’’قاری سے بڑا جوہر شناس اور کون ہوسکتا ہے کہ شعر ادب تو معاملہ ہی تخلیق کار اور قاری کے درمیان ہے،یہ نقاد بیچ میں کہاں سے آئے گا۔ختم کلام اسی پر ہے کہ ادب میں نقاد کا کوئی کردار نہیں ہے جو رائے دینے کے ساتھ حکم بھی چلاتا ہے اور فتویٰ اور ڈگری بھی صادر کرتا ہے۔وہ قاری کواپنی آزادنہ رائے قائم کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔بلکہ اصرار کرتا ہے کہ فن پارے کو میرے نظریے کے مطابق اور میری عینک سے دیکھو۔اور اسی گڑھے میں گرجاؤ جو میں نے تمہارے لیے کھود رکھا ہے۔‘‘
(میر کے تاج محل کا ملبہ: ظفر اقبال)
’’۔۔۔۔۔مشکل یا مبہم یا ناپسندیدہ شاعری کو مطعون کرتے وقت ہم صاحب ذوق ، سمجھ داریا پڑھے لکھے قاری کے جس تصور کا سہارا لیتے ہیں وہ فرضی ہے۔یہ شکایت کہ فلاں نظم یا فلاں شاعر خراب ہے یا ناپسندیدہ ہے کیوں کہ وہ پڑھے لکھے یا صاحب ذوق قاری کی گرفت میں نہیں آتی، غیر منطقی شکایت ہے۔اور یہ دلیل کہ چونکہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی فلاں نظم سے لطف اندوز ہونے کے لیے شرح کی ضرورت پڑتی ہے لہٰذا فلاں نظم خراب ہے یا ناپسندیدہ ہے، سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔‘‘
(صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ: شمس الرحمن فاروقی)
دنیا میں دراصل پرفیکٹ، مکمل اور بالکل صحیح کا جو بھی تصور ہے، وہ غلط ہے، جھوٹ ہے، بے بنیاد ہے۔یہ میں نہیں کہتا، یہ دراصل زمین کی وہ تاریخ کہتی ہے، جس نے اسے مسلسل ارتقا کی جانب سفر کرنے میں مدد دی ہے۔ایک بنیادی بات جو میری سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم جتنا جانتے ہیں، اتنا حیران ہوتے ہیں اور جتنا حیران ہوتے ہیں، اتنا خود کو موت کی طرف لے جاتے ہیں۔اسی لیے آگہی سے بڑا کرب کوئی نہیں ہے۔لیکن مکمل آگہی جیسی کوئی چیز ہی موجود نہیں ہے، اسی وجہ سے اس کا سفر طے ہونے میں ہی نہیں آتا۔یہ کسی قصیدے یا ہجو کی تمہید نہیں،میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اوپر جو یہ میں نے دو اقتباسات دیے ہیں، ان میں پہلا ایک مفروضہ ہے اور دوسرا اس مفروضے کا بالکل سیدھا سادا جواب۔عجیب مسئلہ یہ ہے کہ ظفر اقبال صاحب سمجھتے ہیں کہ شعر کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق انہیں اس لیے حاصل ہے کیونکہ پچپن سال سے وہ اسی میدان کے آدمی ہیں، توپھر فاروقی صاحب نے بھی تو ایک بڑا عرصہ تنقید کی نذر کیا ہے، ہمیں اگر اسی معیار کو ماننا ہے کہ کسی آدمی کی شعر کے بارے میں بات اس لیے مانی جائے کیونکہ وہ پچپن سال سے شعر کہہ رہا ہے، تو پھر ہم اس آدمی کو کیوں نظر انداز کریں جس نے تنقید کے میدان میں خم ٹھونک کر ایک وقت میں اچھے اچھوں کی چھٹی کردی تھی، جس نے تنقید کے میدان میں نہ صرف خود کو منوایا ، بلکہ اسی کی وجہ سے ہم دوسروں کو جاننے اور ماننے کے اہل ہوسکے۔تو پھر اپنے ایک تازہ ترین انٹرویو میں فاروقی صاحب نے اگر یہ بات کہی ہے کہ ظفر اقبال اب صرف شعر کے میدان میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں،ان کی جو اچھی شاعری تھی، وہ اپنی عمر کے ایک خاص حصے میں کرچکے ، مجھے تو اس پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آنا چاہیے۔بڑی عجیب سی بات ہے کہ ایک جانب ظفر اقبال صاحب کہتے ہیں کہ نقاد شاعری اور ادب کے حق میں فتویٰ دیتا ہے ، اس لیے اس کی بات نہیں ماننی چاہیے، اس کا فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے، تو صاحب شاعر کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ نقاد کے بارے میں فیصلہ کرتا پھرے۔ابھی مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آرہا، مگر کئی جگہوں پر فاروقی صاحب نے اس بات پر اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا ہے کہ بھئی نقاد کو تخلیق کارسے زیادہ اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟اسے ایک برینڈ میکر کے طور پر کیوں قبول کرلیا گیا ہے۔جب نقادخود چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہمیں اتنی اہمیت مت دیجیے۔تب آپ کس برتے پر اسے اتنی گالیوں سے نواز رہے ہیں۔ادب میں نقاد کو اہمیت دینے کی ضرورت ہو یا نہ ہو، مگر یہ بات سچ ہے کہ اگر شمس الرحمن فاروقی نہ ہوتے، تو ظفر اقبال کی اہمیت ہمیں تو کم از کم کبھی سمجھ میں نہ آتی۔کیونکہ زیادہ تر لوگ ادب میں صرف انگوٹھے چوسا کرتے ہیں، اکا دکا ہی اپنی زبان سے اچھے لوگوں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کو شناخت دلوانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔خیر، یہ ایک ضمنی بات تھی۔میں فاروقی صاحب کی اس بات سے مکمل طور پر اتفاق رکھتا ہوں کہ صاحب ذوق قاری کا تصور ایک فیک اور گمراہ کن تصور ہے، وہ جسے آپ صاحب ذوق قاری کی دلائی اڑائے رکھتے ہیں، دراصل وہ نقاد ہی ہے۔ایک اضافی بات یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جو لوگ اس ’صاحب ذوق قاری‘ کا بار بار ذکر کرتے ہیں، وہ دراصل درپردہ قاری سے اپنی باتوں، اپنی تخلیقات کو منوانے کے لیے انہیں نفسیاتی طور پر رشوت دیتے ہیں۔یعنی اگر میں مان لوں کہ ظفر اقبال صاحب شعر کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمارہے ہیں، وہ ٹھیک ہے، سچ ہے تو میں صاحب ذوق ہوں، وگرنہ بدذوق۔نقاد کو گالی دینے کی عادت اردو میں بہت پرانی ہے۔نقاد کیا بیچتا ہے، اس کی ضرورت ہی کیا ہے، ہم کسی نقاد کو نہیں مانتے ۔اس طرح کے جملے اکثر ان لوگوں کے منہ سے زیادہ سنائی دیتے ہیں، جنہیں نقاد گھانس نہیں ڈالتا۔لوگ نقاد کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ دیتے وقت بھول جاتے ہیں کہ اس وقت وہ خود ایک نقاد کے قالب میں ہیں۔ادب کیا، دنیا کا کوئی نظام بغیر نقاد کے نہیں چل سکتا۔نقاد نہ ہوتو ادب کا کاروبار ٹھپ پڑجائے گا۔نقاد ہی ہے، جسے یہ بھوت سوار رہتا ہے کہ ادب کی فالتو باتوں میں اپنا سرکھپائے اور گالیاں بھی کھائے۔دنیا کا ہر پیر پیغمبر پہلے نقاد ہوتا ہے، وہ جمی جمائی باتوں، روایتوں، تصورات اور رواجوں پر فکر کے ذریعے چوٹ کرتا رہتا ہے۔اسی طرح دنیا کا ہر ملحد نقاد ہے، ہر منافق نقاد ہے، ہر شاعر نقاد ہے، ہر فلسفی نقاد ہے ، حتٰی کہ ہر جاروب کش بھی ایک قسم کا نقاد ہوا کرتا ہے۔آپ ناقد کو زندگی کے کسی ایک شعبے سے الگ کرکے دیکھیے، وہ ایک مہینے میں تہس نہس نہ ہوجائے ،یہ ممکن نہیں۔
شاعری کا تصور بدل چکا ہے۔ہم اردو کو وہی تھکی ماندی، افسردہ، کھانستی ہوئی بوڑھی محبوبہ نہیں ماننا چاہتے۔ہم اس کے قاتل ہیں، ہم نے اپنے ہاتھ سے اس کا گلا گھونٹا ہے۔ظفر صاحب اپنے کئی مضامین میں کہتے ہیں کہ غزل کی نئی مابعدالطبیعات خلق ہونی چاہیے۔نیا نظام بننا چاہیے۔میں پوچھتا ہوں کہ صاحب آپ صرف کہتے ہی کہتے ہیں، یا اس پر عمل کرنے یا اس معاملے کو طول دینے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ آپ اس رویے کے قائل ضرور ہیں، مگر آدھے۔دیکھیے، ابھی آپ نے اپنے تازہ کالم ’دنیازاد41شائع ہوگیا‘ میں کیسی اوٹ پٹانگ باتیں کہیں۔آ پ کہتے ہیں کہ تصنیف حیدر اگر مجھے اس عہد کا سب سے بڑا شاعر مانتے ہیں تو یہ بھی مانتے ہونگے کہ میں سمجھتا ہوں کہ شعر کیا ہے۔‘ جبکہ میں نے ایسا کب کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ شعر کیاہے، آپ بس شعر کہنا جانتے ہیں، آپ کے اندر ایک للک ہے، ایک چیخ ہے، ایک گرج ہے جو اس وقت شاعری کی اس کھوسٹ کو ٹھکانے لگانے پر ہمیں اکسارہی ہے، یہ کام آپ سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔آپ کے شعر اگر میں نہ پڑھتا تو کبھی یہ نہ سمجھ پاتا کہ اپنی پرانی روایتوں کو دنیا کی باقی شاعری کی سطح پر کیسے لاؤں، کیسے غزل کا نیا جنم ہو،کیسے اس کے بدن پر لپٹی ہوئی بوسیدہ ایرانی قبا اتار کر اسے شارٹس پہناؤں۔مجھے یہ تحریک آپ سے ملی ہے، اور میرے بعد والوں کو بھی شاید ملے، ان کو، جو سوچتے ہیں، جو فکر کرتے ہیں، جو اس نظام کو واقعی بدلنا چاہتے ہیں۔تو اس ہوک کی وجہ سے جو آپ نے میرے دل میں پیدا کی ہے، اس کوشش پر جم کر قائم رہنے کی جو تحریک آپ نے مجھے عطا کی ہے، اس کی وجہ سے میں آپ کو اس عہد کا سب سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں۔فکری سطح پرآپ میر اور غالب کے ہم پلہ نہیں ہیں،یقین مانیے، اگر میں اس ایک معاملے کو نظر انداز کردوں، تو آپ کے کلام کا ایک بڑا حصہ کوڑیوں کے بھاؤ بھی خریدنے پر تیار نہ ہوپاؤں گا۔
آپ کو میری منطق ناقص، گنجلک اور عجیب سی معلوم ہوئی، جبکہ شعر کے معاملے میں اکثر اوقات آپ کی باتیں پڑھ کر میں سر پکڑکے بیٹھ جاتا ہوں کہ یہ وہی شخص ہے، جسے ہم نے اس عہد میں شاعری کا دیوتا بنا رکھا ہے۔یعنی کہ آپ ہی کے ذریعے سے یہ بات مجھ پر واضح ہوئی ہے کہ ضروری نہیں کہ جو آدمی نئے شعر کہتا ہووہ نئی شاعری کے تصور کو ٹھیک سے سمجھتا بھی ہو۔آپ نے اپنے اسی مضمون’میر کے تاج محل کا ملبہ‘ میں کہا کہ میر صاحب کے رونے کی تہذیب آپ کو مبالغے کی اس حد پر جاتی ہوئی معلوم ہوئی جہاں شاعری ظرافت کے میدان میں داخل ہوجاتی ہے۔یعنی
جو اس زور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
مجھے تو اس شعر میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، رونے کا دارومدار دو باتوں پر ہوتا ہے، اول یہ کہ رونے والے کا مزاج کیسا ہے، دوم یہ کہ اس پر کیا بیتی ہے۔اگر کوئی شخص بہت زیادہ پریشان ہے،اس کی فطرت میں چیخنا چلانا موجود ہے تو وہ اسی طرح روئے گا، جس طرح میر صاحب نے بیان کیا ہے۔اور آپ سے کس نے کہہ دیا کہ چیخ کررونایا بین کرنا صرف عورتوں کا طریقہ ہے،اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو مجھے زندگی کے اس شعبے میں آپ کے تجربے پر شک ہے۔میں نے فرسٹیٹڈ لڑکوں کو، مردوں کو چیختے ، روتے پکارتے دیکھا ہے، اصل زندگی میں بھی، فلموں میں بھی اور شاعری میں بھی۔آپ کہتے ہیں کہ رونے کی ایک تہذیب ہوتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ رونے اور ہنسنے کی کوئی تہذیب نہیں ہوتی۔یہ دونوں عمل کسی بھی واقعے سے انسان پرمرتب ہونے والے اثرات کو اجاگرکرتے ہیں، مثال کے طور پر یہ ممکن ہے کہ ایک ہی واقعہ ایک شخص کو چیخ چیخ کر رونے پر مجبور کردے اور دوسرے آدمی کی آنکھوں میں غم کی شدت کے باوجود آنسو تک نہ آئیں۔اسی طرح ہنسنے کا معاملہ ہے۔پھر آپ بھول جاتے ہیں کہ کلاسیکل شاعری ، کوئی آزادانہ قسم کی شاعری نہیں تھی،وہ کچھ اصولوں پر ٹکی ہوئی تھی۔ان کے فن کا پیمانہ ہمارے فن کے طریقوں سے میل نہیں کھا سکتا۔ان کے یہاں عاشق کے رونے کا طریقہ ہی یہی تھا اور معروضی سطح پر بھی یہ کوئی بہت غیر ممکن بات نہیں ہے۔پھر میر کا شعرغور سے پڑھیے، بڑی واجبی اور لاجیکل بات انہوں نے کہی ہے، رات کے سناٹے میں رونے، چیخنے ،پکارنے کی وجہ سے بہت حد تک ممکن ہے کہ ہمسایے کی نیند غارت ہوجائے، اس میں ایک تیسرا آدمی بھی کہیں موجود ہے، جو میر کو اس طرح رونے سے منع کررہا ہے، اورانہیں رونے کی وہی تہذیب سکھانا چاہتا ہے، جس کے قائل آپ ہیں کہ چھپ چھپ کر روئیے، اتنی زور سے نہیں کہ ہمسایہ اٹھ جائے، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ میر انسانی حقیقی تجربے کو نصیحت اور تہذیبی پابندیوں سے ہٹ کر دیکھ رہے ہیں۔لیکن اس کے برعکس آپ کے شعر کو اگر میں اتنا ہی معروضی ہوکر دیکھوں تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے شعر کو مشروط بنادیا ہے۔یعنی
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفر
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
’کسی ‘ کہہ کر آپ نے یہ شرط لگادی ہے، کہ جب کبھی آپ کسی بھی شخص سے مسکراتے ہوئے ملتے ہیں تو اس سے پہلے آپ روتے ضرور ہیں۔دوسرے اگر اس ’کسی‘ کو ایک خاص شخص یا معشوقہ کی علامت سمجھا جائے تو اس کے ملنے سے پہلے بھی آپ کا رونا شرط ہے۔اور دونوں جگہ یہ معاملہ بھی طے شدہ ہے کہ سامنے والا آپ کو صاف پہچان لیتا ہے کہ آپ اس سے ملنے سے پہلے روئے ہیں۔منطقی سطح پر مجھے یہ بات ماننے میں پریشانی ہے کہ کسی سے ملنے سے پہلے ہر بار روپانا کیسے ممکن ہے، اگر بہت معروضی ہوکر سوچنے لگوں تو اس شعر پر مجھے بھی ہنسی آنے لگے گی، مگر خدا کا شکر ہے کہ میرے کسی بھی فن کو سمجھنے کے اصول آپ سے بے حد مختلف ہیں۔اور نئے بھی،کیونکہ میرے پاس ایک اچھے خاصے بڑے عہد کا تنقیدی، علمی اور تخلیقی تجربہ موجودہے۔ظرافت شعر کو برا نہیں، نیا بناتی ہے۔ہم ہر اس بات پر پہلے ہنستے ہیں، جو نئی ہوتی ہے، جو ان سنی ہوتی ہے، جو اس سے پہلے ہم نے کبھی سنی نہیں ہوتی، اس لیے سننے میں کچھ اٹ پٹا سا محسوس ہوتا ہے۔لیکن اس کی عادت ڈلوانا بہت ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر پرانے پر اکتفا کرنا ہوگا اور پرانا ، اب اردو ادب میں پرانے پانی کی طرح باس مارنے لگا ہے۔
اب آپ کی ایک اور بات کی طرف آتا ہوں۔آپ کہتے ہیں کہ شاعری کی ٹرین میں درمیانی ڈبہ نہیں ہوتا۔صرف فسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس ہوتا ہے۔شعر کے بارے میں یہ رائے بالکل غلط ہے۔وہ کسی روایتی شاعر کا کہنا تھا کہ
شعر اچھا برا نہیں ہوتا
شعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
آپ کے ساتھ چھوٹا ساایک مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنی تردید کا ڈونگرا بہت پیٹتے ہیں، مگر جب اس کا وقت آتا ہے تو اپنی تصدیق پر اصرار کرنے لگتے ہیں، خیر یہ کوئی ایسی بری بات بھی نہیں لیکن شاعری کی ٹرین میں فسٹ کلاس اور تھرڈکلاس درجہ ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، درمیانی درجہ ضرور ہوتا ہے۔یہ وہی درمیانی درجہ ہے جس میں نئے مسافر،نئے تخلیق کار آسانی سے ٹکٹ خرید کر بیٹھ سکتے ہیں۔کیونکہ فسٹ کلاس والوں کامسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک بار اپنی سیٹھ پر قبضہ جمانے کے بعد کسی بھی شخص کو خواہ اس نے عقل کے کتنے ہی سکے کیوں نہ خرچ کیے ہوں،اس میں داخل ہونے نہیں دینا چاہتے۔درمیانی درجے کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں تجربے کی اجازت بھرپورہے۔وہی شعری تجربے جن کی بنیاد پر آپ الفاظ اور معنی دونوں کی ماہیت بدلنے کے ہنر پر قادر ہوسکتے ہیں۔پھر معنی کی سطح پر کم اور لفظ کی سطح پر زیادہ خود آپ کے یہاں ایسے بہت سے اشعار میں بغیر کسی خاص محنت کے پیش کرسکتا ہوں۔
ہمیں دیکھتے ہی پڑگئے اس کے ماتھے پر بل
اور ہمارے منہ سے نکلا صرف سلام سلام
وہیں پہ رہ گیا فقرہ جو کسنے والی تھی
ہنسی نہیں تھی ابھی اور پھنسنے والی تھی
وہاں سے کچھ بھی نہ ملتا مجھے مگر اک بار
جہاں سے روک رہے تھے مجھے میں جاسکتا
خود چھوڑ دیا ہم نے سروکار محبت
حالانکہ بہت اس میں خسارہ بھی نہیں تھا
اور پھر وہ شعر جن میں آپ نے نئے تلفظات رائج کرنے، نئے الفاظ پیدا کرنے وغیرہ پر زور دیا ہے۔ان میں تو شاید ہی دس بیس شعر ایسے مل پائیں گے جن میں کہیں کوئی معنی آفرینی جیسی چیز ہو۔میں اس مجبوری کو سمجھ سکتا ہوں۔شاعر کے دماغ کا مسئلہ یہ ہے کہ جب اسے کچھ نیا پیدا کرنا ہو تو سارا زور خارجی سطح کو بدلنے کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔آپ یہ چاہتے ہیں کہ کچھ نیا پیدا ہو، اور نئے کو معنی کی سطح پر پیدا کرنا بے حد مشکل کام ہے۔یہ کام تو غالب سے بھی شاید سو پچاس بار ہی ممکن ہوا ہو، آپ تو پھر ظفر اقبال ہیں، اس لیے شاعر کو نئے کا خیال آتے ہی شعر کی باہری شکل بدلنے اور اسے نیا بنانے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے، اور یہ اچھا عمل اس لیے ہے، کیونکہ نئے لفظ پہلے آتے ہیں، لفظ کے بغیر خیال کاوجود قائم رکھ پانا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔میں اس لفظی تجربے کی بہت قدر کرتا ہوں، کیونکہ یہ ایک نئی شعری دنیا خلق کروانے کی طرف ہمیں مائل کرتی ہے، یہ لوگوں کی تربیت کرتی ہے کہ انہیں کچھ نیا سننے کی عادت ہوسکے، وہ روکھے پھیکے عشق کے صحرائی اور جنونی مضامین سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔لفظوں کی اس دنیا میں معنی کی ستیا بھی خوب پیٹی ہے آپ نے، لیکن یہ بکواس بے حد توجہ طلب ہے کہ اسی سے تخلیق کے نئے دھارے پھوٹتے ہیں، جیسا کہ آپ کا ایک شعر ہے
مرے الفاظ ہیں سب کچھ معانی کے بجائے
توجہ چاہتا ہوں مہربانی کے بجائے
شعر وہ بلا نہیں ہے، جس کا مفہوم آپ نے خود بھی نہ جانے کیا سمجھ رکھا ہے جیسا کہ ہمارے ایک دوست سالم سلیم کے بقول آپ آج تک ہمیں شعری تازہ کاری کا مطلب ہی نہیں سمجھا پائے۔ہماری نظر میں روایت، غیرروایت، ان تمام باتوں سے شعریا شعریت کو کوئی علاقہ نہیں ہے۔شعر وہ ہوتا ہے، جو کسی بھی کونے سے، اپنے کسی ایک حصے سے ، ظاہراً یا باطناً صرف اور صرف نیا ہو، اگر اس کا پیرایہ نیا نہیں ہے تو مفہوم انوکھا اور ان سنا ہو اور اگر اس کا مفہوم بوسیدہ ہے تو اس کا لباس نیا ہو، لفظ، معنی ان سب سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔اسلوب کی تازہ کاری کو پیدا کرنے کے لیے شاعر نے کتنا زور لگایا ہے، یہ اہم ہے۔شاعری کا کام صرف لسی سے بھی چل سکتا ہے، اسے لسا کرنے کی ایسی کوئی ضرورت نہیں ، اگر لسی کے کسی نئے پہلو پر شاعر نے کوئی بات کہی ہو۔نیا شعر یا شعر کا نیا تصور اسی تازگی سے عبارت ہے۔مابعدالطبیعات خلق کرنے کا سارا تعلق ماورائیت سے ہے اورشعر کی اس ماورائیت کا رشتہ ذہنیت سے بھی ضروری ہے اور روحانیت سے بھی۔لفظ بدل کردیکھیے، معنی الٹ کردیکھیے، واقعہ دوہرائیے اور سوچیے کہ یوں ہوتا توکیا ہوتا۔ہاتھ میں قلم کاغذ لے کر کسی پارک کی بینچ پر بیٹھ کر ہم شعر نہیں کہہ سکتے۔شعر ہم تب کہتے ہیں، جب ہم کہنا چاہتے ہیں۔کیونکہ ہم ارادہ کرکے شعر لکھتے ہیں، الہام ولہام سب کھوٹی باتیں ہیں۔شاعری وحی نہیں ہے، جو بیٹھے بٹھائے اتر جائے، اس میں انسان کی اپنی ذاتی محنتوں کا بڑا دخل ہے۔اس میں رسک لینا ضروری ہے۔میں مانتا ہوں کہ شعر کی یہ تعریف اس انتخاب سے پوری طرح ثابت نہیں ہوتی، مگر یہ ان لوگوں کا ابتدائی معاملہ ہے، ان کی شروعات کیسی ہی ہو، مگر ان کا انت ذہن کی اسی اختراعی کوشش پر دھرا ہے، اور جو اس بات کو نہیں سمجھے گا، اپنے آٖ پ ختم ہوجائے گا، غزل اب ہندوپاک سے نکل کر دنیا کی بہترین ادبی مجلسوں میں اپنا لوہا منوانے نکل پڑی ہے، اس لیے اسے خود کو ہر طور پر جانچنا ہے، بدلنا ہے اور کسی بھی طرح کی احساس کم تری کا شکار نہیں ہونا ہے۔میں پاکستان کے ایک شاعر کونئے تصور شعر کے تعلق سے بہت پسند کرتا ہوں، جس کا نام ادریس بابر ہے۔ادریس بابر کو جتنا میں نے پڑھا ہے، ان کی شعری تازہ کاری کا میں اتنا ہی قائل ہوا ہوں۔بلکہ شعر میں نئے پن کی تحریک مجھے آپ کے بعد سب سے زیادہ انہی سے ملی ہے۔اس وقت ادریس بابر غزل کے میدان میں اپنی نوعیت کا اکلوتا سچا، کھرا اور بے باک شاعر ہے۔جس کی محنت اسے بعض اوقات آپ سے کہیں اونچا لے جاتی ہے۔اب شعر محض اپنے اندر تک سمٹے ہوئے مضمون کا مسئلہ نہیں ہے،اب ہر شعر ایک نیا پس منظر پیدا کرتا ہے۔جو چھوٹا سا چھوٹا واقعہ بھی ہوسکتا ہے اور بڑے سے بڑا حادثہ بھی۔
یہ کوئی ایسی متعصبانہ بات نہیں ہے، مگر کہے بغیر بات بنتی نظر نہیں آتی کہ غزل اب پاکستان سے زیادہ ہندوستان کا مسئلہ ہے، آپ کو شاید اس بات کا احساس نہیں ہے، مگر آپ کی کلیات’اب تک‘ اب پاکستان میں بہت سے سنجیدہ ادیبوں کے نزدیک بھی ایک لطیفے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔یہ تو ہم ہیں جو اسے سرآنکھوں پر بٹھائے ہیں، کیونکہ ظاہر ہے کہ غزل جیسی صنف اور اس کے اچھے شاعر کو ہمیں ہی اہمیت دینی ہے۔یہ کام آپ کے ملک میں نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہاں نظم کا رواج غزل سے زیادہ ہے۔اکا دکا نمونوں کے علاوہ پاکستان کی زیادہ تر معاصر غزل قبرپرچڑھائے جانے والے پھولوں کی مانندبس ایک روایت کا حصہ ہے، بلکہ بعض اہم لوگوں کا خود یہ ماننا ہے کہ غزل کو صرف اس کی تاریخی شان و شوکت کی وجہ سے ابھی تک ڈھویا جارہا ہے، وگرنہ اسے منوں مٹی میں گاڑ دینا چاہیے۔میں پہلے بھی اپنے ایک مضمون ’جدیدیت یا ظفر اقبالیت ‘ میں لکھ چکا ہوں کہ جدیدیت نے بھی کوئی بہت بڑا کمال نہیں کیا تھا، بس پرانی روایتی غزل سے چھٹکارا پانے کے لیے سانپ ، سنپولوں، مرغیوں، کتوں اور بکریوں کا سہارا لے لینا کوئی ایسی اہم بات نہیں ہوسکتی۔جدیدیت کا سب سے اہم رول صرف یہ ہے کہ اس نے غزل کی وہ صورت ہمیں دکھائی جو اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھی تھی۔لیکن معاملہ کیا بنا، لوگ پھر ایک ہی طرح کی شاعری کرنے لگے، حتی یہ کہ محمد علوی، عادل منصوری جیسے شاعروں میں تو بعض اوقات مضامین و اسلوب کا کوئی بہت اہم فرق بھی باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ہندو پاک کی تقسیم کا سب سے بڑا نقصان ان لوگوں نے جھیلا ہے، جن کے اندر شہرت کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر خود کو منوانے کا کوئی جنون نظر نہیں آتا۔اردو پاکستان کی سرکاری زبان کیا بنی کہ بہت سے متشاعروں کی بھی بن آئی، ایسے میں ان کی تو عظمت کے نعرے لگنے ہی تھے جن کو دوسروں کی بہ نسبت شعر کہنے کا سلیقہ کچھ زیادہ ہی تھا۔چنانچہ بانی و زیب غوری جیسے شاعروں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا جن کے سامنے ناصر کاظمی اور جون ایلیاکی شعر گوئی کی ایسی کوئی خاص اہمیت ہوہی نہیں سکتی۔کشور ناہید، جن کی پوری کلیات میں ایک شعر ڈھنگ کا نہیں ہے، جن کو زبان بھی ٹھیک سے لکھنی نہیں آتی، اردو ادب کی اہم شاعرات میں شمار ہونے لگیں۔اب اس سے زیادہ باہمی تحسین کا دور اور کیا ہوگا، جس کو آپ کے عہد میں رواج دیا گیا۔
ہندوستان کی نئی غزل کا مسئلہ اتنا چھوٹا اور غیر اہم بھی نہیں ہے کہ آپ اسے یونہی آدھے کالم میں آئیں بائیں شائیں کرکے اڑادیں۔آپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ معروضی سطح پر بتائیں کہ اگر یہ غزل نہیں ہے ، شاعری نہیں ہے تو پھر آپ کی نظر میں شاعری کیا ہے۔کیونکہ فسٹ کلاس اور تھرذ کلاس جیسی باتیں کرکے ہمیں اپنی بزرگی کے رعب میں لینا اور ادھر ادھر کی باتیں کرکے اسے ایک فالتوبحث ثابت کرنے کی کوشش کرنا ، آپ کے اپنے مقدمے کو کمزور کرتا ہے۔آپ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں محض فرحت احساس ہی ایک شاعر ہیں، تو میں آپ کے گوش گزارکرنا چاہتا ہوں کہ ان درجن بھر سے زائد نمونوں میں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیے، ہندوستانی غزل اس شاعر سے باطنی سطح پر کسی نہ کسی حد تک متاثر رہی ہے، تو اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ اگر آپ کو یہ شاعری پسند نہیں، تو پھرفرحت احساس کی شاعری سے بھی آپ کو خدا واسطے کا بیر ہونا چاہیے۔اس معاملے میں تب تو ہمیں آپ سے یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ آپ نے تب بھی ہمیں نہیں بتایا تھا کہ فرحت احساس اچھے شاعر کیوں ہیں، اور اب بھی آپ نہیں بتاتے کہ یہ شاعری بری شاعری کیوں ہے؟ظل الہی والا غیر منطقی حکم ادب میں نہیں چلتا، اس میں بات کہی گئی ہو تو ثابت کرنی پڑتی ہے،اور وہ اصول جو آپ دوسروں کی شاعری کو برا ثابت کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں، خود آپ کی شاعری پر بھی ان کا انطباق کیا جانا چاہیے۔
خیر، جہاں تک بات نئی نسل کی ہے آپ کو اس معاملے پر تھوڑا سا غور کرنا چاہیے تھا کہ جن لڑکوں(انتظار حسین صاحب کی نظر میں نوخیزیوں )کے اشعار میں نے آپ کے سامنے پیش کیے تھے، وہ ابھی بیس یا تیس کے پیٹے میں ہیں۔پھر مجھے حیرت ہوئی کہ بے ہودہ لوگوں کی تعریف کرتے کرتے، آپ لوگوں کا ذوق بھی واقعی متاثر ہوا ہے۔ورنہ آپ کو اس انتخاب میں وہ شعر مل جاتے ، جن میں نیا پن ہے، تازگی ہے، ہنر ہے، البیلا پن ہے ۔پھر یہ بات بھی ظاہر سی ہے کہ ادب ان لڑکوں کا مسئلہ بیس سال کی عمر سے ہے، بعضوں کا تو اس سے بھی کم عمری سے ہے، یہ اس سڑے ہوئے پانی سے نکلنے کے لیے ہاتھ پیر ماررہے ہیں۔اس ٹھنڈے، برفیلے اور رگوں کو جما دینے والے پانی سے باہر نکلنے میں ظاہر سی بات ہے کہ انہیں کچھ وقت لگے گا، جبکہ ان کی اپنی روایتیں، ان کے پیروں سے لپٹی ہوئی انہیں پھر اندر کی جانب کھینچ رہی ہیں۔ایسے میں یہ چھٹپٹاہٹ اور بھی اہم ہوجاتی ہے، آپ اپنے ماضی کا محاسبہ کرکے دیکھیں، آپ کے بہت سے معاصرین اس عمر میں کیا واقعی فکر کی ایسی ہی منزلوں پر تھے۔ان لوگوں نے نہ صرف غزل کہی ہے، بلکہ انہیں اپنے تخلیقی تجربوں پر بھرپور اعتماد بھی ہے، اور یہ اس کا اعتراف کرنا بھی جانتے ہیں۔اب نئی راہیں دو چار روز میں تو پیدا ہوتی نہیں ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اپنی انا پر ضرب لگنے کی وجہ سے یکسر اس تمام انتخاب کو مسترد کردیا۔امید ہے کہ یہ استرداد ان میں تخلیقیت کی مزید چنگاریاں پیدا کرے گا۔خیر وہ شعر، جن میں مجھے بے حد نیا پن محسوس ہوتا ہے،آپ کوسجھانا چاہوں گا،اور ہاں صرف لفظی سطح پر نہیں، معنوی سطح پر بھی۔
ذرا بھی دخل نہیں اس میں ان ہواؤں کا
ہمیں تو مصلحتاً اپنی خاک اڑانی ہے
(ابھیشیک شکلا)
درمیاں آیا ایسے وہ لمحہ کہ بس عشق کے در کی زنجیر ہلتی رہی
اڑگیا لے کے ہم کو براق بدن اور کھلا ہم نئے آسمانوں میں ہیں
(امیر امام)
عجب طلسمی فضا ہے ساری بلائیں چپ ہیں
یہ کس بیاباں میں رات دن ہم گزارتے ہیں
(امیر حمزہ ثاقب)
ہزار خواب مری ملکیت میں شامل تھے
میں تیرے عشق میں سرمایہ دار بن کے رہا
(غالب ایاز)
روشنی کے لفظ میں تحلیل ہوجانے سے قبل
اک خلا پڑتا ہے جس میں گھومتا رہتا ہوں میں
(مہیندر کمار ثانی)
اجنبی شہر میں کچھ خوف سا محسوس ہوا
اوڑھ لی میں نے خموشی سے اتاری ہوئی رات
(معید رشیدی)
ہم اس کی خاطر بچا نہ پائیں گے عمر اپنی
فضول خرچی کی ہم کو عادت سی ہوگئی ہے
(صابر)
ایک ہی موت بھلا کیسے کرے اس کا علاج
زندگانی ہے کہ سو بار کی بیماری ہے
(سالم سلیم)
یہ شہر اپنی اسی ہاؤ ہو سے زندہ ہے
تمہاری اور مری گفتگو سے زندہ ہے
(تالیف حیدر)
غصہ ، جھنجھلاہٹ اور تیزی انسان سے کیا کیا کرواتی ہے، آپ نے اپنے کالم میں ان تمام اشعار کی تعداد 90بتائی ہے، جبکہ ان کی کل تعداد تقریباً185ہے۔آخر میں بس ایک بات یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم آپ کی قدر جن بنیادوں پر کرتے ہیں، انہیں رد کرکے اپنی ناقدری کا موقع ہمیں مت دیجیے۔کیونکہ ہم آپ کا مستقبل ہیں، اور آپ کی شاعری کا بھی۔بس ایک بات سمجھیے کہ شاعری ختم نہیں ہوئی، لوگ ختم نہیں ہوئے، نہ آپ کے بعد ہوئے ہیں، نہ ہمارے بعد ہونگے۔
)اتمام(
2 تبصرے:
زبردست مضمون ہے تصنیف حیدر مزا آگیا
ہمارے عہد کے نوجوان شعرا ظفر اقبال کی شاعری کے حوالے سے مختلف اوقات میں جو سوچتے ہیں، جو بحث کرتے ہیں، کم و بیش وہ سب کچھ مزید اضافے کے ساتھ تصنیف حیدر نے اس مضمون میں کمال مہارت اور کامیابی سے کہہ دیا ہے۔ میں ان کا بہت شکر گزار ہوں۔ ۔ ۔ ۔
ایک تبصرہ شائع کریں