یہ تین موضوعات ہیں، بالکل الگ الگ اور ان پر بحثیں پر بھی الگ ہی ہونی چاہییں، مگر سو چ رہا ہوں کہ آج ان تینوں کے تعلق سے جو کچھ دل میں ہے، اسی ایک مضمون میں لکھ ڈالوں۔
آپ نے بازار میں کھڑے ہوکر کبھی کسی کا انتظار کیا ہے، کسی ایسے شخص کا جس کی آپ نے صرف موبائل پر آواز سنی ہو، اسے دیکھا نہ ہو اور یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ ابھی وہ شخص تھوڑی دور پر ہے، آپ بار بار ہر نئے آنے والے شخص کو اس امید کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ شاید یہ وہی آدمی ہو، جس کے آپ منتظر ہیں۔ہم لوگ امن کا انتظار اسی طرح کررہے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ وہ ابھی بہت دور ہے، ہم ایک ایسی دنیا کا سپنا دیکھ رہے ہیں، جہاں انسان کو اپنی بات کہنے کے بدلے میں اسی کے گھر آکر گولی نہیں ماردی جائے گی، ایک ایسے دن کا انتظار جو شاید اب عنقا کی سی حیثیت رکھتا ہے۔جہاں نفرت نہیں ہے، قوت برداشت ہے، اپنے عقیدے کی کھوکھلی ڈنٹھل کو چیر کر دیکھنے کا حوصلہ ہے، کہ آج تک جسے انگلیوں میں تھام کر بجاتے رہے، آخر اس میں کہیں پانی ہے بھی یا نہیں۔میں جب کبھی فیس بک پر کسی ملکی، مذہبی مسئلے پر شائع کوئی خبر دیکھتا ہوں تو ان پر موجود کمنٹس دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہوں، پریشان اس لیے، کیونکہ اپنے عقیدے یا زمین کے چھوٹے سے خطے سے بے انتہا محبت کا دعویٰ کرنے والے یہ لوگ، اظہار کے سلیقے سے آشنا نہیں ہیں۔پھر سوچتا ہوں کہ نئی بات یا مخالف بات سن کر حقارت آمیز لہجے میں منہ بنانے بگاڑنے والے لوگ یہ بھول رہے ہیں کہ دہشت گرد کہیں اور سے نہیں آتے، ہاتھ میں پتھر اٹھالینے والے شخص سے بعید نہیں کہ موقع آنے پر وہ ہاتھ میں بندوق بھی اٹھالے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم لوگوں کی محبت سے تربیت کریں، جہاں تک ممکن ہو، جتنا ہوسکے، ان کو درگزر اور برداشت کا عادی بنانے کی کوشش کریں، مگر ظاہر ہے کہ ملا اور پنڈت کا پھیلایا ہوا زہر سماج کی رگوں میں پھیل چکا ہے اور مذہب کی حفاظت پر اپنے آپ مامور ہوجانے والے یہ بے وقوف لوگ نہیں سوچتے کہ بات سب سے بھیانک ہتھیار ہے، زبان سے بڑا کوئی فتنہ نہیں۔ہندوستان اور پاکستان کے تعلق سے ایک بہتر امید رکھ کر بنائی جانے والی فلم بجرنگی بھائی جان، ایسے ماحول میں ایک لطیفے سے کم نہیں دکھائی دیتی، وہ فلم بھی ایک خواب ہے، وہ خواب جو سرحد کے دونوں جانب ہم جیسے لوگ دیکھ رہے ہیں، جو زمین اور مذہب کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے کے لیے تیار نہیں، ان کے آگے مٹی میں سنے ہوئے قدم سب سے بڑا مسئلہ ہیں، انہیں اپنے لوگوں کو ہنستے بولتے ہوئے، بنا خوف کے اظہار خیال کرتے ہوئے اور سچائی کی دریافت کرتے ہوئے دیکھنا پسند ہے۔لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ فائدے اور نقصان کی سیاست کرنے والے لوگ ہتھیاروں کی آگ پر دنیا کو بٹھانا چاہتے ہیں، میں گاندھی کا پیروکار ہوں، اس مشکل وقت میں بھی، جب ان کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جانے لگا ہے۔میں نہیں کہتا کہ آپ گاندھی کو مانیے، انہیں تسلیم کیجیے، اپنی طرف سے ایک رہنما چن لیجیے، جو آپ کو امن کے راستے کی طرف لے جائے، اب میرے خیال میں اسکولوں، کالجوں میں باقاعدہ ایک سبجیکٹ ہونا چاہیے اور وہ سبجیکٹ سوشل میڈیا پر کسی مخالف بات کو سن کر ری ایکٹ کرنے کے بارے میں ہو، تاکہ لوگ اس نفرت کی دم پر پاؤں رکھنے کے اہل ہوسکیں۔کہتے سنتے اب شرم بھی نہیں آتی، اور بہت عام سی بات ہے یہ کہ نفرت چالاک ہوگئی ہے، اب لوگ کھل کر کہنے لگے ہیں کہ فلاں شخص مسلمان ہے، اس لیے مجھے پسندنہیں ہے، فلاں کا تعلق ہندوازم سے ہے، اس لیے وہ ضرور برا ہوگا، اب چاہے وہ اپنی ذات میں کتنا ہی سیکولر ہو، کتنا ہی آزاد ذہن رکھتا ہو، کتنا ہی روشن خیال ہو، کٹر پنتھیوں کے خلاف لڑتا آیا ہو، نفرت کے پروردہ یہ تمام لوگ اسے بھی مذہب کی مخصوص شناخت سے باہر نکل کر کبھی نہیں دیکھ سکتے۔بھئی یہ دنیا ہے! یہاں سارے لوگ مذہب کو مانتے ہوں یہ کیا ضروری ہے، رام اور رحمان دونوں افکار کے حوالے سے غیر مذہبی بھی تو ہوسکتے ہیں۔شناخت، غور سے دیکھیے توسارے مسئلے پیدا کرتی ہے، یہ کالا ، وہ گورا، یہ قریشی، وہ سید، یہ ہندو وہ مسلمان، یہ شہری وہ دیہاتی، یہ ہندوستانی وہ پاکستانی۔ایسا لگتا ہے کہ انسان
نے خود کو اتنے خانوں میں تقسیم کرلیا ہے کہ اب اس کی اپنی ذمہ داریاں ، اس نے عالم انسانیت کی طرف سے سمیٹ کر صرف اس چھوٹے سے خطے کی طرف جھونک دی ہیں۔یہ زمین ہماری ہے، ہمیں اسے مل کر بنانا ہے، مگر ہم اسے مستقل بگاڑ رہے ہیں، اس کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ نیوز چینل پر سمندر کی لہروں میں تیر کر آنے والے کسی چھوٹے سے بچے کی لاش دیکھتے دیکھتے بھی ہم بہ آسانی رات کا کھانا کھالیتے ہیں۔ہم نفرت کے عادی ہوگئے ہیں، پتھر کے زمانے سے تو ہم یہ کہہ کر باہر نکلے تھے کہ ہماری دم گھٹ گئی ہے، آنکھیں روشن ہوگئی ہیں، ہم اپنے آبا و اجداد سے زیادہ ذہین ہیں، آسمان و زمین کو مسخر کرنا چاہتے ہیں اور خلا میں موجود دوسری مخلوقات کے گھروں پر دستک دینے کا عزم رکھتے ہیں، مگر کبھی غور ہی نہیں کرتے کہ ابھی تک ہماری گدیوں پر نفرت کا گوبر لگا ہوا ہے۔
اب دوسرے موضوع کی طرف آتا ہوں، اردو کی حالت کا رونا نہیں روؤں گا، اداروں وداروں کا حال کیا ہے، یہ ہم سب جانتے ہیں، آج کچھ دوسری بات کروں گا، ہوسکتا ہے کہ بزرگوں کو یہ باتیں بھلی معلوم نہ ہوں،مگر اس میں ان ہی کا قصور زیادہ ہے۔اردو میں فیک ٹیلنٹ کو قبول کرنے، بے جاستائش کرنے کی اپنی روایت رہی ہے، جگر مرادآبادی جیسے شاعر میری نظر میں مشاعروں کی فضا کو بگاڑنے کے بڑے مجرم ہیں۔ان کے چند ایک واقعات ایسے ہیں، جنہیں لوگ بہت خوش ہوہو کر سناتے ہیں، مگر وہ ایک چالاک شرابی ڈھنڈاری شاعر تھے،ان کی شاعری میں بھی کوئی خاص دم نہیں تھا، کلاسیکی روایت کو آگے بڑھانے کی ان کی اوقات تو نہ تھی، البتہ انہوں نے مشاعروں میں محبت کی جگہ چھچھورے اور اتھلے پن کو عشق کا نام دے کر بڑا رسوا کیا۔ان کا ایک مشہور شعر ہے:
یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
دوسرا مصرع خراب ہے، بھونڈا ہے، دریا پار کیا جاتا ہے، ڈوب کے کہاں جایا جاتا ہے، کون ڈوب کے جاتا ہے، یہ کوئی معقول بات نہیں ہے، کوئی بھی عقل مند آدمی اس شعر میں موجود اس سقم کی طرف نگاہ نہیں کرتا، ظاہر ہے کہ شعر مشہور اتنا ہے، اور مشہور چیزیں رائج ہوتی ہیں، رائج چیزوں پر سوچنے کا رواج ہمارے عہد میں بالکل نہیں ہے اور ہوگا بھی تو اردو والوں کے یہاں تو مفقود ہے۔جگر مرادآبادی، اگر کہتے کہ ڈوبنا ہے، آگ کے دریا میں تو بات سمجھ میں آتی، ایک شعر جو شیفتہ کے نام سے مشہور ہے، مگر شاید شیفتہ کا نہیں کہ ان کے دیوان میں کہیں پایا نہیں جاتا، کچھ یوں ہے :
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
پھر بھی اپنی بات معقول طرح سے کرتا ہے
اس شعر میں ایک قسم کا عجیب سا زنخہ پن موجود ہے، جیسے کوئی شخص انگلیاں نچا نچا کر بڑے چھچھورے انداز میں ہمیں سمجھا رہا ہو کہ میاں عشق یہ ہے، بس اتنا سمجھ لیجے، جگر کے یہاں ایسی بے ربطیاں بہت نمایاں ہیں، ا سی غزل کا ایک شعر ہے:
کیا عشق نے سمجھا ہے، کیا حسن نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
پوچھنے کی بات یہ تھی کہ بھائی صاحب! عشق سے بڑا خاک نشیں کون ہوگا، جس کو ہوجائے وہ سلطنت نہیں دیکھتا، تخت و تاج نہیں دیکھتا، رنگ نہیں دیکھتا، نسل نہیں دیکھتا اور آپ اس سے بھی بڑے خاک نشیں ہوگئے ہیں، اچھا ہوگئے ہیں تو اس کا جواز کیا ہے اور کس طرح ہوگئے ہیں، کچھ سمجھ نہیں آتا۔بہرحال، میرے خیال میں اسی طرح کے بے ہودہ شاعروں کی واہ واہی کی وجہ سے بہت سے معیاری شاعر بے چارے اس دور میں بھی پردۂ خفا میں رہے اور ان موزوں گووؤں سے اتنا نہ ہوا کہ حکومت کے قریب منڈلاتے ہوئے ان سیدھے سچے شاعروں کا کبھی تذکرہ کرتے، انہیں ان کا حق دلوانے کی کوشش کرتے۔میرے ایک عزیز نے مجھے خبر سنائی کہ دہلی اردو اکادمی کے وائس چیرمین نامزد کیے جانے والے صاحب کے آگے جب بلراج مینرا کا نام لیا گیاتو وہ پوچھ بیٹھے کہ یہ صاحب کون ہوتے ہیں۔جیسے کہ میں نے دہلی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے صدر کو خود یہ پوچھتے سنا کہ بھئی! یہ ظفر اقبال صاحب کون ہیں،جن کے اتنے مجموعے شائع ہوگئے، انہیں کچھ اور کام دھام ہے یا نہیں۔اس ساری صورت حال کے قصور وار ساٹھ ستر فیصد ہمارے وہ بزرگ ہیں، جنہوں نے اپنے ذرا سے فائدے کے لیے اچھے عہدوں پر، بے وقوف، گھامڑ اور ادب سے دور کا بھی واسطہ نہ رکھنے والے لوگوں کو بٹھا رکھا ہے یا ان کی سفارش کی ہے۔ان میں ایسے سنجیدہ ادیبوں کے نام بھی شامل ہیں، جن کی سفارشوں کا اہل ہونے کے لیے پہلے ’’ان کا آدمی ‘‘ بننا پڑتا ہے۔کچھ ایسے ہیں جو بہت سادہ صورت شکل رکھتے ہیں، خود کو اردو کا بڑا ادیب تصور کرتے ہیں اور اپنی خدمات گنواتے نہیں تھکتے، بلکہ جوانوں کی ان کے منہ پر بڑی تعریفیں کرتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑتے، مگر جب کہیں ان باصلاحیت نوجوانوں کے حق میں بولنے کی باری آتی ہے تو کسی صاحب حیثیت شخص سے یا مائک پر ان کا نام لیتے ہوئے کتراتے ہیں، اور اس جگہ پرپھر ایسے بے وقوفوں کا ذکر چھیڑتے ہیں جوان بزرگوں کی نازبرداری کے دل سے قائل ہوں۔ظاہر ہے کہ جینوین آدمی دس بار شکریہ نہیں ادا کرسکتا، اس کا کسی معقول جگہ پر ہونا، اگر اس کے حق میں دس سے پندرہ فی صد مفید ہے تو اس سے متاثر ہونے والے لوگوں کے حق میں اسی سے پچاسی فیصد ہے۔
اس مختصر سے مضمون میں اب میں مختصراً کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کروں گاجو ڈرے ہوئے ہیں، ڈرے ہوئے ہیں اس بات سے کہ اردو سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتااور وہ بھی ہندوستان میں، جہاں اداروں پر اوٹ پٹانگ لوگ قابض ہوں اور پرائیوٹ سیکٹر میں اردو کو پوچھتا تو کیا جانتا بھی نہ ہو۔ایسے بہت سے ہیں جو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وقت برباد کرتے ہو، کیوں یہ سب کرتے ہو، اس سے آخر فائدہ کیا ہے، تمہیں تو کچھ نہیں ملتا، اس میں اتنی سرکھپائی کرکے ملے گا کیا، ادبی دنیا جیسے دس ادارے بھی مل کر اردو کا کچھ بنا نہیں سکتے۔ان سے میری ایک ہی گزارش ہے کہ مجھے میرے حال پر چھوڑدیں۔میں جب تک استطاعت ہے، یہ سارے کام کرتا رہوں گا اور اگر وقت بہت برا آیا تو یا تو مزدوری کرلوں گا یا خودکشی، مگر ان کے آگے ہاتھ دراز نہیں کروں گا۔
2 تبصرے:
اشعار کی تعبیر سے قدرے اختلاف کے باوجود مسئلے کو جس شدت سے آپ نے پیش کیا ، جس اذیت کو آپ جھیل رہے تحر یر پڑھنے کے بعد ہم بھی جھیل رہے ہیں۔ خدا آپ کی توفیقات اور قوت برداشت میں مزید اضافہ فرمائے ۔
تصنیف صاحب اردو سے یا کسی بھی محبت کا سفر ایک ولولہ انگیز سفر ہے . آپ اسے بھرپور اعتماد کے ساتھ جاری رکھیے . آپ کے ساتھ انگنت لوگ بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر محبت اس سفر میں آپ کی شریک سفر ہے shariq ali www.valueversity.com
ایک تبصرہ شائع کریں