پیارے استاد، جب تین سال کی طویل مدت کے بعد مجھے ہاسٹل میں آپ کا پہلا خط موصول ہوا تو لفافہ کھولتے وقت ایک عجیبوسوسے نے مجھے جکڑ لیا۔ گویا اس لفافے کے اندر ایک خبطی جن بند تھا جو میری زندگی حرام کر سکتا تھا۔ لفافہ کھل گیا اورآپ کی سلیس نثر میرے ملاحظے کے لیے حاضر ہوئی: 'پیارے دوست سلام! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ کیا آپ کا تھیسزختم ہو گیا؟ میرا تحقیقی کام مکمل ہوا ہے جس کی بنیاد پر میں نے ایک کتاب لکھ ڈالی۔ لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ کتاب میریزندگی میں منظر عام پر نہیں آئے گی۔ کیونکہ میں کئی مہینوں سے سخت بیمار ہوں اور گھر میں مقید ہوں۔ از را ہ کرم مجھ سےرابطہ قائم کیجیے۔ آپ سے مجھے ایک ضروری کام ہے۔ میرا نمبر 02652312 ہے۔ مخلص۔ وثیق خان۔'میرے تجسس کو مہمیز ہوئی۔ مجھے یہ جاننے کی طلب تھی کہ آپ کو مجھ سے کیا ضروری کام ہے۔ سو میں نے کیمپس کے پیسی او سے آپ کو ترنت فون کیا۔ آپ نے خود ہی ریسیور اٹھایا۔۔۔ آپ تو ویسے ہی تھے، لیکن آپ کی آواز کو کیا ہو گیا تھا؟ وہ کتنی مختلف تھی۔ کتنی کمزور اور باریک تھی! اس کی پہلے والی گھن گرج بالکل حذف ہوئی تھی۔ خیر! میں نے آپ سے خیریت دریافت کی اور اسی نڈھال اور نحیف آواز میں آپ نے جواب دیا: 'حال وال کیا بتاؤں؟ بس ادھر آ جاؤ، تمہیں سب پتہ چلے گا۔ ویسے تمہیں کچھ اندازہ تو ہو گا۔ آواز دیکھی ناں میری؟'فون رکھنے کے بعد میں نے خود کو بہت لعن طعن کی۔ میں نے کام کا پتہ لگانے کی غرض سے آپ کو فون کیا تھا لیکن گفتگوکے دوران میں کام کے متعلق پوچھنا بھول گیا تھا۔ میں نے اگلے دن آپ کے گھر پر حاضری دی۔ آپ اسی پرانے کوارٹر میں رہتے تھے جہاں میں تین برس پہلے ہر ہفتے آپ سے ملنے آتا تھا۔ میں اس وقت ایم فل کا مقالہ لکھ رہا تھا اور آپ سے مشورہ لیتا تھا۔ حسب معمول، آپ کی انتہائی کم گو بیوی نے دروازہ کھولا۔ اور حسب معمول اس نے ایک لفظ بھی کہے بغیر مجھے آپ کے اسٹڈی روم تک پہنچایا۔ لیکن یہاں ایک بات معمول کے خلاف تھی۔ آپ ڈیسک پر نہیں بلکہ فرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے ارد گرد کاغذ بکھرے ہوئے تھے۔ آپ نے سفید کرتا پائجامہ پہنا ہوا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ آپ نے گھر میں بھی ایک ہسپتال کے مریض کا لباس پہنا تھا۔ آپ کا منہ پوپلا تھا۔ آپ کے منہ سے بتیسی کیوں غائب تھی؟ آپ کے ہونٹ سکڑ گئے تھے اور آپ کا منہ ناک کے عین نیچے آیا تھا۔ آپ کے گالوں میں گڑھے پڑے تھے، آپ کا چہرہ اب عریاں اور بے بس تھا۔ پیارے استاد! آپ کی آنکھیں عینک سے محروم تھیں اور آپ کے بال چھوٹے تھے۔ آپ کی برفانی لہری دار زلفیں اب کہاں تھیں؟ وہ شاید علاج کے دوران جھڑ چکی تھیں۔ ان کی جگہ آپ کی کھوپڑی پر تھوڑی سفید گھاس اگ آئی تھی۔ وثیق صاحب، آپ اپنا رعب کھو چکے تھے۔ آپ ایک بڑے شہر کی یونیورسٹی کے انقلابی پروفیسر نہیں بلکہ ایک کچہری کے باہر بیٹھنے والے وثیقہ نویس معلوم ہو رہے تھے۔ آپ نے مجھے گزشتہ تین سالوں کی روداد سنائی۔ آپ اپنی تحقیق کے دوران میں سخت بیمار ہو گئے تھے۔ لیکن آپ نے تحقیق کا تمام کام سمیٹ لیا تھا اور اس کا لب لباب پیش کرنے کے لیے ایک کتاب تصنیف کر ڈالی تھی۔ ایک مشہور اور معتبر پبلشر یہ کتاب چھاپنے پر رضامند ہو گیا تھا۔ کتاب کے سرورق اور رائٹ اپ تیار تھے اور اس کی پروفس ٹائپ ہو چکی تھیں۔ اور آپ ان پروفس کو دیکھ ہی رہے تھے کہ بیماری نے آپ پر دوبارہ حملہ کیا۔ آپ کچھ مہینے ایک نامور ہسپتال میں زیر علاج رہے اور وہاں جب چھٹی ملی تو آپ نے چند ہفتے سمندر کے ساحل پر ایک صحت افزا مقام پر آرام کیا۔ آپ چند ہفتوں میں رو بہ صحت ہو گئے۔ اور ڈاکٹر آپ کے اچانک افاقے پر حیران رہ گئے۔ آپ کا افاقہ ایک معجزہ تھا۔ وہ آپ کے سلسلے میں بالکل ناامید ہو گئے تھے۔ آپ کا کہنا یہ تھا کہ آپ کے افاقے میں آپ کی کتاب کا بڑا عمل دخل تھا۔ آپ نے اس کی تکمیل اور اشاعت تک زندہ رہنے کا عزم کر لیا تھا اور آپ کی صحت نے خود ہی اس کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن کمزوری نے آپ سے پڑھنے اور لکھنے کی سکت سلب کی تھی۔ اس لیے آپ مجھ سے توقع رکھتے تھے کہ میں آپ کی جگہ کتاب کے بچے کھچے کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاؤں گا۔ آپ مدعا کی طرف آ گئے تھے۔ میں فطرتا کاہل ہوں اس لیے کاموں کا ذکر سنتے ہی میں چوکس ہو گیا اور میرا منہ سڑ گیا۔ آپ میرا منہ دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسے اور جب آپ ہنس رہے تھے تو آپ کی آنکھیں خود بخود میچ رہی تھیں اور آپ کے چہرے کی تمام جھریاں ابھر رہی تھیں۔ آپ کا حلیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا تھا اور آپ کا ہنستا چہرہ ایک دوزخی اور معتوب آدمی کے چہرے سے حیرت انگیز حد تک میل کھا رہا تھا۔ آپ نے جلدی جلدی ارد گرد بکھرے ہوئے کاغذوں کو سمیٹا اور ایک فائل میں ڈالا۔ اور آپ نے یہ کہتے ہوئے میرے ہاتھ میں فائل دی کہ یہ آپ کی کتاب کے پروفس ہیں جو بہت دنوں سے آپ کے پاس پڑی ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ اب آپ ان کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ انہی کی وجہ سے آپ کی کتاب کی اشاعت التوا کا شکار تھی۔ آپ نے گزارش کی کہ میں پروفس کو جلدی دیکھوں اور جلدی واپس کر دوں تاکہ آپ ان کو پبلشر کے حوالے کر دیں۔ اسی طرح کتاب کا معاملہ جلدی رفع دفع ہو گا۔
ظاہر ہے کہ استاد شاگرد کا جو پر احترام رشتہ ہمارے درمیان برسوں سے قائم تھا وہ مجھے کسی صورت میں آپ کی گزارش ٹالنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ پیارے استاد! اب آپ سے کیا چھپاؤں، آپ مجھے شروع سے ایک سیدھا سادہ لڑکا سمجھتے رہے لیکن میں فقط ایک شرابی ہوں۔ یونیورسٹی کی بناوٹ سے بھرپور فضا اور ہاسٹل کا مردانہ اور بدبودار ماحول مجھ پر بہت گراں گزرتے ہیں۔ چنانچہ میں ان کو جھیلنے کے لیے روزانہ دارو پیتا ہوں۔ اس دن جب میں تین برس کے بعد آپ کے پاس آیا تھا تو میں آپ کا حال زار دیکھ کر اس قدر غمگین ہو گیا تھا کہ میں ہاسٹل لوٹنے سے پہلے ٹھیکے پر رکا تھا۔ اور میں نے وہاں رم کی ایک بڑی بوتل خریدی تھی۔ پھر میں نے ہاسٹل کے کمرے میں گھس کر جلدی جلدی آپ کی فائل میز کی دراز میں رکھی اور فور اً ہی کمرے سے باہر جا کر تین شرابی دوستوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ ہم رم کی بوتل پینے کے لیے کیمپس کے متروکہ تالاب کی سمت روانہ ہو گئے۔ ہم نے تالاب کے نیچے الاؤ جلایا۔ اس کے گردا گرد نشستیں سنبھالیں اور بوتل کھولی۔ رم پیتے پیتے ہمیں بہت چڑھ گئی اور یکایک ایک چمگادڑ ہمارے سروں پر بل کھانے لگی اور میں دہل گیا۔ اپنی سراب آگیں مدہوشی میں میں نے تصور کیا تھا کہ آپ کی فائل جاندار ہو گئی تھی۔ وہ میز کی دراز اور کمرے کے دروازے سے پھسلی تھی اور اب وہ ایک چمگادڑ کے بھیس میں مجھے اپنے بھولے ہوئے فریضے کی یاد دلانے کے لیے میرے سر پر چکرا رہی تھی۔ پیارے استاد! دس دن گزرے اور آپ کا ایک نیا خط موصول ہوا۔ آپ پروفس کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس دوران میں اپنی میز کا دراز ایک مرتبہ بھی نہیں کھولا تھا لیکن میں نے فی الفور آپ کو فون کیا اور فون پر تسلی دی کہ پروف ریڈنگ پوری ہو چکی ہے۔ اور وعدہ کیا کہ میں کل پروف لے کر آپ کے پاس آؤں گا۔ میں نے پروف ریڈنگ کے بارے میں یہ جھوٹ کیوں بولا تھا۔ شاید اس لیے کہ میں نے بار بار بزرگوں کی زبان سے دروغ مصلحت آمیز بہ از راستئ کہ فتنہ انگیز والی مثال سنی تھی اور آپ کی ڈانٹ دھتکار کو کسی فتنے سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ بہرحال اس مسرت آمیز جھوٹ نے مجھے آپ کی پروفس دیکھنے پر مجبور کیا۔ پروفس تین سو صفحوں پر محیط تھیں اور نامکمل تھیں۔ آخری چیپٹر کنکلوژن اور ببلوگرافی ان میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے۔ لیکن میں اس وقت کیا کر سکتا تھا۔ میرے پاس سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ کام فوراً شروع کرنا تھا۔ میں نے رات بھر پروفس دیکھیں اور جب اجالا جھانکنے لگا اور ہاسٹل کے غسل خانوں سے پائپوں اور نلکوں میں پانی بہنے کی آوازیں بلند ہوئیں تو میں آخری صفحہ دیکھ ہی رہا تھا۔ میں اپنا کام ختم کر کے سو گیا۔ شام کے وقت میں حسب وعدہ آپ کے دولت کدے پر حاضر ہوا اور حسب وعدہ میرے ہاتھ میں آپ کی لاڈلی سی فائل تھی۔ آج آپ فرش پر نہیں بلکہ پلنگ پر پائے جا رہے تھے۔ آپ کے کپڑے سفید کے سفید تھے اور آپ کا منہ پوپلے کا پوپلا تھا۔ آپ کی شلوار پر زرد دھبے کثرت سے موجود تھے۔ ان دھبوں کا میں نے اس لال پلاسٹک کے لوٹے سے رشتہ جوڑا جو پلنگ کے نیچے نمایاں تھا۔ اب آپ چلنے سے عاجز تھے، اور گرتے پڑتے اس لوٹے میں پیشاب کرتے تھے۔ مجھے آپ سے پروفس کے حوالے سے کچھ سوال پوچھنے تھے، لیکن آپ عجلت میں تھے۔ آپ کے پاس کسی بھی سوال کا جواب دینے کی فرصت نہیں تھی۔ آپ نے میرے سامنے سرہانے کی میز کا دراز کھولا، اور اس کے اندر سے ایک فائل برآمد کی۔ پھر آپ نے مجھے یہ فائل پکڑائی اور فرمایا کہ آپ پچھلی مرتبہ مجھے کتاب کے آخری ڈیڑھ سو صفحوں کے پروفس دینا بھول گئے تھے۔ سبحان اللہ! آپ کی کتاب کافی ضخیم ہونے والی تھی۔ آپ نے یقینا اس کے صفحوں میں اپنی ساری ہی دریافت کردہ معلومات مقید کی تھیں۔ آپ نے مجھے پہلی فائل سنبھال کر رکھنے کو کہا اور دوسری فائل دیکھنے کے بعد دونوں فائلوں کو ملانے اور بہ نفس نفیس پبلشر کو پہنچانے کی ہدایت کی۔ آپ نے ایک لرزاں ہاتھ سے ایک پرچی پر پبلشر کا فون نمبر لکھا اور پرچی میرے ہاتھ میں تھما دی۔ پھر آپ نے مجھ سے معذرت کی۔ آپ تھکن سے چور تھے، آپ سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ آپ کو آرام کی ضرورت تھی۔ میں پانی اور چائے پیے بغیر آپ کے گھر سے رخصت ہو گیا۔ پیارے استاد! اب میں بس میں سوار تھا اور ہاسٹل کی طرف واپس جا رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی اور آپ کی دونوں فائلیں میری ہمسفر تھیں۔ میں نے انہیں اپنی گود میں رکھا تھا۔ اس وقت میرا دل غصے سے بھرا تھا۔ میں آپ کی ذات گرامی سے سخت نالاں تھا۔ میں بنیادی طور پر آپ کا شاگرد تھا۔ آپ بار بار مجھے اپنا منشی بنانے پر کیوں مصر تھے۔ آپ اپنے آپ کو کیا سمجھتے تھے۔
آج آپ نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی۔ نہ آپ نے خیریت پوچھی تھی، نہ چائے یا پانی پلانا گوارا کیا تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ آپ نے میری مصروفیت کا حال دریافت کیے بغیر ڈیڑھ سو صفحوں کا بوجھ میرے سر پر تھونپ دیا تھا۔ آپ اپنی بزرگی اور میری خوردگی، اپنے گزشتہ احسانات اور میری احسان مندی سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں بس کی کھڑکی کھولوں اور آپ کی دونوں فائلیں باہر پھینک دوں۔ میں مجسم غضب تھا۔ بس شہر کی سڑکوں پر دوڑے جا رہی تھی، لیکن بس کے مسافر اپنی سواری کی زود رفتاری سے سراسر بیگانہ تھے۔ بیچارے سب سو رہے تھے۔ میرے علاوہ اس بس میں درجن بھر مزدور تھے جو نیند میں تھے۔ وہ دیہاڑی کما کر اپنی کچی آبادی کی طرف لوٹ رہے تھے۔ میں ان کے خوابیدہ چہروں کو دیکھ رہا تھا۔ سب بڈھے سے تھے، سب کے منہ پوپلے سے تھے، سب بیمار سے تھے۔ اور ان کو دیکھتے دیکھتے اچانک میرے ذہن کے پردے پر آپ کا چہرہ ابھرا۔ یہ سارے مسکین آپ کے دوزخی اور معتوب بھائی تھے۔ آپ اپنی شہرت اور ثروت کے باوجود ان کی طرح لعنت اور افلاس کا شکار تھے۔ عمر، جو زندگی کی سب سے بڑی دولت ہے، آپ کے ہاں مفقود تھی۔ موت ا س کنارے آپ کو تکے جا رہی تھی۔ مجھے آپ پر اچانک ترس آیا۔ میں اپنے غصے پر شرمندہ ہوا اور میرے ٹوٹے ہوئے دل نے آپ کو فوراً معاف کر دیا۔ لیکن جلدی ہی ایک تکلیف دہ سوچ نے مجھے جھنجھوڑا۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ چونکہ آپ کے اور موت کے درمیان خالی ایک کتاب کا فاصلہ تھا تو عین ممکن تھا کہ جونہی آپ کی کتاب چھپے گی، آپ موت کی گود میں جا بیٹھیں گے۔
چنانچہ میں اس کتاب کی تیاری میں آپ کے ساتھ جس قدر تعاون کر رہا تھا، مرنے میں بھی آپ کی اسی قدر مدد کر رہا تھا۔ میں انجانے میں Euthanasia کا مرتکب ہو رہا تھا۔ مجھے اچانک اس سوچ کی وجہ سے تھرتھراہٹ آ گئی۔ میرا جسم سر سے پیر تک کانپنے لگا۔ میرے تن کے حصاروں میں ایک شگاف پڑا تھا جس کے راستے ایک برفیلی سی ہوا میرے اندر آ رہی تھی۔ اس ہوا کو روکنے کے لیے آتش سیال بڑی مقدار میں درکار تھی۔ پیارے استاد! میں نے اس رات ہاسٹل واپس آ کرآپ کی دونوں فائلیں اپنی میز کی دراز میں رکھیں، پھر میں دارو پینے چلا گیا۔ آج رات ہماری محفل کیمپس کی پہاڑی پر جمی تھی اور پیتے پیتے ہمیں رات کے دو بج گئے۔ دوست مزید پینے پر بضد تھے لیکن میں اس منزل کو پہنچا تھا جہاں نشے کو نیند کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں۔ مجھے سو جانا تھا۔ میں نے اپنے ہمنشینوں سے اجازت چاہی اور ہاسٹل کی راہ لی۔ راستے میں ایک جنگل تھا۔ میں اس جنگل کے درختوں کو دیکھ کر ڈر گیا۔ یہ درخت طرح طرح کی مخلوقات سے مشابہہ تھے۔ کچھ درخت ڈائنوں کی طرح ٹیڑھے ترچھے تھے، کچھ ساہیوں کی طرح خاردار اور کچھ عفریتوں کی طرح اونچے۔ اور یکبارگی جیسے کسی جادو سے آپ کی پکار میرے کان میں آئی۔ میں ٹھٹھک گیا۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن ظاہر ہے کہ آپ اس جنگل میں حاضر نہیں تھے، سو میں نے قدم بڑھایا اور آپ کی پکار پھر سے میرے کان میں پڑی۔ میں نے دوبارہ گرد و نواح کا جائزہ لیا لیکن آپ پہلے کی طرح سے غائب تھے۔ سو مجھے سمجھ آیا یہ پکاریں باہر سے نہیں بلکہ میرے اندر سے آ رہی تھیں۔ میرے اندر سے آپ کی روح کو کاہلی اور نافرمانی کی بو آتی تھی۔ وہ اس لیے میرے قالب میں گھسی تھی اور اس نے میرے اندر ہی سے مجھے پکارا تھا۔ اس وقت پھر میرا نشہ ہرن ہوا اور میری کاہلی اور نافرمانی ہواؤں میں بہہ گئیں۔ میں نے قدم تیز کیے۔ میری میز کے دراز میں آپ کی دوسری فائل پڑی تھی جو کہ گھنٹوں سے میری توجہ اور محنت کی طلبگار تھی۔
پیارے استاد! میں نے کمرے میں آتے ہی دوسری فائل کی پروفس دیکھنی شروع کر دیں اور رات کا بقیہ حصہ اسی کام کی نذر ہو گیا۔ صبح کو میں نے آپ کے پبلشر کو فون کھڑکایا اور اس سے اسی دن شام کے وقت ملاقات طے کی۔ پھر میں سو گیا اور شام کو میں آپ کی دونوں فائلیں لے کر اس کے دفتر پر پہنچا۔ پبلشر ایک میٹنگ میں تھا۔ اس کی اسسٹنٹ نے جو ایک ادھیڑ عمر کی تلخ مزاج خاتون تھی، مجھے اپنے پاس بٹھایا۔ میں نے اس کو آپ کے پروف کی فائل پیش کی۔ اس نے اپنے چہرے پر سخت بیزاری کی کیفیت طاری کی اور ایک ٹھنڈی آہ بھرتے مجھ سے فائل لی اور ترنت مجھ سے یہ گلہ بھی کیا کہ یہ پروفس پورے چھ مہینے بعد واپس آئی تھیں اور غلط وقت پر آئی تھیں۔ تین کتابیں اس وقت یہاں تیاری کے مرحلے میں تھیں۔ پبلشنگ ہاؤس کا سارا عملہ ان کے کام میں مصروف تھا۔ آپ کو صبر کرنا تھا۔ آپ کی کتاب ان تینوں کے بعد شائع ہو گی۔ اور ویسے بھی آپ نے پروفس دیکھنے میں چھ مہینے کیسے لگائے تھے۔ یہ تو مشکل سے ایک ہفتے کا کام تھا۔ آپ پروفیشنل ہرگز نہیں تھے۔ اس بے درد چڑیل کو سمجھانا مجھ جیسے بزدل کے بس کا روگ نہیں تھا۔ مجھ میں اس کو آپ کی دن بہ دن بگڑتی صحت، آپ کی معذوری اور آپ کی عنقریب موت سے آگاہ کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ میں نے سر جھکا کر اس کے سارے گلے شکوے سنے اور موقع ملتے ہی راہ فرار اختیار کی۔
پیارے استاد! جب میں نے اس منحوس چڑیل سے ملنے کے بعد آپ کو کیمپس کے پی سی او سے فون کیا تو میں نے آپ کو یکے بعد دیگرے سچ اور ایک جھوٹ بول دیے۔ میں نے اولاً یہ بتایا کہ آپ کی کتاب فوری طور پر شائع نہیں ہو گی۔ اس کی اشاعت میں تاخیر متوقع تھی لیکن میں نے مزید براں کسی انجانی مصلحت کے تحت یہ کہا کہ میرے اندازے کے مطابق یہ تاخیر ہفتوں سے متجاوز نہیں ہو گی۔ استاد میری شیطانیت تو دیکھیے۔ اس وقت میرے پیارے استاد مجھے سو فیصد معلوم تھا کہ آپ کی کتاب آپ کی زندگی میں زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو گی۔ میں محض اپنی جھوٹی باتوں کے ذریعے آپ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا تھا۔
استاد مجھے آپ کو یہ نیا جھوٹ بولنے کے بعد اس قدر پشیمانی ہوئی کہ میں نے آپ سے رابطہ مکمل طور پر منقطع کیا۔ آپ سے ملنا کجا، میں نے ہفتوں آپ کا نمبر ملانے کی زحمت بھی نہیں کی۔ رات کو میں اپنی دوستوں کی معیت میں کیمپس کی ویران جگہوں پر متروکہ تالاب کے نیچے، جنگل کے درختوں کے تلے، پہاڑی کی چٹانوں پر یا گپھا کی تاریکیوں میں دارو پیتا تھا۔ دن کو میں اپنے ہاسٹل کے کمرے میں اونگھتا تھا۔ میں ہر وقت نشے یا نیند میں تھا اور میں نے اس اثنا میں ایک مرتبہ بھی آپ کو یاد نہیں کیا ۔ چند ہفتے اسی طرح کامل بے خودی میں گزرے پھر ایک رات جب ہماری محفل ہاسٹل کی چھت پر جمی تھی، میرے کان میں ایک بار پھر آپ کی پکار آئی ۔ میں چونک پڑا، پھر شرمندہ ہوا اور اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے میں نے دوستوں کو آپ کا قصہ سنایا۔ میں نے اپنی قصہ خوانی کے دوران آپ کی مستقل مزاجی اور بلند حوصلگی کی خوب داد دی اور اپنی غلط بیانی اور بزدلی کی زوردار الفاظ میں مذمت کی۔ دوست اپنی ترنگ میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے صبر اور خاموشی سے شراب کے گھونٹ پیتے پیتے شروع سے آخر تک میرا اقبالیہ بیان سنا۔ پھر جب میں چپ ہوا، ایک دوست نے ایک عجیب بے حسی سے پوچھا، یار کیا تم پروفیسر وثیق کے جنازے میں جاؤ گے؟ اور اس سوال نے میرے اندر ایک کہرام بپا کر دیا۔ میرے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین سرک رہی تھی۔ میری زبان گنگ سے دوچار ہو رہی تھی۔ پیارے استاد مانیے یا نہ مانیے لیکن اس وقت بھی جب یہ صاف ظاہر تھا کہ آپ جلد ہی ہم سے بچھڑنے والے تھے۔ تو میں آپ کو تابوت میں تصور کرنے پر بھی راضی نہیں تھا۔ آپ کی موت ناگزیر تھی۔ لیکن نہ جانے کیوں میرے دل و دماغ اس کا امکان بھی تسلیم نہیں کر سکتے تھے۔
پیارے استاد! بہت دنوں بعد آپ کی طرف سے ایک خط آیا۔ آپ ملنے کے مشتاق تھے اور مجھے پھر سے اپنے گھر پر بلا رہے تھے۔ میں نے آپ کو فون کیا اور آپ نے مجھے اپنی بیٹھی ہوئی آواز میں یہ کہا کہ میری یاد آپ کو بہت دنوں سے آ رہی ہے اور میں آپ کو بے حد عزیز ہوں۔ 'تمہیں پتہ ہے شروع سے میری بہت کم لوگوں سے بنتی ہے اور تم اس وقت وہ واحد آدمی ہو جس سے مجھے بات کرنا اچھا لگتا ہے۔' پیارے استاد جب آپ ان الفاظ میں مجھ پر اپنی محبت اور شفقت برسا رہے تھے تو آپ کے فرشتوں کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ اس ناچیز نے آپ کو کئی طفل تسلیاں دی تھیں اور کئی جھوٹ بولے تھے۔ خیر، آپ نے کلام کا سلسلہ آگے بڑھایا: 'زیادہ تر لوگ مجھے پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ مجھے دہریہ سمجھتے ہیں کیونکہ انہوں نے مجھے کبھی نماز پڑھتے یا روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔ اور چونکہ ان لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ میں نے ہمیشہ خدا کے ساتھ بیگانگی برتی تو وہ
میرے مرنے کے بعد میرے لیے دعا نہیں کریں گے۔' پیارے استاد! لوگوں کی دعائیں آپ کے لیے کب سے معنی رکھنے لگی تھیں؟ تین برس پہلے آپ کی سرشت میں خدا ترسی کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ آپ اس وقت اعلانیہ طور پر دہریے تھے۔ آپ کے خیالات میں یہ ڈرامائی تبدیلی کیسے آئی تھی؟ یہ کایا پلٹ میری سمجھ سے باہر تھی۔ لیکن آخر میری سمجھ کی اوقات ہی کیا تھی؟ یہ شاید ایک قدرتی معاملہ تھا۔ موت کے نواح میں آ کر بڑے بڑے منکران خدا کا دہریہ پن بھی گہنا جاتا ہے۔ انہی کی طرح زندگی کے آخری ایام میں خدا کا خوف آپ پر حاوی ہوا تھا۔ اور چونکہ آپ کو یقین تھا کہ آپ اپنے رب کی بارگاہ میں جلدی حاضر ہونے والے تھے۔ آپ اپنے جاننے والوں کی دعاؤں کے محتاج ہو چکے تھے۔ ان دعاؤں کی وجہ سے آخر پروردگار دو عالم آپ کی غلطیوں اور گناہوں کو درگزر کر سکتا تھا۔
پیارے استاد، میں اگلے روز آپ کے مسکن پر پہنچا اور جونہی میں آپ کے کمرے میں داخل ہوا میری نظر آپ کے پلنگ کے نیچے کے لوٹے پھر ٹھٹھکی، جو پیشاب سے لبالب بھرا تھا۔ آپ پلنگ پر پڑے تھے اور میرے آتے ہی آپ نے سر اٹھایا اور پبلشر کی شکایت کر ڈالی۔ 'کتاب اب تک نہیں چھپی ہے۔ کمبخت نے ضرورت سے زیادہ دیر کر دی ہے۔ پروفس کا کام تو ہو گیا ہے۔ کور بھی ڈیزائن ہو چکا تھا۔ رائٹ اپ بھی فائنل ہو گیا ہے۔ اب اس خبیث کو کس چیز کا انتظار ہے؟ میری موت کا؟' میں آپ کی باتیں خاموشی سے سن رہا تھا اور اپنے آپ کو کوستا جا رہا تھا۔ میرے تازہ مصلحت آمیز جھوٹ نے آپ کی خوابیدہ امیدوں کو بیدار کیا تھا۔ اور یہ امیدیں چونکہ پوری نہیں ہوئی تھیں، اس لیے غصے سے آپ کا ناریل چٹخ گیا تھا۔ میں شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ آپ کا پبلشر بے قصور تھا۔ میں ہی آپ کے غصے کا اصلی سزاوار تھا۔ پھر آپ ایک دم ٹھنڈے ہو گئے اور آپ نے تھوڑے توقف کے بعد کہا 'بھئی، انسان اسی طرح ہوتے ہیں۔ وعدہ نبھانا انہیں نہیں آتا۔ وہ سست اور لاپروا ہیں۔ تمہیں معلوم ہے؟ مجھے اکثر دوپہر کے وقت کسی پرانے دوست کی کال آتی ہے، جو کہ کہتا ہے کہ وہ ایک یا دو گھنٹے میں میری عیادت کو آئے گا۔ لیکن وہ سالا نہیں آتا، اور دوبارہ کال بھی نہیں کرتا۔ میں سارا دن لیٹے لیٹے اس قسم کے لوگوں کا انتظار کرتا ہوں۔ اور میں جو سبکی محسوس کرتا ہوں وہ بیان سے باہر ہے۔' آپ نے یہ کہہ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ 'وثیق صاحب، آپ کے دوست ایسا کیوں کرتے ہیں؟' میں نے بچوں کی سی معصومیت سے استفسار کیا۔ اور جواب میں ایک فتویٰ آپ کی زبان مبارک سے نکلا۔ 'بھئی، جہاں گڑ وہاں مکھیاں، میرے میں کیا گڑ رہ گیا ہے؟'
پیارے استاد، آپ نے یہ الفاظ کہے ہی تھے کہ آپ کی بیٹی، اس کا میاں اور ان کا چھوٹا سا بیٹا آپ کے کمرے میں داخل ہوئے ، آپ کی بیٹی آپ سے بغل گیر ہوئی اور آپ کے داماد نے ایک شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ پیشانی کو چھو کر' آداب عرض انکل' کہا۔ آپ کے نواسے نے آپ سے لپٹنا چاہا لیکن اس کی ماں نے اس کو روکا 'بابا بیمار ہیں۔ ان کو تنگ نہ کیجیے!' اس عورت کو شاید یہ تشویش تھی کہ آپ کے جراثیم اس کے لطیف اور معصوم جسم کی طرف کوچ کریں گے۔ بہرحال آپ کے نواسے کو بیٹھک میں ٹی وی کے سامنے بٹھایا گیا، اور کمرے میں میرے اور آپ کے داماد کے سامنے، جو کچھ فاصلے پر کھڑا ہو کر آپ کو گھور رہا تھا، آپ کی بیٹی آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو دلاسے دیتی چلی گئی: 'ابو آپ کے سسٹم کو ری جنریٹ ہونے میں ٹائم لگے گا۔چھوٹی موٹی ڈسیزز کا امپیکٹ آپ پر پہلے سے زیادہ ہو گا۔ لیکن آپ کسی نہ کسی ٹائم ریکور ہو جائیں گے۔' میں اس تماشے میں
بالکل مگن تھا اور اس تماش بینی میں مجھے وقت کا پتہ نہیں چلا۔ لمحے گزرتے گئے اور اچانک مجھے احساس ہوا کہ میرا یہاں بیٹھے رہنا آداب کے خلاف تھا۔ میں آپ کے اہل خانہ میں بیٹھنے کا مجاز ہی نہیں تھا۔ آخر میں آپ کا شاگرد تھا، آپ کا بیٹا، نواسا یا داماد نہیں۔ سو میں نے رخصت لی اور آپ کے داماد نے مجھے گھر کی دہلیز تک پہنچا کر ایک سریلی آواز میں 'بائے بائے ڈیئر، ہیو اے گڈ ون!' کہا۔ میں نے بس سٹاپ کی طرف قدم بڑھایا اور بس میں سوار ہو گیا۔ اور کیمپس پہنچنے تک، پورے راستے میں اپنے آپ کو گالیاں دیتا رہا۔ جب میں ایک غیر آدمی ہی تھا، میں نے آپ کے اہل خانہ کے آنے کے بعد آپ کے کمرے میں زبردستی بیٹھے رہنے پر کیوں اصرار کیا تھا؟
پیارے استاد! اس رات پھر تالاب کے نیچے دارو بازوں کی محفل آراستہ ہو گئی اور تالاب کے نیچے بہت دارو پی گئی۔ آخر کار بوتلیں ختم ہو گئیں اور پیاس ہمیں ستانے لگی۔ شراب تو ختم ہو گئی تھی۔ اس وقت ہمیں پانی ہی مل سکتا تھا۔ لیکن پانی کہاں سے حاصل ہو سکتا تھا؟ جو پانی ہم پلاسٹک کی بوتلوں میں بھر کر ہاسٹل سے لائے تھے وہ دارو کے ساتھ ملا کر پیا گیا تھا۔ پانی کی تلاش میں ہم نے چاروں اور نگاہیں دوڑائیں، اور اچانک مجھے کچھ فاصلے پر ایک لوہے کی بالٹی نظر آئی، جو اپنے مقام پر برسوں سے زنگ کھانے میں مصروف تھی۔ اس میں کئی برساتوں کا پانی جمع تھا۔ میں بالٹی کے قریب آیا۔ اندر مٹیالا اور بدبودار پانی جمع تھا۔ میں نے اپنا منہ اس غلیظ پانی کی سطح تک جھکایا اور پانی پینے لگ پڑا۔ میری طبعیت فوراً ہی متلانے لگی۔ مجھے مسلسل قے آئی اور مجھے یہ وہم ہوا کہ میں نے اس لاوارث بالٹی سے نہیں بلکہ آپ کے مخصوص لوٹے سے پانی پیا ہے۔ آپ کی غضب ناک روح نے شاید ہی اسی طرح میری بزدلی اور مسلسل غلط بیانی کا بدلہ چکانے کے لیے یہ انوکھی سی ترکیب آزمائی تھی۔استاد، آپ کا ایک نیا خط مجھے موصول ہوا۔ جس میں آپ نے مجھے آخری مرتبہ ملنے کو لکھا تھا۔ میں اسی دن شام کے وقت آپ کے ہاں پہنچا۔ آپ کی بیوی نے حسب معمول دروازہ کھولا اور مجھے آپ کے کمرے تک پہنچایا۔ اب آپ تکیے سے سر اٹھانے کے قابل نہیں تھے اور آپ کی آواز اس قدر ہلکی تھی کہ مجھے اپنا کان آپ کے منہ کے قریب لانا پڑا۔ اب یوں لگ رہا تھا کہ آپ ہمت چھوڑ گئے تھے اور محض انتظار میں تھے۔ موت نے آپ کو اٹھانے کے لیے اس کنارے سے اپنی مخصوص کشتی بھیجی تھی۔ فرشتۂ اجل کشتی کو کھے رہا تھا۔ چپوؤں کی مدہم آواز آپ کے دل کو خوب بہلا رہی تھی، اور ایک لوری کی مانند آپ کو سلا رہی تھی۔ آپ اسی وجہ سے بار بار آنکھیں موند رہے تھے۔ لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ اس حالت میں بھی کتاب آپ سے نہیں بھولی تھی۔ آپ نے دھیرے دھیرے مجھے کہا: 'دیکھو میاں، میں نے اپنی زمینیں بیچ بیچ کر اپنی عمر کو توسیع دی۔ میں نے کتاب کے چھپنے تک اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن بے سود۔ اب میرے پاس وقت نہیں رہا۔' پھر آپ نے چپ سادھ لی۔ آپ انتہائی بیزار تھے۔ سو میں نے فضا پر چھائے ہوئے حزیں سکوت کو توڑنے کے لیے ٹوئن ٹاور کا ذکر چھیڑا۔ غالبا ایک ہفتہ پہلے دہشتگردوں نے ان پر حملہ کیا تھا۔ میں نے اس ہیبت ناک واقعہ کے متعلق آپ کی رائے دریافت کی۔ آپ نے بڑے اعتماد سے فرمایا: 'ان لوگوں کو رات کے وقت یہ کام کرنا چاہیے تھا۔' میں سٹپٹایا، لیکن چپ چاپ رہا۔ میں تعجب سے آپ کا منہ دیکھ رہا تھا۔ یہ نیا فتویٰ دینے کے بعد آپ نے آنکھیں بند کی تھیں، اور آپ اونگھنے لگے تھے۔ میں دبے پاؤں آپ کے سرہانے سے رخصت ہو گیا۔
پیارے استاد! اس ملاقات کے بعد چند دن گزرے اور میں نے آپ کے خط کا انتظار کیے بغیر خود سے آپ کا نمبر ملایا۔ مجھے آپ سے ملنے کی شدید تمنا تھی۔ کیونکہ ہماری آخری گفتگو نے مجھے ترد د میں ڈالا تھا۔ دراصل ٹوئن ٹاورز کے حملے کے ضمن میں آپ نے جو فتویٰ دیا تھا وہ اس وقت سے مجھے تنگ کر رہا تھا۔ اور میں بار بار یہ سوچ رہا تھا کہ 'ان لوگوں کو رات کے وقت یہ کام کرنا چاہیے تھا' کہنے میں آپ کا مقصد کیا تھا؟ کیا آپ حملہ آوروں کے ذہنی یا سیاسی حامی تھے؟ یا فقط فقرے بازی کا شوق پورا کر رہے تھے؟ )آپ کی فقرے بازی کے سیاہ زاویے ویسے بھی مشہور زمانہ تھے( میں آپ سے وضاحت چاہ رہا تھا۔پھر آپ سے ملنا بھی اسی لیے ضروری تھا کہ ضمیر کے کانٹے مجھے بار بار چبھ رہے تھے اور میں آپ سے ان سارے چھوٹے موٹے جھوٹوں کی معافی مانگنے کے لیے بے چین تھا، جنہوں نے آپ کی توقعات کو انگیزا تھا۔ اور ان توقعات کے ذریعے آپ کے دل کو آزار پہنچایا تھا۔ لیکن اس وقت آپ کی بیوی نے آپ کی جگہ ریسیور اٹھایا، اور اپنی سپاٹ آواز میں مجھے بتایا کہ آپ کی طبعیت بہت ہی خراب تھی، اور آپ مجھ سے نہیں مل سکتےتھے۔ پھر اس نے ریسیور رکھا، اور مجھے سمجھ آیا کہ نہ آپ کی وضاحت نہ آپ کی معافی میرے نصیب میں لکھی تھی۔ مجھے ایک بری خبر سننے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے تھا۔ اور یہ بری خبر بالآخر آٹھ دنوں کے بعد سننے میں آئی۔ ہوا یوں کہ ہاسٹل کے فون پر آپ کی بیٹی کی کال آئی۔ میرا نمبر شاید اس کو آپ کی ڈائری سے ملا تھا۔ اس نے مجھے آگاہ کیا کہ آپ پانچ روز قبل تیس ستمبر کو صبح آٹھ بجے فوت ہو گئے تھے۔ آپ کی میت کو اسی دن سپرد خاک کیا گیا تھا۔ آپ کے گھر والے صدمے میں تھے۔ اسی لیے انہیں آپ کے دوستوں اور شاگردوں کو مطلع کرنا یاد نہیں رہا تھا۔ اب آپ کی بیٹی کو کچھ ہوش آیا تھا اور اس نے میرے ہاسٹل کا نمبر ملایا تھا۔ میں نے آپ کی بیٹی کو پرسہ دیا اور مطلع کرنے کا شکریہ ادا کیا۔ ہم دونوں نے بیک وقت فون بند کیا۔
پیارے استاد! آپ کی وفات کی خبر سن کر مجھے ایک انوکھا قرار آ گیا۔۔۔ یہ جان کر کہ آپ کا بیمار تن آرام میں تھا اور آپ کی بے تاب روح سکون میں تھی۔ میرے دل کو کافی چین آیا تھا۔۔۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ کی موت کا نیزہ میرے سینے میں اترا اور جب نیزے کی انی میرے سینے کے بیچوں بیچ جا پہنچی، تو میرے اندرون میں ایک سوگوار سا خلا پیدا ہوا اور یہ خلا ہفتوں تک میرے سینے میں اژدہے کی طرح منہ کھولے رہا۔اب دیکھیے پیارے استاد! آج مجھے آپ کی کتاب کی پہلی کاپی ملی ہے اور اس خوشی میں میں اپنے ہاسٹل کے کمرے میں چند دوستوں کے ساتھ دارو پی رہا ہوں۔ اس وقت میرے سسٹم پر 'سنوپ ڈوگ' کا گانا بج رہا ہے۔ 'سنوپ ڈوگ' کے حرامی بول سارے کمرے میں اچھل کود رہے ہیں، اور ہم پر وجد طاری کر رہے ہیں۔ ہم سب اپنے اپنے انداز میں اپنی سرمستی کی غمازی کر رہے ہیں۔ کوئی گنگنا رہا ہے، کوئی ہاتھ لہرا رہا ہے، کوئی پاؤں چلا رہا ہے، کوئی سر ہلا رہا ہے۔ 'بیماری'، 'وفات'، 'صدمہ' اور 'سوگ' جیسے الفاظ اس وقت ہمارے لیے بالکل بے معنی ہیں۔۔۔ اور ہم اچانک رک رہے ہیں، ہمارے کان کھڑے ہو رہے ہیں۔ ہم سانس تھام رہے ہیں۔۔۔ گویا ہمیں خبر ہوئی ہے کہ ایک بڑا سا خطرہ سر پر آ رہا ہے۔ ایک خوفناک سی گرج اطراف و جوانب میں سنی جا سکتی ہے، جو لمحہ بہ لمحہ زور پکڑتی جا رہی ہے۔ یہ گرج یقین ا ایک نئے طوفا ن نوح کی نقیب ہے۔ ہم شرابیوں پر خدا کا قہر اترنے کو ہے۔۔۔ لیکن نہیں! ایسا کچھ بھی نہیں! نیا طوفان نوح اپنے وقت پر آئے گا۔ فی الحال ایک طیارہ آسمان میں پرواز کر رہا ہے۔ وہ پاس کے ہوائی اڈے پر اترنے کو ہے۔ وہ اس وقت بہت نیچے ہے اور ہمیں اپنے نشے میں یہ اندیشہ ہو رہا ہے کہ وہ ہمارے ہاسٹل کی عمارات سے ٹکرا جائے گا۔ ہم سنتے سنتے دم سادھے بیٹھے ہیں اور گھڑیاں بیت رہی ہیں، اور بیتے جا رہی ہیں۔ اور جب ہمیں بھروسا ہو رہا ہے کہ طیارہ پوری طرح اترا ہے تو ہم ایک بڑی سی اجتماعی سانس لے رہے ہیں۔ مجھے تو اس موقع پر ٹوئن ٹاور کی یاد آئی اور آپ کا مبہم سا فتویٰ بھی یاد آیا، اور آپ کے فتوے کے ساتھ آپ کی کتاب، آپ کا کوارٹر، آپ کا پلنگ، آپ کا لوٹا اور آپ کی آواز میرے حافظے کی دہلیز پر حاضر ہوئے۔ لیکن یہ ساری یادیں زیادہ دیر حافظے کی مہمان نہیں رہیں۔ وہ چند لمحوں میں بالکل اس طیارے کی طرح معدوم ہو گئیں، جس کی آواز نے ہمیں کچھ دیر پہلے اتنا دہلایا تھا۔۔۔۔ اب میں اپنا گلاس دوبارہ بھرنے لگا ہوں۔ اور کمرے کے بیچ کھڑا ہو کر آپ کا جا م صحت تجویز کرنے لگا ہوں۔ کمرے میں موجود سب ہم نشین میرے ساتھ اپنے گلاس خالی کر رہے ہیں، اور ہم سب اپنے گلاس خالی کر کے خاراشگاف قہقہے لگا رہے ہیں۔ ہم آپ کی یاد مناتے مناتے دیر تک رات کے سیاہ ساگر میں اپنے وحشی قہقہے انڈیلتے رہیں گے۔__
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں