بدھ، 22 جولائی، 2015

سہ روزہ ہذیان/فیضی

غزل کے تجربات اور ان کی جدیدیت حالی کے زمانے سے زیر بحث ہے۔ علامہ حالی نے بھی قدیم و جدید کی قید لگانے کے معاملے میں سب سے پہلے مضامین و اسالیب کے تجربے کرنے چاہے تھے، مگر ان کا پراخلاق عمل اوندھے منہ زمین پر آگرا اور بقول رشید حسن خاں ان کی جدید غزلوں میں بھی وہی شعر زیادہ اچھے ثابت ہوئے جن میں غزل والی تھوڑی بہت قدامت تھی، یعنی
گو جوانی میں تھی کجرائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
تب سے لے کر اب تک جدید لب و لہجے کی غزل ایک سوال بن کر فنکاروں کے سامنے کھڑی ہے، جدید کیا ہے، ظاہر ہے کہ اس معاملے میں میرا نظریہ کچھ الگ ہے، مگر میرا نظریہ جامد نہیں ہے، وہ بدل سکتا ہے، وہ بدل جاتا ہے۔جدید کے لفظ اور جدید غزل کی اصطلاح پر غور کرنے کا موقع کچھ اور ہوگا لیکن ایک قصہ قاسم یعقوب نے مجھے سنایا، یہ قصہ میرے اختلاف اور آپ کے اتفاق کے باوجود دلچسپ ہے، پاکستانی قاری اس سے زیادہ واقف ہے، ہندوستانی کم۔قصہ قاسم یعقوب کی زبان میں سنیے:
''فیضی کا اصل نام "محمد فیض" ہے اور وہ بنیادی طور پر بزنس مین ہیں۔ان کا واحد شعری مجموعہ "لپیٹی ہوئی عمر" 2002میں شائع ہوا۔ فیضی نے 2001 میں معروف شاعر مقصود وفا کے ساتھ مل کر ایک ادبی سلسلہ "آفرینش" جاری کیا جس کے تین شمارے ہی آ سکے اور یہ معیاری رسالہ بند ہو گیا۔ فیضی جدید تر غزل کےنمائندہ شاعر کہلائے جاتے ہیں۔ "سہ روزہ ہذیان" اصل میں ظفر اقبال کے شعری تجربے کی قلعی کھولنے کے لئے لکھی گئی تھی۔ مگر فیضی نے اپنا نام دینے کی بجائے "ڈفر اقبال" یعنی differ iqbalکے نام سے شائع کروائی۔ اس کتاب نے ادبی حلقوں میں تہلکا مچا دیا تھا یہ کتاب 1996 میں انجم سلیمی کے ادارے ہم خیال بک فائونڈیشن سے شائع ہوئی جو فیصل آباد کا معروف اشاعتی ادارہ ہے۔فیضی ، انجم سلیمی اور مقصود وفا کے علاوہ دیگر احباب ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے ۔ مقصود وفا ظفر اقبال کے شعری تجربے پر گفتگو کر رہے تھے۔اور اسے ایک شاندار اضافہ قرار دے رہے تھے۔ فیضی نے مذاق اڑایا تو مقصود نے کہا کہ یہ ظفر اقبال کا تیس سالہ محنت کا ثمر ہے اور تم مذاق اڑاتے ہو۔ تو فیضی نے کہا کہ میں تین دنوں میں یہی کچھ بنا لوں تو؟ شرط لگ گئی اور فیضی نے خود کو گھر میں تین دنوں کے لئے بند کر لیا تین دنوں کی چھٹی لے کے دفتر سے ایک کتاب کی غزلیں کہ ڈالیں اور یوں فیضی یہ کتاب اسی جگہ لے آئے اور پھر مقصود وفا اور انجم سلیمی کے دیباچوں کے ساتھ شائع ہوئی۔'' یہی غزلیں ذیل میں آپ کے مطالعے کے لیے دی جارہی ہیں۔امید ہے انہیں پڑھ کر جدید شاعری کے تعلق سے بحث کو کچھ ہوا ملے گی اور جدید کیا ہے، قدیم کو بگاڑنا یا اپنے زمانے میں جدت کے نام پر کیے جانے والے تجربات کی تقلید کرنا ؟ان سوالات پر غور کرنے کا موقع بھی ملے گا۔تو آئیے غزلیں پڑھتے ہیں اور باتوں کی بسم اللہ کرتے ہیں۔


(۱)
دل اور جان کا نقشہ لے کر آئے ہیں
اک ارمان کا نقشہ لے کر آئے ہیں

تمہیں تو اپنے گھر کا رستہ یاد نہیں
ہم جاپان کا نقشہ لے کر آئے ہیں

ہم شلوار کا ناپ گئے تھے لینے کو
لیکن ران کا نقشہ لے کر آئے ہیں

تجھ سے تیرے سائز کی باتیں کرنی ہیں
تیرے کان کا نقشہ لے کر آئے ہیں

ہم نے بھی اک پاکستان بنانا ہے
ہندوستان کا نقشہ لے کر آئے ہیں

دل میں ڈفر تعمیر کی خواہش رکھی ہے
ایک مکان کا نقشہ لے کر آئے ہیں



(
۲)
بتیس سال کے ہو کر بھی ہو بونے سے
کچھ بھی ہو نہیں پایا تیرے ہونے سے

دھیان مگرمچھ کا مجھ کو آ جاتا ہے
ہنس پڑتا ہوں اکثر تیرے رونے سے

سامنے آ کر بات کرو تو پتہ چلے
آتی ہے آواز تمہاری کونے سے

تیری ناک نے نیند میں دم کر رکھا ہے
میں تو جاگ اٹھتا ہوں تیرے سونے سے

مل جانا اس چاک گریباں عاشق سے
وقت ملے گر سینے اور پرونے سے

جس بھالو کی خوب پٹائی کرتے تھے
بڑے ہوئے تو ڈر گئے اسی کھلونے سے

ہانڈی میں تھوڑا سا سالن ہوتا ہے
روٹی بھی مل جاتی ہے اک پونے سے

گلے لگا کر زور زور سے ہلتے ہیں
مکھن حاصل ہو گا دودھ بلونے سے

نصف ایمان صفائی ہے، اور بیگم بھی
خوش ہوتی ہے میرے برتن دھونے سے

پچھلے وقتوں کے معشوق ہی اچھے تھے
قابو آ جاتے تھے جادو ٹونے سے

آسمان کو اک حسرت سے تکتے ہیں
فرصت ملتی ہے جب مٹی ڈھونے سے

کیسے کیسے لوگ ملے تھے رستے میں
من موہن سے، سانولے اور سلونے سے

وہ مجھ سے دوچار لطیفے سن کر بھی
باز نہیں آئے رومال بھگونے سے

بچپن میں جب صبح ڈفر تم اٹھتے تھے
خوشبو سی آتی تھی ترے بچھونے سے

(
۳)
ہم کہتے ہیں دل کو خوب بڑا کر کے
آ جاؤ اس گھر میں بسم اللہ کر کے

کافی عرصہ ناک میں سانس نہیں آتی
جب سینے سے لگ جاتے ہو ٹھاہ کر کے

زلفیں لہراتے ہو حبس کے موسم میں
بجلی کے پنکھے کی تیز ہوا کر کے

مزا اچانک ملنے میں جو ہوتا ہے
ضائع کر دیتے ہو تم اطلاع کر کے

سڑکوں پر بھی پھول کھلائے ہیں ہم نے
گھر کے باغیچے کو اور کھلا کر کے

تم تو گئے تھے باتھ میں صرف نہانے کو
اتنی مدت بعد آئے ہو کیا کر کے

اپنے اوپر آنچ نہیں آنے دیتے
صاف مکر جاتے ہیں دل میلا کر کے

اس گرمی پر کتنا غصہ آتا ہے
پی جاتے ہیں لیکن پھر ٹھنڈا کر کے

بچپن تک تو چھیڑا خوب حسینوں کو
چھوڑ دیا کرتے تھے وہ چھوٹا کر کے

تیرے باپ کے ڈر سے نیند نہیں آتی
سو جاتا ہوں تیری امی کا کر کے

خوب ڈفر انداز ہے اُس کی چاہت کا
سیدھا بیٹھا ہے ہم کو اُلٹا کر کے


(
۴)
اک آخری ٹرائی کا موقعہ نہیں ملا
ابا کو میرے بھائی کا موقعہ نہیں ملا

حیرت سے سن رہے ہیں ترا گرےۂ فراق
کیونکہ کبھی جدائی کا موقعہ نہیں ملا

ہم نے بھی اپنا چہرہ فٹافٹ چھپا لیا
اُن کو بھی منہ دکھائی کا موقعہ نہیں ملا

کس منہ سے جائیں وصل کی شب، کیا دکھائیں ہم
دن بھر ہمیں صفائی کا موقعہ نہیں ملا

وہ جنوری کی رات اکارت چلی گئی
اک ساتھ اک رضائی کا موقعہ نہیں ملا

ہم سادہ دل یونہی تری محفل میں آ گئے
ملبوس کی دُھلائی کا موقعہ نہیں ملا

فکرِ معاش لے گئی اک ورکشاپ میں
بعد از مڈل پڑھائی کا موقعہ نہیں ملا

یوں توں پڑھے ہیں ہم نے بہت سے مشاعرے
لیکن کبھی کمائی کا موقعہ نہیں ملا

شاید تمہیں پسند نہ آؤں میں اس طرح
دھوتی کے ساتھ ٹائی کا موقعہ نہیں ملا

فیشن سا بن گیا ہے مگر اصل میں ہمیں
پتلون کی سلائی کا موقعہ نہیں ملا

اُس لیڈی ڈاکٹر کے تعاون کا شکریہ
ہم کو کسی دوائی کا موقعہ نہیں ملا

بس کان کھینچتے سے وہ بانہوں میں آ گئے
اقدامِ انتہائی کا موقعہ نہیں ملا

ہم اُس کو چھیڑ چھاڑ کے فوراً نکل گئے
لوگوں کو کارروائی کا موقعہ نہیں ملا

جب بے وفا ہوا تو وطن سے چلا گیا
محبوب کی پٹائی کا موقعہ نہیں ملا

جاسوس اس قدر مرے پیچھے رہے ڈفر
بیگم سے بے وفائی کا موقعہ نہیں ملا

(
۵)
مری ماں روز کہتی ہے خدارا کھول کر دیکھو
کبھی قرآن کا کوئی سپارا کھول کر دیکھو

اگر تم چیر کر دیکھو گے تو تکلیف ہوئے گی
چنانچہ التجا ہے دل ہمارا کھول کر دیکھو

بہت سی خواہشیں اک ساتھ اُڑ جاتی ہیں ہاتھوں سے
کسی بچے کی انگلی سے غبارا کھول کر دیکھو

کسی وعدے کے ساتھ اک پانچ سو کا نوٹ بھی ہو گا
اگر تم اپنے آنچل کا کنارا کھول کر دیکھو

ترے سینے سے لگ جائیں گے مدت سے رُکے عاشق
ذرا سی دیر کو اگلا اشارا کھول کر دیکھو

پڑا ہے ایک عرصے سے، کہیں کیڑے نہ ہوں اس میں
ضروری ہے کہ یہ آلو بخارا کھول کر دیکھو

بدن کا نچلا حصہ اس قدر بے چین سا کیوں ہے
کوئی کیڑا گھُسا ہو گا، غرارا کھول کر دیکھو

نہیں کھُل پایا مجھ سے گھی کا ڈبہ پہلی کوشش میں
مگر بیگم کا آرڈر ہے، دوبارہ کھول کر دیکھو

کھلی آنکھوں سے ہاتھ آنے نہیں پاتے کئی منظر
یہ آنکھیں بند کر لو اور نظارہ کھول کر دیکھو

کئی ڈھیلے ہیں پرزے اور بہت سے غیر حاضر ہیں
ہمارا ذہن تم سارے کا سارا کھول کر دیکھو

پس رنگینئ حسن و ادا کیا گرد اڑتی ہے
کتابِ عمر کا اگلا شمارا کھول کر دیکھو

تمہیں گر اپنے آنگن میں ستاروں کی تمنا ہے
تو پھر کوئی ڈفر فلمی ادارہ کھول کر دیکھو

(
۶)
ریل چلے گی چھِک چھِک چھِک
دل مسلے گی چھِک چھِک چھِک

مت جاؤ پردیسوں کو
جان جلے گی چھِک چھِک چھِک

دور کسی اسٹیشن پر
شام ڈھلے گی چھِک چھِک چھِک

تیرے ڈبے میں کس کی
دال گلے گی چھِک چھِک چھِک

خواہش لوٹ کے جانے کی
ہاتھ ملے گی چھِک چھِک چھِک

دل میں بیل جدائی کی
پھولے پھلے گی چھِک چھِک چھِک


پھول کھلیں گے پٹڑی پر
رُت بدلے گی چھِک چھِک چھِک

(
۷)
جل رہا ہوں ترے بخار کے ساتھ
کیا کروں ذکر ڈاکٹار کے ساتھ

دل کی تسکین ہو نہیں پاتی
پیار کرتے نہیں ہو پیار کے ساتھ

کھانے پینے کی کوئی فکر نہیں
اپنا گھر ہے کسی مزار کے ساتھ

پھر بھی بیماریاں نہیں جاتیں
روٹی کھاتے ہیں ہم انار کے ساتھ

دیکھتی رہ گئیں مری آنکھیں
دل گیا رونقِ بہار کے ساتھ

زندگی میرے گھر نہیں آتی
وقت کٹتا ہے انتظار کے ساتھ

زیست کی دوپہر میں بھوک لگے
اور پراٹھا ملے اچار کے ساتھ

آدھے گھنٹے کا اک ڈرامہ ہے
آدھے گھنٹے کے اشتہار کے ساتھ

پیار عبدالشکور سے کر کے
بھاگ جائے گی افتخار کے ساتھ

تجربہ کچھ نہیں محبت کا
ڈوب جائیں گے کاروبار کے ساتھ

ہم وہ کتّے ہیں بے بصیرت جو
بھاگتے جا رہے ہیں کار کے ساتھ

تُو بھی نکلی ہے شیخ کی بیٹی
دل لیا ہے مگر ادھار کے ساتھ

حرکتیں تو بڑی مفصّل ہیں
بات کرتے ہیں اختصار کے ساتھ

دن گزرتا ہے دشمنوں میں ڈفر
رات کٹتی ہے ایک یار کے ساتھ



(
۸)
چائے موجود، پان حاضر ہے
آپ کا میزبان حاضر ہے
جڑ کے بیٹھیں گے ایک کمرے میں
چھوٹا موٹا مکان حاضر ہے

چھوڑئیے لڑکیوں کے چکر کو
لیجیے یہ پٹھان حاضر ہے

دوستی جن سے غائبانہ ہے
ان کی خاطر بھی جان حاضر ہے

تم پکوڑے کہیں سے لے آؤ
میری جانب سے نان حاضر ہے

پیٹ کی آگ بجھ گئی ہے اگر
اِک حسینہ کی ران حاضر ہے

چپ اگر آپ رہ نہیں سکتے
کیجیے بات، کان حاضر ہے

آپ نے گر ادھار لینا ہے
پھر یہ دل کی دکان حاضر ہے

ایک بوسے کی آرزو لے کر
آج یہ بے زبان حاضر ہے

سونگھتے پھِر رہے ہیں آوازیں
ناک غائب ہے، کان حاضر ہے

خوب چندہ لیا ہے جج صاحب
پوچھیں! عمران خان حاضر ہے

یہ بہانہ نہیں چلے گا آج
لائیے نوٹ، بھان حاضر ہے

گھر مساجد کے درمیاں ہے مرا
ہر گھڑی اک اذان حاضر ہے

یہ زمیں تنگ ہو گئی ہے اگر
آئیے آسمان حاضر ہے

خواب میں کیجیے شکار ڈفر
بسترے پر مچان حاضر ہے


(
۹)
کنوارے کا کنوارا کھو گیا ہے
کہیں پر دل ہمارا کھو گیا ہے

ٹماٹر ڈھونڈنے والوں سے کہہ دو
مرا آلو بخارا کھو گیا ہے

ہوئے جاتی ہے دروازے پہ دستک
مگر اُس کا غرارا کھو گیا ہے

تمہاری بچیاں کیسے ملیں گی
اگر بچہ ہمارا کھو گیا ہے

زمیں سبزے سے خالی ہو رہی ہے
فلک سے چاند تارا کھو گیا ہے

تمہارے آسماں کی وسعتوں میں
مرا نیلا غبارا کھو گیا ہے

کہا اوپر سے، تیرا دل کہاں ہے
وہ نیچے سے پکارا کھو گیا ہے

نگاہوں کے اشارے مل گئے ہیں
ٹریفک کا اشار کھو گیا ہے

بچا رکھا تھا ہم نے جو ذرا سا
کہیں سارے کا سارا کھو گیا ہے

کسی خرچیلی دل آراء کے پیچھے
مرا لکڑی کا آرا کھو گیا ہے

جوانی کی امیدیں مر گئی ہیں
بڑھاپے کا سہارا کھو گیا ہے


نظر میں تھا، نظر آنے سے پہلے
مگر اب وہ نظارہ کھو گیا ہے

کہاں پکنک منائیں اب ڈفر جی
سمندر کا کنارا کھو گیا ہے


(
۱۰)
مجھ سے کہنے لگا اُداس کچن
اب تو لے آؤ پانچ چھ برتن

روز اک لاش ملنے آتی ہے
جب سے چوری کیا ہے ایک کفن

مجھ کو شوہر بنا کے چھوڑ گیا
وہ مرے میٹرک کا پاگل پن

کچھ تو نکلے ملاپ کی صورت
کر ہی لیتے ہیں ایک عید ملن

اپنی عزت عزیز تھی جن کو
ہو گئے میری جان کے دشمن

یہ بڑھاپے کے ایک سے لمحے
اور وہ بھانت بھانت کا بچپن

کالی اینٹیں تھیں اور نہ کالے روڑ
اُجلا اُجلا گزر گیا ساون

خوب صورت تو ہے مگر وہ ہے
سات غنڈوں کی ایک ایک بہن

جب سے کھینچے ہیں اس نے کان مرے
بس اُسی دن سے ہو گئے ہیں کن

باسی روٹی کے ساتھ کھائیں گے
پچھلی شب کا بچا کھچا سالن

اک دِیے کے لیے ترستا ہے
جل بجھی خواہشات کا مدفن

ہم بھی اترے ہوئے ہیں پٹڑی سے
کیا سمجھتے ہو ریل کے انجن

دیکھ کر مطمئن سے رہتے ہیں
اپنی آوارگی کا نیک چلن

ہم غریبوں سے پردہ داری کیا
کھول دے اپنے تین چار بٹن

سات جوتوں نے وہ کمال کیا
اپنے چودہ طبق ہوئے روشن

میں تری بھی پٹائی کر دوں گا
تو مرا اتنا غم گسار نہ بن

مکتبِ عمر سے ہوئی چھٹی
گھنٹیاں بج اٹھتی ہیں ٹَن ٹَن ٹَن

ناچنا تو ڈفر نہیں آیا
ٹیڑھا ہوتا چلا گیا آنگن


(
۱۱)
کوئی نسخہ مجرب خاندانی مانگ لیتے ہیں
حکیموں سے گئی گزری جوانی مانگ لیتے ہیں

وہ پہلی بار آئے ہیں کسی اچھے سے ہوٹل میں
کہ مینو دیکھتے ہیں اور پانی مانگ لیتے ہیں

اُسے تو یاد ہو شاید کہ شہزادے پہ کیا گزری
تری گڑیا سے ہی اپنی کہانی مانگ لیتے ہیں

اگر سگریٹ کا پیکٹ پونے چودہ کا ہی ملتا ہے
تو پھر چودہ روپے دے کر چوانی مانگ لیتے ہیں

ہمارے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا
یہ ہے اُن کی نہایت مہربانی مانگ لیتے ہیں

بواسیری طبیعت کو محبت راس ہو شاید
چلو ان سے کوئی چھلّا نشانی مانگ لیتے ہیں

کہیں جب موج میں آ کر کہ مانگو مانگتے کیا ہو
تو وہ ہم سے ہماری نوجوانی مانگ لیتے ہیں

تمہارے باپ کو پڑھنا نہیں آتا تو پھر کیا ہے
اُسے مل کر یہ رشتہ منہ زبانی مانگ لیتے ہیں

ہے موجودہ جوانی تو نہایت ہی ڈراؤنی ہے
کوئی تصویر ہی ان سے پرانی مانگ لیتے ہیں

محبت سے بلاتے ہیں ڈفر کھانے پہ وہ جب بھی
تو پیسے بھی برائے میزبانی مانگ لیتے ہیں

(
۱۲)
تھامے پیار کی ڈوری کب تک رکھوں گا
عشق یہ چوری چوری کب تک رکھوں گا

عورت مرد کی کمزوری ہے، ٹھیک مگر
مردانہ کمزوری کب تک رکھوں گا

کان میں خارش کرنے کو جی کرتا ہے
پیٹھ پہ وزنی بوری کب تک رکھوں گا

پیٹ تو مچھلی کھانے سے ہی بھرتا ہے
یہ کانٹا یہ ڈوری کب تک رکھوں گا

اس کمرے میں سولہ بندے رہتے ہیں
تجھ کو چوری چوری کب تک رکھوں گا

چھُو کر کب محسوس کروں گا اُس کو میں
یہ دیوار میں موری کب تک رکھوں گا

سال کے بعد بڑھاپا آنے والا ہے
اور کتاب یہ کوری کب تک رکھوں گا

کس دن اُس کی مانگ سجائی جائے گی
ہاتھ میں بھنڈی توری کب تک رکھوں گا

چیخ اُٹھے گا آخر یہ مجروح بدن
کانوں میں اک لوری کب تک رکھوں گا

چھوڑ ہی دوں گا شہریت مل جانے پر
انگلستان کی گوری کب تک رکھوں گا

سارے جسم پہ سناٹا سا چھایا ہے
دل کی شورا شوری کب تک رکھوں گا

وہ کافی تگڑی ہے ہڈّوں پیروں کی
اُس کو زورا زوری کب تک رکھوں گا

پِٹ جاؤں گا اک دن اُس کے بھائی سے
اپنی یہ شہ زوری کب تک رکھوں گا

اور ڈفر جب قافیہ مل نہ پایا تو
میں شعروں کو ٹوری کب تک رکھوں گا

(
۱۳)
ہم دن رات کی جو مزدوری کرتے ہیں
اور کسی کی خواہش پوری کرتے ہیں

کام نہیں جب کوئی ملتا کرنے کو
اپنے حصے کی مجبوری کرتے ہیں

شہر کے سب تھتّھوں سے اپنی یاری ہے
غصے میں بھی بات ادھوری کرتے ہیں

اپنا رزق لگا ہے اپنی باتوں سے
ہم طوطے ہیں، اپنی چُوری کرتے ہیں

دور سے آنے والوں کو بھی دیکھیں گے
دور ہماری کیسے دوری کرتے ہیں

آنکھ لڑی ہے اُن افسر کی بیٹی سے
جو کہ ٹھیکوں کی منظوری کرتے ہیں

مولا تیرے سارے سورج زندہ باد
جو گوری رنگت کو بھوری کرتے ہیں

تین دنوں کی چھٹی لے کر دفتر سے
ایک کتاب کی غزلیں پوری کرتے ہیں

خود کو دیکھیں تو افسوس سا ہوتا ہے
جیتے ہیں یا عمریں پوری کرتے ہیں

کل پولیس کا دستہ گھر پہ آیا تھا
آپ ہماری کیا مشہوری کرتے ہیں

جب نیلی سے اُن کا دل بھر جاتا ہے
اپنی بیگم کو مادھوری کرتے ہیں

تم سے ہمیں ضروری ملنا ہوتا ہے
باتیں بے شک غیرضروری کرتے ہیں

جب ہو آپ سے عقل کی بات ڈفر صاحب
آپ تو اظہارِ معذوری کرتے ہیں


(
۱۴)
یوں بے کار نہ لیٹ میاں
تیرے ساتھ ہے پیٹ میاں

مانگ رہے ہیں مرغے سے
دال کی ایک پلیٹ میاں

یہ رمضان مبارک ہے
اونچا کر دے ریٹ میاں

حال ہمارا مت پوچھو
ننگا ہو گا پیٹ میاں

خانوں کا مہمان ہے تُو
سیدھا ہو کر لیٹ میاں

کل کی بات ہی لگتی ہے
پیدائش کی ڈیٹ میاں

بیوی گھر سے باہر تھی
اور کرتا تھا ویٹ میاں

اچھے چاکوں والے دیکھ
کچی تری سلیٹ میاں

دنیا کا دستور ہے یہ
اوپر بیوی ہیٹھ میاں

ہم ہیں چھوٹے چھوٹے سے
اللہ میاں گریٹ میاں

آج ڈفر پر کھل جائے
مشہوری کا گیٹ میاں

(
۱۵)
ذرا سے مطمئن شادی کے پہلے سال ہوتے ہیں
پھر اس کے بعد تو بچوں کے دست اسہال ہوتے ہیں

یہ بچے مختلف رنگوں میں استعمال ہوتے ہیں
اگر کالے بھی ہوں تو پھر بھی ماں کے لال ہوتے ہیں

اکیلے میں ملو تو حالِ دل تم کو سنائیں بھی
ہمیشہ پانچ چھ بھائی تمہارے نال ہوتے ہیں

جنہیں پچکا ہوا کنّو سمجھ کر چھوڑ آیا ہوں
تو کیا وہ آپ ہی کے سیب جیسے گال ہوتے ہیں

تمہارے جامنوں سے رنگ پہ میں دنگ رہتا ہوں
کہ باقی لوگ تو مارے شرم کے لال ہوتے ہیں

’’حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے‘‘
گھنیری زلف کے نیچے ذرا سے بال ہوتے ہیں

ہماری کثرتِ گریہ کو لاکھوں تولیے کم ہیں
تمہاری جیب میں تو ایک دو رومال ہوتے ہیں

کبھی رونا، کبھی دھونا، کبھی دھوتے ہوئے رونا
محبت کرنے والوں کے بڑے جنجال ہوتے ہیں

ڈفر جی آئیے ہم آج پیدا ہو ہی جاتے ہیں
کہ اب نرگس کے رونے کو ہزاروں سال ہوتے ہیں


(
۱۶)
جب بھی ہم پر بھری جوانی ہوتی ہے
تیری خواہش کی نادانی ہوتی ہے

ہم نے بھی کچھ پانی پینا ہوتا ہے
ہم نے بھی اک روٹی کھانی ہوتی ہے

تیرا ابا جو مرضی بکواس کرے
ہم بولیں تو نافرمانی ہوتی ہے

ایک مہینے بعد تو کام پہ جانے دو
دفتر سے تنخواہ بھی لانی ہوتی ہے

ہم نے جھوٹ کو باندھ لیا ہے پلّے سے
اپنی ہر اک بات ایمانی ہوتی ہے

استانی کو کار میں لے کر پھرتے ہیں
کتنی عمدہ کارستانی ہوتی ہے

ہم تو بھائی نابینے ہی بہتر ہیں
ہم نے کونسی آنکھ لڑانی ہوتی ہے

شہزادی کے قصے میں کھو جاتا ہوں
میرے بچوں کو حیرانی ہوتی ہے

ہم پانی سے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں
تیرے منہ میں باقرخانی ہوتی ہے

بعد میں بے شک پیروں میں گر جاتے ہیں
پہلے ہم نے ٹانگ اڑانی ہوتی ہے

ہم رستوں کا کوڑا کرکٹ چنتے ہیں
گھر میں گم سم رات کی رانی ہوتی ہے

ہر لڑکی سے عشق لڑاتے پھرتے ہیں
ہر انگلی میں ایک نشانی ہوتی ہے

ہم بھی ایک ارادہ لے کر جاتے ہیں
اس نے بھی کچھ دل میں ٹھانی ہوتی ہے

ملتے ہیں ہر بار نئے انداز کے ساتھ
صورت لیکن وہی پرانی ہوتی ہے

جب بھی نلکے کے نیچے دیکھا اُس کو
شرم کے مارے پانی پانی ہوتی ہے

اسی لیے ملتے ہیں ڈفر ہم لوگوں سے
بے عزتی کرنی کروانی ہوتی ہے

(
۱۷)
بہت ہی بور ہے بڑی طویل داستان ہے
سنی ہوئی ہے یہ بہت ذلیل داستان ہے

سنائیے کسی سیانے ڈاکٹر کے روبرو
مرے خیال میں تو یہ علیل داستان ہے

تمہیں اے دوست کیا سنائیں زندگی کے واقعے
کہانی مختصر سی ہے، قلیل داستان ہے

رخِ حیات پر یہ جتنے بدنما سے داغ ہیں
اُسی قدر حسین اور جمیل داستان ہے

اسے سنائیے بہت سے نوٹ بھی کمائیے
یہ غمزدہ، دکھوں میں خود کفیل داستان ہے

گزر گئی کھڑے کھڑے عدالتوں میں زندگی
مقدمہ ہے واقعہ، اپیل داستان ہے

کسی کی بات توڑ کر مروڑ کر نہیں کہی
ڈفر اسی لیے مری اصیل داستان ہے



(
۱۸)
کار موڑ موڑ کے
پھینک دی ہے توڑ کے

جوس بھی نہ پی سکے
مالٹے نچوڑ کے

درد کو چھپا لیا
آنسوؤں کو اوڑھ کے

ہاتھ تھک گئے مرے
ہاتھ جوڑ جوڑ کے

گن نہ پائیں گے کبھی
نوٹ نو کروڑ کے

میرا دل بھی لیجیے
دن ہیں توڑ پھوڑ کے

نائی کی دکان ہے
زیرِ سایہ بوڑھ کے

جسم ٹوٹنے لگا
شعر جوڑ جوڑ کے

شکل کیا دکھائیں گے
آئینوں کو توڑ کے

بازوؤں میں لے لیا
کہنیاں مروڑ کے

آ لگے کنارِ مرگ
ساری عمر روڑھ کے

کس جگہ پہ آ گئے
کس جگہ کو چھوڑ کے

دل کا حال کہہ دیا
ہم نے پاؤں جوڑ کے

آنکھ عینکی سی ہے
دانت بھی ہیں کھوڑ کے

ناک بند کر دیا
کان کو مروڑ کے

سب اسیر ہیں ڈفر
اپنی اپنی لوڑ کے




(
۱۹)
جس کو تاڑ دیا ہے آ کر غصے میں
اس نے جھاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

قاصد کی بھی خوب مرمت کی اس نے
خط بھی پھاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

اس سے پوری وادی مانگ رہا تھا میں
ایک پہاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

خود کو جب نذرِ آتش نہ کر پائے
کرتہ ساڑ دیا ہے آ کر غصے میں

وصل کی شب وہ پیدل چل کر آئے تھے
گڈی چاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

کوچۂ عشق میں کاروبار جو چل نکلا
بورڈ اکھاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

کس نے تیرے منہ پر سچی بات کہی
کس کو جھاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

اس بکری سے کتنا پیار تھا جس نے کہ
باغ اجاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

لوگ مری گمنامی سے کیوں جلتے ہیں
جھنڈا گاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

جب کاغذ پر اک تصویر نہ بن پائی
تکیہ کاڑھ دیا ہے آ کر غصے میں

دل نے باہر رہ کر اتنا شور کیا
اندر واڑ دیا ہے آ کر غصے میں

بٹ پہلوان جو کشتی میں نہ جیت سکا
گھڑ مسماڑ دیا ہے آ کر غصے میں

کیوں بلی کو میاؤں میاؤں کر کے چھیڑا تھا
اس نے دھاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

ایک پٹھان نے کل اپنی محبوبہ کا
شکل بگاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

اپنے ہاتھ لگا تھا ایک انگور ڈفر
چوڑ نچاڑ دیا ہے آ کر غصے میں

(
۲۰)
بشکلِ دانہ پانی آ گئی ہے
کہیں سے میزبانی آ گئی ہے

اسے جانے نہیں دینا ہے اب کے
یہ شے جو آنی جانی آ گئی ہے

کہ جو تھی میٹرک کے بعد ہم پر
وہی پھر سے جوانی آ گئی ہے

یہ کس کردار سے پالا پڑا ہے
یہ کس رخ پر کہانی آ گئی ہے

اگر چپ ہوں تو اس کا راز یہ ہے
مرے منہ میں چوانی آ گئی ہے

ڈرامہ کر لیا کرتا ہوں اب میں
کہانی بھی بنانی آ گئی ہے

چرایا ہے کسی کوٹھی کا نقشہ
ہمیں نقلِ مکانی آ گئی ہے

خدایا بوٹیوں کا دے سہارا
بلائے امتحانی آ گئی ہے

میں پنڈی جا رہا تھا آج لیکن
میاں چنّوں سے نانی آ گئی ہے

وہ جس کو دیکھ کر نیند اُڑ گئی تھی
وہی سپنوں کی رانی آ گئی ہے

ابھی خالہ کو پہچانا نہیں ہے
کہاں سے یہ ممانی آ گئی ہے

تمہاری دکھ بھری فریاد اب تو
ہمیں بھی منہ زبانی آ گئی ہے

ہمیں کھانا کھلانا آ گیا ہے
تمہیں چائے پلانی آ گئی ہے

یہ کیسا رات کا کھانا ہے جس میں
دوبارہ چائے دانی آ گئی ہے

اُگی ہے سینۂ دشمن پر پھِنسی
نشانے پر نشانی آ گئی ہے

کئی جاتے ہوئے پل رُک گئے ہیں
کوئی صحبت پرانی آ گئی ہے

وراثت میں ڈفر کچھ بھی نہیں بس
شرافت خاندانی آ گئی ہے

(
۲۱)
دل لگی کو یوں تو گھر والی بھی ہونی چاہیے
لیکن اس کے ساتھ اک سالی بھی ہونی چاہیے

دیکھنے میں بھولی و بھالی بھی ہونی چاہیے
اندر اندر چار سو چالی بھی ہونی چاہیے

آپ کے رخسار پر لالی بھی ہونی چاہیے
نام گلشن ہے تو ہریالی بھی ہونی چاہیے

کر رہا ہوں دوسری شادی میں ایسا سوچ کے
گوری چٹی ہے تو پھر کالی بھی ہونی چاہیے

پیٹ بھر جائے تو جاگ اٹھتی ہیں کتنی خواہشیں
اس لیے قسمت میں بدحالی بھی ہونی چاہیے

سنتے ہیں کہ جامکے چٹھہ میں ہے اس کا قیام
وہ ثریا ہے تو بھوپالی بھی ہونی چاہیے

جو نہیں دیتے محبت سے محبت کا جواب
ان کو دینے کے لیے گالی بھی ہونی چاہیے

پانچ چھ بھائی بھی ہونے چاہئیں اس شوخ کے
مال اچھا ہے تو رکھوالی بھی ہونی چاہیے

کیا خبر کب کونسی حاجت کرے بڑھ کر سوال
دوستوں کی جیب ہے خالی بھی ہونی چاہیے

تیری غزلیں تو بہت ہی خوبصورت ہیں ڈفر
ساتھ لیکن چائے کی پیالی بھی ہونی چاہیے

(
۲۲)
جوس اپنے شباب کا دے دے
ایک لیٹر شراب کا دے دے

اب ہمیں ہوش میں نہیں رہنا
اپنا جوڑا جراب کا دے دے

بال دل کی طرح نہیں کالے
کوئی نسخہ خضاب کا دے دے

زندگی تُو نے کیا کیا مجھ سے
آج پرچہ حساب کا دے دے

زیست خوش حالیوں میں کٹتی ہے
آ کے مژدہ عذاب کا دے دے

کوئی چھوٹا سا گوشۂ آباد
دلِ خانہ خراب کا دے دے

دے نہ مجھ کو سزا گناہوں کی
اجر کارِ ثواب کا دے دے

جو بھی اپنے حساب میں گم ہیں
شوق اُن کو کتاب کا دے دے

باہر آئیں گی پیٹ کی باتیں
ایک پیالہ جلاب کا دے دے

سادہ سادہ سی نیند آتی ہے
کوئی تحفہ ہی خواب کا دے دے

اُس نے مانگا ہے ایک پھول ڈفر
پورا گملا گلاب کا دے دے

چوغزلہ
(
۱)
مری شیخوں سے یاری ہو رہی ہے
طبیعت کاروباری ہو رہی ہے

دمے سے مر گیا ہے چوتھا شوہر
وہ اب پھر سے کنواری ہو رہی ہے

ٹہلتے پھر رہے ہیں بچپنے سے
یہ کس کی انتظاری ہو رہی ہے

اِدھر بی اے نہیں ہوتا مکمل
اُدھر شادی تمہاری ہو رہی ہے

مثانے ہی کی کمزوری کے صدقے
زمیں کی آبیاری ہو رہی ہے

ہمارے مجرموں کی دیکھا دیکھی
پلس بھی اشتہاری ہو رہی ہے

تمہاری انگلیوں کا سوچ کر ہی
بغل میں کُتکتاری ہو رہی ہے

کسی نے مجھ سے پوچھا ہی نہیں ہے
یہ کیا رائے شماری ہو رہی ہے

ہمیں ڈالا ہوا ہے امتحاں میں
بہت عزت ہماری ہو رہی ہے

جوانی آ رہی ہے تم پہ لیکن
ہماری ذمے داری ہو رہی ہے

تمہی نادم نہیں اپنے کیے پر
ہمیں بھی شرمساری ہو رہی ہے

محبت ایک لڑکی سے ڈفر جی
سبھی کو باری باری ہو رہی ہے


(
۲)
کہا جانم! تیاری ہو رہی ہے
وہ چپکے سے پکاری، ہو رہی ہے

ہمیں پیاری تھی جو حد سے زیادہ
وہ اب اللہ کو پیاری ہو رہی ہے

تمہارے پاؤں کا سن کر مری بھی
طبیعت بھاری بھاری ہو رہی ہے

تمہاری یہ بلیڈانہ نظر تو
مرے سینے پہ آری ہو رہی ہے

ترے دل سے گزرتی ہے جو ندی
مری آنکھوں سے جاری ہو رہی ہے

اِدھر ہے دامنِ صد چاک اپنا
اُدھر گوٹہ کناری ہو رہی ہے

چھپا ہے جھاڑیوں میں ایک جوڑا
یہاں بھی دنیاداری ہو رہی ہے

ہمارے تین مرلے کے مکاں میں
بڑی آبادکاری ہو رہی ہے

بڑھاپے میں بھی ہے شوقِ محبت
بڑی لمبی بماری ہو رہی ہے

زمیں تو خوش ہے بارش میں نہا کر
فلک پر آہ و زاری ہو رہی ہے

ابھی پوری طرح جاگے نہیں ہیں
ذرا سی ہوشیاری ہو رہی ہے

یہ ہے آپریشنِ تبدیلئ جنس
بچارا اب بچاری ہو رہی ہے

تمہاری چاٹ سے اب رفتہ رفتہ
مری نیت کراری ہو رہی ہے

ڈفر جی ہو رہا ہے منہ بھی کالا
گدھے پر بھی سواری ہو رہی ہے

(
۳)
جو یہ شادی تمہاری ہو رہی ہے
برائے ضربِ کاری ہو رہی ہے

میں جس لڑکی سے بچتا ہوں اُسی پر
مری ماں واری واری ہو رہی ہے

ہمیں کچھ بھی نظر آتا نہیں ہے
یہ کیا منظرنگاری ہو رہی ہے

جو پہلے تھی کبھی سلمیٰ قریشی
وہ اب سلمیٰ بخاری ہو رہی ہے

کئی شاہین نیچے رہ گئے ہیں
بڑی اونچی اُڈاری ہو رہی ہے

ملے ہیں جب سے ہم اہلِ خرد سے
عجب وحشت سی طاری ہو رہی ہے

سخن سازی ہمارے دیس میں اب
بہ اندازِ مداری ہو رہی ہے

وہی ایک سست رو سا دائرہ ہے
عبث تیزی طراری ہو رہی ہے

اگرچہ امتحاں سر پر کھڑے ہیں
محبت کی تیاری ہو رہی ہے

مری نظروں سے اُس کے تن بدن پر
مسلسل میناکاری ہو رہی ہے

ابھی میں نے تمہیں دیکھا نہیں ہے
تمہیں یونہی خماری ہو رہی ہے

جوانی میں ابھی ہفتہ پڑا ہے
مگر وہ بے مہاری ہو رہی ہے

مری نیت بدلتی جا رہی ہے
کہیں بے اعتباری ہو رہی ہے

ڈفر جو شاعری تم کر رہے ہو
نری راہِ فراری ہو رہی ہے

(
۴)
سواری پر سواری ہو رہی ہے
مری گردن بھی لاری ہو رہی ہے

اُسے تو خیر ملنا ہے کسی سے
مجھے کیوں بے قراری ہو رہی ہے

امورِ خارجہ سے تنگ آ کر
امورِ خانہ داری ہو رہی ہے

پلٹ جاؤ مرے نادان سورج
یہاں پر شب گزاری ہو رہی ہے

بھلا دے گی اسے منٹوں میں دنیا
جو محفل یادگاری ہو رہی ہے

ریاضی میں اگرچہ فیل ہیں ہم
مگر اختر شماری ہو رہی ہے

شکم کی ابتری میں فائدہ ہے
زمیں پر دست کاری ہو رہی ہے

ذرا سی مسکراہٹ کے عقب میں
بہت سی گریہ زاری ہو رہی ہے

کڑاہی گوشت کھانا چاہتا ہوں
مگر صبحِ نہاری ہو رہی ہے

درِ دل کھول اور خیرات کر دے
مری دستک بھکاری ہو رہی ہے

بہت بے چین میرے دل کی مانند
ترے منہ میں سپاری ہو رہی ہے

مرے رونے کی ویڈیو بن رہی ہے
اداکاری بھی ساری ہو رہی ہے

کھلا چھوڑا ہے ہم نے دل وہاں پر
جہاں چوری چکاری ہو رہی ہے

جو پوچھا یہ ڈفر کیا لکھ رہے ہو
تو بولا شعر و شاعری ہو رہی ہے


بشکریہ : قاسم یعقوب

 

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *