پیر، 5 اکتوبر، 2015

ہانس بورلی کی نظمیں

ہانس بورلی ۱۹۱۸ء میں ناروے کے جنوب مشرقی دیہاتی علاقے ہڈمارک(Hedmark) میں پیدا ہوا۔ اس کی زندگی دو پیشوں میں بٹی رہی۔ سارا دن وہ نا رویجین جنگلوں میں بطور لکڑہارے کے لکڑیاں کاٹتاجب کہ رات کو بطور شاعر زندہ ہو جاتا۔ہانس بورلی ناروے کے جدید نمائندہ شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے ۱۱۰۰ سے زائد نظمیں لکھیںجن میں جنگل کی گہری تنہائی، مٹی کے مزاج، کثیر رنگ آسمان،طویل برفانی موسم، پرندوں کی پھڑپھڑاتی آوازیں ،دو عالمی جنگوں میں پیدا ہونے والی انسانی بے قدری اور افق در افق پھیلی سورج کی ست رنگی روشنی ایک ساتھ دھڑکتی محسوس ہوتی ہیں۔ اردو شاعری میں زندگی کا یہ رنگ اس شدت کے ساتھ موجود نہیں جو ہمیں ہانس بورلی کے ہاں نظر آتا ہے۔ یہاں اس کی ترجمہ شدہ چند نظمیں پیش کی جا رہی ہیں ۔

پہاڑی جنگل میں خزاں کی ایک رات

خود َرو پھولوں سے ڈھکی ویران زمینوں پر
فِرو ہوتی ہوا بھنبھناتی ہوئی گزرتی ہے
صنوبر کی پتوں بھری ٹہنیاں ہلکی ہلکی سی لہراتی ہیں
زمین اُوپر اُٹھتی ہوئی
ہاں۔۔ آسمان تک اوپر اٹھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے
اور اچانک ساکت ہو جاتی ہے
جیسے ایک لفٹ اُوپری منزل پر رُکے
تو تم جبلی طور پر خود کو سہارنے کے لیے
ایک قدم پیچھے کی سمت اٹھاتے ہو

ہر چیز کانوں کے پردے چیرتی
اس خاموشی میں ڈوب جاتی ہے

یہ رات بجھی ہوئی موم بتی کی بو دیتی ہے
کیا تم پہلے سے یہاں ہو؟
کیا میں ستاروں کی روشنی پرساز و سامان کے بغیر اتروں گا؟
اپنے سینے میں رکھے فقط ایک دل کے ساتھ!
اس بے قرار دل کے ساتھ
جو سیاہ خون سے بھرا ہوا ہے!
***

فاصلہ

(۱)

بہار کی شام تلے کھڑا
جنگلی پرندوں کی پروازوں کے سائے میں آسمان دیکھ رہا ہوں

کیسا عجیب ہے!
کہ سب سے بڑا ستارہ
سب سے چھوٹی چیز دکھائی دیتا ہے
جسے بانس کے پتے سے چھپایا جا سکتا ہے

(۲)

یہ فاصلہ ہے
جو ابدیت کو قابل ِ برداشت بنا دیتا ہے
اور ایک معمولی سی چیز
جو ہمارے قریب ہوتی ہے
بہت بڑا سایہ بن جاتی ہے
***

نرم گھا س میں سرگوشیاں

زندگی ہمیشہ
موت کے ہم راہ ہانپتی ہوئی دوڑ نہیں ہوتی

زندگی فقظ
حقیر مقاصد کی طرف دس ہزار مشقت بھرے قدم نہیں

نہیں ، زندگی بہت وسیع ہوتی ہے
نرم گھاس میں سرگوشیاں بن جانے کے لئے

زندگی بہت وسیع ہوتی ہے
کچھ لمحے زندگی اور موت کو بھول جانے کے لیے

لیکن تمام مصروف لوگ
سنہرے بید سے بنے اپنے کھانے کے کمروں میں
تنخواہی لفافوںاور گھڑیوںکے ساتھ
ایک ایک لمحے کے بخیل ہوتے ہیں
اُن کے دل کی صدائیں
لوہے اور مشینوں کے شور میں ڈوب جاتی ہیں

لیکن جنوبی ہواؤں میں نرم گھاس
سرگوشیوں میں گیت گنگناتی رہتی ہے
جنہیں اُن کے دل فیکٹریوں کے فرش پہ یاد کرتے ہیں

تنہا پرندے
سورج کی روشنی میں تیرتے رہتے ہیں
اور تیرتے ہوئے خوشی میں گانے لگتے ہیں
***

کُونج کی چیخ

بہت دور، کہیں اُجاڑ جنگلوں میں
ایک کُونج چیختی ہے

اُس لمحے، بہت اُداس لہجے میں
جس طرح پہلی برف باری میں دن ڈوبتا ہے
2ایک کُونج نہایت سرد اور ناگوار جنگلی آواز میں چیختی ہے
جیسے اُس کے گلے میں
کوئی بُجھا ہوانوکیلا ستارہ جم گیا ہے

مجھے معلوم ہے
میرے اندر یہ چیخ
راستے میں گرے اُس زخمی پرندے کے لئے ہمیشہ گونجتی رہے گی
جو میرے وجود کے بھٹکے ہوئے بے راستہ بیانانوںمیں رہتا ہے
***

خراب موسم مجھے اچھا لگتا ہے

خراب موسم مجھے اچھا لگتا ہے
جیسے خزاں میں نہ تھمنے والی بارش
یا کرسمس کے دن گھنی برف باری
یہ میرے اندر کسی گرد آلود ، جمی ہوئی چیز کو آزاد کر دیتا ہے
اور میری تشفّی بنتا ہے

گھاس کے جھونپڑے میں لیٹے ہوئے
بارش بید کی بنی چھت بجانے لگتی ہے
اور جنگل دُھند میں تیرنے لگتا ہے
مجھے یہ منظر ذہن کی بنجر زمین پر پھیلے طویل جمود کے بعد
پھُوٹ پھُوٹ کر رونے جیسا محسوس ہوتا ہے
کبھی اِسے میںدلدلی زمینوں پر
برفانی جوتوں میں پھسلنے جیسا محسوس کرتا ہوں
جب جنوری کے دِنوں میں برف کے گالے
ہوا میں شراروں کی طرح گرتے ہیں
اور دنیا سفید سرگوشیوں کے ساتھ
آسمان پرڈوبنے لگتی ہے

تب تـم پہلی بار مکمل تنہا ہوتے ہو
اتنے تنہا کہ تمہارے گزر جانے کے بعد
تمہارے جوتوں کے نشان تک مِٹ جاتے ہیں

ہاں! خراب موسم مجھے اچھا لگتا ہے
لیکن خزاں میں پرندوں کی پرواز کا منظر
مجھے غم آلود کر دیتا ہے

میں اکثر بلندی پر کھڑا ہو جاتا ہوں
جب کُونجیںجنوبی سمت اُڑان بھرتی ہیں
اور سورج اُن کے بے کیف پروں تلے ہوتا ہے
تب افسردگی میں ڈوبے ہوئے
میں جان لیتا ہوں
کہ خراب موسم مجھے اچھا لگتا ہے
کیونکہ یہ بھی یادوں کی طرح اُداس ہوتا ہے
***

سفید بوجھ

اِس ڈوبی ہوئی گھنی رات میں درخت
تازہ گری برف تلے
راہبہ عورتوںکا لباس پہنے کھڑے ہیں
گہرے سناٹے میں لپٹی ہر چیز خاموش ہو گئی ہے
شدید سردی میںستارے بنجر پن سے تڑخنے لگے ہیں
ٖصبر کر !
اے میری روح،صبر کر !
جنگل کے اس تن آوردرخت کی طرح
جو سفید بوجھ تلے ٹوٹنے تک آجاتا ہے
مگر جنگل کا دیوتا اسے سنبھال لیتا ہے
دھرتی کے اِس نقصان سے
کوئی اپنے قدموں پر قایم نہیں رہ سکتا
کہ بے نام غم کا سفید بوجھ ناقابل ِبرداشت ہوتاہے

یہ لُوسیا کی دیویوں پر
نہایت نفیس پروں سی ہلکی چیزوں کی مانند گرتا ہے
اور آہستہ آہستہ
زندگی کی ہر اُمید پر آسمان سے زیادہ بھاری ہو جاتا ہے

دیکھو!
اِس ڈوبی ہوئی گھنی رات میں
کیا چیزتازہ گری برف تلے کراہ رہی ہے !

سُنو!
شائد جنگل میں ایک درخت
اپنے سفید بوجھ سے ابھی ابھی ٹوٹ گیا ہے
***

لکڑہارا

آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔!
ہاں! شانت رہو
اور بس۔۔۔۔!
میں نے ابدیت کو نا پا ہے
خشک صنوبر کی
ساڑھے پانچ گز لمبی پیمائشی لکڑی سے
***

تنہائی

(۱)

میں شمالی پہاڑوں پر
ایک چیخ کاشت کرتا ہوں
جہاں آسمان لوہے کی مانند سخت اور گہرا ہوتا ہے

میں ایک چیخ کاشت کرتا ہوں
اور اپنے دبے ہوئے دکھوں کو دیکھتا ہوں
جو شمالی روشنیوں کی سرد وادیوں میں پھٹ جاتے ہیں
اور گُل ِ لالہ کی طرح کھل اٹھتے ہیں

(۲)

ستاروں کے بیچ
گہرے اندھیرے کی دُور تک پھیلی تنہائی میں
صرف اِنسانی دل ہمیشہ جڑے رہتے ہیں

جب شدید طوفان جنگل کو اکھاڑ پھینکتے ہیں
تو درختوں کی جڑیں زمیں میں
ایک دوسرے کو چھوتی اور کانپ اُٹھتی ہیں

ہاں ! مگر تنہائی۔۔۔
اِنسانی دلوں کی نامختتم رفاقت بن کر
ہمیشہ قائم رہتی ہے
***

وسعت بھرے جنگل

آدمی اپنے آپ میں ڈوب سکتا ہے
ایک بچہ رات کے گھنے جنگل میں
اندھیرے سے ڈر سکتا ہے
لیکن یقین کرو!!
یہ وسیع جنگل اِسے سہہ لیتا ہے

جب تمہاری سوچوں کے خطاپذیر انسانی عکس
ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتے ہیں
اور دلدل میں گرے پرندے کے پنجر کی طرح
اندھیرے اور زمین کا حصہ بن جاتے ہیں
یہ وسیع جنگل اِسے سہہ لیتا ہے
***
تعارف و ترجمہ: زاہد امروز

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *