ہفتہ، 26 ستمبر، 2015

افضال احمد سید (شعری انتخاب)

افضال احمد سیدکا شعری انتخاب حاضر ہے۔اس میں ان کی نظمیں اور غزلیں دونوں شامل ہیں۔شاعری میں ان کا اسلوب نہایت الگ ہے۔وہ جدید نظم کے حوالے سے بڑی اہم شناخت رکھتے ہیں۔ہر زبان کا ادب پڑھنے والوں کی طرح ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے دور میں موجود اہم شاعروں کی تخلیقات پر گفتگو کریں، اور ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔نظم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے غزل کی طرح تعبیر کے بلیک ہول میں پھینکا نہیں جاسکتا، ہر نظم کی تعبیرات محدود ہوتی ہیں،ان تک پہنچنے کے لیے نظم اور اس کے عہدکا مطالعہ ضروری ہے، کوئی بھی نظم ایک خاص سیاق میں جنم لیتی ہے اور کچھ مختلف سیاق خلق کرتی ہے، مگر ان کا رشتہ پہلے سیاق سے شاید کبھی نہیں کٹتا، اس لیے نظم کی پس ساختیاتی تشریح کرنے والے افراد خواہ کچھ بھی کہیں، مصنف کی منشا کو اس تمام تخلیقی عمل سے مکمل طور پر کاٹنا ناممکن ہے۔بہرحال، یہ تفہیم کا ایک فلسفیانہ رخ ہے ، جس سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے۔افضال احمد سید کی نظمیں حاضر ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ہمارے اچھے نقاد ان پر کچھ کہیں، کچھ کہلوائیں، تاکہ ہمیں بھی کچھ سیکھنے ،سمجھنے کا موقع ملے۔بے حد شکریہ!ایک اضافی بات یہ کہ میں ان دنوں فکشن کی ایک ویب سائٹ بنانے میں تھوڑا بہت مصروف ہوں، چاہتا ہوں کہ اس پر اردو میں ہندوستان کی علاقائی زبانوں کی ترجمہ کردہ کہانیوں کے علاوہ پوری دنیا میں لکھا جانے والا اچھا فکشن جمع کیا جاسکے، جس سے طلبا کو بھی فائدہ ہو، قارئین کو بھی اور سب سے زیادہ مجھے۔

نظمیں

مٹی کی کان


میں مٹی کی کان کا مزدور ہوں
کام ختم ہوجانے کے بعد ہماری تلاشی لی جاتی ہے
ہمارے نگران ہمارے بند بند الگ کردیتے ہیں
پھر ہمیں جوڑ دیا جاتا ہے
ہمارے نگران ہمیں لاپروائی سے جوڑتے ہیں

پہلے دن میرے کسی حصے کی جگہ
کسی اور کا کوئی حصہ جوڑ دیا گیا تھا
ہوتے ہوتے
ایک ایک رواں
کسی نہ کسی اور کا ہوجاتا ہے
خبر نہیں
میرے مختلف حصوں سے جڑے ہوئے مزدوروں میں کتنے
کان بیٹھنے سے مرگئے ہوں گے
مٹی چرانے کے عوض
زندہ جلادیے گئے ہوں گے

مٹی کی کان میں کئی چیزوں پر پابندی ہے
مٹی کی کان میں پانی پرپابندی ہے
پانی مٹی کی حاکمیت کو ختم کرکے اسے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے

اگر نگرانوں کو معلوم ہوجائے
کہ ہم نے مٹی کی کان میں آنے سے پہلے پانی پی لیا تھا
تو ہمیں شکنجے میں الٹا لٹکا کر
سارا پانی نچوڑ لیا جاتا ہے
اور پانی کے جتنے قطرے برآمد ہوتے ہیں
اتنے دنوں کی مزدوری کاٹ لی جاتی ہے

مٹی کی کان میں آگ پر پابندی نہیں ہے
کوئی بھی نگران آگ پر پابندی نہیں لگاتے
آگ کان کے مختلف حصوں کے درمیان دیوار کا کام کرتی ہے

میں بھی آگ کی چار دیواریوں کے درمیان کام کرتا ہوں
کوئی بھی مزدوری آگ کی چار دیواریوں کے بغیر نہیں ہوسکتی

مٹی کی کان میں آگ کا ایک اور کام بھی ہے
کبھی کبھی نگران ساری کان کو اچانک خالی کرانا چاہتے ہیں
اس وقت کان میں آگ پھیلا دی جاتی ہے
اس دن اگر کوئی سلامت نکل جائے تو اس کی تلاشی نہیں لی جاتی
مٹی ایسے ہی دن چرائی جاسکتی ہے
میں اس کے لیے مٹی چراؤں گا
اور تحقیق کروں گا
کان میں آگ کس طرح لگتی ہے
اور کان میں آگ لگاؤں گا
اور مٹی چراؤں گا

اتنی مٹی کہ اس آدمی کے لیے
ایک مکان، ایک پانی انبار کرنے کا کوزہ ، اور ایک چراغ بنادوں

اور چراغ کے لیے آگ چراؤں گا
آگ چوری کرنے کی چیز نہیں
مگر ایک نہ ایک ضرورت کے لیے ہر چیز چوری کی جاسکتی ہے

پھر اس آدمی کو میرے ساتھ رہنا گوارا ہوجائے گا
آدمی کے لیے اگر مکان ہو ،پینے کے پانی کا انبار ہو اور چراغ میں آگ ہو
تو اسے کسی کے ساتھ بھی رہنا گوارا ہوسکتا ہے
میں اسے اپنی روٹی میں شریک کروں گا
اور اگر روٹیاں کم پڑیں
تو روٹیاں چراؤں گا

ویسے بھی نگران ان مزدوروں کو جو کان میں شور نہیں مچاتے
بچی کھچی روٹیاں دیتے رہتے ہیں
میں نے مٹی کی کان میں کبھی کوئی لفظ نہیں بولا
اور اس سے باہر بھی نہیں
میں اپنے بنائے ہوئے آدمی کو اپنی زبان سکھاؤں گا
اور اس سے باتیں کروں گا

میں اس سے مٹی کی دکان کی باتیں نہیں کروں گا
مجھے وہ لوگ پسند نہیں جو اپنے کام کاج کی باتیں گھر جاکر بھی کرتے ہیں

میں اس سے باتیں کروں گا
گہرے پانیوں کے سفر کی

اور اگر میں اس کے سینے میں کوئی دھڑکنے والا دل چرا کر لگا سکا
تو اس سے محبت کی باتیں کروں گا
اس لڑکی کی جسے میں نے چاہا ہے
اور اس لڑکی کی جسے وہ چاہے گا

میں اس آدمی کو ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا
کسی بھی آدمی کو کوئی ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا

میں اس میں سفر کا حوصلہ پیدا کروں گا
اور اسے اس خطے میں بھیجوں گا
جہاں درخت مٹی میں پانی ڈالے بغیر نکل آتے ہیں
اور وہ ان بیجوں کو میرے لیے لے آئے گا
جن کے اگنے کے لیے
پانی کی ضرورت نہیں ہوتی

میں روزانہ ایک ایک بیج
مٹی کی کان میں بوتا جاؤں گا
بوتا جاؤں گا
ایک دن کسی بھی بیج کے پھوٹنے کا موسم آجاتا ہے

مٹی کی کان میں میرا لگایا ہوا بیج پھوٹے گا
اور پودا نکلنا شروع ہوگا

میرے نگران بہت پریشان ہوں گے
انہوں نے کبھی کوئی درخت نہیں دیکھا ہے
وہ بہت وحشت زدہ ہوں گے اور بھاگیں گے

میں کسی بھی نگراں کو بھاگتے دیکھ کر
اس کے ساتھ کان کے دوسرے دہانے کا پتا لگالوں گا
کسی بھی کان کا دوسرا دہانہ معلوم ہوجائے تو اس کی دہشت نکل جاتی ہے

جب میری دہشت نکل جائے گی
میں آگے کی دیوار سے گزر کر
مٹی کی کان کو دور دور جاکر دیکھوں گا
اور ایک ویران گوشے میں
اوپر کی طرف ایک سرنگ بناؤں گا

سرنگ ایسی جگہ بناؤں گا
جس کے اوپر
ایک دریا بہہ رہا ہو

مجھے ایک دریا چاہیے

میں وہ آدمی ہوں جس نے اپنا دریا بیچ کر
ایک پل خریدا تھا
اور چاہا تھا کہ اپنی گزراوقات
پل کے محصول پر کرے
مگر بے دریا کے پل سے کوئی گزرنے نہیں آیا
پھر میں نے پل بیچ دیا
اور ایک ناؤ خرید لی
مگر بے دریا کی ناؤ کو کوئی سواری نہیں ملی

پھر میں نے ناؤ بیچ دی
اور مضبوط ڈوریوں والا ایک جال خرید لیا
مگر بے دریا کے جال میں کوئی مچھلی نہیں پھنسی

پھر میں نے جال بیچ دیا
اور ایک چھتری خرید لی
اور بے دریا کی زمین پر مسافروں کو سایہ فراہم کرکے گزرکرنے لگا

مگر دھیرے دھیرے
مسافر آنے بند ہوتے ہوگئے

اور ایک دن جب
سورج کا سایہ میری چھتری سے چھوٹا ہوگیا
میں نے چھتری بیچ دی
اور ایک روٹی خرید لی

کسی بھی تجارت میں یہ آخری سودا ہوتا ہے
ایک رات
یا کئی راتوں کے بعد
جب وہ روٹی ختم ہوگئی
میں نے نوکری کرلی

نوکری مٹی کی کان میں ملی
۰۰۰


آخری دلیل


تمہاری محبت
اب پہلے سے زیادہ انصاف چاہتی ہے
صبح بارش ہورہی تھی
جو تمہیں اداس کردیتی ہے
اس منظر کو لازوال بننے کا حق تھا
اس کھڑکی کو سبزے کی طرف کھولتے ہوئے
تمہیں ایک محاصرے میں آئے دل کی یاد نہیں آئی
ایک گم نام پل پر
تم نے اپنے آپ سے مضبوط لہجے میں کہا
مجھے اکیلے رہنا ہے
محبت کو تم نے
حیرت زدہ کردینے والی خوش قسمتی نہیں سمجھا
میری قسمت جہاز رانی کے کارخانے میں نہیں بنی
پھر بھی میں نے سمندر کے فاصلے طے کیے
پر اسرار طور پر خود کو زندہ رکھا
اور بے رحمی سے شاعری کی
میرے پاس محبت کرنے والے کی
تمام خامیاں
اور آخری دلیل ہے
۰۰۰

اگر انہیں معلوم ہوجائے


وہ زندگی کو ڈراتے ہیں
موت کو رشوت دیتے ہیں
اور اس کی آنکھ پر پٹی باندھ دیتے ہیں
وہ ہمیں تحفے میں خنجر بھیجتے ہیں
اور امید رکھتے ہیں
ہم خود کو ہلاک کرلیں گے
وہ چڑیا گھر میں
شیر کے پنجرے کی جالی کو کمزور رکھتے ہیں
اور جب ہم وہاں سیر کرنے جاتے ہیں
اس دن وہ شیر کا راتب بند کردیتے ہیں
جب چاند ٹوٹا پھوٹا نہیں ہوتا
وہ ہمیں ایک جزیرے کی سیر کو بلاتے ہیں
جہاں نہ مارے جانے کی ضمانت کا کاغذ
وہ کشتی میں ادھر ادھر کردیتے ہیں
اگر انہیں معلوم ہوجائے
وہ اچھے قاتل نہیں
تو وہ کانپنے لگیں
اور ان کی نوکریاں چھن جائیں
وہ ہمارے مارے جانے کا خواب دیکھتے ہیں
اور تعبیر کی کتابوں کو جلا دیتے ہیں
وہ ہمارے نام کی قبر کھودتے ہیں
اور اس میں لوٹ کا مال چھپا دیتے ہیں
اگر انہیں معلوم بھی ہوجائے
کہ ہمیں کیسے مارا جاسکتا ہے
پھر بھی وہ ہمیں نہیں مارسکتے
۰۰۰

اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے


اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے
اس میں ایک بازگشت شامل کرلو
پرانی داستانوں کی بازگشت

اور اس میں
ایک شاہزادی
اور شاہزادی میں اپنی خوبصورتی

اور اپنی خوبصورتی میں
ایک چاہنے والے کا دل

اور چاہنے والے کے دل میں
ایک خنجر
۰۰۰

اگر ہم گیت نہ گاتے


ہمیں معنی معلوم ہیں
اس زندگی کے
جو ہم گزار رہے ہیں

ان پتھروں کا وزن معلوم ہے
جو ہماری بے پروائی سے
ان چیزوں میں تبدیل ہوگئے
جن کی خوبصورتی میں
ہماری زندگی نے کوئی اضافہ نہیں کیا

ہم نے اپنے دل کو
اس وقت
قربان گاہ پر رکھے جانے والے پھولوں میں
محسوس کیا
جب ہم
زخمی گھوڑوں کے جلوس کے پیچھے چل رہے تھے

شکست ہمارا خدا ہے
مرنے کے بعد ہم اسی کی پرستش کریں گے
ہم اس شخص کی موت مریں گے
جس نے تکلیفوں کے بعد دم توڑا

زندگی کبھی نہ جان سکتی
ہم اس سے کیا چاہتے تھے
اگر ہم گیت نہ گاتے
۰۰۰

ایک تلوار کی داستان


یہ آئینے کا سفر نامہ نہیں
کسی اور رنگ کی کشتی کی کہانی ہے
جس کے ایک ہزار پاؤں تھے
یہ کنویں کا ٹھنڈا پانی نہیں
کسی اور جگہ کے جنگلی چشمے کا بیان ہے
جس میں ایک ہزار مشعلچی
ایک دوسرے کو ڈھونڈ رہے ہوں گے
یہ جوتوں کی ایک نرم جوڑی کا معاملہ نہیں
جس کے تلووں میں ایک جانور کے نرم
اور اوپری حصے میں اس کی مادہ کی کھال ہم جفت ہورہی ہے
یہ ایک اینٹ کا قصہ نہیں
آگ پانی اور مٹی کا فیصلہ ہے
جس کا دستہ ایک آدمی کا وفادار تھا
اور دھڑایک ہزار آدمیوں کے بدن میں اتر جاتا تھا
یہ بستر پر دھلی دھلائی ایڑیاں رگڑنے کا تذکرہ نہیں
ایک قتل عام کا حلفیہ ہے
جس میں ایک آدمی کی ایک ہزار بار جاں بخشی کی گئی
۰۰۰

ایک دن اور زندہ رہ جانا


بہت دور ایک ساحل پر
اسکریپ سے بنے ہوئے ایک جہاز کا
بوائلر پھٹ جاتا ہے

سیکنڈ انجینئر اسی دن مرجاتا ہے
تھرذ انجینئر
دوسرے دن

اور میں
فورتھ انجینئیر
تیسرے دن مرجاتا ہوں

سیکنڈ ہینڈ جہازوں پر
فرسٹ انجینئر نہیں ہوتے
ورنہ
میں ایک دون اور زندہ رہ جاتا
۰۰۰

ایک لڑکی


لذت کی انتہا پر
اس کی سسکیاں
دنیا کے تمام قومی ترانوں سے زیادہ
موسیقی رکھتی ہیں
جنسی عمل کے دوران
وہ کسی بھی ملکۂ حسن سے زیادہ
خوب قرار پاسکتی ہے
اس کے بلو پرنٹ کا کیسٹ
حاصل کرنے کے لیے
کسی بھی فسادزدہ علاقے تک جانے کا
خطرہ لیا جاسکتا ہے
صرف اس سے ملنا
ناممکن ہے
۰۰۰

تم خوبصورت دائروں میں رہتی ہو


تم خوبصورت دائروں میں رہتی ہو
تمہارے بالوں کو
ایک مدور پن
فرض شناسی سے تھامے ہوئیہے
ایک بیش قیمت زنجیر
تمہاری گردن کی اطاعت کررہی ہے

کبھی غلط نہ چلنے والی گھڑی
تمہاری کلائی سے پیوست ہے

ایک نازک بلٹ
تمہاری کمر سے ہم آغوش ہے

تمہارے پیر
ان جوتوں کے تسموں سے گھرے ہیں
جن سے تم ہماری زمین پر چلتی ہو

میں ان چھپے ہوئے دائروں کا ذکر نہیں کروں گا
جو تمہیں تھامے ہوئے ہوسکتے ہیں
انہیں اتنا ہی خوب صورت رہنے دو
جتنے کہ وہ ہیں

میں نے تم پر کبھی
خیالوں میں کپڑے اتارنے کا کھیل نہیں کھیلا
تم خوبصورت دائروں میں رہتی ہو
اور میں مشکل لکیروں میں
میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں
سوائے
اپنے منہ میں اس گیند کو لے کر تمہارے پاس آنے کے
جسے تم نے ٹھوکر لگائی
۰۰۰

تم نیند میں بہت خوبصورت لگتی ہو


تم نیند میں بہت خوبصورت لگتی ہو
تمہیں سوتے میں چلنا چاہیے
تمہیں سوتے میں ڈوریوں پر چلنا چاہیے
کسی چھتری کے بغیر
کیونکہ کہیں بارش نہیں ہورہی ہے
۰۰۰

جس کا کوئی انتظار نہ کررہا ہو


جس کا کوئی انتظار نہ کررہا ہو
اسے نہیں جانا چاہیے
واپس
آخری دروازہ بند ہونے سے پہلے

جس کا کوئی انتظار نہ کررہا ہو
اسے نہیں پھرنا چاہیے
بے قرار
ایک خوب صورت راہداری میں
جب تک وہ ویران نہ ہوجائے

جس کا کوئی انتظار نہ کررہا ہو
اسے نہیں جدا کرنا چاہیے
خون آلود پاؤں سے
ایک پورا سفر

جس کا کوئی انتظار نہ کررہا ہو
اسے نہیں معلوم کرنی چاہیے
پھولوں کے ایک دستے کی قیمت
یا دن تاریخ اور وقت
۰۰۰

جہاں تم یہ نظم ختم کروگی


جہاں تم یہ نظم ختم کروگی
وہاں ایک درخت اگ آئے گا

شکار کی ایک مہم میں
تم اس کے پیچھے ایک درندے کو ہلاک کروگی

کشتی رانی کے دن
اس سے اپنی کشتی باندھ سکوگی

ایک انعام یافتہ تصویر میں
تم اس کے سامنے کھڑی نظر آؤ گی
پھر تم اسے
بہت سے درختوں میں گم کردو گی
اور اس کا نام بھول جاؤ گی
اور یہ نظم
۰۰۰

دو زبانوں میں سزائے موت


ہمیشہ پرسکون رہنے والی
مالا زیبتبام
کمیپ گارڈ سے نکل گئی
اس کے ساتھ
ایڈورڈ بھی
جو اس پر عاشق تھا

مجھے ہاتھ مت لگاؤ
پھر سے گرفتار ہونے پر
اس نے کہا
ہاتھ گاڑی میں ڈال کر
اس کا جسم
دور تک لے جایا گیا

بچ نکلنے کے باوجود
ایڈورڈ
اس دن واپس آگیا

اسے دو زبانوں میں
سزائے موت دی گئی
کیوں؟
۰۰۰

زندگی ہمارے لیے کتنا آسان کردی گئی ہے


زندگی ہمارے لیے کتنا آسان کردی گئی ہے
ہم کسی بھی رعایتی فروخت میں
کتابیں
کپڑے جوتے
حاصل کرسکتے ہیں
جیسا کہ گندم ہمیں امدادی قیمت پر مہیاکی جاتی ہے
اگر ہم چاہیں
کسی بھی کارخانے کے دروازے سے
بچوں کے لیے
رد کردہ بسکٹ خرید سکتے ہیں
تمام طیاروں ریل گاڑیوں بسوں میں ہمارے لیے
سستی نشستیں رکھی جاتی ہیں
اگر ہم چاہیں
معمولی ضرورت کی قیمت پر
تھئیٹر میں آخری قطار میں بیٹھ سکتے ہیں
ہم کسی کو بھی یاد آسکتے ہیں
جب اسے کوئی اور یاد نہ آرہا ہو
۰۰۰

سمندر نے تم سے کیا کہا


سمندر نے تم سے کیا کہا
استغاثہ کے وکیل نے تم سے پوچھا
اور تم رونے لگیں
جناب عالی یہ سوال غیر ضروری ہے
صفائی کے وکیل نے تمہارے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
عدالت نے تمہارے وکیل کا اعتراض
اور تمہارے آنسو مسترد کردیے
آنسو ریکارڈ روم میں چلے گئے
اور تم اپنی کوٹھری میں
یہ شہر سطح سمندر سے نیچے آباد ہے
یہ عدالتیں شہر کی سطح سے بھی نیچے
اور زیر سماعت ملزموں کی کوٹھریاں
ان سے بھی نیچے
کوٹھری میں کوئی تمہیں ریشم کی ایک ڈور دے جاتا ہے
تم ہر پیشی تک ایک شال بن لیتی ہو
اور عدالت برخاست ہوجانے کے بعد
اسے ادھیڑ دیتی ہو
یہ ڈور تمہیں کہاں سے ملی
سپرنڈنٹ آف پریزنز تم سے پوچھتا ہے
یہ ڈور ایک شخص لایا تھا
اپنے پاؤں میں باندھ کر
ایک بلا کو ختم کرنے کے لیے
ایک پرپیچ راستے سے گزرنے کے لیے
وہ آدمی اب کہاں ہے
ٹھنڈے پانی میں تمہیں غوطہ دے کر پوچھا جاتا ہے
وہ آدمی راستہ کھو بیٹھا
سمندر نے تم سے یہی کہا تھا
۰۰۰

شاعری میں نے ایجاد کی


کاغذ مرا کشیوں نے ایجاد کیا
حروف فونیشیوں نے
شاعری میں نے ایجاد کی
قبر کھودنے والے نے تندور ایجاد کیا
تندور پر قبضہ کرنے والوں نے روٹی کی پرچی بنائی
روٹی لینے والوں نے قطار ایجاد کی
اور مل کر گانا سیکھا
روٹی کی قطار میں جب چیونٹیاں بھی آکر کھڑی ہوگئیں
تو فاقہ ایجاد ہوگیا
شہتوت بیچنے والے نے ریشم کا کیڑا ایجاد کیا
شاعری نے ریشم سے لڑکیوں کے لیے لباس بنایا
ریشم میں ملبوس لڑکیوں کے لیے کٹنیوں نے محل سرا ایجاد کی
جہاں جا کر انہوں نے ریشم کے کیڑے کا پتا بتادیا
فاصلے نے گھوڑے کے چار پاؤں ایجاد کیے
تیز رفتاری نے رتھ بنایا
اور جب شکست ایجاد ہوئی
تو مجھے تیز رفتار رتھ کے آگے لٹا دیا گیا
مگر اس وقت تک شاعری محبت کو ایجاد کرچکی تھی
محبت نے دل ایجاد کیا
دل نے خیمہ اور کشتیاں بنائیں
اور دور دراز کے مقامات طے کیے
خواجہ سرا نے مچھلی پکڑنے کا کانٹا ایجاد کیا
اور سوئے ہوئے دل میں چبھو کر بھاگ گیا
دل میں چبھے ہوئے کانٹے کی ڈور تھامنے کے لیے
نیلامی ایجاد ہوئی
اور
جبر نے آخری بولی ایجاد کی
۰۰۰

صرف غیر اہم شاعر


صرف غیر اہم شاعر
یاد رکھتے ہیں
بچپن کی غیر ضروری اور سفید پھولوں والی تام چینی کی پلیٹ
جس میں روٹی ملتی ہے

صرف غیر اہم شاعر
بے شرمی سے لکھ دیتے ہیں
اپنی نظموں میں
اپنی محبوبہ کا نام

صرف غیر اہم شاعر
یاد رکھتے ہیں
بدتمیزی سے تلاشی لیا ہوا کمرہ
باغ میں کھڑی ہوئی ایک لڑکی کی تصویر
جو پھر کبھی نہیں ملی
۰۰۰

فیصلہ

ریڈیو لوجسٹ ان ایکسروں کو پڑھ رہی ہے
جن پر میری گزشتہ نظم کی تاریخ پڑی ہے
ان لوگوں کے زخم

اتنی تاخیر
اتنی سفاکی سے پڑھے جارہے ہیں
جو ابھی تک زندہ رہنے کا امتحان دینے میں مصروف ہیں

’’
آدمی اپنی غلطی سے مرتا ہے‘‘
یہ سرجن جنرل کا فیصلہ ہے

’’
تم سے غلطی ہوئی ہے‘‘
شام کو جب میں اسے بتاؤں گا
میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں
تو وہ یہ کہے گی
۰۰۰

محبت


محبت کوئی نمایاں نشان نہیں
جس سے لاش کی شناخت میں آسانی ہو

جب تک تم محبت کو دریافت کرسکو
وہ وین روانہ ہوچکی ہوگی
جو ان لاشوں کو لے جاتی ہے
جن پر کسی کا دعویٰ نہیں

شاید وہ راستے میں
تمہاری سواری کے برابر سے گزری ہو
یا شاید تم اس راستے سے نہیں آئیں
جس سے
محبت میں مارے جانے والے لے جائے جاتے ہیں

شاید وہ وقت
جس میں محبت کو دریافت کیا جاسکتا
تم نے کسی جبری مشق کو دے دیا

پتھر کی سل پر لٹایا ہوا وقت
اور انتظار کی آخری حد تک کھینچی ہوئی
سفید چادر
تمہاری مشق ختم ہونے سے پہلے تبدیل ہوگئے

شاید تمہارے پاس
اتفاقیہ رخصت کے لیے کوئی دن
اور محبت کی شناخت کے لیے
کوئی خواب نہیں تھا
اس وقت تک جب تم
محبت کو اپنے ہاتھوں سے چھو کردیکھ سکتیں
وہ وین روانہ ہوچکی ہوگی
جو ان خوابوں کو لے جاتی ہے
جن پر کسی کو دعویٰ نہیں
۰۰۰

میں ڈرتا ہوں


میں ڈرتا ہوں
اپنے پاس کی چیزوں کو
چھو کر شاعری بنادینے سے
روٹی کو میں نے چھوا
اور بھوک شاعری بن گئی
اگنلی چاقو سے کٹ گئی
اور خون شاعری بن گیا
گلاس ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا
اور بہت سی نظمیں بن گئیں
میں ڈرتا ہوں
اپنے سے تھوڑی دور کی چیزوں کو
دیکھ کر شاعری بنادینے سے
درخت کو میں نے دیکھا
اور چھاؤں شاعری بن گئی
چھت سے میں نے جھانکا
اور سیڑھیاں شاعری بن گئیں
عبادت خاے پر میں نے نگاہ ڈالی
اور خدا شاعری بن گیا
میں ڈرتا ہوں
اپنے سے دور کی چیزوں کو
سوچ کر شاعری بنادینے سے
میں ڈرتا ہوں
تمہیں سوچ کر
دیکھ کر
چھو کر
شاعری بنادینے سے
۰۰۰

وقت ان کا دشمن ہے


وہ کسی گیلیلیو کا انتظار نہیں کررہے ہیں
ایک بڑی گھڑی تیار کرنے کے لیے
جسے شہر کی ایک یادگاری دیوار میں نصب کیا جاسکے
اس خلا میں
ہماری تاریخ کی عکاسی کے علاوہ
خواتین کے عالمی دن پر
جھولا ڈالا جاسکتا ہے
چینی طائفہ
بانس سے اچھل کر اس میں سے گزر سکتا ہے
اس میں
ایک لاش کو مختصر کرکے لٹکایا جاسکتا ہے
اسے موہن جودڈو کی اینٹوں سے
چنا جاسکتا ہے
۰۰۰

وہ اپنے آنسو ایک نازک ہےئر ڈرائیر سے سکھاتی ہے


وہ اپنے آنسو
ایک نازک ہیر ڈرائیر سے سکھاتی ہے
جب اس کی مصنوعی پلکیں
اس کا بدن چھپانے میں ناکام ہوجاتی ہیں
دس ناخن تراش
اس کے ناخنوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں
وہ بچوں کی طرح برتے جانے سے
تنگ آچکی ہے
پرکشش بدن کو ملنے والے تمغوں کے درمیان سے
وہ مچھلی کی طرح
تیر کر نکل جاتی ہے
اپنے تلووں کے نیچے
وہ گہرائی اور ڈراما چاہتی ہے
اس کے بال
شیمپو کی شیشی پر لکھی ہوئی ہدایات پر
سختی سے عمل کرتے ہیں
ماحولیاتی آلودگی کا خیال کرتے ہوئے
وہ کوئی بوسہ نہیں دیتی
اس کا تکیہ
دنیا کے تمام عاشقوں کے آنسو
جذب کرسکتا ہے
۰۰۰

کون شاعر رہ سکتا ہے


لفظ اپنی جگہ سے آگے نکل جاتے ہیں
اور زندگی کا نظام توڑ دیتے ہیں
اپنے جیسے لفظوں کا گٹھ بنا لیتے ہیں
اور ٹوٹ جاتے ہیں
ان کے ٹوٹے ہوئے کناروں پر
نظمیں مرنے لگتی ہیں
لفظ اپنی شناخت اور تقدیر میں
کمزور ہوجاتے ہیں
معمولی شکست ان کو ختم کردیتی ہے
ان میں
ٹوٹ کر جڑجانے سے محبت نہیں رہ جاتی
ان لفظوں سے
بد صورت اور بے ترتیب نظمیں بننے لگتی ہیں
سفاکی سے کاٹ دیے جانے کے بعد
ان کی جگہ لینے کو
ایک اور کھیپ آجاتی ہے
نظموں کو مرجانے سے بچانے کے لیے
ہر روز ان لفظوں کو جدا کرنا پڑتا ہے
اور ان جیسے لفظوں کے حملے سے پہلے
نئے لفظ پہنچانے پڑتے ہیں
جو ایسا کرسکتا ہے
شاعر رہ سکتا ہے
۰۰۰

کیا آگ سب سے اچھی خریدار ہے


لکڑی کے بنے ہوئے آدمی
پانی میں نہیں ڈوبتے
اور دیواروں سے ٹانگے جاسکتے ہیں
شاید انہیں یاد ہوتا ہے
کہ آرا کیا ہے
اور درخت کسے کہتے ہیں
ہر درخت کسے کہتے ہیں
ہر درخت میں لکڑی کے آدمی نہیں ہوتے
جس طرح ہر زمین کے ٹکڑے میں کوئی کارآمد چیز نہیں ہوتی
جس درخت میں لکڑی کے آدمی
یا لکڑی کی میز
یا کرسی
یا پلنگ نہیں ہوتا
آرا بنانے والے اسے آگ کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں
آگ سب سے اچھی خریدار ہے
وہ اپنا جسم معاوضے میں دے دیتی ہے
مگر
آگ کے ہاتھ گیلی لکڑی نہیں بیچنی چاہیے
گیلی لکڑی دھوپ کے ہاتھ بیچنی چاہیے
چاہے دھوپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی کو دھوپ سے محبت کرنی چاہیے
دھوپ اسے سیدھا کھڑا ہونا سکھاتی ہے
میں جس آرے سے کاٹا گیا
وہ مقناطیس کا تھا
اسے لکڑی کے بنے ہوئے آدمی چلا رہے تھے
یہ آدمی درخت کی شاخوں سے بنائے گئے تھے
جب کہ میں درخت کے تنے سے بنا
میں ہر کمزور آگ کو اپنی طرف کھینچ سکتا تھا
مگر ایک بار
ایک جہنم مجھ سے کھنچ گیا
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی
پانی میں بہتے ہوئے
دیواروں پر ٹنگے ہوئے
اور قطاروں میں کھڑے ہوئے اچھے لگتے ہیں
انہیں کسی آگ کو اپنی طرف نہیں کھنچنا چاہیے
آگ جو یہ بھی نہیں پوچھتی
کہ تم لکڑی کے آدمی ہو
یا میز
یا کرسی
یا دیا سلائی
۰۰۰

ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں


خنجر کے پھل پر
ایک طرف تمہارا نام لکھا ہے
اور دوسری طرف میرا

جنہیں پڑھنا آتا ہے
ہمیں بتاتے ہیں
ہمیں قتل کردیا جائے گا

جو درخت اگاتا ہے
ہمیں ایک سیب دے دیتا ہے
ہم خنجر سے سیب کے
دو ٹکڑے کردیتے ہیں

ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں
اور کسی بتائے بغیر
محبت کرتے ہیں

میں نے گنتی سیکھی
اور یاد رکھا
تم تک پہنچنے کے لیے مجھے
کتنی سیڑھیاں طے کرنی پڑتی ہیں

ایک دن تم یہ ساری سیڑھیاں
نظموں کی کتاب میں رکھ کر
مجھے دے دو گی

ایک دن میں تمہیں بتاؤں گا
سمندر وہاں سے شروع ہوتا ہے
جہاں سے خشکی نظر آنی ختم ہوجائے

پھر ہم جب چاہیں گے
نظموں کی کتاب سے
ایک ورق پھاڑ کر کشتی بنالیں گے
اور
دوسرا ورق پھاڑ کر
سمندر

پھر ہم جب چاہیں گے
زمین کی گردش روک کر
رقص کرنے لگیں گے
ناچتے ہوئے آدمی کے دل کا نشانہ
مشکل سے لیا جاسکتا ہے
۰۰۰

ہمیں بھول جانا چاہیے


اس اینٹ کو بھول جانا چاہیے
جس کے نیچے ہمارے گھر کی چابی ہے
جو ایک خواب میں ٹوٹ گیا

ہمیں بھول جانا چاہیے
اس بوسے کو
جو مچھلی کے کانٹے کی طرح ہمارے گلے میں پھنس گیا
اور نہیں نکلتا

اس زرد رنگ کو بھول جانا چاہیے
جو سورج مکھی سے علیحدہ دیا گیا
جب ہم اپنی دوپہر کا بیان کررہے تھے

ہمیں بھول جانا چاہیے
اس آدمی کو
جو اپنے فاقے پر
لوہے کی چادریں بچھاتا ہے

اس لڑکی کو بھول جانا چاہیے
جو وقت کو
دواؤں کی شیشوں میں بند کرتی ہے

ہمیں بھول جانا چاہیے
اس ملبے سے
جس کا نام دل ہے
کسی کو زندہ نکالا جاسکتا ہے

ہمیں کچھ لفظوں کو بالکل بھول جانا چاہیے
مثلاً
بنی نوع انسان
۰۰۰
غزلیں

بہت نہ حوصلۂ عز و جاہ مجھ سے ہوا
فقط فراز نگین و نگاہ مجھ سے ہوا
چراغ شب نے مجھے اپنے خواب میں دیکھا
ستارۂ سحری خوش نگاہ مجھ سے ہوا
گرفت کوزہ سے اک خاک میری سمت بڑھی
صف سراب کوئی سد راہ مجھ سے ہوا
شب فسانہ و فرسنگ اس سے مل آیا
جو ماورائے سفید و سیاہ مجھ سے ہوا
سر گریز و گماں اس نے امتحان لیا
جو ہمکنار مرا کم نگاہ مجھ سے ہوا
کمان خانۂ افلاک کے مقابل بھی
میں اس سے اور وہ پھر کج کلاہ مجھ سے ہوا
جو سیل ہجرت گل تھا مرے قد م سے رکا
کمند لمحۂ صد اشتباہ مجھ سے ہوا
نیام زد نہ ہوئی مجھ سے تیغ حیرانی
شکست آئنۂ انتباہ مجھ سے ہوا
۰۰۰
دعا کی راکھ پہ مرمر کا عطر داں اس کا
گزیدگی کے لیے دست مہرباں اس کا
گہن کے روز وہ داغی ہوئی جبیں اس کی
شب شکست دہی جسم بے اماں اس کا
کمند غیر میں سب اسپ و گوسفند اس کے
نشیب خاک میں خفتہ ستارہ داں اس کا
تنوریخ میں ٹھٹھرتے ہیں خواب و خوں اس کے
لکھا ہے نام سر لوح رفتگاں اس کا
چنی ہوئی ہیں تہہ خشت انگلیاں اس کی
کھلا ہوا ہے پس ریگ بادباں اس کا
وہ اک چراغ ہے دیوار خستگی پہ رکا
ہوا ہو تیز تو ہر حال میں زیاں اس کا
اسی سے دھوپ ہے انبار دھند میں روپوش
گرفت خواب سے برسر ہے کارواں اس کا
۰۰۰
روشن وہ دل پہ میرے دل زار سے ہوا
اک معرکہ جو حیرت و زنگار سے ہوا
جب نخل آرزو پہ خزاں ابتلا ہوئی
میں دست زد ثوابت و سیار سے ہوا
اک شمع سرد تھی جو مجھے واگداز تھی
اور اک شرف کہ خانۂ مسمار سے ہوا
بیعت تھی میرے دست بریدہ سے خشت و خاک
اس پہ سبک میں صاحب دیوار سے ہوا
پیوست تھے زمین سے افعی شجر سے تیر
جوں ہی جدا میں شام عزادار سے ہوا
۰۰۰
ستم کی تیغ پہ یہ دست بے نیام رکھا
گل شکست سر شاخ انتقام رکھا
میں دل کو اس کی تغافل سرا سے لے آیا
اور اپنے خانۂ وحشت میں زیر دام آیا
نگار خانۂ تسلیم کیا بیاباں تھا
جہاں پہ سیل خرابی کو میں نے تھام رکھا
مژہ پہ خشک کیے اشک نامراد اس نے
پھر آئنے میں مرا عکس لالہ فام رکھا
اسی فسانۂ وحشت میں آخر شب کو
میں تیغ تیز رکھی اس نے نیم جام رکھا
۰۰۰
سحاب سبز نہ طاؤس نیلمیں لایا
وہ شخص لوٹ کے اک اور سرزمیں لایا
عطا اسی کی ہے یہ شہد و شور کی توفیق
وہی گلیم میں یہ نان بے جویں لایا
اسی کی چاپ ہے اکھڑے ہوئے کھڑنجے پر
وہ خشت و خواب کو بیرون ازمگیں لایا
وہ پیش برش شمشیر بھی گواہی میں
کف بلند میں اک شاخ یاسمیں لایا
کتاب خاک پڑھی زلزلے کی رات اس نے
شگفت گل کے زمانے میں وہ یقیں لایا
۰۰۰
گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا
میں تیغ تیز تھا لیکن مجھے زوال آیا
عجب ہوا کہ ستارہ شناس سے مل کر
شکست انجم نوخیز کا خیال آیا
میں خاک سرد پہ سویا تو میرے پہلو میں
پھر ایک خواب شکست آئنہ مثال آیا
کمان شاخ سے گل کس ہدف کو جاتے ہیں
نشیب خاک میں جا کر مجھے خیال آیا
کوئی نہیں تھا مگر ساحل تمنا پر
ہوائے شام میں جب رنگ اندمال آیا
یہی ہے وصل دل کم معاملہ کے لیے
کہ آئنے میں وہ خورشید خد و خال آیا
۰۰۰
کبھی نہ خود کو بد اندیش دشت و در رکھا
اتر کے چاہ میں پاتال کا سفر رکھا
یہی بہت تھے مجھے نان و آب و شمع و گل
سفر نژاد تھا اسباب مختصر رکھا
ہوائے شام دلآزار کو اسیر کیا
اور اس کو دشت میں پن چکیوں کے گھر رکھا
وہ ایک ریگ گزیدہ سی نہر چلنے لگی
جو میں نے چوم کے پیکاں کمان پر رکھا
وہ آئی اور وہیں طاقچوں میں پھول رکھے
جو میں نے نذر کے پتھر پہ جانور رکھا
جبیں کے زخم پہ مشقال خاک رکھی اور
اک الوداع کا شگوں اس کے ہاتھ پر رکھا
گرفت تیز رکھی رخش عمر پر میں نے
بجائے جنبش مہمیز نیشتر رکھا
۰۰۰
کچھ اور نگ میں ترتیب خشک و تر رکھا
زمیں بچھا کے ہوا اوڑھ کے بسر کرتا
گل و شگفت کو آپس میں دسترس دیتا
اور آئنے کے لیے آئنہ سپر کرتا
چراغ کہنہ ہٹاتا فصیل مردہ سے
گیاہ خام پہ شبنم دبیز تر کرتا
وہ نیم نان خنک آب اور سگ ہم نام
میں زیر سبز شجر اپنا مستقر کرتا
وہ جس سے شہر کی دیوار بے نوشتہ ہے
میں اس کی شاخ تہیہ کو بے ثمر کرتا
میں چومتا ہوا اک عہد نامۂ منسوخ
کسی قدیم سمندر میں رہ گزر کرتا
۰۰۰
کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے
وہی فسانۂ آشفتہ تر کہا اس نے
شراکت خس و شعلہ ہے کاروبار جنوں
زیاں کدے میں کس انجام پر کہا اس نے
اسے بھی ناز غلط کردۂ تغافل تھا
کہ خواب وخیمہ فروشی کو گھر کہا اس نے
تمام لوگ جسے آسمان کہتے ہیں
اگر کہا تو اسے بال و پر کہا اس نے
اسے عجب تھا غرور شگفت رخساری
بہار گل کو بہت بے ہنر کہا اس نے
یہ گل ہیں اور یہ ستارے ہیں اور یہ میں ہوں
بس ایک دن مجھے تعلیم کر کہا اس نے
مری مثال تھی سفاکی تمنا میں
سپردگی میں مجھے قتل کر کہا اس نے
میں آفتاب قیامت تھا سو طلوع ہوا
ہزار مطلع ناساز تر کہا اس نے
۰۰۰
ہوا ہے قطع مرا دست معجزہ تجھ پہ
گیاہ زرد بہت ہے یہ سانحہ تجھ پہ
میں چاہتا ہوں مجھے مشعلوں کے ساتھ جلا
کشادہ تر ہے اگر خیمۂ ہوا تجھ پہ
میں اپنے کشتہ چراغوں کا پل بنادیتا
کسی بھی شام مری نہر پیش پا تجھ پہ
یہ کوئی کم ہے کہ اے ریگ شیشۂ ساعت
اگا رہا ہوں میں اک نخل آئنہ تجھ پہ
کہ اجنبی ہوں بہت ساےۂ شجر کے لیے
سو ریگ زرد میں ہوتا ہوں رونما تجھ پہ
پکارتی ہے مجھے خاک خشت پیوستہ
یہ نصب ہونے کا ہے ختم سلسلہ تجھ پہ
۰۰۰
یہ نہر آب بھی اس کی ہے ملک شام اس کا
جو حشر مجھ پہ بپا ہے وہ اہتمام اس کا
سپاہ تازہ بھی اس کی صف نگاہ سے ہے
صفائے سینۂ شمشیر پر ہے نام اس کا
امان خیمۂ رم خوردگاں میں باقی ہے
کہ ناتمام ہے اک شوق قتل عام اس کا
کتاب عمر سے سب حرف اڑ گئے میرے
کہ مجھ اسیر کو ہونا ہے ہم کلام اس کا
دل شکستہ کو لانا ہے رو بہ رو اس کے
جو مجھ سے نرم ہوا کوئی بند دام اس کا
میں اس کے ہاتھ سے کس زخم میں کمی رکھوں
شروع ناز بھی اس کا ہے اختتام اس کا
 

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *