میلان کنڈیرا کے مضامین کا مجموعہ 'انکائونٹر' ان کے سیاسی، ادبی اور اخلاقی خیالات کی آماجگاہ ہے، کنڈیرا نے بہت سے مضامین میں زندگی کے مختلف تجربات، ادیبوں سے اپنے تعلقات، اتفاق و اختلاف کی نوعیتیں ظاہر کی ہیں۔مضامین کا انداز نہایت تخلیقی ہے۔کنڈیرا کی ایک زبردست صفت اس بات سے اجاگر ہوتی ہے کہ انہوں نے کبھی زندگی میں کسی فوری تاثر کو جوں کا توں قبول نہیں کیا، بلکہ اس پر غور و خوض کیا اور باریکی سے جائزہ لینے کے بعد وہ کسی مثبت فکری نتیجے پر پہنچے ہیں، اب خواہ اس میں کسی سے اتفاق کیا گیا ہو یا اختلاف۔زندگی کے تئیں ان کا نظریہ کتنا صاف و شفاف ہے، اس کا اندازہ ہمیں ان کے زیر نظر مضمون 'دشمنی اور دوستی' سے ہوتا ہے۔یہ مختصر سا مضمون کنڈیرا کے اسٹینڈ اور سیاسی قوتوں کے ان پر پڑنے والے اثرات کا ایک ہلکا سا سوانحی نقش تو پیش کرتا ہی ہے، مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کنڈیرا نے اس میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ادیب کو اول و آخر ایک انسان ہونا چاہیے، اس سے ماورا کوئی عہدہ، کوئی قدآوری کم از کم اس ذمہ داری کے ساتھ منسوب کرنا بددیانتی ہے، اور اس انسان کی دوستی بالکل سیاسی لوگوں کی طرح نہیں ہونی چاہیے، جن کو کسی کے نظریاتی اختلافات برداشت کرنے کی بالکل عادت نہیں ہوتی، اور وہ بوقت ضرورت اپنے دوستوں کو ہی قتل گاہوں کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔اس مضمون کا ترجمہ میں بہت پہلے سے چاہتا تھا کہ اردو میں ہوجائے، کسی اور نے پہلے سے کررکھا ہو، تو میری نظر سے نہیں گزرا، اس لیے میں نے جب عاصم بخشی سے اسے ترجمہ کرنے کی درخواست کی، تو انہوں نے بخوشی اسے قبول کیا اور اس مضمون کو نہایت ذمہ داری سے اردو کے قالب میں ڈھالا۔میں آپ لوگوں کے لیے کنڈیرا کے دیگر مضامین بھی جستہ جستہ اردو کے ذریعے آن لائن کرواتا رہوں گا، تاکہ اس عظیم ادیب کے خیالات سے ہم مزید واقف ہوسکیں۔اب وقت ہے، اس مضمون کو پڑھنے کا اور اپنے نظریات کو واضح کرنے کا۔آپ کا اور عاصم بخشی کا شکریہ۔(تصنیف حیدر)
ستر کی دہائی کے اوائل میں جب ہمارا ملک روسی قبضے میں تھا، ایک دن میں اور میری بیوی— ہم دونوں ہی نوکریوں سے نکالے جا چکے تھے اور دونوں ہی کی صحت خراب تھی—پراگ کے مضافات میں واقع ایک ہسپتال میں ایک ایسےعظیم ڈاکٹر کو ملنے گئے جو تمام زیرِ عتاب حکومت مخالفین کا دوست سمجھا جاتا تھا، ایک عمر رسیدہ یہودی فاضل جسے ہم پروفیسر شمائل کے نام سے جانتے تھے۔وہاں ہماری مڈبھیڑ ’ای‘ نامی ایک صحافی سے ہو گئی جو خود بھی ہر جگہ سے نکالا جا چکا تھا اور خرابیٔ صحت کا شکار تھا۔ ہم چاروں ایک خوشگواردوستانہ ماحول میں دیر تک وہاں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف رہے۔
واپسی پر ’ای‘ نے قصبے تک ہمیں اپنی گاڑی میں لفٹ دی اور بہومل ہرابال کا ذکر چھیڑ دیا جو ان دنوں بقیدِ حیات ادیبوں میں سب سے عظیم چیک ادیب مانا جاتا تھا: بے انتہا تخیل کا مالک ایک ایسا ذہن جو عامیانہ تجربے میں بہت گہری دلچسپی رکھتا تھا(اس کے ناولوں کے کردار بہت عام سے لوگ ہیں)، بہت زیادہ پڑھا جاتا اور قارئین کا نہایت محبوب (نوجوان چیک فلم کاروں کی ایک پوری نسل اسے اپنا پیرو مرشد مانتی تھی)۔ وہ حددرجے غیرسیاسی تھا۔ایک ایسے راج میں جہاں ’ہر معاملہ سیاسی تھا‘ یہ کوئی معصومیت نہیں تھی: اس کا غیرسیاسی نقطۂ نظر اپنے ارد گرد کی ایک ایسی دنیا کی تضحیک کا باعث تھا جہاں آدرشوں کی شورش برپا تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہ ایک طویل عرصہ نسبتاً بے قدری کا نشانہ رہا (کیوں کہ کسی سرکاری ملازمت کے لئے تو تھا ہی ناقابلِ استعمال)، لیکن اس کے علاوہ ایک وجہ اس کا غیرسیاسی نقطۂ نظر بھی تھا (نہ ہی اس نے کبھی حکومت کے خلاف کوئی بات کی)، لہٰذا روسی قبضے کے دور میں اسے تنہا چھوڑ دیا گیا اور اس نے کسی نہ کسی طریقے سے کچھ کتابیں شائع کر وا لیں۔
’ای‘ کو اس پر بہت غصہ تھا: وہ کیسے اپنی کتابوں کی طباعت کی اجازت دے سکتا تھا جب اس کے ساتھی ادیبوں پر پابندی تھی؟ وہ اس طرح کیسے حکومت کو جواز بخش سکتا تھا؟ احتجاج کا ایک لفظ نکالے بغیر؟اس کی روش نفرت انگیز ہے، ہرابال ایک غدار ہے۔
میرا ردعمل بھی ویسی ہی برہمی لئے تھا:غداری کا الزام کسی حد تک بے معنی ہے جب ہرابال کی کتابوں کی روح، ان میں موجود مزاح، ان کا دائرۂ تخیل، اس تمام ذہنیت سے متضاد ہے جو ہمارے اوپر حاکم ہے ، ہمیں اپنے شکنجے میں جکڑنے کی کوشش کر رہی ہے !ایک ایسی دنیا جس میں کوئی شخص ہرابال کو پڑھ سکتا ہے اس دنیا سے بالکل مختلف ہے جہاں اس کی آواز سماعتوں سے باہر رہے! ہم سب کی تمام عملی کوششوں، ہماری جدوجہد، ہمارے پُر شور احتجاجوں کے مقابلے میں ہرابال کی صرف ایک کتاب بھی عوام کی ہمت بندھانے، ان کی ذہنی آزادی کے لئے بہت کافی تھی۔کار میں ہونے والی بحث بہت جلد ایک تلخ جھگڑے میں تبدیل ہو گئی۔
بعد میں اس پورے واقعے پر غور کرتے ہوئے اس (اصل اور پوری طرح جوابی) نفرت پر حیران ہوتے ہوئے میں نے اپنے آپ سے کہا:ڈاکٹر کے دفتر میں ہماری باہمی ہم آہنگی عارضی تھی، جس کی وجہ ہم سب کا تاریخی عوامل کے ایک ایسے مجموعے سے منسلک ہونا تھا جس کے باعث ہم جبر و استبداد کا نشانہ بنے ہوئے تھے؛ لیکن یہاں ہمارا اختلاف ،بنیادی نوعیت سے تعلق رکھتے ہوئے اور حالات پر منحصر نہ ہوتے ہوئے بھی ، کچھ ایسے لوگوں کے بیچ تھا جن کے لئے سیاسی جدوجہد حقیقی زندگی ، آرٹ اور فکر سے زیادہ اہم تھی، ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کے لئے سیاست کے کُل معنی حقیقی زندگی، آرٹ اور فکر کی خدمت کے ہی تھے۔یہ دنوں رجحانات چاہے اپنی اپنی جگہ باجواز ہو ں ایک دوسرے سے عدم مطابقت رکھتے ہیں۔
۱۹۶۸ کی پت جھڑ کے دو ہفتے پیرس میں گزرے اور میری خوش قسمتی تھی لوئس آراگون سے رو ڈی وارنیس میں واقع اُن کے گھر میں گفتگو کے دو تین طویل دور نصیب ہوئے۔ میں نے کچھ زیادہ بات نہیں کی بلکہ ا ُن کی سنتا رہا۔ کبھی ڈائری نہیں رکھی لہذا ان ملاقاتوں کی یاداشتیں مبہم ہیں: ان کی باتوں میں مجھےباربار اٹھنے والے صرف دو موضوعات یاد ہیں: اول ، انہوں نے آندرے بریٹن کا کافی تذکرہ کیا جو بظاہراب اپنی عمر کے آخری حصے میں دوبارہ ان کے قریب آ چکاتھا، اور دوم، ناول کے آرٹ پر کافی بات چیت ہوئی۔یہاں تک کہ میری کتاب ’دی جوک‘ کے دیباچے میں (جو ہماری ملاقاتوں سے ایک ماہ قبل لکھا گیا) وہ ناول کے آرٹ کی تعریف کےبارے میں یوں رقم طراز ہیں: ’’ناول انسان کے لئےاسی طرح ضروری ہے جیسے روٹی‘‘؛ ہماری ملاقاتوں کے دوران وہ بار بار مجھے ’’اس آرٹ‘‘ (وہ ’’زوال پذیر‘‘ آرٹ جیسا کہ انہوں نے دیباچے میں لکھا؛ بعد میں اسی طریقۂ اظہار پر میں نے اپنی کتاب ’ناول کا آرٹ‘ کا ایک باب باندھا) کے دفاع پر ابھارتے رہے۔
ہماری ملاقاتوں سے میرے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ سر رئیلسٹ ادیبوں کے ساتھ ان کا ناطہ ٹوٹنے کی اہم ترین وجہ سیاسی (یعنی کمیونسٹ پارٹی سے ان کی وفاداری) نہیں تھی بلکہ جمالیاتی (ناول سے ان کی وفاداری تھی یعنی وہ آرٹ جو سر رئیلسٹوں کے ہاتھوں’’ زوال پذیر‘‘ تھا) تھی ۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں نے ان کی زندگی کے ایک دو رُخی ڈرامے کی جھلک دیکھ لی : ناول کے آرٹ کے ساتھ ان کی شدید جذباتی وابستگی (شاید ان کی اپنی غیرمعمولی ذہانت کا اہم ترین گوشہ) اور بریٹن سے ان کی دوستی (آج میں یہ جانتا ہوں: جب تخمینے کی آخری ساعت ہوتی ہے تو سب سے کرب انگیز زخم دوستی کے رشتے میں پڑی دراڑیں ہوتی ہیں اور کسی دوستی کو سیاست پر قربان کر دینے سے احمقانہ قدم ممکن نہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے یہ کبھی نہیں کیا۔ میں میتران کا معترف تھا کہ وہ پرانے دوستوں سے وفادار ہے۔ یہی وفاداری تھی جس کی وجہ سے اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ اتنے پرتشدد حملوں کا ہدف تھا۔ یہی وفاداری اس کی شرافت و نفاست تھی۔)
آراگون سے ملاقات کے کوئی سات سال بعد میری ایمی سیزر سے شناسائی ہوئی جس کی شاعری کا چیک ترجمہ میں نے جنگ کے بعد ایک پیش رو تخلیقی مجلے کے ذریعے دریافت کیا (یہ وہی مجلہ تھا جس نے میلوش سے میرا تعارف کروایا)۔ ہم پیرس میں مصور ولفریڈو لام کے نقاش خانے میں ملے تو نوجوان، شگفتہ خاطر، زندہ دل ایمی سیزر نے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔اس کا پہلا سوال تھا:’’کنڈیرا، کیا تم نیزول کو جانتے تھے؟‘‘ ’’ہاں، یقیناً۔ لیکن تم اس کو کیسے جانتے ہو؟‘‘ معلوم ہوا کہ وہ تو نیزول کو نہیں جانتا تھا لیکن آندرے بریٹن نے اس کا بہت ذکر کیا تھا۔اگر بات میرے پہلے ہی سے قائم کردہ تصورات کی ہوتی تو میں یہ سمجھتا کہ بریٹن نے اپنی ایک ہٹ دھرم آدمی کی شہرت کے مطابق پیش آتے ہوئے ویٹی سلاو نیزول کی پیٹھ پیچھے بدخوئی ہی کی ہو گی، کیوں کہ نیزول کچھ سال پہلے چیک سر ریئلسٹوں سے کٹ کر پارٹی کے احکام بجا لانے کے لئے آراگون سے جا ملا تھا۔لیکن سیزر نے بتایا کہ بریٹن جب ۱۹۴۰ میں مارٹینیک میں نظر آیا تو نیزول کے بارے میں محبت سے بات کر رہا تھا۔یہ بات میرے لئے بہت پُراثر تھی۔ حیرت اس لئے بھی دو چند تھی کہ نیزول نے بھی ہمیشہ بریٹن کا ذکر محبت سے کیا۔
سٹالن کےتاریخی عدالتی مقدمات میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ کمیونسٹ سیاست دانوں کی وہ سرد مہری تھی جس سے انہوں نے اپنے دوستوں کے احکامِ قتل کو تسلیم کیا۔ کیوں کہ وہ سب دوست تھے، جس سے میرا مطلب یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قریبی رفقاء رہے تھے، مشکل وقت اکٹےچ کاٹا تھا، ہجرت، عقوبت، ایک طویل سیاسی جدوجہد۔ وہ اپنی دوستی داؤ پر لگانے کے لئے کیسے آمادہ ہو گئے، اور وہ بھی اتنی بھیانک قطعیت کے ساتھ؟
لیکن کیا یہ دوستی تھی؟ چیک زبان میں soudruzstvi نامی ایک انسانی رشتہ ہے جس کےماخذ لفظ soudruh یعنی کامریڈ کے معنی ہیں ’’کامریڈوں یا رفقاء کی دوستی،‘‘ یعنی وہ احساسِ رفاقت جو ایک جیسی سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مشترکہ عقیدت کے غائب ہوتے ہی یہ احساسِ رفاقت بھی غائب ہو جاتا ہے۔لیکن ایک ایسی دوستی جو اپنے سے بالا کسی مفاد سے وابستہ ہو دوستی تو نہیں کہلائی جا سکتی۔
ہمارے زمانے میں لوگوں نے دوستی کو ایک ایسی چیز سے وابستہ کرنا سیکھ لیا ہے جسے وہ ’عقائد‘ کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ سب وہ اخلاقی راستی سے سرشار ایک گھمنڈی لہجے میں کرتے ہیں۔ یہ سمجھنے کے لئے خاصی بلوغت درکار ہے کہ ہم جس رائے کے صحت پر اصرار کر رہے ہیں وہ محض ایک ایسا احتمالی قیاس ہے جس کی ہم حمایت کر رہے ہیں، ناگزیر طور پر غیر کامل، شاید عارضی، جو بہت ہی تنگ ذہنوں کے نزدیک ایک اٹل حقیقت یا سچائی ہو سکتی ہے۔ ایک عقیدے کے ساتھ جڑی طفلانہ وفاداری کے برعکس کسی دوست سے وفاداری ایک اخلاقی صفت ہے، شاید ایک واحد آخری بچ جانے والی اخلاقی صفت۔
اس وقت میری نظروں کے سامنے شاعر رینے کار کی ہیڈیگر کے ساتھ ایک تصویر موجود ہے۔ان میں سے ایک تو وہ ہے جسے جرمن قبضے کے خلاف فرانسیسی جدوجہد کی علامت مانا جاتا ہے، اور دوسرے کے حصے میں اپنی زندگی کے ایک موڑ پر ابتدائی نازی نظریات سے ہمدردی کے نتیجے میں بدنامی آئی ہے۔تصویر کے اوپر لکھی تاریخ جنگ کے بعد کی ہے ۔ تصویر عقب سے کھینچی گئی ہے، دونوں کے سروں پر ٹوپیاں ہیں، ایک شبیہہ درازقامت ہے، دوسری ذرا پست، دونوں کھلی فضا میں چہل قدمی کر رہے ہیں۔ مجھے یہ تصویر بہت پسند ہے۔
انگریزی سے ترجمہ: عاصم بخشی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں