پرانی تحریریں کہیں کہیں ایسی تازہ ہیں کہ پرانی کم اور نئی زیادہ لگتی ہیں۔اس سال جون کے مہینے میں یہ تحریر اکہتر برس پرانی ہوگئی ہے۔اتنے برس میں رومانیت اور طنز دونوں کا بیڑہ اردو شاعری میں غرق ہوگیا ہے۔میرا جی کا یہ دیباچہ ادب میں طنز و مزاح نگاری، رومانیت، شعر شناسی،شاعر فہمی اور شخصیت کے مطالعے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔میرا جی کی تحریر بہت بے لاگ ہے،ایسی بے ساختہ کہ پڑھنے والے کے سینے میں سطروں کے ڈورے پٹ سن کی سلاخوں کی طرح گڑتے نہیں بلکہ ریشم کی طرح لپٹتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔اسی تحریر میں میراجی نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اور بھی دیباچے لکھے ہیں،کاش ایسا کوئی نظام ہو کہ ان تمام دیباچوں اور پیش لفظ وغیرہ کو بھی جمع و تدوین کے بعد اسی شکوہ کے ساتھ شائع کیا جائے جیسا کہ شاعروں کا کلیات سجا بنا کر چھاپا جاتا ہے۔اس سے کم از کم ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے ادیب اپنے معاصر ادیبوں اور ان کی تحریروں کے بارے میں کیا سوچتے تھے؟انہیں تخلیق و تنقید کے اس خطۂ خاص میں کیا بات پسند آتی تھی اور کیا گراں گزرتی تھی اور کیوں؟ دراصل یہ کام اس لیے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے کہ جن شاعروں پر ہمارے پرانے شاعروں اور تخلیق کاروں نے خامہ فرسائی کی اب وہ خود ایک خاص سطحی ادبی رو کے دوڑ پڑنے سے ورطۂ خفا میں جاپڑے ہیں۔راجہ مہدی علی خاں اردو ادب میں طنز اور مزاح نگاری کا بلا شبہ ایک قابل قدر نام ہے۔اقدار فن کو جانچنے ،پرکھنے اور سمجھنے سمجھانے کا کاروبار عصری ادب کے مطالعے سے ہی ممکن ہے،اسی سے اچھے برے کی تمیز ایک ادیب میں پیدا ہوتی ہے،ہمارے یہاں چلن یہ ہے کہ لوگ یا تو سنجیدگی اوڑھے رکھنے کے لیے معاصر شاعروں،افسانہ نگاروں اورادیبوں پر بات ہی نہیں کرنا چاہتے یا پھر اقربا پروری کے سبب ان کی بری اور بے ہودہ تخلیقات کو بھی ہفت انجم ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں۔میرا جی کی تحریر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مہدی علی خاں کی نظموں کو کس قدر سنجیدگی سے پڑھا اور ان پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔اس دیباچے میں انہوں نے ہجو گوئی اور مزاح نگاری کے درمیان موجود فرق کو جس طرح واضح کیا ہے وہ بڑے خاصے کی چیز ہے،ساتھ ہی ساتھ اسی دیباچے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ میرا جی عروضی اعتبار سے شاعری میں نئے تجربے اور طویل بحروں میں قصہ یا حکایت بیان کرنے یا نفسیاتی الجھنوں کے رساؤ اور محسوسات کے اظہاریے سے ایک خاص قسم کا لگاؤ رکھتے تھے۔
***
راجہ مہدی علی خاں کا یہ پہلا مجموعہ کلام ہے لیکن میرا یہ پہلا دیباچہ نہیں، اس کے باوجود میں اس وقت الجھن میں ہوں کہ شاعر کے بارے میں کچھ کہوں یا اس کے کلام کے بارے میں ۔اور یہیں سے سال پیدا ہوتا ہے کہ فن ک سمجھنا زیادہ ضرور ہے یا فن کار کو،آج کل کی الجھی ہوئی رواروی کی سطحی زندگی کے مد نظر شاید کوئی کہے کہ بنیادی فیصلہ تو یہی ہوگا کہ فن کو سمجھنا ہی کافی ہے لیکن ادب اور آرٹ کے اظہار اور ترجمانی کی تشریح کرتے ہوئے جدید نفسیات کے مبلغوں نے جس خوبی سے بعض اب تک انجانی باتوں کو سلجھایا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے فن کار کو سمجھنا بھی ضروری ہے نفسیات کو چھوڑ دیجیے تو ہوشمندانہ تنقید کا تقاضہ بھی تو یہی ہے۔تو یہ لیجیے۔
بعض حکما کا خیال ہے کہ ہر انسان کی فطرت اور ذہانت دو نمایاں پہلوؤں کی حامل ہوتی ہے،ایک عام انسان کی بات نہیں جو کھانے پینے،بیاہ کرنے اور بچوں کا باپ بننے کے بعد جوں توں زندگی کے دن پرے کرکے مر جاتا ہے۔یہ خیال ایک فن کار کے بارے میں ہے جو زندگی میں گھل مل جانے کے باوجود زندگی سے الگ رہ کر اس پر رائے زنی کرنے کا ایک ذریعہ ہے،جس کی ہستی کی نوعیت ہی اسکی شخصیت کے دو رخوں کا تقاضہ کرتی ہے۔چنانچہ اس مجموعہ کا مطالعہ بھی پہلی ہی نظر میں ظاہر کردیتا ہے کہ اس شاعر کی ذہانت کے بھی دو نمایاں پہلو ہیں۔ایک رومانی پہلو جس میں محبت اور جوانی کی میٹھی باتیں ہیں اور دوسرا حقیقت پرست جو بعض سماجی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے طنز و تضحیک کے نشتر چلاتا ہے۔لیکن فنکار کی طبیعت میں یہ دہری نشو و نما کیونکر ہوئی؟ بات یہ ہے کہ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا جاتا ہے اس کا شعور بھی گہرا اور وسیع ہوتا رہتا ہے اور وہ اپنے بچپن کی دنیا کو مٹتے دیکھتا ہے اور اس لیے جوانی کے اثرات سے اپنی ایک نئی دنیا بسالیتا ہے،یہ دنیا محبت کی رومانی دنیا ہوتی ہے،لیکن عمر کے ساتھ ایک دن ایسا آتا ہے کہ یہ دنیا بھی مٹتی دکھائی دیتی ہے ،اس وقت انسان زندگی کے عملی پہلوسے دوچار ہوتا ہے اور ہر بات کو صحیح قسم کی عینک سے دیکھنے لگتا ہے۔بچپن کی دنیا فہم و ادراک کے لحاظ سے کمتر درجے کی ہوتی ہے اور جوانی کی دنیا میں فہم و ادراک پر ابلتا ہوا جوش چھا جاتا ہے،نتیجہ یہ کہ ان دونوں زمانوں میں انسان مختلف باتوں کی اصلی قدریں نہ جاننے پاتا ہے نہ قائم کرنے پاتا ہے،سن شعور کی تیسری دنیا ہی انسان کو اس منزل تک لے جاتی ہے۔جہاں پہنچ کر ہم اچھے اور برے پر صحیح معنوں میں غور کرتے ہیں۔
راجہ مہدی علی خاں کی رومانی دنیا میں نگہت و یاسمین کا تذکرہ ہے اور نازنینیں بھی کبھی چلمن کے پیچھے سے اور کبھی چلمن اٹھا کر جھلکیاں دکھاتی ہیں۔اندھی جوانی کے جذبہ عشق و محبت کے بارے میں شاعر کا انداز نظر کیا ہے۔اسے معلوم کرنے کے لیے پہلی ہی نظم دیکھیے’’محبت اور جوانی‘‘ پہلے ہی شعر میں شاعر کا فلسفہ محبت معلوم ہوجاتا ہے۔
کس کے لیے پھرتا ہے مورکھ یوں آوارہ گلی گلی
صورتیں اور بھی ہیں دنیا میں کچھ ایسی ہی بھلی بھلی
گویا شاعر محبت اور جوانی کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے،شاید آپ پوچھیں کون سی آنکھ سے؟ تو اس کا جواب ہے دائیں آنکھ سے ،کیونکہ بائیں آنکھ کو بند کرکے تو وہ ایک شرارت آمیز تبسم کے ساتھ کبھی لنگڑے سیٹھ کی یار کا نقشہ کھینچتا ہے اور کبھی یونہی آنکھ مارتے ہوئے جنت (ہاں وہی خیالی جنت)تک جا پہنچتا ہے،بلکہ جب اس کی شرارت حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ جنت کو جاتے ہوئے یا شاید وہاں سے لوٹتے ہوئے کبھی کبھی دوزخ کی سیر بھی کرلیتا ہے۔
محبت کی نظموں میں مہدی علی خاں کا تخیل اکثر و بیشتر اس نزاکت کا حامل ہے جو ہمیں چینی یا جاپانی شاعری میں ملتی ہے۔بلکہ بعض دفعہ تو کسی نظم کا اختصار بھی ان ممالک کی شعری صورتوں سے مماثلت رکھتا ہے۔’طائران صحرا‘ کے نام سے جو چھوٹی نظمیں اس مجموعے میں شامل ہیں۔ان میں پہلی ہی نظم دیکھیے’’ایک منظر‘‘ ۔اس نظم میں جن چیزوں کا بیان ہے سب عالم جمادات یا عالم نباتات سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ صحرا ہے تو ویران ،دریا ہے تو خاموش،پہاڑ ہے تو چپ چاپ اور یوں ہر شے کی نباتاتی اور جماداتی کیفیت اور بھی گہری ہوجاتی ہے۔لیکن پہلے تین مصرعوں کی تصویر میں جب آخری دو مصرعوں کے رنگ شامل ہوتیہیں تو صرف دو لفظوں ’’بیٹھا تھا‘‘سے پورے منظر میں جان پڑ جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہ صرف پہاڑ ہی جیتی جاگتی کوئی چیز ہے،کوئی زندہ جسم ہے بلکہ شاید پہاڑ نہیں ہے ہمیں ہیں۔اسی حصے کی دوسری نظم۔
کس کی آنکھوں سے گرا ہے یہ سمندر۔یہ بڑا سا آنسو؟
اور ’ذرے کا احتجاج‘
اسی عالم میں میں بھی ہوں موجود
رابندر ناتھ ٹھاکر (ٹیگور)کی ایک مصرع کی چھوٹی نظموں کی یاد دلاتی ہیں۔ان سب نظموں میں جو تصویریت نمایاں ہے وہ اپنی اشاریت سمیت محبت کی بعض اور نظموں میں بھی ممتاز دکھاتی دیتی ہے۔اس کے علاوہ بے حقیقت بے جان چیزوں کو شخصی اور انفرادی رنگ دینا بھی مہدی علی خاں کی ممتاز شاعرانہ خصوصیت ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں میں احساس کی نفاست اور نرمی ایک خاص کیفیت رکھتی ہے لیکن رومانی نظمیں میرے خیال میں اس شاعر کی ذہنیت کا بنیادی عنصر نہیں ہیں کیونکہ طنز اور ہنسی کھیل سے راجا کو یا مہدی کو یا علی خاں کو ایک دلی تعلق ہے۔بلکہ یہی اس کے ذہن کی بنیادی خصوصیت بھی ہے۔جرمنی کے شاعر ہائنے کی ذہانت میں بھی انہی دو عناصر کا متضاد امتزاج تھا۔لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طنز اور تمسخر ایک ساختہ کیفیت نفسی ہے یا بے ساختہ اظہار روح؟ کیا ہنسی یا طنز سے بھی اسی طرح شاعری کی تخلیق ہوسکتی ہے جس طرح دوسری کیفیات ذہنی سے؟ مثلاً کسی پر دباؤ ڈالنا یا کسی کو بھڑکانا ایک قلبی یا روحانی کیفیت نہیں ہے بلکہ ایک ارادی عمل ہے،اس عمل سے خطابت کی تخلیق ہوسکتی ہ لیکن اس میں بنفسہ شعریت نہیں موجود ہے۔البتہ شعریت کو یہ اپنا معاون بناسکتی ہے۔طنز و تضحیک یا تمسخر کے لیے بھی یہی خصوصیات لازمی ہیں۔یعنی اس صورت میں بھی یا تو کسی پر دباؤڈالا جارہا ہوگا یا کسی کو برانگیختہ کرنے کا سامان ہوگا۔ہنسی مذاق یونہی پیدا ہوتا ہے۔ہنسی مذاق اصل میں اکیلے یا اوروں کے ساتھ مل کر ایک عملی انداز میں حظ اندوز ہونے کا نام ہے۔مذاق کے لیے ہم تصورات کو ایسے انداز میں ترتیب دیتے ہیں جس سے وہ جسمانی رد عمل پیدا ہوتا ہے جسے ہم ہنسی یا قہقہہ کہتے ہیں۔لیکن یہ انداز نظر شاعرانہ انداز نظر سے بالکل مختلف بلکہ ایک حد تک اس کا مخالف ہے،سید انشا کو ان کے ہنسی مذاق نے ایک بڑا شاعر ہونے سے محروم رکھا۔سودا محض اپنی ہجو گوئی کی وجہ سے میر تقی سے بازی نہ لے جاسکے۔بات یہ ہے کہ شاعر اپنی توجہ کو اپنی ہی ذات کی گہرائیوں پر مرکوز کرتا ہے۔اور جو باتیں اسے وہاں ملتی ہیں وہ انہیں الفاظ کی گرفت میں لانے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اپنے اسی لفظی نقشے سے دوسروں کو بھی غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ظرافت،طنز یا مزاح کا ماہر ہمارے پھیپھڑوں کو قہقہوں سے ورزش کراتا ہے یا کم سے کم ہمارے لبوں پر تبسم کی ایک لہر دوڑا دیتا ہے۔لیکن ہمارے دلوں پر اس کا اثر نہیں ہوتا شاعر ہمارے دلوں کے ساز سے احساسات کے نغمے چھیڑ دیتا ہے،شاعرانہ طبیعت میں ایک وقار ہوتا ہے،ایک مسرت ہوتی ہے،ایک زندگی ہوتی ہے لیکن اس زندگی کی آواز قہقہے کی صورت نہیں اختیار کرتی۔ہنسنے ہنسانے والوں کی طبیعت میں ایک لا ابالی ایک والہانہ کیفیت ہوتی ہے،وہ اس قسم کے فن کار ہیں،جیسے کوئی خطیب ہو۔دونوں کو اپنے عمل کی کامیابی کے لیے شاعرانہ تصورات سے مدد لینی پڑتی ہے۔لیکن ان کے عمل کا نتیجہ شاعرانہ صورت یا ایک جذباتی کیفیت میں نہیں برآمد ہوتا بلکہ اس سے ایک عملی قسم کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور چونکہ اس طرح وہ شاعری کو ایک ذریعہ یا آلۂ کار بنالیتے ہیں انہیں شاعر نہیں کہا جاسکتا۔سودا جب کہتا ہے:
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
تو یہ شاعری ہے۔لیکن جب وہ اپنے غلام سے کہتا ہے۔
’’اے غنچے! ذرالانا تو میرا قلمدان!‘‘
تو اس وقت وہ محض ایک ہجو نگار بن کر رہ جاتا ہے۔مطلب یہ کہ ہمارے پرانے ہجو نگاروں کا طریق کار یہی تھا کہ وہ جس چیز یا شخص کی ہجو مقصود ہو ایک خطیب کی طرح اس کے عیب گنوا دیتے تھے۔لیکن رفتہ رفتہ ہمارے ادب کی دوسری اصناف کی طرح ہجو نے بھی اپنی نشو نما میں ترقی کی طرف قدم بڑھائے اس سلسلہ میں اکبر الہ آبادی ہمارا پہلا طنز نگار شاعر ہے جس نے جو کچھ لکھا۔اس میں ان نئی سماجی قدروں کی مخالفت کی جو رائج ہوکر رہیں۔مگر جس طرح یہ مخالفت کی اس کا انداز بالکل نیا تھا۔محض عیب شماری اس نے چھوڑ دی،یہ طریقہ بظاہر نکتہ چینی کا براہ راست طریقہ ہے،لیکن اسی وجہ سے اس کا اثر کم ہے اس سے سامع کے ذہن میں قاری کے لیے ہمدردی آسانی سے نہیں پیدا ہوسکتی۔اسی لیے اکبر نے یہ انداز اختیار کیا کہ وہ صرف ایک بات بیان کرکے خاموش ہوجاتے اور اس میں تصویریت سے مدد لے۔مثلاً
پہن لے سایہ مری جاں اتار کر پشواز
زمانہ با تو نہ سا زو تو بازمانہ بہ ساز
یا
میں بھی گریجویٹ ہوں تو بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آکے لیٹ
یا
میرے لیے شراب یہاں بھی حرام ہے
اس شہر میں تو کوئی مجھے جانتا نہیں
ان شعروں میں نئے لباس،مغربی تعلیم اور چھپواں گناہ کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کی مخالفت کی گئی ہے لیکن عیب نہیں گنوائے گئے، صرف ہر جگہ موضوع کو ایک تصویر کی صورت میں پیش کردیا ہے۔نتیجہ؟ وہ تبسم جو ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ہمارے لبوں پر آتا ہے۔ان باتوں کی بیخ کنی میں زیادہ خوش گوار طریق سے کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔مہدی علی خاں بھی جب جنت کو خیالی کہنا چاہتا ہے تو وہ غالب کی طر یہ نہیں کہتا کہ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔بلکہ جس غیر مدلل انداز میں جاہل ملاؤں نے اس خیال کو ہمارے سامنے پیش کر رکھا ہے صرف اس کی تصویر کھینچ دیتا ہے اور ملا کو اس تصویر کے چوکھٹے ایسی مناسب جگہ اور ایسے سلیقے سے چپکا دیتا ہے کہ ہم ملاؤں کی بیخ کنی پر آمادگ کی بجائے یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ یہ تو چند بیکار قسم کے مسخرے ہیں،صرف ہماری دل لگی کا سامان،اپنی عمر پوری کرکے خود ختم ہوجائیں گے۔مرے کو مارے شاہ مدار۔اور ہم ان کی طرف ایک تبسم ایک قہقہے سے زیادہ توجہ ہی نہیں کرتے۔ظاہر ہے کہ کسی کو مٹانے کا بہترین طریقہ اس کی ہستی سے بے اعتنائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں مہدی کے اس طریقے کو پرانی ہجو نگاری کے مقابلہ میں بہتر سمجھتا ہوں۔
میرے اس خیال کی مثالیں تو آپ کو اس مجموعے میں مختلف موقعوں پر خود بخود مل سکتی ہیں۔لیکن وضاحت کے خیال سے دو چار نظموں پر سرسری نظر یہاں بھی ڈال لیتے ہیں۔مثلاً غنڈے ،قیدی اور کانے کے آنسو کو لیجیے۔
بظاہر یہ تنیوں نظمیں سپاٹ منظر ہیں۔خصوصاً کانے کے آنسو اور قیدی۔
قیدی کا قصہ ذرا پیچیدہ ہے۔لیکن طنز گہری نہیں۔اس کے مقابل میں کانے کے آنسو کا افسانہ ایک خط مستقیم ہے مگر طنز بہت زوردار ،محبت کے ایسے جذباتی موضوع کو اس چھوٹی سی نظم میں جس قدر مضحکہ خیز بنادیا گیا ہے وہ فن کار کی فنی قابلیت سے زیادہ اس کے دماغ کی کسی لہر ا کرشمہ معلوم ہوتا ہے۔’غنڈے‘ محض منظر ہے۔لیکن جیتا جاگتا چلتا پھرتا منظر۔اور یہ حرکت پہلے ہی مصرعے سے شروع ہوجاتی ہے۔
تاش کے پتے پھینکو یارو تاش کے پتے پھینکو یار
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع اور یہی حرکت آخر تک قائم رہتی ہے۔
اصل میں اس نظم کا منظر دوہرا ہے۔ایک وہ منظر جو ہم دیکھ رہے ہیں یعنی چند تاش کھیلتے ہوئے آوارہ انسان،سرراہ قہقہے لگاتے ،غپ اڑاتے اور دوسرا وہ منظر جو ان انسانوں،ان غنڈوں کو دکھائی دے رہا ہے یعنی لنگڑے سیٹھ کی محبوبہ قریب آتا ہوا پیکر۔کیفیت کے لحاظ سے ہلکی پھلکی ہونے کے باوجود یہ نظمیں فن کاری کے نقطہ نظر سے (میرا خیال ہے کہ)بہت اثر انگیز ہیں۔
ایسی ہی فنی خوبیوں کو دیکھنے کے لیے دو نظمیں اور لیجیے۔’’جنت کی سیر‘‘ اور ’’ملاقاتی‘‘ ۔’جنت کی سیر‘ کا ماحول پھیلا ہوا ہے، اس تصویر میں دائیں بائیں آگے پیچھے گرد و پیش سبھی کچھ ہیں اور جہاں دودھ کی جھیل ،آغوش حسیں ،پرکیف نظارے۔ان چیزوں سے جنت کے تصور میں وہ نرمی پیدا کی گئی ہے جو روایتی طور پر ہمارے تحت الشعور میں موجود ہے۔وہاں چورن کے پیڑ اور حلوے کے ڈھیر سے طنزیہ تاثر کو ابھارا گیا ہے۔ اور یہ ابھار اربھی نمایاں ہوجاتا ہے۔جب ہمیں پہلے ہی دو مصرعوں میں معلوم ہوجاتا ہے کہ راجہ مہدی علی خاں اور شیطان دونوں جنت کی دیوار پر چڑھ کر اونگھتے ہوئے ملا کو دیکھ رہے ہیں۔اس تصویر سے کسی حد تک اسکول کی یادآجاتی ہے اور ملا اسکول کا نامعقول مدرس اور شاعر اور شیطان دو شریر طالب علم بن جاتے ہیں۔’ملاقاتی‘ نفسی لحاظ سے زیادہ پیچیدہ ہے۔جنت کے عام تصور میں روایت کی رو سے نیک بندوں کی خدمت کو حوریں اور غلمان ہونگے۔لیکن شاعر کی نظر میں مولانا (خواہ یہ مولانا ہو یا کوئی ریاکار لیڈر)نیک بندہ نہیں ہے۔ایک ناپسندیدہ فرد ہے جو اس فانی دنیا میں شیطانی افعال کا ہی مرتکب ہوتا رہا ہے اور اسی لیے شاعر اب اسے ایک خیالی جنت میں پہونچا کر شیطان کو اس کے دروازے پر لاکھڑا کرتا ہے۔نظم کی طنز کو ’’خدمت گارپرانا‘‘ کے دو الفاظ ی اچھی طرح نمایاں کردیتے ہیں۔’چوری چوری‘ ،’آدھی رات ہے‘ اور ’کھٹ کھٹ کھٹ‘ کا صوتی تاثر۔یہ تینوں چیزیں مل کر ماحول کی تخلیق اور ترجمانی میں ہماری معاون بنتی ہیں۔
شاعر کی ایسی تمام نظمیں طنز ہیں معاشرت کے کسی نہ کسی پہلو پر،پرانے خیالوں کو نیچا دکھانے کے لیے۔ان نظموں میں فنکار نے جو انداز اختیار کیا ہے وہ تعریف کا تقاضہ کرتا ہے۔
سماج پر طنز کے علاوہ مہدی کی ایسی نظمیں ایک اور زاویے سے بھی قابل غور ہیں۔ان میں اکثر مافوق الفطرت تخیل کے مطالعے دکھائی دیتے ہیں۔اور یہ چیز سب سے زیادہ ’پیٹ اور جہنم‘ میں نمایاں ہے۔اس نظم کو پڑھ کر شاید بعض لوگ ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔لیکن حقیقتاً یہ نظم ادب کی اس حد پر جاکرنظم محسوس ہوسکتی ہے جہاں ادب برائے ادب ہے۔مکروہ چیزوں میں انسان کے لیے بچپن سے ایک چھپی ہوئی دلکشی ہوتی ہے۔فرانس کے شاعر چارلس باڈلےئر نے تو اس اقلیم کا سفر کرتے ہوئے اپنا انفاردی نظرےۂ حسن قائم کرلیا تھا،یعنی بدصورتی میں حسن۔مہدی کے یہاں وہ فلسفیانہ بہانے ہیں،محض سیدھا سادا اظہار ہے شیطان،کریہہ المنظر ملا،بدصورت گڈریا،غنڈے اور پھر لنگڑا سیٹھ یہ سب مافوق الفطرت عناصر ہیں جن کو ایک خاص انداز سے پیش کرکے شاعر نے تخیل کی ایک انوکھی دنیا بسائی ہے۔
اور اب ایک آدھ ایسی بات جو شاعر کو کہنی چاہیے تھی کتاب کی پہلی ترتیب اسی انداز میں تھی جیسے آپ متن کے حصے میں پائیں گے لیکن اس دیباچہ کے بعد ایک نئی ترتیب ذہن میں آئی۔وقت اور فالتومحنت سے بچنے کے لیے اس نئی ترتیب ا ظہار فہرست میں کردیا گیا
ہے۔فہرست میں نظمیں دوحصوں میں بنٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ایک حصے میں طنزیہ نظمیں ہیں اور ’’دوسرا رنگ‘‘ کے عنوان کے تحت رومانی نظمیں جو حقیقتاً شاعر کی ذہانت کا پہلا رنگ ہیں۔
میراجی
دہلی،4جون 1944
(مطبوعہ ساقی بکڈپو،دہلی،اشاعت اول)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں