راغب اختر شاعر بھی ہیں، ادیب بھی۔ وہ ادب کے لیے بازگشت ڈوٹ کوم کے ذریعے سب سے پہلے ایک آڈیو ویب میگزین کے پروجیکٹ پر باقاعدہ کام کرنے والے شخص ہیں، کم از کم میرے علم کے مطابق۔شہرت سے دور رہنا پسند کرتے ہیں،اور بس خاموشی سے اپنا کام کیے جارہے ہیں، نظریاتی طور پر راغب اختر سے میرے ہزار اختلافات ہوسکتے ہیں مگر ادبی و علمی کاموں کے لحاظ سے ان کی خدمات کی بڑی قدر کرتا ہوں اور اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں کہ اردو کے سرکاری و غیر سرکاری ادارے ایسے کارآمد شخص سے کوئی کام لینے کے اہل نہیں رہ گئے ہیں، ورنہ انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کو یونی کوڈ ٹیکسٹ میں اپلوڈ کرنے سے لے تراجم، بچوں کے ادب اور پاپولر لٹریچر کے لیے بھی جس نوعیت کے کام ہونے چاہیے، راغب کو ان سب کا علم بھی ہے، اور کام کرنے کا سلیقہ بھی۔اس انٹرویو میں میں نے ان سے انٹرنیٹ اور اردو کے حوالے سے چند باتیں کی ہیں، وہ نئی نسل کی ایک اہم آواز ہیں، اس لیے ان کی باتوں کو غور سے سننا اور ان سے اپنا اتفاق و اختلاف ظاہر کرنا ہماری ذمہ داری ہے، جس سے کچھ سمتیں ان پر روشن ہوں اور کچھ ہم پر۔امید ہے اس مختصر سی گفتگو میں آپ کو یہ کوشش صاف نظر آئے گی۔شکریہ
تصنیف حیدر:راغب بھائی! اردو انٹرنیٹ پر موجود دوسری زبانوں کے مقابلے میں آپ کی نظر میں کتنی مستحکم زبان ہے، کیا 'فروغ' کا کوئی زمینی تصور بھی ہے یا صرف یہ ہوائی باتیں ہیں؟
راغب اختر:زبان کا استحکام اسے کے قاری کے استحکام کے ساتھ مشروط ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بر صغیر کے مقابلے مغربی ممالک میں تارکین وطن انٹرنیٹ پر زیادہ فعال ہیں تاہم کہیں کہیں تصنیف حیدر اور اعجاز عبید جیسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جو خود ہی ایک ادارے کی طرح کام کرتے ہیں۔ اگر اس جذبے کے ساتھ مزید لوگ میدان عمل میں آئیں تو مجھے اردو کی جڑیں مضبوط دکھائی دیتی ہیں۔ رہی بات اس کے حقیقی ہونے کی تو آفتاب و ماہتاب بھی ہماری گرفت میں نہیں آتے لیکن وہ حقیقت ہیں اور بدیہی حقیقت۔
تصنیف حیدر:انٹرنیٹ پر پڑھنے کے تعلق سے جس سے پوچھو وہ یہی کہتا ہے کہ صاحب جو بات کتاب کی ہے نیٹ کی نہیں، تو انٹرنیٹ کیا صرف شہ سرخیوں کے شہر کی حیثیت رکھتا ہے؟
راغب اختر:یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور آئندہ نسلوں میں یہ شکایت نام کو بھی نہیں ہوگی۔ اردو کے حوالے سے کچھ تکنیکی سہولتوں کی عدم موجودگی بھی لوگوں کو ایسا سوچنے پر مجبور کرتی ہے، مثلاً اردو کتابیں کنڈل پر صرف پی ڈی ایف فارمیٹ میں ہی پڑھی جا سکتی ہیں جو ایک دشوار مرحلہ ہے۔ اس کے علاوہ اردو کی معیاری لغت کی عدم موجودگی بھی اسے مزید دشوار بناتی ہے۔ رہی بات شہہ سرخیوں کی تو میں نے اب تک روایتی اشاعتوں یعنی کتابوں کی ہی شہہ سرخیاں انٹرنیٹ یا اخبارات میں دیکھی ہیں۔ انٹرنیٹ پر اشاعت کی تشہیر بھی اسی کے ذریعہ کی جاتی ہے۔
تصنیف حیدر:کیا ابھی تک انٹرنیٹ پر کوئی ایسا اردو کا ادارہ کام کررہا ہے، جس کی خدمات سے آپ مکمل طور پر مطمئین ہوں؟ کیوں؟
راغب اختر:بات کسی فرد کے مطمئن یا غیر مطمئن ہونے کی نہیں ہے۔ بات زبان کی تاریخ اور اس کے تشخص کی ہے۔ اردو کے جتنے ادارے ہیں ان میں سے زیادہ تر حکومتی ادارے یا حکومت کی مراعات سے چلنے والے نیم سرکاری ادارے ہیں۔ ان میں جن افراد کا تقرر ہوتا ہے، ان کے لیے اردو سے محبت شرط نہیں ہوتی۔ حکومت کی خوشنودی حاصل کرنا ان کا اولین مقصد ہوتا ہے اور کئی بار محض اخبارات کی شہہ سرخیاں بنانا تاکہ ان سے پارلیمنٹ میں پوچھے گئے سوالات کی سطر پوشی کی جا سکے۔ رہی بات غیر سرکاری اداروں کی تو وہ بھی کسی نہ کسی ایجنڈے پر کاربند نظر آتے ہیں۔ مجھے ان سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری زبان ہے اور اس کی حفاظت ہمارے ذمے ہے۔ تکلیف ہوتی ہے جب مرثیے کے اشعار دیوناگری رسم الخط میں لکھ کر پڑھتے دیکھتا ہوں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا اور سازش کہنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔
تصنیف حیدر:پاپولر اور بچوں کے ادب کے لیے انٹرنیٹ پر کام کرنے والے ایک بڑے ادارے کی کیا اردو میں ضرورت ہے؟ کیا اس سے کچھ فرق پڑے گا؟
راغب اختر:بالکل ضرورت ہے بلکہ آپ جیسے فعال لوگوں سے گزارش ہے کہ اس نسل کو اس کے حال پر چھوڑ کر بچوں کو اردو سکھانے کے لیے کام کیا جائے۔ میری جو استطاعت ہے میں خود بھی کوشش کر رہا ہوں۔ بچوں کے لیے اب محض کتاب لکھ دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کی اینی میشن اور اس کی آڈیو ویژول پریزنٹیشن بھی ضروری ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو اردو سکھانا چاہتے ہیں لیکن انٹرنیٹ پر خاطرخواہ مواد موجود نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو میں اس کے حوالے سے اعداد و شمار بھی آپ کو گوگل اینالیٹکس کی شکل میں فراہم کر سکتا ہوں۔ لیکن یار کس کو فرصت ہے کہ اگلی نسل پر سرمایہ کاری کرے۔ سب کو فوری منافع کی فکر ہے۔
تصنیف حیدر:کیا انٹرنیٹ پر ایک اچھی ویب سائٹ، یونی کوڈ میں قائم کرکے ریونیو جنریٹ نہیں کیا جاسکتا؟ کیا یہ واقعی ایک خسارے کا ہی سودا ہے، یا کچھ لوگ ہمیشہ اس تصویر کا ایک ہی پہلو دکھانا چاہتے ہیں؟
راغب اختر:بھائی مارک زکر برگ نے فیس بک پر کتنے دنوں تک سرمایہ کاری کی۔ ابتدا میں سب کو حیرت ہوتی تھی کہ ان کا کیا فائدہ ہے۔ اب نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم بے صبر لوگ ہیں اور ایک نمبر کے لالچی بھی اور یہی بات اردو کے لیے خطرناک ہے۔ پیسہ کمانے کے لیے پہلے کام کرنا پڑتا ہے اور انٹرنیٹ پر پیسہ کمانے میں ذہانت اور صبر دونوں درکار ہے جس سے میرےجیسے اردو والے محروم ہیں، اسی لیے ہم شکایتوں کے دفتر ساتھ لیے پھرتے ہیں۔
تصنیف حیدر:آپ کی ویب سائٹ بازگشت کے کیا مقاصد ہیں، وہ کس طرح کام کرتی ہے؟
راغب اختر:بازگشت چونکہ میری ذاتی کاوش ہے لہذا جو میرے ذاتی مقاصد اردو کے حوالے سے ہیں وہی بازگشت کے بھی ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد اردو بولنے والے معاشرے کے خلا کو پر کرنا ہے۔ اس حوالے سے ہم نظم اور نثر دونوں کو معیاری نہیں تو کم از کم معیاری کے قریب قریب تلفظ میں ریکارڈ کرتے ہیں اور اسے بازگشت پر پوسٹ کرتے ہیں۔ عام طور پر ہم لوگوں میں تلفظ ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے اور بجائے اس کے کہ ہم لوگوں کی غلط تلفظ پر سر زنش کریں ہمیں صحیح تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی عام کرنی چاہیے۔
تصنیف حیدر:اردو میں آڈیو لٹریچر کی ضرورت پر زور دینا اس وقت کتنا مناسب یا نامناسب ہے؟
راغب اختر:کسی زبان کے فروغ کے مختلف شعبہ جات ہیں، اب جو جس شعبے پر کام کر لے۔ کسی بھی طور اس اس کی ضرورت اور میرے خیال میں اشد ضرورت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آڈیو لٹریچر نہ صرف یہ کہ رسم الخط جاننے والے بلکہ رسم الخط سے نابلد لوگوں کو بھی اس کی شیرینی سے لطف اندوز کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مواد نابینا طلبا کے لیے بھی مفید ہے۔
تصنیف حیدر:آپ امیج کی صورت میں اپلوڈ کیے جانے والے ٹیکسٹ کی مخالفت کن بنیادوں پر کرتے ہیں؟ کیا اس کے ذریعے زبان یا لٹریچر لوگوں تک نہیں پہنچتا؟
راغب اختر:میں اس کی مخالفت تو نہیں کرتا کیونکہ سب کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ تاہم میں اسے مفید نہیں مانتا کیونکہ تصویر کی کوئی زبان نہیں ہوتی ہے۔ اور اس سے انٹرنیٹ پر کسی زبان کی نمائندگی بھی ثابت نہیں ہوتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یونی کوڈ کی موجودگی میں یہ ناگزیر بھی نہیں ہے۔
تصنیف حیدر:کاپی رائٹ اور انٹرنیٹ کا مسئلہ آپ کے نزدیک کتنی اہمیت رکھتا ہے، کیا کاپی رائٹ حاصل کیے بغیر کتابوں/ مضامین یا تخلیقات کو شیئر کرنا ایک قسم کا اخلاقی جرم قرار دیا جانا چاہیے؟
راغب اختر:اردو ابھی جس صورت حال سے دو چار ہے اس میں صرف اس کے فروغ کی مسئلہ درپیش ہے۔ جب قاری ہی نہیں ہونگے تو کہاں کی کاپی رائٹ اور کیا احساس جرم۔ ادیبوں اور شاعروں کو ایسے پلیٹ فارم کا شکر گزار ہونا چاہیے جو انھیں قاری فراہم کر ارہے ہیں ورنہ ان کی کتابوں کا مقدر جغادری نقاد حضرات کو دیا جانے والا تحفہ اور وہاں سے دور افتادہ گاؤں میں چورن کا لفافہ بننا ہے۔
تصنیف حیدر:ایک آخری سوال یہ ہے کہ آپ اردو کے ایک بڑے ادارے سے خود بھی وابستہ ہیں، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان انٹرنیٹ پر اردو کا معیاری یا پاپولر لٹریچر عام کرنے میں کیوں اہم کردار ادا نہیں کرپارہی؟
راغب اختر:پابہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
سرکاری اداروں کی سب سے بڑی کمزوری اس کی لال فیتہ شاہی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ اسے اقلیت کا فلاحی ادارہ بنانے پر لوگوں کا زیادہ زور رہتا ہے۔ ڈائرکٹرز کے اندر کام کا جذبہ ہوتا ہے لیکن ان کے ماتحت ان سے تعاون نہیں کرتے۔ یا یہ کہہ لیں کہ وہ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ ان کی فکر کو سمجھ سکیں۔ تنگ آکر ادارے کو بدلنے کا خواب دیکھنے والا ڈائرکٹر خو کو ہی تبدیل کر لیتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں