بدھ، 9 دسمبر، 2015

دو باتیں/خورشید اکرم

میں نے تقریباسال بھر پہلے جب بہت سارے ادیبوں، شاعروں سے دس سوالوں پر مشتمل گفتگو شروع کی، تو ان میں خورشید اکرم صاحب سے بھی سوالات پوچھے۔انہوں نے دو سوالات کے جواب مجھے میل کے ذریعے دیے اور باقی آٹھ کو لکھ کر بھیجا۔میں نے سوچا تھا کہ جلد ہی انہیں ٹائپ کرکے بلاگ پر شیئر کروں گا۔ یقینی طور پر وہ سارے جوابات اتنے دلچسپ اور کسے ہوئے تھے کہ اس سے ایک طرف خورشید اکرم کی ادب کے حوالے سے شفاف فکر کی نمائندگی ہوتی تھی تو وہیں ان سے بہت سے معاملات میں اختلاف کے باوجود ہم سب کو سوچنے کے لیے کچھ نئے زاویے ملتے دکھائی دیے تھے۔مگر اسی دوران مجھےمکان شفٹ کرنا پڑا اور ان کے لکھے ہوئے وہ جوابات جو میرے پاس موجود تھے۔ غائب ہوگئے، اس کے بعد پھر میری ان سے یہ کہنے کی طاقت ہی نہ ہوئی کہ میرے ان سوالوں پر دوبارہ غور کرکے کچھ لکھ دیجیے،کیونکہ وہی جوابات انہوں نے بڑی محنت سے لکھے تھے، اور اس کے لیے اچھا خاصہ وقت لے کر اسے اپنی ادبی ذمہ داری سمجھ کر لکھا تھا۔ میں نے وہ پرچے بہت ڈھونڈے ، مگر انہیں نہ ملنا تھا نہ ملے۔بہرحال ان کے دو جوابات جو خاصے دلچسپ ہیں اور ادبی دنیا کے قارئین کو امید ہے کہ پسند آئیں گے، بلکہ افسانے کے حوالے سے تو کچھ مزید باتیں بھی ان کے پہلے جواب کو موضوع بنا کر کی جاسکتی ہیں، میں یہاں پوسٹ کررہا ہوں۔خورشید اکرم اور ادبی دنیا کے قارئین سے معذرت کے ساتھ ۔(تصنیف حیدر)

تصنیف حیدر: ہندوستان میں اس وقت کتنے ایسے لوگ آپ کی نظر میں ہیں، جو بہترین کہانی لکھ رہے ہیں؟کیوں؟

خورشید اکرم: ہمعصر ادب کے بارے میں کوئی بھی تھیوری، کوئی بھی نظریہ ، رائے قائم کرنا آسان ہے۔ اس کے برعکس ہم عصروں کے بارے میں وثوق سے کوئی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ اس کے باوجود اگر مجھ سے ہم عصر اردو افسانے کے تین نام گنوانے کو کہا جائے تو میں اول خالد جاوید ، و وئم صدیق عالم اور ان سے زرا فاصلے سے تیسرے نمبر پر شموئل احمد کا نام لوں گا۔ چوتھے نمبر پر کسے رکھوں اس کا فیصلہ میرے لئے مشکل ہو گا۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ جو بھی ہو تیسرے اور چوتھے کے درمیان فاصلہ بہت بڑا ہے۔وجہ؟ پہلی بات: کیا ان تینوں میں کوئی قدر مشترک ہے؟ میرا جواب نفی میں ہوگا۔ اہم سوال یہ کہ انہوں نے اردو افسانے میں کیا کوئی اضافہ کیاہے؟ میرا جواب اسی سوال میں مضمر ہے۔ خالد جاوید نے مٹھی بھر افسانے لکھے ہیں لیکن انہوں نے اردو افسانے کی روایت کو subvert کیا ہے جس طرح پریم چند نے، پھر منٹو، بیدی، کرشن، عصمت، قرۃ العین حیدر، سریندر پرکاش نے۔ بلکہ ان سب سے بھی ایک قدم زیادہ۔ اس خصوص میں وہ اور بیدی ایک دوسرے کے ہم پلہ مانے جا سکتے ہیں۔ خالد جاوید اپنے بالکل انوکھے وضع قطع کے لیکن بیحد عام کرداروں کے ذریعہ، کہانی کہنے کے انوکھے ا نوٹھے انداز کے ذریعہ اور سب سے بڑھ کے اپنے بیانیہ کے ذریعہ اردو کہانی کے ارتقا میں ایک نیا سنگ میل نصب کر دیا ہے۔ گہری فلسفیانہ فکر اور زبان کے غیر آرائشی استعمال نے انکے بیانیہ کو ایسا پیچیدہ اور تہدار بنا دیا ہے کہ اردو افسانہ میں ایسا تہدار بیانیہ بیدی کے سوا کہیں اور نہیں دکھائی دیتا۔ اس کے علاوہ جو چیز ان کی عظمت اور ان کے غیر معمولی ہونے کی دلیل و ضامن ہے، وہ ہے ان کا فکری نظام۔ اس معاملے میں اردو افسانے میں صرف بیدی اور منٹوان کے آگے معلوم ہوتے ہیں۔
صدیق عا لم کے یہاں نئی اور انوکھی قصہ گوئی ہے۔ اور اس کو بیان کرنے کے لئے ان کے پاس ایک بے حد کسامنجھا بیانیہ ہے۔ صدیق عالم کا بیانیہ فلسفیانہ فکر سے خالی ہے۔ لیکن زندگی کے مشاہدات کو بیان کرنے کے لئے کم و بیش منٹو کا طرز بیانیہ اختیار کیا ہے۔ جس میں انہوں نے تھوڑی سی غیر نستعلیقیت کا کھوٹ ملا کر اپنے لیے زیادہ کارآمد بنا لیا ہے۔اردو افسانے کے بیانیہ میں انہوں نے اس طرح چٹکی بھر اضافہ کیا ہے۔ جہاں تک ان کے فکری نظام کی بات ہے تو شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ آواں گارد نظریہ کے حامی ہیں۔ انکے یہاں دکھ اور سکھ ، محبت اور نفرت، جبر اور اختیار، معصومیت اور خباثت،حسن اور کراہت سبھی کچھ موجود ہے۔ فی نفسہ انکے یہاں کوئی ثقہ قدر نہیں ہے۔ مظاہر و موجودات کو وہ خالد کی طرح ایک کلیت میں نہیں دیکھتے( ان کی فلسفیانہ فکر ایسی مربوط نہیں ہے۔)لیکن وہ جس خیال سے بھی الجھتے ہیں ، اس کے متعلقات کو اچھی طرح اپنی گرفت میں لے کر۔ ان کے افسانوں کا رینج بڑا ہے۔
ان کے بعد اور ان سے زرا فاصلے پر ہیں شموئل احمد۔ شموئل کے جس وصف نے اردو افسانے میں اضافہ کیا ہے وہ ہے ان کی جرا ئتمندی۔ اردو افسانے نے منٹو سے بڑا جر ائتمند افسانہ نگار نہیں پیدا کیا۔ لیکن منٹو کی جرائتمندی ان انوکھے کڈھب، خانماں خراب، آوارہ، بوالعجب ، شکستہ کرداروں کے حوالے سے تھی جو زندگی کے مکھیہ دھارا سے باہر حاشیے پر ہوتے ہیں اور کم و بیش اس طرح کہ نہ سماج انہیں قبول کرسکتا ہے نہ وہ سماج کو۔ جنس کی نفسیات پر منٹو نے اتنا کچھ لکھا ہے اور اس کی بجا و بیجا اتنی تاویلیں ہو چکی ہیں کہ اب اگر کوئی جنس کی نفسیات پر کہانی لکھے تو اسے فورا منٹو سے بھڑا کر گھٹا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ منٹوکے ہمعصروں میں ممتاز مفتی نے جنس کی نفسیات پر کافی لکھا ہے ۔ محمد حسن عسکری اور محمد علی ردولوی اور ممتاز شیریں کے یہاں بھی جنسی نفسیات پر دو ایک مشہور کہانیاں ہیں ۔ لیکن ان سبھی افسانوں کی فضا تقریبا پاک و صاف رہتی ہے۔ ان کے افسانے جنسی فعل کی آلائش سے پاک رہتے ہیں۔ شموئل احمد کی جرات مندی اس بات میں نہیں کہ انہوں نے جنس پر افسانے لکھے۔ انہوں نے شہوانی جبلت کی گناہکاریوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ اور اس کو کامیابی سے برتا ہے۔ شہوانی جبلتوں کو اجاگر کرتے ہوئے ان کا قلم لذتیت کو بھی ساتھ رکھتا ہے لیکن بالکل باہری کنارے پر۔ جس کے لئے انہوں نے اردو افسانے کے بیانیہ کی شاندار روایت میں تھوڑی سی جدت پیدا کر کے اپنے موضوع اور مافی الضمیر کے غیر آلودہ اظہار، یا بیانیہ کی گنجائش پیدا کی ہے۔ جنس کو اس کی جبلی حیرانیوں اور وارفتگیوں، جوش و جنون کے ساتھ برتنا ان کے نزدیک تزکیہء نفس ہے، اس کو حیا کے پردے میں چھپانا اور اس کا غیر بے اختیارانہ، ہوشمندانہ،گھٹا گھٹا، ڈھکا چھپا اظہار گویا اس کو سڑانا ، آلودہ کرنا ہے۔ اور یہی وہ وصف ہے جو انہیں ہمعصر افسانے میں اہم مقام دلواتا ہے۔
اس کے بعد کون؟ نام کئی ہیں؟ سب سے بڑی دعویداری بنتی ہے مشر ف عالم ذوقی کی ۔ پھر ذکیہ مشہدی ہیں، ترنم ریاض ہیں۔ ذوقی کے بارے میں میری رائے بنتی بگڑتی رہی ہے۔ ان کی کتاب صدی کو الوداع کہتے ہوئے جب آئی تو مجھے لگا کہ وہ اردو افسانے میں کوئی بڑا کام کریں گے، اردو کو کوئی بڑی کہانی دیں گے۔ لیکن اپنے اس طرز کو انہوں نے ترک کر دیا۔ ان کے یہاں یہ پہلے بھی تھا ،اور بعد میں اور زیادہ ہوا کہ وہ ہمعصر زندگی کے سامنے کے مسائل و موضوعات پر ہی لکھنے لگے۔ میں اس خیال کا ہرگز ہامی نہیں کہ ہنگامی حالات و واقعات پر کہانی نہیں لکھی جا سکتی،یا یہ کہ ادب نہیں لکھا جانا چاہئے۔ میں نے اپنے ایک مضمون اردو افسانے کا سماجی ڈسکورس میں اسی بات پر بحث کی ہے کہ ہمعصر زندگی کے معاملات و مسائل کو بیشتر افسانہ نگار پکڑ نہیں پا رہے ہیں اور نتیجے کے طور پر وہ ’’ نفسیاتی ‘‘ کہانیاں لکھ لکھ کر مطمئین ہیں۔ یہ بات میں ذوقی کے بارے میں نہیں کہہ سکتا ۔ذوقی نے میرے خیال میں ہم عصر زندگی کو انگیز کیا ہے، اس سے الجھے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے ماننے والوں کا ایک بڑا حلقہ ہے۔ لیکن میرے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ اول تو یہ کہ وہ معاملے کی سنسنی خیزی تک ہی خود کو محدود رکھتے ہیں یا صورتحال کو سنسنی خیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ لگتا نہیں کہ انہوں نے کسی مسئلہ کے اندرون میں اتر کر اسے سمجھا۔ انگریزی محاورے کے مطابق وہ skin deep ادراک کے ساتھ قلم اٹھاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے دس برسوں میں ان کی کوئی کہانی ہمارے حافظے کا حصہ نہیں بن پائی۔ دوسری اور بڑی کمزوری جو ان کے یہاں در آئی ہے وہ یہ کہ کہانی کے بعض بہت ہی بنیادی خصوصیات۔پلاٹ، ماجرا،کردار، بیانیہ۔(جسے وہ بھی جانتے ہیں اور کوئی بھی جو کہانی لکھنے کے فن سے واقف ہے، جانتا ہے) سے انہوں نے حد درجہ بے توجہی برتی ہے۔ معلوم نہیں کہ ان کے مداحوں کا اتنا بڑا حلقہ جو اب ہندوستان سے زیادہ امریکہ،کناڈا میں ہے، ان باتوں کو توجہ کے لائق سمجھتا بھی ہے یا نہیں۔
ذکیہ مشہدی نے ادھر کافی متوجہ کیا ہے۔ میں نے ان کی کتاب پرتبصرہ لکھا اور انکی کہانیوں پر ایک مضمون بھی آدھا ادھورا لکھ رہا ہے(خدا کرے کہ جلد پورا ہو جائے) ۔ انہوں نے ہم عصر زندگی کے بعض پہلوؤں پر اپنی تمام تحدیدات کے ساتھ اور اس کے باوجودعمدہ کہانیاں لکھی ہیں۔ تحدید سے میری مراد یہ کہ ان کے مسائل و موضوعات سامنے کے ہیں۔ لیکن ان کی جو بڑی خوبی ہے وہ یہ کہ وہ نفس موضوع کو پوری طرح اپنی گرفت میں کرلیتی ہیں، کہانی نویسی کا کلاسیکی شعور رکھتی ہیں، بیانیہ چست درست رہتا ہے اور زبان کا قرار واقعی خلاقانہ استعمال کرتی ہیں۔ وہ ابتدائی سطح پر ہمارے عہد کا ایک طرح کا ڈوکومینٹیشن کرنے میں کامیاب ہیں۔ اور یہ کم بڑی بات نہیں ۔ وہ جھوٹ موٹ صرف اس لیے نہیں لکھے جا رہی ہیں کہ انہیں کہانی لکھنا ہے۔ وہ اپنی دیکھی بھالی زندگی کے تئیں اپنی سمجھ بوجھ کی حد تک پوری concerned ہیں۔ جس باعث میں ان کی تکریم کرتا ہوں۔ لیکن اس کے با وجود میں انہیں پہلی صف میں جگہ دینے کا حامی نہیں کیونکہ ان کے پاس نہ کوئی نئی آنکھ ہے، زندگی کو دیکھنے اور سمجھنے کی اور نہ ان کے یہاں کہانی نویسی میں کوئی ایسا تجربہ جو کبھی کبھی تو کسی معمولی کہانی لکھنے والے کے یہاں بھی مل جاتا ہے۔
ترنم ریاض کے افسانوں میں میں زندگی کا بہتر شعور و ادراک ملتا ہے۔ ان کا فکری کینوس مقابلتاً بڑا ہے اور اکثر بڑے رسان سے کہانی لکھتے ہیں۔ کبھی کبھی سیدھی لیک سے ہٹ کربھی کہانی لکھتی ہیں۔ تجربہ بھی کرتی ہیں۔ لیکن بیانیہ کی قوت سے کم آ گاہ ہیں۔ اکثر منظری (celluloid)بیانیہ کے ہنر کو زیادہ برتتی ہیں، جس کی وجہ سے کہانی طویل ہو جاتی ہے ،مطلب یہ کہ غیر ضروری طور پر۔
ان تینوں کا ذکر خصوصاً میں نے اس لئے کیا کہ ان کے بارے میں جو رائے میں قائم کروں اس کا کوئی جواز بن جائے۔
چنانچہ جہاں تک اگلے شمار کی بات ہے ، میں پہلے ذوقی کو ہی فوقیت دوں گا کہ ان کے پاس ’ صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘ کی کہانیاں ہیں۔ جو ذکیہ اور ترنم کے پاس نہیں۔ اس کے بعد ذکیہ مشہدی۔ ان کے پاس قصہ جانکی رمن پانڈے اور ماں جیسی کہانیاں ہیں جو ترنم ریاض کے پاس نہیں۔ ترنم ریاض کے پاس ’ساحلوں کے اس طرف‘ جیسی کہانی ہے جو اور لکھنے والوں میں سے کسی کے پاس نہیں۔
میری یہ رائے اپنے ان ہمعصروں (اگر آپ مجھے بھی چھوٹا موٹا افسانہ نگار سمجھیں تو!) کے بارے میں ہے جو پچھلے پندرہ بیس برسوں میں سامنے آئے۔ اس عرصے میں بیس پچیس اور بھی افسانہ نگار سامنے آئے ہیں اور جن میں سے بیشتر سے میرے ذاتی تعلقات ہیں۔ لیکن تفصیلی گفتگو کا یہ محل نہیں۔ جن کا خصوصی ذکر ضروری تھا اپنی بات کو وہیں تک محدود رکھا۔ سید محمد اشرف ہم سے سینئر افسانہ نگار ہیں۔ بہت کم لکھ کے بھی انہوں نے اپنی ایک ایسی جگہ بنائی ہے جو انہیں کے لئے مخصوص ہے۔ البتہ معین الدین جینا بڑے کے بارے میں کچھ زیادہ سوچ بچار کرنا چاہتا ہوں لیکن ایک مجموعہ کے بعد وہ کہانی نویسی سے تائب ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے اور ہر اس افسانہ نگار کے لئے اپنے دل میں کم یا زیادہ عزت کو جگہ دیتا ہوں جس نے ایک بھی اچھی کہانی لکھی ہے حتی کہ اختر آزاد کے لئے بھی۔ فرداً فرداً سب کا نام نہ لینے کے لئے میں ان سبھی ہمعصر یا کچھ بعد کے افسانہ نگاروں سے معذرت خواہ ہوں۔ پچھلے تیس برس کے اردو افسانہ کی تاریخ لکھنے کا ارادہ ہے، وقت ملا استعدادہوئی اور استطاعت پائی تو یہ قرض بھی چکا دوں گا۔

تصنیف حیدر:ہمارے یہاں سرکاری رسالوں کاادبی معیار اتنا خراب کیوں ہوتا ہے؟

خورشید اکرم: چند سال پہلے ذہن جدید نے ادبی صحافت پر ایک سمینار کیا تھا۔ میرا موضوع تھا ۷۰ سے ۲۰۰۰ تک کے رسائل کا جایزہ۔ بعد میں وہ مضمون ذہن جدید میں شائع ہوا اس کا ایک حصہ جو سرکاری رسائل و جرائد سے متعلق تھا وہ میں آپ کو سناتا ہوں: ’’۱۹۸۰کے آس پاس یکے بعد دیگرے ہندوستان کی تقریباً تمام ریاستوں میں جہاں اردو بولنے،لکھنے اور پڑھنے والوں کی ایک قابل لحاظ آبادی تھی، ریاستی اردو اکادمیاں قائم کی گئیں۔ مغربی بنگال،بہار، اترپردیش ، ہریانہ، آندھرا پردیش،کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، راجستھان، دہلی،گجرات، جموں وکشمیر۔ ان میں سے کئی اکادمیوں نے اپنے اپنے رسالے شائع کیے۔ لیکن یہ رسالے نہ ہم عصر ادب کو متاثر کرسکے نہ ہم عصر ادیبوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہے۔ اکادمیاں جن کا سب سے بڑا مقصد ادب عالیہ کو فروغ دینا ہوتا ہے ادبی اعتبار سے انتہائی معمولی قسم کے رسائل نکالنے کے سوا کچھ نہ کرسکیں۔ ان رسائل کے پاس جیسے نہ کوئی واضح مقصد ہے نہ پالیسی۔ سرکاری وسائل کے باوجود رسالہ ’ایوان اردو‘(دہلی اردو اکادمی) کے علاوہ کوئی اور رسالہ پابندی سے نہیں شائع ہوتا۔ کسی واضح مقصد اور پالیسی کے فقدان کا اثر اس رسالے کی ابتدا میں ہی اس پر پڑگیا تھا۔ دھیرے دھیرے یہی اس کی پہچان بن گیا۔۔۔ دیگر اکادمیوں کے ادبی رسائل کا معاملہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔ جن رسالوں کا کوئی باضابطہ ایڈیٹر نہ ہو اور جن اداروں کو اپنے نام کی ’معنویت‘ کا کوئی حقیقی احساس نہ ہو، ان سے کسی سنجیدہ بات کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ادب سے گہرا اور سنجیدہ شغف رکھنے والے ان رسائل میں اپنی تحریر یں بھجوانا پسند نہیں کرتے۔ یہ ایک المیہ ہے ۔ کل کا مورخ شاید یہی لکھے گا۔کرناٹک اردو اکادمی کا سہ ماہی رسالہ اذکار پچھلے دو برس سے پابندی سے شائع ہو رہا ہے ۔ اکادمیوں کے رسائل سے متعلق درج بالا رائے کا اطلاق اس رسالے پر نہیں ہو تا۔ یہ حقیقی معنوں میں ادب عالیہ کی اشاعت و فروغ کا رسالہ ہے ۔‘‘ یہ رائے تب کی تھی جس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہے۔ البتہ اذکار کے بارے میں اپنی رائے میں تھوڑی سی ترمیم کرنا چاہوں گا۔ وجہ وہی کہ نہ کوئی واضح مقصد ہے نہ پالیسی اور نہ کوئی باضابطہ ایڈیٹر۔ اس میں آپ کتاب نما کو بھی جوڑ لیں یونیورسیٹیوں کے جرنل کا یہاں ذکر اس لیے نہیں کہ رسائل و جرائد سے آپ کی مراد جو ہے ، یہ ان سے قطعاً الگ ہیں۔ اب رہ گئی بات سب سے بڑے سرکاری رسالہ یعنی آجکل کی تو اس بارے میں جو لکھا تھا وہ بھی آپ کے سامنے رکھ تاہوں:’’ آج کل کا مسئلہ ہم عصریت سے زیادہ ادبیت تھا۔آج اگر کوئی یہ دیکھنا چاہے کہ پچھلے پچاس برسوں میں اردو ادب کن فکری آویزشوں اور بحثوں سے گزراتو آ جکل کے صفحات اس کے لیے معاون ثابت نہ ہوں گے۔اس رسالے نے ادب عالیہ کو اپنے صفحات پرجگہ دی جو تمام مباحثوں اور مناقشوں سے گزر کر تخلیقی تجربے میں ڈھل گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کے سنجیدہ معاملات و موضوعات پر اگر آپ کو بہترین تنقیدی وتحقیقی مضامین کی تلاش ہو تو آج کل کو دیکھ لیجئے۔ بے شمار قابل ذکر نظمیں، غزلیں، افسانے، مضامین جو آج ہماری ادبی تاریخ کا حصہ ہیں آجکل میں شائع ہوئے۔80 کی دہائی میں راج نرائن راز کی ادارت میں یہ سب سے پُر وقار ادبی ماہ نامہ بن گیا تھا۔ آجکل ادبی صحافت میں اب بھی ایک بلند مینار ے کی طرح کھڑا ہے جس کی عظمت کا سب سے بڑا نشان یہ ہے کہ یہ آج بھی اردو کا سب سے کثیر الاشاعت رسالہ ہے جس کے قارئین کا حلقہ سب سے بڑا اور وسیع اور متنوع ہے۔‘‘ وجہ ایک تو یہ کہ جوش ملیح آبادی اس کی پہلی نہیں تو کم از کم سب سے بڑی پہچان آج بھی ہے۔ اور آج بھی اگر یہ معتبر ہے تو بیش از بیش اس باعث کہ اس کے پاس واضح مقصد ہے ، پالیسی ہے اور کوئی باضابطہ ایڈیٹر ہوتا ہے۔
اس خصوص میں کوئی اگر نیا دور کی شمولیت کی بات کرے تو اس سلسلے میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ یہ سرکاری سرپرستی میں شائع ہونے والے دو دیگر رسائل تعمیرہریانہ اور پروازِ ادب ، جو کالج کے طلبا کے مذاق پرپورا اترنے والے اچھے خاصے رسالے تھے، کے مقابلے یقیناًزیادہ سنجیدہ تھا/ ہے لیکن افسوس کہ ادبی صحافت کے منظر نامے میں یہ اپنا کوئی بڑا یا منفردمقام نہیں بنا پایا۔‘‘

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *