امیر امام غزل کی اس خوبصورت روایت کے امین ہیں۔ جس میں ایک ایسے محبوب کا وجود ممکن ہے، جو آواز کو فریاد اور ملہار دونوں میں تبدیل کرسکتا ہے۔البتہ ان کے یہاں شاعر کی خودی کو بھی بالکل فراموش نہیں کردیا گیا ہے، وہ ہجر، وصل اور ان دونوں کے درمیان موجود منازل میں پیش آنے والی مختلف کیفیات کو اپنی غزل میں جگہ دیتے ہیں، یہ غزل فلسفہ و منطق سے واقف نہیں، مگر یہ رومانی خوبصورتی سے بھری ہوئی ہے، اس خوبصورتی کا اظہار بعض اوقات امیر کے کچھ ایسے گہرے شعروں سے ہوتا ہے کہ اس میں کیفیت کا وصف ہوتے ہوئے بھی ایک تجربے کی آنچ موجود ہوتی ہے۔پھر ہجر کی جتنی مختلف صورتیں امیر کی شاعری میں ہیں،وہ بھی کمال کی ہیں اور ان کا ردعمل بھی بیزاری کے بجائے ایک گہری خاموشی میں ڈھلا ہوا نظر آتا ہے،جسے الفاظ بس جوں کا توں اتار کر رکھ دیتے ہیں۔بہرحال، امیر امام ہندوستان کی نئی غزل گو نسل کے ایک ایسے شاعر ہیں، جن کارنگ اور جن کا ڈھنگ اپنے تمام معاصرین سے صاف الگ پہچانا جاسکتا ہے اور یہی ایک فنکار کی خوبی ہے۔
چھوڑ کر آنکھیں جبینوں کی طرف چلنے
لگے
خواب اشکوں سے پسینوں کی طرف چلنے لگے
جب نہیں لوٹے تو کچھ دن راہ دیکهی اور
پهر
وہ مکاں اپنے مکینوں کی طرف چلنے لگے
دل کے تہہ خانے سے اک خواہش کو لےکر
ساتھ ہم
اس بدن کی شہنشینو ں کی طرف چلنے لگے
تیرے در سے ہم چلے تو آسماں تک آ گئے
اور پھر واپس زمینوں کی طرف چلنے لگے
حال بھی ماضی بھی مستقبل بھی دیتا تھا
صدا
تنگ آکر ہم بھی تینوں کی طرف چلنے لگے
جانتے ہو وہ ہماری آستیں کے سانپ تهے
جو تمھاری آستینوں کی طرف چلنے لگے
***
خوشبو ے رایگانی اعصاب مضمحل سے
ہم بھی خجل خجل سے تم بهی خجل خجل سے
آواز دے رہی ہیں نادیدہ کہکشائیں
لیکن مفر کہاں اس زندان آب و گل سے
آنکهوں سے تیری ہم نے لطف دوی کو جانا
توحید ہم نے سمجھی تیرے لبوں کے تل سے
کیوں تونے نام اپنا خاموشی رکھ لیا ہے
جی چاہتا ہے پوچھیں اس شور مستقل سے
دیکھا تمام بستی ویران ہو چکی تھی
اترے زمین دل پر جب آسمان دل سے
***
میں بڑھ رہا ہوں مری عمر گھٹتی جاتی
ہے
یہ نہراپنے کناروں سے کٹتی جاتی ہے
فلک پہ چاند رواں ہے عقاب کی صورت
شب فراق پروں میں سمٹتی جاتی ہے
نہ جانے کس لیے تصویر میرے سائے کی
بڑهوں جو ملنے تو پیچھے کو ہٹتی جاتی
ہے
یہ کیسا شور ہے دل تیری دھڑکنوں میں
نہاں
کہ ڈر کے مجهه سے خموشی لپٹتی جاتی ہے
تجھے خبر نہیں جاگیر آسماں تیری
تمام چاند ستاروں میں بٹتی جاتی ہے
غم فراق بھی کچھ دن کی لطف اندوز ی
پهر اس کے بعد طبیعت اچٹتی جاتی ہے
اگال دان ہے تاریخ جس کو کاغذ پر
ہر ایک دور کی قوت الٹی جاتی ہے
***
مستقبلو کی گزرے زمانوں کی زد پہ ہوں
میں اس جہاں میں کتنے جہانوں کی زد پہ
ہوں
ہوں ایسا عکس جس کے کئی اور عکس ہیں
میں بے شمار آئنہ خانوں کی زد پہ ہوں
منظر ہوئے تمام تو سنتا ہوں آہٹیں
آنکھوں کی زد سے نکلا تو کانوں کی زد
پہ ہوں
مجھ کے مرے یقین پہ کتنا یقین ہے
اتنا یقین ہے کہ گمانوں کی زد پہ ہوں
واقع کہیں ہوں ہونے نہ ہونے کے درمیاں
میں اپنے بے نشان نشانوں کی زد پہ ہوں
ترکش بھی میرا تیر بھی میرے ہدف بهی
میں
اپنے خلاف اپنی کمانوں کی زد پہ ہوں
***
دهار کیسی ہے یہ تلوار سے کٹ کر دیکھا
مرحبا چشم کہ اس خواب کو ڈٹ کر دیکھا
یوں لگا جیسے کہ پهر میں نے صدا دی
اسکو
یوں لگا جیسے کہ پهر اس نے پلٹ کر
دیکھا
اپنی وسعت کا اسے علم ہوا یوں یارو
اس نے اک شب مری باہوں میں سمٹ کر
دیکھا
وہ نہیں آیا مگر اس کو بلانے کے لیے
بجهہ کے آنکھوں نے تو نیندوں نے اچٹ
کر دیکھا
فرق آیا نہ کوئی بات عجب ہے لوگو
میں نے دنیا کو کئی بار الٹ کر دیکھا
***
آگ کے ساتھ میں بہتا ہوا پانی سننا
رات بھر اپنے عناصر کی سنانی سننا
دیکھنا روز اندھیروں میں شعائوں کی
نمو
پتھروں میں کسی دریا کی روانی سننا
وہ سنائیں گی کبھی میری کہانی تم کو
تم ہواؤں سے کبھی میری کہانی سننا
عمر نا کافی ہے اس ہجرت اول کے لیے
پهر جنم لوں تو مری ہجرت ثانی سننا
میری خاموشی مری مشک ہے اس مشک میں تم
مار کر تیر مری تشنہ دہانی سننا
کم سنی پر ہے عجب حال تمہارا یارو
سن لو آسان نہیں اس کی جوانی سننا
گیت میرے جو پسند آتے ہیں اتنے تم کو
انہی گیتوں کی کبھی مرثیہ خوانی سننا
صرف پڑھ لینے سے آسان نہ جانو مجھ کو
تم ان آنکھوں سے کبھی مجھ کو زبانی
سننا
***
گلیوں میں آہٹوں کے ٹہلنے کا وقت تھا
اک اور شام رات میں ڈھلنے کا وقت تھا
اس وقت پھر ہمارے قدم لڑکھڑا گئے
جو لڑکھڑا کے سنبھلنے کا وقت تھا
آنکھوں سے خواب رات سے تارے ہوا سے تم
اک دوسرے سےسب کے نکلنے کا وقت تھا
تھا چیخنا جہاں پہ وہاں
ہم خموش تھے
جب مسکرارہے تھے مچلنے کا وقت تھا
اک رات درمیان رکھی تھی جمی ہوئی
پگھلی نہیں گو اس کے پگھلنے کا وقت تھا
پھر لوگ منزلوں سے بچھڑتے چلے گئے
وہ راستوں کے راہ بدلنے کا وقت تھا
یہ تو تمہارے کھیلنے کھانے کے روز تھے
یہ تو تمہارے پھولنے پھلنے کا وقت تھا
***
میری چیخوں پہ خموشی کا گماں ہونا تھا
نہیں الفاظ مجھے جن سے بیاں ہونا تھا
جلد بازی میں یہ ترتیب الٹ دی ورنہ
اب جو صحرا ہے اسے نہر رواں ہونا تھا
خیر اچھا ہوا بس ترک مراسم ٹھہرا
ورنہ یہ عشق بھی احساس زیاں ہونا تھا
ساتھ تم تھے تو بہت آئیں بہاریں مجھ پر
اور بہاروں کو بہرحال خزاں ہونا تھا
جب ان آنکھوں نے دکھائے تھے تماشے مجھ کو
پھر تماشوں کو بھلا اور کہاں ہونا تھا
یہ جو دنیا ہے یہ جیسی ہے بہت بہتر ہے
یہ بھی سچ ہے اسے اک اور جہاں ہونا تھا
تجربہ میرا بھی کچھ اور برس بڑھ جاتا
تمہیں کچھ اور برس رک کے جواں ہونا تھا
***
خامشی سے روزانہ دائروں میں بٹ جانا
ٹوٹنا بکھرجانا اور پھر سمٹ جانا
میرے سارے خوابوں کی مختصر یہ تعبیریں
دن میں نیند کا آنا اور پھر اچٹ جانا
خود سے بات کرنے کو راہ روکنا اپنی
تھوڑی دیر چپ رہ کر مسکراکے ہٹ جانا
کس طرح توازن ہو زندگی کے کھاتے میں
صبح ہو تو بڑھ جانا شام ہو تو گھٹ جانا
جس طرف نہیں کوئی اس طرف پہنچنا اور
جس طرف سے آئے تھے اس طرف پلٹ جانا
سانحہ کہیں یا پھر معجزہ کہیں اس کو
گرد سے زمینوں کی آسماں کا اٹ جانا
آئنے بکھر جانا پتھروں سے ٹکراکر
اور موج دریا کا پتھروں سے کٹ جانا
***
زمیں کے سارے مناظر سے کٹ کے سوتا ہوں
میں آسماں کے سفر سے پلٹ کے سوتا ہوں
میں جمع کرتا ہوں شب کے سیاہ قطروں کو
بوقت صبح پھر ان کو الٹ کے سوتا ہوں
تلاش دھوپ میں کرتا ہوں سارا دن خود کو
تمام رات ستاروں میں بٹ کے سوتا ہوں
کہاں سکوں کہ شب و روز گھومنا اس کا
ذرا زمین کے محور سے ہٹ کے سوتا ہوں
ترے بدن کی خلائوں میں آنکھ کھلتی ہے
ہوا کے جسم سے جب جب لپٹ کے سوتا ہوں
میں جاگ جاگ کے راتیں گزارنے والا
اک ایسی رات بھی آتی ہے ڈٹ کے سوتا ہوں
***
بکھر گئے ہیں یہاں جا بجا بنا دیجے
ہمارے ہونے کا اک سلسلہ بنا دیجے
ہمارے جیسا کوئی بھی نہیں تو اب ہم سے
ہمارے جیسا کوئی دوسرا بنا دیجے
جہاں جہاں ہیں زیادہ گھٹائیے ہم کو
گھٹےہوئے ہیں جہاں پر سوا بنا دیجے
اس آسمان کا برسوں سے کوئی کام نہیں
اس آسماں کو ہماری ردا بنا دیجے
پٹکتی رہتی ہے سر اپنا ہجر کی خوشبو
ہمارے عشق کو باد صبا بنا دیجے
اگر قیام خدا کا ہے آسمانوں میں
تو پھر زمین پہ ہم کو خدا بنادیجے
***
1 تبصرہ:
1969 میں شائع ہونے والا "فنون" کا جدید غزل نمبر اٹھا کر دیکھئے اس سے درجنوں اچھے شاعروں کی بے پناہ شاعری والی غزلیں پڑھنے کو مل جائیں گی، بس ھم پڑھتے نہیں ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں