بین الاقوامی ادب کے شائقین جانتے ہیں کہ بورخیس کے موضوعات معانی کا ایک سمندر ہیں اور وہ تاریخ، اساطیر، فلسفہ، مذہب اور ریاضی وغیرہ سے تصورات مستعار لیتے ہوئے عمومی طور پر طلسماتی حقیقت نگاری (magical realism) کی ادبی روایت میں کہانی اور کردار تخلیق کرتے ہیں۔ادبی نقادوں کے نزدیک ان کی شاعری اسپینوزا(Spinoza) اور ورجل (Vergil)سے ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ وجودیاتی فلسفے میں بورخسی معمّہ (Borgesian Conundrum) ان سے منسوب ہے جو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا ادیب کہانی تخلیق کرتا ہے یا پھر کہانی اسے تخلیق کرتی ہے؟ مگر معانی کے اس سمندر میں ایک قاری کی حیثیت سے غواصی ایک مترجم کی رسائی سے کہیں مختلف ہے۔ محمد حسن عسکری نے ترجمے کے باب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ترجمہ بعینہٖ ایک دوسری روایت کی ترجمانی شاید ہی کر سکتا ہے لہٰذا وہ اصل کی نسبت ایک اور تخلیق کو جنم دیتا ہے اور کم سے کم درجے میں اسے اس نئی روایت میں کچھ نہ کچھ تو بن ہی جانا چاہئے۔ میری ناقص رائے میں یہ پیش کش بورخیس کی طلسماتی حقیقت نگاری کو پہلے سے موجود بہت سی کوششوں کے ساتھ اردو روایت میں کچھ نہ کچھ بنانے کی ایک اوراپنی سی کوشش ہے۔(عاصم بخشی)
بابل کا کتب خانہ
اس فن کے ذریعے تم تئیس حروف کے تغیرات پر غور کر سکتے ہو۔۔۔۔( تشریح ِافسردہ خیالی از رابرٹ برٹن)
کائنات (جسے دوسرے کتب خانہ کہتے ہیں) ایک لاتعداد بلکہ شاید لامتناہی گردشی راہداریوں پر مشتمل ہے۔ہر راہداری کے وسط میں ایک ہوادان ہے جو ایک پست احاطے پر ختم ہوتا ہے۔کسی بھی مسدس سے اوپر اور نیچے جاتی یکے بعد دیگرے لا انتہامنزلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔راہداریوں کی ترتیب ہمیشہ سے یکساں ہے: کتابوں کی بیس الماریاں، مسدس کی چھ اطراف میں چوتھی قطار کے ہر طرف پانچ ، الماریوں کی اونچائی زمین تا چھت ایک عام کتاب دان کے قد سے شاید کچھ ہی زیادہ۔ مسدس کے آزاد اضلاع میں سے ایک ضلع تنگ سی ڈیوڑھی میں کھلتا ہے، جو ایک اور راہداری میں کھلتی ہے جو بعینہ پہلی ، بلکہ ہر ایک جیسی ہے۔ڈیوڑھی کے دائیں اوربائیں دو ننھی سی کوٹھڑیاں ہیں۔ ایک سونے کے لئے، بالکل سیدھے اور دوسری رفع حاجت کیلئے۔یہاں سے بھی ایک مرغولہ نما زینہ گزرتا ہے جو اوپر نیچےدور تک چکر کھاتا چلا جاتا ہے۔ڈیوڑھی میں ایک آئینہ وفاداری سے تمام منظر کی عکاسی کرتا ہے۔انسان اکثر اس آیئنے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کتب خانہ لامتناہی نہیں کیونکہ اگر وہ ایسا ہوتا تو اِس پُر فریب عکاسی کی کیا ضرورت ؟ میں اس تصور کو ترجیح دیتا ہوں کہ صیقل سطحیں لامتناہیت کا خاکہ اور امید ہیں۔۔۔روشنی کچھ ایسے کرّوی پھلوں سے فراہم کی جاتی ہے جنہیں ’’بلب‘‘ کہتےہیں۔ ہر مسدس میں ایسے دو بلب آرپار آویزاں ہیں۔ ان کی فراہم کردہ روشنی ناکافی اور دائمی ہے۔
کتب خانے کے تمام باشندوں کی طرح میں نے بھی اپنی جوانی میں سفر کیا۔ میں کتاب کی تلاش میں منزلوں پر منزلیں،یا شاید فہرستوں پر فہرستیں طے کرتا رہا۔ اب جب کہ میری آنکھیں میری اپنی تحریر بھی بمشکل پڑھ سکتی ہیں ، میں اس مسدس سے، جو میری جائے پیدائش ہے، کچھ ہی کوس دور مرنےکی تیاری کر رہا ہوں۔میری موت واقع ہونے پر ہمدرد ہاتھ مجھے احاطے سے نیچے پھینک دیں گے، اتھاہ ہوا میرا مقبرہ ہو گی، میرا جسم زمانوں ڈوبتا رہے گا اور آخر کار میرے گرنے سے وجود میں آتی لامتناہی ہوا میں گل سڑ کے گھل جائے گا۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ کتب خانہ بے انت ہے۔مثالیت پسندوں کا دعوٰی ہے کہ مسدس کمرے مکان ِ مطلق کی ناگزیر صورت ہیں یا کم از کم ہمارے ادراکِ مکان کی۔ان کا دعوٰی یہ ہے کہ ایک تکون یا مخمس کمرہ ناقابل تصور ہے۔ (عارفوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا وجد ایک دائری کمرے کا وجودو افشا کرتا ہے جس میں ایک ضخیم گول کتاب موجود ہے جوجس کا مسلسل پشتہ دیواروں کے دائرے کا چکر مکمل کرتاہے ۔مگر ان کی شہادت مشتبہ ہے اور ان کےالفاظ مبہم۔یہ دائرو ی کتاب خدا ہے۔) ایک لمحے کے لئے اس مستند اظہار پر اکتفا ءکیجئے جسے میں یوں دہراتا ہوں: کتب خانہ ایک کرّہ ہے جس کا مرکز کوئی بھی مسدس ہے اور جس کا محیط ناقابلِ رسائی۔
ہرایک مسدس کی ہر دیوار پانچ کتابی الماریوں سے مزین ہے، ہر کتابی الماری میں یکساں وضع کی بتیس کتابیں موجود ہیں، ہر کتاب کے چار سو دس صفحات ہیں، ہر صفحہ پر چالیس سطریں اور ہر سطر میں تقریباً اسی سیاہ حروف۔ ہر کتاب کے سرورق پر بھی حروف کندہ ہیں۔ یہ حروف نہ تو نشاندہی کرتے ہیں اور نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ اندر کے صفحات میں کیا ہے۔مجھے علم ہے کہ تبادلہ و ابلاغ کا فقدان کبھی انسانوں کو پر اسرار لگتا تھا۔ اس راز کے حل کا خلاصہ پیش کرنے سے قبل (جس کی دریافت المناک نتائج کے باوجود شاید تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے) میں کچھ بدیہی مسلمات دہرانا چاہتا ہوں۔
اول: کتب خانہ ازل سے موجود ہے۔یہ صداقت جس کا لازمی نتیجہ دنیا کی آنے والی ابدیت ہےکوئی معقول ذہن نہیں جھٹلا سکتا۔انسان، ایک غیر کامل کتابدار، یاتوشاید اتفاقات کا حاصل یا پھر بد باطن دیوتاؤں کی تخلیق ہوسکتا ہے ، مگر کائنات اپنی شاندار ترتیب ، یعنی اپنی کتابی الماریوں، چیستانی کتب،مسافر کے لئے اپنے بے تکان زینوں، اور براجمان کتابدار کے لئے اپنی آبی طہارت گاہوں کے ساتھ ، کسی خدا ہی کی صناعی ہو سکتی ہے۔ اگر انسان اور ہستئ مطلق کے درمیان فاصلے کو ذہن کی گرفت میں لانا مقصود ہو تو صرف ان تھرتھراتی ہوئی خام علامتوں کا موازنہ کرلیجئے جنہیں میرے مائل بہ خطا ہاتھ بدخطی سے ایک کتاب کے سرورق پر لکھ رہے ہیں جس کے اندر نامیاتی حروف موجودہیں، صاف ستھرے، نازک، گہرے سیاہ اور بے نظیر تناسب کے ساتھ۔
دوم: ابجدی علامات پچیس ہیں(اصل مسودے میں نہ تو اعداد ہیں اور نہ ہی حروف جلی، رموز اوقاف واوین اور وقفوں تک محدود ہیں۔یہ دو نشانات، فاصلہ اور بایئس حروف ابجد وہ پچیس علامات ہیں جن کی طرف ہمارا نامعلوم مصنف اشارہ کر رہا ہے۔مدیر)۔تین سو سال قبل اس دریافت نے انسانیت کو ایک عمومی نظریہ ء کتب خانہ تشکیل دینے کے قابل کیا اور اس طرح اس پہیلی کو حل کر دیا جس کا بھید آج تک کوئی قیاسی مفروضہ نہ کھول سکا تھا یعنی تقریبا تمام کتب کی ایک بے شکل اور منتشر ہئیت۔ایک کتاب جسے ایک دفعہ میرے والد نے ۹۴۔۱۵ نمبر گردش کی ایک مسدس میں دیکھا تھا صرف حروف’’ م۔ک۔و ‘‘ پر مشتمل تھی جو پہلی سے آخری سطر تک کج روی سے دہرائے گئے تھے۔ایک اور (جس سے اس حلقے میں کافی راہنمائی لی جاتی ہے) فقط حروف کی بھول بھلیوں پر مشتمل ہے جس کےآخری سے پہلے صفحے پر یہ عبارت درج ہے: ’’اے وقت تیرے مزار‘‘۔اتنا معلوم ہے کہ ہر معقول سطر یا بے باک بیان کے عوض بے معنی کریہہ الصوتی، لفظی لغویات اور بے ربطی کے مجموعے ہیں۔(میں ایک ایسے نیم وحشی حلقے سے باخبرہوں جہاں کے کتابدار کتابوں میں مفہوم تلاش کرنے کی ’’بے ثمر اور ضعیف الاعتقاد‘‘ عادت کو مسترد کرتے ہیں اور ایسی کسی بھی جستجو کو خوابوں اور کسی ہاتھ کی منتشر لکیروں میں معانی ڈھونڈنے کے برابر سمجھتے ہیں۔وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ تحریر کے موجدین نے پچیس فطری علامات کی نقل کی مگر ان کا دعوٰی ہے کہ اپنانے کا یہ عمل بے سبب اور اتفاقیہ تھا اور یہ کہ کتابیں فی نفسہٖ معانی نہیں رکھتیں۔یہ دلیل جیسا کہ ہم دیکھیں گے مکمل طور پر مغالطہ آمیز نہیں ہے۔)
کئی سال تک یہ مانا جاتا رہا کہ یہ ناقابل نفوذ کتابیں قدیمی یا دوردراز کی زبانوں میں ہیں۔یہ سچ ہے کہ کئی قدیم لوگ یعنی کہ اولین کتابدار ہماری رائج بولی سے بہت مختلف زبان استعمال کرتے تھے، یہ بھی سچ ہے کہ یہاں سے کچھ کوس دائیں ہماری زبان لہجوں میں ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے اور نوے منزلیں اوپر یہ بالکل ناقابل فہم ہو جاتی ہے۔میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ یہ سب سچ ہے لیکن چار سو دس غیر متغیر ’’ م۔ک۔و ‘‘ کسی بھی زبان سے تعلق نہیں رکھ سکتے، چاہےلہجہ کتنا ہی مختلف یا غیر متمدن کیوں نہ ہو۔کچھ لوگوں کی تجویز یہ ہے ہر حرف اگلے پر اثر ڈالتا ہے اور ’’ م۔ک۔و ‘‘ کی جو قیمت صفحہ ۷۱سطر۳ پر ہے وہ کسی اور صفحہ اور سطر پر اسی سلسلے کی قیمت سے مختلف ہے، مگر یہ مبہم نظریہ کچھ زیادہ مقبول نہیں ہو سکا۔ اس کے برعکس دوسروں نے کسی خفیہ لغت کا امکان ظاہر کیا ہے اور یہ قیاسی مفروضہ بالاتفاق تسلیم کر لیا گیا ہے، گو اس تاثر میں نہیں جس میں اس کے بانیوں نے اولین تشکیل کی تھی۔
لگ بھگ پانچ صد سال قبل کسی مسدس ِبالا(قدیم وقتوں میں ہر تین مسدسوں کی جگہ ایک آدمی تھا۔ خود کشی اور پھیپھڑوں کے امراض نے اس تناسب کو بگاڑ کے رکھ دیا۔ایک ناگفتہ بہ پر ملال یاداشت: میں نے بعض اوقات ایک بھی کتابدار سے مڈبھیڑ ہوئے بغیر، لمبی غلام گردشوں اور صیقل زینوں کے سفرمیں راتیں گزاریں ہیں۔) کے ایک مہتمم کے ہاتھ ایک ایسی کتاب لگی جو باقیوں کی طرح گڈ مڈ توتھی مگر اس کے تقریباً دو صفحات یکساں سطروں پر مشتمل تھے۔اس نے اپنی یہ دریافت ایک رمز شناس مسافر کو دکھلائی جس کی رائے میں وہ سطریں پرتگالی زبان میں تحریر کردہ تھیں، کچھ دوسروں نے کہا کہ یہ یہودی زبان تھی۔ایک صدی کے اندر ہی ماہرین یہ متعین کر دیا کہ وہ زبان اصل میں کونسی تھی: کلاسیکی عربی کی تصریف کے ساتھ گوارانی کا ایک سامویائی لیتھوانی لہجہ(ارجنٹائن کے ایک صوبے میں بولی جانے والی ایک جنوبی امریکی زبان۔)۔اس کے ساتھ ہی مشمولات کا تعین بھی کر دیا گیا: لا انتہا متواتر تغیرات کی مثالوں سے مزین مبادیء علم اتصال۔ان مثالوں کی مدد سے ایک نابغہ کتابدارنے کتب خانے کا بنیادی قانون دریافت کر لیا۔اِس فلسفی نے مشاہدہ کیا کہ تمام کتب چاہے وہ ایک دوسرے سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں یکساں عناصر پر مشتمل ہیں: فاصلہ، وقفہ ، علامتِ وقف اور ابجد کے بائیس حروف۔اس نے مفروضے کے طور یہ واقعہ بھی پیش کیا جس کی توثیق اس دن سے تمام مسافر کرتے آئے ہیں: سارے کتب خانہ میں کوئی دو کتابیں ایک جیسی نہیں ہیں۔ ان غیر متنازعہ مقدمات سے کتابدار نے یہ نتیجہ نکالا کہ کتب خانہ ’’کل‘‘یعنی بے عیب ، مکمل اور پورا ہے ، اور اس کی کتابی الماریاں بائیس (ایک ایسا عدد جو ناقابل تصورہونے کے باوجود لامتناہی نہیں ہے ) حروفی علامات کی تمام ممکنہ ترکیبوں پر مشتمل ہیں، یعنی وہ سب کچھ جو ہر ایک زبان میں قابلِ بیان ہے۔سب کچھ۔۔۔مستقبل کی تفصیلی تاریخ، رؤسائے ملائکہ کی سوانح، کتب خانہ کی قابل ِ اعتماد اور ہزاروں ناقابل ِ اعتماد فہرستیں، ان ناقابلِ اعتماد فہرستوں کے کذب کے ثبوت، درست فہرست کے کذب کا ایک ثبوت، اسکندریہ کے مدرس باسیلیدی (Basilides)سے منسوب غناسطی انجیل(Gnostic Gospel)، اس انجیل کی شرح، اس شرح کے حواشی، آپ کی موت کی سچی کہانی، ہر کتاب کا ہر ایک زبان میں ترجمہ، ہر ایک کتاب کا باقی تمام کتب میں ادراج، سیکسن اقوام کی اساطیری روایت سے متعلق وہ رسالہ جو سینٹ بیڈ(Saint Bede) لکھ سکتا تھا (مگر اس نے نہ لکھا)، رومن مؤرخ تیکیطوس کی گمشدہ کتابیں۔
جب یہ اعلان کیا گیا کہ کتب خانے میں ہر کتاب پائی جاتی ہے تو پہلا ردعمل بے پایاں مسرت کا تھا۔ لوگوں نے اپنے آپ کو ایک محفوظ اور خفیہ خزانے کا مالک سمجھا۔ایسا کوئی انفرادی یا اجتماعی مسئلہ نہ تھا جس کا فصیح و بلیغ حل کہیں کسی مسدس میں نہ پایا جاتا۔ کائنات کا جواز مل گیا، وہ یک لخت انسانی آدرشوں کے غیر محدود طول و عرض سے موافق ٹھہری۔اس وقت ایک ’’مجموعہ برأت‘‘ کا ذکر زبان زدِ عام تھا یعنی غیب گوئی اور بریت کی وہ کتب جو آنے والے ہر زمانے کے لئے کائنات کے ہر انسان کو بری قرار دیں۔انسانوں کے مستقبل کے واسطے یہ ایک حیرت انگیز اکسیرِ اعظم تھا۔ ہزاروں حریص افراد ، اپنی اپنی’’ کتاب برأت‘‘ کو تلاش کرنے کی ایک لاحاصل خواہش سے مغلوب، اپنے پر سکون مسدس چھوڑ کر بالائی اور زیریں منزلوں کی طرف بھاگے۔یہ زائرین تنگ غلام گردشوں میں ایک دوسرے سے جھگڑتے، بدترین لعنتیں بڑبڑاتے، مقدس زینوں میں ایک دوسر ے کا گلا گھونٹتے، پُر فریب جلدیں ہوا دانوں سے نیچے پھینکتے، دور دراز علاقوں کے انسانوں کے ہاتھوں اپنی موت سے جاملے۔ دوسرے اپنے حواس کھو بیٹھے۔۔۔۔’’مجموعہ برأت‘‘ موجود ہے (میں نے اس میں شامل دو کتابیں دیکھی ہیں جومستقبل کے دو ایسےافراد کا ذکر کرتی ہیں جو شاید فرضی نہیں ہیں) مگر اس کی کھوج میں نکلنے والے مہم جو یہ بھلابیٹھے کہ انسان کے ہاتھ اس کی اپنی ’’کتاب برأت‘‘ یا اس کی کسی جعلی نقل لگ جانے کا امکان صفر تھا۔
اسی زمانے میں یہ امید بھی قائم تھی کہ بنی نوع انسان کے بنیادی اسرار یعنی کتب خانہ اور زمان کی ابتداء بھی شاید ظاہر ہو جائیں۔آثار قوی ہیں کہ یہ عمیق راز واقعتاً الفاظ میں بیان کئے جا سکیں ۔ اگر اس کے لئے فلاسفہ کی زبان کافی نہ ہو توعظیم الہیئت کتب خانے نے یقیناً ایسی کسی غیر معمولی زبان کو بمع اس کی لغت اور قواعد کےجنم ضرور دیا ہوگا۔ چار صدیاں لوگ پھرتی کے ساتھ مسدسوں کے چکر کاٹتے رہے۔۔۔سرکاری’’تفتیش کار‘‘ آج بھی موجود ہیں۔ میں نے انہیں اپنے کام میں مصروف دیکھا ہے: وہ تھکے ہارے ، ایک زینے کی بابت بڑبڑاتےہوئے جس نے چند سیڑھیاں نہ ہونے کے باعث انہیں قریباً مارڈالا کسی مسدس پر پہنچتے ہیں ، کتابدار سے احاطوں اور زینوں کے بارے میں بات چیت میں مشغول رہتے ہیں، اور کبھی کبھار کوئی قریبی کتاب اٹھا کر شرمناک اور ذلت آمیز الفاظ ڈھونڈنے کی نیت سے ورق گردانی کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی ان سے کسی دریافت کی امید نہیں رکھتا۔
اس بے لگام امید کے بعد فطری طور پر ایک ویسی ہی غیر متناسب مایوسی نے آلیا۔ یہ یقین کہ کہیں کسی مسدس میں کوئی کتابی الماری قیمتی کتابوں پر مشتمل ہے مگر ان قیمتی کتابوں تک رسائی دائماً ناممکن ، تقریباً ناقابل برداشت تھا۔ ایک گستاخانہ فرقے نے تجویز دی کہ تلاش ترک کر دی جائے اور تمام لوگ حروف اور علامات کی ترتیب بدلتے رہیں یہاں تک کہ وہ تفویض کردہ کتابیں حادثاتی طور پر متشکل ہو جائیں۔حکام کو سخت احکامات صادر کرنے پڑے۔فرقہ تو معدوم ہو گیا مگر میں نے اپنے بچپن میں دھاتی طبق اور پانسے کی ڈبیا لئے کئی بوڑھے آدمیوں کو بیت الخلاء میں چھپے، خدائی بے ترتیبی کی دھیمی نقالی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
دوسروں نے بالکل الٹ سمت اپناتے ہوئے یہ سوچا کہ پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام بے مصرف کتابوں کو تلف کر دیا جائے۔وہ مسدسوں پر آ دھمکتے، اپنے وثیقہء تقرر دکھاتے جو ہمیشہ غلط نہیں ہوتے تھے، نفرت سے ایک جلد کے صفحے پلٹتے اور کتابوں کی پوری دیوار کے خلاف فیصلہ صادر کر دیتے۔لاکھوں جلدوں کا احمقانہ ضیاع انہی کے صحت بخش اور زاہدانہ طیش کا مرہونِ منت ہے۔ان کا نام آج مطعون ہے مگر وہ جو ان ’’خزانوں‘‘ کی اس جنونی تباہی کے غم میں الم زدہ ہیں، دو عمومی طور پر تسلیم شدہ واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہیں: اول کہ کتب خانہ اتنا وسیع ہے کہ انسانی ہاتھوں کسی بھی قسم کی کمی بے وقعت ہے۔اور دوم یہ کہ گو ہر کتاب بے مثل اور بے بدل ہے، لیکن (چوں کہ کتب خانہ کل ہے) ہمیشہ کچھ لاکھ ناقص ہو بہو نقلیں موجود ہوتی ہیں جو اصل سے ایک حرف یا ایک علامت وقف سے زیادہ مختلف نہیں۔ عمومی رائے کے باوجود میں یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ ’’مخلصین‘‘ کی غارت گری کےاثرات میں مبالغہ کی وجہ وہ دہشت ہے جو انہی جنونیوں کا فیضان ہے۔ایک مقدس اشتیاق سے متحرک وہ اس کوشش میں سرگرم تھے کسی دن انتھک کوشش سے وہ’’ ارغوانی مسدس ‘‘ کی کتابوں تک پہنچ جائیں گے یعنی قدرتی کتابوں سے چھوٹی ، قادرِ مطلق، منقش اور طلسماتی کتابیں۔
ہمیں اس زمانے کی ایک اور ضعیف الاعتقادی کا بھی علم ہے یعنی ایک ’’کتابی انسان‘‘ نامی ہستی پر اعتقاد۔یہ مفروضہ پیش کیا گیا کسی مسدس کی کسی الماری میں کہیں ایک کتاب ایسی ہونی چاہیئے جو بقیہ تمام کتابوں کی کنجی اور بے عیب تلخیص ہو اور کسی کتابدار نے ضرور اس کا معائنہ کیا ہو گا۔ یہ کتابدار خدا کا مثیل مانا جاتا تھا۔اس حلقے کی زبان میں آج بھی اس فرقے کی سراغ مل جاتے ہیں جو اس دور دراز کتابدار کو پوجتا تھا۔کئی لوگ اس کی تلاش میں نکلے ۔پورے سو سال لوگوں نےلاحاصل تلاش میں ہر ممکن راستے اور ہر ایک راستے کی خاک چھانی۔ کسی ایسی مقدس خفیہ مسدس کو کوئی کیسے تلاش کر سکتا ہے جس نے متلاشی ہی کو اوٹ دے رکھی ہو؟کچھ نے تلاش کے لئے بتدریج تنزلی کا طریقہ تجویز کیا: کتاب’’ الف‘‘ تلاش کرنے کے لئے پہلے کتاب ’’ب‘‘ سے رجوع کیا جائے جو کتاب’’ الف‘‘ تک راہنمائی کرے، کتاب’’ب‘‘ تلاش کرنے کے لئے پہلے کتاب ’’ج‘‘ سے رجوع کیا جائے، اور اس طرح لاانتہا۔۔۔اسی قسم کے جوکھم ہیں جن میں پراگندہ حال ، میں نےاپنے ماہ و سال صرف کئے۔میں اسے خلاف قیاس نہیں سمجھتا کہ ایسی کو ئی’’کل کتاب‘‘(میں دہراتا ہوں: ایک کتاب کے موجود ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ممکن ہو۔ صرف ناممکن مستثنٰی ہے۔مثال کے طور پر کوئی کتاب ایسی نہیں جو زینہ بھی ہو گو بے شک ایسی کتابیں موجود ہیں جو اس امکان کے بارے میں بحث کرتی ہیں اوراس کا رد و اثبات کرتی ہیں ، علاوہ ازیں دوسری ہیں جن کی ساخت ایک زینے سے مشابہ ہے۔) کائنات میں کسی الماری میں موجود ہو۔میں نامعلوم خداؤں سے دعاگو ہوں کہ کوئی انسان، بے شک صرف ایک انسان ایسا ہو جس نے بیسیوں صدیاں پہلے احتیاط سے جانچ کر اُس کتاب کا مطالعہ کیا ہو۔اگر ایسے کسی مطالعے سے حاصل ہونے وا لی عزت، حکمت اور مسرت میری قسمت میں نہیں تو دوسروں کے لئے تو ہو۔جنت موجود ہونی چاہئے بھلے میرا ٹھکانہ جہنم ہو۔چاہے تعذیب، اذیت اور نیست و نابود ہونا میرا مقدر ٹھہرے مگر فقط ایک ساعت، ایک مخلوق ایسی ہو جس میں تیرا ضخیم و جسیم کتب خانہ اپنا جواز پا سکے۔
بےاعتقادوں کا دعوٰی ہے کہ کتب خانے کا قاعدہ ’’ معنی‘‘ نہیں بلکہ ’’بےمعنی‘‘ ہے اور معقولیت (یہاں تک کہ عاجز، خالص مطابقت) تقریباً معجزانہ استثناء ہے۔ مجھے علم ہے کہ وہ ’’ایک بے چین کتب خانے ‘‘ کےمتعلق بات کرتے ہیں ’’جس کی بے قاعدہ جلدیں مسلسل دوسری جلدوں کی ہئیت میں ڈھل جانے کی دھمکی دیتی رہتی ہیں تاکہ تمام اشیاء کا رد ّو اثبات کیا جا سکے اور انہیں درہم برہم ، منتشر اور مبہم کیا جا سکے، جیسے کوئی دیوانی اور پراگندہ الوہیت ہو۔‘‘ یہ الفاظ جو نہ صرف بے ترتیبی کو مشتہر کرتے بلکہ اس کی نظیر بھی پیش کرتے ہیں، بے اعتقادوں کے تأسف انگیز ذوق اور یاسیت انگیز جہالت کا بیّن ثبوت ہیں۔کیوں کہ کتب خانہ میں گو تمام لفظی ڈھانچے موجود ہیں، یعنی پچیس حروفی علامات کے تمام ممکنہ تغیرات، اس میں کوئی ایک بھی مطلقاً نامعقول نمونہ موجود نہیں۔یہ مشاہدہ بے معنی ہے کہ میری زیر نگرانی تمام مسدسوں میں موجود بہترین جلد کا عنوان ’’بل کھاتی گرج‘‘ ہے، یا ایک اور کا عنوان ’’پلستر زدہ شکنجہ‘‘ یا ایک اور ’’ایکساایکساایکساز ملو‘‘ ہے۔یہ عبارتیں جو کہ پہلی نظر میں مہمل لگتی ہیں بلا شک و شبہ ایک رمزی یا تمثیلی ’’مطالعہ‘‘ کا موضوع بن سکتی ہیں۔ وہ مطالعہ یعنی کہ لفظوں کی ترتیب اور وجود کا وہ جواز ، بذاتِ خود لفظی اور فرضی ہے اور کتب خانے کے اندر ہی کہیں موجود ہے۔حرفی علامتوں کی کوئی ممکنہ ترکیب مثلاً ’’دحکمرلکھتدج‘‘ تخلیق نہیں کی جا سکتی جو مقدس کتب خانے کی پیش بینی سے بعید ہو اور جو اپنے ایک یا ایک سے زیادہ خفیہ لہجوں میں کوئی ہولناک مفہوم نہ رکھتی ہو۔ایسا کوئی صوتی پیکر منہ سے نہیں اگلا جا سکتا جو نزاکت یا دہشت سے لبریز نہ ہو، جو ان میں سے کسی بھی زبان میں خدا کا اسمِ اعظم نہ ہو۔ بات کرنا ایسے ہی ہے جیسےتکرار معنی ۔یہ بے معنی لفّاظ مراسلہ پہلے ہی سے لاتعداد مسدسوں میں سے کسی ایک کی پانچ الماریوں میں رکھی گئی تیس میں سےکسی ایک جلدمیں موجود ہے۔(تمام ممکنہ زبانوں کی کوئی ایک تعداد ’’لا‘‘ یکساں ذخیرہء الفاظ پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند کے اندر علامت ’’کتب خانہ‘‘درست تعریف رکھتی ہے یعنی ’’ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود مسدس راہداریوں کا ایک لازوال نظام‘‘، جبکہ کتب خانہ ایک شے کی حیثیت میں روٹی کا ایک ٹکڑا ہے ، یا کوئی مقبرہ یا کچھ اور، اور وہ چھ حروف جو اس کی تعریف کرتے ہیں آ پ اپنی مزید تعریفیں رکھتے ہیں۔تم جو میری تحریر میں غوطہ زن ہو، کیا تمھیں یقین ہے کہ تم میری زبان سمجھتے ہو؟)
باضابطہ تصنیف نگاری میرا رخ انسانیت کی موجودہ حالت کی طرف سے پھیر دیتی ہے۔ یہ یقین کہ ہر چیز پہلے ہی ضابطہءتحریر میں لائی جا چکی ہے ہمیں موقوف کر دیتا ہے یا پھر محض ایک پیکرِ خیالی بنا چھوڑتا ہے۔مجھے ایسے اضلاع معلوم ہیں جہاں جوان لوگ کتابوں کے آگے سر بسجود ہیں اور گو کہ وہ ایک لفظ بھی پڑھنے سے قاصر ہیں، غیر مہذب وحشیوں کی طرح ان کے صفحات کو چومتے ہیں۔ وبائی امراض، ملحدانہ تنازعات، اور ناگزیر طور پر بگڑ کر قزّاقی میں ڈھل چکی زیارتیں، آبادی کو نابود کر چکی ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے خود کشیوں کا ذکر کیا تھا جو ہر سال پہلے سے زیادہ کثیرالوقوع ہوتی جاتی ہیں۔ شاید میں بڑھاپے اور خوف کے ہاتھوں بھٹک چکا ہوں مگر مجھے گمان ہے کہ بنی نوع انسان (اکلوتی نوع ) معدومی کے کنارے پر جھول رہی ہے اور فنا کے قریب ہے پھر بھی کتب خانہ — روشن خیال، خلوت پسند، لامتناہی، بدرجہء کامل غیر متحرک، قیمتی جلدوں سے لیس، بے معنی، ناقابل تحلیل اور خفیہ — ہمیشہ قائم رہے گا۔
میں نے صرف لفظ ’’لامتناہی ‘‘ لکھا ہے۔ میں نے یہ صفت محض خطیبانہ عادت کے زیر اثر استعمال نہیں کی، بلکہ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ عالم کو لامتناہی سمجھنا غیر منطقی نہیں ہے۔ اس کو محدود جاننے والے یہ مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ شایدکسی دور دراز مقام یا مقامات پر غلام گردشوں اور زینوں اور مسدسوں کا اختتام ممکن ہے ، جو کہ ناقابل تصور اور لایعنی ہے۔اور پھر بھی عالم کو لامحدود گرداننے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ممکنہ کتابوں کی تعداد لامحدود نہیں ہے۔میں جرأت مندی سے کام لیتے ہوئے اس قدیم مسئلے کا یہ حل تجویز کروں گا: کتب خانہ لامحدود مگر تکراری ہے۔ اگر ایک دائمی مسافر کسی بھی سمت میں سفر کرتا رہے تو وہ ناقابل ِبیان صدیوں کے بعد انہی جلدوں کو یکساں بے ترتیبی کے ساتھ دہراتے ہوئے پائے گا جو اس تسلسل کے باعث، ایک ترتیب ہے: ایک ترتیب۔ میری تنہائیاں اس حوصلہ افزا امید سے پر مسرت ہیں ۔( لیٹیزیا ایلواریز ڈی ٹولیڈو نے یہ مشاہدہ کیا کہ وسیع کتب خانہ بے معنی ہے، دقّت نظر سے کام لیں تو عام جسامت کی نو یا دس ٹائپ میں تحریر کردہ ایک جلد کافی ہے جو لامتناہی تعداد میں لامتناہی رقاقت کے حامل صفحات پر مشتمل ہو۔(سترھویں صدی کی اوائل میں کیویلیئری نے یہ دعوی کیا کہ ہر ٹھوس جسم لامتناہی مسطحات کا انطباق ہے۔)اس نفیس دستور العمل کااستعمال آسان نہیں ہے: ہر ظاہری صفحہ دوسرے اسی طرح کے صفحات میں کھلے گا اور ناقابل تصور وسطی صفحے کا کوئی ’’عقب‘‘ نہیں ہو گا۔)
پسِ تحریر: یوں تو بورخیس کی تمام تحریروں کی متعدد تعبیرات موجود ہیں لیکن ’’بابل کا کتب خانہ ‘‘ اس لئے ممتاز ہے کہ اس نے سائنس ، فلسفے، فلم اور آرٹ میں جا بجا اپنے تأثرات چھوڑے ہیں اور ثانوی نوعیت کے مستقل مباحث کو بھی جنم دیا ہے۔ ایک کہانی کی حیثیت میں اس کا موضوع بورخیس ہی کے مضمون ’’ کتب خانۂ کل (۱۹۳۹) The Total Library‘‘ سے ماخوذ ہے جس میں انہوں نے اس مضمون کا ابتدائی محرک جرمن کہانی نگار کرڈ لاسوٹز کی ۱۹۰۱ میں لکھی گئی ایک کہانی کو قرار دیا ہے۔بورخیس کے کہانیوں اور مضامین میں استعمال شدہ مخصوص تصورات جیسے کہ حقیقت، لامتناہیت، مذہبی نفسیات، سری استدلال (cabalistic reasoning) اور بھول بھلیاں وغیرہ اس کہانی میں بھی موجود ہیں۔
کتب خانے کے تصور کی کئی تعبیرات پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً اسے کائنات کے ایک ایسے تصور کی تمثیل سمجھا جا سکتا ہے جو کروّی ہے اور جس کا مرکز ہر نقطہ ہے اور محیط لامتناہی۔ سترھویں صدی کے ماہر ریاضیات اور فلسفی بلز پاسکال (Blaise Pascal) نے کائنات کے لئے ایک ایسا استعارہ ہی استعمال کیا تھااور بورخیس نے اپنے کسی مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے۔مزید برآں یہ تصور بھی وزن رکھتا ہے کہ ایک ایسے کتب خانہ میں کوئی کتاب موجود نہیں جس میں تمام ممکنہ کتابیں موجود ہوں اور بے ترتیبی سے رکھی ہوئی ہوں کیوں کہ ایسے کتب خانے سے کوئی معانی درآمد کرنا نظری طور پر ناممکن ہے۔ اس نظریہ کو بورخیس کے کئی شارحین نے مختلف کمپیوٹر پروگراموں کے ذریعے واضح کیا ہے۔کتب خانے کی ایک اور دلچسپ ترین جہت ریاضیات سے تعلق رکھتی ہے جس کے باب میں کچھ ریاضی دانوں نے کتب خانے کی کتابوں کا ایک تخمینہ لگانے کی کوشش کی ہے اور ان کے نزدیک اس کی ایک کتاب معلوم کائنات جتنی جگہ کا احاطہ کر لے گی۔ ایک لامتناہی کتب خانے سے کئی فلسفیانہ مسائل بھی جڑے ہیں۔ کانٹ (Kant) کے مطابق ذہن ہمارے حقیقت کے متعلق تجربے کو متشکل کرتا ہے لہٰذا قوائدِحقیقت ذہن سے تعلق رکھتے ہیں۔اگر ہم ان قواعد کو جان لیں تو ہم حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔اسی طرز پر چوں کہ کتب خانے کی ہر کتاب کی کنجی کسی دوسری کتاب میں ہے، لہٰذا’’ارغوانی مسدس‘‘ میں شاید کوئی ایسا ہی مجموعہ قوائد پوشیدہ ہے جو دوسری تمام مسدسوں میں موجود کتابوں کے لئے کنجیوں کا کام کر سکتا ہے۔کتب خانہ کو پورے طور پر سمجھناا صل میں حقیقتِ مطلق تک مکمل رسائی ہے اور اس کوشش کی نفسیاتی جہت یہ ہے کہ معلومات کا لامتناہی خزانہ اپنے اندر اتنی بے انتہا کشش رکھتا ہے کہ انسان اس جستجو میں کھو کر اپنی کتاب زندگی لکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ کیوں کہ آخر جو بھی وہ لکھے گا وہ تو پہلے ہی اسے کسی نہ کسی مسدس کی کتاب الماری میں کہیں موجود ہے۔ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ اگر ایک مصنف ارب ہا ارب سال کتب خانہ کی مختلف کتابو ں سے حروفی علامات جمع کرتا رہے تو آخرکار وہ متن تشکیل پا جائے گا جو اس کے تصور میں ہے۔ مزید ایک تعبیر وہ جوابی دلیل ہے جو خدا کی ہستی کے اثبات میں دلائل کے خلاف ڈیوڈ ہیوم (David Hume)نےایک فکری تجربے کے طور پر پیش کی ہے جس میں ایک اسی طرز کےفطری کتب خانے کا ذکر ہے۔آخر میں اس انوکھی تعبیر کا ذکر ضروری ہے جس کے مطابق کتب خانہ متناہی ہے کیوں کہ ہم نظری طور پر تاریخ میں ایک ایسی ساعت پر ضرور پہنچیں گے جب سب کچھ تحریر میں آ چکا ہو گا اور یہ کہ مورس علامتی نظام (Morse Code)اور ثنائی ضابطہ (Binary Code) کی ایجادات کے بعد پورا کتب خانہ صرف دو علامات یعنی نقطے اوروقفے کی مدد سے تعمیر کیا جا سکتا ہے اور کائنات کی ہر صداقت اور ہر قابل بیان شے انہیں دو نشانات کی مسلسل ترتیب بدلنے سے بیان کی جا سکتی ہے۔
خفیہ معجزہ
اورخدا نے اسے سو سال کے لئے موت دے دی
، پھر اسے زندہ کیا اور کہا: ’’تم یہاں کتنے دن رہے؟‘‘
’’ایک دن یا اس کا کچھ حصہ‘‘، اس نے جواب دیا۔
(القرآن:البقرۃ ،۲۵۹)
نامکمل ناٹک ’’دشمن‘‘، ایک کتاب’’ابدیت کا دفاع‘‘ اور جیکب بوہم کے بالواسطہ یہودی مآخذ پر مشتمل ایک مقالے کے مصنف جیرومیر ہلادک نے۱۴ مارچ، ۱۹۴۳ءکی رات پراگ کی ایک گلی زیلٹرنر گاسے کے ایک مکان میں خواب میں شطرنج کی ایک طویل بازی دیکھی۔کھلاڑی دو افراد نہ تھے بلکہ دو ممتاز خاندان، اور کھیل صدیوں سے جاری تھا۔ کسی کو نہیں یاد کہ کیا شرطیں باندھی گئیں، مگر وہ غیرمعمولی تھیں، شاید لامتناہی۔ مہرے اور بساط ایک خفیہ مینار میں موجود تھے۔جیرومیر(اپنے خواب میں) مقابلے میں مشغول ایک خاندان کا پہلا چشم و چراغ تھا۔گھڑی نے اگلی چال چلنے کا گھنٹہ بجایا جسے ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔خواب دیکھنے والا ایک بارانی صحرا میں سرپٹ بھاگتا چلا جا رہا تھا اور شطرنج کے مہرے اور کھیل کے قوانین فراموش کر چکا تھا۔اسی اثناء میں اس کی آنکھ کھل گئی۔ بارش اور ہولناک گھڑیوں کی جھنکار تھم گئی۔زیلٹرنرگاسے سے ایک ہم آہنگ، یکساں شور اٹھا جس میں وقفے وقفے سے احکامات کی صدائیں بھی شامل تھیں۔ یہ صبح کاذب کی گھڑی تھی اور نازی ٹینکوں کا ہراول دستہ پراگ میں داخل ہو رہا تھا۔
انیس تاریخ کو شہر کے حکام کو بین الاقوامی معاہدے کے کالعدم ہونے کی اطلاع دی گئی، اسی دن انیس ہی کی شام جیرومیر ہلادک کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسے عفونتی مواد سے پاک کرنے کی ایک جگہ لے جایا گیا ، یہ دریائے ولٹاوا کے دوسرے کنارے پر واقع سفید بیرکیں تھیں۔وہ نازی خفیہ پولیس گسٹاپو کےلگائے ہوئے کسی بھی الزام کو رد نہیں کر سکا، اس کی ماں کا خاندانی نام جیروسلاوسکی تھا، وہ یہودی النسل تھا، اس کے مطالعۂ بوہم پر واضح یہودی اثرات تھے، آنشلوس (Anschluss) یعنی آسٹریا کے نازی جرمنی کے ساتھ جبری الحاق کے خلاف اس کے ایک سے زیادہ دستخط موجود تھے۔ ۱۹۲۸ میں اس نے ہرمن بارسڈورف نامی اشاعتی ادارے کے لئے یہودی عرفانی ادب کی اولین کتاب سفر یتزیرا (Sepher Yezirah) کا ترجمہ کیا ۔ اشاعتی ادارے کی ناگوار فہرست نے اشتہاری مقاصد کے لئے مترجم کی شہرت میں مبالغہ آرائی کی، اور فہرست کا معائنہ جولیس روتھ نامی ایک اہلکار نے کیا جس کے باتھ میں ہلادک کا مقدر تھا۔ اس کے اپنے شعبۂ تخصص سے باہر شاید ہی کوئی فرد ہو گا جو سریع الاعتقاد نہ ہو، فقط دو یا تین اسمائے صفات کا گوتھک طرزِ تحریر میں استعمال ہی جولیس روتھ کو ہلادک کی اہمیت جتانے کے لئے کافی تھا، اور اس نے دوسروں کو عبرت کی خاطر اسے موت کی سزا سنا دی۔ ۲۹ مارچ کو صبح نو بجے سزا پر عمل درآمد ہونا تھا۔اس تاخیر (جس کی اہمیت قاری کو بعد میں سمجھ آئے گی) کی وجہ یہ تھی کہ حکام سبزیوں اور پودوں کی طرز پر غیر شخصی انداز میں سست رفتاری سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔
ہلادک کا پہلا ردِعمل محض دہشت تھی۔وہ پھانسی کے تختے، (مذبح کے )پتھریا خنجر سے اتنا زیادہ خوفزدہ نہیں تھا مگر بندوقوں سے مسلح دستہ کی گولیوں کا سامنا ناقابلِ برداشت تھا۔بادلِ نخواستہ اس نے اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ خوف کی وجہ موت کا بس واقع ہوجانا تھا اس کےخاص حالات نہیں۔وہ تھکے بغیر سے یہ سب حالات تصور میں لاتا رہااور احمقانہ طور پران کےتمام ممکن تغیرات کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ یونہی بے خواب پڑا وہ صبح صادق سے لے کر اُس پراسرار شام کے ڈھلنے تک اپنے مرنے کے عمل کے متعلق پیش بینی کرتا رہا۔دن کے اختتام تک وہ ہندسی احتمالات سے متجاوز شکلوں اور زاویوں والے احاطوں میں جولیس روتھ کے ہاتھوں ہزاروں دفعہ مر چکا تھا۔ متعدد نئے نئے سپاہیوں کی گولیوں نے کبھی اسے کچھ فاصلے سے مارا اور کبھی قریب سے۔اس نے ان تخیلاتی سزاؤں کا سامنا حقیقی دہشت (شاید حقیقی دلیری سے بھی) سے کچھ اس طرح کیا کہ ہر شبیہ کا دورانیہ کچھ ہی سیکنڈ تھا۔جب یہ تخیلاتی دائرہ اختتام کو پہنچا تو جیرومیر ایک بار پھر، اور اس دفعہ ناقابلِ اختتام طور پر ،اپنی موت کی لرزاں گھڑیوں میں لوٹ آیا۔ پھر اس نے سوچا کہ حقیقت اوراس کے متعلق ہماری توقعات عمومی طور پر ایک دوسرے سے موافقت نہیں رکھتیں۔ اپنی خود ساختہ منطق کے ذریعے اس نے یہ استنباط کیا کہ کسی اتفاقی واقعہ کی پیش بینی اُس کو وقوع پذیر ہونے سے روک سکتی ہے۔ اِس کمزور طلسم پر انحصار کرتے ہوئے اُس نے خود اُنہیں واقعات کو وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے لئے ہولناک ترین نئے واقعات ایجاد کئے۔ آخر کار فطری طور پر اسے یہ خدشہ تولاحق ہونا ہی تھا کہ یہ پیشین گوئیاں برحق ہیں ۔خستہ حال راتوں میں وہ وقت کے عارضی جوہر سے چمٹے رہنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ وقت انتیس تاریخ کا سورج طلوع ہونے کی جانب تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔اس نے بآوازِ بلند استدلال کیا:’’میں اِس وقت بائیس کی رات گزار رہا ہوں، جب تک یہ رات باقی ہے (اور چھ مزید راتیں) میں ناقابل تسخیر اور لافانی ہوں۔‘‘ شب خوابی کے اوقات اسے ایسے گہرے سیاہ تالاب محسوس ہوتے تھے جن میں وہ اپنا آپ غرقاب کر سکتا تھا۔ایسی ساعتیں بھی گزریں جب وہ گولی کی اس آخری آواز کا شدت سے منتظر تھا، جو اسے اچھے یا برے انجام سے قطع نظر، اپنے تخیلات کے لاحاصل جبر سے آزاد کر دے۔ اٹھائیسویں کی شام جب آخری غروبِ آفتاب سلاخیں لگی کھڑکیوں سے منعکس ہو رہا تھا، اپنے ڈرامے ’’دشمن‘‘ کے خیال نے اس کی توجہ ان پست حال تفکرات سے ہٹائی۔
ہلادک اپنی عمر کے چالیسویں سال میں تھا۔کچھ قربتوں اور کئی عادات سے قطع نظر، اس کی زندگی کا حاصل اد بی تجربات تھے۔ تمام لکھاریوں کی طرح اس کے نزدیک دوسروں کی کامیابیوں کا پیمانہ ان کے تکمیل یافتہ کارہائے نمایاں تھے ،جبکہ اپنے متعلق اس کا مطالبہ یہ تھا کہ کامیابی کا معیار اس کےتخیلاتی نقشوں اورمنصوبوں کو گردانا جائے۔ اس کی تمام چھپی ہوئی کتابوں نے اسے ندامت کے ایک پیچیدہ احساس سے دوچار کیا تھا۔اس کے ابراہیم ابن عذرا، بوہن اور رابرٹ فلڈ کے مطالعات کی نوعیت لازمی طور پر محض اطلاقی تھی، اوراس کا’’ سفر یتزیرا ‘‘ کا ترجمہ بے احتیاطی، کسل مندی اور ظن سے پُر تھا۔ ’’ابدیت کے دفاع‘‘ میں شاید کچھ کم خامیاں تھیں۔ جلد اول ابدیت کے متعلق مختلف انسانی تصورات کی تاریخ پر مشتمل تھی، اور پارمنیدس کی غیرمنقلب ہستی سے شروع ہو کر جیمز ہِنٹن کے قابلِ اصلاح ماضی پر تمام ہوتی تھی۔ دوسری جلد(فرانسس براڈلے کے ساتھ) اس قضیے کے رد پر مشتمل تھی کہ کائنات کے تمام واقعات ایک زمانی سلسلہ سے جڑے ہیں، اس استدلال کے ساتھ کہ ممکنہ انسانی تجربات کی تعداد لامتناہی نہیں ہے اور ایک واحد ’’تکرار‘‘ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ زمان ایک مغالطہ ہے۔۔۔بدقسمتی سے وہ دلائل جو اس مغالطے کی وضاحت کرتے ہیں بدرجہ مساوی مغالطہ آمیز ہیں۔ایک حقارت آمیز تذبذب سےان دلائل کاجائزہ لینا ہلادک کی عادت تھی۔ اس نے کچھ اظہاریت پسند نظمیں بھی لکھیں تھیں، اور شاعر کے لئے یہ واقعہ باعث خجالت تھا کہ ۱۹۲۴ میں ایک منتخب شعراء کی ایک بیاض کا حصہ بننے کے بعد کسی بھی آنے والےمجموعے نے انہیں چھاپنے سے انکار کر دیا۔ہلادک کو امید تھی کہ اس کا منظوم ڈرامہ ’’دشمن‘‘ اس تمام غیر تسلی بخش اور بے کیف ماضی کی تلافی کر سکے گا۔(ہلادک کے خیال میں نظم کی صنف ناگزیر تھی کیوں کہ یہ تماشائیوں کی نگاہ ِ تخیل کو کمزور نہیں پڑنے دیتی ، جو فنون لطیفہ کا ایک ناگزیر امر ہے۔ )
اس ڈرامے کا موضوع زمان، مکان اور عمل کی اکائیوں کا مشاہدہ تھا۔ڈرامے کا پس منظر ہرادشانی (Hradčany) میں بارون فان روئمرشتادت کی لائبریری میں انیسویں صدی کی آخری دوپہروں میں سے ایک دوپہر تھی۔ پہلے سین کے پہلے ایکٹ میں ایک عجیب و غریب آدمی روئمرشتادت سے ملاقات کے لئے آتا ہے۔(ایک گھڑی پرسات بجنے والے ہیں ، ڈوبتے ہوئے سورج کی شعائیں پوری سر گرمی سے کھڑکیوں کو اپنے نور سے معمور کر رہی ہیں، ایک دل سوز، جانی پہچانی ہنگری کی دُھن سنائی دے رہی ہے۔) اس ملاقات کے بعد مزید ملاقاتی آنا شروع ہو جاتے ہیں، روئمرشتادت ان لوگوں کو نہیں جانتا جو اس سے ملنے آ رہے ہیں، مگر اس کو یہ بے چین کر دینے والا احساس ہے کہ اس نے انہیں پہلے کہیں دیکھا ہے، شاید کسی خواب میں۔ ویسے تو وہ اس کے سامنے ٹوڈی پن کا مظاہرہ کر تے ہیں ، مگر پہلے ناظرین ،او ربعد میں بارون پر یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ وہ خفیہ دشمن ہیں جو اس کی تباہی کے لئے اکٹھے ہیں۔ روئمرشتادت ان کی چالوں کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مکالمے میں اس کی محبوب جولیا فان ویڈیناؤ اور ایک آدمی جاروسلاو کیوبن کا ذکر ہوتا ہے جس نےماضی میں کبھی اس کی طرف اپنے التفات کا اظہار کیا تھا۔کیوبن اب اپنی یاداشت کھو چکا ہے اور اپنے آپ کو روئمرشتادت سمجھتا ہے۔خطرات بڑھتے جاتےہیں اور روئمرشتادت دوسرے ایکٹ کے اختتام پر سازشیوں میں سے ایک کو قتل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تیسرے اور آخری ایکٹ کا آغاز ہوتا ہے۔ بےربطگیاں بتدریج بڑھتی جاتی ہیں، اداکار جو کھیل سے خارج ہو چکے ہیں ایک بار پھر ظاہر ہو جاتے ہیں، وہ آدمی جسے روئمرشتادت قتل کر چکا تھا ایک لمحے کے لئے واپس آ جاتا ہے۔ کوئی نشاندہی کرتا ہے کہ شام ابھی نہیں ڈھلی، گھڑی سات گا گھنٹہ بجاتی ہے، اونچی کھڑکیوں میں مغربی سورج لرزاں ہے، فضا ہنگری کی دھنوں سے لبریز ہے۔پہلا اداکار واپس نمودار ہوتا ہے اور پہلے سین کے اولین ایکٹ کی ادا کی گئی سطریں دہراتا ہے۔ روئمرشتاد ت کسی حیرت کے بغیر اس سے بات کرتا ہے۔ ناظرین سمجھ جاتے ہیں کہ روئمرشتادت اصل میں بے چارہ جاروسلاو کیوبن ہے۔ ڈرامہ تو کبھی پیش ہی نہیں کیا گیا، یہ تو وہ دائروی سراسیمگی کا عالم ہے جس میں کیوبن لاانتہا طور پر بار بار زندہ ہوتاہے۔
ہلادک نے کبھی خود سے یہ سوال نہیں کیا اس کی غلطیوں کا الم طربیہ مضحکہ خیز تھا یا قابلِ تعریف، سوچا سمجھا تھا یا بے سروپا۔اس نے محسوس کیا کہ یہ پورا خاکہ اس کی کوتاہیوں کو چھپانے اور قابلیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے بہترین طور پر بُنا گیا تھا، اور امکان تھا کہ وہ اپنی زندگی کے معانی کو (علامتی طور)دوبارہ حاصل کر سکے۔ اس نے پہلے ایکٹ اور تیسرےکے ایک یا دو سین کا اختتام کیا، شاعرانہ بحر کے باعث اس کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ مسودہ سامنے رکھے بغیربحر ِمسدس میں ردوبدل کی مددسے اپنا کام دہراتا رہے۔اس نے سوچا کہ اب بھی دو ایکٹ باقی ہیں اور وہ عنقریب مر جائے گا۔وہ اندھیرے میں خدا سے یوں گویا ہوا:’’اگر میں کسی طور موجود ہوں، اگر میں تیری تکرار یا غلطیوں میں سےایک نہیں ہوں، تو میری ہستی ’’دشمن‘‘ کے مصنف کی حیثیت ہے۔مجھے اس ڈرامے کے اختتام کے لئے جو میرا اور تیرا جواز ہے ایک سال مزید درکار ہے۔تو جس کی گرفت صدیوں اور زمان پر ہےمجھے یہ مدت بخش دے۔‘‘ یہ آخری رات تھی، سب سے زیادہ دہشت ناک، مگر دس منٹ بعد نیند گہرے سیاہ پانی کی طرح اسے اپنی آغوش میں لے چکی تھی۔
سحر کے قریب اس نے خواب دیکھا کہ وہ کتب خانۂ کلمانتین کے وسط میں بغلی راستوں کی بیچ چھپا بیٹھا ہے۔ ایک سیاہ شیشوں والی عینک پہنے کتابدار اس سے سوال کرتا ہے:’’تم کیا تلاش کر رہے ہو؟‘‘ ہلادک جوب دیتا ہے:’’میں خدا کی تلاش میں ہوں۔‘‘ کتابدار اس سے کہتا ہے:’’خدا کلمانتین میں موجود چار لاکھ جلدوں کے کسی ایک صفحے پر لکھا کوئی ایک حرف ہے۔ میرے آباؤ اجداد اور ان کے آباؤ اجداد اس حرف کو تلاش کرتے رہیں ہیں، میں اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے نابینا ہو چکا ہوں۔‘‘ وہ اپنی عینک اتار دیتا ہے اور ہلادک اس کی بجھی ہوئی آنکھیں دیکھ لیتا ہے۔اتنے میں ایک قاری ایک اطلس واپس کرنے آتا ہے۔ ’’یہ اطلس کسی کام کا نہیں،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اسے ہلادک کو پکڑا دیتا ہے جو اسے ایسے ہی بے قاعدگی سے کسی بھی جگہ سے کھول لیتا ہے۔ اس کے سامنے ہندوستان کا نقشہ ہے اور حالت ایسی ہے جیسے اوسان خطا ہو گئے ہوں۔ پھر اچانک اس کی حالت سنبھلتی ہے اور وہ سب سے ننھے حرف کو چھوتا ہے۔ سارے میں چھائی ہوئی ایک آواز اس سےکہتی ہے:’’تمہاری محنت کی مدت تمہیں عطا کی جاتی ہے۔‘‘ اسی وقت ہلادک کی آنکھ کھل گئی۔
اسے یاد آیا کہ انسانوں کے خواب خدا کی ملکیت ہوتے ہیں، اور یہ کہ موسی بن میمون نے لکھا ہے کہ خواب میں سنے گئے الفاظ، اگر وہ واضح اور غیرمبہم ہوں اور ان کا بولنے والا نہ دیکھا جا سکے،تو وہ ملکوتی ہوتے ہیں۔اس نے کپڑے پہنے، دو سپاہی اس کی کوٹھڑی میں داخل ہوئے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔
دروازے کے پیچھے سے ہلادک گزرگاہوں، زینوں اور مختلف عمارتوں پر مشتمل بھول بھلیوں کی خیالی تصویریں بُنتا رہا۔ مگر حقیقت کم شاندار تھی: وہ تنگ آہنی زینوں سے ہوتے ہوئےایک اندرونی عدالتی احاطے میں پہنچے۔ کئی سپاہی ،جن میں سے کچھ کی وردیوں کے بٹن کھلےتھے، ایک موٹر سائیکل کا معائنہ کر تے ہوئے آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ حوالدار نے گھڑی کی جانب دیکھا، آٹھ بج کر چوالیس منٹ ہو رہے تھے۔ انہیں نو بجے کا انتظار تھا۔ہلادک جس کی حالت قابلِ ترس ہونے سے زیادہ غیر اہم تھی لکڑی کے ایک ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ سپاہیوں کی آنکھیں اس سے نظر چُرا رہی ہیں۔ انتظار کی گھڑیاں آسان کرنے کے لئے حوالدار نے اسے ایک سگریٹ دیا۔ہلادک سگریٹ نہیں پیتا تھا مگر عاجزی اور شائستگی کی خاطر قبول کر لیا۔ سگریٹ سلگاتے وقت اس نے مشاہدہ کیا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ آسمان پربادل چھا رہے ، سپاہی اس طرح سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے جیسے وہ پہلے ہی مر چکا ہو۔اس نے اس عورت کو یاد کرنے کی ایک لاحاصل کوشش کی جس کی علامت جولیا ویڈیناؤ تھی۔
دستہ تشکیل ہوا اور ہوشیار کھڑا ہو گیا۔ بیرک کی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہلادک گولیوں کی بوچھاڑ کا انتظار کرتا رہا۔ کسی نے نشاندہی کی کہ دیوار خون کی دھبوں سے آلودہ ہو جائے گی اور مجرم کو چند قدم آگے ہونے کا حکم دے دیا گیا۔اس ساری بے سروپائی میں ہلادک کو فوٹوگرافروں کی ناتجربہ کار تیاریاں یاد آ گئیں۔ بارش کا ایک بڑا قطرہ ہلادک کی پیشانی پر ٹپکا اور پھسلتے ہوئے آہستہ آہستہ گال تک آ پہنچا۔ حوالدار نے چلا کر آخری حکم دیا۔
طبعی کائنات ساکن ہو گئی۔
بندوقوں کی نالیاں ہلادک کی سمت ہو گئیں، مگر جو آدمی اسے قتل کرنے پر مامور تھے وہ ساکت رہے۔ حوالدار کا بازو ابدی طور پر معلق حالت میں تھا۔صحن کے پختہ فرش پر ایک مکھی کا غیر متغیر سایہ پڑ رہا تھا۔ہوا تھم چکی تھی جیسے کسی تصویر میں ہو۔ہلادک نے چیخنے کی کوشش کی، ایک لفظ، ہاتھ کی ایک حرکت۔ اس احساس ہوا کہ وہ مفلوج ہو چکا ہے۔ ساکن کائنات سے کوئی صدا بھی اس تک نہیں پہنچ رہی تھی۔اس نے سوچا:’’میں جہنم میں ہوں، میں مر چکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا:’’میں پاگل ہو چکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا:’’وقت تھم چکا ہے۔‘‘ پھر اس نے غور کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو اس کا ذہن بھی کام کرنا چھوڑ دیتا۔وہ اسے پرکھنا چاہتا تھا، اس نے ورجل کےپراسرار چوتھے قصیدۃ رعویۃ (Eclogue) کو ہونٹ ہلائے بغیر دہرانا شروع کیا۔اس نے تصور کیا کہ اب دور کھڑے سپاہی بھی اس کی پریشانی میں حصہ دار ہیں، وہ ان سے تبادلۂ خیالات کرنا چاہتا تھا۔ تھکن کے قلیل ترین احساس ،یہاں تک کے حرکت کی غیرموجودگی میں اعضاء کا سُن تک نہ ہونا، اس کے لئے حیران کن تھا۔ کچھ غیرمتعین وقت کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب وہ اٹھا تو کائنات بدستور ساکن اور گنگ تھی۔ پانی کا قطرہ اب بھی اس کی گال سے چپکا ہوا تھا، اور مکھی کا سایہ فرش سے۔سگریٹ کا دھواں جو اس نے اگلا تھا ابھی تک فضا میں منتشر نہیں ہوا تھا۔ہلادک کے سمجھنے سے پہلے ہی ایک اور ’’دن‘‘ گزر گیا۔
اس نے خدا سے التجا کی تھی کہ اپنا کام ختم کرنے کے لئے ایک سال دیا جائے، قدرت مطلقہ نے اسے یہ مدت عطا کی۔ خدا نے اس کی خاطر ایک خفیہ معجزے کا اہتمام کیا، اس نے مقررہ گھنٹے پر جرمن سیسے کے ہاتھوں مرنا تھا، مگر اس کے ذہن میں حکم اور اس کی تعمیل کے درمیان ایک سال نے گزرنا تھا۔وہ اضطراب کی کیفیت سے سکتے کی حالت میں پہنچا، سکتے سے تسلیم و رضا اوردستبرداری، اور دستبرداری سے ایک اچانک تشکر کی کیفیت۔
اپنی یاداشت کے سوا اس کے پاس کوئی دستاویز نہ تھا۔ ہر اضافی بحرِ مسدس کے ساتھ حاصل کردہ تربیت نے اسے ایک ایسا نظم و ضبط بخشا تھا جو ان کے گمان سے باہر تھا جو عارضی ، نامکمل عبارات کو فراموش کرنے کا قصد کرتے ہیں۔اس کی محنت اپنی آنے والی نسل کی خاطر نہ تھی، نہ ہی خدا کے لئے جس کے ادبی ذوق سے وہ ناواقف تھا۔بہت ہی باریک بین، بے حرکت اور خفیہ طریقےپر اس نے اپنی پُرشوکت اور غیر مرئی بھول بھلیاں تخلیق کی تھیں۔ تیسرے ایکٹ پر اس نے دو بار کام کیا۔ اس نے کچھ علامات کو ضرورت سے زیادہ واضح سمجھتے ہوئے حذف کر دیا تھا، جیسے گھڑیال کا بار بار بجنا اور موسیقی۔ اسے کوئی عجلت نہیں تھی۔اس نے استخراج کیا، تلخیص کی اور وضاحت کی۔ کچھ معاملات میں وہ اصل کی طرف لوٹ آیا۔وہ صحن اور بیرکوں میں ایک اپناپن محسوس کرنے لگا، اپنے سامنے موجود چہروں میں سے ایک نے اس کے ذہن میں موجود روئمرشتادت کے تصور کو بدل دیا۔ اس نے دریافت کیا کہ وہ تھکا دینے والا کریہہ الصوتی شور جس نے فلوبیر کو اتنا پریشان کیا تھاز بان کے ذریعے ادا کئے گئے لفظ کی بجائے محض تحریر شدہ لفظ کے بصری توہمات، کمزوریاں اور حدود تھیں۔۔۔اس نے اپنے ڈرامے کا اختتام کر دیا۔ اب اس کے سامنے صرف ایک واحد عبارت کا مسئلہ تھا۔وہ اسے مل گئی۔ پانی کا قطرہ اس کے گال سے نیچے پھسلا۔اس نے ایک دل دہلا دینے والی چیخ ماری اور منہ کھولا، اپنے چہرے کو حرکت دی اور ایک چوگنا دھماکے کے آواز کے ساتھ ہی زمین پرگر پڑا۔
جیرومیرہلادک کا انتقال انتیس مارچ کی صبح نو بج کر دو منٹ پر ہوا۔
استرایون کا گھر
اور ملکہ نے ایک بچے کو جنم دیا جو استرایون کہلایا۔ (’دیومالائی کتب خانہ‘ از آپولودور، ۱۵۵۵ء)
میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ پر گھمنڈ،شاید مردم بیزاری ، اور غالباً دیوانگی کا بھی الزام لگاتے ہیں۔ یہ الزامات (جن کی سزا میں وقت ِ مقرر ہ پر حاصل کر لوں گا) تمسخرانہ ہیں۔ یہ سچ ہے کہ میں اپنا گھر کبھی نہیں چھوڑتا ، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کے دروازے (جن کی تعداد لامتناہی ہے) (اصل داستان کے مطابق یہ تعداد چودہ ہے مگر استرایون کے استعمال سے یہ استنباط کافی قرین ِقیاس ہے کہ اس عدد کا مقصدلامتناہیت ہے۔)دن رات انسانوں اور جانوروں کے لئے کھلے ہیں۔کوئی بھی داخل ہو سکتا ہے۔وہ یہاں کسی زنانہ نمائشی طمطراق یا شاندار درباری وضع داری کی بجائے خاموشی اور سکون پائے گا۔اور اسے روئے زمین پر ایسااور کوئی مکان نہ ملے گا۔(کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ایسا ہی ایک گھر مصر میں بھی موجود ہے، مگر وہ جھوٹ بولتے ہیں)۔میرے مخالفین تک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مکان میں فرنیچر کے نام پر ایک چیز موجود نہیں ۔ ایک اور مضحکہ خیز کذب بیانی یہ ہے کہ میں، استرایون ، ایک قیدی ہوں۔کیا مجھے دہرانا پڑے گا کہ یہاں کوئی مقفل دروازے نہیں ہیں، کیا میں یہ اضافہ کروں کہ کوئی قفل نہیں ہیں؟ پھر ایک دوپہر میں گلی میں نکل ہی پڑا، اگر میں رات ہونے سے قبل واپس آ گیا تو اس کا سبب وہ خوف تھا جو عام آدمیوں کے چہروں نے میرے دل میں پیدا کیا، کسی ہتھیلی کے جیسے بے رنگ اور مسطح چہرے۔سورج پہلے ہی ڈوب چکا تھا مگر کسی بچے کی بےیارومددگار چیخیں اور کسی ایمان والے کی بےذوق دعاؤں نے مجھے بتایا کہ میں پہچان لیا گیا ہوں۔لوگوں نے عبادت کی، بھاگ نکلے ، سجدے میں گر پڑے، کچھ تیشوں والے مندر کے اساسۂ ستون پر جا چڑھے، دوسرے پتھر جمع کرنے لگے۔ میرا گمان ہے کہ چند سمندر کی تہہ میں جا چھپے۔ کوئی وجہ ہی تھی کہ میری ماں ایک ملکہ تھی، مجھے عوام کے ساتھ گڈمڈ نہیں کیا جا سکتا گو یہ میری عاجزانہ خواہش ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ میں یکتا ہوں۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ایک انسان ، جیسے کہ فلسفی، کسی دوسرے کو کیا منتقل کرسکتا ہے، میرا خیال یہ ہے کہ فنِ تحریر کے ذریعے کچھ بھی قابلِ ابلاغ نہیں۔میری ہر عظیم اور وسیع تصور کے لئے تیار روح میں باعثِ زحمت اورغیر اہم تفصیلات کے واسطے کوئی جگہ نہیں۔ میرا ذہن کبھی دو حروف کے درمیان امتیاز کو نہیں تھام سکا۔ ایک مخصوص پُرفیض بے صبری نے کبھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ میں مطالعہ سیکھ سکوں۔بعض اوقات میں اس پر افسوس کرتا ہوں کہ راتیں اور دن طویل ہیں۔
یقیناً میں انتشار ِتوجہ کا شکار بھی ہوتا ہوں۔جیسے کوئی مینڈھا پیش قدمی کرنے والا ہو، میں پتھر کی راہداریوں میں دوڑتا پھرتا ہوں یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑتا ہوں۔ کسی تالاب کے سائے یا کسی کونے کھدرے میں دبک کر میں یوں ظاہر کرتا ہوں جیسے میرا تعاقب کیا جا رہا ہو۔ ایسی چھتیں بھی ہیں جن سے میں خون میں لت پت ہونے تک گرتا رہتا ہوں۔ میں بند آنکھوں اور بھاری سانس کی ساتھ کسی بھی وقت سونے کی اداکاری کر سکتا ہوں۔ (بسا اوقات میں حقیقتاً سو جاتا ہوں، بعض اوقات جب میں آنکھیں کھولتا ہوں تو دن کا رنگ بدل چکا ہوتا ہے)۔ مگران تمام کھیلوں میں،میں اُسے ترجیح دیتا ہوں جو دوسرے استرایون کے بارے میں ہے۔ میں یوں ظاہر کرتا ہوں جیسے وہ مجھ سے ملاقات کے لئے آیا ہو اور میں اسے اپنےمکان کی سیر کروا رہا ہوں۔بڑی عاجزی کی ساتھ میں اسے یہ کہتا ہوں:’’اب ہم پہلے موڑ کی طرف واپس لوٹتے ہیں‘‘ یا ’’اب ہم دوسرے صحن میں باہر نکلیں گے‘‘ یا ’’مجھے معلوم ہے تمہیں آبشار پسند آئے گی‘‘ یا ’’اب تم ریت سے بھرا ایک تالاب دیکھو گے‘‘ یا ’’تم عنقریب یہ ملاحظہ کرو گے کہ تہہ خانہ کہاں نکلتا ہے۔‘‘ بعض اوقات مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے اور ہم دونوں کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔
نہ صرف یہ کہ میں نے ان تفریحات کا تصور کیا ہے، بلکہ مکان پر بھی غوروفکر کیا ہے۔ مکان کے تمام حصےکئی بار دہرائے جاتے ہیں، کوئی بھی ایک ہی وقت جگہ دوسری جگہ بھی ہے۔ کوئی ایک تالاب، صحن، مشرب یا چارہ گاہ نہیں ہے، چارہ گاہیں، مشارب، صحنوں اور تالابوں کی تعداد چودہ (لامتناہی) ہے۔مکان کی جسامت کائنات کے برابر ہے، بلکہ یہ کائنات ہی ہے۔ پھر یوں ہوا کہ تالابوں اور خاکستری پتھر کی راہداریوں سے بھرے صحنوں کو سر کرتے کرتے میں گلی میں آ نکلا اور تیشوں والے مندر اور سمندر کو دیکھ لیا۔میں یہ اس وقت تک نہ سمجھا جب تک ایک خواب کے دوران مجھ پر یہ افشا نہیں ہوا کہ سمندر اور مندر بھی تعداد میں چودہ (لامتناہی) ہیں۔ہر شے کئی بار دہرائی جاتی ہے، یعنی چودہ بار، مگر اس کائنات میں صرف دو اشیاء واحد ہیں:اوپر ایک واضح سورج ، نیچے استرایون۔ شاید میں نے ہی ستاروں، سورج اور اس جسیم مکان کو تخلیق کیا ہو، مگر مجھے اب یہ بالکل یاد نہیں۔
ہر نو سال بعد نو آدمی اس مکان میں داخل ہوتے ہیں تاکہ میں ان سے تمام بدی کو رفع کر سکوں۔ میں ان کے قدموں کی آہٹ یا ان کی آوازیں پتھر کی راہداریوں کی گہرائیوں میں سن سکتا ہوں اورشادمانی سے ان کی طرف دوڑتا ہوں۔تقریب کچھ منٹ ہی جاری رہتی ہے۔ میرے ہاتھوں کو خون سے رنگے بغیر وہ یکے بعد دیگرے گر پڑتے ہیں۔ گرنے کے بعد وہ اسی جگہ پڑے رہتے ہیں اور ان کے جسم ایک راہداری کو دوسری سے ممیز کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتا وہ کون ہیں، مگر مجھے یہ معلوم ہے کہ ان میں سے ایک نے اپنی موت کے وقت پیشین گوئی کی تھی کسی دن میرا نجات دہندہ ضرور آئے گا۔ اس دن سے اکیلا پن میرے لئے باعثِ کرب نہیں کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ میرا نجات دہندہ موجود ہے اوربالآخر وہ خاک سے نمودار ہو گا۔اگر میرے کان کائنات کی تمام آوازوں کا احاطہ کر سکتے تو میں ضرور اس کی قدموں کی آہٹ سن سکتا۔ مجھے امید ہے کہ وہ مجھے ایک کم راہداریوں اور کم دروازوں والی جگہ پر لے جائے گا۔ میرا نجات دہندہ کیسا ہو گا؟ ، میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں۔کیا وہ بیل ہو گا یا انسان؟ کیا ممکن ہے کہ وہ انسانی چہرے والا ایک بیل ہو؟ یا وہ میرے جیسا ہو گا؟
صبح کا سورج کانسی کی تلوار سے منعکس ہوا۔ خون کا کوئی سراغ تک بھی باقی نہ تھا۔
’’کیا تم یہ مانو گی، آریادنہ؟ ‘‘، تھیسیس نے کہا۔ ’’مینوتور بمشکل اپنا دفاع کر سکا۔‘‘
پس تحریر: بورخیس کی دوسری کہانیوں کی طرح یہ کہانی بھی ایک دلچسپ ادبی تجربہ ہے جس میں ایک مشہور یونانی دیومالا کو کریٹ کے مینوتور (Cretan Minotaur)کے زاویۂ نگاہ سے بیان کیا گیا ہے۔اصل کہانی کچھ یوں ہے کہ کریٹ کے بادشاہ مینوس نے سمندروں کے دیوتا پاسائڈن سے کوئی ایسی نشانی طلب کی جس کی مدد سے وہ کریٹنی عوام پر یہ ثابت کر سکے کے وہ دیوتاؤں کا منظورِ نظر ہے۔ پاسائڈن نے یہ درخواست اس شرط پر تسلیم کی کہ وہ بیل جسے وہ اس واسطے سمندر سےنمودار کرے گا بعد میں قربانی کے لئے اسی کو پیش کیا جائے گا۔مگر وہ جانور اتنا خوبصورت تھا کہ مینوس اپنے آپ کواسے اس طرح ضائع کرنے پر آمادہ نہ کر سکا۔ اس بات پرپاسائڈن کو طیش آیا اور اس نے انتقام کی خاطر ملکہ پاسیفائہ کو سفید بیل کی محبت میں گرفتار کر دیا۔ اس حیوان سے وصال کی خاطر ملکہ نے ایتھنز میں مینوس کے دربار کے ایک چالاک اور باوسائل درباری دایدالوس کی خدمات حاصل کیں ۔ اس نے اپنا فن استعمال کرتے ہوئے لکڑی اور چمڑے کی مدد سے ایک نوجوان گائے کو تخلیق کیا۔ ملکہ اس گائے کے اندر چھپ گئی اور ظاہری شکل و صورت سے دھوکا کھا کر سفید بیل نے اس مباشرت کی۔ اس غیرفطری ملاپ کا نتیجہ مینوتور تھا، جو استرایون یا استرایوس کے نام سے بھی مشہور ہے، اور جس کا سر بیل کا اور جسم انسان کا تھا۔غصے اور افسوس میں مینوس اور دائدالوس نے جیل کے طور پر بھول بلیوں سے بھرا ایک بہت بڑا محل تخلیق کیا تاکہ اس عفریت کو قید رکھا جا سکے۔ ہر سال یا ہر نو سال بعد سات جوان لڑکے اور سات کنواریاں مینوس کے حکم پر مینوتور کی بھینٹ چڑھائی جاتیں۔ ایک روز ایتھنز کا ایک سورما تھیسیس ان جوانوں میں جا ملا اور آریادنہ کے مہیاکردہ سوت کے ایک گولے کی مدد سے اپنا راستہ تلاش کرتے ہوئے مینوتور کو قتل کرنے اور بھول بھلیاں سے فاتح باہر نکلنے میں کامیاب ہوا۔
ہومر کی یہ داستان کئی طرق سے مختلف تبدیلیوں کے ساتھ موجود ہے مگر ہر ایک میں عمومی طور پرکرداروں کی بجائے واقعات کے تسلسل پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس بورخیس کی کہانی مینوتور کے زاویۂ نگاہ سے اس داستان کو پیش کرتی ہے۔یہ نہ جانتے ہوئےکہ وہ کیوں قید ہے استرایون مختلف کھیلوں اور تصنع کاری میں اپنا وقت گزارتا ہے۔ گو کہ اس کا ایک خیالی دوست یعنی اسی کا سایہ موجود ہے لیکن وہ جوان لڑکے جو قربانی کے لئے بھیجے جاتے ہیں اس کا اصل خارجی تجربہ ہیں۔ اس کے بیان میں یہ قصہ مبہم ہے کہ کیا وہ اصل میں ان شکاروں کو قتل کرتا ہے، لیکن اگر ایسا ہےبھی تو اس کے خیال میں قتل اخلاقی طور پر ایک مثبت اقدام ہے۔ کچھ نقادوں کا یہ مفروضہ ہے کہ استرایون اپنے تئیں انہیں قتل نہیں کر تا بلکہ ان کو بدی سے رہائی دلا رہا ہے۔ ایک دن اسی انسانی قربانی کے دوران ایک مرتا ہوا آدمی پیشین گوئی کرتا ہے کہ استرایون کا نجات دہندہ ضرور آئے گا۔ استرایون کو نجات کا مقصد تو نہیں معلوم مگر نجات دہندہ کا یہ تصور اس کے ذہن پر حاوی ہے۔ کہانی کے انجام میں وہ اپنی نجات موت کی شکل میں پاتا ہے۔اہم ترین بات یہ ہے کہ یونانی دیومالا سے واقف ایک قاری پر انجام کے وقت یہ واضح کیا جاتا ہے کہ یہ استرایون اصل میں مشہور یونانی دیوتا نہیں بلکہ وہ عفریت مینوتور تھا۔
خدائی تحریر
زندان بہت گہرا ہے، اور پتھر کا بنا ہے۔ یہ واقعہ ایک لحاظ سے جبرو استبداد اور وسعت کے احساسات کو مزید ابھارتا ہے کہ زندان کی ہئیت تقریباً ایک مکمل نصف کرہ کی سی ہےگو کہ تہہ (جو پتھر ہی کی بنی ہے) ایک عظیم دائرے سے کچھ کم ہی ہے ۔ ایک دیوار اس کے مرکز کو نصف میں تقسیم کرتی ہے، اور یہ دیوار کافی بلند ہونے کے باوجود قیدخانے کے بالائی حصے تک نہیں پہنچتی۔یہاں ایک کال کوٹھری کے اندر میں یعنی زیناکان اہرامِ قاہولوم کا جادوگر جسے پیڈرو ڈی الورادو نے آگ سے تباہ و برباد کر ڈالا قید ہوں ، اور دوسرے میں ایک تیندوا جو خفیہ لگاتار قدموں سے قید کی زمانی و مکانی نوعیت جانچ رہا ہے۔ مرکزی دیوار کے بیچ ایک لمبی کھڑکی ہے جس کی سلاخیں زمین سے لگی ہیں ۔ نصف النہار کے وقت جب سایہ نہیں ہوتا ، اوپر چھت میں ایک شگاف کھلتا ہے اور داروغۂ زنداں جس کو ماہ و سال بتدریج مٹا رہے ہیں ایک فولادی چرخی گھماتا ہے اور ہمارے لئے رسی کے ذریعے پانی کے جگ اور گوشت کے پارچے اتارتا ہے۔ اس سمے کوٹھری میں روشنی در آتی ہے اور یہی وہ ساعت ہے جب میں تیندوے کو دیکھ سکتا ہوں۔
میں ان سالوں کی گنتی بھول چکا ہوں جومیں نے تاریکی میں لیٹے لیٹے بسر کئے۔ میں جو کبھی جوان تھا اور زندان میں چہل قدمی کر سکتا تھا، اب موت کا آسن جمائے انتظار سےزیادہ اور کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں، یعنی وہ انجام جو خداؤں نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے۔میں جو برکانی شیشے سے ڈھلے خنجر سے اپنے شکاروں کے سینے چاق کر دیا کرتا تھا آج طلسم کا سہارا لئے بغیر اپنا آپ مٹی سے اوپر نہیں اٹھا سکتا۔
اہرام کے جلائے جانے کی رات ان طویل القامت گھوڑوں سے اترنے والے افراد نے مجھے آتشیں دھاتوں سے اذیت دے دے کر چھپے ہوئے خزانے کا پتہ اگلنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے دیوتا کے بت کو میری نگاہوں کے سامنے زمین پر گرا دیا مگر اس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا اور میں نے خاموشی سے مظالم برداشت کئے۔ انہوں نے مجھ پر چابک برسائے، مجھے توڑ پھوڑ دیا اور حلیہ بگاڑ دیا، اور پھر میں نے اس زندان میں آنکھ کھولی جس سے میں اس حیاتِ فانی میں تو باہر نہیں آ سکتا۔
کسی طور مصروفِ عمل رہنے اور وقت کا خلا کسی صورت پُر کرنے کی جبریت کے ہاتھوں میں نے اپنی تاریکی میں وہ سب کچھ یاد کرنے کی کوشش کی جومیں جانتا تھا ۔ لاانتہا راتیں پتھروں پر منقش ناگوں کی کی تعداد وترتیب یا کسی ادویاتی درخت کی درست شکل ذہن میں لانے کے لئے صرف کر دیں۔ اسی طرح بتدریج ، میں نے گزرتے ہوئے سالوں کو زیرِ نگیں کر لیا۔ اسی طرح بتدریج میں اس شے کا مالک بن گیا جو پہلے ہی سے میری تھی۔ ایک رات مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک انتہائی باطنی یاداشت کے سرے پر پہنچنے والا ہوں۔ مسافر کی نگاہ سمندر پر پڑتے ہی اسے اپنی رگو ں میں خون کی گردش تیز ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ کئی گھنٹوں بعد میں اس یاداشت کے خدوخال کے ادراک کے قابل ہوا۔ وہ خدا سے متعلق ایک روایت تھی۔ یہ پیش بینی کرتے ہوئے کہ زمانۂ آخر میں تباہی و بربادی ہو گی خدا نے تخلیق کے پہلے ہی دن ایک جادوئی فقرہ تحریر کیا، جس میں ان برائیوں کا اثر زائل کرنے کی طاقت تھی۔ اس نے یہ فقرہ کچھ اس طور لکھا کہ وہ بعید ترین نسلوں تک پہنچ جائے اور اتفاق پر منحصر نہ ہو۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ فقرہ کہاں لکھا گیا اور حروف کیا تھے، مگر یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی خفیہ جگہ موجود ہے اور کوئی برگزیدہ انسان ہی اسے پڑھے گا۔ میں نے سوچا کہ ہم ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی زمانۂ آخر میں ہیں اور خدا کا آخری پروہت ہونے کی تقدیر کے ناطے میرا یہ استحقاق ہے کہ میں اس تحریر کا کشف حاصل کر لوں۔ یہ واقعہ کہ میں ایک زندان میں قید ہوں میری امید کے آڑے نہیں آیا۔شایدقاہولوم کی تحریر ہزاروں بار میری نگاہ سے گزری ہو اور میں نے محض اس کی گہرائی میں ہی اترنا تھا۔
اس سوچ نے میری ہمت بندھائی اور میں جیسے چکرا سا گیا۔پوری زمین پر قدیم اشکال موجود ہیں، اشکال جو ناقابلِ فنا اور دائمی ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی وہ علامت ہو سکتی ہے جس کی مجھے تلاش ہے۔ ایک پہاڑ خدائی بیان ہو سکتا ہے، یا کوئی ندی یا سلطنت یا ستاروں کا کوئی جھرمٹ۔مگر صدیاں گزر جانے کے بعد پہاڑ مسطح ہو جاتے ہیں اورد ریا اپنے بہاؤ کا راستہ بدل لیتے ہیں، سلطنتیں تغیر پزیر ہیں اور تاراج ہو جاتی ہیں، اور ستاروں کے جھرمٹ بدل جاتے ہیں۔ کرۂ سماوی میں تبدیلی آتی ہے۔ پہاڑ اور ستارے انفرادی ہیں اور انفرادی اشیاء مٹ جاتی ہیں۔ میں کسی مزیدمحکم شے کی تلاش میں تھا، مزید ناقابلِ تسخیر۔ میں ا ناجوں ، سبزہ زاروں، پرندوں اور انسانوں کی نسلوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ شاید طلسم میرے چہرے پر ہی تحریر ہو، شاید میں خود ہی اپنی تلاش کی انتہا تھا۔ فکر مجھے کھائے جا رہی تھی جب مجھے یاد آیا کہ تیندوا خدا کی صفات میں سے ایک صفت تھا۔
پھر میری روح رحم سے لبریز ہو گئی۔ میں نے زمانے کی اولین صبح کا تصور کیا، میں نے تصور کیا کہ میرا خدا تیندووں کی زندہ کھال کو اپنا پیغام تفویض کر رہا تھا جو غاروں، بانس کے کھیتوں ، جزیروں میں ناقابلِ اختتام محبت اور تولیدِ نسل کر یں گے تاکہ آخری انسانوں تک یہ پیغام پہنچ سکے۔ میں نے تصور کیا کہ شیروں کے یہ حلقے، شیروں کے یہ بھرے پُرے پُر پیچ غول چراہ گاہوں اور ریوڑوں میں اس واسطے دہشت پھیلا رہے ہیں کہ ایک تقدیری خاکے کو جاری رکھا جا سکے۔ساتھ والی کوٹھڑی میں ایک تیندوا تھا اور اس کے قرب کو میں نے اپنے مفروضے کی توثیق اور ایک خفیہ انعام سمجھا۔ میں نے اس کی کھال پر موجود نشانوں کی ترتیب اور تشکیلی ساخت کو سمجھنے میں کئی سال وقف کر دئیے۔ تاریکی کا ہر وقفہ روشنی کی ایک ساعت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا اور اسی ایک لمحے مجھے یہ موقع مل جاتا کہ میں زرد سنجاب میں چلتی سیاہ شکلوں پر اپنا ذہن مرکوز کر سکوں۔ ان میں سے کچھ نقاط پر مشتمل ہوتیں، دوسری رانوں کے اندرونی حصے پر ایک دوسرے کو کاٹتیں، اور کچھ حلقوں کی شکل میں بار بار اپنے آپ کو دہراتی رہتیں۔ شاید وہ ایک تنہا صوتی اکائی تھیں یا تنہا لفظ۔ ان میں سے کئی کے کنارے سرخ تھے۔
میں اپنی مشقت کی تکالیف کا تذکرہ نہیں کروں گا۔ میں اپنی کوٹھڑی میں ایک سے زیادہ دفعہ چلا اٹھا کہ اس تحریر کی رمزکشائی ناممکن ہے۔ بتدریج یہ ٹھوس معما جسے سلجھانے کے لئے میں سرگرم تھا میرے لئے اس عمومی معمے سے کم پریشان کن ثابت ہونے لگا جو خدا کے تحریر کردہ فقرے کی وجہ سے تھا۔ ایک ذہنِ مطلق کس قسم کا فقرہ (میں نے اپنے آپ سے پوچھا) وضع کرے گا ؟میں نے سوچا کہ انسانی زبانوں تک میں ایسا کوئی قضیہ نہیں جو مکمل کائنات پر دلالت نہ کرتا ہو، کسی خاص شیر کی بابت ذکر کے مفہوم میں وہ شیر بھی شامل ہیں جنہوں نے اسے پیدا کیا، وہ ہرن اور کچھوے جو اس نے بہت شوق سے نگلے، وہ گھاس جو ہرن کی خوراک تھی، زمین جو اس گھاس کی ماں تھی، آسمان جس نے اس زمین کو جنم دیا۔ میں نے سوچا کہ خدائی زبان میں ہر لفظ واقعات کی ایک لامتناہی سلسلہ بندی ادا کرتا ہے، مضمر نہیں بلکہ صریح طور پر، بتدریج نہیں بلکہ ایک دم۔ پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد خدائی فقرے کا تصور ہی طفلانہ یا گستاخانہ لگنے لگا۔میں نے سوچا کہ کسی خدا کو تو بس ایک لفظ ہی ادا کرنے کی ضرورت ہے جس میں مطلق کاملیت ہو۔اس کا ادا کیا ہوا کوئی بھی لفظ کائنات سے حقیر نہیں ہو سکتا یا کل مجموعۂ زمان سے کم نہیں ہو سکتا۔اس ایک لفظ کے سائے یا مماثلتیں جو کسی زبان کے برابر ہوں یا وہ سب کچھ جس کا کوئی زبان احاطہ کر سکے کچھ لاچار اور خواہش مند انسانی الفاظ ہیں یعنی ’کُل‘، ’دنیا‘، ’کائنات‘ وغیرہ۔
ایک دن یا ایک رات! میرے دنوں اور راتوں میں کیا فرق ہو سکتا ہے؟ میں نے خواب دیکھا کہ قید خانے کی زمین پر ریت کا ایک ذرہ پڑا ہے۔ کوئی پروا کئے بغیر میں دوبارہ سو گیا۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں جاگ گیا ہوں اور زمین پر ریت کے دو ذرات موجود ہیں۔ اب ایک بار پھر سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ اب تین ذرات ہیں۔وہ اسی طرح بڑھتے رہے یہاں تک کہ قید خانہ ان سے بھر گیا اور میں ریت کے اس کرّے کے نیچے دفن ہو گیا۔ مجھے خیال آیا کہ میں تو خواب دیکھ رہا ہوں تو بہت کوشش کے بعد میں نے اپنے آپ کو جگایا اور اٹھ بیٹھا۔ جاگنا بے فائدہ تھا اور ریت کے لاتعداد ذرات کی وجہ سے میرا دم گھٹ رہا تھا۔ کسی نے مجھے کہا:’تم ابھی نیند سے باہر نہیں آئے بلکہ ایک پچھلی حالتِ خواب میں ہو۔ یہ خواب ایک اور خواب میں بند ہے اور اسی طرح خوابوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ریت کے ذروں کی تعداد کے برابر ہے۔ یہ راہ جس پر الٹے قدموں واپس جانا تمہارے لئے ناگزیر ہے نہ ختم ہونے والی ہے اور اس سے قبل کے تم جاگو تمہاری موت واقع ہو جائے گی۔‘
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں کھو چکا ہوں۔ ریت سے میرا منہ پھٹ رہا تھا مگر میں چلایا:’خوابوں کی بنی ریت مجھے قتل نہیں کر سکتی اور نہ ہی خوابوں کے اندر خواب بستے ہیں۔‘ روشنی کی ایک چندھیا دینے والی شعاع نے مجھے جگا دیا۔ اوپر تاریکی میں روشنی کا ایک دائرہ بن چکا تھا۔ مجھے داروغۂ زنداں کا چہرہ اور ہاتھ ، چرخی ، رسی ، گوشت کے پارچے اور پانی کے جگ نظر آئے۔
ایک انسان اپنی تقدیر کے بارے میں بتدریج ابہام کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ انسان کم و بیش اپنے حالات ہی کا عکس ہوتا ہے۔ میں کسی بھی رمز کشا یا بدلہ جُو، خدا کے کسی بھی پروہت سے زیادہ محبوس شخص تھا۔ خوابوں کی ایک انتھک بھول بھلیوں سے میں ایسے لوٹا جیسے اپنے گھر یعنی اس سخت قیدخانے میں۔ میں نےاس کی حبس کو دعا دی، اس میں موجود شیر کو دعا دی، روشنی پہنچاتی اس روزن کو دعا دی، اپنے لاغر اور مبتلائے اذیت جسم کو دعا دی، اس تاریکی اور پتھر کو دعا دی۔
پھر وہ ہوا جو ناقابلِ بیان اور ناقابلِ فراموش ہے۔میں الوہیت کے ساتھ باہم متصل ہو گیا، کائنات میں پیوست ہو گیا (میں نہیں جانتا کہ کیا یہ دونوں الفاظ مختلف معانی رکھتے ہیں)۔ سرمستی اپنی علامات کو نہیں دہراتی۔ خدا کو دمکتی روشنی میں، کسی تلوار میں یا کسی گلاب پر موجود دائروں میں دیکھا گیا ہے۔ میں نےایک بہت ہی زیادہ اونچا پہیہ دیکھا، جو میری نظروں کے سامنے نہ تھا، نہ ہی عقب یا اطراف میں، بلکہ ہر جگہ ایک ہی وقت موجود تھا۔ وہ پہیہ پانی کا بنا تھا، مگر آگ کا بھی، اور وہ (گو کہ اس کا کنارہ دیکھا جا سکتا تھا) لامتناہی تھا۔تمام اشیاء جو موجود ہیں ، کبھی تھیں اور کبھی ہوں گی اس سے منسلک تھیں، اور میں اس مکمل بُنتی کا ایک ریشہ تھا، اور پیڈرو ڈی الورادو جس نے مجھے اذیت دی ایک دوسرا ریشہ تھا۔یہاں علت و معلول واضح تھے اور پہیے کو دیکھنے سے مجھے کسی اختتام کے بغیر سب کچھ سمجھنے کا اطمینان ہو گیا۔ آہ ! کہ نعمتِ فہم، نعمتِ تصور یا نعمتِ احساس سے عظیم تر ہے۔ میں نے کائنات کو دیکھا اور اس میں پنہاں گہرے خاکوں کو دیکھا۔ میں نے کتابِ عامہ میں بیان کردہ ابتدا ئیات کو دیکھا۔ میں نے وہ پہاڑ دیکھے جو پانی میں سے نمودار ہوئے تھے، میں نے اولین لکڑہاروں کو دیکھا، ان حوضوں کو جو انسانوں کے خلاف چھلک اٹھے،ا ن کتوں کو جنہوں نے ان کے چہروں کو پامال کیا۔ میں نے بےچہرہ خدا کو دوسرے خداؤں کے اوٹ میں چھپے دیکھا۔ میں نے وہ لامتناہی سلسلے دیکھے جنہوں نے ایک واحدفرحت و اطمینان کو جنم دیا، اور پھر یہ سب کچھ سمجھنے کی وجہ سے میں شیر کی کھال پر موجود تحریر کے فہم کے قابل ہوا۔ یہ چودہ بے ترتیب (وہ بے ترتیب نظر آتے ہیں)الفاظ پر مشتمل ایک فارمولا ہے اور اسے بلند آواز میں ادا کر دینے سے میں ایک عظیم طاقت حاصل کر لوں گا۔ ان کو ادا کرنا اس پتھر کےقید خانے کو ڈھا دینے کے لئے، میری رات کو دن کی روشنی سے منور کرنے کے لئے، جوان ہونے کے لئے، لافانی ہونے کے لئے، شیر کے جبڑوں میں الورادو کو بھینچ دینے کے لئے، مقدس خنجر ہسپانویوں کے سینوں میں گھونپ دینے کے لئے، اہرا م کی تعمیرِ نو کے لئے اور سلطنت کی تشکیلِ نو کے لئے کافی ہے۔ صرف چالیس صوتی پیکر، چودہ الفاظ، اور میں زیناکان ان تمام علاقوں پر حکومت کروں گا جن پر موکتی زوما حکومت کرتا تھا۔ مگر میں جانتا ہوں کہ میں کبھی یہ الفاظ نہیں کہوں گا کیوں کہ میں اب مزید نہیں جانتا کہ زیناکان کو ن ہے۔
اے کاش کہ شیروں پر موجود رمزی حروف میرے ساتھ ہی مر جائیں۔ جس کسی نے بھی کائنات دیکھی ہے، جس کسی نے بھی کائنات کے آتشیں خاکوں کا مشاہدہ کیا ہے، وہ ایک انسان کے طور پر نہیں سوچ سکتا، اس ایک انسان کی معمولی خوش نصیبی یا بدنصیبی کے طور پر جب کہ وہ خود وہی انسان ہو۔وہ انسان ’وہ خود ہی ہے‘ اور ’اب ‘ اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس دوسرے کی زندگی اس کے لئے کیا ہے، اس دوسرے کی قوم اس کے لئے کیا ہے، جب وہ ابھی کوئی بھی نہیں۔ یہ ہے وہ وجہ کہ میں فارمولا زبان سے نہیں نکالتا، یہ ہے وہ وجہ کہ میں یہاں تاریکی میں پڑے پڑے انتظار کر رہا ہوں کہ یہ سلسلہ ٔ ایام مجھے مٹا ڈالے۔
بورخسی او رمیں
ایک اور شخص جس کے ساتھ واقعات پیش آتے ہیں بورخس ہے ۔میں بیونس آئرس سے گزرتے ہوئے ، شاید کسی ڈیوڑھی یا اس کے اندرونی دروازے میں جھانکنے کے لئے، ٹھٹک کر رک جاتا ہوں ۔ بورخس کی خبر مجھے بذریعہ ڈاک ملتی ہے یا پھر کسی سوانحی لغت میں درج ادیبوں کی فہرست میں اس کا نام نظر آجاتا ہے۔میرےذوق کا دائرہ ریت گھڑیوں، نقشوں، اٹھارویں صدی کے رسم الخط، اشتقاقیات، کافی کے ذائقے اور اور رابرٹ لوئی اسٹیفن سن کی نثر تک پھیلا ہوا ہے۔ بورخسی ان ترجیحات میں حصہ رکھتا ہے مگر ایک بے کارطریقے سے، جس کی وجہ سے وہ ایک اداکار کی صفات میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ کہنا کہ ہمارا رشتہ معاندانہ ہے مبالغہ آرائی ہو گی۔ میں اپنے آپ کو زندہ رکھتا ہوں تاکہ بورخس داستان گوئی کر سکے اور اس کایہ ادب ہی میرا جواز ہے۔میں دانستہ اقرار کرتا ہوں کہ اس نے متعدد بہترین صفحات تحریر کئے ہیں مگر وہ صفحات مجھے بچانے سے قاصر ہیں، شاید اس لئے کہ ان میں موجود سچائی اب کسی ایک فرد کی جاگیر نہیں ، نہ ہی ُاس دوسرے آدمی کی ، بلکہ بذاتِ خود زبان یا روایت کی میراث ہے۔اس سے آگے فنا میرا مقدر ہے، گوشہء گمنامی کی طرف کامل اور ناگزیر فنا، اوراس دوسرے انسان میں محفوظ بس چند عارضی ساعتیں میرا نشان ہیں۔ آہستہ آہستہ میں سب کچھ اس کے حوالے کر رہا ہوں گو کہ میں اس کی مسخ اور مبالغہ کرنے کی ہٹ دھرم روش سے خوب واقف ہوں۔اسپینوزا کا اعتقاد تھا کہ اشیاء وہی بنے رہنا چاہتی ہیں جو وہ ہیں، پتھر ہمیشہ پتھر اور شیر ہمیشہ شیر ہی رہنا چاہتا ہے۔میں (اگر میں واقعتاً کوئی ہوں بھی)خود میں نہیں بلکہ بورخسو میں باقی رہوں گا،مگر میں اپنے آپ کو اس کی کتابوں سے زیادہ کئی دوسری کتابوں میں شناخت کرتا ہوں، یا پھر کسی گٹار کی مسلسل سروں میں۔کئی سال پہلے میں نے خود کو اس سے آزاد کرانے کی سعی کی اور کچی آبادیوں کی اساطیریات اور شہر کے گردونواح سے آگے بڑھ کر زمان اور لامتناہیت سے کھیلنے میں مشغول ہو گیا، مگر یہ شغل اب بورخس کے ہیں اور مجھے اور کچھ سوچنا پڑے گا۔لہٰذا میری زندگی ایک دعوٰی- جوابِ دعوٰی ہے، ایک طرح کا طویل نسیانی دورہ، ایک خلا میں ڈوب جانے کی کیفیت، اب ہرشے مجھے گمشدہ محسوس ہوتی ہے اور سب کچھ فراموشی کے قریب ہے یا دوسرے انسانوں کے ہاتھ لگنے والا ہے۔
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ صفحہ ہم میں سے کون لکھ رہا ہے۔
سب کچھ اور کچھ بھی نہیں
اس میں کوئی بھی موجود نہ تھا، اس کے چہرے (جو اس زمانے کی ناقص تصاویر کے ذریعے منقش ہونے کے باوجود کسی دوسرے کے مماثل نہ تھا) اور الفاظ کے پیچھے جو فراواں، نرالے اور جذباتی ہیں، صرف ایک طرح کی سرد مہری تھی، ایک ایسا خواب جو کسی نے نہ دیکھا تھا۔ پہلے پہل اس نے سوچا کہ تمام لوگ اس جیسے ہی ہیں، مگر ایک ایسے دوست کی حیرانی نے ،جس سے اس نے اپنے اندر موجود اس خلا کی بابت بات چیت شروع کی، اسے اپنی غلطی باور کرائی اور ہمیشہ یہ احساس دلایا کہ ایک فرد کو اپنے خارج کے بارے میں اختلاف کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ایک زمانے میں اس کا گمان تھا کہ اس کے مرض کا علاج کتابوں میں ہے لہٰذا اس نے عصری استعمال کی حد تک کچھ کچھ لاطینی اور یونانی سیکھی ، بعد میں اس نے سوچا کہ جوکچھ وہ تلاش کر رہا ہے شاید انسانیت کی بنیادی رسومات میں موجود ہو، لہٰذا جون کی ایک طویل شام اس نے این ہیتھ وے (Anne Hathaway) (شیکسپئیر کی بیوی) کو خود سے قریب ہونے دیا۔ بائیس سال کی عمر میں وہ لندن چلا گیا۔ وہ جبلی طور پر خود کو کسی طور ظاہر کرنے کی عادت میں ملِکہ حاصل کر چکا تھا تاکہ دوسرے اس کی کچھ نہ ہونے کی حالت کو دریافت نہ کر سکیں۔ لندن میں وہ اس پیشے سے منسلک ہوا جو اس کی تقدیر میں تھا، یعنی کہ ایک اداکار ، جو اسٹیج پر کسی اور کا کردار ادا کرتا ہے اور سامنے بیٹھے تماشائی اسے کوئی اور سمجھنے کا کردار نبھاتے ہیں۔ اس کے سوانگی تماشوں نے اسے ایک مخصوص اطمینان دیا ، شاید اپنی قسم کا ایک اولین نادر تجربہ جو اسے آج تک پیش آیا، مگر جیسے ہی آخری مردہ آدمی کو اسٹیج سے ہٹایا گیا، موہومیت کا نفرت زدہ ذائقہ دوبارہ لوٹ آیا۔ وہ فیریکس(Ferrex) (ایک دیومالائی انگلستانی بادشاہ کا بیٹا)یا تیمورلنگ(Tamerlane) بننا ترک کر کے ایک بار پھر’’ کوئی نہیں‘‘ بن گیا۔ پس یونہی تعاقب کرتے کرتے وہ دوسرے سورماؤں اور المیہ داستانوں کےتصورات بنتا رہا۔اور یوں جہاں اس کا گوشت پوست کا وجود لندن کے مے خانوں اور قحبہ خانوں میں اپنے مقدر کی تکمیل کرتا رہا، اس کی روح کبھی سیزر (Caesar)تھی جو اوگر (Augur) ( قدیم روما کا ایک مذہبی اہلکار) کی تنبیہات کو جھٹلاتی رہی ، کبھی جولیئٹ(Juliet) جو چنڈول سے نفرت کرتی ہے، اور کبھی میکبتھ(Macbeth) جو میدان میں جادوگرنیوں سے، جو تقدیر کی صدائیں بھی ہیں، مکالمہ کرتا ہے ۔ آج تک کوئی اس آدمی جتنے آدمیوں کا روپ نہیں دھار سکا جو مصری پروتئوس (Proteus) ( یونانی دیومالا کا ایک دیوتا جو مرضی سے شکل بدل سکتا تھا) کی طرح حقیقت کے تمام سوانگ رچا سکے۔ کئی دفعہ وہ اپنے فن کے کسی کونے میں ایک ایسا اعتراف چھپا رکھتا جس کی رمز کشائی قطعی ناممکن تھی، رچرڈ (شیکسپئیر کے ڈرامے رچرڈ سوم کی جانب اشارہ ہے) توثیق کرتا ہے کہ اس انسان میں اس نے کئی کردار نبھائے اور ایاگو(Iago) ( شکیسپئیر کے المیے کا ایک کردار جس نے اوتھیلو (Othello) کو ترغیب دی کے اپنی بیوی کو قتل کر ڈالے) کا پرتجسس دعویٰ یہ ہے کہ ’’میں وہ نہیں جو کہ میں ہوں۔‘‘ ہستی، خواب اور اداکاری کی بنیادی شناخت نےاس کی مشہور عبارات کو فیضان بخشا۔
بیس سال وہ اس باضابطہ فریبِ نظر میں مبتلا رہا، مگر ایک صبح وہ تلوار کا لقمہ بننے والے اتنے بہت سے بادشاہوں اور اتنے بہت سےمرتکز، منتشر اور پھر نغمگیں طور پر ختم ہونے والے اذیت زدہ عشاق بننے کی تھکاوٹ اور دہشت کے ہاتھوں اچانک جکڑ ا گیا۔ اسی دن اس نے اپنا تھیٹر فروخت کرڈالا۔ ایک ہفتےکے اندر اندر وہ اپنے آبائی گاؤں لوٹ چکا تھا، جہاں اس نے اپنے بچپن کے درخت اور ندیوں کو پھر سے حاصل کیا، اور ان کا تعلق معروف اساطیری تلمیحات اور لاطینی اصطلاحات سے لبریزشاعرانہ فیضانات سے نہیں جوڑا۔ اسے کچھ نہ کچھ بننا تھا، وہ عوامی منظر نامہ سے علیٰحدہ ایک ایسا ناظمِ تفریحات تھا جس نے ایک جائیداد بنائی اور اب قرضوں، عدالتی رٹوں اورچھوٹے موٹے سودوں میں جکڑا ہو ا تھا۔ یہ وہ حالات تھے جس میں اس نے وہ بنجر وصیت نامہ املاء کروایا جو ہمارےعلم میں ہے، جس میں سے اس نے رقت انگیز جذبات اور ادب کے تمام نشانات ہذف کر دیئے۔اس کے لندن کے دوست اس کے گوشۂ تنہائی میں ملاقات کو آتے اور ان کی خاطر وہ ایک مرتبہ پھر شاعر کا کردار نبھا دیتا۔
تاریخ یہ مزید بتلاتی ہے کہ موت سے پہلے اس نے اپنے آپ کو خدا کے حضور پایا اور کہا:’’میں جولاحاصل طور پر اتنے بہت سے انسان بن چکا ہوں، اب یکتا اور خود اپنا آپ بننا چاہتا ہوں۔‘‘ ایک بگولے کے اندر سےپروردگار کی آوازآئی:’’نہ ہی میں کوئی ہوں، میرے شیکسپئیر ، میں نے دنیا کو اسی طرح اپنے تخیل میں پایا جیسے تم نے اپنی تخلیقات کو، اور میرے تخیل میں موجود امثال میں سے ایک تم ہو، جو میری ہی طرح بہت کچھ ہو اور کوئی نہیں ہو۔‘‘
ایک مسئلہ
ذرا تصور کیجئے طلیطلہ میں ایک کاغذ کا ٹکڑا دریافت ہوتا ہے جس پر عربی میں لکھی ایک عبارت موجود ہے۔قدیم نگارشات کے ماہرین یہ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ یہ اندازِ تحریر حامد بینن جلی (Cide Hamete Benengeli) کا ہے جس سے میگوئیل ڈی سروینٹس(Miguel de Cervantes) نے اپنا مشہور ناول ڈان کیوٹے (Don Quixote) اخذ کیا۔ اس عبارت میں ہم پڑھتے ہیں کہ ہیرو (جیسا مشہور ہے کہ ہسپانیہ کی شاہراہوں پر تلوار اور نیزہ لئے گھومتا پھرتا ہے اور کسی بھی وجہ سے کسی کو بھی للکار دیتا ہے) کو اپنے بہت سے معرکوں میں سے ایک کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ایک آدمی قتل کر دیا ہے۔ اسی جگہ پر یہ عبارت ختم ہو جاتی ہے، اور مسئلہ یہ ہے کہ یہ اندازہ یا مفروضہ کیسے قائم کیا جائے کہ ڈان کیوٹے کا ردعمل کیا ہوگا۔
میرے علم کے مطابق تین ممکنہ جواب ہو سکتے ہیں۔پہلا منفی نوعیت کا ہے: کچھ خاص نہیں ہوگا کیوں کہ ڈان کیوٹے کی فریب نظر پر مبنی تصوراتی دنیا میں موت اتنا ہی عمومی طور پر پیش آنے والا واقعہ ہے جتنا کہ طلسم، اور ایک آدمی کا قتل کسی ایسے انسان کو مضطرب کیونکر کرے گا جو لڑتا ہے، یا جس کا خیال ہے کہ وہ حیرت انگیز عفریتوں اور جادوگروں سے لڑ تاہے۔ دوسرا جواب ایک رقت انگیز نوعیت کا ہے۔
ڈان کیوٹے یہ کبھی فراموش نہیں کر سکا کہ وہ الونسو کیوخانو(Alonso Quijano) ایک حیرت انگیز داستانوں کے قاری کا عکسِ ذات تھا۔ موت کو دیکھتے ہی اس پر یہ منکشف ہوا کہ ایک خواب نے اسے گناہِ قابیل کی جانب دھکیل دیا اور وہ اپنی ناز بردار دیوانگی سے جاگ اٹھا، شاید ہمیشہ کے لئے۔ تیسرا جواب شاید سب سے زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ جب وہ آدمی مر گیا تو ڈان کیوٹے یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ یہ ہولناک عمل ہذیان کا نتیجہ ہے، حقیقتِ اثر اسے ایک متوازی حقیقتِ علت کی پیش قیاسی پر مجبور کر دیتی ہے اور ڈان کیوٹے اس حالتِ دیوانگی سے کبھی نہیں نکلے گا۔
ایک چوتھا مفروضہ بھی ہے جو ہسپانوی حلقے بلکہ مغربی دنیا کے حلقے کے لئے بھی اجنبی ہے، اور ایک مزید قدیم، مزید پیچیدہ اور مزید آزردہ فضا کا متقاضی ہے۔ ڈان کیوٹے جو اب مزید ڈان کیوٹے نہیں بلکہ سلسلہ ہائے ہندوستاں کا شہنشاہ ہے اپنے دشمن کے لاشے کے سامنے کھڑے ہوئے یہ محسوس کرتا ہے کہ قتل و غارت اور عملِ پیدائش خدائی یا جادوئی اعمال ہیں جو نمایاں طور پرانسانی کیفیات سے ماورا ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ مردہ آدمی فریبِ نظر ہے، بالکل اسی طرح جیسے یہ خون آلود تلوار جو اس کے ہاتھ میں ہے، اور وہ خود ، اور اس کی ساری پچھلی زندگی اور بے کراں وسعت کے حامل دیوتا اور کائنات۔
گواہ
ایک اصطبل میں جو پتھر کے ایک نئے تعمیر یافتہ کلیسا کے سائے میں واقع ہے سیاہی مائل آنکھوں اور سیاہی مائل داڑھی والا ایک آدمی جانوروں کی بُو کے درمیان لیٹا کچھ ایسی عاجزی سے موت کا انتظار کر رہا ہے جیسے کوئی نیند کا منتظر ہو۔وسیع اور خفیہ قوانین سے وفا کرتادن گزر رہا ہے اور بےچاری پناہ گاہ میں موجود سایوں کے درمیان ابہام پیدا کر رہا ہے۔ باہر ہل چلے کھیت اور مردہ پتوں سے لبریز ایک گڑھا ہے، اور سیاہ کیچڑ میں کسی بھیڑئیے کی قدموں کے نشانات عین اس جگہ موجود ہیں جہاں سے جنگلوں کا آغاز ہوتا ہے۔ آدمی خود فراموشی کی حالت میں محوِ خواب ہے۔ اس کی نیند وقتِ دعائے تجسیم (Angelus) (ایک دعا جو رومن کیتھولک مذہب کے پیروکار دن میں تین دفعہ کرتے ہیں) کی گھنٹیوں سے کھلتی ہے۔ سلطنت ِانگلستان میں گھنٹیوں کا بجنا اب شام کی رسومات میں داخل ہے مگر اس آدمی نے بچپن میں ووڈن (Woden)( ووڈن اینگلو سیکسن اور جرمانی مشرکانہ روایت میں ایک اہم دیوتا ہے) کا چہرہ ، سماوی دہشت اور شادمانی، رومن سکوں اور بھاری پوشاک سے لٹکتا خام چوبی بت، اور گھوڑوں ، کتوں اور قیدیوں کی قربانی کے مناظر دیکھے ہیں۔ پو پھٹنے سے قبل ہی وہ مر جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ان پاگان رسومات کی آخری بلاتوسط شباہتیں بھی دم توڑ دیں گی اور کبھی واپس نہ آئیں گی۔ دنیا اس سیکسن (Saxon) (ان لوگوں میں سے جو پہلے جرمنی کے شمالی علاقوں میں رہتے تھے اور پانچویں اور چھٹی صدیوں میں انگلستان پر چڑھائی کرکے فاتح بنے، یعنی جنہیں عرفِ عام میں انگریز کہا جاتا ہے)کی موت کے ساتھ ہی کچھ غریب ہو جائے گی۔
اعمال جو وسعتِ مکان کو لبریز کرتے ہیں اور جو کسی کے مرتے ہی اپنے اختتام کو پہنچ جاتے ہیں شاید ہمارے لئے حیرت کا باعث ہوں، مگر کوئی ایک چیز، یا لامتناہی چیزیں ہر آخری نزع کے ساتھ مر جاتی ہیں، تاوقتیکہ کسی آفاقی یاداشت کا وجود ہو جیسا کہ تھیوصوفیوں کا قیاس ہے۔ ایک زمانہ پہلے وہ دن بھی گزرا جس نے یسوع مسیح کو دیکھنے والی آخری آنکھ کی شمع بجھا دی، معرکہِ جنین (Junin) (یہ معرکہ پیرو کی جنگ آزادی کا ایک مشہور واقعہ ہے جو ۶ اگست ۱۸۲۴ کو پیش آیا) اور ہیلن کی محبت ایک آدمی کو موت کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ میں مروں گا تومیرے ساتھ کیا کچھ موت کے منہ میں چلا جائے گا، دنیا کونسی رقت انگیز یا ناپائیدار شکل کھو دے گی؟ کیا میکیڈونیا فرنینڈز (Macedonia Fernandez) (ایک مشہور ارجنٹینی مزاح نگار اور فلسفی جن کی وفات ۱۹۵۲ میں ہوئی۔ یہ بورخس کے اہم استادوں میں سے تھے) کی آواز؟ کیا سرانو (Sarrano)اور چارکاس(Charcas) کی خالی زمین میں ایک سرخ گھوڑے کی شبیہ؟ یا پھر مہوگنی لکڑی کی بنی کسی میز کے دراز میں گندھک کا کوئی ٹکڑا؟
سروینٹس اور کیوٹے کی حکایت
اپنی ہسپانوی سرزمین سے اکتا کر طلبِ سکون کی خاطر شاہ کے ایک بوڑھے سپاہی نے آریوستو (Ariosto)کے وسیع و عریض علاقے میں ڈیرا ڈالا۔ اسے اس چاند سے منور وادی جو خوابوں سے گرتےلمحوں سے لبریز تھی، اور شاہ محمدکےاس سنہرے بت میں جو مونٹلبان (Montalbán)نے چوری کیا تھا، اطمینان کی تلاش تھی۔
اپنے آپ سے بس ایک ہلکے سے مذاق کی خاطر اس نے ایک ایسے سریع الاعتقاد آدمی کا تصور کیا جو اپنے مطالعہِ عجائب کی وجہ سے مضطرب تھا اور جرأت اور فنِ سحرکاری تلاش کرنے کی خاطراس نے الطبوسو (El Toboso)اور مونٹکی(Montici) نامی بے ذوق اور تخیل سے عاری علاقوں کا رخ کیا۔
حقیقت یعنی کے ہسپانیہ کے ہاتھوں مغلوب ہو کر ڈان کیوٹے(Don Quixote)۱۶۱۴ سن عیسوی میں اپنے آبائی گاؤں میں مر گیا۔میگوئیل ڈی سروینٹس (Miguel de Cervantes) نے اے بہت تھوڑی مدت کے لئے بچایا۔
دونوں انسانوں کے لئے، یعنی کہ خواب دیکھنے والا اور جس کو خواب میں دیکھا جا رہا تھا، تمام منصوبہِ عمل دو دنیاؤں کے تضاد میں تھا:ازمنہ ٔوسطی کی روایتِ شجاعت کے قصوں پر مبنی کتابوں کی غیر حقیقی دنیا ، اور سترھویں صدی عیسوی کی روزمرہ کی عمومی دنیا۔
انہیں کبھی شک بھی نہیں گزرا کہ ماہ و سال آخر کار اتنے بے ربط طور پر آسانی سے گزر جائیں گے، انہیں شبہ نہیں ہوا کہ آنے والی نسلوں کے لئے لا مانچا (La Mancha)، مونٹکی اور جواں مردسورما کا دبلا جسم، سندباد کے قصوں اور آریوستو کے وسیع و عریض علاقوں سے کسی صورت کم شاعرانہ نہیں ہو گا۔
کیوں کہ ادب کا اول بھی دیومالا ہے اور اس کا آخر بھی۔
راگناروک
ہمارے خوابوں میں(جیسا کہ سیموئیل ٹیلر کولرج نے کہیں لکھا ہے) موجود تصوراتی پیکر اصل میں ان حسی محرکات کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی علت ہمارے تصور کے مطابق وہ خود ہوتے ہیں، مثال کے طور پر ہم خوف زدہ اس لئے نہیں ہوتے کہ ہم کسی نرسنگھ سے خطرہ محسوس کرتے ہیں، بلکہ ہم خواب میں نرسنگھ کو اس لئے دیکھتے ہیں تاکہ جو خوف ہم محسوس کرتے ہیں اس کی وضاحت کر سکیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو محض کچھ شکلوں پر مشتمل سرگزشت کس طرح وہ خبط الحواسی، وہ رفعت، وہ اضطراب، وہ آفت اور وہ مسرت منتقل کر سکتی ہےجس نے اس رات میرے خواب کی تشکیل کی؟ بہرحال پھر بھی میں ایک ایسی سرگزشت بیان کرنے کی کوشش کروں گا، اور شاید یہ واقعہ کہ وہ خواب ایک ہی منظر پر مشتمل تھا کسی حد تک اس ناگزیر مشکل کا ازالہ کر سکے۔
جگہ جامعۂ ادب و فلسفہ تھی، وقت تقریباً غروبِ آفتاب۔ سب کچھ (جیسا کہ عموماً خوابوں میں ہوتا ہے) ذرا بدلا بدلا تھا، یعنی تبدیل شدہ چیزوں میں ہلکی سی مبالغہ آمیزی ۔ ہم انتخابی افسران تھے: میں پیڈرو ہینریکز یورینا سےجو جیتی جاگتی حقیقی دنیا میں کئی سال پہلے مر چکا ہے مصروفِ گفتگو تھا۔ اچانک ہم کسی مظاہرے یا گڑبڑ کی وجہ سے پیدا ہونے والے ہنگامے سے چونک اٹھے۔ باجو (Bajo) (بیونس آئرس کے بالکل قریب ایک دلدلی علاقہ) سے انسانوں او ر جانوروں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ ایک آواز آئی، ’’لو وہ آ گئے‘‘ اور پھر ’’دیوتا! دیوتا!‘‘۔ چار یا پانچ افراد ہجوم سے نمودار ہوئے اور مرکزی لیکچر ہال کے چبوترے پر جا چڑھے۔ ہم سب بھیگی آنکھوں سے نعرہ ٔتحسین بلند کرنے لگے، کیوں کہ یہ وہ دیوتا تھے جو صدیوں لمبی جلا وطنی کے بعد واپس لوٹے تھے۔ چبوترے کی وجہ سے مزید اونچے ہوتے ہوئے، اپنے سر پیچھے کو گرائے اور سینے آگے نکالے، وہ بڑے تکبر سے ہمارا خراجِ عقیدت وصول کر رہے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں وہ شاخ تھی جو بلا شبہ خوابوں کی سادہ نباتیات کے مطابق تھی، دوسرے نے ایک فراخیٔ ادا سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جو ایک پنجہ تھا، ایک جس کی شکل ژانوس (Janus) (قدیم رومی دیومالا میں شروعات اور تبدیلیوں کا دیوتا، اور اسی لحاط سے دروازوں، کھڑکیوں، راستوں اور منزلوں وغیرہ پر اس کی حکومت ہے) کے چہروں کی طرح تھی تحوت(Thoth) (مصری عبادت گاہِ عامہ میں ایک مشہور دیوتا، تصویروں میں اس کی شکل لق لق یا بابون کی طرح بنائی جاتی ہے) کی مڑی ہوئی چونچ کی طرف بڑی بدگمانی سے دیکھنے لگا۔ شاید ہمارے نعروں سے برانگیختہ کرہو ان میں سے ایک (مجھے اب یاد نہیں کون) ذرا فاتحانہ کھڑکھڑاہٹ سے چلانے لگا جس میں غرغراہٹ اور سیٹی کی ملی جلی آواز تھی اور وہ ناقابلِ یقین حد تک تلخ تھی۔ اسی لمحےمعاملہ تبدیل ہو گیا۔
اس سب کا آغاز اس شک وشبہ (شاید مبالغہ آمیز) سے ہوا کہ دیوتا بولنا نہیں جانتے۔ صدیوں کی مفرور زندگی نے ان میں موجود انسانی عنصر لاغر کر دیا ہے، ہلالِ اسلام اور صلیبِ روم ان اشتہاری مجرموں کے ساتھ سنگدل ہی رہے۔ بہت زیادہ نیچی پیشانیوں، زرد دانتوں، ریسمانی ملیٹو(Mulatto) (کاکیشیائی اور حبشی النسل والدین کی مخلوط اولاد) یا چینی داڑھیوں اور دبیز حیوانی ہونٹوں نے ہی اولمپیائی نسلوں والی پستی کا مظاہرہ کیا۔ ان کی پوشاک خوش سلیقہ غربت کی بجائے باجو کے جواخانوں اور قحبہ خانوں کے نامسعود تعیش سے مطابقت رکھتی تھی۔ تنگ جیکٹ کے گریبانی گوٹ میں سے خون کے گلنار دھبے اور ایک ابھرے ہوئےخنجر کے خدوخال دکھائی پڑتے تھے۔یک دم ہمیں محسوس ہوا کہ وہ اپنا آخری پتا پھینک رہے ہیں، کہ وہ شکار پر پلنے والے قدیم درندوں کی طرح شاطر، ناآموز اور ظالم ہیں، اور یہ کہ اگر ہم دہشت اور رحم کے ہاتھوں مغلوب ہو گئے تو وہ ہمیں آخرکار فنا کر دیں گے۔
ہم نے اپنے بھاری پستول نکالے (یک دم خواب میں پستول ظاہر ہوئے) اور خوشی خوشی دیوتاؤں کو قتل کر دیا۔
پس تحریر: ناروژی دیومالا میں راگناروک (Ragnarok) مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا ایک سلسلہ ہے جس میں ایک عظیم جنگ بھی ہے جس میں کئی اہم دیوتا اور سورما وغیرہ مارے جائیں گے۔ اس کےنتیجہ میں دنیا پانی میں ڈوبنے کے بعد ایک بار پھراپنی پوری زرخیزی کے ساتھ نمودار ہو گی ، بچ جانے والے دیوتا واپس لوٹیں گے اور صرف دو زندہ بچ رہنے والے انسانوں کے ذریعے یہ دنیا پھر آباد ہو جائے گی۔نارژوی روایت میں یہ ایک اہم واقعہ ہے جس پر کافی علمی و نظریاتی مواد موجود ہے۔یہاں بورخیس نےاس کی تصویر کشی اپنے خالص افسانوی رنگ میں کی ہے۔
طیّوریاتی حجت
میں اپنی آنکھیں بند کرتا ہوں اور پرندوں کا ایک غول دیکھتا ہوں۔یہ منظر ایک سیکنڈ کے لئے رہتا ہے یا شاید اس سے بھی کچھ کم، اور مجھے یقین نہیں میں نے کتنے پرندے دیکھے۔ کیا پرندوں کی تعداد حتمی تھی یا غیر حتمی؟ یہ مسئلہ خدا کی ہستی سے منسلک ہے۔ اگر خدا موجودہے تو یہ تعداد حتمی ہے کیوں کہ خد ا کو معلوم ہے کہ میں نے کتنے پرندے دیکھے۔ اگر خدا نہیں ہے، تو یہ تعداد غیر حتمی ہے کیوں کہ کوئی اسے نہیں گن سکتا۔ اب واقعہ یہ ہے کہ میں نے دس سے کم پرندے دیکھے (بالفرض) اور ایک سے زیادہ، مگر میں نے نو، آٹھ، سات، چھ، پانچ، چار، تین یا دو پرندے نہیں دیکھے۔میں نے ایک سے دس کے درمیان ایک عدد دیکھا جو نو، آٹھ، سات، چھ، پانچ وغیرہ نہیں تھا۔ ایسا عدد ِصحیح یعنی جو نو، آٹھ، سات، چھ، پانچ، چار، تین یا دو کے علاوہ کچھ ہو ، ناقابلِ تصور ہے۔ چناچہ خدا موجودہے۔
پس تحریر: بورخست کی طیّوریاتی حجت شاید مسئلۂ ہستیٔ خدا کے بارے میں پاسکل کی مشہور بازی (Pascal's Wager) کو افسانوی پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش ہے۔ اس سے زیادہ تعبیراتی اشارہ دینا فلسفے سے شغف رکھنے والے قاری کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
ملفوف آئینے
اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ آخرت کے ناقابلِ اپیل دن پر وہ سب جنہوں نے جانداروں کی شبیہیں بنانے کا ارتکاب کیا اپنے فن پاروں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے اور انہیں حکم دیا جائے گا کہ ان میں زندگی پھونکیں،وہ ناکام ہوں گے اور پھر انہیں ان کے فن پاروں سمیت آتشِ دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ بچپن میں مجھے حققیت کی طیفی نقل گیری یا افزائش کے ساتھ منسلک اس دہشت کے بارے میں خبر تو تھی مگر میرے اپنے ساتھ یہ واقعہ تب پیش آیا جب میں پہلی بار قدِ آدم آئینوں کی سامنے کھڑا ہوا۔جونہی باہر اندھیرا پڑنا شروع ہوتا، آئینوں کا مستقل غیر مشتبہ عمل، جس طرح وہ میری حرکت کے تعاقب میں رہتے، ان کا کائناتی چُپ سوانگ، مجھے کسی ضخیم آسیبی کتاب کی طرح لگتا۔ خدا اور میرے مَلکِ مربی سے میری یہی التجا ہوتی کہ میں خواب میں آئینے نہ دیکھوں۔ مجھے یاد ہے کہ میں حالتِ اضطراب میں ان پر ایک آنکھ ضرور رکھتا۔ کبھی مجھے یہ خدشہ ہوتا کہ وہ حقیقت کو بدل دیں گے، کبھی میں ان میں عجیب و غریب بدبختیوں کے ہاتھوں اپنی مسخ شکل دیکھتا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ یہ دہشت عفریتی طور پر پھر دنیا میں لوٹ آئی ہے۔ قصہ بہت سادہ ہے اور شدید ناخوشگوار بھی۔
۱۹۲۷ میں میری ملاقات ایک دھیمی طبیعت رکھنے والی نوجوان خاتون سے ہوئی، پہلے ٹیلیفون پر (کیوں کہ جولیا کا آغاز ایک بےنام اور بے شکل آواز کے طور پر ہوا) اور پھرایک روز آغازِ شب ایک خاموش سے گوشے میں۔ اس کی آنکھیں چونکا دینے والی حد تک بڑی تھیں، بال شدید سیاہ اور سیدھے، اور جسم جچے تلے رکھ رکھاؤ والا۔ وہ وفاق پرستوں (Federalists) کی پوتی اور پڑپوتی تھی، جیسے کہ میں توحید پرستوں (Unitarians) کا پوتا اور پڑپوتا تھا۔مگر ہمارے شجرہ ہائے نسب میں اس قدیم ناموافقت نے ہمارے لئے ایک بندھن کا کام کیا، یعنی ہمارے وطن کی کامل ترین ملکیت۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک بڑے علاقے پر پھیلی ہوئے اونچی حویلی میں رئیسانہ غربت کی آزردگی اور ناخوشگواری میں رہتی تھی۔شام ڈھلتے ہی (بہت ہی کم ایسا ہوتا کہ رات کے وقت) ہم اس کی حویلی کے قرب وجوار یعنی بیلوانیرا (Balvanera) کےعلاقےکے درمیان سے چہل قدمی کرتے ہوئے باہر نکل جاتے۔ ہم ریلوے کے احاطے کے گرد اونچی سادہ فصیل کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے، ایک دفعہ ہم سارمین (Sarmien) سے چلنا شروع ہوئے اور سینٹی نیریو پارک (Parque Centenario) کے خالی میدانوں تک نکل گئے۔ہمارے درمیان نہ تو محبت کا رشتہ تھا اور نہ ہی محبت کا کوئی افسانہ۔ مجھے اس کے اندر ایک ایسی شدید کشش محسوس ہوئی جو شہوانی احساس سے بالکل مختلف تھی، اور مجھے اس سے خوف آتا تھا۔عورتوں سے قربت کی خاطر فریب کاری کے طور پر انہیں اپنی جوانی میں پیش آنے والے سچے یا جعلی واقعات اکثر سنائے جاتے ہیں۔ کسی وقت میں نے اسے آئینوں سے اپنے خوف کے بارے میں ضرور بتایا ہو گا، لہٰذا میں نہیں جانتا تھا کہ ۱۹۲۸ میں جس فریبِ تصور کا بیج میں بو رہا ہوں، اس نے ۱۹۳۱ میں پھلنا پھولنا ہے۔
اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ پاگل ہو چکی ہے اور اس کے کمرے میں تمام آئینے ملفوف ہیں کیوں کہ وہ ان میں میرا عکس دیکھتی ہے جو اس کے عکس کو قابو میں لے رہا ہے، اور وہ کانپتی ہوئے خاموش ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں ساحرانہ طور پر اس کے تعاقب میں ہوں، اسے دیکھ رہا ہوں، اس کا پیچھا کر رہا ہوں۔
کیا ہی خوفناک بندھن ہے، میرے چہرے کا بندھن یا میرے پرانے چہروں میں سے کسی ایک کا۔ اس پرانے چہرے کی کراہت آمیز تقدیر مجھے بھی کراہت آمیز بنا رہی ہے، لیکن مجھے مزید کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ڈیلیا ایلینا سان مارکو
ہم نے پلازا ڈیل اونسے کی ایک نکڑ پر ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ گلی کی دوسری جانب فٹ پاتھ سے میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، تم بھی مڑی تھیں اور ہاتھ ہلایا تھا۔ گاڑیوں اور انسانوں کا ایک دریا سا ہمارے بیچ سے گزر گیا، اس وقت ایک عام سی دوپہر کے پانچ بجے تھے ۔ مجھے کیسے معلوم ہوتا کہ وہ دریا اصل میں کربناک آخرون(Acheron) (یونانی دیومالا کے پانچ زمین دوز دریاؤں میں سے ایک، جو رنج و الم کا دریا تھا) تھا جسے کوئی بھی دو بارہ عبور نہیں کر سکتا؟
پھر ہم ایک دوسرے کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور ایک سال بعد ہی تمہیں موت نے آ لیا۔ اب میں اس یاداشت کو کھوجتا ہوں ، اس کو ٹکٹکی باندے گھورتا رہتا ہوں، اور میرے خیال میں وہ فریب آلود ہے کہ اس مہمل سے الوداع میں ایک لامتناہی جدائی موجود ہے۔
کل رات کھانے کے بعدمیں باہر نہیں گیا۔ ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے میں نے وہ آخری سبق پڑھا جو افلاطون نے اپنے استاد کی زبان کو بخشا۔ میں نے پڑھا کہ روح آزاد ہو جاتی ہے جب گوشت پوست مر جاتا ہے۔
اور اب میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کیا حقیقت اس آخرالذکر منحوس تعبیر میں پنہاں ہے یا اس معصوم الوداع میں۔
کیوں کہ اگر روح کو موت نہیں تو ہم اپنی رسوماتِ الوداع پر زیادہ زور نہ دے کر صحیح کرتے ہیں۔
الوداعی کلمات کہنے کا مطلب جدائی کا انکار ہے، یہ کہنا اسی طرح ہے کہ آج تو ہم اپنی اپنی راہ لے رہے ہیں مگر کل پھر ملیں گے۔ انسانوں نے رسوماتِ الوداع ایجاد کیں کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ وہ کسی طور لافانی ہیں، باوجود اس کہ کے وہ اپنے آپ کو حادثاتی اور کم حیاتی وجود کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
ڈیلیا، ہم کسی دن یہ بے یقینی میں ڈوبی گفتگو آخر کس دریا کے کنارے دوبارہ شروع کریں گے؟ اور اپنے آپ سے یہ سوال کریں گے کیا ہم، بورخسہ اور ڈیلیا، کبھی ایک ایسے شہر میں بستے تھے جو میدانوں میں غائب ہو گیا؟
تبدیلیاں
میں نے ایک ڈیوڑھی میں راستے کی نشاندہی کے لئے تیر کا نشان دیکھا اور میں اس خیال سے چونک گیا کہ یہ بے ضرر علامت جو کبھی ایک آہنی شے تھی ، ایک بے مہر، ہلاکت خیز گلولہ تھا جو انسانوں اور شیروں کے گوشت میں پیوست ہو جاتا تھا، جس نے ترموپیل(Thermopylae) (یونان کا ایک علاقہ جو ازمنہء قدیم سے موجود ہے یہاں سپارٹائی اور ایرانی فوجیں آپس میں ٹکرائیں) کا سورج گہنا دیا اور آنے والے وقت کے لئے چھ فٹ تک انگریزی زمین ہارالڈ سگرڈسن (Harald Sigurdson) (داستانوں کی رو سے ناروے کا بادشاہ تھا جس نے ۱۰۴۶ سن عیسوی میں ڈینش تخت اور ۱۰۶۶ میں انگلستانی تخت پر قبضہ کر لیا) کو ترکہ کر دی۔
کچھ دن بعد کسی نے مجھے ہنگری کے ایک گھڑسوار کی تصویر دکھائی جس کے گھوڑے کی گردن میں رسی کا ایک حلقہ سا لٹک رہا تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ حلقہ جو کبھی ہوا میں پھینکا جاتا تھا اور چراہ گاہ میں بیلوں کے لئے پھندے کا کام کرتا تھا آج کسی گھڑسوار کے لباسِ گھڑسواری کے لئے ایک شوخ آرائش ہے۔
مغربی قبرستان میں سرخ سنگ مرمر میں ڈھلی ایک رونی (runic) (قدیم المانوی رسم الخط میں سے کوئی بھی حرف اور تیسری صدی عیسوی سے ازمنہِ وسطیٰ تک سکینڈےنیویا میں استعمال ہوتا رہا) صلیب دیکھی ، اس کے بازو کافی کھلے تھے اور آخر سے چوڑے تھے اور اس کے گرد ایک دائرہ تھا۔ یہ دائرہ بند اور محدود صلیب ، اصل میں اس لامحدود بازوؤں والی صلیب کی شکل تھی جو اس سولی کی علامت ہے جس پر خداوند کو اذیت دی گئی، وہ ’’نفرت انگیز مشین‘‘ جیسا کہ سمیساط کے لوثین(Lucían of Samosata) (قدیم یونان کا فصیح و بلیغ نثر نگار جس کی وفات ۱۸۰ سن عیسوی میں ہوئی) نے مذمت آمیز لہجے میں کہا۔
صلیب، رسی اور تیر:قدیم انسانیت کے آلات جو آج تخفیف یا تعظیم کے ذریعے علامات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔میں نہیں جانتا کہ میں ان پر کیوں اتنا تعجب محسوس کرتا ہوں ۔ کیوں کہ زمین پر کوئی ایسی چیز نہیں جسے فراموشی مٹا نہ دے، یاداشت بدل نہ دے اور کون جانے مستقبل اسے کس قسم کی شبیہ میں ڈھال دے۔
محل کی حکایت
زرد شہنشاہ (اشارہ ہوانگ ڈی کی جانب ہے جو چینی سلسلہ سلاطین کا ایک اہم ہیرو گنا جاتا ہے۔ اس کا زمانہ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل مسیح کے قریب ہے۔اسے چینی تہذیب کےاولین معماروں میں شمار کیا جاتا ہے) نے شاعر کو اپنے محل کی سیر کروائی۔ تھوڑا تھوڑا، قدم بہ قدم ایک لمبے جلوس کی شکل میں وہ اپنے پیچھے مغربی جانب کھلے ہوئے ہوئے اولین بالاخانے چھوڑتے چلے گئے جیسے کسی لامحدود بیضوی اکھاڑے کے نیم دائروی کنگرے ہوں، جو ایک جنت میں اتر رہے تھے، ایک باغ جس کے آہنی آئینے اور باہم پیوست صنوبری باڑھیں کسی آنے والی بھول بھلیاں کی پیش بینی کر رہی تھیں۔وہ خوشی خوشی اس میں کھو گئے، پہلے پہل جیسے کسی کھیل میں انکساری سے شامل ہو رہے ہوں، مگر پھر بعد میں بغیر کسی تردد کے کیوں کہ اس کی سیدھی گلیاں بہت دھیمے سے، مگر مسلسل گولائی میں گھوم رہی تھیں ، لہٰذا بہت ہی نامحسوس طریقے سے یہ گزرگاہیں دائروں میں تھیں۔نصف شب کے قریب سیاروں کے مشاہدے اور ایک کچھوے کی بروقت قربانی نے انہیں اس علاقے کے طلسمی بندھن سے فرار کا موقع فراہم کیا جس پر زیرِ سحر ہونے کا گمان ہوتا تھا، گو کہ وہ اس کھو جانے کے احساس سے پھر بھی آزاد نہیں ہوئے جو ان کے ساتھ آخر تک رہا۔ پھر وہ پیش دالانوں، برآمدوں اور کتب خانوں میں گھومتے پھرتے ایک ایسے مسدسی کمرے سے گزرے جہاں ایک آبی گھڑی نصب تھی، اور ایک صبح ایک مینار پر کھڑے انہیں ایک پتھر کا آدمی نظر آیا جو کچھ دیر میں ہمیشہ کے لئے ان کی نگاہ سے غائب ہو گیا۔ صندل کی لکڑی سے بنی ڈونگیوں میں انہوں نے کئی دمکتی ندیاں پار کیں ، یا شاید ایک ہی ندی کئی بار۔ شاہی قافلہ گزرتا اور لوگ گھٹنوں پر گر کر ماتھے زمین پر ٹیک دیتے، مگر ایک دن درباری ایک ایسے جزیرے پر پہنچے جہاں ایک آدمی نے ایسا نہ کیا کیوں کہ اس نے پہلے کبھی آسمانوں کے بیٹے کو نہ دیکھا تھا اور نتیجتاً جلاد کو اس کا سر قلم کرنا پڑا۔بادشاہ اور شاعر لاتعلقی سے سیاہ زلفوں، سیاہ فام رقاصاؤں اور سنہرے نقابوں کی جانب دیکھتے رہے، حقیقت خواب کے ساتھ گھل مل گئی اور اس میں پیوست ہو گئی ، بلکہ حقیقت اب خواب ہی ایک صورت تھی۔ یہ ناممکن لگتا تھا کہ زمین اب باغات، فواروں، اور عالی شان تعمیرات کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتی تھی۔ہر سو قدم کے بعد ایک مینار جیسے فضا کو چیر رہا تھا، آنکھ کے لئے یہ رنگ ایک جیسے تھے لیکن ان میں پہلا زرد تھا اور آخری قرمزی، یعنی ان کے درجات اتنے لطیف تھے اور سلسلہ اتنا لمبا۔
وہ مینارِ ماقبل آخر کے نیچے کھڑے تھے جب شاعر نے (جو ان تمام نظاروں سے جن پر دوسرے رشک کر رہے تھے متاثر نہ لگتا تھا) وہ مختصر سی نظم سنائی جو ہم آج اس کے نام سے بالاستحکام منسوب کرتے ہیں، وہ الفاظ جیسا کہ عظیم ترین مؤرخین تکرار کرتے نہیں تھکتے ،اس شاعر کی بقا اور موت کا باعث بنے۔وہ متن اب گم چکا ہے، کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ وہ بس ایک تنہا سطر پر ہی مشتمل تھا، اور دوسروں کے خیال میں ایک لفظ۔
ہمیں صرف اتنا معلوم ہے( چاہے وہ کتنا ہی ناقابلِ یقین کیوں نہ ہو) کہ اُس نظم میں وہ ضخیم و عالیشان محل، اپنی کم سے کم تفصیلات کے ساتھ،چینی مٹی کے وہ تمام واجب التعظیم ظروف جو اس میں موجود تھے، ہر برتن پر موجود ایک ایک منظر، تمام قمقمے اور ان کی ملگجی روشنیوں سے بننے والا ایک ایک سایہ،اور سورماؤں، دیوتاؤں اور آتشیں دیوپیکر اژدہوں کےان تمام عالیشان شاہی سلسلوں کے تمام افسردہ اور مسرت آمیزلمحے جو اس کی لاانتہا تاریخ کا حصہ تھے، سما گیا تھا۔
ہر کوئی دم بخود، چپ سادھے کھڑا تھا کہ آخر کار شہنشاہ بول اٹھا۔ ’’تم نے میرا محل چرا لیا!‘‘، وہ چیخا، اور جلاد کی آہنی درانتی نے شاعر کے خرمنِ حیات کو کاٹ ڈالا۔
دوسرے یہی کہانی مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی دو چیزیں یکساں نہیں ہو سکتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی شاعر نے اپنی نظم سنائی محل کسی دھوئیں کے مرغولے کی طرح فضا میں غائب ہو گیا، اور آخری صوتی اکائی کے ادا ہوتے ہی زمین سے مٹ گیا۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کی تمام روایات محض ادبی افسانے ہیں۔شاعر بادشاہ کا غلام تھا اور ایک غلام کی حیثیت سے ہی مرا۔ اس کی نظم کا مستقبل گوشۂ گمنامی ٹھہرا کیوں کہ وہ اسی قابل تھی۔ آنے والی نسلیں آج بھی اس کی تلاش میں ہیں لیکن وہ کبھی کائنات کے متبادل لفظ تلاش نہیں کر سکیں گے۔
بارے ایک عالم دین کی موت کے
مجھے فرشتوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ جب میلانک تھون مرا تو اس کے لئے ایک ویسا ہی گھر تیار کیا گیا جس میں وہ اس دنیا میں رہا تھا۔نئے آنے والوں کے ساتھ یہی کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اب طبعی دنیا میں نہیں ہیں۔ اس کے کمرے میں ویسی ہی چیزیں تھی جو دنیا میں ہوتی تھیں، بالکل ویسی ہی ایک میز، اسی طرح طرح کی لکھنے کی چوکی جس میں اتنے ہی خانے تھے، اور بالکل ویسا ہی ایک کتب خانہ۔ لہٰذا جیسے ہی وہ نیند سے اٹھا میز پر جا پہنچا اور لکھنے کا کام شروع کر دیا، جیسے وہ کوئی مردہ جسم نہ ہو، اور یہ تحریرجس میں وہ کئی دن مصروف رہاصرف جواز بالعقیدہ کے موضوع پر تھی ، اور اتنے دن اس نے خیرات کے بارے میں کچھ بھی نہ لکھا۔جیسے ہی فرشتوں کو اس کا ادراک ہوا، پیغامبروں کے ذریعے اس سے یہ پوچھا گیا کہ اس نے اب تک خیرات کے بارے میں قلم کیوں نہیں اٹھایا۔ اس نے جواب دیا کہ کلیسا کا خیرات سے کیا لینا دینا کیوں کہ اگر اسے ناگزیر کلیسائی خصوصیت ٹھہرایاجاتا تو انسان اسے اپنے لئے نجاتِ محض کا ایک جواز سمجھ لیتا لہٰذا ایمان کا روحانی جوہر جاتا رہتا۔ اس نے یہ باتیں نہایت متکبرانہ انداز میں کیں لیکن وہ نہ جانتا تھا کہ وہ مر چکا ہے اور یہ جگہ جہاں اسے بھیجا گیا ہے وہ جنت نہیں ہے۔ جب فرشتوں کو یہ پیغام پہنچایا گیاتو وہ چلے گئے۔
اس کے کچھ ہفتے بعد ہی اس کے کمرے میں موجود زیرِ استعمال اشیاء دھندلانے لگیں، اور ایک ایک کر کے غائب ہونا شروع ہو گئیں، یہاں تک کہ کمرے میں کرسی، میز،کاغذاور دوات کے علاوہ کچھ نہ بچا۔ اس پر مزید یہ محسوس ہونے لگا کہ اس کے کمرے کی دیوار پر چونے کا پلستر ہو گیا ہے، اور زمین کے نیچے سے جیسے زرد اینٹوں قسم کا کوئی مادہ نظر آنے لگا، اور وہ خود بھی کچھ اکھڑا اکھڑا نظر آنے لگا۔ پھر بھی وہ لکھتا رہا اور چونکہ وہ اب بھی ردِ خیرات پر ڈٹا ہوا تھا اسے اچانک ایسا محسوس ہوا کہ وہ کسی زیرِ زمین کارخانے میں پہنچ گیا ہے جہاں اس جیسے دوسرے عالم دین بھی تھے۔ جس وقت اس نے باہر جانے کی خواہش کی تو اسے روک دیا گیا۔ آخر اب اُس نے اپنے تصورات کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور اسے باہر نکال کر واپس پرانے کمرے میں بھیج دیا گیا۔ جب وہ واپس اسی کمرے میں ظاہر ہوا تو اب اس کے جسم پر بالوں سے بھری چمڑی تھی لیکن اس نے یہ تصور کیا جو واقعات پہلے پیش آئے وہ محض فریبِ تصور تھا، لہٰذا وہ پھر ایمان کی تعریف میں مشغول ہو گیا اور خیرات کو رد کرتا رہا۔ ایک شام غروبِ آفتاب کے وقت اس کو شدید سردی کی لہر محسوس ہوئی۔ اس وجہ سے وہ مجبور ہوا کہ گھر میں چلے پھرے اوراب اسے یہ معلوم ہوا کہ دوسرے کمرے اس بود و باش سے تعلق نہ رکھتے تھے جہاں وہ زمین پر رہا تھا۔ ایک کمرہ نامعلوم آلات سے بھرا تھا، دوسرا اتنا سکڑ چکا تھا کہ اس میں داخل ہونا ناممکن تھا، ایک اور خود تو اتنا نہ بدلا تھا لیکن اس کے دروازے اور کھڑکیاں اب جسیم ریت کے ٹیلوں کی جانب کھلتے تھے۔ مکان کے عقب میں ایک کمرہ تھا جس میں تین میزیں تیں جہاں اس جیسے آدمی بیٹھتے تھے جو جلاوطنی کے دن کاٹ رہے تھے، اور اس کا کہنا تھا کہ اس نے ان سے بات چیت کی اور انہوں نے بار بار یہی کہا کہ کوئی دوسرا عالمِ دین اس سے زیادہ عقل مند نہ تھا۔ اس تعریف نے اسے شدت سے متاثر کیا لیکن چونکہ کچھ آدمی تو بلا چہرہ تھے اور دوسرے مردہ معلوم ہوتے تھے، اسے جلد ہی ان سے کراہت محسوس ہونے لگی اور اس نے ان پر بھروسہ کرنا ترک کر دیا۔ اب آخرکار اس نے خیرات کے بارے میں کچھ لکھنا شروع کر دیا مگر جو بھی وہ کاغذ پر ایک دن لکھتا وہ دوسرے دن اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا، کیوں کہ یہ وہاں پر ہراس انسان کے ساتھ ہوتا ہےجو بحالتِ مجبوری کچھ لکھتا ہے اور اندر سے اس بات پر یقین نہیں رکھتا۔
جب دنیا سے آنے والا کوئی نووارد اس کے کمرے میں اسے دیکھنے اور اسے سے کلام کرنے کے لئے داخل ہوتا تو شرمندہ ہو جاتا کہ وہ ایسی خستہ حال جگہ پر ہے، اس لئے وہ طلسمی روحوں میں سے ایک کو حاضر کرتا جو جادو کے ذریعے مختلف اشکال بنا نے پر قادر تھی، اور اس کے کمرے کو مختلف سامانِ زیبائش و آرائش سے سجا دیا جاتا۔ مگر جیسے ہی ملاقاتی رخصت ہوتے وہ اشکال غائب ہو جاتیں اور وہی چونا بھری دیواریں اور خالی پن لوٹ آتا، اور کبھی کبھی تو ان کے جانے سے پیشتر ہی ایسا ہو جاتا۔
جو آخری خبر ہمیں میلانک تھون کے بارے میں پہنچی وہ یہ ہے کہ ان بلاچہرہ اشخاص میں سے ایک شخص اوروہ ساحر روح اسے ریت کے ٹیلوں کی جانب لے گئے تھے جہاں وہ اب بدروحوں کا غلام ہے۔
دائروی کھنڈرات
اور اگر وہ تمہیں خواب میں دیکھتے دیکھتے ہی نکل پڑا۔۔۔۔؟
(لوئس کیرول ،آئینے کے اس پار، باب ۴)
رات کی شدید تاریکی میں کسی نے اسے کشتی سے نکلتے نہیں دیکھا، بانس کی بنی اس ڈونگی کو مقدس ریت میں دھنستے کوئی نہ دیکھا سکا، اور پھر بھی کچھ ہی دنوں کے اندر ایسا کوئی نہ تھا جسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خاموش طبع آدمی جنوب سے آیا تھا اور اس کا وطن ان بے شمار دیہات میں سے کوئی ایک گاؤں تھا جو دریا کے بالائی علاقے پر، پہاڑ کے خطرناک کنارے پر واقع تھے، جہاں زینڈ(Zend) (زینڈ کے لغوی معنی تعبر کے ہں اور اس سے مراد قدیم پازند اور زبان پہلوی مںی زرتشتہ کی کتابوں پر حاشےن وغرہہ ہںn، خاص طور پر اوستا کی کتاب جس کے اکسئ پارے تھے جو بارہ ہزار چمڑوں پر سنہرے خطوط مں لکھے ہوئے تھے) کی زبان یونانی سے آلودہ نہ ہو سکی تھی، اور کوڑھ کا مرض عام نہ تھا۔ مگر واقعہ یہ تھاکہ وہ لاغر آدمی کیچڑ میں لت پت لڑکھڑاتا ہوا کسی طرح (بغیر ان خاردار جھاڑیوں کو پچھے ہٹائے بلکہ شاید بغیر ان کو محسوس کئے )نشیبی کنارے کے اوپر والے حصے تک پہنچ گیا، او رپھر خون میں لت پت اپنے آپ کو مدہوشی کی حالت میں گھسیٹتا ہوا دائروی احاطے تک لے گیا جہاں گھوڑے یا شیر کی پتھر کی شبیہ کھدی تھی جو کبھی تو آتشیں رنگ کی ہوتی تھی مگر اب راکھ کے رنگ کی تھی۔ یہ حلقہ ایک مندر تھا جو ایک قدیم عالمگیر تباہی کا نشانہ بنا تھا اور اب ملیریا سے بھرے ہوئے جنگل نے اس کا تقدس پامال کر دیا تھا اور اس کا دیوتا انسانیت کے ہاتھوں رسوا ہو کر جا چکا تھا۔وہ اجنبی پائے ستون کے ساتھ لیٹ گیا۔
اس کی آنکھ سورج کی روشنی سے کھلی جو اب آسمان پر کافی اونچا پہنچ چکا تھا۔ اس نے اپنے زخموں کا معائنہ کیا اور بغیر کسی حیرانی کے یہ دیکھا کہ وہ مندمل ہو چکے ہیں، پھر اپنے لاغر پن کی وجہ سے نہیں بلکہ مصمم ارادے کے باعث اپنی زرد آنکھیں بند کر کے سو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ مندر ہی وہ جگہ تھی جو اس کےناقابلِ شکست منصوبے کا حصہ تھی، اسے معلوم تھا کہ استقلال سے جمے رہنے والے درخت ایک اور مندرکی نیچے جاتی ہوئی ندی کے بہاؤ کی باقیات کا گلا گھونٹنے میں کامیاب نہ ہو سکیں گے جس طرح یہ اجڑا ہوا مندر جو اب مردہ، تباہ شدہ دیوتاؤں کی یاد تھا، لہٰذاوہ جانتا تھا کہ اس کا اولین فریضہ نیند ہے۔تقریباً نصف شب کے وقت وہ کسی پرندے کی الم ناک چیخ سے اٹھ بیٹھا۔ برہنہ پاؤں کے نشانات، کچھ انجیریں اور پانی کے ایک جگ سے اسے معلوم ہوا کہ اس علاقے کے کچھ لوگوں نے بڑی خاموشی سے اس کی نیند میں جاسوسی کی ہے اور انہیں یا تو اس کی مدد درکار تھی یا وہ اس کے سحر سے خوف زدہ تھے۔اس نے دہشت کی سرد لہر دوڑتے محسوس کی اور خستہ دیوار میں ایک مقبرہ نما خلا کے ڈھونڈ کے اپنے آپ کو نامعلوم پتوں کی چادر سے ڈھانپ لیا۔
جو مقصد اسے یہاں کھینچ لایا تھا اتنا ناممکن نہ تھا گو کہ وہ واضح طور پر فوق الفطرت تھا: وہ ایک انسان کو خواب میں دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اسے پورے طور پر دیکھنا چاہتا یعنی بہت ہی محتاط تفصیلات سمیت ، اور پھر اسے حقیقت کا جامہ پہنانے کا خواہش مند تھا۔ یہ طلسماتی مقصد اس کی روح میں سرایت کر چکا تھا، اگر کوئی اس سے اس کا نام دریافت کرتا یا اس کی زندگی کے اب تک کے واقعات کے بارے میں کچھ پوچھتا تو وہ جواب دینے کے قابل نہ تھا۔ یہ بیابان اور بوسیدہ مندر اس کے مقصد سے مطابقت رکھتا تھا کیوں کہ وہ نظر آنے والی دنیا کا قلیل ترین درجہ تھا، اسی طرح لکڑہاروں کی قربت، کیوں کہ وہ اس کی عاجزانہ ضرورتوں کا خیال رکھ رہے تھے۔ان کے نظرانے میں موجود چاول اور پھل اس کے جسم کی ضرورت کے لئے کافی تھے جس کو یہی مقدس کام سونپا گیا تھا کہ سوئے اور خواب دیکھے۔
پہلے پہل وہ پریشاں خوابی کا شکار رہا لیکن پھر اس کے خواب جدلیاتی ہو گئے۔ اجنبی نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک دائرہ نما بیضوی اکھاڑے کے بیچ میں ہے جو ایک برباد مندر ہے، اور نشستی چبوترے خاموش طبع طالبعلموں کے بادلوں جیسے ہجوم سے لبریز ہیں۔ ان میں سے بعید ترین چہرے کئی صدیوں کے فاصلوں پر ایک کائناتی اونچائی پر موجود تھے، اور پھر بھی وہ بالکل واضح تھے۔ وہ علم ِتشریح الاعضاء، تکوین نگاری، علمِ سحر پر درس دے رہاتھا، اور چہرے پوری توجہ اور انہماک سے سن رہے تھے اور اپنی حرکات و سکنات سے یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ بات ان کی سمجھ میں آ رہی ہے، جیسے انہیں اس تعلیم کی اہمیت کا مکمل احساس ہو کہ وہ ان میں سےکسی ایک کو اس کی ظاہری صورت کی کھوکھلی حالت سے بازیاب کر وا لے گی، اور حقیقی دنیا میں داخل کر دے گی۔ وہ سوتے جاگتے ان پیکرانِ خیالی کے جوابات پر غور کرتا رہتا، اس نے اپنے آپ کو ان پاکھنڈیوں سے بچائے رکھا اور پھر آخرکار اس نے کچھ خاص پیچیدگیوں میں ذہانت بڑھتے ہوئےمحسوس کی۔وہ ایک ایسے نفس کی تلاش میں تھا جو کائنات میں اس کی جگہ لے سکے۔
شاید نویں یا دسویں رات کو اسے یہ سوجھا (کچھ کرواہٹ کے ساتھ) کہ ان طالبعلموں سے جو بے دلی سے اس کی تعلیمات قبول کرتے ہیں کوئی توقع رکھنا عبث ہے، بلکہ صرف ان سے امید رکھنی چاہئے جو کبھی کبھار معقول طریقے سے کوئی اعتراض وارد کرتے ہیں۔ پہلے والے الفت اور کسی حد تک ہمدردی کے مستحق ہونے کے باوجود کبھی بھی افراد کے طور پر نمودار نہیں ہو سکتے ، آخر الذکر جو کبھی کبھار سوال کرتے ہیں درجۂ ازلیت (یعنی ان میں ہونے کا خمیر کچھ زیادہ ہے) میں کچھ زیادہ ہیں۔ ایک دوپہر (اب اس کی دوپہریں بھی نیند کی باجگزار تھیں کیوں کہ وہ بس صبح صادق کے وقت دو یا تین گھنٹے ہی بیدار رہتا تھا) اس نے آخرکار وہ وسیع و عریض موہوم سا کمرہِ جماعت ترک کر دیا اور صرف ایک طالبعلم کو وہاںرہنے دیا، ایک خاموش طبع، مرجھائی ہوئی چمڑی والا نوجوان جو کبھی کبھار نافرمانی پر مائل ہوتا اور جس کے خدوخال اسی آدمی کی بازگشت تھے جو اس کو خواب میں دیکھ رہا تھا۔اپنے ساتھی ہم جماعتوں کے خارج ہو جانے پر وہ زیادہ دیر مضطرب نہیں رہا اور کچھ ہی انفرادی دروس کے بعد اس کی کارکردگی نے استاد کو حیران کر دیا۔ تاہم آفت سے بچاؤ ناممکن تھا۔ ایک دن وہ آدمی نیند سے ایسے جاگا جیسے کسی صحرا ئی ریت میں سے باہر نکلا ہو ،اس نے افق پرشام کی کھوکھلی روشنی کی جانب دیکھا (جو ایک لمحے کے لئے اسے تڑکے کا اجالا محسوس ہوا) اور سمجھ گیا کہ وہ خواب نہیں دیکھ رہا۔ وہ پوری رات اور اگلا دن ایک بے خواب تابندگی کسی عقاب کی طرح اس پر جھپٹتی رہی۔ وہ خود کو تھکانے کی امید میں جنگل کی آوارہ گردی کو نکل گیا ، شیکرانوں کے بیچ دھیمی سی نیند کے چند ہی دورے کر سکا اور بالکل فالتو نوعیت کے چند عارضی سے مناظر ہی دیکھنے میں کامیاب ہوا جو اس کے کسی کام کے نہ تھے۔اس نے اپنی جماعت کا دوبارہ انعقاد کیا مگر ابھی اس نے چند ترغیبی الفاظ ہی منہ سے نکالے تھے کہ چہرے دھندلا گئے ، مسخ ہوئے اور پھر غائب ہو گئے۔
اس مسلسل حالتِ بے خوابی میں اس کی ضعیف آنکھیں غم و غصے کے آنسوؤں سے جل رہی تھیں۔ وہ سمجھ گیا کہ کسی انسان کے لئے اس غیرمربوط اورسراسیمہ خواب مادے کو ڈھالنے کاکام مشکل ترین ہے، چاہے اس کے دائرہِ فہم میں بالائی اور زیریں کرّوں کی تمام پہیلیاں ہی کیوں نہ ہوں، یعنی ریت سے رسی بننے یا بے چہرہ ہوا سے سکے ڈھالنے سے بھی زیادہ مشکل کام۔ وہ سمجھ گیا کہ ابتدائی ناکامی تو ناگزیر تھی۔ اس نے قسم کھائی وہ یہ وسیع فریبِ تصور جس نے اسے اس کی راہ سے دور کر دیا اپنے پیچھے چھوڑ دے گا اور اب ایک نئے طریقے سے اپنے مقصد کی جانب بڑھے گا۔اس سے پہلے کہ وہ اپنے منصوبے پر عمل درآمد کرتا اس نے وہ ساری طاقت جو اس کی ہذیانی کیفیت نے سلب کر لی تھی واپس جمع کرنے کے لئے ایک ماہ وقف کر دیا۔ اس نے خواب دیکھنے کے لئے ہر قسم کی پیش بندی مکمل طور پر ترک کر دی اور تقریباً فوراً ہی دن کاایک معقول حصہ سونے میں صرف کرنے لگا۔ اس دوران اس نے چند بار جو خواب دیکھے ان پر بالکل غور نہ کیااور اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہونے کے لئے منتظر رہا یہاں تک کہ چاند کی ٹکیا پوری نظر آنے لگی۔ پھر اس شام وہ دریا میں نہا کر پاک ہو ا ، سماوی دیوتاؤں کے آگے جھک کر ایک طاقتور اسم ِاعظم کے وہ الفاظ ادا کئے جن کا ادا کرنا جائز ہے اورپھر سونے کے لئے لیٹ گیا۔
اس نے خوا ب میں ایک دل کو دیکھا۔ ایک گرم، سرگرم، خفیہ دل جو کسی بند مٹھی جتنا بڑا تھا، ایک یاقوتی رنگ کی شے جو کسی دھندلے سے انسانی جسم میں تھی جو ابھی تک بےچہرہ اور بےجنس تھا، یہی منظر وہ انتھک محبت سے چودہ روشن راتوں تک دیکھتا رہا۔ ہر رات وہ مزید وضاحت اور یقین کے ساتھ اسے دیکھتا۔ اس نے اسے ہرگز نہ چھوا بلکہ صرف دیکھتا رہا، مشاہدے میں مصروف رہا، شاید آنکھوں سے اس کی نوک پلک سنوارتا رہا، اس کو تصور کرتا رہا، اس کو کئی زاویوں اور فاصلوں سے بسر کیا۔چودھویں رات اس نے پہلے اپنی انگشتِ شہادت سے شش شریان پر ہلکی سی ضرب لگائی، پھر اندر اور باہر سے پورے دل پر۔ اور اس کے معائنے نے اس کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ اگلی رات وہ ارادتاً نہ سویا، اب اس نے دل کو تصور میں رکھ کر کام شروع کیا ،سماوی دیوتا کا نام لیا اور بنیادی اعضاء میں سے ایک اور کو خواب میں دیکھنا شروع ہو گیا۔ سال کے اختتام سے پہلے وہ ڈھانچے اور پلکوں تک پہنچ چکا تھا۔
جسم پر لاتعداد بال شاید مشکل ترین مسئلہ تھا۔ اس نے ایک گوشت پوست سے پھرپور انسان تصور کیا تھا، ایک نوخیز جسم ، مگر یہ نوجوان نہ تو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا اور نہ ہی بات کی۔ راتیں یونہی گزرتی رہیں اور وہ ہر رات اس نوجوان کو سوتے ہوئے ہی دیکھتا۔
عارفوں کی تکوینیات میں اہرمن ایک آدمِ احمر کو گھوندتے ہیں جو کھڑا نہیں ہو سکتا۔ افسوں گر کی راتوں سے ڈھل کر نمودار ہونے والا یہ خوابیدہ آدم ابھی اسی آدمِ خاکی کی طرح خام، بے استعداد اور ابتدائی تھا۔ ایک دوپہر وہ آدمی اپنی تخلیق کو ختم کرنے ہی والا تھا مگر اپنے آپ کو اس پر آمادہ نہ کر سکا (وہ بہتر رہتا اگر ایسا کر لیتا)۔ زمین کے تمام دیوتاؤں اور دریا ؤں سے پیمان باندھنے کے بعد اس نے اپنے آپ کو اس بت کے پیروں میں پھینک دیا جو شاید شیر تھا یا پھر بچھیرا اور اس کی ناآزمودہ مدد کی بھیک مانگی۔اسی شام غروبِ آفتاب کے وقت مجسمے نے اس کے خوابوں کو لبریز کر دیا۔خواب میں وہ زندہ تھا، گھوڑے اور شیر کی ایک متاثر کن دوغلی شکل میں کانپ رہا تھا ، گو کہ وہ کوئی خوف کی کپکپاہٹ نہ تھی۔بلکہ وہ ان دونوں جوشیلے جانوروں کے ساتھ ساتھ ایک بیل ، ایک گلاب اور ایک طوفان کی صورت بھی رکھتا تھا، بلکہ یہ سب صورتیں ایک ہی ساتھ۔اس کثیرالجہت دیوتا نے یہ راز کھولا کہ اس کا زمینی نام’’ آتش‘‘ ہے، اور اس دائروی مندر میں (اور اسی جیسے دوسروں میں) انسانوں نے اس کی بھینٹ قربانیاں چڑھائی ہیں اور عبادت کی ہے، اور یہ کہ وہ جو پیکرِ خیالی اس آدمی نے خواب میں تصور کیا ہے وہ اسے زندہ کر دے گا، اور اس طور زندہ کرے گا کہ آتش خود اور یہ آدمی جو اسے تصور کر رہا ہے، ان کے علاوہ ہر کوئی اسے گوشت پوست اور خون سے بنا انسان ہی سمجھے گا۔ آتش نے خواب گر کو حکم دیا کہ وہ اس نوجوان کو اس اس دوسرے تباہ شدہ مندر میں بھیج دے جس کے اہرام آج ابھی ندی کے بہاؤرخ پر موجود تھے تاکہ ایک آواز اس سنسان ویرانے میں خدائی شان بیان کرے۔ خواب دیکھنے والے کے خواب میں موجود وہ تصوراتی نوجوان جاگ گیا۔
ساحر نے آتش کی ہدایات پر عمل کیا۔ اس نے اس نوجوان کائناتی اکسیرِ اعظم اور حلقۂ آتش کے بھید بتانے کے لئے وقت کا ایک دورانیہ (جو تقریباً پورے دو سال پر محیط تھا)مختص کیا۔ اندر ہی اندر وہ اپنی تخلیق سے جدا ہونے کے احساس سے بہت غمزدہ تھا۔ایک تدریسی احتیاج کے بہانے کے طور پر اس نے سونے کے گھنٹے روز بروز کم کر دیئے۔ اس نے دائیں کاندھے پر بھی مزید کام کیا جو شاید ناقص تھا۔کبھی کبھار یہ احساس اسے پریشان کئے رکھتا کہ یہ سب کچھ پہلےبھی پیش آ چکا ہے،عمومی طور پر اس کے دن خوشگوار تھے، جب وہ اپنی آنکھیں بند کرتا تو سوچتا کہ’’ اب میں اپنے بیٹے کے ساتھ ہوں۔‘‘ یا پھرکبھی کبھار یہ کہ ’’جس بیٹے کو میں وجود میں لایا میرا منتظر ہے، اور وہ نہیں رہے گا اگر میں اس کے پاس نہ گیا۔‘‘
آخرکار بتدریج وہ نوجوان کو حقیقت میں لے ہی آیا۔ ایک دفعہ اس نے اسے حکم دیا کہ ایک دوردراز پہاڑ کی چوٹی پر جھنڈا نصب کر آئے۔ اگلے د ن چوٹی پر وہ جھنڈا چٹخ کے ٹوٹ گیا۔ اس نے اسی طرح کے مزید تجربات کئے، ہر ایک پہلے سے زیادہ جرأت آمیز۔پھر اس نے یہ تلخ آمیز مشاہدہ کیا کہ اس کا بیٹا اب پیدا ہونے کے لئے تیار تھا بلکہ شاید بے تاب تھا۔ اس رات اس نے پہلی دفعہ اسے چوما اور اور پھر اسے کئی کوس طویل ناقابل نفوذ جنگلات اورکئی کوس لمبی دلدلوں سے ہوتے ہوئے اس دوسرے مندر کے سفر پر روانہ کر دیا جس کے کھنڈرات ندی کے بہاؤ کی جانب موجود سورج کی روشنی میں رنگے تھے۔مگر پہلے (تاکہ بیٹا کبھی نہ جان سکے کہ وہ ایک خیالی پیکر تھا اور اپنے آپ کو ہمیشہ دوسرے انسانوں کی طرح کا ہی ایک انسان تصور کرے) اس نےلڑکے میں موجود اس کے تعلیمی دور کی تمام یاداشت کو محو کر دیا۔
اس آدمی کی جیت اور اس کا سکون اس کے ایامِ زندگی کی تھکا دینے والی یکسانیت کے ہاتھوں ماند پڑ چکا تھا۔سحر اور شام کے اوقاتِ شفق کے دوران شاید یہ تصور کرتے ہوئے کہ اس کا غیر حقیقی بیٹا اسی قسم کی رسوماتِ عبادت ندی کے بہاؤ کی جانب دوسرے دائروی کھنڈر میں انجام دے رہا ہے، وہ اس مجسمۂ سنگ کے آگےسجدہ ریز ہو گیا۔ رات کو اس نے کوئی خواب نہ دیکھا، یا ویسے ہی معمولی خواب دیکھے جو تمام انسان دیکھتے ہیں۔ کائناتی آوازوں اور شکلوں کے متعلق اس کا تصور کچھ مدھم پڑتا جا رہا تھا کیوں کہ اس کا غیر حاضر بیٹا اس کی روح میں پیدا ہوتی اس تخفیف سے نشونما پا رہا تھا۔ اس کی زندگی کا مقصد پورا ہو چکا تھا، اور وہ اب ایک قسم کی بےخودی کے سہارے جی رہا تھا۔ کچھ وقت کے بعد (جس کا دورانیہ کچھ راوی سالوں میں شمار کرتے ہیں اور کچھ دہائیوں میں) دو ملاحوں نے اسے آدھی رات کو جگا دیا۔ وہ ان کے چہرے تو نہ دیکھ سکا مگر انہوں نے اسے شمال کی جانب ایک مندر میں موجود ایک ایسے طلسمی انسان کے بارے میں بتایا جو بغیر کسی تکلیف کے آگ پر چل سکتا تھا۔
ساحر کو اچانک دیوتا کہ الفاظ یاد آئے۔ اسے یاد آیا کہ زمین پر موجود تمام مخلوقات میں صرف آتش ہی ہے جسے معلوم ہے کہ اس کا بیٹا ایک خیالی پیکر ہے۔ یہ خیال پہل پہل اطمینان بخش ہونے کے باوجود جلد ہی اس کے اذیت ثابت ہوا۔ اس خدشہ لاحق ہوا کہ اس کا بیٹا اپنی غیرفطری قابلیت کے بارے میں غوروفکر کرے گا اور کسی نہ کسی طور دریافت کر لے گا کہ وہ محض ایک شبیہ ہے۔ یعنی خود ایک انسان نہیں بلکہ کسی دوسرے انسان کے خواب کا عکس ہے، کیا بے نظیر اہانت آمیزی ، کیا عجیب دوّاری کیفیت! تمام والدین ان بچوں کے لئے فکرمند رہتے ہیں جنہیں انہوں نے جنم دیا ہو (یا جنم میں آنے کی اجازت دی ہو)، چاہے خوشی سے یا پھر کسی ابہامی کیفیت میں، لہٰذا یہ بالکل فطری تھا کہ ساحر اپنے بچے کے مستقبل کے لئے فکرمند ہو جیسے اس نے ایک ایک عضو، ایک ایک نقش کر کے ایک ہزار ایک خفیہ راتوں میں تصور کیا تھا۔
اس کے غوروفکر کا اختتام اچانک ہوا لیکن کئی اشاروں کے ذریعے پہلے ہی سے اس کی پیشین گوئی کی جا چکی تھی ۔ پہلے تو(ایک طویل قحط کے بعد) ایک دوردراز بادل ، اتنا دھندلا جیسے کوئی پرندہ دور کسی پہاڑی چوٹی پر بیٹھا ہو، پھر جنوب کی جانب کسی چیتے کے جبڑے کے مسوڑوں کی طرح گلابی رنگ کا آسمان، پھر آہنی راتوں کو زنگ آلود کرتے ہوئےدھوئیں کے بادل، پھر آخرکار جانوروں کی دہشت زدہ سرپٹ دوڑ، کیوں آج وہ واقعہ دہرایا جا رہا تھا جو آج سے سینکڑوں سال پہلے پیش آیا تھا۔آتش کے دیوتا کی جائے حرمت کے کھنڈرات آگ نے تباہ کر دئیے ۔پرندوں کے بغیر طلوع ہونے والی صبح کی روشنی میں ساحر نے تباہی کے ہم مرکز دائروں کا گھیرا دیواروں کے گرد تنگ ہوتے دیکھا۔ایک لحظے کے لئے اس نے پانی میں پناہ لینے کا سوچا مگر پھر اسے خیال آیا کہ موت اس کی عمر کی تاجپوشی کرے گی اور اسےمشقت سے چھٹکارا دلا دے گی۔وہ پھنکارتے ہوئےشعلو ںمیں داخل ہو گیا مگر انہوں نے اس کی جلد کو کاٹنے کی بجائے سہلایا اوربغیر کسی تپش اور احتراق کے اس کو غسل دیا۔ وہ ایک خاص قسم کی حالت ِاطمینان، بے چارگی اور دہشت سے مغلوب تھا ، اور اب اس کی سمجھ میں آیا کہ وہ بھی ایک مظہر سے زیادہ کچھ نہیں تھا، کہ ایک اور انسان خود اس کو خواب میں دیکھ رہا تھا۔
بابل کی لاٹری
بابل کے تمام باسیوں کی طرح میں بھی سابق قونصل رہا ہوں، سب کی طرح میں بھی غلام رہا ہوں۔ میں نے بھی قدرتِ کاملہ، بدنامی اور قید دیکھی ہے۔ یہاں دیکھئے! میرے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت غائب ہے۔ ادھر دیکھئے ! یہاں میری بے آستین قبا میں موجود چیر کے بیچ میں سے آپ میرے پیٹ پر ایک گودا ہوا قرمزی نقش دیکھ سکتے ہیں، یہ دوسرا حرف ’’بیتھ‘‘(یعنی سامی ابجد کا دوسرا حرف جس کی عربی شکل ’’ب‘‘ ہے، اور اس کی عددی قیمت دو ہے) ہے۔
پورے چاند کی راتوں میں یہ علامت مجھے ان انسانوں پر قدرت عطا کرتی ہے جن کے اوپر ’’گمل‘‘(یعنی سامی ابجد میں تیسرا حرف یا ’’ج‘‘) کا نقش موجود ہے، لیکن مجھے ’’الف‘‘ کا نشان رکھنے والوں کے زیرِ تسلط کر دیتی ہے، جو خود اماوس کی راتوں میں ’’گمل‘‘ کا نشان رکھنے والوں کے تابع ہوتے ہیں۔
صبح کے دھندلکے میں ، ایک تہہ خانے میں کسی سیاہ قربان گاہ کے سامنے کھڑے ہو کر میں نے مقدس بیلوں کے گلے کاٹے ہیں ۔ ایک بار پوری قمری سال کے لئے مجھےپر غیر مرئی ہونے کا حکم لگا دیا گیا، میں چیختا رہا لیکن میری آواز پر کوئی کان نہیں دھرتا تھا، اگر میں روٹی بھی چرا لیتا تو میرا سر قلم نہ ہوتا۔ میں اس شے سے واقف ہوں جو یونانیوں کے علم میں نہ تھی یعنی بے یقینی۔امید نےمیرا ساتھ اس وقت بھی نہ چھوڑا جب میں پیتل کے ایک کمرے میں اس گلا گھونٹ دینے والے کے رومال کا نشانہ بنا اور دریائے مسرت میں بھی دہشت نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔ ہراکلیدس پونتیکس(Heraclides Ponticus) تعریفانہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ فیثا غورث کو یاد آتا تھا کہ وہ پہلے پیروس الایپیری (Pyrrhus) تھا ، اور اس سے پہلے ائوفروبوس (Euphorbus)، اور اس سے پہلے کوئی اور فانی انسان ، مگر اس قسم کا تغیر یاد رکھنے کے لئے مجھے موت کی کوئی طلب نہیں اور نہ ہی بھیس بدلنے کی ۔
میں تقریباً یہی شیطانی تنوع ایک اور ادارے میں پاتا ہوں ، یعنی لاٹری ، جو دوسری اقوام میں بالکل غیر متعارف ہے یا وہ ناقص طور پر کسی خفیہ طریقے سے وہاں بھی رائج ہے۔میں آج تک اس ادارے کی تاریخ کی گہرائی میں نہیں گیا۔ میں جانتا ہوں کہ بڑے بوڑھےمجھ سے اتفاق نہیں کریں گے۔ اس کے عظیم مقاصد کے بارے میں مجھے اتنا ہی معلوم ہے جتنا علم ِنجوم سے نابلد کسی شخص کو چاند کے بارے میں۔ میرا تعلق ایک چکرا دینے والے علاقے سے ہے جہاں لاٹری حقیقت کا ایک بنیادی عنصر ہے، آج تک میں نے اس کے بارے میں اتنا ہی کم سوچا ہے جتنا ناقابلِ فہم دیوتاؤں کے اعمال یا پھر اپنے دل کےبارے میں۔
اب بابل اور اس کی محبوب سماجی رسوم سے بہت دور بیٹھا میں کچھ حیرت زدگی کے ساتھ لاٹری اور ان گستاخ سرگوشیوں کے بارے میں سوچتا ہوں جو چادروں میں چھپے لوگ علی الصبح اور شام کے دھندلکے میں ایک دوسرے کے کان میں کرتے ہیں۔میرے والد مجھے بتایا کرتے تھے کہ کس طرح بہت زمانوں پہلے لاٹری کا کھیل بابل کے عوام میں مقبول تھا، شاید صدیاں گزر گئیں ؟ یا پھر کئی سال؟ وہ بتایا کرتے تھے(گو میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ درست ہے یا نہیں) کہ کس طرح حجام کسی آدمی کے تانبے کے سکے لے لیتے اور بدلے میں اسے علامتی نقش و نگار سے مزین ہڈیوں یا چرمی کاغذ کے بنے مستطیل ٹکڑے دے دیتے۔
پھر دن نکلتے ہی قرعہ اندازی کی جاتی اورقسمت کی دیوی جن پر مہربان ہوتی ، وہ بغیر کسی مزید اتفاقی توثیق کے چاندی کے ڈھلے سکے جیت جاتے۔صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک فالتو دستور تھا۔
قدرتی بات ہے کہ یہ نام نہاد ’’لاٹریاں‘‘ ناکام رہیں۔ان میں اخلاقی قوت نام کو بھی نہ تھی اور انسان کی تمام اکتسابی صلاحیتوں کی بجائے صرف اس کی امید ہی ان کی مخاطب تھی۔عوام کی لاتعلقی کی وجہ سے جلد ہی وہ تاجر جو ان زرپرست لاٹریوں کے موجد تھے پیسہ ہارنے لگے۔کسی نہ کچھ نیا کرنے کی کوشش میں خوش قسمت نمبروں کی فہرست میں کچھ بدقسمت نمبر بھی شامل کر دئیے۔ اس اختراع کے معنی یہ تھے ان نمبرزدہ مستطیلوں کے خریدار وں کے پاس اب دو طرح کے امکانات تھے: وہ ایک مختص رقم بھی جیت سکتے تھے اور انہیں کوئی جرمانہ بھی ہو سکتا تھاجو کہ کبھی کبھار بہت ہی خطیر رقم پر مشتمل ہوتا۔ جیسا کہ توقع کی جا سکتی ہے، یہ چھوٹا سا خطرہ (ہر تیس ’’اچھے‘‘ نمبروں کے مقابل ایک ’’بدقسمت‘‘ نمبر تھا) عوامی دلچسپی ابھارنے میں مددگار ثابت ہوا۔ ٹکٹ خریدنے کے لئےبابل والوں کے ہجوم لگ گئے۔ وہ آدمی جو ٹکٹ نہ خریدتا ایک پست ہمت گھٹیا انسان کے طور پر جانا جاتا، ایک ایسا آدمی جو مہم جوئی کے جذبے سے عاری تھا۔ کچھ وقت میں اس باجواز حقارت کو ایک دوسرا نشانہ مل گیا: نہ صرف وہ آدمی جو نہیں کھیلتا تھا بلکہ وہ بھی جو ہار جاتا اور جرمانہ بھرتا۔ اس کمپنی (یعنی جس نام سے اسے اب جانا جانے لگا تھا) کو ان جیتنے والوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا جنہیں انعامات نہیں دئیے جاسکتے تھے جب تک برتن میں جرمانے کی تقریباًپوری رقم موجود نہ ہوتی۔ہارنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاتی:قاضی انہیں جرمانے کی اصل رقم اور ساتھ ہی عدالتی کاروائی پر آنے والا خرچہ ادا کرنے کی سزا سناتا یا کچھ دن جیل میں گزارنے پڑتے۔ کمپنی کی مخالفت کی خاطر وہ سب جیل ہی چنتے۔ اور کچھ لوگوں کی جانب سے اس کڑی سزا کے آگے ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے ہی کمپنی کی قدرتِ مطلقہ کا ظہور ہوا، اس کی کلیسائی مابعدالطبیعاتی قوت کا۔
کچھ وقت بعد چنے گئے نمبروں کے اعلانات سے جرمانے کی فہرستیں غائب ہونا شروع ہو گئیں اور سادہ طور پر ہر ہارنے والے نمبر کو د ی گئی قید کی سزا کے دن چھاپے جانے لگے۔یہ زودنویسی جو اس وقت توجہ سے محروم رہی اصل میں بہت اہم تھی: یہ لاٹری میں لاتعلق عناصرِ زر کا پہلا مظہر تھا۔ اور اسے بہت کامیابی حاصل ہوئی، یقیناً کھلاڑیوں کی جانب سے کمپنی پر بدقسمت قرعوں کی تعداد بڑھانے کے لئے دباؤ پڑا۔
جس طرح عام طور پر معلوم ہے، بابل کے باسی منطق کے بہت معترف ہیں بلکہ متناسب موزونیت کے بھی۔ یہ غیرمتناسب تھا کہ خوش قسمت نمبر کا بدلہ تو گول چاندی کے سکے ہوں جبکہ بدقسمت والے جیل کے شب و روز میں شمار کئے جائیں۔کچھ اخلاق پرستوں نے دلیل دی کہ سکّوں کی ملکیت ہمیشہ مسرت نہیں لاتی اور مسرت کی دوسری شکلیں شاید زیادہ براہِ راست ہیں۔
شہر کے مضافات میں موجود نچلی ذات کی بستیوں سے ایک اور شکوہ سنائی دیا۔ان کا یہ کہنا تھا کہ کلیسائی طبقہ زیادہ کھیلنے کی وجہ سے دہشت اور امید کے تمام نشیب و فراز کا لطف لیتا ہے جبکہ ہم (ایک قابلِ فہم اور ناگزیر حسد کے ساتھ) اپنی غربت کی وجہ سے اس مسرت آمیز بلکہ پُرشہوت گردش سے محروم ہیں۔یہ معقول اور حقیقت پسند خواہش کے سب مرد اور عورتیں ، امیر اور غریب، لاٹری میں برابری کی بنیاد پر حصہ لے سکیں پُرطیش مظاہروں کا باعث بنی، جس کی یاد وقت گزرنے کے باوجود محو نہیں ہوئی۔ کچھ ضدی روحیں یہ سمجھنے سے قاصر تھیں (یا شاید تصنع کر رہی تھیں) کہ یہ ایک ’’نیا ضابطۂ نظام ‘‘ ہے یعنی کہ تاریخ کا ایک ناگزیر موڑ۔ ۔۔ایک غلام نے ایک قرمزی ٹکٹ چرا لیا اور قرعے نے یہ تعین کیا کہ چور کی زبان جلا دی جائے۔ قانون میں یہی سزا لاٹری ٹکٹ چوری کرنے والے کے لئے بھی تھی۔ بابل کےکچھ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ چوری کرنے والے غلام کی سزا جلتا ہوا سیسہ تھی، کچھ دوسرے اعلیٰ ظرف لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ جلاد کی تلوار کو حرکت میں آنا چاہئے کیوں کہ یہی تقدیر کا فیصلہ ہے۔۔۔کافی افراتفری پھیلی، خونریزی کے کچھ ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے، مگر آخرکار بابل کے باشندوں کی کثیر تعداد امراء کے اختلاف کے باوجود اپنی رائے مسلط کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ پہلے تو کمپنی کو مکمل عوامی طاقت حاصل کر لینے پر مجبور کیا گیا۔ ( نئی عملیاتی تبدیلیوں کی وسعت اور پیچیدگی کے باعث یہ اتحاد ضروری تھا)۔ پھر لاٹری کو خفیہ، مفت اور عمومی طور پر جاری کر دیا گیا۔منافع کی خاطر قرعوں کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی، ایک بار بعل دیوتا کے اسرار سے متعارف ہونے کہ بعد ہر آزاد انسان خود بخود ہی مقدس قرعہ اندازیوں میں حصہ لیتا جو دیوتا کہ چیستان گاہ میں ہر ساٹھ راتوں کے بعد منعقد کی جاتیں اور اگلی قرعہ اندازی تک انسانوں کی تقدیر کے فیصلے کرتیں۔ نتائج ناقبلِ شمار تھے۔ ایک خوش قسمت قرعہ کسی آدمی کو زرتشتی کونسل کے کسی عہدہ تک رسائی بھی دے سکتا تھایا اس کے(خفیہ یا کھلے) دشمن کو زنداں میں ڈلوا سکتا تھا، یا پھر اس کے کمرے کی اطمینان بخش دھیمی روشنی میں اسے کوئی عورت نظر آ سکتی تھی جو اسے اکسانا شروع کر دے یا جسے اس نے کبھی دوبارہ دیکھنے کی امید ہی نہ کی ہو۔ ایک بدقسمت قرعے کا مطلب تھا قطع و برید، کئی قسم کی ذلت یا پھر موت خود۔ کئی بار ایک ہی واقعہ مثلاً مے خانےمیں زید کا قتل یا بکر کی پراسرار تحلیل ہی تیس یا چالیس قرعوں کا نتیجہ ہو سکتا تھا۔ شرطوں کو جمع کرنا مشکل تھا لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کمپنی کے تمام نمائندے قوتِ مطلق رکھتے تھے (اور آج بھی رکھتے ہیں) اور ہوشیار تھے۔کئی دفعہ یہ علم کے کچھ پرمسرت بازیاں محض اتفاقیہ ہیں ان نتائج کی قوت میں کمی کا باعث ہوتا، اور اس مسئلہ کی پیش بینی کرتے ہوئے کمپنی کے کارندے مختلف مشوروں یا پھر جادو کا سہارا لیتے۔جو طریقے وہ استعمال کرتے، جو چالیں وہ بنُتے، ہمیشہ خفیہ ہوتیں۔ ہر انسان کی پوشیدہ ترین امیدوں اور خدشات تک رسائی کے لئے وہ جوتشیوں اور جاسوسوں کا سہارا لیتے۔ عمومی طور پر یہ مانا جاتا تھا کہ کچھ پتھر کے شیر، کافکا نامی ایک مقدس بیت الخلاء، اور گرد وغبار سے بھرےایک آبی نالے میں کچھ دراڑیں ایسی ہیں جو کمپنی کے لئے خفیہ گزرگاہیں ہیں، اور اچھی یا برے مقاصد کے تحت لوگ وہاں خفیہ رپورٹیں رکھ آتے۔ بلحاظ ِترتیب ِ ابجد ایک فائل میں یہ مختلف دستاویزات موجود رہتیں۔
حیران کن طور پر جانبداری اور بدعنوانی کے قصے سنے گئے۔ اپنے مروجہ رجحان کے مطابق کمپنی نے براہ راست جواب نہ دیا، بلکہ ایک کارخانے کے ملبے میں ایک مختصر سی ٹوٹی پھوٹی استدلالی تحریر لکھ دی۔ اس بریت نامےکا شمار اب مقدس صحیفوں میں ہوتا ہے۔ اس نے نظریاتی طور پر یہ نشاندہی کی کہ لاٹری سلسلۂ کائنات میں احتمال کی شمولیت ہے، اور یہ مشاہدہ کیا کہ اغلاط کی قبولیت احتمال کی راہ میں حائل نہیں ہوتی بلکہ اسے مضبوط کرتی ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ وہ شیر، وہ مقدس بیت الخلاء کمپنی (جو ان سے مشاورت کا حق رکھتی ہے) کے اس سے اظہارِ لاتعلقی نہ کرنے کے باوجود کسی بھی سرکاری ضمانت کے زیرِ اثر کام نہیں کر رہا تھا۔
اس بیان نے لوگوں کے شبہات کا ازالہ توکر دیا لیکن اس سے مزید اثرات پیدا ہوئے جن کی توقع اس کے مصنف کو نہ تھی۔ انہوں نے کمپنی کی روح اور عملیات دونوں کو بے حد بدل کر رکھ دیا۔ میرے پاس تھوڑا ہی وقت باقی بچا ہے، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جہاز بندرگاہ سے روانہ ہونے والا ہے، لیکن میں وضاحت کی کوشش کرتا ہوں۔
یہ کتنا بھی غیر احتمالی کیوں نہ لگے ، اس وقت تک کسی نے بھی کھیل کا ایک عمومی نظریہ تشکیل دینے کی کوشش نہ کی تھی۔بابل والے تشکیک پسند نہیں ہیں، وہ اتفاق پر منحصر فیصلوں کو مانتے ہیں ، اپنی زندگیاں ، اپنی امیدیں اور اپنی بے نام دہشت اس کے آگے زیر کر دیتے ہیں، لیکن انہیں کبھی اس کے چیستانی قوانین ، اور ان گھومنے والے کرّوں کی گہرائی میں جانے کا خیال نہیں آیا جن کے ذریعے اس کے افعال ظاہر ہوتے ہیں۔ خیر پھر بھی وہ نیم سرکاری بیان جس کا میں نے ذکر کیا کئی قانونی اور ریاضیاتی بحثوں کا محرک بنا۔ ان میں سے ایک سے یہ قیاس برآمد ہوا: اگر لاٹری اتفاق و احتمال کی افزونی شکل ہے یعنی کائنات میں افراتفری یا بدنظمی کی ایک میعادی نفوذپذیری، تو پھر کیا یہ سمجھنا درست نہیں کہ اتفاق قرعہ اندازی کی ہر جہت میں شامل ہے؟ کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں کہ اتفاق کی بنیاد پر ایک انسان کی موت کا فیصلہ کیا جائے جب کہ اس موت کے حالات، چاہے وہ مخفی ہوں یا سرعام، چاہے قرعہ ایک گھنٹے میں نکلے یا ایک صدی میں، مبنی بر اتفاق نہ ہوں؟ یہ پوری طرح معقول اعتراضات بالآخر ایک جامع اصلاح کا باعث بنے۔ نئے نظام کی پیچیدگیوں کو (جو اس لئے مزید زیادہ ہو گئیں کہ وہ صدیوں سے رائج تھا) صرف کچھ مٹھی بھر متخصصین ہی سمجھ سکے، چاہے علامتی طور پر ہی سہی میں ان کے مجمل بیان کی کوشش کروں گا۔
آئیے پہلے قرعے کا تصور کرتے ہیں جس کے ذریعے ایک انسان کی موت کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے کو جاری کرنے کے ایک اور قرعہ ڈالا گیا، فرض کیجئے اس دوسرے قرعے کے نتیجے میں نو ممکنہ جلاد سامنے آئے۔ ان نو میں سے شاید چار ایک جلاد کا نام متعین کرنے کے لئے ایک تیسرا قرعہ ڈالیں ، دو شاید ایک بدقسمت قرعے کو خوش قسمت سے بدل دیں (فرض کیجئے کسی خزانے کی دریافت)، ایک اور شاید فیصلہ کر لے کہ موت میں شدت ہو (جیسے ذلت کی موت یا پھر کوئی نادر طریقہِ تشدد استعمال کیا جائے)، دوسرے شاید سزا دینے ہی سے انکار کر دیں۔ علامتی پیرائے میں یہ لاٹری کا مجوزہ منصوبہ ہے۔ حقیقت میں تو قرعوں کی تعداد لامتناہی ہے۔ کوئی بھی فیصلہ حتمی نہیں بلکہ اپنی مزید شاخیں رکھتا ہے۔ بےعلم لوگ یہ مفروضہ قائم کر لیتے ہیں کہ قرعوں کی لامتناہی تعداد لامتناہی وقت کا تقاضا کرتی ہے، اصل میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کی لامتناہی تقسیم ممکن ہو، جیسا کہ کچھوے کی دوڑ والی مشہور حکایت میں ہے۔یہ لامتناہیت بہت ہی غیر معمولی طریقے سے اتفاقات کی خمدار تعداد سے مناسبت رکھتی ہے اورا فلاطونیوں کی محبوب سماوی نمونوں والی لاٹری سے بھی۔۔۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے رواج کی ایک مسخ شدہ گونج دریائے تیبر تک پہنچی ہے: اپنی کتاب ’’انتونیوس ہیلیوگیبولس کی زندگی‘‘ میں ایلیس لامپریدس ہمیں بتاتا ہے کہ شہنشاہ نے سیپیوں پر اپنے مہمانوں کی تقدیر لکھی جو اس کے ہاں رات کے کھانے پر مدعو تھے، کسی کو دس پاؤنڈ سونا ملنا تھا، دوسروں کو دس مکھیاں، دس چوہے ، دس ریچھ۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ہیلیوگیبولس اناطولیہ میں اپنے ہی نام دہندہ دیوتا کے پروہتوں کے بیچ پلا بڑھا۔
پھر غیر شخصی قرعے بھی ہیں جن کا مقصد غیر واضح ہے۔ ایک قرعہ یہ فیصلہ کرتا ہے تاپروبانا (Taprobana)سے ایک نیلم کا پتھرنکال کر دریائے فرات میں پھینک دیا جائے، ایک اور کہ ایک پرندے کو کسی مینار کے اوپر سے چھوڑ دیا جائے، ایک اور کہ ہر ہزار سال کے بعد ریت کے ایک ذرے کو کسی ساحل پر موجود لاتعداد ذرات میں ڈال دیا جائے (یا نکال لیا جائے)۔کئی دفعہ نتائج دہشت ناک تھے۔
کمپنی کی فیاضی کے زیرِ اثر ہمارے رواج اتفاق میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دمشقی شراب کی ایک درجن صراحیوں کا خریدار حیران نہیں ہو گا اگر ایک میں سے کوئی طلسمان برآمد ہو جائے، یا کوئی موذی ناگ۔ جو محرر بھی کوئی معاہدہ لکھتا ہے وہ کبھی ایک آدھ غلطی کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے خود بھی اس جلدی میں دئیے گئے بیان میں کسی نہ کسی تابناک حقیقت، کسی ظلم و جبر کی تشریح میں ضرور غلطی کھائی ہو گی، بلکہ شاید کسی پراسرار یکسانیت میں بھی۔ ہمارے تاریخ دانوں نے، جو روئے زمین پر زیرک ترین مخلوق ہیں، اتفاق میں درستگی کا ایک طریقہ وضع کیا ہے۔ مشہور ہے کہ اس طریقے سے ملنے والے نتائج (عمومی طور پر)قابلِ بھروسہ ہیں، گو کہ یقیناً ان کے انکشاف میں کسی حد تک مکاری سے کام لیا جاتا ہے۔ پھر واقعہ یہ بھی ہے شاید ہی کوئی شے ہو جو کمپنی کی تاریخ سے زیادہ افسانوی ہو۔۔۔عین ممکن ہے کہ کسی مندر سے دریافت ہونے والی ایک قدیمی دستاویز کل کے کسی قرعے کا نتیجہ ہو یا صدیوں پہلے کا۔ کوئی کتاب ایسی نہیں چھپتی جس کےہر ایڈیشن کے نسخوں کے مابین کوئی تناقض نہ ہو۔ محررین ایک خفیہ حلف میں بندھے ہیں کہ وہ تحریر کے وقت کچھ نہ کچھ حذف، تحریف یا تبدیل کر دیں گے۔ بالواسطہ دروغ گوئی بھی کی جاتی ہے۔
کمپنی خدائی عاجزی کے ساتھ ہر قسم کی شہرت کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے کارندے خفیہ ہیں، جو احکام وہ ہمیشہ (شاید تسلسل سے) دیتی ہے وہ ان سے بالکل مختلف نہیں جو اس کے بھیس میں دوسرے فریبی لوگ پھیلاتے رہتے ہیں۔
پھر اس کے علاوہ ایسا کون ہے جو محض شیخی مارنے کی خاطر اپنے آپ کو عیار ظاہر کرے؟ کیا وہ نشے میں دھت آدمی جو اچانک اپنے منہ سے کوئی بےمعنی حکم نکال دے، کیا وہ سویا ہوا شخص جو اچانک جاگے، کروٹ لے اور اپنے ساتھ سوئی ہوئی عورت کا گلا گھونٹ دے؟ کیا یہ لوگ کمپنی کی خفیہ ہدایات پر عمل نہیں کر رہے؟ یہ خاموش عمل، بالکل خدا کی طرح ہر قسم کے قیاسات کو تحریک دیتا ہے۔ کسی بدزبان نے یہ بھی کہا ہے کہ سینکڑوں سال پہلے ہی کمپنی ختم ہو چکی ہے، اور یہ کہ ہماری زندگیوں کی یہ مقدس بے ترتیبی خالصتاً موروثی روایت ہر مبنی ہے۔ ایک اور کا یہ ماننا ہے کہ کمپنی جاودانی ہے، اور وہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ شبِ ازل تک موجود رہے گی جب تک آخری دیوتا زمین کو تباہ نہیں کرڈالتا ۔ ایک اور کی یہ رائے ہے کہ کمپنی قادرِ مطلق ہے مگر صرف چھوٹی چھوٹی اشیاء پر ہی اثر انداز ہوتی ہے، کسی پرندے کی چیخ، زنگ اور خاک کے رنگوں کے مختلف درجات، وہ آدھے خواب جو صبح کاذب کے وقت نظر آتے ہیں۔ ایک اور بدعتیوں کے سردار کا یہ کہنا ہے کہ کمپنی کا کوئی وجود سرے سے تھا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی ہو گا۔ ایک اور جو ہرگز کم قابلِ حقارت نہیں یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اس مبہم تنظیم کی حقیقت کے اثبات یا انکار سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کیوں بابل اتفاق پر مبنی ایک لامتناہی بازی کے علاوہ کچھ نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں