سالم سلیم کی شاعری میرے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث رہی ہے۔ یہ شخص کم شعر کہتا ہے، اور اس کے یہاں لفظوں کے انتخاب اور خیال کی بندش کا طریقہ مخصوص کلاسیکی لفظیات کے باوجود کچھ انوکھا ہے۔ غزل میں سالم سلیم کا رویہ میر کی طرح مکمل سپردگی والا ہے، مگر کہیں کہیں یہ خود سپرد عاشق خدا سے بھی بھڑ جاتا ہے، مذہب، فلسفے اور سماج پر کچھ بے باکانہ اظہار بھی اس زہر میں ڈوبی ہوئی عاشقانہ برچھی کے ساتھ سالم کی غزلوں کے ہاتھ میں دکھائی دیتا ہے۔اکیسویں صدی میں غزل اپنے چہرے تراش رہی ہے، اب اس میں وہ کتنی کامیاب ہوپاتی ہے، کتنی ناکام، اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا، مگر ان غزلوں کی ہنرمندی خود کو منوانے کا سلیقہ جانتی ہے، اور حالانکہ ہندوستان میں اچھی غزل کہنے والے نوجوان انگلیوں پر ہی گنے جاسکتے ہیں لیکن جتنے لوگ بھی اس پردے پر نمایاں ہوئے ہیں، ان میں سالم سلیم کی غزل نے بھی اپنی اہم جگہ بنائی ہے۔
1
بدن سمٹا ہوا اور دشتِ جاں پھیلا ہوا ہے
سو تا حدِّ نظر وہم وگماں پھیلا ہوا ہے
ہمارے پاؤں سے کوئی زمیں لپٹی ہوئی ہے
ہمارے سر پہ کوئی آسماں پھیلا ہوا ہے
یہ کیسی خامشی میرے لہو میں سرسرائی
یہ کیسا شور دل کے درمیاں پھیلا ہوا ہے
تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب
ابھی تک میرے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا ہے
حصارِ ذات سے کوئی مجھے بھی تو چھڑائے
مکاں میں قید ہوں اور لا مکاں پھیلا ہوا ہے
2
بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں گوشوارۂ خواب
سو ہم اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں خسارۂ خواب
وہ اک چراغ مگر ہم سے دور دور جلا
ہمیں نے جس کو بنایا تھا استعارۂ خواب
چمک رہی ہے اک آواز میرے حجرے میں
کلام کرتاہے آنکھوں سے اک ستارۂ خواب
میں اہلِ دنیا سے مصروفِ جنگ ہو جاؤں
کہ پچھلی رات ملا ہے مجھے اشارۂ خواب
عجب نہیں مری نیندیں بھی جل اٹھیں اس بار
دبا ہوا مرے بستر میں ہے شرارۂ خواب
3
دالان میں کبھی کبھی چھت پر کھڑا ہوں میں
سایوں کے انتظار میں شب بھر کھڑا ہوں میں
کیا ہو گیا کہ بیٹھ گئی خاک بھی مری
کیا بات ہے کہ اپنے ہی اوپر کھڑا ہوں میں
پھیلا ہوا ہے سامنے صحرائے بے کنار
آنکھوں میں اپنی لے کے سمندر کھڑا ہوں میں
سناّٹا میرے چاروں طرف ہے بچھا ہوا
بس دل کی دھڑکنوں کو پکڑ کر کھڑا ہوں میں
سویا ہوا ہے مجھ میں کوئی شخص آج رات
لگتا ہے اپنے جسم سے باہر کھڑا ہوں میں
اک ہاتھ میں ہے آئینۂ ذات و کائنات
اک ہاتھ میں لئے ہوئے پتھر کھڑا ہوں میں
4
دشت کی ویرانیوں میں خیمہ زن ہوتا ہوا
مجھ میں ٹھہرا ہے کوئی بے پیرہن ہوتا ہوا
اول اول کچھ سہارا دے رہا تھا ایک خواب
آخر آخر وہ بھی آنکھوں کی جلن ہوتا ہوا
ایک پرچھائیں مرے قدموں میں بل کھاتی ہوئی
ایک سورج میرے ماتھے کی شکن ہوتا ہوا
ایک کشتی غرق میری آنکھ میں ہوتی ہوئی
اک سمندر میرے اند ر موجزن ہوتا ہوا
ہو سکے تو تم بھی آ کر دیکھنا اک دن یہاں
روح کے اندر کوئی کارِ بدن ہوتا ہوا
میرے سارے لفظ میری ذات میں کھوئے ہوئے
ذکر اُس کا انجمن در انجمن ہوتا ہوا
5
اک ریت کا بگولہ مجھ کو اچک رہا تھا
خود اپنی جستجو تھی سو میں بھٹک رہا تھا
کمرے میں اک اداسی کیسی مہک رہی تھی
آنکھوں سے ایک آنسو کیسا چھلک رہا تھا
یہ بارِ جسم آخر میں نے اٹھا لیا ہے
اعضا چٹخ رہے تھے اور میں بھی تھک رہا تھا
مجھ میں کسی کی صورت کیا گل کھلا رہی تھی
باہر سے ہنس رہا تھا اندر سسک رہا تھا
یہ میری خامشی بھی لے جائے گی کہاں تک
میں آج صرف اس کی آواز تک رہا تھا
6
جو بجھ گیا اسی منظر پہ رکھ کے آیا ہوں
میں سب اثاثۂ دل گھر پہ رکھ کے آیا ہوں
بتا میں کیا کروں اب اے مری تہی دستی
کہ جتنے خواب تھے بستر پہ رکھ کے آیا ہوں
جو لے گئی اسے موجِ فنا تو حیرت کیا
میں اپنا جسم سمندر پہ رکھ کے آیا ہوں
ہرا بھرا ہوں بہاروں کے زخم کھاتے ہوئے
ان انگلیوں کو گلِ تر پہ رکھ کے آیا ہوں
یہ میں نہیں مری پرچھائیں ہے ترے آگے
کہ اپنے آپ کو میں گھر پہ رکھ کے آیا ہوں
بہت نڈھال ہوئی ہے تھکن سے روح مری
میں اپنی خاک بدن سر پہ رکھ کے آیا ہوں
7
کام ہر روز یہ ہوتا ہے کس آسانی سے
اس نے پھر مجھ کو سمیٹا ہے پریشانی سے
مجھ پہ کھلتا ہے تری یاد کا جب بابِ طلسم
تنگ ہو جاتا ہوں احساسِ فراوانی سے
آخرش کون ہے جو گھورتا رہتا ہے مجھے
دیکھتا رہتا ہوں آئینے کو حیرانی سے
میری مٹی میں کوئی آگ سی لگ جاتی ہے
جو بھڑکتی ہے ترے چھڑکے ہوئے پانی سے
تھا مجھے زعم کہ مشکل سے بندھی ہے مری ذات
میں تو کھلتا گیا اس پر بڑی آسانی سے
کوئی ہنگامہ کریں صبح کے آجانے تک
رات کٹنے کی نہیں قصۂ طولانی سے
8
خود اپنی خواہشیں خاکِ بدن میں بونے کو
مرا وجود ترستا ہے میرے ہونے کو
یہ دیکھنا ہے کہ باری مری کب آئے گی
کھڑا ہوں ساحلِ دریا پہ لب بھگونے کو
ابھی سے کیا رکھیں آنکھوں پہ سارے دن کا حساب
ابھی تو رات پڑی ہے یہ بوجھ ڈھونے کو
نہ کوئی تکےۂ غم ہے نہ کوئی چادرِخواب
ہمیں یہ کون سا بستر ملا ہے سونے کو
وہ دور تھا تو بہت حسرتیں تھیں پانے کی
وہ مل گیا ہے تو جی چاہتا ہے کھونے کو
9
کچھ بھی نہیں ہے باقی بازار چل رہا ہے
یہ کاروبارِ دنیا بے کار چل رہا ہے
وہ جو زمیں پہ کب سے اک پاؤں پر کھڑا تھا
سنتے ہیں آسماں کے اُس پار چل رہا ہے
کچھ مضمحل سا میں بھی رہتا ہوں اپنے اندر
وہ بھی بہت دنوں سے بیمار چل رہا ہے
شوریدگی ہماری ایسے تو کم نہ ہو گی
دیکھو وہ ہو کے کتنا تیار چل رہا ہے
تم آؤ تو کچھ اُس کی مٹی اِدھر اُدھر ہو
اب تک تو دل کا رستہ ہموار چل رہا ہے
10
مرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے
اب مجھے خود سے نکلنے کی اجازت دی جائے
موت سے مل لیں کسی گوشۂ تنہائی میں
زندگی سے جو کسی دن ہمیں فرصت دی جائے
بے خدوخال سا اک چہرا لئے پھرتا ہوں
چاہتا ہوں کہ مجھے شکل و شباہت دی جائے
بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لئے جنسِ وجود
شرط یہ ہے کہ مرے جسم کی قیمت دی جائے
بس کہ دنیا مری آنکھوں میں سما جائے گی
کوئی دن اور مرے خواب کو مہلت دی جائے
11
نہ چھین لے کہیں تنہائی ڈر سا رہتا ہے
مرے مکاں میں وہ دیوار و در سا رہتا ہے
کبھی کبھی تو ابھرتی ہے چیخ سی کوئی
کہیں کہیں مرے اندر کھنڈر سا رہتاہے
وہ آسماں ہو کہ پرچھائیں ہو کہ تیرا خیال
کوئی تو ہے جو مرا ہم سفر سا رہتاہے
میں جوڑ جوڑ کے جس کو زمانہ کرتا ہوں
وہ مجھ میں ٹوٹا ہوا لمحہ بھر سا رہتاہے
ذرا سا نکلے تو یہ شہر الٹ پلٹ جائے
وہ اپنے گھر میں بہت بے ضرر سا رہتاہے
بلا رہا تھا وہ دریا کے پار سے اک دن
جبھی سے پاؤں میں میرے بھنور سا رہتا ہے
نہ جانے کیسی گرانی اٹھائے پھرتا ہوں
نہ جانے کیا مرے کاندھے پہ سر سا رہتا ہے
12
پسِ نگاہ کوئی لو بھڑکتی رہتی ہے
یہ رات میرے بدن پر سرکتی رہتی ہے
میں آپ اپنے اندھیروں میں بیٹھ جاتا ہوں
پھر اس کے بعد کوئی شئے چمکتی رہتی ہے
ندی نے پاؤں چھوئے تھے کسی کے اس کے بعد
یہ موجِ تند فقط سر پٹکتی رہتی ہے
میں اپنے پیکرِ خاکی میں ہوں مگر مری روح
کہاں کہاں مری خاطر بھٹکتی رہتی ہے
درختِ دل پہ ہوئی تھی کبھی وہ بارشِ لمس
یہ شاخِ زخم ہر اک پل مہکتی رہتی ہے
13
ہنگامۂ سکوت بپا کر چکے ہیں ہم
اک عمر اس گلی میں صدا کرچکے ہیں ہم
اپنے غزالِ دل کا نہیں مل رہا سراغ
صحرا سے شہر تک تو پتا کرچکے ہیں ہم
اب تیشۂ نظر سے یہ دل ٹوٹتا نہیں
اس آئینے کو سنگ نما کر چکے ہیں ہم
ہر بار اپنے پاؤں خلا میں اٹک گئے
سو بار خود کو رزقِ ہوا کر چکے ہیں ہم
اب اس کے بعد کچھ بھی نہیں اختیار میں
وہ جبر تھا کہ خود کو خدا کر چکے ہیں ہم
14
اک نئے شہرِ خوش آثار کی بیماری ہے
دشت میں بھی درو دیوار کی بیماری ہے
ایک ہی موت بھلا کیسے کرے اس کا علاج
زندگانی ہے کہ سو بار کی بیماری ہے
بس اسی وجہ سے قائم ہے مری صحتِ عشق
یہ جو مجھ کو ترے دیدار کی بیماری ہے
لوگ اقرار کرانے پہ تلے ہیں کہ مجھے
اپنے ہی آپ سے انکار کی بیماری ہے
یہ جو داغوں کی طرح لفظ چمک اٹھتے ہیں
صرف اک صورتِ اظہار کی بیماری ہے
گھر میں رکھتا ہوں اگر شور مچاتی ہے بہت
میری تنہائی کو بازار کی بیماری ہے
ٹھیک ہوتے ہی اچانک میں لرز اٹھتا ہوں
لگ رہا ہے کسی بیمار کی بیماری ہے
15
زماں مکاں سے بھی کچھ ماورا بنانے میں
میں منہمک ہوں بہت خود کو لا بنانے میں
چراغِ عشق بدن سے لگا تھا کچھ ایسا
میں بجھ کے رہ گیا اس کو ہوا بنانے میں
یہ دل کہ صحبتِ خوباں میں تھا خراب بہت
سو عمر لگ گئی اس کو ذرا بنانے میں
گھری ہے پیاس ہماری ہجومِ آب میں اور
لگا ہے دشت کوئی راستا بنانے
مہک اٹھی ہے مرے چار سو زمینِ ہنر
میں کتنا خوش ہوں تجھے جا بہ جا بنانے میں
16
سکوتِ ارض و سما میں خوب انتشار دیکھوں
خلا میں اپنی صدا کا پھیلا غبار دیکھوں
عجب نہیں ہے کہ آ ہی جائے وہ خوش سماعت
دیارِ دل سے میں کیوں نہ اس کو پکار دیکھوں
کھڑی ہے دیوار آنسووں کی مرے برابر
تو کس طرح میں تری تمنا کے پار دیکھوں
بکھرتا جاتا ہوں جیسے تسبیح کے ہوں دانے
جب اس کے آنسو قطار اندر قطار دیکھوں
وہ میرا اثبات چاہتا ہے سو جبر یہ ہے
میں اپنے ہونے میں اس کو بے اختیار دیکھوں
جو ایک دم میں تمام روحوں کو خاک کر دے
بدن سے اڑتا ہوا اک ایسا شرار دیکھوں
بہت دنوں سے وہاں میں اپنا ہی منتظر ہوں
تو خود کو اک دن تری گلی سے گزار دیکھوں
17
بدن تھا ٹھہرا ہوا روح بھاگتی ہوئی تھی
عجیب جنگ مرے درمیاں چھڑی ہوئی تھی
میں سجدہ ریز ہوں دہلیزِ آسماں پہ ابھی
کہ مجھ کو خلعتِ خاکی یہیں ملی ہوئی تھی
چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز
جو میرے سینے میں اک روز خامشی ہوئی تھی
بڑھا کے رکھا گیا ہے حسابِ روزِ جزا
نہ جانے اس کے لئے کون سی کمی ہوئی تھی
چمک گئے مری آنکھوں میں انفس و آفاق
کہ تیرے دھیان سے دم بھر کو روشنی ہوئی تھی
جلا گیا ہے لہو میں کوئی چراغِ سخن
بہت دنوں سے طبیعت مری بجھی ہوئی تھی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں