پیر، 13 جولائی، 2015

علی محمد فرشی کی نظمیں

علی محمد فرشی کی نظموں کا یہ انتخاب پیش خدمت ہے۔ حالانکہ یہ نظمیں تازہ نہیں ہیں، لیکن ان کی بہترین نظموں میں سے منتخب کی گئی دس ایسی نظمیں ہیں، جنہیں پڑھ کر آپ ان کی نظم گوئی کے فن اور اس کے معاملات پر کچھ کہہ سن سکتے ہیں۔مجھے ذاتی طور پر ان نظموں میں سے 'مٹی کی اشرفی'،'اشتہار سے باہر ' اور'فراک' بہت پسندآئی ہیں۔امید ہے کہ ان نظموں پر گفتگو ہوگی، ان کے علاوہ بھی علی محمد فرشی کی بہت سی ایسی نظمیں ہیں، جو اس انتخاب کا حصہ ہونی چاہیے تھیں، جیسے کہ غاشیہ، ٹوٹم ٹوٹ گیا وغیرہ۔ ان نظموں کو کسی اور وقت ادبی دنیا پر پیش کیا جائے گا۔ادبی دنیا،شاعری اور فکشن کے علاوہ، تاریخ، سیاست، مذہبیات اور دوسرے اہم معاملات پر بھی اہم تحریروں کو آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتی رہے گی۔علاوہ ازیں، ایک اہم اعلان یہ بھی ہے کہ جلد اچھی کتابوں پر تبصرے کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے گا، جن میں نہ صرف یہ کہ نہایت سخت تنقیدی معیار کو قائم رکھتے ہوئے، ان پر اہم افراد سے تبصرہ کروایا جائے گا، دوسری جانب زبان و ادب کی خدمت کا دم بھرنے والے اداروں کا محاسبہ بھی ادبی دنیا کے ذریعے کیا جائے گا اور بہت سے حقائق پر روشنی ڈالی جائے گی۔ان کتابوں میں سے ادبی دنیا، ہر سال ، چھ مہینے پر کچھ اہم اردو کتابوں کی فہرست جاری کرے گی، جن کی اہمیت کے پیش نظر ادبی دنیا کے قارئین کو انہیں پڑھنے کی جانب راغب کیا جائے گا۔امید ہے کہ یہ تمام سلسلے کامیابی سے جاری رہیں گے۔شکریہ!

نو گزی

زانیہ نے
درد کی شلواربدلی
آنسوؤں سے روح کا چہرہ بھگویا
دل کا گندا زخم دھویا
سرخ پھولوں پرسجائی آرزو
نوگزے بابا کے مرقد پر
یہ اس کی آخری منَّت کی رات
اس طرح بھاری تھی اس پر
جیسے ڈائن کو
کلیجا اپنے بیٹے کا چبانا پڑ گیا ہو

آخری منَّت ہے بابا
اس سے پہلے جتنی بار آئی ہوں میں
خالی دامن لوٹ کر جاتی رہی ہوں
گندگی کے مست مکھے
میرے تن پربھنبھناتے ہی رہے
میں کہ روٹی کی مجاور
کاش تیرے در کی مٹی چاٹ سکتی
زندگی کا خونی دریا پاٹ سکتی

گندگی کی کیڑیاں ہم
آسمانوں سے نہیں آئیں مگر
جائیں گی واپس ادھر ہی
جس طرف ہر پاک باز
پاک باز اک آدمی کی
میں نے کتنی منتیں مانی تھیں بابا،یاد ہے؟
بابا!
نہیں شکوہ نہیں ہے آپ سے
تقدیر سے شکوہ بھلا کیا؟
آرزو ہے
آرزو یہ ہے کہ بابا
آخرت میں
ان پلیدوں سے کہیں بھی سامنا میرا نہ ہو
وہ اگر جنت میں جائیں
تو مجھے دوزخ قبول!

۰۰۰

دہانہ

ایک سوراخ ہے
چیو نٹیاں جس میں آتی رہیں
دانہ دانہ اٹھائے ہوئے اپنی تقدیر کا
بوجھ دل کا سنبھالے لگاتار آتی رہیں
دور اندر کہیں غار ہے
جس میں بیٹھا ہوا دیو کھاتا ہے
کیڑوں کی محنت

مسلسل تگ و دو کی لمبی قطاریں لگی ہیں
افق سے افق تک
دہاں کی طرف یوں سرکتی ہیں
جیسے یہاں تخت پر کوئی بیٹھا (سخی بادشہ)
زندگی بانٹتا ہے

لگاتار دیوار تعمیر کر تا رہا ہوں
مسلسل کوئی دوسری سمت سے چاٹتا جارہا ہے
لگاتار کوہِ نداکی طرف
لوگ دیوار کو پھاند کر جارہے ہیں
کہ جیسے وہاں ان کی کھوئی ہوئی
زندگی مل رہی ہو

دہانہ نہیں بھر سکا
چیو نٹیوں کی طرح
میں نے سوراخ میں( آتے جاتے ہوئے)
کتنی عمروں کی خوراک
اس میں گرائی!


۰۰۰

مٹی کی اشرفی

میری ہتھیلی پہ سکہ ہے ،مٹی کا
ٹوٹا ہوا
جس کی اک سمت آدھی برہنہ بدن مہر ہے
ناف تک آدمی کی

یہ دھاتوں سے پہلے زمانے میں
شاید اشرفی نما شے رہا ہوگا
دنیا اُدھر گھومتی ہو گی
جس رُخ سے اِ س کی کھنک دار آواز
رستہ بنا کر نکلتی تھی دیوار سے
باغ میں

باغ کے ایک گوشے میں مٹی کا پُتلا تھا
جس کے چرن چھو کے آگے گزرتا تھا دریا
رواں نُور کی ندیاں رک کے
پاؤں میں، سجدے سجاتی تھیں
احکام و انعام پاتی تھیں
شاید یہ صورت اُسی کی ہے
سکے پہ!

یہ اُس دور کی بات ہے
جب کرنسی نہیں،
اسمِ اَسرار چھپتے تھے کاغذ پہ
تاریخ حرفوں کے پردے کے پیچھے کھڑی مسکراتی تھی
قصہ سناتے ہوئے
اپنی آواز میں اُس کی آواز آتی تھی

یادوں کی پریاں گزرتی ہیں
دیوار پر رقص کرتے ہوئے

یہ کرنسی کے کاغذ کی دیوار ہے
جس کی دونوں طرف ایک انبوہِ مخلوق ہے
زندگی بھر کا یہ دن بہت مختصر ہے
کرنسی کی دیوار کو چاٹنے کے لیے
وقت کے پا ٹ کو پاٹنے کے لیے
جس کی چوڑائی موسیٰ کی لاٹھی سے کم ہے

مجھے کیا
کہ میں اس تماشے سے باہر
ہتھیلی پہ مٹی کا سکہ سجائے کھڑا ہوں
یہ محشر ہے
لیکن مجھے کس کا ڈر ہے
کہ میری ہتھیلی کا سکہ تو
سارے زمانوں میں رائج رہا ہے
میں جب چاہوں
جتنی بھی چاہوں
خریدوں
محبت

۰۰۰

داؤ

پھر گھماؤں
آخری داؤ لگاؤں
کیا خبر اس بارآخر مل ہی جائے
گم شدہ پونجی مجھے!

میں...
میں کسی ایسے ہی لمحے کے کنارے
تجھ سے بچھڑا
وقت کا چکر گھما کر
تو نے جب تقدیر سے مٹی جدا کی
اور میں نے
اپنی مٹی سے جدائی

یہ جدائی
آنسوؤں میں گوندھ کر
رکھی ہوئی ہے چاک پر
اس چاک پر
میں نے بنائی ایک جنت
اور اس جنت کی رونق 151 ایک عورت
گھر میں اب تک منتظر ہے
رات کا پچھلا پہر ہے
میں جوا خانے میں تنہا
زندگی کا آخری داؤ لگانے جارہا ہوں

روک مت اب
تیری جانب آرہا ہوں

۰۰۰

یکوزہ

یکوزہ نے دس سال میں
پوری دس شادیاں کیں
اگر میں بتاؤں کہ دس سال بعد
اس کے بچوں کی تعداد کیا تھی
تو سر پیٹ لو تم
کہو (قہقہہ مار کے)
سر ہلاتی خموشی سے
کیا فائدہ ایسی دس شادیوں کا
یکوزہ بھی اک دن
یہی سوچ کر گھر سے نکلا
کہ یہ چربیوں سے بھرے
تھلتھلاتے ہوئے پیٹ
تھیلے ہیں عیاریوں کے
اگلتے ہیں سارے جہاں کی خرافات دن رات
لیکن کبھی ایک بچہ نہ نکلا
لعیناتِ لحم ا لحرم سے 151

یکوزہ یہی سوچ -تا
خودکشی کے ارادے سے نکلا
مگر موت اس روز چھٹی پہ تھی

پارک میں
ایک ٹوٹی ہوئی بینچ پر وہ پڑا تھا
کہ جیسے بھکاری کوئی
جس کا گھر بار کندھوں پہ رکھا ہوا ہو،
جسے جب وہ چاہے اتارے
وہ پاؤں پسارے
جہاں اس کا جی چاہے خوابوں میں جائے

یہ بچے کے ہنسنے کی آواز تھی،
خواب تھا ،
یاحقیقت میں بچہ کوئی،
اس کی چھاتی کو تھپکا رہا تھا
اسے جاننے کی ضرورت نہیں تھی
کہ کیا راز تھا
اب اسے سوچنے، دیکھنے ، ماننے کی ضرورت نہ تھی

لمس تھاخواب کا
اور خوش بو کی بیلیں تھیں لپٹی ہوئی زندگی سے
یہ لمحہ ابھی تک مسلسل رواں ہے
مجھے دیکھتے دیکھتے ساٹھواں سال ہونے کو ہے
اور اب تم کو آگے، مزید آگے، کتنے برس دیکھنا ہے
پتا ہے؟

۰۰۰

تم نے نیلے فلک کی پتنگ لوٹ لی تھی

ابھی تم نے کس سے کہا تھا ’’چلیں‘‘
ماں کی بوڑھی چھڑی سے!
جسے ٹیکتے ٹیکتے وہ خلاؤں کے اس پار جاتی
چمکتے ہوئے خواب تارے تمہارے لیے چن کے لاتی
ستاروں سے تم گھر بناتے، گراتے، ہنساتے، رلاتے!
ابھی تم نے کس سے کہا تھا ’’چلیں‘‘
مخملیں سرخ جوتوں سے!
جن کو پہن کر
ہواؤں میں اڑتی ہوئی تتلیوں کے تعاقب میں تم
باغ کے آخری پھول تک جا پہنچتے
انہی مخملیں سرخ جوتوں کو پہنے ہوئے
دوڑتے دوڑتے ایک دن
تم نے نیلے فلک کی پتنگ لوٹ لی تھی!

ابھی تم نے کس سے کہا تھا ’’چلیں‘‘
اپنی بیساکھیوں سے !
۰۰۰

اشتہار سے باہر

وہی قیمت ہے عورت کی
ازل سے جو مقرر ہے
زمینی منڈیوں میں
آسمانی مارکیٹوں میں
کرنسی میں تغیر آتا رہتا ہے
مگر قسمت وہی رہتی ہے

ہاتھوں کی لکیروں سے
ترقی کے گرافوں پر سرکتی ،سرسراتی
لائنوں کے جال میں جکڑی ہوئی عورت
اکیلی تھی
اکیلی ہے
مصور کے تخیل سے
خدا کی بادشاہت تک
سبھی اخبار
’’
پریوں اور حوروں کی ضرورت ہے‘‘
کے رنگین اشتہاروں سے بھرے رہتے ہیں

رشتوں کی سلاخوں میں
پروئی عورتوں اور
گائے کے عمدہ گلابی گو شت کا بھاؤ
ابھی تک ایک جیسا ہے
۰۰۰

راہبہ

راہبہ!
سچ بتا! واقعی جسم ناپاک ہے؟
پھر مقدس محبت کے اجلے پرندے نے
اس میں ہی کیوں گھر بنایا؟
کبوتر ہمیشہ انہی گنبدوں پر اترتے ہیں
جن سے خدا تک پہنچنے کا
نورانی زینہ ملے
جنتی ہجر کاچاک سینہ سلے
پھول دل کا کھلے !
راہبہ!
دل کی محراب میں
تو اکیلی کھڑی
کیسی آواز کی منتظر ہے
خدا آدمی کے بنائے ہوئے
معبدوں میں اترتا نہیں ہے
وہ کیوں آسمانوں سے مٹی پہ آئے
ہمیں کیوں نہ وہ نور گھر میں بلائے
جہاں آسمانی گھڑی پر
ہمیشہ وہی وقت رہتا ہے
جو تیرے میرے بچھڑنے کا تھا !

راہبہ !
تو نے اپنے بدن سے
اتاری ہوئی ریشمی زندگی
کن مزاروں پہ ڈالی
ترے غم کی اترن
کہاں میری پوشاک ہے
میں تو اپنے الاؤ میں جلتا ہوا
اس زمانے کی گلیوں سے
تنہا، اداس، اپنے کشکول میں
دل کے ٹکڑے گراتا ہوا
یوں گزر جاؤں گا
جیسے تیرے محلکے سے
خوابوں کی ڈاریں گزرتی ہیں
لیکن تری نیند کی چھتریوں پر اترتی نہیں

راہبہ !
رات کی کالی چادر میں
کب تک چھپائے گی تو
میرے دن کا لہو
رو برو دل کے رکھ دے سبو
پیاس کی پیاس تک دے بجھا !
۰۰۰

تماشائی حیرت زدہ رہ گئے

تماشا گروں نے
کبوتر نکالے تھے
شیشے کے خالی کنستر سے!

ماچس کی تیلی سے
بجلی کا کھمبا بنایا تھا
رسی پہ چلتی ہوئی ایک لڑکی
ہوا میں اڑائی تھی
بندر کے اندر سے
انسانی بچہ نکالا تھا
سب لوگ حیران تھے
کیسے جادو گروں نے
پرندے کو راکٹ بنایا
پتنگے کی دم سے سٹنگر نکالا
طلسماتی ہاتھوں نے
گیندوں کی مانند ایٹم بموں کو اچھالا !

تماشائی حیران تھے
کیسے جادو گروں نے
زمیں
راکھ کی ایک مٹھی میں تبدیل کر دی !
۰۰۰

فراک

فراک دیکھتے ہی وہ
ہنسی، گلاب کی طرح
دکان میں گلاب ہی گلاب سے بکھر گئے
’’
مجھے یہی پسند ہے
اِسی فراک کی تلاش تھی مجھے !‘‘

فراک بھی یہ بات سُن کے کھل اٹھا
وہ لو ہے کی صلیب پر
گزشتہ سات روز سے ٹنگا ہوا تھا
زندگی کا منتظر تھا!
اُس کی بات سن کے ہنس پڑا
خوشی بھری یہ بات اُس نے
جھالروں کی اوٹ میں چھپے ہوئے
شریر دل کے پاس ٹانک دی !

دُکاندار نے کہا
’’
بہت ہی قیمتی فراک ہے
نہیں خرید پاؤگی !‘‘
تو سات سالہ گُڑیا اس کی بات سن کے ہنس پڑی
’’
ہمارے پاس رقم کی کمی نہیں ہے
ماں نے سات سال بعد
میری گولک آج صبح توڑی ہے ! ‘‘

مگر فراک !
اُس کی ماں کے پرس میں رکھی ہوئی
تمام رقم سے بھی سات سال مہنگا تھا!

وہ ماں کو چپ، اداس دیکھ کر
اداس خود بھی ہو گئی
تو سات سال اور ----- سات سال اور
عمر سے بڑی لگی !
دکان میں کھڑے کھڑے وہ دونوں بوڑھی ہو گئیں!
پرانے، دفن شہر کے کسی کھنڈر میں کھو گئیں !

انہیں اداس ، خالی ہاتھ
چپ لیے
دکان سے نکلتا دیکھ کر
دکاندار اداس تھا!

دکاندار اداس تھا
کہ بِک نہیں سکا فراک !
اسے تو کچھ خبر نہ تھی

کہ اس کی اِک ڈکار جتنے وقفے میں
کسی کا قتل ہو گیا
کوئی صلیب چڑھ گیا !

وہ اِک دکاں
جو سات لاکھ سال بعد
دفن شہر سے ملی
تو خلق ساری آ گئی
تماشا دیکھنے فراک کا
جو شہر سات لاکھ سال پہلے مر چکا تھا ،دفن تھا !
وہ پھر سے زندہ ہو گیا
وہ خاک سات لاکھ سال بعد پھر سے خلق بن گئی !

صلیب پر
فراک تھا ٹنگا ہوا
ٹپک رہا تھا خون اُس کی جھالروں سے
خون تھا کہ سرخ سرخ نور تھا!
جو سات لاکھ سال سے
فراک کی تلاش میں بھٹک رہا تھا
چیرتا ہوا ہجوم کو بڑھا
فراک کو صلیب سے اتار کر
زمیں کی نرم گود میں لٹا دیا، سلا دیا

وہ چُوم کر فراک کو
صلیب پر ہوا بلند
خود فراک بن گیا !

زمین گھومتی رہی ہے
(
پاگلوں کے ہاتھوں میں)
زمین گھومتی رہے گی
تشنگی صلیب کی ----- نہیں بجھی
نہیں بجھے گی !
۰۰۰
 

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *