آشفتہ چنگیزی علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعروں میں سے ایک ہیں۔وہ 1956میں پیدا ہوئے 1996میں اچانک کہیں لاپتہ ہوگئے۔آشفتہ چنگیزی،ایک بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد ذہین انسان اور ماہر عروض بھی تھے۔آشفتہ کی غزلوں کا نہایت طاقتور اسلوب اسی کی دہائی میں کہی گئی ان کی غزلوں میں نظر آتا ہے۔ان کے دو مجموعۂ شاعری ’گرد باد‘ اور ’شکستوں کی فصل‘ شائع ہوئے اور دونوں میں شائع ہونے والی غزلوں میں سے بیشتر کو یہاں ادبی دنیا کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے۔حالانکہ اس غزل میں روایت کا عنصر زیادہ ہے، مگر جدید شاعری سے روایت کے دھارے الگ ہوتے ہوئے بھی انہی غزلوں میں بہ آسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔غزلوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے نظمیں بھی کہی تھیں، جن کو کسی موقع پر پیش کیا جائے گا۔امید ہے کہ آپ سبھی کو یہ پیشکش پسند آئے گی۔شکریہ!
(1)
چلے چلیں گے زمانے کے ساتھ بھی اک دن
قبول کرنا پڑے گی یہ مات بھی اک دن
تماشہ دیکھیں گے اس پار بھی کبھی آکر
ضرور مانیں گے تیری یہ بات بھی اک دن
یہ روز روز کے ملنے کی عمر کتنی ہے
نباہ کرنا ہے اوروں کے ساتھ بھی اک دن
تمام جنگ کی تیاریاں مکمل ہیں
بہے گی شہر میں نہر فرات بھی اک دن
اندھیرے چیخ رہے ہیں چمکتی سڑکوں پر
کرے گی ختم سفر کالی رات بھی اک دن
۔۔۔
(2)
صدائیں قید کروں آہٹیں چرا لے جاؤں
مہکتے جسم کی سب خوشبوئیں اڑا لے جاؤں
تری امانتیں محفوظ رکھ نہ پاؤں گا
دوبارہ لوٹ کے آنے کی بس دعا لے جاؤں
کہا ہے دریا نے وہ شرط ہار جائے گا
جو ایک دن میں اسے ساتھ میں بہا لے جاؤں
بلا کا شور ہے طوفان آگیا شاید
کہاں کا رخت سفر خود کو ہی بچا لے جاؤں
ابھی تو اور نہ جانے کہاں کہاں بھٹکوں
میں زندہ رہنے کا کوئی تو حوصلہ لے جاؤں
۔۔۔
(3)
ندیاں آنسوؤں سے بھر جائیں
رات بھیگے تو اپنے گھر جائیں
اور ہنسنے کو جی نہیں کرتا
کیسے دیوار کے ادھر جائیں
اب کسے روٹھنے کی فرصت ہے
اپنے وعدوں سے سب مکر جائیں
منظر آنکھوں کی قید سے چھوٹے
لے کے بستی میں یہ خبر جائیں
اتنی بارش ہی بھیج دنیا میں
ڈوب کے سارے لوگ مرجائیں
آگے دنیا ہے اور پیچھے تم
کچھ تو بولو کہ ہم کدھر جائیں
۔۔۔
(4)
بہت ہوا رو دیتے تھے
تم بھی کتنے سچے تھے
پہلے یہاں آبادی تھی
بستی والے کہتے تھے
ہم بھی اک دن دنیا کو
آگ لگانے نکلے تھے
تیرے ہوکر رہ جائیں
کتنے میٹھے سپنے تھے
طوفاں پکڑنے والے بھی
اونچے پل پر بیٹھے تھے
لڑنا ہوا سے مشکل ہے
ہم تو جب ہی کہتے تھے
کہنے بھر تک اچھا ہے
تیری بدولت جیتے تھے
۔۔۔
(5)
سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے عجب روگ لگ گیا ہے مجھے
جو مڑکے دیکھا تو ہوجائے گا بدن پتھر
کہانیوں میں سنا تھا ، سو بھوگنا ہے مجھے
ابھی تلک تو کوئی واپسی کی راہ نہ تھی
کل ایک راہ گزر کا پتہ لگا ہے مجھے
میں سرد جنگ کی عادت نہ ڈال پاؤں گا
کوئی محاذ پہ واپس بلا رہا ہے مجھے
یہاں تو سانس بھی لینے میں خاصی مشکل ہے
پڑاؤ اب کے کہاں ہو یہ سوچنا ہے مجھے
سڑک پہ چلتے ہوئے آنکھیں بند رکھتا ہوں
ترے جمال کا ایسا مزہ پڑا ہے مجھے
میں تجھ کو بھول نہ پایا یہی غنیمت ہے
یہاں تو اس کا بھی امکان لگ رہا ہے مجھے
۔۔۔
(6)
نشاں سب مٹا کر روانہ ہوئے
الاؤ بجھا کر روانہ ہوئے
وہ سب جاگنے والے چالاک تھے
کہانی سنا کر روانہ ہوئے
تھکن، گرد چہرے، جھکی گردنیں
ہوئی شام لشکر روانہ ہوئے
جٹاؤں میں جن کی سمندر تھے بند
تماشہ دکھاکر روانہ ہوئے
سبھی کشتیاں ساتھ لیتے گئے
وہ دریا دکھا کر روانہ ہوئے
۔۔۔
(7)
زور بڑھنے لگا ہواؤں میں
یاد رکھنا ہمیں دعاؤں میں
کب کے معتوب ہوگئے ہوتے
خاک شدت رہی خطاؤں میں
سوندھی مٹی وہ ادھ جلے چولہے
دل دھڑکتے ہوئے گپھاؤں میں
کالی آنکھیں، گداز سینہ، کمر
ٹھہریے مختلف سراؤں میں
ساری راہیں گنواکے بیٹھ گئے
شوق تھا بیٹھنے کا چھاؤں میں
لوٹ جاؤ زمیں پہ آشفتہ
کوئی د م خم نہیں خلاؤں میں
۔۔۔
(8)
رات گئے جب گھر میں آئیں
دیواروں سے دل بہلائیں
تیرے جیسا کون ملے گا
سوچ رہے ہیں گھر لوٹ آئیں
جیسے تیسے دن کٹتا ہے
خواب پرانے منظر لائیں
ساتھ کہاں تک دیں گے آخر
ماؤں کی معصوم دعائیں
کوئی ہمیں بہکا کر خوش ہو
اور کسی کو ہم بہکائیں
سورج ، دفتر، شور، مکان
راتیں دھیما ساز بجائیں
۔۔۔
(9)
چہرے ہیں بد حواس تو آنکھیں بجھی بجھی
اے شہر دلبراں تجھے کس کی نظر لگی
ماحول زرد زرد سا چپ چاپ ہے ہوا
آندھی کہیں قریب کی بستی سے پھر اٹھی
بستی سے دور، دن ڈھلے، پیڑوں کی چھاؤں میں
دیکھی ہے میں نے ایک صدا رینگتی ہوئی
یاروں میں ایسا کون تھا جس سے خفا ہوئے
آشفتہ کیسے چھوڑ دی محفل سجی ہوئی
۔۔۔
(10)
ڈولی مری جیون دوار کھڑی، کوئی چنری آکے اڑھا جانا
شرنگھار کیے بیٹھی ہے عمر، کوئی مہندی ہاتھ رچا جانا
وہی آگ لگی جو ازل گھر میں، مری خاک میں پھر سے لگا جانا
ٹوٹے ہیں سبھی گھر کے باسن، انہیں چاک پہ پھر سے بٹھا جانا
لپٹے ہیں مجھے جگ کے رستے، سیاں جی مرے پردیس گئے
بھوساگر میں منجھدار پڑی، مایا دیور گرا جانا
سب ہائے مری سدھ بدھ بسری، پردیس نگر میں بھول پڑی
لچکے ہے عمریا بالی مُری، موہے بابل گاؤں بتا جانا
بھیگی ہے ہوا بادر برسے، مری روپ ندی کل کل تڑپے
اک عمر کئی سلگت سلگت ، تو آکے آگ لگا جانا
۔۔۔
(11)
اتنا کیوں شرماتے ہیں
وعدے آخر وعدے ہیں
لکھا لکھایا دھوڈالا
سارے ورق پھر سادے ہیں
تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا
سوچ کے اب پچھتاتے ہیں
ریت محل دو چار بچے
یہ بھی گرنے والے ہیں
جائیں کہیں بھی تجھ کو کیا
شہر سے تیرے جاتے ہیں
گھر کے اندر جانے کے
اور کئی دروازے ہیں
انگلی پکڑ کر ساتھ چلے
دوڑ میں ہم سے آگے ہیں
۔۔۔
(12)
بادباں کھولے گی اور بند قبا لے جائے گی
رات پھر آئے پھر سب کچھ بہا لے جائے گی
خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں
کیا بھروسہ کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی
یہ اندھیرے ہیں غنیمت کوئی رستہ ڈھونڈ لو
صبح کی پہلی کرن آنکھیں اٹھا لے جائے گی
ہوش مندوں سے بھرے ہیں شہر اور جنگل سبھی
ساتھ کس کس کو بھلا کالی گھٹا لے جائے گی
جاگتے منظر چھتیں دالان آنگن کھڑکیاں
اب کے پھیرے میں ہوا یہ بھی اڑا لے جائے گی
ایک اک کرکے سبھی ساتھی پرانے کھوگئے
جو بچا ہے وہ نگاہ سرمہ سا لے جائے گی
جاتے جاتے دیکھ لینا گردش لیل و نہار
زندگی سی بانکپن لطف خطا لے جائے گی
۔۔۔
(13)
بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی
ابھی کچھ دن یہ سوغاتیں رہیں گی
تڑپ باقی رہے گی جھوٹ ہے یہ
ملیں گے ہم ملاقاتیں رہیں گی
نظر میں چہرہ کوئی اور ہوگا
گلے میں جھولتی بانہیں رہیں گی
سفر میں بیت جانا ہے دنوں کو
مسلسل جاگتی راتیں رہیں گی
زبانیں نطق سے محروم ہوں گی
صحیفوں میں مناجاتیں رہیں گی
مناظر دھند میں چھپ جائیں گے سب
خلا میں گھورتی آنکھیں رہیں گی
کہاں تک ساتھ دیں گے شہر والے
کہاں تک قید آوازیں رہیں گی
۔۔۔
(14)
بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں
بجلیاں بھر گئی ہیں ہاتھوں میں
صرف تیرا بدن چمکتا ہے
کالی لمبی اداس راتوں میں
کیا کیا چھینے گا اے امیر شہر
اتنے منظر ہیں میری آنکھوں میں
آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج
کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں
بند ہیں آج سارے دروازے
آگ روشن ہے سائبانوں میں
وہ سزادو کہ سب کو عبر ت ہو
بچ گیا ہے یہ خوشہ چینوں میں
۔۔۔
(15)
پتہ کہیں سے ترا اب کے پھر لگا لائے
سہانے خواب نیا مشغلہ اٹھا لائے
لگی تھی آگ تو یہ بھی تو اس کی زد میں تھے
عجیب لوگ ہیں دامن مگر بچا لائے
چلو تو راہ میں کتنے ہی دریا آتے ہیں
مگر یہ کیا کہ انہیں اپنے گھر بہا لائے
تجھے بھلانے کی کوشش میں پھررہے تھے کہ ہم
کچھ اور ساتھ میں پرچھائیاں لگا لائے
سنا ہے چہروں پہ بکھری پڑی ہیں تحریریں
اڑا کے کتنے ورق دیکھیں اب ہوا لائے
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
ادھر ادھر سے سنا اوربس اڑا لائے
۔۔۔
(16)
ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے
خیال آتا ہے رہ رہ کے لوٹ جانے کا
سفر سے پہلے ہمیں اپنے گھر جلانے تھے
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے
تلاش جن کو ہمیشہ بزرگ کرتے رہے
نہ جانے کون سی دنیا میں وہ خزانے تھے
چلن تھا سب کے غموں میں شریک رہنے کا
عجیب دن تھے، عجب سر پھرے زمانے تھے
۔۔۔۔
(17)
آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا
بس وہ ذرا سا فاصلہ باقی رہا نہ تھا
اب اس سفر کا سلسلہ شاید ہی ختم ہو
سب اپنی اپنی راہ لیں، ہم نے کہا نہ تھا
دروازے آج بند سمجھیے سلوک کے
یہ چلنے والا دور تلک سلسلہ نہ تھا
اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم
اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتہ نہ تھا
کوشش ہزار کرتی رہیں تیز آندھیاں
لیکن وہ ایک پتہ ابھی تک ہلا نہ تھا
سب ہی شکار گاہ میں تھے خیمہ زن مگر
کوئی شکار کرنے کو اب تک اٹھا نہ تھا
اچھا ہوا کہ گوشہ نشینی کی اختیار
آشفتہ اور اس کے سوا راستہ نہ تھا
۔۔۔۔
(18)
ٹھکانے یوں تو ہزاروں ترے جہان میں تھے
کوئی صدا ہمیں روکے گی اس گمان میں تھے
عجیب بستی تھی، چہرے تو اپنے جیسے تھے
مگر صحیفے کسی اجنبی زبان میں تھے
بہت خوشی ہوئی ترکش کے خالی ہونے پر
ذرا جو غور کیا تیر سب کمان میں تھے
ہم ایک ایسی جگہ جا کے لوٹ کیوں آئے
جہاں سنا ہے کہ سب آخری زمان میں تھے
اب آگے اور چڑھائی کا سلسلہ ہوگا
یہ بھولنا ہے کہ ہم بھی کبھی امان میں تھے
علاج ڈھونڈ نکالیں گے اپنی وحشت کا
جنوں نواز ابھی تک اسی گمان میں تھے
۔۔۔۔
(19)
پچھلی مسافتوں کے نشاں دیکھتے چلیں
روشن ہے بزم شعلہ رخاں دیکھتے چلیں
رستے میں ایک گھر ہے جہاں منتظر ہیں لوگ
آئیں گے بار بار کہاں دیکھتے چلیں
موسم کئی طرح کے گزارے ہیں دوستو!
اب کے ہے کیا مزاج خزاں دیکھتے چلیں
یہ کون سی جگہ ہے جہاں آس پاس بھی
آہٹ کوئی، نہ آہ و فغاں دیکھتے چلیں
پتھر کے دھڑ لیے ہوئے پھرتے ہیں سارے لوگ
آگے ہے ایک شہر گماں دیکھتے چلیں
شاید یہیں کہیں پہ جلائی تھیں کشتیاں
کیا اب بھی اٹھ رہا ہے دھواں دیکھتے چلیں
اب کے سفر میں ہم نے سبھی کچھ لٹا دیا
کہتے ہیں کیا یہ دیدہ وراں دیکھتے چلیں
۔۔۔
(20)
ہر ایک بات پہ وہ قہقہے لگاتا ہے
یہ اور بات کہ ہنسنے سے جی چراتا ہے
ہے انتظار مجھے جنگ ختم ہونے کا
لہو کی قید سے باہر کوئی بلاتا ہے
تمام راستے اب ایک جیسے لگتے ہیں
گمان راہ میں شکلیں بدل کے آتا ہے
جو ایک بار ہواؤں سے جوڑ لے رشتہ
کہاں وہ لوٹ کے شہروں کی سمت آتا ہے
سلگتی ریت ہے اور ٹھنڈے پانیوں کا سفر
وہ کون ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے
جو مشکلوں کے کئی حل تلاش لایا تھا
کھلونے بانٹ کے بچوں میں مسکراتا ہے
ہزار موجیں ہیں خاموشیوں کے سینے میں
کمی وہ کیا ہے سمندر جو خود میں پاتا ہے
شکار دھند کا صحرا نورد کرتے ہیں
فریب کھانا کہاں دوسروں کو آتا ہے
۔۔۔۔
(21)
جب بچھڑتے تو وہ ملنے کی دعا کرتے تھے
ہم عجب لوگوں کی بستی میں رہا کرتے تھے
راستے سارے ترے گھر کی طرف جاتے ہیں
ایسے قصے کبھی بچپن میں سنا کرتے تھے
جب سے معصوم ہوئے سارا مزہ جاتا رہا
ہم بھی زندہ تھے کبھی ہم بھی خطا کرتے تھے
معجزوں پہ جنہیں قدرت تھی وہ ناپید ہوئے
سرپھرے دریا اشاروں سے رکا کرتے تھے
سائنبانوں سے کبھی ان کا تعارف نہ رہا
کوئی موسم ہو بہرحال لڑا کرتے تھے
کبھی ملنے کے لیے ملتے نہ دیکھا ان کو
ایسی رسموں سے وہ پرہیز کیا کرتے تھے
۔۔۔۔
(22)
جس کی نہ کوئی رات ہو ایسی سحر ملے
سارے تعینات سے اک دن سفر ملے
افواہ کس نے ایسی اڑائی کہ شہر میں
ہر شخص بچ رہا ہے نہ اس سے نظر ملے
دشواریاں کچھ اور زیادہ ہی بڑھ گئیں
گھر سے چلے تو راہ میں اتنے شجر ملے
طے کرنا رہ گئی ہیں ابھی کتنی منزلیں
جو آگے جا چکے ہیں کچھ ان کی خبر ملے
ممکن ہے آڑے آئیں زمانہ شناسیاں
تم بھی ہماری راہ میں حائل اگر ملے
قضیہ ہو موسموں کا نہ دن کا نہ رات کا
اب کے اگر ملے بھی تو ایسا سفر ملے
لوگوں کو کیا پڑی تھی اٹھاتے اذیتیں
صحرا کی خاک چھانتے آشفتہ سر ملے
۔۔۔۔
(23)
چھوڑا ہے جس نے لاکے ہمیں اس بہاؤ تک
وہ بھی ہمارے ساتھ تھا پچھلے پڑاؤ تک
حیرت پہ اختیار تھا لیکن کچھ ان دنوں
عادت میں آگئے ہیں بدن کے یہ گھاؤ تک
گھر جاکے لوٹنے کی ہے مہلت ہمیں کہاں
بازار ہی میں ٹھہریں گے تم سے نبھاؤ تک
راتیں بتانے والے ہیں اب کس شمار میں
ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں ہمارے الاؤ تک
ہم نے کہا نہ تھا کہ ہیں رستے الگ الگ
اب مختصر سا ساتھ ہے اگلے پڑاؤ تک
۔۔۔۔
(24)
کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا
ہر ایک رنگ میں اپنا ہی بس تماشہ تھا
ہم آج تک تو کوئی امتیاز کر نہ سکے
یہاں تو جو بھی ملا ہے وہ تیرے جیسا تھا
عجیب خواب تھا، تعبیر کیا ہوئی اس کی
کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا
نہ کوئی ظلم، نہ ہلچل نہ مسئلہ کوئی
ابھی کی بات ہے میں حادثے اگاتا تھا
ہر ایک شخص نے اپنے سے منسلک سمجھی
کوئی کہانی کسی کی کسی سے کہتا تھا
ہمارا نام تھا آشفتہ حال لوگوں میں
خزاں پسند طبیعت کا اپنی چرچا تھا
۔۔۔۔
(25)
آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے
بڑھتے ہوئے عتاب لیے بھاگتے رہے
سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی
سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے
تھے سیکڑوں سوال جوابوں کی بھیڑ میں
جینے کا ہم عذاب لیے بھاگتے رہے
فرصت نہیں تھی اتنی کہ پیروں سے باندھتے
ہم ہاتھ میں رکاب لیے بھاگتے رہے
تیزی سے بیتتے ہوئے لمحوں کے ساتھ ساتھ
ہم اپنا اضطراب لیے بھاگتے رہے
۔۔۔۔
(26)
جس سے مل بیٹھے لگی وہ شکل پہچانی ہوئی
آج تک ہم سے یہی بس ایک نادانی ہوئی
سیکڑوں پردے اٹھا لائے تھے ہم بازار سے
گتھیاں کچھ اور الجھیں اور حیرانی ہوئی
ہم تو سمجھے تھے کہ اس سے فاصلے مٹ جائیں گے
خود کو ظاہر بھی کیا لیکن پشیمانی ہوئی
کیا بتائیں فکر کیا ہے اور کیا ہے جستجو
ہاں طبیعت دن بہ دن اپنی بھی سیلانی ہوئی
کیوں کھلونے ٹوٹنے پر آب دیدہ ہوگئے
اب تمہیں ہم کیا بتائیں کیا پریشانی ہوئی
۔۔۔۔
(27)
کوئی غل ہوا تھا نہ شور خزاں
اجڑنے لگیں خود بہ خود بستیاں
جسے دیکھنے گھر سے نکلے تھے ہم
دھواں ہوگیا شام کا وہ سماں
سبھی کچھ تو دریا بہا لے گیا
تجھے اور کیا چاہیے آسماں
بس اک دھند ہے اور کچھ بھی نہیں
روانہ ہوئی تھیں جدھر کشتیاں
ابھی طے شدہ کوئی جادو نہیں
ابھی تک بھٹکتے ہیں سب کارواں
یہی اک خبر گرم تھی شہر میں
کہ اک شوخ بچے نے کھینچی کہاں
تماشہ دکھا کے گئی صبح نو
خموشی ہے پھر سے وہی درمیاں
تعارف مرا کوئی مشکل نہیں
میں آشفتہ چنگیزی ابن خزاں
۔۔۔۔
(28)
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں
سارے تماشے ختم ہوئے، لوگ جا چکے
اک ہم ہی رہ گئے جو فریب سحر میں ہیں
ایسی تو کوئی خاص خطا بھی نہیں ہوئی
ہاں یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم اپنے گھر میں ہیں
اب کے بہار دیکھیے کیا نقش چھوڑ جائے
آثار بادلوں کے نہ پتے شجر میں ہیں
تجھ سے بچھڑنا کوئی نیا حادثہ نہیں
ایسے ہزاروں قصے ہماری خبر میں ہیں
آشفتہ سب گمان دھرا رہ گیا یہاں
کہتے نہ تھے کہ خامیاں تیرے ہنر میں ہیں
۔۔۔۔
(29)
تمہارے شہر کے رستے عجیب رستے ہیں
کہ واپسی کے لیے آج تک ترستے ہیں
جو قہقہوں کی عمارت میں ہوگئے محصور
کچھ ایسے لوگوں کی بستی میں ہم بھی بستے ہیں
ہزار شکر پناہوں سے دور ہیں ہم لوگ
بدن ہمارے ابھی دھوپ میں جھلستے ہیں
وجود اپنا مکمل نہیں ہے جن کے بغیر
وہی رفیق ہمیں ناگ بن کے ڈستے ہیں
ابھی کی بات ہے اک خوف دل میں رہتا تھا
اور آج ہجر کے ساون بھی کم برستے ہیں
بنے ہوئے تھے کبھی بوجھ جن کے ذہنوں پر
ہمارے قرب کو وہ آج کیوں ترستے ہیں
نوازے جاتے ہیں آشفتگی کی دولت سے
جنوں نواز زمانے میں کتنے سستے ہیں
۔۔۔۔
(30)
جستجو ہی جستجو بن جائیں گے
تجھ سے بچھڑے تو بہت پچھتائیں گے
ذکر سے بھی جن کے کتراتے ہیں لوگ
کل یہ قصے داستاں بن جائیں گے
منتظر آنکھیں لیے بیٹھے رہو
ساتھ میں منظر لیے ہم آئیں گے
یہ سنا ہے زہر لینے کے لیے
سانپ سڑکوں سے بدن ڈسوائیں گے
اس قدر انجان ہم کو مت سمجھ
ساری باتیں ہم ہی کب دہرائیں گے
پاسکے نہ اب تلک کوئی پتہ
راستے اب اور کیا الجھائیں گے
ایک آشفتہ زمانے میں نہیں
اور بھی کتنے تمہیں خوش آئیں گے
۔۔۔۔
(31)
رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
کٹتی نہیں زنجیر مگر سود و زیاں کی
کرتے ہیں طواف آج وہ خود اپنے گھروں کا
جو سیر کو نکلے تھے کبھی سارے جہاں کی
آئیں جو یہاں اہل خرد سوچ کے آئیں
اس شہر سے ملتی ہیں حدیں شہر گماں کی
اس دشت کے انجام پہ پہلے سے نظر تھی
تاثیر سمجھتے تھے ہم آواز سگاں کی
الزام لگاتا ہے یہی ہم پہ زمانہ
تصویر بناتے ہیں کسی اور جہاں کی
پہلے ہی کہا کرتے تھے مت غور سے دیکھو
ہر بات نرالی ہے یہاں دیدہ وراں کی
آشفتہ اب اس شخص سے کیا خاک نباہیں
جو بات سمجھتا ہی نہیں دل کی زباں کی
۔۔۔۔
(32)
مسافتوں کے نئے بیج روز بوتے ہیں
اب آگے دیکھیے کیا کیا ہم اور کھوتے ہیں
خراج دیتے چلے آئے ہیں یہ صدیوں سے
ہر ایک صبح کو معمول میں پروتے ہیں
تغیرات زمانہ سے بھاگنا کیسا
نئے سوال نئے تجربوں میں ہوتے ہیں
ہم اپنی شکل بھی پہچاننے سے قاصر ہیں
بس ایک بوجھ ہے کاندھوں پہ اور ڈھوتے ہیں
نہ سرسری کوئی گزرے ہمارے شعروں سے
لہو جگر کا ہم اشعار میں سموتے ہیں
تمہارا آج نئی نسل سے تعارف ہے
غزل کے کھیت ہمیشہ جو تم نے جوتے ہیں
۔۔۔۔
(33)
ہر شخص داستانوں میں بکھرا ہوا ملا
جس گھر میں بھی گئے کوئی ٹھہرا ہوا ملا
وہ جس کی جستجو ہمیں لائی یہاں تلک
دریا کی تیز دھار پہ بہتا ہوا ملا
اک قافلہ گیا ہے دفینے تلاشنے
صحرا جرس کی گونج سے سہما ہوا ملا
غم کو سمجھنے والے ہی ناپید ہوگئے
شکوہ ہر ایک شخص یہ کرتا ہوا ملا
۔۔۔۔
(34)
پچھلے سب خوابوں کی تعبیریں بتادی جائیں گی
ایک دن آئے گا دیواریں گرادی جائیں گی
ان حوالوں میں الجھنے سے کوئی حاصل نہیں
یہ سنا ہے داستانیں سب جلا دی جائیں گی
ہم نے کس کس کو بھلایا کون بھولا ہے ہمیں
ان سبھی قصوں کی تاویلیں بنادی جائیں گی
جب کبھی موقع میسر آئے پرواز کا
اور کچھ باتیں نئی ہم کو سجھا دی جائیں گی
فیصلوں کا مل گیا ہے ان کو سارا اختیار
اب جنون و عقل کی شمعیں بجھادی جائیں گی
بس تخاطب کی اجازت مانگ ہو یا مدعا
آج سے درخواستیں بھی ساری سادی جائیں گی
۔۔۔۔
(35)
ہمارے بارے میں کیا کیا نہ کچھ کہا ہوگا
چلیں گے ساتھ تو دنیا کا سامنا ہوگا
وہ ایک شخص جو پتھر اٹھا کے دوڑا تھا
ضرور خواب کی کڑیاں ملا رہا ہوگا
ہمارے بعد اک ایسا بھی دور آئے گا
وہ اجنبی ہی رہے گا جو تیسرا ہوگا
خزاں پسند ہمیں ڈھونڈنے کو نکلے ہیں
ہمارے درد کا قصہ کہیں سنا ہوگا
جو ہر قدم پہ مرے ساتھ ساتھ رہتا تھا
ضرور کوئی نہ کوئی تو واسطہ ہوگا
نہیں ہے خوف کوئی رہبروں سے آشفتہ
ہمارے ساتھ شکستوں کا قافلہ ہوگا
۔۔۔۔
(36)
الجھے گا جتنا اور الجھتا ہی جائے گا
تجھ سے کہاں تلک کوئی پیچھا چھڑائے گا
جتنی پناہیں ڈھونڈنا چاہے وہ ڈھونڈ لے
لوٹے گا جب بھی چھاؤں میں زلفوں کی آئے گا
کتنے ہی اہتمام سے رہ لیں مگر مزا
چولہے کے پاس بیٹھ کے کھانے میں آئے گا
بچوں کے ساتھ رات گزرنے کی لذتیں
ہوٹل کا بند کمرہ کہاں تک جٹائے گا
شیشے کا جسم ، خاک کا سر، گوشت کی زباں
کب تک یہ ڈھونگ اور ہمیں خوں رلائے گا
اک روز ٹوٹ جائے گا سارا ترا طلسم
ہونٹوں کو جان بوجھ کے کب تک رچائے گا
۔۔۔۔
(37)
پھر پلٹنے نکلے ہیں ساری داستانوں کو
ہم جگائے رکھیں گے گھر کے سائبانوں کو
روشنی کے مینارے، شہر میں ہوئے قائم
کالا پوت ڈالو اب سارے شمع دانوں کو
تیز بہتے قدموں سے ڈھک گئی ہیں سب سڑکیں
آہٹوں کی عادت تھی سونے پائدانوں کو
یوں ہی بس سلگنے کا سلسلہ رکھو جاری
بھولنے نہیں دینا فرض راکھدانوں کو
فکر کے سلیقے تو ہم خرید لائیں ہیں
مشق جاری رکھنا ہے اپنی آسمانوں کو
۔۔۔۔
(38)
دیوار قہقہہوں کی ابھی تک ہے درمیاں
مشکل سے پاسکو گے ہمارا کوئی نشاں
پہچاننے میں ہم بڑی مشکل سے آئے تھے
لوٹ جب اک سفر سے بکھرتے یہاں وہاں
ہم نے کبھی سنا تھا کہیں آس پاس ہیں
کہرے میں اور دھند میں لپٹے ہوئے مکاں
۔۔۔۔
(39)
قاتل کی سازشوں میں وفا ڈھونڈتے رہے
مژدہ انہیں جو اپنی سزا ڈھونڈتے رہے
ہاں اور نہیں کی جنگ ہمیں کچھ نہ دے سکی
ہم اپنے اوڑھنے کو ردا ڈھونڈتے رہے
۔۔۔۔
(40)
ہمیں سفر کی اذیت سے پھر گزرنا ہے
تمہارے شہر میں فکر و نظر پہ پہرہ ہے
سزا کے طور پہ میں دوستوں سے ملتا ہوں
اثر شکست پسندی کا مجھ پہ گہرا ہے
وہ ایک لخت خلاؤں میں گھورتے رہنا
کسی طویل مسافت کا پیش خیمہ ہے
یہ اور بات کہ تم بھی یہاں کے شہری ہو
جو میں نے تم کو سنایا تھا میرا قصہ ہے
ہم اپنے شانوں پہ پھرتے ہیں قتل گاہ لیے
خود اپنے قتل کی سازش ہمارا ورثہ ہے
۔۔۔۔
(41)
دل کو بہلانے بہت خواب سہانے آئے
تجھ سے بچھڑے تو کئی چہرے منانے آئے
کس سے ملتے کہ اسے دینے کو رکھا کیا تھا
یوں تو رستے میں بہت ٹھور ٹھکانے آئے
۔۔۔۔
(42)
دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک
چوباروں کے سر پر خاک
شہر ملامت آپہنچا
سارے مناظر عبرت ناک
دریاؤں کی نذر ہوئے
دھیرے دھیرے سب تیراک
تیری نظر سے بچ پائیں
ایسے کہاں کے ہم چالاک
دامن بچنا مشکل ہے
رستے جنوں کے آتش ناک
اور کہاں تک صبر کریں
کرنا پڑے گا سینہ چاک
۔۔۔۔
چلے چلیں گے زمانے کے ساتھ بھی اک دن
قبول کرنا پڑے گی یہ مات بھی اک دن
تماشہ دیکھیں گے اس پار بھی کبھی آکر
ضرور مانیں گے تیری یہ بات بھی اک دن
یہ روز روز کے ملنے کی عمر کتنی ہے
نباہ کرنا ہے اوروں کے ساتھ بھی اک دن
تمام جنگ کی تیاریاں مکمل ہیں
بہے گی شہر میں نہر فرات بھی اک دن
اندھیرے چیخ رہے ہیں چمکتی سڑکوں پر
کرے گی ختم سفر کالی رات بھی اک دن
۔۔۔
(2)
صدائیں قید کروں آہٹیں چرا لے جاؤں
مہکتے جسم کی سب خوشبوئیں اڑا لے جاؤں
تری امانتیں محفوظ رکھ نہ پاؤں گا
دوبارہ لوٹ کے آنے کی بس دعا لے جاؤں
کہا ہے دریا نے وہ شرط ہار جائے گا
جو ایک دن میں اسے ساتھ میں بہا لے جاؤں
بلا کا شور ہے طوفان آگیا شاید
کہاں کا رخت سفر خود کو ہی بچا لے جاؤں
ابھی تو اور نہ جانے کہاں کہاں بھٹکوں
میں زندہ رہنے کا کوئی تو حوصلہ لے جاؤں
۔۔۔
(3)
ندیاں آنسوؤں سے بھر جائیں
رات بھیگے تو اپنے گھر جائیں
اور ہنسنے کو جی نہیں کرتا
کیسے دیوار کے ادھر جائیں
اب کسے روٹھنے کی فرصت ہے
اپنے وعدوں سے سب مکر جائیں
منظر آنکھوں کی قید سے چھوٹے
لے کے بستی میں یہ خبر جائیں
اتنی بارش ہی بھیج دنیا میں
ڈوب کے سارے لوگ مرجائیں
آگے دنیا ہے اور پیچھے تم
کچھ تو بولو کہ ہم کدھر جائیں
۔۔۔
(4)
بہت ہوا رو دیتے تھے
تم بھی کتنے سچے تھے
پہلے یہاں آبادی تھی
بستی والے کہتے تھے
ہم بھی اک دن دنیا کو
آگ لگانے نکلے تھے
تیرے ہوکر رہ جائیں
کتنے میٹھے سپنے تھے
طوفاں پکڑنے والے بھی
اونچے پل پر بیٹھے تھے
لڑنا ہوا سے مشکل ہے
ہم تو جب ہی کہتے تھے
کہنے بھر تک اچھا ہے
تیری بدولت جیتے تھے
۔۔۔
(5)
سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے عجب روگ لگ گیا ہے مجھے
جو مڑکے دیکھا تو ہوجائے گا بدن پتھر
کہانیوں میں سنا تھا ، سو بھوگنا ہے مجھے
ابھی تلک تو کوئی واپسی کی راہ نہ تھی
کل ایک راہ گزر کا پتہ لگا ہے مجھے
میں سرد جنگ کی عادت نہ ڈال پاؤں گا
کوئی محاذ پہ واپس بلا رہا ہے مجھے
یہاں تو سانس بھی لینے میں خاصی مشکل ہے
پڑاؤ اب کے کہاں ہو یہ سوچنا ہے مجھے
سڑک پہ چلتے ہوئے آنکھیں بند رکھتا ہوں
ترے جمال کا ایسا مزہ پڑا ہے مجھے
میں تجھ کو بھول نہ پایا یہی غنیمت ہے
یہاں تو اس کا بھی امکان لگ رہا ہے مجھے
۔۔۔
(6)
نشاں سب مٹا کر روانہ ہوئے
الاؤ بجھا کر روانہ ہوئے
وہ سب جاگنے والے چالاک تھے
کہانی سنا کر روانہ ہوئے
تھکن، گرد چہرے، جھکی گردنیں
ہوئی شام لشکر روانہ ہوئے
جٹاؤں میں جن کی سمندر تھے بند
تماشہ دکھاکر روانہ ہوئے
سبھی کشتیاں ساتھ لیتے گئے
وہ دریا دکھا کر روانہ ہوئے
۔۔۔
(7)
زور بڑھنے لگا ہواؤں میں
یاد رکھنا ہمیں دعاؤں میں
کب کے معتوب ہوگئے ہوتے
خاک شدت رہی خطاؤں میں
سوندھی مٹی وہ ادھ جلے چولہے
دل دھڑکتے ہوئے گپھاؤں میں
کالی آنکھیں، گداز سینہ، کمر
ٹھہریے مختلف سراؤں میں
ساری راہیں گنواکے بیٹھ گئے
شوق تھا بیٹھنے کا چھاؤں میں
لوٹ جاؤ زمیں پہ آشفتہ
کوئی د م خم نہیں خلاؤں میں
۔۔۔
(8)
رات گئے جب گھر میں آئیں
دیواروں سے دل بہلائیں
تیرے جیسا کون ملے گا
سوچ رہے ہیں گھر لوٹ آئیں
جیسے تیسے دن کٹتا ہے
خواب پرانے منظر لائیں
ساتھ کہاں تک دیں گے آخر
ماؤں کی معصوم دعائیں
کوئی ہمیں بہکا کر خوش ہو
اور کسی کو ہم بہکائیں
سورج ، دفتر، شور، مکان
راتیں دھیما ساز بجائیں
۔۔۔
(9)
چہرے ہیں بد حواس تو آنکھیں بجھی بجھی
اے شہر دلبراں تجھے کس کی نظر لگی
ماحول زرد زرد سا چپ چاپ ہے ہوا
آندھی کہیں قریب کی بستی سے پھر اٹھی
بستی سے دور، دن ڈھلے، پیڑوں کی چھاؤں میں
دیکھی ہے میں نے ایک صدا رینگتی ہوئی
یاروں میں ایسا کون تھا جس سے خفا ہوئے
آشفتہ کیسے چھوڑ دی محفل سجی ہوئی
۔۔۔
(10)
ڈولی مری جیون دوار کھڑی، کوئی چنری آکے اڑھا جانا
شرنگھار کیے بیٹھی ہے عمر، کوئی مہندی ہاتھ رچا جانا
وہی آگ لگی جو ازل گھر میں، مری خاک میں پھر سے لگا جانا
ٹوٹے ہیں سبھی گھر کے باسن، انہیں چاک پہ پھر سے بٹھا جانا
لپٹے ہیں مجھے جگ کے رستے، سیاں جی مرے پردیس گئے
بھوساگر میں منجھدار پڑی، مایا دیور گرا جانا
سب ہائے مری سدھ بدھ بسری، پردیس نگر میں بھول پڑی
لچکے ہے عمریا بالی مُری، موہے بابل گاؤں بتا جانا
بھیگی ہے ہوا بادر برسے، مری روپ ندی کل کل تڑپے
اک عمر کئی سلگت سلگت ، تو آکے آگ لگا جانا
۔۔۔
(11)
اتنا کیوں شرماتے ہیں
وعدے آخر وعدے ہیں
لکھا لکھایا دھوڈالا
سارے ورق پھر سادے ہیں
تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا
سوچ کے اب پچھتاتے ہیں
ریت محل دو چار بچے
یہ بھی گرنے والے ہیں
جائیں کہیں بھی تجھ کو کیا
شہر سے تیرے جاتے ہیں
گھر کے اندر جانے کے
اور کئی دروازے ہیں
انگلی پکڑ کر ساتھ چلے
دوڑ میں ہم سے آگے ہیں
۔۔۔
(12)
بادباں کھولے گی اور بند قبا لے جائے گی
رات پھر آئے پھر سب کچھ بہا لے جائے گی
خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں
کیا بھروسہ کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی
یہ اندھیرے ہیں غنیمت کوئی رستہ ڈھونڈ لو
صبح کی پہلی کرن آنکھیں اٹھا لے جائے گی
ہوش مندوں سے بھرے ہیں شہر اور جنگل سبھی
ساتھ کس کس کو بھلا کالی گھٹا لے جائے گی
جاگتے منظر چھتیں دالان آنگن کھڑکیاں
اب کے پھیرے میں ہوا یہ بھی اڑا لے جائے گی
ایک اک کرکے سبھی ساتھی پرانے کھوگئے
جو بچا ہے وہ نگاہ سرمہ سا لے جائے گی
جاتے جاتے دیکھ لینا گردش لیل و نہار
زندگی سی بانکپن لطف خطا لے جائے گی
۔۔۔
(13)
بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی
ابھی کچھ دن یہ سوغاتیں رہیں گی
تڑپ باقی رہے گی جھوٹ ہے یہ
ملیں گے ہم ملاقاتیں رہیں گی
نظر میں چہرہ کوئی اور ہوگا
گلے میں جھولتی بانہیں رہیں گی
سفر میں بیت جانا ہے دنوں کو
مسلسل جاگتی راتیں رہیں گی
زبانیں نطق سے محروم ہوں گی
صحیفوں میں مناجاتیں رہیں گی
مناظر دھند میں چھپ جائیں گے سب
خلا میں گھورتی آنکھیں رہیں گی
کہاں تک ساتھ دیں گے شہر والے
کہاں تک قید آوازیں رہیں گی
۔۔۔
(14)
بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں
بجلیاں بھر گئی ہیں ہاتھوں میں
صرف تیرا بدن چمکتا ہے
کالی لمبی اداس راتوں میں
کیا کیا چھینے گا اے امیر شہر
اتنے منظر ہیں میری آنکھوں میں
آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج
کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں
بند ہیں آج سارے دروازے
آگ روشن ہے سائبانوں میں
وہ سزادو کہ سب کو عبر ت ہو
بچ گیا ہے یہ خوشہ چینوں میں
۔۔۔
(15)
پتہ کہیں سے ترا اب کے پھر لگا لائے
سہانے خواب نیا مشغلہ اٹھا لائے
لگی تھی آگ تو یہ بھی تو اس کی زد میں تھے
عجیب لوگ ہیں دامن مگر بچا لائے
چلو تو راہ میں کتنے ہی دریا آتے ہیں
مگر یہ کیا کہ انہیں اپنے گھر بہا لائے
تجھے بھلانے کی کوشش میں پھررہے تھے کہ ہم
کچھ اور ساتھ میں پرچھائیاں لگا لائے
سنا ہے چہروں پہ بکھری پڑی ہیں تحریریں
اڑا کے کتنے ورق دیکھیں اب ہوا لائے
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
ادھر ادھر سے سنا اوربس اڑا لائے
۔۔۔
(16)
ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے
خیال آتا ہے رہ رہ کے لوٹ جانے کا
سفر سے پہلے ہمیں اپنے گھر جلانے تھے
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے
تلاش جن کو ہمیشہ بزرگ کرتے رہے
نہ جانے کون سی دنیا میں وہ خزانے تھے
چلن تھا سب کے غموں میں شریک رہنے کا
عجیب دن تھے، عجب سر پھرے زمانے تھے
۔۔۔۔
(17)
آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا
بس وہ ذرا سا فاصلہ باقی رہا نہ تھا
اب اس سفر کا سلسلہ شاید ہی ختم ہو
سب اپنی اپنی راہ لیں، ہم نے کہا نہ تھا
دروازے آج بند سمجھیے سلوک کے
یہ چلنے والا دور تلک سلسلہ نہ تھا
اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم
اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتہ نہ تھا
کوشش ہزار کرتی رہیں تیز آندھیاں
لیکن وہ ایک پتہ ابھی تک ہلا نہ تھا
سب ہی شکار گاہ میں تھے خیمہ زن مگر
کوئی شکار کرنے کو اب تک اٹھا نہ تھا
اچھا ہوا کہ گوشہ نشینی کی اختیار
آشفتہ اور اس کے سوا راستہ نہ تھا
۔۔۔۔
(18)
ٹھکانے یوں تو ہزاروں ترے جہان میں تھے
کوئی صدا ہمیں روکے گی اس گمان میں تھے
عجیب بستی تھی، چہرے تو اپنے جیسے تھے
مگر صحیفے کسی اجنبی زبان میں تھے
بہت خوشی ہوئی ترکش کے خالی ہونے پر
ذرا جو غور کیا تیر سب کمان میں تھے
ہم ایک ایسی جگہ جا کے لوٹ کیوں آئے
جہاں سنا ہے کہ سب آخری زمان میں تھے
اب آگے اور چڑھائی کا سلسلہ ہوگا
یہ بھولنا ہے کہ ہم بھی کبھی امان میں تھے
علاج ڈھونڈ نکالیں گے اپنی وحشت کا
جنوں نواز ابھی تک اسی گمان میں تھے
۔۔۔۔
(19)
پچھلی مسافتوں کے نشاں دیکھتے چلیں
روشن ہے بزم شعلہ رخاں دیکھتے چلیں
رستے میں ایک گھر ہے جہاں منتظر ہیں لوگ
آئیں گے بار بار کہاں دیکھتے چلیں
موسم کئی طرح کے گزارے ہیں دوستو!
اب کے ہے کیا مزاج خزاں دیکھتے چلیں
یہ کون سی جگہ ہے جہاں آس پاس بھی
آہٹ کوئی، نہ آہ و فغاں دیکھتے چلیں
پتھر کے دھڑ لیے ہوئے پھرتے ہیں سارے لوگ
آگے ہے ایک شہر گماں دیکھتے چلیں
شاید یہیں کہیں پہ جلائی تھیں کشتیاں
کیا اب بھی اٹھ رہا ہے دھواں دیکھتے چلیں
اب کے سفر میں ہم نے سبھی کچھ لٹا دیا
کہتے ہیں کیا یہ دیدہ وراں دیکھتے چلیں
۔۔۔
(20)
ہر ایک بات پہ وہ قہقہے لگاتا ہے
یہ اور بات کہ ہنسنے سے جی چراتا ہے
ہے انتظار مجھے جنگ ختم ہونے کا
لہو کی قید سے باہر کوئی بلاتا ہے
تمام راستے اب ایک جیسے لگتے ہیں
گمان راہ میں شکلیں بدل کے آتا ہے
جو ایک بار ہواؤں سے جوڑ لے رشتہ
کہاں وہ لوٹ کے شہروں کی سمت آتا ہے
سلگتی ریت ہے اور ٹھنڈے پانیوں کا سفر
وہ کون ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے
جو مشکلوں کے کئی حل تلاش لایا تھا
کھلونے بانٹ کے بچوں میں مسکراتا ہے
ہزار موجیں ہیں خاموشیوں کے سینے میں
کمی وہ کیا ہے سمندر جو خود میں پاتا ہے
شکار دھند کا صحرا نورد کرتے ہیں
فریب کھانا کہاں دوسروں کو آتا ہے
۔۔۔۔
(21)
جب بچھڑتے تو وہ ملنے کی دعا کرتے تھے
ہم عجب لوگوں کی بستی میں رہا کرتے تھے
راستے سارے ترے گھر کی طرف جاتے ہیں
ایسے قصے کبھی بچپن میں سنا کرتے تھے
جب سے معصوم ہوئے سارا مزہ جاتا رہا
ہم بھی زندہ تھے کبھی ہم بھی خطا کرتے تھے
معجزوں پہ جنہیں قدرت تھی وہ ناپید ہوئے
سرپھرے دریا اشاروں سے رکا کرتے تھے
سائنبانوں سے کبھی ان کا تعارف نہ رہا
کوئی موسم ہو بہرحال لڑا کرتے تھے
کبھی ملنے کے لیے ملتے نہ دیکھا ان کو
ایسی رسموں سے وہ پرہیز کیا کرتے تھے
۔۔۔۔
(22)
جس کی نہ کوئی رات ہو ایسی سحر ملے
سارے تعینات سے اک دن سفر ملے
افواہ کس نے ایسی اڑائی کہ شہر میں
ہر شخص بچ رہا ہے نہ اس سے نظر ملے
دشواریاں کچھ اور زیادہ ہی بڑھ گئیں
گھر سے چلے تو راہ میں اتنے شجر ملے
طے کرنا رہ گئی ہیں ابھی کتنی منزلیں
جو آگے جا چکے ہیں کچھ ان کی خبر ملے
ممکن ہے آڑے آئیں زمانہ شناسیاں
تم بھی ہماری راہ میں حائل اگر ملے
قضیہ ہو موسموں کا نہ دن کا نہ رات کا
اب کے اگر ملے بھی تو ایسا سفر ملے
لوگوں کو کیا پڑی تھی اٹھاتے اذیتیں
صحرا کی خاک چھانتے آشفتہ سر ملے
۔۔۔۔
(23)
چھوڑا ہے جس نے لاکے ہمیں اس بہاؤ تک
وہ بھی ہمارے ساتھ تھا پچھلے پڑاؤ تک
حیرت پہ اختیار تھا لیکن کچھ ان دنوں
عادت میں آگئے ہیں بدن کے یہ گھاؤ تک
گھر جاکے لوٹنے کی ہے مہلت ہمیں کہاں
بازار ہی میں ٹھہریں گے تم سے نبھاؤ تک
راتیں بتانے والے ہیں اب کس شمار میں
ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں ہمارے الاؤ تک
ہم نے کہا نہ تھا کہ ہیں رستے الگ الگ
اب مختصر سا ساتھ ہے اگلے پڑاؤ تک
۔۔۔۔
(24)
کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا
ہر ایک رنگ میں اپنا ہی بس تماشہ تھا
ہم آج تک تو کوئی امتیاز کر نہ سکے
یہاں تو جو بھی ملا ہے وہ تیرے جیسا تھا
عجیب خواب تھا، تعبیر کیا ہوئی اس کی
کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا
نہ کوئی ظلم، نہ ہلچل نہ مسئلہ کوئی
ابھی کی بات ہے میں حادثے اگاتا تھا
ہر ایک شخص نے اپنے سے منسلک سمجھی
کوئی کہانی کسی کی کسی سے کہتا تھا
ہمارا نام تھا آشفتہ حال لوگوں میں
خزاں پسند طبیعت کا اپنی چرچا تھا
۔۔۔۔
(25)
آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے
بڑھتے ہوئے عتاب لیے بھاگتے رہے
سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی
سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے
تھے سیکڑوں سوال جوابوں کی بھیڑ میں
جینے کا ہم عذاب لیے بھاگتے رہے
فرصت نہیں تھی اتنی کہ پیروں سے باندھتے
ہم ہاتھ میں رکاب لیے بھاگتے رہے
تیزی سے بیتتے ہوئے لمحوں کے ساتھ ساتھ
ہم اپنا اضطراب لیے بھاگتے رہے
۔۔۔۔
(26)
جس سے مل بیٹھے لگی وہ شکل پہچانی ہوئی
آج تک ہم سے یہی بس ایک نادانی ہوئی
سیکڑوں پردے اٹھا لائے تھے ہم بازار سے
گتھیاں کچھ اور الجھیں اور حیرانی ہوئی
ہم تو سمجھے تھے کہ اس سے فاصلے مٹ جائیں گے
خود کو ظاہر بھی کیا لیکن پشیمانی ہوئی
کیا بتائیں فکر کیا ہے اور کیا ہے جستجو
ہاں طبیعت دن بہ دن اپنی بھی سیلانی ہوئی
کیوں کھلونے ٹوٹنے پر آب دیدہ ہوگئے
اب تمہیں ہم کیا بتائیں کیا پریشانی ہوئی
۔۔۔۔
(27)
کوئی غل ہوا تھا نہ شور خزاں
اجڑنے لگیں خود بہ خود بستیاں
جسے دیکھنے گھر سے نکلے تھے ہم
دھواں ہوگیا شام کا وہ سماں
سبھی کچھ تو دریا بہا لے گیا
تجھے اور کیا چاہیے آسماں
بس اک دھند ہے اور کچھ بھی نہیں
روانہ ہوئی تھیں جدھر کشتیاں
ابھی طے شدہ کوئی جادو نہیں
ابھی تک بھٹکتے ہیں سب کارواں
یہی اک خبر گرم تھی شہر میں
کہ اک شوخ بچے نے کھینچی کہاں
تماشہ دکھا کے گئی صبح نو
خموشی ہے پھر سے وہی درمیاں
تعارف مرا کوئی مشکل نہیں
میں آشفتہ چنگیزی ابن خزاں
۔۔۔۔
(28)
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں
سارے تماشے ختم ہوئے، لوگ جا چکے
اک ہم ہی رہ گئے جو فریب سحر میں ہیں
ایسی تو کوئی خاص خطا بھی نہیں ہوئی
ہاں یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم اپنے گھر میں ہیں
اب کے بہار دیکھیے کیا نقش چھوڑ جائے
آثار بادلوں کے نہ پتے شجر میں ہیں
تجھ سے بچھڑنا کوئی نیا حادثہ نہیں
ایسے ہزاروں قصے ہماری خبر میں ہیں
آشفتہ سب گمان دھرا رہ گیا یہاں
کہتے نہ تھے کہ خامیاں تیرے ہنر میں ہیں
۔۔۔۔
(29)
تمہارے شہر کے رستے عجیب رستے ہیں
کہ واپسی کے لیے آج تک ترستے ہیں
جو قہقہوں کی عمارت میں ہوگئے محصور
کچھ ایسے لوگوں کی بستی میں ہم بھی بستے ہیں
ہزار شکر پناہوں سے دور ہیں ہم لوگ
بدن ہمارے ابھی دھوپ میں جھلستے ہیں
وجود اپنا مکمل نہیں ہے جن کے بغیر
وہی رفیق ہمیں ناگ بن کے ڈستے ہیں
ابھی کی بات ہے اک خوف دل میں رہتا تھا
اور آج ہجر کے ساون بھی کم برستے ہیں
بنے ہوئے تھے کبھی بوجھ جن کے ذہنوں پر
ہمارے قرب کو وہ آج کیوں ترستے ہیں
نوازے جاتے ہیں آشفتگی کی دولت سے
جنوں نواز زمانے میں کتنے سستے ہیں
۔۔۔۔
(30)
جستجو ہی جستجو بن جائیں گے
تجھ سے بچھڑے تو بہت پچھتائیں گے
ذکر سے بھی جن کے کتراتے ہیں لوگ
کل یہ قصے داستاں بن جائیں گے
منتظر آنکھیں لیے بیٹھے رہو
ساتھ میں منظر لیے ہم آئیں گے
یہ سنا ہے زہر لینے کے لیے
سانپ سڑکوں سے بدن ڈسوائیں گے
اس قدر انجان ہم کو مت سمجھ
ساری باتیں ہم ہی کب دہرائیں گے
پاسکے نہ اب تلک کوئی پتہ
راستے اب اور کیا الجھائیں گے
ایک آشفتہ زمانے میں نہیں
اور بھی کتنے تمہیں خوش آئیں گے
۔۔۔۔
(31)
رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
کٹتی نہیں زنجیر مگر سود و زیاں کی
کرتے ہیں طواف آج وہ خود اپنے گھروں کا
جو سیر کو نکلے تھے کبھی سارے جہاں کی
آئیں جو یہاں اہل خرد سوچ کے آئیں
اس شہر سے ملتی ہیں حدیں شہر گماں کی
اس دشت کے انجام پہ پہلے سے نظر تھی
تاثیر سمجھتے تھے ہم آواز سگاں کی
الزام لگاتا ہے یہی ہم پہ زمانہ
تصویر بناتے ہیں کسی اور جہاں کی
پہلے ہی کہا کرتے تھے مت غور سے دیکھو
ہر بات نرالی ہے یہاں دیدہ وراں کی
آشفتہ اب اس شخص سے کیا خاک نباہیں
جو بات سمجھتا ہی نہیں دل کی زباں کی
۔۔۔۔
(32)
مسافتوں کے نئے بیج روز بوتے ہیں
اب آگے دیکھیے کیا کیا ہم اور کھوتے ہیں
خراج دیتے چلے آئے ہیں یہ صدیوں سے
ہر ایک صبح کو معمول میں پروتے ہیں
تغیرات زمانہ سے بھاگنا کیسا
نئے سوال نئے تجربوں میں ہوتے ہیں
ہم اپنی شکل بھی پہچاننے سے قاصر ہیں
بس ایک بوجھ ہے کاندھوں پہ اور ڈھوتے ہیں
نہ سرسری کوئی گزرے ہمارے شعروں سے
لہو جگر کا ہم اشعار میں سموتے ہیں
تمہارا آج نئی نسل سے تعارف ہے
غزل کے کھیت ہمیشہ جو تم نے جوتے ہیں
۔۔۔۔
(33)
ہر شخص داستانوں میں بکھرا ہوا ملا
جس گھر میں بھی گئے کوئی ٹھہرا ہوا ملا
وہ جس کی جستجو ہمیں لائی یہاں تلک
دریا کی تیز دھار پہ بہتا ہوا ملا
اک قافلہ گیا ہے دفینے تلاشنے
صحرا جرس کی گونج سے سہما ہوا ملا
غم کو سمجھنے والے ہی ناپید ہوگئے
شکوہ ہر ایک شخص یہ کرتا ہوا ملا
۔۔۔۔
(34)
پچھلے سب خوابوں کی تعبیریں بتادی جائیں گی
ایک دن آئے گا دیواریں گرادی جائیں گی
ان حوالوں میں الجھنے سے کوئی حاصل نہیں
یہ سنا ہے داستانیں سب جلا دی جائیں گی
ہم نے کس کس کو بھلایا کون بھولا ہے ہمیں
ان سبھی قصوں کی تاویلیں بنادی جائیں گی
جب کبھی موقع میسر آئے پرواز کا
اور کچھ باتیں نئی ہم کو سجھا دی جائیں گی
فیصلوں کا مل گیا ہے ان کو سارا اختیار
اب جنون و عقل کی شمعیں بجھادی جائیں گی
بس تخاطب کی اجازت مانگ ہو یا مدعا
آج سے درخواستیں بھی ساری سادی جائیں گی
۔۔۔۔
(35)
ہمارے بارے میں کیا کیا نہ کچھ کہا ہوگا
چلیں گے ساتھ تو دنیا کا سامنا ہوگا
وہ ایک شخص جو پتھر اٹھا کے دوڑا تھا
ضرور خواب کی کڑیاں ملا رہا ہوگا
ہمارے بعد اک ایسا بھی دور آئے گا
وہ اجنبی ہی رہے گا جو تیسرا ہوگا
خزاں پسند ہمیں ڈھونڈنے کو نکلے ہیں
ہمارے درد کا قصہ کہیں سنا ہوگا
جو ہر قدم پہ مرے ساتھ ساتھ رہتا تھا
ضرور کوئی نہ کوئی تو واسطہ ہوگا
نہیں ہے خوف کوئی رہبروں سے آشفتہ
ہمارے ساتھ شکستوں کا قافلہ ہوگا
۔۔۔۔
(36)
الجھے گا جتنا اور الجھتا ہی جائے گا
تجھ سے کہاں تلک کوئی پیچھا چھڑائے گا
جتنی پناہیں ڈھونڈنا چاہے وہ ڈھونڈ لے
لوٹے گا جب بھی چھاؤں میں زلفوں کی آئے گا
کتنے ہی اہتمام سے رہ لیں مگر مزا
چولہے کے پاس بیٹھ کے کھانے میں آئے گا
بچوں کے ساتھ رات گزرنے کی لذتیں
ہوٹل کا بند کمرہ کہاں تک جٹائے گا
شیشے کا جسم ، خاک کا سر، گوشت کی زباں
کب تک یہ ڈھونگ اور ہمیں خوں رلائے گا
اک روز ٹوٹ جائے گا سارا ترا طلسم
ہونٹوں کو جان بوجھ کے کب تک رچائے گا
۔۔۔۔
(37)
پھر پلٹنے نکلے ہیں ساری داستانوں کو
ہم جگائے رکھیں گے گھر کے سائبانوں کو
روشنی کے مینارے، شہر میں ہوئے قائم
کالا پوت ڈالو اب سارے شمع دانوں کو
تیز بہتے قدموں سے ڈھک گئی ہیں سب سڑکیں
آہٹوں کی عادت تھی سونے پائدانوں کو
یوں ہی بس سلگنے کا سلسلہ رکھو جاری
بھولنے نہیں دینا فرض راکھدانوں کو
فکر کے سلیقے تو ہم خرید لائیں ہیں
مشق جاری رکھنا ہے اپنی آسمانوں کو
۔۔۔۔
(38)
دیوار قہقہہوں کی ابھی تک ہے درمیاں
مشکل سے پاسکو گے ہمارا کوئی نشاں
پہچاننے میں ہم بڑی مشکل سے آئے تھے
لوٹ جب اک سفر سے بکھرتے یہاں وہاں
ہم نے کبھی سنا تھا کہیں آس پاس ہیں
کہرے میں اور دھند میں لپٹے ہوئے مکاں
۔۔۔۔
(39)
قاتل کی سازشوں میں وفا ڈھونڈتے رہے
مژدہ انہیں جو اپنی سزا ڈھونڈتے رہے
ہاں اور نہیں کی جنگ ہمیں کچھ نہ دے سکی
ہم اپنے اوڑھنے کو ردا ڈھونڈتے رہے
۔۔۔۔
(40)
ہمیں سفر کی اذیت سے پھر گزرنا ہے
تمہارے شہر میں فکر و نظر پہ پہرہ ہے
سزا کے طور پہ میں دوستوں سے ملتا ہوں
اثر شکست پسندی کا مجھ پہ گہرا ہے
وہ ایک لخت خلاؤں میں گھورتے رہنا
کسی طویل مسافت کا پیش خیمہ ہے
یہ اور بات کہ تم بھی یہاں کے شہری ہو
جو میں نے تم کو سنایا تھا میرا قصہ ہے
ہم اپنے شانوں پہ پھرتے ہیں قتل گاہ لیے
خود اپنے قتل کی سازش ہمارا ورثہ ہے
۔۔۔۔
(41)
دل کو بہلانے بہت خواب سہانے آئے
تجھ سے بچھڑے تو کئی چہرے منانے آئے
کس سے ملتے کہ اسے دینے کو رکھا کیا تھا
یوں تو رستے میں بہت ٹھور ٹھکانے آئے
۔۔۔۔
(42)
دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک
چوباروں کے سر پر خاک
شہر ملامت آپہنچا
سارے مناظر عبرت ناک
دریاؤں کی نذر ہوئے
دھیرے دھیرے سب تیراک
تیری نظر سے بچ پائیں
ایسے کہاں کے ہم چالاک
دامن بچنا مشکل ہے
رستے جنوں کے آتش ناک
اور کہاں تک صبر کریں
کرنا پڑے گا سینہ چاک
۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں