بسم اللہ الرحمن الرحیم
دیباچہ
خدا وند کریم کا شکر اپنی گویائی کی بساط بھر تو ادا ہوہی نہیں سکتا، اُس کی بندہ نوازیوں اور ہزاروں لاکھوں نعمتوں کی مکافات کا حوصلہ چھوٹا منھ بڑی بات۔
پیغمبر صاحب کی مدح اپنی ارادت ناقص کی قدر تو بن ہی نہیں پڑتی، ان کی شفقتوں اور دل سوزیوں کی تلافی کا دعوا اتنی سی جان گز بھر کی زبان۔ حمد و نعت کے بعد واضح ہوکہ ہرچند اس ملک میں مستورات کو پڑھانے لکھانے کا رواج نہیں مگر پھر بھی بڑے شہروں میں بعض شریف خاندانوں کی اکثر عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ، مذہبی مسائل اور نصائح کے اردو رسالے پڑھ پڑھالیا کرتی ہیں۔ میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میں بھی دہلی کے ایک ایسے ہی خاندان کا آدمی ہوں۔
خاندان کے دستور کے مطابق میری لڑکیوں نے بھی قرآن شریف اور اُس کے معنی، ’قیامت نامہ‘، ’راہِ نجات‘ وغیرہ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے اردو کے رسالے گھر کی بڑی بوڑھیوں سے پڑھے۔ گھر میں رات دن پڑھنے لکھنے کا چرچا تو رہتا ہی تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ ہم مَردوں کی دیکھا دیکھی لڑکیوں کو بھی علم کی طرف ایک خاص رغبت ہے لیکن اُس کے ساتھ ہی مجھ کو یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ نرے مذہبی خیالات بچوں کے مناسبِ حالت نہیں اور جو مضامین اُن کے پیشِ نظر رہتے ہیں ان سے ان کے دلوں کو افسردگی، اُن کی طبیعتوں کو انقباض اور ان کے ذہنوں کو کُندی ہوتی ہے۔ تب مجھ کو ایسی کتاب کی جستجو ہوئی جو اخلاق و نصائح سے بھری ہوئی ہو اور اُن معاملات میں جو عورتوں کو زندگی میں پیش آتے ہیں اور عورتیں اپنے توہّمات اور جہالت اور کج رائی کی وجہ سے ہمیشہ مبتلاے رنج و مصیبت رہا کرتی ہیں۔ ان کے خیالات کی اصلاح اور ان کی عادات کی تہذیب کرے اور کسی دل چسپ پیرائے میں ہو جس سے ان کا دل نہ اُکتائے، طبیعت نہ گھبرائے مگر تمام کتاب خانہ چھان مارا، ایسی کتاب کا پتا نہ ملا پر نہ ملا۔ تب میں نے اس قصّے کا منصوبہ باندھا۔ تین برس ہوئے میں جھانسی میں تھا کہ اکبری کا حال قلم بند کیا۔ لڑکیوں کو تو اس کا وظیفہ ہوگیا اور ہر روز ختم کتاب کا تقاضا شروع کیا، یہاں تک کہ ڈیڑھ برس کے بعد اصغری کا حال بھی لکھا گیا۔ ہوتے ہوتے اس کتاب کا چرچا محلے میں ہوا اور چند عورتیں اس کے سننے کو آئیں جس نے سنا ریجھ گئی، اونچے اونچے گھروں میں کتاب منگوائی گئی۔ نقل لینے کے ارادے ہوئے، اسی اثنا میں بڑی لڑکی کاعقد کردیا گیا اور بطور جوہرِ بیش بہا یہ کتاب میں نے اُس کے جہیز میں دی۔ اُس کی سسرال میں بھی اِس کتاب کی شہرت خوب ہوئی۔ جب میں نے دیکھ لیا کہ یہ کتاب عورتوں کے لیے نہایت مفید ہے اور خوب دل لگاکر پڑھتی اور سنتی ہیں تب اس کو جناب صاحب ڈائرکٹر بہادر مدارسِ ممالکِ شمالی و مغربی کے ذریعے سے سرکار میں پیش کیا۔ سرکار کی قدردانی نے تو میری آبرو اور اس کتاب کی قیمت کو ایسا بڑھایا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے خاطر خواہ اپنی مراد اور محنت کی داد پائی۔
جو کچھ وقت اس کتاب کی تصنیف میں صرف ہوا، اُس کے علاوہ مدتوں یہ کتاب اس غرض سے پیشِ نظر رہی کہ بولی بامحاورہ ہو اور خیالاتِ پاکیزہ اور کسی بات میں آورد اور بناوٹ کا دخل نہ ہو۔ چوں کہ بالکل نئے طور کی کتاب ہے عجب نہیں کہ پھر بھی اس میں کسر رہ گئی ہو۔ ناظرین سے توقع ہے کہ معذور رکھیں کیوں کہ اس طرز میں یہ پہلی ہی تصنیف ہے۔
العبد نذیر احمد وقفہ اللہ التزود لغد
تقریظ
جناب معالی انتساب افضل العلما ایم کیمپسن صاحب بہادر
ڈائرکٹر آف پبلک انسٹرکشن ممالکِ شمال و مغرب
مجھ کو اس کتاب کے پہنچنے سے بہت خوشی حاصل ہوئی، اس لیے کہ یہ کتاب سرکار کے ایک ملازمِ ذی لیاقت اور عالمِ بااستعداد کی تصنیف سے ہے۔
مشارٌ الیہ اُن تین ہندستانی اشخاص میں سے ہے جن کو سرجارج انڈنسٹن صاحب لفٹننٹ گورنر سابق نے چند سال ہوئے کہ اردو زبان میں مجموعۂ تعزیراتِ ہند کا ترجمہ کرنے کے لیے منتخب کیا تھا، چناں چہ اُس نے اِس خدمت کے جلدومیں خلعت حاصل کیا اور اُس وقت سے سررشتۂ مال میں عمدہ عہدوں پر مامور ہے۔ یہ کتاب نہایت دل چسپ اور اس ملک کے لوگوں کے مناسب حال ہے۔
اب تک اس قسم کی کتاب کوئی نہیں ہوئی اور عبارت اور طرزِ بیان کی نظر سے زبانِ اردو کا ایک بہت اچھا نمونہ ہے۔ کتاب مذکور اس باب میں مرزا نوشہ دہلوی متخلص بہ غالب کے حال کے چھپے ہوئے رقعات کے برابر ہے اور فی الواقع الف لیلہ اور بدرالدین خاں دہلوی کی بوستانِ خیال کی اردو کے ہم پلّہ ہے۔
نذیر احمد کی یہ تصنیف روزمرہ کے پڑھنے کے لائق اور عام فہم ہے اور اُس کا مطلب صاف اور عمل کرنے کے قابل ہے، اس میں مضامین عاشقانہ اور نازک خیالات جن کو اس ملک کے مصنف اپنی شہرت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، نہیں ہیں اور مجھ کو امید ہے کہ اور بہت لوگ بھی اس مصنف کی تقلید کریں گے۔
(انتخاب ڈاکٹ نمبری 925، مورخہ 22؍جولائی 1869ء مقام نینی تال)
یہ کتاب ظاہراً عورتوں کے فائدے کے واسطے تالیف کی گئی ہے اور اس میں اہلِ اسلام کے ایک شریف خاندان کاا یک فرضی قصہ بیان کیا گیا ہے۔
یہ کل قصّہ شرفاکی زبانِ روزہ مرّہ میں بیان کیا گیا ہے کہ وہی اس ملک کی اصل اردو ہے، نہ وہ جس میں نمائش کے لیے بڑے بڑے الفاظ اور مضامینِ رنگین بھردیے جائیں۔ حالات ایسے ایسے واقعی لکھے ہیں جو ہر ایک عورت کو سسرال میں پیش آیا کرتے ہیں اور زنان خانہ کے وہ طور اور طریق بیان کیے ہیں کہ جو اہلِ یورپ اس کو پڑھے گا اس ملک کی عورتوں کے روزمرہ حالات کی کسی قدر واقفیتِ اول اسی کتاب سے حاصل کرے گا۔ عورتوں کی زبان او ران کی رغبت اور نفرت اور بچوں کا لاڈ پیار اور امورِ خانہ داری میں عورتوں کا اختیار اور ان کی جہالت محض اور حسد اور مکر اور فریب یہ سب اس کتاب سے خوب عیاں ہوتے ہیں اور بیان سے کوئی علامت مبالغے کی نہیں پائی جاتی۔ ظاہر ہے کہ مصنف نے اصل حقیقت بیان کی ہے اور قصے کی نصیحت نفسِ قصّہ سے نکلتی ہے۔ مشار الیہ کی لیاقتِ علمی مشہور اور معروف ہے لیکن اس نے اس کتاب میں اس کے اظہار کا قصد نہیں کیا اور جابجا جوخیالات اُس نے لکھے ہیں اُن سے صداقت اور طبیعت کی راستی پائی جاتی ہے۔ جن اشخاص کا مذکور اس قصّے میں ہے وہ پڑھنے والے کو ایسے نظر آتے ہیں کہ گویا اُن کی نقل ہورہی ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں کسی ہندستانی مصنف نے اس سے پہلے بجائے لفّاظی اور مدّاحی کے بات چیت اور گفت و شنید سے اصل حقیقت کو ایسا ادا نہیں کیا۔
جس وقت یہ کتاب مشہور ہوگی، سیکڑوں آدمی اِس کو شوق سے پڑھیں گے اور ممکن نہیں کہ تعلیمِ نسواں کے لیے فائدہ مند نہ ہو۔ فقط۔
(انتخابِ یادداشت)
تقریظ
جناب مستطاب معلی القاب نواب سرولیم میور صاحب بہادر
کے سی ایس آئی لفٹننٹ گورنر ممالکِ شمال و مغرب
جناب نواب لفٹننٹ گورنر بہادر نے کتاب ’مراۃ العروس‘ کو ملاحظہ فرمایا اور بہت خوش ہوئے۔ یہ کتاب اس رُتبے کی ہے کہ نواب ممدوح کے نزدیک اردو میں کوئی اور کتاب اِس کی ثانی نہیں ہے اور جو تعریف صاحب ڈائرکٹر بہاد رنے لکھی ہے واقع میں یہ کتاب اُس کے لائق ہے۔ حالات بعینہٖ مثل سرگذشتِ واقعی کے ہیں اور زبان سلیس اور بلاتصنّع ہے اور ہندستانیوں کی خانہ داری کے معاملات راست راست مطابق حقیقت بیان کیے گئے ہیں اور جن اشخاص کا مذکور اس میں ہے اُن میں سے ہر ایک کی طینت کا حال اُس سے جدا جدا ظاہر ہوتا ہے اور جابجا بلا تصنّع دل پر اثر ہونا اور گداز طبیعت پیدا کرنا بھی اُس سے پایا جاتا ہے اور ہر ایک واقعہ سے تہذیب اخلاق با حسن معاشرت کی ایک نصیحت نکلتی ہے اور یہ بات بھی اُس سے بخوبی روشن ہوتی ہے کہ ہندستان میں مستورات کو معاملات خانہ داری میں بہت سا دخل ہے اور جب کہ ذہانت اور نیک دانی پر اثرِ تعلیم مستزاد ہو تو وہ اختیار نہایت عمدہ نتیجوں کا موجب ہوسکتا ہے اور یہ ہرگز خیال میں نہیں آتا کہ ہندستانیوں میں سے کوئی مردِ شریف اس کتاب کا مطالعہ کرے اور مستورات کی تعلیم سے جو فوائد بے شمار ہوتے ہیں، وہ اُس کے دل پر نقش کالحجر نہ ہوجائیں۔
علاوہ بریں اس کتاب میں ایک عجیب وصف یہ ہے کہ ہندستان کی مستورات کے پڑھنے کے واسطے بہت مناسب ہے۔ ممکن نہیں کہ اِن کو مرغوبِ خاطر نہ ہو اور ان کی عقل و دانش کی اصلاح نہ کرے۔ اور کسی شریف ہندستانی کو اپنے خاندان میں اِس کتاب کے پڑھانے میں تامل نہیں کرنا چاہیے بلکہ یقین رکھنا چاہیے کہ اس میں اُن کا دل بھی لگے گا اور فائدہ بھی حاصل ہوگا۔
تمام کتاب میں کوئی مضمون ایسا نہیں جو پاکیزہ اور پُراز تہذیب نہ ہو۔ یا جس سے کسی ایسے قاعدہ یا اصول کی تعلیم نہ ہوتی ہو جو خاص کر اہلِ اسلام کے نزدیک عیب سے بری اور نیکی سے مملو ہے۔ محمد نذیر احمد کی بڑی تعریف اِس بات کی ہے کہ اُس نے راستی کی جانب ایک نئی راہ نکالی ہے اور سادہ و سلیس عبارت میں تصنیف مفید اور دل چسپ نمونہ دوسروں کے واسطے پیدا کردیا ہے۔ جناب نواب لفٹننٹ گورنر بہادر کو یقین ہے کہ بہت لوگ جلد اس طرز کی تقلید کریں گے۔ جناب نواب لفٹننٹ گورنر بہاد رکو ایک نوعِ خاص کی خوشنودی محمد نذیر احمد کو پورے ایک ہزار روپیے کے انعام کے عطا کرنے میں ہے بلکہ ازراہِ قدردانی خود اپنی جیبِ خاص سے ایک گھڑی جس پر الفاظِ مناسب کندہ ہوں گے عطا فرمائیں گے اور امید رکھتے ہیں کہ یہ صلہ محمد نذیر احمد کو کسی مقام پر جو مشارالیہ کے لیے سہولیت کی جگہ ہو یعنی شاید مقام اٹاوا جب کہ نواب محتشم الیہم کا لشکر اُس مقام سے ہوکر گزرے، سردربار عنایت فرمائیں۔ حکم دیا جائے کہ سرکار کے واسطے دو ہزار نقلیں پتّھر کے چھاپے کی نہایت پسندیدہ طرز کی جلد مطبوع ہوں اور محمد نذیر احمد کو اجازت ہے کہ اس کتاب کا حقِ تصنیف حاصل کرنے اور اپنی طرف سے اِس کو چھپوانے کے لیے بھی تدابیرِ مناسب عمل میں لائے ۔ یقین ہے کہ یہ کتاب بہت شہرت پکڑے گی، گو اس کی عبارت سادہ و سلیس دیسی زبانوں کے پڑھنے والوں کی نظر میں اولاً بے زینت اور نئی نئی معلوم ہو۔ جناب نواب لفٹننٹ گورنر بہادر کی دانست میں مناسب ہے کہ اس کتاب کے لیے صاحبان بورڈ ممتحن کی خدمت میں سفارش کی جائے کہ امتحان میں داخل کرنے کے لائق ہے۔ اس ملک کے عام مروجہ حکایات بے لطف کے مقابل میں کہ وہ اکثر قابلِ اعتراض بھی ہیں، اس کتاب کے نہایت عمدہ مضامین سے پڑھنے والوں کو نہ صرف یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ سلیس اور فصیح زبانِ روزمرہ سے واقفیت حاصل ہو بلکہ امورِخانہ داری میں بھی بہت واقفیت پیدا ہوگی اور ممکن نہیں کہ جن لوگوں کو بو جہ اپنے مناصب کے لوگوں سے کام پڑتا ہے ان کے لیے فہمیدہ معاملات میں بکارآمد نہ ہو۔ فقط۔
انتخاب چٹھی گورنمنٹ نمبری 1236۔ الف، مورخہ 20؍اگست 1869ء، مقام نینی تال
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جو آدمی دنیا کے حالات پر کبھی غور نہیں کرتا، اس سے زیادہ کوئی بے وقوف نہیں ہے اور غور کرنے کے واسطے دنیا میں ہزاروں طرح کی باتیں ہیں، لیکن سب سے عمدہ اور ضروری آدمی کا حال ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ جس روز سے آدمی پیدا ہوتا ہے، زندگی میں مرنے تک اُس کو کیا کیا باتیں پیش آتی ہیں اور کیوں کر اُس کی حالت بدلا کرتی ہے۔ انسان کی زندگی میں سب سے اچھا وقت لڑکپن کا ہے۔ اس عمر میں آدمی کو کسی طرح کی فکر نہیں ہوتی۔ ماں باپ نہایت شفقت اور محبت سے اُس کو پالتے ہیں اور جہاں تک بس چلتا ہے اُس کو آرام دیتے ہیں۔ اولاد کے اچھا کھانے، اچھا پہننے سے ماں باپ کو خوشی ہوتی ہے بلکہ ماں باپ اولاد کی آرام کے واسطے اپنے اوپر تکلیف اور رنج گوارا کرلیتے ہیں۔ مرد جو باپ ہوتے ہیں کوئی محنت اور مزدوری سے کماتے ہیں، کوئی پیشہ کرتے ہیں، کوئی سوداگری ، کوئی نوکری، غرض جس طرح بن پڑتا ہے اولاد کی آسائش کے واسطے روپیہ پیدا کرتے ہیں۔ عورتیں جو ماں ہوتی ہیں اگر باپ کی کمائی گھر کے خرچ کو کافی نہیں ہوتی، بعض اوقات خود بھی روپیہ پیدا کرنے کے واسطے محنت کیا کرتی ہیں۔ کوئی ماں سلائی سیتی ہے، کوئی گوٹا بُنتی ہے، کوئی ٹوپیاں کاڑھتی ہے، یہاں تک کہ کوئی مصیبت ماری ماں چرخہ کات کر، چکّی پیس کر یا ماماگری کرکے اپنے بچّوں کو پالتی ہے۔ اولاد کی محبت جو ماں باپ کو ہوتی ہے ہرگز بناوٹ اور ظاہرداری کی نہیں ہوتی بلکہ سچی اور دلی محبت ہے اور خدا تعالیٰ نے جو بڑا دانا ہے، اولاد کی یہ مامتا ماں باپ کو اس لیے لگادی ہے کہ اولاد پرورش پائے۔ ابتدائے عمر میں بچّے نہایت بے بس ہوتے ہیں، نہ بولتے، نہ سمجھتے، نہ چلتے، نہ پھرتے۔ اگر ماں باپ محبت سے اولاد کو نہ پالتے تو بچے بھوکے مرجاتے۔ کہاں سے ان کو روٹی ملتی، کہاں سے کپڑا لاتے اور کیوں کر بڑے ہوتے۔ آدمی پر کیا موقوف ہے جانوروں میں بھی اولاد کی مامتا بہت سخت ہے۔ مرغی بچوں کو کس طرح پالتی ہے۔ دن بھر اُن کو پروں میں چھپائے بیٹھی رہتی ہے اور ایک دانا اناج کا بھی اُس کو ملتا ہے تو آپ نہیں کھاتی، بچوں کو بُلاکر چونچ سے اُن کے آگے رکھ دیتی ہے اور اگر چیل یا بلّی اُس کے بچّوں کو مارنا چاہے تو اپنی جان کا خیال نہ کرکے لڑنے اور مرنے کو موجود ہوجاتی ہے۔ غرض یہ خاص محبت ماں باپ کو صرف اسی لیے خدا نے دی ہے کہ چھوٹے سے ننھے ننھے بچوں کو جو ضرورت ہو، اٹکی نہ رہے۔ بھوک کے وقت کھانا اور پیاس کے وقت پانی، سردی سے بچنے کو گرم کپڑا اور ہر طرح کے آرام کی چیز وقتِ مناسب پر مل جائے۔ دیکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ خاص محبت اُسی وقت تک رہتی ہے جب تک بچّوں کو ضرورت اور احتیاج ہوتی ہے۔ جب مرغی کے بچّے بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ ان کو پروں میں چھپانا چھوڑ دیتی ہے اور جب بچّے چل پھرکر اپنا پیٹ بھرلینے کے قابل ہوجاتے ہیں مرغی کچھ بھی اُن کی مدد نہیں کرتی، بلکہ جب بہت بڑے ہوجاتے ہیں تو اُن کو اس طرح مارنے لگتی ہے گویا وہ ان کی ماں نہیں ہے۔ آدمی کے ماں باپ کا بھی یہی حال ہے۔ جب تک بچّہ بہت چھوٹا ہے، ماں دودھ پلاتی ہے اور اُس کو گود میں اٹھائے پھرتی ہے۔ اپنی نیند حرام کرکے بچّے کو تھپک تھپک کر سلاتی ہے، جب بچہ اتنا سیانا ہوا کہ وہ کھچڑی کھانے لگا، ماں دودھ بالکل چھڑا دیتی ہے اور وہی دودھ جس کو برسوں پیار سے پلاتی رہی، سختی اور بے رحمی سے نہیں پینے دیتی، کڑوی چیزیں لگالیتی ہے اور بچّہ ضد کرتا ہے تو مارتی اور گُھڑکتی ہے۔ چند روز کے بعد بچّوں کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ گود میں لینا تک ناگوار ہوتا ہے۔ کیا تم نے اپنے چھوٹے بھائی بہن کو اس بات پر مار کھاتے نہیں دیکھا کہ ماں کی گود سے نہیں اُترتے ہیں۔ ماں خفا ہورہی ہے کہ کیسا ناہموار بچّہ ہے، ایک دم کو گود سے نہیں اُترتا۔ اِن باتوں سے یہ مت سمجھو کہ ماں کو محبت نہیں رہی، بلکہ ہر حالت کے ساتھ ایک خاص طرح کی محبت ہوتی ہے، اولاد کا حال یکساں نہیں رہتا۔ آج دودھ پیتے ہیں، کل کھانے لگے، پھر پاؤں چلنا سیکھا۔ جتنا بڑا بچّہ ہوتا گیا اُسی قدر محبت کا رنگ بدلتا گیا۔ لڑکے اور لڑکیاں پڑھنے اور لکھنے کے واسطے کیسی کیسی ماریں کھاتی ہیں۔ اگرچہ بے وقوفی سے بچّے نہ سمجھیں لیکن ماں باپ کے ہاتھو ں سے جو تکلیف بھی تم کو پہنچے، وہ ضرور تمھارے اپنے فائدے کے واسطے ہے۔ تم کو دنیا میں ماں باپ سے الگ رہ کر بہت دنوں جینا پڑے گا۔ کسی کے ماں باپ تمام عمر زندہ نہیں رہتے۔ خوش نصیب ہیں وہ لڑکے اور لڑکیاں، جنھو ں نے ماں باپ کے جیتے جی ایسا ہنر اور ایسا ادب سیکھا جس سے ان کی تمام زندگی خوشی اور آرام میں گزری اور نہایت بدقسمت ہے وہ اولاد جس نے ماں باپ کی زندگی کی قدر نہ کی اور جو آرام بطفیل والدین اُن کو میسر ہوا اُس کو اکارت کیا اور ایسے اچھے فراغت اور بے فکری کے وقت کو سُستی اور کھیل کود میں ضائع اور عمر بھر رنج و مصیبت میں کاٹی۔ آپ عذاب میں رہے اور ماں باپ کو بھی اپنے سبب عذاب میں رکھا۔ مرنے پر کچھ موقوف نہیں، شادی بیاہ ہوئے، پیچھے اولاد ماں باپ سے جیتے جی چھوٹ جاتی ہے۔ جب اولاد جوان ہوتی ہے، ماں باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں اور خود اولاد کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ پس جوان ہوئے پیچھے اولاد کو ماں باپ سے مدد ملنی تو درکنار خود ماں باپ کی خدمت اور مدد کرنی پڑتی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ ماں باپ سے الگ ہوئے پیچھے ان کی زندگی کیوں کر گزرے گی۔ دنیا میں بہت بھاری بوجھ مردوں کے سر پر ہے۔ دنیا میں کھانا کپڑا اور روزمرہ کے خرچ کی سب چیزیں روپیہ سے حاصل ہوتی ہیں اور یہ سب کھڑاگ روپیہ کا ہے۔ عورتوں کو بڑی خوشی کی بات ہے کہ اکثر کمانے اور روپیہ پیدا کرنے کی محنت سے محفوظ رہتی ہیں۔ دیکھو مرد کیسی کیسی سخت محنت کرتے ہیں ، کوئی بھاری بوجھ سر پر اُٹھاتا ہے، کوئی لکڑی ڈھوتا ہے۔ سُنار، لُہار، ٹھٹھیرا، کسیرا، کندلہ گر، زرکوب، دبکیّہ، تارکش، ملمّع ساز، جڑیا، سلمہ ستارے والا، بٹیہ، بدر ساز، مینا ساز، قلعی گر، سادہ کار، صیقل گر، آئینہ ساز، زردوز، منیہار، نعل بند، نگینہ ساز، کامدانی والا، سان گر، نیاریا، ڈھلیہ، بڑھئی، خرادی، ناریل والا، کنگھی ساز، بنس پھوڑ، کاغذی، جولاہا، رفوگر، رنگریز، چھیپی، درزی، دستاربند، علاقہ بند، نیچہ بند، موچی، مُہر کُن، سنگتراش، حکاک، معمار، دبگر، کُمھار، حلوائی، تیلی، تنبولی، رنگ ساز، گندھی وغیرہ جتنے پیشہ والے ہیں، سب کے کاموں میں برابر درجے کی تکلیف ہے اور یہ تمام تکلیف روپیہ کمانے کے واسطے مرد سہتے اور اٹھاتے ہیں لیکن اس بات سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عورتوں سے سوائے کھانے اور سورہنے کے کوئی کام دنیا کا متعلق نہیں ہے، بلکہ خانہ داری کے تمام کام عورتیں کرتی ہیں، مرد اپنی کمائی عورتوں کے آگے لاکر رکھ دیتے ہیں اور عورتیں اپنی عقل سے اس کو ایسے بندوبست اور سلیقے کے ساتھ اٹھاتی ہیں کہ آرام کے سوائے عزت اور نام پر حرف نہیں آنے پاتا۔ پس اگر غور سے دیکھو تو دنیا کی گاڑی جب تک ایک پہیہ مرد کا اور دوسرا پہیہ عورت کا نہ ہو، چل نہیں سکتی۔ مردوں کو روپیہ کمانے سے اتنا وقت نہیں بچتا کہ اُس کو گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں صرف کریں ۔ اے لڑکو وہ بات سیکھو کہ مرد ہوکر تمھارے کام آئے اور اے لڑکیو وہ ہنر حاصل کرو کہ عورت ہونے پر تم کو اُس سے خوشی اور فائدہ ہو۔ بے شک عورت کو خدا نے مرد کی نسبت کسی قدر کمزور پیدا کیا ہے لیکن ہاتھ پاؤں، کان، آنکھ، عقل، سمجھ، یاد سب مرد کی برابر عورت کو دیے ہیں۔ لڑکے انھیں چیزوں سے کام لے کر عالم، حافظ، حکیم، کار ی گر، دستکار ہر فن میں طاق اور ہرہنر میں مشاق ہوجاتے ہیں۔ لڑکیا ں اپنا وقت گُڑیاں کھیلنے اور کہانیاں سننے میں کھوتی ہیں، بے ہنر رہتی ہیں اور جن عورتوں نے وقت کی قدر پہچانی اور اُس کو کام کی باتوں میں لگایا وہ مردوں کی طرح دنیا میں نامور اور مشہور ہوئی ہیں جیسے نورجہاں بیگم، زیب النسا بیگم یا ان دنوں نواب سکندر بیگم یا ملکہ وکٹوریہ۔ یہ وہ عورتیں ہیں جنھوں نے ایک چھوٹے سے گھر اور کنبے کا نہیں بلکہ ملک اور جہاں کا بندوبست کیا۔ بعض نادان عورتیں خیال کرتی ہیں کہ بہت پڑھ کر کیا مردوں کی طرح مولوی ہونا ہے، پھر محنت کرنے سے فائدہ؟ لیکن اگر کوئی عورت زیادہ پڑھ گئی ہے تو بے شک اس نے زیادہ فائدہ بھی حاصل کیا ہے۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ زیادہ علم عورتوں کو پڑھنا ضرور نہیں لیکن جس قدر ضرور ہے اُس کوکتنی عورتیں حاصل کرتی ہیں۔ کم سے کم اردو پڑھ لینا نہایت ضروری ہے۔ اگر اتنا نہیں ہے تو بے شک حرج ہوتا ہے یا اپنے گھر کی بات غیروں پر ظاہر کرنی پڑتی ہے یا اُس کے چھپانے سے نقصان ہوتا ہے۔ عورتوں کی باتیں اکثر حیا اور پردے کی ہوتی ہیں لیکن اپنی ماں بہن سے کبھی ان کو ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اتفاق سے ماں بہن وقت پر پاس نہیں ہوتیں، ایسی صورت میں یا تو حیا کو بالائے طاق رکھنا پڑتا ہے یا نہ کہنے کے سبب نقصان اٹھانا ہوتا ہے۔ لکھنا بہ نسبت پڑھنے کے کسی قدر مشکل ہے، لیکن اگر کوئی شخص کسی کتاب سے چار سطریں روز نقل کیا کرے اور اُسی قدر اپنے دل سے بناکر لکھا کرے اور اصلاح لیا کرے تو ضرور چند مہینوں میں وہ لکھنا سیکھ جائے گا۔ خوش خطی سے مطلب نہیں، لکھنا ایک ہنر ہے جو ضرورت کے وقت بہت کام آتا ہے۔ اگر غلط ہو یا حرف بدصورت اور نادرست لکھے جائیں تو بیدل ہوکر مشق کو موقوف مت کرو۔ کوئی کام ہو، ابتدا میں اچھا نہیں ہوا کرتا۔ اگر کسی بڑے عالم کو ایک ٹوپی کترنے اور سینے کو دو جس کو کبھی ایسا اتفاق نہ ہوا ہو، ضرور وہ ٹوپی کو خراب کرے گا۔ چلنا پھرنا جو تم کو اب ایسا آسان ہے کہ بے تکلف دوڑتی پھرتی ہو، شاید یاد نہ رہا ہو کہ تم نے کس مشکل سے سیکھا، مگر تمھارے ماں باپ اور بزرگوں کو بخوبی یاد ہے کہ پہلے تم کو بے سہارے بیٹھنا نہیں آتا تھا۔ جب تم کو گود سے اُتار کر نیچے بٹھاتے تھے ایک آدمی پکڑے رہتا تھا یا تکیے کا سہارا لگادیتے تھے۔ پھر تم نے گر پڑکر گھٹنوں چلنا سیکھا، پھر کھڑا ہونا، لیکن چارپائی پکڑکر۔ پھر جب تمھارے پاؤں زیادہ مضبوط ہوگئے، رفتہ رفتہ چلنا آگیا مگر صدہا مرتبہ تمھارے چوٹ لگی اور ہر روز تم کو گرتے سنا۔ اب وہی تم ہو کہ خدا کے فضل سے ماشاء اللہ دوڑی دوڑی پھرتی ہو۔ اسی طرح ایک دن لکھنا بھی آجائے گا۔ اور فرض کرو تم کو لڑکوں کی طرح اچھا لکھنا نہ بھی آیا تاہم بقدر ضرورت تو ضرور آجائے گا اور یہ مشکل تو نہ رہے گی کہ دھوبن کے کپڑوں اور پیسنے والی کی پسائیوں کے واسطے دیوار پر لکیر کھینچتی پھرو یا کنکر پتھر جوڑکر رکھو۔ گھر کا حساب کتاب، لینا دینا زبانی یاد رکھنا بہت مشکل ہے اور بعض مردوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو روپیہ پیسہ گھر میں دیا کرتے ہیں اُس کا حساب پوچھا کرتے ہیں۔ اگر زبانی یاد نہیں ہے تو مرد کو شبہ ہوتا ہے کہ یہ روپیہ کہاں خرچ ہوا اور آپس میں ناحق کا رنج و فساد پیدا ہوتا ہے۔ اگر عورتیں اتنا لکھنا بھی سیکھ لیا کریں کہ اپنے سمجھنے کے واسطے کافی ہو تو کیسی اچھی بات ہے۔ لکھنے پڑھنے کے علاوہ سینا پرونا، کھانا پکانا یہ دونوں ہنر ہر ایک لڑکی کو سیکھنے ضرور ہیں۔ کسی آدمی کو یہ حال معلوم نہیں ہے کہ آئندہ اُس کو کیا اتفاق پیش آئے گا۔ بڑے امیر اور بڑے دولت مند یکایک غریب اور محتاج ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی ہنر ہاتھ میں پڑا ہوتا ہے، ضرورت کے وقت کام آتا ہے۔ یہ ایک مشہور بات ہے کہ اگلے وقتوں کے بادشاہ باوجود دولت و ثروت کے ضرور کوئی کام سیکھ رکھا کرتے تھے تاکہ مصیبت کے وقت کام آئے۔ یاد رکھو کہ دنیا کی کوئی حالت قابلِ اعتبار نہیں اگر تم کواس وقت آرام و فراغت میسر ہے خدا کا شکر کرو کہ اس نے اپنی مہربانی سے ہمارے گھر میں برکت اور فراغت دی ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تم اس آرام کی قدر نہ کرو یا آئندہ کے واسطے اپنا اطمینان کرلو کہ یہی آرام ہم کو ہمیشہ کے واسطے حاصل رہے گا۔ آرام کے دنوں میں عادتوں کا درست رکھنا ضروری ہے، اگرچہ خدا نے تم کو نوکر چاکر بھی دیے ہوں، لیکن تم کو اپنی عادت نہیں بگاڑنی چاہیے، شاید خدا نخواستہ یہ مقدور باقی نہ رہے تو یہ عادت بہت تکلیف دے گی۔ آپ اٹھ کر پانی نہ پینا یا چھوٹے چھوٹے کاموں میں نوکروں یا چھوٹے بھائی بہنوں کو تکلیف دینا اور آپ احدی بن کر بیٹھے رہنا نامناسب بات ہے اور عادت کے بگاڑ کی نشانی ہے۔ تم کو اپنا سب کام آپ کرنا چاہیے بلکہ اگر تم چست و چالاک رہو تو گھر کے بہت کام تم اٹھاسکتی ہو اور اگر تم تھوڑی سی محنت بھی اختیار کرو تو اپنی ماں کو بہت کچھ مدد اور سہارا لگاسکتی ہو۔ خوب غور کرکے اپنا کام کوئی ایسا مت چھوڑو جس کو ماں اپنے ہاتھوں کرے یا دوسروں کو اُس کے واسطے بلاتی اور تکلیف دیتی پھرے۔ اے میری پیاری لڑکی! رات کو جب سونے لگو اپنا بچھونا اپنے ہاتھ سے بچھالیا کرو اور صبح سویرے اُٹھ کر آپ تہہ کرکے احتیاط سے مناسب جگہ رکھ دیا کرو۔ اپنے کپڑوں کی گٹھری اپنے اہتمام میں رکھو۔ جب کپڑے بدلنے منظور ہوں، اپنے ہاتھ سے پھٹا اودھڑا درست کرلیا کرو۔ میلے کپڑوں کی احتیاط کرو جب تک دھوبن کپڑے لینے آئے علاحدہ کھونٹی پر لٹکا رکھو، اگر کپڑے بدل کر میلے کچیلے کپڑے اٹھا نہ رکھو گی شاید چوہے کاٹ ڈالیں یا پڑے پڑے زیادہ میلے ہوں اور دھوبن ان کو خوب صاف نہ کرسکے یا شاید زمین کی نمی اور پسینے کی تری سے اُن میں دیمک لگ جائے۔ پھر دھوبن کو اپنے میلے کپڑے آپ دیکھ کر دیا کرو اور جب دھوکر لائے، خود دیکھ لیا کرو شاید کوئی کپڑا کم نہ کرلائی ہو یا کہیں سے پھاڑ نہ دیا ہو یا کہیں داغ باقی نہ رہ گئے ہوں۔ اس طرح جب تم اپنے کپڑوں کی خبر رکھوگی، تمھارے کپڑے خوب صاف دھلا کریں گے اور کوئی کپڑا گُم نہ ہوگا۔ جو زیور تم پہنے رہتی ہو بڑے داموں کی چیز ہے۔ شام کو سونے سے پہلے اور صبح کو جب سوکر اٹھو، خیال کرلیا کرو کہ سب ہے یا نہیں۔ اکثر بے خبر لڑکیاں کھیل کود میں زیور گرادیتی ہیں اور کئی کئی دن کے بعد ان کو معلوم ہوتا ہے کہ بالی گِرگئی، چھلّا نکل پڑا جب کہ گھر میں کئی مرتبہ جھاڑو دی گئی کیا معلوم ذرا سی چیز کہاں گئی یا کس جگہ مٹی میں دب گئی۔ تب وہ غافل لڑکیاں زیور کے واسطے افسوس کرکے روتی ہیں اور تمام گھر کو جستجو میں حیران کرڈالتی ہیں اور جب ماں باپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکی زیور کو احتیاط سے نہیں رکھتی اور کھوکھودیتی ہے تو وہ بھی دریغ کرنے لگتے ہیں۔ تم کو ہمیشہ خیال کرنا چاہیے کہ گھر کے کاموں میں کون سا کام تمھارے کرنے کا ہے، بے شک چھوٹے بہن بھائی اگر روتے اور ضد کرتے ہیں، تم ان کو سنبھا ل سکتی ہو تاکہ ماں کو تکلیف نہ دیں۔ منھ دُھلانا، ان کے کھانے اور پانی کی خبر رکھنا، کپڑا پہنانا، یہ سب کام اگر تم چاہو تو کرسکتی ہو لیکن اگر تم اپنے بھائی بہنوں سے لڑو اور ضد کرو تو تم خود اپنا وقار کھوتی ہو اور ماں کو تکلیف دیتی ہو، وہ گھر کا کام دیکھے یا تمھارے مقدمے فیصلے کیا کرے۔ گھر میں جو کھانا پکتا ہے اُس کو اسی غرض سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ کب پک چکے گا اور کب ملے گا۔ گھر میں جو کُتّا اور بلّی یا دوسرے جانور پلے ہیں وہ اگر پیٹ بھرنے کی اُمید سے کھانے کے منتظر رہیں تو مضائقہ نہیں لیکن تم کو ہر بات میں غور کرنا چاہیے کہ سالن کس طرح بھونا جاتا ہے، نمک کس اندازے سے ڈالتے ہیں، اگر ہر ایک کھانے کو غور سے دیکھا کرو تو یقین ہے کہ چند روز میں تم پکانا سیکھ جاؤ گی اور تم کو وہ ہنر آجاوے گا جو دنیا کے تمام ہنروں میں سب سے زیادہ ضرورت کی چیز ہے۔ معمولی کھانوں کے علاوہ تکلف کے چند کھانوں کی ترکیب بھی سیکھ لینی چاہیے۔ آئے گئے کی دعوت میں ہمیشہ طرح طرح کے پُر تکلف کھانوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ کباب، پلاؤ، میٹھے چاول، زردہ، مطنجن، چٹنی، مربّا، فیرنی سب مزے دار کھانے ہیں۔ ہر ایک کی ترکیب یاد رکھنی چاہیے۔ بعض کھانے تکلف کے تو نہیں ہوتے لیکن اُن کا مزے دار پکانا تعریف کی بات ہے جیسے مچھلی، کریلے۔ سینا تو چنداں دشوار نہیں قطع کرنا البتہ عقل کی بات ہے۔ دل لگا کر اس کو معلوم کرلینا بہت ضروری ہے۔ عورتوں کے سب کپڑوں کا قطع کرنا خاص کر ضروری سمجھ لینا چاہیے۔ اکثر بے وقوف عورتیں اپنے کپڑے دوسری عورتوں کے پاس قطع کرنے کے واسطے لیے لیے پھرا کرتی ہیں اور ان کو تھوڑی سی بات کے لیے بہت سی خوشامد کرنی پڑتی ہے۔ مردانے کپڑوں میں انگرکھا کسی قدر مشکل ہے۔ تم اپنے بھائیوں کے انگرکھے قطع کیا کرو، دو چار انگرکھے قطع کرنے سے سمجھ میں آجائے گا۔ لڑکیاں شرم کے مارے منہ سے نہ کہیں لیکن دل میں تو ضرور جانتی ہیں کہ کنوارپتے کے تھوڑے دن اور ہیں۔ آخر بیاہے جائیں گے، بیاہے پیچھے بالکل نئی طرح کی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے جیسا کہ تم ماں اور نانی اور خالہ اور کنبے کی تمام عورتوں کو دیکھتی ہو۔ کنوارپتے کا وقت بہت تھوڑا وقت ہے۔ اس وقت کا اکثر حصہ تو بے تمیزی میں گزر جاتا ہے۔ وہ پہاڑ زندگی تو آگے آرہی ہے جو طرح طرح کے جھگڑوں اور انواع و اقسام کے بکھیڑوں سے بھری ہوئی ہے۔ اب تم غور کرو کہ تم کوئی انوکھی لڑکی تو ہو نہیں کہ بیاہے پیچھے تم کو کچھ اور بھاگ لگ جائیں گے۔ جو دنیا جہاں کی بہو بیٹیوں کو پیش آتی ہے وہ تم کو بھی پیش آئے گی۔ پس سوچنا چاہیے کہ عورتیں کس طرح زندگی بسر کرتی ہیں؟ بیاہے پیچھے کیسی ان کی عزت ہوتی ہے؟ مرد کیا ان کی توقیر اور کس طرح ان کی خاطر داری کرتے ہیں؟ خاص لوگوں کی حالت پر تو نظر کرو مت۔ بعض جگہ اتفاق سے زیادہ ملاپ ہوا، عورت مرد پر غالب آگئی اور جہاں زیادہ ناموافقت ہوئی عورت کاوقر بالکل اُٹھ گیا۔ یہ تو بات ہی الگ ہے۔ ملک کے عام دستور اور عام رواج کو دیکھو۔ سو عام دستور کے موافق ہم تو عورتوں کی کچھ قدر نہیں دیکھتے۔ ناقصات العقل تو ان کا خطاب ہے۔ تریا ہٹ تویا چرتر مردوں کے زبان زد۔ عورتوں کے مکر کی مذمت قرآن میں موجود اِنَّ کَیدَ کُنَّ عَظِیم۔ مرد لوگ عورت کی ذات کو بے وفا جانتے ہیں:
اسپ و زن و شمشیر وفا دار کہ دید
ایک شاعر نے عورتوں کی وجہ تسمیہ میں بھی ان کی مذمت پیدا کی ہے۔ بیت:
اگر نیک بودی سر انجام زن
زنان را مزن نام بودی نہ زن
یہ سب باتیں تو کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ خانہ داری کے برتاؤ میں دیکھو تو گھر کی ٹہل خدمت کے علاوہ دنیا کا کوئی عمدہ کام بھی عورتوں سے لیا جاتا ہے یا کسی عمدہ کام کی صلاح و مشورے میں عورتیں شریک ہوتی ہیں۔ جن گھروں میں عورتوں کی بڑی عزت اور بڑی خاطر داری ہے وہاں بھی جب عورتوں سے پوچھا جاتا ہے تو یہی، کیوں بی آج کیا ترکاری پڑے گی۔ لڑکی کے واسطے ٹاٹ بافی جوتی منگواؤگی یا ڈیڑھ حاشیے کی، چھالیا مانک چندی لوگی یا جہازی زردہ، پوربی لینا منظور ہے یا امانت خانی، رضائی کو اودی گوٹ لگے گی یا سرمئی۔ اِس کے سوا کوئی عورت بتادے کہ کبھی مردوں نے اُس سے بڑی بڑی باتوں میں صلاح لی ہے یا کوئی بڑا کام اُس کے اختیار میں چھوڑ دیا ہے۔ پس اے عورتو کیا تم کو ایسے بُرے حالوں جینا کبھی ناخوش نہیں آتا۔ اپنی بے اعتباری اور بے وقری پر کبھی افسوس نہیں ہوتا۔ کیا تمھارا جی نہیں چاہتا کہ مردوں کی نظروں میں تمھاری عزت ہو، تم نے اپنے ہاتھوں اپنا وقر کھورکھا ہے۔ اپنے کارن نظروں سے گری ہوئی ہو، تم کو قابلیت ہو تو مردوں کو کب تک خیال نہ ہوگا، تم کو لیاقیت ہو تو مردوں کو کہاں تک پاس نہ ہوگا۔ مشکل تو یہ ہے کہ تم صرف اسی روٹی دال پکالینے اور پھٹاپُرانا سی لینے کو لیاقت سمجھتی ہو، پھر جیسی لیاقت ہے ویسی قدر ہے تمھاری۔ اس بالفعل کی حالت پر ایک بد عقلی اور ایک مکر و بے وفائی کیا اگر دنیا بھر کے الزام تم پر لگائے جائیں تو واجب، اور دنیا بھر کی برائیاں تم میں نکالی جائیں تو بجا۔ اے عورتو! مردوں کے دل کا بہلاؤ، اُن کی زندگی کو سرمایۂ عیش، ان کی آنکھوں کو باغ و بہار، ان کی خوشی کو زیادہ اور ان کے غم کو غلط کرنے والیاں ہو۔ اگر تم سے مردوں کو بڑے کاموں میں مدد ملے اور تم کو بڑے کاموں کے انتظام کا سلیقہ ہو تو مرد تو تمھارے پاؤں دھو دھوکر پیا کریں اور تم کو اپنا سرتاج بناکر رکھیں۔ تم سے بہتر ان کا غمگسار، تم سے بہتر ان کا صلاح کار، تم سے بہتر ان کا خیرخواہ اور کون ہے، لیکن بڑے کاموں کا سلیقہ تم کو حاصل ہو تو کیوں کر ہو۔ گھر کی چار دیواری میں تو تم قید ہو، کسی سے ملنے کی تم نہیں، کسی سے بات کرنے کی تم نہیں، عقل ہو یا سلیقہ آدمی سے آدمی سیکھتا ہے۔ مرد لوگ پڑھ لکھ کر عقل و سلیقہ حاصل کرتے ہیں اور جو لکھے پڑھے نہیں وہ بھی ہزاروں طرح کے لوگوں سے ملتے، دس سے دس طرح کی باتیں سنتے۔ اس پردے سے تو تم کو نجات کی امید نہیں۔ ہمارے ملکی دستوراو ررواج نے پردہ نشینی کو عورتوں پر فرض و واجب کردیا ہے اور اب اس رواج کی پابندی نہایت ضروری ہے۔ پس سوائے پڑھنے لکھنے کے اور کیا تدبیر ہے کہ تمھاری عقلوں کو ترقی ہو۔ بلکہ مردوں کی نسبت عورتوں کو پڑھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ مرد تو باہر کے چلنے پھرنے والے ٹھہرے، لوگوں سے مل جل کر بھی تجربہ حاصل کرلیں گے، تم گھر میں بیٹھے بیٹھے کیا کروگی، سینے کی بغچی سے عقل کی پُڑیا نکال لوگی یا اناج کی کوٹھری سے تجربے کی جھولی بھرلاؤگی۔ پڑھنا سیکھو کہ پردے میں بیٹھے ہوئے تمام دنیا کی سیر کرلیا کرو۔ علم حاصل کرو کہ اپنے گھر میں زمانے بھر کی باتیں تم کو معلوم ہوا کریں۔ عورتوں کو اپنی اولاد کی تہذیب کے واسطے بھی لیاقت حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ لڑکیاں تو بیاہ تک اور لڑکے بھی اکثر دس برس کی عمر تک گھروں میں تربیت پاتے ہیں اور ماؤں کی خوبُو ان میں اثر کرجاتی ہے۔ پس اے عورتو! اولاد کی اگلی زندگی تمھارے اختیار میں ہے، چاہو تو شروع سے ان کے دلوں میں وہ ارادے اور وہ اونچے خیال بھردو کہ یہ بڑے ہوکر نام اور نمود پیدا کریں اور تمام عمر آسائش میں بسر کرکے تمھارے شکر گزار رہیں اور چاہو تو ان کی افتاد کو ایسا بگاڑدو کہ جوں جوں بڑے ہوں خرابی کے لچھن سیکھتے جائیں اور انجام تک اس ابتدا کا تاسف کیا کریں۔ لڑکوں کو بولنا آیا اور تعلیم پانے کا مادّہ حاصل ہوا۔ اگر ماؤں کو لیاقت ہو تو اُسی وقت سے بچوں کو تعلیم کر چلیں۔ مکتب یا مدرسے بھیجنے کے انتظار میں لڑکوں کے کئی برس ضائع جاتے ہیں۔ بہت چھوٹی عمر میں نہ تو خود لڑکوں کو مدرسے جانے کا شوق ہوتا ہے اور نہ ماؤں کی محبت اس بات کی مقتضی ہوتی ہے کہ ننھے ننھے بچے جو ابھی اپنی ضرورتوں کے ضبط پر قادر نہیں ہیں استاد کی قید میں رکھے جائیں۔ لیکن مائیں اگر چاہیں اسی وقت میں ان کو بہت کچھ لکھا پڑھا دیں۔ لڑکے مدرسے میں بیٹھنے کے بعد بھی مدتوں تک بیدلی سے پڑھا کرتے ہیں اور بہت دنوں میں ان کی استعداد کو ترقی ہوتی ہے۔ اس تمام وقت میں ان کو ماؤں سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ اوّل تو ماؤں کی سی شفقت اور دل سوزی کہاں، دوسرے رات دن کا برابر پاس رہنا۔ جب ذرا طبیعت متوجہ دیکھی جھٹ کوئی حرف پہنچوا دیا کچھ گنتی ہی یاد کرادی، کہیں پورب پچھم کا امتیاز بتا دیا۔ مائیں تو باتوں باتوں میں وہ سکھا سکتی ہیں جو استاد برسوں کی تعلیم میں بھی نہیں سکھا سکتا۔ اور ماؤں کی تعلیم میں ایک یہ کتنا بڑا لطف ہے کہ لڑکوں کی طبیعت کو وحشت نہیں ہونے پاتی اور شوق کو ترقی ہوتی جاتی ہے۔ اولاد کی تہذیب، اُن کی پرورش کی تدبیر، ان کی جان کی حفاظت ماؤں کے اختیار میں ہے۔ اگر خدانخواستہ کہیں اس سلیقے میں کمی ہے تو اولاد کی جان پر گزند ہے۔ ایسا کون کمبخت ہوگا کہ جس کو ماؤں کی محبت میں کلام ہو۔ لیکن وہی محبت اگرنادانی کے ساتھ برتی جائے تو ممکن ہے کہ بجائے نفع کے اُلٹا نقصان پہنچائے۔ ذرا انصاف کرو کہ کیا ہزاروں جاہل اور کم عقل مائیں ایسی نہیں ہیں جو اولاد کے ہر ایک مرض کو نظر گذر پرچھانواں اور جھپیٹا یا آسیب سمجھ کر بجائے دوا کے جھاڑ پھونک اُتارا کیا کرتی ہیں اور نامناسب علاج کا اثر تمھیں سمجھ لو کیا ہوتا ہوگا۔ غرض یہ ہے کہ کل خانہ داری کی درستی عقل پر ہے اور عقل کی درستی علم پر موقوف ہے۔ تم کو ایک لطیف قصّہ بتاتے ہیں جس سے تم کو معلوم ہوگا کہ بے ہنری سے کیا تکلیف پہنچتی ہے۔
ایک بے وقوف لڑکی کا بیاہ ہوگیا تھا۔ اُس نے اپنی بے وقوفی سے سسرال میں برس دو برس بھی نباہ نہ کیا۔ بیاہ کے چوتھے یا پانچویں ہی مہینے میاں پر تقاضا کرنا شروع کیا کہ تمھاری ماں بہنوں میں ہمارا گزارا نہیں ہوتا، ہم کو الگ مکان لے دو۔ میاں نے کہا کہ تمھارے جتنے جھگڑے اپنی ماں بہنوں کے ساتھ میں سنتا رہا ہوں اُن سب میں تمھاری ہی خطا ہے۔ محلے میں جو آدمی بازاری طور کے رہتے ہیں تم نے انھیں کی لڑکیوں کو بہن بنا رکھا ہے۔ رات دن بھوندو بھٹیارے کی بیٹی چنپا اور بخشو قلعی گر کی بیٹی زلفن، کموسقے کی بیٹی رحمت، مولن کنجڑے کی بیٹی سلمتی تمھارے پاس گھُسی رہا کرتی ہیں اور تم کو اس بات کا کچھ خیال نہیں کہ یہ لوگ نہ ہماری برادری ہیں نہ بھائی بند، نہ ان سے ہماری ملاقات، نہ راہ و رسم نہ محبت۔ تمام محلے میں چرچا ہو رہا ہے کہ کیسی بہو آئی ہے جب دیکھو ایسی ہی لڑکیاں اُس کے پاس بیٹھی ملتی ہیں۔ آخر محلے میں قاضی شریف حسین، حکیم شفا الدولہ، منشی ممتاز احمد، مولوی روح اللہ، میر حسن رضا یہ لوگ بھی تو رہتے ہیں اور ان کی بہو بیٹیاں ہمارے آنگن آتی جاتی ہیں تم کسی سے بات بھی نہیں کرتیں۔ اگر والدہ صاحبہ نے تم کو ذلیل اور بے عزت لوگوں کی لڑکیوں سے ملنے کو منع کیا تو کیا بے جا کیا۔ اُس بے وقوف بی بی نے جواب دیا کہ محبت ملاپ دل کے ملنے پر موقوف ہے۔ ہماری ماں کے ہمسایے میں ایک باسو منھیار رہتا تھا۔ بنّو اُس کی بیٹی ہماری سہیلی تھی۔ جب ہم چھوٹے سے تھے اُس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے، دو گڑیوں کا بیاہ بھی ہم نے بنّو کے ساتھ کیا تھا۔ بنّو بے چاری بہت غریب تھی۔ ہم اپنی اماں سے چراکر اس کو بہت چیزیں دیا کرتے تھے۔ اماں نے ہر چند منع کیا مگر ہم نے بنّو کا ملنا نہ چھوڑا۔
میاں نے کہا ’’تم نے بہت جھک مارا۔‘‘
یہ سن کر وہ احمق عورت میاں سے بولی ’’دیکھو خدا کی قسم میں نے کہہ دیا ہے مجھ سے زبان سنبھال کر بولا کرو، نہیں تو پیٹ پیٹ کر اپنا خون کرڈالوں گی۔‘‘
یہ کہہ کر رونے لگی اور اپنے ماں باپ کو کوسنا شروع کیا۔ ’’الٰہی اس اماں باوا کا برا ہو کیسی کمبختی میں مجھ کو ڈھکیل دیا، مجھ کو اکیلا پاکر سب نے ستانا شروع کیا ہے۔ الٰہی میں مرجاؤں، میرا جنازہ نکلے۔‘‘ اور غصّے کے مارے پان کھانے کی پٹاری جو چارپائی پر رکھی تھی، لات مار کر گرادی ۔ تمام کتّھا چونا توشک پر گرا، اونی ڈریس کا لحاف پاینتی تہہ کیا ہوا رکھا تھا، چونے کے لگتے ہی اس کا تمام رنگ کٹ گیا۔ پٹاری کے گرنے کا غل سن کر سامنے کے دالان سے ساس دوڑی آئیں۔ ماں کو آتے دیکھ بیٹا تو دوسرے دروازے سے چل دیا لیکن اپنے دل میں کہتا تھا ’’ناحق میں نے بھڑوں کی چھتّے کو چھیڑا۔‘‘
ساس نے آکر دیکھا تو چار پیسے کا کتّھا جو کل چھان پکاکر کُلھیا میں بھردیا تھا، سب گر پڑا ہے۔ توشک کتھّے میں لت پت ہے، لحاف چونے میں تربتر۔ بہو زار قطار رورہی ہیں۔ آتے ہی ساس نے بہو کو گلے سے لگالیا اور اپنے بیٹے کو ناحق بہت کچھ بُرا بھلا کہا۔ اتنی دل جوئی کا سہارا اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہوا۔ ہر چند ساس نے منت کی اور سمجھایا، اُس مکار عورت پر مطلق اثر نہ ہوا۔ ہمسایے کی عورتیں رونے پیٹنے کی آواز سن کر جمع ہوگئیں۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ بخشو قلعی گر کی بیٹی زلفن سمدھیانے دوڑی گئی اور ایک ایک کی چار چار جالگائیں۔ ان کی ماں بھی خدا کے فضل سے بڑی تیز تھیں، سنتے کے ساتھ ڈولی پر چڑھ آپہنچیں۔ بہت کچھ لڑیں جھگڑیں، آخر بیٹی کو ساتھ لے گئیں۔ کئی مہینے تک دونوں طرف سے آمد و رفت، سلام و پیام تک متروک رہا۔ تاکہ قصہ اچھی طرح سمجھ میں آئے تم کو نام بھی ان لوگوں کے بتادینے ضرور ہیں۔
اکبری خانم اس بے وقوف اور مکار عورت کا نام تھا اور سسرال سے اس کو مزاج دار بہو کا خطاب ملا تھا۔ یہ اکبری بے وقوف، بے ہنر، بدمزاج تھی لیکن اس کی چھوٹی بہن اصغری خانم بہت عقل مند، فہمیدہ اور نیک مزاج تھی۔ چھوٹی سی عمر میں اس نے قرآن شریف کا ترجمہ اور مسائل کی اردو کتابیں پڑھ لی تھیں۔ لکھنے میں بھی عاجز نہ تھی۔ گھر کا حال اپنے باپ کو ہفتے کے ہفتے لکھ بھیجا کرتی۔ ہر ایک طرح کا کپڑا سی سکتی تھی اور انواع و اقسام کے مزے دار کھانے پکانا جانتی تھی۔ تمام محلے میں اصغری خانم کی تعریف تھی۔ ماں کے گھر کا تمام بندوبست اصغری خانم کے ہاتھوں میں رہتا تھا۔ جب کبھی باپ رخصت لے کر گھر آتا، خانہ داری کے انتظام میں اصغری سے صلاح پوچھتا۔ روپیہ پیسہ کوٹھری اور صندوقوں کی کنجیاں سب کچھ اصغری کے اختیار میں رہا کرتا تھا۔ ماں باپ دونوں جان و دل سے اصغری کو چاہتے تھے بلکہ محلے کے سب لوگ اصغری کو پیار کیا کرتے تھے۔ مگر اکبری خود بخود اپنی چھوٹی بہن سے ناراض رہا کرتی بلکہ اکیلا پا کر مار بھی لیا کرتی تھی۔ لیکن اصغری ہمیشہ آپا کا ادب کرتی اور کبھی ماں سے اس کی چغلی نہ کھاتی۔ دونوں بہنوں کی منگنی بھی اتفاق سے ایک ہی گھر میں ہوئی۔ محمد عاقل اور محمد کامل دو بھائی حقیقی تھے۔ اکبری کا بیاہ بڑے بھائی محمد عاقل سے ہوا تھا اور اصغری کی بات محمد کامل سے ٹھہر چکی تھی مگر بیاہ نہیں ہوا تھا۔ اکبری کی بدمزاجی کے سبب قریب تھا کہ اصغری کی منگنی بھی چھوٹ جائے لیکن ان لڑکیوں کی خالہ جو محمد عاقل کے گھر کے پاس رہتی تھی ہمیشہ اصلاح کیا کرتی تھی اور اگرچہ اکبری لڑکر چلی گئی تھی لیکن خالہ نے بہت کچھ لعنت ملامت کی اور پس و پیش سمجھا یا۔ آخر کار کئی مہینے بعد رمضان کی تقریب سے بھانجی کو سسرال لوالائی۔ چند روز تک محمد عاقل مزاج دار بہو سے ناخوش رہا آخر کو خلیا ساس نے میاں بی بی کا ملاپ کرا دیا لیکن جب مزاجوں میں ناموافقت ہوتی ہے تو ہر ایک بات میں بگاڑ کا سامان موجود ہوتا ہے۔ محمدعاقل نے ایک دن اپنی ماں سے کہا کہ آج میں نے ایک دوست کی دعوت کی ہے، افطاری اور کھانے کا زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔ ماں نے جواب دیا خدا جانے کس مصیبت سے میں روٹی بھی پکا لیتی ہوں۔ تین دن سے افطار کے وقت مجھ کو لرزہ چڑھتا ہے۔ مجھ کو اپنی خبر تک نہیں رہتی۔ خدا ہمسائی کا بھلا کرے کہ وہ اتنا بھی پکا دیتی ہے۔ تم نے دعوت سے پہلے گھر میں پوچھ تولیا ہوتا۔ محمد عاقل نے تعجب کی راہ سے بی بی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ اتنے کام کی بھی نہیں ہیں۔ بہو کو اتنا ضبط کہاں تھا کہ اتنی بات سن کر چپ رہے۔ سنتے ہی بولی، اسی بوڑھی اماں سے پوچھو کہ بیٹے کا بیاہ کیا ہے یا لونڈی مول لی ہے، لو صاحب روزے میں چولہا جھونکنا۔ محمد عاقل نے سوچا اب اگر میں کچھ رد و کد کرتا ہوں پہلے کی طرح رسوائی ہوگی۔ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور افطار کے واسطے کچھ بازار سے مول لے آیا۔ غرض وہ بات ٹل گئی۔ اب محمد عاقل کو دوسری آفت پیش آئی یعنی عید۔ بے چارے نے ایک ہفتہ آگے سے مزاج دار بہو صاحب کے جوڑے کی تیاری شروع کی۔ ہر روز طرح طرح کے کپڑے، رنگ برنگ کی چوڑیاں، ڈیڑھ حاشیے اور سلمے ستارے کی کامدار جوتیاں لاتا تھا مزاج دار کی خاطر میں کچھ نہیں آتا تھا۔ یہاں تک کہ عید کا ایک دن باقی رہ گیا۔ مجبور ہو کر اکبری خانم کی خالہ کے پاس گیا۔ انھوں نے آواز سن کر اندر بلا لیا، بلائیں لیں، پیار سے بٹھایا، پان بنا کر دیا اور پوچھا، کہو اکبری تو اچھی ہے، محمد عاقل نے کہا، صاحب آپ کی بھانجی تو عجب مزاج کی عورت ہے۔ میرا تو دم ناک میں آگیا ہے۔ جو ادا ہے سو نرالی ہے اور جو بات ہے سو ٹیڑھی۔ خلیا ساس نے کہا، بیٹا، اس کا کچھ خیال مت کرو، ابھی کم عمر ہے، بال بچے ہوں گے، گھر کا بوجھ پڑے گا، مزاج خود بخود درست ہوجائے گا اور آخر اچھے لوگ برون سے بھی نباہ دیتے ہیں۔ بیٹا تم کو خدا نے سب طرح لائق کیا ہے۔ ایسی بات نہ ہو کہ لوگ ہنسیں آخر تمھاری ناموسی ہے۔ محمد عاقل نے کہا، جناب میں تو خود اسی خیال سے درگزر کرتا رہتا ہوں۔ اب دیکھیے کہ عید ہے۔ اس وقت تک نہ چوڑیاں پہنی ہیں نہ کپڑے بنائے ہیں۔ ذرا آپ چل کر سمجھا دیجیے۔ میں نے بہت کچھ کہا، اماں نے بہت منتیں کیں، نہیں مانتیں۔ خلیا ساس نے کہا اچھا تمھارے خالو ابّا نماز پڑھنے مسجد میں گئے ہیں، وہ آلیں تو اُن سے پوچھ کر میں چلتی ہوں۔ غرض خالہ اماں نے جاکر چوڑیاں پہنائیں، کپڑے قطع کیے، جلدی کے واسطے سب مل کر سینے بیٹھیں۔ خالہ نے کہا بیٹی پائجامے میں کلیاں تو تم لگاؤ، گوٹ تمھاری ساس کتریں، میں اتنے میں تمھارے دوپٹے میں طوئی ٹانکتی ہوں۔ جب اکبری کلیاں لگاچکی تو اس نے اِتراکر خالہ سے کہا ’’لوبی تم کو ابھی دوپلّے باقی ہیں اور میں دونوں پایچوں میں کلیاں لگابھی چکی۔‘‘
خالہ نے دیکھا تو سب کلیاں اُلٹی۔ اکبری کی ساس کے لحاظ سے منھ پر تو کچھ نہ کہا لیکن چپکے چپکے دوچار چٹکیاں ایسی لیں کہ اکبری کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اشارے سے کہا کہ’’ اے نامراد سوجھ تو اُلٹی کلیاں لگا بیٹھی۔‘‘
اکبری نے اپنا سیا ہوا سب اُدھیڑا اور پھر کلیاں لگانی شروع کیں۔ جب لگاچکی، خالہ نے دیکھا تو سب میں جھول۔ اب تو خالہ سے نہ رہا گیا اور اکبری کی ساس کی آنکھ بچا ایک سوئی اکبری کے ہاتھ میں چبھودی اور کلیاں پھر اُدھیڑ کر آپ لگائیں۔ غرض خدا خدا کرکے مزاج دار بہو کا جوڑا سل سلاکر تیار ہوا۔ رات زیادہ گئی تھی، اکبری کی خالہ اپنے گھر کو رخصت ہوئیں۔ یہ سب لوگ بھی سوسلارہے۔ بچے عید کی خوشی میں سویرے سے جاگے۔ کسی نے رات کی مہندی گھولی، کسی نے کھلی اور بیسن کے لیے غل مچایا، کسی نے اٹھنے کے ساتھ عیدی مانگنی شروع کی۔ محمد عاقل بھی نماز صبح سے فارغ ہوکر حمام میں غسل کرنے چلا گیا۔ نہا دھوکر چار گھڑی دن چڑھے واپس آیا، لڑکوں کو دیکھا کہ کپڑے بدل بدلاکر عیدگاہ کے واسطے تیار بیٹھے ہیں، لیکن مزاج دار بہو صاحب حسبِ عادت سورہی ہیں۔ محمد عاقل نے اپنی چھوٹی بہن محمودہ سے کہا، ’’محمودہ جاؤ اپنی بھابھی کو جگا دو۔‘‘ پہلے تو محمودہ نے تامل کیا اس واسطے کہ یہ مزاج دار بہو سے بہت ڈرتی تھی۔ جب سے بیاہ ہوا مزاج دار نے ایک دن بھی اپنی چھوٹی نند کے ساتھ محبت سے بات نہیں کی تھی اور نہ کبھی اُس کو اپنے پاس آنے اور بیٹھنے دیا تھا لیکن بھائی کے کہنے سے عید کی خوشی میں محمودہ دوڑی دوڑی چلی گئی او رکہا ’’بھابھی اٹھو۔‘‘ بھابھی نے اٹھتے کے ساتھ محمودہ کے ایک طمانچہ سہی کیا۔ محمودہ رونے لگی۔ باہر سے بھائی آواز سن کر دوڑا۔ اس کو روتا دیکھ گود میں اٹھالیا اور پوچھا، ’’کیا ہوا‘‘۔
محمودہ نے روتے روتے کہا ’’بھابھی جان نے مارا۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’دیکھو جھوٹی نامراد آپ تو دوڑتے میں گری اور میرا نام لگاتی ہے۔‘‘
محمد عاقل کو غصہ تو آیا لیکن مصلحتِ وقت سمجھ کر ضبط کیا۔ محمودہ کو پیار چمکار کر چپ کیا اور بی بی سے کہا خیر اٹھو نہاؤ، کپڑے بدلو، دن زیادہ چڑھ گیا۔ میں عیدگاہ جاتا ہوں۔
مزاج دار نے ناک بھَوں سُکیڑ کہا ’’میں تو ایسے سویرے نہیں نہاتی، ٹھنڈ کا وقت ہے، تم اپنے عیدگاہ جاؤ، میں نے کیا منع کیا ہے؟‘‘
محمد عاقل کو ایسی روکھی بات سن کر بہت رنج ہوا اور مزاج دار سدا کی ایسی کمبخت تھی کہ ہمیشہ اپنے میاں کو ناخوش رکھتی تھی۔ اتنے میں محمد عاقل کو ماں نے پکارا کہ بیٹا جاؤ بازار سے دودھ لادو تو خیر سے عیدگاہ کو سدھارو۔
محمد عاقل نے کہا’’ بہت خوب، پیسے دیجیے میں دودھ لائے دیتا ہوں، لیکن اگر میرے واپس آنے تک انھوں نے کپڑے نہ بدلے تو سب کپڑے چولھے میں رکھ دوں گا۔‘‘
محمد عاقل تو دودھ لینے بازار گیا۔ماں کو معلوم تھا کہ لڑکے کا مزاج بہت برہم ہے اور طبیعت بھی اُس کی اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اوّل تو اس کو غصّہ نہیں آتا اور جو کبھی آجاتا ہے تو عقل اس کی ٹھکانے نہیں رہتی۔ ایسا نہ ہو سچ مچ نئے کپڑے جلادے۔ جلدی سے بہو کے پاس گئیں اور کہا ’’بیٹی، خدا کے لیے برس برس کے دن تو بدشگونی مت کرو، اُٹھو نہاؤ، کپڑے بدلو۔‘‘ مزاج دار نے کہا’’نہیں بی، میں تو اس وقت نہیں نہاتی، ٹھہر کر نہا لوں گی۔‘‘ بارے ساس نے منت سماجت کر کے بہو کو نہلا دُھلا کر کنگھی چوٹی کر کپڑے پہنا محمد عاقل کے آنے سے پہلے دُلہن بنا کر بٹھا دیا۔ محمد عاقل یہ دیکھ کر خوش ہوا۔ عید گاہ چلتے ہوئے محمودہ سے پوچھا، ’’کہو بی! تمھارے واسطے بازار سے کون سا کھلونا لائیں۔‘‘
محمودہ نے کہا،’’اچھی خوب صورت سی رحل لا دینا۔ اُس پر ہم اپنا سیپارہ رکھیں گے۔ اور قلم دوات رکھنے کے لیے ایک ننھی سی صندوقچی۔‘‘
مزاج دار خود بخود بولی، ’’اور ہمارے لیے۔‘‘
محمد عاقل نے کہا، ’’جو تم فرمائش کرو لیتا آؤں۔‘‘
مزاج دار نے کہا، ’’بھٹے اور سنگھاڑے اور جھریری کے بیر اور مٹر کی پھلیاں اور بہت ساری نارنگیاں۔ ایک ڈفلی ایک خنجری۔‘‘
یہ سُن کر محمد عاقل ہنسنے لگا اور کہا، ’’ڈفلی اور خنجری کیا کروگی۔ ‘‘
مزاج دار احمق نے جواب دیا، ’’بجائیں گے اور کیا کریں گے۔‘‘
محمد عاقل سمجھا کہ ابھی تک اس بے وقوف میں بے تمیز بچوں کی طرح کھانے اور کھیلنے کے پست خیالات موجود ہیں۔ کپڑے بدلنے سے جو خوشی محمد عاقل کو ہوئی تھی وہ سب خاک میں مل گئی اور اُسی افسردہ دلی کی حالت میں عیدگاہ چلا گیا۔
اس کا جانا اور مزاج دار نے ایک اور نئی بات کی۔ ساس سے کہا، ’’ہم کو ڈولی منگادو ہم اپنی ماں کے گھر جائیں گے۔‘‘
ساس نے کہا، ’’بھلا جانے کا یہ کیا موقع ہے۔ چار مہینے بعد تو تم ماں کے گھر سے اب آٹھ دن ہوئے کہ آئی ہو۔ عین عید کے دن جانا بالکل نامناسب ہے۔‘‘
مزاج دار نے کہا، ’’آج میرا جی بہت گھبراتا ہے، دل اُلٹا چلا آتا ہے۔ مجھ کو اپنے میکے کی سہیلی باسو منہیار کی بیٹی بنو بہت یاد آتی ہے۔‘‘
ساس نے کہا، ’’بیٹی نوج، کسی کو کسی سے ایسا عشق ہو جیسا تم کو بنو کا ہے۔ اگر ایسا ہی دل چاہتا ہے تو اُسی کو بلا بھیجو۔‘‘
مزاج دار نے کہا، ’’واہ! بڑی بچاری بُلانے والیں، ایسا ہی بُلانا تھا تو کل اُس کو بلوا کر چوڑیاں پہنوائی ہوتیں۔‘‘
ساس نے کہا، ’’بھلا بیٹی، مجھ کو کیا معلوم تھا کہ یکایک تم کو اُس کی یاد گُد گُدائے گی۔‘‘
مزاج دار نے کہا، ’’خیر بی، خیر اس بحث سے کیا فائدہ، ڈولی منگوانی ہے تو منگوا دو، نہیں تو میں بوا سلمتی کے ابّا سے منگوا بھیجوں۔‘‘
ساس نے کہا، ’’لڑکی کوئی تیری عقل ماری گئی ہے، میاں سے پوچھا نہیں گچھا نہیں آپ ہی آپ چلیں اور مجھ کو تو اپنا بڈھا چونڈا نہیں منڈوانا ہے جو لڑکے کی بے اجازت ڈولی منگوا دوں۔‘‘
مزاج دار بولی، ’’کیسے میاں اور کیسا پوچھنا، اب کوئی اپنے ماں باپ سے عید بقر عید کو بھی نہ ملا کرے۔ اتنا کہہ کر سولن کُنجرن سے ڈولی منگوا،یہ جاوہ جا۔‘‘
تھوڑی دیر بعد محمد عاقل عیدگاہ سے لوٹا۔ گھر میں گھستے ہی پکارا، ’’لو جی اپنی خنجری اور ڈفلی لو، بجاؤ۔ دیکھا تو سب چپ ہیں۔‘‘
ماں سے پوچھا، ’’کیا ہوا خیر تو ہے۔‘‘
محمودہ نے کہا، ’’بھابھی جان چلی گئیں۔‘‘ محمد عاقل نے حیران ہو کر پوچھا، ’’اَین کیوں کر گئیں، کہاں گئیں، کیوں جانے دیا۔‘‘
ماں نے جواب دیا، ’’بیٹھے بٹھائے یکایک کہنے لگیں، میں تو اپنی ماں کے یہاں جاؤں گی۔ میں نے ہرچند منع کیا، ایک نہ مانی۔ مولن سے ڈولی منگواکر چلی گئیں، میں روکتی کی روکتی رہ گئی۔‘‘
محمد عاقل یہ سن کر غصّے کے مارے تھرّا اٹھا اور چاہا کہ سسرال جاکر ابھی اُس نابکار عورت کو سزا دے۔ یہ سوچ کر باہر کو چلا، ماں سمجھ گئی، جاتے کو ماں نے پکارا، اُس نے کچھ جواب نہ دیا۔
ماں نے کہا ’’شاباش بیٹا شاباش، میں تم کو پکار رہی ہوں اور تم سنتے ہو اور جواب نہیں دیتے۔ تیرھویں صدی میں ماؤں کا یہی وقر رہ گیا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی محمد عاقل اُلٹے پاؤں پھر ا، ماں نے کہا ’’بیٹا تُو یہ تو بتا اس دھوپ میں کہاں جاتا ہے، ابھی عیدگاہ سے آیا ہے، اب پھر باہر چلا، اماں صدقے گئی جی ماندہ ہوجائے گا۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’بی میں کہیں نہیں جاتا، مسجد میں حافظ جی سے ملنے جاتا ہوں۔‘‘
ماں نے کہا ’’اے لڑکے، ہوش میں آ۔ میں نے دھوپ میں چونڈا سفید نہیں کیا۔ لو صاحب ہمیں سے باتیں بنانے چلا ہے، حافظ جی کے پاس جاتا ہے تو انگرکھا اور دوپٹہ اُتار کر رکھ جا، شوق سے مسجد میں بیٹھ۔‘‘
یہ سن کر محمد عاقل مسکرانے لگا۔ ماں نے ہاتھ پکڑکر اپنے پاس بٹھالیا اور اُس کے سر کی طرف دیکھ کر بولی کہ، ’’عیدگاہ کے آنے جانے میں تمھارے بال تمام گردآلود ہوگئے ہیں، ذرا تکیے پر سر رکھ کر لیٹ جاؤ تو میں صاف کردوں۔‘‘ محمد عاقل ماں کے کہنے سے ذرا لیٹ گیا۔
محمودہ بھائی کو لیٹا دیکھ پنکھا جھلنے لگی۔ کچھ تو عیدگاہ کے آنے جانے کا تکان ادھر پنکھے کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور ماں نے جو دستِ شفقت سر پر پھیرا تو سب سے زیادہ اس کی راحت ہوئی۔ غرض محمد عاقل سوگیا، جاگا تو دن ڈھل گیا تھا اور وہ غصّہ بھی دھیما ہوگیا تھا۔
ماں نے کہا ’’لو ہاتھ منھ دھو وضوکرکے ظہر کی نماز پڑھو، وقت تنگ ہے، پھر آؤ تو تم کو کام بتائیں۔‘‘
نماز پڑھ پڑھاکر محمد عاقل آیا تو ماں نے کہا ’’لو اب سسرال جاؤ اور تجھے میری ہی جان کی قسم ہے جو تو وہاں کچھ لڑا یا بولا۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’تو مجھ کو مت بھیجو۔‘‘
ماں نے کہا ’’لڑکے خیر منا۔ الٰہی! کیسی بُری زبان ہے، سسرال تو تیری اور بھیجوں کس کو۔ لو یہ ایک روپیہ تو اپنی سالی اصغری کے ہاتھ میں عیدی کا دینا اور یہ ایک اٹھنّی اپنی خلیاساس کے بیٹے میاں مسلم کو۔ اور آدھے کھلونے بھی لیتے جاؤ۔ ایک خوان میں سویّاں اور دودھ اور مٹھائی کی ٹوکری بھی ماما عظمت کے ہاتھ اپنے ساتھ لِوائے جاؤ۔ دیکھو خبر دار کچھ بولنا چالنا مت۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’اور اماں خنجری اور ڈفلی بھی لیتا جاؤں۔‘‘
ماں نے کہا ’’بس، کہیں ایسی بات وہاں مت بول اٹھنا۔‘‘
غرض محمد عاقل ساس کے گھر پہنچے۔ گھر میں اکبری خانم اپنی سہیلیوں کے ساتھ اُدھم مچارہی تھی اور باہر گلی میں تمام غل کی آواز چلی آتی تھی۔ ماما عظمت اندر گئی۔ اصغری نے ماما کو دور سے دیکھ کر دبی آواز سے کہا۔ ’’اے بی آپا، اے بی آپا، چپ کرو تمھاری سسرال سے ماما آئی ہے۔‘‘ عظمت نے اندر پہنچ کر محمد عاقل کو بلایا، ’’صاحبزادے آئیے۔‘‘ غرض محمد عاقل اندر گئے، ساس کو سلام کیا۔ انھوں نے کہا ’’جیتے رہو عمر دراز۔‘‘ اتنے میں اصغری بھی اپنی اوڑھنی سنبھال سنبھول کوٹھری سے نکلیں اور نہایت ادب سے جھک کر بہنوئی کو سلام کیا۔ اصغری کو بہنوئی نے گود میں بٹھالیا اور روپیہ دیا۔ اصغری اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگی۔
ماں نے کہا ’’لے لو، بہنوئی عیدی دیتا ہے۔‘‘
اصغری نے روپیہ لے کر پھر سلام کیا اور گود سے اُترا دب سے الگ ہو بیٹھی، پھر اُٹھ کر نہایت سلیقے کے ساتھ اُجلا دسترخوان بہنوئی کے آگے لابچھایا اور ایک رکابی میں سویّاں، ایک پیالے میں دودھ، طشتری میں قند، ایک چمچہ لاکر سامنے رکھ دیا۔
ساس نے کہا ’’بیٹا کھاؤ۔‘‘
محمد عاقل نے عذر کیا کہ ’’مجھ کو عیدگاہ میں زیادہ دیر ہوگئی تھی، ابھی تھوڑی دیر ہوئی میں نے کھانا کھایا ہے۔‘‘
ساس نے کہا ’’کیا مضائقہ ہے سویّاں تو پانی ہوتی ہیں، کھاؤ بھی۔‘‘
جب تک محمد عاقل سویّاں کھاتا رہا، اصغری الائچی ڈال ایک مزے دار پان بنالائی۔ کھانے کے بعد اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔
تھوڑی دیر بعد محمد عاقل نے کہا ’’جناب میں رخصت ہوتا ہوں۔‘‘
ساس نے کہا ’’اب کہاں جاؤگے، یہیں سورہنا۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’آج عید کا دن ہے، آئے گئے سے ملنا ہے۔ دوسرے کہیں کچھ بھیجنا بھجوانا، اور میں اماں سے رات کے واسطے کہہ کر بھی نہیں آیا۔‘‘
ساس نے کہا ’’ملنے ملانے کا تو اب وقت نہیں رہا، شام ہونے آئی اور بھیجنے بھجوانے کو سمدھن کافی ہیں۔‘‘ اور ہنس کر یہ بھی کہا کہ ’’تم کچھ سمدھن کا دودھ نہیں پیتے۔ آخر عظمت جائے گی خبر کردے گی۔‘‘
غرض محمد عاقل نے بہت کچھ حیلے کیے، ساس نے ایک نہ مانی اور محمد عاقل کو زبردستی رہنا پڑا۔ چار گھڑی رات گئے جب کھانے پینے سے فراغت ہوئی، اصغری نے برتن بھانڈا گری پڑی چیز سب ٹھکانے سے رکھی، باہر کے دروازے کی زنجیر بند کی، کوٹھریوں کو قفل لگا کنجیاں ماں کے حوالے کیں۔ باہر کے دالان اور باورچی خانے کا چرا غ گُل کیا، ماں اور آپا اور بہنوئی سب کو پان بناکر دیے اور فراغت سے جا کر سورہی۔ اب ساس نے محمد عاقل سے کہا، ’’کیوں بیٹا، تم میاں بی بی میں یہ کیا آئے دن لڑائی رہا کرتی ہے۔ اکبری کی تو ایسی بری عادت ہے کہ کبھی بھول کر بھی سسرال کی بات مجھ سے نہیں کہتی۔ نہیں دنیا جہان کی بیبیوں کا دستور ہوتا ہے کہ سسرال کی ذرا ذرا بات ماؤں سے کہا کرتی ہیں۔ نہیں معلوم اس کو کیا خدا کی سنوار ہے، بہتیرا پوچھ پوچھ کر اپنا منھ تھکاؤ۔ حاشا کہ یہ کچھ بھی بتائے لیکن محلے کی بات کانوں کان پہنچ ہی جاتی ہے۔ اوپری لوگوں سے میں بھی گھر بیٹھی بیٹھی سنا کرتی ہوں۔‘‘
محمد عاقل نے ساس سے یہ بات سن کر تھوڑی دیر تامل کیا اور لحاظ کے سبب جواب منھ سے نہیں نکلتا تھا مگر اس نے خیال کیا کہ مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا ہے اور خود انھوں نے چھیڑکر پوچھا ہے۔ ایسے موقعے پر سکوت کرنا سراسر خلافِ مصلحت ہے۔ بہتر ہے کہ عمر بھر کا زہر اُگل ڈالے، شاید آج کی گفتگو میں آئندہ کے واسطے کوئی بات نکل آئے۔ غرض محمد عاقل نے شرماتے شرماتے کہا کہ ’’آپ کی صاحبزادی موجود ہیں، انھیں سے پوچھیے۔ ہمارے یہاں ان کو کیا تکلیف پہنچی، خاطر داری و مدارات میں کسی طرح کی کمی ہوئی یا کوئی ان سے لڑا یا کسی نے ان کو بُرا کہا۔ آپ کو معلوم ہے گھر میں ہم گنتی کے کَے آدمی ہیں۔ والدہ صاحبہ سے تو تمام محلہ واقف ہے، ایسی صلح کل ہیں کہ تمام عمر ان کو کسی سے لڑنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اگر کوئی ان کو دس باتیں سخت بھی سنا جائے تو چپ ہوجاتی ہیں۔ محمد کامل دن بھر لکھنے پڑھنے میں لگا رہتا ہے۔ صبح کا نکلا رات کو گھر آتا ہے، کھانا کھایا اور سورہا۔ میں نے اُس کو ان سے کبھی بات کرتے بھی نہیں دیکھا۔ محمودہ ان کی صورت سے ڈرتی ہے۔ رہا میں، سو موجود بیٹھا ہوں۔ جو کچھ شکایت مجھ سے ہو، بے تکلف بیان کریں۔‘‘
محمد عاقل کی ساس اب بیٹی کی طرف مخاطب ہوکر بولیں، ’’ہاں بھائی جو کچھ تمھارے دل میں ہو تم بھی صاف صاف کہہ گزرو، بات کا دل میں رہنا اچھا نہیں ہوتا، دل میں رکھنے سے رنج بڑھتا ہے اور فساد زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
اکبری اگرچہ جھوٹ بولنے پر بہت دلیر تھی لیکن اُس وقت محمد عاقل کے روبرو کوئی بات کہتے نہ بن پڑی اور جی ہی جی میں ڈر رہی تھی کہ میں نے بہت سی جھوٹ باتیں ماں سے آکر لگائی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہیں اس وقت قلعی کھل جائے۔ یہ سوچ سمجھ اُس نے اس بات ہی کو ٹال دیا اور کہا تو یہ کہا کہ ’’ہم تو الگ گھر کریں گے۔‘‘
اکبری کی ماں نے داماد سے کہا ’’کیوں بھائی تم کو الگ ہوکر رہنے میں کیا عذر ہے۔ خدا کا فضل ہے خود نوکر ہو، خود کماتے ہو، کسی بات میں ماں باپ کے محتاج نہیں، اپنا کھانا اور اپنا پہننا، پھر دوسرے کا دست نگر ہوکر رہنا کیا فائدہ۔ بیٹا، بہو کیسی ہی پیاری ہوں پھر بھی جو آرام الگ رہنے میں ہے ماں باپ کے گھر کہاں۔ جو چاہا سوکھایا اور جو چاہا سو پکایا اور ذرا غور کرنے کی بات ہے ماں باپ کے ساتھ رہ کر لاکھ کماؤ پھر بھی نام نہیں۔ لوگ کیا جانیں تم اپنا کھاتے ہو یا ماں باپ کے سر پڑے ہو۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’آرام کی جو پوچھیے تو ہم کو جو اب حاصل ہے۔ الگ ہوئے پیچھے اُس کی قدر معلوم ہوگی۔ دونوں وقت پکی پکائی کھالی اور بے فکر ہو کر بیٹھ رہے۔ الگ ہونے پر آٹا، دال، گوشت، ترکاری، کنڈا، لکڑی سب کی فکر کرنا پڑے گی۔ اور آپ ہی انصاف فرمائیے خانہ داری میں کتنے بکھیڑے ہیں۔ بے سبب ان سب آفتوں کو اپنے سر لینا میرے نزدیک تو عقل کی بات نہیں۔ رہی یہ بات کہ جو چاہا سو کھایا اور جو چاہا سو پکایا اب بھی حاصل ہے۔ انھیں سے پوچھیے کبھی کوئی فرمائش کی ہے جس کی تعمیل نہ ہوئی ہو۔ بڑے کنبوں میں البتہ اس طرح کی تکلیف ہوا کرتی ہے۔ ایک کا دل میٹھے چاولوں کو چاہتا ہے ، دوسرے کو بھونی کھچڑی چاہیے، تیسرے کو پلاؤ درکار ہے، چوتھے کو قورمہ کھانا منظور ہے، پانچویں کو پرہیزی کھانا حکیم نے بتایا ہے ۔ دس کے واسطے دس ہنڈیاں روز کے روز کہاں سے آئیں۔ ہمارے ہاں کنبہ کون بہت بڑا ہے فرمائش کریں تو ہم اور نہ کریں تو ہم۔ اس کو بھی جانے دیجیے اگر ان کو ایسا ہی لحاظ ہے آپ کھانے کا اہتمام کیا کریں، خود والدہ کئی مرتبہ کہہ چکی ہیں۔ انھیں سے پوچھیے کہا ہے یا نہیں۔ اور نام کو جو آپ نے فرمایا یہ بھی میرے نزدیک عقل کی بات نہیں۔ اپنے آرام سے کام ہے لوگ اپنے دلوں میں جو چاہیں سو سمجھیں۔ اور فرض کیجیے لوگوں نے یہی جانا کہ ہم ماں باپ کے سر پڑے ہیں تو اس میں ہماری کیا بے عزتی ہے، ماں باپ ہیں کوئی غیر تو نہیں ہیں۔ ماں باپ نے ہم کو پالا پرورش کیا، کھلایا پہنایا، پڑھایا لکھا یا، شادی بیاہ کیا ان سب باتوں میں بے عزتی نہیں ہوئی تو اب کون سا سرخاب کا پر ہم میں لگ گیا ہے کہ ان کا دست نگر ہونا ہماری بے عزتی کا موجب سمجھا جائے۔‘‘
ساس نے جواب دیا ’’اگر سب لوگ تمھاری طرح سمجھا کریں تو کیوں الگ ہوں۔ دنیا کا دستور ہے اور ہوتی چلی آئی ہے اور ہوتی چلی جائے گی کہ بیٹے ماں باپوں سے جدا ہوجاتے ہیں اور میں تو جانتی ہو ں کہ دنیا میں کوئی بہو ایسی نہ ہوگی جس کا میاں کماؤ ہو اور وہ ساس نندوں میں رہنا پسند کرے ۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’یہ آپ کا فرمانا درست ہے۔ اگر بیٹے ماں باپ سے جدا نہ ہوا کرتے تو شہر میں اتنے گھر کہاں سے آتے، لیکن ہر ایک کی حالت جدا ہے۔ الگ ہوکر رہنا میری حالت کے لیے ہرگز مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ دس روپیے کا تو میں نوکر۔ اتنی آمدنی میں الگ گھر کا سنبھالنا نہایت مشکل نظر آتا ہے اور پھر اس نوکری کا بھی اعتبار نہیں۔ خدا نخواستہ الگ ہوئے پیچھے اگر نوکری جاتی رہی تو پھر باپ کے گھر آنا مجھ پر نہایت شاق ہوگا۔ اُس وقت البتہ بے عزتی ہوگی کہ میاں الگ تو ہوگئے تھے پھر جھک مارکے باپ کے ٹکڑوں پر آپڑے۔ لوگوں کی ریس اس معاملے میں ٹھیک نہیں، اپنے حال پر خود غور کرنا چاہیے۔ وہ نقل آپ نے سنی ہے کہ ایک شخص نے بازار سے نمک اور روئی مول لی۔ نمک تو خچر پر لادا اور روئی گدھے پر۔ چلتے چلتے راہ میں ایک ندی واقع ہوئی۔ ندی پایاب تھی۔ اُس شخص نے خچر اور گدھے کو لدا لدایا پانی میں اتار دیا۔ بیچ ندی میں پہنچ کر خچر نے غوطہ لگایا۔ تھوڑی دیر بعد سر ابھارا تو گدھے نے پوچھا کیوں یار خچر یہ تم نے کیا کیا۔ خچر نے جواب دیا کہ بھائی تم تو بڑے خوش قسمت ہو تم پر روئی لدی ہے اس کا بوجھ تو بہت ہلکا ہوتا ہے۔ مجھ کم بخت پر نمک ہے بوجھ کے مارے میری کمر کٹ کر لہو لہان ہوگئی۔ یہ ہمارا مالک ایسا بے رحم ہے کہ اس کو مطلق ہماری تکلیف کا خیال نہیں۔ اناپ شناپ جتنا چاہتا ہے، لاد دیتا ہے۔ میں نے سمجھا کہ منزل تک پہنچتے پہنچتے کمر ندارد ہے۔ آؤ غوطہ لگاؤ، نمک پانی میں بھیگ کر کچھ تو گھل جائے گا۔ جس قدر ہلکی ہوئے غنیمت۔ مالک بہت کرے گا تو چھ سات ڈنڈے اور مار لے گا۔ سو یوں بھی راہ بھر ڈنڈے کھاتا آیا ہوں۔ دیکھو اب میرا بوجھ آدھا رہ گیا ہے۔ گدھے بے وقوف نے بھی خچر کی ریس کرکے غوطہ لگایا، روئی بھیگ کر اور وزنی ہوگئی۔ سر ابھارا تو ہلا نہ جاتا تھا۔ خچر ہنسا اور کہا کیوں بھائی گدھے کیا حال ہے۔ گدھے نے کہا یار میں تو مرا جاتا ہوں۔ خچر نے کہا ابے بے وقوف، تو نے میری ریس تو کی لیکن اتنا تو سمجھ لینا تھا کہ تیری پیٹھ پر روئی ہے، نمک نہیں ہے۔ اماں جان ایسا نہ ہو لوگوں کی ریس کرنے سے میرا حال اُس گدھے کا سا ہو۔‘‘
ساس نے کہا ’’بھائی تم تو کسی سے قائل ہونے والے نہیں ہو اور نہ میں تمھاری طرح منطق پڑھی ہوں۔ میں تو سیدھی بات یہ سمجھتی ہوں کہ دس روپیہ مہینہ تم کماتے ہو۔ خدا کا فضل ہے سستا سما ہے، بال نہیں بچے نہیں۔ اللہ رکھے۔ دو میاں بی بی خاصی طرح گوشت روٹی کھاؤ، نین سکھ تن زیب پہنو، آئندہ کی فکر تمھاری طرح کیا کریں تو دنیا کا کارخانہ بند ہوجائے۔ نوکری تو نوکری، زندگی کا اعتبار نہیں، جَے دن جینا ہے ہنسی خوشی سے تیر کردینا چاہیے۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’یہی تو میں سوچتا ہوں خوشی الگ ہوکر رہنے میں ہے یا ساتھ میں۔‘‘
ساس نے کہا ’’دلیل اور حجت سے کیا مطلب، سیدھی بات یہی کیوں نہیں کہتے کہ مجھ کو ماں سے الگ ہونا منظور نہیں۔ ایک بات تم سے بیوی نے کہی اس کے قبول کرنے میں تم کو یہ بلا کا تامل ہے اور پھر کہتے ہو کہ ہم ان کی خاطر داری میں کمی نہیں کرتے۔ آرام و خوشی کیا چیز ہے؟ جس میں بی بی خوش ہو اور جس کو وہ آرام سمجھے۔‘‘
اس کے بعد باتوں میں رنجش تراوش کرنے لگی۔ محمد عاقل نے سکوت اختیار کیا۔ رات بھی زیادہ گئی تھی۔ محمد عاقل نے ساس سے کہا ’’اب آپ آرام کیجیے۔ میں اس مضمون کو پھر سوچوں گا۔‘‘
یہ لوگ تو سورہے۔ محمد عاقل رات بھر اسی خیال کے اُدھیڑبُن میں رہا اور دل ہی دل میں باتیں کرتا رہا۔ صبح کو اٹھا تو دیکھا اصغری جھاڑو دے رہی ہے۔ اس کو دیکھ کر اصغری نے سلام کیا اور کہا ’’بھائی صاحب وضو کے واسطے گرم پانی موجود ہے۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’نہیں بھائی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بھائی صاحب چلے نہ جائیے گا۔ آپ کے واسطے چائے بنائی ہے لیکن سادی پیجئے گا یا دودھ کی۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’جیسی مل جائے۔‘‘
اصغری بولی ’’آپ کی آواز کچھ بھاری بھاری لگتی ہے۔ شاید نزلے کی تحریک ہے تو دودھ ضرر کرے گا۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’نہیں نزلے کی تحریک تو نہیں ہے، رات کو اماں جان کے ساتھ بہت دیر تک باتیں کرتا رہا، بدخوابی البتہ ہے۔‘‘
محمد عاقل نماز پڑھ کر واپس آیا تو ساس کو دیکھا نماز سے فارغ ہوکر پان کھا رہی ہیں، سلام کرکے بیٹھ گیا۔ اصغری نے سینی لاکر سامنے رکھ دی۔ چائے دان میں گرما گرم چائے، دو پیالیاں، دو چمچے اور ایک طشتری میں قند۔ محمد عاقل نے چائے پی، خوش ذائقہ خوش رنگ، بوباس درست۔ پی کر جی باغ باغ ہوگیا۔ اکبری حسب عادت پڑی سوتی تھی۔
محمد عاقل نے کہا ’’اماں جان ان کو بھی نماز کی تاکید کیجیے۔‘‘
ساس نے کہا ’’بیٹا، یہ اپنی نانی کی بہت چہیتی ہیں، ان کی محبت نے ان کا مزاج، ان کی عادت سب خراب کررکھی ہے۔ جب یہ چھوٹی تھیں اور میں کسی بات پر گھڑک بیٹھتی تھی تو کئی کئی دن تک مجھ سے بولنا چھوڑ دیتی تھیں اور یہ تو کیا مجال تھی کہ اکبری کو کوئی ہاتھ لگادے۔ اکبری بات بات پر ضد کرتی، چیزوں کو توڑتی پھوڑتی۔ ان کے ڈر کے مارے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ اسی بات پر اکبری کے باپ سے روز بگاڑ رہتا تھا۔‘‘
اب محمد عاقل رخصت ہونے لگا۔ چلتے چلتے ساس نے کہا کہ ’’بیٹا رات کی بات یاد رکھنا اور ضرو راُس کا کچھ بند وبست کرنا۔‘‘
راہ میں محمد عاقل اُسی کو سوچتا آیا۔ گھر میں پہنچا تو ماں نے دیکھا کہ اُس کے چہرے پر فکر معلوم ہوتی ہے۔ انھو ں نے سمجھا ضرور آج سسرال میں لڑا۔ پوچھا ’’محمد عاقل آخر میرے کہنے پر عمل نہ کیا۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’اماں سچ کہتا ہوں لڑائی بھڑائی کچھ بھی نہیں ہوئی۔‘‘
ماں نے کہا ’’پھر سست کیوں ہے۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’کچھ بھی نہیں، سوتا اٹھ کر آیا ہوں اس سبب سے شاید آپ کو میرا چہرہ اُداس معلوم ہوتا ہوگا۔‘‘
ماں نے کہا ’’لڑکے ہوش میں آ، کیا تجھ کو سوتا اٹھ کر کبھی تھوڑا ہی دیکھا ہے۔ سچ بتا کیا بات ہے۔‘‘
محمد عاقل نے مجبور ہوکر رات کا تمام قصّہ ماں کے روبرو بیان کیا۔ سنتے کے ساتھ ہی ماں کو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں تھا لیکن عورت بڑی دانشمندتھی، کہنے لگی کہ ہر چند میری تمنا یہ تھی کہ جب تک میرے دم میں دم ہے تم سب کو اپنے کلیجے سے لگائے رہوں اور تم دونوں بھائی اتفاق سے رہو۔ لیکن میں دیکھتی ہوں تو سامان اُلٹے ہی اُلٹے نظر آتے ہیں۔ لے آج میں تجھ سے کہتی ہوں کہ بیاہ کے دوسرے مہینے سے مزاج دار بہو کا ارادہ الگ گھر کرنے کا ہے۔ تو جو دس روپیے مہینے کے مہینے لاکر مجھ کو دیتا ہے ان کو نہایت ناگوار ہوتا ہے۔ آئے دن میں تمھاری بہو کی سہیلیوں سے سنتی رہتی ہوں کہ بہو بلیماروں کے محلے میں مکان لیں گی، زلفن کو ساتھ لی جائیں گی۔ جب تک یہ سب لڑکیاں اکٹھا بیٹھی رہتی ہیں یہی ذکر یہی مذکور آپس میں رہا کرتا ہے۔ میں نے تمھاری خلیا ساس کے منھ پرایک مرتبہ یہ بات بھی کہہ دی تھی کہ مزاج دار بہو کو اگر ہمارے ساتھ رہنا ناگوار ہے تو اپنا کھانا کپڑا الگ کرلیں اور اسی گھر میں رہیں، پھر تمھاری خلیا ساس سے معلوم ہوا کہ مزاج دار بہو کو یہ بھی منظور نہیں۔ آدمی بیاہ خوشی اور آسائش کے واسطے کرتا ہے۔ روز کی لڑائی، آئے دن کا جھگڑا نہایت بُری بات ہے۔ اگر تمھاری بیوی کو یہی منظور ہے اور الگ رہنے سے ان کو خوشی ہے تو بسم اللہ، ہم کو عذر نہیں، جہاں رہو خوش آباد رہو۔ خدا نے ایک مامتا اولاد کی ہمارے پیچھے لگادی ہے سوکبھی تم ادھر کو آنکلے، ایک نظر دیکھ لیا صبر آگیا۔ گھر کے کام دھندے سے کبھی چھٹکارا ملا میں آپ چلی گئی، تم کو دیکھ آئی۔‘‘ یہ کہنا تھا اور محمد عاقل کا جی بھر آیا اور بے اختیار رونا شروع کیا اور یہ سمجھا کہ آج ماں سے جدائی ہوتی ہے۔ ماں بھی روئی۔ تھوڑی دیر بعد محمد عاقل نے کہا ’’میں تو الگ نہیں رہوں گا بیوی رہے یا جائے۔‘‘
ما ں نے کہا ’’ارے بیٹا یہ بھی کہیں ہوتی ہے۔ اشرافوں میں کہیں بیبیاں بھی چھوٹتی ہیں۔ تم کو اپنی عمر انھیں کے ساتھ کاٹنی ہے، ہمارا کیا ہے قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں۔ آج مَرے کل دوسرا دن۔ میری صلاح مانو جو وہ کہیں سو کرو۔ ہم نے جس دن تمھارا بیاہ کیا اُسی دن سے تم کو الگ سمجھا نہ تم انوکھے بیٹے، نہ میں انوکھی ماں۔ کون بیٹا اپنی ماں کے ساتھ رہا ہے۔‘‘
محمد عاقل نے اپنے دوستوں سے بھی صلاح پوچھی سب نے یہی کہا کہ ’’رفع فساد بہتر ہے اور ساتھ رہنے پر کیا منحصر ہے۔ ماں سے الگ رہو اور ان کی خدمت اور اطاعت کرو۔‘‘ جب سب لوگوں نے یہی صلاح دی، محمد عاقل نے بھی کہا کہ ’’خیر الگ رہ کر بھی دیکھ لو، اگر یہ عورت سنبھل جائے اور گھر کو گھر سمجھے بدمزاجی، نافرمانی، بدزبانی چھوڑ دے تو الگ رہنا عیب نہیں گناہ نہیں۔ یہی نہ کہ خانہ داری کی فکر کرنی پڑے گی اور تنگی سے گزرے گی۔ سو دنیا میں رہ کر فکر سے کسی حالت میں نجات نہیں۔ اب کچھ فکر نہیں تو یہ ہرروز کا فساد بجائے خود عذاب ہے اور تنگی رزق کا اندیشہ بھی بیجا ہے۔ جتنا رزق مقدر میں ہے بہرحال پہنچے گا، آدمی کی سعی و تدبیر کو اس میں کیا دخل۔‘‘ یہ سوچ کر محمد عاقل نے الگ ہوجانے کا ارادہ مصمم کرلیا۔ اتفاق سے اسی مکان سے متصل ایک مکان بھی خالی تھا۔ ایک روپیہ ماہواری کرایے پر اُس کو ٹھہرالیا، بلکہ سرقفلی دے کر سر خط بھی لکھ دیا۔ کنجی بھی لے لی اور سسرال کہلا بھیجا کہ مکان قرار پاگیا ہے، اب آؤ تو نئے مکان میں اُٹھ چلیں اور اپنی ماں سے بھی کہہ دینا کہ یہی تارکش والا مکان لے لیا ہے۔ ماں نے جتنا اسباب مزاج دار بہو کا تھا، کپڑوں کے صندوق، برتن، فرش مُسہری پلنگ سب ایک علاحدہ کوٹھری میں رکھوایا۔ شام کو مزاج دار بہو بھی آپہنچیں۔ صبح اُٹھ ماں نے کوٹھری کھول محمد عاقل سے کہا ’’لو بھائی اپنی چیزیں دونوں میاں بیوی خوب دیکھ بھال لو۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’اماں تم کیا کہتی ہو، کیا کوئی غیر جگہ تھی۔‘‘
ماں نے کہا ’’بیٹا یہ بات نہیں، ایسا نہ ہو اٹھانے بٹھانے میں کوئی چیز اِدھر اُدھر ہوجائے اور ماما سے کہا کہ عظمت تم اور ہمسائی یہ سب اسباب تارکش والے گھر میں پہنچادو۔‘‘
اکبری کی سہیلیاں چنپا، رحمت، زلفن، سلمتی آپہنچیں اور بات کی بات میں سارا اسباب اٹھاکر اِدھر سے اُدھر لے گئیں۔ مزاج دار بہو ہنسی خوشی نئے گھر میں آکر بسیں۔ تین دن تک دونوں وقت محمد عاقل کی ماں نے کھانا بھیجا، چوتھے دن محمد عاقل نے بی بی سے کہا ’’لو صاحب اب کچھ کھانے کا بندوبست شروع ہو۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’سب اسباب ابھی بے ٹھکانے پڑا ہے، یہ رکھ جائے تو فراغت سے ہنڈیا چولھے کو دیکھوں، ابھی تو مجھ کو فرصت نہیں۔‘‘
غرض سات دن تک تندور پر روٹی پکتی رہی۔ رات کو کباب اور دن کو نہاری بازار سے منگواتے اور دونوں میاں بیوی روٹی کھالیتے۔ آخر محمد عاقل نے روز کہہ کہہ کر مزاج دار سے کھانا پکوایا۔ مزاج دارنے کبھی کھاناپکایا نہ تھا۔ روٹی پکائی تو عجیب صورت کی، نہ گول نہ چوکھونٹی، ایک کان اِدھر نکلا ہوا اور چار کان اُدھر، کنارے موٹے، بیچ میں ٹکیا، کہیں جلی، کہیں کچّی، دھوئیں میں کالی اور دال جو پکائی تو پانی الگ دال الگ۔ غرض مزاج دار ایسا لذیذ اور لطیف کھانا پکاتی تھی کہ جس کو دیکھ کر بھوک بھاگ جائے۔ سالن پکاتی بدرنگ بدمزہ، نمک ڈالا تو زہر اور کبھی پھیکا پانی۔ دو ایک دن تو محمد عاقل نے صبر کیا۔ آخر کار اس نے اپنی ماں کے گھر کھانا شروع کردیا۔ مزاج دار نے بھی اپنے آرام کا ٹھکانا کرلیا، دونوں وقت بازار سے کچوریاں اور بالائی کُنڈا کھویا ربڑی کباب منگواکر کھالیا کرتی۔ کھانا جو پکتا زلفن وغیرہ کھاکھاکر موٹی ہوئیں۔ ان بلیّوں کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا لیکن دس روپیے مہینے میں یہ چکھوتیاں کیوں کر ہوسکتی تھیں۔ چپکے چپکے اسباب بکنے لگا مگر محمد عاقل کو اصلاً اس کی خبر نہ تھی۔ ایک روز محمد عاقل نوکری پر گیا تھا، مزاج دار دوپہر کو سوگئی۔ چنپا جو آئی اُس نے دیکھا بہو بے خبر سورہی ہیں۔ اس نے اپنے بھائی میرن کو خبر کردی وہ بڑا شاطر بدمعاش تھا۔ مزاج دار تو سوتی کی سوتی رہیں، میرن آکر دن دہاڑے تمام برتن چُراکر لے گیا۔ مزاج دا ر اٹھ کر جو دیکھیں تو گھر میں جھاڑو دی ہوئی ہے۔ کوٹھری کو قفل لگا ہوا تھا اس کا اسباب تو بچا، باقی، جو چیز اوپر تھی ایک ایک کرکے لے گیا۔ اب پانی پینے تک کو کٹورا نہ رہا۔ محمد عاقل نوکری پر سے آیا تو سن کر بہت مغموم ہوا لیکن اب پچھتائے کیا ہوئے جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔ بی بی سے خوب لڑا اور خوب اپنا سر پیٹا آخر رو دھوکر بیٹھ رہا۔ قرض وام کرکے ہلکی دو پتیلیاں مول لایا۔ چھوٹے چھوٹے برتن ماں سے مانگ لیے، لگن، توا،رکابی ساس نے بھیج دی۔ غرض کسی طرح کام چل نکلا۔ اتفاق سے ان دنوں ایک کٹنی اس شہر میں وارد تھی اور تمام شہر میں اُس کا غل تھا۔ محمد عاقل نے بھی بی بی سے کہہ دیا تھا کہ ’’اجنبی عورت کو گھر میں مت آنے دینا۔ ان دنوں ایک کٹنی آئی ہوئی ہے کئی گھروں کو لوٹ چکی ہے‘‘ لیکن مزاج دار شدت سے بے وقوف تھی۔ اس کی عادت تھی ہر ایک سے جلد مل جانا۔ ایک دن وہی کٹنی حجّن کا بھیس بنا اس کی گلی میں آئی۔ یہ حجّن مکّاربے وقوف عورتوں کے پُھسلانے کے واسطے طرح طرح کے تبرکات اور صدہا قسم کی چیزیں اپنے پاس رکھا کرتی تھی۔ تسبیح، خاک شفا، زمزمیاں، مدینہ منورہ کی کھجوریں، کوہ طور کا سرمہ، خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا، عقیق البحر اور مونگے کے دانے اور نادِعلی، پنجسورے اور بہت سی دوائیں ۔ گلی میں آکر جو اُس نے اپنی دکان کھولی، بہت سی لڑکیاں جمع ہوگئیں۔ مزاج دار نے بھی سنا۔ زلفن سے کہا گلی سے جب اٹھنے لگے حجّن کو یہاں لِوالانا، ہم بھی تبرکات کی زیارت کریں گے۔ زلفن جاکھڑی ہوئی اور حجّن کو لِوالائی۔ مزاج دار نے بہت خاطرداری سے حجّن کو پاس بٹھایا اور سب چیزیں دیکھیں۔ سرمہ اور نادعلی دو چیزیں مزاج دار نے پسند کیں۔ حجّن نے مزاج دار کو باتوں میں تاڑ لیا کہ یہ عورت ڈھپ پر جلدچڑھ جائے گی۔ ایک پیسے کا بہت سا سرمہ تول دیا اور دو آنے کو ناد علی حوالے کی اور فیروزے کی ایک انگوٹھی مفت نذر کی۔ مزاج دار ریجھ گئیں۔ اس کے بعد حجّن نے سمندر کا حال عرب کی کیفیت اور دل سے جوڑکر دوچار باتیں ایسی کیں کہ مزاج دار نے کمالِ شوق سے سنا اور اس کی طرف ایک خاص التفات کی۔
حجّن نے پوچھا ’’کیوں بی تمھارے کوئی بال بچہ نہیں۔‘‘
مزاج دار نے آہ کھینچ کہا ’’ہماری ایسی تقدیر کہاں تھی۔‘‘
حجّن نے پوچھا ’’بیاہ کو کتنے دن ہوئے۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’ابھی برس روز نہیں ہوا۔‘‘
مزاج دار کی بے عقلی کا اب تو حجّن کو یقین ہوا اور دل میں کہنے لگی کہ اس نے تو اولاد کا نام سن کر ایسی آہ کھینچی جیسے کوئی برسوں کا امیدوار ہو۔
حجّن نے کہا ’’ناامیدی کی بات نہیں، تمھارے تو اتنے بچے ہوں گے کہ تم سنبھال نہ سکوگی۔ البتہ بالفعل اکیلے گھر میں جی گھبراتا ہوگا۔ میا ں کا کیا حال ہے۔‘‘
مزاج دا ر نے کہا ’’ہمیشہ مجھ سے ناخوش رہا کرتے ہیں۔‘‘
غرض پہلی ہی ملاقات میں مزاج دار نے حجّن سے ایسی بے تکلفی کی کہ اپنا حال جزو کل اس سے کہہ دیا اور حجّن نے باتوں ہی باتوں میں تمام بھید معلوم کرلیا۔ ایک پہر کامل حجّن بیٹھی رہی، رخصت ہونے لگی تو مزاج دار نے بہت منّت کی ’’اچھی بی حجّن اب کب تک آؤگی۔‘‘
حجّن نے کہا ’’میری بھانجی موم گروں کے چھتّے میں رہتی ہے اور بہت بیمار ہے۔ اُسی کے علاج کے واسطے میں آگرے سے آئی ہوں۔ اُس کے دوامعالجے سے فرصت کم ہوتی ہے مگرانشاء اللہ تعالیٰ دوسرے تیسرے دن تم کو دیکھ جایا کروں گی۔‘‘
اگلے دن حجّن پھر آموجود ہوئی اور ایک ریشمی ازار بند لیتی آئی۔ مزاج دار دور سے حجّن کو آتے دیکھ خوش ہوگئی اور پوچھا یہ ازاربند کیسا ہے۔
حجّن نے کہا’’بکاؤ ہے۔‘‘
مزاج دار نے پوچھا ’’کتنے کا ہے۔‘‘
حجّن نے کہا ’’چار آنے کا۔ محلے میں ایک بیگم رہتی ہیں۔ اب غریب ہوگئی ہیں، اسباب بیچ بیچ کر گزر کرتی ہیں۔ میں ان کی اکثر چیزیں بیچ لادیا کرتی ہوں۔‘‘
مزاج دار اتنا سَستا ازاربند دیکھ کر لوٹ ہوگئی، فوراً پیسے نکال حجّن کے ہاتھ دیے اور بہت گڑگڑاکر حجّن سے کہا ’’اچھی بی جو چیز بکاؤ ہوا کرے، پہلے مجھ کو دکھادیا کرو۔‘‘
حجّن نے کہا ’’بہت اچھا، پہلے تم اور پیچھے اور۔‘‘
اس کے بعد ادھر اُدھر کی باتیں ہوا کیں۔ چلتے ہوئے حجّن نے ایک بٹوا نکالا۔ اُس میں کپڑے اور کاغذ کی کئی تہوں میں تھوڑی لونگیں تھی۔ ان میں سے دو لونگیں حجّن نے مزاج دار کو دیں اور کہا کہ ’’دنیا میں محبت اسی واسطے ہوا کرتی ہے کہ ایک دوسرے کو فائدہ ہو۔ یہ دو لونگیں میں تم کو دیتی ہوں۔ ایک تو تم اپنی چوٹی میں باندھ لو اور دوسری بہتر تھا کہ تمھارے میاں کی پگڑی میں رہتی۔ پر تمھارے میاں شاید شبہ کریں۔ خیر تکیے میں سی دو اور ان کا اثر آج ہی سے دیکھ لینا، لیکن اتنی احتیاط کرنا کہ پاک صاف جگہ میں رہیں اور اپنے قد کے برابر ایک کلا وہ مجھ کو ناپ دو۔ میں تم کو ایک گنڈا بنوالا دوں گی۔ میں جب حج کو گئی تھی تو اُسی جہاز میں بھوپال کی ایک بیگم بھی سوار تھیں۔ شاید تم نے اُن کا نام بھی سنا ہو، بلقیس جہانی بیگم۔ سب کچھ خدا نے ان کو دے رکھا تھا، دولت کی کچھ انتہا نہ تھی۔ نوکر چاکر، لونڈی غلام، پالکی نالکی سبھی کچھ تھا۔ ایک تو اولاد کی طرف سے مغموم رہا کرتی تھیں، کوئی بچہ نہ تھا، دوسرے نواب صاحب کو ان کی طرف مطلق التفات نہ تھا۔ اور شاید اولاد نہ ہونے کے سبب محبت نہ کرتے ہوں، ورنہ بیگم صورت شکل میں چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ اور اس حسن و دولت پر مزاج ایسا سادہ کہ ہم جیسے ناچیزوں کو برابر بٹھانا اور بات پوچھنا۔ بیگم کو فقیروں سے پرلے درجے کا اعتقاد تھا۔ ایک دفعہ سنا کہ تین کوس پر کوئی کامل وارد ہے۔ اندھیری رات میں اپنے گھر سے پیادہ پا اُن کے پاس گئیں اور پہر بھر تک ہاتھ باندھے کھڑی رہیں۔ فقیروں کے نام کے قربان جائیے۔ ایک مرتبہ جو شاہ صاحب نے آنکھ اٹھاکر دیکھا، فرمایا جامائی اسی رات کو حکم ملے گا۔ بیگم کو خواب میں بشارت ہوئی کہ حج کو جا اور مراد کا موتی سمندر سے نکال لا،صبح اُٹھ حج کی تیاریاں ہونے لگیں۔ پانسو مسکین بیگم نے آپ کرایہ دے کر جہاز پر سوار کرائے۔ ان میں سے ایک میں بھی تھی۔ ہر وقت کا پاس رہنا، بیگم صاحب (الٰہی دونوں جہاں میں سرخرو) مجھ پر بہت مہربانی کرنے لگیں اور سہیلی کہا کرتی تھیں۔ دس دن تک برابر جہاز پانی میں چلا گیا۔ گیارھویں دن بیچ سمندر میں ایک پہاڑ نظر آیا۔ ناخدا نے کہا کوہ حبشہ یہی ہے اور ایک بڑا کامل فقیر اس پر رہتا ہے جو گیا بامراد آیا۔ بیگم صاحب نے ناخدا سے کہا کسی طرح مجھ کو اس پہاڑ پر پہنچاؤ۔ ناخدا نے کہا حضور جہاز تو پہاڑ تک نہیں پہنچ سکتا، البتہ اگر آپ ارشاد کریں تو جہاز کو لنگر کردیں اور آپ کو ایک کشتی میں بٹھاکر لے چلیں۔ بیگم نے کہا، خیر یہی سہی۔ پانچ عورتیں بیگم کے ساتھ کوہ حبشہ پر گئی تھیں ایک میں اور چار اور۔ پہاڑ پر پہنچے تو عجیب طرح کی خوشبو مہک رہی تھی۔ چلتے چلتے شاہ صاحب تک پہنچے۔ ہوٗ کا مقام تھا، نہ آدمی نہ آدم زاد، تن تنہا شاہ صاحب ایک غار میں رہتے تھے۔ کیسی نورانی شکل جیسے فرشتہ۔ ہم سب کو دیکھ کر دعا دی، بیگم کو بارہ لونگیں دیں اور کچھ پڑھ کر دم کر دیا۔ مجھ سے کہا چلی جا، آگرے اور دلّی میں لوگوں کے کام بنایا کر۔ بیٹی اُن بارہ لونگوں میں کی دو لونگیں یہ ہیں۔ حج کرکے جو لوٹے تو نواب یاتو بیگم کی بات نہ پوچھتے تھے یا یہ نوبت ہوئی کہ ایک مہینے آگے سے بمبئی میں آکر بیگم کے لینے کو پڑے تھے۔ جوں ہی بیگم نے جہاز سے پاؤں اُتارا نواب نے اپنا سر بیگم کے قدموں پر رکھ دیا اور رو روکر خطا معاف کرائی۔ چھ برس میں بھوپال میں حج سے آکر ٹھہری۔ فقیر کی دعا کی برکت سے لگاتار اوپر تلے اللہ رکھے چار بیٹے بیگم کے میرے رہنے تک ہوچکے تھے۔ پھر مجھ کو اپنا دیس یاد آیا، بیگم سے اجازت مانگی، بہت سا روکا۔ میں نے کہا شاہ صاحب نے مجھ کو دلّی آگرے کی خدمت سپرد کی ہے۔ مجھ کو وہاں جانا ضروری ہے۔ یہ سن کر بیگم نے چار ناچار مجھ کو رخصت کیا۔ دو لونگ اور اُس کے ساتھ دو ورق کی حکایت دلچسپ۔ مزاج دار دل و جان سے معتقد ہوگئی۔
حجّن تو لونگیں دے کر رخصت ہوئی، مزاج دار بہو نے غسل کر، کپڑے بدل، خوشبو لگا، ایک لونگ تو بسم اللہ کرکے اپنی چوٹی میں باندھی اور میاں کے پلنگ کی چادر اور تکیوں کے غلاف بدل ایک لونگ کسی تکیے میں رکھ دی۔ محمد عاقل جو گھر میں آیا، بیوی کو دیکھا صاف ستھری پلنگ کی چادر بے کہے بدلی ہوئی، خوش ہوا اور التفات کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ مزاج دار نے کہا دیکھو ہم نے آج ایک چیز مول لی ہے یہ کہہ کر ازاربند دکھایا۔
محمد عاقل نے کہا ’’کتنے کو لیا ہے۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’تم تو آنکو کتنے کا ہے۔‘‘
وہ ازاربند خاص لاہور کا بُنا ہوا نہایت عمدہ تھا چوڑا چکلا کلابتوں کی گچھّے دار ہڑین۔
محمد عاقل نے کہا ’’دو روپیے سے کسی طرح کم کا نہیں ہے۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’چار آنے کو لیا ہے۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’سچ کہو۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’تمھارے سر کی قسم، چار ہی آنے کو لیا ہے۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’بہت سستا ہے، کہاں سے مل گیا۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’ایک حجّن بڑی نیک بخت ہے، بہت دنوں سے گلی میں آیا کرتی ہے۔ کسی بیگم کا ہے وہ بیچنے کو لائی تھی۔‘‘
یہ کہہ کر سرمہ نادعلی فیروزے کی انگوٹھی مزاج دار نے دکھائی۔ طمع ایسی بُری چیز ہے کہ بڑا سیانا آدمی بھی اس سے دھوکا کھا جاتا ہے۔ جنگلی جانور، مینا، طوطا، لال بلبل، آدمی کی شکل سے بھاگتے ہیں، لیکن دانے کی طمع سے جال میں پھنس جاتے ہیں اور زندگی بھر قفس میں قید رہتے ہیں۔ اسی طرح محمد عاقل اپنا فائدہ دیکھ کر خوش ہوا۔ ا ور جب مزاج دار نے کہا کہ ’’وہ حجّن بیگم کا تمام اسباب جو بکنے کو نکلے گا میرے پاس لانے کا وعدہ کرگئی ہے۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’ضرور دیکھنا چاہیے لیکن ایسا نہ ہو چوری کا مال ہو پیچھے خرابی پڑے اور ہاں حجّن کوئی ٹھگنی نہ ہو۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’خدا خدا کرو وہ حجّن ایسی نہیں ہے۔‘‘
غرض بات گئی گزری ہوئی۔ محمد عاقل سے جو ایسی باتیں ہوئیں۔ لونگوں پر مزاج دار کا اعتقاد جم گیا۔ اگلے دن زلفن کو بھیج حجّن کو بلوایا اور آج مزاج دار بیٹی بنیں اور حجّن کو ماں بنایا۔ رات کے وقت محمد عاقل سے پھر حجّن کا ذکر آیا تو پھر محمد عاقل نے کہا کہ ’’دیکھو ہوشیار رہنا اس بھیس میں کٹنیاں اور ٹھگنیاں بہت ہوا کرتی ہیں۔‘‘
لیکن طمع نے خود محمد عاقل کی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ اتنی موٹی بات وہ نہ سمجھا کہ دو روپیے کا مال چار آنے کو کوئی بے وجہ بھی دیتا ہے۔ محمد عاقل کو مناسب تھا کہ قطعاً اُس حجّن کے آنے کی ممانعت کرتا اور سب چیزیں اُس کی پھروا دیتا اور مزاج دار کو اتنی عقل کہاں تھی کہ اس تہہ کو سمجھتی۔ کئی دن کے بعد مزاج دار نے حجّن سے پوچھا ’’کیوں بی آج کل بیگم کی کوئی چیز نہیں لاتیں۔‘‘
حجّن نے جان لیا کہ اس کو اچھی چاٹ لگ گئی ہے، کہا ’’تمھارے ڈھب کی کوئی چیز نکلے تو لاؤں۔ دوچار دن کے بعد جھوٹے موتیوں کی ایک جوڑی لائی اور کہا لو بی خود بیگم کی نتھ کے موتی ہیں، نہیں معلوم ہزار کی جوڑی ہے یا پانسو کی۔ پنّا مل جوہری کی دُکان پر میں نے دکھائی تھی، لٹّو ہوگیا۔ دو سوروپیے میرے پلّے باندھے دیتا تھا۔ میں بیگم سے پچاس روپیے پر لائی ہوں۔ تم لے لو، پھر ایسا مال نہ ملے گا۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’پچاس روپیے نقد تو میرے پاس نہیں ہیں۔‘‘
حجّن نے کہا ’’کیا ہوا بیٹی پہونچیاں بیچ کرلے لو، نہیں تم جانو آج یہ موتی بک جائیں گے۔‘‘
حجّن نے اس ڈھب سے کہا کہ مزاج دار فوراً زیور کا صندوقچہ اٹھالائی اور حجّن کو پہونچیاں نکال کر حوالے کردیں۔
حجّن نے مزاج دار کا زیور دیکھ کر کہا ’’اے ہے کیسی بدا حتیاطی سے زیو رمولی گاجر کی طرح ڈال رکھا ہے بیٹی، ڈھگدگی میں ڈورا ڈلواؤ، بالی پتّے مگر مُرکیاں بازوبند میلے چکٹ ہوگئے ہیں۔ میل سونے کو کھائے جاتا ہے ان کو اجلواؤ۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’کون ڈورا ڈلوائے اور کون اجلاکرا لائے۔ ان سے کہتی ہوں تو وہ کہتے ہیں مجھے فرصت نہیں۔‘‘
حجّن نے کہا ’’اوئی بیٹی یہ کون بڑا کام ہے لو موتی رہنے دو میں ابھی ڈورا ڈلوالادوں اور جو زیو رمیلا ہے مجھے نکال لادو میں ابھی اجلوادوں۔‘‘
مزاج دار نے سب زیور حوالے کیا۔
حجّن نے کہا ’’زلفن کو بھی ساتھ کردو، وہ سُنار کے پاس بیٹھی رہے گی۔ میں پٹوے سے ڈورے ڈلواؤں گی۔‘‘
مزاج دا ر نے کہا ’’اچھا‘‘ یہ کہہ کر زلفن کو آواز دی۔ آئی تو۔ حجّن نے کہا ’’لڑکی ذرا میرے ساتھ چل سنار کی دُکان پربیٹھی رہیو۔‘‘
حجّن نے زیور لیا، زلفن ساتھ ہوئی۔ گلی سے باہر نکل حجّن نے رومال کھولا اور زلفن سے کہا ’’لاؤ اجلوانے کا الگ کرلیں اور ڈورا ڈلوانے کا الگ۔‘‘
زیور کو الگ کرتے کرتے حجّن بولی ’’اَیں ناک کی کیل کہاں ہے۔‘‘
زلفن نے کہا ’’اسی میں ہوگی، ذرا بھر کی تو چیز ہے اسی پوٹلی میں دیکھو۔‘‘
پھر حجّن آپ ہی آپ بولی ’’اَے ہے پاندان کے ڈھکنے پر رکھی رہ گئی۔ اری زلفن دوڑ تو جا جلدی سے لے آ۔‘‘
زلفن بھاگی بھاگی آئی اور دروازے سے چلّائی، بی بی ناک کی کیل پاندان کے ڈھکنے پر رہ گئی ہے حجّن نے مانگی ہے، جلدی دو، حجّن گلی کے نکّڑ پر دبیا بنیے کی دُکان کے آگے بیٹھی ہے۔ یہ کہنا تھا اور مزاج دار بہو کا ماتھا ٹھنکا۔
زلفن سے کہا ’’باؤلی ہوئی ہے کیسی کیل۔ میرے پاس کہیں تھی تو نے دیکھی ہے، اری کمبخت دوڑ دیکھ کہیں حجّن چلی نہ جائے۔‘‘
زلفن الٹے پاؤں دوڑی، حجّن کو اِدھر دیکھا اُدھر دیکھا، کہیں پتا نہ تھا۔مزاج دار سے آکر کہا ’’بی حجّن کا تو کہیں پتا نہیں، میں بازار تک دیکھ آئی، اتنی دیر میں نہیں معلوم کہاں غائب ہوگئی۔‘‘
یہ سن کر مزاج دار سر پیٹنے لگی ہائے میں لٹ گئی، ہائے میں لٹ گئی، اے لو گو! خدا کے لیے دوڑیو موم گروں کے چھتّے تک۔ لوگ دوڑے، وہاں جاکر معلوم ہوا کہ کہیں کی بہتی بہاتی مہینے بھر سے کرایے پر آکر رہی تھی، چار دن سے مکان چھوڑ چلی گئی، اب کیا ہوسکتا تھا۔
محمد عاقل نے آکر سنا، سر پیٹ لیا اور بیوی سے کہا ’’اری تو گھر کو خاک سیاہ کرکے چھوڑے گی، میں تجھ کو پہلے سے جانتا ہوں۔‘‘
مزاج دار نے کہا ’’چل دور ہو، اب باتیں بنانے کھڑا ہوا ہے، ازاربند دیکھ کر تو نے آپ مجھ سے نہیں کہا کہ ہاں بیگم کا اسباب ضرور دیکھنا۔‘‘
غرض خوب مزے کی لڑائی دونوں میاں بی بی میں ہوئی۔ تمام محلہ جمع ہوگیا، بات پر بات چلی تو معلوم ہوا کہ اسی حجّن نے کنچنی گلی میں احمد بخش خاں کی بی بی کا تمام زیور اسی حیلے سے ٹھگ لیا کہ ایک فقیر سے دونا کرالادوں گی۔ روئی کے کٹہرے میں میاں مسیتا کی بیٹی سے ایسی محبت بڑھائی کہ ان کا زیور عاریت کے حیلے سے اُڑا لے گئی۔ غرض زیور تو گیا گزرا ہوا، باتیں بہت سی رہ گئیں۔ برتن چوری جاچکے تھے، زیور یوں غارت ہوا۔ ہزار ر وپیے کی موتیوں کی جوڑی جو لوگوں نے دیکھی تو تین پیسے کی تھی۔ تھانے میں اطلاع ہوئی۔ لوگوں نے بطور خود بہت ڈھونڈھا، حجّن کا سراغ نہ ملا پر نہ ملا۔
اکبری کو جہیز میں جو کپڑے ملے تھے ان کا حال سنیے۔ جب تک ساس کے ساتھ رہیں، ساس دسویں پندرھویں دن نکال دھوپ دے دیا کرتی تھیں۔ شروع برسات میں الگ ہوکر رہیں کپڑوں کا صندوق جس کوٹھری میں جس طرح رکھا گیا تھا، تمام برسات گزر گئی اس کو دیکھنا نصیب نہ ہوا، وہیں اُسی طرح رکھا رہا۔ جاڑے کی آمد میں دولائی کی ضرورت ہوئی تو صندوق کھولا گیا۔ بہت سے کپڑوں کو دیمک چاٹ گئی تھی، چوہوں نے کاٹ کاٹ کر بغارے ڈال دیے تھے، کوئی کپڑا سلامت نہیں بچنے پایا۔ جو لڑکیاں چھٹپن میں لاڈپیار میں رہا کرتی ہیں اور ہنر اور سلیقہ نہیں سیکھتیں، یوں اکبری کی طرح عمر بھر رنج و تکلیف اٹھاتی ہیں۔ اکبری کا جتنا حال تم نے پڑھا اُس سے تم کو معلوم ہوا ہوگا کہ اکبری کو ماں اور نانی کے لاڈ نے زندگی بھر کیسی مصیبت میں رکھا۔ لڑکپن میں اکبری نے نہ تو کوئی ہنر سیکھا نہ کچھ اس کے مزاج کی اصلاح ہوئی۔ جب اکبری نے ساس سے جدا ہوکر الگ گھر کیا، برتن بھانڈا کپڑا زیور سب کچھ اس کے پاس موجود تھا۔ چوں کہ خانہ داری کا سلیقہ نہیں رکھتی تھی چند روز میں تمام مال اسباب خاک میں ملا دیا اور ایک ہی برس میں ہاتھ کان سے ننگی رہ گئی۔ اگر محمد عاقل بھی اس کی طرح احمق و بدمزاج ہوتا تو شاید ایک دوسرے سے قطع تعلق ہوجاتا لیکن محمد عاقل نے ہمیشہ عقل و شرافت کو برتا۔
اب سنو اصغری کا حال۔۔ یہ لڑکی اس گھر میں ایسی تھی جیسے باغ میں گلاب کا پھول یا آدمی کے جسم میں آنکھ، ہر ایک طرح کا ہنر، ہر ایک طرح کا سلیقہ اس کو حاصل تھا۔ عقل، ہنر، حیا، لحاظ سب صفتیں خدا نے اصغری کو عنایت کی تھیں۔ لڑکپن سے اس کو کھیل کود، ہنسی اور چھیڑ سے نفرت تھی۔ پڑھنا یا گھر کا کام کرنا۔ کبھی اس کو کسی نے واہیات بکتے یا کسی سے لڑتے نہیں دیکھا۔ محلے کی جتنی عورتیں تھیں سب اس کو بیٹیوں کی طرح چاہتی تھیں۔ بے شک زہے قسمت اُس ماں اور باپ کی جن کی بیٹی اصغری تھی اور خوش نصیب اُس گھر کے جس میں اصغری بہو بن کر جانے والی تھی۔ اب خدا کے فضل و کرم سے اصغری کی عمر تیرہ برس کی ہوئی۔ بات تو اس کی محمد کامل سے ٹھہری ٹھہرائی تھی۔ اب چرچا ہونے لگا کہ مہینہ اور دن مقرر ہوجائے۔ ادھر محمد کامل کی ماں اکبری کے ڈھنگ دیکھ کر اتنا ڈر گئی تھی (مثل ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک پیتا ہے) کہ اصغری کے تصور سے بدن پر رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ درپردہ محمد عاقل کی ماں کا ارادہ تھا کہ چھوٹے لڑکے کی منگنی دوسرے گھر میں کروں۔ محمد عاقل کو کسی طرح معلوم ہوگیا اور اس نے ماں سے کہا ’’اماں میں نے سنا ہے تم محمد کامل کی منگنی چھڑانا چاہتی ہو۔‘‘
ماں نے کہا ’’کیا بتاؤں بیٹا بڑے سوچ میں ہوں کیا کروں کیا نہ کروں، تم سے میری آنکھ سامنے نہیں ہوتی، خدا نے مجھ کو تمھارا گنہگار بنادیا۔ دیکھیے محمد کامل کی قسمت کیسی ہے۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’اماں میں سچ کہتا ہوں، اصغری ہزار لڑکیوں میں ایک ہے۔ عمر بھر چراغ لے کر ڈھونڈوگی تو اصغری جیسی لڑکی نہ پاؤ گی۔ صورت، سیرت دونوں میں خدا نے اس کو فائق اور لائق بنایا ہے۔ ہرگز اندیشہ مت کرو، بسم اللہ کرکے بیاہ کرڈالو اور بڑی بہن پر جو خیال کرو تو آپ نے سنا ہوگا ، بیت:
نہ ہر زن زنست و نہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد
اپنا اپنا مزاج ہے اور اپنی اپنی طبیعت۔ شعر:
گل جو چمن میں ہیں ہزار دیکھ ظفر ہے کیا بہار
سب کا ہے رنگ الگ الگ سب کی ہے بو جدا جدا
تمھاری بڑی بہو کو لاحول ولاقوۃ اصغری سے کیا نسبت۔ ع:
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
خدا راس لائے بیاہ کے بعد میری بات کا تم کو یقین ہوگا۔‘‘
محمد عاقل نے جو اصغری کی اس قدر تعریف بیان کی تو محمد کامل کے ساتھ جو بات تھی پکی ہوگئی۔ غرض دونوں سمدھیانوں کی صلاح سے یہ امر قرار پایا کہ بقرعید کے اگلے دن اصل خیر سے نکاح ہو۔ اصغری کا باپ دور اندیش خاں پہاڑ پر نوکر تھا۔ اُس کو خط گیا۔ خط کے پہنچتے ہی خان صاحب کی باچھیں کھل گئیں۔ اصغری کو سب بچوں میں بہت چاہتا تھا، فوراً رخصت کی درخواست کی، جواب صاف ملا۔ بہت زور مارے ایک نہ چلی۔ جاڑے کی آمد تھی، دورہ شروع ہونے کو تھا۔ حاکم کو بھی بہانہ معقول تھا۔ دوراندیش خاں کو رخصت نہ ملنے سے بہت رنج ہوا مگر بندگی و بیچارگی کیا کرتا۔ قہر درویش برجانِ درویش۔ چپ ہوکر بیٹھ رہا لیکن بڑا بیٹا خیراندیش خاں ساتھ تھا، ہزار روپیے نقد دے اُس کو گھر روانہ کیا اور سب پس و پیش سمجھا دیا۔ گھر پر زیور کپڑا برتن سب پہلے سے موجود تھا۔ خیراندیش خاں نے مکان پر پہنچ کر چاول، گھی، گیہوں، مصالحے، نمک سب بقدرِ ضرورت خرید لیا۔ اصغری کے کپڑوں میں مصالح ٹکنا شروع ہوا۔ ماں کا ارادہ تھا کہ اصغری کو بڑی بہن کی بہ نسبت بڑھ چڑھ کر جہیز ملے، جوڑے بھی اس کے بھاری ہوں، زیور کے عدد بھی زیادہ ہوں، برتن بھی استعمالی وزنی دیے جائیں۔ اصغری آخر اُسی گھر میں رہتی تھی جو بات ہوتی اُس کو ضرور معلوم ہوجاتی۔ جب اصغری نے سنا کہ مجھ کو آپا سے زیادہ جہیز ملنے والا ہے بیوقوف لڑکی ہوتی تو خوش ہوتی۔ اصغری کو رنج ہوا اور اس فکر میں ہوئی کہ کس تدبیر سے اماں کو منع کردوں۔
آخر تماشا خانم اپنی خالہ زاد بہن سے شرماتے شرماتے کہا کہ ’’میں نے ایسا ایسا سنا ہے مجھ کو اس کا نہایت سوچ لگا ہے، کئی دن سے نہایت فکر میں تھی الٰہی کیا کروں۔ اچھا ہوا تم آنکلیں، بوجہ ہم عمری تم سے کہنے میں تامل نہیں، کوئی اماں کو اتنی با ت سمجھادے کہ مجھ کو آپا سے زیادہ ایک چیز نہ دیں۔‘‘
تماشا خانم نے سن کر کہا ’’تم بھی بوا کوئی تماشے کی عورت ہو، وہی کہاوت ہے (گدھے کو نون دیا اُس نے کہا میری آنکھیں دکھتی ہیں) خدا دلواتا ہے تم کیوں انکار کرو۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تم دیوانی ہوئی ہو، اس میں کئی قباحتیں ہیں۔ آپا کے مزاج سے تم واقف ہو اُن کو ضرور رنج ہوگا، ناحق اماں سے بدمزگی ہوگی۔ مجھ سے بھی ان کو بدگمانی پیدا ہوگی۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’بوا، اس میں رنج کی کیا بات ہے، اپنی اپنی قسمت ہے اور سمجھنے کو سو طرح کی باتیں ہیں۔ ان کی بسم اللہ کی، شادی ہوئی، روزہ رکھا گیا، چار برس تک منگنی رہی، تیج تیوہار اُن کا کون سا نہیں ہوا اُن کی کسر ادھر سمجھ لیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’سچ ہے مگر نام تو جہیز کا ہے۔ چھوٹی کو زیادہ ملے گا تو بڑی کو رنج ہوگا ہی۔ ایک محلے کا رہنا روز کا ملنا ملانا جس بات سے دلوں میں فرق پڑے، کیوں کی جائے ۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’بہن ناحق تم اپنا نقصان کرتی ہو۔ اجی مہینے دو مہینے میں سب بھول بسر جائیں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ارے بی، اللہ اللہ کرو، نفع نقصان کیسا؟ کہیں ماں باپ کے دینے سے پوری پڑتی ہے اور جہیز سے عمریں کٹتی ہیں۔ خدا اپنی قدرت سے دے تم اس بات میں اصرار مت کرو۔ نہیں میں کچھ دوسری تدبیر کروں، مجھ کو کسی طرح منظور نہیں۔‘‘
غرض اصغری کی ماں تک یہ بات پہنچ گئی اور وہ بھی کچھ سوچ سمجھ اپنے ارادے سے باز رہی اور دل میں کہنے لگی، دینے کے سو ڈھب ہیں دوسری جگہ سمجھ لوں گی۔ الغرض روزِ مقرر کو ساعتِ نیک میں نکاح ہوگیا۔ مبارک سلامت ہونے لگی۔ خیر اندیش خاں ایسا منتظم آدمی تھا کہ اکیلے نے نہایت خوبی کے ساتھ بہن کا بیاہ کردیا۔ براتیوں کی مدارات علیٰ قدر مراتب خوب ہوئی۔ حق حقوق والوں کو بہت خاصی طرح راضی کردیا۔ جب اصغری کی رخصت کا وقت آپہنچا، گھر میں آفت برپا تھی۔ ماں پر تو نہایت درجے کا صدمہ تھا۔ محلے کی بیبیوں کا یہ حال تھا کہ آ آکر اصغری کو گلے لگا لگا روتی تھیں اور ہر ایک کے دل سے دعا نکلتی تھی۔ اصغری ان دعاؤں کا بڑا بھاری جہیز لے کر سسرال میں داخل ہوئی۔ وہاں کی رسمیں جو تھیں ادا ہوئیں۔ رونما ئی کے بعد اصغری خانم کو تمیز دار بہو کا خطاب ملا۔ آگے چل کر تم کو معلوم ہوجائے گا کہ اصغری نے خانہ داری کو کس طرح پر سنبھالا۔ کیا کیا مشکلیں اس کو پیش آئیں اور اس نے اپنی عقل سے کیوں کر ان کو رفع کیا۔ ذرا اصغری کی حالت کو اکبری کی حالت سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ اصغری ماں کی دوسری بیٹی اور ساس کی دوسری بہو تھی۔ دونوں طرف کے ارمان اور حوصلے اکبری کے بیاہ میں نکل چکے تھے۔ اکبری سولہ برس کی بیاہی گئی تھی اور اصغری بیاہ کے وقت پورے تیرہ برس کی بھی نہ تھی۔ جب اکبری کا بیاہ ہوا اُس کا دولھا محمد عاقل دس روپیے کا نوکر تھا اور اصغری کا دولھا محمد کامل ہنوز پڑھتا ہی تھا۔ محمد عاقل کی بہ نسبت محمد کامل کم علم اور کم عقل بھی تھا۔ اکبری کامل دوبرس تک بال بچوں کے بکھیڑے سے آزاد رہی اور اصغری کو خدا نے بیاہ کے دوسرے برس ہی چھوٹی سی عمر میں ماں بنادیا۔ اکبری کو کبھی شہر سے باہر نکلنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اصغری برسوں سفر میں رہی۔ بہرحال اصغری کی حالت اکبری کی حالت کے مقابلے میں اچھی نہ تھی مگر اصغری کو چھٹ پن سے تربیت ہوئی تھی۔ روز بروز گھر میں برکت زیادہ ہوتی جاتی تھی یہاں تک کہ اکبری کا نام بھی کوئی نہیں جانتااور خانم کے بازار میں تمیزدار بہو کا وہ عالی شان محل کھڑا ہے کہ آسمان سے باتیں کرتا ہے اور اصغری خانم ہی کے نام سے وہ محلہ خانم کا بازار مشہور ہوا۔ جوہری بازار میں وہ اونچی مسجد جس میں حوض اورکنواں ہے تمیز دار بہو ہی کی بنوائی ہوئی ہے۔ خاص بازار سے آگے بڑھ کر لال ڈگی کی بغل میں تمیز گنج اسی کا ہے۔ مولوی محمد حیات صاحب کی مسجد میں اب تک بیس مسافروں کو اس کے لنگر خانے سے خمیری روٹی اور چنے کی دال کا قلیہ دونوں وقت پہنچا کرتا ہے۔ قطب صاحب میں اولیا مسجد کے برابرسرائے اسی تمیزدار بہو کی بنوائی ہوئی ہے۔ فتحپوری میں بمبئی کے چھاپے کے پانچ سو قرآن ایک دن اسی نے تقسیم کیے تھے۔ ہزار کمبل آتے جاڑے اب تک مسکینوں کو اسی کے گھر سے ملا کرتے ہیں۔
جب خیر اندیش خاں نے اپنے باپ دوراندیش خاں کو اطلاع کی کہ خدا کے فضل و کرم سے خیر و خوبی کے ساتھ ہمشیرہ عزیزہ کا عقد ذالحجہ کی گیارھویں تاریخ مہر فاطمہؓ پر ہوگیا، دور اندیش خاں نے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی لیکن بیٹی کی مفارقت کا قلق بہت دن تک رہا۔ اصغری کے نام شادی ہوجانے کے بعد دو راندیش خاں نے جو خط لکھا، دیکھنے کے لائق ہے۔ اتفاق سے ہم کو اس کی نقل ہاتھ آگئی تھی۔ وہ خط یہ ہے:
’’آرام دل و جانم برخوردار اصغری خانم سلمہا اللہ تعالیٰ۔ دعا اور اشتیاق دیدہ بوسی کے بعد، واضح ہو تمھارے بھائی خیراندیش خاں کے لکھنے سے تمھاری رخصت کا حال معلوم ہوا۔ برسوں سے یہ تمنا دل میں تھی کہ یہ فرض میں اپنے اہتمام خاص سے ادا کروں مگر حاکم نے رخصت نہ دی، مجبور رہا۔ یہ بات تم پر ظاہر ہوئی ہوگی کہ سب بچوں میں تم سے مجھ کو ایک خاص درجے کا اُنس تھا اور میں اِس بات کوبطور اظہار احسان نہیں لکھتا بلکہ تم نے اپنی خدمت گزاری اور فرماں برداری سے خود میرے اور سب کے دل میں جگہ پیداکی تھی۔ آٹھ برس کی عمر سے تم نے میرے گھر کا تمام بوجھ اپنے سر پر اٹھا رکھا تھا، مجھ کو ہمیشہ یہ بات معلوم ہوتی رہی کہ تمھارے سبب بیگم یعنی تمھاری ماں کو بڑی بے فکری حاصل ہے۔ جب کبھی اس اثنا میں مجھ کو گھر جانے کا اتفاق ہوا تمھارا انتظام دیکھ کر ہمیشہ میرا جی خوش ہوا۔ اب تمھارے رخصت ہوجانے سے ایسا نقصان ہوا کہ اُس کی تلافی شاید اس عمر میں ہونے کی مجھ کو امید نہیں ہوسکتی۔ خدا تم کو جزائے خیر دے اور اس خدمت کے صلے میں میری دعاؤں کا اثر تم پر ظاہر ہو۔
خیراندیش خاں کے خط سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تم نے اکبری خانم سے زیادہ جہیز نہیں لینا چاہا۔ اس سے تمھاری بلند نظری اور عالی ہمتی ثابت ہوتی ہے، مگر میں اس کا نعم البدل بھیجتا ہوں، وہ یہ خط ہے۔ اس کو تم بطورِ دستورالعمل کے اپنے پاس رکھو اور ان نصیحتوں پر عمل کرو، انشاء اللہ تعالیٰ ہر ایک تکلیف تم پر آسان ہوگی اور اپنی زندگی آرام و آسائش میں بسر کروگی۔ سمجھنا چاہیے کہ بیاہ کیا چیز ہے۔ بیاہ صرف یہی بات نہیں ہے کہ رنگین کپڑے پہنے اور مہمان جمع ہوئے، مال و اسباب و زیور پایا، بلکہ بیاہ سے نئی دنیا شروع ہوتی ہے، نئے لوگوں سے معاملہ کرنا اورنئے گھر میں رہنا پڑتا ہے۔ جس طرح پہلے پہل بچھڑوں پر جُوا رکّھا جاتا ہے، آدمی کے بچھڑوں کا جُوا بیاہ ہے۔ نکاح ہوا۔ لڑکی بیوی بنی، لڑکا میا ں بنا۔ اس کے یہی معنی ہیں کہ دونوں کو پکڑکر دنیا کی گاڑی میں جوت دیا۔ اب یہ گاڑی قبر کی منزل تک ان کو کھینچنی پڑے گی۔ بس بہتر یہ ہے کہ دل کو مضبوط کرکے اس بارِ عظیم کا تحمل کیا جائے اور زندگی کے دن جس قدر ہوں عزت آبرو، صلح کاری، اتفاق سے کاٹ دیے جائیں۔ ورنہ لڑائی بھڑائی، جھگڑے بکھیڑے، شور و فساد، ہائے اور واویلا سے دنیا کی مصیبت اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے ۔ اب تم کو اے میری پیاری بیٹی اصغری خانم سوچنا چاہیے کہ میاں بیوی میں خدا نے کتنا فرق رکھا ہے۔ مذہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت آدمؑ بہشت میں اکیلے گھبرایا کرتے تھے، ان کے بہلانے کو خدا نے ما حوّا کو پیدا کیا جو سب سے پہلی عورت دنیا میں گزری۔ پس عورت کا پیدا کرنا صرف مرد کی خوش دلی کے واسطے تھا اور عورت کافرض ہے مرد کو خوش رکھنا۔ افسوس ہے کہ دنیا میں کس قدر کم عورتیں اس فرض کو ادا کرتی ہیں۔ مردوں کا درجہ خدا نے عورتوں پر زیادہ کیا نہ صرف حکم دینے سے بلکہ مردوں کے جسم میں زیادہ قوت اور ان کی عقلوں میں زیادہ روشنی دی ہے۔ دنیا کا بندوبست مردوں کی ذات سے ہوتا ہے۔ مرد کمانے والے اور عورتیں ان کی کمائی کو موقع مناسب پر خرچ کرنے والی اور اس کی نگہبان ہیں۔ کنبہ بطور کشتی کے ہے اور مرد اُس کے ملاّح ہیں۔ اگر ملاّح نہ ہو تو کشتی پانی کی موجوں میں ڈوب جائے گی یا کسی کنارے پر ٹکر کھاکر پھٹ پڑے گی۔ کبنے میں اگر مرد منتظم نہیں تو اُس میں ہر ایک طرح کی خرابی کا احتمال ہے۔ کبھی نہیں خیال کرنا چاہیے کہ دنیا میں خوشی، دولت اور مالداری سے حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ اس میں بھی شک نہیں کہ دولت اکثر خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ بہت بڑے اور اونچے گھروں میں لڑائی اور فساد ہم زیادہ پاتے ہیں۔ خانہ داری میں خوشی صرف اتفاق اور صلح کاری سے ہوتی ہے ۔غریب آدمیوں کو ہم دیکھتے ہیں جن کی آمدنی بہت مختصر ہے، دن کو محنت مزدوری سے معاش پیدا کرتے ہیں، رات کو سب مل کر دال روٹی سے اپنا اپنا پیٹ بھرلیتے اور ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہتے ہیں۔بے شک یہ لوگ صلح کاری کے سبب دال روٹی اور گاڑھے دھوتر میں زیادہ آرام سے ہیں بہ نسبت نوابوں اور بیگموں کے جن کا تمام عیش آپس کی ناسازگاری سے تلخ رہتا ہے۔ اے میری پیاری بیٹی اصغری خانم !اتفاق پیدا کرو اور صلح کاری کو غنیمت جانو۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اتفاق کن باتوں سے پیدا ہوتا ہے ۔نہ صرف اس بات سے کہ بیوی اپنے میاں سے محبت کرے بلکہ محبت کے علاوہ اُس کو میاں کا ادب بھی کرنا لازم ہے۔ بڑی نادانی ہے اگر بیوی برابر درجے میں میاں کو سمجھے بلکہ اس زمانے میں عورتوں نے ایسا خراب دستور اختیار کیا ہے کہ وہ ادب کے بالکل خلاف ہے۔ جب چند سہیلیاں آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتی ہیں تو اکثر یہ تذکرہ ہوتا ہے کہ فلانی کا میاں اُس کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ رکھتا ہے۔ ایک کہتی ہے بوا میں نے تو یہاں تک ان کو دبایا ہے کیا مجال جو میری بات کو کاٹیں یا اُلٹ کر جواب دیں۔ دوسری فخر کرتی ہے جب تک گھڑیوں خوشامد نہ کریں، میں کھانا نہیں کھاتی۔ تیسری بڑائی مارتی ہے، میں تو جب وہ دس مرتبہ پوچھتے ہیں تب ایک جواب مشکل سے دیتی ہوں۔ چوتھی ڈینگ کی لیتی ہے چاہے وہ آپ پہروں نیچے بیٹھے رہیں بندی کو پلنگ سے اُترنا قسم ہے۔ پانچویں شیخی بگھارتی ہے جو میری زبان سے نکلتا ہے، پورا کراکے رہتی ہوں۔ شادی بیاہ میں ٹونے ٹوٹکے بھی اسی غرض سے نکلے ہیں کہ میاں مطیع و فرماں بردار رہے۔ کہیں تو جوتی پر کاجل پارکر، میاں کے سرمہ لگایا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب کہ عمر بھر جوتیاں کھاتا رہے اور چوں نہ کرے۔ کہیں نہاتے وقت انگوٹھے کے تلے بیڑا رکھا جاتا ہے اور میاں کو کھلایا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی کہ پیروں پڑتا رہے۔ ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ عورتیں مردوں کا درجہ اور اختیار کم کرنے پر آمادہ ہیں لیکن یہ تعلیم بہت بُری تعلیم ہے اور ہمیشہ اس کا نتیجہ قباحت سے خالی نہیں۔ مردوں کو خدا نے شیر بنایا ہے، اگر دباؤ اور زبردستی سے کوئی ان کو زیر کرنا چاہے، ناممکن ہے۔ بہت آسان ترکیب ان کو زیر کرنے کی خوشامد اور تابعداری ہے اور جو احمق عورت اپنا دباؤ ڈال کر مرد کو زیر کرنا چاہتی ہے، وہ بڑی غلطی پر ہے ۔وہ شروع سے تخمِ فساد بوتی ہے اور انجام اس کا ضرور فساد ہوگا، اگرچہ وہ اس کو بالفعل نہیں سمجھتی۔
اصغری خانم میری صلاح یہ ہے کہ تم گفتگو اور نشست و برخاست میں بھی اپنے میاں کا ادب ملحوظ رکھنا۔ کیا وجہ ہے کہ شادی بیاہ ایسی چاؤ سے ہوتا ہے اور چوتھی کے بعد ہی بہو سے ساس نندوں کا بگاڑ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ مضمون غور کے قابل ہے۔ بیاہ کے پہلے تک لڑکا ماں باپ میں رہا اور صرف انھیں کے ساتھ اُس کو تعلق تھا۔ ماں باپ نے اُس کو پرورش کیا اور یہ توقع کرتے رہے کہ بُڑھاپے میں ہماری خدمت کرے گا۔ بیاہ کے بعد بہو ڈولی سے اُترتے ہی یہ فکر کرنے لگتی ہے کہ میاں آج ماں باپ کو چھوڑ دیں ۔پس لڑائی ہمیشہ بہوؤں کی طرف سے شروع ہوتی ہے۔ اگر بہو کنبے میں مل کر رہے اور کبھی ساس کو یہ نہ معلوم ہو کہ یہ بیٹے کو ہم سے چھڑانا چاہتی ہے تو ہرگز فساد نہ پیدا ہو۔ یہ تو سب کوئی جانتا ہے کہ بیاہ کے بعد ماں باپ سے تعلق چند روزہ ہے، آخر گھر الگ ہوگا میاں بیوی جدا ہوکر رہیں گے۔ دنیا میں یہی ہوتی آئی ہے لیکن نہیں معلوم کمبخت بہوؤں کو بے صبری کہاں کی ہوتی ہے کہ جو کچھ ہونا ہو اسی دم ہوجائے۔ بہوؤں میں ایک عیب چغلی کا ہوتا ہے جس سے زیادہ فساد ہوتا ہے، وہ یہ کہ سسرال کی ذرا ذرا بات آکر ماں سے کہا کرتی ہیں اور مائیں خود بھی کھود کھود کر پوچھا کرتی ہیں لیکن اس کہنے اور پوچھنے سے سوائے اس کے کہ لڑائیاں پڑیں اور جھگڑے کھڑے ہوں کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔بعض بہوویں اس طرح کی مغرور ہوتی ہیں کہ سسرال میں کیسا ہی اچھا کھانا اور کیسا ہی اچھا کپڑا اُن کو ملے ہمیشہ نظرِ حقارت سے دیکھتی ہیں ۔ایسی باتوں سے میاں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ اصغری اس کی تم کو بہت احتیاط چاہیے ۔سسرال کی ہر ایک چیز قابلِ قدر ہے اور تم کو ہمیشہ کھانا کھاکر اور کپڑا پہن کر بشاشت ظاہر کرنی چاہیے جس سے معلوم ہو کہ تم نے پسند کیا۔ سسرال میں نئی دُلھن کو اس بات کا خیال بھی ضرور رکھنا چاہیے کہ بے دلی سے وہاں نہ رہے ،اگرچہ ناآشنا ہونے کے سبب البتہ اجنبی لوگوں میں جی نہیں لگتا، لیکن جی کو سمجھانا چاہیے نہ یہ کہ روتے گئے، وہاں رہے تو روتے۔ جاتے دیر نہیں ہوئی آنے کا تقاضا شروع ہوا۔ رفتہ رفتہ اُنس پیدا کرنے کے واسطے چالوں کا رواج بہت پسندیدہ ہے۔ اس سے زیادہ میکے کا شوق ظاہر کرنا سسرال والوں کو ضرور ناپسند ہوتا ہے۔ گفتگو میں درجۂ اوسط ملحوظ رہے، یعنی نہ اتنی بہت کہ خود بخود بک بک، نہ اتنی کم کہ غرور سمجھا جائے۔ بہت بکنے کا انجام رنجش ہوتا ہے، جب رات دن کی بکواس ہوگی، ہزاروں طرح کا تذکرہ ہوگا نہیں معلوم کس تذکرے میں کیا بات منھ سے نکل جائے۔ نہ اتنی کم گوئی اختیار کرنی چاہیے کہ اب بولنے کے واسطے لوگ خوشامد اور منت کریں۔ ضد اور اصرار کسی بات پر زیبا نہیں۔ اگر کوئی بات تمھاری مرضی کے خلاف بھی ہو اُس وقت ملتوی رکھو، پھر کسی دوسرے وقت بطرزِ مناسب طے ہوسکتی ہے۔ فرمائش کسی چیز کی نہ کرنی چاہیے۔ فرمائش کرنے سے آدمی نظروں میں گھٹ جاتا ہے اور اس کی بات ہیٹی ہوجاتی ہے،جو کام ساس نندیں کرتی ہیں، تم کو اپنے ہاتھوں سے کرنا عار نہ سمجھنا چاہیے۔ چھوٹوں پر مہربانی اور بڑوں کا ادب ہر دل عزیز ہونے کے واسطے بڑی عمدہ تدبیر ہے ۔اپنا کوئی کام دوسروں کے ذمّے نہیں رکھنا چاہیے اور اپنی کوئی چیز بے خبری سے نہ پڑی رکھنی چاہیے کہ دوسرے اُس کو اٹھا لیں گے۔ جب دو آدمی چپکے چپکے باتیں کریں اُن سے علاحدہ ہوجانا چاہیے پھر اس کی فکر بھی مت کرو کہ یہ آپس میں کیا کہتے تھے اور خواہ یہ بھی مت سمجھو کہ کچھ ہمارا ہی تذکرہ تھا۔ اپنا معاملہ شروع سے ادب لحاظ کے ساتھ رکھو۔ جن لوگوں میں بہت جلد نہایت درجے کا اختلاط پیدا ہوجاتا ہے اُسی قدر جلد اُن میں رنجش پیدا ہونے لگتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ہر روز بلا ضرورت بھی اس خط کو کم سے کم ایک دفعہ پڑھ لیا کرو تاکہ اس کا مطلب پیشِ نظر رہے۔
والد عا
حررۂ دوراندیش خاں
باپ کا خط پاکر اصغری کے دل میں جوشِ محبت نے عجیب اثر پیدا کیا اور بے اختیار رونے کو جی چاہا لیکن نئی بیاہی ہوئی تھی، سسرال میں رونے کی ضبط کو کام میں لائی اور باپ کے خط کو آنکھوں سے لگا، بہت احتیاط سے وظیفے کی کتاب میں رکھ لیا اور ہر روز بلاناغہ اُس خط کو پڑھا کرتی اور اُس کے مطلب پر غور کیا کرتی تھی۔ جب تک اصغری نئی بیاہی ہوئی رہی تو اُس کا جی بہت گھبراتا تھا، اس واسطے کہ دفعۃً ماں کا گھر چھوڑکر نئے گھر اور نئے آدمیوں میں رہنا پڑا ۔یہ تو کام اور انتظام کی خوگر تھی، بے شغل اس کو ایک گھڑی چین نہ تھا یا مہینوں بند کوٹھری میں چپ چاپ بیٹھنا پڑا۔ ماں باپ کے گھر میں جو آزادی حاصل تھی وہ باقی نہ رہی ۔یہاں سسرال میں آتے ہی اس کی ہر ایک بات کو لوگ دیکھنے اور تاڑنے لگے۔ کوئی منھ دیکھتا ہے ،کوئی چوٹی کی لمبان ناپتا ہے، کوئی قد کی اُٹھان کو تاڑتا ہے، کوئی زیور ٹٹولتا ہے ،کوئی کپڑے پہچانتا ہے۔ کھاتی ہے تو لقمے پر نظر ہے نوالہ کتنا بڑا لیا، منھ کتنا کھولا ،کیوں کر چبایا،اور کس طرح نگلا۔ اُٹھتی ہے تو یہ دیکھتے ہیں کہ دوپٹہ کیوں کر اوڑھا، پاینچے کس طرح اٹھائے۔ سوتی ہے تو وقت پر نگاہ ہے ، کس وقت سوئی کب اٹھی۔ الغرض جملہ حرکات و سکنات اس کی زیرِ نظر تھیں ۔ایسی حالت میں اصغری کو سخت تکلیف ہوتی تھی لیکن ازبسکہ عاقلہ اور تربیت یافتہ تھی، ایسے سخت امتحان میں کامل نکلی اور سب ادائیں ا س کی سسرال والوں کو بھائیں ۔بات کی تو نہ اس قدر بہت کہ لوگ کہیں کیسی لڑکی ہے، چار دن بیاہی ہوئی نے کس بلا کی بک بک لگا رکھی ہے نہ اتنی کم کہ بدمزاج اور تیوری پیٹی سمجھیں۔کھانا کھایا تو نہ اتنا زیاد ہ کہ محلے میں چرچا ہو نہ ایسا کہ ساس نندیں سر تھکاکر بیٹھ رہیں اور یہاں اثر نہ ہو ،سوئی نہ اتنا سویرے کہ چراغ میں بتّی پڑی لاڈو میری تخت چڑھی او رنہ اتنی دیر تک کہ گویا مردوں سے شرط باندھ کر سوئی تھی۔ دستور ہوتا ہے کہ نئی دُلھن کو محلے کی لڑکیاں گھیرے رہا کرتی ہیں۔ اصغری کے پاس بھی جب دیکھ دس پانچ موجود لیکن اصغری نے کسی سے خصوصیت پیدا نہ کی۔ اگر کوئی لڑکی تمام دن بیٹھی رہ گئی تو یہ نہ کہا کہ بوا اپنے گھر جاؤ ،اگر کوئی نہ آتی تو اس سے یہ نہ پوچھا کہ بوا تم کہاں تھیں، کیوں نہیں آئیں۔ اصغری کے اس طرزِ ملاقات اور طریقۂ مدارات سے رفتہ رفتہ لڑکیوں کا انبوہ کم ہوگیا۔ خصوصاً محلے کے کمینوں کی لڑکیاں تو چاٹ کی آشنا ہوتی ہیں، جب انھوں نے دیکھا کہ نہ تو پان پرپان ملتا ہے نہ کچھ سودے سلف کا ذکر ہے۔ چھ سات دن میں بادل کی طرح چھٹ کر الگ ہوگئیں۔ اصغری نے پہلے محمودہ اپنی نند سے ربط بڑھایا۔ محمودہ لڑکی تو تھی ہی، تھوڑے سے التفات میں رام ہوگئی۔ دن بھر اصغری کے پاس گھُسی رہا کرتی تھی بلکہ ماں کسی وقت کہہ بھی اٹھتی کہ’’ اس بھاوج پر اتنی مہربان کیوں ہو، بڑی بھاوج کے تو سایے سے تم بھاگتی پھرتی تھیں۔‘‘
محمودہ اس کا جواب دیتی کہ ’’وہ تو ہم کو مارتی تھیں، ہماری چھوٹی بھابی جان تو ہم کو پیار کرتی ہیں۔‘‘
محمودہ کی ملاقات سے اصغری نے اپنا خوب کام نکالا۔ اوّل تو تمام گھر کا حال بلکہ تمام کنبے اور محلے کا حال محمودہ سے پوچھ پوچھ کر معلوم کیا اور جو بات شروع میں شرم و لحاظ کے سبب خود نہ کہہ سکتی وہ محمودہ کے ذریعے سے کہا کرتی۔ اصغری نے گھر کے کام میں بتدریج اس طرح پر دخل دینا شروع کیا کہ شام کو محمودہ سے روئی منگاکر چراغ کی بتّیاں بٹ دیا کرتی، ترکاری بنالیتی، محمودہ کا پھٹا اُدھڑا کپڑا سی دیتی، ساس اور میاں کے لیے پان بنادیا کرتی، شدہ شدہ باورچی خانے تک جانے اور ماما عظمت کو بھوننے بگھارنے میں صلاح دینے لگی۔ یہاں تک کہ اصغری کی رائے پر کھانا پکنے لگا۔ جب سے اصغری نے کھانے میں دخل دینا شروع کیا گھر والوں نے جانا کہ کھانا بھی عجب نعمت ہے ۔پھر تو یہ حال ہوگیا کہ جس دن اصغری کسی وجہ سے ماما عظمت کی صلاح کار نہ ہوتی کھانا پھکا پھکا پھرتا تھا۔ ساس بہوؤں کی لڑائی کچھ معمولی بات ہے۔ اصغری یوں لڑنے کے قابل نہ تھی تو اس کا ہنر باعث فساد ہوا۔ماما عظمت اس گھر میں ایسی دخیل کار تھی کہ کل کاموں کا مدار اس ماما پر تھا ۔سودا سلف کپڑا، اناج جو کچھ بازار سے آتا، سب ماما عظمت کے ہاتھوں آتا، زیور تک ماما عظمت بنواکر لاتی۔ قرض کی ضرورت ہوتی تو وہ بھی ماما عظمت کی معرفت لیا جاتا ۔غرض کہ ماما عظمت مردوں کی طرح اس گھر کی منتظم تھی۔ جب سے اصغری نے کھانے میں دخل دیا تو ماما عظمت کا غبن ظاہر ہونے لگا۔ ایک دن پسندوں کے کباب پک رہے تھے اور اصغری باورچی خانے میں بیٹھی ہوئی ماما کو بتاتی جاتی تھی۔ جب گوشت پس کر تیار ہوا اور دہی مصالحہ ملنے کا وقت آیا، اصغری نے ماما سے کہا ’’دہی مجھ کو چکھالو، کھٹا اور باسی ہوگا تو کبا ب بگڑ جائیں گے۔‘‘ ماما نے دہی کا دونا نکال اصغری کے ہاتھ میں دیا۔ اصغری نے چکھا تو کھٹا چونا، کئی دن کا باسی، نیلا نیلا، پانی الگ اور دہی کی پھٹکیاں الگ۔
اصغری نے کہا ’’اے ہے کیسا بُرا دہی ہے، یہ تو ہرگز کبابوں میں ڈالنے کے لائق نہیں۔ماما جلد جاؤ اور ٹکے کا ا چھا تازہ میٹھا دہی دیکھ کر لاؤ۔‘‘
ماما نے کہا ’’اُئی بی بی سیر بھر گوشت کے کبابوں میں ٹکے کا دہی اونٹ کے منھ میں زیرہ کیا ہوگا۔ یہ دہی جو تم نے ناپسند کیا ایک آنے کا ہے۔‘‘
اصغری کو سن کر حیرت ہوئی اور بولی کہ ہمارے گھر تو آئے دن کباب پکتے رہا کرتے تھے۔ ہمیشہ سیر بھر گوشت میں ڈیڑھ پیسے کا دہی پڑتا تھا۔ اس حساب سے تو ٹکے کا میں نے زیادہ سمجھ کر منگوایا کہ کباب خوب نرم اور سرخ ہوں۔‘‘
ماما نے کہا ’’تم بی بی اپنے محلے کا حساب کتاب رہنے دو، بھلا کہاں چاندنی چوک اور کہاں ترکمان دروازہ۔ جو چیز چاندنی چوک میں پیسے کی ہے وہ یہاں ایک آنے کو بھی نہیں ملتی۔ یہ خاک مِلا محلہ تو اوجاڑ نگری سونا دیس ہے۔ ہرچیز کا توڑا ہرچیز کا قحط رہتا ہے ۔‘‘
چوں کہ کھانے میں دیر ہوتی تھی۔ اصغری یہ سن کر چپ ہورہی اور ماما سے کہا ’’خیر جتنے کا ملتا ہو جلد لاؤ۔‘‘
لیکن اصغری ایسی بھولی نہ تھی کہ ماما کی بات کو تسلیم کرلیتی۔ اپنے دل میں کہنے لگی ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ دمڑی چھدام کا فرق ہو تو مضائقہ نہیں، یہ غضب کہ ایک شہر کے دو محلوں میں دوگنے چوگنے کا فرق۔ اس وقت سے اصغری بھی تاک میں ہوئی، اگلے دن ماما پان لائی تھی۔
اصغری نے دیکھ کر کہا کہ ’’ماما تم تو بالکل ہرے پتّے اٹھا لاتی ہو، ان میں نہ کچھ لذّت ہوتی ہے نہ کچھ مزہ ملتا ہے ۔اب تو جاڑے کی آمد ہے، کرارے پکے پکے پان ڈھونڈ کر لایا کرو۔‘‘
ماما نے کہا ’’پکے پان تو پیسے کے دو آتے ہیں اور یہاں اللہ رکھے آدھی ڈھولی روز کا خرچ ہے، اس خیال سے میں نئے پان لاتی ہوں۔‘‘
اتنے میں اصغری کے گھر سے اُس کی اپنی ماما کفایت النسا خیرصلاح کی خبر کو آنکلی۔ پانوں کا تذکرہ تو درپیش تھا۔
اصغری نے اپنی ماما سے پوچھا ’’کیوں بی کفایت النسا تم کو آج کل کیسے پان ملتے ہیں؟‘‘
کفایت النسا نے کہا ’’بیوی پیسے کے سولہ۔‘‘
اصغری نے صندوقچہ کھول، دو پیسے کفایت النسا کے ہاتھ دیے اور کہا ’’اسی محلے کی پنواڑی سے پان لے آؤ۔‘‘
کفایت النسا بڑے بڑے کرارے دلدار چالیس پان لے آئی۔
اصغری نے کہا ’’چاندنی چوک کی نسبت بھی پیسے پیچھے چار پان زیادہ ملے۔‘‘
کفایت النسا نے کہا ’’بیوی یہ محلہ شہر کا پھاٹک ہے۔ جو چیز شہر میں آتی ہے اسی دروازے سے آتی ہے۔ گوشت، اناج، پان، یہ چیزیں اس محلے میں سستی ملتی ہیں ،البتہ ہری ترکاری سبزی منڈی سے سیدھے کابلی دروازے ہوکر شہر میں جاتی ہے وہ کسی قدر مہنگی ہوگی۔ پرانے پان چالیس ملے ،اگر نئے لیتی تو ساٹھ ملتے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’یہ نامراد ماما عظمت تو ہر چیز میں یوں ہی آگ لگاتی ہے۔‘‘
کفایت النسا ’’تم دو چار دن یہاں رہو، میں اماں سے کہلا بھیجوں گی۔ وہاں کا کام دوچار دن کے لیے ہر کوئی دیکھ بھال لے گا۔‘‘
کفایت النسا نے کہا ’’بیوی میں حاضر ہوں۔ خدا نہ کرے، کیا یہاں وہاں دو دو گھر ہیں۔‘‘
غرض چار دن کفایت النسا کے ہاتھوں ہر طرح کا سودا بازار سے آیا اور ہر چیز میں ماما عظمت کا غبن ثابت ہوا۔ لیکن یہ سب باتیں اس طرح پر ہوئیں کہ اصغری کی ساس کو خبر تک نہ ہوئی۔ اصغری نے جانا یا کفایت النسا نے یا ماما عظمت نے۔ اس واسطے کہ اصغری بہت مروّت اور لحاظ کی عورت تھی ۔اس نے سمجھا کہ اس بُڑھیا ماما کو بدنام اور ر سوا کرنے سے کیا فائدہ۔ رات کے وقت کھانے سے فراغت ہوکر کوٹھے پر اصغری پان کھارہی تھی، کفایت النسا بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی، اتنے میں ماما عظمت آئی۔
کفایت النسا نے کہا ’’کیو ں بوا عظمت، یہ کیا ماجرا ہے۔ چوری کون نوکر نہیں کرتا؟ دیکھو یہ گھر والی موجود ہیں، سات برس تک برابر ان کی خدمت کی، گھر کا کاروبار سب یہ اٹھائے ہوئے تھیں۔ اللہ رکھے امیر گھر اور امیری خرچ ۔ہزاروں روپیے کا سودا نھیں ہاتھوں سے آیا۔ حق دستوری یہ کیوں کر کہوں نہیں لیا، اتنا لینا تو ہم نوکروں کا دھرم ہے چاہے خدا بخشے چاہے مارے لیکن اس سے زیادہ تو ہضم نہیں ہوسکتا۔ آگے بڑھ کر نمک حرامی میں داخل ہے۔‘‘
عظمت نے کہا ’’بوا میرا حال کون نہیں جانتا ۔اب میری بلا چھپائے، ہاں میں تو چراتی اور لوٹتی ہوں لیکن نہ آج سے بلکہ سدا سے میرا یہی کام ہے ۔ذرا میری حالت پر بھی تو نظر کرو کہ اس گھر میں کس بلا کا کام ہے، اندر باہر میں اکیلی آدمی، چار نوکروں کا کام میرے اکیلے دم پر پڑتا ہے ۔پھر بوا بے مطلب تو کوئی اپنی ہڈیاں یوں نہیں پیلتا۔ بیوی کئی مرتبہ مجھ کو موقوف بھی کرچکی ہیں۔ پھر آخر مجھ ہی کو بلوایا، سمجھ کا پھیر ہے کوئی یوں سمجھا، کوئی ووں سمجھا۔ چار آدمی کے بدلے میں اکیلی ہوں، چار کی تنخواہ بھی مجھ اکیلی کو ملنی چاہیے۔‘‘
اور حال اس ماما عظمت کا اس طرح پر ہے کہ یہ عورت پچیس برس سے اس گھر میں تھی اور ہمیشہ لوٹنے پر اُتارو تھی۔ ایک دن کی بات ہو تو چھپ چھپا جائے، آئے دن اس کا فریب ظا ہرہوا کرتا تھا۔ کئی مرتبہ نکالی گئی۔جب موقوف ہوئی بنیے، بزاز، سنار، قصائی ، کنجڑے جن جن سے اس کی معرفت اُچاپت۔ قرض اٹھتی تھی تقاضے کو آموجود ہوئے اس ڈر کے مارے پھر بلالی جاتی تھی۔ یوں چوری اور سرزوری ماما عظمت کی تقدیر میں لکھی تھی ۔جتاکر لیتی اور بتاکر چراتی، دکھاکر نکالتی اور لکھاکر مکر جاتی۔ گھر میں آمدنی کم اور عادتیں بگڑی ہوئیں ۔کھانے میں امتیاز، کپڑے میں تکلف ۔سب کارخانہ قرض پر تھا اور قرض کی آڑھت ماما عظمت کے دم سے تھی۔ کھلے خزانے کہتی تھی کہ میرا نکلنا آسان بات نہیں، گھر نیلام کراکے نکلوں گی، اینٹ سے اینٹ بجاکر جاؤں گی۔ اصغری نے جو حساب کتاب میں روک ٹوک شروع کی تو ماما عظمت اصغری کی جانی دشمن ہوگئی اور اس فکر میں ہوئی کہ اصغری کو محمد کامل اور اس کی ماں سے بُرا بنائے۔ لیکن اصغری اس ارادے سے بے خبر تھی۔ بلکہ اصغری نے جب دیکھا کہ ماما گھر کی مختارِ کُل ہے، نہ اپنی عادت سے باز آئے گی نہ نکلے گی تو اپنے جی میں کہا کہ پھر ناحق کی جھک جھک سے کیا فائدہ، میں مفت میں ماما سے کیوں بُری بنوں۔ باورچی خانے کا جانا اور کھانے میں دخل دینا بالکل موقوف کیا۔ گھر والوں کو تو اصغری کے ہاتھ کی چاٹ لگ گئی تھی، پہلے ہی وقت سے منھ بنانے لگے۔ کوئی کہتا اَے ہے گوشت منھ میں کچر کچر ہوتا ہے، کوئی کہتا دال میں نمک زہر ہوگیا ہے، زبان پر نہیں رکھی جاتی، لیکن اصغری سے کون کہہ سکتا تھا کہ تم کھانا پکاؤ۔ مجبور جیسا بُرا بھلا ماما عظمت پکا ریندھ کر رکھ دیتی، کھانا پڑتا تھا۔
ایک دن برسات کے موسم میں بادل گھرا ہوا تھا، ننھی ننھی پھُہار پڑ رہی تھی، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ محمد کامل نے کہا ’’آج تو کڑھائی کو جی چاہتا ہے لیکن بشرطیکہ تمیزدار بہو اہتمام کریں۔‘‘ اصغری کوٹھے پر رہا کرتی تھی۔ اس کو خبر نہیں کہ محمد کامل نے کڑھائی کی فرمائش کی۔ ماما عظمت گھی شکر بیسن وغیرہ سامان لے آئی اور محمد کامل سے کہا صاحبزادے لیجیے سب سودا تو میں لے آئی ،جاؤں بہو صاحب کو بلالاؤں۔ کوٹھے پر گئی تو اصغری سے کڑھائی کا کچھ تذکرہ تک نہیں کیا اُسی طرح اُلٹے پاؤں اُتر آئی اور کہا بہو کہتی ہیں میرے سر میں درد ہے ۔ماما عظمت سے معمولی کھانا توپک نہیں سکتا تھا کڑھائی کیا خاک پکاتی۔ سب چیزوں کا ستیاناس ملاکر رکھ دیا۔ کس آرزو سے محمد کامل نے فرمائش کی تھی بدمزہ پکوان کھاکر بہت اداس ہوا۔ کوٹھے پر گیا تو بیوی کو دیکھا کہ اپنا پائجامہ سی رہی ہیں، جی میں ناخوش ہوا کہ سینے کو سر میں درد نہیں اور ذرا کڑھائی کو کہا تو دردِ سر کا بہانہ کردیا۔ یہ پہلی ناخوشی محمد کامل کو اصغری سے پیدا ہوئی اور دستور ہے کہ میاں بیویوں میں بگاڑ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں پیدا ہوا کرتا ہے۔ از بسکہ اکثر چھوٹی سی عمر میں بیاہ ہوجاتا ہے، خدا کے فضل سے عقل، مصلحت اندیش نہ میاں میں ہوتی ہے نہ بیوی میں۔ اگر ذرا سی بات بھی خلافِ مزاج دیکھی تو میاں الگ اکڑے بیٹھے ہیں اور بیوی الگ منھ اوندھائے لیٹی ہیں۔ اور جب ایک جگہ کا رہنا سہنا ہوا تو مخالفت کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا بیشتر واقع ہونا کیا تعجب ہے۔ یہ مخالفت کثرت سے ہوتے ہوتے آپس کے اتحاد اور باہم کی موافقت میں بڑا فتور پیدا کرتی ہے اور دونوں طرف سے لحاظ اور پاس اُٹھ جاتا ہے اور تمام عمر جوتیوں میں دال بٹتی رہتی ہے۔ سب سے بہتر تدبیر یہ ہے کہ میاں بیوی شروع سے اپنا معاملہ ایک دوسرے کے ساتھ صاف رکھیں اور ادنیٰ رنجش کو بھی پیدا نہ ہونے دیں، ورنہ یہی چھوٹی چھوٹی رنجشیں جمع ہوکر آخر کو فسادِ عظیم اور بگاڑ ہوجائیں گی اور رنجش کو پیدا نہ ہونے دینے کی یہ حکمت ہے کہ جب کوئی ذراسی بات بھی خلافِ مزاج واقع ہو اُس کو دل میں نہ رکھا، منھ درمنھ کہہ کر صاف کرلیا۔ اگر محمد کامل میں عقل ہوتی اور وہ اس حکمت کو جانتا ہوتا، ضرور بی بی سے بطور شکایت پوچھتا کہ کیوں صاحب ذرا سا کام تم سے نہ ہوسکا اور دردِ سر کا بہانہ کردیا ۔اُسی وقت دوچار باتوں میں معاملہ طے ہوجاتا اور ماما عظمت کی فطرت کھل پڑتی لیکن محمد کامل نے منھ پر تو مہر لگائی اور دل میں دفترِ شکایت لکھ چلا۔ اصغری کو محمد کامل کی کم التفاتی سے کھٹکا ہوااور سمجھی کہ خدا خیر کرے لڑائی کا آغاز آتا ہے۔ ساس کو دیکھا تو اُن کو بھی مکدر پایا۔ حیرت میں تھی کہ الٰہی کیا بات ہے۔ ابھی یہ بات طے نہ ہوئی تھی کہ ماما عظمت نے ایک وار اور کیا۔ رمضان کا قرب تھا، محمد کامل کی ماں نے ماما عظمت سے کہا کہ ماما رمضان آتا ہے، ابھی سے تیاری کرچلو۔برتن چھوٹے بڑے سب قلعی کرانے ہیں، مکان میں برس بھر ہوا سفیدی نہیں ہوئی۔ لالہ ہزاری مل سے کہو کہ جس طرح ہوسکے کہیں سے پچاس روپیے دے، عید کا خرچ سر پر چلا آتا ہے۔ ’’ماما عظمت بولی کہ تمیزدار بہو اپنی ماں کے یہاں مہمان جائیں گی اور میں نے سنا ہے تحصیل دار بھی آنے والے ہیں ضرور دونوں بیٹیوں کو بلا بھیجیں گے اور میں نے ایک جگہ یہ بھی سنا ہے کہ تمیزدار بہو کا ارادہ ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ چلی جائیں۔ بہو جائیں گی تو چھوٹے صاحبزادے بھی جائیں گے پھر بیوی تمھارا اکیلا دم ہے مکان میں سفیدی ہوکر کیا کرے گی اور برتن قلعی ہوکر کیا ہوں گے۔ ہزاری مل کم بخت تو ایسا بے مروّت ہوگیا ہے کہ ہر روز تقاضے کو اُس کا آدمی دروازے پر کھڑا رہتا ہے اور قرض کیوں کر دے گا۔‘‘ محمد کامل کی ماں یہ سن کر سرد ہوگئی اور سرد ہونے کی بات تھی۔ میاں تو جس دن سے لاہور گئے پھر کر گھر کی شکل نہ دیکھی ،چھٹے مہینے برسوں دن جی میں آگیا تو کچھ بھیج دیا ورنہ کچھ واسطہ نہیں۔ محمد عاقل ماں سے الگ ہوہی چکا تھا، صرف محمد کامل کا دم گھر میں تھا، اس کے گئے پیچھے مطلع صاف تھا۔ محمد کامل کی ماں نے ماما سے پوچھا ’’اری سچ بتا تمیزدار بہو ضرور جائیں گی۔‘‘
ماما بولی ’’بیوی جانے نہ جانے کی تو خدا جانے جو سنا تھا سو کہہ دیا۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے پوچھا ’’اری کمبخت کس سے سنا، کیوں کر معلوم ہوا ؟‘‘
ماما بولی ’’سننے کی جو پوچھو تو کفایت النسا سے میں نے دو روپیے قرض مانگے تھے ،اُس نے کہا میں دے تو دیتی لیکن پہاڑ پر جانے والی ہوں۔ تب میں نے اس سے حال پوچھا۔اُس سے معلوم ہوا کہ سب بات ٹھیک ٹھاک ہوچکی ہے بس اتنی دیر ہے کہ تحصیل دار آئیں۔ عید کی صبح کو یہ سب لوگ روانہ ہوجائیں گے اور سننے پر کیا منحصر ہے خدا کو دیکھا نہیں تو عقل سے پہچانا ہے۔ بیوی کیا تم کو تمیزدار بہو کے ڈھنگوں سے نہیں سمجھ پڑتا۔ دیکھو، پہلے تو بہو گھر کا کام کاج بھی دیکھتی بھالتی تھیں، اب تو کوٹھے پر سے نیچے اُترنا بھی قسم ہے۔ خط پر خط باپ کے نام چلے جاتے ہیں۔ سوائے جانے کے ایسا اور کون سا معاملہ ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں یہ حال سن کر سنّاٹے میں رہ گئی اور اسی سوچ میں بیٹھی تھی کہ محمد کامل باہر سے آیا۔ محمد کامل کو پاس بلاکر پوچھا کہ ’’کامل ایک بات پوچھتی ہوں، سچ سچ بتائے گا۔ ‘‘
محمد کامل نے کہا ’’امّاں بھلا ایسی کون بات ہے جو تم سے چھپاؤں گا۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے جو کچھ ماما سے سنا تھا حرف بحرف محمد کامل سے کہا۔
محمد کامل نے کہا ’’اماں میں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو اس کی مطلق خبر نہیں، نہ مجھ سے تمیزدار بہو نے اس کا تذکرہ کیا۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولی ’’چل بیٹھ ہمیں سے باتیں بناتا ہے، اتنی بڑی بات اور تجھ کو خبر نہیں۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’تم کو تو یقین نہیں آتا، تمھارے سر کی قسم، مجھ کو معلوم نہیں۔‘‘ اتنے میں ماما بھی آنکلی۔
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’کیوں ری عظمت، کامل تو کہتا ہے مجھ کو معلوم نہیں۔‘‘
ماما نے کہا ’’میاں تم بُرا مانو یا بھلا، تمھاری بیوی جانے کی تیاریاں تو کررہی ہیں، تم سے شاید چھپاتی ہوں۔ یہ مزاج دار بہو نہ ہوں کہ اُن کے پیٹ میں بات نہیں سماتی تھی۔ یہ تمیزدار بہو ہیں کہ کسی کو اپنا بھید نہ دیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے پوچھا ’’بھلا کامل اگر یہ بات سچ ہو تو تمھارا کیا ارادہ ہے۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’بھلا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ تم کو اکیلا چھوڑکر چلا جاؤں گا اور تمیز دار بہو بھی ایسی کیا زبردستی ہے کہ بے پوچھے گچھے چلی جائیں گی اور میں آج تمیزدار بہو سے پوچھوں گا کہ کیوں جی یہ کیا بات ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’اس نامراد ماما کی بات کا کیا اعتبار ہے، ابھی بہو سے کچھ ذکر مذکور مت کرو جب بات تحقیق ہوجائے گی تو دیکھا جائے گا۔‘‘
اس طرح کی باتوں سے ماما عظمت اصغری کو ساس اور میاں سے بُرا بنانے کی فکر میں تھی اور اصغری سے ہر چند کسی نے منہ در منہ کچھ کہا سنا نہیں ،لیکن وہ بھی ان سب کے قیافے سے سمجھ گئی تھی کہ ضرور کچھ کشیدگی ہے۔ اصغری کے پاس محمودہ بڑی جاسوس تھی ذرا ذرا سی بات اصغری سے کہتی اور ماما کی بدذاتی سب اصغری پر کھل گئی تھی، لیکن اصغری ایسی احمق نہ تھی۔ کہ جلد بگڑ بیٹھتی۔ وہ اس فکر میں ہوئی کہ اس معاملے میں اپنی طرف سے کچھ کہنا سننا مناسب نہیں، آخر کبھی نہ کبھی بات کھلے گی اُس وقت دیکھا جائے گا۔
اصغری نے اپنے دل میں کہا کہ ’’بھلا عظمت رہ تو سہی، انشاء اللہ تعالیٰ تجھ کو بھی کیسا سیدھا بناتی ہوں۔ اب یہاں تک تیرے مغز چل گئے ہیں کہ گھر کے گھر میں فساد ڈلواتی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ تجھ کو وہاں ماروں کہ پانی نہ ملے اور ایسا تجھ کو اجاڑوں کہ پھر اس محلّے میں آنا نصیب نہ ہو۔‘‘
ماما عظمت کی شامت سر پر سوار تھی۔ تیسرا وار اصغری پر اور سہی کیا۔ ہزاری مل کی تو عادت تھی کہ جب کبھی ماما عظمت کو اپنی دکان کے سامنے سے آتے جاتے دیکھتا تو ادبدا کر چھیڑتا کہ کیوں ہمارے حساب کتاب کی بھی کچھ فکر ہے اور آٹھویں ساتویں دن گھر پر تقاضا کہلا بھیجتا۔ ایک دن حسبِ معمول ماما عظمت سودے سلف کو بازار جاتی تھی ہزاری مَل نے ٹوکا۔
ماما بولی ’’اے لالہ یہ کیا تم نے مجھ سے آئے دن کی چھیڑخانی مقرر کی ہے۔ جب مجھ کو دیکھتے ہو تقاضا کرتے ہو، جن کو دیتے ہو ان سے مانگو، اُن پر تقاضا کرو۔ میں بیچاری غریب آدمی ٹکے کی اوقات مجھ سے اور مہاجنوں کے لین دین سے کیا واسطہ۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ’’یہ بات تم نے کیا کہی کہ مجھ سے واسطہ نہیں ،دُکان سے تو تم لے جاتی ہو ہاتھ کو ہاتھ پہچانتا ہے۔ ہم تو تم کو جانتے ہیں اور تمھاری ساکھ پر دیتے ہیں۔ ہم گھر والوں کو کیا جانیں۔‘‘
ماما نے کہا ’’اے لالہ ہوش میں آؤ، ایسے گھر کے بھولے، میری ایسی کیا حیثیت تم نے دیکھ لی۔ میرے پاس نہ جائداد نہ دولت اور تم نے سیکڑوں روپیہ آنکھ بند کرکے مجھ کو دے دیا۔ اور اگر مجھ کو دیا توجاؤ مجھی سے لے بھی لینا۔ میرے جو محل کھڑے ہوں گے بِکوالینا، قلعے میں جو میری تنخواہ ہوگی، بند کرادینا۔‘‘
ماما کی ایسی اُکھڑی اُکھڑی باتیں سن کر ہزاری مل بہت سٹ پٹایا اور ماما سے للاوٹ کی باتیں کرنے لگا اور کہا کہ’’ آج تو تم کسی سے لڑکر آئی معلوم ہوتی ہو، بتاؤ تو کیا بات ہے۔بیوی صاحب نے کچھ کہا یا صاحبزادے کچھ خفا ہوئے۔ یہاں تو آؤ۔‘‘
ادھر تو ماما سے یہ کہا اور اُدھر دکان پر جو لڑکا بیٹھتا تھا ایک پیسہ اُس کے ہاتھ دیا کہ دوڑکر دو گلوریاں زردہ ڈلواکر بنوالا۔ جب ماما بیٹھ گئی تو پھر ہزاری نے ہنس کر پوچھا ’’معلوم ہوتا ہے آج ضرور کسی سے لڑی ہو۔‘‘
ماما نے کہا ’’خدا نہ کرے کیوں لڑنے لگی ۔بات پر بات میں نے بھی کہہ دی۔ سچی بات پر بُرا کیوں مانتے ہو۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ’’یہ تو ٹھیک ہے بہوار تو مالک کے ساتھ ہے، پر تمھارے ہاتھوں سے ہوتا ہے یا نہیں۔ نہ ہمارے نام رقعہ نہ چٹھی، تم نے مالک کے نام سے جو مانگا سو دیا۔‘‘
ماما نے کہا ’’ہاں یوں کہو، اس سے میں کب مُکرتی ہوں۔ جو لے گئی ہوں ہزاروں میں کہہ دوں، لاکھوں میں کہہ دوں اور ہماری بیوی بھی (روئیں روئیں سے دعا نکلتی ہے) بیچاری کبھی تکرار نہیں کرتیں۔‘‘
ہزاری مل بولا ’’ماما، بیگم صاحب تو حقیقت میں بڑی امیر ہیں، واہ کیا بات ہے۔‘‘
پھر ہزاری مل نے آہستہ سے پوچھا ’’چھوٹی بہو صاحب کا کیا حال ہے، کیسی ہیں، اپنی بڑی بہن کے پرتو پر ہیں یا اور طرح کا مزاج ہے۔‘‘
ماما نے کہا ’’لالہ، کچھ نہ پوچھو، بیٹی تو امیر گھرکی ہیں پر دل کی بڑی تنگ ہیں۔ دمڑی کا سودا بھی جب تک چار مرتبہ پھیر نہ لیں، پسند نہیں آتا۔ ہاں خدا رکھے ہنر سلیقہ تو دنیا کی بہو بیٹیوں سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ کھانا عمدہ سے عمدہ، سینے میں درزیوں اور مغلانیوں کو مات کیا ہے لیکن لالہ امیری کی بات نہیں، اوّل اوّل مجھ پر بھی روک ٹوک شروع کی تھی۔ لالہ تم تو جانتے ہو میرا کام کیسا بے لاگ ہوتا ہے۔ آخر تھک کر بیٹھ رہیں۔ بیگم صاحب تو اولیا آدمی ہیں اور انھیں کے دم قدم کی برکت سے گھر چلتا ہے۔ ہم غریب بھی انھیں کا دامن پکڑے ہوئے ہیں۔ بہتیرا لوگوں نے بیگم صاحب کو بھڑکایا لیکن خدا سلامت رکھے، ان کے دل پر میل نہ آیا اور کسی طرح کا کلام انھوں نے مُنھ پر نہ رکھا۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ’’سنا ہے چھوٹی بہو صاحب کو بڑا بھاری جہیز ملا۔‘‘
ماما نے چھوٹتے ہی کہا ’’خاک بڑی سے بھی اُترتا ہوا۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ’’بڑا تعجب ہے ان کے بیاہ کے وقت تو خان صاحب تحصیل دار تھے، بڑی بیٹی سے زیادہ دینا لازم تھا۔‘‘
ماما نے کہا ’’اے ہے تحصیل دار کا کچھ دوش نہیں، اُس بے چارے نے تو بڑی تیاریاں کی تھیں، یہی چھوٹی کھوٹی منھ بولی تھیں، ماں باپ کی خیر خواہی کے مارے کہہ کہہ کر سب چیزیں کم کرائیں۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ’’اگر یہی حال ہے تو بڑی بہن کی طرح یہ بھی الگ گھر کریں گی۔‘‘
ماما نے کہا ’’الگ گھر کرنا کیسا یہ تو بڑے گل کھلائیں گی۔ بڑی بہو بدمزاج تھیں لیکن دل کی صاف اور یہ زبان کی میٹھی اور دل کی کھوٹی ۔کوئی کیسا ہی جان مارکر کام کرے ان کی خاطر تلے نہیں آتا۔ بات بھی کہیں گی تو تہ کی، منھ پر کچھ دل میں کچھ۔ نابابا ، یہ عورت ایک دن نباہ کرنے والی نہیں، اب تو پہاڑ پر باپ کے پاس جانے کی تیاریاں کررہی ہیں۔‘‘
ہزاری مل نے پوچھا ’’لاہور سے ان دنوں کوئی خط آیا ہے۔‘‘
ماما نے کہا ’’ہرروز انتظار رہتا ہے ،نہیں معلوم کیا سبب ہے کوئی خط نہیں آیا۔ بیوی خرچ کی راہ دیکھ رہی ہیں، رمضان سر پر آرہا ہے بلکہ پرسوں اترسوں مجھ سے کہتی تھیں ہزاری مل سے پچاس روپیے قرض لانا۔‘‘
ہزاری مل قرض کا نام سن کر چونک پڑا او رکہا ’’پہلے روپیے کی راہ لگادیں، آگے کو کیا انکار ہے، اب میرے ساجھی نہیں مانتے۔ماما ،بیگم صاحب سے خوب طرح پر سمجھا کر کہہ دینا کہ جہاں سے بن پڑے روپیے ادا کریں ورنہ مجھ پر الزام نہیں ۔‘‘
ماما نے کہا ’’تمھارا روپیہ خدا ہی نکلوائے گا تو نکلے گا۔ بیگم صاحب کہاں سے دیں گی، بال بال تو قرض دار ہورہی ہیں۔ مودی الگ جان کھاتا ہے۔ بزاز جدا غل مچاتا ہے۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ’’مجھ کو دوسرے قرض خواہوں سے کیا واسطہ، ہماری دکان کا حساب تو بیگم صاحب کو بیباق کرنا ہی پڑے گا۔ میں تو بیگم صاحب کی سرکار کا بڑا لحاظ کرتا ہوں لیکن میرا ساجھی چھدامی لال تو نہیں مانتا، وہ اگر یہ حال سن پائے تو آج نالش کردے۔‘‘
ماما نے کہا ’’یہ سب حال بیگم صاحب سے کہنے کو کہہ میں دوں گی لیکن گھر کا ذرا ذرا حال مجھ کومعلوم ہے۔ نالش کرویا فریاد کرو نہ روپیہ ہے نہ دینے کی گنجائش۔ روپیہ ہوتا تو قرض کیوں لیا جاتا۔‘‘
اتنی باتوں کے بعد ماما عظمت ہزاری مل سے رخصت ہو سودا سلف لے کر گھر میں آئی تو محمد کامل کی ماں نے پوچھا ’’ماما تو بازار جاتی ہے تو ایسی بے فکر ہوجاتی ہے کہ کھانے پکانے کا کچھ خیال تجھ کو نہیں رہتا۔ دیکھ تو کتنا دن چڑھا ہے اب کس وقت گوشت چڑھے گا، کب پکے گا، کب کھانا ملے گا۔‘‘
ماما نے کہا ’’بیوی موئے ہزاری مل کے جھگڑے میں اتنی دیر ہوگئی۔ وہ جان ہار ہر روز مجھ کو آتے جاتے ٹوکا کرتا ہے۔ آج میری جان جل گئی او رمیں نے کہا کہ کیا تو نے مجھ سے روز کی چھیڑخانی مقرر کی ہے، کیوں مراجاتا ہے ذرا صبر کر لاہور سے خرچ آنے دے تو تیرا اگلا پچھلا سب حساب کتاب بیباق ہوجائے گا۔ وہ موا تو میرے سر ہوگیا اور بھرے بازار میں مجھ کوفضیحت کرنے لگا۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’ہزاری مل کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ تو ایسا نہ تھا ،آخر برسوں سے ہمارا اُس کا لین دین ہے، سویرے بھی دیا ہے، دیر کر بھی دیا ہے، کبھی اُس نے تکرار نہیں کی۔‘‘
ماما نے کہا ’’بیوی کوئی اور مہاجن دکان میں ساجھی ہوا ہے۔ اُس موئے نے جلدی مچارکھی ہے۔ جس جس پر لینا تھا سب سے کھڑے کھڑے وصول کرلیا۔ جس نے نہیں دیا نالش کردی۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ہے کہ ’’بیگم صاحب سے بہت بہت ہاتھ جوڑکر میری طرف سے کہہ دینا کہ میرا اس میں کچھ بس نہیں، جس طرح ہوسکے دوچار دن میں روپیہ کی راہ لگادیں ورنہ چھدامی لال ضرور نالش کردے گا۔‘‘
اس خبر کے سننے سے محمد کامل کی ماں کو سخت تردّد پیدا ہوا۔ امیر بیگم ان کی چھوٹی بہن بہرام خاں کے تیراہے میں رہتی تھی اور وہ ذرا خوش حال تھی۔
محمد کامل کی ماں نے ماما عظمت سے کہا کہ ’’ماما لاہور سے تو خط کا جواب تک نہیں آتا ،خرچ کی کیا امید ہے۔ اگر سچ مچ ہزاری مل نے نالش کردی تو کیا ہوگا۔ میرے پاس تو اتنا اثاثہ بھی نہیں کہ بیچ کر ادا کردوں گی اور نالش ہوئے پر دینا بھی بے عزتی ہے۔ نام تو تمام شہر میں بد ہوگا، ڈولی لے آؤ میں امیر بیگم کے پاس جاتی ہوں، دیکھوں اگر وہاں کوئی صورت نکل آوے۔‘‘
ماما بولی ’’بیوی نالش تو ہوئی رکھی ہے جس نے منھ سے کہا اُس کو کرتے کیا دیر لگتی ہے اور چھوٹی بیگم صاحب بے چاری کے پاس کہاں سے روپیہ آیا، وہ تو ان دنوں خود حیران ہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’آخر پھر کچھ کرنا تو پڑے گا۔‘‘
ماما نے پاس جاکر چپکے سے کہا کہ ’’مہینے بھر کے واسطے تمیزدا ربہو اپنے کڑے دے دیتیں تو بات رہ جاتی۔ بالفعل ان کڑوں کو گروی رکھ کر آدھے تہائی ہزاری مل کے بھُگت جاتے، مہینے بھر میں یا تو میاں خرچ بھیج دیتے یا میں کسی اور مہاجن سے لے آتی۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’اری تو کوئی دیوانی ہے، خبردار ایسی بات منھ سے بھی مت نکالنا، اگر رہنے کا مکان تک بھی بک جائے تو مجھ کو منظو ر ہے لیکن بہو سے کہنے کا منھ نہیں۔‘‘
ماما نے کہا ’’بیوی میں نے تو اس خیال سے کہ بہو ہوئی بیٹی ہوئی کچھ غیر نہیں ہوتیں او رکیا خدا نہ کرے بیچ ڈالنے کی نیت ہے، مہینے بھر کا واسطہ ہے چیز صندوقچے میں نہ پڑی رہی، مہاجن کے پاس رکھی رہی۔ جس میں اس کی خاطر جمع رہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’پھر بھی بہو بیٹی میں بڑا فرق ہوتا ہے اور نئی بیاہی ہوئی سے بھلا کوئی ایسی بات کہہ سکتا ہے۔ دیکھ خبردار پھر زبان سے یہ بات مت نکالیو، ایسا نہ ہو محمودہ کے کان پڑجائے اور وہ بہوسے جالگائے۔‘‘
ماما نے کہا ’’صاحبزادی ابھی کھڑی ہوئی سن رہی تھیں مگر وہ بچہ ہیں، ابھی ان کو ان باتوں کی سمجھ نہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’ڈولی لے آؤ میں بہن تک جاؤں تو سہی، پھر جیسی صلاح ٹھہرے گی، دیکھا جائے گا۔‘‘
محمد کامل کی ماں تو سوار ہو خانم کے بازار کو سدھاریں اور محمودہ نے سب حال تمیزدار کو جاسنایا۔ اصغری کو اور کچھ تو نہ سوجھی، فوراً اپنے بڑے بھائی خیراندیش خاں کو یہ خط لکھا کہ:
’’جناب برادر صاحب معظم مکرم سلامت۔ تسلیمات کے بعد مطلب ضروری عرض کرتی ہوں کہ مدت سے میں نے اپنا حال آپ کو نہیں لکھا اس واسطے کہ جو عریضہ جناب والد کی خدمت میں بھیجتی ہوں وہ آپ کی نظر سے بھی ضرور گزرتا ہوگا۔ اب ایک خاص بات ایسی پیش آئی ہے کہ اس کو میں آپ ہی کی خدمت میں عرض کرنا مناسب سمجھتی ہوں، وہ یہ ہے کہ جب سے میں سسرال آئی کسی طرح کی تکلیف مجھ کو نہیں پہنچی اور بڑی آپا کو جن باتوں کی شکایت رہا کرتی تھی آپ کی دعا سے وہ باتیں میرے ساتھ نہیں ہیں۔ سب لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں خوش رہتی ہوں۔ لیکن ایک ماما عظمت کے ہاتھوں سے وہ ایذا ہے جو کسی بدمزاج ساس اور بدزبان نند سے بھی نہ ہوتی۔ یہ عورت اس گھر کی پرانی ماما ہے اور اندر باہر کا سب کام اسی کے ہاتھوں میں ہے۔ اس عورت نے گھر کو لوٹ کر خاک سیاہ کردیا۔ اب اتنا قرض ہوگیا ہے کہ اس کے ادا ہونے کا سامان نظر نہیں آتا۔ کسی طرح کا بندوبست گھر میں نہیں ہے۔ میں نے چند روز معمولی کاروبارِ خانہ داری میں دخل دیا تھا تو ہر چیز میں غبن، ہر بات میں فریب پایا گیا۔ میری روک ٹوک سے ماما میری دشمن ہوگئی اور اُس دن سے ہرر وز تازہ فساد کھڑا کیے رہتی ہے۔ اب تک ہر چند کوئی قباحت کی بات پیدا نہیں ہوئی، لیکن اس ماما کا رہنا مجھ کو سخت ناگوار ہے مگر اس کا نکلنا بھی بہت دشوار ہے۔ تمام بازار کا قرض اسی کی معرفت ہے، موقوفی کا نام بھی سن پائے تو قرض خواہوں کو جا بھڑکائے۔پھر قرض کا نہ حساب ہے نہ کتاب ہے زبانی تکوں پر سب لینا دینا ہورہا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ سب لوگوں کا حساب و کتاب ہوکر لکھا پڑھی ہوجائے اور بقدر مناسب ہر ایک کی قسط مقرر کردی جائے اور قرض لینے کا دستور آئندہ کے واسطے موقوف ہو اور ماما نکال دی جائے۔ یقین ہے کہ جناب والد کے ساتھ آپ بھی رمضان میں تشریف لائیں۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ مہربانی فرماکر لاہور ہوکر آئیے اور ابا جان کو جس طرح بن پڑے کم سے کم دو ہفتے کے واسطے اپنے ساتھ لِوالائیے۔ آپ سب لوگوں کے سامنے یہ سب معاملہ بخوبی طے ہوجائے گا۔ میں اس خط کو سخت تشویش کی حالت میں لکھ رہی ہوں۔ کوئی مہاجن آمادۂ نالش ہے ۔ ماما نے صلاح دی ہے کہ میرے کڑے گرو ی رکھے جائیں۔ اماں جان روپیے کے بندوبست کے واسطے اسی وقت خالہ جان کے پاس گئی ہیں۔ فقط‘‘۔
اُدھر تو اصغری نے بھائی کو خط لکھا اور اِدھر اپنی خالہ سے کہلا بھیجا کہ میں اکیلی ہوں بوا تماشا خانم کو دو دن کے واسطے بھیج دیجیے۔ میں نے سنا ہے وہ آپ کے ہاں مہمان آئی ہوئی ہیں۔ غرض شاموں شام بی تماشا خانم آپہنچیں۔ ڈولی سے اُترتے ہی پکاریں ’’اللہ بی اصغری ایسا بھی کوئی بے مروّت نہ ہو میں نے خالو ابا کا خط تم سے منگوا بھیجا تھا تم نے نہ دیا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اوئی کون مانگنے آیا۔‘‘
تماشا خانم بولی ’’دیکھو یہی ماما عظمت موجود ہیں کیوں بی اُس جمعہ کو تم ہمارے گھر گئی تھیں میں نے تم سے کہہ دیا تھا یا نہیں۔‘‘
عظمت بولی ’’ہاں بی انھوں نے تو کہا تھا مجھ کمبخت کو بات یاد نہیں رہتی، یہا ںآنے تک گھر کے دھندھے میں بھول گئی۔‘‘
اصغری نے آہستہ سے کہا ’’ہاں تم کو تو لوٹنا اور فساد ڈلوانا یاد رہتا ہے اور تماشا خانم سے کہا خط موجود ہے اور ایک اور نئی کتاب بھی آئی ہے، بڑے مزے کی باتیں اُس میں ہیں، وہ بھی تم لیتی جانا۔‘‘
اصغری نے ماما کا سب حال ذرا ذرا تماشا خانم سے کہا۔ تماشاخانم مزاج کی بڑی تیز تھی، اُسی وقت جوتی لے کر اٹھی اور ماما کو مارنے چلی۔
اصغری نے ہاتھ پکڑکر بٹھالیا اور کہا ’’خدا کے لیے آپ ایسا غضب مت کرنا، ابھی جلدی مت کرو، سب بات بگڑ جائے گی۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’تم یوں ہی پس و پیش لگاکر اپنا وقار کھوتی ہو، بوا اگر میں تمھاری جگہ ہوتی خدا کی قسم مردار کو مارے جوتیوں کے ایسا سیدھا بناتی کہ عمر بھر یاد رکھتی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’دیکھو انشاء اللہ تعالیٰ اس نمک حرام پر خدا کی مار پڑے گی، کوئی دن کی دیر ہے۔‘‘
اس کے بعد تماشا خانم نے پوچھا ’’تمھاری ساس اپنی بہن کے ہاں کس غرض سے گئی ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’وہ بے چاری بھی اسی نامراد ماما کے ہاتھوں سے در بدر ماری ماری پھرتی ہیں۔ کوئی مہاجن ہے اُس کا کچھ دینا ہے، ماما نے آج آکر کہا تھا کہ وہ نالش کرنے والا ہے۔ اُسی کے روپیے کی فکر میں گئی ہیں۔‘‘
تماشا خانم نے پوچھا ’’کون سا مہاجن نالش کرنے والا ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’نام تو نہیں جانتی۔‘‘
تماشا خانم نے ماما سے پوچھا ’’عظمت! کون مہاجن ہے۔‘‘
عظمت نے کہا ’’بیوی ہزاری مل۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’وہی ہزاری مل نا جس کی دکان جوہری بازار میں ہے۔‘‘
عظمت نے کہا ’’ہاں بی بی، ہاں وہی ہزاری مل۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’اُس سے تو ہماری سسرال میں بھی لین دین ہے۔ بھلا کیا موئے کی طاقت ہے جو نالش کرے گا۔ میں یہاں سے جاکر تمھارے بھائی جان سے کہوں گی دیکھو تو کیسا ٹھیک بناتے ہیں۔‘‘
دو دن تماشا خانم اصغری کے پاس رہی، تیسرے دن رخصت ہوئی اور چلتے چلتے کہہ گئی کہ بوا اصغری تم کو میرے سر کی قسم، جب تمھارے سسرے آویں اور یہ سب معاملہ مقدمہ پیش ہو مجھ کو ضرور بلوانا اور عظمت کو مجھے حوالہ کردینا۔ وہاں محمد کامل کی ماں کو ان کی بہن نے ٹھہرالیا کہ اے ہے آپا کبھی کبھار تو تم آتی ہو، بھلا ایک ہفتہ تو رہو لیکن آدمی ہرروز یہاں تمیزدار بہو کی خبر کو آتا تھا۔ ماما عظمت نے بیٹھے بٹھائے ایک اور شرارت کی۔ ان دنوں لاٹ صاحب کی آمد تھی، شہر کی صفائی کے واسطے حاکم کی طرف سے بہت تاکید ہوئی۔ ہر محلہ اور ہر کوچے میں اشتہار لگائے گئے کہ سب لوگ اپنے اپنے کوچے اور گلیاں صاف کریں، دروازوں پر سفیدی کرالیں، بدررویں صاف رکھیں، اگر کسی جگہ کوڑا پڑا ملے گا تو مکان نیلام ہوجائے گا۔ اسی مضمون کا ایک اشتہار اس محلے کے پھاٹک پر بھی لگایا گیا۔ ماما عظمت رات کو جاکر محلے کے پھاٹک سے وہ اشتہار اکھاڑ لائی اور چپکے سے اپنے دروازے پر لگادیا، پھر اندھیرے منھ خانم کے بازار میں محمد کامل کی ماں سے خبر کرنے دوڑی گئی، ابھی مکان کے کواڑ بھی نہیں کھلے تھے کہ اس نے آواز دی ۔
محمد کامل کی ماں نے آواز پہچانی اور کہا کہ’’ ارے دوڑو کواڑ کھولو، عظمت ایسے ناوقت کیوں بھاگی آئی ہے۔‘‘
عظمت سامنے آئی تو پوچھا ’’ماما خیریت ہے۔‘‘
عظمت بولی ’’بی بی مکان پر اشتار یا شتار کیا ہوتا ہے، لگا ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہزاری مل نے نالش کردی۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے اپنی بہن سے کہا ’’لوبوا میں تو جاتی ہوں، جاؤں ہزاری مل کو بلواؤں گی اور سمجھاؤں گی، خدا اُس کے دل میں رحم ڈالے۔‘‘
بہن بولی ’’آپا میں بہت شرمندہ ہوں کہ مجھ سے روپیے کا بندوبست نہ ہوسکا، لیکن میرے گلے کا توڑا موجود ہے ا س کو لیتی جاؤ، گروی رکھنے سے کام نکلے تو خیر، ورنہ بیچ ڈالنا۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’خیر میں توڑا لیے جاتی ہوں مگر اُس کا روپیہ بہت بڑھ گیا ہے، ایک توڑے سے کیا ہوگا۔‘‘
بہن بولی کہ ’’آخر انھوں نے بھی تو کہا ہے کہ میں کسی دوسرے مہاجن سے قرض لادوں گا۔ تم بسم اللہ کرکے سوار ہو، وہ آتے ہیں تو میں اُن کو بھی پیچھے سے بھیجتی ہوں۔‘‘
غرض محمد کامل کی ماں مکان پر پہنچی۔ دروازے پر اُتری تو اشتہار لگا دیکھا۔ افسوس کی حالت میں چپ آکر بیٹھ گئی۔ ساس کی آمد سن کر اصغری کوٹھے پر سے اُتری، سلام کیا، ساس کو مغموم دیکھ کر پوچھا ’’آج اماں جان تمھارا چہرہ بہت اداس ہے۔‘‘
ساس نے کہا ’’ہاں مہاجن نے نالش کردی ہے، روپیے کی صورت کہیں سے نہیں بن پڑتی۔ امیر بیگم نے بھی جواب دیا اور مکان پر اشتہار لگ چکا، دیکھیے کیا ہوتا ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’آپ ہرگز اس کی فکر نہ کیجیے، اگر ہزاری مل نے نالش کردی ہے تو کچھ حرج نہیں۔تماشاخانم کی سسرال میں اس کا لین دین ہے۔ تماشا خانم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں ہزاری مل کو سمجھادوں گی اور اگر نہیں مانے گا تو اُس کے روپیے کی کچھ سبیل ہوجائے گی۔ رنج کرنے سے کیا حاصل۔‘‘
ساس نے کہا ’’کامل ہوتا تو میں اُس کو ہزاری مل تک بھیجتی۔‘‘
اصغری بولی ’’یوں آپ کو اختیار ہے۔ لیکن میرے نزدیک مہاجن سے ڈرنا کسی طرح مناسب نہیں۔ ورنہ اُس کو آئندہ کے واسطے دلیری ہوجائے گی اور آئے دن نالش کا ڈراوا دکھایا کرے گا۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ ادھر کا اشارہ نہ ہو اور باہر سے کوئی دباؤ اُس پر پڑ جائے کہ وہ نالش کی پیروی سے باز رہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’تماشا خانم ابھی لڑکی ہیں، کچہری دربار کی باتیں وہ کیا جانیں، ایسا نہ ہو ان کے بھروسے میں کام بگڑ جائے اور قابو ہاتھ سے نکل جائے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تماشا خانم بیشک لڑکی ہیں مگر میں نے بات خوب پکّی کرلی ہے اور مجھ کو اطمینان ہے۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ میاں مسلم نے دروازے پر آواز دی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’دیکھیے مسلم آیا۔ضرور اس معاملے میں کچھ خبر لایا ہوگا۔‘‘
اصغری نے محمودہ کو اشارہ کیا، محمودہ کوٹھری میں چلی گئی۔ مسلم کو اندر بلایا اور پوچھا ’’مسلم کیا خبر لائے۔‘‘
مسلم نے کہا ’’آپا نے تم کو سلام کہا ہے اور مزاج کا حال پوچھا ہے اور کہا ہے کہ ہزاری مل کو بلوایا تھا، بہت کچھ ڈرا اور دھمکادیا ہے اور اُس نے وعدہ کرلیا ہے کہ نالش نہ ہوگی۔‘‘
یہ بات سن کر محمد کامل کی ماں کوکسی قدر تسلی ہوئی لیکن اصغری حیرت میں تھی کہ تماشا خانم نے تو یہ کہلا بھیجا ہے اور ہزاری مل نالش کر بیٹھا۔ یہ کیا بات ہے اور اشتہار کا معاملہ بھی ہے ۔ میں گھر میں بیٹھی رہی، مجھ کو خبر نہیں۔ حاکم کا اشتہار ہوتا تو کوئی چپراسی پیادہ پکارتا، آواز دیتا۔ مسلم رخصت ہوا تو محمودہ سے اصغری نے کہا ’’جاؤ دروازے پر جو کاغذ لگا ہوا ہے اُس کو چپکے سے اُکھاڑ لاؤ۔‘‘
محمودہ کاغذ اکھاڑ لائی۔ اصغری نے پڑھا تو صفائی کا حکم تھا۔ نالش کا کچھ مذکور نہ تھا۔ سمجھ گئی کہ یہ بھی اس عظمت کی چالاکی ہے ۔ ساس پر تو یہ حال ظاہر نہ کیا لیکن ان کا اچھی طرح اطمینان کردیا کہ آپ دل جمعی سے بیٹھی رہیے۔ نالش کا کچھ ڈر نہیں ہے۔
ساس نے کہا ’’تمھارے کہنے سے نالش کی طرف سے دل جمعی تو ہوئی لیکن شب برات اور رمضان سر پر چلا آتا ہے، دونوں تیوہاروں میں خرچ ہی خرچ ہے۔ لاہور سے خط آنا بھی موقوف ہے، اس کی فکر تو میرا لہو خشک کیے ڈالتی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’رمضان کے تو ابھی بہت دن پڑے ہیں، خدا مسبب الاسباب ہے، اُس وقت تک غیب سے کوئی سامان پیدا ہوجائے گا۔ ہاں شب برات کے چار ہی دن رہ گئے، سو شب برات کوئی ایسا تیوہار نہیں جس میں بہت خرچ درکار ہو۔‘‘
ساس نے کہا ’’میرے گھر تو سال درسال شب برات میں بیس روپیے اٹھتے ہیں۔ پوچھو یہی عظمت خرچ کرنے والی موجود ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’خرچ کرنے کا کیا عجب ہے لیکن ایک ضرورت کے واسطے اور ایک بے ضرورت۔ سو شب برات میں کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کے واسطے اتنا روپیہ درکار ہو۔‘‘
ساس نے کہا ’’بوا!، پیر پیغمبر بڑے بزرگوں کی فاتحہ مقدم ہے، پھر لوگوں کے گھر بھیجنا بھجوانا ضرور ہے۔ اور کہنے کو ذرا سی بات ہے پانچ روپیے ہوں تو اصل خیر سے تمھارے میاں اور بی محمودہ کے واسطے انار پٹاخے ہوں۔محمد کامل کا بیاہ ہوگیا تو کیا ہے، خدا رکھے اُس کے مزاج میں تو ابھی تک بچپن کی باتیں چلی جاتی ہیں۔ جب تک سو انار، بیس گڈّی پٹاخے نہ لے چکے گا، میری جان کھاجائے گا اور محمودہ بھی رو رو کر اپنا بُرا حال کرے گی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’فاتحے کے واسطے پانچ سیر کا میٹھا بہت ہوگا، بھیجنا بھجوانا تو اِدھر سے آیا اُدھر گیا اور محمودہ اب پٹاخوں کے واسطے ضد نہیں کریں گی میں ان کو سمجھا دوں گی۔غرض شب برات کا اہتمام جس طرح ہوسکے گا، میں کرلوں گی۔ میرا ذمہ، اس کے واسطے آپ قرض کی فکر نہ کیجیے۔‘‘
ساس سے تو یہ باتیں ہوئیں، لیکن اصغری سوچ میں تھی کہ میاں کو انار پٹاخوں سے کس طرح بازرکھے۔ آخر کار اس حکمت سے اصغری نے میاں کو سمجھایا کہ بات بھی کہہ گزری اور میاں کو ناگوار بھی نہ ہوا۔ محمد کامل کے سامنے چھیڑکر محمودہ سے پوچھا کیوں بوا تم نے شب برات کے واسطے کیا فکر کی۔‘‘
محمودہ بولی ’’بھائی جب انار پٹاخے لائیں گے، ہم کو بھی دیں گے۔‘‘
ابھی محمد کامل کچھ کہنے نہ پایا تھا کہ اصغری نے کہا ’’بھائی تو ایسی واہیات چیز تمھارے واسطے کیوں لانے لگے۔ محمودہ انار پٹاخوں میں کیا مزا ہوتا ہے۔‘‘
محمودہ نے کہا ’’بھابی جان جب انار پٹاخے چھوٹتے ہیں تو کیسی بہار ہوتی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’محلّے میں سیکڑوں انار چھوٹیں گے۔ کوٹھے پر سے تم بھی دیکھ لینا۔‘‘
محمودہ نے کہا ’’واہ ہم نہ چھوڑیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تم کو ڈر نہیں لگتا۔‘‘
محمودہ بولی ’’میں کیا اپنے ہاتھ سے چھوڑتی ہوں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’پھر جس طرح تم نے اپنے انار چھوٹتے دیکھے ویسے ہی محلے کے۔ اور محمودہ سنو یہ بہت بُرا کھیل ہے اس میں جل جانے کا خوف ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے محلے میں ایک لڑکے کے ہاتھ میں انار پھٹ گیا، دونوں آنکھیں پھوٹ کر چوپٹ ہوگئیں۔ اس کو دیکھنا بھی ہو تو دور سے اور محمودہ تم اماں جان کا حال دیکھتی ہو، اداس ہیں یا نہیں۔‘‘
محمودہ نے کہا ’’اداس تو ہیں۔‘‘
اصغری نے پوچھا ’’کبھی تم نے یہ بھی غور کیا کہ کیوں اداس ہیں۔‘‘
محمودہ نے کہا ’’یہ تو معلوم نہیں۔‘‘
اصغری بولی ’’واہ! اسی پر تم کہتی ہو کہ میں اماں کو بہت چاہتی ہوں۔‘‘
محمودہ نے پوچھا ’’اچھی بھابی جان، اماں جان کیوں اداس ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’خرچ کی تنگی ہے، مہاجن قرض نہیں دیتا، اس سوچ میں ہیں کہ محمودہ اناروں کے واسطے ضد کرے گی تو کہاں سے منگاکر دوں گی۔‘‘
محمودہ نے کہا ’’ہم تو انار نہیں منگائیں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’شاباش شاباش تم بہت پیاری بہن ہو۔‘‘
اور محمودہ کو گلے سے لگاکر پیار کیا۔ محمد کامل چپ بیٹھا ہوا یہ سب باتیں سنتا رہا۔ چوں کہ معقول بات تھی اُس کے دل نے قبول کرلی اور اُسی وقت نیچے اُترکر ماں کے پاس گیا اور کہا ’’اماں میں نے سنا ہے تم شب برات کے سوچ میں بیٹھی ہو، تو بی میری فکر مت کرو، مجھ کو انار پٹاخے درکار نہیں اور محمودہ بھی کہتی ہے کہ میں نہیں منگاؤں گی۔‘‘
غرض خرچ کی ایک رقم تو یوں کم ہوئی۔ فاتحہ کے واسطے دو روپیے میں خاصا میٹھا بن گیا۔ بھیجنے کے واسطے اصغری نے خود اہتمام کیا، جب باہر سے حصہ آیا گھر میں نہ ٹھہرنے دیا۔ دے کر آدمی باہر نکلا اور اس نے کہا کہ فلانی جگہ یہ حصہ پہنچادو۔ جس جس کو دینا تھا سب کو نام بنام پہنچ گیا اور دو روپیے میں خاصی شب برات ہوگئی۔ عظمت یہ بندوبست دیکھ کر جل گئی، اس واسطے کہ اُس کی بڑی رقم ماری گئی۔ جتنا باہر سے آتا وہ سب لیتی اور جو گھر سے جاتا، آدھا اُس میں سے نکالتی اور شب برات کا حلوا جو خشک کررکھتی تھی، مہینوں پنجیری کی طرح پھانکتی۔ شب رات کے بعد اصغری کے باپ کی آمد شروع ہوئی اور نودس دن بات کی بات میں گزر گئے۔ رمضان سے چار دن پہلے دور اندیش خاں صاحب دہلی میں داخل ہوئے ۔ اصغری نے پہلے سے اپنے باپ کی آمد سنا رکھی تھی اور ساس اور میاں سے ٹھہر گیا تھا کہ جس دن تحصیلدار صاحب آئیں گے اُسی دن میں اُن سے ملنے جاؤں گی۔ جب اصغری کو باپ کے آنے کی خبر معلوم ہوئی فوراً ڈولی منگا، جاپہنچیں۔ باپ نے گلے سے لگالیا اور آبدیدہ ہوئے۔ دیر تک حال پوچھتے بتاتے رہے۔ اور اصغری سے کہا ’’آپ کے حکم کے مطابق خیراندیش خاں لاہور گئے ہیں اور انشاء اللہ کل یا پرسوں سمدھی صاحب کو لے کر داخل ہوں گے۔ اُن کا ایک خط بھی مجھ کو راہ میں ملا تھا۔ سمدھی صاحب کو رخصت مل گئی ہے۔‘‘
غرض رات بھر اور اگلے دن بھر اصغری اپنی ماں کے یہاں رہی اور شام کے قریب باپ سے کہا کہ ’’اگر اجازت فرمائیے تو آج میں چلی جاؤں۔‘‘
باپ نے کہا ’’اجی ایک ہفتہ تو رہو ہم سمدھن کو کہلا بھیجیں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’جیسا آپ ارشاد فرماویں میں تعمیل کروں، لیکن اباجان کے آنے سے پہلے گھر میں موجود رہنا مصلحت معلوم ہوتا ہے۔‘‘
باپ نے سوچ کر کہا ’’ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے۔‘‘
غرض اصغری باپ سے رخصت ہو مغرب سے پہلے گھر آموجود ہوئی۔ اگلے دن عین کھانے کے وقت محمد کامل کے باپ مولوی محمد فاضل صاحب بھی یکایک آموجود ہوئے۔ یہ مولوی صاحب لاہور کے رئیس کی سرکار میں مختار تھے۔ پچاس روپیے مہینہ تنخواہ مقرر تھی اور مکان اور سواری رئیس کے ذمے۔ خیراندیش خاں اصغری کی تحریر کے مطابق لاہور گیا اور اصغری کا خط مولوی محمد فاضل صاحب کو دکھایا ۔ مولوی صاحب بہو کا خط دیکھ کر باغ باغ ہوگئے اور یوں شاید رخصت نہ بھی لیتے، اب بہو کے دیکھنے کے اشتیاق میں رئیس سے بہت کہہ سن کر ایک مہینے کی رخصت لے خیراندیش خاں کے ساتھ ہولیے۔ چوں کہ اصغری بیاہ کے بعد سسرے کے سامنے نہیں ہوئی تھی سسرے کو آتے دیکھ شرم کے سبب کوٹھے پر جا بیٹھی۔ محمد کامل کی ماں حیرت میں تھی کہ یہ کیوں کر آگئے۔ غرض کھانے پینے کے بعد باتیں شروع ہوئیں۔
مولوی صاحب نے بیوی سے کہا کہ ’’سنو صاحب مجھ کو تو تمھاری چھوٹی بہو نے کھینچ بلایا ہے اور سب حال خط کا اور خیراندیش خاں کے جانے کا بیوی سے بیان کیا او رکہا کہ بہو کو بلاؤ۔‘‘
ساس کوٹھے پر گئیں اور کہا ’’بیٹی چلو شرم کی کیا بات ہے، تم تو ان کی گودوں میں کھیلی ہو۔‘‘
ساس کے کہنے سے اصغری اٹھ کر ساتھ ہولی اور سسر ے کو بہت ادب سے سلام کیا اور بیٹھ گئی۔
مولوی صاحب نے کہا ’’سنو بھائی ہم تو صرف تمھارے بلائے آئے ہیں اور تمھارا خط دیکھ کر ہمارا جی بہت خوش ہوا۔ خدا تمھاری عمر اور نیک بختی میں برکت دے اور حقیقت میں ہمارے گھر کے اچھے نصیب ہیں جو تم ہمارے گھر میں آئیں اور اب مجھ کو یقین ہوا کہ اس گھر کے کچھ دن پھرے اور کل انشاء اللہ تعالیٰ انتظام تمھاری مرضی اور تمھاری رائے کے موافق ہوگا۔‘‘
غرض دوچار دن تو مولوی صاحب نئے نئے آئے تھے، ملنے ملانے میں رہے۔ پھر اوّل کے دوچار روزوں میں روزے کے سبب گھر کے کام کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ ایک دن بہو کو بلاکر پاس بٹھایا اور ماما عظمت کو بلاکر کہا کہ ’’ماما ہمارے رہتے سب حساب کتاب کرلو جس جس کا لینا دینا ہے سب لکھادو، جس کو جتنا مناسب ہو دیا جاوے اور باقی رہ جائے اُس کی قسط بندی کردی جائے۔‘‘
ماما نے کہا ’’ایک کا حساب ہو تو میں زبانی بھی یاد رکھوں بنیا، بزاز، قصائی، کنجڑا، حلوائی سب کا دینا ہے اور ہزاری مل کا حساب ایک الگ رقم ہے۔ جس کو جتنا دینا ہو مجھ کو دیجیے، دے آؤں آپ کے نام جمع ہوجائے گا۔‘‘
مولوی صاحب تو سیدھے سادے آدمی تھے دینے کو آمادہ ہوگئے۔ اصغری نے کہا ’’یوں علی الحساب دینے سے کیا فائدہ۔ پہلے ہر ایک کا قرضہ معلوم ہو تب اُس کو سوچ سمجھ کر دینا چاہیے۔‘‘
ماما نے کہا ’’کھانے سے فراغت ہوجاؤں تو میں ہر ایک سے پوچھ آؤں گی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’پوچھ آنے سے کیا ہوگا جس کا لینا ہو یہاں آکر حساب کرجائے۔‘‘
ماما نے کہا ’’بی بی آپ نے تو ایک بات کہہ دی، اب میں کہاں کہاں بلاتی پھروں اور وہ لوگ اپنے کام دھندے سے کب چھٹی پاتے ہیں جو میرے ساتھ چلے آئیں گے۔‘‘
اصغری بولی ’’ماما کوئی روز روز کا بلانا نہیں ہے، ایک دن کی بات ہے، جاکر بلالاؤ۔ شام کے کھانے کا کچھ بندوبست ہوجائے گا، تم آج یہی کام کرو اور لینے والے تو دینے کا نام سن کر دوڑیں گے۔ ہزاری مل دو کوس پر کچہری تو گیا یہاں آئے کیا اُس کے پاؤں میں مہندی لگی ہے اور دور کون ہے کنجڑا، قصائی، بنیا، حلوائی، سب اسی گلی میں ہیں۔ صرف بزاز اور ہز اری مل دور ہیں ان کو کل پر رکھو۔ یہ پھُٹکل حساب آج طے ہوجائے۔‘‘
ماما عظمت کی کسی طرح مرضی نہ تھی کہ حساب ہو لیکن اصغری نے باتوں میں ایسا دبایا کہ کچھ جواب نہ بن پڑا۔ سب سے پہلے حلوائی آیا۔
پوچھا گیا کہ’’ لالہ تمھارا کیا پانا ہے۔‘‘
حلوائی بولا ’’تیس روپیے۔‘‘
پوچھا گیا کہ ’’کیا کیا چیز تمھارے یہاں سے آئی۔ تیس روپیے تو بہت زیادہ بتاتے ہو۔‘‘
حلوائی نے کہا ’’صاحب تیس روپیہ کچھ بہت ہے۔ پندرہ روپیے کی چیز اسی شب برات میں آئی، ایک رقم دس سیر چینی ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولی ’’ارے کیسی چینی،اب کے مرتبہ تو ہمارے گھر جو کچھ پکا پکایا بازار سے نقد �آیا۔‘‘
یہ سن کر ماما عظمت کا رنگ فق ہوگیا اور حلوائی سے بولی کہ ’’وہ دس سیر چینی تونے ان کے حساب میں کیوں لکھ لی وہ تو دوسرے گھر کے واسطے میں لے گئی تھی اور تجھ کو بتا بھی دیا تھا۔‘‘
حلوائی نے کہا ’’مجھ سے تو تم نے کسی گھر کا نام نہیں لیا اسی سرکار کے نام سے لائی ہو ورنہ مجھے کیا فائدہ تھا، دوسرے کی چیز ان کے نام لکھتا اور مجھ سے تو اور کسی سرکار سے اُچاپت بھی نہیں ہے۔‘‘ غرض ماما کھسیانی باتیں بکنے لگی۔
مولوی صاحب نے کہا ’’بھلا چینی کی رقم تو رہنے دو اور چیزیں بتاؤ۔‘‘
غرض اسی طرح بہت سی چیزیں اُس نے بتائیں جو عمر بھر گھر میں نہیں آئی تھیں۔ چار سیر بالوشاہی مولود شریف کے واسطے اور مزہ یہ کہ یہاں کبھی کسی نے مولود کی مجلس نہیں کی۔ غرض صرف چھ سات روپیہ تو سچ نکلے باقی سب جھوٹ۔
مولوی صاحب کا جی جل گیا اور بے طرح ان کو غصہ آیا اور پوچھا ’’کیوں ری نمک حرام عظمت، ایسا ہی دنیا بھر کا قرض تونے اس گھرپر رکھا ہے اور یوں تو نے گھر کو خاک میں ملایا ہے۔‘‘
حلوائی ہوچکا تو کنجڑا آیا۔ اس نے کہا ’’میاں میرا تو معمولی حساب ہے دو آنے روز کی ترکاری۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولی ’’ارے سیر بھر ترکاری میرے گھر میں آتی ہے دو آنے روز کی ہوئی۔‘‘
کنجڑا بولا ’’حضرت میری دکان سے ماما تین سیر لاتی ہے۔‘‘
ماما بولی ’’ہاں تین سیر لاتی ہوں، سیر بھر تمھارے نام سے سیر بھر اپنی بیٹی کے واسطے اور سیر بھر دوسرے گھر کے واسطے۔ میں کیا مکرتی ہوں یہ موا سب تمھارے نام بتاتا ہے۔‘‘
کنجڑے نے کہا ’’اری بڑھیا بے ایمان، ہمیشہ سے تو اسی گھر کے حساب میں تین سیر لاتی رہی اور جب روپیہ ملا اسی گھر سے ملا۔‘‘
قصائی اور بنیے کا حساب ہوا تو اُس میں بھی ہزاروں فریب نکلے اور ثابت ہوا کہ ماما اسی گھر کے سودے میں اپنی بیٹی خیراتن اور دو تین ہمسایوں کے گھر پورے کرتی تھی اور اسی گھر کے نام سے سودا لاتی اور دوسری جگہ بیچ ڈالتی۔ غرض شام تک پھٹکل حساب ہوا اب صرف بزاز اور ہزاری مل باقی رہے۔
مولوی صاحب نے کہا ’’اب آج ملتوی کرو کل دیکھا جائے گا۔‘‘
لیکن مولوی صاحب نے آہستہ سے کہا ’’ایسا نہ ہو عظمت بھاگ جائے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’گھر بار لڑکے بچے مکان چھوڑکر کہاں بھاگ جائے گی۔ ہاں شاید غیرت مند ہو تو کچھ کھاپی لے مگر ایسی غیرت مند ہوتی تو ایسا کام کیوں کرتی، تاہم اس کی حفاظت ضرور ہے لیکن فقط اسی قدر کہ باہر آتے جاتے کو کوئی آدمی دیکھتا رہے۔‘‘
مولوی صاحب کے خدمت گار جو ساتھ آئے تھے ایک کو چپکے سے کہہ دیا کہ ’’ماما کو آتے جاتے دیکھتے رہو۔‘‘
جب کھانے سے فراغت ہوئی، ماما چپکے سے اٹھ باہر چلی۔ خدمت گار پیچھے پیچھے ساتھ ہوا۔ ماما پہلے تو اپنے گھر گئی اور وہاں سے کچھ بغل میں مارتیر کی طرح سیدھی بزاز کے مکان پر جا اُس کو آواز دی۔ بزاز گھبراکر باہر نکلا کہ’’ بڑی بی تم اس وقت کہاں۔‘‘
عظمت نے کہا کہ ’’مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں جس جس کا دینا ہے سب کا حساب ہوتا ہے کل تم بھی بلائے جاؤ گے تو ایسی بات مت کرنا جس میں میری فضیحت ہو۔‘‘
بزاز نے کہا ’’حساب میں تمھاری فضیحت کی کیا بات ہے۔‘‘
ماما بولی ’’لالہ تم تو جانتے ہو یہ کمبخت لالچ بہت برا ہوتا ہے۔ سرکار کے حساب میں میں اپنے واسطے بھی تمھاری دکان سے کبھی کبھی لٹھا نین سکھ دریس لے گئی ہوں۔‘‘
بزاز نے کہا ’’کیا معلوم تم اپنے واسطے کیا لے گئی ہو۔‘‘
ماما نے کہا ’’مجھ کو اس وقت حساب کرنے کا تو ہو ش نہیں لیکن دوچار تھان دریس اور لٹھے نین سکھ کے اور دس گز اودا قند میرے حساب میں نکلے گا۔ لو میرے ہاتھ کی چار چوڑیاں سولہ روپیہ کی ہیں گھس گھساکر ایک روپیہ کم ہوگیا ہوگا۔ پندرہ روپیے میر ے نام سے کم کردینا اور دوچار روپیہ جو میرے نام کا نکلے گا میں دینے کو موجود ہوں۔‘‘
بزاز نے کہا ’’چوڑیاں تم دیتی ہو خیر میں لیے لیتا ہوں لیکن رات کا وقت ہے بہی کھاتہ دکان پر ہے۔ بے دیکھے کیا معلوم ہو کیا گیا ہے اور کیا پانا ہے۔‘‘
عظمت نے کہا ’’اس وقت میری عزت تمھارے ہاتھ ہے جس طرح ہوسکے بچاؤ۔‘‘
بزاز سے رخصت ہو سیدھی ہزاری مل کے گھر پہنچی۔ وہ بھی حیران ہوا کہ ’’اس وقت تم کہاں۔‘‘ اُس کے پاؤں پر گر پڑی اور روکر کہنے لگی کہ ’’مجھ سے ایک خطا ہوگئی ہے۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ’’وہ کیا؟‘‘
عظمت بولی ’’تم وعدہ کرو کہ معاف کردوگے تو میں کہوں۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ’’بات تو کہو۔‘‘
عظمت نے کہا ’’چار مہینے ہوئے لاہور سے خرچ آیا تھا اور مولوی صاحب نے سو روپیہ تم کو بھیجا تھا۔ وہ میرے پاس خرچ ہوگیا اورسرکار میں ڈر کے مارے میں نے ظاہر نہیں کیا۔ اب مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں تم کو حساب کے واسطے طلب کریں گے۔ میں اس روپیے کا ٹھکانا لگادوں گی۔ تم اس رقم کو مت ظاہر کرنا۔‘‘
ہزار مل نے کہا ’’دوچار روپیے کی بات ہوتی تو میں چھپا بھی لیتا اکٹھے سو روپیے تو میرے کیے چھپ نہیں سکتے ۔‘‘
ماما نے کہا ’’کیا سو روپیے کا بھی میرا اعتبار نہیں۔‘‘
ہزار ی مل نے کہا ’’صاف بات تو یہ ہے کہ تمھارا ایک کوڑی کا بھی اعتبار نہیں، جس گھر میں تم نے عمر بھر پرورش پائی انھیں کے ساتھ تم نے یہ سلوک کیا تو دوسرے کے ساتھ تم کب چوکنے والی اسامی ہو۔‘‘
عظمت نے کہا ’’ہاں لالہ جب برا وقت سر پر پڑتا ہے تو اپنے دشمن ہوجاتے ہیں۔ خیر اگر تم کو اعتبار نہیں تو لو یہ میری بیٹی کی پہونچیاں اور جوشن رکھ لو۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ’’ہاں یہ معاملے کی بات ہے لیکن دن ہو تو مال پر کھا جائے تب معلوم ہو کتنے کا ہے۔ لیکن اٹکل سے تو سب مال پچاس ساٹھ کا ہوگا۔‘‘
عظمت نے کہا ’’اَے ہے لالہ ایسا غضب تو مت کرو، ابھی چار مہینے ہوئے دونوں عدد بنوائے تھے۔ سوسواسو کی لاگت کے ہیں۔‘‘
ہزاری مل نے کہا ’’اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے، تمھاری چیز سو کی ہو یا دوسو کی، کوئی نکالے لیتا ہے۔ تلوانے سے جتنے کی ٹھہرے معلوم ہوجائے گا۔‘‘
یہ سب بندوبست کرکے ماما گھر واپس آئی اور مولوی صاحب کے خدمت گار نے پاؤں دباتے میں یہ سب حال مولوی صاحب سے بیان کیا اور محمد کامل کی ماں کے ذریعے سے اصغری کو بھی معلوم ہوا۔ صبح ہوئی تو بزاز اور ہزاری مل طلب ہوئے۔ حساب میں کچھ حجّت ہونے لگی، ماما چڑھ چڑھ کر بولتی تھی۔
بزاز نے کہا ’’تو بڑھیا کیا بڑبڑ کرتی ہے، اُٹھا اپنی چوڑیاں تو، تو پندرہ روپیے کی بتاتی تھی، بازار میں نو روپیے کی آنکتے ہیں۔‘‘
پھر ہزاری مل نے پہونچیاں اور جوشن نکال سامنے رکھ دیے اور عظمت سے کہا ’’نہیں صاحب یہ مال ہمارے کام کا نہیں۔‘‘
مولوی صاحب نے بزاز اور ہزاری مل دونوں سے پوچھا کیوں بھائی یہ کیسی چیزیں ہیں تب دونوں نے رات کی حکایت بیان کی اور عظمت کے منھ پر گویا لاکھوں جوتیاں پڑ رہی تھیں۔ جب حساب طے ہوگیا او رمولوی صاحب نے دینے کو روپیہ نکالا تو جتنا واجبی تھا آدھا آدھا سب کا دے دیا اور کہا کہ ’’میں نے لاہور سے روپیہ منگایا ہے، دس پانچ دن میں آتا ہے تو باقی بھی دیا جائے گا۔‘‘
سب لوگوں نے پوچھا ’’اور ماما کی طرف جو ہمارا نکلا وہ ہم کس سے لیں ۔‘‘
یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ مسلم مکتب سے جاتے ہوئے اِدھر کو نکلا اور یہ باتیں سنتا گیا۔ وہاں جاکر تماشا خانم سے کہا کہ ’’آج تو آپا اصغری کے دروازے پر بڑی بھیڑ جمع ہے ان کے سسرے حساب کررہے ہیں۔‘‘
تماشا خانم سنتے کے ساتھ ڈولی میں چڑھ آپہنچی۔ اُتری تو اصغری سے شکوہ کیا ’’کیوں جی تم نے مجھ کو خبر نہ کی تو کیا ہوا ۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ابھی تو حساب درپیش ہے۔ یہ بکھیڑا ہوچکتا تو میں تم کو خبر کرتی۔‘‘
غرض مولوی صاحب نے لوگوں سے کہا کہ ’’جو ماما سے لینا ہے وہ ماما سے لو اور عظمت کی طرف متوجہ ہوکر بولے، حضرت ان کا روپیہ ادا کرو۔‘‘
عظمت نے نیچی آنکھیں کرکے کہا ’’میرے پاس بیٹی کا زیور ہے۔ اسی میں یہ لوگ اپنا اپنا سمجھ بوجھ لیں۔‘‘
بیٹی کا تمام زیور تو کنجڑے، قصائی، بنیے،بزاز کے حساب میں آدھے داموں پر لگ گیا۔ ہزاری مل کے سو روپیے کے واسطے رہنے کا ٹھیکرا گروی رکھنا پڑا۔ لکھا پڑھی پکے کاغذ پر ہوکر چار بھلے مانسوں کی گواہی ہوگئی۔
مولوی صاحب نے عظمت سے کہا ’’بس اب آپ خیر سے سدھاریے۔ تم ایسے نمک حرام دغاباز، بے ایمان آدمی کا ہمارے گھر میں کچھ کام نہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ان میں نمک حرامی کے علاوہ ایک صفت اور بھی ہے، وہ یہ ہے کہ گھر میں فساد ڈلوانے کی فکر میں تھیں۔ کیوں عظمت وہ کڑاہی کی بات یادہے جو محمودہ کے بھائی نے فرمائش کی تھی اور تو نے میری طرف سے جھوٹ جاکر کہہ دیا تھا کہ بہو کہتی ہیں میرے سر میں درد ہے۔ بول تو سہی کب تو نے مجھ سے کہا تھا اور کب میں نے دردِ سر کا عذر کیا تھا۔‘‘
عظمت نے کہا ’’بی بی تم کوٹھے پر قرآن پڑھ رہی تھیں، میں کہنے کو اوپر گئی تم کو پڑھتے دیکھ کر اُلٹی پھر آئی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اور دردِ سرکی بات دل سے بنائی۔‘‘
عظمت نے کہا ’’میں نے سوچا کہ صبح سے اب تک تو تم پڑھ رہی ہو، اب کہاں چولھے میں سر کھپاؤگی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بھلا پہاڑ جانے کی بات تو نے کس غرض سے کہی تھی۔ میں نے تجھ سے صلاح کی تھی یا تو نے مجھ کو کہتے سنا تھا۔‘‘
اس کا کچھ جواب عظمت کو نہ آیا۔ پھر اصغری نے اشتہار نکال کر مولوی صاحب کے سامنے ڈال دیا او ر کہا کہ ’’دیکھیے یہ بی بی عظمت ان گنوں کی ہیں خود تو محلے کے پھاٹک سے اشتہار اکھاڑ کر لائی اور مکان پر لگادیا اور خود اماں جان سے کہنے کو دوڑی گئی۔‘‘
اصغری یہ باتیں کہہ رہی تھی اور مولوی صاحب کا چہرہ سرخ ہو ہوجاتا تھا۔ ادھر تماشا خانم دانت پیس رہی تھی۔
مولوی صاحب نے کہا ’’تجھ کو نکال دینا کافی نہیں ہے تو بڑی بدذات عورت ہے۔‘‘ یہ کہہ اپنے خدمت گار کو آواز دی اور کہا کہ ’’بہادر اس ناپاک کو کوتوالی میں لے جا اور رقعے میں اس کا سب حال ہم لکھے دیتے ہیں۔‘‘
اصغری نے مولوی صاحب سے کہا کہ ’’بس اب یہ اپنی سزا کو پہنچ گئی۔ کوتوالی سے اس کو معاف رکھیے اور ماما کو اشارہ کیا کہ چل دے بلکہ دروازے تک ماما کے ساتھ گئی۔‘‘
غرض ماما عظمت اپنے کوتکوں کے پیچھے یہاں سے نکالی گئی۔ گھر پہنچی تو بیٹی بلاکی طرح لپٹی۔ میں نہ کہتی تھی ’’اماں ایسی لوٹ تو مت مچاؤ، سَو دن چور کے تو ایک دن شاہ کا۔ ایسا نہ ہو کسی دن پکڑی جاؤ۔ تم کس کی مانتی تھیں۔ خوب ہوا، جیسا کیا ویسا پایا، اب سسرال میں میرا نام تو بد مت کرو جہاں تمھارا خدا لے جائے چلی جاؤ۔ میرے گھر میں تمھارا کام نہیں ۔ زیور کو میں نے صبر کیا، تقدیر میں ہوگا تو پھر مل رہے گا۔‘‘
اس طور پر خدا خدا کرکے اصغری نے اپنے دشمن کو نکال پایا اور گھر کو عذاب سے نجات دی۔ جب عظمت کا فیصلہ ہوگیا تو اصغری نے باپ کے پاس جانے کی پھر اجازت چاہی اور راضی خوشی رخصت ہو ماں کے گھر آئی۔ ایک ہفتہ برابر یہاں رہی اور جس جس بات میں باپ سے صلاح لینی تھی، سب طے کیا۔
باپ نے پوچھا ’’عظمت نکل گئی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’سب آپ کے طفیل سے بخیر انجام ہوا، نہ بڑے بھائی لاہور جاتے، نہ ابّا جان آتے، نہ یہ برسوں کا حساب طے ہوتا، نہ عظمت نکلتی۔‘‘
خاں صاحب نے پوچھا ’’اب گھر کا انتظام کیوں کر ہوگا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ماما کے نکلتے میں اِدھر چلی آئی اب انتظام کیا مشکل ہے۔ اسی عظمت کی خرابی تھی۔ اب میں سب دیکھ بھال لوں گی۔‘‘
خاں صاحب نے پوچھا ’’اور کیا کیا باتیں تم نے گھر میں ایجاد کیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ابھی میں نے کچھ دیکھا سنا نہیں۔ شروع سے عظمت کا جھگڑا پیش آگیا۔ اب البتہ ارادہ ہے کہ ہر ایک بات کو سوچوں اور انتظام کروں اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو خط کے ذریعے سے اطلاع دیتی رہوں گی۔‘‘
خاں صاحب نے نکاح کے بعد سے اصغری کا دس روپیہ مہینہ مقرر کردیا تھا۔ اصغری سے پوچھا کہ ’’اگر تم کو خرچ کی تکلیف رہتی ہو تو میں کچھ روپیہ تم کو دیتا جاؤں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’وہی دس روپیے میری ضرورت سے زیادہ ہیں بلکہ آج تک کا روپیہ سب میرے پاس جمع ہے، زیادہ لے کر میں کیا کروں گی، اور جب ضرورت ہوگی تو میں خود مانگ لوں گی۔‘‘
غرض باپ سے اصغری رخصت ہو آئی۔ سسرال میں آکر دیکھا کہ ساس چولھا جھونک رہی ہیں۔
اصغری نے حیرت سے پوچھا کہ’’ اَیں اب تک کوئی ماما نہیں رکھی گئی۔‘‘
ساس بولی ’’آنے کو تو کئی عورتیں آئیں پر تنخواہ سن کر ہمت نہیں پڑتی کہ کسی کو نوکر رکھیے۔ عظمت بُری تھی مگر آٹھ آنے مہینے پر پچیس برس سے اُس نے نوکری کی، اب جو ماما آتی ہے دو روپیے اور کھانے سے کم کا نام نہیں لیتی۔ میں نے تمھارے آنے پر رکھا تھا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ماما تو ایک میری نظر میں بھی ہے لیکن تنخواہ وہ بھی زیادہ مانگتی ہے۔ کفایت النسا کی چھوٹی بہن دیانت النسا پکانا سینا سب جانتی ہے اور ایک دفعہ کفایت النسا نے کہا بھی تھا کہ کوئی اچھا ٹھکانا ہو تو دیانت النسا نوکری کرنے کو موجود ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے پوچھا ’’وہ کیا تنخواہ لے گی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’وہ تو اپنے منھ سے تین روپیے اور کھانا مانگتی ہے لیکن سمجھائے سے شاید دو روپیے پر راضی ہوجائے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’دو روپیے کھانا دینا ہو تو دروازے پر بھوندو بھٹیارے کی بی بی چُنیا کی ماں منّتیں کرتی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’چُنیا کی ماں کو تو میں چار آنے مہینے پر بھی نہ رکھوں۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے پوچھا ’’اَے کیوں؟‘‘
اصغری بولی ’’پاس کا رہنے والا آدمی بُرا، آنکھ بچی اور جو چیز چاہی گھر میں جاکر رکھ آئی اور جب گھر سے گھر ملا ہے تو ہر گھڑی چُنیا کی ماں اپنے گھر جائے گی اور شاید رات کو بھی اپنے گھر رہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’بخشو کی بیوی نے اپنی بیٹی زلفن کے واسطے مجھ سے کئی مرتبہ کہا ہے اور زلفن تو سیّد فیروز کے بنگلے میں رہتی ہے۔‘‘
اصغری نے پوچھا ’’وہی زلفن نا جو خوب بنی ٹھنی رہتی ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’ہاں بنی ٹھنی کیا رہتی ہے، نئی بیاہی ہوئی ہے، کپڑے لتّے کا ذرا شوق ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ایسا آدمی بھی نہیں رکھنا چاہیے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’خود زلفن کی ماں نوکری کرنے کو راضی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ان کے ساتھ ایک دُم چھلّا چھوٹی بیٹی کا لگا ہوا ہے، وہ ایک دم ماں کو نہیں چھوڑتی۔ پس نام تو ایک آدمی کا ہوگا اور کھائیں گے دو دو۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’اور تو کوئی آدمی میرے خیال میں نہیں آتا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’دیکھو اُسی دیانت النسا کو بلاؤں گی۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’اور تنخواہ کا کیا ہوگا؟‘‘
اصغری نے کہا ’’ایماندار آدمی تو کم تنخواہ پر ملنا محال ہے۔ ان لوگوں کو دو کی جگہ تین دینے گون ہیں لیکن عظمت ایسی کو آٹھ آنے دے کر گھر لُٹوانا منظور نہیں۔ وہ کہاوت سچ ہے گراں بحکمت ارزاں بعلّت۔‘‘
اُس وقت کا کھانا تو ساس بہوؤں نے مل کر پکا پکو لیا۔ کھانے کے بعد اصغری محمودہ کو ساتھ لے کوٹھے پر چلی گئی۔ جب تک مولوی صاحب رہے اصغری نے کوٹھے پر سے اُترنا بہت کم کردیا تھا۔ صرف صبح و شام نیچے اُترتی تھی بلکہ محمودہ کو بھی منع کردیا تھا کہ ہر وقت نیچے مت جایا کرو۔
محمودہ تو لڑکی تھی اُس نے پوچھا بھی ’’بھابی جان کیوں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بڑوں کے سامنے ہر وقت نہیں چلتے پھرتے۔‘‘
کھانے کے بعد گھر کے حساب کتاب میں مولوی صاحب سے اور بی بی سے لڑائی ہونے لگی۔ بی بی کو شکایت تھی کہ ’’تم خرچ بہت تھوڑا دیتے ہو یہاں شادی بیاہ برادری کا لینا دینا، آنا جانا، تیج تیوہار، سب مجھ کو کرنا پڑتا ہے۔‘‘
مولوی صاحب کہتے تھے کہ ’’بیس روپیے مہینہ تھوڑا نہیں ہے۔ تم کو انتظام کا سلیقہ نہیں۔ اسی سبب سے گھر میں بے برکتی رہتی ہے۔‘‘
اتنے میں مولوی صاحب نے محمودہ کو آواز دی۔ محمودہ آئی تو کہا ’’بھابی کو بلالاؤ۔‘‘
اصغری نے طلب کی خبر سنی تو حیران ہوئی کہ ’’اس وقت کیوں بلایا۔‘‘
محمودہ سے پوچھا ’’کیا ہورہا ہے۔‘‘
محمودہ نے کہا ’’لڑائی ہورہی ہے۔‘‘
اصغری گئی تو مولوی صاحب نے کہا ’’کیوں بیٹا اب انتظام کون کرے؟‘‘
اصغری نے کہا ’’اماں جان کریں گی، جس طرح اب تک کرتی تھیں۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’ان کے انتظام کا نتیجہ تو دیکھ لیا، بیس روپیے مہینہ جس گھر میں آتا ہو اُس گھر کی یہی صورت ہوتی ہے کہ نہ سلیقے کا کوئی برتن ہے نہ عزت کی کوئی چیز۔ اگر کسی وقت ایک چمچہ شربت درکار ہو تو خدا نے چاہا گھر بھر میں اس کا بھی سامان نہ نکلے گا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اماں جان کا اس میں کیا قصور ہے۔ عظمت نامراد نے گھر کو خراب کیا۔‘‘
مولوی صاحب بولے ’’ان میں انتظام کی عقل ہوتی تو عظمت کی کیا طاقت تھی۔ عظمت نوکر تھی یا گھر کی مختار تھی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’پچیس برس کا پرانا آدمی جب لوٹنے پر کمر باندھے تو اُس کے فریب کو کون جان سکتا ہے، ایسے پرانے آدمی پر تو شبہ بھی نہیں ہوسکتا۔‘‘
مولوی صاحب بولے ’’تم کو آخر شبہ ہوا یا نہ ہوا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’مجھ کو کیا شبہ ہوا۔ اُسی کی شامت تھی کہ اُس نے نالش کا ذکر مذکور چھیڑکر سوتی ہوئی بھڑوں کو جگایا۔‘‘
اتنے میں ساس بولیں ’’پچاس میں تم اپنے اکیلے دم کے واسطے تو تیس روپیہ رکھو اور یہاں کنبے کے واسطے بیس روپیے۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’گھر کا خرچ اور باہر کا خرچ کہیں برابر ہوسکتا ہے۔ تم نے تو مجھ کو اکیلا سمجھ لیا اور خدمت گار، سواری ، مکان، کپڑا لتّا۔‘‘
بیوی نے کہا ’’سواری اور مکان تو سرکار سے ملتا ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’گھوڑا ملا،دانہ گھاس تومجھ کو اپنی گرہ سے کھلانا پڑتا ہے۔ چار روپیے کا سائیس اور مکان کی مرمت، پھر سرکار دربار کے موافق حیثیت، دینا لینا ہزار بکھیڑے ہیں۔ نہیں معلوم میں کس طرح گزر کرتا ہوں۔‘‘
اصغری نے ساس کی طرف مخاطب ہوکر کہا ’’اماں جان بیس روپیے میں تکرار کرنے سے کیا فائدہ۔ جتنا ملتا ہے ہزار شکر ہے۔ خدا اباجان کی کمائی میں برکت دے، یہ بھی ہزاروں ہیں۔‘‘
ساس نے کہا ’’بیٹی مجھ سے تو بیس میں گھر نہیں چلتا۔‘‘
اصغری نے اشارے سے ساس کو روکا اور مولوی صاحب سے کہا ’’آپ چاہے دو روپیے اور کم دیجیے لیکن جو کچھ دیجیے ماہ بہ ماہ ملاکرے۔ جب وقت پر پیسہ نہیں ہوتا تو قرض لینا پڑتا ہے اور قرض سے گھر کی رہی سہی برکت بھی اُڑجاتی ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’ہندستانی سرکاروں میں تنخواہوں کا دستور قاعدہ بہت خراب ہے، کبھی چھٹے مہینے تقسیم ہوتی ہے کبھی برسویں دن ملتی ہے۔ اس سبب سے خرچ کا معمول نہیں ہوسکتا، لیکن ہزاری مل سے میں کہہ جاؤں گا کہ مہینے کے مہینے تم کو بیس روپیے دے دیا کرے گا۔‘‘
اصغری نے پوچھا کہ ’’مہاجن بتاجائیے گا تو وہ آپ سے سود مانگے گا۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’نہیں سود کیا لے گا، ہماری سرکار میں بھی اُس کا لین دین ہے، وہاں سے حکم آجائے گا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تو اس کا مضائقہ نہیں۔‘‘
غرض بیس روپیے تنخواہ ٹھہر گئی لیکن محمد کامل کی ماں کو ناگوار ہوا اور الگ جاکر اصغری سے گلہ کیا۔
اصغری نے کہا ’’گھر تو بیس میں انشاء اللہ میں چلادوں گی اس کی آپ کچھ فکر نہ کیجیے اور مولوی صاحب واقع میں تیس روپیے سے کم میں اپنی حیثیت درست نہیں رکھ سکتے۔ مختاری کی نوکری میں اوّل تو اوپر سے آمدنی کی کوئی صورت نہیں اور جو ہو بھی تو مولوی صاحب کیوں لینے لگے۔ پس گنی بوٹی نیا شوربا۔ مولوی صاحب خود تکلیف میں رہے اور دوچار روپیے گھر میں زیادہ بھی آئے تو مناسب نہیں۔‘‘
یہ سن کر ساس چپ ہورہیں۔ اصغری نے دیانت النسا کو بلا بھیجا اور کہہ سن کر دو روپیے اور کھانے پر راضی کرلیا اور جتا دیا کہ دیانت النسا خبردار کوئی ایسی بات نہ ہو کہ تمھارے اعتبار میں فرق ڈالے۔ جس طرح تمھاری بڑی بہن ہمارے گھر رہتی ہے اُسی طرح تم رہنا۔
دیانت النسا نے کہا ’’بیوی خدا اُس گھڑی کو موت دے کہ پرائے مال پر نظر کروں۔ ضرورت ہو تو تم سے مانگ کر کھالوں، پر بے حکم نون تک چکھنا حرام سمجھتی ہوں۔‘‘
عید کے اگلے دن مولوی صاحب تو لاہور سدھارے اور ضرورت کی سب چیزیں اصغری نے اکٹھی منگوالیں اور آئندہ ہمیشہ فصل پر سستی دیکھ کر اکٹھی چیزیں لے رکھتی تھی۔ مرچ، پیاز، دھنیا، اناج، دالیں، چاول، کھانڈ، لکڑی، اُپلے، آلو، اروی، شلجم، میتھی، سوئے کا ساگ، ہر چیز وقت مناسب پر خرید کی جاتی۔ ماما ملاکر پانچ آدمی تھے۔ دونوں وقت میں تین پاؤ گوشت آتا تھا، اُس میں دیانت دو طرح کا کرلیتی تھی۔ کبھی آدھے میں ترکاری اور آدھا سادہ، کبھی آدھے میں کباب اور ایک وقت دن کو دال اور ساتویں دن پلاؤ اور میٹھے چاولوں کا معمول تھا۔ گھر میں دو تین قسم کی چٹنی کوئی چاشنی دار، کوئی عرق لغناع ( پودینہ ) کی، کوئی سرکے کی، دوچار قسم کا مربّہ بنا رکھا۔ ان کے علاوہ شربت انار، لیموں کی سکنجبین، شربت بنفشہ، شربت نیلوفر، شربت فالسہ کی ایک ایک بوتل بنالی۔ ہر طرح کا ضروری سامان گھر میں موجود رہا کرتا تھا، باوجود اس سامان کے پندرہ روپیے سے زیادہ خرچ نہیں ہوتا تھا۔ پانچ روپیے جو بچتے تھے اُس سے بڑے بڑے پنسیرے اور دس سیرے دو پتیلے، ایک سینی، کچھ چھوٹے چمچے، دو لوٹے، ایک عدد چائے کے لوازم اس قسم کی چیزیں خرید ہوئیں۔ دو صندوق بنوائے گئے، دو الماریاں، ایک باورچی خانے میں، ایک اسباب کی کوٹھری میں۔ بیٹھنے کے تخت پرانے تھے وہ درست ہوئے، دو پلنگ تیار ہوئے، خلاصہ یہ کہ اصغری نے اس بیس روپیے میں گھر کو وہ جلادی کہ ظاہر حال میں بڑی رونق معلوم ہوتی تھی۔ ہر چیز میں کفایت اور ہر چیز میں انتظام کو دخل دیا۔ عظمت کے وقتوں میں ہمیشہ محمودہ کے واسطے تین چار پیسے روز کا سودا بازار سے آتا تھا اس واسطے کہ کبھی دسترخوان میں ایک ٹکڑا نہیں بچا۔ اب دونوں وقت دوچار روٹیاں دسترخوان میں رہنے لگیں۔ کبھی بھنتے میں سے دو بوٹیاں محمودہ کے لیے نکال رکھیں، کبھی ایک چٹکی کھانڈ نکال دی، کبھی مربّے کی ایک پھانک دے دی۔ روز کا سودا موقوف ہوا۔ کسی دن کبھی کبھار جو محمودہ کا جی چاہا تو کچھ منگوالیا۔ اس گھر سے فقیر کو عمر بھر ایک چٹکی آٹا یا آدھی روٹی نہیں ملی تھی اب دونوں وقت دو دو روٹیاں فقیروں کو بھی دی جاتی تھیں۔ گھر میں جو کچھ اسباب تھا، عجیب بدسلیقگی سے ساگ مولی کی طرح پڑا رہتا تھا۔ اب ہر ایک چیز ٹھکانے لگی۔ کپڑوں کی گٹھریاں ہیں تو کپڑے اچھی طرح تہ کیے ہوئے ترتیب سے بندھے ہیں۔ اناج پانی کی کوٹھری میں۔ ہر ایک شے احتیاط سے ڈھکی ہوئی ہے۔ برتن صاف ستھرے اپنی جگہ رکھے ہیں، چینی کے الگ، تانبے کے الگ، گویا گھر ایک کل تھی جس کے کیل پُرزے سب درست اور اُس کل کی کنجی اصغری کے ہاتھ میں تھی۔ جب کوک دیا کل اپنے معمول سے چلنے لگی۔ رفتہ رفتہ دودو چارچار روپیے پس انداز ہونے لگے اور اصغری اُس کو بطورِ امانت علاحدہ جمع کرتی گئی۔ جب سے اصغری نے گھر کا اہتمام اپنے ہاتھ میں لیا، قرض کا لینا قسم ہوگیا۔ بھول کر بھی دمڑی چھدام تک کی چیز بازار سے اُدھار نہ آئی۔ اصغری گھر کا سب حساب ایک کتاب میں لکھا کرتی تھی۔ جب کوئی چیز ہو چکنے پر آئی اور دیانت النسا نے اطلاع کی کہ ’’بیوی گھی دو دن کا اور ہے۔‘‘ اصغری نے اپنی کتاب نکال کر دیکھی کہ کس تاریخ کتنا گھی آیا تھا اور کتنے روز کے حساب سے خرچ ہوا۔ اگر بے حساب ہوا تو دیانت النسا سے بازپُرس کی۔ مجال نہ تھی کہ کسی چیز میں فضول خرچی ہو اور بے حساب اٹھ جائے، پسائی والی کی پسائیاں اور دھوبن کی دھولائیاں تک اصغری کی کتاب میں لکھی جاتی تھیں۔ جب ہر ایک چیز کا معمول بندھ گیا اور انتظام بیٹھ گیا۔ اصغری دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوئی۔
محمد کامل پڑھتا لکھتا تو تھا لیکن اس بے تدبیری اور بدشوقی سے جس طرح آزاد خود مختار لڑکے پڑھا کرتے ہیں۔ باپ تو باہر رہتے تھے۔ محمد عاقل گو بڑا بھائی تھا لیکن دونوں بھائیوں میں صرف اڑھائی برس کی بڑائی چھوٹائی تھی۔ محمد کامل پر اُس کا دباؤ کم تھا، صبح و شام سبق بھی پڑھتا تھا اور ہم عمر لڑکوں میں گنجیفہ، شطرنج، چوسر بھی کھیلا کرتا تھا۔ بعض مرتبہ کھیل میں مصروف ہوتا تو پہر پہر رات گئے گھر آتا۔ اصغری کو یہ حال تو معلوم تھا لیکن موقع ڈھونڈتی تھی کہ ایسے ڈھب سے کہنا چاہیے کہ ناگوار نہ ہو۔ ایک روز بہت رات گئے محمد کامل آیا اور شاید بازی جیت کر آیا تھا۔ خوش تھا، آتے کے ساتھ کھانا مانگا، دیانت النسا سالن گرم کرنے دوڑی گئی۔
محمد کامل سمجھا ابھی پکارہی ہے پوچھا ’’ماما ابھی تک تمھاری ہنڈیا چولھے سے نہیں اُتری۔‘‘
اصغری نے کہا ’’کئی دفعہ اُترکر چڑھ چکی ہے۔ ایسے ناوقت تم کھانا کھاتے ہو کہ کھانا ٹھنڈا ہوکر مٹی ہوجاتا ہے، یا تو ایسا بندوبست کرو کہ سویرے کھا جایا کرو یا کھانا باہر منگوالیا کرو۔ ادھر تمھارے انتظار میں اماں جان کو ہر روز تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’اَیں تم لوگ میرے منتظر رہتے ہو۔ میں تو جانتاتھا کہ کھالیا کرتی ہوگی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’مردوں کے ہوتے عورتوں کو کھانا ٹھوس بیٹھنا کون ضرور ہے۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’دوچار روز کی بات ہو تو گزر سکتی ہے اس میں ضد کی کیا بات ہے، تم لوگ کھانا کھالیا کرو۔‘‘
اصغری اُس وقت تو چپ ہورہی، کوٹھے پر پھر محمد کامل نے خود چھیڑکر اسی بات کو کہا۔
اصغری نے کہا ’’تعجب کی بات ہے تم اپنے معمول کے خلاف نہیں کرسکتے اور ہم لوگوں سے چاہتے ہو کہ ہم اپنے معمول کے خلاف کریں۔ تمھیں سویرے چلے آیا کرو۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’کھانے کے بعد باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا اور مجھ کو نیند دیر کر آتی ہے۔ گھر میں بے شغل پڑے پڑے جی گھبراتا ہے اس واسطے میں قصداً دیر کرکے آتا ہوں کہ کھانے کے بعد سورہوں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’شغل تو اپنے اختیار میں ہے، آدمی وقت کا انتظام کرے تو ہزاروں کام ہیں، ایک پڑھنے کا شغل کیا کم ہے۔ میں اپنے بڑے بھائی کو دیکھا کرتی تھی کہ آدھی رات تک کتاب دیکھتے اور جس دن اتفاق سے سوجاتے تو بڑا افسوس کیا کرتے تھے۔ تم پڑھنے میں کم محنت کرتے ہو اسی واسطے بے شغلی سے تمھارا جی گھبراتا ہے۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’اور کیا محنت کروں، دونوں وقت سبق پڑھ لیتا ہوں، یاد کرلیتا ہوں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’نہیں معلوم تم کیسا پڑھنا پڑھتے ہو، جس دن عظمت کا حساب کتاب ہوتا تھا اباجان تم سے حساب پوچھتے تھے اور تم بتا نہیں سکتے تھے، مجھ کو شرم آتی تھی۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’حساب دوسرا فن ہے۔ میں عربی پڑھتا ہوں، اُس سے اور حساب سے کیا واسطہ۔‘‘
اصغری نے کہا ’’پڑھنا لکھنا اسی واسطے ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی کام اٹکا نہ رہے۔ بڑے بھائی عربی فارسی بہت پڑھ گئے ہیں لیکن نوکری نہیں ملتی۔ ابا کہا کرتے ہیں کہ حساب کتاب اور کچہری کا کام جب تک نہ سیکھوگے نوکری کا خیال مت کرو۔ اب مآل اندیش مدرسے میں پڑھتا ہے اور حساب و کتاب میں بڑے بھائی سے زیادہ ہوشیار ہے۔ ابا اُس سے بہت خوش ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ دو برس مدرسے میں اور پڑھو پھر تم کو کہیں نوکر کرادوں گا۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’مدرسے میں کم عمر آدمی کو داخل کرتے ہیں، میری عمر زیادہ ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’مدرسے میں داخل ہونے پر کیا منحصر ہے۔ یوں شہر میں کیا سکھانے والے نہیں ہیں۔ جتنا وقت تم کھیل میں ضائع کرتے ہو اسی میں صرف کیا کرو۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’کھیل کیا میں دن رات کھیلتا ہوں کبھی گھڑی دو گھڑی کو بیٹھ گیا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’کھیلنا افیون کی سی عادت ہے۔ تھوڑے سے شروع ہوکر بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ لت پڑجاتی ہے اور پھر چھوٹنا مشکل ہوتا ہے۔ اوّل تو یہ کھیل گناہ ہیں دوسرے آدمی کو دوسرے کمال حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔ کام کاج کے آدمی کبھی نہیں کھیلتے۔ نکمّے لوگ البتہ اسی طرح دن کاٹتے ہیں۔ ان کھیلوں میں جیسا بازی جیتنے سے جی خوش ہوتا ہے ہارنے سے رنج بھی بہت ہوتا ہے اور جس طرح وہ خوشی بے اصل ہوتی ہے یہ رنج بھی ناحق کا ہوتا ہے اور اکثر کھیلتے کھیلتے آپس میں مفت کی تکرار ہوجاتی ہے۔ میری صلاح مانو تو ان کھیلوں کو بالکل موقوف کرو، لو گ تمھارے منھ پر توکچھ نہیں کہتے ہیں لیکن پیچھے ہنستے ہیں۔ پرسوں کی بات ہے کہ تم کو کوئی مردوا بلانے آیا تھا، ماما نے اندر سے جواب دیا کہ باہر سدھار گئے ہیں۔ اُس مردوے نے اپنے ساتھ والے سے کہا میاں ماسٹر حسینی کے مکان پر چلو وہاں شطرنج کے جمگھٹے میں ملیں گے۔
اباجان کا شہر میں بڑا نام ہے، لوگ ان کے معتقد ہیں، ایسی جگہ جانے سے نام بدہوتا ہے، اور میں نے ابا جان کو افسوس کرتے سنا کہ ہائے ہماری تقدیر دو لڑکوں میں کوئی بھی ایسا نہ ہوا کہ اس کو دیکھ کر جی خوش ہوتا۔ عاقل کو کچھ لکھایا پڑھایا تھا اب وہ بھی اپنی نوکری کے پیچھے ایسا پڑا ہے کہ لکھا پڑھا بھی بھول گیا۔ یہ چھوٹے صاحب ہیں ان کو کھیل کود سے فرصت نہیں، بلکہ ہمارے اباجان کو بھی کسی نے اس کی خبر کردی۔
مجھ سے پوچھتے تھے میں نے کہا ’’سب جھوٹ ہے اگر ایسی بات ہوتی تو مجھ کو ضرور معلوم ہوتا۔ ‘‘
اصغری کی نصیحت نے محمد کامل پر بہت عمدہ اثر کیا اور اُس نے کھیلنا بالکل چھوڑ دیا اور پہلے کی نسبت عربی پر بھی زیادہ محنت کرنے لگا اور ایک مدرس سے مدرسے کے باہر حساب کتاب وغیرہ بھی سیکھنا شروع کردیا۔ خدا نے وقت میں بڑی برکت دی ہے، اس کو انتظام کے ساتھ صرف کرنے سے چند روز میں محمد کامل کی استعدادِ عربی بھی درست ہوگئی اور حساب ریاضی کی بھی کئی کتابیں نکل گئیں۔
محمد کامل تو ادھر مصروف رہا، اصغری نے اسی عرصے میں ایک کارخانہ جاری کیا۔ اس محلے میں حکیم روح اللہ خاں بڑے نامی گرامی آدمی تھے۔ حکیم صاحب خود تو سرکار مہاراجا پٹیالہ میں دیوان تھے لیکن گھر بار لڑکے بچے سب اس محلے میں تھے۔ مکان، محلات، نوکرچاکر، بڑا کارخانہ تھا اور یہ گھر شہر کے اونچے گھروں میں گنا جاتا تھا۔ اونچی جگہ رشتے ناتے، اونچے لوگوں سے راہ و رسم۔ حکیم صاحب کے چھوٹے بھائی فتح اللہ خاں بہت مدت تک والیِ اندور کی سرکار میں مختارِ کل رہے اور جب اس سرکار میں منشی عموجان کو بڑا دخل ہوا، مصلحتِ وقت سمجھ کر کنارہ کش ہوگئے۔ لیکن لاکھوں روپیہ گھر میں تھا، نوکری کی کچھ پروا نہ تھی، ہزاروں روپیے کی املاک شہر میں خرید کرلی تھی، سیکڑوں روپیہ ماہواری کرائے کا چلا آتا تھا، بڑی شان سے رہتے تھے، ڈیوڑھی پر سپاہیوں کا گاد، اندر باہر تیس چالیس آدمی نوکر، گھوڑا ہاتھی پالکی بگھی سواری کو موجود۔ فتح اللہ خاں کی دو بیٹیاں تھیں، جمال آرا اور حسن آرا۔ جمال آرا نواب اسفند یار خاں کے بیٹے سے بیاہی گئی تھی، لیکن ایسی ناموافقت ہوئی کہ آخر کار قطع تعلق ہوگیا۔ کچھ خدا نخواستہ طلاق نہیں ہوئی تھی لیکن کسی طرح کا واسطہ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ جہیز کا اسباب تک پھر آیاتھا۔ حسن آرا کی نسبت نواب جھجر کے خاندان میں ہوئی تھی۔ ان لڑکیوں کی خالہ شاہ زمانی بیگم اُس محلے میں رہتی تھی جس میں اصغری کا میکا تھا۔ اُس محلے میں تو اصغری کی لیاقت کا شور تھا۔ شاہ زمانی بیگم بھی اصغری کے حال سے خوب واقف تھیں۔ شادی بیاہ میں کئی مرتبہ اُس کو دیکھا تھا۔ شاہ زمانی بیگم اپنی چھوٹی بہن حسن آرا کی ماں سے ملنے کے لیے آئیں۔ دنیا کا دستور ہے کہ کوئی فرد بشر رنج سے خالی نہیں اور یہ امر کچھ منجانب اللہ ہے۔ اگر ہر طرف سے خوشی ہو تو انسان خدا کو بھول کر یاد نہ کرے اور نہ اپنے تئیں بندہ سمجھے۔ شاہ زمانی کی چھوٹی بہن سلطانہ بیگم کو دنیا کے سب عیش میسر تھے لیکن لڑکیوں کی طرف سے رنجیدہ خاطر رہا کرتی تھیں۔ اُدھر جمال آرا بیاہ برات ہوہواکر گھر بیٹھی تھی، اِدھر حسن آرا کے مزاج کی افتاد ایسی بُری پڑی تھی کہ اپنے ہی گھر میں سب سے بگاڑ تھا۔ نہ ماں کا ادب، نہ آپا کا لحاظ، نہ باپ کا ڈر ، نہ بھائیوں سے ملاپ۔ نوکر ہیں کہ آپ نالاں ہیں۔ لونڈیاں ہیں کہ الگ پناہ مانگتی ہیں۔
غرض حسن آرا سارے گھر کو سر پر اٹھائے رہتی تھی۔ شاہ زمانی بیگم کے آنے سے چاہیے کہ بڑی خالہ سمجھ کر حسن آرا گھڑی دو گھڑی کو چپ ہوکر بیٹھ جاتی، کیا ذکر شاہ زمانی بیگم کو پالکی سے اُترے دیر نہ ہوئی تھی کہ لگاتار دوتین فریادیں آئیں۔
نرگس روتی ہوئی آئی کہ ’’بیگم صاحب دیکھیے چھوٹی صاحبزادی نے اس زور سے پتھر مارا کہ میری آنکھ پھوٹتے پھوٹتے بچ گئی۔‘‘
سوسن نے آفریاد کی کہ ’’بیگم صاحب چھوٹی صاحب نے مجھ سے کہا دیکھوں سوسن تیری زبان، جوں ہی میں نے دکھانے کو زبان نکالی، نیچے سے ٹھوڑی میں ایسا مُکّا مارا کہ سارے دانت زبان میں بیٹھ گئے۔‘‘
گلاب بلبلا اٹھی کہ ’’ہائے میرا کان خوناخون ہوگیا۔‘‘
دائی چلّائی کہ ’’دیکھیے میری لڑکی کمبخت کے ایسے زور سے لکڑی ماری کہ بازو میں بدّھی پڑگئی۔‘‘
باورچی خانے سے ماما نے دُہائی دی کہ ’’اچھی کوئی ان کو سمجھانا، سالن کی پتیلیوں میں مٹھیاں بھربھر کر راکھ جھونک رہی ہیں۔‘‘
شاہ زمانی بیگم نے آواز دی کہ ’’حسنا یہاں آؤ، خالہ کی آواز پہچان بارے حسن آرا چلی تو آئی نہ سلام نہ دعا، ہاتھوں میں راکھ، پاؤں میں کیچڑ، اُسی حالت میں دوڑ خالہ سے لپٹ گئی۔‘‘
خالہ نے کہا ’’حسنا تم بہت شوخی کرنے لگی ہو۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’اس سنبل چڑیل نے فریاد کی ہوگی۔‘‘
یہ کہہ کر خالہ کی گود سے نکل لپک کر سنبل کے بال کھسوٹ لیے۔ بے خطا، بے قصور بہتیرا خالہ اَیں اَیں کرتی رہیں ایک نہ سنی۔
تب تو شاہ زمانی بیگم اپنی بہن کی طرف مخاطب ہوکر بولی ’’بوا سلطانہ اس لڑکی کے لیے تو خدا کے لیے کوئی اُستانی رکھو۔‘‘
سلطانہ بیگم نے کہا ’’باجی اما کیا کروں مہینوں سے اُستانی کی تلاش میں ہوں کہیں نہیں ملتی۔‘‘
شاہ زمانی بیگم بولی ’’اوئی بوا تمھاری بھی وہ کہاوت ہوئی (ڈھنڈورا شہر میں لڑکا بغل میں) خود تمھارے محلے میں مولوی محمد فاضل کی چھوٹی بہو لاکھ اُستانیوں کی ایک اُستانی ہے۔‘‘
سلطانہ نے کہا ’’مجھ کو آج تک اطلاع نہیں، دیکھو میں ابھی آدمی بھیجتی ہوں۔ یہ کہہ کر اپنے گھر کے داروغہ کو بلایا کہ مانی جی کوئی مولوی صاحب اس محلے میں رہتے ہیں، باجی اما کہتی ہیں ان کی چھوٹی بہو بہت پڑھی لکھی ہیں۔ دیکھو اگر اُستانی گری کی نوکری کریں تو ان کو لِوالاؤ۔ کھانا کپڑا اور دس روپیے مہینہ، پان زردہ کا خرچ ہم دینے کو حاضر ہیں، اور جب لڑکی پہلا سپارہ ختم کرے گی اور ادب قاعدہ سیکھ جائے گی تو تنخواہ کے علاوہ بھی اُستانی جی کو ہم خوش کردیں گے۔‘‘
مانی جی مولوی صاحب کے گھر آئیں۔ محمد کامل کی ماں سے صاحب سلامت ہوئی اور پوچھا ’’اچھی بی مولوی صاحب کی بیوی تمھیں ہو۔‘‘
دیانت النسا نے کہا ’’ہاں یہی ہیں۔ آؤ بیٹھو کہاں سے آئیں۔‘‘
مانی جی نے پوچھا ’’تمھاری چھوٹی بہو کہاں ہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’کوٹھے پر ہیں۔‘‘
مانی جی نے پوچھا ’’میں ان کے پاس اوپر جاؤں۔‘‘
دیانت النسا نے کہا ’’آپ اپنا پتا نشان بتائیے، بہو صاحب یہیں آجائیں گی۔‘‘
مانی جی نے کہا ’’میں حکیم صاحب کے گھر سے آئی ہوں۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے نام بنام سب چھوٹے بڑوں کی خیر و عافیت پوچھی اور مانی جی سے کہا ’’تمیز دار بہو سے کیا کام ہے۔‘‘
مانی جی نے کہا ’’وہی آئیں تو کہوں۔‘‘
تمیزدار کے نیچے اترنے کا وقت بھی آگیاتھا کیوں کہ عصر کی نماز پڑھ کر اصغری نیچے اُتر آتی تھی اور مغرب اور عشا دونو ں نمازیں نیچے پڑھا کرتی تھی۔اصغری کو مانی جی نے دیکھا تو اُستانی گری کی نوکری کے واسطے کہتے ہوئے تامّل کیا۔
باتوں ہی باتوں میں یہ کہا کہ ’’بیگم صاحب کو اپنی چھوٹی لڑکی کا تعلیم کرانا منظو رہے۔ بڑی بیگم صاحب نے آپ کا ذکر کیا تو بیگم صاحب نے مجھ کو بھیجا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’دونوں بیگم صاحب کو میری طرف سے بہت بہت سلام کہنا اور یہ کہنا کہ جو کچھ برا بھلا مجھ کو آتا ہے مجھ کو کسی سے عذر نہیں، اسی واسطے انسان پڑھتا لکھتا ہے کہ دوسرے کو فائدہ پہنچائے اور بڑی بیگم صاحب کو معلوم ہوگا کہ میں اپنے میکے میں کتنی لڑکیو ں کو پڑھاتی تھی اور میراجی بہت چاہتا ہے کہ بیگم صاحب کی لڑکی کو پڑھاؤں لیکن کیا کروں نہ تو بیگم صاحب لڑکی کو یہاں بھیجیں گی اور نہ میرا جانا ہوسکتا ہے۔‘‘
مانی جی نے تنخواہ کا نام صاف تو نہ لیا لیکن دبی زبان سے کہا کہ ’’بیگم صاحب ہر طرح سے خرچ پات کی بھی ذمہ داری کرنے کو موجود ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’یہ سب ان کی مہربانی ہے۔ ان کی ریاست کو یہی بات زیبا ہے، لیکن ان کے زیرِ سایہ ہم غریب بھی پڑے ہیں تو خدا ننگا بھوکا نہیں رکھتا۔ بن داموں کی لونڈی بن کر تو خدمت کرنے کو میں حاضر ہوں اور اگر تنخواہ دار اُستانی درکار ہو تو شہر میں بہت ملیں گی۔‘‘
اس کے بعد مانی جی نے اصغری کا حال پوچھا اور جب سنا کہ یہ تحصیل دار کی بیٹی ہے اور مولوی محمد فاضل صاحب بھی پچاس روپیے ماہواری کے نوکر ہیں تو مانی کو ندامت ہوئی کہ نوکری کا اشارہ ناحق کیا، لیکن اصغری کی گفتگو سن کر مانی لٹو ہوگئی۔ ہرچند نوابی کارخانے دیکھے ہوئے تھی، مگر اصغری کی شستہ تقریر سن کر دنگ ہوگئی اور معذرت کی کہ ’’بی مجھ کو معاف کرنا۔ ‘‘
اصغری نے کہا ’’کیوں تم مجھ کو کانٹوں میں گھسیٹتی ہو، اوّل تو نوکری کچھ عیب نہیں، گناہ نہیں، اور پھر ناواقفیت کے سبب اگر تم نے پوچھا تو کیا مضائقہ۔‘‘
غرض مانی جی رخصت ہوئیں اور وہاں جاکر کہا کہ ’’بیگم صاحب اُستانی تو واقع میں لاکھ اُستانیوں کی ایک اُستانی ہے، جس کی صورت دیکھنے سے آدمی بن جائے، پاس بیٹھنے سے انسانیت حاصل کرے، سایہ پڑجانے سے سلیقہ سیکھے، ہوا لگ جانے سے ادب پکڑے، لیکن نوکری کرنے والی نہیں۔ تحصیل دار کی بیٹی ہے۔ رئیس لاہور کے مختار کی بہو، گھر میں ماما نوکر ہے۔ دالان میں چاندنی بچھی ہے، سوزنی گاؤ تکیہ لگا ہے، اچھی خوش گزران زندگی۔ بھلا اُن کو نوکری کی کیا پروا ہے۔‘‘
شاہ زمانی بولیں ’’سچ ہے بوا سلطانہ تم نے مانی جی کو بھیجا تو تھا لیکن مجھ کو یقین نہ تھا کہ وہ نوکری کریں گی۔‘‘
مانی جی نے کہا ’’لیکن وہ تو ایسی اچھی آدمی ہیں کہ مفت پڑھانے کو خوشی سے راضی ہیں۔‘‘
سلطانہ نے پوچھا کہ ’’یہاں آکر؟‘‘
مانی جی نے کہا ’’بھلا بیگم صاحب جو نوکری کی پروا نہیں رکھتا وہ یہاں کیوں آنے لگا۔‘‘
سلطانہ نے کہا ’’کیا پھر لڑکی وہاں جایا کرے گی۔‘‘
شاہ زمانی نے کہا ’’اس میں کیا قباحت ہے، دو قدم پر تو گھر ہے اور مولوی صاحب کو کیا تم نے ایسا بے عزت سمجھا، بھائی علی نقی خاں کی سگی پھوپی زاد بہن کے بیٹے ہیں ۔‘‘
سلطانہ نے کہا ’’آہا تو ایک حساب سے ہماری برادری ہیں۔‘‘
شاہ زمانی نے کہا ’’لو خدا نہ کرے کچھ ایسے ویسے ہیں۔ پہلے ان کا کام خوب بنا ہوا تھا، جب سے رئیس بگڑا، بے چارے غریب ہوگئے ہیں۔ پھر بھی ماما ہمیشہ رہی، ڈیوڑھی پر بھی ایک دو آدمی رہتے ہیں۔‘‘
سلطا نے کہا ’’خیر حسن آرا وہیں چلی جایا کرے گی۔‘‘
اگلے دن شاہ زمانی بیگم اور سلطانہ بیگم دونوں بہنیں حسن آرا کو لے کر اصغری کے گھر آئیں، باوجودیکہ اصغری کے یہاں غریبی سامان تھا لیکن اُس کے انتظام اور سلیقے کے سبب بیگموں کی وہ مدارات ہوئی کہ ہر طرح کی چیز وہیں بیٹھے بیٹھے موجود ہوگئی۔ دو چار طرح کا عطر، چو گھڑا الائچی، چکنی ڈلی، چائے، بات کی بات میں سب موجود ہوگیا۔ خوب خوب مزے کی گلوریاں تیار ہوگئیں۔
دونوں بہنوں نے اصغری سے کہا کہ ’’مہربانی کرکے اس کو دل سے پڑھا دیجیے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اوّل تو خود مجھ کو کیا آتا ہے مگر دوچار حرف بزرگوں کی عنایت سے آتے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ ان کے بتانے میں اپنے مقدور بھر دریغ نہ کروں گی۔‘‘
چلتے ہوئے سلطانہ بیگم ایک اشرفی اصغری کو دینے لگیں۔
اصغری نے کہا ’’اس کی کچھ ضرورت نہیں۔ بھلا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ میں پڑھوائی آپ سے لوں۔‘‘
سلطانہ نے کہا ’’استغفراللہ! پڑھوائی دینے کے واسطے ہمارا کیا منھ ہے۔ بسم اللہ کی مٹھائی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’شروع میں تبرک کے واسطے مٹھائی بانٹ دیا کرتے ہیں، سو اشرفی کیا ہوگی، بچوں کا منھ میٹھا کرنے کو سیر آدھ سیر مٹھائی کافی ہے۔ یہ کہہ کر دیانت کی طرف اشارہ کیا، وہ کوٹھری میں سے ایک قعب بھرکر نکتیاں نکال لائی۔ اصغری نے خود فاتحہ پڑھ کر پہلے حسن آرا کو دی اور بھری قعب دیانت کو اٹھادی کہ سب بچوں کو بانٹ دو۔‘‘
سلطانہ نے کہا ’’اچھا تم نے مجھ کو شرمندہ کیا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ہم بے چارے غریب کس لائق ہیں، لیکن یہاں جو کچھ ہے، وہ بھی آپ ہی کا ہے۔ البتہ میرا دینا یہی ہے کہ حسن آرا بیگم کو پڑھادوں۔ سو خدا وہ دن کرے کہ میں آپ سے سرخرو ہوں۔‘‘
غرض دنیاسازی کی باتیں ہو ہواکر شاہ زمانی بیگم اور سلطانہ بیگم چلی گئیں اور حسن آرا کو اصغری کے حوالے کرگئیں۔ اصغری نے جس طرز پر حسن آرا کو تعلیم کیا اُس کی ایک جدا کتاب بنائی جائے گی اگر یہاں وہ سب حال لکھا جاتا تو یہ کتاب بہت بڑھ جاتی۔ اس مقام پر اتنا مطلب ہے کہ حسن آرا کے بیٹھتے ہی محلّے کا محلہ ٹوٹ پڑا۔ جس کو دیکھو اپنی لڑکی کو لیے چلا آتا ہے لیکن اصغری نے شریف زادیوں کو چن لیا اور باقیوں کو حکمتِ عملی سے ٹال دیا کہ ’’میں آئے دن اپنی ماں کے گھر جاتی رہتی ہوں۔ پڑھنا پڑھانا جب تک جم کر نہ ہو بے فائدہ ہے۔‘‘
پھر بھی بیس لڑکیاں بیٹھتی تھیں لیکن اصغری کو کسی لڑکی سے لینے لِوانے کی قسم تھی بلکہ ایک دو روپیہ اس کا اپنا لڑکیوں پر خرچ ہوجاتا تھا۔ صبح سے دوپہر تک پڑھنا ہوتا تھا اور پھر کھانے کے واسطے چار گھڑی کی چھٹی۔ اس کے بعد لکھنا اور پہر دن رہے سے سینا۔ سینے کا کام گنجائشی تھا، اس واسطے کہ نہ صرف سینا سکھایا جاتا تھا بلکہ ہر طرح کی جالی کا کاڑھنا، ہر ایک طرح کی سلائی، ہر ایک طرح کی قطع مصالح بنانا اور ٹانکنا۔ اوّل میں تو اس کا سامان جمع کرنے میں اصغری کے دس روپیے خرچ ہوئے، لیکن پھر تو اسی کام سے بچت ہونے لگی جو کام لڑکیاں بناتیں، دیانت اُس کو چپکے سے بازار میں لگاآتی اور اس طور پر رفتہ رفتہ مکتب کی ایک بڑی رقم جمع ہوگئی۔ جو لڑکی غریب ہوتی اُسی رقم سے اُس کے کپڑے بنائے جاتے۔ کتاب مول لے دی جاتی۔ لڑکیوں کے پانی پلانے اور پنکھا جھلنے کے واسطے خاص ایک عورت نوکر تھی اور مکتب کی رقم سے اُس کو تنخواہ ملتی تھی۔ لڑکیوں کا یہ حال تھا کہ اور اُستانیوں کے پاس جاتے ہوئے ان کا دم فنا ہوتا تھا، لیکن اصغری کی شاگردیں اس پر عاشق تھیں۔ ابھی سوکر نہیں اٹھی کہ لڑکیاں خود بخود آنی شروع ہوئیں، اور پہر رات گئے تک جمع رہتیں اور مشکل سے جاتی تھیں۔ اس واسطے کہ اصغری سب کے ساتھ دل سے محبت کرتی تھی اور پڑھانے کا طریقہ ایسا اچھا رکھا تھا کہ باتوں میں تعلیم ہوتی تھی۔ نہ یہ کہ صبح سے رین رین کا چرخہ جو چلا تو دن چھپے تک بند نہیں ہوتا۔ جس طرح اصغری کو اُس کے باپ نے پڑھایا تھا اُسی طرح اصغری اپنے شاگردوں کو پڑھاتی تھی۔ پس یہ لڑکیاں شاگرد کی شاگرد اور سہیلی کی سہیلی تھیں۔ جب کسی لڑکی کا بیاہ ہوا، مکتب کی رقم سے اُس کو تھوڑا بہت زیور چڑھایا جاتا تھا۔ اگر اصغری اپنے مکتب کو بڑھانا چاہتی تو تمام شہر کے مکتب اُجاڑ ہوجاتے، سیکڑوں عورتیں اپنی لڑکیوں کے واسطے خوشامد کرتی تھیں اور خود لڑکیاں دوڑ دوڑ آتی تھیں۔ اس واسطے کہ اور مکتبوں میں دن بھر کی قید، اُستانیوں کی سختی، پڑھنا کم، مار کھانا اور کام کرنا بہت، دن بھر میں پڑھے تو صرف دو حرف، صبح و شام تو معمولی مار، اور جہاں چپ کی اور اُستانی جی کی نظر پڑگئی آفت آئی اور کام کو پوچھو تو صبح آتے کے ساتھ گھر میں جھاڑو دی۔ اُستانی جی اور اُستاد جی اور دس بارہ خلیفہ جی بلکہ پڑوسیوں تک کے بچھونے تہ کیے اور چار چار پانچ پانچ نے مل کر کمبخت بھاری بوجھل چارپائیاں اٹھائیں، پھر دوچار کی جلد شامت آئی تو سیپارہ لے کر بیٹھیں۔ منھ سے آواز نکلی اور اُستانی جی نے بنیٹھی پھینکنی شروع کی، اور دوچار جو کسی اچھے کا منھ دیکھ کر اٹھی تھیں کام دھندے میں لگ گئیں۔ کسی نے اُستانی جی کے لڑکے کو گود میں لیا، بوجھ کے مارے کولھا ٹوٹا جاتا تھا لیکن مار کے ڈر سے گردن پر بلا سوار ہے اور وقت ٹالتی پھرتی ہیں، پٹتی ہوئی لڑکیوں کی آواز کان میں چلی آرہی ہے۔ دل ہے کہ اندر ہی اندر سہما جاتا ہے۔ اس عذاب سے یہ مصیبت غنیمت معلوم ہوتی ہے۔ کسی نے رات کے جھوٹے برتن مانجنے شروع کیے،گھٹّے پڑپڑگئے ہیں اور کندھے رہ رہ جاتے ہیں لیکن چھوٹی بہن پٹ رہی ہے اور چلاّ رہی ہے۔ اچھی اُستانی جی، میں مرگئی اچھی میں تم پر واری گئی، اچھی خدا کے لیے، اچھی رسول کے لیے، اچھی میں خلیفہ جی کی لونڈی ہوگئی ہائے رے ہائے رے ہائے رے ، اوئی ماں، آپا اور آپ ہیں کہ جھائیں جھائیں جلدی جلدی برتن مانج رہی ہیں۔ ان کا موں سے فراغت ہوئی تو مصالح پیسنے، آٹا گوندھنے، آگ سلگانے، گوشت بگھارنے کا وقت آیا پھر دوپہر کو اُستانی جی ہیں کہ سورہی ہیں اور معصوم بچے پنکھا جھل رہے ہیں اور دل میں دعا مانگ رہے ہیں۔ الٰہی ایسی سوئیں کہ پھر نہ اٹھیں۔ غرض اور مکتبوں میں یہ مصیبت رہتی ہے۔ اصغری کے یہاں نہ مار نہ دھاڑ، بڑا ڈراوایہ تھا کہ سنو بوا تم سبق یاد نہیں کرتیں، تمھارے سبب سے ہمارے مکتب کا نام بد ہوتا ہے۔ میں تمھاری اماں جان کو بلاکر کہہ دوں گی کہ بی تمھاری لڑکی یہاں نہیں پڑھتی، اس کو تم کسی دوسری اُستانی کے پاس بٹھاؤ، اتنا کہا کہ لڑکی کا دم فنا ہواور پھر سبق ہے کہ نوک زبان یاد ہے یا جس نے سبق یاد نہیں کیا اس سے کہا گیا کہ بوا آج تم نے سبق یاد نہیں کیا اور لڑکیاں تو دوپہر کے بعد سیئیں گی اور تم پڑھنا۔ یہ کہنا تھا کہ اُس نے جلدی جلدی سبق حفظ کیا۔ مکتب میں محمودہ اور حسن آرا دو خلیفہ تھیں۔ نہ یہاں جھاڑو دینی ہے نہ بچھونے اٹھانے ہیں نہ چار پائیاں ڈھونی ہیں نہ برتن مانجنے ہیں، نہ خلیفاؤں کو لادے لادے پھرنا ہے، بلکہ خود لڑکیوں پر ایک عورت نوکر تھی۔ محبت اور آرام، پڑھنا، لکھنا، سینا تین کام خوب شوق سے لڑکیاں تعلیم پاتی تھیں۔ اس مقام پر مکتب کی ایک حکایت لکھی جاتی ہے جس سے اصغری کا طرزِ تعلیم مختصر طور پر معلوم ہوجائے گا۔
حکایت
سفیہن ایک عورت تھی اور فضیلت اُس کی بیٹی، کوئی دس برس کی ہوگی۔ اس فضیلت کو خود بخود پڑھنے لکھنے اور سینے پرونے کا شوق تھا۔ سفیہن یہ چاہتی کہ فضیلت تمام گھر میں جھاڑو دے ، لیپے پوتے، برتن مانجے۔ ایسے کاموں میں فضیلت کا دل نہ لگتا۔ ماں کے کہے سنے سے کرتو دیتی مگر وہی بے دلی سے۔ سفیہن جو ایک دن فضیلت پر ناخوش ہوئی تو ساتھ لے جاکر اصغری کے مکتب میں بٹھا آئی اور کہا کہ ’’اُستانی جی یہ لڑکی بڑی نکمی ہے جس کام کو کہتی ہوں، ٹکاسا جواب دے دیتی ہے۔ اس کو ایسا ادب دو کہ گھر کے کام پر اس کا جی لگے۔‘‘
اصغری نے جو دیکھا تو فضیلت کو اپنے ڈھب کا پایا۔ ادھر فضیلت کو اپنی مرضی کی اُستانی ملی۔ نور کے تڑکے آتی تو دوپہر کو کھانا کھانے جاتی۔ کھانا کھایا اور پھر بھاگی، پانی مکتب میں پیتی اور تیسرے پہر کی آئی آئی کہیں چار گھڑی رات گئے جاتی۔ کبھی کبھی سفیہن اس کی خبر لینے مکتب میں آتی تو کئی دفعہ اس کو لڑکیوں کے ساتھ گُڑیاں کھیلتے دیکھا۔ دوچار دفعہ ہنڈ کلھیا پکاتے۔
ایک دن چار گھڑی رات گئی ہوگی، فضیلت کو جانے میں دیر ہوئی، سفیہن اس کو لینے آئی تو کیا دیکھتی ہے کہ محمودہ کہانیاں کہہ رہی ہے اور مکتب کی سب لڑکیاں آس پاس بیٹھی ہیں اور خود اُستانی جی بھی لڑکیوں میں بیٹھی ہوئی کہانیاں سن رہی ہیں، تب تو سفیہن کا جی جل کر خاک ہوگیا اور بولی کہ ’’واہ اُستانی جی! اچھا تم نے لڑکیوں کا ناس کررکھا ہے۔ جب کبھی میں فضیلت کو دیکھنے آئی، کبھی میں نے اس کو پڑھتے نہ پایا۔ مکتب کیا ہے اچھا کھیل کا بہانہ ہے تبھی تو لڑکیاں دوڑ دوڑکر آتی ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا کہ ’’بوا اگر تمھاری مرضی کے موافق تمھاری لڑکی کی تعلیم نہیں ہوتی تو تم کو اختیار ہے اپنی لڑکی کو اٹھا لے جاؤ، مگر مکتب پر ناحق کا الزام مت لگاؤ۔ بھلا میں تم سے پوچھتی ہوں فضیلت نے مائی جی کے مکتب میں کتنے دنوں پڑھا؟‘‘
سفیہن نے کہا ’’میراں جی کے چڑھتے چاند اس کو بٹھایا تھا، مدار بھر پڑھا۔ خواجہ معین الدین بھر پڑھتی رہی۔ ماہ رجب سے تمھارے یہاں ہے۔‘‘
اصغری نے پوچھا کہ ’’مائی جی کے یہاں فضیلت نے کیا پڑھا؟‘‘
سفیہن نے کہا ’’تین مہینے میں والمحصنات کا سیپارہ اور آدھا لآ یُحِبُّ اللہ۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تین مہینے میں ڈیڑھ سیپارہ تو مہینے میں آدھا سیپارہ ہوا۔ یہاں تمھاری فضیلت ماہ رجب سے ہے اور اب خالی کا چاند چڑھتا ہے۔ چار مہینے ہوئے وَما اُبَرِّئُ نَفْسِی کا سیپارہ کل ختم ہوا، یعنی ساڑھے سات سیپارے پڑھے۔ حساب سے مہینے پیچھے ایک سیپارے کے قریب ہوتا ہے۔ مائی جی کے مکتب سے دونا اور جب فضیلت یہاں آئی تو کالی لکیر تک اس کو کھینچنی نہیں آتی تھی، اب نام لکھ لیتی ہے اور بساط بموجب حرف بھی بُرے نہیں ہوتے۔ بیس تک بھی پوری گنتی نہیں جانتی تھی اب پندرہ کا پہاڑا یاد کرتی ہے۔ سینے میں تیپچی تک سیدھی بھرنی نہیں آتی تھی اب اس کے ہاتھ کا بخیہ دیکھو، لائیو عقیلہ ذرا بغچیہ۔ فضیلت نے جو کرتی میں بخیہ کیا ہے، ذرا ان کو دکھانا اور فضیلت کے ہاتھ کی کیکری ، مُرمُرا، بوٹیاں، لہریا، چھڑیاں، خانہ تور، دیکھت، بھولی، خاکہ، تار شمار، چنبیلی کا جال، ترپن بیل، کا مدانی، کچھ ہو تو وہ بھی اٹھاتی لاؤ۔‘‘
فضیلت بولی ’’اُستانی جی میں جاکر لے آؤں۔‘‘
فضیلت دوڑی دوڑی جا اپنا کشیدہ اٹھا لائی۔ سفیہن ایک بات کے دس دس جواب سن کر ہکّا بکّا ہوکر رہ گئی۔
اصغری نے کہا ’’بولو! بوا کچھ انصاف بھی ہے چار مہینے میں تمھاری لڑکی اور کیا سیکھ لیتی ۔‘‘
سفیہن تو ایسی شرمندہ ہوئی کہ گھڑوں پانی پڑگیا۔ اب اُستانی جی سے آنکھ سامنے نہیں کرسکتی تھی۔ سفیہن کمبخت کے آنے جانے سے محمودہ کی مزہ کی کہانی تو رہ گئی۔ سب لڑکیاں اسی کی طرف گھور گھور کر دیکھنے لگیں۔
سفیہن نے کہا ’’اُستانی جی مجھ کو اس کی کیا خبر تھی۔ فضیلت دن بھر تو یہاں رہتی ہے، رات کو ایسی دیر کر جاتی ہے کہ کھانا کھایا اور سوئی، مجھ کو اس سے پوچھنے گچھنے کا اتفاق تو ہوتا نہیں، دوچار مرتبہ جو میں اِدھر کو آنکلی تو کبھی گڑیاں کھیلتے پایا، کبھی ہنڈکلھیا پکاتے، کبھی کہانیاں سنتے۔ اس سے مجھ کو خیال ہوا کہ یہ اپنا وقت کھیل کود میں کھوتی ہے۔ اب تو میرے منھ سے بات نکل گئی، معاف کیجیے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بے شک تمھارا شبہ بے جا نہیں تھا، لیکن میں انھیں کھیل کی باتوں میں ان کو کام کی باتیں سکھاتی ہوں۔ ہنڈکلھیوں میں لڑکیاں ہر ایک طرح کے کھانے کی ترکیب سیکھتی ہیں۔ مصالح کا اندازہ، نمک کی اٹکل، ذائقے کی شناخت، بوباس کی پہچان ان کو آتی ہے۔ کیوں فضیلت پرسوں جمعہ تھا تو لڑکیو ں نے ملاکر کتنا زردہ پکایا تھا، اس کی ترکیب اور سب حساب کتاب تو ہم کو سناؤ۔‘‘
فضیلت نے کہا ’’حساب تو محمودہ بیگم نے اپنی کتاب پر لکھ رکھا ہے مگر ترکیب تو میں نے بموجب آپ کے فرمانے کے خوب دھیان لگاکر دیکھ لی ہے اور اچھی طرح میری سمجھ میں آگئی ہے۔ سیر بھر چاول تھے، پہلے اُن کو لگن میں بھگودیا۔ شاید دھیلے کی ہار سنگھار کی ڈنڈیاں منگوائیں تھیں، پیسے بھر ملی تھی۔ ان کو کوئی ڈیڑھ سیر پانی میں جوش دیا، جب اُبال آگیا اور رنگ کٹ گیا تو چھان کر عرق میں چاول نچوڑ کر ڈال دیے۔ چاول جب ادھ کچرے ہوگئے اور ایک کنی رہی تو چاولوں کو کپڑے پر پھیلا دیا کہ جتنا بھر پانی ہے سب نکل جائے۔ پھر آدھ پاؤ گھی دیگچی میں لونگوں کا بگھار دے کر کڑکڑایا اور چاول چھوڑ دیے، اوپر سے چاولوں کے ہم وزن کچی کھانڈ ڈال دی اور اٹکل سے اتنا پانی ڈال دیا کہ چاولوں کی ایک کنی جو باقی رہی تھی گل جائے، پھر کوئی ایک چھٹانک کشمش گھی میں کڑکڑاکر جب پھول گئی، چاولوں میں چھوڑی اور اوپر تلے انگارے رکھ کر دم دے دیا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ترکیب تو درست ہے لیکن چاولوں کو جو میں نے دیکھا تھا تو بیٹھ گئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے کپڑے پر پھیلاکر ٹھنڈے پانی سے ان کو دھویا نہیں۔‘‘
پھر اصغری سفیہن کی طرف مخاطب ہوکر بولی کہ ’’کیوں بوا زردہ تو تمھاری لڑکی نے ٹھیک پکایا یہ سب ہنڈکلھیا کی بدولت۔ بوا محمودہ تم اپنے زردے کا حساب تو سناؤ۔‘‘
محمودہ جا حساب کی کتاب اٹھالائی اور کہا ’’اُستانی جی چھ سیر چاول، سیر بھر پونے تین آنے کے اور ایک پیسے کی ڈنڈیاں اور لونگیں۔ دوسیر کا گھی ہے پون پاؤ منگوایا، آدھ پاؤ بگھارتے وقت ڈالا اور چھٹانک بھر کشمش کڑکڑاکر دم دیتے وقت۔ ڈیڑھ آنے کا گھی ہوا اور چوسیری، کھانڈ سیر بھر چار آنے کی، ایک پیسے کی کشمش۔ کل پونے گیارہ آنے کے پیسے خرچ ہوئے۔ دس لڑکیوں کا ساجھا تھا، پونے دو آنے تو میرے تھے اورفضیلت ایک، عقیلہ دو، حسن آرا تین، امۃ اللہ چار، عالیہ پانچ، سلمیٰ چھ، ام البنین سات، شکیلہ جمیلہ دونوں بہنیں نو، سب کا ایک آنہ۔‘‘
اصغری نے کہا ’’محمودہ تم نے دھوکا کھایا۔‘‘
محمودہ نے سوچا تو کہا ’’ہاں اُستانی جی چاولوں میں کوڑیاں بچیں، وہ نامراد بنیے نے ہضم کیں۔ اَے ہے ڈنڈیاں اور لونگیں اُس میں آجاتیں تو ایک پیسہ بچتا۔ دیانت جاتو بنیے سے کوڑیاں لا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اَیں اَیں کیا کرتی ہو کوڑیوں کا معاملہ پرسوں کی بات، اب کچھ مت کہو۔ تمھاری غلطی کی سزا ہے کہ اتنا نقصان سہو۔‘‘
اصغری حسن آرا کی طرف مخاطب ہوکر بولی ’’زردے کی ترکیب اور لاگت تو معلوم ہوئی بھلا دیگچہ بھرا سیر بھر زردہ تم سب نے کیا کیا؟‘‘
حسن آرا نے جواب دیا ’’مجھولی دو رکا بیاں چوٹی دار بھرکر تو اللہ کے نام کی مسجد میں بھیج دیں۔ باقی میں تیرہ تشتریاں بھری گئیں مکتب میں ہم سب پچیس لڑکیاں ہیں۔ دو دو میں ایک ایک تشتری آئی۔ تیرھویں تشتری میں میں اکیلی تھی۔‘‘
اصغری نے پوچھا ’’کیا تم نے دوہرا حصہ لیا۔‘‘
حسن آرا بولی ’’نہیں تو میری تشتری آدھی تھی، سب سے پوچھ لیجیے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’پھر تم برادری سے الگ کیوں رہیں۔‘‘
حسن آرا تو چپ ہوئی، امۃ اللہ نے کہا ’’اُستانی جی، ان کو سب کے ساتھ کھاتے گھن آتی ہے۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’نہیں اُستانی جی، گھن کی بات نہیں ہے۔ میں دسترخوان پر سب لڑکیوں سے پیچھے آئی، اس سے اکیلی رہ گئی۔ آپ محمودہ بیگم سے دریافت کرلیجیے۔‘‘
امۃ اللہ نے کہا ’’کیوں تم ابھی تھوڑی دیر ہوئی میرا جھوٹا پانی پینے پر لڑچکی ہو۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’میں لڑی تھی یا صرف اتنی بات کہی تھی کہ جتنی پیاس ہوا کرے اُسی قدر پانی لیا کرو، گلاس میں جھوٹا پانی چھوڑ دینا عیب کی بات ہے۔‘‘
پھر اصغری نے محمودہ سے پوچھا ’’وہ رسالہ الوانِ نعمت جو میں نے تم کو دیا تھا اُس میں کے تم سب کھانے پکاکر دیکھ چکیں یا ابھی نہیں۔‘‘
محمودہ نے تھوڑی دیر تامّل کرکے کہا ’’میں اپنی دانست میں سب پکواچکی ہوں بلکہ کئی کئی بار نوبت آچکی ہے۔ جتنی بڑی لڑکیاں ہیں، معمولی روزمرہ کے کھانوں کی ترکیب سب کو معلوم ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہر قسم کے کباب، سیخ کے پسندوں کے شامی، گولیوں کے کوفتہ، پلاؤ، زردہ، متنجن، کچی بریانی، نور محلی، قورمہ، پلاؤ، سموسے، میٹھے سلونے، قلمی بڑے، دہی بڑے، سہال، سیو گھی کی تلی دال، کچوریاں، پاپڑ، بورانی، فیرینی، حلوا سوہن، پپڑی کا نرم، اندر سے کی گولیاں سب چیزیں بار بار پک چکی ہیں اور سب لڑکیوں نے پکتے دیکھیں بلکہ اپنے ہاتھوں پکائی ہیں۔ اور یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے مکتب میں ہنڈکلھیا کا تو نام ہے جو چیز پکتی ہے خاصے ایک کنبے کے لائق پکتی ہے اور حسن آرا کو تو چٹنیوں اور مربّوں سے بہت شوق ہے۔ یہ چیزیں ان کے سوائے اور لڑکیاں کم جانتی ہیں۔‘‘
اس کے بعد اصغری نے سفیہن سے کہا کہ ’’بوا اب تم کو یہاں کی ہنڈکلھیا کا فائدہ تو معلوم ہوگیا ہوگا۔ رات زیادہ گئی بعض لڑکیوں کے گھر دور ہیں، اگر کل آؤ تو گڑیوں کی سیر تم کو دکھائیں اور شام تک رہو تو کہانیاں بھی سنوائیں۔‘‘
سب لوگ رخصت ہوئے۔ سفیہن چلتے چلتے اصغری کے آگے ہاتھ جوڑکر کہنے لگی کہ’’ اُستانی جی للہ میرا قصور معاف کیجیے گا۔‘‘
اگلے روز جو سفیہن آئی تو لڑکیوں کے کشیدے اور لڑکیو ں کے بُنے ہوئے گوٹے، لڑکیوں کے موڑے ہوئے گوکھرو، لڑکیوں کی بنائی ہوئی توئیاں اور چنپا، لڑکیوں کے قطع کیے ہوئے اور سیے ہوئے مردانے اور زنانے کپڑے۔ اصغری نے سب دکھائے جن کے دیکھنے سے سفیہن کو نہایت اچنبھا پیدا ہوا۔ اس کے بعد لڑکیوں کی گڑیوں کے گھردکھائے، ان گھروں میں خانہ داری کا سب لوازمہ، فرش فروش گاؤ تکیے، اگالدان، چلمچی، آفتابہ، پٹاری، پردہ، چلمن، چھتگیری پنکھا، مسہری، پلنگ، ہر طرح کے برتن، ہر طرح کا سامان آرائش اپنے اپنے ٹھکانے سے رکھا ہوا تھا اور گڑیاں ایسی سجی ہوئی تھیں کہ عین مین شادی کے گھر میں مہمان جمع ہیں۔
جب گڑیوں کے گھروں کو دیکھ چکی تو اصغری نے سفیہن سے کہا کہ ’’لڑکیوں کے سب کھیلوں میں مجھ کو گڑیوں کا کھیل بہت پسند ہے۔ اس کے ذریعے سے لڑکیاں سینا پرونا، کپڑوں کی قطع اور گھر کا بندوبست ہر طرح کی تقریبات، چھٹی، کھیر چٹائی، دودھ چڑھائی، بسم اللہ ، روزہ، منگنی، عیدی، سانونی، محرم کی قفلیاں اور گوٹا، تیج تیوہار، ساچق، برات، بہوڑا، بیاہ، چالے، چوتھی کی راہ و رسم سے واقفیت حاصل کرتی ہیں۔ بوا سفیہن تمھاری لڑکی تو ابھی تھوڑے دنوں سے آتی ہے جو لڑکیاں میرے مکتب میں بہت دنوں سے ہیں جیسے یہ بیٹھی ہے ام البنین یا میری نند محمودہ یا حسن آرا۔ توبہ توبہ کرکے کہتی ہوں کہ اگر ان کو کسی بڑے بھرے پُرے گھر کا انتظام اس وقت سونپ دیا جائے تو انشاء اللہ ایسا کریں گی جیسے کوئی بڑی مشاق اور تجربہ کار کرتی ہے۔ میں تو صرف پڑھنے پر تاکید نہیں کرتی ان کو دنیا کے کام کا بناتی ہوں جو چند روز بعد ان کے سر پڑے گا۔ ‘‘
یہ کہہ کر اصغری نے حسن آرا کو بلایا اور کہا کہ ’’بوا تمھاری گڑیا کا گھر تو خوب آراستہ ہے صرف ایک کسر ہے کہ تمھاری گڑیوں کے پاس رنگین جوڑے نہیں معلوم ہوتے شاید تم کو رنگنا نہیں آتا۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’رنگ تو مجھ کو محمودہ بیگم نے بہت سکھادیے ہیں یوں ہی نہیں رنگے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بھلا بتاؤ تو۔‘‘
حسن آرا بولی ’’اُستانی جی، برسات کے رنگ سرخ، نارنجی، گل انار ، گل شفتالو، سردئی، دھانی، اودا اور جاڑے کے گیندئی، جوگیا، عنابی، کاہی، تیلیا، کاکریزی، سیاہ، نیلا، گلابی، زعفرانی، کو کئی، کرنجوئی اور گرمی کے پیازی، آبی چمپئی، کپاسی، بادامی، کافوری، دودھیا، خشخاشی، فالسئی، ملاگیری، سیندوریا اور رنگ تو اور بہت ہیں مگر میں نے وہی بیان کیے جو اکثر پہنے جاتے ہیں۔‘‘
اصغری نے پوچھا ’’رنگوں کے نام تو تم نے بہت سے گنوادیے بھلا یہ تو بتاؤ کہ یہ سب رنگ تم کو رنگنے آتے ہیں؟‘‘
حسن آرا نے کہا ’’میں نے انھیں رنگوں کا نام لیا جو مجھ کو خود رنگنے آتے ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بھلا بتاؤ تو سردئی کیوں کر رنگتے ہیں؟‘‘
حسن آرا نے کہا ’’کاہی قند اچھی گہرے رنگ کی آدھ گز منگوائی اور پانی کو خوب جوش کرکے پھٹکری ڈال کر ہلادیا، پھٹکری کی تاثیر سے قند کا رنگ کٹ جائے گا پس اُس میں کپڑا رنگ لیا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بھلا اور جو قند نہ ملے؟‘‘
حسن آرا نے کہا ’’تو ٹیسو کے پھولوں کو جوش کرکے پھٹکری پیس کر ملادے سردئی ہوجائے گا۔ لیکن ہلکا کپاسی ہوگا اچھا سردئی بے قند کے نہیں رنگا جاتا اور اگر قند کی جگہ بانات کا رنگ کاٹا جائے تو وہ عمدہ رنگ آتا ہے کہ سبحان اللہ، لیکن ان دنوں مجنٹن ایسا چلا ہے کہ سب رنگوں کو مات کیا ہے، کپڑے تو کپڑے، مٹھائی کھانے کا گوٹا مجنٹن میں نہایت خوش رنگ رنگا جاتا ہے۔ بڑی آپا جان نے مجنٹن کے رنگ کا زردہ پکاکر بھیجا تھا، زعفران سے بہتر رنگ تھا۔‘‘
اصغری خانم نے گھبراکر پوچھا ’’حسن آرا کہیں تم نے تو وہ مجنٹن کے رنگے ہوئے چاول نہیں کھائے۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’میں نے کھائے تو نہیں لیکن اُستانی جی کیوں کیا کچھ بُری بات ہے۔‘‘
اصغری خانم نے کہا ’’اَے ہے مجنٹن میں سنکھیا پڑتی ہے۔ خبردار، مجنٹن کی کوئی چیز زبان پر مت رکھنا۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’میں نے تو مجنٹن کا رنگا ہوا گوٹا محرم میں بہت کھایا ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’کیا ہوا رمق برابر مجنٹن میں تو بہتیرا گوٹا رنگا جاتا ہے اس سبب سے تم کو کچھ نقصان نہ کیا لیکن یاد رکھو کہ اس میں زہر ہے۔‘‘
حسن آرا نے کہا کہ ’’مجنٹن کی رنگی ہوئی مٹھائی لوگ منوں کھاتے ہیں۔‘‘
اصغری خانم نے کہا ’’بہت بُرا کرتے ہیں۔ زہر جب اپنی مُعتاد پر پہنچ جائے گا، ضرور اثر کرے گا۔‘‘
شام ہوئی تو لڑکیاں اپنے کشیدے اور کتاب رکھ رکھا معمول بموجب کھیلنے اور کہانیاں اور پہیلیاں کہنے سننے کو آبیٹھیں۔
اصغری نے سفیہن سے کہا کہ ’’یہاں چڑے چڑیا کی کہانیاں نہیں ہوتیں، کہانیوں کی ایک بہت عمدہ کتاب ہے جس میں بڑی اچھی اچھی کہانیاں ہیں اور ہر ایک کہانی سے ایک نصیحت کی بات نکالی ہے۔ اس کتاب کی زبان بھی بہت شستہ ہے۔ اب یہ لڑکیاں اُسی کتاب کی کہانیوں سے جی بہلائیں گی۔ کہانیاں کہنے سے ان کی تقریر صاف ہوتی ہے، ادائے مطلب کی استعداد بڑھتی جاتی ہے اور جب کبھی مجھ کو فرصت ہوتی ہے تو میں کہانیوں کے بیچ میں ان سے الجھتی جاتی ہوں اور جیسی ان کی سمجھ ہے، یہ میری بات کا جواب دیتی ہیں۔ اگر نادرست ہوتا ہے میں بتادیتی ہوں۔ پہیلیوں کے بوجھنے سے ان کی عقل کو ترقی اور ان کے ذہن کو تیزی ہوتی ہے لیکن تم ان میں بیٹھ کر سیر دیکھو، مجھ کو آج عالیہ کی ماں نے بلابھیجا ہے، ان کے بچے کا جی اچھا نہیں، بہت بہت منتیں کہلا بھیجی ہیں۔ نہ جاؤں گی تو بُرا مانیں گی اور میرا جی بھی نہیں مانتا۔‘‘
سفیہن بولی ’’ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ ان کے لڑکے نے کئی دن سے دودھ نہیں پیا، بے چاری بہت ہراساں ہورہی ہیں۔ اَے ہے خدا کرے نگوڑا جیتا رہے بڑے اللہ آمین کا بچہ ہے۔ دس برس میں پھڑک پھڑک کر خدا نے یہ صورت دکھائی ہے۔ عالیہ کے اوپر یہی تو ایک بچہ ہوا ہے۔ اُستانی جی تم کو علاج کے واسطے بلایا ہوگا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’علاج ولاج تو مجھ کو کچھ بھی نہیں آتا ۔ ایک مرتبہ پہلے اس لڑکے کو پیاس ہوگئی تھی میں نے زہر مہرہ، بنسلوچن، گلاب کا زیرہ، چھوٹی الائچی، زیرے کی گری، کباب چینی، خرفہ اس طرح کی دو چار دوائیں بتادی تھیں۔ خدا کا کرنا لڑکا اچھا ہوگیا۔‘‘
سفیہن نے کہا ’’اُستانی جی تم سب گنوں پوری ہو۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اس میں گن کی کیا بات ہے۔ ہمارے میکے میں دوا درمن کا بہت خیال ہے۔ جب میں چھوٹی تھی جو دوا آتی میں ہی اس کو چھانتی بناتی اور خیال رکھتی۔ اس طرح پر سنی سنائی دوچار دوائیں یاد ہیں جس کو ضرورت ہوئی بتادی اور بچوں کا علاج تو عورتیں ہی کرکرا لیا کرتی ہیں۔ جب ایسی ہی مشکل آپڑتی ہے تو حکیم کے پاس لے جاتے ہیں۔‘‘
سفیہن نے کہا ’’اُستانی جی تم نے مہربانی کرکے مجھ کو اپنے مکتب کا سب انتظام تو دکھایا، اللہ ذرا دم کے دم ٹھہر جاؤ تو میں دیکھ لوں لڑکیاں کیوں کر کہانیاں کہتی ہیں اور کہانیوں میں کیوں کر تم تعلیم کرتی ہو۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بوا مجھ کو تودیر ہوتی ہے، پر خیر تمھاری خاطر ہے۔ اچھا لڑکیوں آج کس کی باری ہے ۔‘‘
محمودہ نے کہا ’’باری تو امۃ اللہ کی ہے لیکن فضیلت سے کہلائیے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اچھا فضیلت کوئی بہت چھوٹی سی کہانی کہو۔‘‘
فضیلت نے کہانی شروع کی کہ ’’ایک تھا بادشاہ۔‘‘
اصغری نے پوچھا ’’بادشاہ کس کو کہتے ہیں؟‘‘
فضیلت بولی ’’جیسے دلّی میں بہادر شاہ تھے۔‘‘
اصغری ’’یہ تو تم نے ایسی بات کہی کہ جو دلی اور بہادر شاہ کو جانتا ہو وہی سمجھے۔‘‘
فضیلت نے کہا ’’بادشاہ حاکم کو کہتے ہیں۔‘‘
اصغری ’’توکوتوال تھانہ دار بھی بادشاہ ہیں۔‘‘
فضیلت ’’نہیں، کوتوال تھانہ دار تو بادشاہ نہیں ہیں۔ یہ تو بادشاہ کے نوکر ہیں۔‘‘
اصغری ’’کیوں کیا کوتوال حاکم نہیں ہے۔‘‘
فضیلت ’’حاکم تو ہے لیکن بادشاہ سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے اور سب پر حکم چلاتا ہے۔‘‘
اصغری ’’ہمارا بادشاہ کون ہے۔‘‘
فضیلت ’’جب سے بہادر شاہ کو انگریز پکڑکر کالے پانی لے گئے تب سے تو کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ یہ سن کر سب لڑکیاں ہنس پڑیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’فضیلت تم بڑی بے وقوف ہو، تم نے خود کہا کہ جو سب سے بڑا حاکم ہو اور سب پر حکم چلاوے وہ بادشاہ ہوتا ہے اور یہ بھی جانتی ہو کہ بہادر شاہ کو انگریز پکڑکر کالے پانی لے گئے تو انگریز بادشاہ ہوئے یا نہ ہوئے۔‘‘
فضیلت ’’ہاں ہوئے تو سہی۔‘‘
اصغری ’’اچھا آپ یہ بتاؤ ہمارا کون بادشاہ ہے؟‘‘
فضیلت ’’انگریز۔‘‘
اصغری ’’کیا انگریز کسی خاص شخص کا نام ہے؟‘‘
فضیلت ’’نہیں، سیکڑوں ہزاروں انگریز ہیں۔‘‘
اصغری ’’کیا سب انگریز بادشاہ ہیں؟‘‘
فضیلت ’’اور کیا۔‘‘
یہ سن کر پھر لڑکیاں ہنسیں۔ اصغری نے حسن آرا کی طرف اشارہ کیا کہ ’’تم جواب دو۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’اُستانی جی ہمارا بادشاہ ملکۂ وکٹوریہ ہے۔‘‘
اصغری ’’مرد ہے یا عورت؟‘‘
حسن آرا ’’ عورت ہے۔‘‘
اصغری ’’کہاں رہتی ہیں؟‘‘
حسن آرا ’’لندن میں۔‘‘
اصغری ’’لندن کہاں ہے؟‘‘
حسن آرا ’’انگریزوں کی ولایت میں ایک بہت بڑا شہر ہے۔‘‘
اصغری ’’کتنی دور ہوگا؟‘‘
حسن آرا ’’میں نے ایک کتاب میں پانچ ہزار کوس لکھا دیکھا ہے۔‘‘
اصغری ’’کوس کتنا لمبا ہوتا ہے؟‘‘
حسن آرا ’’اُستانی جی سلطان نظام الدین کوتین کوس کہتے ہیں۔‘‘
یہ سن کر محمودہ ہنسی اور کہا کہ ’’۱۷۶۰ گز کا ہوتا ہے۔‘‘
اصغری نے محمودہ سے پوچھا کہ ’’اُس مرتبہ جو میں قطب صاحب گئی تھی اور تم بھی میرے ساتھ تھیں، تم نے بھی دیکھا تھا کہ تھوڑی تھوڑی دور سڑک پر پتھر گڑے تھے اور پتھروں پر لکھا ہوا تھا وہ پتھر کیسے تھے؟‘‘
محمودہ ’’میں اٹکل سے یہی سمجھتی تھی کہ کوسوں کے پتھر ہیں، لیکن گاڑی ایسی تیز تھی کہ پتھر وں پر نگاہ نہیں جمتی تھی، میں خوب نہیں پڑھ سکی کہ اُن پر کیا لکھا تھا۔‘‘
اصغری ’’وہ کوسوں کے پتھر نہیں تھے، میلوں کے پتھر تھے، آدھے کوس کا میل ہوتا ہے اور ہر میل پر پتھر گڑا ہے، اُس میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ یہاں سے دلّی اس قدر میل ہے اور قطب صاحب اتنے میل۔‘‘
اس کے بعد اصغری پھر حسن آرا کی طرف مخاطب ہوئی اور پوچھا ’’ہاں بوا لندن کس طرف ہے؟‘‘
حسن آرا ’’اُتّر میں ہے۔‘‘
اصغری ’’وہ ملک گرم ہے یا سرد؟‘‘
حسن آرا ’’یہ تو میں نہیں جانتی۔‘‘
محمودہ ’’بڑا سرد ہے جتنا اُتّر کو جاؤ گرمی کم ہے اور جتنا دکھن کو چلو گرمی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘
سفیہن ’’اچھی اُستانی جی عورت بادشاہ ہے۔‘‘
اصغری ’’اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔‘‘
سفیہن ’’تعجب کی بات کیوں نہیں، عورت ذات کیا کرتی ہوگی۔‘‘
اصغری ’’جو مرد بادشاہ کرتے ہیں وہی عورت کرتی ہے۔ ملک کا بندوبست، رعیت کا پالنا۔‘‘
سفیہن ’’عورت تو کیا کرتی ہوگی، کرتے سب کچھ انگریز ہوں گے، برائے نام عورت کو بادشاہ بنارکھا ہوگا۔‘‘
اصغری ’’یہ سب انگریز ملکہ کے نوکر ہیں۔ ہر ایک کا کام الگ ہے۔ ہر ایک کا اختیار جدا ہے۔ اپنے اپنے کام پر مستعد رہتے ہیں اور جب مرد بادشاہ ہوتے ہیں تب بھی وزیر وزرا سب کام کیا کرتے ہیں۔‘‘
سفیہن ’’میرا جی تو قبول نہیں کرتا کہ عورت ذات بادشاہت کرسکے۔‘‘
اصغری ’’بھوپال کی بیگم کا نام سنا ہے۔‘‘
سفیہن ’’کیوں، سنا کیوں نہیں۔ خود میرے سسرے بھوپال میں نوکر ہیں۔‘‘
اصغری ’’بس اسی طرح سمجھ لو بھوپال ذرا سا ملک ہے اور ملکۂ وکٹوریہ کے پاس بڑی سلطنت ہے۔ جس طرح بھوپال کی بیگم اپنے چھوٹے ملک کا بندوبست کرتی ہیں ملکۂ وکٹوریہ اپنی بڑی سلطنت کا انتظام کرتی ہیں۔ بھوپال چھوٹی سرکار ہے، نوکرچاکر کم ہیں اور تھوڑی تنخواہ پاتے ہیں ملکۂ وکٹوریہ کی سرکار بڑی عالی جاہ سرکار ہے، بڑے کارخانے لاکھوں نوکر تنخواہیں بیش قرار۔‘‘
سفیہن ’’اچھی ملکہ کا کوئی میاں ہے۔‘‘
اصغری ’’ہاں مگر موت پر کسی کا زور نہیں چلتا، چاند کو بھی خدا نے داغ لگادیا ہے۔ کئی برس ہوئے ملکہ بیوہ ہوگئیں۔’’
سفیہن ’’ملکہ کی اولاد ہے؟‘‘
اصغری ’’ہاں خدا رکھے بیٹے پوتے نواسے سب کچھ ہے۔‘‘
سفیہن ’’اچھی ملکہ اس ملک میں کیو ں نہیں آتیں؟‘‘
اصغری ’’ان دنوں ملکہ کا بیٹا آنے والا ہے۔ بڑی تیاریاں ہورہی ہیں، میں نے اخبار میں دیکھا ہے۔‘‘
سفیہن ’’اچھی ملکہ کو ہزاروں کوس دور بیٹھے یہاں کی کیا خبر ہوتی ہوگی؟‘‘
اصغری ’’کیوں نہیں، ذرا ذرا خبر ہوتی ہے۔ ڈاک اور تار برقی پر رات دن خبریں آتی جاتی ہیں۔ ہزاروں اخبار ولایت جاتے ہیں۔‘‘
سفیہن ’’ملکہ کو کیوں کر دیکھیں؟‘‘
اصغری ’’کیوں کر بتاؤں لیکن اُن کی تصویر البتہ دیکھ سکتی ہو۔‘‘
سفیہن ’’خیر تصویر ہی دیکھ لیتے۔‘‘
اصغری ’’بوا تم بھی تماشے کی با تیں کرتی ہو، کیا تم نے روپیہ نہیں دیکھا؟‘‘
سفیہن ’’کیوں نہیں دیکھا۔‘‘
اصغری ’’عورت کا چہرہ جو بنا ہے وہ ملکہ کی تصویر ہے۔ خطوں کے ٹکٹ پر ملکہ کی تصویر ہے اور میرے پاس ملکہ کی ایک بڑی عمدہ تصویر اور ہے۔ میرے اباّ کو کسی انگریز نے دی تھی، وہ انھوں نے میرے پاس بھیج دی تھی۔ محمودہ میرا صندوقچہ تو اٹھالاؤ۔‘‘
صندوقچے میں سے اصغری نے ملکہ کی تصویر نکال کر دکھائی اور سب لڑکیوں نے نہایت شوق سے ملکہ کی تصویر کو دیکھا۔
سفیہن ’’کیا اچھی تصویر ہے، عین مین ملکہ کھڑی ہیں۔‘‘
اصغری ’’بے شک، یہ تصویر ہوبہو ملکہ کی ہے۔ روپیے کے چہرے سے ملاکر دیکھو کتنا فرق ہے۔ یہ تصویر ہاتھ کی بنائی ہوئی نہیں ہے ایک آئینہ ہوتا ہے اُس کو کچھ مصالح لگاکر سامنے ر کھ دیتے ہیں، خود بخود جیسے کا تیسا عکس اُتر آتا ہے۔‘‘
سفیہن ’’حسن آرا نے لندن کو پانچ ہزار کوس دور بتایا تو کہیں برسوں میں یہاں سے وہاں تک آتے جاتے ہوں گے؟‘‘
اصغری ’’نہیں، سمندر سمندر ایک مہینے میں بافراغت پہنچ جاتے ہیں۔‘‘
سفیہن ’’اَے ہے سمندر ہوکر جانا پڑتا ہے انگریزوں کے بھی کیسے دل ہیں۔ ان کو سمندر سے ڈر نہیں لگتا۔ میرے تو سمندر کا نام سننے سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘
اصغری ’’سمندر سے ڈر نے کی کیا بات ہے۔ مزے میں جہاز پر بیٹھ لیے اچھا خاصا خانۂ رواں بن گیا۔‘‘
سفیہن ’’اَے ہے اُستانی جی ڈوبنے کا کیسا بڑا کھٹکا ہے۔ لو پارسال کی بات ہے کہ نواب قطب الدین خاں کے ساتھ میری خلیاساس حج کو گئی تھیں۔ کچھ ایسی گھڑی کی گئیں کہ پھر لوٹ کر آنا نصیب نہ ہوا۔‘‘
اصغری خانم ’’ہاں اتفاق کی بات ہے جہاز کبھی کبھار ڈوب بھی جاتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ آئے دن ڈوبا کریں تو سفر دریا کا کوئی نام نہ لے ، اب تو دریا کا راستہ خشکی کی سڑکوں سے زیادہ آباد ہورہا ہے۔ ہزاروں لاکھوں جہاز رات دن آتے جاتے رہتے ہیں۔ انگریز اور ان کی بیوی بچے او رکل انگریزی اسباب سب جہاز کی راہ یہاں آتا ہے۔‘‘
سفیہن ’’انگریزوں کی عورتوں کا کیا ذکر کرو وہ تو کچھ اور ہی طرح کی عورتیں ہیں۔ ہماری ان کی کیا ریس۔ وہ تو باہر پھرتی ہیں۔ سنتی ہوں ننھے ننھے بچوں کو ولایت بھیج دیتی ہیں اور ان کا دل نہیں کُڑھتا، نہیں معلوم کس قسم کی مائیں ہیں، کیوں کر ان کے دل کو صبر آتا ہے، پھر باہر کی پھرنے والیاں اور لوہے کے دل، ان کو ایک سمندر کیا، ہوا پر اُڑنا بھی کچھ مشکل نہیں۔‘‘
اصغری خانم ’’باہر کے پھرنے کی جو تم نے کہی تو ان کے ملک میں پردے کا دستور نہیں،غدر کے دنوں میں ہم لوگ ایک گاؤں میں بھاگ کر گئے تھے، وہاں بھی پردے کا دستور نہ تھا۔ سب کی بہو بیٹیاں باہر نکلتی تھیں لیکن میں تو چار مہینے وہاں رہی۔ باہر کی پھرنے والیوں میں وہ شرم لحاظ دیکھا کہ خدا ہم سب پردے والیوں کو نصیب کرے اور بچوں کو ولایت بھیج دینے سے تم کیوں کر سمجھیں کہ اولاد کی محبت نہیں، البتہ ان لوگوں کی محبت عقل کے ساتھ ہے۔ یہاں کی ماؤں کی طرح باؤلی محبت نہیں کہ اولاد کو پڑھنے سے روکیں، ہنر حاصل کرنے سے باز رکھیں، نام کو تو محبت اور حقیقت میں اولاد کے حق میں کانٹے بوتی ہیں، اولاد کو ناہموار اٹھاتی جاتی ہیں اور محبت کا نام بدنام کرتی ہیں۔‘‘
یہاں پہنچ کر سب نے سکوت کیا تو فضیلت نے اپنی کہانی پھر شروع کی اور اس بادشاہ کے کوئی بیٹا نہ تھا۔ اکیلی ایک بیٹی تھی۔ بادشاہ نے یہ سمجھ کر کہ میرے بعد یہی لڑکی وارث سلطنت ہوگی، اس لڑکی کو خوب پڑھوایا لکھوایا اور ملک داری کا قانون قاعدہ سب اس کو اچھی طرح سکھایا اور اپنے جیتے جی اُسی کو ملک کا کام سونپ دیا۔
فضیلت یہاں تک پہنچی تھی کہ اصغری خانم نے کہا ’’بوا تم تو جھپ جھپ کہانی کہتی جاتی ہو اور میرے دل میں پوچھنے کو ہزاروں باتیں بھری ہیں پر کیا کروں، دن تو ہوچکنے پر آیا اور مجھ کو عالیہ کے گھر جانا ضرور ہے۔ شام کے وقت کسی کے گھر عیادت کو جانا بھی منع ہے، میں تو اب نہیں ٹھہرسکتی۔ تم لڑکیاں آپس میں کہو سنو۔‘‘
سفیہن سے کہا کہ ’’لو بوا اللہ بیلی میں تو جاتی ہوں۔ تمھارا دل چاہے تو تم بیٹھی رہو یا کل پھر آجانا یہاں تو روز یہی ہوا کرتا ہے۔‘‘
غرض اصغری خانم تو عالیہ کے گھر روانہ ہوئیں اور سفیہن تو ایسی ریجھیں کہ پہر رات تک لڑکیوں میں بیٹھی رہ گئیں۔ اصغری خانم کے پیچھے محمودہ اور حسن آرا نے کہانی کے بیچ میں خوب خوب مزے کی باتیں نکالیں۔ اس بیان سے اصغری کے مکتب کا انتظام اور اس کی تعلیم اور تلقین کا طریقہ بخوبی ظاہر ہے۔ اصغری بے شک حسن آرا کو بہت چاہتی تھی اور اس سے زیادہ اپنی نند محمودہ کو۔ حسن آرا کو اس خوبی سے پڑھایا کہ دو برس میں فارسی پڑھنے لگی اور اردو میں خط لکھ لیتی تھی۔ نہ وہ بدمزاجی حسن آرا کی باقی رہی، نہ وہ چڑچڑاپن، بڑی غریب لکھی پڑھی ہنرمند پیاری بیٹی بن گئی۔ جمال آرا کا برسوں کا اُجڑا ہوا گھر اصغری کی بدولت خدا نے پھر آباد کیا لیکن یہ تمام قصہ دوسری کتاب میں لکھا جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ حکیم جی کا تمام گھر چھوٹے بڑے اصغری کے پاؤں دھو دھوکر پیتے تھے۔ سلطانہ بیگم نے لاکھ لاکھ حکمتیں کیں کہ اصغری کچھ لے مگر اُس خدا کی بندی نے کچھ نہ لیا۔ جب حسن آرا کا بیاہ ہونے لگا تو بڑے حکیم صاحب نے مولوی محمد فاضل کا دباؤ ڈال کر اصغری کو ہزار روپیے کے جڑاؤ کڑے دیے، اور کہا سن!، تم میری پوتی اور نواسیوں کے برابر ہو، میں تم کو اُستانی گری کی روسے نہیں دیتا، بلکہ اپنا بچہ سمجھ کر دیتا ہوں۔ ادھر مولوی صاحب نے سمجھایا تو اصغری نے کڑے لے لیے۔
بیان میں ہم دوسری بات لکھنے لگے۔ ادھر تو اصغری اپنے مکتب میں مصروف تھی اُدھر محمد کامل بے روزگاری سے گھبراتا تھا۔
ایک دن اصغری سے کہنے لگا کہ ’’اب میرا جی بہت گھبراتا ہے، اگر تمھاری صلاح ہو تو میں تحصیل دار صاحب کے پاس پہاڑ پر جاؤں اور ان کے ذریعے سے نوکری تلاش کروں۔‘‘
اصغری نے تھوڑی دیر تامل کرکے کہا کہ’’ نوکری کرنی تو بہت ضرور ہے۔ اس واسطے کہ تم دیکھتے ہو کیسی تنگی سے گھر میں گزر ہوتی ہے۔ ابا جان اب بڈھے ہوئے۔ مناسب یہ ہے کہ وہ گھر میں بیٹھیں اور تم کماکر ان کی خدمت کرو۔ علاوہ اس کے محمودہ بڑی ہوتی جاتی ہے۔ میں اس کی فکر میں ہوں اور ارادہ یہ ہے کہ بہت اونچی جگہ اس کا بیاہ ہو اور میں تدبیر کررہی ہوں، انشاء اللہ اسی برس اس کی بات ٹھہری جاتی ہے، لیکن اس کے واسطے بڑا سامان درکار ہوگا اور اس وقت تک کسی قسم کی کوئی چیز موجود نہیں۔ بھائی جان اوّل تو الگ ہیں اور پھر ایسی چھوٹی نوکری میں ان کی اپنی گزر نہیں ہوسکتی، دوسرے کو کہاں سے دے سکتے ہیں۔ پس سوائے اس کے کہ تم نوکری کرو اور کوئی صورت نہیں، لیکن پہاڑ پر جانے کی میری صلاح نہیں۔ ابّا تو تمھارے واسطے کوشش کریں گے اور غالب ہے کہ جلد تر اچھی نوکری بھی مل جائے، لیکن کسی کا سہارا پکڑکر نوکری کرنا کچھ ٹھیک بات نہیں۔ بلا سے تھوڑی ہو پر اپنے قوت بازو سے ہو۔ گو ابّا کوئی غیر نہیں ہیں، رشتے میں بھی تم سے ان کا ہاتھ اونچا ہے، ان سے لینا کیا بلکہ مانگنا بھی عیب نہیں۔ پھر بھی خدا کسی کا احسان مند نہ کرے۔ سدا کو آنکھ جھک جاتی ہے۔ انھوں نے منھ پر نہ رکھا تو کنبے میں اللہ رکھے سو آدمی ہیں منھ در منھ نہ کہیں گے تو پیٹھ پیچھے ضرور کہیں گے کہ دیکھو سسرے کے سہارے سے نوکر ہوئے۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’پھر کیا کروں لاہور چلا جاؤں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’لاہور میں کیا ہے، رئیس کی سرکار خود تباہ ہے ابا جان کو بھی نہیں معلوم۔ پہلے کا لحاظ مان کر وہ کس طرح پچاس روپیے دیتا ہے۔ نئے آدمی کی گنجائش اس کی سرکار میں کہاں۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’اور بہت سرکاریں ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’جب سے انگریزی ہوئی، سب رئیس اسی طرح تباہ ہیں۔ پچھلی نام نمود کو سب نباہتے ہیں، اس سے دس پانچ صورتیں ان کے یہاں لگی لپٹی رہتی ہیں۔ سو بھی کیا خاک!، برسوں تنخواہ نہیں ملتی۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’پھر کیا علاج۔‘‘
اصغری نے کہا کہ’’ انگریزی نوکری تلاش کرو۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’انگریزی نوکری تو بے سعی سفارش کے نہیں ملتی۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مجھ سے بہتر بہتر مارے مارے پھرتے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ہاں سچ ہے لیکن جب آدمی ارادہ کرے تو خدا پر توکل کرکے ناامیدی کا تصور ذہن میں نہ آنے دے۔ مانا کہ ہزاروں نوکری کی جستجو میں لاحاصل پھرتے ہیں لیکن جو نوکر ہیں وہ بھی تم ہی جیسے آدمی ہیں اور سو بات کی ایک بات تو یہ ہے کہ نوکری تقدیر سے ملتی ہے۔ بڑے لائق دیکھتے رہ جاتے ہیں اور اگر خدا کو دینا منظور ہوتا ہے تو نہ وسیلہ ہے نہ لیاقت، چھپّر پھاڑکر دیتا ہے۔ گھر سے بلاکر نوکر رکھ لیتے ہیں۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’تو غرض یہ ہے گھر بیٹھا رہوں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’یہ ہرگز میرا مطلب نہیں ہے جہاں تک اپنے سے ہوسکے، ضرور کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’یہی تو مشکل ہے کہ کیا کوشش کروں؟‘‘
اصغری نے کہا ’’جو لوگ نوکری پیشہ ہیں ان سے ملاقات پیدا کرو، ان سے محبت بڑھاؤ۔ ان کے ذریعے سے تم کو نوکری کی خبر لگتی رہے گی اور انھیں کے ذریعے سے تم کسی حاکم تک پہنچ جاؤگے۔‘‘
محمد کامل نے یہی کیا کہ نوکری والوں سے ملاقات کرنی شروع کی یہاں تک کہ سررشتہ دار تحصیل دار ایسے لوگوں میں بھی آنے جانے لگا۔ روز کے آنے جانے سے سب کو معلوم ہوا کہ ان کو بھی نوکری کی جستجو ہے یہاں تک کہ بندہ علی بیگ نے جو کچہری میں اظہار نویس تھے، محمد کامل سے کہا کہ ’’میاں نوکری کی تلاش ہے تو میرے ساتھ کچہری چلاکرو چندے امیدواری کرو ، سررشتے کے کام سے واقفیت پیدا کرو، حاکموں کو صورت دکھاؤ۔ اسی طرح کبھی نہ کبھی ڈھب لگ جائے گا۔‘‘
محمد کامل کچہری جانے لگا اور بندہ علی بیگ کے ساتھ کام کیا کرتا تھا یہاں تک کہ حاکم سے دستخط کرالاتا۔ حاکم لوگ اس کو جاننے لگے۔ اسی اثنا میں چھوٹے چھوٹے عہدہ داروں کی دوچار عوضیاں بھی محمد کامل کو مل گئیں، کسی عملے کو رخصت کی ضرورت ہوئی وہ آدھی تہائی تنخواہ پر عوضی اس کو دیے گیا یہاں تک کہ اتفاق سے ایک دس روپیے کا روزنامچہ نویس تین مہینے کی رخصت پر گیا تھا۔ تین مہینے بعد اُس نے استعفا بھیج دیا اور مولوی محمد کامل صاحب اُس کی جگہ مستقل ہوگئے۔
کبھی کبھی اصغری سے نوکری کا تذکرہ آتا تو محمد کامل حقارت کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ ’’کیا واہیات نوکری ہے۔ دن بھر پیسنا اور دس روپیے۔ نہ اوپر سے کچھ پیدا ہے نہ آئندہ کو ترقی کی امید۔ میں تو اس کو چھوڑ دوں گا۔‘‘
اصغری ہمیشہ ایسے خیالات پر ملامت کرتی کہ ’’سخت ناشکری تم کرتے ہو۔ وہ دن بھول گئے کہ امید واری بھی نصیب نہ تھی یا اب برسرکار ہو تو قدر نہیں کرتے۔ گھر کے گھر میں دس روپیے کیا کم ہے۔ اپنے بڑے بھائی کو دیکھو کہ کئی برس تک سوداگر کے یہاں دس روپیے کی نوکری کرتے رہے اور جب تم نوکری سے ایسے دل برداشتہ ہو تو تم سے کام بھی کیا خاک ہوتا ہوگا، آخر کو نوکری خود چھوٹ جائے گی۔ اور اسی طرح تھوڑے سے بہت بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ابّا پہلے آٹھ روپیے مہینے کے نقل نویس تھے اب خدا کے فضل سے تحصیل دار ہیں اور خدا نے چاہا تو اور بھی بڑھیں گے۔ اوپر کی آمدنی پر کبھی بھول کر بھی نظر مت کرنا، حرام کے مال میں ہرگز برکت نہیں ہو تی۔ تقدیر سے بڑھ کر مل نہیں سکتا۔ پھر آدمی نیت کو ڈانواں ڈول کیوں کرے۔ اگر اس سے زیادہ ملنے والا ہے تو خدا حلال سے بھی دے سکتا ہے۔‘‘
غرض اصغری ہمیشہ محمد کامل کو سمجھاتی رہتی تھی یہاں تک کہ جس حاکم کے پاس محمد کامل نوکر تھا اُس کی بدلی سیالکوٹ کو ہوئی، یہ حاکم محمد کامل پر بہت مہربانی کرتا تھا۔ دن کو کچہری میں یہ حال معلوم ہوا، شام کو محمد کامل گھر میں آیا تو بہت افسردہ خاطر تھا۔
اصغری نے پوچھا ’’خیریت ہے، آج کیوں اُداس ہو۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’کیا بتاؤں جیمس صاحب کی بدلی سیالکوٹ کو ہوگئی، وہی تو اپنے ایک مہربان حال تھے، اب کچہری میں رہنے کا مزہ نہیں۔‘‘
اصغری نے بہت دیر تک سکوت کیا، پھر کہا کہ ’’بے شک جیمس صاحب کا بدل جانا افسوس کی بات ہے، لیکن نہ اس قدر کہ جتنا تم کو ہے۔ دوسرا جو اُن کی جگہ آئے گا خدا اُس کے دل میں بھی رحم ڈال دے گا۔ آدمی کو آدمی پر بھروسہ نہیں رکھنا چاہیے۔‘‘
اصغری نے پوچھا ’’جیمس صاحب کب جائیں گے؟‘‘
محمد کامل نے کہا ’’کل شام کو ڈاک میں سوار ہوجائیں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تم ان کے بنگلے پر نہیں گئے؟‘‘
محمد کامل نے کہا ’’اب کیا جانا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’واہ یہی تو ملنے کا وقت ہے، کچھ نہ ہوگا تو کوئی چٹھی پروانہ تم کو دے جائیں گے ۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’اچھا صبح کو جاؤں گا۔‘‘
بہت سویرے کپڑے پہن پہنا محمد کامل جیمس صاحب کے بنگلے پر گیا۔ جیمس صاحب نے کہا ’’محمد کامل ہم اب سیالکوٹ جاتا ہے اور ہم تم سے بہت راضی تھا۔ اب تم چاہے تو ہمارا ساتھ سیالکوٹ چلے، ہم تم کو وہاں نوکری دے گا، نہیں اپنا پاس سے پندرہ روپیے دے گا۔‘‘
محمد کامل نے سوچ کر کہا کہ ’’اس کا جواب میں حضور کو پھر حاضر ہوکر دوں گا، اپنی والدہ سے پوچھ لوں۔‘‘
غرض محمد کامل گھر لوٹ کر آیا تو ذکر کیا کہ جیمس صاحب مجھ کو ساتھ لیے جاتے ہیں۔ محمد کامل کی ماں نے تو سنتے ہی غل مچایا۔ اصغری بھی سناٹے میں ہوگئی۔
آخر محمد کامل نے پوچھا کہ ’’صاحبو بتاؤ کہ میں جاکر کیا جواب دوں؟‘‘
محمد کامل کی ماں بولیں کہ ’’جواب کیا دینا ہے اب کیا وہ تیرے لیے بیٹھا رہے گا یا تیرے لیے سپاہی بھیج رہا ہے۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’نہیں بی میں اس سے وعدہ کر آیا ہوں۔ اپنے جی میں کہے گا ہندستانی کیسے خود مطلبی ہوتے ہیں، چلتے وقت ہم سے جھوٹ بولا۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’اچھا جاکر کہہ آؤ کہ میرا جانا صاحب نہیں ہوسکتا۔‘‘
محمد کامل نے اصغری سے پوچھا ’’کیوں صاحب تمھاری کیا صلاح ہے؟‘‘
اصغری نے کہا ’’صلاح اور ہوتی ہے اور دل کی خواہش اور ہوتی ہے۔ دل کی خواہش تو یہ تھی کہ تم یہاں رہو، گھر کا انتظام صرف تمھارے دم سے ہے۔ آخر گھر میں کوئی مرد بھی چاہیے اور صلاح پوچھو تو جانا مناسب ہے۔ جب ایک حاکم خود بے کہے تم کو ساتھ لیے جاتا ہے تو ضرور اپنی جگہ پہنچ کر بہت سلوک کرے گا۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’پانچ روپیے کے واسطے کیا دو تین سو کوس کا سفر۔ میرا تو دل جانے کو نہیں چاہتا وہ مثل ہے (گھر کی آدھی نہ باہر کی ساری)۔
اصغری نے کہا ’’یوں تم کو اختیار ہے لیکن ایسا موقع تقدیر سے ملا ہے پھر ہاتھ نہ آئے گا اور سفر کون نہیں کرتا۔ ہمارے ابّا، تمھارے ابّا، دیکھو ان لوگوں نے عمریں سفر میں تیر کردیں اور بالفعل پانچ سن لیے گئے، پیچھے دیکھو گے کتنے پانچ ہیں اور اگر نہیں جاتے تو پھر دس روپیے سے بے دلی مت ظاہر کرنا۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’تو یہاں کی نوکری کو استعفا دے جاؤں اور فرض کیا کہ وہاں کچھ صورت نہ ہوئی تو اُدھر سے بھی گیا اور اِدھر سے بھی گیا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اوّل تو یہ فرض کرنا کہ وہاں کچھ صورت نہ نکلے، خلاف عقل ہے ۔ جیمس صاحب اتنا بڑا حاکم اور تم کو کام دینا چاہے اور صورت نہ نکلے، میری سمجھ میں تو نہیں آتا اور پھر استعفا کیوں، مہینے دو مہینے کی رخصت لو۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’ہاں رخصت منظو رہوئی پڑی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’منظور ہونے کو کیا ہوا اُسی جیمس صاحب سے کہو وہ چٹھی لکھ دے گا۔‘‘
غرض اصغری نے زبردستی جوت کر محمد کامل کو جانے پر راضی کیا۔ اپنے پاس سے پچاس روپیے نقد دیا اور چھ جوڑے نئے کپڑے بنوادیے۔ دیانت کے بیٹے رفیق کو ساتھ کردیا۔ مولوی محمد کامل سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ اُدھر اصغری نے مولوی محمد فاضل صاحب کو یہ تمام حال خط میں لکھا اور یہ بھی لکھ دیا کہ جیمس صاحب سیالکوٹ کو جاتے ہوئے ضرور لاہور ہوکر جائیں گے، اگر ایسا ہوسکے کہ آپ وہاں اُن سے ملاقات کرکے ان کی سفارش کچھ رئیس سے کرادیں تو بہت مفید ہوگا۔ مولوی صاحب نے جیمس صاحب کی جستجو کی اور رئیس کے کچھ دیہات ضلع سیالکوٹ میں بھی تھے۔ مولوی صاحب نے رئیس کی طرف سے صاحب کی دعوت کی اور رئیس کے باغ میں ٹھہرایا۔ کھانے کے بعد صاحب اور رئیس دونوں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے کہ مولوی صاحب نے جیمس صاحب سے کہا دہلی کی رعایا کو آپ کی مفارقت کا بہت قلق ہے۔ اگرچہ آپ صرف دو برس دہلی میں حاکم رہے لیکن آپ کے انصاف، آپ کی شُرفاپروری سے وہاں کے لوگ بہت خوش تھے۔ بندہ زادہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھا۔ اُس کے لکھنے سے سب حال معلوم ہوتا رہتا تھا۔
صاحب نے پوچھا ’’کیا کوئی آپ کا لڑکا بھی میری کچہری میں تھا۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’محمد کامل۔‘‘
صاحب نے کہا ’’وہ تو ہمارے ساتھ آتا ہے، وہ آپ کا بیٹا ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’آپ کا غلام ہے۔‘‘
رئیس نے اس تقریب میں صاحب سے کہا کہ ’’مولوی صاحب ہماری ریاست کے قدیم الخدمت ہیں اور ہم کو ہر طرح سے ان کی پرداخت مرکوز خاطر رہتی ہے لیکن آپ تو جانتے ہیں اب گنجائش نہیں۔ پس اگر آپ ان کے بیٹے کی پرورش فرمائیں گے تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔‘‘
جیمس صاحب پہلے سے محمد کامل کے حال پر ملتفت تھا ایسے وقت مناسب پر تقریب ہوگئی کہ جیمس صاحب کو بہت خیال ہوگیا۔ اوّل تو جوان عمر، دوسرے شریف، تیسرے رئیس کا سفارشی، چوتھے خود صاحب کا رفیق، پانچویں لائق۔ اتنے حقوق محمد کامل کو حاصل ہوگئے۔ صاحب نے پہلے دن کچہری کرتے ہی محمد کامل کو پچاس روپیے کا نائب سررشتہ دار کیا اور مولوی محمد فاضل صاحب کو خط لکھا کہ ’’بالفعل ہم نے آپ کے بیٹے کوپچاس کی نوکری دی ہے اور ہم جلد اس کی ترقی کریں۔ آپ رئیس کی خدمت میں اطلاع کردیجیے۔‘‘
مولوی صاحب نے بطرزِ مناسب صاحب کا شکریہ ادا کیا اور وہ محمد کامل جو کبھی امیدواری کا محتاج تھا اور چھوٹے چھوٹے عہدہ داروں کی عوضیاں کرتا تھا اور صرف دس روپیے کا روزنامچہ نویس تھا اور پندرہ کے وعدے پر اصغری کے جوتنے سے جیمس صاحب کے ساتھ سیالکوٹ آیا تھا اب ایک دم سے پچاس کا عہدہ دار ہوگیا۔ محمد کامل کی ماں اگرچہ آتے وقت ناخوش ہوئی تھیں، پچاس کا نام سن کر ان کی بانچھیں بھی کھِل گئیں۔ اب تو گھر میں چوگنی برکت ہوگئی۔ اصغری کا انتظام او ربیس کی جگہ اب ساٹھ روپیے مہینہ گھر میں آنے لگا۔ کیا پوچھنا ہے، محمد کامل آخر ایک ہی برس میں سررشتہ دار ہوگیا لیکن سررشتہ دارہونے تک سنبھلا ہوا تھا، خرچ بھی برابر آتا تھا، خط بھی متواتر چلے آتے تھے لیکن آخر جوان آدمی تھا، خودمختار ہوکر رہا، صحبت بری مل گئی بہک چلا، خطوں میں کمی ہونی شروع ہوئی۔ اصغری فکر میں رہی کہ اب کیا تدبیر کروں۔ آخر کو سوائے اس کے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ خود جانا چاہیے۔ ہر چند اصغری نے سیالکوٹ جانے کا عزم مصمم کرلیا تھا لیکن تماشا خانم کو صلاح کے واسطے بلا بھیجا اور سب حال اس سے کہا۔
تماشا خانم نے کہا ’’بوا کوئی دیوانی ہوئی ہے، شہر چھوڑکر اب کہاں سیالکوٹ جاتی پھرے گی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’مجھ کو شہر سے کیا مطلب، میں تو جس کے ساتھ وابستہ ہوں وہیں شہر ہے۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’اَے ہے کنبے والے کیا کہیں گے۔ ہمارے کنبے میں سے آج تک کوئی باہر نہیں گیا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اس میں عیب کی کیا بات ہے، آخر یہی کہیں گے کہ میاں کے پاس چلی گئی تو بُرا کیا کیا اور کنبے کی رسم کو جو پوچھو، پچھلے دنوں نہ ڈاک تھی نہ ریل نہ رستے آباد تھے۔ عورتوں کا سفر کرنا بہت مشکل تھا۔ اس سبب سے لوگ نہیں جاتے تھے۔ اب کیا مشکل ہے۔ اگر آج ڈاک میں بیٹھوں اور خدا اصل خیر رکھے تو پرسوں سیالکوٹ داخل، گویا میرٹھ گئے۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’کیا طلبی کا خط آیا ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’خط تو نہیں آیا۔‘‘
تماشا خانم بولی ’’بن بُلائے جانا تو مناسب نہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تم مناسب نامناسب دیکھتی ہو اور میں کہتی ہوں کہ اگر میں نہ جاؤں گی تو عمر بھر کو گھر غارت ہوجائے گا۔‘‘
تماشا بولی ’’اے آپا ایسی تم کیوں گری پڑتی ہو تم کو ان کی کیا پروا ہے۔ خدا تمھارے مکتب کو سلامت رکھے۔ تم دس کو روٹی کھلایا کرو۔‘‘
اصغری نے کہا ’’واہ آپ کی بھی کیا سمجھ ہے۔ یہ مکتب تو میں نے اپنا جی بہلنے کے واسطے بٹھالیا ہے۔ کچھ مجھ کو اس سے کمائی کرنی منظور نہیں۔ خدا جانے تم کو یقین آئے یا نہ آئے آج تک میں نے مکتب کی رقم سے ایک پیسہ اپنے اوپر خرچ نہیں کیا۔ صرف پچاس روپیے نقد اور بیس کپڑے کے واسطے تمھارے بھائی جان کو سیالکوٹ جاتے ہوئے ضرور دیے تھے، سو بھی قرض داخل۔ اور باقی کوڑی کوڑی کا حساب لکھا ہوا موجود ہے، دیکھ لو۔ عورتوں کی کمائی بھی کوئی کمائی ہے۔ اگر عورتوں کی کمائی سے گھر بسا کریں تو مرد کیوں ہوں۔ میرا اپنا گھر بنا رہے تو میں ایسے ایسے دس مکتبوں کے اجڑنے کی بھی پروا نہیں کرتی۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’ایسی بھری برسات میں کہاں جاؤ گی، جاڑا آنے دو اُس وقت کھلے موسم میں دیکھ لینا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اَے ہے دیر کرنا توغضب ہے، اب جو کام سمجھانے سے نکلے گا پھر بڑے جھگڑوں سے بھی طے نہیں ہوگا۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’اَے ہے آپا گھر چھوڑتے ہوئے تمھارا جی نہیں کُڑھتا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’کیوں نہیں کُڑھتا، کیا میں آدمی نہیں ہوں، لیکن یہ تھوڑی دیر کا کڑھنا بہتر یا عمر بھر کا جلاپا۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’تم نے اپنی ساس سے بھی اجازت لی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بھلا وہ اجازت دیں گی، لیکن بیمار ساس بے چاری سیدھی آدمی ہیں، میں سمجھا دوں گی تو یقین ہے نہ روکیں۔‘‘
غرض یہ کہ اصغری نے اپنا ارادہ اور اُس کے وجوہات اپنی ساس سے ایک دن بیان کیے۔ بات معقول تھی اُس میں کون گفتگو کرسکتا تھا۔ اصغری کا جانا ٹھہر گیا۔ ایک روز جاکر اصغری سب کچّا حال اپنی ماں سے بھی کہہ آئی اور رخصت ہوآئی۔ مکتب کے واسطے لڑکیوں کو سمجھادیا کہ محمودہ تم سب کے پڑھانے کو بہت ہیں۔ میں صرف دو مہینے کے واسطے جاتی ہوں سب لڑکیاں بدستور آیا کریں۔ رخصت ہونے کی تقریب سے اپنی آپا کے پاس گئی۔
محمد عاقل نے پوچھا ’’کیوں بھائی تمیز دار بہو تم جاتی ہو، مکتب کو کیا کرچلیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’مکتب اور گھر سب آپ کے حوالے کیے جاتی ہوں۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’واہ! کیا خوب، نہ مجھ کو گھر سے تعلق نہ مکتب سے واسطہ۔ میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تعلق رکھنا اور نہ رکھنا سب آپ کے اختیار میں ہے۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’تمیزدار بہو یہ بات تمھارے منھ سے زیبا نہیں، بھلا میرا کیا اختیار ہے۔ گھر تمھاری آپا نے چھڑوایا۔ رہا مکتب سو لڑکیوں کا ہے، لڑکوں کا مکتب ہوتا تو میں خوشی سے سب کو پڑھا دیا کرتا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اب آپا اور آپ دونوں گھر میں چل کر رہیے امّاں جان اکیلی ہیں۔‘‘
محمد عاقل نے کہا ’’اپنی بہن کو سمجھا ؤ۔‘‘
اصغری نے کہا ’’سمجھانے کی کیا ضرورت ہے آپا تو خود جانتی اور سمجھتی ہیں۔ یہاں اکیلے آپ کو تکلیف ہوتی ہے، نہ بچوں کا کوئی سنبھالنے والا ہے نہ گھر کا کوئی دیکھنے والا۔ دُکھ سُکھ آدمی کے ساتھ ہیں۔ بے ضرورت جدا رہنا مناسب نہیں اور پچھلی باتیں گئی گزریں ہوئیں، آپس کی نااتفاقی کیا اور باہم کی رنجش کیسی۔ اکبری جدا گھر کرنے کا مزہ خوب چکھ چکی تھی اور بہانہ ڈھونڈھتی تھی کہ پھر ساتھ رہنے کو کوئی کہے۔ فوراً راضی ہوگئی اور اصغری دونوں کو اپنے ساتھ لِوا لائی ۔‘‘
محمد کامل کی ماں کو اصغری کے جانے کا سخت قلق تھا اب ان کی بھی تسلی ہوگئی کہ خیر ایک بہو گئی تو دوسری بہو موجود ہے۔ محمودہ کو البتہ بڑی فکر تھی کہ دیکھیے کیا ہو، لیکن اصغری نے اُدھر تو محمودہ کی تسلی کی اور سمجھادیا کہ اب وہ باتیں نہیں ہیں۔ اِدھر اپنی آپا کو سمجھادیا کہ محمودہ اب بڑی ہوگئی ہے کوئی سخت بات اس کو نہ کہیے گا۔ مکتب کے واسطے محمد عاقل سے اتنا کہہ دیا کہ پڑھانا لکھانا وغیرہ سب محمودہ کرلیا کریں گی آپ صرف بالائی انتظام کی خبر لے لیا کیجیے اور مکتب کی رقم کا حساب کتاب محمودہ کو لکھا دیا کیجیے۔ الغرض اصغری رخصت ہوئیں ڈاک پر سوار ہو سیدھی سیالکوٹ پہنچیں۔
یہاں محمد کامل دفعۃً اصغری کے پہنچنے سے سخت متعجب ہوا اور پوچھا کہ ’’خیریت ہے کہیں اماں سے تو نہیں لڑ آئیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’توبہ کرو کیا اماں جان میرے برابر کی ہیں کہ میں ان سے لڑنے جاؤں گی۔ اس چار برس میں کبھی تم نے مجھ کو ان سے یا کسی سے لڑتے دیکھا؟‘‘
یہاں محمد کامل نے خوب ہاتھ پاؤں نکالے تھے اور بُری صحبت میں مبتلا تھا۔ خوشامدی لوگ جمع تھے اور وہ اس کو اُلّو بنائے ہوئے تھے۔ بازار رشوت گرم تھا، ناچ رنگ تک بھی احتراز باقی نہ رہا تھا، امیری ٹھاٹھ تھے، تنخواہ سے چارچند کا معمولی خرچ۔ اگر یہی حال چندے اور رہتا، ضرور جیمس صاحب کو بدگمانی پیدا ہوتی اور آخر کو نوکری جاتی رہتی۔
اچھے وقت اصغری جا پہنچی۔ فوراً اس نے ہر طرف سے رخنہ بندیاں کیں اور سمجھایا کہ ’’تم کو خدا نے سوکا نوکر کردیا اُس کا یہی شکریہ ہے کہ تم کو اُس پر قناعت نہیں۔‘‘
محمد کامل نے کہا کہ ’’جو خوشی سے دے اُس میں کیا قباحت ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’سبحان اللہ! روپیہ بھی ایسی چیز ہے کہ کوئی اس کو بے وجہ خوشی سے دیتا ہے۔ ان دنوں لوگ روپیے کے اس قدر حاجت مند ہیں کہ عزت تک کی پروا نہیں کرتے، مگر روپیہ نہیں چھوڑتے۔ آدمی اپنے اوپر قیاس کرے کہ ہم کسی کو کیا دیا کرتے ہیں۔ ایک زکوٰۃ کی بھی کچھ اصل ہے۔ سیکڑے پیچھے برسویں چالیسواں حصہ ڈھائی روپیہ، وہی دیتے ہوئے جان نکلتی ہے۔ لوگوں کے پاس ایسا کہاں کا خزانۂ قارون بھرا پڑا ہے کہ وہ تم کو بے مطلب دے جاتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ کام بگڑتا ہے، نہ دیں گے تو مقدمہ خراب ہوگا۔ عاجز آکر قرض و دام لے کر گھر والیوں کے زیور بیچ کر رشوت دیتے ہیں۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’میں خود نہیں لیتا پھر اس میں کیا ڈر ہے ۔‘‘
اصغری بولی ’’اوّل تو رشوت چھپ نہیں سکتی۔ علاوہ اس کے فرض کیا کہ آدمی پر ظاہر نہ ہوئی، خدا جو پردوں میں دیکھتا ہے وہ تو جانتا ہے۔ بندوں کا گناہ جمع کرنا اور عاقبت کی جواب دہی سمیٹنا بڑی بے باکی کی بات ہے۔‘‘
غرض پس و پیش سمجھاکر اصغری نے محمد کامل سے توبہ کرائی۔ چند روز رہ کر اصغری نے پوچھا ’’یہ چار آدمی جن کو باہر کھانا جاتا ہے، کون لوگ ہیں۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’نوکری کے امیدوار ہیں بے چارے غریب الوطن ہیں۔میں نے کہا، اچھا جب تک تمھاری نوکری لگے تب تک میرے پاس رہو۔‘‘
اصغری نے پوچھا ’’پھر اب تک ان کو نوکری نہیں ملی۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’نوکری تو ملتی ہے لیکن ان کی حیثیت سے کم ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’جب ان کی حالت یہاں تک پہنچی ہے کہ دوسرے کے سر پڑے ہوئے روٹیاں کھاتے ہیں تو حیثیت سے کیا بحث باقی رہی۔ تھوڑی بہت جو ملے کرلیں۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’خدا جانے تم کیا کہتی ہو، عزت سے گھٹ کر کیوں کر کرلیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’کم درجے کی نوکری میں تو بے عزتی ہوتی ہے اور دوسرے کے سر ڈھئی دینے میں بے عزتی نہیں۔ جب ان لوگوں میں اتنی غیرت نہیں تو اور عادتیں بھی ان میں ضرور بری ہوں گی، ان کا ساتھ اچھا نہیں، ضرور تمھارے نام سے کچھ یہ لیتے بھی ہوں گے۔ ان سے کہو کہ یا نوکری کریں یا رخصت ہوں۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’میری مروّت تو مقتضی نہیں ہوتی کہ میں جواب دوں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’جب ان میں مروّت نہیں تو تم کو مروّت کا لحاظ کیا ضرور ہے۔ اگر ہم سے بچے تو کنبے میں بہت سے غریب ہیں ان کا حق مقدم ہے، غیروں کو اور غیروں میں سے بھی ایسوں کو دینے سے کیا فائدہ اور یہ ضرور نہیں کہ تم سختی سے جواب دو، کسی طور پر ان کو سمجھادو۔‘‘
خلاصہ یہ کہ یہی لوگ محمد کامل کے شیطان تھے۔ اصغری نے حکمتِ عملی سے ان کو نکلوادیا۔ نوکروں میں جو جو بدوضع تھے، چھانٹ چھانٹ کر نکالے گئے اور ڈیڑھ برس اصغری نے رہ کر اندر باہر سب انتظام درست کردیا۔ اب میاں مسلم کی شادی ہونے والی تھی۔ اصغری کی طلب میں خط گیا اور تماشا خان نے بہت اصرار کے ساتھ لکھا از بسکہ بہت دن ہوچکے تھے۔ اصغری نے دہلی آنے کا ارادہ کیا لیکن اپنے دل میں سوچی کہ محمد کامل کو اکیلا چھوڑ جانا مصلحت نہیں۔
محمد کامل سے کہا کہ ’’مسافرت میں تنہا رہنا مناسب نہیں، کوئی اپنا رشتہ دار ساتھ رہنا ضرور ہے۔ سو میرے نزدیک تم اپنے خالہ زاد بھائی محمد صالح کو بلالو، وہ یہاں تمھارے پاس کچہری کا کام بھی سیکھے گا اور پڑھے گا بھی اور شاید کہیں اُس کی نوکری بھی لگ جائے ۔ امیر بیگم کو خط گیا اور اصغری کے رہتے محمد صالح پہنچ گیا۔ یہ لڑکا نہایت درجے کا نیک بخت تھا اور محمد کامل سے صرف دو برس چھوٹا تھا۔ اب اصغری کو اطمینان ہوا تو سیالکوٹ سے رخصت ہو لاہور پہنچی، یہاں مولوی محمد فاضل صاحب کے پاس ایک ہفتہ مقیم رہی۔ مولوی محمد فاضل صاحب کی عمر ساٹھ برس کے قریب تھی اور مختاری کی نوکری میں محنت بہت تھی۔ روز بلاناغہ سب حاکموں کی کچہری میں جاکر رئیس کے مقدمات کی خبر لینا اور صبح و شام عملوں میں جانا۔ بے چارے مولوی صاحب رات کو آتے تو بہت تھک جاتے تھے۔
اصغری نے کہا ’’ابا جان اب آپ کی عمر اس مشقت کے قابل نہیں۔ مناسب ہے کہ آپ گھر بیٹھنے کی فکر کیجیے۔ ایک کتاب میں میں نے پڑھا ہے کہ انسان عمر کے تین حصے کرے، پہلا حصہ بچپن کا اور دوسرا دنیا کے کاموں کے بندوبست کا، تیسرا آرام اور یادِ الٰہی کا۔ بس اب آپ گھر چل کر آرام سے بیٹھیے۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’اوّل تو رئیس نہیں چھوڑتا، دوسرے آخر کوئی میری جگہ کام کرنے والا بھی تو چاہیے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’رئیس سے جب آپ اپنی ضعیفی کا عذر کیجیے گا تو غالب ہے کہ مان جائے اور کام کرنے کو تو بھائی جان کیا کم ہیں۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’وہ کچہری دربار کا دستور قاعدہ کیا جانے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’چند روز اُن کو بلاکر ساتھ رکھیے۔ دیکھنے بھالنے سے سب معلوم ہوجائے گا۔ وہ تو مولوی آدمی ہیں، ہندو لوگ تو دوچار فارسی کی کتابیں پڑھ کر کچہری کی نوکری کرنے لگتے ہیں۔‘‘
مولوی صاحب کو اصغری کی بات پسند آئی۔ اصغری تو دہلی پہنچی اور مولوی صاحب نے محمد عاقل کو بلابھیجا۔ چند روز میں محمد عاقل نے باپ کا سب کام اٹھالیا اور رئیس کو اپنی خدمت سے بہت خوش کیا۔ تب مولوی صاحب نے رئیس سے کہا کہ ’’یہ لڑکا اب حضور کی خدمت میں حاضر ہے، مجھ کو آزاد فرمائیے۔ شعر:
رسمست کہ مالکانِ تحریر
آزاد کنند بندۂ پیر
رئیس دل کا بڑا سخی تھا، بیس روپیہ تاحیات مولوی صاحب کی پنشن کردی اور مولوی صاحب کی جگہ محمد عاقل کو پوری تنخواہ پر رکھ لیا۔ اصغری دہلی میں آئی تو اس نے محمودہ کی فکر کی۔ حسن آرا جھجھر سے اپنے گھر آئی ہوئی تھی اور انھیں دنوں جمال آرا بھی سسرال سے چھوٹی بہن سے ملنے آئی تھی۔ حکیم جی کا تو تمام گھر اصغری کا مرید تھا، دونوں بہنیں اصغری کے آنے کی خبر سن کر دوڑی آئیں۔ ہر طرح کی باتیں ہوتی رہیں۔
جمال آرا نے کہا ’’اُستانی جی کیسا جی، تم میں پڑا تھا کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ بھلا حسن آرا تو تمھاری شاگرد ہیں لیکن میں شاگردوں سے بھی زیادہ ہوں۔ میرا اجڑا ہوا گھر تم ہی نے بسوایا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’میں کس لائق ہوں۔‘‘
جمال آرا نے کہا ’’واہ! اُستانی جی میں تو جیتے جی تمھارا سلوک نہیں بھولوں گی، اور کیا کروں تم ہم لوگوں کی خدمت کسی طرح قبول نہیں کرتیں، نہیں تو اپنی کھال کی جوتیاں تم کو بنوادیتی، تب بھی شاید تمھارا حق ادا نہ ہوتا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اوّل تو کچھ خدمت مجھ سے نہ بن پڑی اور باقتضائے سرداری کوئی کام آپ کو پسند ہوا تو بیگم صاحب آپ کو خذا نے سب قابل بنایا ہے۔ ہم غریبوں کا خوش کردینا کون بڑی بات ہے۔‘‘
حسن آرا بولی ’’اَے ہے اُستانی جی، تم اپنے منھ سے کیسی بات کہتی ہو۔‘‘
اصغری نے کہا ’’سنو بوا حسن آرا، اُستانی گری اور شاگردی تو اب باقی نہیں، وہ مکتب تک تھی اب اللہ رکھے تم بیاہی گئیں۔ اُدھر تم پوتڑوں کی امیر اور امیروں کی سرتاج۔ ادھر یہ سردار اور سرداروں کی بیٹی بہو۔ اب اس شہر میں تم سے بڑھ کر تو دوسرا امیر نہیں۔ تم تک پہنچ کر جو آدمی محروم رہے تو اُس کی قسمت کا قصور ہے۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’اچھی اُستانی جی، کیا بات ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بوا بڑا مشکل کام ہے تم وعدہ کرو کہ مجھ کو ناامید نہ کروگی، تو میں کہوں۔‘‘
حسن آرا اور جمال آرا نے جانا کسی کی نوکری چاکری کے واسطے کہیں گی۔
دونوں نے کہا ’’اُستانی جی، خدا کی قسم تمھارے واسطے ہم دل و جان سے حاضر ہیں۔ لو ہم کو تو بڑی تمنا ہے کہ تم ہم سے کچھ فرمائش کرو۔‘‘
اصغری نے کہا ’’وہ کام میرے نزدیک تو بڑا ہے لیکن اگر آپ دونوں صاحبِ دل سے آمادہ ہوں توکچھ بڑا نہیں۔‘‘
دونوں بہنوں نے کہا ’’اُستانی جی خدا جانتا ہے، ہمارے کرنے کا کام ہو تو ہم کو ہرگز دریغ نہیں۔‘‘
جب خوب پکا وعدہ کرالیا تو اصغری نے کہا ’’میری یہ آرزو ہے کہ محمودہ کو اپنی فرزندی میں قبول کرو۔‘‘
یہ سن کر دونوں بہنوں نے سکوت کیا۔ پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں۔ جب دونوں اٹھنے کو ہوئیں تو اصغری نے ایک ہاتھ سے حسن آرا کا دوپٹہ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے جمال آرا کا اور کہا کہ ’’میں اپنا حق اب لڑجھگڑکر لوں گی اور جب تک میرا سوال پورا نہ ہوگا خدا کی قسم جانے نہ دو ں گی۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’اُستانی جی، بھلا اس میں ہمارا کیا اختیار ہے۔ ابھی تو ارجمند خاں لڑکا ہے۔ دوسرے ایسی باتوں میں ماں باپ کے ہوتے بہنوں کو کیا دخل۔‘‘
اصغری نے کہا’’بڑی اور بیاہی ہوئی بہنیں بھی ماں کے برابر ہوتی ہیں اور رشتے ناتے بے سبب کی صلاح کے نہیں ہوتے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ تم سے مشورہ نہ ہو۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’ابھی ہمارے ہاں تو کچھ ذکر مذکور کہیں کا نہیں ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تم کو معلوم نہ ہوگا، علوی خاں کے یہاں رقعہ گیا تھا، واپس آیا۔‘‘
جمال آرا نے کہا ’’اُستانی جی تم نے سنا ہے تو گیا ہوگا مگر ہم سے اس معاملے میں کچھ بات نہیں ہوئی۔ علوی خاں میں کیا برائی تھی خدا جانے رقعہ پھر واکیوں لیا۔ اسی طرح بات میں بات اور ہونے لگی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’صاحبو! میرا مطلب رہا جاتا ہے۔ ہاں ناکا جواب مجھ کو دیجیے۔‘‘
جمال آرا نے کہا ’’اُستانی جی بھلا ہم کیوں کر ہامی بھرسکتے ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’دولت، سیرت، صورت تین چیزیں ہوتی ہیں۔ دولت تو ہم غریبوں کے پاس نام کو نہیں رہی۔ سیرت سو بوا حسن آرا تم محمودہ سے بخوبی واقف ہو۔ دو برس تمھارا اس کا ساتھ رہا، تم سچ کہنا شرم لحاظ، ادب قاعدہ، نیک بختی، ہر کام کا سلیقہ اور ہر طرح کا ہنر لکھنا پڑھنا،سینا پرونا، پکانا یہ سب باتیں محمودہ میں ہیں یا نہیں۔ کچھ اس پر موقوف نہیں ہے کہ محمودہ میری نند یا میری شاگرد ہے۔ نہیں، وہ لڑکی کچھ خدا نے بہمہ صفت موصوف پیدا کی ہے۔ کیوں بوا حسن آرا میں جھوٹ کہتی ہوں تو تم بولو۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’اُستانی جی بھلا چاند پر کوئی خاک ڈال سکتا ہے۔ محمودہ بیگم ماشاء اللہ بڑے گھروں میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ بھلا کوئی محمودہ بیگم کا پاسنگ تو ہولے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اور صورت سوناک کان آنکھ جیسے آدمی میں ہوتے ہیں، محمودہ میں بھی ہیں۔ وہ بھی آدمی کا بچہ ہے، جوان ہوئے پر کچھ اس سے زیادہ صورت نکل آئے گی۔‘‘
جمال آرا بولی ’’اے اُستانی جی، محمودہ بیگم کو آدمی کا بچہ کہتی ہو خدا کی قسم حور کا بچہ ہے۔ بڑے گھروں میں اونچی دکان پھیکا پکوان۔ ہم نے تو کوئی صورت دار نہ دیکھا۔ ہم دونوں بہنیں موجود ہیں، خدا کی قسم بعض لونڈیاں ہم سے اچھی ہیں اور محمودہ تو چندے آفتاب اور چندے ماہتاب۔ اس صورت کے آدمی کہاں نظر آتے ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’پھر بوا سوائے غریبی کے اور ہم میں کیا بُرائی ہے۔ اگرچہ چھوٹا منھ بڑی بات ہے لیکن علی نقی خاں مرحوم کو دوچار پشتیں نہیں گزریں آخر ہم بھی انھیں کے نام لیوا ہیں۔‘‘
دونوں بہنوں نے کہا ’’اُستانی جی تم ہماری سرتاج ہو اور ہم اور تم کیا دو دو ہیں۔ ایک ذات ایک خون۔‘‘
اصغری نے کہا ’’پھر کیا تامل ہے۔ میری درخواست کو قبول فرمائیے۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’اچھا اُستانی جی آج ہم اس بات کا مذکور اماں سے کریں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’مذکور نہیں۔ مذکور تو میں بھی کرسکتی ہوں بلکہ دل سے اس میں مدد کرو اور اب یہ بات چھڑی ہے تو ایسا ہو کہ پوری ہوجائے۔‘‘
دونوں بہنوں نے وعدہ کیا کہ ’’اُستانی جی جیسا آپ کا ارادہ ہے انشاء اللہ ویسا ہی ہوگا۔‘‘
غرض کہ اس وقت دونوں بہنیں رخصت ہوگئیں۔ اگلے دن اصغری خود سلطانہ بیگم سے ملنے کو گئی۔ دوسو روپے کا بہت عمدہ شالی رومالی جو سیالکوٹ سے لائی تھی سلطانہ بیگم کو نذر دیا۔
سلطانہ بیگم نے کہا ’’اُستانی جی تم ہم کو بہت شرمندہ کرتی ہو۔ ہم کو تمھاری خدمت کرنی چاہیے نہ کہ اُلٹا تم سے لیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’یہ رومال میں نے صرف آپ کے واسطے فرمائش کرکے بنوایا اور اس کو آپ قبول فرمائیے۔ ڈیڑھ برس سے اسی امید میں میری گٹھری میں بندھا تھا کہ دہلی چل کر میں خود پیش کروں گی۔‘‘
سلطانہ بیگم نے کہا ’’میں اس کو بطور تبرک کے لیے لیتی ہوں۔ لیکن مجھ کو خدا کی قسم شرم آتی ہے۔ کبھی آپ نے بھی توکچھ فرمائش کی ہوتی کہ میرا جی خوش ہوتا۔ اتنا سہارا پاکر اصغری دست بستہ کھڑی ہوگئی اور اپنا مطلب بیان کیا۔‘‘
سلطانہ بیگم نے کہا ’’اچھا اُستانی جی آپ بیٹھیے تو سہی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اب میں اپنی مراد لے کر بیٹھوں گی۔‘‘
سلطانہ بیگم نے ہاتھ پکڑکر بٹھالیا اور کہا کہ ’’بیٹا بیٹیوں کے کام مشکل کام ہیں۔ کُمھار کے یہاں سے دمڑی کا پیالہ لیتے ہیں تو ٹھوک بجالیتے ہیں اور یہ تو عمر بھر کی کمائیوں کے بیوہار ہیں۔ سوچ سمجھ کر صلاح مشورہ ہوکر کرنا چاہیے۔ آپ نے ذکر کیا اب میں ان کے باپ سے اور اپنی بڑی بہن سے اور کنبے کے اور دوچار آدمیوں سے صلاح کروں پھر جیسا ہوگا، دیکھا جائے گا اور ابھی تو ارجمند لڑکا ہے اس کے بیاہ کی کیا جلدی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’حوصلے سے بڑھ کر میں نے سوال کیا ہے۔ جس طرح مصر میں کوئی بڑھیا عورت سوت کی انٹی لے کر حضرت یوسف ؑ کی خریدار بنی تھی اسی طرح میرے پاس غریبی اور عاجزی کے سوا کچھ دینے لینے کو نہیں ہے۔ اب صرف آپ کی مہربانی درکار ہے۔‘‘
ہرچند سلطانہ بیگم نے زبان سے کچھ نہ کہا لیکن انداز سے معلوم ہوا کہ بات ناگوار نہیں ہوئی۔ چلتے ہوئے اصغری جمال آرا اور حسن آرا سے کہتی گئی کہ اب اس کا نباہ آپ لوگوں کے اختیار میں ہے۔ اصغری کے جانے کے بعد دونوں بہنوں نے محمودہ کی حد سے زیادہ تعریف کی۔ سلطانہ تو نیم راضی ہوگئی۔ لیکن شاہ زمانی بیگم کی بھی ایک بیٹی تھی دلدار جہاں اور شاہ زمانی کا یہ ارادہ تھا کہ ارجمند سے اپنی بیٹی کی منگنی کرے لیکن اتنا غنیمت تھا کہ ابھی تک شاہ زمانی نے اپنی بہن سے کچھ اس کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔جب اصغری نے محمودہ کی نسبت گفتگو کی تو سلطانہ بیگم نے شاہ زمانی سے پچھوابھیجا کہ آپ کے نزدیک یہ بات کیسی ہے۔ شاہ زمانی یہ حال سن کر بہت گھبرائی اور اس فکر میں ہوئی کہ محمودہ کی بات دب دبا جائے تو دلدار جہاں کی بات ٹھہرادوں۔ اُس وقت کہلا بھیجا کہ میں سوچ کر جواب کہلا بھیجوں گی۔ اگلے دن خود بدولت آموجود ہوئیں اور جب ذکر چلا تو سلطانہ سے کہا کہ ’’کہاں تم کہاں مولوی صاحب! زمین آسمان کا کیا جوڑ، یہ بات یہاں کون لایا تھا۔‘‘
سلطانہ نے کہا ’’اُستانی جی۔‘‘
شاہ زمانی نے کہا ’’میں خود اُستانی جی کے پاس جاتی ہوں۔‘‘
حسن آرا کو ساتھ لے اصغری کے پاس گئیں اور کہا کہ ’’اُستانی جی تم اتنی بڑی تو عقل مند اور تم اتنا نہ سمجھیں کہ رشتہ ناتا برابر کے ساتھ ہوتا ہے۔ علوی خاں کے گھر سے اس بات پر رقعہ پھرا کہ انھوں نے سونے کا چھپرکھٹ نہیں مانا۔ بھلا تم محمودہ کو کیا دوگی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بیگم صاحب میں نے تو لڑکی کے بیاہ کے واسطے ایک بات کہہ دی تھی، کچھ لڑکی کے مول تول کا پیام نہیں دیا۔ شہر میں اگرچہ اب کل رسمیں بگڑ گئی ہیں، لیکن لینے دینے کا چکوتا کہیں نہیں سنا جو بیٹی دے گا وہ کیا اٹھا رکھے گا۔ باقی رہی برابری، سو ظاہر ہے کہ دولت کے اعتبار سے تو یہاں علوی خاں کا چوتھائی بھی نہیں لیکن آپ تو لڑکا بیاہتی ہیں، آپ کو جہیز کی کیا فکر، لڑکی دینی ہو تو انسان یہ بھی سوچ کرے کہ بھائی لڑکی کا گزر دیکھ لو یا کوئی غریب ہو اور بہو کے جہیز پر ادھار کھائے بیٹھا ہو، وہ اس کی فکر کرے تو بجا ہے۔ آپ تو بیٹی لیتی ہیں اور سب کچھ خدا کا دیا ہوا آپ کے یہاں موجو دہے۔ آپ کو تو لڑکی چاہیے سو لڑکی آپ کی دیکھی ہوئی ہے۔ کوئی حال اُس کا آپ سے مخفی نہیں، ذات جو کچھ بری بھلی ہے آپ کو معلوم ہے۔‘‘
شاہ زمانی نے کہا ’’کیا ہوا پھر بھی جوڑ دیکھ کر بات کی جاتی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بیگم صاحب خطا معاف اب جوڑ کہاں ہے، جوڑ تو اُن دنوں تھا جب علی نقی خاں نے اسی گھر میں بہن کو بیاہ دیا تھا، یا یہ وہی گھر ہے کہ بیٹی لینے کے واسطے بھی جوڑ نہیں۔ اب کیا اس گھر میں کیڑے پڑگئے ہیں۔ دولت نہیں سو یہ بڑا بول خدا کو نہیں بھاتا۔‘‘
اصغری نے شاہ زمانی کو ایسا آڑے ہاتھوں لیا کہ بات نہ بن پڑی اور شاہ زمانی نے کہا ’’اُستانی جی تم تو خفا ہوتی ہو۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بیگم صاحب میری کیا مجال ہے، مجھ کو تو امید تھی کہ آپ اس بات میں امداد کیجیے گا نہ کہ خود آپ ہی کو ناگوار ہے۔‘‘
شاہ زمانی نے کہا ’’اُستانی جی برا مانو یا بھلا جوڑ نہیں ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’دولت میں ہم جوڑ نہیں ہیں۔ ذات میں برابری کا دعویٰ ہے۔ ہنر میں انشاء اللہ وہ ہمارے جوڑ نہ ٹھہریں گے۔ کیا مضائقہ ایک بات میں وہ کم ایک بات میں ہم کم، ہماری ایسی بہو دنیا میں چراغ لے کر ڈھونڈھتی پھریں گی تو نہ ملے گی۔‘‘
شاہ زمانی بیگم نے کہا ’’اُستانی جی اقبال مند خاں کے لڑکے کا رقعہ کیوں نہیں منگواتیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’میں نے سنا تھا کہ آپ کے گھر بات ہورہی ہے اس سے میں نے خیال نہیں کیا اور رقعوں کی کیا کمی ہے، لڑکیوں کو لڑکے بہت اور لڑکوں کو لڑکیاں بہت۔ میں نے تو یہ سوچا تھا کہ ہنر اور دولت کا ساتھ ہے۔ یہ چیز امیروں کے لائق ہے اور امیر اس کو زیبا ہیں۔ بات ٹھہر جائے تو دونوں کے لیے اچھا ہے لیکن اگر منظور نہیں ہے تو آپ دلدار جہاں سے نسبت کر دیجیے۔‘‘
شاہ زمانی نے کہا ’’ابھی دلدار بچہ ہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس کو غیر جگہ دوں، رشتے میں رشتہ بے لطفی سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘
شاہ زمانی تو یہ کہہ کر رخصت ہوئیں، حسن آرا بیٹھی رہ گئی۔ خالہ نے کہا بھی کہ ’’بیٹا چلو۔‘‘
حسن آرا بولی ’’آپ چلیے۔ میں اُستانی جی سے کئی برس میں ملی ہوں، باتیں کروں گی۔‘‘
جب شاہ زمانی چلی گئی تو حسن آرا نے کہا ’’اُستانی جی اماں تو راضی ہیں، یہی حضرت بات کو بگاڑ رہی ہیں، منھ سے انکار کرتی ہیں تو کرنے دو۔ ان کا اصل مطلب یہی ہے کہ دلدار کی بات ٹھہر جائے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اب تقدیر کی بات ہے۔ بھلا ان کے ہوتے ہماری کیا اصل ہے، لیکن بوا حسن آرا میں نے تو کچھ بے جا بات نہیں سوچی تھی، پیوند میں پیوند ملتا دیکھ لیا تھا۔تمھارا اتنا بڑا گھر اور اللہ آمین کا ایک لڑکا جو کچھ مال و متاع ہے سب اسی کا ہے، پس اتنے بڑے کارخانے کے سنبھالنے کو بھی بڑی عقل درکار ہے اور بڑا سلیقہ چاہیے۔ محمودہ غریب گھر کی ہے تو کیا ہے، اللہ رکھے حوصلہ اور سلیقہ امیروں جیسا ہے۔ تمھارے گھر میں اگر کوئی بے سلیقہ آئی اور جہیز کے چھکڑے لائی تو کس کام کے۔ اُس کو اپنے جہیز کا رکھنا اٹھانا مشکل پڑجائے گا۔ تمھارے گھر کا انتظام کیا کرسکے گی۔ محمودہ تو ماشاء اللہ ملک کا انتظام کرنے والی ہے پھر بوا حسن آرا یہ بات سوچنی چاہیے کہ رشتہ ناتا کس غرض سے ہوتا ہے۔ دنیا میں جہاں تک ہوسکے میل ملاپ کو بڑھانا چاہیے۔ گھر کے گھر میں نسبت ناتا کرلیا تو کیا شادی بیاہ۔ جب کرے غیر جگہ۔‘‘
حسن آرا بولی ’’اُستانی جی میں نے اور آپا نے خوب طرح پر اماں سے کہا ہے اور اب یہ سب باتیں میں اماں سے اور کہوں گی۔ امید تو ہے کہ یہی بات ورر ہے۔‘‘
غرض اصغری نے یہ سب پٹی پڑھاکر حسن آرا کو رخصت کیا۔ وہاں شاہ زمانی نے سلطانہ سے جاکر کہا ’’بوا میں نے تو اُستانی کے منھ پر صاف کہہ دیا کہ تمھارا ان کا جوڑ نہیں۔‘‘
آدمی کو سمجھ کر بات منھ سے نکالنی چاہیے لیکن پیچ یہ آپڑا تھا کہ شاہ زمانی اپنے منھ سے اپنی لڑکی کے واسطے نہیں کہہ سکتی تھی۔ شاہ زمانی کے دل میں تو یہ بات تھی۔ لیکن یہ سوچے ہوئے تھی کہ مردوں مردوں میں بات ہوجائے گی۔ اب محمودہ کی بات میں غریبی پر بڑا اعتراض تھا۔ آخر شاہ زمانی سے الگ ہوکر سلطانہ بیگم نے اپنی دونوں بیٹیوں سے جو صلاح کی تو حسن آرا نے کہا ’’اماں بات صاف تو یہ ہے کہ خالہ اماں دلدار کے واسطے تجویز کرتی ہیں۔‘‘
سلطانہ نے کہا ’’بھلا ارجمند سے بھی تو ہنسی ہنسی میں پوچھو۔‘‘
جمال آرا نے بھائی کو بلایا اور کہا کہ ’’کیوں بھائی تمھاری شادی بیاہ کی تجویز ہورہی ہے۔ تم بھی تو کچھ بولو، دلدار جہاں سے راضی ہو۔‘‘
ماں کے منھ پر تو لحاظ کے سبب ارجمند کچھ نہ بولا لیکن اشارے سے اپنی بہنوں سے انکار کیا۔ اس کا انکار جمال آرا اور حسن آرا کو حجت ہوگیا۔
حسن آرا نے کہا ’’صورت، شکل، ہنر سلیقہ یہ باتیں تو محمودہ کے پاسنگ بھی کسی لڑکی میں نہ ملیں گی۔ اس کا ذمہ تو میں کرتی ہوں۔ ہاں چاہو کہ سونے کا چھپرکھٹ ملے سو یہ ان بے چارے غریبوں کے پاس کہاں۔‘‘
سلطانہ بولی ’’بوا اصل تو لڑکی کا دیکھنا ہے، خدا کے فضل سے ہمارے گھر میں خود کسی چیز کی کمی نہیں، ہم کو بھاری جہیز لے کر کیا کرنا ہے۔‘‘
جمال آرا نے کہا ’’پھر کیا تامل ہے بسم اللہ کیجیے۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’گو غریبی ہے لیکن اُستانی جی بڑی چال کی آدمی ہیں، منھ سے نہیں کہتیں تو کیا ہے وقت پر حیثیت سے بڑھ کر کریں گی۔‘‘
سلطانہ نے کہا ’’اچھا تمھارے ابا آلیں تو ان سے بھی صلاح پوچھی جائے۔‘‘
چھوٹے حکیم صاحب آئے تو جمال آرا اور حسن آرا نے محمودہ کے مقدمے کو اس طرح پیش کیا جیسے کچہری میں وکیل اپنے مؤکل کے مقدمے کو پیش کرتے ہیں۔ غرض چھوٹے حکیم صاحب نے بھی محمودہ کی بات کو پسند کیا۔ اب تو دونوں بہنیں بے تحاشا اصغری کے پاس دوڑی گئیں۔ محمد کامل کی ماں کو اصلاً ان باتوں کی خبر بھی نہ تھی، انھوں نے پوچھا بھی کیا ہے۔ بیگم صاحب اس طرح کیوں دوڑتی ہو، پائچے تو اٹھاکر چلو۔
حسن آرا نے کہا ’’کچھ نہیں اُستانی جی کے پاس جاتے ہیں۔‘‘
اصغری کے پاس جاتے ہی حسن آرا نے کہا ’’لیجیے اُستانی جی مبارک ہو،ہمارا انعام دلوائیے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’خدا تم سب صاحبوں کو بھی مبارک کرے اور انعام دینے کا میرا کیا منھ ہے، میرا انعام ہے دعا، سو شبانہ روز میں تمھاری دعا گو ہوں۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’نہیں اُستانی جی ہم تو آج اپنا منھ ضرور میٹھا کرائیں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بیٹھیے بیٹھیے مٹھائی کھائیے گا۔ دیانت کو بلایا اور پانچ روپیے نکال اُس کے ہاتھ دیے اور کہا گھنٹے والے کی دکان پر سے بہت عمدہ قلاقند اور دریبے کے نکّڑ سے پیٹھے کی مٹھائی اور شاہ مدار کی گلی سے موتیا پاگ اور چاندنی چوک سے لوزات اورنیل کے کڑے سے گھی کی تلی دال اور خانم کے بازار سے نمش ابھی جاکر لاؤ۔‘‘
اتنے میں دونوں کو گلوریاں بناکر دیں اور مٹھائی کی ٹوکری آموجود ہوئی۔ اصغری، اکبری، حسن آرا سب نے مل کر خوب کھائی اور جو بچی مکتب میں بھیج دی۔
اب چلتے ہوئے اصغری نے کہا ’’اس وقت تک میں نے اماں جان کو خبر نہیں کی تھی، اب ان سے تذکرہ کرکے انشاء اللہ پرسوں اچھی تاریخ اور اچھا دن ہے، معمولی رسم ادا ہوجائے۔‘‘
یہ دونوں تو رخصت ہوئیں۔ اصغری نے ساس سے کہا ’’اماں جان کچھ محمودہ کی بھی فکر ہے۔‘‘
ساس بولیں ’’کیا فکر کروں، کہیں سے بات بھی آئے۔ میں ایک جگہ سوچے بیٹھی ہوں محمد صالح کے ساتھ محمودہ کا بیاہ کردوں گی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’کجا محمد صالح اور کجا محمودہ۔ بھائی محمد صالح کی عمر بھائی جان سے کچھ کم نہ ہوگی۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولیں ’’ہاں عاقل چھ مہینے محمد صالح سے بڑا ہے۔ ایک ہی برس کے دونوں پیدا ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بھلا پھر تھوڑا فرق ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’اور تو کہیں سے سلام پیام نہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’میں نے ایک بات سوچی ہے اگر آپ کو پسند ہو تو ذکر چلاؤں۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے پوچھا ’’وہ کیا!‘‘
اصغری بولی ’’حکیم فتح اللہ خاں کے لڑکے سے۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولیں ’’بھلا بیٹی جھونپڑے کا رہنا اور محلوں کے خواب دیکھنا!کجا حکیم جی کا گھر، آج ان کے یہاں وہ دولت ہے کہ شہر میں ان کا ثانی نہیں اور کجا ہم غریب کہ رہنے تک کا جھونپڑا بھی درست نہیں۔ یہاں کی بات کیا ان کی خاطر میں آئے گی۔ ناحق کہہ کر بھی پشیماں ہونا ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’وہ دولت مند ہیں تو اپنے واسطے ہیں ہم کیا خدا نہ کرے کچھ ان کے دست نگر ہیں، وہ اپنے پلاؤ زردے میں مست ہیں تو ہم اپنے دال دلیے میں مگن ہیں۔ ذات میں ہم ان سے ہیٹے نہیں۔ ہنر جو ماشاء اللہ ہماری محمودہ میں ہے وہ ان کے بڑوں میں بھی نصیب نہ ہوا ہوگا۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’بوا دولت کے آگے ہنر ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے۔ سونے کا چھپرکھٹ پہلے بنوالوں، تب ان سے بات کرنے جاؤں، ہرگز ہرگز تم اس کا خیال مت کرو۔ اے لو علوی خاں میں کیا برائی تھی، رقعہ بھیج کر انھو ں نے الٹا منگوالیا۔ بوا غریبوں کی کھپت غریبوں میں ہوسکتی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ہزار دولت کی ایک دولت تو خوب صورتی ہے، چشم بددور ہماری محمودہ سے بہتر کنبے میں تو ڈھونڈھ لیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولیں ’’بوا تم کیسی لڑکیوں کی سی باتیں کرتی ہو۔ حسن بھی ہمسری کی حالت میں پوچھا جاتا ہے اور پھر یہ بات منھ سے کہنے کی ہے کہ ہماری لڑکی خوب صورت ہے اور میں تو نہیں سمجھتی کہ خوب صورتی کیا بلا ہے۔ بڑی بڑی خوب صورتوں کو دیکھا ہے کہ جوتیوں کے برابر قدر نہیں اور بدشکلیں ہیں کہ لالوں کی لال بنی بیٹھی ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’خوب صورتی بھی ایسی چیز ہے کہ آدمی اس پرفریفتہ نہ ہو، مگر اکثر آدمی جن کی صورت اچھی ہوتی ہے، سیرت کے خراب اور مزاج کے گندے ہوتے ہیں۔ ان کو اپنی صورت پر ناز ہوتا ہے، اس وجہ سے ان کی دال کہیں نہیں گلنے پاتی اور ان کا مزاج ان کے حسن کی قیمت گھٹا دیتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک گھوڑا ہے، رنگ کا صاف، ہاتھ پاؤں کا اچھا، بال بھونری سے پاک، جوڑ بند کا درست لیکن بدرفتار، کٹر ہے، دولتّی الگ چلاتا ہے، سواری میں الف ہوتا ہے، الٹ جاتا ہے۔ ایسے نامراد گھوڑے کی صورت لے کر کوئی کیا کرے۔ لیکن اگر پاکیزگی صورت کے ساتھ شائستہ قدم باز اور غریب بھی ہو تو نایاب چیز ہے جیسی ہماری محمودہ، صورت سیرت دونوں ماشاء اللہ ایک کا جواب ایک ۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’آخر کچھ دینے کو بھی چاہیے، ابھی تھوڑی دیر ہوئی کہ تمھارے مکتب کی لڑکی پڑھ رہی تھی۔ شعر:
یامکن با فیل باناں دوستی
یادرے افراز بربالاے پیل
ہم غریبوں کے پاس ان کی شان کے لائق دینے لینے کو کہاں! ناحق بیٹھے بٹھائے اپنی ہنسی کرانی کیا ضرور ہے اور فرض کیا بات ہو بھی گئی اور لڑکی وہاں نظروں میں حقیر رہی تو نقصان مایہ و شماتت ہمسایہ۔‘‘
اصغری نے کہا ’’عزت اور ذلت کچھ جہیز پر منحصر نہیں، میاں بیوی کی موافقت تو اور ہی چیز ہے۔ جمال آرا کیا کم جہیز لے کر گئی تھیں لیکن ایک دن بھی سسرال میں رہنا نصیب نہ ہوا۔ دور کیوں جاؤ ہماری آپا کو بھی ہمارے برابر ملا تھا پھر کیوں روز لڑائی ہوتی ہے۔ یہ تو اپنا اپنا مزاج اور اپنا اپنا سلیقہ ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولیں ’’یہ تو میں نے مانا کہ میاں بیوی کا پیار اخلاص جہیز پر موقوف نہیں۔ لیکن کنبے قبیلے کے لوگ بے کہے کب باز آتے ہیں اور لڑکے نے خیال نہ کیا تو کیا ہے ساس نندیں ہی موقع پاکر کبھی بات میں بات کہہ گزریں۔ آخر دل کو برا لگتا ہی ہے، ایک تو بیٹی والے کا یوں ہی سر نیچا ہوتا ہے اس پر دان جہیز واجبی اور غضب ہے۔ نہ بوا یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’کنبے والوں سے کیا مطلب، کنبے والے ہر روز تھوڑے ہی پاس بیٹھے رہتے ہیں، ہاں ساس نندوں کے رات دن کے طعنے بے شک غضب کا سامنا ہے، سو حسن آرا اور جمال آرا طعن و تشنیع کا تو کیا ذکر، محمودہ کے پاؤں دھو دھوکر پیا کریں گی۔ ایسا بھی کیا اندھیر ہے، کیا بیاہ ہونے کے ساتھ آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لیں گی۔حسن آرا کو جیسی محبت محمودہ کے ساتھ ہے، آپ تو دیکھتی ہیں۔ رہیں جمال آرا سو دل کی خدا جانے، ظاہر میں جب ملتی ہیں، بچھی جاتی ہیں۔ میں بھی تو آخر جیتی بیٹھی ہوں۔ محمودہ کو بری طرح رکھیں گی تو مجھ کو کیا منھ دکھائیں گی اور سوبات کی ایک بات تو میں یہ جانتی ہوں کہ ساس نندیں بھی ہوا کو دیکھا کرتی ہیں۔ لڑکے کو ریجھا ہوا دیکھیں گی تو کسی کی مجال نہیں کہ محمودہ کو آنکھ بھر کر دیکھ لے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’آخر تمھاری مرضی کیا ہے، شربت کے پیالے پر نکاح پڑھا دوں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’یہ تو میرا مطلب نہیں اور نہوت میں شربت بھی نہیں جڑتا تو کیا بیٹا بیٹی کے کام کاج نہیں کرتے۔ دینا دلانا بھی ایک دنیا جہاں کی رسم ہے، جتنی چادر دیکھے اتنے پاؤں پھیلائے، مقدور موافق جو بن پڑا دیا، نہ بن پڑا نہ دیا۔ نام نمود کے پیچھے گھر کا دیوالہ نکال بیٹھنا بھی عقل کی بات نہیں۔ میرے مکتب میں سلمیٰ لڑکی پڑھتی ہے، اس کے ابّا کو غدر کے پیچھے سرکار سے دس ہزار روپیہ انعام کا ملا تھا، کسی میم کی جان بچائی تھی۔ دس ہزار روپیہ ان کو اتنا تھا کہ عمر بھر آبرو سے رہتے۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی بیاہنے کو اٹھے۔ شیخی میں آکر دس ہزار سرکار کا دیا ہوا اٹھا بیٹھے اور ہزار پانچ سو اوپر سے قرض لے کر لگا دیا۔ اُس وقت تو خوب ہر طرف سے واہ واہ ہوئی، اب گھر میں اس قدر تنگی ہے کہ کھانے تک حیران ہیں۔ بیاہ میں مجھ کو بھی بلاوا آیا تھا۔ سامان دیکھ کر میرے تو ہوش اُڑ گئے بلکہ شاید سلمیٰ کی اماں نے جی میں برا مانا ہو۔ میں نے تو کہہ دیا تھا کہ بوا بیٹا بیٹی کا دینا آنکھوں سکھ کلیجے ٹھنڈک، گھی کہاں گیا کھچڑی میں مگر اپنی ہنڈیا کی خیر منانی بھی ضرور ہے۔‘‘
کہنے کو تو میں اتنا کہہ گزری مگر پیچھے مجھ کو پچھتاوا بھی آیا کہ سلمیٰ کی بہن سمجھی ہوگی کہ ’’اُستانی جی لینا ایک نہ دینا دو، ناحق بھانجی مارتی ہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’ہاں سچ ہے مگر کمبخت دنیا میں رہنا ہے، کیا کریں، کہاں جائیں، ہو یا نہ ہو، کرنا ہی پڑتا ہے۔ دنیا کی سی نہ کریں تو نکّو کون بنے، انگشت نما کون ہو۔‘‘
میں نے مولوی اسحاق صاحب کے درس میں سنا تھا کہ ’’اگلے وقتوں میں عرب کے لوگ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے تھے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اماں جان دور کیوں جاؤ، ہمارے ملک میں راجپوت بھی تو یہی غضب کرتے تھے، اب انگریزوں کی روک ٹوک سے بندی ہوئی ہے۔ اس پر بھی کئی دفعہ بھنک سن پڑی ہے کہ چوری چھپے خون ہوئے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’عقل کیا کرے، غیرت نہیں قبول کرتی۔‘‘
اصغری بولی ’’غریبی میں غیرت کی کیا بات ہے، دنیا میں غریب لوگ زیادہ ہیں۔ اگر غریب ہونا غیرت کی بات ہے تو دنیا میں بے عزت بہت ہیں۔ امیری غریبی سب اپنی اپنی قسمت ہے، سب یکساں کیوں کر ہوجائیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولی ’’اَے ہے بلاسے شادی بیاہ میں بہت خرچ کرنے کی تو کچھ انگریزی سرکار سے مناہی ہوجاتی تو جھگڑا مٹتا۔‘‘
اصغری ’’اخبار سے تو معلوم ہوتا ہے کہ انگریز لوگ کچھ بندوبست کرنے والے ہیں۔ ہمارے شہر کے رئیس بھی تو سب بلائے گئے تھے اور سنا ہے کہ خرچ کی ایک حد باندھی گئی ہے۔ مہر کا اندازہ مقرر ہوا ہے، مگر یہ کام ہم لوگوں کے کرنے کے ہیں، سب ایکا کرکے جتنے خرچ فضول ہیں، موقوف کریں۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’خرچ کے فضول ہونے کی جو تم نے کہی تو جس کو خدا نے دیا ہے کچھ فضول نہیں۔ ہاں جس کے پلے کوڑی نہیں اُس کو تو سبھی فضول ہے۔‘‘
اصغری ’’یہ نہ فرمائیے شادی بیاہ میں تو واجبی خرچ کم ہے، فضول باتوں میں بہت روپیہ اٹھ جاتا ہے۔ ہمارے خاندان میں تو ناچ تماشا، باجا گاجا، آتش بازی، نوبت نقارہ، کچھ ہوتا ہواتا نہیں مگر جن کے یہاں ہوتا ہے اسی میں سیکڑوں ہزاروں پر پانی پھر جاتا ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’ناچ تماشا جن کے یہاں ہوتا ہو وہ جانیں، بھلا ہمارے یہاں کون خرچ فضول ہے۔‘‘
اصغری ’’کیوں نہیں منگنی، تیج تیوہار، ساچق، مہندی ،برات، بہوڑا، چوتھی، چالے بہت بھاری بھاری جوڑے، جڑاؤ گہنا سبھی فضول ہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’تو سیدھی یہی ایک بات کیوں نہیں کہتیں کہ سرے سے بیاہ ہی فضول ہے۔‘‘
اصغری ہنسنے لگی اور کہا کہ ’’بیاہ تو فضول نہیں مگر اُس کے لازمے البتہ ناحق کے ڈھکوسلے ہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’بھلا رسمیں تو رسمیں تم تو کپڑوں اور زیور کو بھی فضول بتاتی ہو۔‘‘
اصغری ’’نرے کپڑے اور نرا زیور توکام کی چیز ہے، مگر بھاری بھاری جوڑے۔ آپ ہی انصاف فرمائیے کہ کس کام آتے ہیں۔ خود میرے جوڑے پڑے گلتے ہیں، گھر میں پہننے سے کمبخت دل کُڑھتا ہے۔ کبھی کبھار شادی بیاہ میں پہن گئے یا عید بقرعید کو ذرا کی ذرا نکلے، باقی بارہ مہینے گٹھری میں بندھے رکھے ہیں۔ آئے دن دھوپ دینا مفت کا درد سر اور جو بیچنے اٹھو تو مال کا مول نہیں ملتا۔ مصالح کے دام تک بھی نہیں کھڑے ہوتے اور یہی حال جڑاؤ زیور کا ہے۔ مولوی کفایت اللہ کی بیٹی کا بیاہ آپ نے سنا ہے، پس ایسے بیاہ مجھ کو پسند ہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’کون مولوی کفایت اللہ؟‘‘
اصغری ’’لڑکیوں کے مدرسوں کے افسر۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’وہ تو شاید شہر کے رہنے والے نہیں ہیں۔‘‘
اصغری ’’نہیں آگرے کی طرف کے رہنے والے ہیں۔ بیوی بچوں کو اپنے پاس بلالیا ہے، بیٹی کی منگنی اسی شہر میں کی تھی۔ بیوی کی مرضی یہ تھی کہ اپنے شہر میں جاکر بیٹی کا بیاہ کریں۔ یہاں سے بارات جائے۔ مولوی صاحب نے بیوی کو سمجھا بجھاکر راضی کرلیا۔ ایک دن دوچار میل ملاپ والو ں کو بلا بھیجا، مہمان جو گھر میں پہنچے تو سنا کہ بیٹی کا نکاح ہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد سمدھی لڑکے کو ساتھ لے آموجود ہوئے۔ شرع محمدی نکاح پڑھا دیا، اللہ اللہ خیر صلاح۔ دان جہیز جم ہی جم دیا نکاح کے بعد پانچ سو روپیے نقد مولوی صاحب نے بیٹی داماد کے آگے لاکر رکھ دیے اور کہا کہ بس بھائی میری کمائی میں تمھاری تقدیر کا اسی قدر تھا، اگر میں چاہتا تو اس میں مہمانداری بھی کردیتا اور دنیا کے دستور موافق ایک دو بھاری جوڑے بھی بنالیتا مگر میں نے سوچا تو یہی مناسب معلوم ہوا کہ نقد روپیہ تم کو دینا بہتر ہے، اب تم جس طرح چاہو اس کو کام میں لاؤ۔‘‘
محمد کامل کی ماں سن کر بولیں کہ ’’ہاں پردیس میں مولوی صاحب جو چاہتے سو کرتے، کہنے سننے والا کون تھا۔‘‘
اصغری ’’کیوں کہنے سننے والی گھر والی بیوی اور پردیس پر کیا موقوف ہے، ہمت چاہیے۔ کرنے والا ہو تو شہر میں بھی کرگزرے۔ کہنے والوں کو بکنے دیا، اپنے کام سے کام۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’کیا تم نے محمودہ کا اسی طرح کا اونگھتا اُداس نکاح تجویز کیا ہے۔‘‘
اصغری ’’بے شک میں تو لوگوں کے کہنے سننے کی کچھ پروا نہیں کرتی۔ میرا بس چلے تو محمودہ کا نکاح کفایت اللہ کی بیٹی کا جواب ہو۔ انھو ں نے دوچار مہمان بھی بلائے تھے اور میرے نزدیک اس کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’نہ بوا خدا کے لیے ایسا غضب تو مت کرو، اس بڑھوتی میں میری تو یہی ایک بچی بیاہنے کو ہے، اب کیا میں قبر سے کسی کا بیاہ برات کرنے پھر آؤں گی۔‘‘
اصغری ’’نہیں۔ ایسا تو میرا بھی ارادہ نہیں ہے، مگر البتہ یہ بات ضرور میں نے اپنے دل میں ٹھان رکھی ہے کہ نہ تو ایک پیسا قرض کا لیا جائے اور نہ کوئی جائداد گروی رکھی جائے، جو کچھ جوڑا بٹورا اس کے نام کا رکھا ہے اور جو کچھ اس کی تقدیر ہے عین وقت پر ہوجائے، بس کافی ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’سبحان اللہ! ایسا ہو تو کیا بات ہے مگر جب دوسری طرف والے بھی حامی بھریں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اور اگر وہ راضی ہوجائیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولی ’’ان کا راضی ہونا کیا ہنسی ٹھٹا ہے۔ اللہ آمین کا ایک تو بیٹا، نہیں معلوم کیا کیا حوصلے ان کے دلوں میں ہیں۔ وہ تو برابر کی ٹکر کا گھر دیکھ کر بات کریں گے اور سب ارمان نکالیں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’جب سے میں سیالکوٹ سے آئی ہوں اس بات کی تدبیر کررہی ہوں۔ اُدھر سب ٹھیک ٹھاک ہوگیا ہے۔ ابھی جمال آرا اور حسن آرا بھاگی ہوئی آئی تھیں، چھوٹے حکیم صاحب کو بھی منظور ہے۔ شاہ زمانی بیگم نے اپنی بیٹی کے واسطے بہت بہت تدبیریں کیں، خدا کے فضل سے کوئی کارگر نہ ہوئی۔ اب دیر نہیں کرنی چاہیے۔ پرسوں دن بھی اچھا ہے۔ اُدھر سے مٹھائی آجائے، بات پکی ہوجائے۔ پھر بیاہ کو دیکھا جائے گا۔‘‘
محمد عاقل کی ما ںیہ سن کر حیران رہ گئیں او رکہا کہ ’’بات تو بہت اچھی ہے، ہماری لیاقت سے کہیں زیادہ ہے لیکن ان کے لائق سامان ہم سے ہونا مشکل ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’خدا مسبب الاسباب ہے۔ جب محمودہ کی تقدیر ایسے اونچے گھر میں لڑی ہے تو خدا اپنی قدرت سے وقت پر کچھ سامان بھی کردے گا۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا’’اپنے سسرے کو آنے دو، مٹھائی کے واسطے ان سے پوچھ دوں۔‘‘
تھوڑی دیر میں مولوی صاحب آئے اورمنگنی کا حال سن کر بہت خوش ہوئے او رکہا کہ ’’بے تامل پرسوں مٹھائی آئے۔‘‘
اصغری نے حسن آرا کو کہلا بھیجا، روز مقررہ پر پانچ من مٹھائی اور سو روپیے آگئے۔ سَوا من مٹھائی اور سوا سو روپیہ گیا۔ ہر طرف سے مبارک سلامت ہوگئی۔ منگنی کا ہونا تھا کہ چھوٹے حکیم صاحب نے بیاہ کا تقاضا شروع کیا اور مولوی صاحب سے کہلا بھیجا کہ ’’مدت سے میرا ارادہ حج کو جانے کا ہے اور صرف اسی بات کا انتظار ہے۔ زندگی کا اعتمادنہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ رجب کے مہینے میں عقد ہوجائے۔‘‘
مولوی صاحب نے اصغری سے پوچھا۔ اصغری نے کہا ’’بالفعل یہ کہلا بھیجنا چاہیے کہ ہم فکر میں ہیں، جہاں تک ہوسکتا ہے تدبیر کرتے ہیں۔ سامان مختصر جو دینا منظور ہے اگر اس عرصے میں جمع ہوا جاتا ہے تو ہم کو بھی یہ فرض آخر ادا کرنا ہے جس قدر جلد ہو بہتر۔‘‘
حکیم صاحب نے پھر کہلا بھیجا کہ ’’میں نے جہیز اور سامان کی امید سے آپ کے یہاں رشتہ نہیں کیا، مجھ کو لڑکی چاہیے آپ سامان کی فکر کچھ نہ کیجیے۔‘‘
ادھر سے جواب گیا کہ ’’بہت خوب ہم کو بھی رجب میں عقد کردینا منظور ہے۔‘‘
ستائیس تاریخ رجب کی مقرر ہوئی اور دونوں طرف سامان ہونے لگے۔ سامان کا شروع ہونا تھا کہ مولوی صاحب کو فکر پیدا ہوئی۔ کبھی کہتے تھے کہ ہزاری مل سے قرض لوں، کبھی سوچتے تھے گھی کا کٹرہ بیچ ڈالوں یا گروی رکھ دوں۔
اصغری نے مولوی صاحب کو پریشان دیکھ کر پوچھا کہ ’’آپ نے کیا تدبیر کی ہے؟‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’کیا بتاؤں شادی کی تاریخ سر پر چلی آتی ہے اور روپیے کی صورت کہیں سے بن نہیں پڑتی۔ ہزاری مل سے میں نے روپیہ مانگا تھا، وہ بھی ٹال گیا۔ گھی کے کٹرے کو جدا کردینے کا ارادہ کیا تھا، کوئی خریدار نہیں کھڑا ہوتا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ہرگز ہرگز آپ قرض نہ لیجیے اور نہ جائداد کو فروخت کیجیے۔ قرض سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے اور جائداد کا جدا ہونا کیا مشکل ہے، لیکن اس کا بہم پہنچنا بہت دشوار ہوتا ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’قرض تو لوں نہیں اور جائداد کو جدا نہ کروں، تو کیا میں کیمیا گر ہوں یا دستِ غیب جانتا ہوں، روپیہ کہاں سے آئے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’پہلے گھر کا حساب دیکھ لیجیے۔ کپڑے تو کچھ پہلے سے تیار ہیں صرف تھوڑا مصالح درکار ہوگا سو میرے جوڑوں میں بعضے بہت بھاری ہیں، ان میں سے کم کرکے اتنا مصالح نکل آئے گا کہ محمودہ کے جوڑوں کو کافی ہوجائے گا۔ برتن موجود ہیں، کوئی مول لینا نہیں۔ کاٹ کباڑ سامان بالائی یہ سب میں اپنا دے دوں گی، بے فائدہ پڑاپڑا خراب ہوتا ہے۔ نہ میرے کسی مصرف کا ہے اور آخر آپ کے پاس بھی کچھ روپیہ نقد ہوگا۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’صرف پانچ سو روپیہ ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بس بہت ہے۔ جب میں سیالکوٹ جانے لگی مکتب کی رقم کے چار سو روپیے تھے، وہ امانت رکھے ہیں۔ میرے پیچھے دو سو روپیہ اور ہوا، سو آدھا آپا کا حق ہے اور سو روپیہ محمودہ کا، یہ ملاکر مکتب کی رقم کے پانچ سو ہوجائیں گے۔ محمودہ کے چھوٹے بھائی کو میں نے خط لکھا ہے اور تین سو روپیہ منگوایا ہے۔ دو سو روپیہ بھائی جان نے بھیجنے کو لکھا ہے، اس طور پرڈیڑھ ہزار روپیہ نقد اس وقت موجود ہے۔ ہزار کے کڑے جو حسن آرا کے بیاہ میں مجھ کو ملے تھے، میرے کس کام کے ہیں ۔ میرا ارادہ تھا کہ محمودہ کو چڑھادوں لیکن پھر غور کیا تو اُسی گھر کے کڑے اسی گھر میں جانے مناسب نہیں معلوم ہوتے۔ میں ان کو بیچ ڈالوں گی۔ تماشا خانم کی معرفت بازار میں بھیجے تھے، پنّامل تیرہ سو روپیہ دیتا تھا۔ محمودہ کی تقدیر سے اگر کوئی حاجت مند مل گیا انشاء اللہ پندرہ سو وصول ہوجائیں گے۔ اور ایک تدبیر یہ ذہن میں آتی ہے کہ آپ بھائی جان کے لانے کو لاہور جائیے اور رئیس پر رخصت کی تقریب میں یہ بات ظاہر کردیجیے۔ رئیس بڑا سیر چشم ہے امید ہے کہ ضرور کچھ مدد کرے گا۔ ہمیشہ سے ہندستانی سرکاروں کا دستور ہا ہے، ایسی تقریبات میں اپنے معتمد نوکروں کی اعانت کی ہے۔‘‘
غرض اصغری نے سسرے کو لاہور بھیجا۔ مولوی صاحب رئیس کے سلام کو جو گئے تو رئیس نے پوچھا ’’مولوی صاحب کیوں کر تشریف لائے۔‘‘
مولوی صاحب نے عرض کیا کہ ’’بندہ زادی کا عقد ہے اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ محمد عاقل کو ایک مہینے کی رخصت مرحمت ہو اور یہ تو عرض نہیں کرسکتا کہ حضور کے خاندان سے کوئی شریک ہو لیکن اگر دیوان صاحب جو دہلی میں ہیں، سرکار کی طرف سے زیب دہ محفل ہوں تو ہم چشموں میں میرے لیے افزائش آبرو کا باعث ہوگا۔‘‘
رئیس نے محمد عاقل کی رخصت بھی منظور کی اور مولوی صاحب کو آنے جانے کا خرچ دیا اور دیوان صاحب کو حکم بھیج دیا کہ ’’ہماری طرف سے مولوی صاحب کی محفل میں شریک ہونا اور پانچ سو روپیہ نیوتے کا دینا۔‘‘
اصغری کی صلاح سے بیٹھے بٹھائے یہ پانچ سو روپیہ مفت کا آگیا۔ اُدھر جڑاؤ کڑے تماشا خانم کی معرفت نواب حاتم زمانی بیگم تک پہنچے، دیکھ کر لوٹ ہوگئیں اور آنکھ بند کرکے دو توڑے حوالہ کردیے، اب تو روپیے کی ہر طرف سے ریل پیل ہوگئی۔ اصغری کا اہتمام، عمدہ سے عمدہ جوڑے تیار ہوئے اور چوہرا زیور بنا۔ وہ شادی ہوئی کہ مولوی صاحب کی تو کئی پشتوں میں نہ ہوئی تھی اور سمدھیانے والے بھی سامان دیکھ کر دنگ ہوگئے۔ جو سامان تھا متعدد اور بیش قیمت تھا اور جو چیز تھی نئے طور کی تھی۔ دو جوڑے تو بیٹے والوں کی طرف سے آئے، ایک ریت کے واسطے کرکری تاش کا، دوسرا چوتھی کے واسطے۔ کار چوبی اور گہنے جہیز اور چڑھاوے کے ملاکر تو بے انتہا تھے۔ ناک میں نتھ اور کیل، ماتھے کو ٹیکا، جھومر، بینا، کانوں میں بالی، پتے، جڑاؤ اور سادے چھپکے کے بالے، کان جھالے، مگر مُرکیاں، بجلیاں، کرن پھول، جھمکے۔ گلے میں گلوبند، طوق، چنپا کلی، کنٹھی، توڑا دُھگدگی، چندن ہار، زنجیر، مالا، بازو پر جوشن، نورتن، بھوبھج بند، نونگے۔ ہاتھوں میں کڑے، نوگرہی، چوہے دنتیاں، لچھے، دست بند۔ انگلیوں میں انگوٹھی، چھلّے، جوڑ۔ پاؤں میں پازیب، توڑے، چوڑیاں، لچھے، چٹکی، چھلّے۔ کارچوبی، جالدار، مسالے دار، سب ملاکر پچاس جوڑے۔ دو سو برتن اور اسی حیثیت کا بالائی سامان۔ غرض بڑی دھوم دھام سے عقد ہوگیا۔ محمودہ رخصت ہوئیں۔ قمر آستانی بیگم سسرال سے خطاب ملا۔ حکیم فتح اللہ خاں بڑے متقی پرہیزگار باخدا آدمی تھے۔ مدتوں سے حج کا ارادہ کررہے تھے لیکن صرف ارجمند خاں کے بیاہ کے منتظر تھے۔ اب بیاہ ہونے کے بعد چند روز تک بہوکا رنگ ڈھنگ دیکھتے رہے۔ یہاں دیکھنے کی کیا حاجت تھی۔ محمودہ تو بی اصغری صاحبہ کی خراد پر چڑھ چکی تھی، کسی طرح کی کور کسر اُس میں باقی نہ تھی۔ حکیم صاحب نے جس قدر آزمایا بہو کو ہنرمند، عاقلہ، سلیقہ شعار پایا۔ کچھ تو خربزہ میٹھا اور کچھ اوپر سے ملاقند۔اوّل تو خود محمودہ اپنی ذات سے اچھی اور اس پر اصغری کی تعلیم۔ اصغری کی صلاح، پھر کیا پوچھنا تھا۔ غرض حکیم صاحب کو خوب یقین ہوگیا کہ قمر آستانی اچھی طرح گھر کو سنبھال لیں گی۔ اب حکیم صاحب نے یکایک زور و شور کے ساتھ عرب کی تیاریاں کرنی شروع کیں یا تو حج کی نیت تھی یا ہجرت کا ارادہ کرلیا۔ نقد کی قسم سے جو کچھ تھا اپنے ساتھ لیا۔ مکانات، دکانیں، کٹرے، گنج، دیہات، سرائیں سب کچھ بیٹے کے نام لکھ دیا۔ رشتے ناتے کے لوگو ں نے جیسا دستور ہے سمجھایا بھی لیکن حکیم صاحب کو تو خدا کی دھن تھی، ایک نہ سنی۔ خدا کا نام لے چل کھڑے ہوئے اور دنیا بھر کی جائداد بیٹے بہو کو دے گئے۔ محمودہ اگرچہ بیاہی جاچکی تھی لیکن پھر بھی اصغری کا ادب لحاظ پہلے سے زیادہ کرتی تھی، ذرا ذرا بات میں اصغری سے صلاح لیتی۔ اب البتہ اصغری کو اپنی عقل آزمانے کا موقع ملا۔ بڑا کارخانہ، بڑے کام، وہ وہ انتظام کیے کہ ارجمند خاں کو خدا جھوٹ نہ بلوائے وقت کا بادشاہ وزیر بنادیا۔ کوئی سرکار اس کے مقابلے کی دہلی کیا، دور دور نہ تھی۔ کہاں تک یہ داستان لکھی جائے، اتنا لکھا جاچکا۔ لیکن اگر سچ پوچھو تو ابھی من میں چھٹانک بھی نہیں ہوا۔ ابھی تک تو اصغری مفلسی میں تھی لیکن اب خدا رکھے دولت ثروت نصیب ہوئی، انتظام کا قابو بندوبست کا موقع من مانتا ملا۔ اس حالت میں جو جو کام اس عورت نے کیے وہ البتہ قیامت تک زمانے میں یادگار رہیں گے۔ مگر افسوس ہے کہ ان کے لکھنے کی فرصت نہیں، پھر بھی اگر نصیحت ماننے والا ہو اور بات کا سننے والا اور سمجھنے والا ہو تو جس قدر لکھا جاچکا، کم نہیں۔ ہر طرح کی بات، ہر قسم کی تعلیم اس میں موجود ہے۔ کہنے کو قصہ اور حکایت ہے لیکن حقیقت میں نصیحت اور ہدایت۔
اب اس کتاب کو ختم کرنے سے پہلے ایک بات اور لکھنی ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ اصغری بہت چھوٹے سے سن میں ماں بن گئی تھی، ابھی تک کچھ اس کی اولاد کا تذکرہ نہیں ہوا۔ اصغری کے بچے تو بہت ہوئے لیکن خدا کی قدرت زندہ کم رہے صرف ایک لڑکا محمد اکمل جو آخر میں محمودہ کی اکلوتی بیٹی مسعودہ سے بیاہا گیا، زندہ رہا۔ یہ لڑکا کئی بچوں کے اوپر پیدا ہوا، اس سے پہلے محمد عادل ایک بیٹا اور بتول ایک لڑکی مرچکے تھے۔ بچوں کی پرورش میں احتیاط تو بہتیری ہوتی تھی۔ سردی گرمی کا بچاؤ، کھانے تک کے وقت مقرر اور بندھا ہوا اندازہ اور خبرداری یہ کہ ثقیل اور ردّی چیز کہیں منھ میں نہ ڈال لیں۔ دانت نکلنے شروع ہوئے اور مسوڑھوں میں نشتر دیا گیا کہ ایسا نہ ہو، دانتوں کی تکلیف کو بچہ سہار نہ سکے۔ چار برس کے ہوئے اور چیچک کے بچاؤ کی نظر سے ٹیکا لگوادیا گیا۔ غرض جہاں تک آدمی کی عقل کام کرتی ہے سب طور کا بندوبست کیا جاتا تھا، لیکن تقدیر کے آگے کسی کی حکمت نہیں چلتی۔ محمد عادل چار برس کا ہوکر مرا۔ پیچش ہوئی، دست بند کرنے کی دوا دی، بخار آنے لگا۔ سرسام ہوگیا۔ پلا پلایا لڑکا ہاتھ سے جاتا رہا۔ ابھی اس کا داغ تازہ تھا کہ بتول سات برس کی ہوکر بیمار پڑی۔ کچھ ایسے بلا کے دست چھوٹے کہ جان لے کر بند ہوئے۔ دنیا جہاں کی دوائیں ہوئیں۔ موت کب دوا کو مانتی ہے، ایک ہی ہفتے میں لڑکی تحلیل ہوکر چلی گئی۔ بتول کے مرنے کا اصغری پر بہت بڑا صدمہ ہوا۔ اوّل تو لڑکی، دوسرے کچھ مرنے والی تھی یا کیا ایسی ماں پر فریفتہ تھی کہ ایک دم کو الگ نہ ہوتی تھی۔ ماں نماز پڑھتی ہے تو جائے نماز پر بیٹھی ہے۔ ساتھ سونا، ساتھ اٹھنا، ماں کی دوا تک ہوچکھ لینا ضرور۔ اور اس چھوٹی سی عمر میں بس پڑھنے میں دھیان۔ دسویں سیپارے کا ترجمہ شروع تھا جب محمد عادل مرا تھا۔ عورتوں نے اصغری کے ایمان میں خلل ڈالنا شروع کیا تھا۔ کوئی کہتی، کوکھ کا خلل ہے، مہر علی شاہ کا علاج کرو، کوئی کہتی دودھ پر نظر ہے چوراہے میں اتارا رکھواؤ، کوئی کہتی مسان کا دکھ ہے رمضان شاہ سے گڑنت کراؤ۔ کوئی کہتی مکان اچھا نہیں میر علیم سے کلواؤ، کوئی کہتی سفر میں آئی گئی ہو، کوئی چڑیل لپٹ گئی ہے۔ کچھوچھے چلو گنڈے اور تعویذ اور عمل ٹونے اور ٹوٹکے تو دنیا جہاں کے لوگ بتاتے تھے لیکن واہ ری اصغری یوں اوپر تلے دوبچے مرے لیکن سدا خدا پر شاکر رہی۔ کسی نے کچھ کہا بھی تو یہی جواب دیا کہ خدا کو جب منظور ہوگا تو یوں بھی وہ فضل کرسکتا ہے۔ بتول کے مرنے کی خبر جب دور اندیش خاں صاحب کو ہوئی تو بہت مضطرب ہوئے اور اس اضطراب میں بیٹی کے نام یہ خط لکھا:
’’ برخوردار اصغری خانم کو بعد دعا کے معلوم ہو اس وقت دہلی کے خط سے مجھ کو بتول کے انتقال کا حال معلوم ہوا۔ میں اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ مجھ کو رنج نہیں ہوا، مگر میری عقل اس قدر بے جا نہیں ہوئی کہ نادان آدمیوں کی طرح میں بے صبری کروں۔ مجھ کو بڑا تردد تمھارا ہے۔ عجب نہیں کہ تم پر یہ صدمہ بہت شاق ہوا ہو لیکن ہر ایک حال میں انسان کو عقل سے مشورہ لینا چاہیے۔ عقل ہم کو اسی واسطے بخشی گئی ہے کہ رنج ہو یا خوشی ہم اپنی عقل سے اس میں مدد لیں۔ دنیا کے حال پر غور کرنا نہایت ضرور ہے اور یہ غور فائدے سے خالی نہیں۔ زمین، آسمان، پہاڑ، جنگل، دریا، انسان، حیوان، درخت، لاکھوں طرح کی چیزیں دنیا میں ہیں اور دنیا کا ایک بہت بڑا بھاری کارخانہ ہے۔ دن میں ایک معمول کے ساتھ آفتاب کا نکلنا پھر رات کا ہونا اور چاند اور ستاروں کا چمکنا، کبھی گرمی کبھی سردی، کبھی برسات اور پانی کے اثر سے انواع و اقسام کے رنگ برنگ پھل اور پھولوں کا پیدا ہونا، ہر ایک بات غور کرنے والے کو برسوں کے سوچنے کو کافی ہے۔ خود آدمی کو اپنا حال غور کرنے کو کیا کم ہے، کیوں کر آدمی پیدا ہوتا اور کیوں کر پرورش پاتا اور بڑا ہوتا اور کیوں کر لڑکپن اور جوانی اور بڑھاپے کی حالتیں اُس پر گزر کرتی ہیں اور کیوں کر آخر میں دنیا سے سفر کرجاتا ہے۔ یہ بڑا عمدہ اور مشکل مضمون ہے۔ یہ سب کارخانہ کسی مصلحت سے خدا نے جاری کررکھا ہے اور جب تک وہ چاہے گا اسی طرح یہ کارخانہ جاری رہے گا۔ یہ دنیا صرف ساٹھ یا آٹھ ہزار برس سے ہے اور اس کی عمر بہت تھوڑی ہے یعنی اب قیامت بہت قریب ہے اور جلد تر دنیا کو فنا ہونا ہے۔ دنیا کی خانہ شماری سے ثابت ہوا ہے کہ ایک گھنٹے میں ساڑھے تین ہزار آدمی کے قریب دنیا میں مرتے ہیں یعنی ہر ایک پل میں ایک آدمی۔ اسی قدر پیدا بھی ہوتے ہوں گے۔ اب حساب کرلو کہ صرف ایک مہینے میں کتنے لاکھ آدمی دنیا میں مرتے اور پیدا ہوتے ہیں۔ اور پھر غور کرو کہ سات ہزار برس سے یہی تار چلا آتا ہے یعنی بے شمار آدمی اب تک دنیا میں مرچکے ہیں۔ پس موت ایک ضروری اور معمولی بات ہے۔ بڑے بڑے زبردست بادشاہ، بڑے بڑے عالم، بڑے بڑے حکیم یہاں تک کہ بڑے بڑے پیغمبر جو مُردوں کو جِلاسکتے تھے خود موت سے نہ بچ سکے۔ دنیا میں جو پیدا ہوا ہے یہ خدا کا ضروری حکم ہے کہ وہ ایک دن مرے۔ پس اگر یہ حکم کسی دن ہم پر یا ہمارے کسی عزیز قریب پر جاری کیا جائے تو ہم کو کوئی وجہ شکایت اور فریاد کی نہیں۔ یہ مضمون سرسری نہیں ہے، اس کو خوب غور کرو اور جب تم کو موت کی حقیقت معلوم ہوجائے گی تو یقین ہے کہ تم میری طرح سمجھوگی کہ کسی کے مرنے پر رنج کرنا لاحاصل ہے اور بے سود ہے۔ کسی کی موت پر رنج کرنا تعلق پر موقوف ہے۔ اگر ہم سنیں کہ ملک چین کا بادشاہ مرگیا ہم پر اس خبر کا مطلق اثر نہیں ہوتا اس واسطے کہ ہم کو اس سے کچھ تعلق نہ تھا بلکہ محلے میں اگر کوئی غیر آدمی مرجائے جس سے کسی طرح کا واسطہ نہیں تو ہم کو بہت کم رنج ہوگا۔ پس ہم کو رنج اُسی شخص کے مرنے کا ہوتا ہے جس سے ہم کو تعلق ہے اور جتنا تعلق قوی ہے اُسی قدر رنج زیادہ۔ نانی کی بھتیجی کی خالہ کی بہو کی پھوپھی کی بھانجی اگر مری تو کیا، دور کا واسطہ دور کا رشتہ بلکہ رشتے ناتے پر کیا موقوف ہے۔ محبت ملاپ میں بھی رنج ہوتا ہے۔ اب سوچنا چاہیے کہ دنیا میں ہم کو کس سے زیادہ تعلق ہے۔ اس کے واسطے کوئی قاعدہ مقرر نہیں۔ قریب کا رشتہ ہو اور سدا کی لڑائیاں، سدا کے بگاڑ رہے تو ایسے رشتے دار غیر داخل لیکن غیر ہے رشتہ نہیں، قرابت نہیں، محبت ملاپ بہت کچھ وہ رشتہ داروں سے بڑھ کر ہے۔ پس ہر ایک شخص موافق اپنی حالت کے خاص تعلق رکھتا ہے۔ یہ دنیاوی تعلقات سب فائدے اور غرض سے ہوتے ہیں۔ اگر اپنا سگا ہمارے فائدے میں خلل انداز ہو ضرور ہے کہ وہ ہم سے چھوٹ جائے۔ اگر غیر آدمی ہمارے کام آوے ضرور ہے کہ وہ ہم کو مثل اپنوں کے عزیز ہو لیکن وہ فائدہ جس سے تعلق پیدا ہوتا ہے ضرور نہیں کہ روپیے پیسے کا ہو۔ اگرچہ اکثر اسی قسم کا ہوتا ہے۔ کبھی امید اور توقع سے بھی تعلق پیدا ہوتا ہے۔ بہت لوگ ہمارے دوست ہیں جو ہم کو کچھ دے نہیں دیتے لیکن یہ توقع کہ اگر کبھی ہم کو کسی طرح کی ضرورت ہو تو کام آنے والے ہیں، تعلق کے پیدا ہونے کی وجہ ہوتی ہے۔ میں اس بحث کو بہت طول دے سکتا ہوں اور جس قدر اس بحث کو طول دیا جائے مناسب ہے۔ لیکن اصل مطلب میرا اس خط میں صرف اولاد کے تعلق سے بحث کرنا ہے اور اگر فرصت ملے گی تو انشاء اللہ اس تعلق پر ایک کتاب لکھ کر تم کو بھیج دوں گا۔ یہ تعلق جو اولاد سے ہے عام ہے، کوئی ماں باپ بلکہ کوئی جانور تک اس سے خالی نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف فائدہ اور غرض پر اس کی بنا نہیں بلکہ خداوند عالم جو بڑا دانش مند ہے، اس کا انتظام چاہتا ہے کہ ضرور ماں باپ کو اپنی اولاد کی محبت ہو۔ اولاد چند سال تک محتاجِ پرورش ہوتی ہے تاکہ اولاد کی پرورش اچھی طرح ہو۔ ماں باپ کو اولاد کی محبت لگادی کہ اس محبت کے لگاؤ سے بچوں کو پالیں اور بڑا کریں یہاں تک کہ بڑے ہوکر خود دنیا میں رہنے سہنے لگیں۔ پس ماں باپ پرورشِ اولاد کے واسطے ان کے خدمت گزار ہیں۔ پس اولاد کا پال دینا صرف اتنا تعلق تو خدا کی طرف سے ماں باپ کو دیا گیا، باقی یہ بکھیڑے کہ اب اولادکی تمنا ہے، نہیں ہے تو دوا ہے اور علاج ہے اور تعویذ گنڈا ہے، عمل ہیں اور دعا ہے یا اولاد ہوئی تو یہ فکر ہے کہ بیٹے ہوں، بیٹیاں نہ ہوں یا جو ہوں زندہ رہیں۔ یہ خود انسان کی اپنی ہوس کے تتمّے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اولاد کی تمنا جو آدمی نے خدا کی مرضی سے زیادہ اپنے دل میں پیدا کی، کس وجہ سے ہوتی ہے، بے شک فائدے اور غرض کے واسطے ہوتی ہے، لیکن فائدے کئی قسم کے ہیں۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ اولاد سے نام چلتا ہے، بعض کو یہ خیال ہوتا ہے کہ بڑھاپے میں ہمارے مددگار ہوں گے، بعض کو یہ تصور ہوتا ہے کہ ہمارا مال و دولت ہمارے بعد لیں گے۔ اب ان خیالات پر غور کرو، کس قدر بے ہودہ اور غلط ہیں۔ نام چلنا کیا معنی کہ لوگ یہ جانیں کہ یہ فلانے کے بیٹے فلانے کے پوتے ہیں۔ اول تو جب ہم خود دنیا میں نہ رہے تو اگر کسی نے ہم کو جانا تو کیا اور نہ جانا تو کیا۔ علاوہ اس کے غور کرو کہ کہاں تک نام چلتا ہے۔ کسی آدمی سے اس کے باپ دادوں کے نام پوچھو، شاید دادا تک تو سب کوئی بتاسکے گا اس سے اوپر خود اولاد کو نہیں معلوم کہ ہمارے پردادا اور سکڑدادا کون بزرگ تھے۔ دوسرے لوگوں کو ان کے مُردوں کی ہڈیاں اُکھاڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ پس بالفرض نام چلا بھی تو ایک یا دو پشت۔ آگے خیر صلاح اور ایک یا دو پشت نام چلنا بھی صرف خیالی بات ہے۔ دس برس سے میں پہاڑ پر ہوں، ہزاروں آدمی مجھ کو جانتے ہیں اور ہزاروں کو میں جانتا ہوں، لیکن نہ وہ میرے باپ کو جانتے ہیں اور نہ میں ان کے باپوں سے واقف ہوں۔ نہ کچھ باپ کا نام بتانے یا پوچھنے کی کبھی ضرورت واقع ہوتی ہے۔ دوسری وجہ تمنائے اولاد کی یہ فائدہ ہے کہ بڑھاپے میں مددگار ہوں لیکن یہ خیال بھی محض واہیات ہے۔ یہ کیوں کر یقین ہے کہ ان کے بڑے ہونے تک ہم جیتے رہیں گے یا ہمارے بڑھاپے تک یہ زندہ رہیں گے اور بالفرض زندگی کا اتفاق بھی ہوا تو اولاد کا مددگار ہونا محض خیالی بات ہے۔ ان وقتوں میں ہم ایسی اولاد بہت کم پاتے ہیں جن کو ماں باپ کا ادب ملحوظ ہوتا ہے یا جن کو والدین کی خدمت گزاری کا خیال ہوتا ہے۔ ادب اور خدمت گزاری تو درکنار اب تو اکثر اولاد سے ماں باپ کو ایذا اور تکلیف پہنچتی ہے۔ جس اولاد کی لوگ تمنا کرتے ہیں شروع سے آخر تک ان کے ہاتھوں سے رنج پاتے ہیں۔ جب تک چھوٹے ہیں پالنا ایک مصیبت۔ آج آنکھیں دُکھتی ہیں، کبھی پسلی کا دُکھ ہے، کبھی دانت نکلتے ہیں، کبھی چیچک نکلی ہے ، خدا خدا کرکے بڑے ہوئے تو ان کے کھانے کپڑے کی فکر۔ آدمی نہیں معلوم کس حالت میں ہے۔ نوکر ہے یا نہیں، پیسہ پاس ہے یا نہیں، ان کو جہاں سے ہوسکے دینا ضرور۔ ماں باپ کو فاقہ ہو تو ہو، ان کو سودا سلف کچھ نہ ہو تو بھی دمڑی روز کے چنے چاہئیں۔ عید ہو، بقرعید ہو، میلا ہو، تیوہار ہو، لاؤ بھائی نیا جوڑا، سودا کھانے کو چار ٹکے پیسے۔ یہاں تک بھی غنیمت ہے۔ اب ماں باپ چاہتے ہیں کہ لڑکا کام سیکھے، پڑھے۔ اور لڑکا پاجی ہے کہ پڑھنے کے نام سے کوسوں بھاگتا ہے۔ جب تک مکتب کے چار لڑکے ٹانگ کر نہ لے جائیں، جانا قسم ہے اور وہاں گیا استاد کی آنکھ بچی، کہیں چوراہے جانکلے، کہیں نہر پر کھڑے گڑیاں کھیلتے ہیں، کہیں بازاروں میں خاک چھانتے پھرتے ہیں اور ذرا بڑے ہوئے ماں باپ کو جواب دینے لگے۔ بچوں کی صحبت بدمعاشوں کا ساتھ، نہ ناچ کا پرہیز ہے نہ بُری صحبت سے گریز۔ باپ دادوں کو بدنام کرتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح بعضے شاطر، بدمعاش، چور، جواری، شراب خور ہوجاتے ہیں۔ اب اولاد بیاہنے قابل ہوئی، تمام شہر چھان مارا کہیں ڈھب کی بات نہیں ملتی۔ مشاطہ پاؤں توڑ توڑ تھکی میل ملاپ والے ہارکر بیٹھ رہے۔ کنبے کے لوگ ایک ایک سے کہہ چکے کوئی حامی نہیں بھرتا۔ ایک خرابی میں جان ہے، ماں بے چاری کہیں منتیں مانتی پھرتی ہیں، کہیں کھڑی فال گوش لے رہی ہیں، کہیں گڑیا کا بیاہ ہورہا ہے۔ پانچوں وقت دعا ہے الٰہی غیب سے کسی کو بھیج۔ خدا خدا کرکے نسبت ناتا ٹھہرا تو ایسی جگہ کہ یہاں ماں بے چاری کے پاس چاندی کا تار تک نہیں، سمدھیانے والے چھپکے کے بالے مانگتے ہیں، کسی طرح اپنے تئیں بیچ کر بیاہ کیا۔ چڑیا کی جان گئی، کھانے والے کو مزہ نہ ملا۔ جہیز ہے کہ پھنکا پھنکا پھرتا ہے۔ سمدھن کہتی ہیں اُئی کیا دیا ایسی نہوت میں بیٹی جننی کیا ضرور تھی، کوئی چیز خاطر تلے نہیں آتی۔ بات بات میں طعنہ ہے، داماد صاحب جو تشریف لائے تو ان کے دماغ نہیں ملتے۔ جب تک سسرے سے جوتیاں سیدھی نہ کرالیں، ہاتھ تک نہیں دھوتے۔ کھانے کی کون کہے، چوتھی نہیں ہوئی کہ میاں بیوی میں جوتی پیزار ہونے لگی۔ بیٹی کی بیٹی دی اور لڑائی کی لڑائی مول لی۔ پھر یہ نہیں کہ کچھ ایک دن کی ہے نہیں بس عمر بھر کو مصیبت کا چرخہ چلا۔ بیٹی کی اولاد ہونی شروع ہوئی۔ ماں بے داموں کی لونڈی بے تنخواہ کی دایہ عمر بھر اپنے بچے پالنے کی مصیبت جھیلتی رہی۔ اب خدا خدا کرکے دو برس سے آرام نصیب ہوا تھا، بیٹی کے چینگے پوٹے سنبھالنے پڑے اور اگر بہو آئی تو فساد کی گانٹھ، لڑائی کی پوٹ۔ ساس کو تو جوتی کے برابر نہیں سمجھتی، نندوں کا دم ناک میں کررکھا ہے، نہ جیٹھ کا حجاب نہ سسرے کا ادب۔ عورت ہے کہ مردوں کی پگڑی اُتارے لیتی ہے۔ خدا پناہ میں رکھے بیٹے نالائق کو دیکھیے کہ بیوی نے تو یہ آفت برپا کررکھی ہے یہ مردود بیوی کی حمایت کرتا ہے اور الٹا ماں باپ سے لڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بے چارے ماں باپ گھر چھوڑ الگ کرائے کے مکان میں جارہے ہیں۔ یہ نتیجہ اس وقت کی اولاد سے ماں باپ کو ملتا ہے۔ بہت کم ہیں وہ لوگ جو اولاد سے راحت پاتے ہیں۔ پس ہم لوگ اپنی بے وقوفی سے اولاد کی کیا تمنا کرتے ہیں گویا آفت اور مصیبت کو آرزو کرکے بلاتے ہیں۔ اب رہا یہ خیال کہ مال و دولت کا کوئی وارث ہو اس وجہ سے اولاد کی تمنا کی جائے۔ یہ خیال جیسا مہمل اور پوچ اور لچر اور خرافات ہے، ظاہر۔ جب آدمی خود دنیا سے اُٹھ گیا تو اس کی دولت اگر اس کے بیٹوں نے لی تو کیا اور اگر مال لاوارث قرار پاکر سرکار میں گیا تو کیا۔ یہ دولت عاقبت میں کچھ بکار آمد نہیں مگر اسی قدر جو خدا تعالیٰ کی راہ میں صرف ہو۔ جب ہم نے دولت کو خود صرف نہ کیا اور ایسا ضروری کام اولاد کے ذمے چھوڑ گئے تو ہم سے زیادہ کوئی احمق نہیں۔ جو اولاد ماں باپ کا اندوختہ مفت میں پاجاتے ہیں ہرگز ان کو اس کے خرچ کرنے میں دریغ نہیں ہوتا۔ آدمی اُسی روپیے کی قدر کرتا ہے جس کو وہ خود اپنی قوت بازو اور عرق ریزی سے پیدا کرتا ہے اور بے محنت جو روپیہ ملتا ہے اس کا حال یہی ہوتا ہے کہ مالِ مفت دلِ بے رحم۔ البتہ اولاد ناچ رنگ، سیر تماشے میں خوب دولت کو اڑائے گی لیکن چاہیے کہ باپ کے نام باجرے کے دلیے پر فاتحہ تک بھی دلائے کیا مذکور۔ کیا ایسی مثالیں دنیا میں سیکڑوں ہزاروں نہیں ہیں کہ لوگ بخل اور خسّت سے عمر بھر جمع کرتے رہے، اولاد نے دولت پاتے ہی وہ گل چھرّے اڑائے کہ چند روز میں باپ کا اندوختۂ عمری فنا کردیا۔ مصرعہ:
اللہ اللہ کہ تلف کردد کہ اندوختہ بود
اس بیان سے ظاہر ہوگا کہ جس قدر تعلق اولاد کے ساتھ ہم نے اپنے دل سے بڑھا لیا ہے وہ ہمارے حق میں نہایت ضرر کرتا ہے۔ ہم کو اولاد کے ساتھ اسی قدر تعلق رکھنے کا حکم ہے کہ جب تک وہ ہماری مدد کے محتاج رہیں ان کی پرورش کریں اور اس پرورش کرنے میں بھی اس امید کو دل میں جگہ نہ دیں کہ اولاد بڑی ہوکر اس پرورش کے عوض کبھی ہماری خدمت کرے گی۔ یہ امید پیدا کرنا سخت درجہ کی نادانی ہے، بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ خدا نے جو ہمارا مالک ہے، ان کی پرورش کی خدمت ہم سے متعلق کی ہے، ہم اولاد کو پالنے میں اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ یہ باغ خدا کا ہے اور ہم اس کی طرف سے اس باغ کے مالی ہیں۔ اگر باغ کا مالک کسی درخت کو قلم کرنے یا کاٹ ڈالنے کا حکم دے، مالی کو یہ کہنے کا کب منصب ہے کہ میں نے اس درخت کو بڑی محنت سے پالا ہے، یہ کیوں کا ٹا اور قلم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے تمام تعلقات صرف اتنے واسطے ہیں کہ آدمی ایک دوسرے کو فائدہ پہنچائے۔ ہم چند روز کے واسطے کسی مصلحت سے اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں اور یہاں ہم کو کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی بنادیا ہے۔ اس واسطے کہ لوگ ہماری اورہم لوگوں کی مدد کریں اور صلح کاری اور سازگاری میں اپنی زندگی جو مقرر کردی گئی ہے، پوری کرجائیں۔ دنیا ہمارا گھر نہیں ہے، ہم کو دوسری جگہ جاکر رہنا ہوگا۔ نہ کوئی ہمارا ہے نہ ہم کسی کے، ہم اگر کسی کے باپ ہیں تو صرف چند روز کے واسطے، اور اگر کسی کے بیٹے ہیں تو بھی چند روز کے واسطے، اگر ہم کسی کو مرتا دیکھیں تو افسوس کی کیا بات ہے۔ افسوس تو جب کریں جب ہم یہاں بیٹھے رہیں۔ ہم کو خود وہی سفر درپیش ہے، نہیں معلوم کس گھڑی بلاوا ہوا اور چلنا ٹھہر جائے۔ پھر سب سے مشکل یہ ہے کہ مرنا صرف یہی نہیں ہے کہ بدن سے جان نکل گئی گویا روح ایک مکان سے دوسرے مکان میں چلی گئی۔ نہیں وہاں جاکر بات بات کا حساب دینا ہوگا، زبان جھوٹ اور غیبت اور قسم اور فحش اور بے ہودہ بکواس کے واسطے جواب دہی کرے گی۔ آنکھ نظرِ بد کی سزا پائے گی، کان کو کسی کی بدی اور راگ سننے کے عوض میں گوشمالی دی جائے گی، ہاتھ نے کسی پر زیادتی کی ہے یا پرایا مال چرایا ہے، کاٹا جائے گا۔ پاؤں اگر بے راہ چلا ہے شکنجہ میں کسا جائے گا۔ بڑا ٹیڑھا وقت ہوگا۔ خدا ہی اپنے فضل سے بیڑا پار کرے تو ہوسکتا ہے۔ جس کو ان باتوں سے فراغت ہو وہ کسی کے مرنے پر غم کرے یا کسی کے پیدا ہونے پر خوش ہو تو بجا ہے، لیکن دنیا میں کوئی ایسا ہے جو اپنی عاقبت سے بے فکر ہوچکا ہو۔ اصغری اپنی خبر لو اور اس دن کے واسطے سامان کرو جہاں سوائے عمل کے کچھ کام نہ آئے گا اور دعا کرو کہ خدا وند عالم اپنے دوست محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے ہم سب کا انجام بخیر کرے‘‘۔
والدعا
گنہگار دور اندیش خان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں