بدھ، 15 جولائی، 2015

منچندا بانی کی غزلیں

منچندا بانی جدید عہد کے ایک بہت ہی اہم اور منفرد شاعر ہیں۔ان کی شاعری کا اسلوب اپنے عہد ، پیش رو اور بعد کے تمام غزل کہنے والے افراد سے حد درجہ مختلف ہے۔بانی کی شاعری پڑھتے وقت،زندگی کے وہ تجربے ننگے تلووں کے ساتھ دوڑتے ہوئے نظروں کے سامنے آجاتے ہیں، جن میں ہجر کا عمل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے، یعنی بانی کے یہاں بچھڑنے کے بعد کے رونے سے زیادہ بچھڑتے وقت کے لمحات میں پوشیدہ جمالیات کو نمایاں کیا گیا ہے، میں اس حوالے سے بانی کا زبردست مداح ہوں کہ وہ صرف تصویر نہیں دکھاتا بلکہ بولتی ہوئی تصویر دکھاتا ہے، یعنی صرف پتلا نہیں بناتا، اس میں روح بھی پھونکنا جانتا ہے۔بانی کو دوبارہ پڑھنے، اس پر تنقید کے در ایک دفعہ ٹھیک سے کھولنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنے کی مزید ضرورت ہے، ادبی دنیا پر بانی کی یہ قریب ساٹھ غزلیں ہیں، یونی کوڈ میں غزلیں پڑھی جارہی ہیں، کل سے ساقی صاحب کی غزلوں کو پڑھنے، سننے اور شیئر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، بانی کے اشعار کے ساتھ بھی یقین ہے کہ یہی ہوگا۔کیونکہ ان کو پڑھنے، پسند کرنے والے بہت زیادہ ہیں، وہ اردو شاعری کی نمائندہ آواز ہیں۔سیوکیجیے، شیئر کیجیے، پڑھیے اور پڑھائیے، یہ سارا سرمایہ آپ کا ہے۔

آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا
آنکھ کھلتی جائے گی منظر بدلتا جائے گا
پھیلتی جائے گی چاروں سمت اک خوش رونقی
ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا
میری راہوں میں حسیں کرنیں بکھرتی جائیں گی
آخری تارا پس کہسار ڈھلتا جائے گا
بھولتا جاؤں گا گزری ساعتوں کے حادثے
قہر آئندہ بھی میرے سر سے ٹلتا جائے گا
راہ اب کوئی ہو منزل کی طرف لے جائے گی
پاؤں اب کیسا پڑے خود ہی سنبھلتا جائے گا
اک سماں کھلتا ہوا سا اک فضا بے داغ سی
اب یہی منظر مرے ہم راہ چلتا جائے گا
چھو سکے گی اب نہ میرے ہاتھ طوفانی ہوا
جس دیے کو اب جلادوں گا وہ جلتا جائے گا
۰۰۰
ادھر کی آئے گی اک رو ادھر کی آئے گی
کہ میرے ساتھ تو مٹی سفر کی آئے گی
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
نہ کوئی جا کے اسے دکھ مرے سنائے گا
نہ کام دوستی اب شہر بھر کی آئے گی
ابھی بلند رکھو یارو آخری مشعل
ادھر تو پہلی کرن کیا سحر کی آئے گی
کچھ اور موڑ گزرنے کی دیر ہے بانی
صدا نہ گرد کسی ہم سفر کی آئے گی
۰۰۰
اک گل تر بھی شرر سے نکلا
بسکہ ہر کام ہنر سے نکلا
میں ترے بعد پھر اے گم شدگی
خیمۂ گرد سفر سے نکلا
غم نکلتا نہ کبھی سینے سے
اک محبت کی نظر سے نکلا
اک صف ابر رواں تیرے بعد
اک گھنا سایہ شجر سے نکلا
راستے میں کوئی دیوار بھی تھی
وہ اسی ڈر سے نہ گھر سے نکلا
ذکر پھر اپنا وہاں مدت بعد
کسی عنوان دگر سے نکلا
ہم کہ تھے نشۂ محرومی میں
یہ نیا درد کدھر سے نکلا
ایک ٹھوکر پہ سفر ختم ہوا
ایک سودا تھا کہ سر سے نکلا
ایک اک قصۂ بے معنی کا
سلسلہ تیری نظر سے نکلا
لمحے آداب تسلسل سے چھٹے
میں کہ امکان سحر سے نکلا
سر منزل ہی کھلا اے بانی
کون کس راہ گزر سے نکلا
۰۰۰
اک ڈھیر راکھ میں سے شرر چن رہا ہوں میں
خوابوں کے درمیان خبر چن رہا ہوں میں
کیا دل خراش کام ہوا ہے مرے سپرد
اک زرد رت کے برگ و ثمر چن رہا ہوں میں
اک خواب تھا کہ ٹوٹ گیا خوں کے حبس میں
اب تند دھڑکنوں کے بھنور چن رہا ہوں میں
کیا جانے اس کے خط میں دھواں کیا ہے حرف حرف
مفہوم چن رہا ہوں اثر چن رہا ہوں میں
اے رمز آشنائے تجسس ادھر بھی دیکھ
اندھے سمندروں سے گہر چن رہا ہوں میں
وہ مستقل غبار ہے چاروں طرف کہ اب
گھر کے تمام روزن و در چن رہا ہوں میں
بانی نظر کا زاویہ بدلا ہے اس طرح
اب ہر فضا سے چیز دگر چن رہا ہوں میں
۰۰۰
بجائے ہم سفری اتنا رابطہ ہے بہت
کہ میرے حق میں تری بے ضرر دعا ہے بہت
تھی پاؤں میں کوئی زنجیر بچ گئے ورنہ
رم ہوا کا تماشا یہاں رہا ہے بہت
یہ موڑ کاٹ کے منزل کا عکس دیکھو گے
اسی جگہ مگر امکان حادثہ ہے بہت
بس ایک چیخ ہی یوں تو ہمیں ادا کردے
معاملہ ہنر حرف کا جدا ہے بہت
مری خوشی کا وہ کیا کیا خیال رکھتا ہے
کہ جیسے میری طبیعت سے آشنا ہے بہت
تمام عمر جنہیں ہم نے ٹوٹ کر چاہا
ہمارے ہاتھوں انہیں پر ستم ہوا ہے بہت
ذرا چھوا تھا کہ بس پیڑ آگرا مجھ پر
کہاں خبر تھی کہ اندر سے کھوکھلا ہے بہت
کوئی کھڑا ہے مری طرح بھیڑ میں تنہا
نظر بچا کے مری سمت دیکھتا ہے بہت
یہ احتیاط کدہ ہے کڑے اصولوں کا
ذرا سے نقص پہ بانی یہاں سزا ہے بہت
۰۰۰
بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا
کہ لمحہ لاکھ امکانات کا تھا
بچا لی تھی ضیا اندر کی اس نے
وہی اک آشنا اب رات کا تھا
رفاقت کیا کہاں کے مشترک خواب
کہ سارا سلسلہ شبہات کا تھا
بگولے اس کے سر پر چیختے تھے
مگر وہ آدمی چپ ذات کا تھا
حنائی ہاتھ کا منظر تھا بانی
کہ تابندہ ورق اثبات کا تھا
۰۰۰
پھر وہی تو ساتھ میرے پھر وہی بستی پرانی
ایک اک رستہ ہے تیری رونق پا کی کہانی
اک گل آوارگی تیری مہک تاروں سے کھیلے
اے ندی بہتا رہے دائم ترا بیدار پانی
سبز نیلی دھند میں ڈوبے پہاڑوں سے اترتی
کیا عجب منظر بہ منظر روشنی ہے داستانی
اک گھنے سرشار حاصل کی فضا ہے اور دونوں
اب نہیں ہے درمیاں کوئی بھی منزل امتحانی
میں کہ تھا منکر ترا اور اب کہ میں قائل کھڑا ہوں
اک وصال لمحہ لمحہ اے عطائے آسمانی
۰۰۰
پی چکے تھے زہر غم خستہ جاں پڑے تھے ہم چین تھا
پھر کسی تمنا نے سانپ کی طرح ہم کو ڈس لیا
میرے گھر تک آتے ہی کیوں جدا ہوئی تجھ سے کچھ بتا
ایک اور آہٹ بھی ساتھ ساتھ تھی تیرے اے صبا
سر میں جو بھی تھا سودا اڑ گیا خلاؤں میں مثل گرد
ہم پڑے ہیں رستے میں نیم جاں شکستہ دل خستہ پا
سب کھڑے تھے آنگن میں اور مجھ کو تکتے تھے، بار بار
گھر سے جب میں نکلا تھا مجھ کو روکنے والا کون تھا
جوش گھٹتا جاتا تھا ٹوٹتے سے جاتے تھے حوصلے
اور سامنے بانی دوڑتا سا جاتا تھا راستا
۰۰۰
پیہم موج امکانی میں
اگلا پاؤں نئے پانی میں
صف شفق مرے بستر تک
ساتوں رنگ فراوانی میں
بدن وصال آہنگ ہوا سا
قبا عجیب پریشانی میں
کیا سالم پہچان ہے اس کی
وہ کہ نہیں اپنے ثانی میں
ٹوک کے جانے کیا کہتا وہ
اس نے سنا سب بے دھیانی میں
یاد تری جیسے کہ سر شام
دھند اتر جائے پانی میں
خود سے کبھی مل لیتا ہوں میں
سناٹے میں ویرانی میں
آخر سوچا دیکھ ہی لیجے
کیا کرتا ہے وہ من مانی میں
ایک دیا آکاش میں بانی
ایک چراغ سا پیشانی میں
۰۰۰
تجھے ذرا دکھ اور سسکنے والا میں
تری اداسی دیکھ نہ سکنے والا میں
ترے بدن میں چنگاری سی کیا شے ہے
عکس ذرا سا اور چمکنے والا میں
ترے لہو میں بیداری سی کیا شے ہے
لمسی ذرا سا اور مہکنے والا میں
تری ادا میں پرکاری سی کیا شے ہے
بات ذرا سی اور جھجھکنے والا میں
رنگوں کا اک باغ حسیں چہرہ تیرا
کیا کیا دیکھوں آنکھ جھپکنے والا میں
سنگ نہیں ہوں بات نہ مانوں موسم کی
ہوا ذرا سی اور لچکنے والا میں
سفر میں تنہا قدم اٹھانا مشکل ہے
ساتھ تمہارے کبھی نہ تھکنے والا میں
۰۰۰
تمام راستہ پھولوں بھرا ہے میرے لیے
کہیں تو کوئی دعا مانگتا ہے میرے لیے
تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے میرے لیے
میں جانتا ہوں ترا در کھلا ہے میرے لیے
مجھے بچھڑنے کا غم تو رہے گا ہم سفرو
مگر سفر کا تقاضا جدا ہے میرے لیے
وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے
عجیب درگزری کا شکار ہوں اب تک
کوئی کرم ہے نہ کوئی سزا ہے میرے لیے
گزر سکوں گا نہ اس خواب خواب بستی سے
یہاں کی مٹی بھی زنجیر پا ہے میرے لیے
اب آپ جاؤں تو جاک راسے سمیٹوں میں
تمام سلسلہ بکھرا پڑا ہے میرے لیے
یہ حسن ختم سفر یہ طلسم خانۂ رنگ
کہ آنکھ جھپکوں تو منظر نیا ہے میرے لیے
یہ کیسے کوہ کے اندر میں دفن تھا بانی
وہ ابر بن کے برستا رہا ہے میرے لیے
۰۰۰
چاند کی اول کرن منظر بہ منظر آئے گی
شام ڈھل جانے دو شب زینہ اتر کر آئے گی
میرے بستر تک ابھی آئی ہے وہ خوشبوئے خواب
رفتہ رفتہ بازوؤں میں بھی بدن بھر آئے گی
جانے وہ بولے گا کیا کیا اور بری ہوجائے گا
کچھ سنوں گا میں تو سب تہمت مرے سر آئے گی
وہ کھڑی ہے اک روایت کی طرح دہلیز پر
سیر کا بھی شوق ہے لیکن نہ باہر آئے گی
یوں کہ تجھ سے دور بھی ہوتے چلے جائیں گے ہم
جانتے بھی ہیں صدا تیری برابر آئے گی
کیا کھڑا ندی کنارے دیکھتا ہے وسعتیں
کیا سمجھتا ہے کوئی موج سمندر آئے گی
کیا عجب ہوتے ہیں باطن راستوں کے سلسلے
کوئی بھی زنداں ہو بانی روشنی در آئے گی
۰۰۰
چلی ڈگر پر کبھی نہ چلنے والا میں
نئے انوکھے موڑ بدلنے والا میں
تم کیا سمجھو عجب عجب ان باتوں کو
آگ کہیں ہو یہاں ہوں جلنے والا میں
بہت ذرا سی اوس بھگونے کو میرے
بہت ذرا سی آنچ، پگھلنے والا میں
بہت ذرا سی ٹھیس تڑپنے کو میرے
بہت ذرا سی موج، اچھلنے والا میں
بہت ذرا سا سفر بھٹکنے کو میرے
بہت ذرا سا ہاتھ ، سنبھلنے والا میں
بہت ذرا سی صبح بکسنے کو میرے
بہت ذرا سا چاند مچلنے والا میں
بہت ذرا سی راہ نکلنے کو میرے
بہت ذرا سی آس بہلنے والا میں
۰۰۰
چھی ہے تجھ میں کوئی شے اسے نہ غارت کر
جو ہوسکے تو کہیں دل لگا محبت کر
ادا یہ کس کٹے پتے سے تو نے سیکھی ہے
ستم ہوا کا ہو اور شاخ سے شکایت کر
نہ ہو مخل مرے اندر کی ایک دنیا میں
بڑی خوشی سے بر و بحر پر حکومت کر
وہ اپنے آپ نہ سمجھے گا تیرے دل میں ہے کیا
خلش کو حرف بنا حرف کو حکایت کر
مرے بنائے ہوئے بت میں روح پھونک دے اب
نہ ایک عمر کی محنت مری اکارت کر
کہاں سے آگیا تو بزم کم یقیناں میں
یہاں نہ ہوگا کوئی خوش ہزار خدمت کر
کچھ اور چیزیں ہیں دنیا کو جو بدلتی ہیں
کہ اپنے درد کو اپنے لیے عبارت کر
نہیں عجب اسی پل کا ہو منتظر وہ بھی
کہ چھولے اس کے بدن کو ذرا سی ہمت کر
خلوص تیرا بھی اب زد میں آگیا بانی
یہاں یہ روز کے قصے ہیں جی برا مت کر
۰۰۰
خاک و خوں کی وسعتوں سے باخبر کرتی ہوئی
اک نظر امکاں ہزار امکاں سفر کرتی ہوئی
اک عجب بے چین منظر آنکھ میں ڈھلتا ہوا
اک خلش سفاک سی سینے میں گھر کرتی ہوئی
اک کتاب صد ہنر تشریح زائل کا شکار
ایک مہمل بات جادو کا اثر کرتی ہوئی
جسم اور اک نیم پوشیدہ ہوس آمادگی
آنکھ اور سیر لباس مختصر کرتی ہوئی
تشنگی کا زہر سینے کو سیہ کرتا ہوا
اک طلب اپنے نشے کو تیز تر کرتی ہوئی
وہ نگہ اپنے لیے ہے صد حساب آرزو
اور مجھے بیگانۂ نفع و ضرر کرتی ہوئی
۰۰۰
دل میں خوشبو سی اتر جاتی ہے سینے میں نور سا ڈھل جاتا ہے
خواب اک دیکھ رہا ہوتا ہوں پھر یہ منظر بھی بدل جاتا ہے
چاہتا ہوں کہ میں اٹھ کر دیکھوں چھت سے آکاش کا منظر دیکھوں
ابھی چھت تک ہی پہنچتی ہے آنکھ پاؤں زینے سے پھسل جاتا ہے
خواب کی گم شدہ تعبیر ہوں میں اک عجب ضبط کی تصویر ہوں میں
پھر بھی ان برف سی آنکھوں میں کبھی کوئی غم ہے کہ پگھل جاتا ہے
اک دھواں جو نہ بکھرنے دے مجھے خاک میں بھی نہ اترنے دے مجھے
جب سیاہی کی طرف بڑھتا ہوں اک دیا سا کہیں جل جاتا ہے
راہ چلتا ہوں ارادوں کے ساتھ شوق کے ساتھ مرادوں کے ساتھ
پاؤں ہوتے ہیں قریب منزل وقت ہاتھوں سے نکل جاتا ہے
۰۰۰
دلوں میں خاک سی اڑتی ہے کیا نہ جانے کیا
تلاش کرتی ہے پل پل ہوا نہ جانے کیا
ذرا سا کان لگا کے کبھی سنو گئے رات
کہیں سے آتی ہے گم صم صدا نہ جانے کیا
مسافروں کے دلوں میں عجب خزانے تھے
زیاں سفر تھا مگر راستہ نہ جانے کیا
وہ کہہ رہا تھا نہ جھانکوں گا آج صبح اس میں
مجھے دکھائے یہی آئنہ نہ جانے کیا
دعا کے پھول کی خوشبو سا پھیلنے والا
وہ خود میں ڈھونڈتا تھا گمشدہ نہ جانے کیا
نہیں ہے کس کی نظر میں افق کوئی نہ کوئی
اس آنکھ میں تھی کوئی شے جدا نہ جانے کیا
تمام شہر میں گاڑھے دھویں کا منظر ہے
لکھا ہوا تھا یہاں جا بہ جا نہ جانے کیا
وہی بچھڑتے دلوں کی فضائے اشک آلود
وہی سفر کہ پرانا نیا نہ جانے کیا
نکل گیا ہے خلاؤں کی سمت اے بانی
نواح جاں سے گزرتا ہوا نہ جانے کیا
۰۰۰
دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا
ذرا سے لمس نے روشن کیا بدن اس کا
وہ خاک اڑانے پہ آئے تو سارے دشت اس کے
چلے گداز قدم تو چمن چمن اس کا
وہ جھوٹ سچ سے پرے رات کچھ سناتا تھا
دلوں میں راست اترتا گیا سخن اس کا
عجیب آب و ہوا کا وہ رہنے والا ہے
ملے گا خواب و خلا میں کہیں وطن اس کا
تری طرف سے نہ کیا کیا ستم ہوئے اس پر
میں جانتا ہوں بہت دوست بھی نہ بن اس کا
وہ روز شام سے شمعیں دھواں اس کی
وہ روز صبح اجالا کرن کرن اس کا
مری نظر میں ہے محفوظ آج بھی بانی
بدن کسا ہوا ملبوس بے شکن اس کا
۰۰۰
دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا
میں کہ عکس منتشر ایک ایک منظر میں اکیلا
اڑ چلا وہ اک جدا خاکہ لیے سر میں اکیلا
صبح کا پہلا پرندہ آسماں بھر میں اکیلا
کون دے آواز خالی رات کے اندھے کنویں میں
کون اترے خواب سے محروم بستر میں اکیلا
اس کو تنہا کر گئی کروٹ کوئی پچھلے پہر کی
پھر اڑا بھاگا وہ سارا دن نگر بھر میں اکیلا
ایک مدھم آنچ سی آواز سرگم سے الگ کچھ
رنگ اک دبتا ہوا سا پورے منظر میں اکیلا
بولتی تصویر میں اک نقش لیکن کچھ ہٹا سا
ایک حرف معتبر لفظوں کے لشکر میں اکیلا
جاؤ موجو میری منزل کا پتہ کیا پوچھتی ہو
اک جزیرہ دور افتادہ سمندر میں اکیلا
جانے کس احساس نے آگے نہیں بڑھنے دیا تھا
اب پڑا ہوں قید میں رستے کے پتھر میں اکیلا
ہو بہو میری طرح چپ چاپ مجھ کو دیکھتا ہے
اک لرزتا خوبصورت عکس ساغر میں اکیلا
۰۰۰
دوستو کیا ہے تکلف مجھے سر دینے میں
سب سے آگے ہوں میں کچھ اپنی خبر دینے میں
پھینک دیتا ہے ادھر پھول وہ گاہے گاہے
جانے کیا دیر ہے دامن مرا بھر دینے میں
سیکڑوں گم شدہ دنیائیں دکھادیں اس نے
آگیا لطف اسے لقمۂ تر دینے میں
شاعری کیا ہے کہ اک عمر گنوائی ہم نے
چند الفاظ کو امکان و اثر دینے میں
بات اک آئی ہے دل میں نہ بتاؤں اس کو
عیب کیا ہے مگر اظہار ہی کردینے میں
اسے معلوم تھا اک موج مرے سر میں ہے
وہ جھجھکتا تھا مجھے حکم سفر دینے میں
میں ندی پار کروں سوچ رہا ہوں بانی
موج مصروف ہے پانی کو بھنور دینے میں
۰۰۰
دیکھتا تھا میں پلٹ کر ہر آن
کس صدا کا تھا نہ جانے امکان
اس کی اک بات کو تنہا مت کر
وہ کہ ہے ربط نوا میں گنجان
ٹوٹی بکھری کوئی شے تھی ایسی
جس نے قائم کی ہماری پہچان
لوگ منزل پہ تھے ہم سے پہلے
تھا کوئی راستہ شاید آسان
سب سے کمزور اکیلے ہم تھے
ہم پہ تھے شہر کے سارے بہتان
اوس سے پیاس کہاں بجھتی ہے
موسلا دھار برس میری جان
کیا عجب شہر غزل ہے بانی
لفظ شیطان سخن بے ایمان
۰۰۰
ذرا سا امکان کس قدر تھا
فضا میں ہیجان کس قدر تھا
میں کس قدر تھا قریب اس کے
وہ میری پہچان کس قدر تھا
لباس پر تھا ذرا سا اک داغ
بدن پریشان کس قدر تھا
یہی کہ اس سے کبھی نہ ٹوٹے
ہمیں کہ اک دھیان کس قدر تھا
نہ جانے کیا لوگ بچھڑے ہوں گے
وہ موڑ سنسان کس قدر تھا
وہ سارے غم کیا ہوئے خدایا
یہ دل کہ گنجان کس قدر تھا
بحال ہوجائیں پھر وہ رشتے
اسے بھی ارمان کس قدر تھا
بھٹک گئے کتنے لوگ بانی
نئے کا رجحان کس قدر تھا
۰۰۰
رہی نہ یارو آخر سکت ہواؤں میں
چار دیے روشن ہیں چار دشاؤں میں
کائی جمی تھی سینے میں جانے کب سے
چیخ اٹھا وہ آکر کھلی فضاؤں میں
اپنی گم آوازیں آؤ تلاش کریں
سبز پرندوں کی سیال صداؤں میں
میں بھی کرید رہا تھا خاک کی پرتوں کو
وہ بھی جھانک رہا تھا دور خلاؤں میں
ٹھنڈی چھاؤں دیکھ کے وہ آ بیٹھا تھا
الجھ گیا برگد کی گھنی جٹاؤں میں
گھاٹ گھاٹ کوشش کی پار اترنے کی
لہر کوئی دشمن تھی سب دریاؤں میں
وہ سر سبز زمینوں تک ہم سفر رہا
اڑ نہ سکا پھر میرے ساتھ ہواؤں میں
پانی ذرا برسنے دے منظر پھر دیکھ
رنگ چھپے ہیں سب ان سیہ گھٹاؤں میں
آ میں تیرے من میں جھانکوں اور بتاؤں
کیوں تاثیر نہیں ہے تری دعاؤں میں
سب آپس میں لڑ کر بستی چھوڑ گئے
خوش خوش جا آباد ہوئے صحراؤں میں
ایک طلب نے بانی بہت خراب کیا
آخر ہم بھی ہوئے شمار گداؤں میں
۰۰۰
زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
میں ڈھیر ہوگیا طول سفر سے ڈرتے ہوئے
دکھا کے لمحۂ خالی کا عکس لا تفسیر
یہ مجھ میں کون ہے مھ سے فرار کرتے ہوئے
بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
ہزار غم تھے مگر بھولتے بسرتے ہوئے
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے
عجب نظارا تھا بستی کا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے
میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں
عجب زمانے مرے سر سے تھے گزرتے ہوئے
وہی ہوا کہ تکلف کا حسن بیچ میں تھا
بدن تھے قرب تہی لمس سے بکھرتے ہوئے
۰۰۰
سر بہ سر ایک چمکتی ہوئی تلوار تھا میں
موج دریا سے مگر بر سر پیکار تھا میں
میں کسی لمحۂ بے وقت کا اک سایہ تھا
یا کسی حرف تہی اسم کا اظہار تھا میں
ایک اک موج پٹخ دیتی تھی باہر مجھ کو
کبھی اس پار تھا میں اور کبھی اس پار تھا میں
اس نے پھر ترک تعلق کا بھی موقع نہ دیا
گھٹتے رشتوں سے کہ ہر چند خبردار تھا میں
اس تماشے میں تاثر کوئی لانے کے لیے
قتل بانی جسے ہونا تھا وہ کردار تھا میں
۰۰۰
سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف
مری ایک ذات دگر کی طرف
بھرے شہر میں اک بیاباں بھی تھا
اشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف
مرے واسطے جانے کیا لائے گی
گئی ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف
کنارہ ہی کٹنے کی سب دیر تھی
پھسلتے گئے ہم بھنور کی طرف
کوئی درمیاں سے نکلتا گیا
نہ دیکھا کسی ہم سفر کی طرف
تری دشمنی خود ہی مائل رہی
کسی رشتۂ بے ضرر کی طرف
رہی دل میں حسرت کہ بانی چلیں
کسی منزل پر خطر کی طرف
۰۰۰
سیاہ خانۂ امید رائگاں سے نکل
کھلی فضا میں ذرا آ غبار جاں سے نکل
عجیب بھیڑ یہاں جمع ہے یہاں سے نکل
کہیں بھی چل مگر اس شہر بے اماں سے نکل
اک اور راہ ادھر دیکھ جارہی ہے وہیں
یہ لوگ آتے رہیں گے تو درمیاں سے نکل
ذرا بڑھا تو سہی واقعات کو آگے
طلسم کارئ آغاز داستاں سے نکل
تو کوئی غم ہے تو دل میں جگہ بنا اپنی
تو اک صدا ہے تو احساس کی کماں سے نکل
یہیں کہیں ترا دشمن چھپا ہے اے بانی
کوئی بہانہ بنا بزم دوستاں سے نکل
۰۰۰
سیر شب لامکاں اور میں
ایک ہوئے رفتگاں اور میں
سانس خلاؤں نے لی سینہ بھر
پھیل گیا آسماں اور میں
سر میں سلگتی ہوا تشنہ تر
دم سے الجھتا دھواں اور میں
اسم ابد کی تلاش طویل
حسن شروع گماں اور میں
میری فراوانیاں نو بہ نو
اب ہے نشاط زیاں اور میں
دونوں طرف جنگلوں کا سکوت
شور بہت درمیاں اور میں
خاک و خلا بے چراغ اور شب
نقش و نوا بے نشاں اور میں
پھر مرے دل میں کوئی تازہ کھوٹ
پھر کوئی سخت امتحاں اور میں
کب سے بھٹکتے ہیں باہم الگ
لمحۂ کم مہرباں اور میں
دور چھتوں پر برستا تھا قہر
چپ رہے کیوں تم یہاں اور میں
غیر مطالب کہیں اور ڈھونڈ
سہل بہت شرح جاں اور میں
۰۰۰
شعلہ ادھر ادھر کبھی سایا یہیں کہیں
ہوگا وہ برق جسم سبک پا یہیں کہیں
کن پانیوں کا زور اسے کاٹ لے گیا
دیکھا تھا ہم نے ایک جزیرہ یہیں کہیں
منسوب جس سے ہو نہ سکا کوئی حادثہ
گم ہوکے رہ گیا ہے وہ لمحہ یہیں کہیں
آوارگی کا ڈر نہ کوئی ڈوبنے کا خوف
صحرا ہی آس پاس نہ دریا یہیں کہیں
وہ چاہتا یہ ہوگا کہ میں ہی اسے بلاؤں
میری طرح وہ پھرتا ہے تنہا یہیں کہیں
بانی ذرا سنبھل کے محبت کا موڑ کاٹ
اک حادثہ سبھی تاک میں ہوگا یہیں کہیں
۰۰۰
شفق شجر موسموں کے زیور نئے نئے سے
دعاؤں کی اوس چنتے منظر نئے نئے سے
نمک نشیلی گداز فصلیں نئی نئی سی
افق پرندے گلاب بستر نئے نئے سے
خلا خلا بازوؤں کو بھرتی نئی ہوائیں
سفر صدف بادباں سمندر نئے نئے سے
یہ دن ڈھلے کس کا منتظر میں نیا نیا سا
یہ پھیلتے خواب میرے اندر نئے نئے سے
خنک ہوا شام کی کہانی نئی نئی سی
پرانے غم پھر محبتوں بھر نئے نئے سے
۰۰۰
صد سوغات سکوں فردوس ستمبر آ
اے رنگوں کے موسم منظر منظر آ
آدھے ادھورے لمس نہ میرے ہاتھ پہ رکھ
کبھی سپرد بدن سا مجھے میسر آ
کب تلک پھیلائے گا دھند مرے خوں میں
جھوٹی سچی نوا میں ڈھل کر لب پر آ
مجھے پتہ تھا اک دن لوٹ کے آئے گا تو
رکا ہوا دہلیز پہ کیوں ہے اندر آ
اے پیہم پرواز پرندے دم لے لے
نہیں اترتا آنگن میں تو چھت پر آ
اس نے عجب کچھ پیار سے اب کے لکھا بانی
بہت دنوں پھر گھوم لیا واپس گھر آ
۰۰۰
صدائے دل عبادت کی طرح تھی
نظر شمع شکایت کی طرح تھی
بہت کچھ کہنے والا چپ کھڑا تھا
فضا اجلی سی حیرت کی طرح تھی
کہا دل نے کہ بڑھ کر اس کو چھولوں
ادا خود ہی اجازت کی طرح تھی
نہ آیا وہ مرے ہم راہ یوں تو
مگر اک شے رفاقت کی طرح تھی
میں تیز و سست بڑھتا جارہا تھا
ہوا حرف ہدایت کی طرح تھی
نہ پوچھ اس کی نظر میں کیا تھے معیار
پسند اس کی رعایت کی طرح تھی
ملا اب کے وہ اک چہرہ لگائے
مگر سب بات عادت کی طرح تھی
نہ لڑتا میں کہ تھی چھوٹی سی اک بات
مگر ایسی کہ تہمت کی طرح تھی
کوئی شے تھی بنی جو حسن اظہار
مرے دل میں اذیت کی طرح تھی
۰۰۰
عجیب تجربہ تھا بھیڑ سے گزرنے کا
اسے بہانہ ملا مجھ سے بات کرنے کا
پھر ایک موج تہہ آب اس کو کھینچ گئی
تماشہ ختم ہوا ڈوبنے ابھرنے کا
مجھے خبر ہے کہ رستہ مزار چاہتا ہے
میں خستہ پا سہی لیکن نہیں ٹھہرنے کا
تھما کے ایک بکھرتا گلاب میرے ہاتھ
تماشہ دیکھ رہا ہے وہ میرے ڈرنے کا
یہ آسماں میں سیاہی بکھیر دی کس نے
ہمیں تھا شوق بہت اس میں رنگ بھرنے کا
کھڑے ہوں دوست کہ دشمن صفیں سب ایک سی ہیں
وہ جانتا ہے ادھر سے نہیں گزرنے کا
نگاہ ہم سفروں ر رکھوں سر منزل
کہ مرحلہ ہے یہ اک دوسرے سے ڈرنے کا
لپک لپک کے وہیں ڈھیر ہوگئے آخر
جتن کیا تو بہت سطح سے ابھرنے کا
کراں کراں نہ سزا کوئی سیر کرنے کی
سفر سفر نہ کوئی حادثہ گزرنے کا
کسی مقام سے کوئی خبر نہ آنے کی
کوئی جہاز زمیں پر نہ اب اترنے کا
کوئی صدا نہ سماعت پہ نقش ہونے کی
نہ کوئی عکس مری آنکھ میں ٹھہرنے کا
نہ اب ہوا مرے سینے میں سنسنانے کی
نہ کوئی زہر مری روح میں اترنے کا
کوئی بھی بات نہ مجھ کو اداس کرنے کی
کوئی سلوک نہ مجھ پہ گراں گزرنے کا
بس ایک چیخ گری تھی پہاڑ سے یک لخت
عجب نظارہ تھا پھر دھند کے بکھرنے کا
۰۰۰
علی بن متقی رویا
وہی چپ تھا وہی رویا
عجب آشوب عرفاں میں
فضا گم بھی کہ جی رویا
یقین مسمار موسم کا
کھنڈر خود سے تہی رویا
اذاں زینہ اتر آئی
سکوت باطنی رویا
خلا ہر ذات کے اندر
سنا جس نے وہی رویا
ندی پانی بہت روئی
عقیدہ روشنی رویا
سحردم کون روتا ہے
علی بن متقی رویا
۰۰۰
عکس کوئی کسی منظر میں نہ تھا
کوئی بھی چہرہ کسی در میں نہ تھا
صبح اک بوند گھٹاؤں میں نہ تھی
چاند بھی شب کو سمندر میں نہ تھا
کوئی جھنکار رگ گل میں نہ تھی
خواب کوئی کسی پتھر میں نہ تھا
شمع روشن کسی کھڑکی میں نہ تھی
منتظر کوئی کسی گھر میں نہ تھا
کوئی وحشت بھی مرے دل میں نہ تھی
کوئی سودا بھی مرے سر میں نہ تھا
تھی نہ لذت سخن اول میں
ذائقہ حرف مکرر میں نہ تھا
پیاس کی دھند بھی ہونٹوں پہ نہ تھی
اوس کا قطرہ بھی ساغر میں نہ تھا
۰۰۰
غائب ہر منظر میرا
ڈھونڈ پرندے گھر میرا
جنگل میں گم فصل مری
ندی میں گم پتھر میرا
دعا مری گم صر صر میں
بھنور میں گم محور میرا
ناف میں گم سب خواب مرے
ریت میں گم بستر میرا
سب بے نور قیاس مرے
گم سارا دفتر میرا
کبھی کبھی سب کچھ غائب
نام کہ گم اکثر میرا
میں اپنے اندر کی بہار
بانی کیا باہر میرا
۰۰۰
فضا کہ پھر آسمان بھر تھی
خوشی سفر کی اڑان بھر تھی
وہ کیا بدن پھر خفا تھا مجھ سے
کہ آنکھ بھی چپ گمان بھر تھی
افق کہ پھر ہوگیا منور
لکیر سی اک کہ دھیان بھر تھی
وہ موج کیا ٹوٹ کر گری ہے
تو کیا یہ بس امتحان بھر تھی
وہ اک فسانہ زبان بھر تھا
یہ اک سماعت کہ کان بھر تھی
سبب کہ اب تک وہ پوچھتا ہے
مری اداسی کہ آن بھر تھی
کھلا سمندر کہ چاند بھر تھا
ہوا کہ شب بادبان بھر تھی
ہمیں نے مسمار کر دکھائی
وہ اک رکاوٹ چٹان بھر تھی
شفق بنی آسماں میں جا کر
جو خوں کی بوند اک نشان بھر تھی
نہ لوٹ پایا وہ جانتا تھا
کہ واپسی درمیان بھر تھی
کسی غزل میں نہ آئی بانی
وہ اک اذیت کہ جان بھر تھی
۰۰۰
قدم زمیں پہ نہ تھے راہ ہم بدلتے کیا
ہوا بندھی تھی یہاں پیٹھ پر سنبھلتے کیا
پھر اس کے ہاتھوں ہمیں اپنا قتل بھی تھا قبول
کہ آچکے تھے قریب اتنے بچ نکلتے کیا
یہی سمجھ کے وہاں سے میں ہولیا رخصت
وہ چلتے ساتھ مگر دور تک تو چلتے کیا
تمام شہر تھا اک موم کا عجائب گھر
چڑھا جو دن تو یہ منظر نہ پھر پگھلتے کیا
وہ آسماں تھے کہ آنکھیں سمیٹتیں کیسے
وہ خواب تھے کہ مری زندگی میں ڈھلتے کیا
نباہنے کی اسے بھی تھی آرزو تو بہت
ہوا ہی تیز تھی اتنی چراغ جلتے کیا
اٹھے اور اٹھ کے اسے جا سنایا دکھ اپنا
کہ ساری رات پڑے کروٹیں بدلتے کیا
نہ آبروئے تعلق ہی جب رہی بانی
بغیر بات کیے ہم وہاں سے ٹلتے کیا
۰۰۰
گھنی گھنیری رات میں ڈرنے والا میں
سناٹے کی طرح بکھرنے والا میں
جانے کون اس پار بلاتا ہے مجھ کو
چڑھی ندی کے بیچ اترنے والا میں
رسوائی تو رسوائی منظور مجھے
ڈرے ڈرے سے پاؤں نہ دھرنے والا میں
مرے لیے کیا چیز ہے تجھ سے بڑھ کر یار
ساتھ ہی جینے ساتھ ہی مرنے والا میں
سب کچھ کہہ کے توڑ لیا ہے ناطہ کیا
میں کیا بولوں بات نہ کرنے والا
طرح طرح کے ورق بنانے والا تو
تری خوشی کے رنگ ہی بھرنے والا میں
دائم ابدی وقت گزرنے والا تو
منظر سایہ دیکھ ٹھہرنے والا میں
۰۰۰
لباس اس کا علامت کی طرح تھا
بدن روشن عبارت کی طرح تھا
فضا صیقل سماعت کی طرح تھی
سکوت اس کا امانت کی طرح تھا
ادا موج تجسس کی طرح تھی
نفس خوشبو کی شہرت کی طرح تھا
بساط رنگ تھی مٹھی میں اس کی
قدم اس کا بشارت کی طرح تھا
گریزاں آنکھ دعوت کی طرح تھی
تکلف اک عنایت کی طرح تھا
خلش بے دار نشے کی طرح تھی
رگوں میں خوں مصیبت کی طرح تھا
تصور پر حنا بکھری ہوئی تھی
سماں آغوش خلوت کی طرح تھا
ہوس اندھی ضرورت کی طرح تھی
وہ خود دائم محبت کی طرح تھا
وہی اسلوب سادہ شرح دل کا
کسی زندہ روایت کی طرح تھا
۰۰۰
مجھ سے اک اک قدم پر بچھڑتا ہوا کون تھا
ساتھ میرے مجھے کیا خبر دوسرا کون تھا
تا بہ منزل یہ بکھری ہوئی گرد پا کس کی ہے
اے برابر قدم دوستو وہ جدا کون تھا
جانے کس خطرے نے بخش دی سب کو ہم سائیگی
ورنہ اک دوسرے سے یہاں آشنا کون تھا
پہلے کس کی نظر میں خزانے تھے اس پار کے
مثل میرے حدوں سے ادھر دیکھتا کون تھا
کون تھا موسم صاف بھی جس کو آیا نہ راس
کچھ تو ہم سے کہو وہ ہلاک ہوا کون تھا
کون تھا میرے پر تولنے پر نظر جس کی تھی
جس نے سر پر مرے آسماں رکھ دیا کون تھا
کس کی بھیگی صدا جھانکتی تھی مری خاک سے
میں تھا اپنا کھنڈر اس میں میرے سوا کون تھا
کون تھا قائل قہر ہونا تھا جس کو ابھی
ٹوٹ کر جس پہ برسی بھیانک گھٹا کون تھا
۰۰۰
مجھے پتہ تھا کہ یہ حادثہ بھی ہونا تھا
میں اس سے مل کے نہ تھا خوش جدا بھی ہونا تھا
چلو کہ جذبۂ اظہار چیخ میں تو ڈھلا
کسی طرح اسے آخر ادا بھی ہونا تھا
بنا رہی تھی عجب چتر ڈوبتی ہوئی شام
لہو کہیں کہیں شامل مرا بھی ہونا تھا
عجب سفر تھا کہ ہم راستوں سے کٹتے گئے
پھر اس کے بعد ہمیں لاپتہ بھی ہونا تھا
میں تیرے پاس چلا آیا لے کے شکوے گلے
کہاں خبر تھی کوئی فیصلہ بھی ہونا تھا
میں تیرے پاس چلا آیا لے کے شکوے گلے
کہاں خبر تھی کوئی فیصلہ بھی ہونا تھا
غبار بن کے اڑے تیز رو کہ ان کے لیے
تو کیا ضرور کوئی راستہ بھی ہونا تھا
سرائے پر تھا دھواں جمع ساری بستی کا
کچھ اس طرح کہ کوئی سانحہ بھی ہونا تھا
مجھے ذرا سا گماں بھی نہ تھا اکیلا ہوں
کہ دشمنوں کا کہیں سامنا بھی ہونا تھا
۰۰۰
محراب نہ قندیل نہ اسرار نہ تمثیل
کہہ اے ورق تیرہ کہاں ہے تری تفصیل
اک دھند میں گم ہوتی ہوئی ساری کہانی
اک لفظ کے باطن سے الجھتی ہوئی تاویل
میں آخری پرتو ہوں کسی غم کے افق پر
اک زرد تماشے میں ہوا جاتا ہوں تحلیل
واماندۂ وقت آنکھ کو منظر نہ دکھا اور
ذمے ہے ہمارے ابھی اک خواب کی تشکیل
آساں ہوئے سب مرحلے اک موجۂ پا سے
برسوں کی فضا ایک صدا سے ہوئی تبدیل
۰۰۰
مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
اک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مری صدا نہ سہی ہاں مرا لہو نہ سہی
یہ موج موج اچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
کہیں نہ آخری جھونکا ہو مٹتے رشتوں کا
یہ درمیاں سے نکلتا ہوا سا کچھ تو ہے
نہیں ہے آنکھ کے صحرا میں ایک بوند سراب
مگر یہ رنگ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
جو میرے واسطے کل زہر بن کے نکلے گا
ترے لبوں پہ سنبھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ عکس پیکر صد لمس ہے نہیں نہ سہی
کسی خیال میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بدن کو توڑ کے باہر نکلنا چاہتا ہے
یہ کچھ تو ہے یہ مچلتا ہوا سا کچھ تو ہے
کسی کے واسطے ہوگا پیام یا کوئی قہر
ہمارے سر سے یہ ٹلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ میں نہیں نہ سہی اپنے سرد بستر پر
یہ کروٹیں سی بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
وہ کچھ تو تھا میں سہارا جسے سمجھتا تھا
یہ میرے ساتھ پھسلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بکھر رہا ہے فضا میں یہ دود روشنی کا
ادھر پہاڑ کے جلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مرے وجود سے جو کٹ رہا ہے گام بہ گام
یہ اپنی راہ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
جو چاٹتا چلا جاتا ہے مجھ کو اے بانی
یہ آستین میں پلتا ہوا سا کچھ تو ہے
۰۰۰
مست اڑتے پرندوں کو آواز مت دو کہ ڈر جائیں گے
آن کی آن میں سارے اوراق منظر بکھر جائیں گے
شام چاندی سی اک یاد پلکوں پہ رکھ کر چلی جائے گی
اور ہم روشنی روشنی اپنے اندر اتر جائیں گے
کون ہیں کس جگہ ہیں کہ ٹوٹا ہے جن کے سفر کا نشہ
ایک ڈوبی سی آواز آتی ہے پیہم کہ گھر جائیں گے
اے ستارو تمہیں اپنی جانب سے شاید نہ کچھ دے سکیں
ہم مگر راستوں میں رکھے سب چراغوں کو بھر جائیں گے
وقت میں اک جگہ سی بناتے ہوئے تیرہ لمحے یہی
کوئی اندھی کہانی مرے دل پہ تحریر کرجائیں گے
ہم نے سمجھا تھا موسم کی بے رحمیوں کو بھی ایسا کہاں
اس طرح برف گرتی رہے گی کہ دریا ٹھہر جائیں گے
آج آیا ہے اک عمر کی فرقتوں میں عجب دھیان سا
یوں فراموشیاں کام کرجائیں گی زخم بھر جائیں گے
۰۰۰
موڑ تھا کیسا تجھے تھا کھونے والا میں
رو ہی پڑا ہوں کبھی نہ رونے والا میں
کیا جھونکا تھا چمک گیا تن من سارا
پتہ نہ تھا پھر راکھ تھا ہونے والا میں
لہر تھی کیسی مجھے بھنور میں لے آئی
ندی کنارے ہاتھ بھگونے والا میں
رنگ کہاں تھا پھول کی پتی پتی میں
کرن کرن سی دھوپ پرونے والا میں
کیا دن بیتا سب کچھ آنکھ میں پھرتا ہے
جاگ رہا ہوں مزے میں سونے والا میں
شہر خزاں ہے زردی اوڑھے کھڑے ہیں پیڑ
منظر منظر نظر چبھونے والا میں
جو کچھ ہے اس پار وہی اس پار بھی ہے
ناؤ اب اپنی آپ ڈبونے والا میں
۰۰۰
میں اس کی بات کی تردید کرنے والا تھا
اک اور حادثہ مجھ پر گزرنے والا تھا
کہیں سے آگیا اک ابر درمیاں ورنہ
مرے بدن میں یہ سورج اترنے والا تھا
مجھے سنبھال لیا تیری ایک آہٹ نے
سکوت شب کی طرح میں بکھرنے والا تھا
عجیب لمحۂ کمزور سے میں گزرا ہوں
تمام سلسلہ پل میں بکھرنے والا تھا
میں لڑکھڑا سا گیا ساےۂ شجر میں ضرور
میں راستے میں مگر کب ٹھہرنے والا تھا
اب آسماں بھی بڑا شانت ہے زمیں بھی سکھی
گزر گیا ہے جو ہم پر گزرنے والا تھا
لگا جو پیٹھ میں آکر وہ تیر تھا کس کا
میں دشمنوں کی صفوں میں نہ مرنے والا تھا
۰۰۰
میں چپ کھڑا تھا تعلق میں اختصار جو تھا
اسی نے بات بنائی وہ ہوشیار جو تھا
پٹخ دیا کسی جھونکے نے لاکے منزل پر
ہوا کے سر پہ کوئی دیر سے سوار جو تھا
محبتیں نہ رہیں اس کے دل میں میرے لیے
مگر وہ ملتا تھا ہنس کر کہ وضعدار جو تھا
عجب غرور میں آکر برس پڑا بادل
کہ پھیلتا ہوا چاروں طرف غبار جو تھا
قدم قدم رم پامال سے میں تنگ آکر
ترے ہی سامنے آیا ترا شکار جو تھا
۰۰۰
نہ جانے کل ہوں کہاں ساتھ اب ہوا کے ہیں
کہ ہم پرندے مقامات گم شدہ کے ہیں
ستم یہ دیکھ کہ خود معتبر نہیں وہ نگاہ
کہ جس نگاہ میں ہم مستحق سزا کے ہیں
قدم قدم پہ کہے ہے یہ جی کہ لوٹ چلو
تمام مرحلے دشوار انتہا کے ہیں
فصیل شب سے عجب جھانکتے ہوئے چہرے
کرن کرن کے ہیں پیاسے ہوا ہوا کے ہیں
کہیں سے آئی ہے بانی کوئی خبر شاید
یہ تیرتے ہوئے سایے کسی صدا کے ہیں
۰۰۰
نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا
عجب نظارۂ لا سمتیت نظر میں تھا
عتاب تھا کسی لمحے کا اک زمانے پر
کسی کو چین نہ باہر تھا اور نہ گھر میں تھا
چھپا کے لے گیا دنیا سے اپنے دل کے گھاؤ
کہ ایک شخص بہت طاق اس ہنر میں تھا
کسی کے لوٹنے کی جب صدا سنی تو کھلا
کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی سفر میں تھا
کبھی میں آب کے تعمیر کردہ قصر میں ہوں
کبھی ہوا میں بنائے ہوئے سے گھر میں تھا
جھجک رہا تھا وہ کہنے سے کوئی بات ایسی
میں چپ کھڑا تھا کہ سب کچھ مری نظر میں تھا
یہی سمجھ کے اسے خود صدا نہ دی میں نے
وہ تیز گام کسی دور کے سفر میں تھا
کبھی ہوں تیری خموشی کے کٹتے ساحل پر
کبھی میں لوٹتی آواز کے بھنور میں تھا
ہماری آنکھ میں آکر بنا اک اشک وہ رنگ
جو برگ سبز کے اندر نہ شاخ تر میں تھا
کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ
اک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا
ابھی نہ برسے تھے بانی گھرے ہوئے بادل
میں اڑتی خاک کی مانند رہ گزر میں تھا
۰۰۰
وہ بات بات پہ جی بھر کے بولنے والا
الجھ کے رہ گیا ڈوری کو کھولنے والا
لو سارے شہر کے پتھر سمیٹ لائے ہیں ہم
کہاں ہے ہم کو شب و روز تولنے والا
ہمارا دل کہ سمندر تھا اس نے دیکھ لیا
بہت اداس ہوا زہر گھولنے والا
کسی کی موج فراواں سے کھا گیا کیا مات
وہ اک نظر میں دلوں کو ٹٹولنے والا
وہ آج پھر یہی دہرا کے چل دیا بانی
میں بھول کے نہیں اب تجھ سے بولنے والا
۰۰۰
وہ جسے اب تک سمجھتا تھا میں پتھر سامنے تھا
اک پگھلتی موم کا سیال پیکر سامنے تھا
میں نے چاہا آنے والے وقت کا اک عکس دیکھوں
بے کراں ہوتے ہوئے لمحے کا منظر سامنے تھا
اپنی اک پہچان دی آئی گئی باتوں میں اس نے
آج وہ اپنے تعلق سے بھی بڑھ کر سامنے تھا
میں یہ سمجھا تھا کہ سرگرم سفر ہے کوئی طائر
جب رکی آندھی تو اک گرتا ہوا پر سامنے تھا
میں نے کتنی بار چاہا خود کو لاؤں راستے پر
میں نے پھر کوشش بھی کی لیکن مقدر سامنے تھا
سرد جنگل کی سیاہی پاٹ کر نکلے ہی تھے ہم
آخری کرنوں کو تہہ کرتا سمندر سامنے تھا
ٹوٹنا تھا کچھ عجب قہر سفر پہلے قدم پر
مڑ گئی تھی آنکھ ہنستا کھیلتا گھر سامنے تھا
پشت پر یاروں کی پسپائی کا نظارہ تھا شاید
دشمنوں کا مسکراتا ایک لشکر سامنے تھا
آنکھ میں اترا ہوا تھا شام کا پہلا ستارا
رات خالی سر پہ تھی اور سرد بستر سامنے تھا
۰۰۰
کوئی بھولی ہوئی شے طاق ہر منظر پہ رکھی تھی
ستارے چھت پہ رکھے تھے شکن بستر پہ رکھی تھی
لرز جاتا تھا باہر جھانکنے سے اس کا تن سارا
سیاہی جانے کن راتوں کی اس کے در پہ رکھی تھی
وہ اپنے شہر کے مٹتے ہوئے کردار پر چپ تھا
عجب اک لاپتہ ذات اس کے اپنے سر پہ رکھی تھی
کہاں کی سیر ہفت افلاک اوپر دیکھ لیتے تھے
حسیں اجلی کپاسی برف بال و پر پہ رکھی تھی
کوئی کیا جانتا کیا چیز کس پر بوجھ ہے بانی
ذرا سی اوس یوں تو سینۂ پتھر پہ رکھی تھی
۰۰۰
کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا
نظر کے سامنے منظر ہے بے کرانی کا
ندی کے دونوں طرف ساری کشتیاں گم تھیں
بہت ہی تیز تھا اب کے نشہ روانی کا
میں کیوں نہ ڈوبتے منظر کے ساتھ ڈوب ہی جاؤں
یہ شام اور سمندر اداس پانی کا
پرندے پہلی اڑانوں کے بعد لوٹ آئے
لپک اٹھا کوئی احساس رائگانی کا
میں ڈر رہا ہوں ہوا میں کہیں بکھر ہی جائے
یہ پھول پھول سا لمحہ تری نشانی کا
وہ ہنستے کھیلتے اک لفظ کہہ گیا بانی
مگر مرے لیے دفتر کھلا معانی کا
۰۰۰
ہم ہیں منظر سیہ آسمانوں کا ہے
اک عتاب آتے جاتے زمانوں کا ہے
ایک زہراب غم سینہ سینہ سفر
ایک کردار سب داستانوں کا ہے
کس مسلسل افق کے مقابل ہیں ہم
کیا عجب سلسلہ امتحانوں کا ہے
پھر وہی ہے ہمیں مٹیوں کی تلاش
ہم ہیں اڑتا سفر اب ڈھلانوں کا ہے
کون سے معرکے ہم نے سر کرلیے
یہ نشہ سا ہمیں کن تکانوں کا ہے
یہ الگ بات وہ کچھ بتائے نہیں
لیکن اس کو پتہ سب خزانوں کا ہے
سب چلے دور کے پانیوں کی طرف
کیا نظارہ کھلے بادبانوں کا ہے
اس کی نظروں میں سارے مقامات ہیں
پر اسے شوق اندھی اڑانوں کا ہے
آؤ بانی کہ خواجہ کے در کو چلیں
آستانہ ہزار آستانوں کا ہے
۰۰۰
یہ ذرا سا کچھ اور ایک دم بے حساب سا کچھ
سر شام سینے میں ہانپتا ہے سراب سا کچھ
وہ چمک تھی کیا جو پگھل گئی ہے نواح جاں میں
کہ یہ آنکھ میں کیا ہے شعلۂ زیر آب سا کچھ
کبھی مہرباں آنکھ سے پرکھ اس کو کیا ہے یہ شے
ہمیں کیوں ہے سینے میں اس سبب اضطراب سا کچھ
وہ فضا نہ جانے سوال کرنے کے بعد کیا تھی
کہ ہلے تو تھے لب، ملا ہو شاید جواب سا کچھ
مرے چار جانب یہ کھنچ گئی ہے قنات کیسی
یہ دھواں ہے ختم سفر کا یا ٹوٹے خواب سا کچھ
وہ کہے ذرا کچھ تو دل کو کیا کیا خلل ستائے
کہ نہ جانے اس کی ہے بات میں کیا خراب سا کچھ
نہ یہ خاک کا اجتناب ہی کوئی راستہ دے
نہ اڑان بھرنے دے سر پہ یہ پیچ و تاب سا کچھ
سر شرح و اظہار جانے کیسی ہوا چلی ہے
کہ بکھر گیا ہے سخن سخن انتخاب سا کچھ
یہ بہار بے ساختہ چلی آئی ہے کہاں سے
تن زرد میں کھل اٹھا ہے پیلے گلاب سا کچھ
ارے کیا بتائیں ہوائے امکاں کے کھیل کیا ہیں
کہ دلوں مںے بنتا ہے ٹوٹتا ہے حباب سا کچھ
کبھی ایک پل بھی نہ سانس لی کھل کے ہم نے بانی
رہا عمر بھر بسکہ جسم و جاں میں عذاب سا کچھ
 

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *