ابتدا
منتخب نظم و نثر کے کتابی سلسلے کے طور پر سات مجموعے شائع کرنے کے بعد ’’آج‘‘ ایک باقاعدہ جریدے کی صورت میں اپنے سفر کی ابتدا کر رہا ہے۔ سرما، بہار، گرما اور خزاں کے شمارے بالترتیب دسمبر، مارچ، جون اور ستمبر میں شائع ہوا کریں گے۔
آج کی کتابوں کی روایت کے مطابق ہر شمارے میں منتخب اردو تحریروں کے علاوہ مختلف زبانوں اور علاقوں کے ادب کے ترجمے بھی شامل ہوں گے۔ اس شمارے کے مندرجات کی تفصیل آپ اگلے صفحات پر دیکھ سکتے ہیں۔
’’انتخاب‘‘ کے عنوان سے ایک گوشہ ہر بار کسی ایک مصنف یا موضوع کے تفصیلی مطالعے کے لیے مخصوص ہو گا۔ اس بار نیر مسعود کی نثری تحریروں اور نظم و نثر کے ترجموں کا انتخاب اس گوشے میں پیش کیا جا رہا ہے۔
’’آج‘‘ کی ابتدا اس اعتماد کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ پڑھنے والوں کے تعاون سے ایک اچھے ادبی جریدے کا جاری رہنا اب بھی ممکن ہے۔ یقین ہے کہ اسے اچھا بنانے اور جاری رکھنے میں آپ کا تعاون ہمیں حاصل رہے گا۔
— اجمل کمال
ترتیب
تارا شنکر بنر جی
جلسہ گھر
ستیہ جیت رے
جلسہ گھر کا پُرپیچ راستہ
اسد محمد خاں
نے ٹِو ھوسپی ٹالٹی برجِ خموشاں
محمد خالد اختر
کراچی کا تہذیبی مرقّع
ڈونلڈ بارتھیم
غبارہ
ولیم سیرویان
وہ آدمی جس کا دل پہاڑیوں میں رہ گیا
افضال احمد سید
استقبالیہ میں لگا ہوا آئینہ
لاوانیا کے قریب
مجھے ایک کاسنی پھول پسند تھا
ملک الشعرا نُبار اِسباریان کا ایک مطلع
ذی شان ساحل
سرمہ
مجرم
نسرین انجم بھٹی
چوہے
سعیدالدین
گاتا ہوا پتھر
نظم
محبت کرنے والے
نظم
نظم
ایک درخت کی دہشت
اندھا اور دوربین
چرواہے کا خواب
دوسرا باغی
جیتی ہوئی ہار
میرے خواب
چیونٹیاں
انتخاب
تعارف
نیر مسعود
وقفہ
مراسلہ
ساسانِ پنجم
جان عالم
فروغ فرخ زاد
آفتاب کی طرح
اندھیری راتوں میں
ہدیہ
بابا مقدم
پنجرے
تاراشنکر بنرجی
انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال
جلسہ گھر
بشومبھر رائے حسب معمول صبح تین بجے اٹھے اور چھت پر ٹہلنے لگے۔ ان کا بوڑھا خدمت گار اَننت تکیہ اور سیتل پاٹی لے آیا اور ان کے بیٹھنے کے لیے بچھا دی۔ پھر وہ ان کا حقہ لانے نیچے چلا گیا۔ بشومبھر رائے نے ایک بار اس کی طرف دیکھا لیکن بیٹھے نہیں، پہلے کی طرح سر جھکائے ٹہلتے رہے۔ کچھ ہی فاصلے پر رائے خاندان کے کالی کے مندر کے پاس سفید شفاف گنگا پتلے سے پاٹ میں بہہ رہی تھی۔
آسمان کے کونے میں صبح کا تارا سفید شعلے سا جل رہا تھا۔ نودولتیے گنگولی خاندان کے محل کی چھت پر بجلی کا بلب جیسے اس کی روشنی کا مقابلہ کرتا چمک رہا تھا۔ گنگولی ہاؤس کی چھت پر لگے گھڑیال نے تین بجائے۔ دو سو سال یہ گھڑیال رائے حویلی کی چھت پر بجتا رہا تھا۔ اب اس کی آواز وہاں سے نہیں اٹھتی تھی۔ اب بشومبھر رائے محض عادت کی بنا پر اور صبح کے تارے کے نمودار ہونے پر کبوتروں کی غٹرغوں سے جاگ اٹھتے تھے۔
صبح کی نرم رو ہوا میں لطیف سی خوشبو تھی۔ بہار اب حویلی میں اپنی آمد کا اعلان شان و شوکت سے نہ کرتی تھی، نہ رائے خاندان کے پاس اب اسے بھینٹ کرنے کو کچھ بچا تھا۔ پھول باڑی اجڑ چکی تھی۔ مالی رخصت ہو چکے تھے۔ کچھ پھول پودے باقی رہ گئے تھے— مچکندا، بوکل، ناگیشور، چمپا۔ یہ پودے بھی رائے خاندان کی طرح بے برگ و بار تھے۔ وہ اس شکستہ، وسیع اور پرانی حویلی کی طرح قدیم، اجاڑ اور کرم خوردہ ہو چکے تھے۔
اصطبل سے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی۔
اننت نے چلم لا کر حقے پر رکھی اور بولا، ’’حضور! ‘‘
بشومبھر رائے اپنے خیالات سے چونکے۔ ’’ہوں۔‘‘ وہ آہستہ قدموں سے چلتے ہوے آئے اور سیتل پاٹی پر بیٹھ گئے۔ اننت ان کے پاس حقے کی نال تھام کر کھڑا ہو گیا۔ نیچے گھوڑا پھر ہنہنایا۔ انھوں نے حقے کے دو تین ہلکے کش لیے اور بولے، ’’مچکندا میں پھول آنے لگے ہیں۔ اب سے کچھ پھول میرے شربت میں ڈال دیا کرنا۔‘‘
اننت سر کھجاتے ہوے بولا، ’’پتیاں ابھی پکی نہیں ہیں۔‘‘
اصطبل میں گھوڑا باربار بیتابی سے ہنہنا رہا تھا۔ بشومبھر رائے نے بیزاری سے ٹھنڈا سانس لیتے ہوے کہا، ’’کیا نِتَے بڑھاپے میں دیر سے اٹھنے لگا ہے؟ جاؤ اسے آواز دو۔ طوفان بےچین ہو رہا ہے۔ کیا تمھیں اس کی ہنہناہٹ سنائی نہیں دے رہی؟‘‘
طوفان رائے خاندان کے بڑے اصطبل میں باقی رہ جانے والا اکیلا گھوڑا تھا۔ پچیس سال پہلے وہ جوان اور پُرہمت بشومبھر رائے کی سواری کا گھوڑا تھا۔ ہر صبح منھ اندھیرے وہ طوفان پر سوار ہو کر باہر نکل جاتے۔ لیکن دو سال پہلے جب گاؤں گاؤں مہاجن گنگولیوں کی ملکیت کی منادی کرا دی گئی تھی، تب سے طوفان کی پشت بےسوار ہو گئی تھی۔ ایک روز ان کے منیم تاراپرسنّ نے ان سے کہا بھی تھا، ’’اتنی پرانی عادت چھوڑ دینے سے کہیں آپ کی صحت۔۔۔‘‘، لیکن پھر ان کی آنکھوں کی کیفیت دیکھ کر وہ اپنی بات پوری نہ کر سکا۔
بشومبھر رائے اس گھرانے کی ساتویں پشت میں تھے۔ اپنے جدِاعلیٰ کی ایک بات یاد آنے پر وہ اندھیرے میں مسکرائے، ’’لکشمی کو بس میں کرنے کے لیے علم کی دیوی سرسوتی کو راضی کرنا ضروری ہے۔ سیاہی سے کاغذ پر بنائی گئی زنجیریں اَٹوٹ ہوتی ہیں۔ حساب کتاب کی زنجیر ٹوٹنے نہ پائے، لکشمی کہیں نہیں جا سکتی۔‘‘ وہ نوابوں کے دربار میں مہتمم تھے۔ کاغذ، قلم، سیاہی، سب کچھ موجود تھا، لکشمی جا چکی تھی۔
دفتروں سے آگے داہنے ہاتھ پر گؤشالائیں اور بائیں ہاتھ پر اصطبل تھا۔ اَور آگے مندر تھا۔
بشومبھر رائے نے پکارا، ’’نتے! ‘‘
’’حضور!‘‘ مودّبانہ جواب آیا، جو طوفان کی ہنہناہٹ میں ڈوب گیا۔ دوسری طرف سے ہتھنی کی چنگھاڑ سنائی دی۔
وہ آگے بڑھ کر طوفان کے سامنے جا کھڑے ہوے۔ پیر پٹکتا طوفان بچوں کی طرح لاڈ کرنے لگا۔ اس کا چہرہ تھپتھپاتے ہوے وہ بولے، ’’بیٹا!‘‘ طوفان مالک کے ہاتھ پر منھ رگڑنے لگا۔ ادھر ہتھنی بھی بےتاب ہو رہی تھی اور چنگھاڑ چنگھاڑ کر زنجیریں تڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ رحمت مہاوت مالک کی آواز سن کر ہتھنی کے پاس آ کھڑا ہوا۔ ’’مالک، چھوٹی مالکن زنجیریں توڑ ڈالے گی،‘‘ اس نے نرم شکایتی لہجے میں کہا۔
ہتھنی چھوٹی مالکن کہلاتی تھی۔ وہ بشومبھر رائے کی ماں کے جہیز میں آئی تھی۔ شروع میں اسے موتی کہا جاتا تھا، لیکن ایک بار اُس کے مالک دھنیشور رائے جب شکار سے لوٹے تو اس کے دیوانے ہو چکے تھے کیونکہ اس نے ایک باگھ کو سونڈ میں جکڑ کر اور پیروں سے کچل کر مارڈالا تھا۔ اس فریفتگی کو دیکھ کر بشومبھر رائے کی ماں اسے ساتھن (سوکن) کہنے لگی تھیں۔ اس پر ان کے شوہر نے کہا، ’’بہت اچھا، آئندہ سے اسے بھی مالکن کہا جائے گا۔‘‘ بشومبھر رائے کی ماں بولیں، ’’نہیں،صرف مالکن نہیں، چھوٹی مالکن۔ یہ آپ کی دوسری بیوی ہے۔‘‘
رحمت کی بات سن کر وہ طوفان کو چھوڑ کر چھوٹی مالکن کے پاس چلے گئے۔ طوفان ان کے پیچھے غصے سے ہنہنانے لگا۔ بشومبھر رائے نے ہتھنی سے کہا، ’’کیسی ہو چھوٹی ماں؟‘‘ ہتھنی سونڈ موڑ کر ان کے سامنے لے آئی، وہ ہمیشہ سونڈ پر چڑھ کر اس پر سوار ہوتے تھے۔ سونڈ تھپتھپاتے ہوے بولے، ’’اب نہیں ماں، اب نہیں۔‘‘ چھوٹی مالکن جیسے سمجھ گئی اور سونڈ ان کے کاندھے پر رکھ کر خاموشی سے انتظار کرنے لگی۔ بشومبھر رائے نے آواز دی، ’’نِتے! طوفان کو باہر لے جاؤ۔‘‘
نِتے جھجکتے ہوے بولا، ’’حضور، آج اس نے آپ کو دیکھ لیا ہے۔ جب تک آپ سوار نہ ہوں گے، یہ جائے گا نہیں۔‘‘
انھوں نے کوئی جواب نہ دیا اور چھوٹی مالکن کی سونڈ سہلاتے رہے۔ ’’ماں، اچھی ماں! ‘‘
اچانک صبح کا سناٹا بینڈ کی آواز سے ٹوٹ گیا۔ بشومبھر رائے ہتھنی کے پاس سے ہٹے اور پوچھنے لگے، ’’یہ بینڈ کہاں بج رہا ہے؟‘‘
نتے دھیمی آواز سے بولا، ’’گنگولیوں کے ہاں مالک کے بیٹے کا اَن پراشن ہو رہا ہے۔‘‘ بشومبھر رائے نے عادتاً ہونکارا بھرا۔
اندر طوفان بینڈ کی دھن پر پاؤں مارمار کر ناچنے لگا۔ چھوٹی مالکن کی زنجیریں بھی گھنگھروؤں کی طرح بجنے لگیں — چھنن چھنن۔۔۔ چھنن چھنن۔۔۔
بشومبھر رائے بڑے دروازے سے ہو کر پھر اندر کے اندھیرے کمروں کی طرف چل دیے۔ انھیں یاد آ رہا تھا کہ ایک وقت تھا جب ہر صبح حویلی میں بانسریاں بجا کرتی تھیں اور طوفان اور چھوٹی مالکن اس کی دھن پر ناچا کرتے تھے۔ اوپر پہنچ کر انھوں نے آواز دی، ’’اننت! ‘‘
’’حضور! ‘‘
’’منیم کو بلاؤ! ‘‘
وہ پھر اوپر جا کر بیٹھ رہے۔ منیم تاراپرسنّ آیا اور ان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ بشومبھر رائے نے پوچھا، ’’کیا آج موہم گنگولی کے بچے کی تقریب ہے؟‘‘
’’جی حضور! ‘‘
’’میرا خیال ہے انھوں نے ہمیں بلاوا بھیجا ہے؟‘‘
’’جی حضور۔‘‘
’’تو انھیں ایک چاندی کی رکابی اور ایک مُہر بھجوا دو۔‘‘
تارا پرسن خاموش کھڑا رہا۔ اس میں ردوکد کی ہمت نہ تھی لیکن یہ ظاہر تھا کہ اسے مالک کی بات پسند نہیں آئی۔
’’جانے سے پہلے آ کر مجھ سے مُہر لے جانا۔‘‘ تارا پرسن چلا گیا۔ وہ خاموش بیٹھے رہے۔ اننت نے آ کر چِلم بدلی اور نال ہاتھ میں لے کر کہا، ’’حضور! ‘‘
عادت کے مطابق انھوں نے ہاتھ بڑھا دیا اور پھر حکم دیا، ’’جاؤ جاکر چھوٹی مالکن کا ہودہ اور گھنٹیاں نکلواؤ۔ منیم کو گنگولیوں کے ہاں جانا ہے۔‘‘
تین پشتوں تک رائے خاندان دولت کے ڈھیر لگاتا رہا۔ چوتھی پشت نے راج کیا۔ پانچویں اور چھٹی پشتیں عیش و عشرت اور قرضوں میں پڑ گئیں، اور ساتویں پشت کے ساتھ ہی گھرانے کی لکشمی قرض کے سمندر میں ڈوب گئی۔ اب بشومبھر رائے بیٹھے ایسے دیوتاؤں کے دیوتا لگتے تھے جسے لکشمی چھوڑ گئی ہو۔ اور یہی نہیں، رائے خاندان کے وارثوں کی قطار بھی ان پر آ کر ختم ہو گئی تھی۔ ماتحت عدالت اور ہائی کورٹ کے فیصلوں سے لکشمی دروازے سے باہر جا چکی تھی۔ لگتا تھا وہ صندوقچہ ہاتھ میں لیے، جانے کے لیے پریوی کونسل کے فیصلے کی منتظر ہی تھی۔
بیٹے کے یگنو پویت کے تیوہار پر رائے خاندان جشن کے عالم میں تھا۔ پورے چاند کی چاندنی کے سیلاب کی طرح مکان سے کھانے، پینے، کھلانے اور بانٹنے کا سیلاب رواں تھا۔ پھر بھاٹا آ گیا اور یہ فراوانی تھم گئی۔ سات دن کا یہ جشن صرف عیش و عشرت نہ رہا بلکہ زہرِ قاتل بن گیا۔ گھر میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔ اگلے سات دنوں کے اندر اندر بشومبھر رائے کی بیوی، دو بیٹے، ایک بیٹی اور بہت سے دوسرے رشتے دار لقمۂ اجل بن گئے۔ اوتار اگستھا کے منتظر بندھیاگِری پہاڑ کی طرح صرف بشومبھر رائے سر جھکائے، بےحس و حرکت اور صابر، موت کا انتظار کرنے کے لیے باقی رہ گئے۔
لیکن نہیں، شاید یہ کہنا غلط تھا کہ وہ موت کے منتظر تھے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس دن کے بعد سے وہ موت کا انتظار کر رہے تھے یا نہیں، لیکن ان کا پُرغرور سر کسی نے جھکا ہوا نہیں دیکھا۔ اس سر کو دو برس بعد پریوی کونسل کے فیصلے پر جھکنا تھا۔ اس سے پہلے تک، ان کی بیوی اور بیٹے بیٹیوں کی موت کے بعد بھی، جلسہ گھر کی روشنیاں جلی رہی تھیں اور رات کی گہری خاموشی میں ستار اور سارنگیوں کی آوازیں، گھنگھروؤں کی جھنکار اور بلند پُرمسرت قہقہے گونجتے رہے تھے۔ کئی بار چھوٹی مالکن کی پیٹھ پر شکار کے لیے ہودہ باندھا گیا تھا اور ابھی کل ہی کی بات ہے کہ طوفان اس پر مارے طیش اور مایوسی کے رسیاں توڑے ڈالتا تھا۔
پریوی کونسل کے فیصلے سے رائے خاندان کی ساری جاگیر چھن گئی۔ صرف حویلی اور اس کی ملحقہ عمارتیں اور مندر کے ٹرسٹ کی جائیداد باقی بچی۔ رائے خاندان کے جد اعلیٰ نے اس جائیداد کو کاغذ پر سیاہی کی زنجیریں اس طرح پہنائی تھیں کہ اسے کوئی ہاتھ نہ لگا سکا۔ یہ نہ تو قرق ہو سکتی تھی اور نہ کوئی قرض خواہ اسے ضبط کر سکتا تھا۔ اسی ٹرسٹ کی جائیداد سے مندر کی رسمیں چلتی تھیں، چھوٹی مالکن کی خوراک اور رحمت کی تنخواہ کا بندوبست ہوتا تھا اور باقی سب خرچے چلتے تھے۔ اب بھی گھر کے ماہانہ خرچ کے لیے نفیس شاہی چاول باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ مچھلیاں مندر کا تالاب فراہم کرتا اور شکاری پرندے دلدل سے آتے تھے۔ خاندان کی شان و شوکت رخصت ہو چکی تھی لیکن یادوں کی پہنچ سے باہر نہیں ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ رائے خاندان کی یہ شکستہ حویلی اب بھی راجہ کا محل اور حرماں نصیب بشومبھر رائے، رائے حضور کہلاتے تھے۔
گزری ہوئی شان کا یہ بچا کھچا حصہ بھی نودولتیے گنگولیوں کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ انھیں لگتا تھا کہ ان کا نوتعمیرکردہ سونے کا محل ایک پرانے مردہ پہاڑ کی اوٹ میں ہے اور دنیا والوں کی آنکھیں اب بھی اِس سونے کے محل کے بجاے اُس پرانے پہاڑ پر ہی ٹھہرتی ہیں۔ رائے خاندان کی پرانی ہتھنی کو ان کی قیمتی موٹرکار کی نسبت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
موہم گنگولی غور کرتا اور سوچتا کہ ایک نہ ایک روز اسے اس پرانے پہاڑ کی چوٹیاں ڈھانی ہی پڑیں گی۔
گلے میں گھنٹیاں پڑتے ہی چھوٹی مالکن کا جسم فخر سے جھومنے لگا۔ گھنٹیاں بجنے لگیں۔
منیم تاراپرسن آ کر بشومبھر رائے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ زنان خانے کے بڑے کمرے میں بیٹھے تھے۔ وہ اب اسی کمرے میں رہا کرتے تھے۔ دیواروں پر رائے خاندان کے بڑوں اور ان کی بیگموں کی تصویروں آویزاں تھیں جو ان کی پکّی عمروں میں بنائی گئی تھیں۔ ان سب نے کالی کے نام کی چھپی ہوئی شالیں اوڑھ رکھی تھیں۔ گلوں میں رُدرَکش پڑے تھے اور ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے۔ بشومبھر رائے ان تصویروں کو تک رہے تھے۔ تارا پرسن کو دیکھ کر انھوں نے آہستہ سے نگاہ ہٹائی اور پکارا، ’’اننت، گلہ لاؤ۔‘‘
گلّے سے کنجی نکال کر انھوں نے لوہے کی تجوری کھولی۔ اوپر کے خانے میں گھرانے کی لکشمی کا صندوقچہ رکھا تھا، نیچے کے خانے میں دو تین ڈبے رکھے تھے۔ انھوں نے اپنی مرحوم بیوی کے جواہرات کا ڈبا نکالا۔ وہ تقریباً خالی تھا، زیور کے نام پر اس میں صرف ایک سِنتھی رکھی تھی جسے دلنو ں کے سر پر باندھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ سات پشتوں سے خاندان کے وارث کی شادی پر یہ نئی دلہن کے حصے میں آتی رہی تھی۔ اس کے سوا سب زیور بک چکے تھے۔ ڈبے کے ایک چھوٹے سے خانے میں کچھ طلائی مہریں تھیں جو ان کی بیوی کو شادی پر تحفے میں ملی تھیں، کچھ انھوں نے خود دی تھیں۔ اپنی شادی کے بعد پہلی بار جاگیروں کے دورے کے موقع پر انھیں اسامیوں کی طرف سے نذرانے میں جو مہریں ملیں وہ انھوں نے بیوی کو دے دیں۔ انھوں نے خاموشی سے ایک مہر نکالی اور منیم کو دی۔ وہ چلا گیا۔ کچھ دیر بعد چھوٹی مالکن کے گلے کی گھنٹیاں زور زور سے بجنے لگیں۔ بشومبھر رائے کھڑکی کے پاس آ کھڑے ہوے۔ چھوٹی مالکن کے سر پر تیل لگا تھا اور اسے سیندور کی بندیوں سے سجایا گیا تھا۔ وہ بہت خوش خوش جھومتی جھامتی چل رہی تھی۔
تیسرے پہر کو گنگولی کی بڑی سی چمکیلی موٹرکار حویلی کی شکستہ برساتی میں آ کھڑی ہوئی۔ موہم گنگولی خود باہر آیا۔ تاراپرسن اسے دیکھتے ہی دوڑا اور احترام سے اس کا سواگت کرتے ہوے اسے اندر لے آیا۔
اننت بھی اوپر سے اسے آتے ہوے دیکھ رہا تھا۔ وہ دوڑ کر نیچے گیا اور بیٹھک کے دروازے جلدی جلدی کھول دیے۔
موہم نے پوچھا، ’’دادا کہاں ہیں؟ مجھے ان سے ملنا ہے۔‘‘
کئی پشتوں سے گنگولی رائے خاندان کی جاگیر میں مہاجنی کاروبار کرتے آ رہے تھے۔ خود موہم کا باپ جناردھن بھی رائے خاندان کے بڑے کو ہمیشہ حضور کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ موہم کا یوں گستاخی سے بشومبھر رائے کو دادا کہنا تاراپرسن کو سخت ناگوار ہوا، لیکن اس نے خوش طبعی سے جواب دیا، ’’حضور ابھی جاگے نہیں، قیلولہ کر رہے ہیں۔‘‘
موہم بولا، ’’تو انھیں جگا دو۔ کہو کہ میں ملنے آیا ہوں۔‘‘
تاراپرسن نے روکھی سی مسکراہٹ سے کہا، ’’اس کی تو ہم میں سے کسی میں ہمت نہیں۔ اگر آپ کو کوئی پیغام دینا ہے تو مجھے دے دیجیے۔ میں حضور کو پہنچا دوں گا۔‘‘
موہم نے بےصبری سے کہا، ’’نہیں، مجھے انھیں سے ملنا ہے۔‘‘
اننت نے شربت سے بھرا چاندی کا آب خورہ لا کر موہم کو پیش کیا۔ موہم نے شربت لے کر اس سے پوچھا، ’’دادا جاگ رہے ہیں کیا؟‘‘
’’جی ہاں جاگ رہے ہیں۔ میں نے انھیں آپ کے آنے کی اطلاع دے دی ہے۔‘‘
موہم شربت ختم کر کے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا، ’’بہت اچھی خوشبو ہے۔ کاہے کا شربت ہے یہ؟‘‘
اننت نے جھوٹ بولا، ’’مجھے نہیں معلوم۔ بنارس سے پِس کر آتا ہے۔‘‘
موہم اوپر کے کمرے میں داخل ہوتے ہوے کہنے لگا، ’’کیوں دادا، آ پ ہمارے ہاں کھانے پر نہیں آئے؟‘‘
بشومبھر رائے ہنس کر بولے، ’’آؤ آؤ، بیٹھو۔‘‘
’’مجھے اس کا بہت رنج ہے دادا۔‘‘
انھوں نے کہا، ’’میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میرے بدن میں زیادہ کہیں آنے جانے کی طاقت نہیں رہی۔‘‘
’’خیر وہ تو ہوا، لیکن رات کو آپ کو ضرور آنا ہو گا۔‘‘
بشومبھر رائے حقہ پینے کے بہانے چپ ہو رہے۔ موہم کہتا رہا، ’’میں نے لکھنؤ سے ناچنے والیوں کو بلایا ہے۔ ان کے ناچ گانے کی داد آپ ہی دے سکیں گے۔‘‘
بشومبھر رائے نے ایک لمبا کش لے کر حقے کی نال رکھ دی اور بولے، ’’میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے موہم۔ سینے میں درد رہنے لگا ہے۔ کبھی کبھی تو بہت زور کا درد ہوتا ہے۔‘‘
موہم کچھ دیر چپ رہا، پھر اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا، ’’میں اب چلوں گا دادا، مجھے ابھی شہر جا کر صاحب لوگوں کو لانا ہے۔ وہ بھی جلسے میں آ رہے ہیں۔‘‘
بشومبھر رائے نے صرف اتنا کہا، ’’میرے نہ آنے کا خیال مت کرنا۔‘‘
کمرے سے باہر آ کر موہم دالان میں رکا اور اچانک بولا، ’’دادا، یہ مکان کی کیا حالت بنا رکھی ہے؟ اس کی مرمت ہونی چاہیے۔‘‘
اس بات کا کسی نے جواب نہ دیا۔ اننت بولا، ’’چلیے حضور۔‘‘
جلسے کے لیے آراستہ کیا ہوا گنگولی ہاؤس کا ہال کمرہ چمکدار اور فراواں روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ شامیانوں کے چاروں طرف بجلی کے رنگ برنگے قمقمے دمک رہے تھے۔ بجلی کا انتظام گنگولیوں کا اپنا تھا اس لیے انھیں اس چراغاں میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ شامیانوں کے بانسوں پر پھول پتیاں اور رنگین کاغذ کی جھالریں لپٹی ہوئی تھیں۔ فرش پر گویّوں، کنچنیوں اور سازندوں کے بیٹھنے کے لیے دریاں اور ان پر چاندنیاں بچھائی گئی تھیں۔ ایک پہلو میں اہم مہمانوں کے لیے کرسیاں اور دوسرے پہلو میں کم اہم مہمانوں کے لیے قالین تھا۔ پچھلی طرف ایک باریک شفاف پردے کے پیچھے خواتین کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ آٹھ بجے رات تک تقریباً سارے ہی مہمان آ چکے تھے اور شامیانے بھر گئے تھے۔ طبلچی اور سارنگیے سُر ملا رہے تھے۔ پھر شمال سے آئی ہوئی دو ناچنے والیاں اندر داخل ہوئیں۔ انھوں نے لمبے گھاگھرے اور اوڑھنیاں پہن رکھی تھیں اور زیورات سے لدی پھندی تھیں۔ شور تھم گیا، باتیں بند ہو گئیں اور خاموشی چھا گئی۔ کنچنیاں واقعی حسین تھیں۔
موہم گنگولی اہم مہمانوں کے درمیان کرسی پر بیٹھا تھا۔ بڑی والی کنچنی نے گانا شروع کیا۔ کلاسیکی موسیقی کی طویل اور دھیمی دھن جیسے حاضرین کو سُلا رہی تھی۔ ان میں سے کچھ لوگ آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگے۔ معزز مہمانوں میں ہنسی مذاق ہونے لگا۔
گانا ختم پر آیا ہی تھا کہ موہم انداز میں شائستگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوے بول اٹھا، ’’خوب، بہت خوب!‘‘ رقص کی لے ایک دم تھم گئی۔ کنچنی گانا ختم کر کے بیٹھ رہی۔ اس نے چھوٹی والی کے کان میں کچھ سرگوشی کی اور مسکرانے لگی۔ پھر اسے اٹھنے کا اشارہ کیا۔ حاضرین میں ایک دم جان پڑ گئی۔ اس کے گانے کی تیز دھن اور نِرت کے تِیور بہاؤ تماشائیوں میں پہاڑی چشمے کا سا ترنم پیدا کرنے لگے۔ ہر طرف سے دادوتحسین کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اس کی طرف سکّے اچھالے جانے لگے۔
چھوٹی کنچنی باربار ناچتی رہی اور تماش بینوں کو نیند کا جھونکا بھی نہ آیا۔ جلسہ ختم ہونے پر موہم نے دونوں ناچنے والیوں کو بلوایا اور کہا، ’’سب لوگ تم سے بہت خوش ہوے۔‘‘
بڑی والی بولی، ’’آپ کی عنایت ہے۔‘‘
واقعی موہم گنگولی کی عنایات کی حد نہ تھی۔ انھیں تین روز کے لیے بلوایا گیا تھا لیکن پانچ روز تک جشن ہوتا رہا۔ ان کی روانگی سے پہلے موہم نے ان پر ایک اور عنایت کی۔ اس نے انھیں بتایا، ’’یہاں ہمارے راجہ کا محل بھی ہے۔ جانے سے پہلے وہاں بھی ہوتی جانا۔ بشومبھر رائے رئیس آدمی ہیں اور رقص و موسیقی کے قدردان ہیں۔ شاید وہ تم سے ناچ گانے کی فرمائش کریں۔‘‘
بڑی کنچنی نے مؤدبانہ لہجے میں کہا، ’’حضور، ہم ان کا ذکر سن چکے ہیں۔ ہم راجہ بہادر کے دربار میں ضرور جائیں گے۔ ہمارا پہلے سے یہی ارادہ ہے۔‘‘
تاراپرسن سچ مچ آگ بگولا ہو گیا۔ وہ جتنا تھا کہ یہ اسی بدمعاش موہم گنگولی کی نیچ حرکت ہے۔ ’’وہ کنچنیوں کو یہاں بھیج کر ہماری توہین کرنا چاہتا ہے،‘‘ اس نے سوچا، لیکن بڑے گمبھیر لہجے میں ان کو بتایا، ’’مالک کی طبیعت اچھی نہیں ہے۔ ناچ گانا نہیں ہو گا۔‘‘
کنچنی نے اصرار کیا، ’’تم مہربانی کر کے انھیں۔۔۔ ‘‘
تاراپرسن نے اس کی بات کاٹی، ’’کہہ دیا نا، یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
وہ اداس ہو کر بولی، ’’اچھا! ہماری بدقسمتی! ‘‘
وہ دونوں جانے کے لیے مڑی ہی تھیں کہ اوپر سے پکارنے کی آواز آئی، ’’تاراپرسن!‘‘ تاراپرسن کے نمودار ہونے پر بشومبھر رائے نے سوال کیا، ’’کون ہیں یہ؟‘‘
تاراپرسن سر جھکا کر بولا، ’’ناچنے والیاں ہیں جو گنگولیوں کے ہاں جلسے میں آئی تھیں۔‘‘
’’ہوں!‘‘ پھر کچھ وقفے کے بعد انھوں نے پوچھا، ’’کیا تم نے انھیں خالی ہاتھ لوٹا دیا؟‘‘
’’بندگی، حضور!‘‘ کنچنی نے فرش کو چھو کر مسلمانوں کے انداز میں آداب کیا۔ ’’معاف کیجیے گا، مالک! ہم بغیر اجازت اندر چلے آئے۔‘‘
بشومبھر رائے کو اس کی یوں اندر چلے آنے کی گستاخی بری لگی، لیکن اس کے حسن نے انھیں موم کر دیا۔ انھوں نے نگاہ بھر کر اسے دیکھا۔ انار جیسا رنگ، بڑی بڑی حسین آنکھوں میں کاجل کی ہلکی سی تحریر، گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ، دراز قد، چھریرا بدن جس میں نرت کی دھیمی سی لے قید ہو کر رہ گئی تھی، اس کے قدم اٹھاتے ہی وہ باہر آ کر پھیلنے لگتی۔ ایک خلیق مسکراہٹ کے ساتھ انھوں نے اسے بیٹھنے کو کہا۔ وہ پاس بچھے ایک قالین پر ادب سے بیٹھ گئی اور بولی، ’’بندی حضور بہادر کے دربار میں گانے کے حکم کی منتظر ہے۔‘‘
بشومبھر رائے کہنے ہی والے تھے کہ ان کی طبیعت اچھی نہیں، لیکن پھر انھیں شرمندگی محسوس ہوئی؛ اس جیسوں سے جھوٹ بولنا ان کے مقام سے گری ہوئی بات تھی۔
کنچنی بولی، ’’سب کا خیال یہی ہے کہ یہاں گانے کی صحیح داد آپ ہی دے سکتے ہیں۔ گنگولی بابو بھی بتا رہے تھے کہ آپ ہی رئیس ہیں، راجہ ہیں۔‘‘
بشومبھر رائے نے حقہ پینا موقوف کیا، ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کے چہرے پر نظر ڈالی اور بولے، ’’آج رات کو جلسہ ہو گا۔‘‘ پھر انھوں نے آواز دی، ’’اننت! ‘‘
اننت باہر کھڑا انتظار کر رہا تھا۔ اندر آیا تو انھوں نے کہا، ’’دیکھو انھیں ان کے ٹھہرنے کی جگہ دکھا دو۔ نیچے کا مہمان خانہ کھول دو۔‘‘
اننت بولا، ’’آئیے۔‘‘
بنگالی نہ جانتے ہوے بھی وہ آسانی سے سمجھ گئی اور اننت کے پیچھے کمرے سے باہر چلی گئی۔
تاراپرسن چپ سادھے کھڑا تھا اور یونہی کھڑا رہا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا، ’’انھوں نے گنگولیوں سے ایک رات کے سو روپے لیے ہیں۔‘‘
’’ہوں !‘‘ حقے کا کش لے کر انھوں نے کہا، ’’کیا تمھارے پاس۔۔۔‘‘ وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر چپ ہو گئے اور پھر حقہ پینے لگے۔
تاراپرسن بولا، ’’مندر کے حساب میں صرف ڈیڑھ سو روپے باقی ہیں۔‘‘
بشومبھر رائے کچھ دیر سوچتے رہے، پھر اٹھے اور تجوری سے زیوروں کا ڈبا نکال لائے۔ اس میں سے رائے خاندان کی دلہنوں کی سِنتھی نکال کر تاراپرسن کے ہاتھ پر رکھتے ہوے بولے، ’’آنند میا کی سنتھی خریدنے کے لیے مندر کے ڈیڑھ سو روپے لے لو۔‘‘ آنند میا رائے گھرانے کی اَنّ دیوی تھی۔
طویل عرصے کے بعد حویلی میں ایک بار پھر تالوں میں کنجیاں گھومنے کی آوازیں گونجیں۔ بڑے جلسہ گھر کے دروازے اور کھڑکیاں کھلیں۔ فانوس خانے اور توشہ خانے میں برسوں کے بعد روشنی داخل ہوئی۔
اننت کمروں کی گرد جھاڑنے اور صفائی کرنے میں مشغول ہو گیا۔ نِتے اور رحمت اس کا ہاتھ بٹانے لگے۔ مندر کی بوڑھی داسی بڑی کشتیوں، نُقرئی پیچوانوں، گلاب دانوں اور عطردانوں کی صفائی کر رہی تھی۔ تاراپرسن سارے انتظام کی نگرانی میں لگا ہوا تھا۔ اننت نے اس سے کہا، ’’کسی کو شہر بھیجنا ہو گا۔‘‘
منیم نے جواب دیا، ’’میں نے فہرست بنا لی ہے، سن لو۔ کچھ رہ گیا ہو تو بتا دینا۔‘‘ فہرست سن کر اننت بولا، ’’سب ٹھیک ہے، بس دو چیزیں کم ہیں، دو تولے عطر اور ولایتی شراب کی کچھ بوتلیں۔‘‘
’’ایک بوتل تو رکھی تھی؟‘‘
’’اس میں تو بس ذرا سی رہ گئی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں، وہ کبھی کبھی پیتے ہیں؛ لیکن اگر آج انھوں نے منگا لی تو ایک بوتل کم پڑ جائے گی۔‘‘
منیم نے کہا، ’’لیکن بھیجوں کسے؟ اگر کوئی پیدل گیا تو شام تک نہیں لوٹ سکے گا۔‘‘
اننت ہچکچاتے ہوے بولا، ’’نتے کو طوفان پر بھیج دیجیے۔‘‘
نتے نے اعتراض کیا، ’’جب تک حضور کا حکم نہ ہو۔۔۔‘‘
تاراپرسن نے کہا، ’’ٹھیک ہے، میں ان سے پوچھے لیتا ہوں۔‘‘
بشومبھر رائے لیٹے ہوے تھے۔ منیم کو دیکھ کر بولے؛ ’’میں تمھیں بلانے ہی والا تھا۔ تم جا کر موہم گنگولی کو بلاوا دے آؤ۔ گاؤں کے سب معزز لوگوں کو بھی بلاوا بھیج دو، لیکن گنگولیوں کے ہاں تمھیں خود جانا ہو گا۔‘‘
’’بہت اچھا۔‘‘
انھوں نے مزید کہا، ’’اور چھوٹی مالکن پر ہودہ رکھواؤ۔‘‘
منیم ذرا رکا، پھر بولا، ’’وہ نتے کو طوفان پر شہر بھیجنا ہے۔‘‘
’’ہاں بھیج دو۔‘‘
جشن! آج ایک طویل عرصے بعد حویلی میں جلسہ ہو رہا تھا۔
کہیں سے، شاید جلسہ گھر سے، فانوس کی لمبی قلموں کے ٹکرانے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ بشومبھر رائے کمرے سے نکل کر دالان میں آ گئے۔ اننت دیواروں پر کانچ کے لیمپ اور فانوس ٹانگ رہا تھا۔ چاپ سن کر اس نے دروازے کی طرف دیکھا، اور بشومبھر رائے کو وہاں کھڑے پایا۔ وہ دیواروں پر آویزاں تصویریں دیکھ رہے تھے۔ چاروں طرف کی دیواروں پر رائے خاندان کے بڑوں کی عالم شباب کی تصویریں لگی تھیں۔ جد اعلیٰ سے لے کر خود ان تک سب مسرور اور عیش پسند دکھائی دیتے تھے۔ پردادا راونیشور رائے ہاتھ میں نیزہ لیے، پیٹھ پر سِپر رکھے، اپنے شکار کیے ہوے شیر پر پاؤں رکھے کھڑے تھے۔ باپ دھنیشور رائے ایک گدی پر بیٹھے تھے اور پاس ہی چھوٹی مالکن گھٹنے ٹیکے بیٹھی تھی۔ نوجوان بشومبھر رائے طوفان کی پیٹھ پر سوار تھے۔
گھرانے کے وارثوں نے اس کمرے میں بہت سے طوفانی ناٹک کھیلے تھے۔ ان میں پہلے راونیشور رائے تھے جو ہنگامہ خیز زندگی کے عادی ہوے۔ انھیں نے یہ جلسہ گھر بنوایا تھا، لیکن وہ خود اس سے حظ نہ اٹھا سکے۔ بشومبھر رائے کو یاد آنے لگا۔ جس روز اس میں پہلی بار محفل جمی، اسی روز راونیشور رائے کی بیوی اور بیٹا بجرے میں دریا پار کرتے ہوے ریلے میں ڈوب گئے۔ کانچ کے فانوسوں کو بجھا دیا گیا، صرف چند موم بتیاں جلتی رہیں۔ اس کے بعد انھیں پھر کبھی جلسہ گھر کے دروازے کھلوانے کی خواہش یا ہمت نہ ہوئی۔
شاید بہتر ہوتا کہ رائے گھرانہ بھی وہیں ختم ہو جاتا۔ لیکن راونیشور رائے کی خاندان کا نام آگے چلانے کی خواہش بہت طاقتور تھی۔ انھوں نے اپنی سالی سے شادی کر لی۔ ان کا کہنا تھا کہ آنند میا نے انھیں یہ حکم دیا ہے۔ پھر ان کے بیٹے تاراکیشور رائے نے ایک بار پھر جلسہ گھر کھلوایا اور اس میں روشنی کی۔ ایک بار اپنے ایک دولت مند دوست سے مقابلے میں انھوں نے ایک ناچنے والی کو پانچ سو طلائی مہریں دے ڈالی تھیں۔
تب بشومبھر رائے اپنی زندگی کے واقعات پر غور کرنے لگے۔ چندرا... انھیں چندرا بائی یاد آنے لگی۔ ایک بار محفل ختم ہونے کے بعد وہ اپنے دوستوں کو جُل دے کر اسے ڈھونڈنے نکل گئے تھے۔ انھیں اب بھی چندرا کے ساتھ اس راستے سے گزرنا یاد تھا۔ پھولوں سی حسین اور تروتازہ چندرا۔۔۔ وہ ایک خوشگوار اور ناقابل فراموش یاد تھی۔
اننت کام کرتے کرتے رک گیا۔ مالک کے چہرے پر نظر پڑتے ہی اس کے ہاتھوں نے ہلنے سے انکار کر دیا۔ ان کا چہرہ ہیجانی اور سرخ ہو رہا تھا جیسے اچانک کسی بند رگ سے لہو فوارے سا پھوٹ پڑا ہو اور چہرے پر پھیل گیا ہو۔
موٹرکار کے ہارن کی بلند آواز۔ موہم گنگولی آ پہنچا۔ زینے پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ سواگت کی آوازیں اور پھر باتیں کرنے کی بھنبھناہٹ پھیل گئی۔ کچھ دیر بعد جلسہ گھر سے سازوں کے تار چھیڑنے اور طبلے پر تھاپ پڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ سُر ملائے جا رہے تھے۔
اننت اوپر آیا۔ دروازے ہی سے بولا، ’’حضور، سب انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
بشومبھر رائے لباس تبدیل کر کے کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ بولے، ’’اچھا، میرے جوتے لاؤ۔‘‘
اننت ذرا سا ہچکچایا، پھر کونے کی الماری سے اس نے ایک بوتل اور گلاس برآمد کیے اور انھیں ایک چھوٹی میز پر رکھ کر جوتے لانے چلا گیا۔ بشومبھر رائے ساکت کھڑے دیکھتے رہے۔ نیچے موسیقی کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔
اننت نے کہا، ’’حضور!‘‘ انھوں نے حسب عادت جواب دیا، ’’ہوں۔‘‘ اور پھر ٹہلنے لگے۔ ان کی چال ذرا تیز ہو گئی تھی۔ اننت منتظر کھڑا تھا، وہ میز کے پاس آ گئے اور اس سے بولے، ’’سوڈا! ‘‘
وسیع ہال میں تین دیواروں کے ساتھ ساتھ موٹی سوزنی کی پٹی پر چاندنیاں بچھائی گئی تھیں۔ چھت پر تین بڑے فانوس قطار میں لٹک رہے تھے۔ دیواری لیمپوں میں جلنے والی بتیاں ہوا چلنے سے جھلملا رہی تھیں۔ ان میں کچھ لیمپوں کے شیشے غائب تھے اور کھلی ہوئی بتیاں بجھ گئی تںیپ۔ ان بجھی ہوئی بتیوں کے طویل سائے دیواروں پر جیسے ایک دبی ہوئی غمناکی کو مجسم کر رہے تھے۔
سازوں کے سُر کھلنے لگے۔ تیس چالیس مہمان ابھی آہستہ آہستہ باتیں کرنے میں مشغول تھے۔ چار پانچ پیچوانوں پر کش لیے جا رہے تھے۔ دونوں ناچنے والیاں خاموش بیٹھی تھیں۔ صرف کبھی کبھی موہم گنگولی کی آواز سب آوازوں سے اونچی سنائی دے جاتی تھی۔ سگریٹ کا کش لیتے ہوے اس نے بجھی ہوئی بتیوں کی طرف دیکھا اور بول اٹھا، ’’دیکھنا، کئی بتیاں بجھ گئی ہیں۔‘‘ کسی نے اسے جواب نہ دیا۔ پھر اس نے پکار کر کہا، ’’منیم بابو!‘‘ تاراپرسن کے آنے پر وہ بولا، ’’دیکھو بتیاں دھیمی ہیں اور محفل میں روشنی کم ہے۔ میرے ڈرائیور سے کہو کہ وہ جا کے دو پیٹرومیکس لے آئے۔‘‘ تاراپرسن خاموش رہا لیکن بڑی والی کنچنی آہستہ سے بولی، ’’وہ روشنی اس کمرے میں اچھی لگے گی؟‘‘
باہر سے بھاری قدموں کی آواز سنائی دی تو تاراپرسن مودب انداز میں باہر چلا گیا۔ دوسرے مہمان بھی اٹھ کھڑے ہوے۔ موہم گنگولی بھی غیرارادی طور پر اپنی جگہ سے تھوڑا سا اٹھا، لیکن اس کا احساس ہوتے ہی پھر بیٹھ گیا۔
بشومبھر رائے نے مسکراتے ہوے معذرت کی، ’’معاف کیجیے گا مجھے کچھ دیر ہو گئی۔‘‘ پھر وہ بیٹھ گئے۔ موہم نے ایک گاؤتکیہ کھینچا لیکن پھر اسے ہٹاتے ہوے جیب سے رومال نکالا اور اسے جھاڑتے ہوے بہت ناگواری سے بولا، ’’ارے توبہ! اس میں تو گرد ہی گرد ہے۔‘‘ تاراپرسن مہمانوں کو عطر پیش کر رہا تھا۔ اننت نے پیچوانوں کی چلمیں بدلیں اور بشومبھر رائے کا اپنا حقہ لا کر اس کی نال انھیں پیش کی۔
بڑی کنچنی آداب کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ گانا اسی طویل کلاسیکی دھن سے شروع ہوا، لیکن فرق یہ تھا کہ یہاں حاضرین سب خاموش تھے۔ بشومبھر رائے آنکھیں بند کر کے محویت سے سننے لگے۔ ان کا بھاری بھرکم جسم لے پر جھوم رہا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنے پہلو میں پڑے گاؤتکیے پر تال دینے لگتے۔ یکلخت طبلے پر تھاپ پڑی اور انھوں نے آنکھیں کھول دیں۔ گھنگھروؤں کی جھنکار آہستہ آہستہ بلند ہوئی اور رقص شروع ہوا، ایک سچے فنکار کا اظہار۔ اس کے بھیدبھاؤ گھٹا دیکھ کر بےاختیار ناچ اٹھنے والے مور کی یاد دلاتے تھے۔ گردن میں خم پڑنے لگا۔ دونوں ہاتھوں میں تھامے ہوے گھاگھرے کے کونے رقص کا ساتھ دیتے ہوے مور کے پر معلوم ہونے لگے۔ گھنگھروؤں کی جھنکار تیزتر ہوتی گئی۔ بشومبھر رائے نے بلند آواز میں داد دی، ’’خوب، خوب! ‘‘
آہستہ آہستہ ناچنے والی کے قدم تھم گئے، گانا ختم ہوا اور طبلے پر آخری تھاپ پڑی۔
موہم بشومبھر رائے کے قریب آ کر سرگوشی میں کہنے لگا، ’’دادا، موسیقی جاندار نہیں ہے۔ مہمان اونگھ رہے ہیں۔ میرا بھی گلا سوکھ رہا ہے۔ کرشنا بائی نے مزا کرکرا کر دیا۔‘‘
کرشنا بائی مسکرائی۔ وہ شاید موہم کی بات سمجھ گئی تھی۔ اننت نے شربت لا کر موہم کو پیش کیا۔ موہم نے انکار کر دیا اور کہنے لگا، ’’پچھلی کئی راتوں سے جاگنے کی وجہ سے مجھے زکام ہو گیا ہے۔‘‘
بشومبھر رائے نے مسکرا کر اننت کو اشارہ کیا۔ وہ ایک کشتی میں وسکی کی بوتل، سوڈا اور گلاس لے آیا۔
اننت نے جام بنا کر موہم کو دیا۔ پھر ایک جام بنا کر مہمانوں کی طرف دیکھا۔ لیکن سب سر جھکائے بیٹھے تھے۔ اننت نے جام بشومبھر رائے کو پیش کیا۔ انھوں نے خاموشی سے اٹھا لیا۔ موہم چھوٹی کنچنی کو گھور رہا تھا۔ کچھ دیر پہلو بدلنے کے بعد وہ بولا، ’’پیاری بائی! اب ذرا تم اپنے شعلوں سے کچھ گرمی پیدا کرو۔‘‘ پیاری بائی نے ایک شوخ گانا شروع کیا۔ بشومبھر رائے آنکھیں بند کیے سنتے رہے، گیت میں ایک وقفے پر بولے، ’’ذرا آہستہ!‘‘ لیکن پیاری بائی اپنی عادت کے مطابق شوخی اور تیزی سے ناچتی گاتی رہی۔ موہم باربار اونچی آواز میں داد دیتا رہا۔
بشومبھر رائے کی پیشانی پر بل پڑنے لگے۔ موہم کی بےمحل تحسین انھیں ناگوار ہو رہی تھی۔ پھر بھی وہ بِین کی آواز سے مسحور سانپ کی طرح گانے کی لَے پر جھومتے رہے۔ ان کی رگوں میں رائے خاندان کا گرم خون تیزی سے گردش کرنے لگا۔ پیاری بائی رنگین پروں والی تتلی کی طرح اِدھر سے اُدھر ناچتی رہی۔ اس پر انھیں لکھنؤ کی ایک اور کنچنی زہرہ یاد آنے لگی۔ کرشنا بائی دلّی کی چندرا بائی کی طرح تھی۔ وہی چندرا بائی جو ان کی زندگی کے ایک باب میں شامل رہی تھی۔ پیاری بائی کا رقص ختم ہوا۔ بشومبھر رائے گئے دنوں کے خیالوں میں محو تھے۔ سکّوں کی جھنکار نے انھیں چونکا دیا۔ موہم پیاری بائی کو چاندی کے سکے دے رہا تھا۔ یہ بات آداب کے خلاف تھی۔ بخشش دینے کا پہلا حق میزبان کا تھا۔ بشومبھر رائے نے پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ان کے سامنے کچھ نہ تھا، نہ چاندی کا طشت نہ سکّے، جنھیں وہاں ہونا چاہیے تھا۔ وہ فرش پر نظریں گاڑے چپ بیٹھے رہے۔ پھر کرشنا بائی نے گانا شروع کیا۔ ساحل سے ٹکراتی لہروں کی طرح اس کا گیت کمرے میں پھیلنے لگا۔ وہ جمنا کی لہروں کی بیتابی کا گیت گا رہی تھی جو کرشن کی مُرلی سن کر اس سے ہمکنار ہونے کو تڑپتی تھیں۔ گیت اور رقص دونوں بےحد لطیف تھے۔ بشومبھر رائے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گئے اور گانا ختم ہوتے ہی بےاختیار بولے، ’’بہت خوب چندرا بائی! ‘‘
کرشنا بائی نے آداب بجا لاکر کہا، ’’بندی کا نام کرشنا ہے۔‘‘ دوسری طرف سے موہم نے چلا کر کہا، ’’یہ لو کرشنا بائی! بخشش! ‘‘
بشومبھر رائے اٹھ کھڑے ہوے، اور آہستہ آہستہ جلسہ گھر کو پار کر کے باہر نکل گئے۔
موہم بولا، ’’پیاری بائی، اب تم کچھ سناؤ۔‘‘
کرشنا بائی نے کہا، ’’حضور بہادر کو آ جانے دیجیے۔‘‘
موہم نے کہا، ’’آ جائیں گے، آ جائیں گے۔ ان کا کیا ہے۔ لو میرا خیال ہے وہ آ گئے۔‘‘ لیکن یہ تاراپرسن تھا۔ اس نے چاندی کا ایک طشت جس پر دو طلائی مہریں رکھی تھیں، کنچنیوں کے سامنے رکھ دیا، ’’مالک نے بھیجا ہے۔‘‘
موہم نے بےصبری سے پوچھا، ’’لیکن وہ خود کہاں ہیں؟‘‘
’’ان کے سینے میں درد ہے۔ وہ نہیں آ سکتے۔ انھوں نے کہا ہے کہ محفل جمی رہے۔‘‘ مہمانوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ موہم تحقیرآمیز انداز میں جمائیاں لیتا اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’اچھا اب میں چلتا ہوں تاراپرسن۔ صبح مجسٹریٹ صاحب مجھ سے ملنے آ رہے ہیں۔‘‘
تاراپرسن کچھ نہ بولا۔ دوسرے مہمان بھی جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوے اور محفل ختم ہو گئی۔
بشومبھر رائے کی بیوی کے جواہرات کا ڈبا فرش پر پڑا تھا۔ خالی۔
وہ کمرے میں فخر سے سر اونچا کیے بےمقصد ٹہل رہے تھے۔ رائے خاندان کے وقار کا بھرم رہ گیا۔ شراب اور اضطراب سے ان کے خون کی گردش تیز ہو گئی تھی۔ آج ان کا زمان و مکان کا احساس تہہ وبالا ہو گیا تھا۔ وہ بےخیالی میں کمرے سے باہر نکل آئے۔ جلسہ گھر کی روشنیاں انھیں مقناطیس کی طرح کھینچنے لگیں۔ وہ اس میں داخل ہو گئے۔ جلسہ گھر خالی تھا۔ صرف دیوار پر رائے خاندان کے وارث، وقت کی قید سے آزاد، بیدار تھے۔ بشومبھر رائے کھلی کھڑکیوں سے باہر تکنے لگے۔ ہر کہیں ہر شے چاندنی کے سیلاب میں تھی۔ مچکندا کی خوشبو نرم رَو ہوا میں تیر رہی تھی۔ ایک پیڑ پر کوئل کوک رہی تھی، ’’پی کہاں؟ پی کہاں؟‘‘ اچانک ایک بھولا ہوا گیت ان کے دل میں گونجا، چندرا بائی کا گایا ہوا گیت۔ انھوں نے کھڑکی میں سے آسمان پر نظر ڈالی اور چاند کو آسمان میں بلند دیکھا۔ اچانک قدموں کی چاپ سن کر وہ مڑے۔ اننت بتیاں بجھانے آیا تھا۔
بشومبھر رائے نے کہا، ’’بتیاں جلی رہنے دو۔‘‘ اننت واپس جانے لگا تو انھوں نے آواز دی، ’’میرا ایسراج لاؤ۔‘‘
اننت ایسراج لے آیا۔ وہ اسے گھٹنوں پر رکھ کر کھڑکی کے پاس بیٹھ گئے اور حکم دیا، ’’جام پُر کرو۔‘‘ انھوں نے کشتی میں رکھی بوتل کی طرف اشارہ کیا۔ اننت نے ایک جام بنا کر انھیں پیش کیا اور باہر چلا گیا۔ انھوں نے ایسراج کے تار چھیڑے۔ سونی حویلی میں سُر بلند ہوے۔ بشومبھر رائے خود فراموشی کے عالم میں ایسراج بجاتے رہے۔ اس کے تاروں سے کیا صدا بلند ہو رہی تھی؟ اس گیت کے بول ان کے کانوں میں گونجنے لگے:
’’آہ اس اندھیری رات میں، میں ابھاگن قید ہوں۔ نیند دروازے پر پہرہ دے رہی ہے۔ نیند میری آنکھوں سے دور ہے۔ نیند کے بہانے میں تمھاری پوجا میں مگن ہوں۔ کرشن، تم کیوں مُرلی بجاتے ہو! ‘‘
بشومبھر رائے ایسراج ایک طرف رکھ کر اٹھ کھڑے ہوے اور آہستہ سے پکارا، ’’چندرا! ‘‘
چندرا! ان کی چندرا! یہ گیت بھی چندرا کا تھا۔ باہر سے کسی کی شیریں آواز آئی، ’’حضور! ‘‘
بشومبھر رائے بیتاب ہو کر پکارے، ’’چندرا! چندرا! یہاں آؤ۔ اب سارے دوست رخصت ہو چکے ہیں۔‘‘
کرشنا بائی نے آکر شرمیلے انداز میں آداب کیا، اور وہی گیت جو ایسراج کے تاروں نے چھیڑ رکھا تھا، ہولے ہولے گنگنانے لگی۔ ہنس کر بشومبھر رائے بھی اس کا ساتھ دینے لگے، ’’کتنی حسین رات ہے۔ میرا من خوشی سے بھر گیا ہے۔ ایسی رات میں کون اکیلا رہ سکتا ہے۔‘‘
وہ جام پُر کرنے کے لیے بوتل کا کاگ کھولنے لگے۔ کرشنا بائی نے ہاتھ بڑھا کر کہا، ’’حضور اجازت دیں تو یہ بندی جام بنا دے۔‘‘ بشومبھر رائے مسکرائے اور بوتل اسے دے دی۔
ایسراج کے تار پھر چھڑ گئے، اور کرشنا بائی گانے لگی۔ پھر اس نے رقص شروع کیا۔ وہ گا رہی تھی، ’’پریتم، میں گری ہوئی پتیوں کی مالا نہیں بناتی۔ مجھے وہ پھول لا دو جو بہت اونچے کِھلے ہیں، یا مجھے ان تک پہنچا دو۔ مجھے تمھارے لیے مالا بنانی ہے۔‘‘ وہ اپنے بازو اوپر اٹھائے گا رہی تھی۔ بشومبھر رائے نے ایسراج ایک طرف رکھ دیا اور اسے اپنی آغوش میں لے کر اوپر اٹھا لیا۔ وہ ہوا میں رقص کرنے اور گانے لگی، اس کے پیر زمین پر نہ پڑ رہے تھے۔ گانا ختم ہوتے ہی کرشنا بائی نے گرنے کا بہانہ کر کے ایک چیخ ماری۔ مدہوش ہو کر بشومبھر رائے اسے باربار پکارنے لگے، ’’چندرا! چندرا! میری جان! ‘‘
گیت پر گیت، جام پر جام۔ ایک بوتل خالی ہوئی، دوسری بھی خالی ہونے لگی۔ پھر تھکن سے چور کرشنا بائی فرش پر ڈھے گئی۔ بشومبھر رائے نشے میں شِو کی طرح سیدھے بیٹھے رہے۔ کنچنی کی حالت دیکھ کر وہ ذرا مسکرائے، پھر ایک تکیہ آہستہ سے اس کے سر کے نیچے رکھ دیا۔ پھر وہ دوبارہ ایسراج بجانے لگے۔ اچانک گنگولی ہاؤس سے گھڑیال کی صدا بلند ہوئی۔ تین بج گئے!
حویلی کے ستونوں کے اوپر کی جھلملیوں میں کبوتر غٹرغوں کرنے لگے۔ بشومبھر رائے چونک کر خواب سے نکل آئے۔ ہر صبح وہ اس گھڑیال کی آواز پر جاگتے تھے۔ وہ اٹھ کھڑے ہوے۔ بس ایک بار اور انھوں نے کرشنا بائی کو دھیرے سے چھوا اور اپنی آواز میں پیار سمیٹ کر اسے پکارا، ’’چندرا، میری جان!‘‘ پھر وہ دالان میں گئے اور اننت کو آواز دی۔
اننت ان کے لیے ستیل پاٹی اور حقہ لے کر اوپر پہنچ چکا تھا۔ وہ دوڑ کر نیچے آیا۔ بشومبھر رائے نے حکم دیا، ’’میرے سواری کے کپڑے لاؤ۔ نتے سے کہو طوفان پر زِین کسے۔ جلدی! ‘‘
اننت نے حیرت سے مالک کے چہرے کی طرف دیکھا، وہ فخر سے اپنی مونچھوں پر تاؤ دے رہے تھے۔
تڑکے کی خاموشی طوفان کی ہنہناہٹ سے گونج اٹھی۔ تاراپرسن جاگ چکا تھا۔ اس نے کھڑکی سے دیکھا، بشومبھر رائے طوفان پر سوار ہو رہے تھے۔ انھوں نے برجس اور لمبا کوٹ پہن رکھا تھا اور سر پر سفید صافہ تھا۔ ابھی اندھیرا ہی تھا، اسے محسوس ہوا کہ انھوں نے سنہری کام والے جوتے پہن رکھے ہیں اور ہاتھ میں چابک ہے۔ طوفان روانہ ہو گیا۔
کھیتوں پر کھیت پار کرتا، دُھول اڑاتا طوفان طوفانی رفتار سے دوڑ رہا تھا۔ صبح کی ٹھنڈی ہوا بشومبھر رائے کے جلتے ہوے ماتھے سے ٹکرا رہی تھی اور ان کا نشہ ٹوٹ رہا تھا۔ کھیت پار کر کے وہ کسی گاؤں میں پہنچے۔ ترکاریوں سے بھری ایک بیل گاڑی گزر رہی تھی۔ اس میں دو آدمی تھے جو شاید منڈی جا رہے تھے۔ ان کے کانوں سے چند الفاظ ٹکرائے، ’’جب سے گنگولیوں نے جاگیر خریدی ہے۔۔۔‘‘
بشومبھر رائے نے ایڑ لگا کر طوفان کی رفتار تیز کر دی۔
بیل گاڑی والے کہہ رہے تھے، ’’لگان دے کر کچھ بھی نہیں بچتا۔ رائے راجہ کے وقتوں میں ہم کتنے سکھی تھے۔‘‘
بشومبھر رائے نے ارد گرد دیکھا اور چونک پڑے۔ وہ طوفان کی پیٹھ پر سوار تھے، لیکن وہ کہاں تھے؟ رفتہ رفتہ انھیں احساس ہوا کہ وہ کرتی ہٹ میں تھے، اپنی چھنی ہوئی جاگیر کے ایک گاؤں میں۔ اگلے لمحے وہ سنبھل کر بیٹھ گئے، طوفان کی باگیں واپس موڑ دیں اور اسے چابک مارنے لگے۔ طوفان سرپٹ دوڑنے لگا۔ اصطبل کے سامنے پہنچ کر وہ ذرا رکے۔ پورب سے سورج کی پہلی کرنیں آ رہی تھیں۔
انھوں نے آواز دی، ’’نتے!‘‘ وہ ہانپ رہے تھے۔ انھیں احساس ہوا کہ طوفان بھی ہانپ رہا ہے۔ وہ اس کی پیٹھ پر سے اتر آئے اور دیکھا کہ اس کا منھ کٹ گیا ہے اور خون بہہ رہا ہے۔ طوفان تھک کر گر پڑا۔ بشومبھر رائے نے اس کا سر تھپتھپایا اور بولے، ’’بیٹا! بیٹا!‘‘ لیکن طوفان اٹھنا تو درکنار، سر تک نہ اٹھا سکا۔ ان کا نشہ شاید پوری طرح نہیں ٹوٹا تھا۔ وہ بڑبڑائے، ’’غلطی ہو گئی بیٹا! مجھ سے بھی اور تم سے بھی۔ مگر شرمندہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اٹھو بیٹا، طوفان، اٹھو، اٹھو! ‘‘
نتے پیچھے منتظر کھڑا تھا۔ بولا، ’’تھک گیا ہے۔ آرام کر کے اٹھ کھڑا ہو گا۔‘‘
بشومبھر رائے چونک کر مڑے اور نتے کو دیکھا۔ طوفان کو اس کے حوالے کرکے وہ حویلی میں چلے گئے۔ اوپر جا کر انھوں نے دیکھا، جلسہ گھر کے دروازے کھلے تھے۔ انھوں نے اندر نظر ڈالی، وہاں کوئی نہ تھا۔ وہ جا چکی تھی۔ شراب کی بوتلیں فرش پر لڑھکی پڑی تھیں۔ خالی۔ فانوسوں اور دیواری لیمپوں کی ساری بتیاں ابھی نہ بجھی تھیں۔ دیواروں پر پُرغرور رائے خاندان کے وارث استہزائیہ مسکراہٹ سے دیکھ رہے تھے۔ بشومبھر رائے ڈر کر پیچھے ہٹے۔ انھیں لگا یہ انھیں کا عکس ہے۔ نہ صرف ان کے بلکہ رائے خاندان کی ساتوں پشتوں کے فریبِ نظر جلسہ گھر میں جمع تھے۔ وہ دروازے سے پیچھے ہٹ آئے اور دالان کے جنگلے کا سہارا لے کر بچوں کی طرح چلائے، ’’اننت! اننت! ‘‘
اننت دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے اپنے مالک کو کبھی یوں چلاتے نہ سنا تھا۔ اس کے آتے ہی وہ پھر چلائے، ’’بتیاں بجھا دو! بتیاں بجھا دو! جلسہ گھر کے دروازے بند کر دو! جلسہ گھر کے۔۔۔‘‘
پھر کوئی آواز سنائی نہ دی۔ صرف ان کے ہاتھ سے چابک نکلا اور جلسہ گھر کے دروازے سے ٹکرا کر زمین پر گر پڑا۔
ستیہ جیت رے
انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال
جلسہ گھر کا پُرپیچ راستہ
’’لیکن کیا آپ نمِتیتا گئے ہیں؟ وہاں کی حویلی دیکھی آپ نے؟‘‘ پھونس کی چھت والے چائے خانے میں اس معمر آدمی نے پوچھا۔ ہم کلکتے سے ڈیڑھ سو میل دور لال گولا کے گاؤں میں تھے اور ابھی ابھی تیرھویں نوابی حویلی کو دیکھ کر اور غیرمناسب قرار دے کر رد کر چکے تھے۔
’’نمِتیتا؟ وہ کہاں ہے؟‘‘ ہم نے کسی ولولے کے بغیر پوچھا۔ ہم نے اس جگہ کا کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔
’’یہ یہاں سے ساٹھ میل دور شمال میں ہے۔ پہلے سڑک سے جاتے ہیں، پھر ایک دریا پار کرنا پڑتا ہے۔ اپنی کار آپ کشتی میں رکھ کر لے جا سکتے ہیں۔ پھر سڑک پر بیس میل اور۔ وہاں نشان سے آپ کو پتا چل جائے گا کہ کہاں مڑنا ہے۔ یہ پدما کے بائیں ہاتھ پڑتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان ہے۔ نمتیتا میں چودھریوں کی حویلی ہے۔ میں کافی دیر سے آپ لوگوں کی باتیں سن رہا تھا، اور میرا خیال ہے آپ کو مایوس ہونے سے پہلے یہ جگہ دیکھ لینی چاہیے۔‘‘
ہم ان لوگوں کے مفت مشوروں کو بہت شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے جنھیں غالباً ہماری ضرورت کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا تھا۔ بہرحال، اب سوال صرف یہ تھا کہ ہم اس آخری مہم پر جائیں یا نہیں۔ اگر یہ حویلی بھی پسند نہ آئی تو سارے منصوبے کو ترک کرنا پڑے گا، یا پھر کسی گمبھیر سمجھوتے سے کام چلانا پڑے گا۔ سکے کے ایک ٹاس نے فیصلہ کر دیا اور ہم اپنے ساٹھ میل لمبے سفر پر روانہ ہو گئے۔
جب میں نے تاراشنکر بنرجی کی مشہور کہانی ’’جلسہ گھر‘‘ کو فلمانے کا فیصلہ کیا، اس وقت میں اپنی دائیں ٹانگ پر پلاسٹر چڑھائے بستر پر دراز تھا۔ بنارس میں پتھر کی سیڑھیوں سے پھسل جانے سے میرے گھٹنے میں بری طرح چوٹ لگی تھی۔ میں بستر میں لیٹا، جو بنگالی کتابیں ہاتھ لگتیں پڑھتا رہتا تھا۔ اس زمانے میں ڈسٹری بیوٹروں میں میری ساکھ کچھ ایسی مضبوط نہیں تھی، اور شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ میں نے غیرشعوری طور پر ’’جلسہ گھر‘‘ کا انتخاب کیا۔
یہ ایک ڈرامائی کہانی تھی جسے جائز طور پر ناچ گانے سے سجایا جا سکتا تھا، اور ڈسٹری بیوٹر ناچ گانے کے دیوانے تھے۔ لیکن دوسری طرف اس میں موڈ، ماحول اور نفسیاتی کرید کی بھی بہت گنجائش تھی۔ میں نے ایک صاف تخلیقی ضمیر کے ساتھ اس کہانی کے حق میں فیصلہ کیا۔ موسیقی کی محفلیں منعقد کرنے کے شوق کے ہاتھوں تباہ ہو جانے والے زمیندار کے مرکزی کردار کے لیے میں نے چھبی بسواس کو منتخب کیا جو ہمارا سب سے عظیم اداکار ہے۔ لیکن سب سے گمبھیر مسئلہ حویلی کی تلاش کا تھا۔ بجٹ کے محدود ہونے کی وجہ سے اسٹوڈیو میں سیٹوں کی تعمیر کی عیاشی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اگر ایسا کرنا پڑتا تو اس طرزِ تعمیر اور اس کی کہنگی اور زوال کی ہوبہو نقل تیار کرنے کے لیے میرے آرٹ ڈائریکٹر پر بھروسا کیا جا سکتا تھا، لیکن اس کے لیے رقم کہاں تھی۔
نمِتیتا وہ سب کچھ ثابت ہوا جس کا اس بوڑھے شخص نے دعویٰ کیا تھا، بلکہ اس سے زیادہ۔ اس حویلی پر چھائی ہوئی بےپناہ گہری ویرانی کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن تھا۔ گزرے ہوے برسوں میں پدما نے اپنا پاٹ اس طرح بدل لیا تھا کہ جہاں پہلے گاؤں رہے ہوں گے، وہاں اب دور دور تک ریتیلے ویرانے تھے۔ اور خود حویلی بھی، اپنے یونانی ستونوں اور ان کے اوپر بنی محرابوں سمیت، میرے تخیل کا ہوبہو عکس تھی۔ وہ ایک شکستہ اور المناک وقار کے ساتھ کھڑی ویرانوں کو تکتی معلوم ہوتی تھی۔ وہ دریا کی موج کے ہاتھوں نیست و نابود ہونے سے معجزانہ طور پر بچ گئی تھی جو اس کے سامنے دس گز کے فاصلے تک چڑھ آیا تھا اور باغ اور اصطبلوں کو غرقاب کر کے ٹھہر گیا تھا۔ ستر سالہ گنیندر نرائن چودھری نے، جو اس حویلی اور برطانوی حکومت کے دیے ہوے ایک خطاب کے مالک تھے، اس واقعے کو ہمارے واسطے دوہرایا: ’’ایک صبح ہم ناشتہ کر رہے تھے کہ ہمیں ہلکی سی گونج سنائی دینا شروع ہوئی۔ باہر برآمدے میں آ کر ہم نے اپنی جاگیر کے ایک خاصے بڑے حصے، تقریباً ایک مربع میل کے حصے، کو ہمیشہ کے لیے زیر آب جاتے دیکھا۔ یہ سب صرف چند سیکنڈ میں ہو گیا۔ پدما کی بھوک تو ضرب المثل ہے۔‘‘
’’مگر کیا آپ کو اس کا خوف نہیں کہ دریا اور آگے بھی آ سکتا ہے؟‘‘
’’ہاں، کیوں نہیں، ہر بار برسات کا موسم یہی اندیشے لاتا ہے۔‘‘
’’تو پھر آپ اس جگہ کو چھوڑ کیوں نہیں جاتے؟‘‘
’’اسے چھوڑ کر جانے پر ہم اس کے ساتھ ڈوب جانے کو ترجیح دیں گے۔‘‘
نمتیتا کی حویلی بہترین انتخاب تھی، مسئلہ صرف جلسہ گھر کا تھا۔ ویسے تو اس حویلی میں ایک جلسہ گھر موجود تھا (گنیندر نرائن چودھری کے چچا اُپنیدر نرائن چودھری ہماری کہانی کے مرکزی کردار کی طرح موسیقی کے شائق رہے تھے) لیکن یہ اتنا متاثرکن نہ تھا کہ موسیقی کی ان شاندار محفلوں کے مناظر کے محل وقوع کے لیے کام دے سکے جن کا میں نے منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اسے اسی طرز میں اسٹوڈیو میں تعمیر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پھر ہماری کہانی کے دو اور عناصر سے چودھری محروم تھے۔ ایک تو ہاتھی، جو ان کے پاس بیس سال پہلے تک تھا مگر اب نہیں، اور دوسرے سفید اسٹالیئن۔ گھوڑا تو خیر کلکتے کے ایک ذاتی اصطبل میں تلاش کر لیا گیا؛ یہ ایک ایسے رئیس کی ملکیت تھا جو اپنے اچھے دن گزار چکا تھا اور اب گھوڑے کا خرچ اس کی برداشت سے باہر تھا؛ اس نے بڑی خوشی سے یہ گھوڑا ہمارے ہاتھ دو سو روپے میں فروخت کر دیا۔ ہاتھی ایک راجہ کے پاس تھا جسے ہاتھی ہمیں ادھار دینے پر رضامند کر لیا گیا۔ وہ ایک سو پینسٹھ میل کا سفر پیدل طے کر کے ہماری لوکیشن پر پہنچا اور راستے میں پانچ دریا پار کیے۔
نمِتیتا سے پہلی بار لوٹ کر میں نے کہانی کے مصنف مسٹر بنرجی کو ٹیلیفون کیا۔ وہ بھی مناسب لوکیشن کے سلسلے میں اتنے ہی بیتاب تھے جتنے ہم لوگ۔
’’مسٹر بنر جی، بالآخر ہم نے اپنی حویلی ڈھونڈ لی،‘‘ میں نے کہا۔
’’اچھا؟ کہاں ہے وہ؟‘‘
’’ایک گمنام سی جگہ ہے، نمتیتا نام کی۔‘‘
’’کیا؟ نمتیتا؟‘‘ ان کی آواز میں ایسی کیفیت تھی جیسے وہ اس جگہ کو پہچان رہے ہوں۔ ’’کہیں وہ چودھریوں کی حویلی تو نہیں؟‘‘
’’بالکل! ‘‘
’’لیکن یہ تو حیرت ناک بات ہے! میں کبھی نمتیتا نہیں گیا، لیکن میں نے بنگالی زمینداروں کی ایک تاریخ میں چودھری گھرانے کا احوال پڑھا تھا، اور موسیقی کے شائق اُپنیدر نرائن چودھری ہی کا حال پڑھ کر میں نے بشومبھر رائے کا کردار تخلیق کیا تھا۔‘‘
اسد محمد خاں
نےٹِو ہوسپی ٹالٹی*
سرکار! کوئی جان گلکرائسٹ صاحب آئے ہیں
بٹھاؤ، پوچھو کیا شوق فرمائیے گا
حضور! کہتے ہیں پولو کھیلوں گا
تو اپنے میر امّن کو بھیج دو
سرکار! اَیرے زونے سے کوئی ٹورسٹ بی بی آئی ہیں
بٹھاؤ، پوچھو کیا شوق فرمائیے گا
حضور! کہتی ہیں ڈھانچا دیکھوں گی
چہ خوب! کہہ دو گرم پرواز ہے، فلک پہ ٹاپیں مار رہا ہے
اور کہہ دو جم جم آئیں، پہ بدشگونی نہ فرمائیں ...
مگر ٹھہرو، مہمان ہیں، اس طور لوٹایا بھی تو نہیں جا سکتا
(یہیں کہیں تو کھٹ پٹ کر رہے تھے
یہ اپنے چونی منڈی والے ڈاکٹر کہاں گئے؟)
* NATIVE HOSPITALITY
اسد محمد خاں
بُرجِ خموشاں
میں ایک نوتعمیر عمارت میں ہوں۔
یہ ایک بُرج سا ہے۔
برج کسی نامقدس ناہنجار ٹوٹم کی طرح ایک طرف جھک گیا ہے۔ ابتدا میں اسے کُرے کا مرکز قرار دے کر عموداً نصب کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، گر بنیادی بددیانتی سے کام لے کر اسے ٹیڑھا گرایا گیا؛ پھر زمین کی کشش دوسری سب چیزوں پر حاوی آ گئی، اس لیے برج زاویۂ قائمہ بنانے سے قاصر رہا اور ایک طرف جھکتا چلا گیا۔ جب یہ ہو چکا تو خاموشی کے ساتھ طے کیا گیا کہ اب اسے صرف کریاکرم کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس طرح زندوں کے لیے تعمیر ہونے والی اس عمارت کوبرجِ خموشاں بنا دیا گیا، اور یہ بات مجھ سے چھپائی گئی۔
مجھے برج کے جھک جانے پر، یا اس کے نئے استعمال پر، یا بات کے چھپائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اب تو کسی چیز پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض اسے کرنا چاہیے جس کے بس میں کچھ ہو۔ میرے بس میں کچھ نہیں ہے۔ صرف تماشائی ہونا میرے اختیار میں ہے، اس لیے میں صرف تماشا دیکھ رہا ہوں۔
میں سر اٹھائے برجِ خموشاں کے دہانے سے نظر آتے روشن آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوں، اور دیکھ رہا ہوں کہ مُردارخور پرندوں کے غول روشن آسمان کے مقابل آ کر اسے ڈھک لیتے ہیں۔ ممکن ہے یہ بصری دھوکا ہو (ٹیلی وژن پر ابھی ابھی یہی کہا گیا ہے)، مگر میں اپنی ہڈیوں میں محسوس کر رہا ہوں کہ ابتلا کا آغاز ہو چکا ہے۔
خواتین و حضرات! مجھے گمان ہے کہ میں کسی حد تک زندہ آدمی ہوں اور غلطی سے یہاں موجود ہوں، کہ یہ برج غلطی سے میرے گرد تعمیر کر دیا گیا ہے۔ اس لیے امید کرتا ہوں کہ آپ کا خداوند مجھے اب چیخنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔ (ایک آدمی کی چیخ، اس کے بعد سناٹا۔)
محمد خالد اختر
کراچی کا تہذیبی مرقع
مع مدحت نامۂ بےنظیر
یہ آشفتہ حال، پریشاں خیال، شُترچال، بدیع الجمال وغیرہ، سراپا صفر، محمد خالد خاں خضر، حال مقیم ارضِ بےنظیر، دل پذیر، رشکِ پیرس ولندن، مسکنِ ماہ وشانِ گل بدن و جوانانِ سیم تن، جاے مردم خیز، باشندے یہاں کے کیا مہاجر کیا انصار، نشۂ قومیت میں سرشار، جیالے آفت کے پرکالے، سب علیم و فہیم، ہر کوئی اپنے رنگ میں مست، اکثر مطلب پرست، دیدۂ انصاف سے اس شہر کو دیکھے تو سکون و عافیت سے منھ سر لپیٹ بستر میں پڑا رہے، گھر سے باہر نہ جائے، کمائے نہ کھائے۔
سبحان اللہ عجب شہرِ خلفشار ہے، دھواں دھار ہے۔ یہاں کے جیسے محلّے ہیں ویسے لاہور اور ملتان کے شہر ہیں۔ ڈیفنس، صدر، بندر روڈ، بوہری بازار، چاکی واڑا، بہار کالونی، لیاری، ناظم آباد، لالوکھیت، مالیر، ماڈل کالونی، گلشن اقبال، طارق روڈ، کب تک یہ پنبہ در دہان ان محلّوں کے نام گنوائے، یہ سعیِ فضول ہے، زبان ہار جائے شمار تمام نہ ہو پائے۔ ہر ایک محلہ پورا شہر، میلوں تلک پھیلا۔ ہر ایک کا تمدّن جدا، فن تعمیر الگ، منفرد۔ جمعیتیں چھروں، طپنچوں، کلاشنکوفوں سے لیس چھوکروں کی اکثر ان قصبات کے کوچوں میں نمودار ہوتی ہیں اور کارزار بپا کرتی ہیں؛ کوتوالِ شہر کے آدمی تماشا دیکھتے ہیں، نزدیک نہیں پھٹکتے، حتیٰ کہ علاقوں کے علاقے زیر کرفیو آتے ہیں، حکومت کی فوج کے لشکری گشت کرتے ہیں۔
ڈیفنس کا علاقہ پچاس ساٹھ مربع میل پر محیط ہے۔ فرشتے اس کا نقشہ دیکھیں تو گلزارِ جناں کو دل سے محو کریں اور باری تعالیٰ کی خدمت میں عرض کناں ہوں کہ یہاں آباد ہونے کی اجازت مرحمت کی جائے۔ کوٹھیاں خوش نما، جاں فزا، نمرود کے محل نے ان پر خار کھایا۔ ہر کوٹھی محل سرا، پھاٹک پر باوردی دربان ایستادہ، اندر احاطے میں پانچ پانچ چھ چھ موٹر، ایک صاحب خانہ کا، ایک بڑی بیگم کا، ایک چھوٹی بیگم کا، ایک بیٹی کا، ایک بیٹے کا۔ اس شہر کے اہلِ دَول کے پاس اتنا روپیہ ہے کہ قارون دیکھے تو شرم سے پانی پانی ہو۔ بعضے ان میں سے ہیروئن کے بیوپاری، اور بعضے جدی پشتی بادشاہ زادے۔ یہ لوگ اکثر رہزنوں اور اغواکنندگان کے خوف سے پھاٹک بند رکھتے ہیں۔
یہاں کا ہر شخص، کیا امیر کیا فقیر، اپنی حیثیت کے مطابق خوش لباس، خوش خوراک ہے۔ فقیر عموماً چیغہ و سرپیچ سر پر لگاتے ہیں؛ گردن میں منکولائی مالا، تن پر تھگلیوں کی رنگین خلعت پہنے صدا کرتے ہیں، اپنے کشکول کو سکوں اور نوٹوں سے بھرتے ہیں۔ بازاری اپنی شلوار قمیض میں، امیر اپنے بوشرٹ اور فرنگی پائجامے میں، چست اور باوضع نظر آتے ہیں۔ یہاں کے جو مزدور مسکین ہیں، دوسرے شہروں کے ویسے معززین ہیں۔ ہر فن میں باکمال یہاں موجود ہے۔ ایسے استادانِ فن کہیں دیکھے نہ سنے۔ اس فقیر کے ایک مہمان لاہور کا ٹکٹ چھاؤنی کے اسٹیشن پر لینے کے لیے گئے۔ کھڑکی کی قطار میں کھڑے ہوے۔ کھڑکی پر پہنچ کر جیب میں ہاتھ ڈالا تو، یا مظہر العجائب، بٹوا غائب۔ کسی استاد نے اس صفائی سے جیب کاٹی تھی کہ عش عش کر اٹھے۔ روپے جانے کا قطعی غم نہ کھایا، مجھ سے چار سو روپے ادھار لے کر اپنے شہر پہنچے۔ ایک مدت سے نامہ و پیام ان کی طرف سے نہیں آیا۔ غالباً جیتے ہیں۔ اللہ ان کی عمر دراز کرے۔
کلفٹن روڈ کا دورویہ بازار کس شان کا ہے، ہر عمارت ہر دکان کا پیش آن بان کا ہے۔
فلک بوس محل سراؤں کے بیچوں بیچ موٹرکاروں کا جلوس عجب طمطراق سے رواں دواں ہے۔ گویا مختلف سمتوں میں ساتھ ساتھ بہتے دو لہراتے موجیں مارتے دریا ہیں جو تھمنے میں نہیں آتے۔ جو کوئی دوسرے کنارے جانے کی خاطر ان کو عبور کرنے کی نیت دل میں لائے، سیدھا اگلے جہان کو جائے، ہمیش کے لیے اس شہر سے ہجرت فرمائے۔ پیر مرد و زن مختل حواس کے لیے درحقیقت اس بحر کی پیراکی خطرناک ہے۔ پانچ چھ بوڑھے ہر روز اس کی نذر ہوتے ہیں، خالق حقیقی سے معانقہ کرتے ہیں۔ سڑک کے دونوں اطراف پر پتھر اور کنکریٹ کے فٹ پاتھ ہیں، جابجا ٹوٹے، شکستہ، بیچ میں ڈھکن کے بغیر مین ہول، اس میں پاؤں پڑے تو تحت الثریٰ کی خبر لائے، کوئی سراغ نہ پائے۔ آس پاس کوڑے کباڑ کے فرحت بخش معطر انبار ہیں۔ تین تلواروں کے چوک سے سرِ راہ سپر مارکیٹ پر، وسیع گول چکر، اردگرد عالیشان اسٹور اور دکانیں ہیں۔ کل جہاں کا سامان سرمایۂ زینت و زیبائش ان میں مہیا ہے۔ اندر روک ٹوک نہیں، گو گماشتے عام آنے جانے والے بازاریوں کو نگاہ میں رکھتے ہیں۔ قطاردر قطار فروخت کا ہر سامان جو قیاس میں کسی کے آئے، سجا ہے۔ قیمت ہر چیز کی اس پر درج، جس کا جس شے پر جی آئے، اس کو ایک پہیوں والی ٹرالی میں ڈالتا جائے، ٹرالی کو کاؤنٹر پر لے آئے اور حساب چکائے۔ لاکھوں کی خریداری یہاں ہر روز آغا اسٹور پر ہوتی ہے۔ مفلس البتہ وہاں نہ گھسے، اس سرمایۂ عیش کو سپنا سمجھے، آنکھیں بند کرے۔
جنوب کو بوٹنگ بیسن کی دورویہ سڑک، فلک بوس آٹھ آٹھ دس دس منزلہ محل سرائیں نشاط افزا، نیچے دکانیں، اسٹور اور طعام خانے۔ ایک بازار یہاں وڈیو کی دکانوں کا ہے، دنیا جہاں کی سب فلمیں یہاں دستیاب ہیں۔ گو کہ ہندوستانی فلموں کا دیکھنا جرم ہے، مگر سب دیکھتے ہیں۔ محافظینِ قانون مناسب معاوضہ لے کر چشم پوشی کرتے ہیں۔ کھلم کھلا، دن دہاڑے سب کاروبار ہوتا ہے۔ سبحان اللہ عجب میلہ لگا ہے، پیرس کی شانز الیزے اس کے سامنے گرد ہے۔ ہزاروں موٹرکاروں کا ہجوم، ان میں نازنینانِ پری شمائل، غارتِ دنیا و دیں، جو کوئی ان کو گھڑی دو گھڑی تک ٹکٹکی باندھ کر دیکھ لے، اوّل تو غش کرے ورنہ محبوبۂ ستم پیشہ کی صورت ہمیشہ کے لیے اس کے سینے پر نقش ہو، ایسا روگ لگے کہ عمر بھر کے لیے کسی کام کا نہ رہے۔ نانخانے اور طعام گھر رنگ رنگ کے، سِی گل، مسٹر برگر، پیزا کارنر۔ شیرمال، مرغِ بریاں، چکن کڑھائی، زعفرانی پلاؤ، جھینگا مچھلی، کل جہان کی نعمت آب داری کی جس کی بوباس سے باہر منڈلاتے بھوکوں کی بھوک مٹے، سونگھ کر دو دن تک بھوک نہ لگے۔ دام نہایت مناسب، ایک چھوٹی رکابی کے پچاس ساٹھ روپے؛ ایک بار اس کا چٹخارہ لے کر پھر ادھر کا رخ نہ کرے۔ باوردی خوش سلیقہ لونڈے خدمت پر مستعد۔ ویسے تو بولٹن مارکیٹ والے خان کا کباب پراٹھا بھی مشہور ہے، مگر پیزا کارنر والے کے پیزے کا اور ہی سرور ہے۔ چار دن عطربیز ڈکاریں آتی رہیں۔
ایک شام بندے نے بھی یہ پیزے کی نعمت چکھی تھی۔ احباب کے لطائف میں اس نے عجب لطف دیا۔ چار داڑھی والے سازندوں نے اپنے سازوں پر دھنیں بجا کر لطف کو دوبالا کیا۔ فقیر کی مادّیت پرستی سے بےنیازی، بل کا حساب کتاب میری ایک بھتیجی نے چکایا۔
یہی میلے ٹھیلے زیب النسا اسٹریٹ اور طارق روڈ پر ہیں۔ سوداگر بچے ان محلوں کے جواہرات میں تلتے ہیں۔ بوہری بازار میں خوب بیوپار ہوتا ہے۔ وہاں کے دکاندار، نرم مزاج، متواضع اور مہمان نواز، گاہک کی کوکاکولا و ببل اپ سے تواضع کرتے ہیں، اصل عنایت جتاتے ہیں، منھ مانگی قیمت پاتے ہیں۔
پینے کے پانی کی قلّت ہوتی ہے، نل کی ٹونٹی گھمانے سے خفّت ہوتی ہے۔ محکمۂ آب رسانی کا اس میں قصور نہیں کہ حب دریا کے اتار چڑھاؤ پر کمی و بیشیِ آب کا انحصار ہے۔ اس آبِ مصفا کی طہارت پر گنگاجل کو خار ہے۔ آبِ رودِ نیل اس کی نِرمَلتا پر نثار ہے۔ یہاں یہ پانی سفر طویل طے کرتا، سرِراہ کی بدروؤں کے لطیف ذرات کو سمیٹتا، بندگانِ شہر تک بار پاتا ہے۔ جس نے یہ پانی پیا، پیچشِ دائمی کا نسخہ لیا۔ اس مرض کا علاج حکیم سقراط کے پاس نہیں۔ یہاں کے اطباے نام دار کی مسیحائی کچھ تاثیر نہیں دکھاتی، ناسور معدہ وامعا کے داغ نہیں مٹاتی۔
برسات کا اگر موسم ہے، شہر کا یہ عالم ہے: ادھر دو چھینٹے ابر رحمت کے برسے، ادھر سب گلی کوچے رستے جل تھل ہوے۔ سارا شہر زیرِ آب، فقیروں کی جھگیاں غرقاب۔ شعر:
برکھا کی برکت، اللہ اکبر
دو انچ بارش، دس میل پانی
کرنٹ بجلی کے نے ایسا غچا کھایا، گھنٹوں بلکہ دنوں تک نہ آیا۔ جن کو مثل بندے کے سواری کا مقدور نہیں، دخل کیا کہ کہیں آ جا سکیں۔ گلی میں نکلے تو پھسلے، چاروں شانے چت ہوے۔ ایدھی کی سوزوکی ہو جو اس کو اٹھا کر لے جائے۔ ایسے میں لازم ہے کہ گھر کے اندر پڑے رہیں جیسے طائر قفس میں۔ آ سکیں نہ جا سکیں۔ اور جو چھت نیچے آ گری تو اللہ حافظ و ناصر۔ سوہنی اشتیاقِ وصل میں مہینوال سے بہرِ ملاقات جائے، پہلے پکّے گھڑے کا انتظام عمل میں لائے، ورنہ ملتوی کرے۔
ہرچند سب لوگ یہاں کے قیامت ہیں، بعضے سراپا ذہانت و فطانت ہیں، یعنی کہ ملک وقوم کی بیش قدر امانت ہیں۔ اس شہر نفیس کو ہر فن کا کامل دستیاب ہے۔ لاہور و ملتان و پنڈی اس جنس سے خالی ہیں۔ جن کو اُن شہروں میں شاعری، داستان گوئی، موسیقی، مصوری کا دعویٰ ہے، وہ اِس شہر کے استادوں کے سامنے طفلانِ نوآموز و نومشق ہیں۔ ان کی شاگردی ہنوز چند سال کریں تو شاید کسی قابل ہوں۔ رئیسِ شاعری حضرت رئیس امروہوی نے اس قطع اور بانکپن کا شعر اور قطعہ لکھا کہ متقدمین نے لحد میں آفرین کہی۔ سوتے جاگتے اتنے قطعات لکھے کہ بعد ان کے مرنے کے اب تک اخبار جنگ میں چھپتے ہیں، اور تین چار برس کا سرمایہ ابھی باقی ہے۔ دوہاخواں حضرت جمیل الدین عالی نے طرزِنو دوہے کا ایجاد کیا اور اس میں اتنی دل سوزی اور خوش نوائی پیدا کی کہ سب نے واہ واہ کی، بھگت کبیر و بلّھے شاہ نے انھیں اس فن کا استاد تسلیم کیا۔ نثر کی اصناف، خاکہ نگاری، کالم و مقدمہ نویسی وغیرہ میں اپنی جودتِ طبع سے وہ خامہ فرسائی کی کہ سب نے کان پکڑے۔ جنگ اخبار میں ہر ہفتے ان کا معاشرتی و سیاحتی کالم چھپتا ہے، اس میں وہ اپنے راہوارِ فکر کو بےرکاب و بےلگام چھوڑ دیتے ہیں۔ غواصانِ بحرِ ادبیاتِ عالیہ اس میں معانی کے موتی پانے کی خاطر غوطہ زن ہوتے ہیں، یہ موتی خوش نصیب کے ہاتھ آتا ہے۔
انشاپردازوں اور محقّقوں میں حضرت مشفق خواجہ، طوطیِ بذلہ سنج، خوش گفتار، آقاے قلمروے لطائف، تحقیق کے میدان میں ان کا ہمسر جہان میں نہیں۔ لارڈ مکالے و حافظ محمود شیرانی اگر جیتے ہوتے تو اپنے لکھے پر تاسف کرتے، رشحاتِ قلم کو عام کرنے کی بجاے آگ میں جھونکتے۔ گوپی چند نارنگ او رمالک رام نے خفت سے ناک رگڑی اور مزید محققانہ کام سے توبہ کی۔ خواجہ صاحب ہر ہفتے مولوی صلاح الدین کے پرچے ’تکبیر‘ میں ادبی کالم تحریر کرتے ہیں، نہایت دلچسپ، تبسم خیز، گدگدانے والا۔ قلم رواں کے تیرونشتر اس طور بےپناہ چلاتے ہیں کہ دوست دشمن کا امتیاز نہیں کرتے، ان کے ڈنک کا ڈسا شفایاب نہیں ہوتا۔
میاں شرافت علی صہبا لکھنوی، نحیف الجثہ، نازک اندام، سراپا اخلاص۔ ایسا کام کا دھنی دیکھا نہ سنا۔ نِزار جسم میں بجلی کی قوت بھری ہے۔ اڑتیس چالیس برس پہلے ایک ماہنامہ ادب کا ’افکار‘ کے نام سے کراچی سے جاری فرمایا، پہلے بھوپال سے چھپا کرتا تھا۔ یہ ماہتابِ علم و ادب تب سے ماہ بماہ طلوع ہوتا ہے اور کبھی اس میں دیر نہیں ہوئی۔ یہ امتیاز اس سلطنت میں اردو یا کسی زبان کے پرچے کو حاصل نہ ہوا۔
اس بندے کے مشفق سخنور اس شہر میں اور بہتیرے ہیں۔ ان کی صفات کے بیان کے لیے دفتر درکار ہیں۔ نام بھی ان کے نہیں دیتا کہ طبیعت بسکہ مائل بہ اختصار ہے۔ جس کسی کا نام چھوٹ جائے گا، وہ منھ کو آئے گا۔
ایک انجمن امیر ادیبوں کی اس شہر میں ’سلسلہ‘ کے نام سے قائم ہے۔ ہر کوئی اپنے گھر سے ایک نعمت پکوا کر اپنے ساتھ میزبان کے گھر پر لے جاتا ہے اور سب مل کر میزبان کے دسترخوان پر ضیافت اڑاتے ہیں۔ ہنسی مذاق کی گفتگو، لطیفہ گوئی سے دل خوش کرتے ہیں۔ مقررشدہ اصحاب اپنی داستانیں غزلیں پڑھتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔ پھر ہر کوئی اپنا بھانڈا برتن لے کر موٹر میں اپنے اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ کوئی غم روزگار کا مارا داستان گو یا شاعر ان محفلوں میں راہ نہیں پا سکتا۔
ہر طبیب اس شہر کا اپنے دور کا مسیحا ہے، مردہ تن میں جان ڈالتا ہے بشرطیکہ مریض دیر سے اس کے پاس نہ پہنچے۔ ہر عضو بدن، ناک، کان، آنکھ، پھیپھڑے، قلب کے ماہر معالج موجود ہیں۔ بندے نے ان کے علاج کے بعد کئی بہروں کو سنتے، گونگوں کو بولتے، اندھوں کو دیکھتے، اپاہجوں کو اپنی ٹانگوں پر چلتے دیکھا ہے۔ یہ طبیب کروفر سے مطب کرتے ہیں اور اپنی تجوریوں کا منھ بھرتے ہیں۔ خدمتِ خلق کا نام ان کے دم سے زندہ ہے ورنہ ہر کوئی یہاں حرص کا بندہ ہے۔ فقیر کے ایک حبیب کو زکام کا عارضہ ہوا۔ میں نے اسے جوشاندہ پینے کا مشورہ دیا، وہ نہ مانا، طبیب سے علاج کرنے پر بضد ہوا۔ ڈیڑھ ہزار روپے کا صرفِ کثیر کرنے کے بعد پانچ دن کے اندر بالکل بھلا چنگا ہو گیا۔
اس شہر میں بیسیوں مکتب، درس گاہیں، جامعات ہیں۔ ان کے فیض سے ہر طالب علم طپنچہ و کلاشنکوف صحیح نشانے پر چلانے کی مہارت بہم پہنچاتا ہے، علومِ حرب و ضرب میں طاق ہو جاتا ہے۔ درس و تدریس برس میں دو تین مہینے ہوتی ہے اور پانچ چھ سال کا نصاب پڑھانے میں کم و بیش دس سال لگ جاتے ہیں۔ ان درس گاہوں اور جامعات کی دیواروں پر مختلف جمعیتوں کے نعروں کی خوش نویسی سے دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ ان ہونہار یاقوت رقم فرزندوں کا مستقبل تابناک ہے۔ ہر جامعہ میں دو تین ہونہاروں کے گھائل ہو جانے کا معمول ہے، حاجی عبدالستار ایدھی کا جنازے اٹھانے کا انتظام معقول ہے۔
احمد شریف کلاونت قوال عدیم المثال باکمال کی موسیقی نے مشرق و مغرب میں دھوم مچائی، جس نے سنا کانوں میں انگلیاں دیں، لوٹ پوٹ ہوا۔ تان سین جیتا ہوتا تو نورتن میں شامل ہونے سے عذرخواہی کرتا، گلے کا آپریشن کراتا۔ بنجمن سسٹرز نے اپنی قہرادائی سے وہ قیامت برپا کی کہ مولوی ملاؤں کی توبہ ہاے نصوحا ٹوٹیں، ہاروت و ماروت اپنے آہنی سلاسل توڑ کر ان کی چاہ میں کراچی کے ٹیلی وژن اسٹیشن میں فروکش ہوے۔ محمد شفیع نے نورالہدیٰ شاہ کے ناٹک دل سوز ’تپش‘ میں ایک مشہور جاگیردار سیاست دان کا وہ بہروپ بھرا کہ حقیقت کو آئینہ دکھایا۔ سر لارنس آلیویر نے اس کی اداکاری دیکھ کر اشکِ حسرت بہائے اور اگلے جہان کو مراجعت کی ٹھانی۔ از روے انصاف اس ناٹک میں بندے کے پسرِ کبیر منصور کی اداکاری بھی اچھی ہے، جس نے دیکھا تعریف کی۔
اس شہرِ شریف میں قائدینِ ملّت، پیروں فقیروں، قطبوں ابدالوں کے مزار و مقابر بھی چپے چپے پر ہیں۔ ملائک عرش سے فرش پر اتر کر صبحدم ان لطیف ہستیوں کی درودخوانی کرتے ہیں۔ حضرت باباے قوم، قائداعظم محمد علی صاحب جناح کا مزار ایک وسیع احاطے میں رفعت و شان کا ہے۔ کلّہم سنگ مرمر کی تعمیر ہے۔ اس کے نقشے اور تراش خراش پر استاد عیسیٰ اصفہانی اور سر ایڈورڈ لیٹنز نے اپنے بال نوچے۔ کیا عجیب نقشہ ہے، ڈھلواں چہارپہلو مکعب پر دودھیا پیاز دھر دیا ہے۔ جب کوئی باہر کے ملک کا پادشاہ، والی، شیخ اس شہر کو اپنے قدومِ میمنت لزوم سے سرفراز کرتا ہے، سب سے پہلے اسے اس مزار پر لے آتے ہیں۔ وہ چاق و چوبند بحری فوج کے جوانوں کی مدد سے قبر پر پھول چڑھاتا ہے۔ دوسرے فاتحہ پڑھتے ہیں۔ حضرت رحمت اللہ علیہ بظاہر مردہ فی الحقیقت جیتے ہیں۔ حاضری دینے والوں کا حال احوال خوب خوب جانتے ہیں۔ دیکھتے ہیں، بولتے چالتے کچھ نہیں۔ حضرت شاہ عبداللہ شاہ غازی کا مزارِ منور، گنبد خضرا، دن میں روشنیوں سے جگرجگر کرتا، پہاڑی پر بنا مرجع خلائق ہے۔ کسی کو بےمراد نہیں لوٹاتے۔ حضرت منگو شاہ کا مزار کراچی سے چند کوس کے فاصلے پر ہے۔ حضرت کو مگرمچھ پالنے کا شوق تھا، جو کوئی ان کو گوشت کھلاتا ہے اپنی مراد پاتا ہے۔ پیر کے چشموں کے فیضِ تاثیر سے بہت سے مریض، اپاہج تندرست ہو گئے۔ بندہ کس کس کا ذکر کرے۔ قلم کو یارا نہیں کہ ان بزرگوں کی سب کرامات رقم کرے۔
کھارادر کے میمن سیٹھ دلال، مرفع الحال، خوش پوش، لنگوٹی دھوتی پاجامہ بدن پر، سگرٹ کو ہاتھ نہیں لگاتے، بیڑی پیتے ہیں۔ ایک ایک ڈیڑھ دو کروڑ کی اسامی ہے۔ اغوا کرنے والے ٹولوں نے ہنوز اس محلے کا رخ نہیں کیا۔ ایک ہجوم بےہنگام میں کسی دلال کو اٹھا لینا اور رفوچکر ہونا آسان نہیں۔ یہ لوگ حتی المقدور اپنے محلے سے نہیں نکلتے، ٹیلی فون پر میل ملاقات بیوپار کرتے ہیں۔
خامہ بگوش نے احوال مختصر کیا ہے۔ حاسدوں کو جلانے سے کچھ حاصل نہیں۔ زیادہ لکھتا تو کتاب ہو جاتی جسے کوئی نہ چھاپتا۔ بندے کا یہ مقدور نہیں، کاغذ مہنگا ہے۔ اب تک یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ لوگ کراچی شریف کے نام پر چِڑھتے کس لیے ہیں، لال پیلے کیوں ہوے جاتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کا اس میں کیا قصور کہ یہاں رہتے ہیں، یا کوئی اور ان کو یہاں بسنے کے لیے لے آیا ہے؟
یہ مضمونِ مختصر بعہد دولتِ شہیدالشہدا حضرت صدرِ صدور جرنیل ضیاء الحق صاحب بہادر شروع ہوا تھا۔ بیچ میں چند مکروہاتِ دنیوی نے اس حد تک آن دبوچا کہ دل جمعی، سکونِ قلبی سے اس کام کا کرنا ممکن نہ رہا۔ اس عرصے میں حضرت مرحوم ومغفور غازی اسلام طیارے کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوے۔ اس روح فرسا سانحے کا سن کر سکتہ طاری ہو گیا۔ بستر سے لگ گیا، تاب و طاقت خامہ فرسائی کی نہ رہی۔ پانچ چھ ماہ بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ وزارتِ عظمی پر اریکہ نشین ہوئیں اور باگ ڈور سلطنت کی سنبھالی تو بارے ہوش آیا۔ بستر سے اٹھا، نوکِ پنسل تیز کی۔ بوجہِ نقاہتِ بدنی وقفے وقفے سے تھوڑا تھوڑا کر کے اس مضمون کو جہاں سے چھوڑا تھا جاری کیا۔ شناورانِ بحرِ سخن خوب جانتے ہیں کہ ایسے مدلّل، فصاحت وبلاغت سے پُر مضمون کا لکھنا جوے شیر کا لانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی مشقت نہیں کھوتا۔
سبحان اللہ اس قدسی صفات، خندہ جبیں، حوصلہ مند بی بی کے گدّی سنبھالتے ہی گھٹاٹوپ ظلمت کے بادل چھٹ گئے۔ سپہر اوّل پر ماہتاب نے طلوع ہو کر چاروں طرف روشنی کر دی۔ گلشنِ خزاں رسیدہ میں بہار آ گئی۔ وہ طائران محبوس جو سالہاسال سے قفس میں پڑے ایڑیاں رگڑتے تھے، آزاد فضاؤں میں اڑانیں بھرنے لگے۔ گونگوں کی طاقتِ گویائی لوٹ آئی۔ جس کے دل میں جو خیال آئے، برملا اس کو زبان پر لائے، کوئی بازپرس نہ کرے۔ جیلوں کے دروازے کھل گئے۔ بولنے اور لکھنے پر سے پابندیاں اور قدغنیں اٹھ گئیں، ورنہ غازی مرحوم کے عہد میں یہ حال تھا، شعر:
گھبرا کے آسماں کی طرف دیکھتی تھی خلق
جیسے خدا زمین پہ موجود نہیں تھا
ملک کے ازلی دشمن جو اس سلطنت کو اپنی جاگیر جانتے تھے اور سابقہ حکومت کے پروردہ تھے وہ اس تغیر پر تھرّا اٹھے، ان کے چھکّے چھوٹ گئے اور حسبِ عادت اس بی بی کے اچھے کاموں میں بھی کیڑے نکالنے میں مصروف ہوے۔ لوگوں کو ان نعمتوں سے محروم کرنے کے لیے ریشہ دوانیوں کا شیوہ اختیار کیا۔ اس نازنین حاکم کے ابرو پر بل نہیں آتا، قدم نہیں ڈگمگاتا۔ سب کمینوں بدخواہوں کے خلاف
تن تنہا سینہ سپر ہے۔ اللہ اسے اس دولت کی خاطر اپنی امان میں رکھے۔
اس بی بی نے آ کر حاتم اور سب گذشتہ سخیوں کے نام کتابِ سخا سے حروفِ غلط کی طرح مسترد کر دیے ہیں۔ جب حکومت سنبھالی خزانہ تقریباً خالی تھا، مرحوم غازی کے کاسہ لیس امیروں شریفوں نے سرکاری خزانے کو اپنا مال جان کر بےدریغ صرف کیا، اپنے اور اپنی چار پانچ نسلوں کے خوردونوش کی ذمے داری سے سرخرو ہوے۔ اس بی بی حاتم صفت نے بچے کھچے خزانے کو غربا اور فقیروں میں بانٹ دینے کا قصد کیا، چنانچہ کئی فقیروں کو امیر وزیر بنا دیا۔ دنیا جو کچھ کہے، حق بات یہ ہے کہ وہ فقیر اصلاً وفادار اور سلطنت کے ہواخواہ تھے۔ بعضوں نے طویل قیدیں بھگتی تھیں اور کوڑے کھائے تھے۔ اپنے خسر محترم کو صدرالصدورصیغۂ پبلک اکاؤنٹس مقرر کیا۔ اس نے کھوج لگایا کہ سابقہ دور میں کروڑوں اربوں روپے خورد برد ہوے۔ جن عمالِ ذی شان نے قرضِ حسنہ کے طور پر رقوم لی تھیں، انھیں ہضم کر گئے تھے۔ موصوف صدرالصدور نے ان کے نام گنوائے تو ایوانِ بالا میں شور مچا۔ چند اشخاص نے کہا کہ اس انکشاف سے ان کی بےعزتی ہوئی ہے۔ رقم اڑانے سے انکار نہیں کیا، اشک شوئی کی خاطر عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا۔
محترمہ بی بی کو مجاہد اعظم فلسطین نے اپنی بیٹی بنایا ہے، دوبار اس سے ملنے اس دولتِ اسلام میں تشریف لائے۔ محترمہ بی بی نے سب ملکوں کے دورے کیے اور ہر جگہ اپنی شرافتِ ذاتی، ذہانت، فطانت، جرأت کی دھاک بٹھائی، دولتِ اسلام کا وقار ہفت آسمان تک بلند کیا۔ دشمن بدخواہ اس پر کڑھتے ہیں، زبان اور قلم میں افعی کا زہر بھرتے ہیں۔ خود گھامڑ بےلیاقتے، دوسروں کی ظفرمندی نہیں دیکھ سکتے، جلتے ہیں، افتراپردازی کرتے ہیں۔ پٹریاں ریل کی اکھاڑتے ہیں، خواہاں ہیں کہ بی بی کے لگائے شاداب پیڑ کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیں، گلچھرے اڑائیں۔ ملک رہے نہ رہے ان کو اس سے کیا، ان کی جاگیریں کارخانے سلامت۔
ہرچند کہ غم روزگار آدمی کے ساتھ لگا ہے، کون ہے جو اب اس شہر میں خوش و خرم نہیں۔
حسنِ صورت و سیرت، ہمت و فراست و شرافت جتنی دنیا کی خوبیاں ہیں اللہ نے سب محترمہ بی بی کو دی ہیں۔ وہ فی الحقیقت بےنظیر ہے۔ بدنصیب بدخواہوں کو کیا یہ علم نہیں کہ ایسا دور اس ملک میں پھر نہیں آئے گا۔ شعر:
جو روشنی ہے دلوں میں عطا تمھاری ہے
چراغ تم سا نہیں، تم چراغ جیسے ہو
وہ چلی گئی تو یہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اجڈ، کندۂ ناتراشیدہ ملّا ملونٹے تہذیب و تمدن کے مزروعے میں گدھے کے ہل پھیر دیں گے۔ عوام الناس کا جینا دوبھر کر دیں گے۔ قصہ مختصر، مولّف مضمون اس کی مدحت میں جتنا لکھے کم ہے۔ سرِد ست اتنے پر اکتفا کی، مزید پھر اگر زندگی نے وفا کی۔
ڈونلڈ بارتھیم
انگریزی سے ترجمہ:زینت حسام
غبارہ
غبارے کے کھلنے کا آغاز اسٹریٹ نمبر چودہ پر ایک نقطے سے ہوا جس کے قطعی محلِ وقوع کا راز میں آشکار نہیں کر سکتا۔ اس رات، جب لوگ محوِ خواب تھے، غبارہ شمال کی اور پھیلا، یہاں تک کہ وہ پارک تک پہنچ گیا۔ وہاں میں نے اس کو روک لیا۔ پو پھٹنے تک اس کا شمالی ترین کنارہ پلازا کے اوپر چھا چکا تھا۔ فضا میں آزادانہ لٹکا ہوا وہ دھیمے دھیمے ڈول رہا تھا۔ اس کے اوپر اٹھنے کے عمل میں جب کوئی شے، حتیٰ کہ درخت بھی آڑے آئے تو میری طبیعت ہلکی سی مکدّر ہوئی۔ کوئی وجہ نہ تھی کہ غبارے کو فضا میں بلند ہونے سے روکا جاتا۔ میں نے انجینئروں سے کہا کہ وہ غبارے کو فضا میں مزید بلند ہونے دیں۔ غبارے کا پھیلاؤ صبح تک جاری رہا۔ والو میں گیس مدّھم سرگوشیوں میں داخل ہوتی رہی۔ غبارے نے شمالاً جنوباً پینتالیس بلاک، شرقاً غرباً بےترتیب علاقہ اور ایونیو کے دونوں اطراف قریباً چھ بلاک اپنی لپیٹ میں لے لیے تھے۔ تو یہ صورت حال تھی اس وقت۔
لیکن ’’صورتِ حال‘‘ کہنا غلط ہے۔ اس سے مخصوص ’’حالات‘‘ کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ’’حالات‘‘ جن کا کوئی حل ہوتا ہے، ’’حالات‘‘ جن کا پیداکردہ تناؤ کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد زائل ہو جاتا ہے۔ لیکن وہاں تو ایسی کوئی ’’صورت حال‘‘ نہ تھی، کوئی ایسے ’’حالات‘‘ نہ تھے۔ بس ایک غبارہ تھا جو فضا میں معلّق تھا۔ دھیمے، بوجھل خاکستری اور بادامی رنگوں میں ڈوبا ہوا، جن میں گہرے اور ہلکے زرد رنگ اُبھر رہے تھے۔ غبارے کی سطح کھردری اور ناہموار تھی جیسے کوئی اس پر کام کرتے کرتے اس کو بھول گیا ہو۔ یہ خاصیت دانستہ طور پر پیدا کی گئی تھی اور غبارے کی پُرمہارت تنصیب نے اس خاصیت کو اور بھی نمایاں کر دیا تھا۔ غبارے کے نیچے ترتیب سے لگے ہوے پھسلتے ہوے باٹوں نے اس وسیع پھیلاؤ کو کئی مقامات سے تھام رکھا تھا۔ یوں تو گیس کے غباروں کی تاریخ انوکھے خیالات، نادر نمونوں اور اہم سنگ میلوں سے بھری پڑی ہے لیکن اس لمحے وہاں صرف یہ غبارہ تھا، ٹھوس، قطعی، معلق۔
اس نے کئی رد عمل پیدا کیے۔ چند لوگوں کو غبارہ ’’دلچسپ‘‘ لگا۔ یہ ردعمل غبارے کے وسیع و عریض پھیلاؤ کو دیکھتے ہوے کچھ ناموزوں تھا، گو کہ دیوانگی اور فکر و اندیشے کی عدم موجودگی کی بنا پر اُس کو یقیناً ایک پرسکون اور پختہ ردعمل کہا جا سکتا ہے۔ شروع میں لوگوں کے درمیان غبارے کے معنی پر کچھ بحث ہوئی، اور تھم گئی۔ کیونکہ ہم نے مقصد کو جاننے کی کوشش کیے بغیر جینا سیکھ لیا ہے اور اب تو معنی کی جستجو خال خال ہی رہ گئی ہے، سواے ان مظاہر کے جو انتہائی سادہ اور یقینی ہوتے ہیں۔ اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ غبارے کے معنی حتمی طور پر معلوم نہیں ہو سکتے لہٰذا اس پر طویل بحثوں میں الجھنا فضول ہے۔ یا کم از کم یہ بحث ان لوگوں کے عمل سے کم کارآمد تھی جو سبز اور نیلے کاغذ کی بتیاں گلی کوچوں میں لگاتے ہیں، یا جو دیواروں پر پیغام لکھ لکھ کر ملاقاتوں اور غیرفطری افعال کے لیے اپنی دستیابی کا اعلان کرتے ہیں۔
چند کھلنڈرے بچے اچھل اچھل کر غبارے کو اس جگہ سے چھو لینے کی کوشش کر رہے تھے جہاں غبارہ عمارت کی سطح کے بالکل قریب تھا۔ یہاں تک کہ غبارے اور عمارت میں چند انچ کا فاصلہ رہ گیا تھا اور دونوں یکجان نظر آتے تھے۔ غبارے کی اوپری سطح اس طرح بنائی گئی تھی کہ ایک منظر سا ابھر آیا تھا۔ چھوٹی چھوٹی وادیاں، ٹیلے اور نشیب و فراز۔ غبارے کے اوپر چڑھ کر اس وادی کی سیر ممکن تھی۔ ڈھلوان سطح پر دوڑ کا لطف اٹھایا جا سکتا تھا۔ ایک ٹیلے سے دوسرے ٹیلے پر زقند بھری جا سکتی تھی۔ تنی ہوئی اس وادی میں آپ گیند کی طرح ٹپّے کھا سکتے تھے یا اگر آپ کا دل چاہتا تو لڑھک سکتے تھے۔ غبارے کے اوپر مختلف حرکات کے یہ امکانات بچوں کے لیے کافی سنسنی خیز تھے، کیونکہ وہ شہر کی سخت اور چٹیل سطح کے عادی تھے، لیکن غبارے کا مقصد بچوں کی تفریح طبع نہ تھا۔
ان لوگوں کی تعداد، بچے اور بڑے سب ملا کر، جنھوں نے غبارے کی سطح پر حرکات کے ان مواقع کا فائدہ اٹھایا، اتنی زیادہ نہ تھی جتنی کہ ہو سکتی تھی۔ ایک خاص قسم کی جھجک، غبارے پر عدم اعتماد، اس کے علاوہ غبارے سے ایک طرح کا بیر۔ کیونکہ ہم نے وہ پمپ چھپا دیے تھے جن سے غبارے کے اندر ہیلیم بھری گئی تھی، اور پھر اس کا پھیلاؤ اتنا زیادہ تھا کہ حکام داخلے کے مقام کا کھوج نہ لگا سکتے تھے، یعنی اس مقام کا جہاں سے غبارے میں گیس بھری گئی تھی۔ شہر کے حکام، جن کے دائرۂ کار میں اس غبارے کا ظہور ہوا تھا، جھنجھلاہٹ کا شکار تھے۔ غبارے کی بےمقصدیت نے انھیں بےچینی میں ڈال دیا تھا (اور پھر یہ امر کہ وہ وہاں موجود تھا!) اگر ہم نے بڑے بڑے حروف میں غبارے پر لکھ دیا ہوتا: ’’لیبارٹری کے نتائج اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ۔۔۔‘‘ یا ’’اٹھارہ فیصد زیادہ کارگر!‘‘ تو یہ پریشانی پیدا نہ ہوئی ہوتی، لیکن میں غبارے پر اس قسم کی کوئی چیز لکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مجموعی طور پر حکام کافی متحمل نکلے، گوکہ یہ برداشت دو وجوہات کی بنا پر پیدا ہوئی تھی۔ اوّل تو یہ کہ رات کو خفیہ ٹیسٹ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ غبارے کو نہ ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی برباد کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ عام شہریوں میں غبارے کے لیے کافی گرمجوشی پائی جاتی تھی۔
جس طرح ایک غبارہ تمام غباروں کے بارے میں زندگی بھر کی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے، اسی طرح ہر شہری کا غبارے پر ردِعمل در اصل چند پیچیدہ رویوں کا غماز تھا۔ ہو سکتا تھا ایک شخص کے ذہن میں غبارے کا تصور آلودگی سے وابستہ ہو، جیسا کہ اس جملے سے اظہار ہوتا ہے، ’’اس وسیع غبارے نے مین ہیٹن کے شفاف اور چمکتے آسمان کو آلودہ کر دیا۔‘‘ اس شخص کے خیال میں غبارہ ایک طرح کی عیّاری تھی جو لوگوں اور ان کے ’’آسمان‘‘ کے درمیان حائل ہو گئی تھی۔ لیکن درحقیقت وہ جنوری کا مہینہ تھا، آسمان کُہر سے گِھرا ہوا، تاریک اور بدنما ہو رہا تھا۔ وہ آسمان ایسا نہ تھا کہ آپ کا دل چاہے کہ کھلی زمین پر لیٹ کر مسرت سے اس کو تکیں۔
غبارے کا اندرونی حصہ دلفریب تھا۔ اس کے بوجھل، سلیٹی اور خاکستری رنگ اخروٹی اور پیلے ملائم رنگوں میں اُبھر رہے تھے۔ لہٰذا گوکہ وہ شخص ’’آلودگی‘‘ کے بارے میں سوچ سکتا تھا، اس کے ذہن میں ایک پُرلطف ادراک کی آمیزش ہوتی، ایسا ادراک جو اس کے پہلے خیال سے دست و گریباں ہو رہا ہوتا۔
دوسرے شخص کے لیے غبارے کا ظہور ایک غیرمتوقع انعام کی مانند ہو سکتا تھا۔ مثلاً آپ کا افسر آپ کے کمرے میں داخل ہو کر اچانک کہے: ’’ہنری، یہ لو۔ اس لفافے میں تمھارے لیے روپے ہیں کیونکہ ہماری کمپنی دن رات ترقی کر رہی ہے۔ اور جس ادا سے تم گلدان میں لگے پھولوں کو مَسلتے ہو، مجھے بےحد پسند ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر تم ان پھولوں کو نہ مسلو تو شاید ہمارا بزنس اتنا عمدہ نہ چلے۔‘‘ اس شخص کے لیے غبارہ ایک شاندار اور جرأت آمیز تجربہ تھا، گوکہ ایسا تجربہ جس کو صحیح طور پر سمجھا نہ گیا ہو۔
ایک اور شخص کہہ سکتا تھا، ’’۔۔۔ کی مثال کے بغیر شبہ ہے کہ۔۔۔ موجودہ صورت میں پایا جاتا۔‘‘ کئی لوگ اس سے متفق ہوتے اور بہت سے لوگوں کو اس کی بات سے اختلاف ہو سکتا تھا۔ ’’پھیلنا‘‘ اور ’’منڈلانا‘‘، ’’خواب‘‘ اور ’’ذمےداری‘‘ جیسے تصورات متعارف ہوے۔ کچھ لوگ طویل تخیلات کے تانے بانے بننے میں مصروف ہو گئے، تخیلات جن کا تعلق غبارے میں خود کو گم کر دینے یا سمو دینے سے تھا۔ ان خواہشات کا ذاتی پہلو، ان کا منبع، انسانی شخصیات کی انجانی عمیق گہرائیوں میں دفن تھا، لہٰذا ان خواہشات کا برملا اظہار نہ ہو پایا۔ لیکن اس بات کے شواہد موجود تھے کہ یہ خواہشات عام تھیں۔ اس پر بھی بحث ہوئی کہ آپ غبارے کے نیچے کھڑے ہو کر جو محسوس کرتے اس احساس کی خاص اہمیت تھی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ غبارے کے نیچے انھیں تحفظ اور گرمائی کا ایسا انوکھا احساس ہوا جو انھیں زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ جبکہ غبارے کے دشمنوں نے ایک طرح کی بوجھل اور جکڑے جانے کی سی کیفیت کا اظہار کیا۔ تنقیدی آرا میں اختلاف پایا جاتا تھا: ’’ہولناک بوچھار‘‘، ’’بربط‘‘، ’’روحانی مسرت‘‘، ’’بڑے، چوکور کونے‘‘، ’’تاریک حصوں سے کچھ متضاد‘‘، ’’دقیانوسی انتخابیت، جو اب تک غباروں کے نمونوں پر حاوی ہے‘‘، ’’غیرمعمولی قوت‘‘، ’’نرم گرم خوابیدہ گزرگاہیں‘‘، ’’کیا وحدت کو وسعت پر قربان کر دیا گیا ہے؟‘‘، ’’تباہی کا پیش خیمہ‘‘، ’’چباتا ہوا۔‘‘
لوگوں نے ایک خاص طریقے سے غبارے کے ذریعے مقامات کا تعین کرنا شروع کر دیا: ’’میں وہاں ملوں گا جہاں وہ سنتالیسویں اسٹریٹ پر فٹ پاتھ تک اتر آیا ہے، آلامو چلی ہاؤس کے نزدیک۔‘‘ ’’ہم اس کے اوپر جا کر کیوں نہ کھڑے ہو جائیں تازہ ہوا کھانے؟ بلکہ چہل قدمی بھی کر سکتے ہیں، جہاں پر یہ ماڈرن آرٹ گیلری کے چھجے سے تنی ہوئی کمان کی طرح لگا ہوا ہے۔‘‘
جہاں ایک سطح دوسری کو کاٹتی تھی وہاں اضافی موڑ نکل آئے تھے۔ ان مقامات پر وقتی طور پر راستے سے کھل جاتے تھے، ’’نرم، گرم، خوابیدہ گزرگاہوں ‘‘ کے علاوہ۔ لیکن انھیں ’’اضافی موڑ‘‘ کہنا غلط ہے۔ ہر موڑ اپنی جگہ اہم تھا اور نظرانداز نہ کیا جا سکتا تھا۔ کسی موڑ پر غبارے کا غبارے سے اتصال تھا، کہیں غبارے کا انسان سے ملاپ اور کہیں غبارے کا عمارت سے وصل۔
خیال تھا کہ غبارے کا جو پہلو پسند کیا گیا وہ اس کی لامتناہیت تھی۔ اس کی حدیں متعین نہ تھیں۔ کبھی کبھار کوئی پھولا ہوا، آبلہ نما حصہ خودبخود تیرتا ہوا مشرق کی اور، دریا کی جانب نکل جاتا، جیسا کہ فوج کی حرکت میدانِ جنگ سے دور ہیڈکوارٹر میں نقشے پر نظر آتی ہے۔ پھر وہ حصہ دوبارہ اپنی جگہ آ جاتا گویا کہ اسے واپس دھکیل دیا گیا ہو۔ یا پھر وہ حصہ ایک نئی صورت میں ڈھل جاتا، نئی آماجگاہ تلاش کر لیتا، اور اگلی صبح غائب ہو چکا ہوتا۔ غبارے کی یہ خاصیت، اپنی ماہیت بدلنا، تبدیل ہونا، لوگوں کے لیے بےحد خوش کن تھی، کیونکہ ان کی اپنی زندگیاں بےلوچ، کڑے سانچوں میں ڈھلی ہوئی تھیں۔ ان کے لیے تغیر ایک ایسی آرزو کی مانند تھا جس کو وہ پا نہ سکتے تھے۔
بائیسویں دن، ہمارے قدموں تلے کنکریٹ کے فٹ پاتھ پر بنے ہوے قطعی اور یکساں مستطیلوں کے برعکس، غبارے کا بےترتیب وجود ذات کی گمشدگی کا امکان پیش کرنے لگا۔ مشینوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت نے مخصوص تربیت کی میعاد اور طویل سپردگی کی ضرورت کا احساس بڑھا دیا ہے۔ جیسے جیسے یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے، زیادہ سے زیادہ لوگ ایک الجھانے والی عدم مناسبت کی بنا پر ان جوابات کی طرف مائل ہو رہے ہیں جن کا ایک نمونہ وہ غبارہ تھا۔
جب تم ناروے سے واپس آئیں تو میں تم سے غبارے کے نیچے ملا۔ تم نے پوچھا کیا وہ میرا ہے۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ ’’غبارہ،‘‘ میں نے کہا، ’’فطری خودنوشت کا ایک مظہر ہے۔ اور اس اضطراب، اور جنسی محرومی، کا آئینہ دار جو میں نے تمھاری عدم موجودگی میں محسوس کی۔ اب جبکہ تم ہیرگن سے واپس آ چکی ہو، نہ اس کی ضرورت باقی رہی ہے اور نہ ہی یہ موزوں لگتا ہے۔‘‘
غبارے کو ہٹانا آسان تھا۔ لحیم و شحیم اور لمبے ٹرک ہوا نکلے ہوے غبارے کو لاد کر لے گئے۔ اب وہ مغربی ورجینیا کے ایک گودام میں پڑا کسی غمگین لمحے کا منتظر ہے، شاید ایسا لمحہ جب ہم ایک دوسرے سے خفا ہوں۔
ولیم سیرویان
انگریزی سے ترجمہ:افضال احمد سیّد
وہ آدمی جس کا دل پہاڑیوں میں رہ گیا
سن انیس سو سولہ میں، جب میں پورے چھ سال کا نہیں ہوا تھا، ایک بوڑھا شخص سان بینیتو ایونیو سے بگل پر اکیلے کا گیت گاتا ہوا اترا اور ہمارے مکان کے سامنے رک گیا۔ میں صحن سے دوڑ کر باہر نکلا اور چوکھٹ پر کھڑے ہو کر اس کے دوبارہ بگل پر گانے کا انتظار کرنے لگا۔ مگر اس نے گیت نہیں گایا۔
میں نے کہا، ’’میں آپ کو دوسری دھن بجاتے ہوے سننا ضرور پسند کروں گا۔‘‘
اس نے کہا، ’’نوجوان! کیا تم اس بوڑھے آدمی کے لیے ایک گلاس پانی لے آؤ گے جس کا دل یہاں نہیں بلکہ پہاڑیوں میں ہے؟‘‘
’’کون سی پہاڑیاں؟‘‘ میں نے کہا۔
’’اسکاتستان کی پہاڑیاں،‘‘ بوڑھے شخص نے کہا، ’’کیا تم پانی لا سکتے ہو؟‘‘
’’آپ کا دل اسکاتستان کی پہاڑیوں میں کیا کر رہا ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’میرا دل دُکھ رہا ہے،‘‘ بوڑھے شخص نے کہا، ’’کیا تم میرے لیے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس لا سکتے ہو؟‘‘
’’آپ کی والدہ کہاں ہیں؟‘‘ میں نے کہا۔
’’میری والدہ تُلسا، اوکلاہوما میں ہیں،‘‘ بوڑھے شخص نے کہا، ’’مگر ان کا دل وہاں نہیں ہے۔‘‘
’’ان کا دل کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’اسکاتستان کی پہاڑیوں میں،‘‘ بوڑھے شخص نے کہا، ’’میں بہت پیاسا ہوں، نوجوان! ‘‘
’’بھلا کیسے آپ کے خاندان کے لوگ اپنے دل ہمیشہ پہاڑیوں میں چھوڑ آتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ہم ایسے ہی لوگ ہیں،‘‘ بوڑھے شخص نے کہا، ’’آج یہاں ہیں اور کل کہیں اور۔۔۔‘‘
’’آج یہاں اور کل کہیں اور؟‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ایک لمحے میں زندہ اور اگلے میں ختم!‘‘ بوڑھے شخص نے کہا۔
’’آپ کی والدہ کی والدہ کہاں ہیں؟‘‘ میں نے کہا۔
’’وہ ورماؤنٹ میں ہیں، وائٹ رِیور کے قصبے میں،‘‘ بوڑھے شخص نے کہا، ’’مگر ان کا دل وہاں نہیں ہے۔‘‘
’’کیا ان کا دُکھتا ہوا دل بھی پہاڑیوں میں ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’یقیناً،‘‘ بوڑھے شخص نے کہا، ’’بیٹے! میں پیاس سے مر رہا ہوں۔‘‘
پورچ سے میرا باپ برآمد ہوا اور اس شیر کی طرح دہاڑا جو ابھی ابھی کسی ڈراؤنے خواب سے جاگا ہو۔
’’جونی!‘‘ وہ گرجا، ’’بیچارے بڑے میاں کو ستانا بند کرو۔ اس سے پہلے کہ وہ گر کر دم توڑ دیں، ان کے لیے پانی کا جگ لے آؤ۔ کیا تمھاری شائستگی کہیں کھو گئی ہے؟‘‘
’’کیا کوئی کسی مسافر سے کبھی کچھ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا؟‘‘ میں نے کہا۔
’’معزز بزرگ کے لیے پانی لاؤ،‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’خدا تمھیں غارت کرے۔ اب کاٹھ کے الّو کی طرح کھڑے مت رہو۔ ان کے پینے کے لیے کچھ لاؤ، اس سے پہلے کہ یہ گر کر دم توڑ دیں۔‘‘
’’آپ ان کے لیے پانی لے آئیں،‘‘ میں نے کہا، ’’آپ تو کوئی کام نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
’’کوئی کام نہیں کر رہا ہوں؟‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’کیوں جونی؟ تمھیں خوب معلوم ہے میں اپنے ذہن میں ایک نئی نظم ترتیب دے رہا ہوں۔‘‘
’’آپ نے کہاں سے جان لیا کہ مجھے معلوم ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’آپ تو صرف پورچ میں اپنی آستینیں چڑھائے کھڑے ہیں۔ آپ نے کہاں سے جان لیا کہ مجھے معلوم ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے، مگر تمھیں جاننا چاہیے،‘‘ میرے باپ نے کہا۔
’’دوپہر بخیر!‘‘ بوڑھے شخص نے میرے باپ سے کہا، ’’آپ کے صاحبزادے مجھے بتا رہے تھے کہ اس علاقے کا موسم کتنا خنک اور خوشگوار ہے۔‘‘
’’دوپہر بخیر!‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’آپ اندر تشریف لا کر تھوڑا سا آرام کیوں نہیں کر لیتے؟ دوپہر کے تھوڑے سے کھانے کے لیے ہماری میز پر آپ کی موجودگی ہمارے لیے اعزاز کا باعث ہو گی۔‘‘
’’حضورِ عالی!‘‘ بوڑھے شخص نے کہا، ’’میں فاقے سے ہوں۔‘‘
’’کیا آپ میرے لیے ’مجھے صرف اپنی آنکھوں سے پلاؤ‘ گا سکتے ہیں؟‘‘ میں نے بوڑھے شخص سے کہا، ’’میں اس نغمے کو بگل پر ضرور سننا چاہوں گا۔ یہ میرا پسندیدہ گیت ہے۔ میرا خیال ہے میں اس گیت کو دنیا میں کسی بھی گیت سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔‘‘
’’بیٹے!‘‘ بوڑھے شخص نے کہا، ’’جب تم میری عمر کو پہنچو گے تب تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ گیتوں کی کوئی اہمیت نہیں، اصل چیز روٹی ہے۔‘‘
’’پھر بھی،‘‘ میں نے کہا، ’’میں اس گیت کو ضرور سننا چاہوں گا۔‘‘
بوڑھا شخص پورچ تک بڑھا اور اس نے میرے باپ سے ہاتھ ملایا۔ ’’میرا نام جیسپر میک گریگور ہے،‘‘ اس نے کہا، ’’میں اداکار ہوں۔‘‘
’’مجھے آپ سے متعارف ہو کر بےپایاں مسرت ہوئی،‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’جونی! مسٹر میک گریگور کے لیے پانی کا جگ لاؤ۔‘‘
میں کنویں تک گیا اور ایک برتن میں ٹھنڈا پانی بھر کر اسے بوڑھے شخص کے پاس لایا۔ اس نے پورا برتن ایک طویل گھونٹ میں پی لیا۔ پھر اس نے آسمان پر، اور دور سان بینیتو ایونیو پر نظر ڈالی، جہاں سورج ڈوبنا شروع کر چکا تھا۔
’’مجھے خیال آتا ہے کہ میں گھر سے پانچ ہزار میل دور ہوں،‘‘ اس نے کہا، ’’کیا آپ کے خیال میں ہم تھوڑی سی روٹی اور پنیر کھا سکتے ہیں تاکہ جسم اور جان کا رشتہ برقرار رہ سکے؟‘‘
’’جونی!‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’دوڑ کر دکاندار کے پاس جاؤ اور فرانسیسی روٹی کا ایک ٹکڑا اور ایک پونڈ پنیر لے آؤ۔‘‘
’’مجھے پیسے دیں،‘‘ میں نے کہا۔
’’مسٹر کوسِک سے کہنا کہ وہ ہمیں ادھار دے دیں،‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’میرے پاس ایک سینٹ بھی نہیں ہے جونی! ‘‘
’’وہ ہمیں ادھار نہیں دیں گے،‘‘ میں نے کہا، ’’وہ ہمیں ادھار دیتے دیتے تھک گئے ہیں۔ وہ ہم سے ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ہم نکمّے ہیں اور بقایا ادا نہیں کرتے۔ ہمیں ان کے چالیس سینٹ ادا کرنے ہیں۔‘‘
’’جاؤ اور جا کر ان سے معاملہ طے کر لو،‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’تم جانتے ہو تم یہ کیونکر کر سکتے ہو۔‘‘
’’وہ معقولات نہیں سنیں گے،‘‘ میں نے کہا، ’’مسٹر کوسک کہتے ہیں وہ کسی چیز کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ انھیں صرف اپنے چالیس سینٹ چاہیے ہیں۔‘‘
’’ان کے پاس جاؤ اور انھیں روٹی کا ایک ٹکڑا اور ایک پونڈ پنیر دینے پر آمادہ کرو،‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’جونی! تم یہ کام کر سکتے ہو۔‘‘
’’بیٹے! ان کے پاس جاؤ،‘‘ بوڑھے شخص نے کہا، ’’اور مسٹر کوسک سے کہو کہ وہ تمھیں روٹی کا ایک ٹکڑا اور ایک پونڈ پنیر دے دیں۔‘‘
’’اب جاؤ جونی!‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’تم کبھی اس دکان سے فتوحات کے بغیر باہر نہیں نکلے ہو۔ تم دس منٹ میں یہاں اس خوراک کے ساتھ واپس آ جاؤ گے جو بادشاہوں کو زیب دیتی ہے۔‘‘
’’مجھے نہیں معلوم،‘‘ میں نے کہا، ’’مسٹر کوسک کہتے ہیں ہم ان کے ساتھ حرام خوری کر رہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں ہم کس طرح کا کام کر رہے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ان سے جا کر کہہ دو،‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’میں کوئی بات چھپانا نہیں چاہتا۔ میں شاعری لکھ رہا ہوں۔ مسٹر کوسک سے کہہ دو کہ میں دن رات شاعری لکھ رہا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے،‘‘ میں نے کہا، ’’مگر میرا خیال ہے وہ بہت زیادہ متاثر نہیں ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں آپ بھی دوسرے بےروزگار آدمیوں کی طرح گھر سے نکل کر کوئی کام کیوں نہیں تلاش کرتے۔ وہ کہتے ہیں، آپ کاہل اور نالائق ہیں۔‘‘
’’جونی! تم جاؤ اور جا کر انھیں کہو کہ وہ فاترالعقل ہیں،‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’تم جاؤ اور جا کر انھیں کہو کہ تمھارا باپ اس وقت کے عظیم ترین گمنام شاعروں میں سے ایک ہے۔‘‘
’’وہ اس کی پروا نہیں کریں گے،‘‘ میں نے کہا، ’’مگر میں جا رہا ہوں۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔ کیا گھر میں کچھ نہیں ہے؟‘‘
’’صرف بُھنے ہوے مکئی کے دانے،‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’ہم مسلسل چار دنوں سے مکئی کے دانے کھارہے ہیں جونی! ہمیں روٹی اور پنیر چاہیے، اگر تم مجھ سے اس طویل نظم کو مکمل کرنے کی توقع رکھتے ہو۔‘‘
’’میں اپنی پوری کوشش کروں گا،‘‘ مںا نے کہا۔
’’دیر مت لگانا،‘‘ مسٹر میک گریگور نے کہا، ’’میں گھر سے پانچ ہزار میل کے فاصلے پر ہوں۔‘‘
’’میں دوڑ کر جاؤں گا،‘‘ میں نے کہا۔
’’اگر تمھیں راستے میں کوئی رقم پڑی ہوئی مل جائے،‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’تو تمھیں یاد ہے نا، ہم آدھی آدھی بانٹ لیں گے۔‘‘
’’بہت اچھا،‘‘ میں نے کہا۔
میں مسٹر کوسک کی دکان تک دوڑتا ہوا گیا، مگر مجھے راستے میں کوئی رقم پڑی ہوئی نہیں ملی، ایک معمولی سکہ بھی نہیں۔
میں دکان کے اندر داخل ہو گیا اور مسٹر کوسک نے اپنی آنکھیں کھولیں۔
’’مسٹر کوسک!‘‘ میں نے کہا، ’’اگر آپ چین میں ہوں اور دنیا میں آپ کا کوئی، کوئی دوست نہ ہو، اور نہ کوئی رقم آپ کے پاس ہو، کیا آپ کسی ایسے عیسائی کا وہاں تصور کریں گے جو آپ کو ایک پونڈ چاول دے دے؟ کیا آپ تصور کریں گے؟‘‘
’’تمھیں کیا چاہیے؟‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
’’میں یونہی تھوڑی سی باتیں کرنا چاہتا ہوں،‘‘ مںی نے کہا، ’’آپ توقع کریں گے کہ آریائی نسل کا کوئی شخص آپ کی مشکل کو تھوڑاسا حل کر دے، کیا آپ ایسی توقع نہیں کریں گے مسٹر کوسک؟‘‘
’’تم کتنے پیسے لائے ہو؟‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
’’یہ پیسوں کا معاملہ نہیں ہے مسٹر کوسک!‘‘ میں نے کہا، ’’میں چین میں ہونے اور سفیدفام نسل سے مدد حاصل کرنے کی ضرورت کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں۔‘‘
’’مجھے کسی چیز کے بارے میں کچھ نہیں معلوم،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
’’آپ کو چین میں اس طرح کیسا لگے گا؟‘‘ میں نے کہا۔
’’مجھے نہیں معلوم،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’میں چین جا کر کیا کروں گا؟‘‘
’’آپ وہاں مسافر ہوں گے، اور فاقہ زدہ، اور ساری دنیا میں کوئی آپ کا دوست نہیں ہو گا۔ آپ کسی اچھے عیسائی سے یہ توقع تو نہیں رکھیں گے کہ وہ آپ کو چاول کا ایک پونڈ دیے بغیر رخصت کر دے، کیا آپ ایسی توقع رکھیں گے؟‘‘
’’میرا خیال ہے میں ایسا نہیں سوچوں گا،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’مگر تم چین میں نہیں ہو جونی، اور نہ تمھارا باپ۔ تمھیں اور تمھارے باپ کو گھر سے باہر نکل کر اپنی زندگی میں تھوڑی دیر کے لیے کوئی کام کرنا چاہیے۔ تم تو ابھی شروع کر دو تو بہتر ہے۔ میں تمھیں ادھار پر مزید کوئی خوردونوش کی چیز نہیں دینے جا رہا۔ مجھے معلوم ہے تم پیسے کبھی ادا نہیں کرو گے۔‘‘
’’مسٹر کوسک!‘‘ میں نے کہا، ’’آپ نے مجھے غلط سمجھا۔ میں چند اشیاے خوردونوش کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں تو چین میں آپ کے اردگرد بےدین لوگوں کی بات کر رہا ہوں، جہاں آپ فاقہ زدہ اور قریب المرگ ہیں۔‘‘
’’یہ چین نہیں ہے،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’تمھیں باہر نکلنا ہے اور اپنی روزی اس ملک میں حاصل کرنی ہے۔ امریکہ میں ہر شخص کام کرتا ہے۔‘‘
’’مسٹر کوسک!‘‘میں نے کہا، ’’فرض کریں کہ فرانسیسی روٹی کا ایک ٹکڑا اور ایک پونڈ پنیر آپ کی اس دنیا میں رہنے کی ساری ضرورت ہے؛ کیا آپ کسی عیسائی مبلغ سے ان چیزوں کو مانگتے ہوے ہچکچائیں گے؟‘‘
’’ہاں میں ہچکچاؤں گا،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا،’’میں کسی سے کچھ مانگتے ہوے شرم سے گڑ جاؤں گا۔‘‘
’’اگر آپ کو پتا ہو کہ آپ اسے روٹی کے دو ٹکڑے اور پنیر کے دو پونڈ لوٹائیں گے، پھر بھی؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’پھر بھی؟‘‘
’’پھر بھی!‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
’’ایسے مت بنیں مسٹر کوسک!‘‘ میں نے کہا، ’’یہ تو ایک ہارے ہوے ذہن کی سوچ ہے؛ اور آپ کو اس کا علم ہے، کیونکہ پھر آپ کو پیش آنے والا واحد واقعہ آپ کی وفات ہو گی۔ آپ وہیں چین میں مر جائیں گے مسٹر کوسک! ‘‘
’’مجھے اس کی پروا نہیں،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’تمھیں اور تمھارے باپ کو پنیر اور روٹی پیسے دے کر خریدنی ہو گی۔ تمھارا باپ باہر کیوں نہیں نکلتا اور کوئی کام کیوں نہیں پکڑ لیتا؟‘‘
’’چلیے مسٹر کوسک!‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کا حال کیا ہے؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں جونی!‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’تم کیسے ہو؟‘‘
’’اس سے بہتر حال نہیں ہو سکتا مسٹر کوسک!‘‘ میں نے کہا، ’’بچے کیسے ہیں؟‘‘
’’بالکل ٹھیک،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’استیپان نے اب چلنا شروع کیا ہے۔‘‘
’’کتنی شاندار بات ہے!‘‘ میں نے کہا، ’’انجیلا کیسی ہے؟‘‘
’’انجیلا نے گانا شروع کر دیا ہے،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’تمھاری دادی کیسی ہیں؟‘‘
’’اب وہ بہتر محسوس کر رہی ہیں،‘‘ میں نے کہا، ’’انھوں نے بھی گانا شروع کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ملکہ بننے کے بجاے اوپرا کی فنکارہ بننا زیادہ پسند کریں گی۔ مارتھا کیسی ہیں، آپ کی شریک حیات؟‘‘
’’اوہ، بالکل ٹھیک ٹھاک،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
’’میں بیان نہیں کر سکتا کہ مجھے یہ جان کر کتنی خوشی ہوئی کہ آپ کا کنبہ بالکل بخیریت ہے،‘‘ میں نے کہا، ’’میں جانتا ہوں استیپان ایک دن ایک عظیم شخص بنے گا۔‘‘
’’مجھے بھی یہی امید ہے،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’میں اسے بلاتاخیر ہائی اسکول میں داخل کرواؤں گا اور اس بات کا خیال رکھوں گا کہ اسے ہر وہ موقع ملے جو مجھے زندگی میں نہیں مل سکا۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ کریانے کی دکان کھولے۔‘‘
’’مجھے استیپان کی ذات پر بہت اعتماد ہے،‘‘ میں نے کہا۔
’’جونی! تمھیں کیا لینا ہے؟‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’اور تمھارے پاس پیسے کتنے ہیں؟‘‘
’’مسٹر کوسک!‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کو علم ہے، میں یہاں کچھ لینے نہیں آیا۔ آپ کو علم ہے کہ میں آپ کے ساتھ پرسکون فلسفیانہ گفتگو سے اکثروبیشتر لطف اندوز ہوتا ہوں۔ مجھے فرانسیسی روٹی کا ایک ٹکڑا اور ایک پونڈ پنیر لینے دیں۔‘‘
’’تمھیں ادائیگی نقد کرنی ہو گی جونی!‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
’’اور ایستھر؟‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کی خوبصورت صاحبزادی کا کیا حال ہے؟‘‘
’’ایستھر بالکل ٹھیک ہے جونی،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’مگر سودا تمھیں نقد ملے گا۔ تم اور تمھارا باپ اس پورے ملک میں بدترین باشندے ہو۔‘‘
’’مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ ایستھر بالکل ٹھیک ہے،‘‘ میں نے کہا، ’’مسٹر میک گریگور ہمارے گھر مہمان ہیں۔ وہ ایک عظیم اداکار ہیں۔‘‘
’’میں نے کبھی اس کا نام نہیں سنا،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
’’اور مسٹر میک گریگور کے لیے بیئر کی ایک بوتل،‘‘ میں نے کہا۔
’’مںر تمھیں بیر کی بوتل نہیں دے سکتا،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
’’آپ ضرور دے سکتے ہیں،‘‘ میں نے کہا۔
’’نہیں دے سکتا،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’میں تمھیں باسی روٹی کا ایک ٹکڑا اور ایک پونڈ پنیر لے جانے دوں گا، بس! اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ تمھارا باپ جب کام کرتا ہے تو وہ کس طرح کا کام کرتا ہے جونی؟‘‘
’’میرے والد شاعری لکھتے ہیں مسٹر کوسک! بس یہی ایک کام ہے جو وہ کرتے ہیں۔ وہ شاعری لکھنے والوں میں دنیا کی ایک عظیم شخصیت ہیں۔‘‘
’’اسے کوئی معاوضہ ملتا ہے؟‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
’’انھیں کبھی کوئی معاوضہ نہیں ملتا،‘‘ میں نے کہا۔
’’مجھے اس طرح کا کام پسند نہیں،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’تمھارا باپ اور لوگوں کی طرح کا کام کیوں نہیں کرتا جونی؟‘‘
’’وہ دوسرے لوگوں سے زیادہ محنت کرتے ہیں،‘‘ میں نے کہا، ’’میرے والد ایک عام آدمی کی بہ نسبت دگنی محنت کرتے ہیں۔‘‘
’’اچھا اب تم پر میرے پچپن سینٹ ادھار ہوگئے ہیں جونی!‘‘ مسٹر کوسک نے کہا، ’’میں اس بار تو تمھیں کچھ چیزیں دیے دے رہا ہوں، مگر اس کے بعد بالکل بھی نہیں۔‘‘
’’ایستھر سے کہیے گا کہ میں اسے بہت پسند کرتا ہوں،‘‘ میں نے کہا۔
’’ٹھیک ہے،‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
‘‘خداحافظ مسٹر کوسک!‘‘ میں نے کہا۔
’’خداحافظ جونی!‘‘ مسٹر کوسک نے کہا۔
میں فرانسیسی روٹی کے ایک ٹکڑے اور ایک پونڈ پنیر کے ساتھ گھر کی طرف دوڑا۔ میرا باپ اور مسٹر میک گریگور سڑک پر یہ دیکھنے کو کھڑے تھے کہ میں کھانے کی چیزوں کے ساتھ واپس آتا ہوں یا نہیں۔ وہ میری طرف آدھے راستے تک دوڑتے ہوے آئے اور جب انھوں نے دیکھا کہ چیزیں موجود ہیں تو انھوں نے گھر کی سمت ہاتھ لہرائے جہاں میری دادی منتظر تھی۔ وہ اندر دوڑی تاکہ میز آراستہ کر سکے۔
’’مجھے پتا تھا کہ تم کامیاب ہو گے،‘‘ میرے باپ نے کہا۔
’’اور مجھے بھی،‘‘ مسٹر میک گریگور نے کہا۔
’’مسٹر کوسک کہتے ہیں کہ ہمیں پچپن سینٹ ادا کرنے ہوں گے،‘‘ میں نے کہا، ’’وہ کہتے ہیں اب وہ ہمیں اور ادھار نہیں دیں گے۔‘‘
’’یہ محض ان کا خیال ہے،‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’جونی! تم نے ان سے کیا باتیں کیں؟‘‘
’’پہلے تو میں نے بھوکے ہونے کے بارے میں باتیں کیں، اور چین میں موت کے دروازے پر پڑے ہونے کے بارے میں،’’ میں نے کہا، ’’پھر میں نے ان کے کنبے کا حال دریافت کیا۔‘‘
’’کیسے ہیں ان کے گھروالے؟‘‘ میرے باپ نے کہا۔
’’بخیریت،‘‘ میں نے کہا۔
اس طرح ہم سب اندر چلے آئے اور ہم نے روٹی کے ٹکڑے اور پنیر کے پونڈ سے پیٹ بھرا۔ ہم میں سے ہر ایک نے دو یا تین گلاس پانی پیا۔ جب روٹی کا ہر ذرّہ غائب ہو گیا تو مسٹر میک گریگور نے باورچی خانے کی سمت جائزہ لینا شروع کیا تاکہ انھیں کھانے کے لیے کچھ اور نظر آ سکے۔
’’وہاں پر اس سبز ٹین میں کیا ہے جونی؟‘‘ انھوں نے کہا۔
’’شیشے کی گولیاں،‘‘ میں نے کہا۔
’’اور یہ الماری؟‘‘ انھوں نے کہا، ’’اس میں کھائے جانے کے قابل کوئی شے ہے جونی؟‘‘
’’لال بیگ،‘‘ میں نے کہا۔
’’اور کونے والے بڑے مرتبان میں جونی؟‘‘ انھوں نے کہا، ’’وہاں کون سی کارآمد چیز ہے؟‘‘
’’اس مرتبان میں میں نے ایک سانپ پالا ہوا ہے،‘‘ میں نے کہا۔
’’خوب!‘‘ مسٹر میک گریگور نے کہا، ’’میں اُبلے ہوے سانپ کا ایک ٹکڑا شاندار طور پر کھا سکتا ہوں جونی! ‘‘
’’آپ اس سانپ کو کچھ نہیں کہیں گے،‘‘ میں نے کہا۔
’’کیوں نہیں جونی؟‘‘ مسٹر میک گریگور نے کہا، ’’آخر کیوں نہیں بیٹے؟ میں نے سنا ہے بورنیو کے اصلی باشندے اعلیٰ نسل کے سانپ اور جھینگر کھاتے ہیں۔ کیا تمھارے پاس آدھے درجن جھینگر بھی نہیں ہیں جونی؟‘‘
’’صرف چار ہیں،‘‘ میں نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، انھیں باہر نکالو،‘‘ مسٹر میک گریگور نے کہا، ’’اور جب ہم سیر ہو چکے ہوں گے، میں تمھارے لیے بگل پر ’مجھے صرف اپنی آنکھوں سے پلاؤ‘ گاؤں گا۔ میں بےانتہا بھوکا ہوں جونی!’’
’’یہی حالت میری بھی ہے،‘‘ میں نے کہا، ’’مگر آپ سانپ کو کچھ کہنے نہیں جا رہے ہیں۔‘‘
میرا باپ میز پر اپنا سر ہاتھوں میں تھامے بیٹھا تھا۔ وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ میری دادی گھر میں دوڑی پھر رہی تھی۔ وہ پکینی کا نغمہ گنگنا رہی تھی، ’’جب میں سڑک پر گشت کرتا،‘‘ وہ اطالوی میں گرج رہی تھی۔
’’تھوڑی سی موسیقی کیسی رہے گی؟‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’میرا خیال ہے میرا بیٹا بہت خوش ہو گا۔‘‘
’’میں یقیناً خوش ہوں گا مسٹر میک گریگور!‘‘ میں نے کہا۔
’’ٹھیک ہے جونی!‘‘ مسٹر میک گریگور نے کہا۔
اس طرح وہ اٹھے اور انھوں نے بگل بجانا شروع کیا، اور انھوں نے اسے اتنا تیز بجایا کہ کبھی کسی نے بگل کو اتنا تیز نہیں بجایا ہو گا، اور میلوں دور کے لوگوں نے اس کی آواز سنی اور جوش میں آ گئے۔ ہمارے گھر کے گرد اٹھارہ پڑوسی اکٹھے ہو گئے، اور جب مسٹر میک گریگور نے اپنی پیشکش ختم کی تو انھوں نے بےانتہا داد دی۔ میرا باپ مسٹر میک گریگور کو باہر پورچ میں لے گیا، اور اس نے کہا، ’’اچھے پڑوسیو اور دوستو! میں آپ سے مسٹر میک کریگور کا تعارف کرانا چاہتا ہوں، ہمارے وقت میں سب سے بڑے شیکسپیرین اداکار۔‘‘
نیک پڑوسی اور دوست کچھ نہیں بولے، اور مسٹر میک گریگور نے کہا، ’’میں ۱۸۶۲ء میں لندن میں اپنی پہلی کارکردگی کو یاد کرتا ہوں، جیسے یہ کل کی بات ہو۔۔۔‘‘ اور اپنے پیشے کی تاریخ بیان کرنے لگے۔ روزے ایپلے بڑھئی نے کہا، ’’تھوڑی سی اورموسیقی کیسی رہے گی مسٹر میک گریگور؟‘‘ اور مسٹر میک گریگور نے کہا، ’’کیا تمھارے گھر میں ایک انڈا ہے؟’’
’’ضرور ہے،‘‘ روزے نے کہا، ’’میرے گھر میں ایک درجن انڈے ہیں۔‘‘
’’تمھارے لیے یہ زیادہ دشوار تو نہیں ہو گا کہ تم جا کر ان ایک درجن انڈوں میں سے ایک انڈا لے آؤ؟‘‘ مسٹر میک گریگور نے کہا، ’’جب تم لوٹو گے تو میں تمھارے لیے ایک ایسا گیت گاؤں گا جسے سن کر تمھارا دل خوشی اور غم سے اچھلنے لگے گا۔‘‘
’’میں بس چل پڑا ہوں،‘‘ روزے نے کہا، اور وہ انڈا لانے اپنے گھر کو چلا گیا۔
پھر مسٹر میک گریگور نے ٹام باورچی سے پوچھا کہ کیا اس کے گھر میں کباب کا ایک ٹکڑا ہے، اور ٹام نے کہا، ہے، اور مسٹر میک گریگور نے ٹام سے کہا کہ اس کے لیے یہ زیادہ دشوار تو نہیں ہو گا کہ وہ جا کر کباب کا ٹکڑا حاصل کرے اور اسے لے آئے، اور جب وہ واپس آئے گا تو مسٹر میک گریگور بگل پر ایک ایسا نغمہ پیش کریں گے جو ٹام کی تمام زندگی کی تاریخ بدل دے گا، اور ٹام اپنے گھر کباب لانے کے لیے چلا گیا، اور مسٹر میک گریگور نے اٹھارہ اچھے پڑوسیوں اور دوستوں میں سے ہر ایک سے کھانے کی تھوڑی سی عمدہ چیزوں کے متعلق پوچھا، اور ہر شخص نے اثبات میں جواب دیا، اور انھوں نے کہا کہ ہر شخص اپنے گھر سے کوئی چھوٹی اور عمدہ سی کھانے کی چیز لائے تاکہ مسٹر میک گریگور وہ گانا گا سکیں جو سننے میں اس قدر شاندار ہو گا، اور پھر تمام اچھے پڑوسی اور دوست کھانے کی چھوٹی چھوٹی عمدہ چیزوں کے ساتھ ہمارے گھر کو لوٹے، مسٹر میگ گریگور نے بگل کو اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے لگایا اور ’میرا دل پہاڑیوں میں رہ گیا، میرا دل یہاں نہیں ‘ گایا، اور ہر اچھا پڑوسی اور دوست اس پر رویا اور اپنے گھر واپس ہوا، اور مسٹر میک گریگور تمام اچھی چیزیں ہمارے باورچی خانے میں لے آئے اور ہمارے خاندان نے دعوت اڑائی اور ہم لوگ مست ہوے۔ ایک انڈا، ایک کباب، ایک درجن سبز پیاز کی انٹیاں، دو طرح کے پنیر، دو طرح کی روٹیاں، ابلے ہوے آلو، تازہ ٹماٹر، ایک خربوزہ، چائے اور بہت سی اور کھانے کی عمدہ چیزیں؛ ہم کھاتے گئے اور ہمارا پیٹ پھولتا گیا، اور مسٹر میک گریگور نے کہا، ’’حضورِ عالی! اگر آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا تو میں آپ کے ہاں آنے والے چند دنوں کے لیے قیام کرنا چاہوں گا،‘‘ اور میرے باپ نے کہا، ’’حضور عالی! یہ آپ ہی کا گھر ہے،‘‘ اور مسٹر میک گریگور ہمارے گھر پر سترہ دنوں اور سترہ راتوں کے لیے رکے، اور اٹھارویں دن کی دوپہر ایک شخص بوڑھے لوگوں کی رہائش گاہ سے ہمارے گھر آیا اور اس نے کہا:
’’میں جیسپر میک گریگور کی تلاش میں ہوں؛ وہ اداکار ہیں،‘‘ اور میرے باپ نے کہا، ’’آ پ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’میں بوڑھے لوگوں کی رہائش گاہ سے آیا ہوں،‘‘ نوجوان نے کہا، ’’اور چاہتا ہوں کہ مسٹر میک گریگور ہمارے ہاں واپس آ جائیں، کیونکہ ہم دو ہفتوں کے اندر اپنا سالانہ کھیل پیش کرنے والے ہیں اور ہمیں ایک اداکار کی ضرورت ہے۔‘‘
مسٹر میک گریگور فرش پر سے، جہاں وہ خواب دیکھ رہے تھے، اٹھے اور نوجوان کے ساتھ چلے گئے۔ اور اگلی دوپہر، جب ہم بہت بھوکے تھے، میرے باپ نے کہا، ’’جونی! مسٹر کوسک کی دکان میں جاؤ اور کھانے کے لیے تھوڑی سی کوئی چیز حاصل کرو۔ مجھے معلوم ہے تم ایسا کر سکو گے جونی۔ کوئی بھی چیز لے آؤ جو مل سکے۔‘‘
’’مسٹر کوسک اپنے پچپن سینٹ کا تقاضا کر رہے ہیں،‘‘ میں نے کہا، ’’وہ ہمیں پیسوں کے بغیر کچھ نہیں دیں گے۔‘‘
’’وہاں جاؤ تو جونی!‘‘ میرے باپ نے کہا، ’’تم جانتے ہو کہ تم اس نفیس سلاوکی شخص کو ہمیں کھانے کی کوئی چیز دینے پر آمادہ کر سکتے ہو۔‘‘
پس میں مسٹر کوسک کی دکان پر گیا اور چینی مسئلے کو وہیں سے اٹھایا جہاں میں نے اسے پچھلی بار چھوڑا تھا، اور میرے لیے اسٹور سے چڑیوں کے دانے کے ایک ڈبے اور آدھی شیشی شہتوت کے شربت کے ساتھ رخصت ہونا بڑی دشواریوں کے ساتھ ممکن ہوا، مگر میں نے اسے کر ہی ڈالا۔ اور میرے باپ نے کہا، ’’جونی! اس طرح کی چیزیں ضعیف خاتون کے لیے ذرا خطرناک ثابت ہونے جا رہی ہیں،‘‘ اور صبح کو بےشک میں نے اپنی دادی کو ایک مینا کی طرح گاتے سنا، اور میرے باپ نے کہا، ’’آخر کس طرح میں چڑیوں کے دانے پر زندہ رہ کر عظیم شاعری کر سکتا ہوں؟‘‘
افضال احمد سیّد
استقبالیہ میں لگا ہوا آئینہ
مشاہدے کی ادنیٰ ابتدائی قوت کے استعمال کے بغیر بھی یہ جانا جا سکتا تھا کہ تین مختلف ناموں کے ہوٹلوں سے منسوب یہ عمارت وہی ہے جس کا مجھے پتا دیا گیا تھا۔ ہوٹل میں داخل ہونے کا راستہ، جو کسی بوسیدہ عمارت کا عقبی حصہ ہونے کے لیے سخت مناسب تھا، دو ستونوں کا متحمل تھا جس پر ایک بورڈ پر ایک ہی رسم الخط میں ہوٹل کے تینوں نام ایک دوسرے سے الجھتے ہوے لکھے دیکھے جا سکتے تھے۔ ہوٹل کا سب سے قدیم نام بورڈ کے طول و عرض پر پھیلا ہوا تھا، جبکہ بعد کے ناموں نے بورڈ کو آپس میں تقسیم کر رکھا تھا۔ سب سے قدیم نام اگرچہ اپنا رنگ و روغن گنوا چکا تھا، مگر رقبے میں وسیع تر ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا۔ اسے پڑھنا یوں بھی آسان تھا کہ یہ ایک بازاری نام تھا اور صرف تین حروف پر مشتمل تھا۔ ہوٹل کا دوسرا نام پانچ حروف پر مشتمل تھا اور ایک معروف دریا کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ آخری نام جو بےانتہا خون آلود رنگوں میں حروف سے گل بوٹے بناتے ہوے لکھا گیا تھا، آٹھ حرفوں میں گنا جا سکتا تھا۔ بورڈ کے نیچے سے گزرتے ہوے مجھے اپنی سابقہ بیوی کا خیال آیا جس کا میں تیسرا شوہر تھا، اور اس کے دوسرے دو شوہروں کا خیال بھی جو قید حیات میں ہیں۔
اگر بورڈ والے ستونوں کو صدر دروازہ مان لیا جا سکے، تو بھی زمین کے اس بےربط سے ٹکڑے کو میں کوئی اچھا سا نام نہیں دے سکوں گا جو عمارت کے اس دروازے کے سامنے تھا جس پر غلط اِملا میں استقبالیہ لکھا ہوا تھا۔ اگرچہ پوری عمارت میں کوئی متنفّس نظر نہیں آ سکا تھا مگر مجھے استقبالیہ میں داخل ہوتے ہوے ایسا خیال آیا کہ یہاں اونچی میز کی دوسری طرف یا تو مجھے اپنی سابقہ بیوی بیٹھی ہوئی مل جائے گی، یا وہ محبوبہ جس کے اور میرے درمیان پچیس ڈویژن فوج کھڑی کر دی گئی ہے، یا میرا باپ جسے مجھے بہت سڑی ہوئی مٹی میں دفن کرنا پڑا تھا۔
استقبالیہ کا دروازہ انگلیوں کے لمس سے کھل گیا۔ میز کے اُس طرف والے آدمی سے میں نے اُس آدمی کا پتا پوچھا جس سے ملنے میں یہاں داخل ہوا تھا۔ پھر مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں میز کے اس طرف والے آدمی سے واقف ہوں، اور اس نے بالکل میرے جیسے کپڑے پہن رکھے ہیں، مثلاً اترے ہوے عنّابی رنگ کی آدھی آستینوں والی قمیص۔ توجہ کے براے نام ارتکاز سے مجھے معلوم ہو گیا کہ اس شخص کی شباہت وہی ہے جو میری ہو سکتی ہے۔ اپنے ہم شکل سے ملنے کی حیرت اور آدھی دیوار کے برابر آئینے کی موجودگی کا احساس وقت کے آخری ناقابل تقسیم پیمانے میں ایک ساتھ ہو گیا۔ آدمی کو ایسے موقعے پر خواب دیکھنے کے لیے جو ضروری وقفہ ملتا ہے، وہ مجھے نہیں دیا گیا۔ اب اس کے سوا میرے لیے کوئی آسائش نہیں تھی کہ میں اپنی شباہت کو بغور دیکھوں۔ ڈھلتی ہوئی دوپہر میں اس آئینے میں میں اپنے آپ کو بہت خوش نما نظر آیا۔ میں نے خود کو کئی زاویوں سے دیکھا، اور اپنی خوش نمائی میں فرق نہیں محسوس کیا۔ میں نے کسی بھی آئینے میں خود کو بدصورت نہیں گردانا تھا مگر مجھے اندازہ تھا کہ میں زیادہ سے زیادہ کتنا خوشگوار لگ سکتا ہوں۔ یہ آئینہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔ آئینے میں میں نے دیکھا، میری گھڑی کی سوئیاں انہی ہندسوں پر تھیں جیسا میں میز کے اِس طرف اپنی کلائی پر دیکھ رہا تھا۔ میری بائیں بھوں پر ہلکا سا زخم کا نشان آئینے میں بھی میری نمایاں شناخت تھا۔ دل، جو کسی آئینے میں نظر نہیں آ سکتا، وثوق سے کہا جا سکتا تھا کہ اس خوش نما آدمی کے سینے میں بھی دھڑک رہا ہو گا جس کے اور میرے درمیان صرف ایک آئینہ تھا۔ استقبالیہ کی دیواریں لکڑی، پتھر اور گوشت تینوں سے مل کر بنی ہوئی لگتی تھیں اور آئینے سے حیوانی وحشت کے ساتھ پیوست تھیں۔ یہی دیواریں آئینے کو پراسرار بنا رہی تھیں اور انہی کے سبب میں آئینے میں خوشنما نظر آ رہا تھا۔ پہلی بار میں نے جانا کہ آئینے کو اس دیوار کے سیاق سے جس پر وہ لگایا گیا ہو، علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
اگر مجھے اس آدمی کا پتا جس سے میں ملنے آیا تھا، خود ہی سے پوچھنا تھا تو مجھے کہیں اور نہیں جانا چاہیے تھا۔ میں استقبالیہ سے باہر نکل آیا۔ صدر دروازے کی طرف سے ایک نوعمر لڑکا تیزی سے آتا نظر آیا۔ یہ میں تعین نہیں کر سکا کہ آیا وہ زمین سے اچانک برآمد ہو گیا تھا یا صدر دروازے اور استقبالیہ کے درمیان رکھے ہوے گردآلود قد آدم آرائشی پودوں سے منقلب ہوا تھا۔ اس کا لباس بہت ہلکے سبز رنگ کا تھا اور یہی رنگ شاید اس کی جلد پر بھی نمایاں تھا۔ میں نے اسے روکا جس پر وہ حیرت سے ساکت ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے اپنا کسی طرح کا دشمن تصور کر سکتا، میں نے اس سے اس آدمی کا پتا پوچھا جس سے ملنے میں آیا تھا۔ لڑکے نے صرف ایک لفظ کہا جس کا مفہوم تھا: میں نہیں جانتا، مگر آپ وہاں تک چل سکتے ہیں جہاں تک میں جا رہا ہوں۔ نوعمر ہوٹل میں واقع ایک ادارے کے دفتر میں داخل ہو گیا اور اس کے ساتھ کوئی وقت ضائع کیے بغیر میں نے بھی اپنے آپ کو دفتر کے اندرونی ـحصے میں پایا۔ یہ ایک مناسب طول و عرض کا ہال تھا جس میں بیس پچیس صوفے بےترتیبی سے پڑے تھے۔ ان تمام صوفوں کا رنگ سبز تھا مگر ان پر نقاشی، لکیریں اور رنگوں کی گہرائی ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ تمام صوفے بناوٹ میں بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ غور سے دیکھنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ صوفے بےترتیبی سے نہیں رکھے گئے ہیں، ان کی ترتیب اس طرح تھی کہ ان پر بیٹھنے والے ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ یہ احساس کہ صوفوں پر بیٹھے ہوے افراد مجھے آتا دیکھ کر اٹھ کر کہیں چلے گئے ہیں، بہت واضح تھا، مگر اتنے لوگوں کے بیک وقت ہال میں چلنے سے جو شور پیدا ہو سکتا تھا وہ کہیں بھی نہیں تھا۔
ایک آدمی دیواروں کے پیچھے بنے ہوے ایک کیبن سے نکل آیا۔ آدھے کھلے ہوے دروازے سے میں دیکھ سکا کہ کیبن کے اندر بھی سبز رنگ کے صوفے رکھے ہوے تھے۔ اس شخص نے ہم سے اندر آ جانے کی استدعا کی۔ یہاں نوعمر سے ضبط نہ ہو سکا اور اس نے کہا، یہ میرے ساتھ آئے ہیں، ان کو ایک آدمی سے ملنا ہے۔ کیبن کے اندر کھڑے ہوے آدمی نے غصے میں اپنے پاؤں فرش پر بچھے ہوے سبز قالین پر زور سے رگڑے اور کہا، یہ استقبالیہ نہیں ہے۔
آدمی کو کتنا سچ کہنا اور کتنا سچ سننا چاہیے، میں نہیں جانتا، مگر میں اس وقت تک اس صوفوں والے ہال میں کھڑا رہا جب تک مجھے یقین نہیں آ گیا کہ ایک غیرمتعلقہ آدمی کو اپنے ساتھ یہاں تک لے آنے کے سبب نوعمر پر کوئی تشدد نہیں کیا جائے گا۔
میں پھر استقبالیہ کی طرف نکل آیا۔ ایک کھلے ہوے کمرے میں ایک شخص ٹائپ رائٹر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، جیسے کسی خاموش عبادت میں مصروف ہو، یا کم از کم مر چکا ہو۔ حالانکہ ہوٹل کی فضا اس عبادت خانے کی سی تھی جس سے خدا ابھی ابھی نکالا جا چکا ہو۔ میں اس آدمی کو ہرگز تکلیف نہ دیتا اگر مجھے یقین نہ ہوتا کہ یہی وہ شخص ہے جس سے میں اپنے مطلوبہ آدمی کی بابت جان سکتا ہوں۔
میں اس کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ وہ شخص بغیر کسی استعجاب کے، جیسے کسی حکم یا نفس کشی کی طویل تربیت کے تحت، سر جھکا کر میرے احترام میں کھڑا ہو گیا۔ میں نے اس آدمی کا پتا جس سے میں ملنے آیا تھا اس شخص سے پوچھا۔ اس نے کہا، نہیں۔ میں نے اس ادارے کا نام دوبارہ بتایا۔ اس نے دوبارہ کہا، نہیں۔ اب کے میں نے اسے اس اشتہاری ادارے کے نام کے ہجّے بتائے جسے میرا مطلوبہ شخص چلا رہا تھا۔ جس آدمی سے میں مخاطب تھا وہ کرسی اور ٹائپ رائٹر کے درمیان سے ہٹ گیا اور مجھے گزرنے کا اشارہ کر کے کہا، سیڑھیوں سے دوسری منزل پر۔
مجھے یاد نہیں کہ میں نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا یا نہیں۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ مجھ پر واضح ہو گیا تھا کہ مجھے کہاں جانا ہے۔ میں نے یہ تحقیق روک کر کہ ٹائپ رائٹر کے کی بورڈ پر کس زبان کے حروف ہیں، اپنے سامنے کا دروازہ کھولا اور خود کو پھر استقبالیہ میں پایا۔ آئینے میں اپنے عکس پر غور کیے بغیر میں نے مختلف سمتوں کو جاتی ہوئی کئی سیڑھیاں دیکھیں اور اپنی مرضی کی سیڑھیوں پر دوڑنے لگا۔ سیڑھیوں کی لکڑی کی بوسیدگی پر میری رفتار زلزلے کا حکم رکھتی ہو گی مگر میں اپنے ایمان میں جانتا تھا کہ اگر یہ سیڑھیاں گر بھی جائیں تو ان پر بچھا ہوا قالین بغیر کسی سہارے کے بھی معلّق رہ جائے گا۔ تیرھویں سیڑھی پر میرے دل میں کہیں سے کسی نے کوئی خنجر پھینک کر نہیں مارا اور نہ پہلی منزل کے دوسرے کمرے کے چوبی دروازے سے کوئی نوعمر نیم برہنہ لڑکی چیخ مارتی ہوئی برآمد ہوئی۔
دوسری منزل پر بالکل سامنے والے دروازے پر اس اشتہارساز ادارے کا نام کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر لگایا گیا تھا جہاں میں ایک آدمی سے ملنے آیا تھا۔ یہ بات بالکل واضح تھی کہ ادارے کا نام ابھی ابھی لکھ کر لگایا گیا تھا، مثلاً اس وقت سے لے کر جب میں استقبالیہ میں اپنے آپ سے اس آدمی کا پتا پوچھ رہا تھا، استقبالیہ کے عقبی کمرے میں بیٹھنے والے آدمی سے پتا پوچھنے تک۔ میں نے اپنی انگلی سے حروف کو چھوا، میری انگلی سیاہ ہو گئی۔ بہرحال میں اپنی تحقیق آگے نہ بڑھا سکا اس لیے کہ دفتر کے اندر سے ایک آدمی مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں اندر داخل ہو گیا۔ وہ آدمی دفتر کے مرکزی کمرے میں چلا گیا اور اس نے وہاں کچھ کہا جس میں میں صرف اپنا نام سن سکا جو بالکل صحیح تلفظ کے ساتھ ادا ہوا تھا۔
سیّال تقدیر والے جس آدمی سے میں ملنے آیا تھا، وہ مرکزی کمرے سے نمودار ہوا۔ ایک سال پہلے ہم دونوں بہت اچھے دوست تھے، اس نے مجھے اپنے کمرے میں لے جا کر اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے کہا۔ شام ہونے تک ہم اپنی گزشتہ اور آئندہ حماقتیں یاد کر کر کے لطف اندوز ہوتے رہے، اور یہ تک بھول گئے کہ ہماری دوستی کے منقطع ہونے کا سبب ابھی زندہ ہے۔ جس آدمی سے میں ملنے آیا تھا اس پر اتنی سرشاری طاری تھی جو اس تین ناموں والے ہوٹل میں کسی شخص پر شاید ہی کبھی طاری ہوئی ہو گی۔ دفتر میں سب سے اہم حیثیت رکھتے ہوے بھی میرے اعزاز میں وہ خود چائے بنا لایا اور دنیا کی نفیس ترین پیالی میں مجھے پیش کی۔ میری آمد کی خوشی میں دفتری اوقات ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ آدمی بہت دیر تک میرے ساتھ بیٹھا رہا، اور جب ساری باتیں اس حد پر پہنچ گئیں جہاں سے معلومات میں اضافہ اور تقدیر میں ردوبدل ناممکن ہو جاتا ہے، تو ہم دفتر سے نکل آئے۔
سیڑھیوں سے نیچے اتر کر وہ کنجیاں جمع کرانے کے لیے استقبالیہ میں داخل ہوا۔ میں بھی اس آئینے کو ایک بار پھر دیکھنے اس کے ساتھ چلا آیا جس میں میں خوش نما نظر آیا تھا۔
آئینے میں میرا عکس اپنی جگہ سے غائب تھا۔
افضال احمد سیّد
لاوانیا کے قریب
جہاں خاموشی کے گرد مسلح پہریدار مقرر ہیں، وہاں میں اس کے ساتھ روٹی کو روٹی اور شراب کو شراب کہتا ہوں۔ وہ اپنی سبز انگلیوں سے ایک آبی گھنٹی کو چھوتی ہے اور مردہ گھڑسوار پتا نہیں کون سے نام کے پھولوں کی شاخوں کے نیچے سے گزرنے لگتے ہیں۔ وہ کہتی ہے بارش کے نیچے ایک مرد کا عورت کو پھول پیش کرنا ہمیشہ ایک ہی معنی رکھتا ہے۔ امید، جو ہماری رات اور ہمارے دن کو بےترتیب کرتی ہے، اسے سیاہ صنوبر کے درخت تک لے جاتی ہے۔ اس زمین کا نام ابتدا ہے۔ جہاں ہم انگوروں کے ساتھ توڑے اور کشید کیے جائیں گے، وہاں میں اسے ایک گھوڑا پیش کرتا ہوں اور وہ مجھے زیتون کا پودا؛ وہ جو شیشے اور نَفت اور لکڑی اور پتھر اور اون سے بنی ہے۔
لاوانیا کے قریب میں اس کے پانچ زخموں والے پھول کو چھوتا ہوں، اور پورٹا مارونا کو بند کرتے ہوے اس کے ہونٹ چومتا ہوں۔ میں تو اصطبل کے باہر اگنے والی جھاڑی ہوں، افسردہ ہندسوں والی لوح، جال کی سب سے تنہا مچھلی، ایک دل شکستہ شہزادی کی یاد، خشکی پر رہ جانے والا آرگوناٹ۔
چند لمحوں میں ہم کئی موسموں سے گزر جاتے ہیں، اور اب شدید برف پڑ رہی ہے، اور میں اسے صرف پھولوں سے ڈھانکتا ہوں۔ چاند برجِ سنبلہ میں ہے۔ اس عمارت کی اینٹیں پورے چاند میں چنی گئی تھیں۔ میں ان دنوں ایک پُرخطر زندگی گزار رہا تھا، اور خواب کے سوا میرے پاس کوئی اطلاع نہیں تھی۔
کیا اس کی کھلی ہوئی نیلی آنکھوں کو اس سے زیادہ غلط سمجھا جا سکتا ہے؟
مجھے ایک کاسنی پھول پسند تھا
مجھے ایک کاسنی پھول پسند تھا۔ اس سے میرا اشارہ ایک لڑکی کی طرف ہے جسے میں نے چاہا۔ میں اس کا نام بھی لے سکتا ہوں، لیکن دنیا بہت گنجان آباد ہے۔ وہ مجھے جڑواں پُل پر ملی تھی جو میرے گھر سے دور ایک جھیل پر بےخیالی میں ساتھ ساتھ بنا دیے گئے تھے۔ ہم ایک پل پر ساتھ چلتے اور کبھی الگ الگ پلوں پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامتے۔ میں نے اپنی پہلی مزدوری سے کیلیں خریدیں اور پل کے ٹوٹے ہوے تختوں کو جوڑنے کے درمیان اس کی آنکھوں کے لیے ایک شعر بناتے ہوے ایک کیل کو اپنی ہتھیلی میں اتارا، اور معلوم کیا کہ میں لکڑی کا بنا ہوا نہیں ہوں۔ شاید وہ پل کسی خانہ جنگی میں جلا دیا گیا ہو۔ میں زندگی بھر پھر کسی پل کے لیے کیلیں نہیں خرید سکا۔
ملک الشعرا نُبار اِسباریان کا ایک مطلع
ملک الشعرا نُبار اسباریان نے اپنی کنیز اِرما کی چھاتیوں کے لیے جو مطلع کہا اس کا حسن ترجمے میں اسی طرح ضائع ہو جائے گا جیسے ارما کی چھاتیاں دریاے اِستا کی ریت میں گل سڑ گئیں۔ آرمینیا میں یہ مطلع ان اشعار پر سبقت لے گیا جو نُبار اسباریان نے اپنی محبوبہ اور ہم عصر شاعرہ نورا نعلبندیان کی آنکھوں سے متعلق لکھے تھے اور شاعری کی اعلیٰ ترین مثال میں پیش کیے جاتے تھے۔ شاعرہ نورا نعلبندیان اس مطلع سے اتنی دل برداشتہ ہوئی کہ کئی بار اس نے چاہا کہ اپنے گزشتہ محبوب زرگر جرائر سمباریان کے دیے ہوے خنجر سے، جس کو اسے صرف اپنے دل میں اتارنے کی اجازت تھی، اپنی آنکھیں برباد کر دے۔ آرمینیا کے طول و عرض میں ملک الشعرا نُبار اسباریان کا مطلع اتنا مقبول ہوا کہ سہل الحصول عورتوں سے لے کر عفت پسند دوشیزاؤں، یہاں تک کہ خانقاہِ توریکیان کی راہباؤں کی طرف سے نُبار کو درخواستیں آئیں کہ وہ اپنی چھاتیاں اس کے لیے برہنہ کرنے پر رضامند ہیں، اگر وہ اس مطلع کے برابر یا کچھ کم تر مطلع ان کے لیے کہہ سکے۔ مطلع کی شہرت سے پریشان ہو کر تذکرہ نویسوں نے تواتر سے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ نبار اسباریان نے کبھی ارما کی چھاتیوں کو برہنہ نہیں دیکھا، یا اپنے ہاتھوں سے محسوس نہیں کیا، کیونکہ دیکھی ہوئی یا محسوس کی ہوئی چیز پر ایسی شاعری انسانی امکان سے بالاتر ہے۔ اِرما کو ان تذکروں اور سیبوں کے اس باغ کی خبر تھی جس کے عوض نبار اسباریان نے اسے خریدا تھا؛ اور یہ بھی کہ اب نبار اس کی چھاتیوں کے سحر یا تذکرہ نویسوں کی ضد میں شاعری سے کنارہ کش ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ اگلے تذکروں میں یہ لکھا جاتا کہ ملک الشعرا نبار اسباریان شعرگوئی ترک کرچکا ہے، اِرما نے دیوی اَردَوازی کی پرستش گاہ میں جا کر متبرک خنجر سے اپنی چھاتیاں قطع کر کے دریاے اِستا کی ریت پر ڈال دیں۔
ذی شان ساحل
سرمہ
جب میں
باغ میں جاتا ہوں
باغ کے دروازے پہ
وہ اپنا سرمہ میری آنکھوں میں لگا دیتے ہیں
پھر نہ مجھے پھول نظر آتے ہیں
اور نہ تتلیاں
اندھوں کی طرح گرتے پڑتے
کبھی کانٹوں میں الجھتا ہوں
اور کبھی پکڑتا ہوں کیکٹس کو
سہارے کے لیے
کہیں نزدیک سے آتی ہے
کسی کے قدموں کی آواز
کوئی مجھے اٹھاتا ہے
اور اپنے رومال سے میری آنکھیں صاف کرتا ہے
ہوا میں لرزتے ہوے پھول
کئی رنگوں میں ڈوبی تتلیاں
بےرنگ کانٹے
اور ہلکے سبز کیکٹس
ساتھ ہی ساتھ
صاف نظر آتے ہوے
سیب اور آڑو کے درخت
ہری بھری شاخیں اور چڑیاں
میں باغ کی خوب سیر کرتا ہوں
وہ مجھے دیکھتے ہیں
اور سرمہ صاف کرنے پہ
مجھے دوزخ کا ٹکٹ دیتے ہوے
سلمان کی طرف چلے جاتے ہیں
مجرم
وہ مجرم ہے
ہمارا
ہم اسے مار دیں گے
اسی جرم میں
کہ وہ ہمارا مجرم ہے
اور اسی جرم کی ہم
اسے سزا دیں گے
اور اگر ہم اسے
ہر ممکن سزا نہ دے سکے
تو جو بھی اسے مارے گا
یا اس راستے میں مارا جائے گا
جس پر ہم چل رہے ہیں
تو اس کے لیے
حسن بن صباح کی جنت
انعام میں ہے
یا اس سے بھی کچھ زیادہ
ہمارا وعدہ ہے
اب اسے جینے نہیں دیں گے
اگر اس کا گھر
ایک ہزارویں منزل پہ ہے
تو ہم اسے کہیں گے
بغیر سیڑھیوں
یا بغیر لفٹ کے گھر جانے کو
یا بہتر یہ ہو گا
کہ اس کا گھر
اور اس کے گھر جانے والا ہر راستہ
ہی ختم کر دیا جائے
یا لوگوں سے کہا جائے
وہ اس کے راستے کو راستہ
اور گھر کو گھر نہ رہنے دیں
اگر اس نے کوئی پھول توڑا
تو ہم پھولوں کی ساری قسمیں
سارے باغ ہی ختم کر دیں گے
اگر اس نے کسی تتلی کو چھوا
تو ہم ہر جگہ
تتلیوں کے داخلے پر پابندی لگا دیں گے
اگر وہ درختوں کی طرف دیکھے
تو ان میں سے پتے گر جائیں
اور پرندے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کہیں چلے جائیں
اگر وہ کسی دریا کی طرف جائے
تو وہ دریا نہ شہر کی طرف آئے
اور نہ سمندر کی طرف جائے
ہم اور آپ اگر اسے دیکھیں
تو شاید پتھر کے ہو جائیں
ہم نہ اسے دیکھیں گے نہ یاد کریں گے
اگر اس نے کبھی ہمارے شہر کے بارے میں سوچا
یا ہمیں یاد کیا
تو اس کا انتظام بھی ہم کر رہے ہیں
ہم آہستہ آہستہ اپنے شہروں کو جہنم
اور خود کو شیطان میں تبدیل کر رہے ہیں
نسرین انجم بھٹی
چوہے
چوہے ہمارے خاندانی دوست تھے
بھوک کے کالے دنوں میں ہماری آبرو رکھتے
ہمارے گھر نہ آتے
لیکن کھلے دنوں میں اناج کی خوشبو ہمارے ان کے
دونوں کے درمیان دشمنی بن جاتی
ایک ہی روٹی کی چاروں تہیں کبھی ہماری نہ ہوئیں
چمکتی ہوئی گول گول حریص آنکھیں
ہماری بھوک آدھے میں سے کتر ڈالتیں
کبھی ہم روٹی ہاتھ سے چھوڑ دیتے
اور کبھی کسی چھوٹے کی کلائی اتنی مضبوطی سے پکڑتے کہ روٹی خودبخود نیچے گر جاتی
’’حرامی، سؤر۔۔۔‘‘
مگر وہ کبھی سؤر نہ بنتے، چوہے ہی رہتے
ہمارے معدے کاٹتے کاٹتے ہماری شہ رگوں تک آ جاتے
’’امّاں ری، بولنے کیوں نہیں دیتی، میری روٹی چوہا لے گیا‘‘
اماں کا جوتا چوہے کے پیچھے جاتا،
لیکن رفتار کا فرق ہمیں کبھی جیتنے نہ دیتا
اور ہم ان کی کھائی ہوئی میں سے کھاتے
چوہے دان ان دنوں روٹی سے مہنگا تھا،
اور ہم چوہوں سے زیادہ
ہماری آنکھیں بھی اتنی ہی چمکتی تھیں
اور ہماری دُمیں نکلنے میں شاید کسی بات کی دیر نہ تھی
بھوک کے دن عشق کے دن ہوتے ہیں،
لیکن ہم اُن دنوں جی بھر کر نفرت کرتے تھے
سوتے میں دانت کچکچا کچکچا کر بھوک اور بڑھا لیتے
یہاں تک کہ دانت کھٹّے اور زبان کڑوی ہو جاتی
پتا نہیں جسم کا نمک کہاں چلا گیا تھا
ورنہ کبھی کبھی اپنے ہی بازو کاٹ کر بڑا مزہ آتا تھا
انکار کی ساری قوتیں دُم پر کھڑی ہو جاتیں
اور ہم کبھی ہاں نہ کہتے
نہیں کہنے سے آدھی بھوک مر جاتی
اور اماں کے پلّو میں دکھ کی ریزگاری بڑھ جاتی
بھاری پلّو میں سے اکنّیاں نکالنے کے خواب
کئی برسوں پر پھیل گئے تھے
اور اب اتنے دھندلا گئے تھے کہ ان میں سے صرف چوہوں کی چمکتی آنکھیں ہی دکھائی دیتی تھیں
بھوک کے وقفے لمبے ہو جاتے تو کبھی کبھی
ہم میں صلح ہوجاتی
اور ہم ان کے منھ سے روٹی کے ٹکڑے
حاصل کرنے کے لیے دوست بن جاتے
انھی دنوں ہم نے گھات لگانا سیکھا
اور دوستی دشمنی کے اصول طے کیے
جو شاید کھانے کے دنوں تک یاد نہ رہتے ہوں گے
پھر بھی ہماری آنکھیں ایک شہوت انگیز مشترکہ درد سے مسکرا اٹھتیں
’’وہ مارا!‘‘
’’نہیں، نکل گیا؟‘‘
’’روٹی چھوڑ کر نہیں بھاگا؟‘‘
پھر ہم نظر نہیں ملاتے تھے
اور کئی دنوں تک چوہے بھی ادھر کا رخ نہیں کرتے تھے
’’چوہوں کا گوشت کیسا ہوتا ہو گا؟‘‘
’’چپ سسری، ہم مسلمان ہیں‘‘
’’اماں ری! اسے روک لے نا!‘‘
اور اماں کا جوتا آدھے راستے میں گر جاتا
ابھی بچوں اور چوہوں میں فرق باقی تھا
’’اماں ری، تیرے کپڑے چوہیا کاٹ گئی‘‘
اور وہ کپڑوں کے بجاے اپنا پیٹ ٹٹولنے لگتی
اسے معلوم تھا کہ کپڑوں کا آخری جوڑا تو وہ پہنے ہوے ہے،
اور
اس کے بعد
دن نہیں پھریں گے
اندھیرا جو ان دنوں چھانے لگا تھا
پھر ہمارے حلق میں اتر آیا
اور چوہے نظر آنے بند ہو گئے
اور اب تو بھوکے رہنے کا مزہ بھی جاتا رہا
وقفوں میں سے چوہے غائب ہو جائیں تو شاید دن رات کا فرق مٹ جاتا تھا
میں سب سے چھوٹی تھی
اور ماں باپ کا فرق مٹانا سب سے پہلے میں نے ہی شروع کیا تھا
پھر پانچوں بہن بھائی بھی اسی کام میں لگ گئے
اور ہمیں ایک دوسرے کی خبر نہ رہی
کبھی کبھی کوئی کھانستا تو ہنسی آ جاتی
جیسے بند کانوں میں سے کوئی آواز سنائی دے
گھوں گھوں۔۔۔کھوں کھوں، اور بس
کوئی چکر قائم نہ ہوتا
دھویں کے کھمبے ہمارے درمیان اگنے لگے تھے
اور کھانسی ہمارے پاؤں کی انگلیوں میں محسوس ہوتی تھی
ہماری ساری پلکیں جھڑ چکی تھیں
جس دن ہمارے دروازے پر دستک ہوئی، کوئی نہ اٹھا
دروازہ تو کھلا تھا
راکھ کے ڈھیروں میں ادھ جلی لکڑی کی زبانیں
باپ لوٹا تو دیواریں لپکیں
جلے کاغذ جیسا دوپٹہ اماں کے سر سے سرک گیا
تیز آنکھوں والی چوہیا اس کے ماتھے پر
روٹی کا ٹکڑا چھوڑ کر بھاگی
اور باپ
چوہے دان میں گھر کی راکھ بھرنے لگا
سعید الدین
گاتا ہوا پتھر
دریا کچھ نہیں
اس کے جل کی مٹھاس کچھ نہیں
اس کی مچھلیاں اور اس کا بپھراؤ کچھ نہیں
میں جب ایک گاتا ہوا پتھر اس میں پھینکتا ہوں
تو دریا ایک گیت بن جاتا ہے
جو اپنے اتار چڑھاؤ اور بپھراؤ میں
زندگی سے کم پُرشور نہیں
اور زندگی کا یہی شور دریا ہے
یہی مچھلی، یہی مچھیرا
یہی میٹھا جل
اور یہی شاعری ہے
نظم
شور کم کرو
آہستہ بولو
تاکہ تمھاری آواز
کم سے کم اُن تک تو پہنچ جائے
جو تمھیں سننا چاہتے ہیں
محبت کرنے والے
اگر انھیں پتا چل جائے
میرے بدن پر آگ کیوں پھیلی
تو وہ خاموش رہیں
مجھ سے محبت کرنے والے
اپنے دھندلے لینس میں شفاف جھوٹ دیکھتے ہیں
اور لینس صاف کیے بغیر سوجاتے ہیں
حق کی راہ میں
یہی ان کا جہاد ہے
مجھے معلوم ہے
وہ ایک دن مجھے محبت سے بھینچ کر
میری پسلیاں توڑ دیں گے
اور مجھے وہ سیڑھیاں چڑھا دیں گے
جن سے اوپر
کسی مذہبی پیشوا کی دعا یا بددعا نہیں پہنچ سکتی
میری محبت میں
میری موت پر وہ روئں گے
اور روتے روتے سو جائیں گے
نظم
سفید کاغذ پیلا پڑ چکا ہے
اور عبارت دھندلی ہو گئی ہے
جلد اُدھڑ چکی ہے
اسے لکھنے والا مر گیا ہے
آثارِ قدیمہ کے ماہرین
اور زبانوں کے محققین
اس نتیجے پر پہنچے ہیں
کہ یہ کتاب کسی مردہ زبان میں لکھی گئی ہے
جو اب زمین کے کسی خطے میں بولی یا سمجھی نہیں جاتی
رات کے کسی پہر آثارِ قدیمہ کے ایک ماہر کی آنکھ کھل جاتی ہے
وہ لکڑی کے وزنی صندوق سے کتاب نکالتا ہے
بوسیدہ سرورق پر مصنف کی جگہ اس کا نام لکھا ہے
کتاب کسی بادشاہ کے نام معنون کی گئی ہے
پہلے صفحے پر سرکاری خزانے کا حساب ہے
دوسرے صفحے پر پروہت کے جاری کردہ عبادت کے احکام
تیسرے صفحے پر ان مجرموں کے نام ہیں
جنھیں ایک منحوس دعا کے جرم میں
دوسرے دن صلیب پر چڑھایا جانا تھا
اس کے بعد کچھ سادہ صفحات ہیں
شاید کتاب کا مصنف بھی مار دیا گیا
اس کی تصدیق آگے کی ان دعاؤں سے ہوتی ہے
جو مرے ہوؤں کی مغفرت کے لیے سرکاری پروہتوں نے مانگیں
اور جو بدلی ہوئی تحریر میں تھیں
کتاب کے آخری صفحے پر
بادشاہ کی موت کی خبر تھی
اور اس کے نیچے ایک منحوس دعا
جسے آثار قدیمہ کے ماہر نے فوراً پہچان لیا
نظم
مٹی میں دبے دبے
اب میرا بدن مٹی ہوتا جا رہا ہے
سارے موسم ساری ہوائیں مُصر ہیں
مجھے مٹی بنانے پر
میں کبھی چوک کے گھڑیال کا مینارہ تھا
یا کسی مضبوط قلعے کی فصیل
میں جو کچھ بھی تھا
اب دفن ہوں
اور اب لوگوں نے مجھے دریافت بھی کر لیا
تو مجھے کسی چوک کے گھڑیال
یا کسی مضبوط قلعے کی فصیل کا مقام نہںا ملے گا
مجھے صرف قدیم آثار کے طور پر قبول کیا جا سکے گا
میں بیج بن سکتا ہوں
نہ درخت
نہ آبشار
میری ضدیں اتنی مٹی تلے بھی
اسی تندی اور حرارت سے سانس لیتی ہیں
جیسے کسی چوک یا کسی پہاڑ پر
میرا وجود ہوا اور حرارت جذب کرتا تھا
مجھے اپنے دریافت ہونے کا انتظار نہیں کرنا ہے
ایک درخت کی دہشت
میں کلہاڑے سے نہیں ڈرا
نہ کبھی آرے سے
میں تو خود کلہاڑے کے پھل اور آرے کے دستے سے جڑا ہوں
میں چاہتا ہوں
کوئی آنکھ میرے بدن میں اترے
میرے دل تک پہنچے
کوئی محتاط آری
کوئی مشاق ہاتھ مجھے تراش کر
ملاحوں کے لیے کشتیاں
اور مکتب کے بچوں کے لیے تختیاں بنائے
اس سے پہلے
کہ میری جڑیں بوڑھی داڑھ کی طرح ہلنے لگیں
یا میری خشک ٹہنیاں آپس میں رگڑ کھا کر
جنگل کی آگ بن جائیں
اندھا اور دوربین
جب اس نے پہاڑ کا نام لیا
تو سب ہانپنے لگے
جب اس نے غنیم کی نقل و حرکت بتائی
تو وہ کانپنے لگے
اس نے کہا: اندھیرا
تو سب ایک دوسرے کو ٹٹولنے لگے
اس نے کہا: دریا آبادی میں گھس آیا ہے
تو سب خلا میں ہاتھ پیر مارنے اور ڈوبنے لگے
تب وہ عیاری سے مسکرایا
اور انھیں بالوں سے پکڑ کر
خلا میں دو چار غوطے دیے
اور الگنی پر سوکھنے کے لیے ڈال دیا
اب دیکھیں وہ انھیں کب اتارتا ہے
چرواہے کا خواب
چرواہا خواب دیکھتا ہے
اس کی ایک بھیڑ گم ہو گئی
صرف انچاس بھیڑیں باقی ہیں
چرواہا خواب دیکھتا ہے
اس کی تین بھیڑیں زخمی ہیں
صرف چھیالیس باقی ہیں
چرواہا خواب دیکھتا ہے
بھیڑیے نے اس کے گلّے پر حملہ کر دیا
بھاگتی منتشر ہوتی بھیڑوں میں سے پیچھے رہ جانے والی ایک بھیڑ اور کم ہو گئی
پچاس خوف زدہ بھیڑیں دیکھتی ہیں
سوئے ہوے چرواہے کو بھیڑیا گھسیٹ کر لے جا رہا ہے
دوسرا باغی
پریڈ سے نکالا ہوا آدمی
بےترتیب پیر مارتا ہوا
پیچھے رہ گیا
دھن بدستور جاری ہے
اور اس دھن پر
پریڈ میں شامل
سب ایک ساتھ پیر مارتے ہیں
ایک ساتھ قدم اٹھاتے ہیں
دھن بدستور جاری ہے
پریڈ سے نکلا ہوا آدمی
ایک انہماک کے ساتھ
بےترتیب پیر مارنے میں مگن ہے
دھن دھیمی ہو گئی ہے
یا دور بجنے لگی ہے
پریڈ والے پریڈ کر رہے ہیں
اور پریڈ سے باہر ایک آدمی ایک یقین کے ساتھ
کسی ترتیب میں حرکت کر رہا ہے
یا شاید پریڈ کر رہا ہے
کسی اور دھن پر
جو اس کے اندر بج رہی ہے
پریڈ کے لوگ شاید اب اپنی دھن نہیں سن رہے ہیں
ان کے پیروں کی ترتیب بدل گئی ہے
یا ان کے پریڈ کی دھن تبدیل ہو گئی ہے
سب الٹے سیدھے پیر مار رہے ہیں
پریڈ سے نکلا ہوا آدمی
پریڈ کر رہا ہے
ایک اور آدمی دھن سننے لگتا ہے
دو آدمی پریڈ کر رہے ہیں
دوسرا میں ہوں
جیتی ہوئی ہار
ایک بازی جیتنے کے لالچ میں
میں آخری بازی بھی ہار گیا
سب کچھ ہار جانے پر
ہاری ہوئی بازی کا تخمینہ نہیں لگانا چاہیے
لیکن مجھے اتنا یاد ہے
مںک اپنی آخری بازی میں
جیتنے کا لالچ بھی ہار گیا تھا
مگر ایک روز میں دوبارہ جوئے خانے پہنچ گیا
تب میں نے اپنے خواب اور دن آزاد کرائے
اور اپنی عمر اور آنکھیں واپس جیت لیں
لیکن اس جیت میں
میں جیتنے کا لالچ پھر جیت گیا
میرے خواب
جہاں تک میری آواز نہںب پہنچ سکتی
میرے خواب وہاں تک چلے جاتے ہیں
جہاں میرے قدم تھک جاتے ہیں
وہاں میرے خواب آگے چلنا شروع کر دیتے ہیں
جب تم میری رسائی سے دور ہو جاتی ہو
میرے خواب تمھیں چھو آتے ہیں
جس زمین پر میں شکست کھاتا ہوں
میرے خواب اسے اپنے مفتوحہ علاقے میں شامل کر لیتے ہیں
جب میں گم ہو جاتا ہوں
خواب مجھے ڈھونڈ نکالتے ہیں
جب میں قید ہو جاتا ہوں
خواب آہنی دروازوں اور خاردار تاروں سے باہر نکل جاتے ہیں
اور کسی کے ہاتھ نہیں آتے
چیونٹیاں
چیونٹیاں زمین پر کتنے کوس چلتی ہوں گی
اور کتنی ہمارے پیروں تلے آ کر مسل جاتی ہوں گی
اس کا شمار نہیں
لیکن جب یہ ہمارے بدن پر چلتی ہیں
تو ہم انھیں گن سکتے ہیں
ان کی مسافت کا اندازہ لگا سکتے ہیں
تم اپنے بدن پر کاٹتی چیونٹی کو کیسے الگ کرتے ہو
یہ چیونٹی بتا سکتی ہے
یا اس کے ٹوٹے ہوے اعضا
تم چیونٹیوں کے گھروں کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جان سکتے
کہ وہ دروازوں کی ریخوں یا دیواروں کی دراڑوں میں رہتی ہیں
یا رات بھر چلتی رہتی ہیں
لیکن تم یہ نہیں جان سکتے
یہ کہاں مل بیٹھتی ہیں
کہاں خفیہ میٹنگیں کرتی ہیں
لیکن جب تم شہد کے مرتبان، شکر کے ڈبے یا گوشت کے ٹکڑے کی طرح
ان کے کھانے کا ذخیرہ بن جاؤ گے
تو وہ ان گنت جمع ہو کر
تمھارے ان گنت ٹکڑوں کو آپس میں بانٹ لیں گی
اور تمھیں دروازوں کی ریخوں اور دیواروں کی دراڑوں کے اندرونی حصے دکھائیں گی
اور وہ گوشے بھی
جہاں انھوں نے خفیہ میٹنگیں کی تھیں
انتخاب
نیر مسعود
تعارف
’’16نومبر1936 تاریخ پیدائش ہے (بہ مقام’’ادبستان‘‘لکھنؤ)، ادبی تربیت والد مرحوم پروفیسر سیّد مسعود حسن رضوی ادیب کے زیر سایہ ہوئی۔ گھر کے کتب خانے میں کلاسیکی ادب کی کتابیں تھیں۔ مکان سے متصل الطاف فاطمہ صاحبہ کا مکان تھا، ان کے یہاں بچوں کے رسالے ’’پھول‘‘ اور ’’پیام تعلیم‘‘ وغیرہ آتے تھے اور بچوں کی کتابوں کا بھی بڑا اچھا ذخیرہ تھا۔ مطالعے کا شوق ان دونوں کتب خانوں سے پورا ہوتا تھا۔ بچپن میں نظمیں اور ڈرامے لکھتا تھا۔ کچھ چیزیں بچوں کے رسالوں میں شائع ہوئیں۔ 1957 میں فارسی ادب میں ایم اے کیا۔ پھر اردو اور فارسی میں پی ایچ ڈی کر کے لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں پڑھانے لگا، اور اب بھی پڑھا رہا ہوں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کی دوستی نے ادب سے دل چسپی کو مہمیز کیا۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی بیشتر انھیں کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ سوا سو کے قریب مضامین وغیرہ اور چھوٹی بڑی گیارہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ افسانوں کی تعداد ایک درجن سے متجاوز نہیں ہے۔
1971 میں شادی ہوئی۔ چار بچے (ایک بیٹا، تین بیٹیاں) ہیں۔‘‘
نیر مسعود
نیر مسعود
وقفہ
گذاشتیم و گذشیتم و بودنی ہمہ بود
شدیم و شد سخنِ ما فسانۂ اطفال
یہ نشان ہمارے خاندان میں پشتوں سے ہے۔ بلکہ جہاں سے ہمارے خاندان کا سراغ ملنا شروع ہوتا ہے وہیں سے اس کا ہمارے خاندان میں موجود ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح اس کی تاریخ ہمارے خاندان کی تاریخ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
ہمارے خاندان کی تاریخ بہت مربوط اور قریب قریب مکمل ہے، اس لیے کہ میرے اجداد کو اپنے حالات محفوظ کرنے اور اپنا شجرہ درست رکھنے کا بڑا شوق رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان کی تاریخ شروع ہونے کے وقت سے لے کر آج تک اس کا تسلسل ٹوٹا نہیں ہے۔ لیکن اس تاریخ میں بعض وقفے ایسے آتے ہیں۔۔۔
میرا باپ ان پڑھ آدمی تھا اور معمولی پیشے کیا کرتا تھا۔ اسے کئی ہنر آتے تھے۔ بچپن میں تو مجھے یقین تھا کہ اسے ہر ہنر آتا ہے، لیکن اس کا اصل ہنر معماری کا تھا، اور یہی اس کا اصل پیشہ بھی تھا، البتہ اگر موسم کی خرابی یا کسی اور وجہ سے اس کو معماری کا کام نہ ملتا تو وہ لکڑی پر نقاشی یا کچھ اور کام کرنے لگتا تھا۔
میری پرورش اس کے زانوؤں پر ہوئی اور آنکھیں کھولنے کے بعد میں نے مدتوں تک صرف اسی کا چہرہ دیکھا۔ مجھے اپنی ماں یاد نہیں، حالانکہ مجھے اس وقت تک کی باتیں یاد ہیں جب میں دودھ پیتا بچہ تھا۔ اس وقت میں روتا بہت تھا لیکن میرا باپ مجھے بہلانے کے بجاے مجھ کو اپنے زانو پر لٹائے خاموشی کے ساتھ دیکھتا رہتا تھا یہاں تک کہ میں اس کا چہرہ دیکھتے دیکھتے آپ ہی آپ چپ ہو جاتا۔ ظاہر ہے میری پرورش تنہا اس نے نہیں کی ہو گی اس لیے کہ اسے کام پر بھی جانا ہوتا تھا، لیکن اس زمانے کی یادوں میں، جن کا کوئی بھروسا بھی نہیں، اپنے باپ کے سوا کسی اور چہرے کا نقش میرے ذہن میں محفوظ نہیں اور وہ بھی صرف اتنا کہ ایک دوہرے دالان میں وہ گردن جھکائے چپ چاپ مجھے دیکھ رہا ہے اور مجھ کو اس کے چہرے کے ساتھ اونچی چھت نظر آ رہی ہے جس کی کڑیوں میں سرخ اور سبز کاغذ کی نچی کھچی سجاوٹ جھول رہی ہے۔
جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا تو مجھے احساس ہونے لگا کہ میرا باپ دیر دیر تک گھر سے غائب رہتا ہے۔ یہ اس کا ایسا معمول تھا کہ جلد ہی مجھ کو گھر سے اس کے جانے اور واپس آنے کے وقتوں کا اندازہ ہو گیا۔ میں ان دونوں وقتوں پر، بلکہ ان سے کچھ پہلے ہی، ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتا تھا۔ اس کے جاتے وقت میں صحن میں جمع ملبے کے ڈھیر میں سے اینٹوں کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر اسے مارتا رہتا یہاں تک کہ پڑوس کی کوئی خستہ حال بڑھیا آ کر مجھے گود میں اٹھا لیتی۔ ایسی عورتیں میرے مکان کے آس پاس بہت تھیں۔ جتنی دیر میرا باپ گھر سے باہر رہتا، ان میں سے ایک دو عورتیں میرے پاس موجود رہتیں۔ کبھی کبھی ان کے ساتھ میلے کچیلے بچے بھی ہوتے تھے۔ باپ کے جانے کے کچھ دیر بعد میرا غصہ کم ہو جاتا اور میں بڑھیوں سے کہانیاں سننے یا بچوں کے ساتھ کھیلنے میں لگ جاتا، لیکن اس کی واپسی کا وقت قریب آتا تو میرا مزاج پھر بگڑنے لگتا تھا۔ اور جیسے ہی وہ گھر کے صحن میں قدم رکھتا، میں لپک کر اس کی طرف جاتا اور اپنے چھوٹے چھوٹے کم زور ہاتھوں سے اسے مارنا شروع کر دیتا۔ اس وقت میرا باپ مجھ سے بھی زیادہ ہنگامہ کرتا اور اس طرح چیختا اور تڑپتا تھا گویا میں نے اس کی ہڈیاں توڑپھوڑ کر رکھ دی ہیں۔ آخر میرا غصہ کم ہو جاتا اور میں اس کا علاج شروع کرتا۔ وہ تتلا تتلا کر مجھے بتاتا کہ اس کو کہاں کہاں پر چوٹیں آئی ہیں اور میں اس کے بدن کو کہیں دباتا، کہیں سہلاتا اور کہیں پر پھونکتا، اس کے فرضی زخموں سے بہتا ہوا فرضی خون پونچھتا اور خیالی شیشیوں سے خیالی دوائیں اس کے منھ میں انڈیلتا، جن کی کڑواہٹ ظاہر کرنے کے لیے وہ ایسے برے برے منھ بناتا کہ مجھے ہنسی آ جاتی تھی۔
اس وقت تک، بلکہ اس کے آخری وقت تک، مجھے علم نہیں تھا کہ وہ میرا حقیقی باپ ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ میرے خاندان کا کوئی پرانا ملازم ہے جس نے وفاداری کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔ اس غلط فہمی کی ذمہ داری مجھ سے زیادہ خود اس پر تھی۔ اس کا برتاؤ میرے ساتھ واقعی ایسا تھا جیسے میں اس کا آقازادہ ہوں۔ اس لیے میرا برتاؤ اس کے ساتھ برا تھا۔ لیکن میں اپنے وحشیانہ انداز میں اس سے محبت بھی کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کا بدن خراشوں سے کبھی خالی نہ رہتا۔
جب میں کچھ اور بڑا ہوا تو اس کا گھر سے نکلنا مجھے اور زیادہ ناگوار گزرنے لگا۔ اب میں کبھی اس کے اوزاروں کا تھیلا چھپا یتا، کبھی اس میں سے کچھ اوزار نکال کر ان کی جگہ اینٹوں یا لکڑی کے ٹکڑے رکھ دیتا، یہاں تک کہ اس نے تھیلا ایک مچان پر چھپا کر رکھنا شروع کر یا۔ اور جب میں اس مچان تک بھی پہنچنے لگا تو ایک دن تھیلا غائب ہو گیا۔ اس کے بعد کئی دن تک میرا باپ گھر سے باہر نہیں نکلا، اور دوہرے دالان کی سرخ سبز سجاوٹ والی چھت کے نیچے بیٹھا لکڑی پر نقاشی کرتا رہا۔ اس میں اس کا انہماک ایسا تھا کہ میں اس کے کام میں مخل ہوتے ڈر رہا تھا، لیکن اس سے زیادہ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ جلد ہی وہ نقاشی کا کام چھوڑ دے گا اور اوزاروں کا تھیلا نکال کر پھر گھر سے باہر جانا شروع کر دے گا، اس لیے میں اس فکر میں لگ گیا کہ تھیلا تلاش کر کے اسے ہمیشہ کے لیے غائب کر دوں۔ اپنے باپ کو بتائے بغیر کہ مجھے کس شے کی تلاش ہے، میں تھیلے کو مکان کے ایک ایک حصے میں ڈھونڈتا پھرا۔ مکان کے اندرونی دالانوں میں زیادہ تر دروازے مقفل تھے اور مجھے پتا نہیں تھا کہ ان کے پیچھے کیا ہے۔ پرانی وضع کے زنگ آلود قفلوں کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ انھیں مدت سے کھولا نہیں گیا ہے بلکہ ان کی کنجیاں بھی کب کی غائب ہو چکی ہوں گی، اس لیے میں نے فیصلہ کر لیا کہ تھیلا ان دروازوں کے پیچھے نہیں ہے۔ لیکن مکان میں ایسے دروازے بھی بہت تھے جو مقفل نہیں تھے۔ ان کے پیچھے مجھے خالی کمرے اور کوٹھریاں نظر آئیں۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان میں کا سامان ہٹا کر حال ہی میں ان کی مرمت کی گئی ہے۔ بعض بعض کے فرش پر تو ابھی پانی تک موجود تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ میرا باپ گھر پر بھی کسی وقت معماری کا کام کرتا ہے۔ یہی تعجب کرتا ہوا میں مکان کی مغربی دیوار کے قریب ایک بڑے دروازے کے پاس پہنچ گیا۔ اس دروازے کے دونوں پٹوں پر لکڑی کی دو مچھلیاں ابھری ہوئی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے مکان میں کوئی ایسا دروازہ بھی ہے۔ میں دیر تک اس پر ہاتھ رکھے سوچتا رہا کہ اس کے پیچھے کیا ہو گا۔ مجھ کو یقین تھا کہ یہ کسی خالی کمرے کا دروازہ نہیں ہے۔ مزید یقین کے لیے میں نے اسے تھوڑاسا کھول کر اندر جھانکا۔ اوّل اوّل مجھ کو صرف لکڑی کے لمبے لمبے مچان نظر آئے۔ پھر میں نے دیکھا کہ ان مچانوں پر بہت بڑی بڑی کتابیں ترتیب کے ساتھ سجی ہوئی ہیں۔ میں نے ابھی پڑھنا شروع نہیں کیا تھا، تاہم مجھے ان کتابوں میں کچھ دل چسپی سی پیدا ہوئی اور انھیں قریب سے دیکھنے کے لیے میں دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ سامنے والی دیوار کے قریب فرش پر بھی کتابیں ڈھیر ہیں۔ انھیں نزدیک سے دیکھنے کے لیے میں آگے بڑھا اور کتابوں کی طرف سے میری توجہ ہٹ گئی۔ ڈھیر کے اُس طرف دیوار سے ملی ہوئی چٹائی پر ایک بوڑھا آدمی آنکھیں بند کیے چت پڑا ہوا تھا۔ پرانے کاغذوں کی خوشبو کے بیچ میں وہ خود بھی ایک بوسیدہ کتاب معلوم ہو رہا تھا۔
میں ایک قدم پیچھے ہٹا۔ دور پر میرے باپ کی ہتھوڑی کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دے رہی تھی اور میں چٹائی پر پڑے ہوے آدمی کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اپنے بالوں اور لباس سے وہ مجھے کچھ فقیر سا معلوم ہوا۔ اسے اور غور سے دیکھنے کے لیے میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکا ہی تھا کہ اس نے آنکھیں کھول دیں، کچھ دیر تک چپ چپ مجھ کو تکتا رہا، پھر اس کے ہونٹ ہلے۔
’’آؤ شہزادے،‘‘ اس نے کہا، ’’سبق شروع کیا جائے؟‘‘
پاگل! میں نے سوچا اور بھاگ کر اپنے باپ کے پاس آ گیا۔ وہ اسی طرح اپنے کام میں منہمک تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں چاندی کا تار لپٹا ہوا تھا اور داہنے ہاتھ میں ایک نازک سی ہتھوڑی تھی۔ لکڑی کی ایک ہشت پہل تھالی اس کے سامنے تھی جس پر اس نے طرح طرح سے مڑی ہوئی پتیاں ابھاری تھیں اور اب ان پتیوں کی باریک رگوں میں چاندی کا تار بٹھا رہا تھا۔ مجھے اپنے قریب محسوس کر کے اس نے گردن اٹھائی اور آہستہ سے مسکرایا۔
’’آئیے‘‘، وہ دھیرے سے بولا، ’’کہاں گھوم رہے تھے آپ؟‘‘
’’وہاں۔۔۔ وہ بڈھا کون ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تو آپ نے اپنے استاد کو ڈھونڈھ نکالا،‘‘ وہ بولا اور پھر پتیوں کی رگوں میں تار بٹھانے لگا۔
’’استاد؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’لیکن آپ ڈھونڈھ کیا رہے تھے؟‘‘ جواب میں اس نے بھی پوچھا اور مجھے یاد آ گیا۔
’’تھیلا۔۔۔!‘‘ میں نے کہا، ’’اوزاروں کا تھیلا کہاں ہے؟‘‘
’’وہ آپ کو نہیں ملے گا۔‘‘
اب مجھے غصہ آنے لگا۔
’’کہاں ہے؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
’’نہیں ملے گا۔‘‘
مجھے اور غصہ آیا، لیکن اسی وقت اس نے پوچھا:
’’آج کون دن ہے؟‘‘
میں نے اسی غچّے میں بتا دیا اور پھر پوچھا:
’’تھیلا کہاں ہے؟‘‘
’’پرسوں سے آپ کا سبق شروع ہو گا،‘‘ اس نے بڑے سکون کے ساتھ کہا۔ میں نے اسے برابھلا کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ اس نے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر مجھے اپنے قریب کھینچ لیا۔ دیر تک وہ میرا چہرہ دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں امید اور افسردگی کی ایسی آمیزش تھی کہ میں اپنا سارا غصہ بھول گیا۔ اس کی مضبوط انگلیاں میری کلائی اور شانے میں گڑی جا رہی تھیں اور بدن دھیرے دھیرے لرز رہا تھا۔ اس حالت میں وہ مجھے ہمیشہ بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔
’’چھوڑ، بڈھے!‘‘ میں نے ہنستے ہوے کہا اور لکڑی کی منقّش تھالی پر ہلکی سی ٹھوکر لگائی۔ ایک پتّی کی رگ میں بیٹھا ہوا تار تھوڑا اکھڑ آیا اور میرے باپ نے جلدی سے مجھے چھوڑ دیا۔ اس کی انگلیوں میں لپٹے ہوے تار نے میری کلائی پر جالی کا سا نقش بنا دیا تھا۔ میں نے کلائی اس کی آنکھوں کے سامنے کی۔ وہ تار کے نقش کو دیر تک سہلاتا اور پھونکتا رہا، پھر بولا:
’’پرسوں سے‘‘، اور پھر بولا، ’’پرسوں سے۔‘‘
2
سبق شروع ہونے کا خیال مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا تھا اس لیے دوسرے دن میں اپنے باپ سے خفا خفا سا رہا، لیکن شام ہوتے ہوتے مجھے اپنے استاد کے بارے میں تجسس پیدا ہوا، اور تیسرے دن میں اپنے باپ کے پیچھے پیچھے قدرے اشتیاق کے ساتھ مچھلیوں والے دروازے میں داخل ہوا۔ استاد چٹائی پر دوزانو بیٹھا ہوا تھا۔ باپ نے مجھے اس کے سامنے بٹھا دیا اور خود فرش پر ڈھیر کتابوں کو اٹھا اٹھا کر مچانوں پر سجانے لگا، یہاں تک کہ فرش پر صرف ایک کتاب پڑی رہ گئی۔
’’اسے آپ اٹھائیے، شاباش!‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔ مجھے یہ سب ایک دل چسپ تماشا معلوم ہو رہا تھا۔ کتاب کا وزن زیادہ تھا، تاہم میں نے اس کو اٹھا لیا اور باپ کے اشارے پر اسے استاد کے سامنے رکھ دیا۔ استاد کتاب پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے مسکرایا اور مجھے حیرت ہوئی کہ پرسوں وہ مجھ کو فقیر کیوں معلوم ہوا تھا۔
’’اِسے کھولو، شہزادے،‘‘ اس نے کہا۔
کتاب کے چند ابتدائی صفحوں کو چھوڑ کر باقی ورق سادہ تھے۔ اس دن پہلے سادہ ورق پر استاد نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے کچھ لکھوایا۔ اتنی بڑی سی کتاب پر اپنے ہاتھ کی تحریر مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی۔ میں چاہتا تھا استاد مجھ سے کچھ اور لکھوائے لیکن میرے باپ نے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر مجھے اپنے قریب کھینچ لیا۔ اس کا بدن پھر دھیرے دھیرے لرز رہا تھا۔ اسی حالت میں دیر تک وہ استاد سے چپکے چپکے باتیں کرتا رہا، لیکن وہ دونوں معلوم نہیں کن اشاروں میں گفتگو کر رہے تھے کہ میری سمجھ میں ان کی ایک بات بھی نہیں آئی اور میں اپنے باپ کے ہاتھوں کے حلقے میں گھرا ہوا، مچانوں پر سجی بڑی بڑی کتابوں پر نظریں دوڑاتا رہا۔ آخر میرا باپ مجھے لے کر باہر آ گیا۔
اس کے بعد سے میرا زیادہ وقت استاد کے ساتھ گذرنے لگا اور میں اپنے باپ کو بھول سا گیا، یہاں تک کہ کچھ دن تک مجھے یہ بھی احساس نہیں ہوا کہ اس نے پھر سے اوزاروں کا تھیلا لے کر کام پر جانا شروع کر دیا ہے۔ مچھلیوں والے دروازے کے پیچھے موٹی کتابوں میں گھرا ہوا استاد مجھے ہر وقت موجود ملتا تھا۔ وہ شاید وہیں رہتا تھا۔ میں اکثر اسے دیکھتا کہ فرش پر ڈھیر کتابوں کے پاس آنکھیں بند کیے چت پڑا ہے اور فقیر معلوم ہو رہا ہے۔ میری آہٹ سن کر وہ آنکھیں کھولتا اور ہمیشہ ایک ہی بات کہتا:
’’آؤ، شہزادے، سبق شروع کیا جائے۔‘‘
لیکن اس نے مجھے پڑھایا کچھ نہیں، البتہ لکھنا بہت جلدی سکھا دیا۔ ہر روز لکھنے کی باقاعدہ مشق کرانے کے بعد مجھے اپنے سامنے بٹھا کر وہ بولنا شروع کرتا۔ کسی کسی دن وہ مجھے پرانے وقتوں اور دوردراز کے علاقوں کی دل چسپ باتیں بتاتا، لیکن زیادہ تر وہ میرے اپنے شہر کے بارے میں باتیں کرتا تھا۔ وہ شہر کے مختلف محلّوں میں بسنے والے خاندانوں کا حال سناتا تھا کہ کس محلے کا کون خاندان کس طرح آگے بڑھا اور کیونکر تباہ ہوا اور اب اس خاندان میں کون کون لوگ باقی ہیں اور کس حال میں ہیں۔ یہ دل چسپ قصے تھے لیکن استاد انھیں بےدلی سے بیان کرتا تھا اس لیے وہ مجھے محض بےربط ٹکڑوں کی طرح یاد رہ جاتے تھے، البتہ شہر کے محلوں کا ذکر وہ اس انداز سے کرتا تھا کہ ہر محلہ مجھے ایک انسان نظر آتا تھا جس کا مزاج اور کردار ہی نہیں، صورت شکل بھی دوسرے محلوں سے مختلف ہوتی تھی۔ جوش میں آ کر استاد یہ دعویٰ بھی کرنے لگتا تھا کہ وہ شہر کے کسی بھی آدمی کو دیکھتے ہی بتا سکتا ہے کہ وہ کس محلے کا رہنے والا ہے یا کن کن محلوں میں رہ چکا ہے۔ اس وقت میں اس کے اس دعوے پر ہنستا تھا لیکن اب دیکھتا ہوں کہ خود مجھ میں یہ صفت کچھ کچھ موجود ہے۔
کبھی کبھی استاد باتیں کرتے کرتے چٹائی پر چت لیٹ کر آنکھیں بند کر لیتا تو میں فرش پر ڈھیر کتابوں کے ورق الٹنے پلٹنے لگتا۔ انھیں ورق گردانیوں میں مجھے معلوم ہوا کہ میں پڑھ بھی سکتا ہوں۔ لیکن ہاتھ کی لکھی ہوئی وہ بھاری بھاری کتابیں میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ ان میں بعض تو میری اپنی زبان ہی میں نہیں تھیں، بعض کی عبارتیں اور بعض کی تحریریں اتنی گنجلک تھیں کہ بہت غور کرنے پر بھی ان کا بالکل دھندھلا سا مفہوم میرے ذہن میں آتا اور فوراً نکل جاتا تھا۔ ایسے موقعوں پر مجھے اپنے استاد پر غصہ آنے لگتا اور کئی مرتبہ میں نے اس سے بڑی بدتمیزی کے ساتھ بات کی۔ ایک بار وہ آنکھیں بند کیے چپ چاپ پڑا میری باتیں سن رہا تھا کہ اچانک میرے سر کے اندر چمک سی ہوئی۔ میں نے چلّا کر کہا:
’’بہرا ہوگیا ہے، فقیر؟‘‘ اور ایک بھاری کتاب اٹھا کر اس کے سینے پر پھینک دی۔
اس کے دوسرے دن مجھے اپنے مکان کے قریب کی ایک چھوٹی سی درس گاہ میں پہنچا دیا گیا۔
اس کے بعد میں شہر کی مختلف درس گاہوں میں پڑھتا رہا۔ شروع شروع میں میرا باپ بڑی پابندی کے ساتھ مجھ کو درس گاہ تک پہنچاتا اور وہاں سے واپس لاتا تھا۔ چھٹی ہونے پر میں باہر نکلتا تو دیکھتا کہ وہ درس گاہ کے پھاٹک سے کچھ فاصلے پر کسی درخت کے تنے سے ٹیک لگائے خاموش کھڑا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ آگے بڑھتا، میری کتابیں سنبھالتا، اور کبھی کبھی مجھ کو بھی گود میں اٹھانے کی کوشش کرتا لیکن میں اسے نوچ کھسوٹ کر الگ ہو جاتا تھا۔ اگر کسی دن اسے آنے میں دیر ہو جاتی تو میں خوشی خوشی سیر کرتا ہوا تنہا گھر لوٹتا اور دوسرے دن اکیلے جانے کی ضد کرتا تھا۔ آخر رفتہ رفتہ میں نے تنہا جانا اور واپس آنا شروع کر دیا۔ پھر میں خالی وقت اور چھٹّی کے دنوں میں بھی گھر سے باہر نکلنے لگا اوراسی زمانے میں اچھی بری صحبتوں سے بھی آشنا ہوا۔ میں نے شہر کے ان تمام محلوں کے چکر لگائے جن کے بارے میں استاد بتاتا تھا کہ کون ریاکار ہے، کون بزدل، کون چاپلوس اور کون فسادی۔ انھیں گردشوں کے دوران ایک دن میں نے اپنے باپ کو بازار میں دیکھا۔
وہ بازار کے اس حصے میں کھڑا ہوا تھا جہاں ہر روز صبح کے وقت مزدور اور کاریگر کام کی تلاش میں آ کر جمع ہوتے تھے۔ اوزاروں کا تھیلا زمین پر اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں رکھے وہ آس پاس کے لوگوں سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہا تھا کہ اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ تھیلا زمین پر چھوڑ کر وہ لپکتا ہوا میری طرف آیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں،‘‘ میں نے جواب دیا۔
وہ کچھ دیر تک مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہا، پھر بولا:
’’کوئی بات ہو گئی ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں،‘‘ میں نے پھر کہا۔
’’ہمیں دیکھنے آئے تھے؟‘‘ اس نے پوچھا، پھر خود ہی بولا، ’’ایسا ہی ہے تو ہمیں کام پر دیکھیے۔‘‘ پھر وہ آہستہ سے ہنسا۔
اسی وقت کسی مزدور نے اس کا نام لے کر پکارا اور وہ اپنے تھیلے کی طرف لوٹ گیا جہاں ادھیڑ عمر کا ایک شخص اس کے انتظار میں کھڑا ہوا تھا۔ اس نے میرے باپ سے کچھ پوچھا، پھر دیر تک اسے کچھ سمجھاتا رہا۔ وہ باربار اپنے ہاتھوں سے ہوا میں محراب یا گنبد کی سی شکل بناتا تھا۔ اس کی انگلیوں میں بڑے بڑے نگینوں والی کئی انگوٹھیاں تھیں جنھیں وہ جلدی جلدی انگوٹھے سے گھماتا تھا۔ بہت سی آوازوں کے بیچ میں اس کی اونچی کھرکھراتی ہوئی آواز صاف سنائی دے رہی تھی لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ کچھ دیر بعد میرے باپ نے اوزاروں کا تھیلا اٹھایا اور اس شخص کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ مجھے خیال آیا کہ اس کے تھیلے میں کسی اوزار کی جگہ میرا رکھا ہوا لکڑی یا اینٹ کا ٹکڑا نہیں ہو گا۔ لیکن اس خیال سے مجھ کو خوشی کے بجاے کچھ افسردگی سی محسوس ہوئی۔ اس افسردگی پر مجھے تعجب بھی ہوا۔ میں سیدھا گھر واپس آ گیا، اور اگرچہ وہ پورا دن میں نے استاد کے ساتھ فضول بحثوں میں گذارا لیکن تمام وقت مجھے گھر میں باپ کی کمی محسوس ہوتی رہی۔ یہ خیال بھی مجھے باربار آیا کہ میں نے ابھی تک اس کو معماری کا کام کرتے نہیں دیکھا ہے اور یہ مجھے اپنی بہت بڑی کوتاہی معلوم ہوئی مگر اس کی تلافی کا خیال مجھے نہیں آیا۔
ایک دن سہ پہر کے قریب گھومتا پھرتا میں اپنی ایک پرانی درس گاہ کے سامنے پہنچ گیا۔ یہ درس گاہ مدتوں پہلے ایک تاریخی عمارت میں قائم کی گئی تھی اور اب بھی اس عمارت میں تھی۔ عمارت بوسیدہ ہو چکی تھی اور جب میں وہاں پڑھتا تھا تو اس کی ایک چھت بیٹھ گئی تھی جس کے بعد میرے باپ نے مجھے اس درس گاہ سے اٹھا لیا، اس لیے کہ کچھ دیر پہلے تک میں اسی چھت کے نیچے تھا۔ اتنے دن بعد ادھر آیا تو میں نے دیکھا کہ درس گاہ کی ٹوٹی ہوئی چاردیواری درست کر دی گئی ہے۔ لکڑی کا وہ بیرونی پھاٹک غائب تھا جس کے پٹوں میں لوہے کے پھول جڑے ہوے تھے اور بائیں پٹ میں نیچے کی طرف چھوٹا سا ایک پٹ کا دروازہ تھا۔ اب اس پھاٹک کی جگہ لوہے کا کٹہرے دار پھاٹک تھا جس کے پیچھے اصل عمارت میں داخلے والی اونچی محراب نظر آ رہی تھی۔ محراب کے پیچھے لوگ چل پھر رہے تھے، حالانکہ وہ چھٹی کا دن تھا۔ یہ سوچ کر کہ شاید ان لوگوں میں کوئی میری جان پہچان والا مل جائے، میں پھاٹک سے گذر کر محراب کی طرف بڑھا۔ قریب پہنچ کر میں نے دیکھا کہ محراب کی پیشانی پر بالکل ویسی ہی دو مچھلیاں ابھری ہوئی ہیں جیسی میرے مکان میں استاد والے کمرے کے دروازے پر تھیں۔ مجھ کو حیرت ہوئی کہ اس درس گاہ میں اتنے دن تک آنے جانے کے باوجود ان مچھلیوں پر کبھی میری نظر نہیں پڑی۔ اب میں نے انھیں غور سے دیکھا۔ محراب کی شکستہ پیشانی کی مرمت کی جا چکی تھی۔ مچھلیاں بھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ داہنی طرف والی مچھلی کی دم غائب تھی۔ اس کی جگہ نیا نارنجی مسالا بھر دیا گیا تھا اور میرا باپ دو آڑی بلّیوں پر ٹکا ہوا اس مسالے کو مچھلی کی دم کی شکل میں تراش رہا تھا۔ وہ سر پر ایک کپڑا لپیٹے ہوے تھا جس کی وجہ سے میں اسے پہچان نہیں سکا۔ میں نے اسے اس کے تھیلے سے پہچانا جو محراب کے داہنے پائے سے لگا ہوا رکھا تھا اور اس میں سے کچھ اوزار باہر جھانک رہے تھے۔ دیر تک اسے اپنے کام میں کھویا ہوا دیکھتے رہنے کے بعد میں نے زمین پر سے پرانے ٹوٹے ہوے مسالے کا ایک ٹکڑا اٹھا کر اس کی طرف اچھالا۔ ٹکڑا اس کے پیر کے پاس بلّی سے ٹکرا کر واپس گرا اور اس نے نیچے کی طرف دیکھا، آہستہ سے ہنسا، پھر بولا:
’’تو آپ نے ہم کو ڈھونڈھ نکالا؟‘‘
مجھے اس کی آواز شکستہ مچھلی کے کھلے ہوے منھ سے آتی معلوم ہوئی۔ وہ پھر اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔
’’ابھی کتنی دیر ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وقت تو ہو چکا،‘‘ اس نے بتایا، ’’کام تھوڑا باقی ہے، زیادہ دیر نہیں ہے۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ نیچے اترا۔ اس کے ہاتھ میں چھوٹے اوزار تھے جنھیں اس نے قریب ہی بنے ہوے ایک عارضی حوض میں دھویا، سر پر لپٹا ہوا کپڑا کھول کر اس سے اوزاروں کو پونچھا اور میری طرف دیکھ کر تھکے ہوے انداز میں مسکرایا۔ میں نے اوزار اس سے لے کر تھیلے میں رکھ دیے اور ہم دونوں ساتھ ساتھ کٹہرے دار پھاٹک کی طرف چلے۔ آدھا راستہ طے کر کے وہ رک گیا۔ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے گردن موڑ کر اس نے اپنے دن بھر کے کام کو دیکھا، پھر پھاٹک کی طرف بڑھ گیا۔
چوتھے یا پانچویں دن میں نے اسے تھیلا لے کر گھر سے باہر نکلتے دیکھا تو پوچھا:
’’آج کہاں کام لگایا ہے؟‘‘
’’وہیں،‘‘ اس نے کہا، پھر بولا، ’’آج بھی دیر میں لوٹنا ہو گا۔‘‘
لیکن اس دن دوپہر سے زرا پہلے کچھ طالب علموں کے جھگڑے میں محراب سے لگی ہوئی بلّیاں اس طرح ہلیں کہ میرے باپ کا توازن بگڑ گیا اور وہ مچھلیوں کی اونچائی سے درس گاہ کے سنگی فرش پر آ گرا۔
اس وقت میں گھر ہی پر تھا اور استاد سے کسی فضول بات پر بحث کر رہا تھا۔ دو تین مزدور اسے سہارا دے کر لائے۔ انھوں نے اپنی دہقانی بولی میں حادثے کی مبہم سی تفصیل بتائی اور کام پر واپس چلے گئے۔ اس کے بدن پر کوئی زخم نہیں تھا لیکن اس کی آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کرب میں ہے۔ میں نے اور استاد نے اسے بستر پر لٹا دیا۔
کئی دن تک میرا باپ چپ چاپ بستر پر پڑا رہا اور میرا استاد چپ چاپ اس کے سرھانے بیٹھا رہا۔ پڑوس کی خستہ حال بڑھیاں ان دونوں کی خبرگیری کرتی رہیں۔ میں اس عرصے میں کئی بار گھر سے باہر نکلا لیکن تھوڑی ہی دور جا کر واپس آ گیا۔
ایک دن واپس آتے ہوے مجھے اس محراب اور اس کی پیشانی کی شکستہ مچھلیوں کا خیال آیا اور میں درس گاہ کی طرف لوٹ گیا۔ وہ بھی چھٹی کا دن تھا۔ میں محراب کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ ایک مچھلی درست ہو چکی تھی۔ اس کی پشت پر سفنوں کا جال اس طرح تراشا گیا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ایک ایک سفنے کو الگ الگ ڈھال کر مچھلی کے بدن میں بٹھایا گیا ہے۔ ہر سفنا بیچ میں ہلکا سا ابھرا ہوا، کناروں پر دھنسا ہوا اور دوسرے سفنوں میں پھنسا ہوا نظر آتا تھا۔ مچھلی کی آنکھ کی جگہ ایک گول سوراخ تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مچھلی منھ کھولے ہوے مجھے گھور رہی ہے۔ میں نے اس پر سے نظر ہٹا لی۔
دوسری مچھلی کا سارا اوپری مسالا توڑ دیا گیا تھا اور اب اس کے نیچے کی پتلی پتلی اینٹیں نیم دائرے کی شکل میں ابھری رہ گئی تھیں، لیکن ان ابھری ہوئی اینٹوں سے بھی ایک مچھلی کا خاکہ بنتا تھا۔ داہنی طرف والی مکمل مچھلی کے مقابل اس خاکے کی وجہ سے محراب کی پیشانی کچھ ٹیڑھی اور کچھ شکن آلود معلوم ہونے لگی تھی۔ بلّیاں اسی طرح لگی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک بلّی کو پکڑ کر آہستہ سے ہلایا۔ اس کی اوپری سرے پر آڑی بندھی ہوئی بلّی ہلکی آواز کے ساتھ محراب سے ٹکرائی۔ یہ آواز بھی مجھے مچھلی کے کھلے ہوے منھ سے آتی محسوس ہوئی۔ پھر یہ آواز ایک انسانی آواز میں بدل گئی جو دہقانی بولی میں میرے باپ کی خیریت دریافت کر رہی تھی۔ اسی وقت میری نظر محراب کے نیچے کھڑے ہوے ایک شخص پر پڑی۔ یہ انھیں مزدوروں میں سے ایک تھا جو میرے باپ کو گھر لائے تھے۔ میں نے اس کے سوال کا مختصر جواب دیا اور وہ دیر تک میرے باپ کی کاریگری کی تعریفیں کرتا رہا۔ اس میں اس نے معماری کی کئی ایسی اصطلاحیں استعمال کیں جن کے مفہوم سے میں واقف نہیں تھا۔ پھر اس نے شہر کی بعض مشہور تاریخی عمارتوں کے نام لیے جن کی مرمت اور درستی میں وہ میرے باپ کے ماتحت کام کر چکا تھا۔ اس نے اپنا نام بھی بتایا اور تاکید کی کہ میں اپنے باپ کو بتا دوں کہ اس نام کا مزدور اسے پوچھ رہا تھا۔ پھر مجھے ٹھہرے رہنے کا اشارہ کر کے وہ پاس کی ایک کوٹھڑی میں داخل ہوا اور میرے باپ کا تھیلا لیے ہوے باہر آیا۔ تھیلا میرے ہاتھ میں دیتے ہوے اس نے لمبی سانس کھینچی۔ وہ میرے باپ سے بہت زیادہ عمر کا معلوم ہوتا تھا۔ ایک اور لمبی سانس کھینچنے کے بعد وہ کچھ کہنے ہی کو تھا کہ درس گاہ کے اندرونی حصوں سے کسی نے اس کو آواز دی۔ میں نے اسے محراب میں داخل ہوتے اور بائیں طرف مڑتے دیکھا۔ تھیلے کے اوزاروں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور اگرچہ میری نظریں زمین پر تھیں لیکن مجھے پھر محسوس ہوا کہ داہنی طرف والی مچھلی منھ کھولے ہوے اپنی آنکھ کے سوراخ سے میری طرف دیکھ رہی ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر اوزاروں کو تھیلے میں ٹھیک سے رکھا اور درس گاہ کے کٹہرے دار پھاٹک سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ گھر پہنچ کر تھیلا میں نے استاد والے کمرے میں کتابوں کے ایک ڈھیر پر رکھ دیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
دوہرے دالان میں بستر پر میرا باپ اسی طرح چپ چاپ لیٹا ہوا اور استاد اسی طرح چپ چاپ اس کے سرھانے بیٹھا ہوا تھا۔
3
درس گاہ میں گرنے کے بعد میرا باپ پھر کام پر نہیں جا سکا بلکہ بستر سے اٹھ بھی نہ سکا۔ کچھ دن تک وہ اس طرح گم سم پڑا رہا کہ خیال ہوتا تھا اسے دماغی چوٹ آئی ہے اور وہ اپنے حواس کھو بیٹھا ہے، لیکن ایک بار جب میں نے چاہا کہ اس کا بستر کتابوں والے کمرے میں کر دوں تو اس کی آنکھوں سے ظاہر ہونے لگا کہ وہ اس دوہرے دالان سے ہٹنا نہیں چاہتا جہاں ابھی تک اس نے ہر موسم گذارا تھا۔ آخر رفتہ رفتہ اس نے دھیمی آواز میں بولنا شروع کیا۔ ایک دن اس نے مجھ کو اشارے سے اپنے قریب بلایا اور استاد جو اس کے سرھانے بیٹھا ہوا تھا، اٹھ کر کتابوں والے کمرے میں چلا گیا۔
’’میرا کام ختم ہو گیا ہے،‘‘ وہ مجھے بستر پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوے بولا۔ مجھے اس کا گردن موڑ کر اپنے دن بھر کے کام کو دیکھنا یاد آیا اور میں نے اس کے سرھانے بیٹھ کر اس کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا۔
’’ایک مچھلی ابھی باقی ہے،‘‘ میں نے گردن جھکا کر اسے دیکھتے ہوے کہا۔
وہ کچھ بولے بغیر میری طرف دیکھتا رہا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں اپنے چہرے کے ساتھ چھت کی کڑیوں سے جھولتی ہوئی سجاوٹ نظر آئی، یا شاید یہ میرا صرف وہم تھا۔ اسی وقت اس نے اپنی گردن موڑ لی اور بولا:
’’مجھے بٹھا دو۔‘‘
کئی تکیوں کے سہارے بیٹھنے کے بعد وہ کسی خیال میں ڈوب گیا۔ اس سے پہلے وہ مجھے سوچنے والا آدمی نہیں معلوم ہوتا تھا، لیکن اس وقت کئی تکیوں سے ٹیک لگائے، قاعدے کا صاف ستھرا لباس پہنے وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ اور اس وقت پہلی بار مجھے خفیف سا شبہ ہوا کہ وہ میرا حقیقی باپ ہے۔
’’جب صرف یہ مکان اور تم باقی رہ گئے،‘‘ اس نے چھت کی طرف دیکھتے ہوے کہا، ’’تو میں نے سوچا اب مجھے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔‘‘
مجھے یقین تھا کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی سنانے والا ہے، لیکن وہ خاموشی کے ساتھ چھت کو گھورتا اور کچھ سوچتا رہا۔ پھر دوسری طرف گردن موڑ کر بولا:
’’جاؤ، کہیں گھوم آؤ۔‘‘
’’جی نہیں چاہتا،‘‘ میں نے کہا۔
اس نے میرا شانہ پکڑ کر آہستہ سے اپنی طرف کھینچا۔ اس کی گرفت کم زور اور ہاتھ میں لرزش تھی۔
’’سامان کم رہ گیا تھا،‘‘ اس نے تقریباً سرگوشی میں کہا، ’’میں نے اسے اور کم نہیں ہونے دیا۔ تمھیں وہ بہت معلوم ہو گا۔‘‘
مجھے زنگ آلود قفلوں والے بند دروازے یاد آئے۔ میں نے کہا:
’’سامان مجھ کو نہیں چاہیے۔‘‘
’’میں نے اس میں کچھ بڑھایا بھی ہے۔‘‘
’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
’’اسی میں کہیں وہ بھی ہے،‘‘ اس نے کہا، ’’میں نے اسے تلاش نہیں کیا۔ تم ڈھونڈھ لینا،‘‘ پھر کچھ رک کر بولا، ’’وہ کتابوں میں بھی ہو گا،‘‘ یہ کہتے کہتے اس کی حالت کچھ بگڑ گئی۔ میں دوڑتا ہوا استاد کے کمرے میں گیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور میں اسے ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا باپ کے بستر تک لایا۔ اس نے گردن گھما کر استاد کو دیکھا، پھر مجھے۔ میری طرف دیکھتے دیکھتے اس نے اپنی ناہموار سانسوں پر قابو پایا اور بولا:
’’اُسے الگ مت کرنا، وہ ہمارا نشان ہے۔‘‘
میں نے استاد کی طرف دیکھ کر اشارے سے پوچھا کہ میرا باپ کس چیز کا ذکر کر رہا ہے، لیکن استاد اس طرح گم سم بیٹھا تھا جیسے نہ کچھ سن رہا ہو، نہ دیکھ رہا ہو۔ البتہ میرے باپ کی آنکھیں، جن کی چمک ماند پڑ گئی تھی، کچھ دیکھتی معلوم ہو رہی تھیں۔
’’وہ کیا چیز ہے؟‘‘ میں نے اس پر جھک کر پوچھا۔
’’اس کی خاطر خاندان میں خون بہا ہے،‘‘ وہ دھیمی آواز میں بولا اور اس کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔ اس کی سانس جو ہموار ہو چلی تھی، پھر ناہموار ہو گئی۔
استاد اسی طرح گم سم بیٹھا تھا اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس موقعے پر مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں نے باپ کے دونوں کندھے پکڑ لیے۔ اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں اس کا حقیقی بیٹا ہوں، اور میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا کہہ کے پکاروں، اس لیے میں اس کے کندھے پکڑے خاموشی کے ساتھ اس کے چہرے کے بدلتے ہوے رنگوں کو دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد اس کی حالت اپنے آپ سنبھل گئی اور وہ بالکل ٹھیک معلوم ہونے لگا۔ اس نے بہت صاف اور معتدل آواز میں کہا:
’’جاؤ، گھوم آؤ۔‘‘
اس بار میں انکار نہیں کر سکا اور اس کے کندھے چھوڑ کر مکان سے باہر نکل آیا۔
میرا باپ بہت دن زندہ نہیں رہا۔ آخری دنوں میں وہ زیادہ تر خاموش پڑا رہتا تھا، صرف کبھی کبھی آہستہ آہستہ کراہنے لگتا لیکن پوچھنے پر بتاتا نہیں تھا کہ اسے کیا تکلیف ہے۔ ایک بار جب میں نے بہت اصرار سے پوچھا اور اس کے خاموش رہنے پر خود کو غصے میں ظاہر کیا تو اس نے صرف اتنا بتایا:
’’کچھ نہیں۔‘‘
اس کے دوسرے یا تیسرے دن دو پہر کے وقت میں سو رہا تھا کہ استاد نے مجھے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ آنکھ کھلتے ہی میں نے سمجھ لیا کہ میرا باپ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن جب میں دوڑتا ہوا اس کے بستر کے پاس پہنچا تو وہ مجھے زندہ ملا۔ مجھ کو دیکھتے ہی اس نے ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور میرا شانہ پکڑ کر جلدی جلدی کچھ کہنے لگا۔ اس کی آواز بہت دھیمی تھی۔ میں ٹھیک سے سننے کے لیے اس پر جھک گیا، پھر بھی میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ بہت جھک کر سننے پر صرف اتنا سمجھ میں آیا کہ وہ تتلا کر بول رہا ہے۔ اسی وقت وہ بےہوش ہو گیا، اور اسی بےہوشی میں کسی وقت اس کا دم نکل گیا۔
باپ کے مرنے کے بعد دیر تک میں بالکل پرسکون رہا۔ میں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس کے آخری انتظامات کے سلسلے میں استاد سے صلاح مشورہ کیا اور ہر بات کا خود فیصلہ کیا۔ لیکن جب وہ انتظام شروع ہو گئے تو میرے سر کے اندر کوئی چیز ہلی اور مجھ پر ایک جوش طاری ہو گیا۔ میں نے اسی جوش میں فیصلہ کر لیا کہ موت میرے باپ کی نہیں، میری ہوئی ہے؛ پھر یہ فیصلہ کیا کہ باپ بھی میں خود ہی ہوں۔ پھر مجھ کو یہ دونوں فیصلے ایک معلوم ہونے لگے اور میں نے عجب واہیات حرکتیں کیں؛ صحن سے اینٹوں کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر دوہرے دالان میں پھینکے اور خود کو مخاطب کر کے تتلانا شروع کر دیا، میرے باپ کا مردہ نہلانے کے لیے جو پانی بھرا گیا تھا اس میں سے کچھ اپنے اوپر انڈیل لیا اور باقی میں کوڑاکرکٹ ملا دیا؛ اس کے بدن پر لپیٹنے کے لیے جو سفید کپڑا منگایا گیا تھا اسے کھول کر خود کو اس میں لپیٹ لیا؛ اور جب اسے لے کر جانے لگے تو اس میں بھی ایسی ایسی رکاوٹیں ڈالیں کہ کئی بار اس کی میت زمین پر گرتے گرتے بچی۔ میں نے اتنا ہنگامہ کیا کہ لوگ اس کے مرنے پر افسوس ظاہر کرنا بھول گئے۔ آخر مجھے زبردستی پکڑ کر واپس لایا گیا اور گھر میں بند کر دیا گیا جہاں سوتی ہوئی خستہ حال بڑھیوں کی تسلی آمیز باتیں سن کر مجھے اتنا غصہ آیا کہ کچھ دیر کے لیے میں اپنے باپ کی موت کو بھول گیا۔ لیکن میں نے ان بڑھیوں پر اپنا غصہ ظاہر نہیں ہونے دیا اور توقع کے بالکل خلاف مجھے نیند آ گئی۔
میں دوسرے دن تک سوتا رہا۔ میں نے کئی خواب بھی دیکھے لیکن ان کا میرے باپ یا اس کی موت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
تین دن تک میں کھویا کھویا سا رہا۔ استاد دن میں کئی بار آتا اور کچھ دیر تک مجھے خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہنے کے بعد واپس چلا جاتا تھا۔ چوتھے دن مجھے یاد آیا کہ میرے باپ نے مجھ سے کچھ ڈھونڈھنے کو کہا تھا، اور میں نے بےسمجھے بوجھے گھربھر میں اسے تلاش کرنا شروع کر دیا۔ اسی تلاش میں پھرتا ہوا میں مچھلیوں والے دروازے میں داخل ہوا اور مچانوں پر سجی ہوئی کتابیں کھینچ کھینچ کر زمین پر گرائے اور پڑھے بغیر ان کے ورق پلٹنے لگا۔ فرش پر غبار پھیل گیا اور کاغذخور روپہلی مچھلیاں کتابوں کے اندر سے نکل نکل کر زمین پر اِدھر اُدھر بھاگنے لگیں۔ اسی میں میری نظر چٹائی کے قریب کتابوں کے ڈھیر پر رکھے ہوے اوزاروں کے تھیلے پر پڑی۔ میں اس کے قریب بیٹھ گیا، دیر تک بیٹھا رہا اور رات ہوئی تو وہیں سو گیا۔
اس رات میں نے خواب میں اپنے باپ کو دیکھا کہ درس گاہ کی محراب کے آگے کھڑا ہوا ہے اور گردن موڑ کر اپنی درست کی ہوئی مچھلی کو دیکھ رہا ہے اور مچھلی کی آنکھ چمک رہی ہے اور وہ بھی میرے باپ کو دیکھ رہی ہے۔
دوسرے دن میں نے اوزاروں کا تھیلا اٹھایا، گھر سے نکلا اور بازار میں اپنے باپ کی جگہ پر جا کھڑا ہوا۔ دیر ہو گئی تھی اور سب لوگ وہاں سے جا چکے تھے، پھر بھی میں بہت دیر تک اسی جگہ کھڑا رہا اور کسی نے میری طرف توجہ نہیں کی، یہاں تک کہ میرا استاد مجھے ڈھونڈھتا ہوا وہاں آ پہنچا اور میرا ہاتھ پکڑ کر گھر واپس لے آیا۔ راستے میں جب اس نے مجھ کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی تو میں نے اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔
کئی روز تک اسی طرح استاد سے میرا جھگڑا چلتا رہا، آخر اس نے میرے یہاں آنا چھوڑ دیا، لیکن میرا کھانا وہ دونوں وقت پابندی سے بھجواتا رہا۔ میلی کچیلی آوارہ گرد چھوکریاں اور ہلتی ہوئی گردنوں والی بوڑھی عورتیں مکان کا صدر دروازہ کھٹکھٹاتیں اور کھانے کی پوٹلی میرے ہاتھ میں تھما کر چپ چاپ لوٹ جاتیں۔ مگر ایک دن میں نے دیکھا کہ کھانا لانے والی ایک چھوکری کے پیچھے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے میرا استاد کھڑا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ آگے بڑھ آیا، کچھ دیر تک خاموشی کے ساتھ میری طرف دیکھتا رہا، پھر اپنے سینے کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے بولا:
’’اب میں ختم ہو رہا ہوں!‘‘
اس دن میں نے روشنی میں پہلی بار اسے غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر جھریوں کا جال تھا اور وہ ہمیشہ سے زیادہ فقیر معلوم ہو رہا تھا۔ دیر تک ہم دونوں بغیر کچھ بولے آمنے سامنے کھڑے رہے اور اس کے ساتھ کی چھوکری دونوں ہاتھوں سے اپنا سر کھجاتی رہی۔ الجھے ہوے بالوں میں اس کے بڑھے ہوے ناخنوں کی رگڑ سے کھرکھراہٹ کی ایسی آواز پیدا ہو رہی تھی جسے سن کر مجھے بہت سی انگوٹھیوں والا وہ شخص یاد آ گیا جو میرے باپ کو بازار سے اپنے ساتھ لے گیا تھا، پھر مجھے باپ کے اوزار لے کر اپنا بازار جانا اور استاد کا مجھ کو واپس لانا یاد آیا۔
’’میں نے تمھارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا،‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
اس نے میری بات یا تو سنی نہیں، یا سن کر اَن سنی کر دی اور میری طرف اس طرح دیکھتا رہا جیسے مجھ سے کسی بات کی توقع کر رہا ہو۔ اس طرح وہ میری طرف پہلے بھی کبھی کبھی دیکھنے لگتا تھا جس پر مجھے خواہ مخواہ غصہ آ جاتا تھا۔ اس وقت بھی مجھے الجھن سی محسوس ہوئی اور میں نے اس کے چہرے پر سے نظریں ہٹا لیں۔ میں اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے ہی اس نے مڑ کر چھوکری کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’اب طاہرہ بی بی،‘‘ اس نے چھوکری کو بتایا اور اس کے پیچھے دھیرے دھیرے چلتا ہوا واپس ہو گیا۔
جب وہ دونوں میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے تو مجھے خیال آیا کہ میں نے استاد سے گھر کے اندر چلنے کو نہیں کہا۔
مجھے اس کا گھر نہیں معلوم تھا۔ پڑوس کی بڑھیوں نے محض اندازے سے اس کے الگ الگ پتے بتائے، لیکن جب میں ان پتوں پر پہنچا تو وہاں کوئی استاد کا جاننے والا نہ نکلا۔ میں نے اس تلاش میں کئی دن ضائع کیے، البتہ اس طرح ایک بار پھر میں نے قریب قریب پورے شہر کا چکر لگا لیا۔ اس گردش میں اپنے شہر کی تاریخی عمارتوں کو میں نے خاص طور پر دیکھا۔ میں نے ان عمارتوں کے مرمت شدہ حصوں کا غور سے جائزہ لیا اور ان میں کئی جگہ مجھے اپنے باپ کا ہاتھ نظر آیا۔ ان عمارتوں کے کسی نہ کسی دروازے یا داخلے کے پھاٹک پر مجھے مچھلیاں ضرور بنی ہوئی نظر آئیں۔ شہر کے پرانے گرتے ہوے مکانوں کے دروازے بھی مچھلیوں سے خالی نہیں تھے اور ہر مچھلی مجھے اپنے باپ کی بنائی ہوئی معلوم ہوتی تھی اور ہر شکستہ مچھلی کو دیکھ کر مجھے اپنی درس گاہ کی محراب پر بنی ہوئی مکمل مچھلی یاد آتی تھی۔
انھیں سیروں میں مجھے یقین ہوا کہ مچھلی میرے شہر کا نشان ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے مبہم سے معمے کا حل دریافت کر لیا ہے، لیکن اس کے ساتھ مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ حل اصل معمے سے بھی زیادہ مبہم ہے۔ اپنے باپ کا خیال مجھ کو باربار آنے لگا، یہاں تک کہ ایک گم نام تاریخی عمارت کے کھنڈر کی طرف بڑھتے بڑھتے میں پلٹ پڑا۔ گھر پہنچ کر میں نے استاد کے کمرے والی چٹائی اٹھائی اور دوہرے دالان میں اپنے باپ کے آخری بستر کی جگہ بچھا دی۔ چٹائی کے عین اوپر چھت کی کڑیوں میں سرخ سبز کاغذ کی سجاوٹ جھول رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس دالان کی بھی مرمت ہوئی ہے اور چھت میں جگہ جگہ نیا مسالا بھرا گیا ہے۔ لیکن چھت کا وہ حصہ جہاں پر یہ سجاوٹ تھی، بےمرمت رہ گیا تھا اور اس کے پرانے پھو لے ہوے مسالے کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ یہ بہت جلد گرنے والا ہے۔ میں نے خواہش کی کہ یہ ابھی گر جائے، اور چٹائی پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ اسی وقت مکان کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔
آخری بار استاد کے ساتھ آنے والی چھوکری دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ ایک ہاتھ سے سر کھجائے جا رہی تھی، دوسرے ہاتھ میں ایک بڑا سا فصلی پھل تھا جس پر وہ اِدھر اُدھر دانت لگا رہی تھی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
وہ کچھ دیر تک پھل پر منھ مارنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کرتی رہی، پھر بولی:
’’طاہرہ بی بی نے کہلایا ہے، آپ کے استاد نہیں رہے۔‘‘
ایک لمحے کے لیے مجھے وہم ہوا کہ استاد اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے۔ میں دیر تک چھوکری کی طرف دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ شرمانے لگی۔
’’کب؟‘‘ آخر میں نے پوچھا۔
’’کئی دن ہو گئے۔ ہم تین بار آئے، آپ ملے نہیں۔‘‘
’’ان کے گھر میں کون کون ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’استاد کے گھر میں؟ کوئی بھی نہیں۔‘‘
’’ان کی دیکھ بھال کون کرتا تھا؟‘‘
’’طاہرہ بی بی آ جاتی تھیں۔‘‘
’’طاہرہ بی بی ان کی کون ہیں؟‘‘
’’پتا نہںر۔‘‘
’’وہ رہتی کہاں ہیں؟‘‘
’’طاہرہ بی بی؟ پتا نہیں۔‘‘
اس کے بعد وہ واپس جانے کے لیے مڑ گئی۔ کچھ دیر بعد میں نے صدر دروازہ بند کر لیا اور مڑ رہا تھا کہ پھر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھول دیا۔ چھوکری سامنے کھڑی تھی۔ اب اس کے ہاتھ میں پھل کی جگہ سرخ کپڑے کا گولا سا تھا۔
’’ہم بھول گئے تھے،‘‘ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا اور گولا میری طرف بڑھا دیا، ’’یہ رکھ لیجیے، کنجیاں ہیں۔‘‘
’’کیسی کنجیاں؟‘‘
’’پتا نہیں، طاہرہ بی بی نے دی ہیں۔‘‘
میں نے صدر دروازہ بند کر لیا۔
چٹائی پر کھڑے ہو کر میں نے گولے کو کھولا۔ یہ کسی دبیز مگر بہت نرم کپڑے کا پارچہ تھا جس کے ایک کونے میں پرانی وضعوں کی کنجیاں بندھی ہوئی تھیں۔ پارچے میں سے فصلی پھل کی خوشبو آ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے کنجیاں کھول کر اسے چٹائی کے پائینتی زمین پر ڈال دیا اور کنجیوں کو گننے لگا۔ ان میں سے کچھ کا رنگ حال ہی میں صاف کیا گیا تھا۔ سب سے بڑی کنجی، جس کے پورے حلقے پر باریک باریک ہندسے کھدے ہوے تھے، مجھے استاد کے چہرے سے مشابہ نظر آئی لیکن مشابہت کا سبب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کنجیاں چٹائی کے نیچے رکھ دیں اور ایک بار پھر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے اسی جگہ پر اپنے باپ کا مرنا یاد آیا اور میں نے اپنا بدن اکڑا کر پیر پھیلا دیے۔ میری ایڑی کو نرم کپڑے کا لمس محسوس ہوا۔ میں نے آنکھیں بند کیے کیے خم ہو کر سرخ پارچے کو اٹھا لیا اور اس کا گولا بنا کر پھینکنے کو تھا کہ مجھے احساس ہوا اس میں سے پھل کی خوشبو غائب ہو گئی ہے۔ میں اسے اپنے نتھنوں کے قریب لایا اور مجھے شبہ ہوا کہ اس میں کوئی اور خوشبو موجود ہے۔ میری آنکھیں میری خواہش کے بغیر کھل گئیں۔ میں نے پارچے کو پورا کھول کر دونوں ہتھیلیوں پر پھیلا لیا۔ یہ ایک بڑا رومال تھا جس کے بیچ میں بہت ہلکے سبز رنگ کے ریشمی دھاگے سے ایک مچھلی کڑھی ہوئی تھی۔ اس کے سفنوں کا جال چھوٹے چھوٹے پھندوں سے بنایا گیا تھا اور جگہ جگہ سے ادھڑا ہوا تھا۔ لیکن اس وقت میری توجہ مچھلی سے زیادہ اس مدھم خوشبو کی طرف تھی جو پورے رومال میں گشت کرتی معلوم ہو رہی تھی۔ میں نے رومال کا پھر سے گولا بنالیا اور پوری سانس کھینچ کر اسے سونگھا۔ خوشبو بہت آہستہ آہستہ ابھرتی اور پھر ڈوب جاتی، جیسے کوئی سوتے میں سانس لیتا ہو۔ مجھے خوشبوؤں سے دلچسپی اور عطریات کی اچھی پہچان تھی مگر اس مرکب خوشبو کا کوئی بھی جز میری شناخت میں نہ آ سکا۔ میں نے اسے دیر تک اور بڑے دھیان سے سونگھا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ بڑی آہستگی کے ساتھ رومال سے نکل کر میرے سینے میں اتر گئی ہے۔ میں اسے پہچان تو نہ سکا لیکن مجھے یقین ہو گیا کہ اگر یہ زرا بھی تیز ہوتی تو اسی وقت میرا دم گھٹ جاتا۔
جب نیند سے میری آنکھیں بند ہونے لگیں تو مجھے دھندھلا سا خیال آیا کہ میں اپنے باپ کے مرنے کی جگہ پر لیٹا ہوا ہوں اور ابھی ابھی میں نے اپنے استاد کے مرنے کی خبر سنی ہے۔ لیکن اس خیال کا کوئی اثر ظاہر ہونے سے پہلے ہی میں سو گیا۔
میں نے اپنے استاد کو دیکھا، لیکن خواب میں وہ مجھے ایک نوجوان لڑکی نظر آیا اور اس پر، جیسا کہ خوابوں میں اکثر ہوتا ہے، مجھ کو زرا بھی تعجب نہیں ہوا۔
نیر مسعود
مراسلہ
آنہا کہ کہن شدند و اینہا کہ نوند
(عمر خیام)
مکرمی! آپ کے موقر اخبار کے ذریعے میں متعلقہ حکام کو شہر کے مغربی علاقے کی طرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج جب بڑے پیمانے پر شہر کی توسیع ہو رہی ہے اور ہر علاقے کے شہریوں کو جدیدترین سہولتیں بہم پہنچائی جا رہی ہیں، یہ مغربی علاقہ بجلی اور پانی کی لائنوں تک سے محروم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کی تین ہی سمتیں ہیں۔ حال ہی میں جب ایک مدت کے بعد میرا اس طرف ایک ضرورت سے جانا ہوا تو مجھ کو شہر کا یہ علاقہ بالکل ویسا ہی نظر آیا جیسا میرے بچپن میں تھا۔
1
مجھے اس طرف جانے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اپنی والدہ کی وجہ سے مجبور ہو گیا۔ برسوں پہلے وہ بڑھاپے کے سبب چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی تھیں، پھر ان کی آنکھوں کی روشنی بھی قریب قریب جاتی رہی اور ذہن بھی ماؤف سا ہو گیا۔ معذوری کا زمانہ شروع ہونے کے بعد بھی ایک عرصے تک وہ مجھ کو دن رات میں تین چار مرتبہ اپنے پاس بلا کر کپکپاتے ہاتھوں سے سر سے پیر تک ٹٹولتی تھیں۔ دراصل میرے پیدا ہونے کے بعد ہی سے ان کو میری صحت خراب معلوم ہونے لگی تھی۔ کبھی انھیں میرا بدن بہت ٹھنڈا محسوس ہوتا، کبھی بہت گرم، کبھی میری آواز بدلی ہوئی معلوم ہوتی اور کبھی میری آنکھوں کی رنگت میں تغیر نظر آتا۔ حکیموں کے ایک پرانے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کو بہت سی بیماریوں کے نام اور علاج زبانی یاد تھے اور کچھ کچھ دن بعد وہ مجھے کسی نئے مرض میں مبتلا قرار دے کر اس کے علاج پر اصرار کرتی تھیں۔ ان کی معذوری کے ابتدائی زمانے میں دو تین بار ایسا اتفاق ہوا کہ میں کسی کام میں پڑ کر ان کے کمرے میں جانا بھول گیا، تو وہ معلوم نںیا کس طرح خود کو کھینچتی ہوئی کمرے کے دروازے تک لے آئیں۔ کچھ اور زمانہ گذرنے کے بعد جب ان کی رہی سہی طاقت بھی جواب دے گئی تو ایک دن ان کے معالج نے محض یہ آزمانے کی خاطر کہ آیا ان کے ہاتھ پیروں میں اب بھی کچھ سکت باقی ہے، مجھے دن بھر ان کے پاس نہیں جانے دیا اور وہ بہ ظاہر مجھ سے بےخبر رہیں، لیکن رات گئے ان کے آہستہ آہستہ کراہنے کی آواز سن کر جب میں لپکتا ہوا ان کے کمرے میں پہنچا تو وہ دروازے تک کا آدھا راستہ طے کر چکی تھیں۔ ان کا بستر، جو انھوں نے میرے والد کے مرنے کے بعد سے زمین پر بچھانا شروع کر دیا تھا، ان کے ساتھ گھسٹتا ہوا چلا آیا تھا۔ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بستر ہی ان کو کھینچتا ہوا دروازے کی طرف لیے جا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر انھوں نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن تکان کے سبب بےہوش ہو گئیں اور کئی دن تک بےہوش رہیں۔ ان کے معالج نے باربار اپنی غلطی کا اعتراف اور اس آزمائش پر پچھتاوے کا اظہار کیا، اس لیے کہ اس کے بعد ہی سے میری والدہ کی بینائی اور ذہن نے جواب دینا شروع کیا، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ان کا وجود اور عدم برابر ہو گیا۔
ان کے معالج کو مرے ہوے بھی ایک عرصہ گذر گیا۔ لیکن حال ہی میں ایک رات میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پائینتی زمین پر بیٹھی ہوئی ہیں اور ایک ہاتھ سے میرے بستر کو ٹٹول رہی ہیں۔ میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’آپ۔۔۔؟‘‘ میں نے ان کے ہاتھ پر خشک رگوں کے جال کو دیکھتے ہوے پوچھا، ’’یہاں آ گئیں؟‘‘
’’تمھیں دیکھنے۔ کیسی طبیعت ہے؟‘‘ انھوں نے اٹک اٹک کر کہا، پھر ان پر غفلت طاری ہو گئی۔
میں بستر سے اتر کر زمین پر ان کے برابر بیٹھ گیا اور دیر تک ان کو دیکھتا رہا۔ میں نے ان کی اس صورت کا تصور کیا جو میری اولین یادوں میں محفوظ تھی اور چند لمحوں کے لیے ان کے بوڑھے چہرے کی جگہ انھیں یادوں والا چہرہ میرے سامنے آ گیا۔ اتنی دیر میں ان کی غفلت کچھ دور ہوئی۔ میں نے آہستگی سے انھیں اٹھانے کی کوشش کرتے ہوے کہا:
’’آئیے آپ کو آپ کے کمرے میں پہنچا دوں۔‘‘
’’نہیں!‘‘ انھوں نے بڑی مشکل سے کہا، ’’پہلے بتاؤ۔‘‘
’’کیا بتاؤں؟‘‘ میں نے تھکے ہوے لہجے میں پوچھا۔
’’طبیعت کیسی ہے؟‘‘
کچھ دن سے میری طبیعت واقعی خراب تھی، اس لیے میں نے کہا، ’’ٹھیک نہیں ہوں۔‘‘
میری توقع کے خلاف انھوں نے بیماری کی تفصیل دریافت کرنے کے بجاے صرف اتنا پوچھا:
’’کسی کو دکھایا؟‘‘
’’کس کو دکھاؤں؟‘‘
مجھے معلوم تھا وہ کیا جواب دیں گی۔ یہ جواب وہ فوراً اور ہمیشہ تیز لہجے میں دیتی تھیں، لیکن اس بار انھوں نے دیر تک چپ رہنے کے بعد بڑی افسردگی اور قدرے مایوسی کے ساتھ وہی بات کہی:
’’تم وہاں کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘
میں ان کے ساتھ بچپن میں وہاں جایا کرتا تھا۔ وہ پرانے حکیموں کا گھرانہ تھا۔ یہ لوگ میری والدہ کے قریبی عزیز تھے۔ ان کا مکان بہت بڑا تھا جس کے مختلف درجوں میں کئی خاندان رہتے تھے۔ ان سب خاندانوں کے سربراہ ایک حکیم صاحب تھے جنھیں شہر میں کوئی خاص شہرت حاصل نہیں تھی لیکن آس پاس کے دیہاتوں سے ان کے یہاں اتنے مریض آتے تھے جتنے شہر کے نامی ڈاکٹروں کے پاس بھی نہ آتے ہوں گے۔
اس مکان میں تقریبیں بہت ہوتی تھیں جن میں میری والدہ کو خاص طور پر بلایا جاتا تھا اور اکثر وہ مجھے بھی ساتھ لے جاتی تھیں۔ میں ان تقریبوں کی عجیب عجیب رسموں کو بڑی دل چسپی سے دیکھتا تھا۔ میں یہ بھی دیکھتا تھا کہ وہاں میری والدہ کی بڑی قدر ہوتی ہے اور ان کے پہنچتے ہی سارے مکان میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ وہ خود بھی وہاں کے کسی فرد کو فراموش نہ کرتیں، چھوٹوں اور برابر والوں کو اپنے پاس بلاتیں، بڑوں کے پاس آپ جاتیں اور وہاں کے خاندانی جھگڑوں میں، جو اکثر ہوا کرتے، ان کا فیصلہ سب کو منظور ہوتا تھا۔
وہاں اتنے بہت سے لوگ تھے، لیکن مجھ کو صرف حکیم صاحب کا چہرہ دھندھلا دھندھلا سا یاد تھا؛ وہ بھی شاید اس وجہ سے کہ ان میں اور میری والدہ میں ہلکی سی خاندانی مشابہت تھی۔ اتنا مجھے البتہ یاد ہے کہ وہاں ہر عمر کی عورتیں، مرد اور بچے موجود رہتے تھے اور ان کے ہجوم میں گھری ہوئی اپنی والدہ مجھے ایسی معلوم ہوتی تھیں جیسے بہت سی پتیوں کے بیچ میں ایک پھول کھلا ہوا ہو۔
لیکن اس وقت وہ اپنا مرجھایا ہوا چہرہ میری طرف گھمائے ہوے اپنی بجھی ہوئی آنکھوں سے میرا چہرہ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
’’تمھاری آواز بیٹھی ہوئی ہے،‘‘ انھوں نے کہا، ’’تم وہاں کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘
’’وہاں۔۔۔ اب میں وہاں کسی کو پہچان بھی نہ پاؤں گا۔‘‘
’’دیکھو گے تو پہچان لو گے۔ نہیں تو وہ لوگ خود بتائیں گے۔‘‘
’’اتنے دن ہو گئے،‘‘ میں نے کہا، ’’اب مجھے راستہ بھی یاد نہیں۔‘‘
’’باہر نکلو گے تو یاد آتا جائے گا۔‘‘
’’کس طرح؟‘‘ میں نے کہا، ’’سب کچھ تو بدل گیا ہو گا۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں،‘‘ انھوں نے کہا۔ پھر ان پر غفلت طاری ہونے لگی، لیکن ایک بار پھر انھوں نے کہا، ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ بالکل غافل ہو گئیں۔
میں دیر تک ان کو سہارا دیے بیٹھا رہا۔ میں نے اس مکان کا راستہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ان دنوں کا تصور کیا جب میں اپنی والدہ کے ساتھ وہاں جایا کرتا تھا۔ میں نے اس مکان کا نقشہ بھی یاد کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے اس کے سوا کچھ یاد نہ آیا کہ اس کے صدر دروازے کے سامنے ایک ٹیلہ تھا جو حکیموں کا چبوترا کہلاتا تھا۔ اتنا اور مجھے یاد تھا کہ حکیموں کا چبوترا شہر کے مغرب کی جانب تھا، اس پر چند کچی قبریں تھیں اور اس تک پہنچتے پہنچتے شہر کے آثار ختم ہو جاتے ہیں۔
میں نے اپنی والدہ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا۔ بالکل اسی طرح جیسے کبھی وہ مجھ کو اٹھایا کرتی تھیں، اور یہ سمجھا کہ میں نے ان کا کچھ قرض اتارا ہے، اور اگر چہ وہ بالکل غافل تھیں، لیکن میں نے ان سے کہا:
’’آئیے آپ کو آپ کے کمرے میں پہنچا دوں۔ کل سویرے میں وہاں ضرور جاؤں گا۔‘‘
دوسرے دن سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد میری آنکھ کھلی، اور آنکھ کھلنے کے کچھ دیر بعد میں گھر سے روانہ ہو گیا۔
2
خود اپنے محلے کے مغربی حصے کی طرف ایک مدت سے میرا گذر نہیں ہوا تھا۔ اب جو میں ادھر سے گذرا تو مجھے بڑی تبدیلیاں نظر آئیں۔ کچے مکان پکے ہو گئے تھے۔ خالی پڑے ہوے احاطے چھوٹے چھوٹے بازاروں میں بدل گئے تھے۔ ایک پرانے مقبرے کے کھنڈر کی جگہ عمارتی لکڑی کا گودام بن گیا تھا۔ جن چہروں سے میں بہت پہلے آشنا تھا ان میں سے کوئی نظر نہیں آیا، اگرچہ مجھ کو جاننے والے کئی لوگ ملے جن میں سے کئی کو میں بھی پہچانتا تھا، لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ میرے ہی ہم محلہ ہیں۔ میں نے ان سے رسمی باتیں بھی کیں لیکن کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔
کچھ دیر بعد میرا محلہ پیچھے رہ گیا۔ غلّے کی منڈی آئی اور نکل گئی۔ پھر دواؤں اور مسالوں کی منڈی آئی اور پیچھے رہ گئی۔ ان منڈیوں کے داہنے بائیں دور دور تک پختہ سڑکیں تھیں جن پر کھانے پینے کی عارضی دکانیں بھی لگی ہوئی تھیں، لیکن میں جس سڑک پر سیدھا آگے بڑھ رہا تھا اس پر اب جابجا گڈھے نظر آ رہے تھے۔ کچھ اور آگے بڑھ کر سڑک بالکل کچی ہو گئی۔ راستہ یاد نہ ہونے کے باوجود مجھے یقین تھا کہ میں صحیح سمت میں جا رہا ہوں، اس لیے مںی آگے بڑھتا گیا۔
دھوپ میں تیزی آ گئی تھی اور اب کچی سڑک کے آثار بھی ختم ہو گئے تھے، البتہ گردآلود پتیوں والے درختوں کی دورویہ مگر ٹیڑھی میڑھی قطاروں کے درمیان اس کا تصور کیا جا سکتا تھا، لیکن اچانک یہ قطاریں اس طرح منتشر ہوئیں کہ سڑک ہاتھ کے پھیلے ہوے پنجے کی طرح پانچ طرف اشارہ کر کے رہ گئی۔ یہاں پہنچ کر میں تذبذب میں پڑ گیا۔ مجھے گھر سے نکلے ہوے بہت دیر نہیں ہوئی تھی اور مجھے یقین تھا کہ میں اپنے محلے سے بہت دور نہیں ہوں۔ پھر بھی میں نے وہاں پر ٹھہر کر واپسی کا راستہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ گردآلود پتیوں والے درخت اونچی نیچی زمین پر ہر طرف تھے۔ میں نے ان کی قطاروں کے درمیان سڑک کا تصور کیا تھا لیکن وہ قطاریں بھی شاید میرے تصور کی پیداوار تھیں، اس لیے کہ اب ان کا کہیں پتا نہ تھا۔ اپنے حساب سے میں بالکل سیدھی سڑک پر چلا آ رہا تھا، لیکن مجھے بارہا اس کا تجربہ ہو چکا تھا کہ دیکھنے میں سیدھی معلوم ہونے والی سڑکیں اتنے غیرمحسوس طریقے پر اِدھر اُدھر گھوم جاتی ہیں کہ ان پر چلنے والے کو خبر بھی نہیں ہوتی اور اس کا رخ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے میں کئی مرتبہ اِدھر اُدھر گھوم چکا ہوں، اور اگر مجھ کو سڑک کا سراغ نہ مل سکا تو میں خود سے اپنے گھر تک نہیں پہنچ سکتا؛ لیکن اس وقت مجھ کو واپسی کے راستے سے زیادہ حکیموں کے چبوترے کی فکر تھی جو کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہر طرف پھیلے ہوے درخت اتنے چھدرے تھے کہ زمین کا کوئی بڑا حصہ میری نگاہوں سے اوجھل نہیں تھا، لیکن میرے بائیں ہاتھ زمین دور تک اونچی ہوتی گئی تھی اور اس پر جگہ جگہ گنجان جھاڑیاں آپس میں الجھی ہوئی تھیں۔ ان کی وجہ سے بلندی کے دوسری طرف والا نشیبی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔
اگر کچھ ہو گا تو ادھر ہی ہو گا، میں نے سوچا اور اس سمت چل پڑا۔ میرا خیال صحیح تھا۔ جھاڑیوں کے ایک بڑے جھنڈ میں سے نکلتے ہی مجھے سامنے کتھئی رنگ کی پتلی پتلی اینٹوں والا ایک مکان نظر آیا۔ یہ وہ مکان نہیں تھا جس کی مجھے تلاش تھی، تاہم میں سیدھا اس طرف بڑھتا گیا۔ اس کے دروازے پر کسی کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی جس کے قریب قریب سب حروف مٹ چکے تھے۔ مکان کے اندر خاموشی تھی لیکن ویسی نہیں جیسی ویران مکانوں سے باہر نکلتی محسوس ہوتی ہے، اس لیے میں نے دروازے پر تین بار دستک دی۔ کچھ دیر بعد دروازے کے دوسری طرف ہلکی سی آہٹ ہوئی اور کسی نے آہستہ سے پوچھا:
’’کون صاحب ہیں؟‘‘
بتانے سے کیا فائدہ؟ میں نے سوچا، اور کہا:
’’میں شاید راستہ بھول گیا ہوں، حکیموں کا چبوترا ادھر ہی کہیں ہے؟‘‘
’’حکیموں کا چبوترا؟ آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
یہ غیرمتعلق بات تھی۔ اپنے سوال کے جواب میں سوال سن کر مجھے ہلکی سی جھنجھلاہٹ محسوس ہوئی، لیکن دروازے کے دوسری طرف کوئی عورت تھی جس کی آواز نرم اور لہجہ بہت مہذب تھا۔ اس نے دروازے کے خفیف سے کھلے ہوے پٹ کو پکڑ رکھا تھا۔ اس کے ناخن نارنجی پالش سے رنگے ہوے تھے۔ مجھے وہم سا ہوا کہ دروازے کا پٹ تھوڑا اور کھلا اور ایک لمحے کے اندر مجھ کو دروازے کے پیچھے چھوٹی سی نیم تاریک ڈیوڑھی اور ڈیوڑھی کے پیچھے صحن کا ایک گوشہ اور اس میں لگے ہوے انار کے درخت کی کچھ شاخیں نظر آ گئیں جن پر دھوپ پڑ رہی تھی۔ اور دوسرے لمحے مجھے کچھ کچھ یاد آیا کہ میری والدہ کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے اس مکان میں بھی اترتی تھیں۔ لیکن اس مکان کے رہنے والے مجھے یاد نہ آ سکے۔
’’آپ کہیں باہر سے آئے ہیں؟‘‘ دروازے کے دوسری طرف سے پھر آواز آئی۔
’’جی نہیں !‘‘ میں نے کہا اور اپنا اتاپتا بتادیا۔ پھر کہا: ’’بہت دنوں کے بعد ادھر آیا ہوں۔‘‘
دیر کے بعد مجھے جواب ملا:
’’اس مکان کے پیچھے چلے جائیے۔ چبوترا سامنے ہی دکھائی دے گا۔‘‘
مکان کے اندرونی حصے سے کسی بوڑھی عورت کی بھاری آواز سنائی دی:
’’کون آیا ہے، مہر؟‘‘
میں رسمی شکریہ ادا کرکے مکان کی پشت پر آ گیا۔ سامنے دور تک چھوٹے بڑے کئی ٹیلے نظر آ رہے تھے اور ان کی بےترتیب قطاریں پھر ایک سڑک کا تصور پیدا کر رہی تھیں۔ یہ ٹیلے محض مٹی کے تودے تھے، لیکن ان سے زرا ہٹ کر ایک ٹیلے پر جھاڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ میں نے اس ٹیلے کو غور سے دیکھا۔ جھاڑیوں کے بیچ بیچ میں کچی قبروں کے نشان نمایاں تھے۔ بعض بعض قبروں پر چونے کی سفیدی دھوپ میں چمک رہی تھی۔
3
مکان چبوترے کی اوٹ میں تھا اور اس تک پہنچنے کے لیے مجھے چبوترے کا آدھا چکر کاٹنا پڑا۔ پرانی لکڑی کے بھاری صدر دروازے کے سامنے کھڑا دیر تک میں سوچتا رہا کہ اپنے آنے کی اطلاع کس طرح کراؤں۔ دروازے کی لکڑی بہت دبیز اور تھوڑی سیلی ہوئی تھی۔ اس پر دستک دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، پھر بھی میں نے تین بار اس پر ہاتھ مارا، لیکن اپنی دستک کی آواز خود مجھ کو ٹھیک سے سنائی نہیں دی۔ مجھے شبہ ہوا کہ مکان ویران ہے۔ میں نے دروازے کو آہستہ سے دھکا دیا تو اس کے دونوں پٹ بڑی سہولت کے ساتھ اپنی چولوں پر گھوم گئے اور مجھ کو اپنے سامنے ایک کشادہ ڈیوڑھی نظر آئی جس کے ایک سرے پر دوہرے ٹاٹ کا پردہ لٹک رہا تھا۔ میں دروازے کے قریب گیا اور اب مجھے مکان کے اندر لوگوں کے بولنے چالنے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے دستک دی اور اندر کسی نے کسی کو پکار کر کہا:
’’دیکھو کوئی آیا ہے۔‘‘
تب میرا دماغ سوالوں سے منتشر ہونا شروع ہوا۔ اس مکان میں کون کون ہے؛ میں کس سے کیا بات کروں گا؛ اپنے آنے کی غرض کیا بتاؤں گا؛ اپنے کو کس طرح پہچنواؤں گا۔ میرا جی چاہا کہ واپس لوٹ جاؤں، لیکن اسی وقت پردے کے پیچھے سے کسی عورت نے روکھے لہجے میں پوچھا:
’’کون ہے؟‘‘
میں نے اپنا پورا نام بتا دیا۔
’’کس سے ملنا ہے؟‘‘
اس کا میرے پاس ایک ہی جواب تھا۔
’’حکیم صاحب سے،‘‘ میں نے کہا۔
’’مطب دوسری طرف ہے۔ وہیں جائیے۔ وہ تیار ہو رہے ہیں۔‘‘
آخری لفظوں تک پہنچتے پہنچتے آواز دور ہونا شروع ہو گئی تھی، اس لیے میں نے اور زرا بلند آواز میں کہا:
’’اندر اطلاع کرا دیجیے۔‘‘
آواز پھر قریب آ گئی اور اب اس کے لہجے کا روکھاپن کچھ کم ہوا:
’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
میں نے یہاں بھی اپنا اتاپتا بتایا؛ کچھ توقف کیا، پھر اپنی والدہ کا نام لیا؛ پھر توقف کیا؛ پھر ان کا گھر کا نام بتایا؛ یہ بتایا کہ میں ان کا بیٹا ہوں؛ پھر جھجکتے جھجکتے اپنا وہ دُلار کا نام بھی بتا دیا جس سے میں بچپن میں چڑتا تھا۔ میں نے یہ سب کچھ بہت بےترتیب انداز میں بتایا، جسے پردے کے اُدھر والی عورت نے کسی کے پوچھنے پر قدرے مربوط کر کے دہرایا، اور مکان کے اندر عورتوں کے بولنے کی آوازیں تھوڑی دیر کے لیے تیز ہو گئیں۔ مجھے ان آوازوں میں اپنی والدہ کا گھر کا نام اور اپنا بچپن والا نام باربار سنائی دیا۔ یہ دونوں نام میں بہت دنوں کے بعد سن رہا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اگر یہ نام اسی طرح سنائی دیتے رہے تو مجھ کو اس مکان کا پورا نقشہ اور اس کے رہنے والے سب یاد آ جائیں گے؛ بلکہ میرے ذہن میں ایک کشادہ صحن کا نقش بننا شروع بھی ہو گیا تھا، لیکن عین اس وقت ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ ٹاٹ کا پردہ میری طرف بڑھا، اوپر اٹھا، اور اس کے نیچے سے ایک بائیسکل کا اگلا پہیا نمودار ہوا۔ میں ایک کنارے ہو گیا اور بائیسکل لیے ہوے ایک لڑکا اندر سے ڈیوڑھی میں آیا اور مجھے سلام کرتا ہوا صدر دروازے سے باہر نکل گیا۔ میں خاموش کھڑا انتظار کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد پردے کے پیچھے سے دبی دبی آوازیں آئیں اور چار پانچ بطخیں پردے کے نیچے سے نکل کر ڈیوڑھی میں آئںل۔ ان کی بےترتیب قطار دیکھ کر صاف معلوم ہوتا تھا کہ انھیں باہر کی طرف ہنکایا گیا ہے۔ بطخیں آپس میں چہ میگوئیاں سی کرتی اور ڈگمگاتی ہوئی صدر دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔ اس کے بعد مکان کے اندر سے دیر تک کوئی آواز نہیں آئی۔ میں ڈیوڑھی میں کھڑے کھڑے اکتا گیا۔ مجھے وہم ہونے لگا کہ پردے کے پیچھے سے ویران مکانوں والی خاموشی باہر نکل کر مجھ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ لیکن اسی وقت دوسری طرف سے کسی نے کہا:
’’آئیے، اندر چلے آئیے۔‘‘
دوہرے ٹاٹ کا پردہ ایک طرف کرکے میں اس مکان کے صحن میں اتر گیا۔
4
بڑے صحن، دوہرے تہرے دالانوں، شہ نشینوں، صحنچیوں اور لکڑی کی محرابوں والے مکان میں نے اپنے بچپن میں بہت دیکھے تھے۔ یہ مکان ان سے مختلف نہیں تھا، لیکن مجھے یاد نہ آ سکا کہ کبھی میں یہاں آیا کرتا تھا۔ کشادہ صحن کے بیچ میں کچھ لمحوں کے لیے رک کر میں نے دیکھا کہ مکان کا ہر درجہ آباد ہے۔ کئی صحنچیوں سے عورتیں گردن باہر نکالے متجسّس نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس گھر کی بیگم کو کس حصے میں ہونا چاہیے، اور سیدھا اس دالان کی طرف بڑھتا چلا گیا جس کی بلند محرابوں میں عنّابی رنگ کے بڑے قمقمے لٹک رہے تھے۔ دالان میں نیچے تختوں کا چوکا اور اس کے دونوں طرف بھاری مسہریاں تھیں۔ سب پر صاف دُھلی ہوئی چادریں بچھی تھیں جن میں سے بعض کا ابھی کلف بھی نہ ٹوٹا تھا۔ چوکے پر ایک معمر خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے انھیں پہچانے بغیر سلام کیا، انھوں نے آہستہ سے مسکرا کر بہت سی دعائیں دیں۔ پھر بولیں :
’’بیٹے! آج ادھر کہاں بھول پڑے؟‘‘
مجھے خیال ہوا یہ سوال اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ اس کا جواب دیا جائے، لہٰذا اپنے امکان بھر شائستگی کے ساتھ میں نے ان کی مزاج پرسی کی، اور وہ بولیں :
’’تمھیں تو اب کیا یاد ہو گا، چھٹ پنے میں تم یہاں آتے تھے تو جانے کا نام نہیں لیتے تھے۔‘‘
پھر انھوں نے ایسی کئی تقریبوں کا ذکر کیا جن کے بعد میری والدہ کو محض میری ضد کی وجہ سے کئی کئی دن رکنا پڑا تھا۔
’’تب بھی تم روتے ہوے جاتے تھے،‘‘انھوں نے کہا، اور دوپٹے کے پلّو سے آنکھیں پونچھیں۔
اس دوران مکان کے مختلف درجوں سے نکل نکل کر عورتیں اس بڑے دالان میں جمع ہوتی رہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے اپنا تعارف خود کرایا۔ پیچیدہ رشتے میری سمجھ میں نہ آتے تھے لیکن میں نے یہ ظاہر کیا کہ ہر تعارف کرانے والی کو میں پہچان گیا ہوں اور ہر رشتہ مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا۔ سب عورتوں نے بالوں میں بہت سا تیل لگا کر چپٹی کنگھی کر رکھی تھی۔ سب موٹے سوتی دوپٹے اوڑھے ہوے تھیں جن میں سے بعض بعض گھر کے رنگے ہوے معلوم ہوتے تھے۔ ہر ایک کے پاس میرے بچپن کے قصوں کا ذخیرہ تھا۔ مجھے صحن کے کنارے لگا ہوا امرود کا ایک درخت دکھایا گیا جس پر سے گر کر میں بےہوش ہو گیا تھا اور مجھے بےہوش دیکھ کر میری والدہ بھی بےہوش ہو گئی تھیں۔ میری شرارتوں کا ذکر چھڑا تو معلوم ہوا کہ میں نے وہاں پر موجود ہر عورت کو کسی نہ کسی شرارت کا نشانہ بنایا تھا۔
مجھے احساس ہوا کہ میں دیر سے ایک لفظ بھی نہیں بولا ہوں۔ سب لوگ شاید اب میرے بولنے کے منتظر تھے اور دالان میں کچھ خاموشی سی ہو گئی تھی۔ میں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو چوکے پر ایک طرف تین چار لڑکیاں بیٹھی دکھائی دیں۔ میں نے ان سے ان کی تعلیم اور دوسرے مشغلوں کے بارے میں دریافت کیا تو وہ شرما کر ایک دوسرے کے قریب گھسنے لگیں اور ان کی طرف سے دوسروں نے جواب دیے۔ ان سے کچھ فاصلے پر تین لڑکے کسی وقت آ کر بیٹھ گئے تھے۔ میں نے ان سے اپنے خیال میں ان کی دل چسپی کی دو چار باتیں کیں، لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ انھیں کن باتوں میں دل چسپی ہے۔ لڑکے مجھے بےوقوف اور لڑکیاں بےصورت معلوم ہوئیں، لیکن لڑکیوں کا شرمانا اچھا لگا۔ میں ان سے کچھ اور باتیں کرنے کے لیے ان کی دل چسپی کا کوئی موضوع سوچ رہا تھا کہ ڈیوڑھی کے دروازے پر کھڑکھڑاہٹ ہوئی۔ سائیکل والا لڑکا واپس آ گیا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں اخباری کاغذ کی کئی پڑیاں تھیں جن میں بعض پر چکنائی پھوٹ آئی تھی۔ اس نے دالان کی طرف دیکھ کر کچھ اشارہ کیا اور لڑکیاں اٹھ کر چلی گئیں۔ کچھ دیر بعد قریب کے کسی درجے سے ان کے ہنسنے اور چینی کے برتن بجنے کی آوازیں آئیں۔ مجھے دونوں آوازوں میں مبہم سی مشابہت محسوس ہوئی، اور یہ بھی شبہ ہوا کہ لڑکیاں میرے بولنے کی نقل اتار رہی ہیں۔
میں نے اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ مجھے اس دالان میں بیٹھے ہوے کتنی دیر ہوئی ہو گی، لیکن اسی وقت میرے بائیں ہاتھ پر ایک دروازہ کھلا اور اس کی چلمن کے پیچھے حکیم صاحب کھڑے نظر آئے۔ میں نے انھیں فوراً پہچان لیا۔ وہ سر پر ٹوپی کا زاویہ درست کر رہے تھے۔ پھر وہ چلمن کی طرف منھ کرکے اپنی جیبوں میں کچھ ٹٹولنے لگے۔ ان کے پیچھے ایک اور دروازہ نظر آ رہا تھا جس کے قریب دیہاتی مرودں اور عورتوں کا مجمع لگا ہوا تھا۔
’’ارے بھئی، ہم آ رہے ہیں،‘‘ حکیم صاحب نے کہا اور چلمن اٹھائی۔
’’آئیے آئیے،‘‘ گھر کی بیگم بولیں، ’’دیکھےک کون آیا ہے۔ پہچانا؟‘‘
حکیم صاحب دالان میں آگئے۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر انھیں سلام کیا اور انھوں نے آہستہ سے میرا نام لیا۔ پھر بولے:
’’میاں آپ تو بہت بدل گئے، کہیں اور دیکھتا تو بالکل نہ پہچانتا۔‘‘
کچھ دیر تک وہ بھی مجھے میرے بچپن کی باتیں بتاتے اور میرے والد کی وضع داری کے قصے سناتے رہے۔ اتنے میں ایک ملازمہ پیتل کی ایک لمبی کشتی میں کھانے کی چیزیں لے کر آ گئی۔ میں نے ایک نظر کشتی میں لگی ہوئی چینی کی نازک طشتریوں کو دیکھا۔ ان میں زیادہ تر بازار کا سامان تھا، لیکن کچھ چیزیں گھر کی بنی ہوئی بھی تھیں۔ حکیم صاحب نے کشتی کی طرف اشارہ کیا اور بولے:
’’میاں، تکلف سے کام مت لیجیے گا،‘‘ پھر بیگم سے بولے، ’’اچھا بھئی، ہم کو دیر ہو رہی ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ واپس اپنے کمرے میں چلے گئے۔
’’ان کو مطب سے فرصت ہی نہیں ہوتی،‘‘ بیگم نے معذرت کے انداز میں کہا۔ وہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھیں، لیکن مجھ پر شاید کچھ دیر کو غنودگی سی طاری ہو گئی تھی، اس لیے کہ جب میں چونکا تو دالان میں صرف بیگم تھیں اور اس کی دو محرابوں پر کسی موٹے کپڑے کے پردے جھول رہے تھے۔ صرف بیچ کی محراب کھلی ہوئی تھی اور اس میں لٹکتا ہوا قمقمہ ہوا میں ہلتا ہوا کبھی داہنی طرف چکر کھاتا تھا کبھی بائیں طرف۔ میں نے چلمن کی جانب دیکھا۔ دوسرے دروازے کے قریب حکیم صاحب ایک بوڑھے دیہاتی کی نبض پر ہاتھ رکھے کسی سوچ میں ڈوبے ہوے تھے۔ میں بیگم کی طرف مڑا۔ ان پر بھی غنودگی طاری تھی، لیکن قریب کی کسی صحنچی سے لڑکیوں کی گھٹی گھٹی ہنسی کی آواز آئی تو وہ ہوشیار ہو کر بیٹھ گئیں۔
’’کیا مہر آئی ہیں؟‘‘ انھوں نے اپنے آپ سے پوچھا۔ مجھے ان کے آسودہ چہرے پر پہلی بار فکر کی ہلکی سی پرچھائیں نظر آئی۔ اسی وقت داہنی طرف والی محراب کا پردہ ہٹا اور ایک نوجوان لڑکی دالان میں داخل ہوئی۔ میں نے اس کو اچٹتی ہوئی نظر سے دیکھا۔ وہ کسی بےشکن کپڑے کی نارنجی ساری باندھے تھی اور اس کے ناخن نارنجی پالش سے رنگے ہوے تھے۔ بیگم مجھ سے مخاطب ہوئیں :
’’مہر کو پہچانا؟‘‘
میں نے پھر ایک اچٹتی ہوئی نظر اس کے چہرے پر ڈالی۔ اس کے ہونٹوں پر نارنجی لپ اسٹک کی بہت ہلکی تہہ تھی۔ میں نے سر کو یوں جنبش دی گویا اسے بھی دوسری عورتوں کی طرح پہچان گیا ہوں۔ پھر میں نے اس کو غور سے دیکھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ پردے کے پیچھے سے کسی لڑکی نے اسے دھیرے سے آواز دی اور وہ دالان سے باہر چلی گئی۔
حکیم صاحب اسی طرح بوڑھے دیہاتی کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوے تھے اور بیگم پر پھر غنودگی طاری ہو گئی تھی۔ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ بیگم نے ادھ کھلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور میں نے کہا:
’’اب اجازت دیجیے۔‘‘
’’جاؤ گے؟‘‘ انھوں نے بوجھل آواز میں پوچھا، اور اچانک مجھے کچھ یاد آ گیا۔
’’وہ۔۔۔ ڈراونی کوٹھری۔۔۔ اب بھی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ڈراونی کوٹھری،‘‘ انھوں نے کہا، کچھ سوچا، پھر افسردگی کے ساتھ مسکرا کر بولیں، ’’ایک بار تم نے مہر کو اس میں بند کر دیا تھا۔‘‘ پھر ان کی مسکراہٹ میں اور زیادہ افسردگی آ گئی۔ ’’چلو تمھیں یہاں کی کوئی شے تو یاد آئی۔‘‘
’’اب بھی ہے؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
’’وہ کیا ڈیوڑھی کے برابر دروازہ ہے۔ کچھ بھی نہیں، وہاں پہلے باورچی خانہ تھا، دھویں سے دیواریں کالی ہیں۔ ایک دروازہ باہر کی طرف بھی ہے، کھلا ہو گا۔ اس کی کنڈی نہیں لگ پاتی۔‘‘
’’میں ادھر ہی سے نکل جاؤں گا،‘‘ میں نے کہا، رخصتی سلام کے لیے ہاتھ اٹھایا اور صحن کی طرف مڑا۔
’’اسی طرح کبھی کبھی یاد کر لیا کرو۔ پہلے تو روز کا آنا جانا تھا،‘‘ انھوں نے لمبی سانس لی اور ان کی آواز تھوڑی کپکپا گئی، ’’وقت نے بڑا فرق ڈال دیا ہے، بیٹے۔‘‘
ان کے ہونٹ ابھی ہل رہے تھے، لیکن میں صحن پار کر کے ڈیوڑھی سے متصل دروازے میں داخل ہو گیا۔ وہاں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ چھت اور دیواروں پر کلونس تھی، اس کے باوجود اندھیرا بہت گہرا نہیں تھا۔ ایک طرف بھوسا ملی ہوئی چکنی مٹی کا بڑا سا چولھا تھا جسے توڑ دیا گیا تھا۔ سامنے روشنی کی ایک کھڑی لکیر نظر آ رہی تھی۔
باہر کا دروازہ، میں نے اپنے آپ کو بتایا اور لکیر کے پاس پہنچ کر اس سے آنکھ لگا دی۔ سامنے حکیموں کا چبوترا دکھائی دے رہا تھا۔ میری پیشانی کو لوہے کی لٹکتی ہوئی زنجیری کنڈی کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ میں نے اسے اپنی طرف کھینچا۔ دروازے کا ایک پٹ کھلا۔ میں نے کنڈی چھوڑ دی۔ پٹ آہستہ آہستہ بند ہو گیا۔ دو تین مرتبہ یہی ہوا۔ مجھے خیال آیا کہ اس طرح کے دروازوں کو کھولنا اور انھیں اپنے آپ بند ہوتے ہوے دیکھنا بچپن میں میرا پسندیدہ کھیل تھا۔ میں نے دونوں پٹ ایک ساتھ اپنی طرف کھینچ کر کھولے اور باہر نکل آیا۔
کچھ دیر بعد میں کتھئی اینٹوں والے ایک منزلہ مکان کی پشت پر تھا۔ حکیموں کا چبوترا اور اس پر کی جھاڑیاں اور کچی قبریں اب اور زیادہ صاف نظر آ رہی تھیں۔ مجھے وہاں کسی چیز کی کمی محسوس ہوئی اور اسی کے ساتھ خیال آیا کہ میں نے چبوترے کو اوپر جا کر نہیں دیکھا۔ اور اسی وقت مجھے کچھ اور یاد آ گیا۔ میں واپس ہوا اور چبوترے کے اوپر آ گیا۔
قبروں کی تعداد میرے اندازے سے زیادہ تھی، لیکن پتاور کا وہ جھنڈ غائب تھا جو ایک بہت پرانے سانپ کا مسکن بتایا جاتا تھا۔ جو لوگ اسے دیکھنے کا دعویٰ کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اس کے پھن پر بال اُگ آئے ہیں۔ بچے پتاور کے جھنڈ کے پاس کھیلتے رہتے تھے، بلکہ میں تو اس کے اندر جا چھپتا تھا لیکن سانپ سے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔ شاید اسی وجہ سے یہ بات مشہور تھی کہ وہ کئی پشتوں سے حکیم خاندان کا نگہبان ہے۔ خشک اور سبز پتاور کے اس جھنڈ کا نقش میرے ذہن میں بالکل واضح ہو گیا تھا، لیکن یہ مجھے یاد نہ آ سکا کہ وہ چبوترے پر کس طرف تھا۔ جس جگہ اس کے ہونے کا مجھے گمان تھا وہاں پر کئی قبریں تھیں جن پر چونے کی سفیدی چمک رہی تھی۔
چبوترے پر سے مکان کے صدر دروازے کو میں دیر تک دیکھتا رہا۔ میرا جی چاہنے لگا کہ اس پر دستک دوں، اور میں چند قدم ادھر بڑھا بھی، لیکن پھر رک گیا۔
یہ بہت واہیات بات ہو گی، میں نے سوچا، اور چبوترے پر سے مکان کی مخالف سمت اتر گیا۔
واپسی کا راستہ مشکل نہیں تھا۔ میں بہت آسانی سے گھر پہنچ گیا۔
نیر مسعود
ساسانِ پنجم
دور دور تک پھیلے میدانوں میں بکھری ہوئی ان کوہ پیکر سنگی عمارتوں کے بننے میں صدیاں لگ گئی تھیں اور ان کو کھنڈر ہوے بھی صدیاں گذر گئی تھیں۔ خیال پرست سیاح ان کھنڈروں کے چوڑے دروں، اونچے زینوں اور بڑے بڑے طاقوں کو حیرت سے دیکھتے اور ان زمانوں کا تصور کرتے تھے جب گذشتہ بادشاہوں کے یہ آثار صحیح سلامت اور وہ بادشاہ بھی زندہ رہے ہوں گے۔ ان عمارتوں میں لگے ہوے پتھر کی سلوں پر کندہ تصویروں کو زیادہ غور اور دل چسپی سے دیکھا جاتا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ تصویریں اپنے زمانے کی تاریخ بیان کر رہی ہیں۔ ان میں تاج پوشیوں، جنگوں، ہلاکتوں، فاتح بادشاہوں کے دربار میں شکست خوردہ بادشاہوں کی حاضری اور دوسرے موقعوں کے منظر دکھائے گئے تھے جن سے ان پرانے زمانوں کی بہت سی باتوں کا کچھ اندازہ ہوتا تھا اور ان علاقوں کی پرانی تاریخ اور تمدن کے بارے میں کچھ غیریقینی سی معلومات حاصل ہوتی تھیں۔
انھیں کھنڈروں کے پتھروں پر بہت سے کتبے بھی کھدے ہوے تھے اور سیاح ان کو بھی دل چسپی سے اور دیر دیر تک دیکھتے تھے، لیکن ان تحریروں کو کوئی پڑھ نہیں سکتا تھا۔ دیکھنے میں صرف ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے قطاروں کی صورت میں مختلف زاویوں سے تیروں کے پیکان بنا دیے ہیں، لیکن اس میں کسی کو کوئی شک نہیں تھا کہ پتھر کی سلوں پر پیکانوں کی یہ قطاریں دراصل لمبی لمبی عبارتیں ہیں جنھیں اگر پڑھ لیا جائے اور سمجھ بھی لیا جائے تو ان کی مدد سے ان تصویروں کو بھی اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے اور بہت سی ایسی باتیں بھی معلوم ہو سکتی ہیں جن کا تصویروں سے معلوم ہونا ممکن نہیں۔
ہمارے عالم ایک مدت سے ان تحریروں کو پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے اور ناکام ہو رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ اسی زبان کی تحریریں ہیں جس کے کچھ نمونے ساسانِ پنجم نے فراہم کیے تھے، لیکن ان نمونوں کی مدد سے ان کتبوں کو پڑھنا ممکن نہ ہوا اس لیے کہ وہ نمونے پیکانی تحریر میں نہیں تھے، اور ساسانِ پنجم کو گذرے ہوے زمانہ ہو گیا تھا، بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کس زمانے میں تھا۔
آخر ایک مدت کی کاوشوں کے بعد جب مردہ زبانوں کو پڑھنے کا فن کافی ترقی کر گیا تو کھنڈروں کی انھیں تصویروں کی مدد سے اور کچھ دوسرے طریقوں سے ہمارے عالم پیکانوں کی شکل کی یہ تحریریں پڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور ان تحریروں کی مدد سے ان تصویروں کو بھی پوری طرح سمجھ لیا گیا۔ اس طرح گویا تحریروں نے تصویروں کا احسان اتار دیا۔
ایک ایک کرکے سارے کتبے پڑھ لیے گئے اور اس خبر کا عام طور پر خیرمقدم کیا گیا کہ ہماری زبانوں میں ایک نئی زبان کا اضافہ ہوا ہے جو ہزاروں سال پرانی ہے۔
لیکن اس زبان کا ساسان پنجم کے فراہم کیے ہوے نمونوں کی زبان سے کوئی تعلق نہیں نکلا بلکہ ان دونوں زبانوں میں کوئی اتفاقی مشابہت بھی نہیں پائی گئی، اور یہ بات ہمارے عالموں کے گمان میں بھی نہیں تھی اس لیے کہ ان کی کئی پشتوں نے ان نمونوں کی زبان کا بڑی سنجیدگی سے مطالعہ کیا تھا اور اس کے بارے میں عالمانہ خیال ظاہر کیے تھے۔ اب انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ ساسانِ پنجم زبانوں کی تاریخ کا سب سے بڑا فریب یا سب سے بڑا مذاق تھا، جس کا شکار ہونا ظاہر ہے انھیں پسند نہیں آ سکتا تھا، اس لیے اب وہ چاہتے ہیں کہ ساسانِ پنجم اور اس کی زبان کو بھلا دیا جائے۔
ماننا پڑتا ہے کہ ساسانِ پنجم کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ ایک تو اس کے وجود ہی کا انکار کر دیا گیا، اور انکار کی دلیل یہ دی گئی کہ چار ابتدائی ساسانوں کے بغیر پانچویں ساسان کا وجود قائم نہیں ہو سکتا، اور تاریخ میں ایک ساسان کے سوا ساسانِ دوم، ساسانِ سوم اور ساسانِ چہارم کا سراغ نہیں ملتا، لہٰذا ساسانِ پنجم بھی نہیں تھا؛ اسی کے ساتھ اس کی پیش کی ہوئی زبان کو بھی باطل کر دیا گیا۔
لائق عالموں نے بڑی محنت سے ثابت کیا ہے کہ ساسانِ پنجم نے جس زبان کے اصلی اور قدیمی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس زبان کا کبھی وجود نہ تھا، اور ساسانِ پنجم نے اس موہوم زبان کے جو الفاظ درج کر کے ان کے جو معنی لکھے ہیں وہ سب لفظ خود اس کے گھڑے ہوے ہیں اور اس سے پہلے نہ کسی زبان سے ادا ہوے تھے نہ کسی قلم نے انھیں لکھا تھا۔ اور اس زبان کی جو قواعد ساسان پنجم نے ظاہر کی ہے وہ بھی سراسر اس کے ذہن کی اختراع ہے، حقیقتاً کسی بھی زبان کے جملوں میں لفظوں کی ترتیب اس طرح نہیں تھی جس طرح ساسان پنجم کی اس مفروضہ قواعد میں ملتی ہے۔
عالموں نے یہ تمام باتیں ثابت کرنے میں حیرت خیز مطالعے اور ذہنی کاوش کا ثبوت دیتے ہوے علم اور منطق دونوں سے کام لیا ہے اور اس سلسلے کی ہر نئی دریافت ان کے دعووں کو مزید مستحکم کرتی جاتی ہے۔ تاہم انھیں دریافتوں کی بنیاد پر یہ عالم اس کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ایک عرصے تک ساسانِ پنجم کو حقیقی اور اس کی زبان کو اصلی سمجھا جاتا رہا اور گذشتہ عالم اس زبان کے لفظوں کا فخریہ استعمال کرتے تھے، لیکن ان لفظوں کی مدد سے ایک مستقل اور قائم بالذات زبان بولنے اور لکھنے میں ان گذشتہ عالموں کو کامیابی نہیں ہو سکی اگرچہ ان میں سے کئی اس زبان سے واقفیت کے مدعی بتائے جاتے تھے۔
آج کا عالم بتاتا ہے کہ گذشتہ زمانے میں کچھ لفظ استعمال ہوتے تھے جن کا حقیقی وجود نہیں تھا، وہ اس طرح کہ یہ لفظ جن معنوں میں استعمال کیے جاتے تھے دراصل ان کے معنی وہ نہیں تھے، دراصل ان کے معنی کچھ بھی نہیں تھے، تاہم ان میں کا ہر لفظ ایک مخصوص معنی کے لیے استعمال ہوتا تھا، یعنی بولنے والا ایک لفظ بولتا تھا اور اس سے ایک معنی مراد لیتا تھا اور سننے والا اس کے وہی معنی سمجھتا تھا جو بولنے والا مراد لیتا تھا، لیکن حقیقتاً اس لفظ کے وہ معنی نہیں ہوتے تھے جو بولنے والا مراد لیتا اور سننے والا سمجھتا تھا، اس لیے کہ دراصل وہ کوئی لفظ نہیں ہوتا تھا اور چونکہ وہ کوئی لفظ نہیں ہوتا تھا اس لیے اس کے کوئی معنی بھی نہیں ہوتے تھے۔ اور یہ بےمعنی لفظ جس زبان کے سمجھے جاتے تھے اس زبان کا بھی حقیقی وجود نہیں تھا، اگرچہ عالم اس امکان کا انکار نہیں کرتے کہ کسی زمانے میں کہیں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہو، تاہم دراصل یہ کوئی زبان تھی نہیں۔
عالموں کی ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نہ کوئی ساسانِ پنجم تھا، نہ اس کی پیش کی ہوئی کوئی زبان تھی، نہ اس زبان کا کوئی لفظ تھا اور نہ اس لفظ کے کچھ معنی تھے۔
لیکن اسی ساری تحقیق کا خلاصہ یہ بھی ہے کہ ایک وقت میں کچھ معنی تھے جو بعض لفظوں سے ادا ہوتے تھے، اور یہ لفظ ایک زبان سے منسوب تھے، اور اس زبان کا تعارف ایک شخص نے کرایا تھا، اور وہ شخص خود کو ساسانِ پنجم بتاتا تھا۔
نیر مسعود
جانِ عالم
اوّل اس خالقِ حقیقی کی ثنا چاہیے جس نے ایک حرف کن سے صفحۂ دوعالم پر کیا کیا صورتیں دکھائیں، بعدہٗ گلہ اس خالقِ مجازی کا کیا چاہیے جس نے فسانۂ عجائب لکھ کر اس گناہ گار جانِ عالم کی ہزار در ہزار گتیں بنائیں۔ وہ کون، مرزا رجب علی بیگ سرور مغفور کہ بیت السلطنت لکھنؤ کے ایک مردِ تماش بین تھے لیکن بادشاہی کارخانے سے اصلا واقف نہیں تھے۔ یہ بھی اپنی شورہ بختی، نصیبے کی سختی تھی کہ اپنی خِلقت اس مردِ تماش بین کے ہاتھوں ہونی تھی، اس حلیے سے ہم چشموں میں آبرو کھونی تھی۔
فسانۂ عجائب، کہ فی الواقع خزانۂ غرائب ہے، مرزا نے دوستوں میں چھیڑ تو دیا، لیکن جس شاہ زادے کو بزورِ طلاقتِ لسانی وفصاحتِ بیانی کتمِ عدم سے معرضِ وجود میں لائے، اس کے این و آں کو سمجھ نہ پائے۔ ناچار بہ حالتِ اضطرار ان مغفور نے فرض کر لیا کہ اگر خودبدولت شاہ زادۂ دل دار ہوتے تو کیا کرتے اور وادیِ عشق میں کیونکر پاؤں دھرتے۔ پس سب سے پہلے یہ مقدمہ دھیان میں رکھا چاہیے کہ جانِ عالم میں روحِ پُرفتوح مرزا سرور کی غالب ہے، شاہ زادے کا جو سچ پوچھو تو قالب ہی قالب ہے۔
پہلا ستم مرزا نے توتے کی خریداری میں ڈھایا۔ یہ فقرہ سنایا کہ جانِ عالم نے بہ نفسِ نفیس گزری بازار میں اس حیوانِ ناطق کا پنجرہ ہاتھ میں لے مالک سے اس کی قیمت پوچھی۔
ذرا انصاف کو کام فرمائیے گا، شاہ زادہ جانِ عالم، باپ جس کا شاہ فیروز بخت، ’’مالک تاج و تخت‘‘، ’’گردوں وقار، پرتمکین، باافتخار،‘‘ جس کے ’’سکندر سے ہزار خادم، دارا سے لاکھ فرماں بردار،‘‘ وہ گزری بازار میں چڑی ماروں سے مول تول کرتا پھرے!
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو
میں تو شرم سے کٹ گیا، بخدا جینے سے جی ہٹ گیا، اس درجہ یہ امر شاق ہوا، مگر وہ جو مثل ہے مردہ بدست زندہ، اسی کا مصداق ہوا۔
پھر مرزا نے یہ تماشا دکھایا کہ توتے کی زبان سے احوال شہرِ زرنگار اور شاہ زادی انجمن آرا کا سنایا اور مجھ کو اس کا نادیدہ عاشق بنایا۔ باللہ میں اتنا سادہ لوح نہ تھا کہ ایک توتے کی باتوں میں آ کر انجمن آرا کا جاں نثار، آوارۂ شہر و دیار ہوتا۔ مگر مرزا کو تو قصہ آگے بڑھانا تھا، اس واسطے یہ کھیل بھی دکھانا تھا۔ اس طائرِ سبزقبا کو یوں بھی سخنانِ مبالغہ آمیز سے شغف تھا اور اس وقت تو وہ ماہ طلعت کے
علی الرغم انجمن آرا کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔ یہ بھید میری سمجھ میں بھی آ رہا تھا۔ مگر اصل یہ ہے کہ معاملہ اپنا اور اس طائر کا واحد تھا، یعنی وہ قفس کی تنگی سے نکل کر لطف سیّاحت کا اٹھانا چاہتا تھا، میں بھی، کہ شادی کے جنجالوں میں گرفتار تھا، کچھ دن کے لیے تاہل کی زندگی سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا۔ نہ تو میں کسی شاہ زادی کی خاطر دربدر ہوا تھا نہ توتا ازراہِ خیرخواہی میرا رہبر ہوا تھا۔ دلیل اس کی یہ کہ آغازِ سفر ہی میں وہ مجھ سے جدا ہو گیا؛ اچھا بھلا توتا تھا، عنقا ہو گیا۔
معلوم ہوا ہے کہ اب داستانوں میں کسی ایک فرد کو ہیرو کہا جاتا ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فسانۂ عجائب کا ہیرو مجھ گناہ گار کو مقرر کیا ہے۔ اپنے تئیں ہیرو جان کر جو صدمے جانِ حزیں پر گذر گئے ان کا تو ذکر ہی کیا ہے، بڑا رنج اس کا ہے کہ اربابِ نقد نے ہیرو قرار دے کر مجھ کو انتقاد کی کسوٹی پر کسنا اور کبھی مجھ پر گرجنا، کبھی سرورِ مغفور پر برسنا شروع کر دیا ہے۔ بعضے بعضے بزرگواروں نے لکھا کہ جانِ عالم کا مثالی کردار ہے، بدیں سبب یہ کردار عیب دار ہے، کس واسطے کہ اربابِ نقد کی نظرِ کدورت اثر میں اگر کوئی کردار مبرّا از عیب ہے تو یہ بےعیبی اس کا عیب لاریب ہے۔ دو ایک بزرگوار میرے طرف دار بن کر اٹھے اور کہنے لگے کہ جان عالم کا کردار کہاں مثالی ہے، وہ تو جوہرِ عقل ہی سے خالی ہے۔ اور بارِ ثبوت بھی اٹھا لائے کہ اس نے بے سمجھے بوجھے آپ کو حوض میں گرایا اور اس نے تو نقشِ سلیمانی ہاتھ سے گنوایا اور وہ تو وزیر زادۂ نابکار کی باتوں میں آیا؛ حرم میں اس کی بےعقلی کی دھوم رہتی ہے، انجمن آرا اس کو ساری مصیبتوں کا ذمے دار، مہرنگار ’’احمق الذی شاہ زادہ‘‘ کہتی ہے۔ بلکہ وہ تو خود بھی اپنے آپ کو ’’حمق میں گرفتار‘‘ بتاتا اور ساری داستان میں از اول تا آخر غلطی پر غلطی کرتا جاتا ہے۔ مگر ان کلماتِ لاطائل سے جو اذیتیں دلِ صفا منزل کو ہوئیں، وہ اس صدمے کے مقابل ہیچ تھیں کہ اس حماقت مآبی کو مجھ حقیر بے تقصیر کی خوبی بتایا گیا ہے، اور اربابِ نقد کے نزدیک اسی خوبی کی وجہ سے جانِ عالم کو جیتاجاگتا پایا گیا ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
بر ایں عقل و دانش بباید گریست
جواب ان امور کا تفصیل طلب ہے، یہاں اتنی فرصت کب ہے۔ المختصر کہتا ہوں کہ میں ایک محبوب پری رو کی ترغیب سے حوضِ مصفّا میں کود پڑا، لوگ تو ان مقدموں میں آگ جہنم کی اپنے اوپر گوارا کرتے ہیں۔ میں نے نقشِ سلیمانی کو ہاتھ سے دیا تو اسی پری رو کی ناسازیِ مزاج سے گھبرا کر۔ وزیرزادے پر اگر میں نے اعتبار کیا، تبدیلیِ قالب کا راز اسے بتا دیا، تو کیا آپ اپنے کسی جگری دوست پر اعتبار، اس کو اپنا رازدار نہیں کرتے؟ اگر انجمن آرا اور مہرنگار مجھ کو کم عقل جانتی ہیں تو کون سی انوکھی بات ہے، خاوند کو بےعقل سمجھنا تو منجملۂ صفاتِ مستورات ہے۔ اور ہاں جو میں نے اپنے تئیں حمق میں گرفتار کہا، وہ ازراہِ انکسار کہا۔ اعترافِ نادانی نہ کرتا تو کیا ہمہ دانی کا دم بھرتا؟
خیال فرمائیے گا کہ جب میں وزیرزادے کے فریب میں آ کر روح اپنی بندر کے قالب میں لے گیا اور وہ نمک حرام میرے قالب پر متصرف ہوا، خود جانِ عالم بن بیٹھا اور میرے درپے ہو کر تمام بندروں کو پکڑوانے اور بلا فرق سب کے سر پھڑوانے لگا، تو میں خوفِ جاں سے درختوں میں چھپتا پھرتا تھا۔ بارہا یہ تدبیر خیال میں آئی کہ بندر کا قالب چھوڑ روح اپنی کسی اور جانور کے قالب میں لے جائیے اور وزیرزادۂ بدنہاد کے جوروں سے جان بچائیے، مگر میرے جملہ امور مرزا سرور کے حوالے تھے، وہ بھلا کہاں ماننے والے تھے۔ انھیں تو میری جان ملکہ مہرنگار کے ہاتھوں بچانی تھی، مجھ سے زیادہ اس کی فراست دکھانی تھی۔ پس جب اس نے مجھے توتا دکھا کر اس کی گردن مروڑی، تب میں نے بندر کے جسم کی جان چھوڑی، توتے کے قالب میں سمایا، خواہی نخواہی ملکہ کا بارِ احسان اٹھایا۔
اب اصل قصہ مجھ سے سنیے اور ناسازیِ بختِ ناساز و کج بازیِ فلکِ حقّہ باز پر سر دھنیے۔ ہوا یوں کہ مرزا سرور داستان سنانے چلے تھے میری اور انجمن آرا کی، جب دیکھا کہ یہ داستان جلد ختم ہو جائے گی اور گروہِ سامعین میں شرفِ قبول نہ پائے گی، بیچ میں ملکہ مہرنگار کو کھینچ لائے۔ وہ عورت بلا کی دماغ دار، تیز طرار، آئے تو کہاں جائے۔ میری اس کی پہلی ملاقات ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ پری زادوں کے جھرمٹ میں ’’ہوادار پر ایک آفتابِ محشر سوار، تاجِ مرصّع سر پر، لباسِ شاہانہ پُرتکلف در بر، نیمچۂ سلیمانی ہاتھ میں، سیماب وَشی بات بات میں، بندوقِ چقماقی طائرِ خیال گرانے والی برابر رکھے، شکار کھیلتی، سیر کرتی چلی آتی ہے۔‘‘ اس پر نظر پڑتے ہی منھ سے تو نکلا:
کیا تنِ نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے
کیا بدن کا رنگ ہے تہہ جس کی پیراہن پہ ہے
مگر جی میں سوچا، مرزا نے غضب کر دیا۔ کس برق جہندہ کو مہمان کیا، میری رسوائی جگ ہنسائی کا سامان کیا۔ کیا جانِ عالم بے چارہ اور کیا شاہ زادی انجمن آرا، یہ دم کے دم میں سب پر غالب آ جائے گی، دیکھتے دیکھتے پورے فسانے پر چھا جائے گی، پھر کسی سے کچھ بن نہیں آئے گی۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اور خود مرزا بھی اس کو داستان میں لا کر ایسے مدہوش ہوے کہ دوسرے افرادِ قصہ یکبارگی فراموش ہوے۔ واللہ اعلم مجھ روسیاہ میں اس ملکۂ ذی جاہ نے کیا بات پائی کہ صورت دیکھتے ہی متاعِ صبر و ہوش لٹائی۔ روبرو جس آن ہوئی، عاشق بہ ہزار جان ہوئی۔ عشق اور عقل میں بیر مشہور ہے مگر اسے دیکھا کہ سراپا عشق اور مجسم شعور ہے۔ میں نہ اس کے مقابلے پر آسکتا تھا نہ اس زبردست سے پیش پا سکتا تھا۔ وہ ملکۂ تجربہ رسیدہ، جہاں دیدہ، انصرامِ امور میں مردانِ کار سے زیادہ، میں نازوں کا پلا ناآموز شاہ زادہ۔ جب دیکھا کہ وہ ہر مہم کو سر کر سکتی ہے اور مجھ سے بہتر کر سکتی ہے، اور مرزا سرور بھی اسی کی جانب نگراں، مجھ سے روگرداں ہیں، سب کچھ اسی پر چھوڑ دیا، یہ شعر شاعر کا اپنے حسب حال کیا:
ما اختیارِ خویش بہ دستِ تو دادہ ایم
دنیا و دیں بہ نرگس مستِ تو دادہ ایم
آخر میں مرزا سرور کی ایک اور ستم ظریفی کا مذکور ضرور ہے۔ وہ کیا کہ فسانۂ عجائب کے ختم پر یہ جملہ مسطور ہے: ’’جس طرح جانِ عالم کے مطلب ملے اسی طرح کل عالم کی مراد اور تمناے دلی اللہ دے۔‘‘ سبحان اللہ، ہم ایک شادی کے بندھن سے گھبرا کے، جان چھڑا کے وطن سے نکلے، خراب و خوار ہوے، مرزا کے لطفِ داستان کی خاطر دو اور شادیوں سے دوچار ہوے۔ اب ہر ثانیہ شش و پنج میں گرفتار ہیں، حواسِ خمسہ یکسر بےکار ہیں۔ تین بی بیوں کے درمیان عمر بسر ہوتی ہے، اور اربابِ نقد میں سے ایک نہیں پوچھتا کہ کیونکر ہوتی ہے۔
فروغ فرخ زاد
فارسی سے ترجمہ: نیر مسعود
آفتاب کی طرح
دیکھ تو سہی کہ کس طرح
میری آنکھ سے مرا غمِ دروں
ڈھل رہا ہے، قطرہ قطرہ آب کی طرح
دیکھ تو مرا یہ سرکش و سیاہ سایہ کس طرح
اسیرِ دستِ آفتاب ہے
(شعاعِ آفتاب کی طرح)
دیکھ کس طرح مرا وجود
مٹ رہا ہے
(سطحِ آب پر حباب کی طرح)
اک شرارہ مجھ کو اپنی سمت کھینچتا ہے
مجھ کو اوجِ آسماں پہ لے چلا ہے
دام بن کے میرے جسم سے لپٹ رہا ہے
دیکھ تو یہ میرے آسمان پر
چمک رہا ہے کیا شہاب کی طرح
تو ندیمِ من
میرے پاس آ گیا ہے کتنی دور سے
خوشبوؤں کی سرزمیں سے، ارضِ رنگ و نور سے
تو مجھے بٹھا رہا ہے اک سفینۂ حسین پہ
یہ سفینۂ حسیں
کس طرح سجا ہوا ہے بادلوں سے، عاج سے، بلور سے
تو مرے لیے امیدِ دل نواز ہے
اے امیدِ دل نوازِ من!
مجھ کو اپنے ساتھ لے چل، اپنے ساتھ
شہرِ شعر، شہرِ شور میں
میرے ساتھ ساتھ چل رہا ہے تو
مجھ کو ساتھ لے چلا ہے کہکشاں کی راہ پر
تو مجھے بٹھا رہا ہے کہکشاں سے بھی بلندتر نشست گاہ پر
دیکھ تو،
حرارتِ ستارہ سے دہک رہی ہوں میں
سادہ لوح سرخ مچھلیوں کی طرح
دیکھ تو،
ستارہ ہاے حوضِ شب کو تک رہی ہوں میں
کتنی دور ہے مری زمیں!
آسماں کے نیلگوں دریچوں میں
پھر سے گونجنے لگیں تری صدائیں،
تیری آہٹیں
فرشتوں کے سفید برف سے پروں کی سرسراہٹیں
دیکھ تو کہاں پہنچ گئی ہوں میں
(کون سی جگہ ہے یہ)
کہکشاں، کہ بے کراں، کہ جاوداں؟
اب کہ اس مقام تک پہنچ گئے ہیں ہم
مجھ کو موجِ بادہ میں ڈبو بھی دے
مجھ کو اپنے بوسہ ہاے گرم کے حریر میں لپیٹ لے
مجھ کو اب شبِ فراق کے ستم میں مبتلا نہ کر
مجھ کو اپنے دام سے رہا نہ کر
مجھ کو ان ستاروں سے جدا نہ کر، جدا نہ کر
دیکھ تو سہی کہ موم بن کے رات
کس طرح مرے لیے پگھل رہی ہے
قطرہ قطرہ آب کی طرح
تیرے لمس کی حرارتوں سے
میری آنکھ کے سبو میں کس طرح چھلک رہے ہیں
ان گنت حسین خواب
جن میں نشہ ہے شرابِ ناب کی طرح
دیکھ تو سہی یہ کیا ہوا کہ میرے شعر
گاہوارہ بن گئے ہیں جن میں تُو چمک رہا ہے
آفتاب کی طرح
اندھیری راتوں میں
اندھیری راتوں میں
تجھے صدائیں دیں
اندھیری رات تھی اور چار سمت سناٹا
ہوا کے جھونکوں سے
لرز رہا تھا، بہت بے قرار تھا پردہ
فلک تھا افسردہ
فلک پہ دور کہیں اک ستارہ جلتا تھا
ستارہ چلتا تھا
ستارہ ڈھلتا تھا
تجھے صدائیں دیں
تجھے صدائیں دیں
میں اپنی ہستی کو
سنبھالے بیٹھی تھی ہاتھوں پہ جام کی صورت
مرے دریچوں سے
دکھائی دیتی تھی ماہِ تمام کی صورت
کہ ایک نغمہ زار
دھویں کی طرح اٹھا، روزنوں کی سمت چلا
تمام رات مرے
دہکتے سینے میں
کوئی سسکتا رہا فرطِ ناامیدی سے
کوئی بلاتا رہا باربار اٹھ کے تجھے
مگر اندھیرے میں دو سخت سرد ہاتھوں نے
کچل دیا اس کو
اندھیری راتوں میں
سیہ درخت کی شاخوں سے غم برستا رہا
کوئی زخود رفتہ
تجھے پکار کے تیرے لیے ترستا رہا
ہوا کا ہر جھونکا
سیہ درخت کی زلفوں میں خاک بھرتا رہا
وہ نامراد درخت
ہوا پہ مرتا رہا
ہواے بے سروساماں سے پیار کرتا رہا
ہدیہ
میں انتہاے شب کی بات کر رہی ہوں
انتہاے ظلمت، انتہاے شب کی بات کر رہی ہوں میں
تم آؤ میرے گھر اگر تو میرے مہرباں
تمھارے ساتھ اک چراغ بھی ضرور ہو
اور اک دریچہ بھی ہو جس سے جھانک کر
میں کم سے کم گلی میں دیکھ تو سکوں
کہ میرے گھر کے پاس ہی
بہت سے ایسے لوگ ہیں جو شاد و بامراد ہیں
بابا مقدم
فارسی سے ترجمہ: نیر مسعود
پنجرے
پنجروں کا عجائب خانہ اس شہر کی قابل دید جگہوں میں سے تھا۔ وسیع میدان میں ایک پہاڑی پر بنی ہوئی اس کی مخروطی چھت والی عمارت دور ہی سے نظر آنے لگتی تھی۔
موٹریں تماشائیوں کو ایک لہراتی ہوئی سڑک سے، جس کے دونوں طرف شہتوت کے درخت لگے ہوے تھے، عمارت کے سامنے والے میدان میں اتارتی تھیں۔ اگر کوئی پہاڑی پر پیدل جانا چاہتا تو اس کے لیے ایک تنگ راستہ تھا جس پر سو سے زیادہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ پیدل جانے والا دو تین بار بیچ بیچ میں بنے ہوے چبوتروں پر بیٹھ کر سستانے کے بعد بھی آگے بڑھ سکتا تھا۔
اوپر سے نیچے تک پوری پہاڑی تھالوں میں ترتیب کے ساتھ لگائی ہوئی انگور کی بیلوں اور سماق کی جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ایسے بنجر میدان میں جہاں خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ اگتا تھا، اس ہری بھری پہاڑی کا منظر بہت بھلا معلوم ہوتا تھا اور ہر شخص کا جی چاہتا تھا کہ ان سیڑھیوں سے اوپر چڑھے اور اس سبز پہاڑی پر سے میدان اور اطراف کے نشیب و فراز کا سماں دیکھے۔
باہر سے عجائب خانے کی شکل ایک چوڑے ستون کی سی تھی جس کی چھت گنبدنما تھی۔ اس کی دیواربندی زمین سے اٹھ کر گنبد تک پہنچتی ہوئی لوہے کی لمبی لمبی سلاخوں سے کی گئی تھی۔ گنبد کے سرے پر ایک حلقہ تھا اور اس میں لگا ہوا ایک بڑا سا آنکڑا اوپر فضا میں اٹھا چلا گیا تھا۔
عمارت کا فرش دور دور پر بنے ہوے پایوں پر قائم کیا گیا تھا اور اس طرح دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بہت بڑا پنجرہ آسمان سے لٹکا ہوا ہے۔
اگر کوئی پنجروں کے عجائب خانے کی سیر کرنا چاہے تو اس کو عمارت کے سامنے کے میدان سے شروع ہونے والی کچھ اور سیڑھیاں چڑھ کر اس بڑے پنجرے کے دروازے تک جانا ہو گا۔ وہاں پنجرے ہی کی شکل کے ایک حجرے میں عجائب خانے کے تنہا محافظ سے معلوماتی کتابچہ لے کر وہ عمارت کے اندر داخل ہو گا۔
عمارت کے اندر تین منزلیں ہیں اور اس کے مرکز میں بنا ہوا ایک پیچ دار زینہ ان تینوں منزلوں کو آپس میں ملاتا ہے۔
اور یہ عمارت پنجروں سے بھری پڑی ہے۔ چھوٹے اور بڑے پنجرے، لکڑی کے پنجرے، لوہے کے تار کے بنے ہوے پنجرے، سونے کے اور چاندی کے پنجرے۔ اور یہ پنجرے طرح طرح کی شکلوں کے ہیں۔ ان میں سے بعض، جو دوردست سرزمینوں کے نیم وحشی قبیلوں اور پہناور سمندروں کے جزیروں سے حاصل کیے گئے ہیں، ایسی ایسی وضعوں کے ہیں کہ تماشائی انھیں اچھی طرح دیکھنے کے لیے دیر دیر تک ایک ہی جگہ کھڑا رہ جاتا ہے۔ ہر پنجرے کے پاس ہی یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اسے کہاں بنایا گیا، کب خریدا گیا اور اس میں کس قسم کا جانور یا پرندہ رکھا جاتا تھا۔ ان پنجروں میں کوئی جانور نہیں ہے۔ سب خالی ہیں اور ان میں کھانے پینے کے برتن جوں کے توں رکھے ہوے ہیں۔ سارے پنجروں میں جانوروں کے بیٹھنے اور سونے کے اڈے، پٹریاں، کڑے اور آشیانے بھی موجود ہیں۔
عجائب خانے کے اندر کی فضا بھی ایسی ہے کہ ذرا غور کرنے پر تماشائی خود کو اچانک ایک بڑے سے پنجرے میں بند محسوس کرتا ہے اور اس پر دہشت طاری ہو جاتی ہے۔
سب سے پہلا پنجرہ، جس کا نمبر ایک ہے، چھوٹا سا اور لکڑی کا بنا ہوا ہے جس میں پانی پینے کی کٹوری اور دانے کا برتن رکھا ہوا ہے۔ معلوماتی کتابچہ دیکھنے پر تماشائی کو اس کی صراحت ملتی ہے۔
میں نے پہلے قفس کو ایک لڑکے کے پاس دیکھا جس نے اس میں ایک گوریا کا بچہ بند کر رکھا تھا۔ یہ ننھا پرندہ پنجرے کے اندر سکڑا ہوا اونگھ رہا تھا۔
میں نے یہ پنجرہ پرندے سمیت لڑکے سے خرید لیا۔ پرندے کا پوٹا سوج گیا تھا اور وہ بالکل نڈھال ہو رہا تھا۔ میں نے اسے رہا کر دیا۔ وہ جھجکتا ہوا پنجرے سے باہر نکلا اور اپنے کم زور پروں سے بہ مشکل اڑ کر ایک دیوار پر بیٹھ گیا۔ پھر وہاں سے بھی اڑا اور ایک درخت کی ٹہنی پر جا بیٹھا۔ میں خالی پنجرہ اپنے ساتھ لے آیا اور کئی دن تک اپنے کمرے میں رکھ کر اسے دیکھتا رہا۔
میں دیکھتا تھا کہ بہت سے لوگ طرح طرح کی چیزیں جمع کرتے ہیں اور اپنے اس شغل میں انھیں بڑا انہماک رہتا ہے۔ لوگ ٹکٹ جمع کرتے ہیں، ماچس کی ڈبیاں، قفل، پرانے پیالے اور قابیں ادھر ادھر سے تلاش کر کے اکٹھا کرتے ہیں، میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ میں پنجرے جمع کروں گا۔ یہ خیال مجھے پسند آیا۔ مجھے اپنے باپ کے ترکے میں بڑی جائد اد ملی تھی۔ میرے بیوی بچے بھی نہیں تھے۔ میرے سے تنہا آدمی کے لیے یہ بڑا اچھا مشغلہ تھا۔ لہٰذا میں اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے بازاروں اور محلوں میں گھومنا شروع کیا اور پنجرہ نمبر دو خریدا۔ اس پنجرے میں ایک طرقہ تھا۔ گوریا سے کچھ بڑا مٹیالے رنگ کا یہ پرندہ پنجرے کے فرش پر مستقل ادھر سے ادھر چکر کاٹا کرتا ہے اور ہمیشہ باہر کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔
جس دن میں نے اسے دیکھا وہ چہچہا رہا تھا اور سیٹیاں بجا رہا تھا۔ وہ اپنے ہم جنسوں کو بلا رہا تھا، بیابانوں کا خواہاں تھا، کھلی فضا کا طالب تھا جس میں پر کھول کر اڑ سکے۔ آزادی کے لیے اس کی یہ کوشش اور فریاد کا انداز دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ جیسے بھی بن سکا میں نے اس کے مالک کو، جو ایک دکان دار تھا، راضی کر کے اسے خرید لیا اور گھر لے آیا۔ یہ پرندہ دن بھر میرے گھر میں سیٹیاں بجاتا اور زور زور سے چہچہاتا رہا۔ پنجرے کے اندر ایک آئینہ لگا ہوا تھا۔ پرندہ کبھی کبھی اس کے سامنے آ کر ٹھہر جاتا اور یہ سمجھ کر کہ سامنے ایک اور طرقہ ہے، اپنے حلقوم کو پھلا کر چہچہانے لگتا۔ اسی دن سہ پہر کے قریب میں نے اس کا پنجرہ اٹھایا اور شہر کے باہر آ گیا۔ ترکاریوں کے ایک کھیت میں جا کر میں نے پنجرے کا دروازہ کھولا اور پرندے کو آزاد کر دیا۔ ایک شخص جو وہیں پر موجود تھا، کہتا رہا کہ اس پرندے کو شکرا جھپٹ لے جائے گا مگر میں اس کی بات پر کان دھرے بغیر دیکھ رہا تھا کہ پرندہ اڑا اور اڑتے اڑتے نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔
گھر لوٹ کر میں بہت خوش تھا کہ اب میرے پاس ایک اور پنجرہ ہو گیا۔ میں نے اسے جھاڑپونچھ کر ایک کھونٹی سے لٹکا دیا۔ یہ مضبوط پنجرہ تھا جس کے کڑے تانبے کے تھے، غلاف سرخ کپڑے کا، پانی کی کٹوری پھول دار چینی کی، دانے کی پیالی پر منبت کاری، اور ایک چھوٹا سا آئینہ۔
پھر دو تین دن ایسے گذرے کہ میرے دل میں جو خیال پیدا ہوا تھا میں اس کو دور نہ کر سکا۔ میں نے خود سے کہا:
’’اے مرد! ہر شخص کسی نہ کسی راستے پر لگا ہوا ہے۔ یہ تیرا راستہ ہے: پرندوں کو ان کے پنجروں سمیت خریدنا، پرندوں کو آزاد کرنا اور پنجروں کو جمع کرنا۔‘‘
کبھی کبھی میں یہ سوچ کر خوش ہوتا تھا کہ ایک دن میں پنجروں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک ہو جاؤں گا۔ میں چاہتا تھا کہ ایک دن ایسا آئے جب دنیا میں کوئی پنجرہ باقی نہ رہ جائے یا کم از کم وہ سرزمین جہاں میں رہتا ہوں پنجروں سے خالی ہو جائے۔
اسی فکر اور اسی آرزو میں آخر میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ میں نے دو لڑکوں کو ملازم رکھ کر اپنے ساتھ لیا۔ میں جہاں بھی کسی پرندے کو پنجرے میں دیکھتا اسے خرید لیتا۔ بہت سے لوگ اپنے پنجرے بیچنے پر تیار نہ ہوتے۔ کہتے کہ یہ تو ہمارا مشغلہ ہے اور ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ میں جواب میں نرمی کے ساتھ ان سے بحث کرتا اور بہرطور آخرکار مجھی کو کامیابی ہوتی۔ ان سب کو پیسہ ہر چیز سے عزیز تھا۔
اس دن میں نے گیارہ پنجرے خریدے۔ ان پنجروں میں چار سہرے، دو گوریاں، ایک طرقہ، ایک طوطا، دو قناریاں اور ایک بلبل تھی۔ دونوں ملازم لڑکوں کی مدد سے میں ان پنجروں کو شہر کے باہر ایک باغ میں لے گیا اور ان سب لوگوں کے سامنے جو ہمارے ساتھ ہو لیے تھے، میں نے پرندوں کو چھوڑ دیا۔ کئی لوگوں نے کہا کہ قناریاں بھوکی مر جائیں گی، گوریوں کو شکرا کھا جائے گا، طوطا اس علاقے میں زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن میں ان کی باتوں پر دھیان دیے بغیر پرندوں کو آزاد کر کے خالی پنجرے گھر لے آیا۔
میرے اپنے شہر میں بہت سے لوگ کرک پالتے تھے۔ یہ پرندہ درخت پر نہیں بیٹھتا بلکہ میدانوں اور کھیتوں میں رہتا ہے۔ اس کی رنگت خاکی اور جسامت کبوتر سے کم ہوتی ہے، جنگلی جھاڑیوں اور گیہوں کے کھیتوں میں انڈے دیتا اور بچے پالتا ہے۔ اس کا شکار کرنے والے جس کھیت میں اس کی آواز سنتے ہیں اس کے قریب ہی جال بچھا دیتے ہیں۔ پھر اپنے ساتھ لائے ہوے سامان کی مدد سے ایسی آواز پیدا کرتے ہیں جو اس کی مادہ کی آواز سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ بےچارہ پرندہ آواز کی طرف بڑھتا ہے اور ناگہاں جال میں پھنس جاتا ہے۔ تب اس کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر لیتے ہیں۔ یہ اسیر پرندہ دن رات پنجرے کے درودیوار پر ٹکریں مارتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر اور پروں سے خون بہنے لگتا ہے، اور لوگ اس کو تلف ہونے سے بچانے کے لیے پنجرے کی دیواریں سوت کی جالی سے بناتے ہیں۔ گرمی کے دنوں میں سویرے تڑکے جب دھندھلکا چھایا ہوتا ہے اور صبح کی نرم ہوا چل رہی ہوتی ہے، کرک بولتا ہے۔ اس کی آواز میں تمنا، یاس اور التجا ہوتی ہے۔ میں نے کرک کا سا آزادی کا جویا کوئی پرند ہ نہیں دیکھا۔ یہ کبھی پنجرے سے مانوس نہیں ہوتا، ہمیشہ باہر کی سمت دیکھتا رہتا ہے اور ہمیشہ پنجرے کی جالیوں سے سر ٹکراتا رہتا ہے۔
میں نے فیصلہ کر لیا کہ سب کرکوں کو آزاد کر کے رہوں گا۔ اپنی املاک سے میری یافت بہت تھی اور اس کی بدولت اپنے فیصلے پر عمل کرنا میرے لیے بہت آسان ہو گیا، اتنا کہ کچھ عرصے کے اندر اس شہر میں ایک بھی ایسا پنجرہ نظر نہیں آتا تھا جس میں کوئی پرندہ قید ہو۔ اب کسی کو پنجرے کے اندر سے بلبل کی آواز، قناری اور طرقے کی چہچہاہٹ، طوطے کی بولی سنائی نہیں دیتی تھی۔ اب صبح کی ٹھنڈی ہوا میں گھروں کے اندر سے آتی ہوئی کرک کی فریاد کانوں تک نہیں پہنچتی تھی۔ ہم دیکھتے تھے کہ قمریاں چھتوں پر بیٹھی ہوئی ہیں اور طوطے شہر کے باغوں میں اونچے درختوں پر سے ایک دوسرے کو آوازیں دے رہے ہیں۔
جب میں اپنے گھر میں خالی پنجروں کو دیکھنا شروع کرتا تو مجھ پر ایک کیف و نشاط کا عالم طاری ہو جاتا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ دنیا میں اکیلا میرا ہی شہر نہیں ہے۔ اور جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک میری عمر ختم نہیں ہوتی، میرا کام بھی باقی ہے۔ مجھے دورافتادہ قریوں اور شہروں، زخار سمندروں کے دوردست جزیروں، تپتی ہوئی زمینوں، سر بہ فلک برف آلود پہاڑوں سے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر پنجرے لانا ہیں۔ ذخیرے کو مکمل ہونا چاہیے، ذخیرے میں ہر نمونہ موجود ہونا چاہیے۔ میرا ذخیرہ تو محض مقامی تھا اور اس کی میری نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔
تو میں نے سفر کا سامان کیا اور دوسرے ملکوں کی سیاحت کے لیے روانہ ہوا۔ جس طرح شہر بہ شہر لوگوں کی زبان، لہجے، شکل صورت، رسم و رواج میں تبدیلی ہوتی جاتی ہے اسی طرح الگ الگ شہروں کے پنجروں کی ساخت اور پرندوں کی قسموں میں بھی فرق آ جاتا ہے۔ جس چیز میں فرق نہیں آتا وہ انسان کا یہ شوق ہے کہ پنجرے بنائے اور حیوانوں کو اسیر کرے۔ ہر جگہ طرح طرح کی شکلوں والے پنجروں کی کثرت تھی اور ان سب پنجروں میں رنگ رنگ کے پرندے، بھانت بھانت کے جانور نظر آتے تھے کہ یا تو ایک کونے میں سمٹے ہوے پڑے ہیں یا چیخ رہے ہیں۔
ایک شہر میں مجھے لومڑی کا ایک لاغر اور کم زور بچہ پنجرے میں بند نظر آیا۔ اس کے بال جھڑ رہے تھے اور اس کی سوجی ہوئی سرخ کھال نیچے سے جھلک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ میں نے اسے پنجرے سمیت خرید لیا۔ اس کا فروخت کر لینا اس کے مالک کے لیے ایسی امید کے خلاف بات تھی کہ وہ حیران تھا، اور خوش تھا۔ میں نے پنجرہ صحرا میں لے جا کر لومڑی کے بچے کو ٹیلوں کے درمیان چھوڑ دیا۔ اس کا پنجرہ بہت بھاری، غلیظ اور متعفن تھا۔ اس کا ساتھ لانا دشوار اور بےکار تھا، اس لیے میں نے اسے وہیں توڑ کر جلا دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ سارے پنجروں کو ساتھ لانا مجھ سے ممکن بھی نہ تھا۔ لہٰذا میں ہر جگہ کے صرف دو ایک خاص پنجرے چھانٹ کر رکھ لیتا اور بقیہ کو ضائع کر دیتا۔ میں ایک مشہور آدمی ہو چکا تھا، وہ آدمی جو پرندوں کو آزاد کرتا ہے، پنجروں کو توڑ ڈالتا ہے یا ساتھ لے جاتا ہے۔ میری خوشی کا یہی واحد ذریعہ تھا کہ جہاں سے میں گذرتا تھا، میرے پیچھے کوئی پنجرہ اور اس میں فریاد کرتا ہوا کوئی جانور، کوئی پرندہ باقی نہیں رہتا تھا۔
تماشائی! تو اس عجائب خانے میں پنجرے دیکھ رہا ہے۔ ان کی تعداد ہزاروں سے اوپر ہے۔ میں نے انھیں دور دور کے شہرودیار سے لا کر جمع کیا ہے۔ اپنے امکان بھر میں ہر جگہ پہنچا اور زیادہ سے زیادہ پنجرے حاصل کرنے کی دھن میں ہر سرزمین کی سیر کی۔ تو اس عجائب گھر میں ایک پنجرے کے سامنے پہنچے گا جو بہت شان دار اور خوش نما ہے، بہترین لکڑی سے بنایا گیا ہے، ایک چابک دست استاد کی مہارت کا نمونہ ہے۔ اس کو سیپ کے ٹکڑوں، چاندی کی کیلوں اور سونے کے چھلوں سے منقش کیا گیا ہے۔ اس کے حلقوں اور خانوں پر کندہ کاری کی گئی ہے۔ اسے پھول پتیوں اور دل کش وضعوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ ایک دن تھا جب اس پنجرے میں ایک مینا بند تھی۔ میں نے اسے یہاں سے بہت دور ایک جگہ دیکھا تھا۔ حسین مینا تھی، سیاہ رنگ، چونچ اور پنجے زرد اور سڈول۔ وہ لگاتار پنجرے میں ادھر سے ادھر پھر رہی تھی۔ اڈے پر اس کو چین نہ تھا، باربار سیٹیاں سی بجاتی اور اس کی تیز آواز دور تک سنائی دیتی تھی۔ میں اسے بڑی منت سماجت کے بعد خرید پایا۔ اس کا مالک اتنے خوب صورت پرندے کو ہاتھ سے دینا نہیں چاہتا تھا، مگر آخر راضی ہو گیا۔ میں نے اس کے سامنے ہی پنجرے کا در کھول دیا۔ مینا پر پھڑپھڑا کر نکلی اور پاس کے ایک درخت پر جا بیٹھی۔ اس کے دوسرے دن وہیں مجھے ایک اور مینا نظر آئی، اتنی ہی بڑی اور اسی وضع قطع کی۔ میں نے اسے بھی خریدا اور آزاد کر دیا۔ تین دن میں تین دفعہ یہی واقعہ پیش آیا۔ چوتھے دن مجھے شبہ ہوا کہ شاید میں اسی ایک پرندے کو چوتھی مرتبہ خرید رہا ہوں۔ اس لیے اب کی بار میں نے پنجرے اور مینا کو ساتھ لیا اور اس شہر سے روانہ ہو گیا۔
راستے میں ایک جنگل کے پاس رک کر میں نے پنجرے کا دروازہ کھولا، مینا آہستہ سے پنجرے کے اڈے پر سے اتری، کچھ دیر تک دروازے پر رکی رہی، اس کی نظر درختوں پر جمی ہوئی تھی، شاخوں میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ذرا سی ہچکچاہٹ کے بعد اچانک مینا نے پر کھول دیے اور جنگل میں غائب ہو گئی۔
غیر ملکوں اور اجنبی سرزمینوں کی سیاحت میں مجھے برسوں لگ گئے۔ بیس سال سے زیادہ عرصے تک میں ملکوں ملکوں شہروں شہروں سرگرداں رہا۔ پنجرے دیکھے، ان میں محبوس جانور اور پرندے دیکھے، پنجرے خرید لیے، جانوروں کو چھوڑ دیا، پرندوں کو اڑا دیا۔ خالی پنجرے جتنے لا سکا ساتھ لایا۔ باقی کو توڑ ڈالا، پانی میں ڈبو دیا، آگ میں جلا دیا۔
آخر برسوں کے بعد، جب میرے بال سفید ہو چکے تھے، امنگ،جوانی، زندگی کا ولولہ سب ختم ہو چکا تھا، ایک دن ہزارہا پنجروں کے ساتھ لداپھندا میں اپنے شہر واپس پہنچا۔ میں بہت خوش تھا کہ دنیا میں پنجروں کا سب سے بڑا ذخیرہ میرے پاس ہے۔
لیکن واپس آنے کے پہلے ہی دن مجھے ہر دکان پر اور ہر مکان میں پنجرے نظر آئے۔ ان پنجروں میں رنگارنگ پرندے گردن ڈالے اڈوں پر بیٹھے تھے۔ پرندے پنجروں کے درودیوار سے سر ٹکرا رہے تھے۔ کرک کی التجائیں، طوطے کی چیخیں، قناری کی فریادیں پہلے سے زیادہ تیز تھیں۔ پنجرے اور ان میں اسیر حیوان لوگوں کی دولت و ثروت کا نشان تھے۔ بہت ایسے تھے کہ انھیں کے ذریعے روزی کماتے تھے، بہت ایسے تھے کہ خوب صورت پنجروں، نایاب پرندوں، گھنے پروں والی مضبوط قناریوں، خوش آواز کرکوں اور پڑھائے ہوے طوطوں کے مالک ہونے پر فخر کرتے تھے۔
پھر، اب میں کیا کرتا؟ نئے سرے سے سب کو خریدنا اور آزاد کرنا شروع کرتا؟ نہیں، وقت گذر چکا تھا۔ میری زندگی کے کتنے برس اسی دھن میں نکل گئے اور اس تمام کوشش اور دوادوش کے بعد میں دیکھ رہا تھا کہ پنجروں کی تعداد پہلے سے بھی بڑھی ہوئی اور پرندوں کی فریاد پہلے سے بھی زیادہ دل خراش ہے۔ سکھائے ہوے سہرے ایک شاہدانے کی خاطر مجبور ہیں کہ چونچ سے لفافے کھولیں اور ان میں سے لوگوں کی تقدیر کے نوشتے باہر نکالیں۔ میں نے دیکھا کہ کرکوں کے سر لہولہان ہیں، مینائیں پنجروں کی دیواروں پر ٹکریں مار رہی ہیں، قناریوں کے پر جھڑ رہے ہیں اور بلبلیں پنجروں کے گوشوں میں سر جھکائے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ طرقے آئینے کے سامنے کھڑے اپنے جوڑے کی آرزو میں چیخ رہے ہیں اور اونگھتی ہوئی گوریاں ہر روز پنجرے کے در پر بھکارنوں کی طرح اپنے راتب کی منتظر ہیں۔
تماشائی! تو جو اس شہر یا کسی اور شہر سے یہاں کی سیر کرنے آیا ہے، اس بڑے پنجرے میں ہزاروں پنجرے دیکھتا ہے اور اچانک سوچنے لگتا ہے کہ تو خود اس پنجرے کا قیدی ہے۔ تو ان خالی پنجروں کو دیکھتا ہے اور ان حیوانوں کا تصور کرتا ہے جو ان میں رہ کر سختیاں اٹھا چکے ہیں۔ تو دروازے کی طرف جاتا ہے۔ تیرے دل میں ایک خوف ہے۔ اگر دروازہ بند ہوا، اگر کٹہرے کی سلاخیں تنگ اور مضبوط ہوئیں تو تُو یہیں پھنس کر رہ جائے گا۔ چیخے گا، مدد کے لیے پکارے گا مگر کوئی سننے والا نہیں، کوئی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ تو، تنہا اور مجبور، سلاخوں کے پیچھے سے، پنجرے کے اندر سے باہر کا عالم دیکھ رہا ہے۔ آسمان پر بادل دوڑ رہے ہیں، دریاؤں اور ندیوں میں پانی بہہ رہا ہے، ہوائیں اور آندھیاں پہاڑوں پر، دشت میں چل رہی ہیں، گونج رہی ہیں۔ چڑیاں آزادی کے ساتھ اڑ رہی ہیں، لوگ آ جا رہے ہیں اور تُو نامعلوم مدت کے لیے اس پنجرے میں اسیر ہے۔ تیرے چہرے پر پسینہ آ جاتا ہے، تیرے پیروں کی طاقت سلب ہو جاتی ہے اور تیرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ تو چاہتا ہے کہ سلاخوں کو گرفت میں لے کر آخری کوشش کرے، لیکن سلاخیں مضبوط ہیں اور تیرے بازو شل۔
تماشائی! ہراساں نہ ہو۔ اس پنجرے کا دروازہ ہرگز بند نہ ہو گا۔ تو جب چاہے بڑی آسانی کے ساتھ ان سلاخوں کے باہر جا سکتا ہے۔
تو اے تماشائی، تو بلاخطر پہلی اور دوسری منزلوں سے گذر کر اس پنجرے کی تیسری منزل پر چلا جا۔ یہاں بھی تجھے جگہ جگہ پنجرے نظر آئیں گے۔ لیکن اصلی پنجرہ، بڑا پنجرہ، چھت کے کڑے سے فانوس کی طرح لٹکا ہوا ہے۔ یہ پنجرہ فن کا شاہکار ہے اور بہترین کاریگروں نے کئی سال تک مسلسل اس پر محنت کی ہے۔ اس کے نقش و نگار دیکھ، اس کے بیل بوٹوں کے پیچ و خم دیکھ، کس کمال کے ساتھ لوہے میں پیوست کیے گئے ہیں؛ سونے کے بنے ہوے ان پرندوں کو دیکھ جو پنجرے کے باہر کی چھت اور سلاخوں پر بیٹھے ہیں۔
پھر پنجرے کے اندر دیکھ۔ تعجب نہ کر۔ جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے، ایک انسان کا پنجر ہے۔ میرے لیے ممکن نہ تھا کہ خود کو کسی پنجرے میں قید کروں اور پھر خود ہی اپنا تماشائی بنوں، اس لیے میں گیا اور سچ مچ کا انسانی پنجر لے آیا۔ میں نہیں جانتا یہ کس کا پنجر ہے۔
میں نے وصیت کر دی ہے کہ جب میں مر جاؤں تو میرے جسم کو جلا دیا جائے اور میری راکھ کسی برتن میں بھر کر اسی پنجرے میں رکھ دی جائے۔ اگر میری وصیت پر عمل کیا گیا ہو گا تو تو اسے دیکھے گا۔
اور تماشائی جب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچتا ہے تو اس کو بہت بڑا اور شان دار نقش و نگار سے آراستہ پنجرہ اونچی چھت سے لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ پنجرہ کھڑکیوں سے آنے والی ہوا میں ہلتا رہتا ہے، اور جو انسانی پنجر اس میں بند ہے، اس کے ہاتھ پیروں اور کمر میں کمانیاں لگا کر اسے سلاخوں میں اس طرح باندھا گیا ہے کہ وہ پنجرے میں ادھر سے ادھر چکر لگاتا رہتا ہے۔ اور تماشائی جب غور سے دیکھتا ہے تو اسے شیشے کا ایک سربند مرتبان بھی نظر آتا ہے جس میں کچھ راکھ اور جلی ہوئی ہڈیوں کے ٹکڑے بھرے ہیں۔
ترتیب: اجمل کمال
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں