالم کی موجودگی کے لیے کافی ہے تاہم بطور شاعر ان کی شخصیت کو ’’پتھر ہوئی کشتی‘‘ نے جس شدت کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے وہ ان کی ایک الگ شناخت ہے۔ حالانکہ ’’پتھر میں کھدی ہوئی کشتی‘‘ ان کی کچھ نظموں کا انتخاب ہے تاہم یہ انتخاب بہت عمدہ ہے۔ بہترین نظمیں اور تہہ دار خیالات کے لباس میں لپٹی ان کی یہ نظمیں بآسانی گرفت میں نہیں آتیں، اس میں پرت در پرت معانی کے ہزار رنگ پوشیدہ نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم نے مفہوم تک رسائی حاصل کی لی مگر اگلے ہی لمحے میں ایک اور جہت آشکار ہو تی ہے اور نظم کئی Dimension میں منقسم ہوتی محسوس ہوتی ہے ۔ اسی لیے بارہا یہ محسوس ہوتا ہے کہ صدیق عالم کی نظمیں Two Dimension والی نظمیں نہیں ہیں بلکہ ان میں ایک تھرڈ Dimension ہے جو ان نظموں کو غزل کے قریب کر دیتا ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں اور چھوٹی بڑی باتوں کا تجربہ کرنے کے بعد انہیں نظموں میں جس طرح سے پرویا گیا ہے وہ ایک نئے اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔
میں ذاتی طور پر ادب کی اس شکل سے خاص دلچسپی نہیں رکھتا جو بآسانی میرے ذہن میں اپنے اطراف کھول دے۔ میرا ماننا ہے کہ ادب زندگی ہے یا زندگی ہی جیسی ایک تصویر ۔اور جب زندگی اتنی آسان فہم نہیں یا جب زندگی اتنی تہہ دار اور پرپیچ ہے جو ہر لمحے اپنے رنگ بدلتی رہتی ہے ، ایسی صورت میں ادب جو اس کی ہی ایک شکل ہے ، ایک سیدھے خط پر کس طرح تعمیر ہو سکتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اسے تہہ دار ہونا چاہیے جس سے معانی برآمد کرنے کے لیے ذہن کو کچھ دیر کے لیے خیالوں کی وادیوں کا مسافر بننا پڑے ۔ اسے سیدھی لکیر پر چلنے والا نہیں بلکہ اونچے نیچے اور ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چلنا چاہیے تاکہ جب ذہن ان راستوں سے گزرے تو اسے زندگی کے لا انتہا معانی سمجھنے کا موقع ملے۔ صدیق عالم نے اپنی نظموں میں اس کا جتن کیا ہے ۔ ان کی نظموں میں یہ رنگ پوری طرح محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے اس مختصر سے مجموعے کے لیے ایک پر مغز مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں نثری نظموں ، شاعری اور موسیقی کے درمیان رشتوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ اس مقدمے کے مطالعے کے بعد یہ یقین ہونا جانا بعید نہیں ہوتا کہ جو شخص کسی فن پر اتنی گہری معلومات رکھتا ہے وہ اس فن میں کس درجۂ کمال کو چھو رہا ہوگا۔ زندگی ، فنکار، فنکار کا باطن ، خارجی دنیا اور اس میں تیرتے سایوں کی ان گنت تصویریں ان کی نظموں میں ابھرتی ہیں اور ذہن و دل میں ارتعاش پیدا کر کے ایک قدم اور آگے بڑھتی ہیں جہاں ایک نیا جہان قاری کو اپنے دام میں لینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ صدیق عالم کی نظموں کو کسی خاص طرح کی شاعری کے ساتھ وابستہ کرنا مشکل ہے۔ ان کے اندر ایک کائنات موجود ہے مگر یہ کائنات زمان و مکان سے پرے بھی اپنا ایک وجود رکھتی ہے ۔ اس کائنات کا دائرہ حیطۂ احساس میں لایا نہیں جاسکتا کہ اس کا واسطہ امکان سے ہے جو لامحدود ہے ۔صدیق عالم نے اچھی نظمیں کہی ہیں اور ایک اچھے فنکار سے اس طرح کی نظموں کی مزید روشنیاں حاصل ہونے کی توقع ہونی چاہیے۔
siddique alam ki nazmon ke mutale ke baad ik taassur
ایک تبصرہ شائع کریں