جمعہ، 17 جولائی، 2015

دانشور اور سماجی تبدیلی (چند ابتدائی باتیں)/ناصر عباس نیر

دانش ور کون؟

سماج کی تعمیر،تعمیرِ نو یا سماج میں کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے میں دانش ور کا کیا کردار ہے؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ،دو سوالات پر توجہ ضروری ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کب سے یہ سمجھا جانے لگا کہ سماج کی اصلاح و تعمیر میں دانش ور کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے؟کیا انسانی معاشرے کی ابتدائی تشکیل کے دنوں ہی میں یہ خیال کیا جانے لگا تھا کہ سماجی تشکیل کے عمل میں اس خاص گروہ کا حصہ تھا ،جو ذہنی کام کرتا ہے ،یا تاریخ کے کسی خاص عہد میں دانش ور کی اہمیت کا ادراک ہوا؟ ابتدائی معاشروں میں طاقت کے دو مراکز تھے،جو معاشرے کی تشکیل اور کارکردگی پر اثرانداز ہوتے تھے:بادشاہ اور کاہن ، پروہت، جادوگر، مذہبی راہنما۔کاہنوں اور جادوگروں کا طبقہ ،بادشاہ کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور تھا۔بادشاہ کے پاس عسکری طاقت ہوا کرتی تھی ،جب کہ کاہن ،جادوگر وغیرہ ’علم کی طاقت ‘ کے حامل سمجھے جاتے تھے ۔یہ ’علم‘ انسانی کوشش کانتیجہ نہیں،دیوتاؤں کی عطا سمجھا جاتا تھا۔اس ’علم‘ کی ’طاقت‘ لوگوں کے عقیدے اور یقین میں مضمر تھی۔بیماری، جنگ، غربت، سفر،موت جیسے مصائب کا سامنا کرنے میں اس ’علم‘ سے مدد لی جاتی تھی۔ بہ ہر کیف قدیم انسانی معاشروں میں جادوگروں اور مذہبی راہنماؤں نے اس یقین کو عام کیا کہ علم ،سماج کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے ۔لیکن جسے ہم دانش ور کہتے ہیں(جس کی وضاحت آگے آرہی ہے)وہ ایک نیا طبقہ ہے ،جس کا وجود جدید کاری کا مرہون ہے۔اگرچہ قدیم زمانوں کے کاہنوں اور جدید عہد کے دانش وروں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں’ ذہن و شعور و دانش ‘ کی مدد سے معاشرے پر اثرا نداز ہوتے ہیں،مگر ’ذہن و شعور ودانش‘ کی تعریف ، تخلیق اور ترسیل کے طریقوں میں اس قدر فرق ہے کہ ان کے سماج پر اثرات کی نوعیت میں بنیادی قسم کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں قدیم زمانے کے کاہنوں اور جدید زمانے کے دانش وروں کے بیچ ’حکیم،عارف،صوفی، دانا،ملا، علامہ‘ اور’فلاسفر، sage, savant, wizard,genius ‘ وغیرہ تھے۔ان کا تعلق کلاسیکی عہد سے تھا۔ان میں دو طرح کے لوگ تھے : روایتی اور انقلابی۔ملا روایتی صاحبِ علم تھا ؛ وہ ماضی کی روایات کی سختی سے پاس داری کرتا تھا،جب کہ صوفی وحکیم بڑی حدتک انقلابی تھے؛خود طریقت ایک انقلابی راستہ تھا ،جسے صوفیا نے وضع کیا؛مذہبی رواداری، صوفیانہ دانش کا دوسرا انقلابی پہلو تھا؛صوفیا کاکلاسیکی اشرافی زبانوں کی جگہ مقامی عوامی زبانوں میں اظہار کرنا،ایک اور انقلابی دانش وارنہ خیال تھا ۔ دوسری طرف حکماو فلاسفہ ،سماج کا وہ مختصر گروہ ہوا کرتے تھے، جو زندگی ،دنیا اور کائنات سے متعلق بنیادی سوالات کے جواب تلاش کرتے تھے؛یعنی مذہبی وجدان کے ساتھ ساتھ، یا اس کی جگہ انسانی تعقل کو بروے کار لاتے تھے۔اسی گروہ نے پہلی مرتبہ باور کرایا کہ علم دیوتاؤں کی عطا نہیں، انسانی کوشش کا نتیجہ ہے۔نوراللغات میں حکمت کی تعریف کے ضمن میں لکھا ہے کہ ’’اصطلا ح میں حکمت عبارت ہے ،احوال موجودات کے علم سے جیسا کہ وہ نفس الامر میں ہے ‘‘۱۔موضوع کے اعتبار سے حکمت کی تین شاخیں بیان کی گئی ہیں:طبعی ،ریاضی اور الہیٰ ۔پھرحکمت کو نظر ی اور عملی میں بانٹا گیا ہے ۔لہٰذا حکیم وہ شخص ہوا کرتا تھا ،جو موجودات سے متعلق نظریات وضع کرتا تھا،اور وجودِ حقیقی کے اثبات ،اور انسانی دنیا و کائنات میں اس کی قدرت و اختیار کی وسعت سے متعلق تجریدی تصورات پیش کیا کرتا تھا۔ اس کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ طبیعی و مابعد الطبیعی فکر کی تشکیل میں بہ یک وقت سرگرم ہوا کرتا تھا۔ جدید دانش ور سے فقط اس مفہوم میں مختلف تھا کہ وہ علم کی سماجی افادیت سے سروکار نہیں رکھتا تھا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ دانش ور ہے کون؟وہ کن خصوصیات کی بنا پر سماج کے باقی لوگوں سے مختلف ہے،اور الگ پہچانا جاتا ہے؟نیز وہ جن خصوصیات کا حامل ہوتا ہے ،انھیں وہ کیوں کر حاصل کرتا ہے ؟کیا یہ خصوصیات فطری ہوتی ہیں ،یا اکتسابی ؟اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ دانش ور کا لفظ ہمارے یہاں انگریزی لفظ انٹلیکچوئل کے معنی میں اور مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق انٹلیکچوئل سے مراد وہ شخص ہے جو intellect یعنی ’منطقی انداز میں سوچنے کی صلاحیت ‘کو استعمال میں لاتاہے۲۔منطقی انداز میں سوچنا،تاثر و جذبے پر منظم ومرتب غوروفکر کو ترجیح دینا ہے ،تاکہ کسی شے یاکسی مسئلے کا صحیح، معروضی علم حاصل کیا جاسکے۔اسی لیے سنجیدہ مطالعہ اور مسلسل غوروفکر دانش ورکی پہچان ہے۔ دانش وررفتہ رفتہ ایک’ نئی دنیا‘ میں داخل ہوتا ہے۔ یہ ذہنی، عقلی ، استدلالی دنیا ہے ؛شعور کی دنیا ہے ؛مسلسل جاننے ، تحقیق کرنے ،اور شعور کی حدوں کو وسیع کرنے کی دنیا ہے ؛پرانی اصطلاح میں منقولات کی بجائے معقولات کی دنیا ہے؛وجدان و الہام واساطیر کے بجائے ،تعقل کی دنیا ہے۔دوسرے لفظوں میں دانش ور کی دنیا انسانی علم کی دنیا ہے ؛انسانی علم سے مراد ،وہ علم جسے انسان نے ،انسانی معاملات و مسائل پر ،خالص انسانی ذہنی وسائل کو بروے کار لاتے ہوئے ،غوروفکر اور تحقیق کی مدد سے تخلیق کیا ہے ۔
جیسا کہ ابتدا میں کہا گیاہے کہ دانش ور وں کے طبقے کا ظہور جدید عہد میں ہوا۔جدید یت کا انسانیت پر غالباً احسان عظیم یہ ہے کہ اس نے باور کرایا کہ خیالات اور علم کی تخلیق ایک خالص انسانی سرگرمی ہے ؛علم کا سرچشمہ انسانی ذہن ہے۔تمام سماجی علوم اس یقین کی کوکھ سے پیدا ہوئے،اور اساطیر ومذاہب کے معاشرتی مطالعات کی راہ کھلی۔مغرب میں جدید عہد کا آغازچودھویں صدی کے لگ بھگ ہوا،تاہم جدیدیت کا یہ داعیہ ’علم کا سرچشمہ ذہنِ انسانی ہے‘ ہمیں بعض مسلم مفکرین کے یہاں ملتا ہے۔مثلاابوبکر رازی نے کہا کہ ’’انسان کو راستہ دکھانے اور اس کے اندر روشن خیالی پیدا کرنے کے لیے عقل ہی کافی ہے‘‘۳۔۔اسی طرح ابوالعلا معری نے کہا’’ کہ عقل کے سوا کوئی امام نہیں جو انسان کی صبح شام راہنمائی کرے۔[اپنے اشعار میں کہا کہ]میں حیران ہوں کسریٰ کے حواریوں پراور اس ریت پر کہ انسانوں کے منھ گائے کے پیشاب سے دھوئے جائیں اور یہودیوں کی اس بات پر کہ خدا کو(قربانی کے)لہو کے چھینٹے اور بھنے ہوئے گوشت کی باس پسند ہے ،اور عیسائیت کے اس عقیدے پر کہ خدا پر سچ مچ ظلم و جبر ہوا تھا،اور وہ اس سے بچنے کے لیے کچھ بھی نہ کرسکا،اور ان لوگوں پرجو کنکریاں مارنے اور پتھر کو بوسہ دینے کے لیے دوردراز کا سفر کرکے آتے ہیں۔کوئی حیرت جیسی حیرت ہے لوگوں کی ان باتوں پر!کیا ان میں سے کسی کو بھی حقیقت کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا‘‘۴ ۔گویا معری کا خیال تھا کہ ’حقیقت کا چہرہ‘ انسانی عقل دیکھ سکنے کی اہل ہے۔اس کے علاوہ معری کی دانش ورانہ فکر اس نازک نکتے کو بھی گرفت میں لیتی ہے کہ عقل کی امامت کی راہ میں مذہبی رسمیات حائل ہیں۔ مذہبی و سیکولر بہ معنی انسانی فکر میں تضاد کا احساس ان مسلمان حکماکو تھا۔ مگر مسلم معاشروں کی تاریخ سے ظاہر ہے کہ ابو بکر رازی، معری اور ابن رشد کی عقلیت پسندانہ آوازوں پر غزالی،ابنِ حزم اور فخرالدین رازی کی عقلیت مخالف آوازیں غالب آگئیں،اور یہاں سماجی سائنسوں کی روایت پیدا نہ ہوسکی۔
انٹلیکچوئل کی اصطلاح کا موجودہ رواج فرانس میں ’’ دانش وروں کے منشور‘‘سے ہوا۔قصہ یہ تھاکہ ۱۸۹۴ء میں فرانسیسی فوجی الفریڈ ڈریفس(جو مذہباً یہودی تھا) پریہ الزام عائد ہوا کہ اس نے جرمنوں کو فرانس کے عسکری راز فراہم کیے۔فوجی عدالت نے اسے مجرم قرار دے کر سزا دی۔اس واقعے نے فرانس کے اہلِ دانش کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا،جنھوں نے ’’دانش وروں کا منشور‘‘ تیار کیا۔اس میں ایملی زولا پیش پیش تھے ۔ اس منشور پر ہر طبقہ ء فکر کے لوگوں کے دست خط حاصل کرنے کی مہم چلائی گئی ۔ جن ادیبوں نے اس منشور سے اتفاق کیا ،ان میں مارسل پروست اور موپاساں بھی شامل تھے۔ ان اہلِ دانش کے سامنے سوال یہ تھا کہ وہ فرانسیسی حکومت کے سامی مخالف رویوں ،عسکری ناانصافی اور قومی جوش کے خلاف جرأت سے بولنے کا فیصلہ کریں ،یا بزدل بن جائیں،اور ہجوم کا ساتھ دیں ،یعنی یہودی الفریڈ ڈریفس کے دفاع سے انکار کردیں،اورجرمنوں کے خلاف جنگجویانہ ترانے گائیں۔جدید دنیا کی تاریخ میں یہ غالباً پہلی مرتبہ تھا کہ دانش ورایک ’نئے سماجی گروہ‘ کی صورت میں منظم ہوئے،اور انھوں نے ریاستی و سماجی معاملات میں ایک واضح ، دوٹوک مؤقف اختیار کیا؛ایک ایسا مؤقف جو مقبولِ عام ،نام نہاد قومی مؤقف کے برعکس تھا۔ڈریفس کے معاملے نے ،دانش ورکے سلسلے میں کئی سنجیدہ سوالات کو بھی جنم دیا۔ مثلاً یہ کہ مصنفین اور جامعات کے اساتذہ یعنی دانش ور جس اعلیٰ بصیرت کا دعویٰ کررہے ہیں،کیاوہ ملکی قانون سے برتر ہے؟نیز دانش وروں کو ریاستی وملکی اداروں کے معاملات میں مداخلت کا حق کیوں کر ہوسکتا ہے؟دانش ورقومی فیصلوں پر سوال اٹھانے کا جوازکہاں سے حاصل کرتا ہے؟ کیایہ جواز اسے محض اپنی ادبی وعلمی شہرت سے حاصل ہوجاتا ہے یا اد ب تخلیق کرنے اور کسی شعبہء علم میں مسلسل کام کرنے کے نتیجے میں اسے ’دانش ورانہ بصیرت‘ کا تحفہ ملتا ہے؟ بیسویں صدی میں دانش ور کی شناخت اور اس کے سماجی کردار کی تشکیل انھی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی مرہون نظر آتی ہے۔
دانش وریعنی انٹلیکچوئل کو بعض لوگ انٹیلیجنسیا یعنی ’اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘کامترادف سمجھتے ہیں۔حالاں کہ دونوں میں فرق ہے ۔ ’’ یہ[ انٹیلیجنسیا] اصطلاح پہلی مرتبہ روس میں انیسویں صدی میں استعمال ہوئی،جس سے مراد وہ ثقافتی طبقات تھے،جنھوں نے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی تھی،اور وہ پیشہ ورانہ ملازمت کے اہل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو دست کارانہ پیشوں کے مقابلے میں ذہنی پیشوں سے منسلک تھے‘‘۵۔اس کے مقابلے میں دانش ور(انٹیلکچوئل) وہ گروہ ہے جو سماج اور ثقافت کے عمومی سوالات سے دل چسپی رکھتا ہے۔نیز جو خیالات کی تخلیق ،ترسیل اور تنقید میں براہِ راست حصہ لیتا ہے‘‘۶۔گویا دونوں میں دو قسم کے فرق ہیں۔ دانش ور علم کی تخلیق میں حصہ لیتا ہے، جب کہ ’اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘لوگ کسی علم یافن پر عبور حاصل کرتا ہے ۔دوسرا فرق یہ ہے کہ دانش ور کی وابستگی عوام سے ہوتی ہے ،مگرتعلیم یافتہ گروہ کا تعلق سماج کے کسی خاص مگر محدودطبقے سے ہوتا ہے۔دونوں کی وابستگیوں کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ دانش ورکی وابستگی بے غرضانہ ہوتی ہے،جب کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کی وابستگی کی نوعیت پیشہ ورانہ ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں توڈاکٹر ، انجینئر، مینیجر،اعلیٰ انتظامی افسر’’ انٹیلیجنسیا ‘‘ہیں،اور ادیب، سائنس دان، فلسفی، مذہبی مفکر، استاد،سیاسی و عمرانی مفکرین دانش ور ہیں۔
دانش ور کا تصور اس وقت تک پوری طرح واضح نہیں ہوسکتا ،جب تک اس سوال کا جواب نہ دیا جائے (جس کا سامنا فرانسیسی دانش وروں کو اوّل اوّل کرنا پڑا تھا)کہ ’ ادیب، سائنس دان، فلسفی ،استاد ،مذہبی و سیاسی مفکر‘ کس بنیاد پر دانش ور کہلاتے ہیں؟کیا دانش وری ان کی بنیادی خصوصیت ہے یا اضافی خوبی ہے؟یعنی کیاوہ’ ادب، سائنس، فلسفے اور فکر ‘کی صورت میں جو کچھ تخلیق کرتے ہیں، اسی کا دوسرانام دانش ہے ،یا پھر ان شعبوں میں کام کرنے کے نتیجے میں وہ دنیا، انسان اور کائنات سے متعلق ایک ایسی ’نظر‘ حاصل کرتے ہیں جو مسائل کے دانش ورانہ تجزیے میں مدد دے سکتی ہے؟ان سوالوں کے جواب آسان نہیں ہیں۔ بڑی دقت تو یہ ہے کہ ادب ، سائنس ،فلسفے اور فکر کو ہم ایک ہی زمرے میں نہیں رکھ سکتے۔ ان شعبوں میں کام کرنے والے لوگ مختلف اندازمیں کام کرتے ہیں؛ان کابنیادی مواد مختلف ہوتا ہے، اس مواد کو ترتیب دینے اور نتائج اخذ کرنے ،نہ کرنے کے طریق ہاے کار مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً ادب اصل میں ایک تخیلی تشکیل ہے ،جب کہ فلسفہ و سائنس منطق و مشاہدے سے متعلق ہیں۔ مذہبی مفکر مابعد الطبیعیاتی دنیا کو بنیادی حوالہ بناتا ہے ،اور سیاسی و عمرانی مفکر جس دنیا سے مواد حاصل کرتا ہے ،یا جس دنیا کے بارے میں گفتگو کرتا ہے، وہ مادی ،سماجی دنیا ہے۔ہرچند یہ سب لوگ کسی نہ کسی سطح پر سماجی دنیا پر بحث کرتے ہیں ،یا اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، مگر براہ راست رجوع کرنے ،اور بالواسطہ حوالہ بنانے میں،اور بنیادی دلیل مابعد الطبیعی دنیا سے یا حسی دنیا سے لانے میں بہت فرق ہے۔یہی دیکیےب کہ جب ادب مادی سماجی دنیا کی تخیلی تشکیل کرتا ہے تو اس سے اس دنیا کے مسائل و معاملات کی ترجمانی ،اس کی عمرانی ترجمانی سے کافی مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذاہم کَہ سکتے ہیں ’ادب، سائنس ، فلسفہ ،فکر‘دنیا کی تفہیم و ترجمانی کے الگ الگ طریقے ہیں۔سائنس دان اور مذہبی و عمرانی مفکر اپنی بنیادی حیثیت میں دانش کی تخلیق نہیں کرتے۔تاہم وہ ہمیں دنیاو سماج کی آگاہی دیتے ہیں،۔یہ الگ بات ہے کہ ان کی آگاہی کو ’دانش ورانہ آگاہی ‘ نہیں کَہ سکتے۔ اگر آگاہی ہمارے شعور کو وسیع کرتی ہے تو دانش ورانہ آگاہی شعور میں وسعت کے علاوہ گہرائی بھی پیدا کرتی ہے؛وہ ہمارے شعور واحساس کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسری طرف ادب و فلسفہ میں دانش ورانہ آگاہی کے بیش از بیش عناصر ہوتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ’ادب، سائنس،فلسفہ اور فکر‘ میں مسلسل اورتخلیقی انداز میں کام کرنے والے ایک ایسی نظر یا طریق کار وضع کرنے میں عموماً کامیاب ہوتے ہیں جو مسائل پردانش ورانہ رائے ظاہر کرنے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ اس کا اظہار اکثر اس وقت ہوتا ہے ،جب ان لوگوں کو کسی انتہائی اہم اجتماعی مسئلے پر ایک واضح مؤقف کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔یہیں ہمیں انفرادی دانش ورانہ مؤقف ،اجتماعی دانش ورانہ مؤقف،منقسم اجتماعی دانش ورانہ اور اجتماعی عوامی مؤقف میں فرق کرنا چاہیے۔سرسید نے انڈین نیشنل کانگریس کی مخالفت کی، یہ ان کا انفرادی مؤقف تھا۔اسی زمانے کے دو اہم دانش وروں اکبر اور شبلی نے انڈین نیشنل کانگریس ہی کی حمایت کی۔ یہ ایک ہی مسئلے کے ضمن میں مختلف دانش وروں کے مختلف انفرادی مؤقف تھے۔ دوسری جنگِ عظیم میں ترقی پسندوں نے برطانیہ کی حمایت کی؛یہ اجتماعی دانش ورانہ مؤقف کی مثال تھی۔ قیام پاکستان کے بعد کشمیر پر بھارت کے حملے کی مذمتی قرار دادپر محمد حسن عسکری نے ادیبوں کے دست خط حاصل کرنے شروع کیے۔اس پر سوائے فیض کے کسی ترقی پسند نے دست خط نہیں کیے۔ یہ منقسم اجتماعی دانش ورانہ مؤقف تھا۔ چند دن پہلے پشاور میں آرمی پبلک سکول میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچوں کے وحشیانہ قتل کے بعد طالبان کے خلاف اجتماعی عوامی مؤقف سامنے آیا۔
اسی مقام پر ایک ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ادب ،سائنس ، فلسفہ وفکر کے شعبوں سے متعلق سب لوگوں میں ’دانش ورانہ نظر‘پیدا نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جو خیالات تخلیق کرتا ہے ،جب کہ ایک بڑا طبقہ ایسا ہوتا ہے جو دوسروں کے تخلیق کیے ہوئے خیالات کی تفہیم وترسیل کا انتخاب کرتا ہے۔دوسرے طبقے کے یہاں ہمیں ایک دوئی ملتی ہے۔ وہ اپنی پیش ورانہ زندگی میں جس علم ،یا جن نظرہات ،یا جن تخیلات کو پیش کرتے ہیں،سماجی زندگی میں اس کے برعکس مؤقف کے حامل ہوتے ہیں۔ فزکس کا استاد ، مذہب میں شدت پسندانہ خیالات کا حامل ہوسکتا ہے؛ فلسفے کا مؤرخ ،ثقافتی تعصبات کا مظاہرہ کرسکتا ہے،اور ایک شاعر فرقہ وارانہ خیالات کی حمایت کرسکتاہے۔خدااور آخرت کی سزا وجزا میں غیر متزلزل یقین رکھنے والا،بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹتا ہے ۔ لہٰذا ادب ، سائنس، فلسفے اور فکر سے محض تعلق کسی کو دانش ور نہیں بناتا۔دانش وری مسلسل سوال اٹھانے، ہر صورتِ حال کے تمام ممکنہ پہلوؤں پر نظر ڈالنے، ہر مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرنے ،مقبول آرا پر سوالیہ نشان لگانے ،اور سب سے بڑھ کر ہرنئے مسئلے کواس کے اپنے تناظر میں سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ دانش وری کے لیے سب سے بڑا خطرہ آدمی کے بچپن کے تصورات ،اور ماضی وتاریخ کو مطلق صداقتوں کا درجہ دینے میں ہے۔
خلطِ مبحث سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس نکتے کو پیشِ نظر رکھیں کہ چوں کہ ہم ادب اور سائنس وفلسفہ وفکر کو ایک ہی زمرے میں شمار نہیں کرسکتے ، اس لیے ان سب میں دانش وری کا اظہار یکساں انداز میں نہیں ہوتا۔نیز یہ بات بھی نظر میں رہنی چاہیے کہ دانش وری کا گہر ا تعلق ترجمانی کے اسلوب سے ہے۔ دانش وری راست، غیر مبہم ترجمانی کا تقاضا کرتی ہے۔سائنسی ،فلسفیانہ ،فکری مضامین میں دانش ورانہ باتیں غیر مبہم پیرائے میں ظاہر ہوتی ہیں،مگر ادب میں نہیں۔ تخلیق کار کا انداز تخیلی اور تاثراتی ہوتا ہے.وہ معلوم دنیا کو بھی نامانوس اسلوب میں پیش کرتاہے۔صاف لفظوں میں شعر وفکشن کو ہم دانش وری کا حامل کَہ سکتے ہیں،مگر انھیں دانش ورانہ اظہاریہ نہیں کَہ سکتے۔ شعر وفکشن میں بیش از بیش دانش ہوسکتی ہے،مگر یہ تخیلی ،استعاراتی ،علامتی پیرائے میں لپٹی ہوتی ہے؛اسے شعرو فکشن سے دریافت کرنا پڑتا ہے،اس کی تعبیر کرنا پڑتی ہے۔لہٰذا شعرو فکشن پر بعض تنقیدی مضامین دانش ورانہ اظہاریہ ہوتے ہیں۔ اس امر کا احساس بعض اوقات خو دتخلیق کاروں کوبھی ہوتا ہے۔چناں چہ وہ شعرو فکشن لکھنے کے ساتھ ساتھ ،مضامین بھی لکھتے ہیں،خصوصاً جب انھیں کسی سماجی مسئلے یا معاملے پراپنے کسی واضح مؤقف کا اظہار کرنا مقصود ہو۔معاصر عہد میں ارون دھتی رائے ایک ایسی شخصیت ہیں،جنھوں نے تخلیقی اور دانش ورانہ اظہاریے میں فرق کی نہایت واضح لکیر کھینچی ہے۔ انھوں نے ناول لکھنا ترک کیاہے ،اور ہندوستان کے مسائل پر راست دانش ورانہ تحریریں لکھنا شروع کی ہیں۔

دانش ورو ں کی اقسام

انیسویں صدی کے آخر میں جب دانش ور وں نے ایک نئے سماجی طبقے کے طور پر اپنی شناخت قائم کرنا شروع کی تو اس اس طبقے میں علم اور آرٹ کے سب شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ وہ شخص جو کچھ نہ کچھ تخلیق کرتاتھا، کسی خیال کے ابلاغ کی قدرت رکھتا تھا، اس کے قارئین و مخاطبین کا چھوٹا موٹا حلقہ تھا، اسے دانش ور سمجھا گیا۔ ہمارے یہاں سرسید ، آزاد، حالی ،شبلی ،نذیر احمد،مولوی ذکااللہ، امیر علی،مولانا قاسم ناناتوی اور ان سے ذرا پہلے غالب(خصوصاًاپنے اردو خطوط کے حوالے سے) ،ماسٹر رام چندر،امام بخش صہبائی دانش ور تھے،اگرچہ انھوں نے اپنے لیے یہ لفظ اختیار نہیں۔تاہم انھوں نے اس زمانے کی نو آبادیاتی صورتِ حال سے پیدا ہونے والے تعلیمی، ثقافتی، معاشی، اخلاقی، سیاسی سوالات کے جوابات کی خاطر نئے خیالات قبول کیے یا تخلیق کیے، ان کی ترسیل کے لیے رسائل و اخبارات کا سہارا لیا،اور اپنے قارئین و مخاطبین کا ایک واضح حلقہ پیداکیا۔یہ سارا عمل دانش ورانہ تھا۔یہ لوگ شاعر، مضمون نگار، مؤرخ، سوانح نگار،ناول نگار،استاد، صحافی تھے۔خودمغرب میں اور برصغیرمیں دانش ور طبقے کی یہ شناخت مبہم تھی۔ان میں یہ بات تو مشترک تھی کہ ان کے ذہن وتخیل اپنے زمانے کے سلگتے ہوئے سوالوں پر مرتکز تھے، مگر ان میں طرزِ فکریا تصورِ کائنات کا بنیادی نوعیت کا فرق تھا ،اور اس کے نتیجے میں ایک ہی سوال کی تفہیم متضاد طریقے سے ہوتی تھی،اور یہ متضاد طریقہ ایک مسئلے کو دو مختلف پہلوؤں سے سمجھنے کی کوشش سے مختلف تھا۔اس سے دو متحارب تصورات پیدا ہوتے تھے۔
اسی زمانے میں سرسید نے ’’زاہد اور فلاسفر کی کہانی اور دو سلطنتوں کا مقابلہ ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تہذیب الاخلاق میں شایع کیا۔یہ مضمون جو ایک کہانی کی ہیئت میں لکھا گیا ہے،اردو میں پہلی مرتبہ دو قسم کے دانش وروں میں تفریق کرتا ہے۔ مضمون میں ایک قسم کے دانش ور کی نمائندگی زاہد ،اور دوسری قسم کے دانش ور کی ترجمانی فلاسفر کرتا ہے ۔مضمون میں بتایا گیا ہے کہ زاہد اور فلاسفر دونوں خدا کے متلاشی ہیں،مگر دونوں کی تلاش کے طریقے جد اجدا ہیں۔ زاہد آنکھیں بند کیے ، تسبیح وتہلیل کرتے ہوئے خدا کو ڈھونڈ رہا تھا،اور فلاسفر آنکھیں کھولے خدا کی صنعتوں کو دیکھ رہاتھا ،اور ان صنعتوں میں خدا کی حکمت اور صفات کا مشاہدہ کررہا تھا۔ اتفاقاً دونوں کی ملاقات ہوئی ۔دونوں نے طے کیا کہ دنیا کی سیر کریں۔ پھرتے پھراتے ،ایک ملک میں پہنچے۔یہاں کا بادشاہ شان و شوکت ، رعب و دبدبے اور فیاضی میں مشہورتھا۔’’ اس بادشاہ کی بادشاہت میں کوئی قانون نہیں تھا۔جس کو چاہتا تھا نوازتا تھا،جس کو چاہتاتھا بگاڑتا تھا۔جو چاہتاحکم دیتا ،اور جس حکم کو چاہتابدل دیتا۔اس کی تمام رعایا خوف ورجا میں بسر کرتی تھی۔ نہ خدمت کرنے والوں کو توقع تھی کہ ضرور بادشاہ ہماری خدمت کی قدر کرے گا ،نہ شریر اور شورہ پشتوں کو یہ خیال تھا کہ ضرور بادشاہ ہم کو سزادے گا‘‘۔زاہد نے کہا کہ بادشاہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ کیوں کہ ہمارا خدا بھی ایسا ہی ہے۔ اس کے بعد دونوں اگلے ملک میں پہنچے۔ وہاں کے بادشاہ کا قانون خدائی قانون کی طرح کبھی تبدیل ہونے والا نہ تھا۔ ’’اس کے وعدے ایسے مستحکم تھے کہ کبھی ان میں تخلف نہیں ہوتا تھا‘‘۔وہاں کوئی ایسے مصاحب بھی نہ تھے جو بادشاہ کے قانون کو حکم کوتبدیل کرا سکتے۔ وہاں کے لوگ طمانیت سے رہتے تھے،کیوں کہ انھیں یقین تھا کہ انھیں ان کی کوشش کا پھل ملے گا۔’’وہ یہ سمجھتے تھے کہ بادشاہ قادرِ مطلق اور خود مختارہے۔جو قانون کہ اس نے اپنی مرضی اور اپنے اختیار کامل سے بنایا ہے،اسی کامل قدرت اور اختیار سے اس کو قائم بھی رکھتا ہے‘‘۔زاہد نے ایسے بادشاہ کو کاٹھ کی مورت کَہ کر ماننے سے انکار کردیا ،مگر فلاسفر نے اس بادشاہ کو پسند کیا۷۔
سرسید نے یہ مضمون اس وقت لکھا ،جب اردو میں دانش وری کی روایت اپنے ابتدائی مرحلے میں تھی۔سرسید نے بھانپ لیا کہ اردو کی دانش ورانہ روایت ، اپنی تشکیل کے اوائل ہی میں،داخلی سطح پر ایک گہرے تضاد کی حامل ہے۔یہ تضادصرف خیالات کا نہیں تھا،اس علمیات کا تھا،جس کے تحت دنیا و سماج کو سمجھا جارہا تھا۔ ایک طرف’مذہب اساس علمیات‘ تھی،اور دوسری طرف ’انسان اساس علمیات‘ تھی۔ پہلی علمیات اس مفہوم میں مذہب اساس ہے کہ یہ مذہبی تصورات و عقائد کی درستی یا توثیق پر زور دیتی ہے ؛ یہ سماج وفطرت و انسان کا مطالعہ کسی ایک یا زیادہ مذہبی صداقتوں کی توثیق کی خاطر کرتی ہے۔دوسری قسم کی علمیات اس معنی میں انسان اساس ہے کہ یہ سماج و دنیا و انسان کو مطالعہ ،ان کی حقیقی صورتِ حال کی تفہیم کی خاطر کرتی ہے ۔زاہد پہلی کی نمائندگی کرتا ہے ،اور فلاسفر دوسری کی۔زاہد جس دانش وری کی نمائندگی کرتا ہے ،وہ سماج اور تاریخ کو انسانی ارادوں کا مظہر نہیں سمجھتی؛اس کی نظر میں ماورائی طاقت ،انسانی علم سے بعید ارادے کے تحت ،سماجی و تاریخی عمل میں مداخلت کرتی ہے؛وہ چاہے تو قوانین کو توڑ دے ، چاہے تو انھیں برقرار رکھے ؛ہم اس کی مصلحتوں کا راز نہیں پاسکتے۔اس اعتقاد کا حامل دانش ور کسی سماجی صورتِ حال کی ذمہ داری افراد یا طبقات پر عائد نہیں کرتا۔ملوکیت، ملائیت ،استعماریت، غربت ،جہالت ،دہشت گردی سب منشاے الہیٰ سے ہیں،اور اکثر ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔جب کہ فلاسفر جس دانش ور ی کی نمائندگی کرتا ہے، وہ ہر سماجی صورتِ حال کو انسانی ارادوں کے مظہر کے طور پر دیکھتی ہے،لہٰذا ہر صورتِ حال یا واقعے کی ذمہ داری افراد، طبقات یا اداروں پرعائد کرتی ہے ۔اس کی نظر میں جہالت وغربت سے لے کر دہشت گردی تک کے مسائل خاص سماجی و معاشی وتعلیمی نظام کے پیدا کردہ ہیں۔لاکھوں بے گناہ لوگوں کا مارا جانا،یاکروڑوں لوگوں کا حیوانی سطح پر زندگی بسرکرنا، یا بے شمارلوگوں کا اعلیٰ ترین خیالات ،اعلیٰ درجے کے فنون سے مسرت حاصل کرنے سے محروم رہنا ،یا اربوں لوگوں کا فرصت سے محروم رہ کر جانوروں کی طرح دن رات مشقت کرنا ،مشیت ایزدی نہیں ہے۔ان سب مسائل کے ذمہ داروں کے خلاف ایک واضح مؤقف اختیار کیا جاسکتا ہے،اور انھیں قابلِ مواخذہ سمجھا جانا جائز ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ سرسید نے زاہد اور فلاسفر،دونوں کو خدا کی تلاش میں سرگرداں دکھایا ہے ،مگر ایک کا خدا متلون مزاج ہے ،اور دوسرے کا خدا اپنے بنائے گئے قوانین کو قائم رکھنے والا۔ اسی ضمن میں ایک اہم نکتہ سرسید نے یہ پیش کیا ہے کہ خدایا مذہب کے بارے میں تصورات و عقائدمحض ذہنی تجرید نہیں ہیں؛ان کی گہری نسبت دنیا و سماج کو سمجھنے کے طریقوں سے ہے۔گویا دنیا و سماج سے متعلق ہمارا فہم ،ہمارے ان تصورات کا عکس ہوتا ہے ،یاان کے مماثل ہوتا ہے جنھیں ہم اپنی ذہنی زندگی میں غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ایک بنیادی اور بڑا تصور ، ہماری روزمرہ کی فکر کے طریقوں پر اثرا نداز ہوتا ہے۔لہٰذاہم دنیا و سماج کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرسکتے،جب تک اپنے ان بنیادی اور بڑے تصورات کو تبدیل نہ کریں۔چوں کہ تصورات کی تخلیق اور تبدیلی کا کام دانش ور انجام دیتے ہیں،اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجا نب ہیں کہ دانش ور سماج کی تبدیلی میں کلیدی کردار اداکرتا ہے۔
سر سید نے جن دانش وروں کو زاہد اورفلاسفر کے نام سے پہچانا، انھیں آج ہم مذہبی اور سیکولر دانش ور کہتے ہیں۔ اطالوی مارکسی مفکر گرامشی نے بھی دانش وروں کی دو قسموں میں فرق کیا تھا: روایتی دانش ور اور تنظیمی(جن کے لیے گرامشی Organicکی اصطلاح استعمال کرتے ہیں) دانش ور۸۔گرامشی جنھیں روایتی دانش ور کہتے ہیں،ان کی خصوصیات کم و بیش وہی ہیں جو سرسید نے زاہدسے منسوب کی ہیں۔گرامشی روایتی دانش وروں میں اساتذہ ،پادریوں اوران منتظمین کو شامل کرتے ہیں جو نسل در نسل ایک ہی کام کیے چلے جاتے ہیں ۔ یہ اس لیے روایتی دانش ور ہیں کہ وہ نئے خیالات کی تخلیق میں حصہ نہیں لیتے، پہلے سے موجود خیالات کا تحفظ کرتے ہیں؛گویا منقولات کے حامی ہوتے ہیں۔ جب کہ تنظیمی دانش وروں میں گرامشی صنعتی ماہرین،سیاسی معیشت کے متخصصین،نئے کلچر اور نئے قانونی نظام کے منتظمین کو شمارکرتے ہیں۔ گرامشی نے یہ تفریق بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں کی تھی،جب آخر الذکر ماہرین نے اپنی موجودگی محسوس کرانا شروع کی تھی۔ راجندر پانڈے کو اکیسویں صدی میں پانچ قسم کے دانشور نظر آتے ہیں: علمی اشرافیہ، انتظامی اشرافیہ، سماج کے نقاد، سماجی انقلاب کا ہراول دستہ، ذمہ دار مگر غیر وابستہ دانش ور۔حقیقت یہ ہے کہ دانش وروں کی یہ اقسام کافی مغالطہ آمیز ہیں۔ راجندر پانڈے کی انتظامی اشرافیہ دراصل گرامشی کے تنظیمی دانش ور وں کا دوسرا نام ہے۔البتہ علمی اشرافیہ سے مراد جامعات کے اساتذہ اورفنی ماہرین ہیں؛انھیں علمی اشرافیہ اس لیے کہاگیا ہے کہ یہ لوگ جس علم کی تخلیق کرتے ہیں،اسے اہلِ علم کے مخصوص حلقے تک محدود رکھتے ہیں؛ان کے علم کی زبان ،دلائل ،اصطلاحات اسی حلقے کے لیے قابلِ فہم ہوتی ہیں؛یہ اپنے علم کو اپنے شعبے یا ادارے کی طاقت بناتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ انتظامی اشرافیہ کے لوگ اصل میں ماہرین ہیں،جو مختلف سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کے لیے درکار مہارتیں حاصل کرتے ہیں۔ اوّل تو وہ علم کی تخلیق میں حصہ نہیں لیتے ، موجود علم پر عبور حاصل کرتے ہیں ،اور اسے متعلقہ تنظیم کے مالی فائدے کے لیے بروے کار لاتے ہیں۔ ان کی آرا، خیالات، مؤقف سب کچھ اپنی تنظیم کے مقاصدکی نگہبانی کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ علم کی تخلیق کرتے ہیں،یعنی نئے موضوعات پر تحقیق کرتے بھی ہیں تو اس علم کے ثمرات ان کی تنظیم اٹھاتی ہے ۔ماہرین کا یہ طبقہ فن کی قدیم زمانے سے چلی آرہی قسموں ’آزاد و بے غرض‘(Liberal) اور ’افادی‘(Servile) میں فرق کرتے ہوئے ، آخرالذکر سے تعلق قائم کرتا ہے۔ حقیقتاًجنھیں دانش ور کہا جاسکتا ہے ،وہ راجندر پانڈے کی بیان کی ہوئی آخری تین قسمیں ہیں۔ یعنی سماج کے نقاد، سماجی انقلاب کا ہراول دستہ اور ذمہ دار مگرغیر وابستہ اہلِ نظر۔یہ لوگ ’آزاد و بے غرض علم‘ میں یقین رکھتے ہیں۔ جن دانش وروں نے انقلاب کا ہراول دستہ بننے کی سعی کی،ان کی فکر پرمارکسیت کا گہر ااثر تھا۔ جب کہ جن دانش وروں نے سماج کے نقاد کا کردار ادا کیا ہے، وہ کسی خاص فلسفے سے متاثر نہیں تھے؛البتہ بعض اخلاقی اصولوں میں اعتقاد رکھتے تھے۔دانش ور وں کے گروہ میں کچھ اور لوگ بھی شامل کیے جانے لگے ہیں،جن کا ذکرکیا جانا چاہیے۔مثلاً عوامی دانش ور(Public Intellectual)، میڈیا ماہرین، سیکیورٹی تجزیہ نگار،اخباری کالم نگار۔ان میں سے عوامی دانش ورایک حد تک مارکسی فکر سے متاثر ہے ، مگر وہ انقلاب کا ہراول دستہ بننے ،یعنی انقلابی تحریک کی قیادت کرنے سے زیادہ مقتدر طبقوں کی پالیسیوں کا نقاد ہوتا ہے۔عوامی دانش ور عوامی اہمیت کے مسائل پر واضح مؤقف اختیار کرتا ہے ۔موجودہ زمانے میں نوام چومسکی اور ارون دھتی رائے عوامی دانش ور ہیں؛دونوں اپنی اپنی ریاستوں کی امتیازی پالیسیوں پر سخت لفظوں میں نکتہ چینی کرتے ہیں،اور دونوں اپنی تنقید کی بنیاد علم اور تحقیق پر رکھتے ہیں ۔افسوس اردو میں اس وقت ہمیں کوئی عوامی دانش ور نظر نہیں آتا؛ ہمیں اردو میں دانش کی کوئی ایسی آواز سنائی نہیں دیتی ،جو معاصر عہد کے عظیم المیے یعنی مذہبی شدت پسندی ،طالبانیت اور دہشت گردی کے خلاف جرأت سے اظہار کرتی ہو ۔یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ سماج کے نقاد اور عوامی دانش وروں کی جگہ ہمیں میڈیا ماہرین، سیکورٹی تجزیہ نگار اور اخباری کالم نگاراور سیاسی جماعتوں کے ترجمان نظر آتے ہیں؛یہی لوگ خاص مسائل کو اجاگرکرتے ہیں، خاص طرح سے ان پر بحث کرتے ہیں،اور رائے بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دانش وروں کی قسموں کا ذکر کرتے ہوئے’ذمہ دار مگر غیر وابستہ اہلِ نظر‘ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔یہ لوگ نہ تو انقلاب کے داعی ہوتے ہیں ،نہ ہر مسئلے پر اظہارِرائے کرتے ہیں ۔دیگر دانش ور کسی مسئلے کے سلسلے میں مؤقف ،رائے یا پوزیشن اختیارکرنے میں یقین رکھتے ہیں، مگر ’ذمہ دار مگر غیر وابستہ اہلِ نظر‘ نئے علم ،نئی نظر ،نئی بصیرت، نئے وژن کی تخلیق میں یقین رکھتے ہیں۔ انھیں علم کی تخلیق کا حقیقی ،بے ریا ذوق ہوتا ہے۔ وہ عموماً بنیادی اور بڑے تصورات سے بحث کرتے ہیں۔عوامی دانش ور فوری مسائل پر اپنا مؤقف پیش کرتا ہے ،مگر غیر وابستہ اہل دانش ان سماجی ساختوں سے دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں،جو فوری مسائل کا سبب اور سرچشمہ ہوتی ہیں۔

سماجی تبدیلی میں دانش ور کا کردار

اب تک کی معروضات سے واضح ہو گیا ہوگا کہ سماجی تبدیلی میں تنظیمی دانش وروں؍ماہرین کا کوئی کردا نہیں ہوتا،اور نہ وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں۔البتہ دوسرے دانش ور کسی نہ کسی درجے میں سماجی تبدیلی میں حصہ لیتے ہیں۔ سماجی تبدیلی کے مفہوم اور سماجی تبدیلی برپا کرنے کے سلسلے میں دانش وروں کے یہاں مختلف تصورات رائج ہیں۔بیسویں صدی کے اشتراکی دانش وروں نے سماجی تبدیلی سے سماج کی زیریں ساخت یعنی معاشی نظام کی مکمل تبدیلی یا انقلاب کامفہوم لیا تھا ۔ان کا خیال تھا کہ ’ خیالات کا نظام‘ معاشی ساخت سے پیدا ہوتا ہے ،اس لیے اگر معاشی ساخت بدل دی جائے تو خیالات بھی بدل جائیں گے،مگرمعاشی نظام کی تبدیلی کے لیے ذہنوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔لہٰذا اشتراکی خیالات کی ترسیل وترویج کی ضرورت ہے۔اس صورتِ حال نے اشتراکی دانش وروں کے سامنے ایک بڑا چیلنج رکھا۔ اگر دانش ور کا کام ایک ان تھک تنقیدی نظر کو بروے کار لانا ہے؛اپنے ذہن کو مسلسل حاضر رکھتے ہوئے، ہر نئی صورتِ حال کو اس کے اپنے تناظر میں سمجھنا ہے ؛ خود کو کسی ایک آئیڈیالوجی کا شکار ہونے سے بچانا ہے ؛نئے خیالات کی تخلیق میں حصہ لینے کے اس میثاق کی پابندی کرنا ہے ،جسے وہ دانش ورانہ دنیا میں داخل ہوتے ہی قبول کرتا ہے ،تو اشتراکی دانش ور کیوں کر چند خاص ،بندھے ٹکے نظریات کی پابندی کرتے ہوئے ،دانش وری کا فریضہ ادا کرسکتا ہے؟ وہ زیادہ سے زیادہ اشتراکی انقلابی فکر کا مبلغ بن سکتا ہے۔بلاشبہ اس چیلنج کو بعض اشتراکی دانش وروں نے محسوس کیا ،اور قبول کیا، خصوصاً فرینکفرٹ سکول کے دانش وروں نے۔ بعد ازاں التھیوسے ،پیئر ماشرے اور ٹیری ایگلٹن نے۔ اردو کے اشتراکی دانش ور ،اشتراکی دانش کی تخلیق کے بجائے ،اشتراکی نظریے کے مبلغ بنے۔ بایں ہمہ یہ اعتراف کیا جانا چاہیے ،ہمارے یہاں اتنی تبدیلی ضرور ہوئی کہ مقتدر طبقوں کی چند کھلی استحصالی تدبیروں کا فہم عام ہوا،اور لوگوں کو طاقت کے مراکز کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ ملا۔
جسے ہم آج عوامی دانش ور کہتے ہیں،اسے ہم ’مابعد اشتراکی دانش ور‘ کَہ سکتے ہیں۔ عوامی دانش ور،اشتراکی دانش ور کے سب سے بڑے خواب یعنی انقلاب میں خود کو شریک نہیں پاتا؛وہ انقلاب کے بجائے اصلاحات کا حامی ہوتا ہے۔یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ معاصر دانش ورانہ فکر میں انقلاب کے تصور کی جگہ ارتقا کے تصور نے لے لی ہے۔ جو لوگ اب بھی انقلاب کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ شدت پسندانہ نظریات کے حامل ہیں؛وہ اپنا ایجنڈہ بارود کی طاقت سے نافذ کرنا چاہتے ہیں۔یہ لوگ حقیقتاً دانش ور نہیں، ’روایتی مذہبی دانش وروں‘ کے نظریات کے کٹر قسم کے محافظ ہیں۔
دانش وری کے ذریعے سماجی تبدیلی کا آغاز جدید عہد میں ہوا۔ جہاں جدیدیت نے نئے خیالات تخلیق کرنے کے ان تھک عمل کو ممکن بنایا ،وہاں نئی ایجادات بھی ہوئیں۔ جدیدکاری کے نتیجے میں جو نئی ایجادات سامنے آئیں؛ان میں ایک اہم مگر مؤثر ترین ایجادپریس تھا۔ خیالات کو وسیع عوامی حلقے تک پہنچانے میں بنیادی کردار پریس کا تھا۔دانش وری اور پریس (اور اس کی نئی صورتیں ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ)لازم و ملزوم ہیں۔ ابتدا میں دانش وروں نے منشور ، پمفلٹ شایع کیے، بعد میں اخبارات ، رسائل جاری کیے اور کتابیں شایع کیں۔اردو کے ابتدائی ،مگر ممتاز دانش ور سرسید نے تہذیب الاخلاق جاری کیا،اور اس میں دیگر دانش وروں کو لکھنے کی دعوت دی۔۔پریس کی وجہ سے انسانی سماج میں ایک نئی چیز نمودار ہوئی ،جسے آج ہم ’عوامی منطقہ‘ (Public Sphere) کہتے ہیں؛’عوامی منطقہ ‘ سماجی زندگی کا وہ علاقہ ہے ،جہاں مشترکہ دل چسپی کے موضوعات پر گفتگوئیں ہوتی ہیں؛بحث ومکالمہ ہوتا ہے؛متضاد ومتصادم نظریات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔دانش وری کا عمل’ خیالات کی تخلیق‘ سے شروع ہوتا ہے،’، ترسیل کے جدید ذرائع‘ سے ہوتا ہوا’ عوامی منطقے ‘ تک پہنچتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی تبدیلیوں کی آماج گاہ یہی عوامی منطقہ ہے۔ جن خیالات ،یا جس طبقے کے خیالات کو عوامی منطقے تک جتنی آسان اور مؤثر رسائی حاصل ہوتی ہے ،وہی تبدیلیاں لاتے ہیں۔ گرامشی جنھیں تنظیمی دانش ور اور پانڈے جنھیں علمی اور تنظیمی اشرافیہ کہتے ہیں، ان کا کوئی تعلق عوامی منطقے سے نہیں ہوتا۔
عوامی منطقہ ایک ایسا میدان ثابت ہوا ہے جہاں ہر وقت خیالات، نظریات، کلامیوں، آئیڈیاجیوں کا حشر برپا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب اصل جنگیں اسی منطقے میں لڑی جاتی ہیں۔ اس پر قبضے ، اجارے کی کوشش ہوتی ہے۔اس اجارے کے ذریعے ایک طرف معلومات وخیالات پر قابو رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے،اور دوسری طرف واقعات کی نمائندگی کے طریقوں پر حاوی ہونے کی سعی کی جاتی ہے۔ آج کے عوامی اور غیر وابستہ دانش وروں کے سامنے دو بڑے مسائل ہیں۔ پہلا مسئلہ ’عوامی منطقے ‘تک رسائی ہے۔ اس وقت اس منطقے پر برقی میڈیا اور اخباری کالم نگاروں کا اجارہ ہے۔کتاب اس منطقے سے تقریبا غائب ہے ۔برقی میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے ترجمان نظر آتے ہیں،کچھ سکیورٹی تجزیہ نگاریااخباری کالم نگار۔ان سب کو دانش ور کہنے کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دانش وروں کی قبیل کے دوچار لوگ اردواخبارات میں کالم لکھتے ہیں،اور ان کی وجہ سے ہمارے سماج میں دانش کا کچھ نہ کچھ بھرم قائم ہے۔ ان میں انتظارحسین، امر جلیل،ایاز امیر،زاہدہ حنا ،وجاہت مسعود قابلِ ذکر ہیں۔میں نے دانستہ انھیں ’دانش وروں کی قبیل‘ کے افراد کہا ہے، اس لیے کہ ان میں سے کوئی بھی اس غیر معمولی تحقیق ، مسلسل،ان تھک مطالعے، گہرے، ہشت پہلو تجزیے سے کام نہیں لیتا، جن کے بغیر دانش تخلیق نہیں ہوسکتی۔ان کے پاس چند دانش مندانہ خیالات ضرور ہیں، جو سماج کی قدامت پسند،مبہم فکرکے مقابل نہایت قابلِ قدر محسوس ہوتے ہیں،لیکن اگر آپ ان کے دس بارہ کالم پڑھ لیں تو اگلے ہر کالم میں ظاہر کیے گئے مؤقف ،یہاں تک کہ دلائل ، محاوارت ، مثالوں کی بھی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں دانش وری کا دوسرا مطلب ’دانش ورانہ ‘مؤقف لیا گیا ہے۔چناں چہ یہ لوگ مسائل اور واقعات کے سلسلے میں ایک واضح ،روشن خیالی و عقلیت پسندی پر مبنی مؤقف تو اختیار کرتے ہیں(اس مؤقف کی اہمیت و ضرورت سے کسی کافر ہی کو اختلاف ہوسکتا ہے)،مگر روشن خیالی و عقلیت پسندی جس نئے علم کی تخلیق کا تقاضا کرتی ہے، وہ نظر نہیں آتا۔ یہ علم ’ذمہ دار مگر غیر وابستہ دانش وروں‘ کی کتابوں میں ضرور موجود ہے، مگر وہ سماجی تبدیلی کے کسی عمل میں اس لیے شریک نظر نہیں آتیں کہ کتاب عوامی منطقے کے حاشیے پر ہے۔
عوامی اور غیر وابستہ دانش وروں کو دوسرا اہم مسئلہ جو درپیش ہے،وہ زبان سے تعلق رکھتا ہے۔سب جانتے ہیں کہ زبان ایک غیر جانب دار ذریعہ ابلاغ ہوتی ہے ؛وہ ہر قبیل کے آدمی کو ہر طرح کی بات ظاہر کرنے کی سہولت بہم پہنچاتی ہے؛زبان کے لیے کوئی کافر ہے نہ مسلمان،مگرنو آبادیاتی عہد میں اردو کی مذہبی شناخت کیاقائم ہوئی کہ اس میں ہر قبیل کے آدمی کو ہر بات کہنے کی اجازت نہیں رہی۔اس امر کا احساس اس وقت شدید ہوتا ہے جب ہم انگریزی اور اردو کے ’عوامی منطقوں‘ میں مقابلہ کرتے ہیں؛دونوں میں قطبین کا بعد پیدا ہوچکا ہے۔ انگریزی میں روشن خیال،آزادانہ فکر کسی خوف کے بغیر ظاہر کی جاسکتی ہے،مگر اردو میں روشن خیالی،تکثیریت ،سیکولرفکر،مابعد جدید کثیر المعنیت جیسے الفاظ گالی کا درجہ اختیار کرتے جارہے ہیں۔اردو کے روشن خیال مصنفوں کو لکھتے ہوئے ،اس قدر احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے کہ بعض اوقات ان کی تحریر ابہام کا شکار ہوکر مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔اکثر اوقات اردو مصنفین خوفِ فسادِ خلق کے پیشِ نظر اپنی دانش ورانہ تحریروں کو اشعار سے مزین کرتے ہیں۔حالاں کہ کسی دوسری زبان میں دانش ورانہ تحریر میں شاعرانہ ٹکڑے نہیں لگائے جاتے۔ اردو سے وابستہ مذہبی قوم پرستی اس درجہ شدید ہے کہ اردو میں لکھتے ہوئے ہر دانش ور خود کو ایک غیر مرئی مقدس گروہ کے آگے جواب دہ محسوس کرتا ہے؛اسے اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کے دوران میں یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں کسی مقدس گائے کی اہانت نہ ہوجائے ،اور اسے سلاخوں کے پیچھے نہ دھکیل دیا جائے یا آگ کے سپرد نہ کردیا جائے،یا اس پر فتوے نہ جڑ دیے جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جن تحریروں سے اردو کا عوامی منطقہ تشکیل پاتا ہے ،اوّل وہاں قدامت پسند ، رومانوی مذہبی قوم پرستانہ خیالات کا غلبہ ہے، دوم وہاں ذمہ دارانہ باتیں لکھنے کا فقدان ہے،سوم وہاں سنجیدہ دانش ورانہ خیالات کے لیے جگہ اس قدر سکڑی سمٹی ہے کہ ان تحریروں کا مصنف خود کو بیگانہ محسوس کرتا ہے۔
اس بات پر زور دیے جانے کی ضرورت ہے کہ ہرشخص دانش ورانہ خیالات سے اثر پذیر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دوسرے لفظوں میں سماجی تبدیلی کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔وٹگنسٹائن کا قول ہے کہ کسی نابغے میں کسی دوسرے دیانت دار آدمی کے مقابلے میں زیادہ روشنی نہیں ہے،مگر نابغے کے پاس خاص طرح کا محدب شیشہ ہوتا ہے جس سے وہ روشنی کو ایک نکتے پر مرتکز کرکے اسے شعلے میں بدل سکتا ہے۔ دانش ورایک نابغہ ہے؛اس میں اور عام آدمی میں بس یہی فرق ہے۔ دانش ور اور عام آدمی کے پاس ’ایک ہی طرح کی روشنی‘ یعنی مسائل کی تفہیم کی عقلی صلاحیت ہوتی ہے،مگر دانش ور اس صلاحیت کو اس درجہ ترقی دیتا ہے کہ وہ نیا علم ، نئی دانش ، نئی بصیرت تخلیق کرلیتا ہے۔تاہم مذکورہ سبب ہی سے عام آدمی دانش ورانہ علم و بصیرت کو قبول کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کرتا ہے ۔مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ عام آدمی تک دانش ورانہ خیالات کی روشنی پہنچے۔ سماجی تبدیلی کی راہ میں بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اس روشنی کی ترسیل کی راہ میں کئی چیزیں حائل ہیں۔ایک رکاوٹ تو خود عام آدمی کا عموماًتقلیدی مزاج ہونا ہے؛وہ اکثر باتوں ، نظریوں، اشتہارات،پروپیگنڈہ کو اسی تقلیدی مزاج کے تحت قبول کرلیتا ہے۔اس میں سوال اٹھانے کی خلقی اہلیت موجود ہوتی ہے،مگر اسے ’رائے سازی‘ کی صنعت دبائے رکھتی ہے،جس پرسیاسی ،مذہبی، تجارتی ، ابلاغی،تعلیمی نصاب ساز اداروں کا اجارہ ہے،اور یہ دوسری بڑی رکاوٹ ہے۔ فقط دانش ور ہی عام آدمی کی مذکورہ خلقی صلاحیت کو مخاطب کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حقیقی دانش ورانہ خیالات کم از کم اردو پڑھنے والے عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔اس تک جو کچھ پہنچ رہا ہے ،وہ مذہبی شدت پسندی، تنگ نظری پر مبنی قوم پرستی،فکشنی رومانوی تاریخ ، ہیجانی اور پست قسم کی تفریحی چیزیں ہیں۔دانش ورانہ تصورات اپنی اصل میں ’خیال افروز‘ہوتے ہیں؛ یعنی لوگوں کے پلو سے بندھے ٹکے خیالات باندھنے کے بجائے ،انھیں سوچنے میں مدد دیتے ہیں۔ عظیم دانش مسائل کا ریاضیاتی حل نہیں بتاتی؛اوّل یہ یقین پیدا کرتی ہے کہ انسانی دنیا کے مسائل انسانی صلاحیتوں کی مدد سے حل کیے جاسکتے ہیں؛دوم مسائل حل کرنے کے راستے اور امکان سجھاتی ہے۔ عظیم دانش اس بات کو فراموش نہیں کرتی کہ چند بندھے ٹکے خیالات ،خواہ کس قدر دلکش ہوں ، بالآخر استبدادی ہونے لگتے ہیں؛یہاں تک کہ اگر روشن خیالی بھی ایک بندھا ٹکا تصور بن جائے تو یہ اسی طرح استبدادی یعنیTyrannical ہونے لگتا ہے ،جیسے مذہبی شدت پسندی۔جن دیوتاؤں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بالآخر ناکام ہوتے ہیں، وہ ایسے ہی دانش ور ہوتے ہیں جو چند خیالات ،یا کسی ایک نظریے کو ہمیشہ کے لیے سینے پر تمغے کی طرح سجا لیتے ہیں،اور لوگوں سے عزت اورریاست سے ایوارڈ طلب کرتے ہیں۔چناں چہ حقیقی دانش ور مسلسل نئے خیالات کی تخلیق کی دھن میں رہتا ہے۔وہ اپنے آپ کو اور اپنے پڑھنے والوں کوتجسس کے پیدا کردہ اضطراب کی حالت میں رکھتا ہے۔دوسرے لفظوں میں دانش ورمثالی طور پر سماج میں جس تبدیلی کو ممکن بناسکتا ہے ،وہ یہی اضطراب ہے؛ ایک ایسا جذبہ جو دانش ور اور اس کے قارئین کو ’مسافر در وطن‘ کی حالت میں رکھتا ہے!


حوالہ جات

۱۔ نورالغات، جلد اوّل (مؤلف مولوی نو رالحسن نیرّ )نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد،۲۰۰۶ء ،طبع سوم ، ص ۱۴۰۴

۲۔ Webster's New World College Dictionary،میکملن ،نیویارک ،۱۹۹۷ء،طبع سوم ،ص۷۰۲

۳۔ محمد کاظم،مسلم فلسفہ عہد بہ عہد،مشعل ، لاہور،۲۰۰۸ء،ص ۱۲۲

۴۔ ایضاً،ص ۱۲۵۔۱۲۶

۵۔ راجندر پانڈے،The Role of Intellectuals in Contemporary Society،مٹل پبلی کیشنز،نئی دہلی، ۱۹۹۰ء، ص ۲

۶۔ ایضاً، ص ۳

۷۔ سر سید، مقالات سرسید،حصہ پانزدہم ،(مرتبہ محمد اسماعیل پانی پتی )،مجلس ترقی ادب ، لاہور، ۱۹۶۳

۸۔ جمیس مارٹن(مرتب)،Antonio Gramsci: Intellectuals, culture and the party،روٹلیج ،لندن،۲۰۰۲ء،ص ۱۱۰



کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *