یہ جمال احسانی کی غزلیں ہیں۔قریب چالیس ہونگی، جمال احسانی کا اسلوب کمال کا ہے، وہ شاعری میں دھیمے لہجے کے ساتھ کچھ نئے الفاظ اور کچھ نئے خیالات کی آمیزش کو بھی ضروری سمجھتے ہیں، جہاں اشعار روایتی رنگ کے ہوتے ہیں، ان میں بھی کسی قسم کی ندرت پیدا کرنے کا ہنر انہیں خوب پتہ ہے۔جمال احسانی کی مزید غزلیں جلد ہی میں ادبی دنیا پر شیئر کروں گا، ساتھ ہی ساتھ ثروت حسین، صغیر ملال، رئیس فروغ، عماد قاصر اور ایسے بہت سے اچھے شاعروں کا کلام آپ کے مطالعے کے لیے پیش کروں گا۔اس کے علاوہ آپ جن اچھے شاعروں کی غزلیں، نظمیں پڑھنا چاہتے ہوں یا فکشن نگاروں کی کہانیاں یا ناول پڑھنا پسند کرتے ہوں ہمیں بتائیے۔ہم انہیں ممکنہ حد تک جلد سے جلد آپ کے پڑھنے کے لیے ادبی دنیا پر اپلوڈ کریں گے۔ادبی دنیا اور لالٹین اور رسالہ آج کے اشتراک کی خبر آپ لوگوں تک پہنچ چکی ہے، لالٹین پر ہندی کہانیوں، ناولوں، نظموں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی دیگر زبانوں کی تخلیقات بھی ترجمہ کرکے اپلوڈ کی جائیں گی اسی طرح اردو کے تخلیق کاروں کو نیاادب کے ذریعے دیوناگری میں پیش کرنے کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ہم دونوں زبانوں کا ادب پڑھنے والوں کے درمیان فاصلہ کم سے کم کرنا چاہتے ہیں، اس لیے دونوں زبانوں کا اچھا اور معاصر ادب دونوں جانب منتقل کردینا چاہتے ہیں۔ آپ جہاں تک ممکن ہو اس میں ہمارا ساتھ دیں۔شکریہ
بکھر
گیا ہے جو موتی پرونے والا تھا
وہ ہورہا ہے یہاں جو نہ ہونے والا تھا
اور اب یہ چاہتا ہوں کوئی غم بٹائے مرا
میں اپنی مٹی کبھی آپ ڈھونے والا تھا
ترے نہ آنے سے دل بھی نہیں دکھا شاید
وگرنہ کیا میں سرشام سونے والا تھا
ملا نہ تھا پہ بچھڑنے کا غم نہ تھا مجھ کو
جلا نہیں تھا مگر راکھ ہونے والا تھا
ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں
پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا
۔۔۔
بیچ جنگل میں پہنچ کے کتنی حیرانی ہوئی
اک صدا آئی اچانک جانی پہچانی ہوئی
پھر وہی چھت پر اکیلے ہم وہی ٹھنڈی ہوا
کتنے اندیشے بڑھے جب رات طوفانی ہوئی
ہوگئی دور ان گنت ویراں گزرگاہوں کی کوفت
ایک بستی سے گزرنے میں وہ آسانی ہوئی
اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں
بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی
گرد رہ کر بیٹھتے ہی دیکھتا کیا ہوں جمال
جانی پہچانی ہوئی ہر شکل انجانی ہوئی
۔۔۔
تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے
ساری زندگی ایک مکان میں گزری ہے
اس تاریک فضا میں میری ساری عمر
دیا جلانے کے امکان میں گزری ہے
اپنے لیے جو شام بچا کر رکھی تھی
وہ تجھ سے عہد و پیمان میں گزری ہے
تجھ سے اکتا جانے کی اک ساعت بھی
تیرے عشق ہی کے دوران میں گزری ہے
دیواروں کا شوق جہاں تھا سب کو جمال
عمر مری اس خاندان میں گزری ہے
۔۔۔
جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے
نیند آنکھوں میں پریشان پھرا کرتی ہے
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے
دیکھ بے چارگئ کوئے محبت کوئی دم
سائے کے واسطے دیوار دعا کرتی ہے
صورت دل بڑے شہروں میں رہ یک طرفہ
جانے والوں کو بہت یاد کیا کرتی ہے
دو اجالوں کو ملاتی ہوئی اک راہ گزر
بے چراغی کے بڑے رنج سہا کرتی ہے
۔۔۔
جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی
افسوس ہر بساط سے باہر لگی ہوئی
اس کی تپش نے اور بھی سلگا رکھا ہے کچھ
جو آگ ہے مکان سے باہر لگی ہوئی
سنتے ہیں اس نے ڈھونڈ لیا اور کوئی گھر
اب تک جو آنکھ تھی ترے در پر لگی ہوئی
پہچان کی نہیں ہے یہ عرفان کی ہے بات
تختی کوئی نہیں مرے گھر پر لگی ہوئی
اب کے بہار آنے کے امکان ہیں کہ ہے
ہر پیرہن پہ چشم رفو گر لگی ہوئی
اس بار طول کھینچ گئی جنگ اگر تو کیا
اس بار شرط بھی تو ہے بڑھ کر لگی ہوئی
منحوس ایک شکل ہے جس سے نہیں فرار
پرچھائیں کی طرح سے برابر لگی ہوئی
تیرے ہی چار سمت نہیں ہے حصار جبر
پابندئ جمال ہے سب پر لگی ہوئی
۔۔۔
جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا
ہمارا کوئی تو پرسان حال رہ جاتا
برا تھا یا وہ بھلا لمحۂ محبت تھا
وہیں پہ سلسلۂ ماہ و سال رہ جاتا
بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر ان آنکھوں سے
اس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا
تمام آئنہ خانے کی لاج رہ جاتی
کوئی بھی عکس اگر بے مثال رہ جاتا
گر امتحان جنوں میں نہ کرتے قیس کی نقل
جمال سب سے ضروری سوال رہ جاتا
۔۔۔
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا
یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا
ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو
نشانے پر بھی نہ تھا اور کمان میں بھی نہ تھا
جمال پہلی شناسائی کا وہ اک لمحہ
اسے بھی یاد نہ تھا میرے دھیان میں بھی نہ تھا
۔۔۔
چشم حیراں کو تماشائے دگر پر رکھا
اور اس دل کو تری خیر خبر پر رکھا
عین ممکن ہے چراغوں کو وہ خاطر میں نہ لائے
گھر کا گھر ہم نے اٹھا راہ گزر پر رکھا
بوجھ سے جھکنے لگی شاخ تو جاکر ہم نے
آشیانے کو کسی اور شجر پر رکھا
چمن دہر میں اس طرح بسر کی ہم نے
ساےۂ گل کا بھی احسان نہ سر پر رکھا
اس کی آواز پہ باہر نکل آیا ہوں جمال
سارا اسباب سفر رہ گیا گھر پر رکھا
۔۔۔
دل میں یاد رفتگاں آباد ہے
ورنہ یہ دل بھی کہاں آباد ہے
ایک میں آباد ہوں اس شہر میں
اور اک میرا مکاں آباد ہے
کس کے یہ نقش قدم ہیں خاک پر
کون ایسے میں یہاں آباد ہے
باب عمر رائگاں کی لوح پر
حرف احساس زیاں آباد ہے
میرے ہونے سے نہ ہونا ہے مرا
آگ جلنے سے دھواں آباد ہے
رونق دل کا ہے عالم دیدنی
خانۂ آوارگاں آباد ہے
اک دریچہ اس گلی میں آج تک
بے چراغ و بے نشاں آباد ہے
۔۔۔
دل کی طرف دماغ سے وہ آنے والا ہے
یہ بھی مکان ہاتھ سے اب جانے والا ہے
اک لہر اس کی آنکھ میں ہے حوصلہ شکن
اک رنگ اس کے چہرے پہ بہکانے والا ہے
یہ کون آنے جانے لگا اس گلی میں اب
یہ کون میری داستاں دہرانے والا ہے
دنیا پسند آنے لگی دل کو اب بہت
سمجھو کہ اب یہ باغ بھی مرجھانے والا ہے
جو ساعت حسیں تھی وہ روکے نہیں رکی
یہ لمحہ بھی جمال گزر جانے والا ہے
۔۔۔
دھرتی پر سب درد کے مارے کس کے ہیں
آسمان پر چاند ستارے کس کے ہیں
سنتے ہیں وہ شخص تو گھر ہی بدل گیا
پھر یہ دل آویز اشارے کس کے ہیں
کس صحرا کی دھول ہے سب کی آنکھوں میں
بے موج و بے رود کنارے کس کے ہیں
اب کیا سوچنا ایسی ویسی باتوں پہ
ان ہاتھوں نے بال سنوارے کس کے ہیں
کون ہے اس رم جھم کے پیچھے چھپا ہوا
یہ آنسو سارے کے سارے کس کے ہیں
کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر دیکھو
آنکھوں سے اوجھل نظارے کس کے ہیں
۔۔۔
ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں
بنا بنایا ہوا گھر اجاڑ آیا ہوں
وہ انتقام کی آتش تھی میرے سینے میں
ملا نہ کوئی تو خود کو پچھاڑ آیا ہوں
میں اس جہان کی قسمت بدلنے نکلا تھا
اور اپنے ہاتھ کا لکھا ہی پھاڑ آیا ہوں
اب اپنے دوسرے پھیرے کے انتظار میں ہوں
جہاں جہاں مرے دشمن ہیں تاڑ آیا ہوں
میں اس گلی میں گیا اور دل و نگاہ سمیت
جمال جیب میں جو کچھ تھا جھاڑ آیاہوں
۔۔۔
ستارے کا راز رکھ لیا میہمان میں نے
اک اجلے خواب اور آنکھ کے درمیان میں نے
چڑھا ہے جب چاند آسماں پر تو بوجھ اترا
سنادی ہر سونے والے کو داستان میں نے
تمام شیشہ بدست حیرت میں گم ہوئے ہیں
چراغ سے کاٹ دی ہوا کی چٹان میں نے
میں دھوپ میں کیوں کسی کا احسان مند ہوتا
خود اپنے سائے کو کرلیا سائبان میں نے
جمال ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو
جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے
۔۔۔
ستارے ہی صرف راستوں میں نہ کھو رہے تھے
چراغ اور چاند بھی گلے مل کے رو رہے تھے
نگاہ ایسے میں خاک پہچانتی کسی کو
غبار ایسا تھا آئنے عکس کھو رہے تھے
کسی بیاباں میں دھوپ رستہ بھٹک گئی تھی
کسی بھلاوے میں آکے سب پیڑ سورہے تھے
نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں
سب اپنے اپنے گناہ کا بوجھ ڈھو رہے تھے
جمال اس وقت کوئی مجھ سے بچھڑ رہا تھا
زمین اور آسماں جب ایک ہورہے تھے
۔۔۔
سمندروں کے درمیان سو گئے
تھکے ہوئے جہاز ران سوگئے
دریچہ ایک ہولے ہولے کھل گیا
جب اس گلی کے سب مکان سو گئے
سلگتی دوپہر میں سب دکان دار
کھلی ہی چھوڑ کر دکان سو گئے
پھر آج اک ستارہ جاگتا رہا
پھر آج سات آسمان سو گئے
ہوا چلی کھلے سمندروں کے بیچ
تھکن سے چور بادبان سو گئے
سحر ہوئی تو ریگزار جاگ اٹھا
مگر تمام ساربان سو گئے
اس آنکھ کی پناہ اب نہیں نصیب
پلک پلک وہ سائبان سو گئے
جمال آخر ایسی عادتیں بھی کیا
کہ گھر میں شام ہی سے آن سو گئے
۔۔۔
سویرا ہو بھی چکا اور رات باقی ہے
ضرور دل میں ابھی کوئی بات باقی ہے
یہ لوگ کس قدر آرام سے ہیں بیٹھے ہوئے
اگرچہ ہونے کو اک واردات باقی ہے
کچھ اور زخم محبت میں بڑھ گئی ہے کسک
یہ سوچ کر کہ ابھی تو حیات باقی ہے
یہ غم جدا ہے بہت جلدباز تھے ہم تم
یہ دکھ الگ ہے ابھی کائنات باقی ہے
جو میری تیری ملاقات کا سبب تھا کبھی
وہ لمحہ تیرے بچھڑنے کے ساتھ باقی ہے
تمام بیڑیاں تو کاٹ ڈالی ہیں لیکن
جمال قید نفس سے نجات باقی ہے
۔۔۔
عشق میں خود سے محبت نہیں کی جاسکتی
پر کسی کو یہ نصیحت نہیں کی جاسکتی
کنجیاں خانۂ ہمسایہ کی رکھتے کیوں ہو
اپنے جب گھر کی حفاظت نہیں کی جاسکتی
کچھ تو مشکل ہے بہت کار محبت اور کچھ
یار لوگوں سے مشقت نہیں کی جاسکتی
طائر یاد کو کم تھا شجر دل ورنہ
بے سبب ترک سکونت نہیں کی جاسکتی
اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جاسکتی
کوئی ہو بھی تو ذرا چاہنے والا تیرا
راہ چلتوں سے رقابت نہیں کی جاسکتی
آسماں پر بھی جہاں لوگ جھگڑتے ہوں جمال
اس زمیں کے لیے ہجرت نہیں کی جاسکتی
۔۔۔
عمر گزری جس کا رستہ دیکھتے
آ بھی جاتا وہ تو ہم کیا دیکھتے
کیسے کیسے موڑ آئے راہ میں
ساتھ چلتے تو تماشا دیکھتے
قریہ قریہ جتنا آوارہ پھرے
گھر میں رہ لیتے تو دنیا دیکھتے
گر بہا آتے نہ دریاؤں میں ہم
آج ان آنکھوں سے صحر ا دیکھتے
خود ہی رکھ آتے دیا دیوار پر
اور پھر اس کا بھڑکنا دیکھتے
جب ہوئی تعمیر جسم و جاں تو لوگ
ہاتھ کا مٹی میں کھونا دیکھتے
دو قدم چل آتے اس کے ساتھ ساتھ
جس مسافر کو اکیلا دیکھتے
اعتبار اٹھ جاتا آپس کا جمال
لوگ اگر اس کا بچھڑنا دیکھتے
۔۔۔
قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا
وہ آیا بھی تو کسی اور کام سے آیا
کسی نے پوچھا نہیں لوٹتے ہوئے مجھ سے
میں آج کیسے بھلا گھر میں شام سے آیا
ہم ایسے بے ہنروں میں ہے جو سلیقۂ زیست
ترے دیار میں پل بھر قیام سے آیا
جو آسماں کی بلندی کو چھونے والا تھا
وہی منارہ زمیں پر دھڑام سے آیا
میں خالی ہاتھ ہی پہنچا ہوں اس کی محفل میں
مرا رقیب بڑے احترام سے آیا
۔۔۔
گھر سے جاتا ہوں روز شام سے میں
رات بھر کے پروگرام سے میں
اے میری جان انتشار پسند
تنگ ہوں تیرے انتظام سے میں
یہ جو لڑتا جھگڑتا ہوں سب سے
بچ رہا ہوں قبول عام سے میں
میں اتارا گیا تھا عرش سے اور
فرش پر گرپڑا دھڑام سے میں
شکل کا لاحقہ نہیں ہمراہ
جانا جاتا ہوں صرف نام سے میں
کیا کہوں اوبنے لگا ہوں جمال
ایک ہی جیسے صبح و شام سے میں
۔۔۔
میں بوندا باندی کے درمیان اپنے گھر کی چھت پر کھڑا رہا ہوں
چراغ تھا کوئی جس کے ہمراہ رات بھر بھیگتا رہا ہوں
یہ اب کھلا ہے کہ ان میں میرے نصیب کی دوریاں چھپی تھیں
میں اس کے ہاتھوں کی جن لکیروں کو مدتوں چومتا رہا ہوں
میں سن چکا ہوں ہواؤں اور بادلوں میں جو مشورے ہوئے ہیں
جو بارشیں اب کے ہونے والی ہیں ان کے قصے سنا رہا ہوں
اس ایک ویران پیڑ پر اب کئی پرندوں کے گھونسلے ہیں
جو پچھلے موسم میں لکھ گیا تھا وہ نام میں ڈھونڈتا رہا ہوں
سفر کی لذت سے بڑھ کے منزل کا قرب تو معتبر نہیں ہے
وہ مل گیا اور میں ابھی تک گلی گلی خاک اڑا رہا ہوں
۔۔۔
نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے
جو ہجر و وصل مرے تجربے میں آیا ہے
نئے سرے سے جل اٹھی ہے پھر پرانی آگ
عجیب لطف تجھے بھولنے میں آیا ہے
نہ ہاتھ میرے نہ آنکھیں مری نہ چہرہ مرا
یہ کس کا عکس مرے آئنے میں آیا ہے
جواز رکھتا ہے ہر ایک اپنے ہونے کا
یہاں پہ جو ہے کسی سلسلے میں آیا ہے
ہے واقعہ ہدف سیل آبا تھا کوئی اور
مرا مکان تو بس راستے میں آیا ہے
وہ راز وصل تھا جو نیند میں کھلا مجھ پر
یہ خواب ہجر ہے جو جاگتے میں آیا ہے
جمال دیکھ کے جیتا تھا جو کبھی تجھ کو
کہیں وہ شخص بھی کیا دیکھنے میں آیا ہے
۔۔۔
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا
نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے
اگر زمین نے ہلکا سا اک اشارہ کیا
جو دل کے طاق میں تونے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا
پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کے لے آیا
یہ کام دل نے بغیر اجرت و خسارہ کیا
عجب ہے تو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا
اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارا کیا
ہمیشہ ہاتھ رہا ہے جمال آنکھوں پر
کبھی خیال کبھی خواب پر گزارا کیا
۔۔۔
واقعی کوئی اگر موجود ہے
پھر تو یہ دکھ عمر بھر موجود ہے
بیچ کا رستہ نہیں باقی کوئی
یا خدا ہے یا بشر موجود ہے
اس کو پانے کی توقع ہے بہت
جب تلک یہ چشم تر موجود ہے
اس کے ملنے ہی سے پہلے جانے کیوں
اس کو کھودینے کا ڈر موجود ہے
کوئی منزل کیسے تنہا سر کرے
ہم سفر میں ہم سفر موجود ہے
عادت خانہ خرابی ہے جمال
ورنہ اچھا خاصا گھر موجود ہے
۔۔۔
وہ اس جہان سے حیران جایا کرتے ہیں
جو اس جہان کو پہچان جایا کرتے ہیں
جو صرف ایک ٹھکانے سے تیرے واقف ہیں
تری گلی میں وہ نادان جایا کرتے ہیں
کسی کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں اکثر
اکیلے پن میں بڑے دھیان جایا کرتے ہیں
میں اب کبھی نہ دکھوں گا کسی کے مرنے سے
کہ شب گزار کے مہمان جایا کرتے ہیں
جو اصل بات ہے اس کو چھپانے کی خاطر
کبھی کبھی غلطی مان جایا کرتے ہیں
یہ بات آتے ہوئے سوچتا نہیں کوئی
کہ سب یہاں سے پریشان جایا کرتے ہیں
جمال ہم تو تجھے یہ بھی اب نہیں کہتے
کبھی کسی کا کہا مان جایا کرتے ہیں
۔۔۔
وہ بھی ملنے نئی پوشاک بدل کر آیا
میں جو کل پیرہن خاک بدل کر آیا
اے زمیں زار تری رفعتیں چھونے کے لیے
تجھ تلک میں کئی افلاک بدل کر آیا
اس کو راس آئی ہے یہ بزم جہاں جو بھی یہاں
اپنا پیمانۂ ادارک بدل کر آیا
عشق میں کوئی تکلف کی ضرورت تو نہیں
پھر وہ کیوں دیدۂ نمناک بدل کر آیا
ہم سے کر بے سر و سامانئ ہجرت پہ سوال
اس سے مت پوچھ جو املاک بدل کر آیا
آنسوؤں سے نہ بدل پایا رخ باد جمال
پر مزاج خس و خاشاک بدل کر آیا
۔۔۔
وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے
نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جاکے کہاں دن سنورنے والے تھے
ہزار مجھ سے وہ پیمان وصل کرتا رہا
پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے
تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندئ جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے
اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے
۔۔۔
وہ مثل آئنہ دیوار پر رکھا ہوا تھا
جو اک انعام میری ہار پر رکھا ہوا تھا
میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا
وہی تو ایک صحرا آشنا تھا قافلے میں
وہ جس نے آبلے کو خار پر رکھا ہوا تھا
وصال و ہجر کے پھل دوسروں کو اس نے بخشے
مجھے تو رونے کی بیگار پر رکھا ہوا تھا
مسلم تھی سخاوت جس کی دنیا بھر میں اس نے
مجھے تنخواہ بے دینار پر رکھا ہوا تھا
خط تقدیر کے سفاک و افسردہ سرے پر
مرا آنسو بھی دست یار پر رکھا ہوا تھا
فلک نے اس کو پالا تھے بڑا ناز و نعم سے
ستارہ جو ترے رخسار پر رکھا ہوا تھا
وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سر تری تلوار پر رکھا ہوا تھا
وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا
ترے رستے مںے میری دونوں آنکھیں تھیں فروزاں
دیا تو بس ترے اصرار پر رکھا ہوا تھا
۔۔۔
کب پاؤں فگار نہیں ہوتے کب سر میں دھول نہیں ہوتی
تری راہ میں چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی
سر کوچۂ عشق آپہنچے ہو لین ذرا دھیان رہے کہ یہاں
کوئی نیکی کام نہیں آتی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی
ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کار محبت میں
کوئی پل بے کار نہیں جاتا کوئی بات فضول نہیں ہوتی
ترے وصل کی آس بدلتے ہوئے ترے ہجر کی آگ میں جلتے ہوئے
کب دل مصروف نہیں رہتا کب جاں مشغول نہیں ہوتی
ہر رنگ جنوں بھرنے والو شب بیداری کرنے والو
ہے عشق وہ مزدوری جس میں محنت بھی وصول نہیں ہوتی
۔۔۔
کسی بھی دشت کسی بھی نگر چلا جاتا
میں اپنے ساتھ ہی رہتا جدھر چلا جاتا
وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا
اسے بچا لیا آوارگان شام نے آج
وگرنہ صبح کا بھولا تو گھر چلا جاتا
مرا مکاں مری غفلت سے بچ گیا ورنہ
کوئی چرا کے مرے بام و در چلا جاتا
اگر میں کھڑکیاں دروازے بند کرلیتا
تو گھر کا بھید سر رہ گزر چلا جاتا
تھکن بہت تھی مگر ساےۂ شجر میں جمال
میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا
۔۔۔
کوزۂ دنیا ہے اپنے چاک سے بچھڑا ہوا
اور اس کے بیچ میں افلاک سے بچھڑا ہوا
اس جگہ میں بھی بھٹکتا پھر رہا ہوں آج تک
جس جگہ تھا راستہ پیچاک سے بچھڑا ہوا
دن گزرتے جارہے ہیں اور ہجوم خوش گماں
منتظر بیٹھا ہے آب و خاک سے بچھڑا ہوا
صبح دم دیکھا تو خشکی پر تڑپتا تھا بہت
ایک منظر دیدۂ نمناک سے بچھڑا ہوا
اس جہان خستہ سے کوئی توقع ہے عبث
یہ بدن ہے روح کی پوشاک سے بچھڑا ہوا
جب بھی تولا بے نیازی کی ترازو میں اسے
وہ بھی نکلا ضبط کے ادراک سے بچھڑا ہوا
اک ستارہ مجھ سے مل کر روپڑا تھا کل جمال
وہ فلک سے اور میں تھا خاک سے بچھڑا ہوا
۔۔۔
کہنی ہے ایک بات دل شاد کام سے
تنگ آگیا ہوں یار محبت کے نام سے
میں ہوں کہ مجھ کو دیدۂ بینا کا روگ ہے
اور لوگ ہیں کہ کام انہیں اپنے کام سے
عشاق ہیں کہ مرنے کی لذت سے ہیں نڈھال
شمشیر ہے کہ نکلی نہیں ہے نیام سے
جب اس نے جا کے پہلوئے گل میں نشست کی
باد صبا بچھڑ گئی اپنے خرام سے
وحشت اک اور ہے مجھے ہجرت سے بھی سوا
ہم خانہ مطمئن نہیں میرے قیام سے
۔۔۔
ہونے کی گواہی کے لیے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے
اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے
کچھ در بدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے
پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے
کیا اس سے ملاقات کا امکاں بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے
آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیال خس و خاشاک بہت ہے
نادم ہے بہت تو بھی جمال اپنے کیے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے
۔۔۔
اپنا جب بوجھ مری جان اٹھانا پڑجائے
دوسروں کا نہ کچھ احسان اٹھانا پڑجائے
اس قدر عیش محبت پہ نہ ہو خوش کہ تجھے
دوسرے عشق میں نقصان اٹھانا پڑجائے
اس سرائے میں نہ پھیلائیے اجزائے حیات
جانے کس وقت یہ سامان اٹھانا پڑجائے
یوں نہ ہو بول پڑوں میں تری خاموشی پر
اور تجھے بزم سے مہمان اٹھانا پڑجائے
کیا تماشا ہو سر کوچۂ دل دار اگر
میرے جیسا کوئی نادان اٹھانا پڑجائے
میں تو مرجائیں اسی وقت اگر مجھ کو جمال
عشق سے ہاتھ کسی آن اٹھانا پڑجائے
۔۔۔
اپنے ہمراہ جلا رکھا ہے
طاق دل پر جو دیا رکھا ہے
جنبش لب نہ سہی تیرے خلاف
ہاتھ کو ہم نے اٹھا رکھا ہے
تو مجھے چھوڑ کے جاسکتا نہیں
چھوڑ اس بات میں کیا رکھا ہے
وہ ملا دے گا ہمیں بھی جس نے
آب اور گل کو ملا رکھا ہے
مجھ کو معلوم ہے میری خاطر
کہیں اک جال بنا رکھا ہے
جانتا ہوں مرے قصہ گو نے
اصل قصے کو چھپا رکھا ہے
آسمانوں نے گواہی کے لیے
اک ستارے کو بچارکھا ہے
کام کچھ اتنے ہیں کرنے کو جمال
نام کو کل پہ اٹھا رکھا ہے
۔۔۔
اس سمے کوئی نہیں میری نگہبانی پر
یہ گھڑی سخت کڑی ہے ترے زندانی پر
باخبر کرکے رہ عشق کی مشکل سے تجھے
فیصلہ چھوڑ دیا ہے تریآسانی پر
نہ ہوا اور نہ مٹی پہ کبھی ہو پایا
جو بھروسہ ہے مجھے بہتے ہوئے پانی پر
میں ابھی پہلے خسارے سے نہیں نکلا ہوں
پھر بھی تیار ہے دل دوسری نادانی پر
کسی بھی وقت بدل سکتا ہے کوئی لمحہ
اس قدر خوش بھی نہ ہو میری پریشانی پر
ختم ہونے کو ہیں اشکوں کے ذخیرے بھی جمال
روئے کب تک کوئی اس شہر کی ویرانی کو
۔۔۔
ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینے لگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی
اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی
ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے آدھی دولت چھاؤں کی
اس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی
۔۔۔
ایک قدم خشکی پر ہے اور دوسرا پانی میں
ساری عمر بسر کردی ہے نقل مکانی میں
آنسو بہتے ہیں اور دل یہ سوچ کے ڈرتا ہے
آنکھ کہیں کوئی بات نہ کہہ دے اس سے روانی میں
دو جیون تاراج ہوئے تب پوری ہوئی اک بات
کیسا پھول کھلا ہے اور کیسی ویرانی میں
جب اسے دیکھو آنکھ اور دل کو ساتھ ملا لینا
اک آئینہ کم پڑجائے گا حیرانی میں
راہ میں سارے چراغ اسی کے دم سے روشن ہیں
جو پیمان ہوا سے باندھا تھا نادانی میں
۔۔۔
وہ ہورہا ہے یہاں جو نہ ہونے والا تھا
اور اب یہ چاہتا ہوں کوئی غم بٹائے مرا
میں اپنی مٹی کبھی آپ ڈھونے والا تھا
ترے نہ آنے سے دل بھی نہیں دکھا شاید
وگرنہ کیا میں سرشام سونے والا تھا
ملا نہ تھا پہ بچھڑنے کا غم نہ تھا مجھ کو
جلا نہیں تھا مگر راکھ ہونے والا تھا
ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں
پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا
۔۔۔
بیچ جنگل میں پہنچ کے کتنی حیرانی ہوئی
اک صدا آئی اچانک جانی پہچانی ہوئی
پھر وہی چھت پر اکیلے ہم وہی ٹھنڈی ہوا
کتنے اندیشے بڑھے جب رات طوفانی ہوئی
ہوگئی دور ان گنت ویراں گزرگاہوں کی کوفت
ایک بستی سے گزرنے میں وہ آسانی ہوئی
اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں
بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی
گرد رہ کر بیٹھتے ہی دیکھتا کیا ہوں جمال
جانی پہچانی ہوئی ہر شکل انجانی ہوئی
۔۔۔
تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے
ساری زندگی ایک مکان میں گزری ہے
اس تاریک فضا میں میری ساری عمر
دیا جلانے کے امکان میں گزری ہے
اپنے لیے جو شام بچا کر رکھی تھی
وہ تجھ سے عہد و پیمان میں گزری ہے
تجھ سے اکتا جانے کی اک ساعت بھی
تیرے عشق ہی کے دوران میں گزری ہے
دیواروں کا شوق جہاں تھا سب کو جمال
عمر مری اس خاندان میں گزری ہے
۔۔۔
جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے
نیند آنکھوں میں پریشان پھرا کرتی ہے
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے
دیکھ بے چارگئ کوئے محبت کوئی دم
سائے کے واسطے دیوار دعا کرتی ہے
صورت دل بڑے شہروں میں رہ یک طرفہ
جانے والوں کو بہت یاد کیا کرتی ہے
دو اجالوں کو ملاتی ہوئی اک راہ گزر
بے چراغی کے بڑے رنج سہا کرتی ہے
۔۔۔
جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی
افسوس ہر بساط سے باہر لگی ہوئی
اس کی تپش نے اور بھی سلگا رکھا ہے کچھ
جو آگ ہے مکان سے باہر لگی ہوئی
سنتے ہیں اس نے ڈھونڈ لیا اور کوئی گھر
اب تک جو آنکھ تھی ترے در پر لگی ہوئی
پہچان کی نہیں ہے یہ عرفان کی ہے بات
تختی کوئی نہیں مرے گھر پر لگی ہوئی
اب کے بہار آنے کے امکان ہیں کہ ہے
ہر پیرہن پہ چشم رفو گر لگی ہوئی
اس بار طول کھینچ گئی جنگ اگر تو کیا
اس بار شرط بھی تو ہے بڑھ کر لگی ہوئی
منحوس ایک شکل ہے جس سے نہیں فرار
پرچھائیں کی طرح سے برابر لگی ہوئی
تیرے ہی چار سمت نہیں ہے حصار جبر
پابندئ جمال ہے سب پر لگی ہوئی
۔۔۔
جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا
ہمارا کوئی تو پرسان حال رہ جاتا
برا تھا یا وہ بھلا لمحۂ محبت تھا
وہیں پہ سلسلۂ ماہ و سال رہ جاتا
بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر ان آنکھوں سے
اس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا
تمام آئنہ خانے کی لاج رہ جاتی
کوئی بھی عکس اگر بے مثال رہ جاتا
گر امتحان جنوں میں نہ کرتے قیس کی نقل
جمال سب سے ضروری سوال رہ جاتا
۔۔۔
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا
یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا
ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو
نشانے پر بھی نہ تھا اور کمان میں بھی نہ تھا
جمال پہلی شناسائی کا وہ اک لمحہ
اسے بھی یاد نہ تھا میرے دھیان میں بھی نہ تھا
۔۔۔
چشم حیراں کو تماشائے دگر پر رکھا
اور اس دل کو تری خیر خبر پر رکھا
عین ممکن ہے چراغوں کو وہ خاطر میں نہ لائے
گھر کا گھر ہم نے اٹھا راہ گزر پر رکھا
بوجھ سے جھکنے لگی شاخ تو جاکر ہم نے
آشیانے کو کسی اور شجر پر رکھا
چمن دہر میں اس طرح بسر کی ہم نے
ساےۂ گل کا بھی احسان نہ سر پر رکھا
اس کی آواز پہ باہر نکل آیا ہوں جمال
سارا اسباب سفر رہ گیا گھر پر رکھا
۔۔۔
دل میں یاد رفتگاں آباد ہے
ورنہ یہ دل بھی کہاں آباد ہے
ایک میں آباد ہوں اس شہر میں
اور اک میرا مکاں آباد ہے
کس کے یہ نقش قدم ہیں خاک پر
کون ایسے میں یہاں آباد ہے
باب عمر رائگاں کی لوح پر
حرف احساس زیاں آباد ہے
میرے ہونے سے نہ ہونا ہے مرا
آگ جلنے سے دھواں آباد ہے
رونق دل کا ہے عالم دیدنی
خانۂ آوارگاں آباد ہے
اک دریچہ اس گلی میں آج تک
بے چراغ و بے نشاں آباد ہے
۔۔۔
دل کی طرف دماغ سے وہ آنے والا ہے
یہ بھی مکان ہاتھ سے اب جانے والا ہے
اک لہر اس کی آنکھ میں ہے حوصلہ شکن
اک رنگ اس کے چہرے پہ بہکانے والا ہے
یہ کون آنے جانے لگا اس گلی میں اب
یہ کون میری داستاں دہرانے والا ہے
دنیا پسند آنے لگی دل کو اب بہت
سمجھو کہ اب یہ باغ بھی مرجھانے والا ہے
جو ساعت حسیں تھی وہ روکے نہیں رکی
یہ لمحہ بھی جمال گزر جانے والا ہے
۔۔۔
دھرتی پر سب درد کے مارے کس کے ہیں
آسمان پر چاند ستارے کس کے ہیں
سنتے ہیں وہ شخص تو گھر ہی بدل گیا
پھر یہ دل آویز اشارے کس کے ہیں
کس صحرا کی دھول ہے سب کی آنکھوں میں
بے موج و بے رود کنارے کس کے ہیں
اب کیا سوچنا ایسی ویسی باتوں پہ
ان ہاتھوں نے بال سنوارے کس کے ہیں
کون ہے اس رم جھم کے پیچھے چھپا ہوا
یہ آنسو سارے کے سارے کس کے ہیں
کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر دیکھو
آنکھوں سے اوجھل نظارے کس کے ہیں
۔۔۔
ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں
بنا بنایا ہوا گھر اجاڑ آیا ہوں
وہ انتقام کی آتش تھی میرے سینے میں
ملا نہ کوئی تو خود کو پچھاڑ آیا ہوں
میں اس جہان کی قسمت بدلنے نکلا تھا
اور اپنے ہاتھ کا لکھا ہی پھاڑ آیا ہوں
اب اپنے دوسرے پھیرے کے انتظار میں ہوں
جہاں جہاں مرے دشمن ہیں تاڑ آیا ہوں
میں اس گلی میں گیا اور دل و نگاہ سمیت
جمال جیب میں جو کچھ تھا جھاڑ آیاہوں
۔۔۔
ستارے کا راز رکھ لیا میہمان میں نے
اک اجلے خواب اور آنکھ کے درمیان میں نے
چڑھا ہے جب چاند آسماں پر تو بوجھ اترا
سنادی ہر سونے والے کو داستان میں نے
تمام شیشہ بدست حیرت میں گم ہوئے ہیں
چراغ سے کاٹ دی ہوا کی چٹان میں نے
میں دھوپ میں کیوں کسی کا احسان مند ہوتا
خود اپنے سائے کو کرلیا سائبان میں نے
جمال ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو
جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے
۔۔۔
ستارے ہی صرف راستوں میں نہ کھو رہے تھے
چراغ اور چاند بھی گلے مل کے رو رہے تھے
نگاہ ایسے میں خاک پہچانتی کسی کو
غبار ایسا تھا آئنے عکس کھو رہے تھے
کسی بیاباں میں دھوپ رستہ بھٹک گئی تھی
کسی بھلاوے میں آکے سب پیڑ سورہے تھے
نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں
سب اپنے اپنے گناہ کا بوجھ ڈھو رہے تھے
جمال اس وقت کوئی مجھ سے بچھڑ رہا تھا
زمین اور آسماں جب ایک ہورہے تھے
۔۔۔
سمندروں کے درمیان سو گئے
تھکے ہوئے جہاز ران سوگئے
دریچہ ایک ہولے ہولے کھل گیا
جب اس گلی کے سب مکان سو گئے
سلگتی دوپہر میں سب دکان دار
کھلی ہی چھوڑ کر دکان سو گئے
پھر آج اک ستارہ جاگتا رہا
پھر آج سات آسمان سو گئے
ہوا چلی کھلے سمندروں کے بیچ
تھکن سے چور بادبان سو گئے
سحر ہوئی تو ریگزار جاگ اٹھا
مگر تمام ساربان سو گئے
اس آنکھ کی پناہ اب نہیں نصیب
پلک پلک وہ سائبان سو گئے
جمال آخر ایسی عادتیں بھی کیا
کہ گھر میں شام ہی سے آن سو گئے
۔۔۔
سویرا ہو بھی چکا اور رات باقی ہے
ضرور دل میں ابھی کوئی بات باقی ہے
یہ لوگ کس قدر آرام سے ہیں بیٹھے ہوئے
اگرچہ ہونے کو اک واردات باقی ہے
کچھ اور زخم محبت میں بڑھ گئی ہے کسک
یہ سوچ کر کہ ابھی تو حیات باقی ہے
یہ غم جدا ہے بہت جلدباز تھے ہم تم
یہ دکھ الگ ہے ابھی کائنات باقی ہے
جو میری تیری ملاقات کا سبب تھا کبھی
وہ لمحہ تیرے بچھڑنے کے ساتھ باقی ہے
تمام بیڑیاں تو کاٹ ڈالی ہیں لیکن
جمال قید نفس سے نجات باقی ہے
۔۔۔
عشق میں خود سے محبت نہیں کی جاسکتی
پر کسی کو یہ نصیحت نہیں کی جاسکتی
کنجیاں خانۂ ہمسایہ کی رکھتے کیوں ہو
اپنے جب گھر کی حفاظت نہیں کی جاسکتی
کچھ تو مشکل ہے بہت کار محبت اور کچھ
یار لوگوں سے مشقت نہیں کی جاسکتی
طائر یاد کو کم تھا شجر دل ورنہ
بے سبب ترک سکونت نہیں کی جاسکتی
اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جاسکتی
کوئی ہو بھی تو ذرا چاہنے والا تیرا
راہ چلتوں سے رقابت نہیں کی جاسکتی
آسماں پر بھی جہاں لوگ جھگڑتے ہوں جمال
اس زمیں کے لیے ہجرت نہیں کی جاسکتی
۔۔۔
عمر گزری جس کا رستہ دیکھتے
آ بھی جاتا وہ تو ہم کیا دیکھتے
کیسے کیسے موڑ آئے راہ میں
ساتھ چلتے تو تماشا دیکھتے
قریہ قریہ جتنا آوارہ پھرے
گھر میں رہ لیتے تو دنیا دیکھتے
گر بہا آتے نہ دریاؤں میں ہم
آج ان آنکھوں سے صحر ا دیکھتے
خود ہی رکھ آتے دیا دیوار پر
اور پھر اس کا بھڑکنا دیکھتے
جب ہوئی تعمیر جسم و جاں تو لوگ
ہاتھ کا مٹی میں کھونا دیکھتے
دو قدم چل آتے اس کے ساتھ ساتھ
جس مسافر کو اکیلا دیکھتے
اعتبار اٹھ جاتا آپس کا جمال
لوگ اگر اس کا بچھڑنا دیکھتے
۔۔۔
قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا
وہ آیا بھی تو کسی اور کام سے آیا
کسی نے پوچھا نہیں لوٹتے ہوئے مجھ سے
میں آج کیسے بھلا گھر میں شام سے آیا
ہم ایسے بے ہنروں میں ہے جو سلیقۂ زیست
ترے دیار میں پل بھر قیام سے آیا
جو آسماں کی بلندی کو چھونے والا تھا
وہی منارہ زمیں پر دھڑام سے آیا
میں خالی ہاتھ ہی پہنچا ہوں اس کی محفل میں
مرا رقیب بڑے احترام سے آیا
۔۔۔
گھر سے جاتا ہوں روز شام سے میں
رات بھر کے پروگرام سے میں
اے میری جان انتشار پسند
تنگ ہوں تیرے انتظام سے میں
یہ جو لڑتا جھگڑتا ہوں سب سے
بچ رہا ہوں قبول عام سے میں
میں اتارا گیا تھا عرش سے اور
فرش پر گرپڑا دھڑام سے میں
شکل کا لاحقہ نہیں ہمراہ
جانا جاتا ہوں صرف نام سے میں
کیا کہوں اوبنے لگا ہوں جمال
ایک ہی جیسے صبح و شام سے میں
۔۔۔
میں بوندا باندی کے درمیان اپنے گھر کی چھت پر کھڑا رہا ہوں
چراغ تھا کوئی جس کے ہمراہ رات بھر بھیگتا رہا ہوں
یہ اب کھلا ہے کہ ان میں میرے نصیب کی دوریاں چھپی تھیں
میں اس کے ہاتھوں کی جن لکیروں کو مدتوں چومتا رہا ہوں
میں سن چکا ہوں ہواؤں اور بادلوں میں جو مشورے ہوئے ہیں
جو بارشیں اب کے ہونے والی ہیں ان کے قصے سنا رہا ہوں
اس ایک ویران پیڑ پر اب کئی پرندوں کے گھونسلے ہیں
جو پچھلے موسم میں لکھ گیا تھا وہ نام میں ڈھونڈتا رہا ہوں
سفر کی لذت سے بڑھ کے منزل کا قرب تو معتبر نہیں ہے
وہ مل گیا اور میں ابھی تک گلی گلی خاک اڑا رہا ہوں
۔۔۔
نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے
جو ہجر و وصل مرے تجربے میں آیا ہے
نئے سرے سے جل اٹھی ہے پھر پرانی آگ
عجیب لطف تجھے بھولنے میں آیا ہے
نہ ہاتھ میرے نہ آنکھیں مری نہ چہرہ مرا
یہ کس کا عکس مرے آئنے میں آیا ہے
جواز رکھتا ہے ہر ایک اپنے ہونے کا
یہاں پہ جو ہے کسی سلسلے میں آیا ہے
ہے واقعہ ہدف سیل آبا تھا کوئی اور
مرا مکان تو بس راستے میں آیا ہے
وہ راز وصل تھا جو نیند میں کھلا مجھ پر
یہ خواب ہجر ہے جو جاگتے میں آیا ہے
جمال دیکھ کے جیتا تھا جو کبھی تجھ کو
کہیں وہ شخص بھی کیا دیکھنے میں آیا ہے
۔۔۔
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا
نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے
اگر زمین نے ہلکا سا اک اشارہ کیا
جو دل کے طاق میں تونے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا
پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کے لے آیا
یہ کام دل نے بغیر اجرت و خسارہ کیا
عجب ہے تو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا
اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارا کیا
ہمیشہ ہاتھ رہا ہے جمال آنکھوں پر
کبھی خیال کبھی خواب پر گزارا کیا
۔۔۔
واقعی کوئی اگر موجود ہے
پھر تو یہ دکھ عمر بھر موجود ہے
بیچ کا رستہ نہیں باقی کوئی
یا خدا ہے یا بشر موجود ہے
اس کو پانے کی توقع ہے بہت
جب تلک یہ چشم تر موجود ہے
اس کے ملنے ہی سے پہلے جانے کیوں
اس کو کھودینے کا ڈر موجود ہے
کوئی منزل کیسے تنہا سر کرے
ہم سفر میں ہم سفر موجود ہے
عادت خانہ خرابی ہے جمال
ورنہ اچھا خاصا گھر موجود ہے
۔۔۔
وہ اس جہان سے حیران جایا کرتے ہیں
جو اس جہان کو پہچان جایا کرتے ہیں
جو صرف ایک ٹھکانے سے تیرے واقف ہیں
تری گلی میں وہ نادان جایا کرتے ہیں
کسی کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں اکثر
اکیلے پن میں بڑے دھیان جایا کرتے ہیں
میں اب کبھی نہ دکھوں گا کسی کے مرنے سے
کہ شب گزار کے مہمان جایا کرتے ہیں
جو اصل بات ہے اس کو چھپانے کی خاطر
کبھی کبھی غلطی مان جایا کرتے ہیں
یہ بات آتے ہوئے سوچتا نہیں کوئی
کہ سب یہاں سے پریشان جایا کرتے ہیں
جمال ہم تو تجھے یہ بھی اب نہیں کہتے
کبھی کسی کا کہا مان جایا کرتے ہیں
۔۔۔
وہ بھی ملنے نئی پوشاک بدل کر آیا
میں جو کل پیرہن خاک بدل کر آیا
اے زمیں زار تری رفعتیں چھونے کے لیے
تجھ تلک میں کئی افلاک بدل کر آیا
اس کو راس آئی ہے یہ بزم جہاں جو بھی یہاں
اپنا پیمانۂ ادارک بدل کر آیا
عشق میں کوئی تکلف کی ضرورت تو نہیں
پھر وہ کیوں دیدۂ نمناک بدل کر آیا
ہم سے کر بے سر و سامانئ ہجرت پہ سوال
اس سے مت پوچھ جو املاک بدل کر آیا
آنسوؤں سے نہ بدل پایا رخ باد جمال
پر مزاج خس و خاشاک بدل کر آیا
۔۔۔
وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے
نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جاکے کہاں دن سنورنے والے تھے
ہزار مجھ سے وہ پیمان وصل کرتا رہا
پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے
تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندئ جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے
اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے
۔۔۔
وہ مثل آئنہ دیوار پر رکھا ہوا تھا
جو اک انعام میری ہار پر رکھا ہوا تھا
میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا
وہی تو ایک صحرا آشنا تھا قافلے میں
وہ جس نے آبلے کو خار پر رکھا ہوا تھا
وصال و ہجر کے پھل دوسروں کو اس نے بخشے
مجھے تو رونے کی بیگار پر رکھا ہوا تھا
مسلم تھی سخاوت جس کی دنیا بھر میں اس نے
مجھے تنخواہ بے دینار پر رکھا ہوا تھا
خط تقدیر کے سفاک و افسردہ سرے پر
مرا آنسو بھی دست یار پر رکھا ہوا تھا
فلک نے اس کو پالا تھے بڑا ناز و نعم سے
ستارہ جو ترے رخسار پر رکھا ہوا تھا
وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سر تری تلوار پر رکھا ہوا تھا
وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا
ترے رستے مںے میری دونوں آنکھیں تھیں فروزاں
دیا تو بس ترے اصرار پر رکھا ہوا تھا
۔۔۔
کب پاؤں فگار نہیں ہوتے کب سر میں دھول نہیں ہوتی
تری راہ میں چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی
سر کوچۂ عشق آپہنچے ہو لین ذرا دھیان رہے کہ یہاں
کوئی نیکی کام نہیں آتی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی
ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کار محبت میں
کوئی پل بے کار نہیں جاتا کوئی بات فضول نہیں ہوتی
ترے وصل کی آس بدلتے ہوئے ترے ہجر کی آگ میں جلتے ہوئے
کب دل مصروف نہیں رہتا کب جاں مشغول نہیں ہوتی
ہر رنگ جنوں بھرنے والو شب بیداری کرنے والو
ہے عشق وہ مزدوری جس میں محنت بھی وصول نہیں ہوتی
۔۔۔
کسی بھی دشت کسی بھی نگر چلا جاتا
میں اپنے ساتھ ہی رہتا جدھر چلا جاتا
وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا
اسے بچا لیا آوارگان شام نے آج
وگرنہ صبح کا بھولا تو گھر چلا جاتا
مرا مکاں مری غفلت سے بچ گیا ورنہ
کوئی چرا کے مرے بام و در چلا جاتا
اگر میں کھڑکیاں دروازے بند کرلیتا
تو گھر کا بھید سر رہ گزر چلا جاتا
تھکن بہت تھی مگر ساےۂ شجر میں جمال
میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا
۔۔۔
کوزۂ دنیا ہے اپنے چاک سے بچھڑا ہوا
اور اس کے بیچ میں افلاک سے بچھڑا ہوا
اس جگہ میں بھی بھٹکتا پھر رہا ہوں آج تک
جس جگہ تھا راستہ پیچاک سے بچھڑا ہوا
دن گزرتے جارہے ہیں اور ہجوم خوش گماں
منتظر بیٹھا ہے آب و خاک سے بچھڑا ہوا
صبح دم دیکھا تو خشکی پر تڑپتا تھا بہت
ایک منظر دیدۂ نمناک سے بچھڑا ہوا
اس جہان خستہ سے کوئی توقع ہے عبث
یہ بدن ہے روح کی پوشاک سے بچھڑا ہوا
جب بھی تولا بے نیازی کی ترازو میں اسے
وہ بھی نکلا ضبط کے ادراک سے بچھڑا ہوا
اک ستارہ مجھ سے مل کر روپڑا تھا کل جمال
وہ فلک سے اور میں تھا خاک سے بچھڑا ہوا
۔۔۔
کہنی ہے ایک بات دل شاد کام سے
تنگ آگیا ہوں یار محبت کے نام سے
میں ہوں کہ مجھ کو دیدۂ بینا کا روگ ہے
اور لوگ ہیں کہ کام انہیں اپنے کام سے
عشاق ہیں کہ مرنے کی لذت سے ہیں نڈھال
شمشیر ہے کہ نکلی نہیں ہے نیام سے
جب اس نے جا کے پہلوئے گل میں نشست کی
باد صبا بچھڑ گئی اپنے خرام سے
وحشت اک اور ہے مجھے ہجرت سے بھی سوا
ہم خانہ مطمئن نہیں میرے قیام سے
۔۔۔
ہونے کی گواہی کے لیے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے
اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے
کچھ در بدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے
پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے
کیا اس سے ملاقات کا امکاں بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے
آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیال خس و خاشاک بہت ہے
نادم ہے بہت تو بھی جمال اپنے کیے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے
۔۔۔
اپنا جب بوجھ مری جان اٹھانا پڑجائے
دوسروں کا نہ کچھ احسان اٹھانا پڑجائے
اس قدر عیش محبت پہ نہ ہو خوش کہ تجھے
دوسرے عشق میں نقصان اٹھانا پڑجائے
اس سرائے میں نہ پھیلائیے اجزائے حیات
جانے کس وقت یہ سامان اٹھانا پڑجائے
یوں نہ ہو بول پڑوں میں تری خاموشی پر
اور تجھے بزم سے مہمان اٹھانا پڑجائے
کیا تماشا ہو سر کوچۂ دل دار اگر
میرے جیسا کوئی نادان اٹھانا پڑجائے
میں تو مرجائیں اسی وقت اگر مجھ کو جمال
عشق سے ہاتھ کسی آن اٹھانا پڑجائے
۔۔۔
اپنے ہمراہ جلا رکھا ہے
طاق دل پر جو دیا رکھا ہے
جنبش لب نہ سہی تیرے خلاف
ہاتھ کو ہم نے اٹھا رکھا ہے
تو مجھے چھوڑ کے جاسکتا نہیں
چھوڑ اس بات میں کیا رکھا ہے
وہ ملا دے گا ہمیں بھی جس نے
آب اور گل کو ملا رکھا ہے
مجھ کو معلوم ہے میری خاطر
کہیں اک جال بنا رکھا ہے
جانتا ہوں مرے قصہ گو نے
اصل قصے کو چھپا رکھا ہے
آسمانوں نے گواہی کے لیے
اک ستارے کو بچارکھا ہے
کام کچھ اتنے ہیں کرنے کو جمال
نام کو کل پہ اٹھا رکھا ہے
۔۔۔
اس سمے کوئی نہیں میری نگہبانی پر
یہ گھڑی سخت کڑی ہے ترے زندانی پر
باخبر کرکے رہ عشق کی مشکل سے تجھے
فیصلہ چھوڑ دیا ہے تریآسانی پر
نہ ہوا اور نہ مٹی پہ کبھی ہو پایا
جو بھروسہ ہے مجھے بہتے ہوئے پانی پر
میں ابھی پہلے خسارے سے نہیں نکلا ہوں
پھر بھی تیار ہے دل دوسری نادانی پر
کسی بھی وقت بدل سکتا ہے کوئی لمحہ
اس قدر خوش بھی نہ ہو میری پریشانی پر
ختم ہونے کو ہیں اشکوں کے ذخیرے بھی جمال
روئے کب تک کوئی اس شہر کی ویرانی کو
۔۔۔
ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینے لگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی
اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی
ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے آدھی دولت چھاؤں کی
اس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی
۔۔۔
ایک قدم خشکی پر ہے اور دوسرا پانی میں
ساری عمر بسر کردی ہے نقل مکانی میں
آنسو بہتے ہیں اور دل یہ سوچ کے ڈرتا ہے
آنکھ کہیں کوئی بات نہ کہہ دے اس سے روانی میں
دو جیون تاراج ہوئے تب پوری ہوئی اک بات
کیسا پھول کھلا ہے اور کیسی ویرانی میں
جب اسے دیکھو آنکھ اور دل کو ساتھ ملا لینا
اک آئینہ کم پڑجائے گا حیرانی میں
راہ میں سارے چراغ اسی کے دم سے روشن ہیں
جو پیمان ہوا سے باندھا تھا نادانی میں
۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں