نظریات کبھی مرتے نہیں۔بس وقت ان پر سوالوں کی ضربیں لگاتا رہتا ہے۔شاعری صرف لفظوں کے جوڑ توڑ کا نام نہیں بلکہ اس کے ذریعے شاعر اپنی فکر اور فلسفے کو لوگوں کے سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے ۔کہیں یہ فکر جمالیاتی ہوتی ہے ، کہیں حقیقت پسند۔راشد ان دونوں کیفیات سے بروقت واقف بھی تھے اور ان دونوں کی اہمیت تسلیم بھی کرتے تھے۔وہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان قائم اس پل پر کھڑے تھے جہاں سے اردو شاعری کا کوہکن خیال کا ایک نیا راستہ، ایک نئی پگڈنڈی پیدا کرنے کی فکر میں تھا۔ ایک ایسی پگڈنڈی جو ترقی پسندی اور حقیت پسندی کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھلس رہے انسانوں کو امید کی کشادہ شاہراہ تک پہنچادے۔راشد کا یہ کوہکن اس کوشش میں کبھی ذہن کے سفاک سینوں پر تاریخ کی کدالیں مارتا تو کبھی دل کے نہاں خانوں میں ٹمٹماتی ہوئی شمع کو بجھنے سے بچانے کے لیے اپنے ہاتھ روک لیتا۔وقت گزرتاگیا اور سرمایہ داری سے لے کر صارفیت کی کالا بازاری تک راشد کی شاعری نے ہردورمیں اپنی اہمیت کا اور زیادہ احساس دلایا۔راشد کے بارے میں ان کے معاصرین جن میں ترقی پسند اور غیر ترقی پسند سبھی شامل تھے کیا سوچتے تھے، خود راشد کا ترقی پسندی کے بارے میں کیا خیال تھا یہ منتخب کردہ مضامین سردار جعفری کے رسالے گفتگو ، شمارہ نمبر 11، مطبوعہ 1976 میں شامل ہیں اور انھی سوالوں کے جواب کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہیں۔اب اسے وقت کا فیصلہ کہیے یا راشد کی دور اندیشی ، مگر کوئی تو بات ہے جو آج بھی اس شاعر کا کلام سنجیدہ ادبی حلقے کو اپنا گرویدہ کیے ہوئے ہے۔ہم اُن کی نظموں پر بحث کرنے اور ان کی گہرائی ناپنے پر آج بھی مجبور ہیں اور دنیا کے حالات پر راشد کا مصرع پیلے آسمان پر چیختی ہوئی کسی چیل کی طرح ہماری سماعتوں سے ٹکرارہاہے:
سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں
راشد اور ترقی پسندی
سبط حسن
جناب ن م راشد کا شمار لفظ و معنی دونوں اعتبار سے سے جدید اردو شاعری کے بانیوں میں ہوتا ہے۔اب تک ان کے تین مجموعے ماورا، ایران میں اجنبی اور لا=انسان شائع ہوچکے ہیں۔مدت گزری لاہور میں ہم ان کے پڑوسی تھے ۔پھر ایسا ہوا کہ او بہ صحرا رفت ومن ورکوچہ ہارسوا شدیم۔انہوں نے اس اثنا میں نیویارک، تہران اور خداجانے کس کس دیس میں ڈیرے ڈالے اور اب لندن میں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے۔راشد صاحب بڑے عالم و فاضل بزرگ ہیں۔اردو ، فارسی، انگریزی اور دوسری کئی زبانوں کے کلاسیکی و جدید ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔شاید اسی باعث ان کے تخیل کا افق بہت وسیع ہے اور ان کے کام میں تفکر کا عنصر بہت غالب ہے۔
پاکستانی ادب کے اجرا کے موقع پر ہم نے راشد صاحب سے نظموں کی درخواست کی تھی لیکن وہ خط ان کو نہیں ملا ۔کچھ عرصے کے بعد افکار کے ندیم نمبر میں ان کا ایک مکتوب شائع ہوا۔جس میں انہوں نے کمیونزم اور ترقی پسند ادب کے باہمی رشتے پر اظہار خیال فرمایا تھا ۔ہم نے ایک خط میں راشد صاحب کے ارشادات سے اختلافات کیا تھا۔راشد صاحب نے جواب میں جو خط لکھا ہے وہ شامل اشاعت ہے۔ انہوں نے زیر بحث مکتوب میں چند بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔
1کمیونزم اور ترقی پسندی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
2اکثر یا بعض ترقی پسند مخلص نہیں ہیں اور نہ انہوں نے ترقی پسند نقطۂ نظر کو کسی اصول یا مسلک کے طور پر اختیار کیا ہے۔
3سیاسی اقتدار بزور قائم ہونے سے انسان کے اس اختیار کی نفی ہوتی ہے جو اسے انسان کی حیثیت سے ودیعت کیا گیا ہے۔
4کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ادیب سے کسی خاص قسم کا ادب تخلیق کرنے کا حکم یا ہدیت دے۔
کمیونزم سے راشد صاحب کی مراد غالباً کارل مارکس کے اشتراکی فلسفے سے ہے۔مگر اس فلسفے کی عمر تو سواسو سال سے زیادہ نہیں جب کہ انسان ترقی پسندی کے جذبے اور شعور کی پرورش ہزاروں برس سے کررہا ہے۔اس لیے راشد صاحب کا یہ فرمانا کہ کمیونزم اور ترقی پسندی کا چولی دامن کا ساتھ ہے تاریخی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ انسان نے جب آلات و اوزار بنائے، ان کا استعمال دریافت کیا۔کھیتی باڑی کی طرح ڈالی اور بستیاں آباد کیں۔جب زندگی کی اندھیری رات میں علم و آگہی کے چراغ جلائے تو یہ سب اس ی ترقی پسندی ہی کے کرشمے تھے۔ان کا کمیونزم سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے البتہ انسانی تاریخ کے ہر دور میں ایسی قوتیں بھی سرگرمِ عمل رہی ہیں۔فنا آفرین کا مسللک اور شب آفریدگی جن کا شعار تھا، چراغِ مصطفوی اور شرارِ بولہبی کی یہ ستیزہ کاری ازل سے تاامروز جاری ہے اور یہیں سے تعہد کا مسئلہ اُٹھتا ہے۔ یعنی موت کی شرانگیز اور زندگی کی خیر بخش قوتوں کی نبرد آزمائی میں ہم کس کا ساتھ دیں۔ترقی پسندی کا تو بس ہر دور میں ایک ہی معیار رہا ہے اور وہ یہ کہ فرد اپنے ماحول، اپنے معاشرے اور اپنی ذات کو زیادہ حسین بامعنی اور تخلیقی بنانے میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔آیا وہ ان قوتوں کا ساتھ دیتا ہے۔جو انسان کی فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کی سعی میں مصروف ہیں یا ان قوتوں کا جو زندگی کو پیچھے لے جانے کے درپے ہیں۔
ترقی کا جو قانون معاشرتی زندگی پر لاگو ہوتا ہے ادب اور دوسرے فنون لطیفہ بھی اسی قانون کے تابع ہوتے ہیں۔ترقی پسندی کا جو خون معاشرتی زندگی کی جان ہے۔ وہی ادب کی رگوں میں بھی دوڑتا رہتا ہے۔وہ کون ترقی پسند ادیب ہوگا جو یہ احمقانہ دعویٰ کرے کہ کارل مارکس سے پیشتر کا سارا ادب غیر ترقی پسند ہے۔کیونکہ ہر زمانے اور ہر زبان میں ترقی پسند اور غیر ترقی پسند دونوں قسم کا ادب تخلیق ہوتا رہا ہے۔کس میں اتنی جرأت ہے جو یہ کہے کہ ہومر، ورجل، دانتے، فردوسی، سعدی، شیکسپیر، بیدل، غالب اور نظیر اکبر آبادی وغیرہ غیر ترقی پسند تھے۔اس لیے کہ انہوں نے سوشلزم کی مدح سرائی نہیں کی، یا کمیونسٹ مینی فیسٹو کو نظم نہیں کیا۔البتہ جب ازرا پاؤنڈ یا گبرئیل ڈانزیو فاشزم کی ثنا وصف میں قصیدے لکھیں اور ہم سے یہ توقع کی جائے کہ ہم ان کے کلام کے معنی اور مفہوم پر نہ جائیں بلکہ ان کے پیراےۂ اظہار پر سرد دھنیں تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی یہ کہے کہ ناگا ساکی اور ہیرو شیما کی خون آشام تباہیوں پر دھیان نہ دو ، بلکہ ایٹم بم پھٹنے سے جو چھتری نما آتشیں غبار اٹھا تھا اس کے جسن کی داد دو۔کنوٹ ہامزوں ناروے کا نوبل انعام یافتہ ادیب تھا، اس کی تصنیف ’بھوک‘ لوگوں کو بہت پسند تھی لیکن جب ناروے پر ہٹلر کا قبضہ ہوا اور کنوٹ ہامزوں نازیوں سے مل گیا تو معلوم ہے اس کے ہم وطنوں نے اپنے محبوب فنکار سے نفرت کا اظہار کس طرح کیا انہوں نے ’’بھوک‘‘ کے نسخے الماریوں سے نکال نکال کر مصنف کو واپس بھجوادیے۔ممکن ہے کسی کو ناروے والوں کی اس حرکت پر ہنسی آئے مگر ہم کنوٹ ہامزوں کے سے ہزاروں انعام یافتہ ادیبوں کو ناروے والوں کے جذبۂ حریت اور غیرتِ انسانی پر نثار کرتے ہیں۔احتجاج کی وہ ایک ساعت ان کی ترقی پسندی کا اعلان نامہ تھی اور آزادی کا وہ ایک لمحہ ’’ بھوک‘‘کی حیاتِ جاوداں سے لاکھ درجے قیمتی تھا۔
جہاں تک ترقی پسندوں کے خلوص یا اصول پرستی کا سوال ہے سو اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے کہ راشد صاحب کی سوچ کا اندام خالص داخلی اور استقرائی ہے۔انہوں نے غالباً بعض کے طرز عمل سے یہ کلیہ وضع کیا ہے۔ہمارا خیال ہے کہ راشد صاحب نے ترقی پسند ادب کی تحریک کے ساتھ نا انصافی کی ہے، البتہ اس کا فیصلہ کہ راشد صاحب حق پر ہیں یا ہم تاریخ کرے گی۔
جہاں تک سیاسی اقتدار کے بزور قائم کرنے یا ہونے کا سوال ہے تو ہماری دلی آرزو بھی یہی ہے کہ دنیا کے تمام معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل افہام و تفہیم اور امن و آشتی سے طے پائیں۔نہ زور آزمائی کی جائے نہ خون خرابہ ہو۔مگر افسوس ہے کہ نہ ماضی نے ہماری ان خواہشوں کا احترام کیا اور نہ فی زمانہ(اقوامِ متحدہ کے منشور کے باوجود)ہماری خواہشوں پر عمل ہوتا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی اور معاشی اقتدار ہر دور اور ہر ملک میں قوت ہی کے بل پر حاصل کیا گیا ہے۔کبھی کوئی طبقہ ‘مخالف طبقہ کی دلیلوں یا عرض داشتوں سے متاثر ہوکر اپنی حاکمیت سے دست بردار نہیں ہوا ہے۔ خود سرمایہ داری نظام کو یورپ میں اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے جاگیر داروں سے جو مسلح جدو جہد کرنی پڑی اس سے ہر شخص واقف ہے۔ سترھویں صدی عیسوی میں برطانیہ میں سرمایہ داری نظام کے حامیوں اور جاگیرداری نظام کے محافظوں کے درمیان برسوں تک کشت و خون کا بازار گرم رہا۔بادشاہ چارلس اول کا سرقلم ہوا تب کہیں جاکر سرمایہ دار طبقہ بر سر اقتدار آیا۔یہی صورتِ حال امریکہ کی جنگِ آزادی اور انقلابِ فرانس کے دوران پیش آئی اس کے مقابلے میں روس کا سوشلسٹ انقلاب بے حد پر امن تھا ۔سینٹ پیٹرز برگ (لینن گراڈ )کے مزدوروں نے جب بالشویک پارٹی کی رہنمائی میں زار کے قصر شاہی پر دھاوا کیا تو خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہا۔البتہ خونریزی اس وقت شروع ہوئی جب زار کے مختلف فوجی جنرلوں نے روس کی سوشلسٹ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور برطانیہ فرانس اور امریکہ کی فوجی اور مالی مدد سے ملک گیر خانہ جنگی شروع کی نازیوں کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سامراجی طاقتوں نے پرامن انتقالِ اقتدار کی نقاب بھی اتار کر پھینک دی ۔چنانچہ اسپین میں جب 1935ء میں پہلی بار جمہوریت کے خلاف بغاوت کردی دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراجی طاقتوں نے کئی جمہوری حکومتوں کا جوپرامن اور آئینی ذرائع سے برسرِ اقتدار آئی تھیں مسلح بغاوت کے ذریعے تخت الٹ دیا اور ہزاروں لاکھوں بے گناہ قتل ہوئے۔کانگومیں لوممبا کا قتل، گنی میں ڈاکٹر این کروما کی اور انڈونیشیا میں ڈاکٹر سوئیکار نو کی حکومت کی برطرفی چلی میں فوجی بغاوت اور ہزاروں انسانوں کا قتل، جنوبی چین میں 27سال کی طویل خانہ جنگی، ویتنام میں گیارہ سالہ خونریز جنگ اور سی آئی اے کی نوازش ہائے پیہم کے حالیہ انکشافات اس تلخ حقیقت کا ثبوت ہیں کہ جاگیر دار طبقہ ہو یا سرمایہ دار طبقہ ہنسی خوشی اپنے اختیارات کسی دوسرے طبقے کو نا پہلے سونپنے کے لیے تیار تھا نہ آج ہے۔تشدد برائے تشدد سوشلسٹوں کا کبھی مسلک نہیں رہا ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مخالف قوتوں نے ہمیشہ ان پر تشدد کیا ہے۔البتہ اہنسا کے قائل نہیں ہیں اور جب ان پر حملہ ہوتا ہے تو پھر انہیں بھی زور کا جواب زور سے دینا پڑتا ہے۔
جہاں تک کسی ادیب کی شخصی آزادی کا تعلق ہے ہم راشد صاحب کے موقف کی صدق دل سے تائید کرتے ہیں بلکہ ہمارا خیال تویہ ہے کہ شخصی آزادی ہر بشر کا خواہ وہ ادیب ہو یا غیر ادیب، پیدائشی حق ہے۔اس لیے کہ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں اور طبعی میلانات کو مکمل آزادی کی فضا ہی میں فروغ مل سکتا ہے۔بندگی میں اس کی زندگی واقعی جوئے کم آب ہوجاتی ہے۔راشد صاحب نے ’لا=انسان ‘ کے دیباچے میں کیا خوب کہا کہ ’ غلامی فرد کی قیمت اور قامت دونوں کو کم کردیتی ہے۔اس قسم کی زندگی میں عشق اور فکر دونوں کوتاہ اور کم مایہ ہوکر رہ جاتے ہیں لیکن ان کا یہ الزام کہ ترقی پسند حضرات شاعر کو موضوع کے انتخاب میں اپنے انفرادی حق سے دست بردار ہوجانے کی تلقین کرتے ہیں ، بے بنیاد ہے آخر ہندوستان پاکستان کے کسی ترقی پسند نے کس شاعر یا فنکار کو یہ ہدایت دی ہے کہ تم اس قسم کا ادب تخلیق کرو اور اس قسم کا ادب تخلیق مت کرو۔البتہ تخلیقی انسان عجیب و غریب ہے کہ وہ احکام کی بجا آوری کے دوران میں بھی عظیم فن پارے تخلیق کرلیتا ہے۔آخر فردوسی نے شاہنامہ محمود غزنوی کی فرمائش ہی پر تو لکھا تھا اور مائیکل انجیلو نے پاپائے روم کے حکم ہی سے تو کلیسائے روم کی دیواری تصویریں بنائی تھیں اور شیکسپیر نے بیشتر ڈرامے ناٹک گھر کے مالک کی ہدایت ہی پر پیٹ کی خاطر لکھے تھے۔ابھی کل کی بات ہے کہ اردو شعرا (جن میں غالب، میراور سودا بھی شامل ہیں) طرحی مصرعوں پر فرمائشی غزلیں لکھا کرتے تھے۔اسکے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم حکم ہدایت یا نصیحتوں کے حق میں ہیں بلکہ ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ ہر فنکار کو اپنے’’رویا‘‘ ہی کی بات ماننی چاہیے۔ہر شخص جانتا ہے کہ کسی نے فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی، فارغ بخاری، عصمت چغتائی، کرشن چندریا دوسرے ترقی پسند ادیبوں سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم اس قسم کی کہانی یا نظم یا غزل لکھوبلکہ سب نے اپنے اپنے فلسفۂ زیست اور جمالیاتی ذوق کے مطابق اپنے ’رویا‘ کی پیروی کریں۔
ہمیں کامل یقین ہے کہ راشد صاحب شخصی آزادی کی پاسبانی بدستور کرتے رہیں گے اور وطن سے ہزاروں میل دور رہ کر بھی ابنائے وطن کے جبر و اختیار کی جدوجہد کو نظرانداز نہ کریں گے۔اس لیے کہ اظہارِ ذات اور تحصیلِ ذات پورے بنی نوع انسان کا مشترکہ حق بھی ہے اور مسئلہ بھی۔
***
ترقی پسندی
سبط حسن کے مضمون کے جواب میں
ن۔م۔راشد
برادر عزیز! آپ تندرست اور خوش و خرم رہیں۔ آپ کا خط ملا اور آپ نے یہ تو بہت ہی بڑا کرم کیا کہ مجھے اپنے ماہنامے کے پانچ شمارے بھجوائے۔ پہلا شمارا جو آپنے تہران کے پتے پر بھجوایا اب تک موصول نہیں ہوااور نہ آپ کا وہ خط ملا ہے جو آپ نے اس پتے پر لکھا تھا۔میں انگلستان میں آباد ہونے کی خاطر ہی یہاں منتقل ہوا ہوں۔جن گناہوں کا عادی ہوچکا ہوں ان کے لیے پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں۔آپ وہاں رہ رہے ہیں اور کسی اور نئی صبح کے انتظار میں دن کاٹ رہے ہیں تو میں آپ کی ہمت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔سب سے اہم بات میرے خلاف یہ ہے کہ بیوی انگریز ہے اور رومی کے قول کے مطابق:
رشتہ اے درگردنم افگندہ دوست
می برو ہرجا کہ خاطر خواہِ اوست
اکثر جی چاہتا ہے کہ ان علائق کو توڑ کر واپس پاکستان آجاؤں لیکن بوجوہ ممکن نہیں۔وہاں آپ اور کئی احباب زبان کھلوائیں گے اور گلیوں میں میری نعش کو کو کھینچتے پھریں گے۔اسی سبب سے جس سبب سے غالب کو اندیشہ تھا میں یہاں انگلستان میں اپنی زبان بندی پر خوش ہوں کہ میں نے اس کا فیصلہ خود کیا ہے۔کسی اور کے فرمان سے نہیں۔اور خاموشم و گویایم حرفم بہ کتاب اندر کی کیفیت میں بڑی لذت ہے۔
میں نے صہبا کے نام اپنے خط میں ’کمیونسٹوں کے بارے میں‘ جس رائے کا اظہار کیا تھا وہ اول تو کمیونسٹوں کے بارے میں رائے کی حیثیت ہی نہیں رکھتی تھی بلکہ صرف کمیونزم اور ترقی پسندی کے باہمی رشتے کی طرف اشارہ مقصود تھا۔دوسرے کسی ذاتی تجربے کا اس میں کوئی شائبہ نہ تھا کہ مجھے کمیونسٹوں یا نام نہاد ترقی پسندوں کا کوئی تجربہ ہے ہی نہیں۔میں نے صرف یہ کہا تھا کہ ’کمیونزم اور ترقی پسندی کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور جو لوگ کمیونزم کو سمجھے بغیر اپنے آپ کو ترقی پسند کہتے ہیں وہ اسلام کے ان جاہل ملاؤں یا عیسائیت کے ان نادان پادریوں کے مانند ہیں جو محض توہمات کو مذہب سمجھتے ہیں۔‘شاید آپ کو یاد ہو کہ کئی برس پہلے ایک ترقی پسند ایدب نے جو کسی ترقی پسند رسالے کے مدیر بنادیے گئے تھے اپنے پہلے یا دوسرے ادارے میں کیا لکھا تھا؟’میں جب بورژوا کے پھٹے پرانے کپڑے دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔‘آج ان کا شماربڑے ترقی پسندوں میں ہوتا ہے۔لیکن ان کی ابتدا جہاں سے ہوئی اس منزل پر اور بہت سے ترقی پسند ابھی تک پڑے ہوئے ہیں۔اکثر یا بعض (جو آپ کو پسند ہو)ترقی پسند فیشن کے ھور پر اس مسلک کے پیروکار ہیں یا کسی کے کہنے سننے پر اور اپنی ذاتی فکر کے فقدان کے باعث اس راہ پر آنکھیں بند کیے چلے جارہے ہیں۔بعض ایسے ہیں جنہیں یہ اعتماد ہے کہ اگر ان کا قامت بڑھ گیا تو قیمت بھی بڑھ جائے گی اور بعض کی تجارتی اغراض اس سے سراسر وابستہ ہوگئی ہیں اور اب ان اغراض کو ترک کرکے خسارہ مول لینا نہیں چاہتے۔
جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے کمیونزم سے کوئی کد نہیں اور اگر ہے تو صرف اسی حد تک جس حد تک ملائیت سے ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اشتراکی معاشرہ وجود میں آکر رہے گا کیونکہ انسانی مسائل بپھرتے چلے جارہے ہیں۔لیکن یہ نہیں جانتا(اور شاید خود فیض بھی نہیں جانتے)کہ اس معاشرے کے وجود میں آنے کے بعد انسان کا مستقبل کیا ہوگا۔تاہم اشتراکی معاشرے پر کوئی اعتراض نہیں، انسانیت اس سے پہلے بھی کئی تجربوں سے گزر چکی ہے۔یہ ایک تجربہ اور سہی۔مجھے صرف اشتراکی حکومتوں پر اعتراض ہے جو اس معاشرے کے وجود میں آنے سے پہلے بزور قائم ہوگئی ہیں۔ان کے بزور قائم ہونے پر اعتراض ہے کیونکہ یہ انسان کے اس اختیار کی نفی ہے جو اسے انسان کی حیثیت سے ودیعت کیا گیا ہے اس قسم کی حکومتوں کے برسرِ اقتدار آنے پر ظلم و تشدد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔تاریخ اس کی شاہد ہے کہ جب بھی کوئی حکومت یک طرفہ تعصبات ساتھ لے کر آدمی پر تھوپ دی گئی۔ ظلم و تشدد کا جواز تلاش کرلیا گیا۔آج ہم جس ظلم اور جس تشدد کے شاکی ہیں۔ترقی پسندی کے نام سے ویسے ہی مظالم کئی اور ملکوں میں روارکھے کیے ہیں جہاں کوئی متعصب نظریات کی حامل حکومت آکر لوگوں کے سر پر بیٹھ گئی ہے۔
آپ جانتے ہیں میں کسی گروہ میں شامل نہیں ہوں، مجھے تنہا ترقی پسندوں ہی سے کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ اسلامی ادب والوں یا ایسے ہی کسی اور لیبل والوں سے بھی ڈررہا ہوں حتیٰ کہ میں رائٹرگلڈ سے بھی دور رہا ہوں۔مجھے صرف یہ اعتراض ہے کہ مجھ سے کوئی کیوں کہے کہ میں ایسا ادب تخلیق کروں اور ویسا ادب تخلیق نہ کروں۔رومیؔ اور اقبالؔ سے کسی نے کہا تھا کہ وہ اسلامی شاعری کریں؟ نرودا سے کسی نے کہا تھا کہ وہ ’ترقی پسندانہ‘ شاعری کرے؟(نرودانے تو آج تک اپنے ذاتی حزن کے اظہار کوبھی اپنا حق جانا ہے)میرے جس تعہد کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے وہ صرف اس حد تک ہے کہ وہ میرا اپنا تعہد ہے اور میرے ساتھ ہے اور یہ کہ میں اس تعہد پر مجبور ہوں بلکہ ایک طرح قدرت کی طرف سے مقہور بھی! میں اپنے آپ کو کسی کی چشم و ابرو کے اشارے کا منتظر سمجھتا ہوں۔نہ محتاج مجھے اس سے بھی غرض نہیں کہ اس تعہد کا اظہار فنی پیرائے میں ہوا یا نہیں مجھے صرف اس کا اظہار مقصود ہے کہ میں اس پر مجبور ہوں کہ یہی میرا دردِ دل ہے وہ حسی تجربات کی روح میں جذب ہو یا نہ ہو مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں ۔کیونکہ اگر یہ ان تجربات میں جذب ہو تو زیادہ سے زیادہ عزیزی مجتبیٰ حسین یہ کہہ دیں گے کہ اس کی شاعری روح سے خالی ہے یا یہ شخص محض ٹیکنیکل شاعری کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ایسے لوگوں کی رائے مجھے کیو ں نتاژ کرے اور کیسے کرے؟میں وہی کہنے پر مجبور ہوں جو کہہ سکتاہوں اور صرف اسی صورت میں کہہ سکتا ہوں جس صورت میں کہنا مجھے میرے ہاتف نے سکھایا ہے (خود مجتبیٰ حسین کا یہ حال ہے کہ شعر صحیح نہیں لکھ سکتے۔جوغزل اور نظم آپ نے شائع کی ہیں انہیں میں عروض کی خامیاں دیکھ لیجیے۔ایک پروفیسر کو کم از کم عروض کی کوئی ابتدائی کتاب تو پڑھ لینی چاہیے)انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ عربی اور فارسی کا لفظ کیا ہے اور معرب اور مفرس لفظ کسے کہتے ہیں؟انہیں تو ایک شاعر اور دوسرے شاعر کے رنگ میں امتیاز کرنے کا سلیقہ بھی قدرت نے نہیں بخشا۔وہ شعر کو جس سطحی نظر سے دیکھتے ہیں وہ ایک ادب کے استاد ہی کے حق میں مضر نہیں بلکہ بے بس طالب علموں کے لیے بھی مہلک ہے۔میں نعرہ بازی سے بھی نہیں ڈرتا۔حبیب جالب کے کلام میں نعرے بازی ہے لیکن ایسی کہ دل پر اثر کرتی ہے ۔جعفر طاہر جو اصطلاحاً ترقی پسند نہیں خطابت کارسیا ہے لیکن اس کی خطابت اس کی شاعری کی نفی نہیں کرتی۔اور کتنے نام گنواؤں؟’پاکستانی ادب‘ کے جو پرچے آپ نے مجھے بھجوائے ہیں ان میں میں نے اپنی سمجھ میں آنے والی سب چیزیں پڑھ ڈالی ہیں۔اردو رسالے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ فیض کے سگریٹوں کے مانند جلد ختم ہوجاتا ہے۔میں نے آپ کی ہدایت کے باوجود آپ کے ماہنامے کا مطالعہ ہمدردی سے نہیں کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ اس کا معیار اب تک پست ہے۔شاید آپ جیسے ذہین اور باخبر آدمی سے اور زیادہ توقع رکھتا ہوں۔اگرچہ میں خود کوئی رسالہ جاری کرتا تو مجھے اس رسالے سے بھی یہی گلہ ہوتا۔بہت کچھ لکھنے والوں پر منحصر ہے۔
آپ کا بے حد مخلص
ن۔م۔راشد
لندن ، جولائی1975
***
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں