سمندر کی چوری
ابھی وقت تھا۔ پانی اور آسمان کے بیچ میں روشنی کی وہ پہلی، کچی پکی، تھرتھراتی ہوئی کرن پھوٹنے بھی نہ پائی تھی کہ شہر والوں نے دیکھا سمندر چوری ہوچکا ہے۔ دن نکلا تھا نہ سمندر کے کنارے شہر نے جاگنا شروع کیا تھا۔ رات کا اندھیرا پوری طرح سمٹا بھی نہیں تھا کہ اندازہ ہونے لگا، ایسا ہوچکا ہے۔ ملگجے سایوں میں لپٹی دواور تین منزلہ فلیٹوں کی قطار اور اس کی حد بندی کرنے والی دو رویہ سڑک کے پار جہاں دوسری طرف سمندر ہوا کرتا تھا، دور تک پھیلا ہوا نیلا سفید سمندر، وہاں سب خالی پڑا تھا۔ سمندر کی جگہ بڑا سارا گڑھا تھا اور چٹیل زمین جس پر جھاڑیاں تھیں نہ گاڑی کے ٹائروں کے نشان بلکہ سطح جگہ جگہ سے تڑخ کر ٹوٹی ہوئی تھی، جس طرح بہت دیر تک پانی میں بھیگے رہنے کے بعد ڈوبی مٹّی کی سی حالت ہوجاتی ہے۔
باقی سارے منظر کی جزئیات وہی تھیں۔ جب تک غور سے دیکھا نہ جائے اس میں چونکا دینے والی کوئی بات نظر نہیں آتی تھی۔ دن اپنے اسی معمول کے ساتھ آہستہ آہستہ نکلنا شروع ہوچکا تھا، اس میں پہلے پہل سمندر کی کمی محسوس ہی نہیں ہوئی۔ اس لیے شاید کسی نے کچھ کیا بھی نہیں۔ راتیں رنگین کرنے والے موٹروں میں واپس آنے لگے تھے اور صحت کا مراق کرنے والے، صبح سویرے بھاگنے دوڑنے کے لیے گھر چھوڑنے والے گھروں کے دروازے کھولنے لگے تھے۔ کھلے ہوئے ٹرکوں اور کھڑکھڑاتی سائیکلوں پر برتن لادے، دودھ والے اپنے لگے بندھے ٹھکانوں پر دودھ پہنچانے کے لیے پیڈل مارتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ دُھن کے پکے ان لوگوں میں سے ایک آدھ کی نظر پڑگئی ہوگی تو اس نے سوچا ہوگا، آج صبح کہر بہت ہے، سمندر دُھند میں لپٹا ہوا ہے۔ شہر میں سردی بڑھ جائے گی جب تک دھوپ نہ نکلے،یہ سوچ کر اس نے مفلر یا چادر میں ہاتھ اور مُنھ چھپا لیے ہوں گے۔ ایک طرف پہنچنے کی جلدی ہو اور سر، منھ لپیٹ لیے جائیں تو سمندر کو نظرانداز کرنا ممکن بھی ہوجاتاہے۔ سمندر جو شہر کے سامنے پاؤں پسارے ریت پر اوندھا پڑا ہوا تھا اور آناً فاناً نظروں کے سامنے سے غائب ہوگیا۔
سمندر آنکھوں سے اوجھل151شہر کا کوئی ایک آدمی صبح ہوتے ہوتے چونکے تو چونکے۔ روشنی پھیلنے لگی تو سمندر کا وہاں نہ ہونا، دکھائی دینے لگا۔ لیکن دکھائی دینے سے پہلے آپ اسے سُن سکتے تھے۔ اس پورے منظر میں سب سے زیادہ اکھرنے، چُبھنے والی چیز خاموشی تھی۔ اتنا گہرا سناٹا جس کی اپنی ایک آواز ہوتی ہے۔ مکمل خاموشی، مانو سوئی گرنے کی آواز تک آئے۔ یہ خاموشی کسی اندیشے میں پل رہی تھی۔ سینے میں دھڑ دھڑ دھڑکتا ہوا احساس کہ وہ ہوچکا ہے جو ہونا نہیں چاہیے تھا...ہاں، تب اندازہ ہوتا کہ لہروں کی آواز نہیں ہے۔ اس لیے خاموشی ہے۔
سمندر میں جوار بھاٹے کا معمول151 چھپ چھپ، چھپاچھپ151لہروں کے اٹھنے، بڑھنے، پھیلنے، ریت پر بکھرنے کی کبھی ہلکی کبھی اونچی اور مسلسل آواز جو ہزاروں سال سے جاری ہے، گھڑی کی ٹک ٹک کی طرح، وقت گزرنے کی پیمائش کرتی ہوئی، شہر کی دیواروں کو نمک سے کاٹتی ہوئی، بھیگی ہواؤں میں ڈھلتی ہوئی151وہ اب وہاں نہیں تھی۔ اس کی جگہ خاموشی، اٹوٹ خاموشی، اتھاہ سناٹا اور سمندر دور دور تک نہیں۔
کہاں چلا گیا سمندر؟ ایسی چیز بھی نہیں کہ راتوں رات غائب ہوجائے151ابھی کل رات تک تو تھا، لہروں کی اچھال پر اکّا دکّا نہانے والے نظر آرہے تھے اور اس کے متوازی، گیلی ریت پر قدموں سے چھپاکے کرنے والے چل رہے تھے، دوڑ رہے تھے۔ پھر کیا ہوا، بھاپ بن کر تو نہیں اڑ سکتا، آخر کو سمندر ہے۔ گزرنے والے اب رُکنے لگے تھے۔ اکا دکا ٹولیوں میں کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے تھے۔
’’سمندر کو چوری کرلیا گیا ہے!‘‘ ان میں سے کسی ایک نے جوش سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا اور لوگوں میں تشویش یہ خبر بن کر اُمڈنے لگی۔
جنگلی کبوتروں کا ایک جُھنڈ فلیٹوں کے درمیان خالی زمین پر اُترا۔ بیماری سے شفایابی کی منّت ماننے والے اکثر اس طرف باجرہ بکھیر دیتے تھے کہ بے زبان پرندے دعا دیں گے تو اس میں اثر ہوگا۔ ایک نشیبی ٹکڑے میں ایک کتّا دم اور ٹانگیں سمیٹ کر چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا۔ آسمان کی کلونچ میں نیل ملتے ملتے بڑھ گیا تھا۔ نیل میں نیل۔ جہاں سمندر ہونا چاہیے تھا151وہاں سمندر نہیں تھا۔ ایک آدمی وہاں رُک کر کھڑا ہوگیااور افق کی طرف دیکھنے لگا۔ وہاں دھوپ بالکل نہیں تھی، پھر اس نے آنکھوں پر ہاتھوں سے چھجّا بنالیا تھا۔ جیسے آنکھوں پر بہت زور ڈال کر اس طرف دیکھ رہا ہو اور کوشش کے باوجود صاف نظر نہ آرہا ہوکہ وہاں کیا ہے۔اس کی دیکھا دیکھی وہاں اور لوگ فوراً جمع نہیں ہوئے۔ اس لیے کہ جن دوسرے لوگوں نے اس آدمی کو دیکھا ہوگا وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ بہت پرانی ترکیب ہے چلتے چلتے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی151مصروف سڑک کے ساتھ کہیں کھڑے ہوجاؤ اور شفاف، نیلگوں آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر اشارے کرو، آنکھوں پر ہاتھوں سے چھجا بنا کر دیکھو اور منھ ہی منھ میں بُدبدانے لگو، ذرا دیر میں ٹھٹھ کا ٹھٹھ لگ جائے گا۔ سب وہی دیکھنے کی کوشش کرنے لگیں گے جو تم ظاہر کر رہے ہو کہ دیکھ رہے ہو حالاں کہ وہاں کچھ بھی نہیں ہے اور جو نہیں ہے، اسے تم کیسے دیکھ سکتے ہو؟بہت سے لوگ جب جمع ہوجائیں تو تم ہاتھ جھاڑ کر مسکراتے ہوئے وہاں سے آگے بڑھ جاؤ، جیسے کچھ بھی نہیں ہوا اور واقعی کچھ ہوا بھی نہیں۔ لیکن وہ آدمی وہاں کھڑا رہا اور اس کے بعد ایک اور، اس کے بعد ایک اور آدمی... سمندر کسی کو نظر نہیں آیا۔
تب ان میں سے ایک پکار اٹھا، کہاں گیا سمندر۔
اس کی بات کا کسی نے جواب نہیں دیا۔
سمندر کہاں گیا، اس نے دوبارہ پکارا۔
جواب دینے کے لیے تھے ہی اکّا دکّا لوگ۔
اور کوئی جواب بھی کیا دیتا، سمندر بھی کہیں جاسکتا ہے؟
ادھر ہی کہیں ہوگا، نظر نہیں آرہا...شاید ادھر ادھر اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دُھند کے پیچھے نظریں جما کر، آنکھوں پر زور ڈال کر...
لیکن سمندر ہو تو نظر آئے... وہ وہاں نہیں تھا... اس کے غائب ہونے پر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔
ان میں سے جس آدمی کی آواز سب سے پہلے الگ سنائی دی تھی، وہ ابھی تک اپنے اوپر شک کر رہا تھا۔
’’کیا ہوگیا؟ دکھائی کیوں نہیں دے رہا مجھے؟‘‘
’’وہاں ہو تو دکھائی دے...‘‘ کسی اور نے فوراً جُھنجھلایا ہوا جواب دیا۔
’’ایسا ہوسکتا ہے؟ یوں... اس طرح...اچانک... سارے کا سارا سمندر؟‘‘ کئی آوازوں میں حیرت نمایاں تھی۔
’’واقعی، راتوں رات... پورا سمندر...‘‘ بعض آوازیں تائید میں بلند ہونے لگیں۔
’’مگر یہ نہیں ہوسکتا...‘‘ ایک آواز میں سراسر انکار تھا۔
’’لیکن ہوگیا...‘‘ کسی نے اس کو ٹوک دیا۔
’’یہ یقیناًبڑی تباہی کی علامت ہے...‘‘ ایک آواز واضح ہو کر ابھری۔ منھ ہی منھ میں بدبداتے ہوئے کئی لوگ چُپ ہوگئے۔ ’’ہوسکتا ہے کہ تیل کے spillسے ایسا ہوا، ecological disaster یا پھر جنگ کا اثر... nuclear holocaust ...‘‘ وہ بیچ میں رُک گیا۔ لوگ اس کا منھ دیکھنے لگے۔ اس نے عینک لگائی ہوئی تھی اور اس کا سر گنجا تھا۔ پھر اس کے پاس ایک توجیہہ تھی...کچھ لوگوں کو اس کی بات قرینِ قیاس معلوم ہونے لگی۔ ’’یہی ہوا ہوگا...‘‘
’’ایران، اسرائیل... تو آخر جنگ یہاں تک آن پہنچی...‘‘
’’یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا...‘‘ ایک آدمی سب کو باور کرانے لگا۔
’’لیکن یہ سب آناً فاناً کیسے ہوگیا؟ آدھی رات کے بعد تک تو میں بی بی سی نیوز دیکھتا رہا ہوں۔ اس پر تو کچھ ایسا نہیں تھا...‘‘ ایک آدمی کو یقین کرنے میں تامل تھا۔
’’اب کون سی دیر لگتی ہے؟‘‘ ایک آدمی کندھے اُچکا رہا تھا۔ ’’ایک سیکنڈ کے چھوٹے سے چھوٹے حصے میں تباہی دور دور تک پھیل سکتی ہے...‘‘ وہ اس طرح بول رہا تھا جیسے باقی لوگوں پر اپنی معلومات کا رُعب جھاڑ رہا ہو۔ اس کی آواز میں مایوسی نہیں تھی۔
یا پھر سننے والوں کو بالکل محسوس نہیں ہوئی۔ وہ ایک ٹکڑی کی صورت میں کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ اس جگہ کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں سمندر کو ہونا چاہیے تھا اور ایک دوسرے کی طرف۔ دُز دیدہ نگاہوں سے، کچھ کچھ شُبے کے ساتھ، پھر تجسس کے طور پر، یہ اندازہ لگانے کے لیے اگلا آدمی کیا سوچ رہا ہے، کیا محسوس کر رہا ہے۔
حالاں کہ اس کا اندازہ لگانامشکل نہیں تھا۔ سبھی اس طرف دیکھ رہے تھے۔ کچھ نہ کچھ کہہ رہے تھے۔ کچھ لوگ پوچھے چلے جارہے تھے...ان کو وہاں کھڑے دیکھ کر وہ لوگ بھی ادھر آنے لگتے جو ادھر سے گزر رہے تھے اور سمندر کو وہاں نہ پاکر رُک جاتے، سراسیمہ ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگتے، جیسے وہ ادھر ادھر ہوگیا ہو اور ڈھونڈنے سے مل ہی جائے گا۔ ’’کیا ہوگیا، کیا بات ہے؟‘‘ نئے آنے والے شروع سے بات کا سرا پکڑنے کی کوشش کرتے۔
’’کچھ... کچھ نہیں ہوا۔ ہونا کیا ہے؟‘‘ عینک والا آدمی، جس نے عالم گیر تباہی کا خدشہ ظاہر کیا تھا، ہر بار ایک ہی بات کہتے کہتے بیزار آگیا تھا۔ ’’وہاں کچھ ہوگیا ہے، اُس طرف... پتہ نہیں چل رہا...‘‘ زیادہ زور دیے جانے پر وہ مبہم سا جواب دے کر اس طرف اشارہ کردیتا جہاں سمندر کی جگہ زمین خالی پڑی ہوئی تھی۔
’’کوئی بڑی گڑ بڑ ہوگئی ہے...‘‘وہاں جمع ہونے والے لوگوں میں سے کوئی آدمی جواب دے کر اتنا بتاتا جتنا اس وقت تک ان کی سمجھ میں آیا تھا۔ اس کے بعد ’’کیا ہوا...‘‘ اور ’’کیسے؟‘‘ کے سوالوں پر منھ سے چچ چچ کی آواز نکال کر اپنی لاعلمی ظاہر کرنے سے زیادہ کسی بات کی ضرورت نہیں رہتی۔
جو آدمی ہاتھوں سے آنکھوں پر چھجّا بنائے دیکھ رہا تھا، سر ہلاتا ہوا واپس مڑا۔اس کی قمیص ہوا میں پھٹ پھٹا رہی تھی۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھایاتو وہ آدمی جس نے ایک سوال کے جواب میں کندھے اُچکائے تھے، ذرا سا اُچک کر دیوار پر چڑھ گیا جو سڑک کے ساتھ ساتھ دور تک کھنچی ہوئی تھی۔ ’’وہاں کچھ بھی نہیں ہے...‘‘اس نے اسی بات کی تصدیق کی جو سب کو پتہ تھی۔
وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ ریت بھی نہیں، جھاڑیاں یا پتھر بھی نہیں۔ خالی زمین، دور تک پھیلی ہوئی، چٹیل اور بنجر، اتنی خالی کہ حیرت ہونے لگتی اور وہی سوال پلٹ کر ذہن میں دُہرانے لگتا...کیا ہوگیا، یہ سب کیسے...اتنا بڑا سمندر ہے، آخر کہاں غائب ہوگیا، بھاپ بن کر اُڑ تو نہیں سکتا۔ کوئی بچہ تو نہیں تھا کہ آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے چُھپ گیا... کل رات تک تو لوگوں نے دیکھا تھا، اسی طرح حسبِ معمول تھا...
’’سمندر کو کیا ہوگیا؟‘‘ بڑی عمر کے ایک آدمی سے بس نہیں ہوا۔ اس نے وہ سوال پوچھ لیا جو سبھی کو اضطراب میں رکھے ہوئے۔ اس آدمی کی شلوار قمیص مسلے ہوئے تھے اور اس کی داڑھی کے چھدرے بال بڑھے ہوئے تھے۔ وہ بول اٹھا تو جیسے چیونٹی کے انڈے حرکت میں آگئے۔ ’’کہاں چلا گیا، کیا ہوگیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
کندھے اُچکانے والا آدمی جو عینک والے آدمی کا سہارا لے کر سمندر کی دیوار پر چڑھ گیا تھا، اس دیوار کے اوپر چند قدم چلتے جانے کے بعد واپس مڑا اور وہیں اوپر سے جواب دینے لگا، حالاں کہ سوال اس سے نہیں کیا گیا تھا۔ ’’سمندر چوری کرلیا گیا ہے!‘‘
اس نے اطلاع دیتے ہوئے بورڈ کی طرف اشارہ کیا جو دیوار کے اوپری حصے میں لگا ہوا تھا۔
دن چڑھے وہاں سناٹا چھا جاتا تھا151یعنی جب وہاں سمندر موجود تھا۔ صبح سویرے سمندر کے ملاقاتی رُخصت ہوجاتے اور دن کی دھوپ تیز ہونے لگتی تو اس کی تپش، سیر تفریح کے مقصد سے آنے والوں کے لیے خوش گوار نہ ہوتی اور وہ عموماً شام گئے آنا پسند کرتے۔ تب وہ جگہیں پھر سے بھرنے لگتیں اور وہاں رونق ہوجاتی151 خوش طبع، لطف اندوز ہونے والے ہجوم کی بھری پُری رونق جو سمند رکے دم قدم سے تھی151لیکن اس وقت بھی وہاں لوگ اکٹھے ہونے لگے تھے اور وہ سب اس طرح کھڑے تھے یا چھوٹی بڑی ٹولیوں میں باتیں کر رہے تھے جیسے آس پاس کے کسی مکان میں میّت ہوگئی ہو اور محلے کے لوگ اس خبر کے ملتے ہی وہاں اکٹھا ہوگئے ہوں۔ جیسے وہ سب سمندر کا پُرسا دینے آئے تھے۔
اب انہیں پتہ چل چکا تھا اور ان سے اور لوگوں کو۔ اس لیے ایک آدھ نووارد کو چھوڑ کر کوئی یہ نہیں پوچھ رہا تھا کہ کیا ہوا بلکہ اس کے بعد کا سوال کہ کیسے اور کس طرح۔
اس بات کا جواب کسی کو نہیں معلوم تھا۔ سوائے اس کے کہ سمندر اب وہاں سے رُخصت ہوچکا ہے۔
’’خدا جانے کہاں اور کیسے؟‘‘ سوال یہی تھا اور اس کا جواب کسی کو معلوم نہیں تھا۔ وہاں جمع ہونے والے لوگ یہی باتیں کر رہے تھے۔ لوگ بڑھتے جارہے تھے، لیکن وہ سب کر وہی رہے تھے جو اس وقت جمع ہونے والے لوگوں نے کیا تھا جب زیادہ لوگ جمع نہیں ہوئے تھے151 ایسے جملوں کا تبادلہ کہ کیا ہوچکا ہے۔ اس وقت بولنے والے تھوڑے بہت پہچانے جارہے تھے۔ وہ لوگ جہاں سے آئے تھے اور جس طرح کے تھے، اسی حساب سے کر رہے تھے باتیں باتیں۔
بہت دور تک جارہی تھیں یہ باتیں باتیں۔ تین ٹانگوں والا اسٹینڈ اتنی سی صاف جگہ پر جماکر ایک نوجوان نے کیمرہ ٹکادیا تھا اور کوئی بھی جو کچھ کہنا چاہتا، اس کے سامنے آنا چاہتا اس کے تاثرات ریکارڈ کر رہا تھا۔ یقیناًیہ کسی غیر ملکی چینل کا مقامی نمائندہ ہوگا۔جو بھی اس طرف آتا، نوجوان اس طرف منھ کرکے سامنے لے آتا کہ پس منظر میں وہ خالی جگہ ہوتی جہاں پہلے سمندر تھا اور اب خالی زمین، جس پر فریز کیا ہوا کیمرہ شاٹ اور اس کے وائس اوور میں آوازیں...
’’اس شہر میں کھلی جگہوں، تفریح گاہوں کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ ایک عمر رسیدہ صاحب بول رہے تھے۔ انہوں نے کھلے گریبان کی قمیص کے اوپر کوٹ پہنا ہوا تھا اور اپنی جچی تُلی انگریزی کی وجہ سے وہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ لگ رہے تھے جن کو نوکری پوری کرنے کے بعد ڈیولپمنٹ اشوز کے حق میں بات کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ ’’لینڈ گریبنگ یہاں ایک باقاعدہ مافیا بن گئی ہے۔ اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ سیاست اور دولت اس کی مدد کرتی ہیں۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بھی اسی زبردستی پر یقین رکھتا ہے...اسٹیٹ خود مافیا میں تبدیل ہونے لگتا ہے اور پھر دوسروں سے بڑھ کر استحصال، ری سورسز کو ہڑپ... یہ سمندر تو سارے شہر کا تھا، کسی خاص طبقے کی ملکیت نہیں...‘‘
’’ہم کینڈل لائٹ وجل کریں گے سمندر کی یاد میں۔ ہم امن مارچ کریں گے۔‘‘ ایک خاتون بالوں کو جھٹک کر جوش کے عالم میں بول رہی تھیں۔ان کے ناخن رنگے ہوئے تھے اور لپ اسٹک کا رنگ دانتوں پر لگ گیا تھا۔ ان کا لباس کاٹن کا تھا اور دونوں بازوؤں میں دھات کی چوڑیاں۔
بھڑک دار ٹی شرٹ پہنے ہوئے اور سیاہ چشمہ آنکھوں سے اوپر کرکے ماتھے پر چڑھائے وہ نوجوان ایتھنک لُک رکھتا تھا۔ ’’یہ تفریح گاہ سے بڑھ کر ہے۔ اس پر لاکھوں افراد کے روزگار کا دارومدار ہے۔ یہ ماہی گیر کہاں جائیں گے جو سمندر کنارے کی پرانی بستیوں میں آباد ہیں... حکومت ان کے لیے متبادل روزگار کا بندوبست کرے...‘‘ اس کی آواز احوالِ واقعی سے بڑھ کر مطالبے کی فہرست میں بدلنے لگی۔
’’یہ ماحول کا قتل ہے۔ یہاں مینگروو کے نیچرل ذخیرے ختم ہوجائیں گے...ساری وائلڈ لائف... بہت نازک سا ماحولیاتی توازن ہے ان کے اور انسانوں کے درمیان۔ ایک تباہ ہوگا تو دوسرا زندہ اور برقرار نہیں رہ سکے گا...‘‘ ایک ایکٹی وسٹ کیمرے کے سامنے دو انگلیاں نچا کر وی کا نشان بنارہے تھے۔ ان کی انگلیوں کے درمیانی خلا میں پورے اسکرین پر ویران زمین ہل رہی تھی، سرک رہی تھی۔ کیمرے کے غیر ماہرانہ انداز کی وجہ سے جیسے جھٹکے لے رہی تھی۔
’’آپ لوگوں کو آرگنائز ہونا چاہیے۔ ہمیں ہاتھ میں ہاتھ ملانا چاہیے...‘‘ ایکٹی وسٹ، ایتھنک نوجوان سے کہہ رہا تھا اوار ایتھنک نوجوان این جی او کی نمائندہ خاتون سے۔ ’’ہمیں امن مارچ کرنا چاہیے چندریگر روڈ سے پریس کلب تک...‘‘
’’سب سے پہلے ہمیں ایف آئی آر درج کرانا چاہیے...‘‘ بھاری آواز والے ایک صاحب نے کہا جو کالا کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ غالباً نہیں یقیناًوہ وکیل ہوں گے۔
ان کی آواز سنتے ہی جیسے مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ واقعی، یہ تو بہت ضروری تھا۔ اس سے پہلے مجمع میں یہ کسی نے کہا کیوں نہیں تھا؟
’’بھئی سب سے پہلے تباہی کی حد کا تو اندازہ لگائیے...‘‘ بڑی عمر کے سفید بالوں والی معزّز شکل صورت کی ایک خاتون کی آواز ابھری۔ ان کی آواز پاٹ دار تھی151ٹیچر رہی ہوں گی۔ انہوں نے وکیل معلوم ہونے والے آدمی کا جملہ اور مجمع کی خاموشی سنی نہیں تھی151اونچا سُنتی ہوں گی۔ وہ اپنی تجویز اسی جوش و خروش سے پیش کر رہی تھیں جو ان کی ہر بات کا معمول بن گیا تھا۔ ’’پہلے پتہ تو کیجیے کہ یہ صرف یہاں ہوا ہے جو سمندر غائب ہوگیا یا اور جگہوں پر بھی ایسا ہوا ہے... ابراہیم حیدری، کورنگی اور سب سے بڑھ کر کیماڑی۔ اصل اندازہ تو کیماڑی پر ہوگا۔ آپ میں سے کسی نے رابطہ کیا ہے وہاں کے لوگوں سے؟ کچھ کنفرم کیا ہے؟‘‘
کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’ایف آئی آر درج کرانا بہت ضروری ہے۔ بات ریکارڈ میں آجاتی ہے...‘‘ وکیل صاحب مجمع کو باور کرارہے تھے۔
’’ریکارڈ پر آجائے تب بھی کیا ہوگا؟ ہمارے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا رہا ہے...‘‘ ایتھنک نوجوان کی تیوری پر بل پڑگئے۔
’’آپ لوگ طے تو کیجیے، ایک ساتھ ہوکر چلیے، اتحاد میں بڑی طاقت ہے...‘‘ وکیل نما صاحب کی آواز میں جوش بہت تھا۔
’’لیکن کس تھانے میں؟ یہ علاقہ تو درخشاں کے تھانے میں لگتا ہے، لیکن اصل میں جیکسن تھانے جانا چاہیے...‘‘
’’پولیس میں نہیں بلکہ پورٹ اتھارٹیز کو رپورٹ کرنا چاہیے۔‘‘
’’آپ کی مراد شاید کوسٹ گارڈز سے ہے... اجی، وہ کیا کرلیں گے؟ اسمگل کی ہوئی شراب کے علاوہ ان کو دل چسپی اور کس بات سے ہے؟...‘‘ ایک آواز ابھری اور ہجوم میں غائب ہوگئی۔
’’بھئی کسی نہ کسی کے پاس تو جانا چاہیے...‘‘
’’پولیس رپورٹ...‘‘
’’ایف آئی آر...‘‘
آوازیں ایک ساتھ بلند ہو رہی تھیں، ایک دوسرے میں رل مل رہی تھیں، ایک دوسرے کو کاٹ رہی تھیں۔
’’لیکن درج کس کے خلاف کرائی جائے؟‘‘ ایک آواز بیچ میں سے ابھری۔ اس کو صاف پہچانا نہیں جاسکتا تھا کہ یہ آواز کس کی ہے۔
’’ذمہ دار کون ہے؟ کسی کو اس کا ذمہ دار ٹہرانا ہوگا...‘‘ یہ آواز اپنے آپ کو چھپانے یا ہجوم میں گم کرنے کی کوشش نہیں کررہی تھی۔ یہ شاید سفید بالوں والی ان معزز خاتون کی تھی جو کبھی ٹیچر رہی ہوں گی۔
’’مگر یہ کس کی طرف سے ہو؟ اس کی چوری سے نقصان کس کا ہوا ہے؟ سمندر کس کا ہے اور اس کادعوے دار کون ...‘‘
یہ آواز فوراً پہچانی نہیں جاسکی کہ ایتھنک نوجوان کی تھی یا ایکٹی وسٹ کی۔ یا پھر کسی اور ہی آدمی کی آواز۔ لیکن اس کے بعد مجمع میں ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔ جیسے اس نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہو جس کی طرف اس سے پہلے کسی نے دھیان ہی نہ دیا ہو۔ لیکن پھر فوراً ہی بولنے لگے، وہ سب بولنے لگے باتیں باتیں... ایک دوسرے سے، آپس میں، سامنے والے سے، برابر والے سے، دو آدمیوں کی دوری پر کھڑے ہوئے آدمی سے پھر اس کے ساتھ والے سے وہاں جمع ہونے والے لوگوں کی بھیڑ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ گئی، لوگ الگ الگ ہونے لگے لیکن وہیں کھڑے رہے، بولتے رہے... شہر... سمندر، سمندر...
چوری کے بعد لوگ سمندر کو یاد بہت کر رہے تھے۔ جیسے وہ لڑکی... ایک جیسی، منمناتی آواز میں بولے چلے جارہی تھی وہ لڑکی...’’سمندر کنارے ابا سیر کرانے کے لیے لے جاتے تھے۔ میں چھوٹی سی تھی۔ کلفٹن تک ہم بس میں آیا کرتے تھے۔ صبح سے تیاری کرتے، دو تین طرح کے کھانے پکا کر اماں پوٹلی میں باندھ لیتی تھیں اور پوٹلیاں، بید کی ٹوکری میں رکھ کر چلتے تھے۔ کلفٹن پر میں اونٹ کی سواری ضرور کرتی تھی۔ پہلی دفعہ جب اونٹ پر بیٹھی اور اونٹ اوپر اٹھا تو میں نے گھبرا کر چیخ مار دی...اونٹ والا آگے آگے چل رہا تھا اونٹ کی رسّی تھامے اور ساتھ ساتھ سمندر، اتنا شفاف کہ بس...سیپیوں اور کوڑیوں کے نقلی ہار اور بُندے ابا خرید کر دیتے تھے اور میں ان کا ہاتھ پکڑ کر چلتی تھی۔ پانی کے ساتھ گیلی ریت پر ان کے قدموں کے نشان میں دوبارہ پانی بھرنے لگتا تھا...ابا نہیں رہے لیکن سمندر تو تھا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ایک دن سمندر کا ہاتھ پکڑ سیر کرنے کے لیے نکلوں اور ابا کے قدموں کے نشان ڈھونڈوں کہ ان میں کتنا پانی بھر گیا ہے۔ سمندر نہیں رہا تو اب میں کیا کروں، اوہ میرے ابّو...‘‘
لڑکی کی سپاٹ آواز ٹوٹ گئی اور وہ پتلی، بے جان آواز میں واویلا کرنے لگی...
بچّے کے ہاتھ سے غبارہ چھوٹ گیا اور دھاگے کی لمبی دم لہراتا ہوا غبارہ سمندر کے اوپر آسمان کے سامنے اُڑتا چلا گیا...سرمئی، بادلوں بھرے آسمان کے سامنے سُرخ نارنجی رنگ کا دھبہ جو اڑتے اڑتے چھوٹا ہونے لگا، چھوٹا اور چھوٹا، پھر غائب... لیکن سمندر موجود تھا۔
’’ساحلِ سمندر پر ہم نے ایک بار مشاعرہ کیا تھا...‘‘ ایک اور آدمی بول رہا تھا۔ اسے کسی نے ایتھنک نہیں سمجھا ورنہ اپنی وضع قطع اور اس سے بڑھ کر اپنی بات چیت سے وہ بھی اتنا ہی ایتھنک تھا جتنا کہ وہ نوجوان جسے ایسا سمجھا گیا تھا۔ ’’میں کالج میں تھا ان دنوں۔ رات بھر محفل جمی تھی۔ لطف آگیا تھا۔ پھر اس کے بعد جمیل بھائی ایک دن میرے پیچھے پڑگئے، سمندر کے پاس لے چلو، مجھے سمندر کے پاس لے چلو.. موٹر سائیکل پر پیچھے لادا اور چاندنی رات میں یہیں لے آیا۔ وہ موٹر سائیکل سے اچھل کر اترے اور اسی دیوار پر چڑھ گئے۔ اے سمندر، وہ ادھر منھ کرکے زور زور سے بولنے لگے، اے سمندر اتنے دن ہوگئے تو نے مجھ سے کلام نہیں کیا، میرے شعر سن اور وہ زور زور سے غزل سنانے لگے... سمندر کیا داد دیتا، موجیں سر پٹک کر رہ گئی ہوں گی...ہم واپس ہونے لگے تو پولیس نے پکڑلیا۔ یہ نشے میں نہیں ہیں، یہ ایسے ہی ہیں... میں نے پولیس کے دونوں سپاہیوں کو بڑا سمجھایا۔ یہ ایسے ہیں؟ وہ شک بھری نظروں سے ہمارا جائزہ لیتے رہے۔ ہاں، ہاں یہ ایسے ہی ہیں... سمندر کے قریب پہنچ کر تو اور بھی ایسے ہوجاتے ہیں، میں نے انہیں یقین دلایا۔ تو چلو پھر لے جاؤ ان کو...کبھی کبھی سمندر سے ملانے کے لیے لاتے رہا کرو...انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا...اب کہاں لے کر جاؤں گا؟ اب وہ کس سے کلام کریں گے اے سمندر۔‘‘
وہ اسی طرح پتہ نہیں کب تک بولتا رہا لیکن اس سے آگے کی بات ان بہت سی باتوں سے دب گئی جو لوگ اسی طرح کیے جارہے تھے، مسلسل، متواتر...پھر وہ ہجوم تیزی کے ساتھ ادھر ادھر ہونے لگا۔ شاید پولیس والے جو وہاں پہنچ گئے تھے، لوگوں کو ہٹا رہے تھے۔ شاید میڈیا والے لوگوں کی اور ان کی باتوں کی لائیو کوریج کر رہے تھے۔ کیمرہ ہاتھ میں لیے اور شوٹنگ کرتا ہوا پیچھے کی طرف ہٹنے والا ایک نوجوان جس کے لمبے لمبے بال الجھے ہوئے تھے اور قمیص باہر نکلی ہوئی تھی، اس بورڈ کے سامنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا تھا اور پولیس والے اسے روک رہے تھے۔
بورڈ دیوار کے اوپری حصے پر نصب تھا۔ اس بورڈ کی کیلوں پر زنگ نہیں آیا تھا جس سے پتہ چل سکتا تھا151اگر کیمرے والے نوجوان کو پتہ لگانے کی ضرورت ہوتی کہ بورڈ کو نصب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور سمندر کی ہواؤں کا سامنا کرتے ہوئے زیادہ مدت نہیں ہوئی۔
صبح کی دھوپ میں چمکتے ہوئے اس بورڈ پر تعمیراتی کمپنی کا نام جلی حروف میں پینٹ کیا ہوا تھا اور اس کے نیچے ادارے کا نشان151گول، سرخ نارنجی سورج اور ہر خاندان کے لیے بہتر مستقبل کی ضمانت کے الفاظ جن کا رنگ نیلا تھا، سمندر کی طرح۔
کیمرے والے نوجوان اور اس کو روکنے والے سپاہیوں کی طرف سے لوگ دفعتاً مڑگئے۔ تیز شور کے ساتھ، موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوان لڑکوں کا ایک پورا گروہ وہاں پہنچ گیا۔ انہوں نے موٹر سائیکلوں کے سائلنسر اتارے ہوئے تھے اور وہ ریس کرتے ہوئے چلتے تو زوں زوں کا اتنا شور ہوتا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ موٹر سائیکلیں رُکیں اور شور دبا تو پتہ چلا وہ اتنے بہت سے نہیں ہیں...ان میں سے جو سب سے آگے تھا، اس نے ماتھے پر رومال باندھا ہوا تھا۔
’’کدر کلٹی کردیا تم نے سمندر کو؟‘‘ اس نے اپنی انگلی ان ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے سینے کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا جو ایکو فرینڈلی ڈیولپمنٹ کا حوالہ بار بار دہرائے جارہے تھے۔
سینے پر اُٹھی اس انگلی کی جنبش کے سامنے وہ گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگے۔
’’سمندر کو گُم کرکے سمجھتے ہو تم لوگ ہمیں روک لو گے؟ سمندر نہیں ہوگا تو ہم کوئی اور جگہ ڈھونڈ لیں گے نیو اےئر منانے کے لیے...‘‘نوجوان غصے میں بپھر رہا تھا اور دوسرے نوجوان اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔
اس کی بات سُن کر ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے سکون کا سانس بھرا۔ ’’میں تو خود یہی سمجھتا ہوں... سمندر تو سب سے بڑی تفریح گاہ ہے، یہاں اوپن اسپیس میں وہ سارے بیرئرز ٹوٹ جاتے ہیں جو فنڈا مینٹلسٹ لوگ یوتھ پر امپوز کرنا چاہتے ہیں...‘‘ وہ ایک طویل بیان دینے لگا۔
’’شٹ اپ! بکواس نہ کر...‘‘ موٹرسائیکلوں والے نوجوانوں میں سے ایک آواز باتوں کو کاٹتی ہوئی ابھری۔
وہ صاحب سہم کر چُپ ہوگئے۔
’’تم لوگ ہی یہ سب کرتے ہو... خود تو بڑے بڑے ہوٹلوں میں جو چاہے کرلو...‘‘ لڑکے کی آواز تیز تھی۔
’’ابے ان مُلاؤں نے تو نہیں چُرالیا سمندر؟ نیواےئر روکنے کے لیے...‘‘ پہلے والے لڑکے کی آواز آئی۔
’’یہ مولوی لوگ بڑے بانی کار ہوتے ہیں...‘‘ مجمع بڑے غور سے یہ اینکاؤنٹر دیکھ رہا تھا، اس میں سے سفید بالوں اور معزّز نظر آنے والی خاتون کی آوازابھری جو شاید ٹیچر رہی ہوں گی۔
’’اوہ دیز مولویز اینڈ فنڈوز... دے آر کلنگ جوئز... دے ہیو اسٹولن دی سی...‘‘ ان دوسری خاتون کی آواز آئی جن کی عمر کم تھی اور شاید کسی سماجی تنظیم کی رُکن تھیں۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹ جلدی جلدی اثبات میں سر ہلانے لگے... لیکن پھر فوراً ہی ایک بے ترتیب سا شور اٹھنے لگا...
’’شہر کے لوگوں کے حقوق مسلسل غصب کیے جارہے ہیں!‘‘
’’ان کا بس چلے تو پورے شہر کو بیچ کھائیں...‘‘
’’سونے کی چڑیا ہاتھ آگئی ہے کمپنی بہادر کے...‘‘
’’زمین کا چپّہ چپّہ بیچنے کے بعد سمندر پر بھی ہاتھ صاف کرنے لگے...‘‘
’’یہی لوگ ذمّہ دار ہیں۔ شہری اداروں کو کام نہیں کرنے دیتے...‘‘
’’شہری حکومت پوری کوشش کر رہی ہے...‘‘
’’کوشش کیسی؟ آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں، اپنے مفاد کے لیے ریسورسز پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں...‘‘
اس کے بعد تکرار اور شور بڑھ گیا۔ شور کی آواز اس طرح ہلکی اور تیز ہو رہی تھی جیسے کبھی موجیں اوپر نیچے ہوتی ہوں گی جب وہاں پر سمندر تھا۔
’’سٹی فادرز کی طرف سے لازوال تحفہ...‘‘
بورڈ پر الفاظ جگمگا رہے تھے۔
ان الفاظ کے نیچے تصویر بنی ہوئی تھی۔ شہر کی جگمگاتی ہوئی اسکائی لائن۔آسمان کو چھو لینے والی عمارتوں کی سیاہ پرچھائیوں میں برقی رنگ جھلملا رہے تھے۔ سائن بورڈ کے پینٹر نے پس منظر میں خیالی پہاڑ اور کھجور کے درخت بنادیے تھے۔ تصویر میں سمندر کا نشان تک نہ تھا۔
دیوار کے ساتھ ساتھ، سڑک کے مخالف رُخ پر سیمنٹ کی چھتریاں کبھی بنائی گئی تھیں۔ اب وہ خالی پڑی تھیں۔ ان میں بعض ٹوٹ گئی تھیں، اس لیے جس ترتیب سے انہیں بنایا گیا تھا، وہ بھی ختم ہوگئی تھی لیکن اس وقت یہ زیادہ بے تکی معلوم ہو رہی تھیں۔ پہلے ان کے سائے میں لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے اور سمندر کے رُخ پر دیکھنے کا لطف اٹھا سکتے تھے۔ لیکن اب ریت کی طرف کون مسلسل دیکھتا یا پھر مونگ پھلیاں، چنے اور آواز لگا کر پاپڑی...ی...ی...بیچنے والے پھرتے پھرتے وہاں بیٹھ کر سستا لیا کرتے تھے۔ ایک چھتری جو ذرا کونے میں تھی اور جہاں اندھیرا رہا کرتا، وہ مخصوص تھی مالش والوں کے لیے۔ جن لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوتا اور وہ وہاں آن کر بیٹھ جاتے، ان کے پاس چمپی مالش والے اتنی بار آکر پوچھتے کہ یا تو وہ مالش کے لیے تیار ہوجاتے یا وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے۔ دونوں صورتوں میں جگہ خالی ہوجاتی، تھوڑی دیر کے بعد پھر بھر جاتی۔ چھتریوں کے ساتھ ساتھ بنچیں اور لوہے کی کرسیاں بھی خالی پڑی تھیں۔
لوگوں نے ان پر بیٹھنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ ان کی سیدھ میں اب بہتے پانی کا نظارہ تو نہیں تھا، چٹیل میدان تھا۔ لیکن لوگ اگر ریت کی طرف مسلسل دیکھتے رہنے کی عادت ڈال لیتے تو ریت پر زیادہ دیر تک نظریں جمائے رہنے سے بعض اوقات ریت بھی ہلتی، سرکتی ہوئی معلوم ہونے لگتی۔
سمندر کے نظارے کا لطف اٹھانے والوں اور ساحل پر چہل قدمی یا یوگا کی مشقیں کرنے والے لوگوں میں سے چند ایک نے شکایت کی اور بعض نے انگریزی اخباروں میں مدیر کے نام خط بھی لکھے۔ مگر ان کی شکایت پر ناشتے کی میز پر تھوڑی سی گفتگو سے زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ لوگ جو کچھ کرتے رہنے کے عادی ہوگئے تھے، وہ سب یوں بھی کرسکتے تھے۔ آخر کو انہیں جگہ چاہیے تھی، سو موجود تھی، پہلے سے بھی زیادہ! سمندر کے غائب ہوجانے کے بعد شہر کے نوجوانوں میں ایک بے چینی سی پائی جانے لگی، جس میں موضوع بننے کا زیادہ امکان تھا مگر جس کو مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں موضوع بنایاگیا اور نہ اس کے بارے میں انگریزی اخباروں میں کوئی خط دیکھنے میں آیا۔ یہ بے چینی بھی مبہم سی تھی، جس کو پوری طرح بیان کرنا بھی مشکل تھا، اس لیے کہ اس کا احساس بھی غیر واضح تھا۔ جیسے صبح شام غسل کرنے کے عادی کو کئی دن تک نہانے کا موقع نہ ملے۔ میٹھا پسند کرنے والوں کو یک لخت میٹھا ملنا بند ہوجائے۔ ایک الجھن، گھبراہٹ، جیسے ہاتھ پاؤں اینٹھ رہے ہوں اور بدن ٹوٹا جارہا ہو۔ ایک نوجوان نے شکایت کے لہجے میں کہا کہ سمندر کے چلے جانے کے بعد سے اسے سردی لگے جارہی ہے، تو کسی بزگ نے ٹوک دیا151 تم کون سا سمندر کو اوڑھے لپیٹے رہتے تھے؟
نوجوان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آخر کو سمندر بہت کچھ سمیٹ لیتا تھا۔ ہاکس بے، سینڈزپٹ کی ریت پر بنی ہوئی ہٹس صرف گھر والوں کے ساتھ تفریح تک محدود تو نہ تھیں۔ کسی بھی ویک اینڈ کے بعد لمبی ڈرائیو پر اپنی ہم عمر دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے وہاں کے چوکی دار کی مٹھی گرم کرنے کے بعد اس جگہ کو حاصل کیا جاسکتا تھا اور سمندر اس کے لیے پرفیکٹ سیٹنگ فراہم کرتا تھا۔ اور اگر یہ جگہ نہ بھی ملے تب بھی چٹانوں کی اوٹ میں یا پھر گاڑی ایک طرف روک کر اپنا کام پورا کیا جاسکتا تھا۔ ذرا سوچیے، کھلی ریت میں اس طرح گاڑی تو نہیں روکی جاسکتی، کئی نوجوانوں کے دل میں خیال ضرور آیا ہوگا۔ مگر یہ بات کسی نے کہی نہیں۔ وہ ہٹس تو اب بھی اس طرح موجود تھیں۔ فلڈ لائٹس بھی اسی طرح جل رہی تھیں اور دیوار کے ساتھ وارننگ اب بھی مٹائی نہیں گئی تھی151ستمبر کے مہینے میں سمندر میں نہانا منع ہے، تیز موجیں آپ کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ سمندر نہیں رہا، انتباہ بھری دیوار سامنے کھڑی تھی۔
پریس کلب کے سامنے ایک دن ایک جلوس نکالا گیا۔ پہلے پہل اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی اس لیے کہ وہاں آئے دن جلوس نکلتے رہتے ہیں۔ پھر اس جلوس میں ایسی کوئی خاص بات نظر بھی نہیں آرہی تھی۔ نہ پلے کارڈز، نہ بینرز، نہ میڈیا کوریج، تھوڑی سی عورتیں نعرے لگا رہی تھیں اور نعرے بھی ایک آواز میں نہیں تھے۔ وہ لمبی قمیصیں اور گھگھرے پہنے ہوئے تھیں، کئی کی چادریں میلی تھیں یا بدرنگ اور ان کے بازوؤں میں کڑے اور چوڑیاں موٹے اور بھدّے تھے۔ یہ سب کسی ایک بس میں بھر کر شہر کی ایک گنجان آباد، پرانی بستی سے آئی تھیں، ان کو واپس جانے کی جلدی تھی اور گھبراہٹ بھی۔ کئی کے ساتھ چھوٹے بچّے بھی تھے، کچھ کی ناک بہہ رہی تھی اور کئی ایک گلا پھاڑ کر چلا رہے تھے۔ بچوں کے رونے کی آواز نعروں میں رلی ملی جارہی تھی151جیسے وہ اسی کا حصہ ہو151 ’’جھینگا مچّھی ی ی ی...جھینگا مچھی ی ی ی ...‘‘ ان کے نعرے کا اتنا ٹکڑا صاف سنائی دیتا کہ اس میں آواز بلند ہوتی پھر اس کے بعد دب کر ڈھیر ہونے لگتی۔ ’’یہ فشریز میں کام کرنے والیاں ہیں‘‘ پریس کلب کے باہر کھڑے ہوئے لوگوں میں سے کسی نے اپنے ساتھیوں کو بتایا۔ ’’ان کا تو روزگار سمندر سے بندھا ہوا ہے۔ یہ حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ ان کا متبادل بندوبست کیا جائے۔‘‘
’’جھینگا مچھی ی ی ی... آ‘‘ ایک نعرے کے ساتھ ان عورتوں نے ہوا میں ہاتھ لہرائے۔ اتنی دور سے یہ تفصیلات محو ہوگئیں کہ ان کی انگلیوں کی پوریں کٹی پھٹی ہیں اور یہ ہاتھ میلے، گندے، کالے ہیں151 اس سمندر کے برخلاف جو ان کے نعروں میں گرج رہا تھا۔
ایک اور دن ایسے ہی اور لوگ اسی جگہ پھر جمع ہوگئے۔ ان میں عورتوں کے ساتھ چند مرد بھی تھے۔ ان کے رنگ زیادہ گہرے تھے۔ یہ لوگ آپس میں کسی اور زبان میں بات کر رہے تھے اور ان کے نعروں میں جھینگے کا یا مچھلی کا نام نہیں آرہا تھا۔ بلکہ ان کے نعرے ہی نہیں تھے۔ یہ لوگ سُست رفتاری سے بڑھ رہے تھے۔ ان میں سے کسی آدمی نے، جس نے ڈھول کہیں نہ کہیں اٹھا رکھے ہوں گے، تھاپ دینا شروع کی۔ پہلے آہستہ، آہستہ پھر بڑھتے بڑھتے تیز، تیز ایک دم سے زور لگا کر بہت تیز۔ جلوس کے آگے آگے چلنے والی سیاہ رنگ بوڑھی عورت نے منھ ہی منھ میں بُدبدا کر کچھ کہا اور اپنی جگہ کھڑے کھڑے ہلنے لگی۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی او رجھوم رہی تھی۔ ایک تواتر کے ساتھ وہ جھوم رہی تھی اور اس کا بدن تھاپ کے آہنگ میں ہل رہا تھا۔ آہنگ میں ہلتے ہلتے اچانک اس میں جیسے بجلی سی بھرگئی اور دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھا کر اس نے مستانہ وار تھرکناشروع کردیا۔ ’’مور صاحب! مور صاحب‘‘ اس نے زور سے آواز دی اور پھر جیسے بے جان ہو کر سڑک پر گر پڑی۔ جلوس آگے بڑھتا رہا۔
’’پتہ نہیں یہ لوگ اس قدر اودھم کیوں مچارہے ہیں؟‘‘ پریس کلب کے باہر وہ آدمی اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا جس سے پوچھا گیا تھا کہ جلوس میں یہ کون لوگ ہیں۔ ’’ان کے اوپر کون سا آسمان ٹوٹ پڑا؟ فائدہ ہوگا اورزمین کا الاٹ منٹ کھلے تو سب سے پہلے یہی روتے گاتے، دوڑے چلے آئیں گے، محرومی اور پسماندگی کا رونا روتے ہوئے!‘‘
اس کے مخاطب نے جو جواب دیا، وہ شور میں بکھر گیا کیونکہ جلوس کے لوگ، منتشر ہونے سے پہلے اس بوڑھی عورت کو سہارا دے کر سڑک سے اٹھا رہے تھے۔
’’قائداعظم کا مزار سلامت ہے، شہر کی اصل نشانی تو وہی ہے۔‘‘ پہلے آدمی کی آواز آئی۔ ’’ٹی وی کے ٹیلپ پر وہی ہر بار دکھایا جاتا ہے۔ آخر دوسرے شہر بھی تو ہیں151سمندر کے نہ ہونے سے کون سا نقصان ہوگیا ہے؟ کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں...‘‘
جلوس ذرا ہی دیر میں بکھر گیا۔ جلوس کے شرکا سڑک کے ہجوم میں شامل ہوگئے۔
بعض عملی مشکلات بھی پیش آنے لگیں۔ ایک اربن لیجنڈ کے طور پر ’’نیٹوجیٹی‘‘ کے پُل کی وہ حیثیت مدتوں پہلے ختم ہوگئی تھی جب اپنی زندگی سے مایوس ہو کر خودکشی کرنے والے لوگوں نے یہاں سے چھلانگ لگانے کے بجائے دوسرے راستے اختیار کرلیے تھے اور خودکشی کے بڑھتے ہوئے حالیہ رواج نے بھی پُل کی پرانی حیثیت کو بحال نہیں کیا، لیکن پُل کے نیچے سوکھی ریت اڑ اڑ کر ریل کی پٹڑیوں پر جمع ہونے لگی۔ سب سے پہلے وہاں سے وہ لوگ کم ہوئے جو منّت مراد کے لیے مچھلیوں کو آٹا کھلاتے تھے۔ سکّوں کی ڈھیریاں سامنے رکھے ہوئے اور گھی کے پرانے، خالی کنستر میںآ ٹے کی گولیاں بنا کر بیٹھے رہنے والے بھی غائب ہوگئے اور ان سے مول لے کر یہ گولیاں دعا کے ساتھ پانی میں پھینکنے والے وہ لوگ بھی جن کو ان کی کوئی نہ کوئی ضرورت یا مصیبت وہاں کھینچ کر لے آتی تھی۔
جس دن شہر میں چُپ تعزیہ اٹھا، اس دن جلوس کے شرکاء کے سامنے یہ سوال بھی اٹھا کہ تعزیے کہاں ٹھنڈے کیے جائیں، سمندر تو رہا نہیں۔ اس سوال پر شہر بھر کے جیّد علماء نے بہت غور و خوض کیا لیکن کسی خاطر خواہ نتیجے پر پہنچے بغیر ان کا اجلاس ختم ہوگیا۔ امام حسینؓ کے نام عریضے ڈالنے کا طریقہ بھی شہر میں اسی دُبدھا کا شکار ہوگیا۔ جو لوگ اپنے سوال لکھ لکھ کر نیٹو جیٹی کے پُل پر سے پانی میں ڈال دیتے تھے کہ ان کا عریضہ امام حسینؓ کے پاس پہنچ جائے گا، اس طرح اپنے سوال ریت پر لکھ کر بھیجنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ان کے سوال ایک اس سمندر کے نہ ہونے سے وہیں کے وہیں رہ گئے اور جب سوال ہی نہیں آگے گیا تو پھر ان کا حامی و ناصر کون ہوتا، اب تو سمندر بھی نہیں رہا... مٹّی ہی مٹّی تھی اور کوّے، وہاں بہت سارے کوّے تھے جو ادھر ادھر سے آگئے تھے اور شور مچا مچا کر اُڑ رہے تھے۔ شہر پر آسمان کی چادر پھڑ پھڑا رہی تھی اور اسے اپنی جگہ روکنے کے لے لگائی جانے والی کیلیں، یہ کوّے، ہوا کے سامنے ٹہر نہ پارہی ہوں۔ اب آسمان پھر ہلا، نیچے کی طرف جھکا اور کوّوں کے ساتھ اوپر اٹھ گیا۔ پرانی روئی کی طرح پھول رہا تھا آسمان جس میں پانی جذب ہوگیا ہو اور قطرہ قطرہ ٹپکنے لگے، بوندبوند سمندر جس میں اب بس بوندیں رہ گئی تھیں، سمندر نہیں۔
ایک دن ایک آدمی نے خواب دیکھا، سمندر کا خواب، اور اسی جگہ آکر بیان کرنے لگا جہاں شام کے وقت بہت سے لوگ جمع ہوجاتے تھے اور باتیں کرنے لگتے تھے۔ اس نے کہا ’’میں نے دیکھا ...میں نے دیکھا...اجلی ریت کے سامنے، ہرا اور نیلا، پانی ہی پانی دور تک پھیلا ہوا جہاں تک نظر جائے۔ لہروں کے اوپر سفید سفید جھاگ اور لہریں اچھلتی ہوئی اُٹھتی چلی آتی ہیں اور جب گرتی ہیں تو ان کا زور ٹوٹتا ہے، سفید جھاگ ریت کے اوپر بڑھا چلا آتا ہے اور پانی پیچھے ہٹتا ہے تو صاف ریت اس طرح نکلتی چلی جاتی ہے جیسے سمندر کی تہہ سے نکلی ہو اور پانی کے ساتھ بہتی جارہی ہو۔ میرا جی چاہا کہ اس ریت میں پیر گاڑ کر کھڑا ہوجاؤں جیسے اپنے بچپن میں کیا کرتا تھا جب ہم کبھی اپنے سارے گھر والوں کے ساتھ سمندر پر پک نک منانے جاتے تھے۔ پانی پر سمندری پرندے اڑ رہے تھے اور ریت پر اونٹ والا مہار تھامے کھڑا پوچھ رہا تھا، صاحب سواری چاہیے... میں نے اس کو منع کرنے کے لیے سر ہلایا تو میری آنکھ کھل گئی... وہاں سمندر نہیں تھا اور میں اپنے بستر پر تھا...‘‘
اس نے خواب بیان کیا تو دوسرے لوگوں نے بھی بولنا شروع کردیا... کلفٹن، سیر... پیراڈائز پوائنٹ، ساحل کی چٹان، چٹان پر سے اچھلتا ہوا پانی، ہاکس بے، ساحل پر بنی ہوئی تفریحی ہٹ، سینڈز پٹ،اجلی ریت، لپکتا ہوا پانی اور پھر ریت کو بھگونے کے بعد پیچھے ہٹا ہوا...وہ سب ایک ساتھ بول رہے تھے، اپنی اپنی باتیں دُہرا رہے تھے کہ ان میں سے ایک آدمی کو لگا جیسے سمندر پھر دکھائی دے رہا ہے... پانی گدلا ہے اور ریت پر کوڑا بکھرا ہوا ہے، جوس کے خالی ڈبے، پلاسٹک کی تھیلیاں، موسمبی کے چھلکے، پیکٹ جو استعمال کے بعد چُرمرا کر پھینک دیے گئے ہیں اور پیچھے ہٹتی ہوئی لہروں کے سامنے بے تحاشا لوگ اتنی سی جگہ میں بھرے ہوئے اور پھر بھی تفریح کے موڈ میں، ان کی آوازیں لہروں کے شور کے اوپر سے گونجتی اور ٹکراتی ہوئی، پھر ان کے سامنے دیوار، عمارت کا ادھ بنا ڈھانچہ جس نے سمندر کو دونوں ہاتھوں سے جیسے بھینچ لیا ہو، سکیڑ لیا ہو، گدلے پانی کے اوپر تیل کے کالے چکتّے جو پانی کے بہاؤ کے ساتھ پیچھے ہٹنے کے بجائے وہیں جمے کھڑے ہیں، مری ہوئی مچھلیوں کی سڑی بدبو جو دھیرے دھیرے بڑھتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ اتنی دبیز اور تیز ہوجاتی ہے کہ سانس رُکنے لگتا ہے۔ سانس میں جیسے کوئی چیز پھنس رہی ہے اور قے کو روکتے ہوئے آپ وہاں سے مڑ کر واپس جانے لگتے ہیں سمندر سے مخالف سمت میں...
اس شام ہوا بند تھی۔ شہر والے سمندر کی چوری کے اسی طرح عادی ہوتے جارہے تھے جیسے کبھی سمندر کنارے مقیم رہنے کے عادی ہوئے ہوں گے۔ ہوا بھی کئی دن سے بند تھی۔ دن بھر کی گرمی کے بعد شام کے وقت سمندر کے رُخ سے ہوا چلنی شروع نہیں ہوئی...سمندر ہوتا تو ہوا چلتی، کسی نے اپنی دانست میں بہت کانٹے کی بات کہی...اور حبس کا عالم سارے شہر پر یوں چھایا ہوا تھا جیسے کسی نے ایک گرم، چپچپاتا ہوا شیشے کا مرتبان اوپر سے لاکر شہر پر دھر دیا ہو۔
شام ہوتے ہوتے بدبو سارے شہر میں پھیلنے لگی۔ مچھلیاں اور کیکڑے فٹ پاتھ پر بکھرے ہوئے نظر آنے لگے۔ سمندری پرندے بجلی کے کھمبوں پر بیٹھے ہوئے تھے، اُداس اور بے مصرف...پر پُھلائے ہوئے، اُڑنے سے بیزار...جیسے کوّے بارش میں بھیگ گئے ہوں...
باہر سے آئے ہوئے پرانے کپڑوں...سوئٹر، جرسیاں، کوٹ...کے دام گرگئے۔ انڈے مہنگے ہوگئے۔ کلفٹن کے علاقے میں ٹریفک کا دباؤ برائے نام رہ گیا۔ مالش کرنے والے کم عمر لڑکوں اور کھمبوں کے نیچے کھڑی ہوئی عورتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا۔ برگر فروخت کرنے والی ایک ملٹی نیشنل نے اپنی ایک نئی ڈیل کا اعلان کردیا...صحرا کے شہر میں فاسٹ فوڈ کی نئی روایت...اگلے دن بڑی بڑی تصویریں میڈیا سے جھلکنے لگیں151جن میں پانی اُترتا تھا اور صحرا کے وسط سے ریت میں جگمگاتا شہر برآمد ہوتا تھا، برگر میں بند...دانتوں سے کاٹ کر ایک ٹکڑا آپ بھی کھائیے ناں... باقی شہروں کے رہنے والے اپنے مقامی ڈیلروں سے رجوع کریں...
یاد رکھیے، یہ گولڈن پیش کش صرف محدود مدت کے لیے ہے!
ایسی ہی ایک صبح کی ملگجی، مٹیالی روشنی پھیلنے بھی نہ پائی ہوگی کہ سمندر والے دیکھیں گے شہر کو چُرالیا گیا ہے۔
تب تک کہانیوں میں ان کی کہانی تمام ہوچکی ہوگی۔ مٹّی میں مل کر مٹّی، پانی میں مل کر پانی...
اس وقت کون کہاں ہوگا اور سمندر کہاں؟
سمندر کے ساحل پر ریت میں قدموں کا ایک نشان بنا ہوا ہے، جس میں پانی بھرتا جارہا ہے اور ایک اونٹ والا اس کے پاس بیٹھا رو رہا ہے۔
2008
بن کے
بجلی اس قت تک گئی نہیں تھی۔
کسی بھی لمحے جاسکتی ہے، امی جان نے اس خیال سے کھانا لگادیا تھا۔ نہیں تو اندھیرے میں کھانا پڑے گا اور پھر بڑی بھابی کے بقول، ہر نوالے پر نشانہ لیے جاؤ کہ منھ کی سیدھ میں جائے، ناک میں نہیں۔
یوں بھی آٹھ بج گئے تھے۔ ابا جان عموماً اسی وقت کھانا مانگتے ہیں۔ لیکن آج جب کھانا لگ گیا تو وہ اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلے۔
امی جان نے زور سے آواز دی۔ ’’آئیے ناں بھئی...‘‘ بڑی بھابی اور بھیا بھی آج گھر پر کھانا کھارہے تھے۔ بھیا ذرا دیر پہلے اپنے دفتر سے واپس آئے تھے۔ ہاتھ منھ دھو کر سیدھے میز پر آگئے۔ انہیں جلدی ہورہی تھی۔
انہوں نے اپنی پلیٹ میں روٹی نکال لی تھی۔ مگر نوالہ توڑا نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر امی جان اور جلدی کرنے لگیں۔
’’اب آتے کیوں نہیں؟‘‘ امی جان نے زور سے آواز دی۔ ’’روٹی، ٹھنڈی مٹی ہوجائے گی...‘‘
جواب میں خاموشی رہی۔ چپّلوں کے گھسیٹنے کی وہ آواز نہ آئی جس سے دور سے پتہ چل جاتا تھا کہ ابا جان آرہے ہیں۔
’’خود ہی تو غل مچاتے ہیں کہ آٹھ بجے کھانا نکال لیاکرو۔ معلوم ہے کہ یہ ڈرامے کا وقت ہے۔ ٹی وی پر ایک ہی تو پروگرام میں شوق سے دیکھتی ہوں۔ کیا مجال کہ کبھی دیکھنے کو مل جائے... کہاں رہ گئے؟‘‘ انہوں نے ایک بار پھرپکارا۔ انہوں نے روٹی کی پلیٹ میں تھوڑا سا سالن نکال لیا اور روٹی مٹھی میں دباکر میز پر سے اٹھیں، پھر ٹی وی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئیں۔
میں نے جھانک کر دیکھا۔ اباجان کے کمرے کی بتّی نہیں جل رہی تھی۔ وہ آج پھر اندھیرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔
ان کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی اور وہ دونوں پیر اوپر کیے کرسی پر بیٹھے تھے۔ میں نے ان کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔ مجھے دیکھ کر ان کے ہونٹ ہلے مگر کوئی لفظ ادا نہیں ہوا۔ بے لفظ، بے آواز... وہ کچھ کہہ رہے تھے۔
میں ان کا ہاتھ پکڑ کر کھانے کے کمرے میں لے آیا۔
’’ارے چاول پکے ہیں...آج تو بھئی بھات ہوگا بھات...‘‘ انہوں نے بچّوں کی سی خوشی سے کہا۔
چاولوں کی قاب اٹھانے میں ان کے ہاتھ کپکپائے تو بڑی بھابی اپنی جگہ سے اٹھیں اور ان کی پلیٹ میں چاول نکالنے لگیں۔
’’بس، بس...‘‘ اباجان نے فوراً ہی ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا اور پلیٹ میں چاولوں کے اوپر شوربا ڈالنے لگے۔
چاولوں کا نوالہ اٹھا کر اباجان منھ کی طرف لے جانے والے تھے کہ ان کی نظر اٹھ گئی جیسے کوئی آپ کی طرف دیکھے جارہا ہو تو پتہ چل جاتا ہے۔ بڑی بھابی ان کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھیں۔
اباجان نے فوراً ہی نوالہ ہاتھوں سے رکھ دیا۔ پھر انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے نوالے کو چمچے میں دھکیلنے لگے۔
وہ چمچہ اٹھاکر ہونٹوں تک لے آئے۔ چمچے سے چاول نہ گریں، اس لیے وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے جھک گئے اور چاول منھ میں ڈالنے کے بعد دوسرے ہاتھ سے اپنے ہونٹ اور ٹھوڑی پونچھنے لگے کہ چاولوں کے اوپر سے ڈالے جانے والا شوربہ منھ سے نکل کر ٹپک نہ رہا ہو۔ شوربے کی دوچار بوندوں کو، جو ان کے خیال میں وہاں تھیں، انہوں نے ہاتھ سے رگڑ کر پونچھا اور اسی ہاتھ سے چاول دھکیل کر چمچے میں ڈالنے لگے۔
بڑی بھابی ان کو دیکھے جارہی ہیں، بھیانے بھی دیکھ لیا۔
’’اسلم روڈ نہاری کھانے اب کون جاتا ہے؟‘‘ بھیا کی آواز میں بشاشت اتنی زیادہ تھی کہ سب کی توجہ ادھر ہوگئی۔ ’’جاوید نہاری والے کو چھوڑ کر اب کہیں اور جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ شام سے دکان کے سامنے گاڑیوں کی لائن لگ جاتی ہے اور دستگیر کی سڑک تک جاتی ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا اس نے ٹیکساس میں بھی برانچ کھول لی ہے...‘‘
توجہ بٹ جانے کے باوجود وہ کن انکھیوں سے ابّا جان کو دیکھے جارہے تھے۔ اباجان کچھ کہہ رہے تھے۔ ان کی آواز معمول سے زیادہ باریک تھی اور ان کے ہونٹوں کے کنارے پر چاول چپکے ہوئے تھے۔
’’بن کے رہے گا پاکستان...‘‘ اباجان پوری قوت سے کہہ رہے تھے اور ان کے منھ سے باریک سی آواز نکل رہی تھی۔
صبح اٹھے تو ابامیاں کی آنکھیں سُرخ تھیں۔ شاید رات کو ٹھیک سے سوئے نہیں تھے۔
مگر اٹھے بھی دیر سے۔ دن نکل آیا تھا۔ صبح کے ناشتے کے لیے میز پر چائے، توس، دودھ، دلیہ رکھ کر امی جان پڑوس والی باجی سے ملنے چلی گئی تھیں۔
واپس آئیں تو میز کی حالت دیکھ کر سر پیٹ لیا۔
’’میز پر یہ دودھ کے دریا کس نے بہادیے؟‘‘ انہوں نے دروازے میں گُھستے ہی چیخنا شروع کردیا۔ ’’دودھ بہہ بہہ کر میز کے کناروں سے ٹپک رہا ہے۔ قالین کا بھی ستیاناس ہوگیا...‘‘
میز کے ایک طرف اباجان بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں چمچہ تھا اور سامنے پیالہ خالی۔
’’بن کے رہے گا پاکستان...‘‘ انہوں نے امی جان کی طرف دیکھتے ہوئے اس طرح کہا کہ امی جان بھی سٹ پٹا گئیں۔
’’کیا کہہ رہے ہیں آپ؟...‘‘ انہوں نے اباجان سے پوچھا۔ پھر جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی بولنے لگیں۔ ’’پنکھا کیوں نہیں چلایا؟ اتنی دیر میں بجلی تو نہیں چلی گئی؟... افوہ، یہ لوڈشیڈنگ بھی جان کا عذاب ہوگئی...‘‘
’’لوڈ شیڈنگ؟‘‘ اباجان کے لہجے میں اجنبیت سی تھی جیسے وہ اس لفظ سے بہت فاصلے سے بول رہے ہوں۔ ’’لوڈشیڈنگ؟ ارے ہم کہہ دے رہے ہیں کہ ہم لے کے رہیں گے پاکستان...‘‘ انہوں نے بہت زور دے کر کہا۔ ’’بن کے رہے گا...‘‘
وہ اتنے زور سے بولے کہ ہانپنے لگے۔ ’’بن کے رہے گا پاکستان، بن کے رہے گا...‘‘ امی جان نے جلدی سے آگے بڑھ کر ان کو پکڑ لیا ورنہ وہ شاید گر پڑتے۔ امی جان کے روکنے کے باوجود وہ دہرائے چلے جارہے تھے: ’’پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان...‘‘
شام کے وقت میں ٹی وی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھا ہوا ریسلنگ چیمپیئن شپ کے مقابلے دیکھ رہا تھا جہاں دو موٹے تازے پہلوان گتّھم گتّھا تھے اور ایک پہلوان دوسرے کو ٹنگڑی مار کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھنے کو تیار تھا، کہ بڑے بھیا دفتر سے واپس آئے۔ ان کے داخل ہوتے ہی امّی جان نے ان سے کہا، ڈاکٹر کے ہاں چلنا ہے، تمہارے ابا الٹی سیدھی باتیں کر رہے ہیں۔
’’تو اس میں ایسی کون سی بات ہے؟‘‘ بڑے بھیا کی تیوری پر بل پڑگئے۔ ’’سارے دن کی کتّے خصّی کے بعد دفتر سے آیا ہوں۔ گھر میں گھسنے بھی نہیں دیا کہ کام بتانے شروع کردیے۔ جیسے میرے انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں۔ آپ لوگوں کے کام ختم ہوکے نہیں دیتے کہ آدمی سکون سے گھر میں دو گھڑی بیٹھ بھی سکے...‘‘ بڑے بھیا زور زور سے بول رہے تھے۔ بڑی بھابی کی ایک جھلک دروازے میں نظر آئی اور غائب ہوگئی۔
’’کبھی بینک کے کام، کبھی گیس کا، کبھی بجلی کا بل اور کچھ نہیں تو ڈاکٹر کے ہاں کے پھیرے۔ سب مجھی پر پڑتی ہے۔ آخر کہاں تک کیے جاؤں؟ اب کیا ہوگیا ہے انہیں؟ ‘‘ بڑے بھیا نے جھلّا کر پوچھا۔
ناشتے کی میز سے لے کر اس وقت تک کی ساری باتیں امّی جان نے دُہرادیں۔ اباجان اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ بڑے بھیا نے آواز دی تو ان کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے۔ انہوں نے ضد کی، نہ کوئی مسئلہ پیدا کیا۔ مگر اصل مشکل ڈاکٹر کے پاس جاکر پیش آئی۔
’’کیا تکلیف ہے ان کو ؟ ‘‘ ڈاکٹر نے تھرما میٹر سے پہلے بخار چیک کیا، پھر بلڈپریشر کا آلہ بازو پر باندھ دیا۔
’’تکلیف؟ ‘‘ بڑے بھیا گڑبڑا سے گئے۔ انہوں نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا۔ اب کیا بتائیں ڈاکٹر کو؟ وہ فیس بھی پیشگی دے چکے تھے اور باہر دوسرے مریضوں کا رش لگا ہوا تھا۔ ’’عمر کا تقاضہ ہے، طبیعت نرم گرم ہوتی رہتی ہے۔ ویسے تو کوئی خاص تکلیف نہیں، ہر وقت پاکستان، پاکستان کرنے لگے ہیں...‘‘ ڈاکٹر کو یہ تو بتانا ہی تھا کہ یہاں کیوں لے کر آئے ہیں۔
بڑے بھیا نے تھوک نگلا اور ڈاکٹر کو بتانے لگے، ’’نہ ٹھیک سے کھارہے ہیں، نہ پی رہے ہیں۔ نہ ان سے سویا جارہا ہے۔ جو بات بھی پوچھو، یہی جواب دیتے ہیں بن کے رہے گا پاکستان...‘‘
پاکستان؟ بن کے رہے گا؟ ڈاکٹر کے چہرے سے ظاہر تھا کہ مرض کی یہ علامت اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ ’’اب کیا بٹ رہے گا اور کون سا پاکستان بننا ہے؟ ‘‘ اس نے اباجان کے حلق اور زبان کا معائنہ کرتے ہوئے پوچھا۔ پھر ان کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’بزرگوار، آخر آپ کیوں یہ بار بار کہے جارہے ہیں؟ ‘‘
اباجان نے اس کی طرف دیکھا اور کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے ٹھنڈی سانس بھری جیسے لوگوں کو سمجھاتے سمجھاتے تھک سے گئے ہوں اور لوگ ہیں کہ سمجھ کے نہیں دے رہے۔ ’’یہ بہت کانٹے کا الیکشن ہے...‘‘ اباجان نے ڈاکٹر کو بتانا شروع کیا۔ ’’آپ پچھلے الیکشنوں کی طرح مت سمجھیے گا اسے۔ مسلم لیگ نے بھی جان لڑادی ہے۔ سلطان عالم خاں سے بہتر کوئی امیدوار کہاں ملے گا؟ پورے ضلع فرخ آباد سے مسلمانوں کا ایک ایک ووٹ خان صاحب کو ملے اور بُھس بھردیں تو یہ دھوتی باز کانگریسیوں میں، سب سالے منھ دیکھتے رہ جائیں۔ دل کھول کے نعرہ لگائیے... لے کے رہیں گے...پاکس تان...!‘‘
ضعف کے باوجود اباجان کی آواز بلند ہوگئی۔ باہر بیٹھے ہوئے مریض اندر جھانکنے لگے۔ بڑے بھیا جھینپ گئے اور اباجان کے کندھے تھپ تھپا کر اٹھنے اور وہاں سے چل دینے کا اشارہ کرنے لگے۔
مطب کے دروازے سے نکلتے نکلتے اباجان رکے اور مُڑ کر ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگے۔ ’’ڈاکٹر صاحب، آپ ووٹ کس کو دیں گے؟ پاکستان کو مت بھولیے گا...‘‘
وہ اس کی مزید وضاحت بھی کرتے اگر بڑے بھیا نے ہاتھ پکڑ کر کھینچ نہ لیا ہوتا۔
جیسے تیسے بڑے بھیا انہیں گھر لے آئے۔ ڈاکٹر نے دوا کوئی نہیں دی۔ ’’پاکستان، پاکستان کے لیے کیا دوا دوں؟‘‘ الٹا اس نے بڑے بھیا پر سوال داغ دیا۔
سکون کا انجکشن لگادیں، بڑے بھیا نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا۔ لیکن ڈاکٹر نے جواب دیا کہ مریض بظاہر سکون سے ہے۔ ممکن ہے کہ انجکشن کے بعد طبیعت بگڑ جائے۔
گھر آئے تو بڑی بھابی نے پوچھا، کیا ہوا۔ ڈاکٹر نے کیا بتایا؟
اس سے پہلے کہ بڑے بھیا تفصیل بتائیں، اباجان اتنے ہی سکون سے بول پڑے۔ ’’ہم نے ڈاکٹر صاحب کو اپنا مطالبہ بتادیا۔ لے کے رہیں گے پاکستان...‘‘
ڈاکٹر کے ہاں سے آنے کے بعد سے اٹھتے بیٹھتے یہ نعرہ اباجان کی زبان پر رہنے لگا۔ ’’آپ نے صبح ناشتہ کرلیا تھا؟‘‘ بڑی بھابی ان سے پوچھتیں تو وہ جواب دیتے، ’’لے کے رہیں گے پاکستان...‘‘
’’اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ ‘‘ امّی جان ان کے جواب سے پریشان ہونے لگتیں مگر اباجان وہی جواب دیے جاتے، ’’بن کے رہے گا پاکستان...‘‘
بڑے بھیا دفتر سے واپس آتے ہوئے ان کے کمرے کے سامنے رک جاتے اور کہتے، ’’آپ نے لائٹ کیوں نہیں جلائی؟ اندھیرے میں کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘ اباجان ان کی طرف دیکھتے اور کہتے ’’لے کے رہیں گے...‘‘
کبھی ان کے پاس چلا جاتا اور میں ان سے پوچھ لیتا، ’’اباجان رات کو نیند کیسی آئی؟ آپ نے کپڑے نہیں بدلے؟ ‘‘
’’ہاں بدل لیں گے...‘‘ وہ کہتے ’’رات بھر یہی خیال آئے جاتا ہے، بن کے رہے گا پاکستان...‘‘
اس نعرے پر ان کا اصرار بڑھتا جارہا تھا۔ پہلے تو دوچار جملے بول بھی لیتے تھے، اب اس کے سوا کوئی بات ہی نہیں کرتے تھے۔ جو پوچھو، وہی ایک جواب... ان کی زبان سے پاکستان، پاکستان سنتے ہی امّی جان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ بات بات پر ٹوکنا بھی جیسے چھوڑ دیا کہ جو کر رہے ہیں کرنے دو۔ پہلے وہ چھپ چھپ کر روتی تھیں۔ پھر ان کے سامنے ہی کہنے لگیں، ’’یہ کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ ہر وقت ایک ہی رٹ لگی رہتی ہے...‘‘
اباجان نے سُن کر سرجھکالیا۔ ’’کیا ہوگیا ہے ہمیں؟ ہم نے یہی تو کہا تھا‘‘... اباجان نے نعرہ دہرایا اور امّی جان آنسو پونچھتی ہوئی وہاں سے اٹھ آئیں۔
ملکی حالات، حالاتِ حاضرہ، بازار کی مندی، سونے کا بھاؤ... میں اخبار پڑھے بغیر صبح کے وقت گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ اس دن بھی میں صوفے پر بیٹھا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی میرے پیچھے کھڑا ہے... پیہم سانس لینے کی آواز آرہی تھی... میں نے چونک کر دیکھا تو اباجان...
انہوں نے منھ پر انگلی رکھ کر چُپ رہنے کا اشارہ کیا اور سر ہلا کر بتانے لگے کہ میں ان کے پیچھے پیچھے ان کے کمرے میں چلا آؤں۔
’’تمہاری بڑی بھابی پر ہمیں شک پڑگیا ہے...‘‘ انہوں نے بہت راز داری سے مجھے بتانا شروع کیا۔ ’’ہمیں لگتا ہے وہ کانگریسی ہوگئی ہیں۔ بھیا تو بالکل ان کے کہنے میں ہے، تمہاری اماں پر ترنگے کا رنگ نہ چڑھ جائے...‘‘ وہ سرگوشی میں کہہ رہے تھے۔
پہلے تو میں ان کی باتوں پر سرہلاتا رہا، پھر موقع دیکھ کر وہاں سے بھاگ آیا اس سے پہلے کہ وہ اپنا وہی نعرہ لگادیں...
میں نے امّی کو نہیں بتایا کہ اباجان کو ان کی سیاسی وفاداری پر شک ہوگیا ہے۔ وہ خدا جانے کیا سمجھیں اور رونا شروع کردیں تو ان کی طبیعت بھی بگڑ جائے گی۔
مگر بتانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ امّی جان کو خود ہی پتہ چل گیا۔ ایک دن پڑوس والی باجی حال چال پوچھنے آئیں۔ امّی جان نے ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور چائے کی پیالی ان کے سامنے لاکر رکھی ہی تھی کہ دروازہ دھڑ سے کھلا۔ اباجان دروازے میں کھڑے تھے... کُرتے کا گریبان کھلا ہوا، پیجامے کا ازار بند لٹکتا ہوا، شیو بڑھا ہوا اور بکھرے ہوئے بال۔ ’’بن کے رہے گا پاکستان...‘‘ انہوں نے پڑوس والی باجی کی طرف دیکھتے ہوئے زور سے کہا۔ امّی جان کے ہاتھ سے پیالی چھوٹتے چھوٹتے بچی اور پڑوس والی باجی چائے کی پیالی ختم کیے بغیر وہاں سے اٹھ گئیں۔
’’اصل میں یہ تحریک پاکستان میں بہت سرگرم تھے...‘‘ امّی جان نے پڑوس والی باجی کو روکنے کے لیے تسلی دینا چاہی۔‘‘ اپنے ضلعے کی مسلم لیگ کے کارکن تھے۔ ۶۴ء کا الیکشن ہونے والا تھا تو جلسوں میں جایا کرتے تھے...‘‘
پڑوس والی باجی ان کی بات سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے باہر نکل آئیں اور بیچ کا گیٹ مضبوطی سے بند کردیا۔ یہ نعرہ لگاتے ہوئے کہیں اباجان ان کے گھر کی طرف نہ نکل آئیں۔
بڑے بھیا نے ایک دن بیٹھ کر انہیں اطمینان سے سمجھانا چاہا۔
’’آپ کیوں یہ بار بار دہرائے جاتے ہیں؟ ‘‘ بڑے بھیا کا لہجہ دھیما تھا مگر مضبوط۔ ’’پاکستان بن تو گیا۔ اب اور کتنا بنے گا؟ یہ نعرہ پرانا ہوگیا۔ ۶۴۹۱ء کے الیکشن کبھی کے ختم ہوگئے۔ سلطان عالم خاں کبھی کے جیت چکے۔ جیتنے کے بعد کانگریس میں شامل ہوگئے تھے۔ اب زندہ بھی نہیں رہے۔ ان کے چھوٹے بھائی اور آپ کے دوست، غلام ربانی صاحب کا بھی انتقال ہوگیا۔ آپ کو پتہ ہے، آپ کہاں پہنچ گئے ہیں، آج کون سی تاریخ ہے؟‘‘
اباجان حیران پریشان ان کی طرف دیکھتے رہے۔ جیسے یہ ساری باتیں ان کی سمجھ میں نہ آرہی ہوں۔
بڑے بھیا ان کو بتاتے رہے، تاویلیں دیتے رہے۔ وہ چپ چاپ سنتے رہے۔ پھر یک بارگی ہاتھ چھڑا کر کھڑے ہوگئے اور دروازے سے جاتے جاتے کہنے لگے، ’’باقی سب باتیں بے کار ہیں۔ لے کے رہیں گے پاکستان...‘‘
اس دن کے بعد ان کو روکنا مشکل ہوگیا۔ اباجان کی تحریک نے آہستہ آہستہ شدت پکڑلی۔
اب وہ اپنے کمرے سے کم ہی باہر نکلتے۔ دن بھر وہیں بیٹھے رہتے۔ نہ بتّی جلاتے، نہ پنکھا۔ کوئی ان کو آواز دیتا تو اس طرح چونک جاتے جیسے کسی نے بھولا بسرا نام یاد دلایا ہو۔ ملگجے، ملے دلے کپڑے، چہرے پر چیونٹی کے انڈوں جیسے سفید بال بڑھے ہوئے... وہ زیادہ تر چپ چاپ رہنے لگے۔ کوئی کھانے کے لیے بلاتا تو کھالیتے۔ نہانے کے لیے کہاجاتا تو بچوں کی طرح رونے لگتے۔ ان کے پاس سے آنے والی پسینے کی بساندھ دبیز ہوگئی تھی۔ ان کے پاؤں کے ناخن بڑھ کر سیاہ اور پیلے ہوگئے تھے۔ بیٹھے بیٹھے وہ اپنے کپڑے خراب کرنے لگے۔ ’’یہ کیا کیا؟‘‘ امّی جان ان سے پوچھتیں تو ان کی طرف سے وہی ایک جواب ملتا، ’’بن کے رہے گا پاکستان...‘‘
بڑی بھابی دوپٹے کا پلّو ناک پر رکھنے لگیں اور کچھ کہے سُنے بغیر اس طرف سے گزرنا چھوڑ دیا۔ رات کو وہ اور بڑے بھیا کھانا کھاکر اندر جاچکے تھے تو ان کے کمرے سے زور زور سے بولنے کی آواز آنے لگی۔ بڑی بھابی کی آواز متواتر، بیچ بیچ میں بڑے بھیا کی آواز۔ بڑی بھابی کی آواز تیز، بھیا کی آواز ہلکی۔
پھر آوازیں آنا بند ہوگئیں۔ یک لخت پورے گھر میں سناٹا چھاگیا۔
امّی جان نہ جانے کتنی دیر تک روتی رہیں، پھر روتے روتے شاید سوگئیں۔
اگلے دن صبح میرے اٹھنے اور بستر چھوڑنے سے پہلے یہ گفتگو زور و شور سے چھڑ چکی تھی۔ رات میں کسی وقت چھوٹے بھیا کو بھی فون کردیا گیا جو اوہائیو میں رہتے تھے۔ شاید وہاں وقت کا کوئی اور پہر ہوگا۔ انہیں کیا اعتراض ہوسکتا تھا؟
’’بٹھا کر چمچوں سے کھلانا پڑتا ہے۔ ان کا گو، موت کون کرے گا؟ ‘‘بڑے بھیا امّی جان کو باور کرارہے تھے۔
’’اب آپ بھی تو تھک جاتی ہیں۔ کہاں تک کریں گی؟ ‘‘ بڑی بھابی کی آواز آئی۔
’’محلّے کا ڈاکٹر تو کسی کام نہیں آرہا۔ یوں ہی کہہ دیتا ہے، کس بات کی دوا دوں؟ موٹے موٹے انگریزی کے لفظ استعمال کرنا سیکھ گیا ہے اور بس۔ اسپتال میں کم از کم علاج تو ہوگا...‘‘ بڑے بھیا کی آواز دھیمی تھی مگر لہجے میں وہی مضبوطی۔ ’’آپ کا جب جی گھبرائے، آپ جاکر مل آئیے گا...‘‘
’’جیتے جی کیسے چھوڑ دوں؟ ‘‘ یا پھر ’’وہاں کیسے ڈال آؤں؟‘‘ امّی جان نے کچھ اس قسم کی بات کہی ہوگی جو مجھ کو سنائی نہیں دی۔ لیکن بڑے بھیا کی آواز بالکل صاف آرہی تھی۔ ’’مہنگا اسپتال ہے تو آپ خرچے کی پروا بھی نہ کریں۔ اباجان کا پراویڈنٹ فنڈ آخر کس کام آئے گا؟ اور پرائیویٹ اسپتال میں وزٹنگ ٹائم کی پابندی بھی نہیں ہوگی...‘‘ میں نے اس سے آگے نہیں سنا کیوں کہ میں بھی کروٹ لے کر بستر سے اٹھ گیا۔
شام کو اماں جان قرآن شریف پڑھنے بیٹھ گئیں اور بڑی بھابی نے گھر کے سارے کمروں میں خوشبو والا اسپرے کرنا شروع کردیا۔
بڑے بھیا اپنے ایک دوست سے گاڑی مانگ کر لائے تھے جس کی سیٹیں چوڑی تھیں۔ چند جوڑی کپڑے، ازار بند ڈالنے کی لکڑی اور ٹوتھ برش جیسا ضروری سامان اس کی ڈگی میں رکھا جاچکا تھا۔
’’ہم کہاں آگئے؟ ہم یہاں سے کدھر جائیں گے؟‘‘ اباجان نے ہمیں دیکھ کر خلاف معمول پورا جملہ ادا کیا۔ وہ بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ تکیے پر ان کا سر جس جگہ ٹکا ہوا تھا، اتنی جگہ کالے، چکنے دھبّے میں تبدیل ہوچکی تھی۔
بڑے بھیا نے کمر میں ہاتھ ڈال کر انہیں اٹھایا۔ میں نے ان کے دونوں ہاتھ پکڑلیے۔
اٹھتے اٹھتے انہوں نے بڑے بھیّا کی اور میری طرف دیکھا۔ ’’لے کے رہیں گے پاکستان...‘‘ ان کی آواز بہت نحیف تھی۔ ’’اب اور کتنے دن لگیں گے پاکستان کے بننے میں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
بھیا نے جواب دیا نہ میں نے۔
’’بن کے رہے گا ناں پاکستان؟‘‘ انہوں نے کم زور آواز میں ایک بار پھر پوچھا۔ وہ بڑے بھیا کی اور میری طرف دیکھ رہے تھے۔
اباجان کی آنکھیں خشک تھیں اور ٹانگوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
(اپریل 2008)
1 تبصرہ:
ہمارے عہد کے نمایاں ترین افسانہ نگار کے دو اہم افسانے ، اپنے شہر اور اپنے ملک سے وابستہ ہماری حسیات سے مکالمہ کرنے والے ، رواں دواں بیانیہ ، تصنیف آپ کا بہت شکریہ
ایک تبصرہ شائع کریں