جہاں جہاں مسلمان رہتے ہیں، رمضان کی برکتیں، رحمتیں اور ثواب ایک مہینے سے خوب برس رہے ہیں۔ مسلم بستیوں کے تمام گھر ، گلیاں، بازار، مارکیٹیں اور مسجدیں رحمتوں اور برکتوں سے لوٹ پوٹ ہوچکیں۔ اماموں، مولویوں اور علمائے دین کی گردنیں اور پیٹ پہلے سے زیادہ موٹے ہوچکےہونگے۔ تلاوتیں، نمازیں، عبادات، کے ریکارڈ توڑ دیئے ہونگے۔مسافروں، مریضوں، بوڑھوں، اور بچوں نے بھی شوق سے 15، 16 گھنٹے تک بھوک پیاس سخت گرمی میں سہی ہوگی۔ فرشتے رحمتیں اور برکتیں آسمانوں سے انڈیل انڈیل کر تھک چکے ہونگے۔۔ایک مہینے کی اس سخت آزمائش اور امتحان کے بعد ایک سادہ سا سوال بنتا ہے۔ کیا کھویا کیا پایا۔۔انفرادی اوراجتماعی بھی۔ کیا مسلمان جو یکم رمضان سے پہلے تھے۔۔ان میں اخلاق، دیانت داری، ڈسپلن، فرض شناسی دوسروں کا احساس، یکم رمضان سے پہلے جتنا تھا۔۔اس میں اضافہ ہو گیا ہے؟ کیا مسلمانوں کی صحت رمضان سے پہلے سے زیادہ اچھی ہوگئی ہے؟ کیا مسلمان مسلمانوں کو لوٹنا کم کردیں گے۔۔؟ کیا ان کے درمیان پہلے سے زیادہ اخوت اب بڑھ جائے گی۔ کیا مسلمان ملکوں میں انصاف اور خوش حالی کا دور شروع ہو جائے گا۔۔جو رمضان سے پہلے رکا ہوا تھا۔۔کیا اب مسلمان کم خوراکی یا غربت سے نہیں مریں گے۔۔کیونکہ کروڑوں لوگوں نے بھوک کیا ہوتی ہے۔ اس کا احساس کرلیا ہے؟ اور اگر 30 رمضان کے بعد بھی مسلمانوں نے ویسے کا ویسا ہی رہنا ہے۔ جس طرح یہ یکم رمضان سے پہلے تھے۔۔اور دہائیوں، صدیوں کے ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ کچھ بھی نہیں بدلنے والا۔۔۔۔ تو پھر جن لوگوں نے رمضان کے فوائد گنوا گنوا کر ساری دنیا کے کان کھا مارے تھے۔۔۔ان کے گریبان ضرور پکڑنے چاہئے۔۔۔ مسلمانوں کو یہ احساس کرلینا چاہئے، کہ مذہب نے صدیوں سے کچھ Deliver نہیں کیا۔۔۔۔مذہب جو بھی دیتا ہے۔ سب خیالی اور وہم ہوتا ہے۔ان کا کہیں وجود نہیں ہوتا۔ لیکن مذہب جن کا پیشہ ہے۔ جو مذہب سے دولت بناتے ہیں۔۔ وہ لوگوں کو مذہب کے خیالی فوائد سے بہکائے رکھتے ہیں۔ اور لوگوں کا بھی کمال ہے۔ حالانکہ ان کی جھولی اور اٹھائے ہاتھ خالی کے خالی رہتے ہیں۔ نہ زندگی بدلتی ہے، نہ سماج بدلتا ہے۔ نہ مسلمانوں کی حالت بدلتی ہے۔ 30 رمضان کے بعد ہر شخص اور سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہوتا ہے۔۔۔جیسا یکم رمضان سے پہلے تھا۔ رمضان ایسے ہی ہے، جیسے سوتے ہوئے میں کسی کو فلم دکھائی گئی ہو۔۔۔۔ پھر اس پرعید کا غوغا۔۔۔کہ پتا نہیں خوشیوں مسرتوں کا کیا طوفان وارد ہونے والا ہے۔ لیکن ہوتا ہے۔ کہ جو کام آپ نے سال بھر ہر روز 5 دفعہ کیا۔۔۔اب اس خوشیوں بھرے تہوار میں ایک بار مزید کرنا ہے۔۔یعنی ایک اور نماز پڑھنی ہے۔۔اور خوشیوں بھرے تہوار کا قصہ ختم۔۔۔اس کےبعد گھر میں خصوصی طور پر پکے کھانوں پر ٹوٹ پڑو۔۔۔جو رمضان کے مہینے میں پہلے ہی بہت زیادہ کھایا ہے۔۔اور سال بھر ہرروز دن میں تین بار کھاتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک کھانا کھانا 'خوشی اور تہوار' کی علامت ہے۔ بڑے بوڑھے جب دیکھتے ہیں۔ کہ عیدکا دن آگیا ہے۔۔اور وہ عام چھٹی کے دن سے بھی زیادہ بوریت والا ہے۔۔تو شرمندہ ہو کر ایک دوسرے کو کہتے ہیں۔ 'عید تو بچوں کی ہوتی ہے'۔۔۔ بچوں کی عید تو ہر اس روز ہوجاتی ہے، جب ان کو نئے کپڑے اور تحفے مل جائیں۔ اور کھیلنے کو چھٹی۔ ہم مسلمان کب تک سرابوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے۔۔اور مزید ذلت، پسماندگی اور عالمی غلامی میں پڑے رہیں گے۔ اس پر ہمیں سوچنا چاہئے۔ مذہب زندگی کے مسائل حل کرنے کی چیز نہیں ہے۔ مولوی دھوکا دیتا ہے۔ آپ کی توجہ اصلی مسائل اور اصلی زندگی کی حقیقتوں سے دور کرواتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اس کا معاشی فائدہ ہوتا ہے۔ وہ آپ کو اپنا روحانی غلام بنا کر لوٹتا ہے۔ اور آپ کو بے کار انسان بنا دیتا ہے۔ دیگر خوشحال اور ترقی یافتہ قوموں کی طرح مسلمانوں کا بھی حق ہے کہ وہ بھی خوش حال، تعلیم یافتہ اور ترقی کے عمل میں شریک ہوں۔ اس کے لئے ان کو مذہب کے سراب سے نکلنا ہوگا۔ وہ کوئی ضابطہ حیات ہےنا چوبیس گھنٹے مذہب کی خدمت میں گزارتے رہنے کا نام زندگی ہے۔ یہ دنیا، زندگی اور کائنات مادی ہے۔ اس کا روحانیت یا کسی مذہبی چکر سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمانوں کی زندگی میں حقیقی خوشیاں اور حقیقی 'رحمتیں اور برکتیں' اس وقت آئیں گی۔ جب وہ باقی انسانیت کے ساتھ مل کرعقل، علم اور سائنس کی دنیا میں قدم رکھیں گے۔ اسلام کو اپنی ذات اور گھرتک رہنے دیں۔ آج زمانے میں اپنے کسی مذہب کا شور مچانا کوئی فخر کی بات نہیں۔ آج عزت، توقیر، اور خوشی ان کے پاس ہے۔ جو سیکولر ہوگئے ہیں۔ جو ساری انسانیت کے ساتھ مل گئے ہیں اور عقل کو اپنا راہنما بنا چکے ہیں۔ مرنے کے بعد کی جنت کا کسی کو کچھ معلوم نہیں۔۔اس زندگی کو جنت میں تبدیل کیجئے۔۔پھر آپ کو یہ نہیں کہنا پڑے گا۔۔۔کہ عید تو صرف بچوں کی ہوتی ہے۔۔کیونکہ خوش ہونا ہر ایک کا حق ہوگا۔
1 تبصرہ:
likhne walw kamzarf hai.
ایک تبصرہ شائع کریں