اتوار، 15 نومبر، 2015

دانیال طریر کی غزلیں


دانیال طریر کی یہ بیس بائیس غزلیں ہیں، یہ ساری غزلیں اس کے شعری مجموعے خواب کمخواب سے ماخوذ ہیں، دانیال طریر اب ہمارے درمیان نہیں ہے، چند ماہ پہلے اس اچھے شاعر اور بہترین ادیب کا انتقال ہوگیا، کم عمری میں اس کی موت کا ان تمام لوگوں کو افسوس ہے، جو اس کے دماغ کی تخلیقی اور شعوری اڑان کو دیکھ رہے تھے۔مجھے دانیال طریر نے اپنا شعری مجموعہ خود میری درخواست پر عنایت کیا تھا،ادبی دنیا کی جانب سے آج ہم اس شاعری کے ذریعے دانیال کو یاد بھی کررہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ آپ اسی غیر جانبداری سے اس کی شاعری کا جائزہ لیں، اسے پرکھیں، پسند کریں یا رد کریں، جس ایمانداری سے وہ ادبی فیصلے لینے کا قائل تھا۔دانیال کی ان غزلوں میں پنر جنم کا تصور جڑوں تک سمایا ہوا دکھائی دیتا ہے، انہی جڑوں اور شاخوں کے ساتھ یہ بات بھی نمایاں ہوتی ہے، کہ اس کی شاعری میں موجود ’پیڑ‘ کا استعارہ دراصل زندگی در زندگی اور زندگی بعد زندگی کے نظریے کو مستحکم بھی کرتا ہے اور اس پراصرار بھی کرتا ہے، شاید یہ سب اس لیے تھا کیونکہ دانیال طریرکو اپنی زندگی کے مختصر عرصے کا علم تھا ، وہ نئی نسل سے آگے نکل چکا ہے، مگرہمارے دور کی نئی نسل کا نمائندہ شاعر تھا اور رہے گا۔

اجالا ہی اجالا، روشنی ہی روشنی ہے
اندھیرے میں جو تیری آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
ابھی جاگا ہوا ہوں میں کہ تھک کر سو چکا ہوں
دئیے کی لو سے کوئی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
تجسس ہر افق پر ڈھونڈتا رہتا ہے اس کو
کہاں سے اور کیسی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
عمل کے وقت یہ احساس رہتا ہے ہمیشہ
مرے اندر سے اپنی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
میں جب بھی راستے میں اپنے پیچھے دیکھتا ہوں
وہی اشکوں میں بھیگی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
کہیں سے ہاتھ بڑھتے ہیں مرے چہرے کی جانب
کہیں سے سرخ ہوتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
درختو! مجھ کو اپنے سبز پتوں میں چھپا لو
فلک سے ایک جلتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
۰۰۰
بطرز خواب سجانی پڑی ہے آخر کار
نئی زمین بنانی پڑی ہے آخر کار
تپش نے جس کی مجھے کیمیا بنانا تھا
مجھے وہ آگ بجھانی پڑی ہے آخر کار
بہت دنوں سے یہ مٹی پڑی تھی ایک جگہ
ہر ایک سمت اڑانی پڑی ہے آخر کار
ہاں پہ قصر بنائے گئے تھے کاغذ کے
وہاں سے راکھ اٹھانی پڑی ہے آخر کار
وہ پاؤں بھیگے ہوئے دیکھنے کی خواہش میں
چمن میں اوس بچھانی پڑی ہے آخر کار
مرے بدن کی ضیا بڑھ گئی تھی سورج سے
لہو میں رات ملانی پڑی ہے آخر کار
زمیں پہ داغ بہت پڑ گئے تھے، خون کے داغ
فلک کو برف گرانی پڑی ہے آخر کار
۰۰۰
بلا جواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری
اٹک گئی ہے ستارے میں اک پتنگ مری
پھر ایک روز مرے پاس آکر اس نے کہا
یہ اوڑھنی ذرا قوس قزح سے رنگ مری
جو کائنات کنارے سے جا کے مل جائے
وہی فراغ طلب ہے زمین تنگ مری
میں چیختے ہوئے صحرا میں دور تک بھاگا
نہ جانے ریت کہاں لے گئی امنگ مری
فنا کی سرخ دوپہروں میں رقص جاری تھا
رگیں نچوڑ رہے تھے رباب و چنگ مری
لہو کی بوند گری روشنی کا پھول کھلا
پھر اس کے بعد کوئی اور تھی ترنگ مری
۰۰۰
پانی کے شیشوں میں رکھی جاتی ہے
سندرتا جھیلوں میں رکھی جاتی ہے
چھونے کو بڑھ جاتی ہے وہ موم بدن
آگ کہاں پوروں میں رکھی جاتی ہے
چاند ترے ماتھے سے اگتا ہے چندا
رات مری آنکھوں میں رکھی جاتی ہے
ہاتھوں میں ریکھائیں پیلے موسم کی
سبز پری خوابوں میں رکھی جاتی ہے
چھو لیتی ہے جو تیرے نازک پاؤں
وہ مٹی گملوں میں رکھی جاتی ہے
رنگ جدا کرنے کے لیے چشم و لب کے
قوسِ قزح اندھوں میں رکھی جاتی ہے
ایسے بھی آرائش ہوتی ہے گھر کی
تنہائی کمروں میں رکھی جاتی ہے
۰۰۰
تسلسل سے گماں لکھا گیا ہے
یقیں تو ناگہاں لکھا گیا ہے
مکمل ہو چکی قرأت فضا کی
پرندے اور دھواں لکھا گیا ہے
مرا دو پل ٹھہر کر سانس لینا
سر آب رواں لکھا گیا ہے
اگائے گی ستارے اب یہ مٹی
زمیں پر آسماں لکھا گیا ہے
کتاب غیب پڑھتا جا رہا ہوں
مرا ہونا کہاں لکھا گیا ہے
نہیں لکھا گیا کاغذ پہ کچھ بھی
فقط آئندگاں لکھا گیا ہے
۰۰۰
جرس اور ساربانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
یہ دل اگلے زمانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
جنونی ہو گیا ہے میرے دریاؤں کا پانی
پہاڑوں کے گھرانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
گزرنا چاہتی ہے بادلوں سے میری حیرت
میرا شک آسمانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
پتنگا ایک پاگل ہو گیا ہے روشنی میں
فرشتوں کی اڑانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
کثافت ختم کر کے جسم کی مٹی کا پتلا
خدا کے کارخانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
نہیں آیا یہ اژدر پربتوں کی سیر کرنے
زمینوں کے خزانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
درندے ساتھ رہنا چاہتے ہیں آدمی کے
گھنا جنگل مکانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
۰۰۰
چاند چھونے کی طلب گار نہیں ہو سکتی
کیا مری خاک چمک دار نہیں ہو سکتی
ہو نہ ہو اپنی بصارت نے مجھے روکا ہے
غیب جاتے ہوئے دیوار نہیں ہو سکتی
جتنی پیڑوں میں نظر آتی ہے تقلیب کے بعد
یہ زمیں اتنی پر اسرار نہیں ہو سکتی
میں نے ڈھونڈا ہے چراغوں کی لوؤں میں تجھ کو
تو ستارے میں نمودار نہیں ہو سکتی
یہ زمینوں پہ لہکتی ہوئی گندم کی مہک
آسمانوں کی طرف دار نہیں ہو سکتی
میں کسے خواب سنانے کے لیے آیا ہوں
شب اگر نیند سے بیدار نہیں ہو سکتی
جس نے آنسو پہ قناعت کا چلن سیکھا ہو
وہ نظر خوگر دینار نہیں ہو سکتی
۰۰۰
چشم وا ہی نہ ہوئی جلوہ نما کیا ہوتا
اور ہوتا بھی تو دیکھے کے سوا کیا ہوتا
ریت کے باغ میں کیا باد بہاری کی طلب
کوئی سبزہ ہی نہیں تھا تو ہرا کیا ہوتا
اتنی سادہ بھی نہیں آگ اور انگور کی رمز
اجر دیتا نہ سزا تو بھی خدا کیا ہوتا
میری خواہش کے علاقے سے پرے کچھ بھی نہ تھا
اور خواہش کے علاقے میں نیا کیا ہوتا
جسم پر سرد ہواؤں کی فسوں کاری تھی
دھوپ تعویذ نہ کرتی تو مرا کیا ہوتا
اژدھے بننے لگے پیڑ پرندوں کے لیے
شہر پر خوف میں اب اس سے برا کیا ہوتا
دیکھنے میں بھی گیا تھا وہ تماشا لیکن
کوئی باقی نہ رہا رقص فنا کیا ہوتا
۰۰۰
خاموشی کی قرأت کرنے والے لوگ
ابو جی اور سارے مرنے والے لوگ
روشنیوں کے دھبے ان کے بیچ خلا
اور خلاؤں سے ہم ڈرنے والے لوگ
مٹی کے کوزے اور ان میں سانس کی لو
رب رکھے یہ برتن بھرنے والے لوگ
میرے چاروں جانب اونچی اونچی گھاس
میرے چاروں جانب چرنے والے لوگ
آخر جسم بھی دیواروں کو سونپ گئے
دروازوں میں آنکھیں دھرنے والے لوگ
۰۰۰
خواب کاری وہی کمخواب وہی ہے کہ نہیں
شعر کا حسن ابد تاب وہی ہے کہ نہیں
کیا پری کو مجھے مچھلی میں بدلنا ہو گا
دیکھنے کے لیے تالاب وہی ہے کہ نہیں
میں جہاں آیا تھا پیڑوں کی تلاوت کرنے
سامنے قریۂ شاداب وہی ہے کہ نہیں
آنکھ کو نیند میں معلوم نہیں ہو سکتا
رات وہ ہے کہ نہیں خواب وہی ہے کہ نہیں
جس کو چھونے سے مرا جسم چمک اٹھے گا
دیکھ یہ شیشۂ مہتاب وہی ہے کہ نہیں
یہ کہانی کے الاؤ سے چرائی ہوئی آگ
محو حیرت ہے کہ برفاب وہی ہے کہ نہیں
سر جھکانے سے جہاں اشک تپاں جاگا تھا
سوچتا ہوں کہ یہ محراب وہی ہے کہ نہیں
۰۰۰
رنگ اور نور کی تمثیل سے ہو گا کہ نہیں
شب کا ماتم مری قندیل سے ہو گا کہ نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ جنگل کو چلانے کے لیے
مشورہ ریچھ سے اور چیل سے ہو گا کہ نہیں
اب نہ ہاتھی نظر آتے ہیں نہ ہاتھی والے
اب وہی کام ابابیل سے ہو گا کہ نہیں
آیت تیرہ شبی پڑھتے ہوئے عمر ہوئی
سامنا اب بھی عزازیل سے ہو گا کہ نہیں
زرد مٹی میں اترتی ہوئی اے قوس قزح
خواب پیدا تری ترسیل سے ہو گا کہ نہیں
اوس کے پھول مہکتے ہیں تری آنکھوں میں
ان کا رشتہ بھی کسی نیل سے ہو گا کہ نہیں
جب سخن کرنے لگوں گا میں تجھے عصر رواں
استعارہ کوئی انجیل سے ہو گا کہ نہیں
۰۰۰
ریت مٹھی میں بھری پانی سے آغاز کیا
سخت مشکل میں تھا آسانی سے آغاز کیا
مجھ کو مٹی سے بدن بنتے ہوئے عمر لگی
میری تعمیر نے ویرانی سے آغاز کیا
یہ جہانوں کا زمانوں کا مکانوں کا سفر
غیب نے لفظ سے یا معنی سے آغاز کیا
جب بھی یہ آنکھ عناصر کی طرف دیکھتی ہے
یاد آتا ہے پریشانی سے آغاز کیا
جسم اور اسم مجھے کیسے ملے کس نے دیے
ان سوالات کی حیرانی سے آغاز کیا
ایک خاموش سمندر تھا مرے چار طرف
جس میں آواز نے طغیانی سے آغاز کیا
مجھ کو بدصورتی جسم کا اندازہ ہے
میں نے آئینۂ عریانی سے آغاز کیا
۰۰۰
ساکت ہو مگر سب کو روانی نظر آئے
اس ریت کے صدقے کہ جو پانی نظر آئے
میں سبز پرندے کی طرح شہر سے جاوءں
پیڑوں کو مری نقل مکانی نظر آئے
تالاب مرے خواب کے پانی سے بھرا ہو
اور اس میں پڑا چاند کہانی نظر آئے
یہ آنکھ ، یہ لو کتنے زماں دیکھ چکی ہے
جس چیز کو دیکھوں وہ پرانی نظر آئے
کیا کیا نہ میں مشکیزۂ الفاظ میں بھر لوں
اک بار اگر موج معانی نظر آئے
۰۰۰
شہر سے کیا گئی جانب دشت زر زندگی فاختہ
بین کرنے لگی آ کے شام و سحر ماتمی فاختہ
مر گیا رات کو برف اوڑھے ہوئے ایک فٹ پاتھ پر
وہ جو کہتا رہا لفظ دو عمر بھر، شانتی، فاختہ
کیسی کیسی ہوائیں چلیں باغ میں کون آیا گیا
ساری تبدیلیوں سے رہی بے خبر بانوری فاختہ
وہ نگر چاند کا ہے وہاں تیری کرنوں کی خواہش کسے
اس طرف تیرگی ہے یہاں لاکے دھر طشتری فاختہ
بے اماں شہر میں کیسی دہشت سے گزری تھی میں کیا کہوں
جب عدو دیکھتی اپنے ہی بال و پر نوچتی فاختہ
وہ جو آنکھوں میں تھی کوئی دنیا الگ تھی، جہاں سے جدا
میرے خوابوں میں تھے امن کا راہبر، روشنی، فاختہ
میں تھا شاعر مجھے شہر آشوب لکھنے تھے لکھتا رہا
تیری قسمت میں لکھے گئے کیوں کھنڈر سندری فاختہ
۰۰۰
عجب رنگ طلسم و طرز نو ہے
دیا ہے آگ کا مٹی کی لو ہے
مجھے سن لیں گی تو دیکھیں گی آنکھیں
مری آواز میں سورج کی ضو ہے
رکاب اور باگ قابو میں نہیں ہیں
یہ اسپ وقت کتنا تیز رو ہے
مری تعریف کے ہیں دو حوالے
قدم افلاک پر مٹھی میں جو ہے
نہیں ہے حریت کی کوئی قیمت
مگر پنجرے کی قیمت چار سو ہے
میں کیا ہریالیوں کی آس باندھوں
زمیں کے ساتھ سپنا بھی گرو ہے
طریر آنسو ہیں اور دھندلاہٹیں ہیں
یہ کیسی کہکشاؤں کی جلو ہے
۰۰۰
کھنڈر یہ پھر بسانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
بدن میں لوٹ آنے کا ارادہ ہی نہیں تھا
شکم کی آگ نے بیلوں کو ہنکانا سکھایا
وگرنہ ہل چلانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
وہ اپنے بھیڑیوں کو سیر پر لایا تھا بن میں
غزالوں کو ڈرانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
کہا تھا طائروں سے پیڑ کو دیمک لگی ہے
کسی کو آزمانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
خبر کب تھی کہ آنکھیں اوس برسانے لگیں گی
تجھے ورنہ جگانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
میں تیرے ساتھ اڑتا پھر رہا تھا آسماں میں
خدا کو بھول جانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
صدی بھر میں تمناؤں کو بال و پر دیے تھے
مگر ان کو اڑانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
۰۰۰
کوئی سوائے بدن ہے نہ ہے ورائے بدن
بدن میں گونج رہی ہے ابھی صدائے بدن
عجب ہے شہر مگر شہر سے بھی لوگ عجب
ادھار مانگ رہے ہیں بدن برائے بدن
جہاں ٹھٹھرتی تمنا کو آگ تک نہ ملے
وہاں پہ کون ٹھہرتا ہے اے سرائے بدن
کہیں چمکتی ہوئی ریت بھی دکھائی نہ دی
کہاں گیا وہ سمندر سراب کھائے بدن
چراغ بن کے چمکتے ہیں روز شام ڈھلے
ہمارے پہلو میں سوئے ہوئے پرائے بدن
ہر ایک راہ میں بکھرے پڑے ہیں برگ نفس
یہاں چلی ہے بہت دن تلک ہوائے بدن
وہ اپنی قوس قزح لے گیا تو کیا ہو گا
طریرؔ غور طلب ہے تری فضائے بدن
۰۰۰
گیا کہ سیلِ رواں کا بہاؤ ایسا تھا
وہ ایک خواب جو کاغذ کی ناؤ ایسا تھا
کسی کو بھی نہ تھا آسان سانس کا لینا
مری زمیں پہ ہوا کا دباؤ ایسا تھا
لہو کی دھار سلامت رہی، نہ سانس کا تار
مجھے جو کاٹ گیا وہ کٹاؤ ایسا تھا
وہ ٹمٹماتا، تو اس کی ضیا بھی کم پڑتی
کسی دیے سے لہو کا لگاؤ ایسا تھا
وہ ایک تھا جو مجھے چار سو دکھائی دیا
میں جنگ ہار گیا ہوں کہ داؤ ایسا تھا
مجھے تو لاج کے اُجلے لباس میں وہ بدن
گلاب برف میں جیسے چھپاؤ ایسا تھا
بنے ہیں ناگ، مرے بن میں پیڑ جتنے تھے
لگی ہے آگ، صبا کا سبھاؤ ایسا تھا
۰۰۰
مٹی تھا اور دودھ میں گوندھا گیا مجھے
اک چاند کے وجود میں گوندھا گیا مجھے
میں نیست اور نبود کی اک کیفیت میں تھا
جب وہم ہست و بود میں گوندھا گیا مجھے
میں چشم کم رسا سے جسے دیکھتا نہ تھا
اس خواب لا حدود میں گوندھا گیا مجھے
خس خانہ زیاں کی شرر باریوں کے بعد
یخ زار نار سود میں گوندھا گیا مجھے
اک دست غیب نے مجھے لا چاک پر دھرا
پھر وقت کے جمود میں گوندھا گیا مجھے
اس میں تو آسماں کے شجر بھی ثمر نہ دیں
جس خاک بے نمود میں گوندھا گیا مجھے
قوس قزح کی سمت بہت دیکھتا تھا میں
آخر غبار و دود میں گوندھا گیا مجھے
۰۰۰
نئی نئی صورتیں بدن پر اُجالتا ہوں
لہو سے کیسے عجیب منظر نکالتا ہوں
وہ دل میں اتریں تو ایک ہو جائیں روشنی دیں
دھنک کے رنگوں کو اپنی آنکھوں میں ڈالتا ہوں
زمین تلوؤں سے آ چمٹتی ہے آگ بن کر
ہتھیلیوں پر جب آسماں کو سنبھالتا ہوں
ہوا میں تھوڑا سا رنگ اترے سو اس لیے میں
گلاب کی پتیاں فضا میں اچھالتا ہوں
کوئی نہیں تھا جو اس مسلسل صدا کو سنتا
یہ میں ہوں جو اس دیے کو سورج میں ڈھالتا ہوں
طریرؔ سانسوں کا رنگ نیلا ہوا تو جانا
خبر نہیں تھی یہ سانپ ہیں جن کو پالتا ہوں
۰۰۰
یہ معجزہ بھی دکھاتی ہے سبز آگ مجھے
پروں بغیر اڑاتی ہے سبز آگ مجھے
میں آیتوں کی تلاوت میں محو رہتا ہوں
ہر اک بلا سے بچاتی ہے سبز آگ مجھے
ہر ایک شاخ پہ رکھتی ہے زرد قندیلیں
پھر اس کے بعد جلاتی ہے سبز آگ مجھے
میں آب سرخ میں جب خواب تک پہنچتا ہوں
تو میرے سامنے لاتی ہے سبز آگ مجھے
حنائی پاؤں رگڑتے ہوئے نہ گھاس پہ چل
تجھے خبر ہے کہ بھاتی ہے سبز آگ مجھے
میں جب بھی جلتے ہوئے کوئلوں پہ سوتا ہوں
تو آسماں سے بلاتی ہے سبز آگ مجھے
زمیں پہ ناگ ہیں اور ان کے منہ میں خواب کی لو
کہانیوں سے ڈراتی ہے سبز آگ مجھے
۰۰۰

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *