جوسپ نوواکووچ کے آباو اجداد تین پشت پہلے آسٹرو ہنگیرین سلطنت سے ترکِ وطن کر کے امریکا آئے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جوسپ کے نانا نے نئی ریاست یوگوسلاویہ کو اپنا وطن بنایا۔ جوسپ کی والدہ امریکی ریاست کلیولینڈ میں پیدا ہوئیں لیکن انھوں نے یوگوسلاویہ کو وطن بنایا جہاں ۱۹۵۶ء میں جوسپ نوواکووچ پیدا ہوئے۔ بیس سال کی عمر میں وہ نیو یارک آئے اور اب کنیڈا میں مقیم ہیں لیکن کروشیا اور امریکا سے بھی ان کا تعلق قائم ہے۔ وہ کروشیا سے تعلق توڑ پاتے ہیں نہ برّاعظم شمالی امریکا سے۔ اپنے اس رجحان کو وہ ’’ذو برّاعظمی خلفشار‘‘ کا نام دیتے ہیں جس کا علاج بہت مہنگا ہے ،اور وہ ہے یورپ اور امریکا کے درمیان بہت سے فضائی سفر۔ اب تک ان کا ایک ناول، کہانیوں کے تین اور مضامین کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی ایک بیوی ہے، دو بچے ہیں اور پانچ بلیاں۔(سید کاشف رضا)
ژالہ باری
پہاڑی کی نیلی چٹان کے پس منظر میں بارش کے بڑے بڑے چمک دار قطرے زمین پر اُتر رہے تھے۔ بارش کی تھپ تھپ کی آواز سے لطف اندوز ہوتے ہوئے حارث نے ابتدائی بدھ مت کا ایک سوتر یاد کیا: ’’میں غصّے سے آزاد ہوں، ماتحتوں سے آزاد ہوں؛ میں ماہی کے کنارے پر ایک رات کی رات جی رہا ہوں؛ میرے گھر پر چھت نہیں، آگ بجھ چکی ہے۔ آؤ بارش،آؤ بادل، اگر تم ایسا ہی چاہتے ہو‘‘ شاید اس کا مطلب تھا کہ پریشان نہ ہو اور بارش کا لطف اٹھاؤ؛ یا شاید یہ کہ اب جب کہ میں بے سِپر ہوں، مجھ پر حملہ کرو اور دیکھو کہ مجھے اس کی کتنی پرواہ ہے۔
جب آسمان سے برستی ہوئی بوندیں اس کی پہاڑی کے قریب آئیں اور خود اُس پر پڑیں تبھی اسے احساس ہوا کہ یہ تو ژالہ باری ہو رہی ہے۔ سفید برف، چڑیا کے انڈوں جتنی۔ ایک لمحے کے لیے اس نے خیال آرائی کی کہ یہ ژالے چڑیا کے انڈے ہی ہیں جو پوری بوسنیائی قوم کی خوراک کا بندوبست کر سکتے ہیں (بس بات یہ ہے کہ بوسنیائی قوم پوری نہیں رہی تھی، بلکہ کبھی تھی ہی نہیں)۔ آپ انڈے اُٹھائیں گے، انھیں اُبالیں گے اور ان کے نازک غلافوں کے اندر سے ہی انھیں تناول کر لیں گے۔ آسمان سے گرتی، پانی سے بھری کنکریوں کی قطار سے بچنے کے لیے وہ صنوبر کے درختوں کی چھتری تلے ہو لیا۔
وہ کنول آسن میں بیٹھا ہوا تھا، صنوبر کے درختوں سے چپکی رال کی خوش بُو اپنی سانسوں میں کھینچتا ہوا، جب کہ چبھتی ہوئی مٹی پر اس کی پتلون گیلی ہونے لگی۔ اس نے اپنے گیان دھیان کو ختم کرنے کے لیے اوم کا لفظ ہونٹوں پر دھرا لیکن اپنا ذہن خالی کرنے اور اسے کائنات کے توازن سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے وہ یہ سوچنے لگا کہ یہ کیسا اتفاق ہے کہ بجلی کی مزاحمت کرنے والا یونٹ بھی اوہم کی آواز رکھتا ہے۔ اس نے از راہِ تفنّن سوچا کہ اس کا دماغ ایک اوم میٹر ہے اور شاید کائنات کا توازن قدرت کی قوّتوں کے ساتھ بہتے چلے جانے میں نہیں بلکہ ان کی مزاحمت کرنے میں ہے۔ وہ درخت کی جھکی ہوئی شاخوں سے بچنے کے لیے جھکتا ہوا وہاں سے نکلا، سوئی جیسی نوکوں والے پتوں پر مشتمل شاخیں یسوع مسیح کے بازوؤں پر پھیلے کھلے ڈلّے لباس سے ملتی جلتی تھیں، یا پھر وہ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے کوئی اور پیغمبر تھا جس نے بہت سے ہاتھ پھیلا رکھے تھے جیسے وہ ہندو دیوتا شیو بن چکا ہو۔ وہ حسن سے ٹکراتے ٹکراتے بچا، جس نے کہا، ’’تم اپنے آپ سے باتیں کر رہے ہو؟‘‘
ان کا سارجنٹ تمباکو کا ذاتی بادل اوڑھے پاس سے گزرا۔
’’یہ مسلمان ہونے کا کام بڑا سخت ہے،‘‘ حسن نے کہا۔ ’’ہمیں تو سلیوو وٹز شراب (حاشیہ: آلو بخارے سے بننے والی برانڈی جو بلقان کی ریاستوں میں بہت معروف ہے) میں غرق ہونا چاہیے تھا اور ہمیں ایک قطرے کی بھی اجازت نہیں!‘‘ اس نے اپنی ناک کا باجا بجایا، جس کی پھُننگ جب اس کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے چھوٹی تو اس کا رنگ سفید و گلابی کے بجائے چمکتا ہوا سرخ ہو گیا۔ ’’برانڈی کا ایک گھونٹ مجھے ٹھیک کر دے گا، قسم سے۔ کچھ لطیفے بھی چلیں گے۔ کیا تم مجھے کوئی اچھا سا لطیفہ سنا سکتے ہو؟‘‘
’’ہم م م۔ ابھی مجھے کوئی مزے دار سا یاد نہیں آ رہا۔‘‘
’’تمھیں نہیں یاد آ رہا تو میں سناتا ہوں تمھیں۔ موجو جرمنی سے وطن واپس آیا تو اپنی نئی مرسیڈیز کار کے ساتھ تُزلا میں داخل ہوا۔ اس کی کار کی کھڑکی نیچے کی اور سڑکوں پر کھڑے لوگوں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ یار کسے دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے ہو؟ اس کے دوست جمال نے پوچھا۔ یہاں تو اب سب کے پاس ہے مرسیڈیز۔ ہاں، موجو نے اتفاق کیا، تم نے یہ بات درست کہی۔ لیکن سب کے پاس ہاتھ کہاں ہیں۔‘‘ حسن نے قہقہہ لگایا اور اپنا آخری فقرہ دُہرایا، لیکن حارث نہ ہنسا۔
حسن نے اپنا بلغمی حلق صاف کیا اور تھوک پھینکا۔ ’’یہ جنگ جس نے بھی ایجاد کی تھی، اسے قتل کر دیناچاہیے، کتنی بور کرنے والی چیز ہے یہ۔‘‘
حارث نے ایک اور گہرا سانس لیا، صنوبر کے درختوں کی مہک اپنے اندر اتاری اور اپنے نتھنوں کے اندر موجود بالوں کو لرزتا ہوا محسوس کرتے ہوئے سانس باہر نکالا۔ شاید اسے اپنی ناک کے بال اُکھاڑ لینے چاہیے تھے، لیکن پھر، وہ ایسا کرتا ہی کیوں؟ شاید وہ بال گرد و غبار کو مصفّا کیا کرتے تھے اور اب انھوں نے خوش بوؤں کو بڑھا دیا تھا۔ سانپ اپنی زبانوں سے سونگھتے ہیں، تو کون کِہ سکتا ہے کہ ہم اپنے بالوں سے یہ کام نہیں کر سکتے؟
حسن نے اپنی اُبلتی ہوئی نیلی آنکھوں سے اُسے گھور کر دیکھا اور کہا، ’’اوہ، اب پتا چلا۔ میں خود بھی جنگ کا ایسا پر جوش حامی نہیں۔ میں تمھیں ایک راز کی بات بتاتاہوں۔ میں تو سمندر کے سفر پر نکل جاتا لیکن مجھے بھرتی کر لیا گیا۔‘‘
ژالہ باری تھم چکی تھی اور اس کی آخری گونجوں سے ایک گہری خاموشی کی خوش بُو آ رہی تھی اور اپنی بند آنکھوں سے حارث اس گم شدہ آواز کے بعد پیدا ہونے والی خوب صورتی سے مشامِ جاں کو سیراب کر رہا تھا۔
لیکن یہ خاموشی کم عمر تھی کیونکہ حسن باتیں کرتا چلا گیا۔ ’’تم اپنے بارے میں بتاؤ؟ کیا انھوں نے تمھیں زبردستی بھرتی کر لیا؟‘‘
’’میں جنگ مخالف تھا، اب بھی ہوں اور میں یوگوسلاویہ کی پیپلز آرمی میں بھرتی سے بچ نکلا تھا۔ لیکن سراجیوو میں وہ باغ جسے میں اپنے پسندیدہ کیفے سے دیکھا کرتا تھا، غائب ہو گیا۔ لوگوں نے اس کے درخت کاٹ لیے اور ان کی لکڑیوں کو اپنے گھروں پر برتنوں اور ہنگامی طور پر بنائے جانے والے چولہوں میں جھونک دیا اور اپنے کمرے گرم کر لیے۔ وہ باغ ایک گنجی چراگاہ بن گیا جہاں درختوں کے ٹھنٹھ اُن بریدہ بازوؤں کی طرح سر نکالے کھڑے رہتے جن کے ہاتھ قطع کر دیے گئے ہوں، جیسے وہ درخت چوری میں ملوث تھے۔ کس کی چوری؟ ہوا کی؟، اور پھر قرآن کے قانون کے تحت ان کے ہاتھ کاٹ دیے گئے۔ میں نے سوچا، یار تم ہمارے درخت بھی ہم سے لے لو گے، اور پھر میں رضاکارانہ طور پر بھرتی ہو گیا۔‘‘
سارجنٹ اپنے دھوئیں کے بادل سے لنگڑاتا ہوا باہر نکلا اور بولا، ’’تم دونوں کیا بُڑ بُڑ کر رہے ہو؟ ادھر آؤ، باقی لوگوں کے پاس۔‘‘
وہ اس کے پیچھے پیچھے چلے۔ ’’ہمارے اسکاؤٹ واپس آ گئے ہیں،‘‘ سیاہ و سفید داڑھی (گالوں پر سفید اور ٹھوڑی پر سیاہ) والے تیز طرّار کمانڈر نے کہا ۔ اس نے دو دُبلے پتلے آدمیوں کی طرف اشارہ کیا، جن کے پچکے ہوئے گالوں اور پیلے دانتوں کو ، جن میں سے کئی غائب تھے، دیکھ کر لگتا تھا کہ سگریٹ نوشی انھیں پھونک چکی ہے۔
’’انھیں بتاؤ جو مجھے بتا چکے ہو،‘‘ کمانڈر نے کہا۔
’’ابے مروا دیا،‘‘ ایک اسکاؤٹ نے حیران کن حد تک دھیمی آواز میں کہا، ’’ہم ان کی پوزیشنوں تک ہو کے آئے ہیں۔ آپ لوگ پہاڑی کے ارد گرد جا سکتے ہیں، کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ انھیں پتا ہی نہیں ہے کہ ہم یہاں ہیں۔‘‘
’’ان کے کیمپ کے باہر تو گارڈ بھی تعینات نہیں ہیں،‘‘ دوسرے اسکاؤٹ نے آنکھیں جھپکاتے ہوئے کہا، جبکہ اس کے چہرے پر ایک طرف کا گال پھڑک رہا تھا۔ ’’آپ انھیں یہاں سے دیکھ بھی سکتے ہیں۔‘‘ اس نے سپاہیوں کو پہاڑی کے کنارے تک بلایا اور انھیں اپنی دوربین دی تاکہ وہ نیچے ان آدمیوں کو دیکھ سکیں جو بہ قول اس کے تھوک لگا لگا کر بیلوں کی ایک جوڑی روسٹ کر رہے تھے اور جانوروں کے سینے کے شگافوں میں بھیڑیں رکھ کر پکا رہے تھے۔
شام کا دھندلکا پھیلا ہوا تھا اور نیچے وادی سے اٹھتی ہوئی دھند نے دور کے منظر کو اوجھل کر رکھا تھا۔
کمانڈر نے اپنا پلان ان کے سامنے رکھا۔ آدھا دستہ پہاڑی سے گھوم کر جائے گا، جبکہ باقی آدھا دستہ یہاں اس جانب سے بہ راہِ راست حملہ کرے گا، دو گھنٹے کے اندر اندر۔
خواہ ان سے پہلے جانے والے اسکاؤٹ کو کوئی مشکل نہ پیش آئی ہو، مگر حارث اور اس کے ساتھی اس خوف سے قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے تھے کہ ان کا پاؤں کسی بارودی سُرنگ پر نہ آ جائے۔ ایسی بارودی سُرنگ نہ صرف خود پر پیر دھرنے والے کو نقصان پہنچاتی بلکہ مسلمانوں کی پوزیشن بھی منکشف کر دیتی۔
وہ کیمپ کے بالائی کنارے تک پہنچ گئے۔ حارث نے اپنے سانس ہم وار رکھنے کی کوشش کی تاکہ وہ صنوبر کے درختوں اور روسٹ ہونے والے بھیڑ کے گوشت کی خوش بُو سے لطف اندوز ہو سکے جو اس دھند پر بہتی پھرتی تھی۔ لیکن اس کے سانسوں میں کوئی لطف محسوس نہیں ہوا اور نہ وہ ضبطِ نفس پر قادر ہو سکا۔ اس کا دل دھڑک دھڑک کر اس کے پھیپھڑوں میں گھُسا جا رہا تھا اور اس کے سانسوں میں رکاوٹ پیدا کر رہا تھا؛ اس کی دھڑکنیں بھی نا ہم وار تھیں اور بے چینی سے تیز ہونے کے سبب ایک ایسا عجیب ردھم سنا رہی تھیں جو اس نے ایک طویل عرصے سے تجربہ نہیں کیا تھا۔ اور یہ ردھم تھا خالص خوف کا۔ دھند کے باعث پیش قدمی، صاف فضا کی بہ نسبت محفوظ تر تو تھی لیکن اس کے باعث انھیں کچھ نظر آ رہا تھا، نہ وہ کچھ جان پا رہے تھے۔ کوئی گیان دھیان اور کوئی منتر اس کے دل کی رفتار کم کرنے میں کام یاب نہیں ہو پا رہا تھا۔
اچانک گولیاں اس کے اطراف کیچڑ میں چھپاکے مارنے لگیں ،جنھوں نے اسے ششدر کر دیا۔ اس کے برابر میں موجود بندوقوں نے دھند کے اندر جوابی فائر کیے ،جہاں سے گولیوں کی گونج سنائی دی۔
’’آگے بڑھو، بوسنیا اور اللہ کے لیے!‘‘ کمانڈر چلّایا۔
حارث نے آوازوں کے اندر گولی چلائی اور زمین پر لیٹ گیا اور پھر رینگتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ کیچڑ اس کی کہنیوں اور گھٹنوں کو ٹھنڈا یخ کرنے لگی، جس کی اسے پرواہ نہیں تھی، نہ ہی اسے ان نوکیلے پتھروں کی پرواہ تھی جو اسے چبھ رہے تھے کیونکہ اس کا خوف اس کے لیے بے حس کر دینے والی دوا کا کام کر رہا تھا۔
وہ مسلسل گولیاں چلاتے اور آگ سے قریب سے قریب تر ہوتے گئے۔ اچانک ان پر مرد پِل پڑے اور وہ ایک دوسرے کو رائفل کے بٹوں، سنگینوں اور چاقوؤں سے ضربیں لگانے لگے اور قریب سے ایک دوسرے پر گولیاں چلانے اور ایک دوسرے کا گلا گھونٹ دینے کے لیے دُو بہ دُو ہونے لگے۔
چیخ پکار، گالیاں، دعائیں اور ماؤں اور باپوں کے نام گولیوں، خون اور پیشاب کے ساتھ گتھم گتھا ہو گئے۔ سپاہیوں کی دو کمپنیاں ایک دوسری پر پل پڑی تھیں اور ایسا لگتا تھا جیسے قرونِ وسطیٰ کی ،بلکہ قدیم زمانے کی کوئی لڑائی لڑی جا رہی ہو۔ تاہم صلیبیوں نے، بلکہ قدیم یونانیوں اور اہلِ فارس نے بھی ،ایسی لڑائیوں میں سِپَریں اور زرہ بکتریں استعمال کی تھیں۔ اور یہاں سنگینیں اور چاقو اور لوہا بہ راہِ راست ان کی کھوپڑیوں، گوشت پوست اور ہڈّیوں کو نشانہ بنا رہے تھے اور کھوپڑیاں تڑخ رہی تھیں، گوشت کھُل رہا تھا اور ہڈّیوں سے گُودا باہر نکل رہا تھا۔
حارث نے پاس سے دوڑتے ہوئے ایک سائے کو اپنی سنگین سے ضرب لگائی اور پھر وہی سنگین اس کے جسم میں کھبونے کی جدّوجُہد کرنے لگا۔ وہ شخص پیٹھ کے بل گرا اور اُس پر چلّایا، ’’تیری ماں کو ۔۔۔!‘‘ حارث اندھیرے میں اس شخص کے نقوش کا اندازہ نہیں لگا پا رہا تھا لیکن وہ اُسے چھوڑ نہیں سکتا تھا؛ وہ بڑا سا عکس زمین پر تڑپ رہا تھا اور اس نے لاتیں مار مار کر حارث کی ٹھوڑی توڑ ہی ڈالی تھی۔ اگر حارث اسے اپنی سنگین سے دبائے نہ رکھتا تو وہ کسی بھی وقت زمین سے اُٹھ کر خود اسے نیچے گرا سکتا تھا۔ اس لیے اگرچہ اسے یقین نہیں تھا کہ اس نے سنگین کی نوک اس شخص کے جسم پر صحیح مقام پر کھبو رکھی ہے یا نہیںیا پھر یہ کہ سنگین کے نیچے اس شخص کا جسم ہے بھی یا نہیں، حارث اندھیرے میں اپنی سنگین پر جھُکا رہا۔ اس نے زور لگایا لیکن سنگین اس شخص کے اندر داخل نہیں ہو رہی تھی اس لیے اس نے اپنے پورے جسم کا بوجھ رائفل کے بٹ پر ڈال دیا اور پھر بالآخر اسے اس شخص کے جسم کی مزاحمت ٹوٹتی محسوس ہوئی اور سنگین اس گرے ہوئے آدمی کی پسلیوں میں ڈوب گئی۔ تیز دھار کا یہ ڈوبنا ایک لمحے کے لیے اسے فاتحانہ سا لگا تھا لیکن پھر اسے کراہت محسوس ہونے لگی۔ اس نے اپنی سنگین عجیب و غریب آوازیں نکالنے والے اُس جسم میں ڈوبی ہی چھوڑ دی جہاں سے ایک اور گالی نمودار ہوئی، ’’تیری سربیا والی ماں کو !‘‘ اور پھر اس شخص کے حلق میں لہو کی گڑگڑاہٹ سنائی دی اور وہ اس کے آخری الفاظ ثابت ہوئے جن کے ساتھ وہ اپنی سانس باہر نہ نکال سکا بلکہ اس کا دم گھُٹ کر رہ گیا۔
مر چکے ہوئے آدمی کے حلق میں گڑگڑاہٹ اب بھی ہو رہی تھی۔ کیا حارث نے کسی اپنے ہی آدمی کو مار ڈالا تھا؟ کیا کوئی سرب اس طرح کی گالی دے سکتا تھا؟ ہاں، دے سکتا تھا۔ لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ کسی مسلمان کی جانب سے، یہ سوچتے ہوئے کہ حارث کوئی سرب تھا، ایسی گالی دینے کا امکان زیادہ تھا؟ اور اگر مرنے والا مسلمان ہونے کے بجائے کوئی سرب ہوتا تو کیا یہ سارا عمل اس صورت میں کم ہول ناک ہوتا ؟
اسی لمحے اس کے سر پر ایک پتھر آ کر لگا، اور اُترائی پر ہونے والی لڑائی کا حصار کرتا ہوا دھندلکا چھٹ گیا اور اس کی جگہ اُس کے سر میں پھیلتی ہوئی حرارت نے لے لی۔ جب اس کے اوسان بہ حال ہوئے تو اس نے سفید بادلوں کو خود پر سے بس درجن بھر گزوں کے فاصلے پر تیرتے ہوئے پایا۔ حارث کھڑا ہوا؛ وہ اپنا توازن بہ مشکل برقرار رکھ پا رہا تھا۔ ہر قدم جو وہ اُٹھاتا تھا، اس کے سر کو تکلیف پہنچاتا تھا اور اس کا دماغ لرز لرز اٹھتا تھا۔
وہ ایک ایسی لاش سے ٹکرایا جس کی کھوپڑی تڑخی ہوئی تھی اور اس میں سے باہر لٹکتا ہوا بھیجا اب بھی دھڑک رہا تھا اور مٹی پر پڑے صنوبر کے کانٹے اس میں پیوست ہو رہے تھے۔ اُسے اپنے دماغ میں اسی طرح سوئیاں سی چبھتی ہوئی محسوس ہوئیں؛ اس نے اپنی کھوپڑی کے دائیں حصے کو ہاتھ لگایا، اور اس کی انگلیوں کی پوریں رال جیسی گیلاہٹ میں پھسل کر رہ گئیں۔
وہ رینگتا ہوا ایک چٹان کے کنارے تک گیا اور اس نے آگے دیکھا: اُس کے آگے ترائی کی سمت مویشیوں کی ہڈّیاں اور ایک تباہ شدہ ٹینک بکھرے ہوئے پڑے تھے۔ وہ رینگتا ہوا کیمپ میں داخل ہو گیا اور اسے اپنے مزید ساتھیوں کی لاشیں ملیں جن کا تعلق دونوں دستوں سے تھا۔ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دونوں دستوں نے سربوں پر نہیں، بلکہ ایک دوسرے پر حملہ کر دیا تھا۔ اس کے زندہ ساتھی کہاں تھے؟ کیا ایسا تو نہیں تھا کہ صرف وہی زندہ بچا تھا؟
یہ خیال اُسے خوف زدہ کر گیا، لیکن اس نے اسے متاثر بھی کیا۔ اگر اس پہاڑی پر صرف باز، بھیڑیے، سُوّر اور لومڑ ہی بچے ہیں، اور وہ وہاں موجود واحد انسان ہے، تو وہ اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے، صاف شفّاف چشموں سے پانی پینے، کبھی بھی بات نہ کرنے، جھوٹ نہ بولنے اور ایک یا دوسری قسم کی دوستانہ فائرنگ نہ کرنے کے لیے آزاد ہوگا؛ پھر وہ بلا شبہ روحانی بن سکے گا۔ اسے اپنا ایک پسندیدہ سوتر یاد آیا، جو اس نے سراجیوو میں ،گرائے جانے والے باغ کے قریب ، بس اپنا وقت گزارنے کی کوشش میں یاد کیا تھا:
’’ہر شے کے خلاف تشدّد ترک کر دینے کے بعد، جب تم کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچاتے تو پھر بچوں کی خواہش بھی ترک کر ڈالو۔ کیا ضرورت ہے تمھیں کسی دوست کی؟ گھومتے پھرو اکیلے ،کسی گینڈے کی طرح۔‘‘
اُسے ہمیشہ سے تنہائی سے پیار تھا، اس لیے بھرے پُرے شہر کے درمیان بھی اس نے کسی سے مضبوط تعلق اُستوار نہیں کیا تھا، کم از کم لوگوں سے تو بالکل نہیں۔ ہاں ریستورانوں سے ضرور۔ جو لڑکیاں اُس کی دوست بنیں وہ بالآخر یہ احساس کر کے اُسے چھوڑ گئیں کہ وہ مردوں کی اُس قسم سے تعلق نہیں رکھتا جو شادی کر لیتی تھی۔ اس لیے اب کئی برسوں سے وہ کسی بھی عورت کے ساتھ نہیں رہ رہا تھا، اگرچہ کبھی کبھار جنسی خواہش اس میں زور مارتی تھی۔ لیکن یہاں، اِس پہاڑی کے اُوپر، اُسے خواہش بھی تنگ نہیں کر سکتی تھی۔ اگر وہ مطلق اکیلا ہوتا تو وہ بدھ مت کا ایک اچھا پجاری بن سکتا تھا؛ وہ گیان دھیان اچھا کر سکتا تھا۔
لیکن وہ اس پہاڑی پر اکیلا ہوگا کہاں۔ وہ تو یہاں سو کے قریب لاشوں کی ہم راہی میں ہوگا جن کے بھوت اس کا بھرپور جائزہ لیں گے اور خوابوں میں اسے تنگ کیا کریں گے۔ اس نے ایک شخص کو ظالمانہ طریقے سے قتل کر ڈالا تھا اور نروان تو دور کی بات، اس کے کرم اُسے اُس کے درد سے بھی نجات نہیں دلا سکیں گے۔ اس کے چہرے کا ایک حصّہ سُن ہو گیا اور ایک کان بجنے لگا۔ بلا شبہ اسے سر پر زور دار چوٹ لگی تھی لیکن اگر اس کے بھیجے کو ڈھانپنے والی دبیز جھلی پھٹ چکی تھی تو کیا اُس کے دماغ کی کچھ شریانیں بھی کٹ گئی تھیں؟ اور اگر ایسا ہوا تھا تو شاید اسے اسپتال جانا چاہیے تھا، لیکن ایسی صورتِ حال میں اُس پر اعتبار کون کرے گا؟ جہاں لوگ مر رہے ہوں وہاں سر پر شدید چوٹ کو بہت ہی کم ترجیح دی جائے گی اور اسپتال تھے بھی تو اتنے بے کار۔۔۔۔ نہیں، بہتر یہی ہے کہ آدمی اکیلا، سب سے چھپ کر جنگلی بلّی کی طرح مر جائے۔ گھروں کے باہر گھومنے والی عام بلّیاں بھی عموماً نظروں سے اوجھل ہو کر مرنے کا بندوبست کر لیتی ہیں، تاکہ وہ کسی کو تنگ نہ کریں اور کوئی انھیں بھی تنگ نہ کرے، جیسے کہ انھیں کوئی روشنی حاصل ہو گئی ہو، تو پھر وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟
وہ کیمپ میں، سی ڈی پلیئروں، ٹی وی سیٹوں، بیئر کی خالی بوتلوں، جوتوں کے کاٹھ کباڑ میں لنگڑاتا ہوا داخل ہوا۔ اسے ایک واکی ٹاکی ملی۔ جب اس نے اس کا بٹن دبا کر آن کیا تو کڑکنے جیسی ایک آواز پیدا ہوئی؛ بیٹریاں اچھی حالت میں تھیں۔ اس نے واکی ٹاکی اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی۔
بیئر کی خالی بوتلوں کے کریٹ میں اسے ایک بھری ہوئی بوتل ملی۔ اُس نے اُس کا ڈھکنا کھولنے کی کوشش میں اُسے دو پتھریلی چٹانوں کے کونوں سے دبایا۔ بوتل ٹوٹ گئی۔ اس نے بیئر اپنے ایلمونیم کے کپ میں ڈال لی۔ شاید وہ شراب کے ساتھ کچھ شیشے بھی نگل جانے والا تھا۔
کیمپ کے اوپر چٹانی کنارے پر درجن بھر بھورے کوّے بڑے ندیدے پن کے ساتھ ایک شخص کی آنتوں کو کھُدیڑ رہے تھے۔ اُن کے پیچھے اُس کی یونٹ کے بہت سے لوگ نظر آئے جن کی پیٹھیں صبح کے نارنجی سورج سے چمک رہی تھیں۔ وہ لاش کے گرد چلتے رہے اور کوّے انھیں نظر انداز کرتے ہوئے دعوت اڑانے میں مصروف رہے۔
’’تمھیں دیکھ کر کتنا سکون ملا ہے مجھے،‘‘ حارث نے کہا۔
’’میں نے سوچا تم مر چکے ہو،‘‘ حسن نے کہا، جس کی ایک آنکھ سیاہ ہو چکی تھی۔
’’تم یہاں کر کیا رہے ہو؟‘‘ ایک اور سپاہی مرزو نے کہا، جس کی گردن پر پٹّی بندھی ہوئی تھی۔ ’’تم اکیلے کیوں نظر آ رہے ہو؟‘‘
’’مجھے بھی اس پر حیرانی ہے۔‘‘
وہ کھڑا ہوا اور جیسے ہی اس نے اپنا جسم سیدھا کیا اسے اپنی پسلیوں کے نچلے حصّے میں درد کی ایک تیز لہر اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کیا میں نے رائفل کے بٹ پر کُودتے وقت انھیں توڑ تو نہیں ڈالا؟
’’بڑی حیرت کی بات ہے کہ یہاں کوئی سرب ہے ہی نہیں،‘‘ حارث نے کہا۔
’’ہاں، بڑی حیرت کی بات ہے،‘‘ کمانڈر نے زیادہ واضح انداز میں کہا۔
حسن نے کچھ بچے کھچے قطروں کی خاطر ہر خالی بوتل کو اُلٹا کر دیکھا اور بوتل چُوسنے کی آوازیں نکالیں۔
’’بس کرو، گندے ندیدے،‘‘ سارجنٹ نے کہا۔ ’’تمھیں ان میں موجود جراثیموں کا کوئی ڈر نہیں ہے؟ ذرا خیال کرو کے کتنے سربوں کے منھ ان بوتلوں سے لگے رہے ہوں گے؛ یہ تو ایسا ہے جیسے تم اُنھیں چوم رہے ہو۔‘‘
’’بوتل کو تو میں کسی بھی وقت چوم لوں گا،‘‘ حسن نے جواب دیا۔ ’’اور رہے جراثیم، تو مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے پہلے ہی لگ چکے ہیں؛ ان کے پاس مجھے دینے کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ اور اگر تمھارا تھوک بیئر سے بنا ہوا ہو تو میں تمھیں بھی چومنے کے لیے تیار ہوں، کیا مسئلہ ہے تمھیں۔‘‘
’’زبان سنبھال کر بات کرو!‘‘ سارجنٹ نے کہا اور پھر حارث سے مخاطب ہوا، ’’تمھاری تھیوری کیا ہے حارث؟‘‘
’’اُنھیں دیکھو، وہ اب تک کھا رہے ہیں۔‘‘ حارث نے دو کوّوں کی جانب اشارہ کیا جو بڑی آنت کے ایک حصے سے کھینچا تانی کر رہے تھے۔ آنتیں اپنے اندر آر پار ہوتی ہوئی سورج کی روشنی کے باعث چمک کر قرمزی ہو گئی تھیں۔
لیکن صرف وہی تھا جو انھیں دیکھ رہا تھا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے گھیر لیا اور اسے گھورنے لگے۔
’’تم میرے سوال کا جواب نہیں دے رہے، سپاہی،‘‘ کمانڈر نے کہا۔ ’’کسی نہ کسی نے تو انھیں بتا دیا ہوگا کہ ہم کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
’’شاید اسکاؤٹوں نے بتایا ہو؟‘‘ حسن نے کہا۔ ’’وہ وہاں ہم سب سے پہلے پہنچے تھے اور ہو سکتا ہے کہ انھوں نے اُنھیں بتا دیا ہو۔‘‘
’’اسکاؤٹ مر چکے ہیں،‘‘ کمانڈر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔
’’اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ انھوں نے سربوں سے مخبری نہیں کی۔‘‘
’’اگر انھوں نے کی ہوتی تو انھیں ہمارے ساتھ ساتھ آنے اور مر جانے سے بہتر کوئی طریقہ معلوم ہوتا۔۔۔‘‘
’’کون پیش گوئی کر سکتا تھا کہ ہم خود اپنے ہی لوگوں کو ماریں گے؟‘‘ حسن نے کہا۔
حارث نہیں جانتا تھا کہ اپنے ہاتھوں کے ساتھ کیا کرے، اور وہ اپنی کلائی پر ایک پتھر چبھنے سے لگنے والی خراش پر خارش کرنے لگا۔ پھر اس نے اپنے ہاتھ اپنی جیبوں میں ڈال لیے۔
کمانڈر نے حارث کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ ’’تمھاری جیبیں اتنی بھری ہوئی کیسے ہیں؟ خالی کرو اپنی جیبیں!‘‘
کیا مجھے یہ سب برداشت کرنا چاہیے، حارث نے سوچا۔ میرا خیال ہے ملٹری سسٹم اسی طرح کام کرتا ہے: مزاحمت پر نہیں، تابع داری پر، جیسے کہ تاؤ مت میں ہوتا ہے۔ اس نے اپنی جیبیں خالی کر دیں۔ واکی ٹاکی گھاس پر گر گئی۔
’’تمھیں بات کرنے کی ضرورت کس سے آ پڑی؟‘‘ کمانڈر نے پوچھا۔
’’مجھے کوئی ضرورت نہیں پڑی۔‘‘
سارجنٹ نے اپنے پیلے پیلے دانتوں میں سے سبز رنگ کا تھوک باہر پھینکا۔ ’’میں نے اسے خود سے باتیں کرتے ہوئے سنا تھا؛ یہ ہماری مخبری کر رہا تھا۔ یہ جنگل میں جا کر چھپ گیا تھا!‘‘
’’یہ نتیجہ مت نکالو۔ مجھے واکی ٹاکی یہاں ملی، اُن کے کیمپ کی زمین پر اور فطری طور پر میں نے اسے اُٹھا لیا۔ کیوں تم نہ اُٹھا لیتے؟‘‘
’’اور تم درختوں کے نیچے باتیں کس سے کر رہے تھے؟‘‘ سارجنٹ نے پوچھا۔
’’ارے وہ تو یوگا کے منتر تھے۔‘‘
’’میٹریس؟‘‘ کمانڈر نے اپنی لمبی انگلیوں سے اپنی داڑھی میں خلال کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمھارا مطلب ہے کہ تم درختوں کے نیچے سو رہے تھے؟‘‘
’’نہیں، منتر، وہ جو ہندوؤں اور بدھ مت کے ماننے والوں کی مناجات ہوتی ہیں، چھوٹی چھوٹی دعائیں۔‘‘
ایک فینٹم جیٹ طیارہ ان کے سروں کے اوپر سے گزرا اور کچھ دیر کے لیے انھیں کچھ سنائی نہ دیا۔
’’حرامی امیرو، پھینکو اپنے بم یا پھر دفع ہو جاؤ! ‘‘ حسن نے چلّا کر کہا۔
’’ذرا دیکھیں تو سہی کہ اس کا رابطہ ہے کس سے۔‘‘ کمانڈر نے واکی ٹاکی کا بٹن آن کیا، اور کہا، ’’ہے مَین، کہاں ہو تم، اوور۔‘‘
’’تمھاری آواز عجیب سی آ رہی ہے۔ پی تو نہیں رکھی تم نے؟ اوور‘‘
کاش ایسا ہی ہوتا۔ تم بتاؤ؟ ہے کوئی بیئر ویئر؟‘‘
’’نہیں، بس بہت سی گشتیاں ہیں، آلو بخارے کی برانڈی ہے اور سفید وائن۔‘‘
’’او کے، چلو ادلی بدلی کرتے ہیں، میرے پاس یو این کی بھیجی ہوئی شرابوں میں سے بہت سی وہسکی کی بوتلیں ہیں۔ بوزو بُوز۔ ابھی کہاں ہو تم؟‘‘
’’تمھارا کیا خیال ہے؟ اوور۔‘‘
’’ہاں ہاں پتا ہے۔ چلو میں کل آتا ہوں۔‘‘
کمانڈر نے واکی ٹاکی کا بٹن آف کر دیا۔
’’اچھا تو یہ ہے تمھارا پارٹنر؟ تم نے پہلے سے اُسے آگاہ کر دیا تھا اور اَب وہ نیچے پہنچ چکے ہیں، وادی میں ہر طرف، اور شاید ہمارا شکار کرنے کے لیے کُمک بھی منگوا لی ہو انھوں نے۔ میرا خیال ہے اب ہمیں یہاں سے نکل لینا چاہیے۔‘‘
’’لیکن کیسے جا سکتے ہیں ہم؟ یہ تو جنگی حکمتِ عملی کے لحاظ سے بڑی اچھی جگہ ہے،‘‘ سارجنٹ نے کہا۔
وہ زیادہ دور تک نہیں گئے، کیمپ سے بس دو سو گز دور پہنچے، جہاں ان کے ساتھیوں میں سے زیادہ تر کی لاشیں پڑی تھیں۔
دو سپاہیوں نے حارث کو ایک درخت سے باندھ دیا اور کمانڈر نے کہا: ’’مجھ پر ثابت کرو کہ تم نے ہمارے ساتھ غدّاری نہیں کی۔ کچھ سوچو، کوئی اچھی سی کہانی بناؤ۔ تمھارے پاس ایک گھنٹا ہے۔ اگر تمھاری کہانی اچھی نہ ہوئی، تو ہم تمھیں ان تمام مردوں کے ساتھ زندہ گاڑ دیں گے جن کی موت تمھاری وجہ سے ہوئی۔‘‘
کم از کم آدھی کمپنی زندہ بچ گئی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ درختوں کے جھنڈ اور چٹانوں کے عقب سے نمو دار ہوئے اور انھوں نے گڑھے کھودنے میں مدد دینا شروع کر دی اور کچھ ایک دوسرے کی مرہم پٹّی کرنے لگے، اور کچھ ایک ایسے شخص کی دیکھ بھال کرنے لگے جو چاقو کے بہت سے زخموں سے مرنے کو تھا، جبکہ بہت سے پہرا دینے کے لیے کھڑے ہو گئے۔
انھوں نے سرب خندقوں سے اٹھائے ہوئے بیلچے استعمال کیے اور صنوبر کے درختوں کے قریب پتھریلی زمین میں کھدائی کے لیے جدوجہد کرنے لگے۔ اتنی زیادہ دھاتوں کے چٹانوں سے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی گرد کے دھوئیں جیسے بو حارث کو محسوس ہوئی جو بڑھنے لگی۔ انھوں نے لاشوں کی کلائی کی گھڑیاں اور بٹوے اکٹھے کیے جن میں انھوں نے جرمن مارک ٹٹولے؛ انھوں نے تمباکو اور سگریٹ جمع کیے۔ انھوں نے ہر گڑھے میں چار لاشوں کو ڈالا۔ بہت سے لوگ حارث کو عجیب عجیب نظروں سے دیکھتے رہے اور بعد میں انھوں نے اس پر مٹی کے ڈھیلے بھی پھینکے۔ ایک ڈھیلا حارث کو پسلیوں پر لگا۔ حارث کے پاس سے مرزو گزرا تو اُس کے منھ پر تھوک پھینک گیا۔ سارجنٹ نے حارث کو تھپڑ مارا جو اس کی کنپٹی کے اوپر لگا، جہاں اُسے اس سے پہلے ایک پتھر لگ چکا تھا۔ حارث کی نگاہوں کے سامنے سبز روشنی کی لہریں سی گھوم گئیں، جیسے شمال سے آنے والی روشنی پتوں سے چھن کر آتی ہے، اور اس کی نظر دھندلا گئی۔ وہ اپنا سر اُٹھائے نہ رکھ سکا اور اس نے اسے ڈھے جانے دیا اور اپنی ٹھوڑی اپنے سینے سے لگا دی۔ رسی اس کی کلائیوں میں گھسی جا رہی تھی۔
اس دوران باقی لوگ دعا کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے رہے۔ بہت سے آدمی واویلا کر رہے تھے، کچھ خاموشی سے رو رہے تھے، کچھ اپنے ابروؤں پر گھُوری ڈالے چل رہے تھے اور ایک شخص، جس کا بہ ظاہر دماغ چل گیا تھا، وقتاً فوقتاً قہقہہ لگاتا تھا، حتّیٰ کہ حسن نے گھونسا مار کر اس کی ناک لہو لہان کر دی۔ اس کے بعد وہ شخص ہچکیاں لینے اور ناک سے شوں شوں کرنے لگا۔
تدفین کا عمل بڑی متانت اور وقار کے ساتھ جاری رہا۔
یہ حقیقت کہ کمپنی کے آدھے سپاہی دفن کیے جا رہے تھے، ایک سانحہ تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ موقع ایک قسم کی فتح کا بھی تھا۔ پہاڑی کے کنارے اور دریائی وادی کی سڑکوں کا کنٹرول کمپنی کے پاس آ چکا تھا۔ یہ خدشہ تو پہلے ہی سے تھا کہ انھیں کچھ نہ کچھ نقصان اٹھانا پڑے گا، اور یہ حقیقت کہ یہ نقصان دوستانہ فائرنگ سے پہنچ گیا تھا اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتی تھی کہ اب پہاڑی کا کنٹرول انھی کے پاس تھا اور اب وہ اس پہاڑی سے نیچے زمین اور بہت سی سڑکوں پر گولیاں چلا سکتے تھے۔
حارث کے ہاتھ جو اس کے سر کے اوپر شاخوں سے بندھے ہوئے تھے، دورانِ خون کم ہو جانے سے سُن سے ہونے لگے۔ اُس کی اُونی پتلون اسے خارش کرنے لگی اور اس کی ناف کے نیچے بہنے والا پسینہ اسے تنگ کرنے لگا۔ وہ جتنا جتنا اس سب کے بارے میں کچھ کرنے کے سلسلے میں بے بس محسوس کرنے لگا، خارش اتنا ہی بڑھنے لگی اور اس نے سوچا کہ اگر وہ اس منحوس خارش کو ٹھیک طریقے سے کھجانے میں کام یاب ہو سکے تو اس کے لیے وہ اپنی ایک دو انگلیاں کٹوانے کے لیے بھی تیار ہے۔ یہ سب گیان دھیان سے کس قدر مختلف ہے، اس نے سوچا؛ اگر اس نے زیادہ بہتر گیان دھیان لگایا ہوتا تو وہ اپنی حالت پر زیادہ بہتر طریقے سے قابو پا سکتا تھا۔ وہ جنگ کے میدان میں ایسے چل سکتا تھا کہ کوئی اسے دیکھ نہ پاتا، اس کا جسم غائب ہو جاتا اور اگر اسے گرا بھی دیا جاتا تو اس میں اتنی عقل ضرور ہوتی کہ سر پر گہری چوٹ کے ساتھ زندگی کی طرف واپس آنے اور مر کے جی اٹھنے اور مصلوب ہو جانے کے دہرے عذاب کے بہ جائے مر جاتا۔ اس نے اپنے اس احساسِ گناہ کو یاد آ جانے والے اس شعر کے ساتھ تقویت دی، ’’ہم جو کچھ بھی ہیں نتیجہ ہیں اس سب کا جو ہم نے سوچا: ہماری بنیاد ہماری سوچوں پر ہے، اور ہم اپنی سوچوں سے بنے ہیں۔ اگر کوئی شخص بُرے خیال سے بولتا یا عمل کرتا ہے تو درد اس کا پیچھا کرتا ہوا چلا آتا ہے، جیسے کوئی پہیا، چھکڑے کو کھینچنے والے بیل کے قدموں کے پیچھے چلا آتا ہے۔‘‘ اُسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ اُسے بُرا خیال کون سا آیا تھا۔ لیکن یہ یقین تھا کہ آیا ضرور تھا۔ اس نے دوبارہ اُس شعر کے بارے میں سوچا اور بیل کے قدموں کے پیچھے چلا آنے والا پہیا مسلسل گھومتا اور بیل کے قریب آتا رہا۔ بھلا بتائیے، بیلوں کی جوڑی نے کیا بُرا سوچا ہوگا کہ وہ تھوک پر بھون ڈالی گئی؟ اس نے اپنے تڑخے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اس کے خشک پڑے ہوئے حلق میں خراشیں محسوس ہوئیں۔
خوف ناک کمانڈر چلتا ہوا اُس تک آیا۔ ’’اوئے، تم آرتھوڈوکس ہو، کیتھولک ہو یا مسلمان؟‘‘
’’میں بدھ مت کا پیروکار ہوں۔‘‘
’’یہ اچھا تھا۔‘‘ کمانڈر یوں مسکرایا جیسے بہت سے لوگ کوئی ایسا لطیفہ سن کر مسکراتے ہیں جو اچھا تو ہو لیکن اتنا مزاحیہ نہ ہو۔
’’تمھیں بچپن میں کس مذہب کی تعلیم دی گئی؟‘‘
’’ظاہر ہے الحاد کی۔ کیوں آپ کو نہیں دی گئی تھی یہ تعلیم؟‘‘
’’تمھارے والدین کا مذہب کیا تھا؟‘‘
’’ وہ مسلمان تھے۔ لیکن وہ مسجد کبھی بھی نہیں گئے۔‘‘
’’تو پھر تم مسلمان ہوئے نا۔‘‘
’’نہیں۔ بدھ مت کا پیروکار ہوں، جیسا کہ میں نے بتایا۔‘‘
’’تو تم کیا آگ نگلتے ہو، یا کیلوں پر چلتے ہو، یا اپنے پیر اپنی گردن کے پیچھے باندھ لیتے ہو، یا وہ سب کر لیتے ہو جو وہ کرتے ہیں؟‘‘
’’میں ان کی بات کسی مذہب کے حوالے سے نہیں کر رہا۔ ایک قوم کی حیثیت سے کر رہا ہوں۔‘‘
’’ارے چھوڑو یار۔‘‘
’’کیا مجھے پانی کا ایک گلاس مل سکتا ہے؟ میں پیاس سے مرا جا رہا ہوں۔‘‘
’’تو تم نے کیا بتایا، بدھ قوم کے رکن ہو تم؟‘‘
’’آپ دنیا میں کہیں بھی مسلمان ہو سکتے ہیں، مسیحی ہو سکتے ہیں، تو پھر بدھ مت کے پیروکار کیوں نہیں ہو سکتے؟‘‘
’’تم اپنے ہی ملک میں مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا مذاق اُڑا رہے ہو؟ اچھا، تو تمھارے اندر ایک سرب چھپا ہوا ہے۔ یہی تو وہ چیز ہے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’کیا میرے پاس مذہب اور قوم کا انتخاب کرنے کا حق نہیں ہے؟‘‘
’’کسی کو نہیں ہے۔ یہ مقدّر ہے۔ اور تم اتنی عجیب چیز ہو بھی کیسے سکتے ہو؟‘‘
’’ایسا نہیں ہے کہ مجھے بدھ مت کا پیروکار بننا پسند ہے، لیکن اپنے ابتدائی برسوں میں مَیں نے ان کی بے وقوفانہ باتیں پڑھیں اور اب میں اسی طرح سوچتا ہوں اور اب ایسا ہی ہوں۔‘‘
’’اچھا، تو اگر تمھیں یہ پسند نہیں ہے تو مذہب تبدیل کر دو، ایک اچھے مسلمان بن جاؤ۔‘‘
’نہیں بن سکتا۔ آپ نے کہا تو ہے کہ آدمی تبدیل نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’لیکن تم تو ہوئے نا تبدیل۔ بس اب یہ اداکاری چھوڑو۔ مجھے تمھاری کہانی زیادہ اچھی نہیں لگی۔‘‘
’’مجھے تبدیل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن میں تو اپنی ابتدائی عمر میں ہی مسلمان بن گیا تھا، اپنی عمر کی دوسری دہائی کے آخری برسوں میں، اور تیسری دہائی کے ابتدائی برسوں میں، جو کہ ہماری زندگیوں کے سب سے زیادہ فلسفیانہ برس ہوتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے کہ سن ساٹھ کی دہائی میں سراجیوو میں جڑی بوٹیوں سے علاج، گیان دھیان، بدھ مت، ہندو مت، ماورائے جسم تجربات اور ایسی ہی دوسری چیزوں سے متعلق کتابیں ہر طرف نظر آتی تھیں۔ یہ سارا مواد بلغراد سے آیا تھا۔ انھوں نے ہماری توجّہ بٹانے کا منصوبہ پہلے سے ہی بنا رکھا تھا، تاکہ ہم خوابوں، خیالوں میں کھوئے رہیں اور ریستورانوں میں رات سے سحر تک گپّیں ہانکتے رہیں، جب کہ اس دوران وہ خود ملٹری اکیڈمیوں میں جاتے رہے، انھوں نے انجینئرنگ پڑھی یا اٹلی سے چیزیں اسمگل کیں یا مافیا میں شامل ہو گئے۔ آپ کا کیا خیال ہے بلغراد میں وہ بھی یہی سب کچھ پڑھ رہے تھے؟ بالکل نہیں۔‘‘
’’تم پاگل ہو!‘‘
’’آپ مجھے پاگل کہتے ہیں۔ کیا یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے آپ کے پاس کوئی اس سے اچھی وضاحت ہے؟‘‘
’’ہاں، بات میں وزن تو ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی بے معنی چیز کے معنی بھی ہوں۔ اس کے علاوہ تم نے مجھے یہ جو سرب سازشوں سے متعلق تھیوری دی ہے، اس سے میں اس بات کا قائل نہیں ہو سکوں گا کہ تم سربوں کے لیے کام نہیں کر رہے۔‘‘
سارجنٹ نے ایک سگریٹ جلایا اور ایک مرتبہ پھر اپنا ذاتی بادل تیار کرنے لگا، لیکن کمانڈر نے کہا، ’’نو اسموکنگ۔‘‘
’’سگریٹ پینے میں کیا برائی ہے اب؟ قرآن نے تو اس کے خلاف کچھ نہیں کہا۔‘‘
’’درخت میں آگ لگ سکتی ہے اس سے۔‘‘
’’اس موسم میں؟ ویسے اگر لگ بھی گئی تو اِس شیطان سے نمٹنے کا یہ اچھا طریقہ ہوگا۔‘‘
’’کسی بھی موسم میں۔ ذرا اس تنے سے اُبلتی ہوئی رال کو دیکھو۔ پٹرول کی طرح دہک رہی ہے۔ اور یہ بھی بتا دوں کہ اپنے افسر کے آگے مت بولو۔‘‘
سارجنٹ نے منھ سے دھوئیں کی ایک نیلی سی لہر نکالی اور اپنا سگریٹ اپنے بوٹ کے نیچے کچل دیا۔
’’ہاں، تو خوب تھا یہ، لیکن تمھارا وقت اب ختم ہو گیا۔‘‘ کمانڈر نے اپنی داڑھی کی سفید طرفیں سہلائیں۔ ’’تم ہمیں قائل کر سکتے تھے کہ تم نے ہم سے غدّاری نہیں کی۔ ٹھیک ہے، اب پانچ، چھ جملوں میں اس کی کوشش کر کے دیکھ لو۔‘‘
’’میں آپ لوگوں کو کسی بھی بات پر قائل کرنے کی کوشش کیوں کروں؟ اگر آپ لوگوں کو یقین آ ہی گیا ہے تو جائیے، یقین کرتے پھریے۔‘‘
’’شرم آنی چاہیے۔ اب جب کہ تم نے اپنے عجیب و غریب مذہب کے بارے میں بتا دیا ہے، مجھے پتا چل گیا ہے کہ تم ہر قسم کے کام کر سکتے ہو جن کا پہلے سے اندازہ نہ لگایا جا سکے؛ اس لیے مجھے یقین ہے کہ تم نے ہم سے غدّاری کی ہے۔ سارجنٹ، کیا خیال ہے تمھارا؟‘‘
’’میں آپ سے متّفق ہوں۔‘‘
کمانڈر پھر حسن سے مخاطب ہوا، جو اپنے بازو سینے پر باندھے کھڑا تھا۔ اس کی سیاہ آنکھ پہلے سے زیادہ سوج گئی تھی اور اب بند ہو چکی تھی۔
’’سپاہی تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’مجھ کچھ پتا نہیں۔‘‘
’’لیکن تم نے اسے درختوں کے نیچے چوری چھپے کچھ بولتے ہوئے سنا تھا؟‘‘ سارجنٹ نے کہا۔
’’ہاں، میں نے سنا تھا، لیکن مجھے نہیں پتا کہ وہ کچھ بول رہا تھا یا نہیں۔‘‘
’’سو میرے دوستو، جیوری کا متفقّہ فیصلہ ہے،‘‘ کمانڈر نے کہا۔ ’’مقدمہ ختم ہوا۔‘‘
’’یہ کوئی مقدّمہ نہیں۔ بس بے بنیاد سی آراء ہیں،‘‘ حارث نے کہا۔
’’اپنے افسروں کی بات کی تردید مت کرو!‘‘ سارجنٹ نے اسے ٹوک کر کہا۔
’’تب بھی نہیں جب میری۔۔۔‘‘
’’جب تمھاری زندگی کا سوال ہو، تمھارا اندازہ درست ہے،‘‘ کمانڈر نے کہا۔ ’’میرا نہیں خیال کہ اب اس کا بھی سوال باقی رہا ہے۔ مرزو، حسن، آگے بڑھو، گولی مار دو اسے۔‘‘
’’کیسے، اپنے ہی ایک ساتھی کو کیسے مار دیں؟ حسن نے اعتراض کیا۔ ’’میرا خیال ہے کہ یہ کافی ہے کہ ہم نے اپنی کمپنی کے آدھے سپاہیوں کو مار ڈالا ہے۔ اب آپ اور بھی چاہتے ہیں؟‘‘
’’بھئی بات میں وزن ہے،‘‘ کمانڈر نے کہا، ’’لیکن یہی تو وجہ ہے کہ ہمیں اسے گولی مار دینی چاہیے، اس نے ہمیں بہت زیادہ تکلیف پہنچائی ہے۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ بہتر یہ ہوگا کہ، ہمارے قوانین کے مطابق، اس کی زبان کاٹ دی جائے،‘‘ سارجنٹ نے تجویز پیش کی۔ ’’جرم اسی عضو سے ہوا ہے، بس اسے کاٹ دیتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔‘‘
’’مجھے یہ خیال پسند آیا، لیکن نہیں۔ اگر تم اس کی زبان کاٹ دو گے تو خون بہنے سے اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ اگر تم اس سزا کو با معنی بنانا چاہتے ہو تو تمھیں کوئی ایسا طریقہ نکالنا پڑے گا کہ اس کا خون بہنا رُک جائے۔ اس کے علاوہ، میرا یہ بھی خیال ہے کہ اگر یہ بچ گیا تو اسے رنج ضرور رہ جائے گا، اور میں اتنے زیادہ اسلحے کی ارد گرد موجودگی میں اس پر اعتماد نہیں کر سکتا۔ گولی مار دو اسے۔‘‘
’’میں نہیں مار سکتا، اگر آپ مجھے معاف ہی رکھیں تو،‘‘ حسن نے کہا۔ ’’مجھے اب یقین نہیں کہ یہ کام اسی نے کیا ہے۔ اور یہ میرا دوست بھی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ کچھ عجیب سا ہے، لیکن کون ہے جو نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص عجیب نہیں ہے، تو بڑی عجیب بات ہے یہ۔‘‘
’’میرے سامنے اتنی شرافت نہ دکھاؤ سپاہی،‘‘ کمانڈر نے کہا۔ ’’لیکن اگر تم یہ کام نہیں کرنا چاہتے تو، ٹھیک ہے، یہاں اور بہت سے لوگ غصّے میں بھرے بیٹھے ہیں جو یہ کر دیں گے۔ سارجنٹ، چلو تین چار بندے پکڑو۔‘‘
کمانڈر نے پوچھا، ’’کیا تمھاری کوئی آخری خواہش ہے؟‘‘
’’جی ہاں، میرے ہاتھ کھول دیجییے مہربانی کر کے، تاکہ میں اپنے خصیے کھجا سکوں۔‘‘
’’سنجیدہ ہو تم؟‘‘
’’ہاں، سنجیدہ ہوں۔ اور آپ ؟ یہ سب بے معنی ہے۔ بس اس لیے کیونکہ میں اکیلا دعا مانگ رہا تھا، مجھ پر غدّاری کا الزام لگا دیا گیا!‘‘
’’تم دعا ہمارے خدا سے نہیں مانگ رہے تھے، غیر ملکی خداؤں سے مانگ رہے تھے، اور یہی غدّاری کافی ہے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ تم واکی ٹاکی کے ساتھ کیا کر رہے تھے۔ اب اس کی تفصیل میں دوبارہ نہیں جاتے۔ تم پہلے ہی ہمارا کافی وقت ضائع کر چکے ہو۔‘‘
’’کیا تم لوگ میرے بازوؤں میں سے ایک کو کھول سکتے ہو؟ میں خارش سے مرا جا رہا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے،‘‘ کمانڈر نے کہا، لیکن اُس نے کِیا کچھ نہیں۔
سارجنٹ تین بندوں کے ساتھ آن موجود ہوا۔ کمانڈر نے انھیں گولی چلانے کا حکم دیا، ایک سر پر، ایک گردن میں اور ایک سینے پر۔ وہ کوئی بیس قدم دور کھڑے ہو گئے اور انھوں نے اپنی بندوقیں اٹھا لیں۔
حارث کو خوف محسوس نہیں ہوا۔ خوف اس پر اپنی طاقت صرف کر چکے تھے، اور اس پر لگائے جانے والے الزامات کی نا انصافی، اور اس معاملے کی بے معنویّت، اسے پُر سکون کر گئی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنا سر اٹھائے اور ان آدمیوں کی آنکھوں میں گھور کر دیکھے جو یہ جرّات کر رہے تھے، لیکن کوئی بھی کچھ بھی کر سکتا تھا، اور اس میں کوئی اچنبھے والی بات تھی ہی نہیں۔ اس نے ایک لمبا سا سانس بھرا، اور اس سانس نے اس کی پسلیوں میں تکلیف دی اور اس کا سر دھڑکنے لگا اور اس کے کان بجنے لگے۔ یہ لوگ گولی مار کیوں نہیں دیتے؟ اچھا ہوتا اگر وہ اب تک گولی مار چکے ہوتے، لیکن اس انتظار نے اُس کا سکون غارت کر دیا۔ اس کے سر کا درد اِتنا پُر شور ہو گیا جیسے اس کے کان کے قریب ہی کسی پہاڑی سے کوئی آب شار پھوٹ بہا ہو۔
اس نے کسی دھماکے یا بندوق کی گولیوں کی آواز سنی لیکن اسے معلوم نہ ہو سکا کہ کیا یہ آواز کہیں دور سے آ رہی تھی یا خود اسے گولی ماری جا رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دیکھا کہ وہ اپنی رسّی سے پھسل کر باہر آ گیا ہے، اُس کے ہاتھوں کی جلد چھل گئی ہے۔ اس نے اپنے جسم کو زمین پر پڑا دیکھا اور اُسے ایسا لگا کہ اس کی آنکھیں اس کے جسم سے الگ ہو کر کہیں اوپر ہی اوپر، کہیں درختوں میں اُڑتی پھر رہی ہیں، جیسے وہ کسی اُلّو کی آنکھیں ہوں اور اسے ایسے عالم میں دیکھ رہی ہوں جب اس کی دائیں کنپٹی سے خون کا فوّارہ اُبل رہا ہو۔ اس نے لوگوں کے چلّانے اور قہقہے لگانے کی آواز سنی۔ اچھا تو یہ ہوتا ہے موت میں، آپ کی آنکھیں ہوا پر بہتی جاتی ہیں اور دیکھتی رہتی ہیں، اور کوئی دوسرا آدمی انھیں دیکھ بھی نہیں پاتا، اور وہ آنکھیں ہر شخص اور ہر شے کو دیکھ سکتی ہیں اور اِس لمحے اُس نے سوچا کہ وہ وادی کے اندر بھی جھانک کر دیکھ سکتا ہے، جہاں سے ایک دھواں سا بلند ہو رہا ہے، جس سے کوئلے کی سی بُو آ رہی ہے۔ یا شاید یہ بُو اتنے بہت سے برسوں کے شگاف پر پھیلی ہوئی ہے، اس کے بچپن کے برسوں سے شروع ہو کر، جب سراجیوو کے باہر وادی میں اس کا گاؤں بھاپ اور دھوئیں سے بھرا رہتا تھا جس سے کوئلے اور خام تیل کی مزے دار خوش بُو آتی رہتی تھی، اور یہ خوش بُو ان ساحلوں تک پُر مشقّت اسفار کا وعدہ کرتی تھی جہاں عجیب و غریب میوے ہوں گے، جیسے کیوی، جسے اس نے کبھی چکھا تو نہیں تھا لیکن جسے چکھنے کا خواب ضرور دیکھا تھا اور جو، اگر جنگ ختم ہو جاتی تو، ہمارا ملک درآمد کرتا اور وہ اس کے بیج اپنی زبان پر رکھ کر چوستا۔ یا شاید یہ دھواں بندوقوں سے اور نیچے وادی میں سربوں کے تباہ حال ٹینک پر گر جانے والے تیل سے آ رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اب وہ تقریباً مر چکا ہے، اور اس خیال نے اسے آرام دیا، لیکن اس سب کے بیچ اسے ایک اور حیران کن احساس ہوا کہ وہ ایک اور سانس لے رہا ہے، خالی، وجود اور لاشیئت کے منزّہ کیے ہوئے اجتماع سے بھرا ،
شاید کائنات کے خالی پن سے بھرا، ایک ایسے سکون سے بھرا جو زندہ رہنے اور مر جانے کے دکھوں سے ماورا ہو۔
اس نے زندگی سے رخصت ہو جانے کے اس وسیع و عریض منظر کا لطف لیا، لیکن کوئی بہت بنیادی سی شے اس منظر میں مداخلت کر رہی تھی۔ اسے حسن کی چیختی ہوئی آواز سنائی دی، ’’رکو! لوگو، رکو، رکو خدا کے لیے۔ گولی مت چلاؤ۔ دیکھو مجھے کیا چیز ملی ہے!‘‘
انھوں نے بندوقیں نیچے کر لیں اور پیچھے مُڑ کر دیکھا۔
’’اب کیا ہے یہ؟‘‘ کمانڈر نے کہا۔
حسن نے ایک سیاہ رنگ کی کتاب اوپر اٹھائی جس کے کونے سرخ رنگ کے تھے۔ ’’ایک اسکاؤٹ کے جسم سے سلافی رسم الخط میں عہد نامہ جدید ملا ہے۔ اور دیکھو، اس کے شناختی کارڈ پر لکھا ہے کہ اس کا نام ایساد نہیں بلکہ جووان تھا۔ وہ جھوٹی شناخت رکھنے والا سرب تھا۔ اس نے غدّاری کی ہمارے ساتھ!‘‘
’’تو؟ سرب ہونے کا کوئی مطلب نہیں،‘‘ کمانڈر نے کہا۔ ’’مارکو بھی تو سرب ہے، اور وہ ہمارے بہترین جنگ جوؤں میں سے ایک ہے۔‘‘
’’سپاہی کی بات میں وزن ہے،‘‘ سارجنٹ نے کہا۔ ’’تمھارا کیا خیال ہے، ہم سے غدّاری کرنے کا امکان کس میں زیادہ ہے۔ اس پاگل میں یا اس لونڈے میں جس نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ سربوں نے یہاں گارڈ بٹھانے کی بھی زحمت نہیں کی؟‘‘
’’کسی نہ کسی کو تو سزا ملنی ہی چاہیے۔ وہ دوسرا لونڈا تو پہلے ہی مر چکا؛ اب اسے سزا نہیں دی جا سکتی۔ چلو، سیدھے ہو جاؤ اور گولی چلاؤ! تم کس چیز کا ۔۔۔‘‘
اسی دوران کیمپ کے ہر جانب سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس سے پہلے کہ یہ معلوم ہو سکتا کہ ان گولیوں کے معنی کیا تھے، اور اس سے پہلے کہ کسی کو چھپنے کا موقع ملتا، چھپ کر چلائی جانے والی بہت سی گولیاں متوقع جلّادوں کے سروں پر لگیں اور وہ نیچے گر گئے۔
باقی بچ جانے والے آدمیوں میں سے بہت سے زمین پر لیٹ گئے اور انھوں نے چٹانوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی، اور باقی لوگ بوکھلا کر سربوں کے چھوڑے ہوئے کیمپ اور جھاڑیوں کی طرف بھاگے، لیکن گرینیڈوں اور مشین گن سے ہونے والی فائرنگ نے ان میں سے بہت سوں کو ان کی پچھلی پوزیشنوں پر واپس آنے پر مجبور کر دیا۔
حارث یہ سب اپنی اس جگہ سے دیکھ رہا تھا اور اس کی کہنیوں سے خون بِہ رہا تھا۔ اس اتھل پتھل سے وہ خوف زدہ نہیں ہوا؛ اسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی کہ اسے کوئی گولی لگ سکتی ہے۔ اسے یہ بات حیرت انگیز لگی کہ جو کام اس کے گیان دھیان سے پُورا نہیں ہو سکا اُسے اُس کے سر کی چوٹ، تشدد اور گولی مار کر ہلاک کر دیے جانے کے خطرے نے پُورا کر دیا؛ یعنی اُس کی مکمل خاطر جمعی اور ذہنی طمانیت۔ لیکن پھر، کیا دلائی لاما بھی ہر قسم کے مظالم سے نہیں گزرا تھا؟ دلائی لاما خود اُس کی صورتِ حال میں موجود ہونے پر کیسا محسوس کرتا؟ کیا اسے بھی اُس کی طرح نروان حاصل ہو جاتا؟
سرب سپاہیوں نے لگ بھگ تیس مسلمانوں کو گن پوائنٹ پر لے لیا تھا۔ کیمپ میں کم از کم تین سو سرب سپاہی موجود تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کی بندوقیں اٹھائیں اور ایک جگہ ان کا ڈھیر لگا دیا، جسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے آگ جلانے کے لیے ایک دائرے میں لکڑیاں اکٹھی کی گئی ہوں۔
’’کہاں ہیں تمھارے مجاہدین؟‘‘ تازہ شیو کیے ہوئے سرب کمانڈر نے پوچھا، جس کے گال گلابی تھے اور فتح کے نشے سے تمتما رہے تھے۔ ’’ہیں؟ کوئی افغانی نہیں ہے یہاں؟‘‘
اس نے ارد گرد نگاہ دوڑائی اور اس کی آنکھیں حارث پر ٹھہر گئیں۔
’’اور یہاں تم کس پر تشدّد کر رہے ہو؟ ہم دیکھ رہے تھے کہ تم اسے گولی مارنے والے تھے۔‘‘
’’غدّار ہے۔ یہ ہماری پوزیشن کی خبریں تم لوگوں کو دے رہا تھا،‘‘ مرزو نے کہا۔
’’نہیں یار؟‘‘ سرب کپتان یہ کہتا ہوا حارث کی طرف گیا۔ ’’کیا تم ایسے نیک کام بھی کرتے ہو جن کا انعام یہ لوگ تمھیں یہاں دے رہے تھے؟‘‘
’’نہیں،‘‘ حارث نے کہا۔
’’اب تم ان کے کنٹرول میں نہیں ہو، میرے بھائی! آزادی سے بولو۔‘‘
اس نے حارث کا ماتھا چوم لیا۔ ’’تمھاری حالت بڑی خراب ہے۔ یہ لو ایک گھونٹ!‘‘ اس نے ریڈ لیبل جونی واکر کا ایک جگ اوپر اٹھایا اور حارث کے منھ میں اُنڈیلا اور حارث نے ، جس نے پورے دن سے پانی کا قطرہ نہیں پیا تھا، گھونٹ حلق سے نیچے اتارا۔
’’یہ بات! گھونٹ حلق سے نیچے اتارنے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ آدمی اچھا ہے یا نہیں!‘‘ کمانڈر نے اپنے چمکتے ہوئے چاقو سے، جو کسی خنجر سے مشابہ تھا، حارث کے ہاتھ پر بندھی رسّی کاٹ دی۔ حارث جو رسّی کے سبب درخت سے قریباً معلق تھا، نیچے گر گیا۔ اس کے بازو اس کے چہرے کو مٹّی سے بچانے کے لیے حرکت کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گئے تھے اور اس کا چہرا گیلی زمین سے جا ٹکرایا۔ اسے محسوس ہوا جیسے وہ بے ہوش ہونے والا ہو، کبھی پھر سے آنکھیں نہ کھولنے کے لیے، اور غیر معیّنہ مدّت تک کے لیے آرام کرنے کے لیے، لیکن وہ بے ہوش نہیں ہوا۔ وہ اپنی ناک سے سانس لیتا رہا اور یہ بھی بھلا بیٹھا کہ اس کی ناک زمین میں پیوست ہے اور وہ سانسوں میں مٹّی بھر رہا ہے؛ کچھ مٹی اس کے حلق میں رُک گئی، اور کچھ اس کے نرخرے تک اتر گئی۔ اس نے کروٹ بدلی اور کھانسا، اور ہر کھانسی کے ساتھ اس کا دماغ لرز کر رہ گیا۔
’’ ارے، میرے بھائی،‘‘ سرب کپتان نے کہا۔ ’’ہم اِن سے بدلہ لیں گے اِس کا!‘‘
اس نے حارث کو اُٹھایا اور اپنے ایلومنیم کے فلاسک سے اسے پانی دیا۔ حارث نے اپنے منھ میں کُلی کی، تھوکا اور پھر پانی پیا۔ اس کی ناک اور اس کی نظر صاف ہو گئی۔ اس کی بقیہ کمپنی جس برے حال میں تھی، اُسے دیکھ کر اُسے عجیب سا احساس ہوا۔ اُسے اُسی فتح کا احساس اپنے اندر محسوس ہوا جو اُسے اپنی رائفل کے بٹ پر وزن ڈالتے ہوئے اور اپنی سنگین ایک شخص کی پسلیوں میں کھبوتے ہوئے محسوس ہوا تھا۔ وہ تمام روشنی جس کا تجربہ اس نے درخت سے بندھے ہوئے کیا تھا، اس کی روح سے ایسے پرواز کرنے لگی جیسے صبح کا کوئی بادل ہو، اور وہاں جو کچھ باقی رہ گیا وہ تھیں معمولی تفاصیل، لوگوں کے بھورے دانتوں کے درمیان موجود خلا اور زمین پر پڑی ہوئی پلاسٹک کی کوکا کولا بوتلیں؛ اور ان تفاصیل کے ساتھ پرانے جذبے اس کے ذہن پر زور ڈالنے لگے۔
سرب کپتان نے کہا، ’’میں تمھاری آنکھوں میں ایک آنچ دیکھ سکتا ہوں۔ کیا تم ان سب کو گولی مارنا پسند نہیں کرو گے؟ میں تم سے یہ اعزاز لینا نہیں چاہوں گا۔ میں تمھیں ایک مشین گن دیتا ہوں اور تم ان سب کو بھون سکتے ہو۔ ہم ان سب کو رسّیوں سے باندھ دیں گے اور جب تم بہت سے راؤنڈ فائر کر چکو گے، تو تم ان میں سے ہر ایک کو مار چکے ہوگے! کیا خیال ہے اس بارے میں؟‘‘
حارث نے جواب نہیں دیا۔ سننے میں یہ سب، ظاہر ہے کہ، بہت ہول ناک تھا۔ اگر وہ یہ کہتا کہ وہ یہ سب نہیں کرے گا، تو کیا خود اسے بھی مار دیا جائے گا؟ اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دے گا، تو کیا یہ سب کچھ کوئی اور نہیں کر ڈالے گا؟ کیا وہ سب آدمی مر ہی نہیں جانے والے تھے، چاہے جو کچھ بھی ہو جائے؟ اور پھر آخر موت اور زندگی کے درمیان فرق ہی کیا ہے؟ جتنا زیادہ وہ اس بارے میں سوچتا، اتنا ہی اسے اس بات کی ترغیب ملتی کہ وہ گولیاں چلانے کی یہ پیش کش قبول کر لے، لیکن دھماپد کا ایک شعر اُسے یاد آیا اور اُس کی توجّہ بٹ گئی۔ ’’ جیسے کسی مچھلی کو اس کے پانی کے گھر سے نکال کر خشک زمین پر پھینک دیا جائے، ہماری سوچیں ہر طرف تڑپتی پھرتی ہیں تاکہ ترغیب دینے والی مارا کے چُنگل سے نکل سکیں۔‘‘ اچھا ہے، میری سوچو، تڑپتی رہو۔ تڑپنا اچھا ہے، اس سے انسانوں کی جان بچ سکتی ہے۔
’’ارے،‘‘ کپتان چلّایا، ’’یہ لوگ تمھارا سوئس پنیر بنانے والے تھے، اور تم ہو کہ ہچکچا رہے ہو!‘‘
’’آپ کو سچ بتاؤں تو، میں کسی کو بھی گولی نہیں مارنا چاہتا۔‘‘
’’لیکن تمھیں مزا آئے گا اس کا، بتا رہا ہوں تمھیں۔‘‘
’’یہ تمھارے آدمیوں میں سے ایک نہیں ہے!‘‘ مسلمان کمپنی میں سے سارجنٹ چلّایا۔ ’’میں ہوں وہ آدمی جس نے تمھیں خبردار کیا! مجھے گولی مت مارو!‘‘
’’نیناڈ،‘‘ سرب کپتان سرخ گالوں والے ایک سپاہی سے مخاطب ہوا، ’’کیا تمھارا ریڈیو کنکشن یہ ہے؟‘‘
’’اچھا تو ایسے لگتے ہو تم!‘‘ سرخ گالوں والے نے خوش ہو کر کہا۔ ’’سٹیوو، میرا خیال تھا تم مر چکے ہو۔ کنکشن ٹوٹ گیا تھا، اور پھر کسی اجنبی شخص نے مجھ سے بات کی۔ مجھے یقین تھا کہ انھوں نے تمھیں مار دیا ہے! تمھیں دیکھ کر خوشی ہوئی، یار!‘‘
’’تو تم ہو ہمارے ہیرو،‘‘ سرب کپتان نے کہا۔ ’’باہر نکل آؤ، بھائی، خوشی میں شریک ہو جاؤ!‘‘
حارث سوچنے لگا کہ اس قصّے کی اب اس کے لیے کیا اہمیّت ہے؛ کیا سرب اَب اُسے بھی گولی مار دیں گے؟ اس کا سانس پھولنے لگا۔ آخر اسے بھی بچ جانا تو پسند ہی تھا، اسے بقا پسند تھی، چاہے وہ جو بھی سوچتا ہو اور جس طرح بھی فلسفہ طرازی کرتا ہو۔ اگر وہ فلسفہ طرازی نہ کیا کرتا تو اب تک سارجنٹ کو گولی مار چکا ہوتا اور زندہ رہنے کے لیے آزاد ہوتا۔
کپتان نے سارجنٹ کو اپنے جگ میں سے ، جو تقریباً خالی ہو چکا تھا، شراب پیش کی۔ جلد ہی سارجنٹ سرب سپاہیوں میں گھُل مل گیا، انھیں گلے سے لگانے اور بلند آواز سے قہقہے لگانے لگا جبکہ کپتان کے قریب کھڑا حارث خالی خولی نظروں سے گھورتا ہی رہ گیا۔
’’اب یہ بتاؤ، کہ یہ لوگ تم پر تشدّد کیوں کر رہے تھے؟ تم نے ایسا اچھا کام آخر کون سا کیا تھا؟‘‘کپتان نے حارث سے پوچھا۔
’’بدھ مت‘‘
’’اچھا ہے بھئی! ؛لیکن تم ایسے ہی خستہ حال لگتے ہو جیسے کوئی بھکشو ہوتا ہے۔ لو ایک اور گھونٹ۔‘‘
حارث نے اسکاچ کا ایک اور گھونٹ بھرا۔ اس کی نظر ذرا سی دھندلا گئی، جیسے شراب کے ایک گھونٹ نے اس کے ذہن کی بتّیاں دھندلی کر دی ہوں، اور اس کی کنپٹی میں ہونے والے درد نے اسے چاقو سا مارا اور اس کی آہ نکل گئی۔
’’بدھ مت، ہیں؟ تمھیں پتا ہے کہ میں بھی بدھ مت کا ماننے والا ہوا کرتا تھا۔ پورا ایک ہفتہ مَیں رہا بھی۔‘‘
’’یہ بھی تو غدّاری ہے۔‘‘
’’اچھا، تو ہم سے رابطہ تم نے نہیں رکھا ہوا تھا، بلکہ تم نے کچھ کیا ہی نہیں تھا۔ مذہبی جنونی، منحوس بنیاد پرست۔ تمھیں ان سب کا صفایا کر دینا چاہیے، میں بتا رہا ہوں تمھیں۔ اس کے علاوہ ہم لوگ کیسے ایک ساتھ چل سکیں گے؟ میرا مطلب ہے کہ اگر یہ لوگ کسی صحیح آدمی پر تشدّد کر رہے ہوتے تو مجھے سمجھ بھی آتی، لیکن تم پر؟ چلو اچھا، اب مشین گن لو اور ان پر گولیاں چلاؤ! میں تمھاری مدد کروں گا۔‘‘
مجھے مزاحمت کرنی چاہیے، حارث نے سوچا، اور تھکے تھکے انداز میں وہ زمین پر سیدھا لیٹ گیا اور زمین اُسے اچھی اور دعوت دینے والی لگی، اور اُس میں اپنی آنکھیں کھولنے تک کی سکت نہ رہی۔
’’تمھیں پتا ہے،‘‘ کپتان نے کہا۔ ’’یہی ایک چیز ہے جو بدھ مت میں مجھے پسند ہے۔ بڑا پُرسکون لگتا ہے یہ۔‘‘
حسن چلّایا، ’’ایسا مت کرنا، میرے بھائی، میں نے تمھیں بچانے کی کوشش کی تھی!‘‘
ایک سپاہی حارث کے قریب ہی گھٹنے کے بل بیٹھ گیا اور اور بھاری گولیوں سے لدی ہوئی ریل گاڑی کا رُخ سیدھا کیا۔
اور بہت سی آوازیں بلند ہوئیں، کچھ التجائیں کرتی ہوئیں اور کچھ حارث کو لعنت ملامت کرتی ہوئیں۔
اس نے اپنے نشانے کی جانب دیکھا اور اپنے سابق ساتھیوں پر شست باندھی۔ اس کا نشانہ اور اس کے ساتھی کپکپائے اور ہلتے ہوئے اور تاریک گردشوں میں رقص کرتے ہوئے یک رخے نظر آنے لگے۔ اس نے آنکھیں جھپکائیں اور جب اس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، پھر کھولیں، لیکن اب اُس کے سامنے ایک بھوری تاریکی تھی۔ ہر طرف سے آنے والی آوازیں مزید بلند اور مزید تیز ہو رہی تھیں۔ وہاں سے کچھ ہی دور گرج دار آواز آئی اور ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ دھماکے کی وہ آوازیں خود اُسی کی مشین گن سے تو نہیں آ رہیں، اور وہ جھُکا اور اُس نے اپنی بیرل کو چھو کر محسوس کیا۔ وہ ٹھنڈی تھی، اُسے سکون کا احساس دلانے کی حد تک ٹھنڈی، اور اس کی خون آلود کہنیوں پر اُس کا لمس مرہم جیسا محسوس ہو رہا تھا۔
***
جوسپ نوواکووچ سے ایک گفتگو
س: آپ کہانیاں لکھنے سے کیا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ج: کسی نہ کسی سطح پر میں لوگوں کو محظوظ کرنا چاہتا ہوں ،جیسے میں اپنے دوستوں کو حکایتیں سنا رہا ہوں۔ چاہے موضوع کتنا ہی افسردہ کر دینے والا کیوں نہ ہو، دل کی پیوند کاری، جنگ، اس میں کامک ریلیف کے لیے جگہ ہوتی ہے۔ کسی بہت بری صورتِ حال میں ہو سکتا ہے کہ آپ کوئی ایسی بات سوچ رہے ہوں جس کی کوئی تُک ہی نہ بنتی ہو۔ ہو سکتا ہے آپ یاد کر رہے ہوں کہ بچپن میں آپ کو ٹکٹ جمع کرنے کا شوق ہوا کرتا تھا، یا ہو سکتا ہے کہ نسوانی حسن کے کسی امیج نے آپ کی توجّہ بٹا رکھی ہو۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے بالکل سامنے ہونے والے معاملات سے خود کو فاصلے پر رکھنے کے لیے مُضحک خیالات کو استعمال کرتے ہیں اور مَیں اپنی کہانیوں میں ذہنوں کی موضوعیت کی کھوج لگاتا ہوں، یا پھر ذہنی آزادی و حریّت کی تلاش کرتا ہوں۔
س: آپ کی زیادہ تر کہانیوں میں واقعات بہت زیادہ پیش آتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
ج: کہانیوں کا تصوّر میرے ذہن میں خوابوں اور ڈراؤنے سپنوں کی طرح کا ہے۔ اگر آپ خواب کے دوران بہت جلد جاگ نہیں پڑتے تو ان کے دوران بہت کچھ ہوا کرتا ہے، خواہ اس کی کوئی تُک بن رہی ہو یا نہیں۔ ہمارے خوف اور خواہشات صورت شکل اختیار کر لیتے ہیں اور واقعات کے ذریعے اپنا اظہار کرتے ہیں۔ اگرچہ حقیقی زندگی میں یہ بات بہت کم ہوتی ہے کہ کوئی، فرض کیجیے کہ، کسی سے انتقام لے لے، مگر دنیا بھر میں آپ کی خواہشات کی تکمیل کرنے والی انتقام کی کہانیاں ہر جگہ ملتی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ سیکس، قتل وغیرہ وغیرہ کے ساتھ ہے۔ دوسری جانب اگرچہ میری کہانیوں میں شہوت بہت زیادہ ہے، لیکن سیکس اتنا نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھ پر اتنا دباؤ ضرور ہے کہ میں کھلم کھلا ایروٹیکا نہ لکھنے لگوں۔ مزید یہ کہ ،اپنے دوستوں کے ساتھ ،میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ جنسی ناکام یابی کی کہانیاں انھیں جنسی کام یابیوں کی کہانیوں سے زیادہ محظوظ کرتی ہیں، کیونکہ جنسی کام یابی حسد کے جذبات اُبھار سکتی ہے۔ شہوت ایک استعارہ ہے بہت سی پوری نہ ہونے والی خواہشات کا، ایک ایسا استعارہ جو تخیّل کو بڑی آسانی کے ساتھ مہمیز لگا سکتا ہے۔ میرے کردار اچھے کھانے، مشروبات، حتّیٰ کہ درختوں اور آزادی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
س: آپ کے فکشن کا محلِ وقوع سابق یوگوسلاویہ ہے، تو پھر آپ انگریزی میں کیوں لکھتے ہیں؟
ج: میں گزر بسر ہی انگریزی زبان میں کرتا ہوں، اس لیے لکھتا بھی انگریزی میں ہوں۔ انگریزی میں لکھنے کی عادت مجھے تب پڑی تھی جب میں کالج اور پھر گریجویٹ اسکول گیا تھا، دو سال وسار (Vassar) اور تین سال ییل (Yale)۔ پانچ سال تک انگریزی لکھتے رہنے کے بعد میں جب بھی کاغذ پر کچھ بیان کرنے بیٹھتا تو وہ انگریزی میں ہی لکھا جاتا، الا یہ کہ میں خود کو اس سے روک لیتا۔ مزید یہ کہ اُن دنوں کروشیائی زبان سیاسی اثرات کے سبب تبدیل ہو رہی تھی اور میں ان تمام تبدیلیوں سے آگاہ رہنے کے لیے وہاں موجود ہی نہیں تھا۔ میں جو کروشیائی زبان لکھتا تھا وہ بہت قدیم ہو گئی اور کروشیا میں مدیران اس میں میرے لکھے کو سیاسی بیان اور یوگوسلاف ناسٹلجیا ٹھہرانے لگے۔ انگریزی میں ایک حیرت انگیز رفتار اور بہاؤ ہے۔ جب آپ کسی چیز کے دس ترجمے متوازی رکھیں تو انگریزی ترجمہ مختصر ترین ہوتا ہے۔ یقیناًانگریزی زبان مجھ پر اثر انداز ہوتی ہے کہ میں زیادہ بہتر طریقے سے اپنا اظہار کر سکوں، جب کہ کروشیائی زبان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں جہاں واحد بڑائی یہ گنی جاتی تھی کہ آپ صرف و نحو کو کہاں تک سنبھال سکتے ہیں، مطلب طویل اور پے چیدہ جملے ہوتے تھے اُس میں۔ اشتراکیت کے تحت، بلا شُبہ، ہم لوگ بہت عجیب قسم کے جملے لکھا کرتے تھے، جس میں بہت سے تابع فقرے ہوا کرتے تھے۔ کروشیائی زبان میں لکھنا ایک لسانی سلالوم (حاشیہ: Slalom:ایک ریس جس میں رکاوٹوں کے پاس سے زگ زیگ کرتے ہوئے گزرنا ہوتا ہے) ثابت ہوتا ہے اور میں اب بھی کبھی کبھار اس سے محظوظ ہوتا ہوں۔
س: انگریزی میں لکھنے سے آپ فوائد کیا حاصل کرتے ہیں اور کیا چیز ترجمہ کرتے ہوئے رہ جاتی ہے؟
ج: فکشن میں آپ کسی بھی معمولی چیز کو غیر معمولی روپ دے سکتے ہیں، اسے اوپرا اور اجنبی بنا کر ، اور عام طور سے یہ عمل بہت مصنوعی ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی آبائی دنیا سے باہر نکل آئیں، تو آپ کے لیے اس عمل کو وقوع پذیر ہونے سے روکنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ پھر عام سی تفاصیل آپ کو غیر معمولی لگنے لگتی ہیں۔ سابق یوگوسلاویہ کو نہ صرف چار ہزار میل دور سے دیکھنا، بلکہ ایک دوسری ہی زبان سے دیکھنا مجھے آزادی دیتا ہے کہانیاں شناخت کرنے کی، ان کے ساتھ کھیلنے کی اور خود ان کی اپنی ہی قسم کی حقیقت میں اُن کی کایا کلپ کرنے کی۔ پھر وہ یوگوسلاویہ یا کروشیا نہیں رہتا، میرا مطلب ہے کہ لفظی معنوں میں، بلکہ جیسے مصوّر لوگ اظہاریّت کا اسلوب اختیار کرتے ہیں، میری تحریروں میں ایک ایسا ملک سامنے آتا ہے جسے میں نے خود بنایا ہوتا ہے اور جو حقیقی سے زیادہ ماوائے حقیقت ہوتا ہے۔ دوسری جانب پھر میری ماورائے حقیقت نگاری بہت حقیقی خدشات اور خواہشات کا اظہار کرتی ہے۔
کیا کمی رہ جاتی ہے: ایک ٹھوس سطح پر یہ کہ میں بہت سے وہ لطیفے ترجمہ نہیں کر پاتا جن کا انحصار زبان پر ہوتا ہے۔ مجھے کروشیائی زبان کے مختلف لہجوں کاخوب علم تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی کلاس میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے میں بہت سے لہجوں کا استعمال کرتے ہوئے کسی سٹینڈ اپ کامیڈئین کی طرح مذاق کر لیتا تھا۔ میں یہ کام انگریزی میں نہیں کر سکتا۔ اگر مجھے کچھ کسان سپاہیوں کا بیان کرنا ہے، تو وہ کس طرح بولیں گے؟ وہ انگریزی پروفیسروں کی طرح تو نہیں بول سکتے، اور اگر میں ان سے بازاری زبان بلواؤں تو، خیر، میں ان سے کینٹکی اور بوسٹن والوں کی طرح کا روزمرّہ نہیں بلوا سکتا۔ سو مجھے ایک قسم کی غیر رسمی زبان میں لکھنا پڑتا ہے جو بازاری زبان سے الگ ہو۔ اور اگر میں تارکینِ وطن کے بارے میں لکھوں تو بہتر یہ ہو گا کہ میں کروشیائی اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھوں، ایک قسم کی کرونگلش میں، لیکن پھر مجھے سمجھے گا کون؟ تو یہ وہ مشکلات ہیں جو پوری طرح سے حقیقت پسندانہ قسم کی تحریروں میں ڈوب جانے سے مجھے روکے رکھتی ہیں۔ اور مجھے ہر دم ایجاد پر آمادہ رکھتی ہیں۔
س: آپ نے ’’بے وفائیاں‘‘ ( Infidelities) کیوں لکھی؟
ج: میں نے یہ کہانیاں کسی مشن کے تحت نہیں لکھیں، اگرچہ ان میں سے کچھ جنگ سے میری نفرت کی غمّاز ہیں۔ ان دنوں یہ بات ایک مرتبہ پھر اہم ہو گئی ہے کہ ہم یہ بنیادی اور کھُلا نقطہِ نظر ایک مرتبہ پھر سامنے لائیں کہ جنگ ایک ہول ناک دلدل ہے اور یہ کہ اس میں عام طور پر کوئی فاتح نہیں ہوتا، اس کے نتیجے میں بس جنگی جرائم کے مُرتکب سامنے آتے ہیں یا پھر جنگ کے شکار لوگ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر نسل کی الجھنوں کو ایک مرتبہ پھر سے دور کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بات امریکا کے لیے بھی درست ہے اور بلقان کی ریاستوں کے لیے بھی، جہاں بہت سال تک جنگ کے بعد ہم مایوس ہو جاتے ہیں، اور پھر کبھی کبھار بیس یا تیس برسوں کے لیے پُرامن رہتے ہیں اور اس کے بعد جنگ کے نظریہ سازوں کا نیا گروہ ہماری نئی پریشانیوں کا استحصال کرتا ہے، چاہے یہ پریشانیاں مقامی ہوں یا درآمد شدہ۔
س: کیا جنگ کے بارے میں آپ کا طرزِ تحریر سابق یوگوسلاویہ میں عام ہے؟
ج: وہاں کے لوگ جنگ کے بارے میں پڑھنا یا سوچنا اب پسند نہیں کرتے۔ انھیں اس موضوع سے گھن آتی ہے۔ جب میرے دوستوں کو علم ہوا کہ میں جنگ کے بارے میں لکھ رہا ہوں تو انھوں نے کہا، ’’اس کے بارے میں کیوں؟ کسی بھی اور چیز کے بارے میں لکھ دیتے! ہمارا تو خیال تھا کہ تمھاری مزاح کی حس اچھی ہے۔‘‘جنگ کے بارے میں زیادہ تر تحریریں صحافت تک محدود رہ گئیں۔ میں نے یہ پایا ہے کہ یہ سمجھنے کے لیے کہ لوگوں پر کیا گزری ہے، مجھے فکشن کا سہارا لینا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں کسی کے پاس چلتا ہوا جاؤں اور پوچھوں، ’’آپ کے سامنے آپ کے والدین کو گولی مار دی گئی، آپ کو اُس موقع پر کیسا محسوس ہوا؟‘‘ میں نے اپنے بہنوئی سے پوچھا کہ سرب ٹینکوں سے دو سو گز دور زندہ رہنا کیسا تھا۔ اس کے گھر کی بنیادوں میں ہووٹزر ٹینک کے ایک گولے سے سوراخ ہو گیا تھا۔ لیکن اُس نے جواب نہیں دیا، اس کے بجائے وہ مجھے تبلیغ کرنے لگا۔ اس لیے اس کے تجربے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے میں نے فکشن کا ایک ٹکڑا لکھا۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں کہ اُسے اس دوران کیا محسوس ہوا ہوگا، لیکن میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ کوئی اور ایسی ہی صورتِ حال سے گزرا ہوگا تو اُس نے کیسا محسوس کیا ہوگا۔ میں نے ایک اور کہانی لکھی تھی ’’پسلیاں،‘‘ کروشیا میں کچھ وقت گزارنے کے بعد۔ کروشیائی فوج نے ایک چھوٹے سے بوسنیائی گاؤں کو جلا دیا تھا اور اس کے مکین قتل کر دیے تھے اور میں حیرت زدہ تھا کہ ایسا کام کرنے کے بعد سپاہیوں نے کیا کِیا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک اچھا شوہر ایک مجرم بن گیا ہو؟ اگر ایسا ہوا ہو تو یہ حقیقی زندگی میں کیسا لگے گا؟ اور وہ حقیقی زندگی پھر رہے گی بھی کیسے؟ تو میری کہانی اس سب کے جواب میں کچھ کچھ ماورائے حقیقت سی بن گئی اور اس کے آخر میں گم شدہ شوہر ایک بھوت کے روپ میں واپس آیا۔
س: اب کچھ بات ہو جائے جنسی عناصر کی جو آپ کی کہانیوں میں شامل ہیں اور آپ کے مجموعے کے عنوان میں بھی جن کا ذکر ہے؟
ج: جنگ کے دوران زندگی رُکتی نہیں، لیکن اس کے لازمی عناصر اور بھی لازمی ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں آپ کی جنسی خواہش اُبھر کر سامنے آتی ہے، شاید بقا کی خواہش کے اظہار کے طور پر، یا پھر بد صورتی کی زیادتی کے درمیان خوب صورتی کی تمنا کے طور پر۔ نیو یارک سٹی میں ہمیں گیارہ ستمبر کے بعد تقریباً ایک ماہ تک جنگ کے سے احساس کا سامنا رہا۔ میں اُن دنوں اسی شہر میں تھا اور میں نے ٹاور گرتے ہوئے دیکھے تھے اور میں سب وے میں بولایا ہوا پھرتا رہا تھا اور یہ سوچتا رہا تھا کہ ابھی کوئی بم ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ اس تناؤ کے ماحول میں ہر شخص شک و شبہے کی نظروں سے اور چوکنّا ہو کر اپنے ارد گرد دیکھتا تھا اور اُسے کسی اور بھی بُری صورتِ حال کی توقّع ہوتی تھی۔ اب حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تاکا جھانکی نے ایک جنس زدہ ماحول پیدا کر دیا۔ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُس مہینے شہر میں رومانس پھلا پھولا۔ مجھے اس بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں، کیونکہ میرے لیے یہ سب معاملات صرف ذہنی تھے، میرے مشاہدات میں، اور ہاں یہ فلرٹ کی شکل اختیار کر سکتے تھے۔ تو ایسے ہی مشاہدات کی مدد سے میں نے ’’ انچاسواں عرض البلد،‘‘ لکھی۔ میں اُس وقت ، زیادہ تر سب وے پر سفر کے دوران، جان ڈوس پیسوس کو پڑھ رہا تھا اور میں نے اس کے ’’بیالیسویں عرض البلد‘‘ کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
س: آپ کے اتنے مختلف النّوع کردار آتے کہاں سے ہیں؟
ج: کچھ عرصے تک تو میری خواہش تھی کہ جنگ کو مختلف نقطہ ہائے نظر سے ملاحظہ کروں، نسلی نقطہ نظر سے اور پھر صنفی نقطہ نظر سے۔ میرے ہاں ایک کہانی ایک بچے کے نقطہ نظر سے بھی ہے، ’’برف کا پاؤڈر‘‘۔ یہ کہانی میرے بیٹے کی برف سے محبت کے نتیجے میں نمو دار ہوئی۔ وہ شمالی ڈکوٹا کے شہر فارگو (Fargo) میں جنوری کے وسط میں پیدا ہوا اور وہ ٹھنڈے موسم سے وابستہ اساطیر کے ساتھ پلا بڑھا۔ جب وہ بچّہ تھا تو اسے حیرت ہوا کرتی تھی کہ ہمارے ہاں کتنی زیادہ برف پڑ رہی ہے اور بلندی پر مزید کتنی زیادہ برف موجود ہوگی۔ میں نے اس بچے کو بوسنیا کی پہاڑیوں میں پہنچا دیا اور باقی جو کچھ ہے ایک فینٹسی ہے۔ بہت سے لڑکے اپنے اسکول کو تباہ کرنے کا خواب دیکھتے ہیں؛ مجھے پتا ہے کہ خود میں یہ خواب دیکھا کرتا تھا جب میں آٹھ یا نو برس کا تھا۔ میں نے اسکولوں پر بم گرائے جانے کی خبریں پڑھیں اور میں نے ان تمام عناصر کو یک جا کر کے دیکھا کہ ایسے میں ایک بچّہ کیا خواہش کر سکتا ہے اور جنگ کو ایسے تباہ کن خوابوں کے پورے ہونے کا وسیلہ بتایا۔ میں کسی ملٹری ٹھگ کے تباہی کے شوق میں بھی طفلانہ پہلو تلاش کرتا ہوں۔ لوگوں کو ان کی نفسیاتی پیش رفت میں ایک قدم پیچھے لے جانے کے سلسلے میں شراب بہت مشہور ہے، اور سپاہیوں کے نشے میں دھت جتھے واقعی خطرناک لڑکوں کے ایک گروہ کی طرح برتاؤ کر سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں بچّہ سپاہی بھی موجود ہیں جو بہ طورِ خاص ظالم اور بہادر ہو سکتے ہیں۔
’’کینہ‘‘ وہ پہلی کہانی ہے جو میں نے واحد متکلم میں ایک خاتون کے نقطہِ نظر سے لکھی۔ مجھے محسوس ہوا تھا کہ ایک وطن بدر عورت ، جنگ میں جنسی زیادتی کی کوشش کی شکار عورت، کن حالات سے گُذر سکتی ہے، اس کے تجربے کے قریب پہنچنے کے لیے یہی سب سے بہترین طریقہ ہے۔ میں نے اس کہانی کا محلّ وقوع کلیولینڈ کی ایک حقیقی بستی میں رکھا جہاں بوسنیا، کروشیا اور سربیا کے تارکینِ وطن قریب قریب رہتے ہیں اور ایسے شکوک زوروں پر رہتے ہیں کہ ایک دہائی قبل جنگ کے دنوں میں کس نے کیا کِیا ہوگا۔ کسی بھی اور کہانی سے زیادہ اس کہانی میں مَیں نے جنگ اور جنسی خواہش کے موضوعات کو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ملا کر بُنا ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان خوف اور تجسُّس کے عناصر اُس عورت کے جنسی جذبے کو اُبھارتے ہیں اور اُس میں خود کُشی اور انسان کُشی کی تمنّا پیدا ہوتی ہے۔ تو ایروس (محبت کا دیوتا) اور تھاناٹوس (موت کی تجسیم) یہاں آپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں۔
س: یہ جو کہانی ہے ’’مُہر‘‘ یہ آپ نے کیسے لکھی؟
ج: نیو یارک پبلک لائبریری میں پہلی عالمی جنگ سے متعلق تحقیق کرتے ہوئے مجھے ’’مُہر‘‘ کا مواد اتفاقی طور پر ہاتھ آ گیا۔ میں سراجیوو میں ہونے والے سیاسی قتل کے واقعات کے مطالعے سے گریز چاہتا تھا لیکن کسی نہ کسی طریقے سے میں راستہ بھٹک کر پھر اُسی جانب آ نکلا۔ مجھے یہ بات حیرت انگیز لگی کہ قاتلوں کا پورا گروہ تپِ دق کا شکار تھا، اور چونکہ میں خود سات برس کی عمر میں تپِ دق میں مبتلا رہ چکا تھا اس لیے میں اس موضوع کی جانب کھنچتا چلا گیا۔ اُن میں سے ایک شخص ،جو بعد میں قاتل بننے والا تھا ،اپنی زنجیروں کے ساتھ چادر تلے سویا تاکہ اس کے جسم کی حرارت ضائع نہ ہو جائے اور میں نے یہ تفصیل کیبری نووچ نامی کردار کا حصّہ بنا دی۔ ایک اور بعد میں قاتل بن جانے والا شخص ایسا بھی تھا جو آرچ ڈیوک (حاشیہ: آسٹریا کا آرچ ڈیوک فرانز فرڈیننڈ جس کا ۲۸ جون ۱۹۱۴ء کو سراجیوو میں قتل پہلی عالمی جنگ کا نقطہِ آغاز ثابت ہوا) کے بچوں کے لیے واقعی افسردہ بھی ہوا تھا۔ یہ تخیّل میں لاتے ہوئے کہ اس نے کیا سوچا ہوگا، مجھے کہانی لکھنے کی تحریک ہوئی۔ جب آپ کسی شخص کے خیالات کے اندر داخل ہو جائیں تو خواہ اس کے اعمال کیسے بھی حیرت انگیز کیوں نہ ہوں، آپ اس کے خیالات کا تعاقب کر سکتے ہیں ،حتّیٰ کہ اس کے تمام اعمال آپ کو ، ناول ’جرم و سزا ‘کے سے انداز میں ، منطقی اور لابُدی محسوس ہونے لگتے ہیں۔ کیبری نووچ مجھے دوستوئیفسکی کی قسم کا کردار لگتا ہے۔
س: کہانیوں کا ایک مجموعہ ایک جڑی ہوئی کتاب کیسے بنتا ہے؟
ج: کہانیوں کے کسی مجموعے میں مقصد کی یکتائی مشکل ہو سکتی ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں مدیر کی بصیرت کام دکھاتی ہے۔ میرے مدیر، ٹیری کارٹن (Terry Karten) نے اس مجموعے میں مزید کہانیاں شامل کرنے کی میری خواہش پر روک لگائی۔ میرے پاس اور بہت سی کہانیاں تھیں جن میں جنگ یا جنس کا تناسب اُس سے زیادہ تھا جتنا اس مجموعے میں شامل کسی اوسط کہانی میں ہے؛ سطحی طور پر وہ کہانیاں اِن کہانیوں کی قرابت دار ہو سکتی تھیں لیکن وہ اِس کتاب میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہ کرتیں۔ مجھے کسی حساب کتاب یا مجموعی ترتیب کا کوئی خیال تو تھا نہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں ٹیری نے، جو ایک صاحبِ بصیرت مدیر ہیں، اس منصوبے کو بچا لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک جُڑی ہوئی کتاب ہے، اس میں ایک ڈرامائی کتاب کا گیسٹالٹ(حاشیہ: جرمن لفظ Gestalt جو ’ہیئت ‘اور ’مکمّل جسم ‘کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے) موجود ہے۔
ترجمہ: سید کاشف رضا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں