جمعرات، 10 دسمبر، 2015

ظفر سید کی نظمیں

یہ تو سچ ہے کہ نظم پڑھنا ایک الگ تجربہ ہے، اس پر غور کرنا دوسرا اور اس کی تعبیر فراہم کرنا تیسرا اور شاید ایک غیر ضروری سا تجربہ معلوم ہوتا ہے۔نظم وہ ہے جو کہی گئی ہے، وہ اپنے اندر آباد ہے، شاعر کو محض داد دینے یا کوسنے کے لیے اس کی تعبیر و تنقید کا دفتر لگانامیری نظر میں بہت اچھی بات نہیں ہے۔میں نہایت اہم تخلیقات کی معروضی اور غیر معروضی دونوں قسم کی تنقیدات کو ان کے حق میں خراب میں تصور کرتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری اپنے اندرون سے باہر آکر پھیل جاتی ہے، جس طرح سیال کا حسن ، اس کو سکھا کر بنائی گئی تختی کا حسن نہیں ہوسکتا ، اسی طرح شاعری کا حسن اس کی تعبیر میں واضح ہونا ممکن نہیں۔ظفر سید عرف زیف سید کی یہ نظمیں مجھے بہت پسند آئی ہیں، اس لیے میں ان کی تعبیر پر بہت زور نہیں دوں گا، ہر قاری کی ایک آنکھ ہوتی ہے، جس کا جنم قاری کے مطالعے کے شوق کی بدولت ہوتاہے۔اب آپ ان نظموں کو کس طور پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ، یہ بالکل الگ بات ہے، مگر ان میں سے چند مخصوص موضوعات پر ہیں اور کچھ میں نظم ہونے والے واقعات استعاراتی نوعیت کے ہیں،اب ان واقعات کی تخلیق کے پس پشت کون سے عناصر ہیں، ان پر نظم کے گہرے مطالعے کے بعد ہی کچھ بات ہوسکتی ہے۔میں نے ان نظموں کے لیے شاعر سے اجازت نہیں لی ہے، اور یہ نظمیں مجھے ایک دوسرے بڑے فنکار کے ذریعے ملی ہیں۔دیکھتے ہیں ان پر آپ کی کیا رائے ہے۔شکریہ

پلوٹو

مرے پیارے بچے
بڑا ظلم تم پر ہوا ہے
بہ یک جنبشِ سر تمہیں اپنی مسند سے معزول ہونا پڑا ہے
سمجھ میں نہیں آتا ایسی خطا کیا ہوئی تم سے
مانا کہ تم اپنے بھائیوں سے ٹھگنے تھے
یا پھر تمہارا ٹھکانا مقرر نہیں تھا
تم اپنی حدوں سے بھٹک کر کسی اور کے دائرے میں
درانداز ہوتے تھے

میں جانتا ہوں تمہارے بدن پر سے اندوہ کا سیل گزرا ہے
لیکن مری بات کا تم برا مت منانا
اگر میں کہوں یہ کہ تم پہلے ہی دن سے اس مسندِ عالیہ کے تقدس
کے لائق نہیں تھے
سو جتنے برس تم نے اس سوانگ میں کروفر سے گزارے ہیں
ان پر قناعت کرو

اور زمیں کے کسی دورافتادہ گوشے میں
مکتب کو جاتے ہوئے ایک بچے کی آنکھوں سے
یہ بات سن کر
اگر ایک آنسو گرا ہے
اسے سینت کر طاقچے میں سجا لو
خلاؤں کے یخ بستہ بے نور پاتال میں یہ ستارہ تمہارا سہارا بنے گا
***

برف

زمیں پر
پتی
پتی
گر رہی ہے برف
بیری کا اکیلا
پیڑ
چاندی کے شگوفے اوڑھ کر
ساکت
کھڑا ہے
گاؤں سناٹے کی بکل مار کر سوچوں میں گم ہے
میرے آتش دان میں انگار بھوبل اوڑھ کر دبکے پڑے ہیں
اک کبوتر گاؤں بھر میں
پھڑپھڑاتا
اڑ رہا ہے
***

نیند

ایک کبوتر
نیل سمندر
کے ساحل پر
دم لینے کو
اترا پل بھر
لیکن خوابوں
کی چھتری کو
جال سمجھ کر
ایسا پلٹا
دھوپ چڑھے تک
گھر نہیں لوٹا
***

شکاگو

بڑے ملک کے اک بڑے شہر کی
تنگ و تیرہ گلی میں کھڑا ہوں
فلک
اونچے برجوں کے بھالوں سے کٹ کر افق تا افق کرچی کرچی پڑا ہے
زمیں
پاؤں کے نیچے بدمست کشتی کی مانند ہچکولے کھاتی ہے

اور میں کھڑا سوچتا ہوں
کہ دستار کو دونوں ہاتھوں سے تھاموں
کہ فٹ پاتھ کی گرتی دیوار سے
اپنے سر کو بچاؤں
***

دیوار

سمندر خان، اک پشتو کا شاعر
جا رہا تھا گاؤں سے دور ایک ویرانے میں
یک دم اک جھپاکا سا ہوا،
اور ذہن کے پردے پہ اک دھندلا ہیولا بننے اور مٹنے لگا
پر شومی ِقسمت، قلم ہی جیب میںتھا اورنہ کاغذ کا کوئی پرزہ
سمندر خان رک کر، اور اک پتھر پہ ٹک کر، میچ کر آنکھوںکو
دنیا اور مافیہا سے بیگانہ ہوا

پھر شام کو گاؤںکے لوگوں نے عجب نظارہ دیکھا
ڈھلتے سایوںمیںسمندر خان، وہ پشتو کا شاعر
ڈگمگاتا، ہانپتا، اپنے پسینے میںنہاتا
پیٹھ پر دو من کی اک چٹان لادے
گاؤں کی سرحد میں داخل ہو رہا ہے

اور اس کے بعد عادت بن گئی اس کی
سمندر خان ویرانے سے بھاری سل
کوئی جب تک اٹھا کے گھر نہ لاتا تھا
تو اس پر نظم کی اک سطر تک القا نہ ہوتی تھی

سو رفتہ رفتہ اس کی کوٹھڑی، دالان اور چھت
ان گھڑی بے ڈھب سلوں کے بوجھ سے دبتے گئے
اک دن سمندر خان، وہ پشتو کا شاعر
کھردری نظموں کے اس انبار کے نیچے دھنسا پایا گیا
***

داستاں گو

میر باقرعلی
تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی؟
شاہ گل فام گنجل طلسموں کی گتھیوں کو سلجھاتا
صرصار جنگل کے شعلہ نفس اژدروں سے نمٹتا
بیابانِ حیرت کی بے انت وسعت کو سر کر کے
پہرے پہ مامور یک چشم دیووں کی نظریں ?بچا
سبز قلعے کی اونچی کگر پھاند کر
مہ جبیںکے معنبر شبستان تک آن پہنچا ہے
اور اس طرف حق و طاغوت مدِ مقابل ہیں
آنکھیں جدھر دیکھتی ہیں کلہاڑوں کی، نیزوں کی، برچھوںکی فصلیںکھڑی لہلہاتی نظر آ رہی ہیں
جری سورما آمنے سامنے ہنہناتے ، الف ہوتے گھوڑوں پہ زانو جمائے ہوئے منتظر ہیں
ابھی طبل پر تھاپ پڑنے کو ہے
اور ادھر شاہ زادہ طلسمی محل کے حسیں دودھیا برج میں شاہ زادی کے حجلے کے اندر
ابھی لاجوردی چھپرکھٹ کا زربفت پردہ اٹھا ہی رہا ہے
مگر میر باقر علی ۔۔تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی
راہ داری، منقش دروبام، ست رنگ قالین، بلور قندیل، فوارہ بربط سناتا
جھروکوں پہ لہراتے پردوں کی قوسِ قزح
میمنہ، میسرہ، قلب، ساقہ، جناح
آہنی خود سے جھانکتی مرتعش پتلیاں
رزم گہ کی کڑی دھوپ میں ایک ساکت پھریرا
چھپرکھٹ پہ سوئی ہوئی شاہ زادی کے پیروں پہ مہندی کی بیلیں۔۔۔
فصاحت کے دریا بہاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔
بلاغت کے موتی لٹاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔
مگر میر باقر علی داستاں گو، سنو
داستاں سننے والے تو صدیاں ہوئیں اٹھ کے جا بھی چکے ہیں
تم اپنے طلسماتی قصے
تم اپنے طلسماتی قصے کے پرپیچ تاگوں میں ایسے لپٹتے گئے ہو
کہ تم کو خبر ہی نہیں ۔۔۔
سامنے والی نکڑ پہ اک آنے کی بائیسکوپ آ گئی ہے !
***

سانپوں کا شہنشہ

گوگا سائیں، ذات کا چوہان، سانپوں کا شہنشہ
سارا دن جنگل میں جا کے
کالے پھنیئر، ڈھائی گھڑیے ، سنگ چور اور کوڑیالے
خالی ہاتھوں سے پکڑ کر
بھر کے بوری میںکمر پر لاد کر گھر لوٹتا تھا
رات کو وہ اینٹھ کر ان شوکتے پٹھوں کو
اپنی چارپائی میں بنا کرتا تھا
اور اس لجلجے ، پھنکارتے بستر پہ ساری شب
مزے کی نیند سوتا تھا
سویرے سانپ اس کی چارپائی سے نکل کر
گاؤں بھر میں پھنپھناتے تھے
اور ان کی سرسراہٹ سے سبھوں کی چھاتیوں میں زلزلے لرزہ مچاتے تھے
یہ منظر گوگا سائیں دیکھتا تھا
اور اس کے قہقہوں کی سرمئی چمگادڑیں مستی میں آ کے رقص کرتی تھیں
کئی برسوں سے یہ معمول جاری تھا
مگر پھر سانپ آخر سانپ ہے آخر
سو اک شب سرپھرا پھنیئر کوئی
سائیں کو گہری نیند کے پاتال میں پا کر
بڑی آہستگی سے آستیں سے نکلا اور پھن کاڑھ کر بچھو کی مانند ڈنک مارا
سارا گاؤں تاڑتا تھا
گوگا سائیں کرب کی شدت سے دیواروں پہ سر اپنا پٹختا، چیختا پھرتا تھا
زہری کوڑیالے ، ڈھائی گھڑیے ، سنگ چور، افعی
بھڑوں کی طرح گوگا سائیں کے پیچھے لگے تھے
منتروں کے شبد اس کی جیبھ سے لٹکے ہوئے تھے
اور بدن ڈنکوں کی نیلی سوئی سے گودا ہوا تھا
آج کل دن رات گوگا سائیں، سانپوں کا شہنشہ، ذات کا چوہان
اپنے جھونپڑے کے ایک کونے میں
پڑا دیوار کو تکتا ہے
اگر رسی کا سایہ بھی سرکتا ہے
تو دس دس گز کلیجہ گوگے سائیں کا تھلکتا ہے
***

ردی

سموسوں کی ریڑھی
سموسوں کی ریڑھی سے آگے
گھڑی ساز کا ٹوٹا کھوکھا
گھڑی ساز کے ٹوٹے کھوکھے سے آگے
کتابوں کی دکان
ردی کتابوں کی دکان
جس میں پرانے رسالے ، کرم خوردہ ناول، پھٹی جلد والی نصابی کتابیں
خجالت زدہ لغزشوں کی طرح بھولی بسری ہوئی
کہنہ لکڑی کے ریکوں میں ٹھونسی ہوئی
اک رسالہ اٹھاؤ تو مٹی کا بادل امڈتا تھا

مگر سال دو سال بعد آپ ہی آپ
ردی کتابوں کی دکان میں
چمچماتی، لشکتی کتابوں کی اک کھیپ آتی
مجلد صحیفے ، نفاست سے کاڑھے ہوئے گردپوشوں میں محفوظ نسخے
نئی کھیپ کی یہ کتابیں الگ کاؤنٹر پر سلیقے سے نقشہ جماتیں
پرانی کتابوں کو نخوت بھری بے نیازی سے تکتیں

مجھے ایک دن شیخ رحمت علی(مالکِ ایں دکاں)نے بتایا
کہ جب بھی کتابوں کا عاشق کوئی اس جہاں سے گزرتا ہے
اور اس کی اولاد کو اپنے مرحوم ابا کے کمرے کو بچوں کا بیڈروم، گودام، مہمان خانہ وغیرہ
بنانے کا نادر خیال آتا ہے تو
تڑوا کے مرحوم کے شیلف
عشروں کی محنت ،ورق در ورق جمع کردہ خزانہ
مرے پاس کاروں میں بھر بھر کے لاتے ہیں
دھندا اسی رنگ سے چل رہا ہے

بہت خوب دھندا ہے یہ شیخ رحمت
مگر یہ کتابیں، مری یہ کتابیں
مرے روز و شب کے مڑے کونوں والے کیلنڈر
کسی کارنس پر پڑی خستہ یادوں کے البم
(کہ رنگینیاں جن کی گھل گھل کے کاغذ میں حل ہو گئی ہیں)
تپائی پہ سپنوں کی دیمک زدہ جنتری
ارادوں کی الماریوں میں دھری کچے پکے سے منصوبوں کی فائلیں
تشنہ ارمانوں، خفتہ تمناؤں کے ادھڑے ادھڑے رجسٹر
(کہ جن کے ورق پچھلی نقلِ مکانی میں جانے کہاں کھو گئے تھے )

شیخ رحمت علی
سائبر دور میں ایسی ردی کو
ردی کی دکاں ملے گی؟
***

سرخ ہندی سردار بنام جارج واشنگٹن


بڑے سردار واشنگٹن نے اپنی راج دھانی سے مجھے سندیس بھیجا ہے کہ میں اپنے قبیلے کی زمینیں بیچنا چاہوں تو وہ اس کا بڑا معقول ہدیہ دینے کو تیار ہیں۔

لیکن میں بیٹھا سوچ میں گم ہوں۔ سفید انساں بڑا ہشیار ہے لیکن، زمانے میں زمیں بھی بیچی جاتی ہے ؟ بھلا دھرتی کا بھی بیوپار ہوتا ہے ؟ زمیں میں نے خریدی ہی نہیں، میرا قبیلہ اس پہ صدیوں سے بسیرا کرتا آیا ہے ، اسی کی خاک میں میرے سبھی اجداد کی بوسیدہ خستہ ہڈیاں محفوظ ہیں، میں کس طرح سے سودا کر لوں اس زمیں، اس خاک کا، ان ہڈیوں کا؟

اور ان کو بیچنا چاہوں بھی تو، بتلاؤ اس دھرتی پہ اٹھلاتی ہوا کا دام کیا دو گے ؟ جو نٹ کھٹ ندیاں اس پر مچلتی، کھیلتی، اک دوسری کو چھیڑتی، دریا کی چاہت میں برہ کے گیت گاتی بہہ رہی ہیں، اور اس کے گل بنوں میں یہ جو الھڑ ہرنیوں کی ڈاریں مستی میں کلانچیں مارتی پھرتی ہیں، جن کو دیکھ کر اوپر سے کونجوں کی تکون اک ثانیے کو اپنی منزل سے بھٹک جاتی ہے ، اور کلکاریاں بھر کر کسیلے کالے کوسوں کے سفر پر پھر سے جٹ جاتی ہے ۔۔۔ ان کا دام کیا ہو گا؟
یہاں کے سبزہ زاروں کی ہری مٹیالی چادر پر سنہری، ارغوانی تتلیاں قوسِ قزح اپنے پروں سے کاڑھتی ہیں اور سلونا جھٹ پٹا جب رات کے کاجل میں گھلتا ہے تو جگنو مشعلیں تھامے ہوئے خوشبو سے بوجھل جھاڑیوں کے بیچ میں چُھپن چھپائی کھیلتے ہیں، آخر ان کا بھی تو اس دھرتی پر کچھ حق ہے ۔ یہ سب میری طرح، میرے قبیلے کی طرح اس سرزمیں کے باسی ہیں، پھر ان کا عوضانہ بھلا کیا ہے ؟

سفید انساں بڑا ہشیار ہے ، لیکن مجھے لگتا ہے وہ دن آنے والا ہے جب اس دھرتی کے سب سے آخری کنج میں بھی آدم باس بس جائے گی، جب ہر اک پرندے کو، چرندے کو، درندے کو سدھایا جا چکا ہوگا، فضا جب بولتی لہروں کے لچھوں میں الجھ کر سسکیاں لے گی، مہا ساگر کا سینہ کشتیوں کے خنجروں سے چھلنی ہو جائے گا۔

تب تم عافیت کے ایک لمحے کو بھی ترسو گے ، اور اس لمحے کو پانے کے لیے سب جمع پونچی داؤ پر رکھ دو گے

لیکن
وقت کا کیا مول آنکو گے ؟
***

صحارا

ابھی چوتھا درویش اپنی کہانی سنا ہی رہا تھا کہ یک لخت ہی پانچویں کھونٹ سے ایک جوگی برآمد ہوا اور الاؤ کے نزدیک جا، آلتی پالتی مار کر بیٹھ کے اور گلا صاف کرکے یہ کہنے لگا:
چھوڑو رہنے بھی دو اپنے بھوتوں کے پریوں کے جنوں کے فرسودہ قصے ، بھلا ان میں رکھا ہی کیا ہے ؟ زمانہ کہاں سے کہاں تک چلا آیا ہے ، آج کے دور میں ان کے چکر میں دو سال کا کوئی بچہ ہی آئے تو آئے ۔
سنو داستاں میری، کانوں سے کم اور دلوں سے زیادہ کہ اس میں تمہاری کتھاؤں کا وہ سبزطوطا ہے اب جس کے خوش رنگ دھندلا گئے ہیں۔ سنو، یہ کہانی ہے اک پیڑ کی جو صحارا کے سینے پہ صدیوں سے یوں ایستادہ تھا، جیسے اماوس کی تاریک شب میں بشارت کی کرنیں۔
اک اعزاز حاصل تھا اس کوکہ یہ ساری دنیا کا سب سے اکیلا شجر تھا۔ یہ یکتا، یہ تنہا شجر، جس کے چاروں طرف چار سو کوس کے دائرے میں کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں تھا۔
یہ یکتا، یہ تنہا شجر سالہا سال سے اس بیاباں کی بخشی ہوئی ہر صعوبت کو ہنس ہنس کے سہتا تھا، دھرتی کے سینے کے اندر گزوں تک جڑیں اپنی پھیلا کے پانی کی ہر آخری بوند تک سینچ لاتا تھا اور اس کو ممتا کے آنچل سی مشفق، گھنی چھاؤں میں ڈھال کر راہیوں کے سروں پر سجاتا تھا۔
جب بھی کبھی ’آغادِیز‘ او ر’ بِلما‘ قبیلوں کے سوداگروں کے لدے کارواں اس علاقے میں آتے تو ان کے شکستہ مسافر گھڑی دو گھڑی اس کی چھاؤں میں سستاتے ، اپنا پسینہ سکھاتے تھے ۔
یا پھر کبھی رات کو بھولا بھٹکا کوئی قافلہ اس طرف آ نکلتا، تو اس کے نمک اور ریشم کے تاجر شجر کے تنے سے کمر ٹیک کر اپنے قہوے کے فنجانوں سے چسکیاں لے کے تاروں کی منڈلی کو حیرت سے تکتے تھے ۔ صحرا کی پہنائی میں پھیلے اسرار کی داستانیں سناتے سناتے تھکے راہیوں کے نِنداسی پپوٹوں پہ خوابوں کی شبنم اترتی تھی۔
پھر کیا ہوا، رفتہ رفتہ زمانہ بدلنے لگا اور صحارا ترقی کے فیضان سے بہرہ ور ہو گیا، اس کی وسعت میں اونٹوں کی مسحور کن گھنٹیوں کی جگہ گھرگھراتے ہوئے انجنوں کی صداؤں نے لے لی۔
پھراک دن کوئی بے مہار اور بدمست چھکڑا اکیلے شجرکے ستم آشنا جسم کو بے دھیانی میں ٹھوکر لگا کر کہیں چل دیا۔
اور اگلے سویرے وہاں سے ’طراقی‘ قبیلے کا اک شخص گزرا تو اس کو یقین ہی نہیں آیا آنکھوں پہ اپنی۔۔۔ وہ ممتا کا چھتنار آنچل، وہ صحرا کا قطبی ستارہ، زمیں پر کسی بے کفن اور گمنام لاشے کی مانند پڑا تھا۔
یہ کہہ کر وہ جوگی بنا کچھ کہے اور سنے دھند میں کھو گیا اور درویشوں نے ہڑبڑا کر جو چاروں طرف اک نظر کی تو دیکھا کہ اب چارسو کوس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے سب کرہ اپنے گھیرے میں لپٹا چکا ہے ، یہاں سے وہاں چار سو لق و دق دشت پھیلا ہوا ہے ، جہاں پر کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں ہے ۔


1 تبصرہ:

Ali Muhammad Farshi کہا...

زیف سید ہمہ پہلو شخصیت ہیں۔قلم و مو قلم پر تو ان کی دسترس مسلم ہے ہی، تاہم فنون کے جملہ شعبوں کے بارے میں بھی ان کا مطالعہ حیرت ناک حد تک وسیع ہے ۔ میرے خیال میں ان کی پہلی شناخ
ت تو ناول نگاری ہے "آدھی رات کا سورج"کے نام سے ان کا ایک ناول شائع ہو چکا ہے،جو ادب کے خاص قارئین کے حلقےمیں بے سراہا گیا ہے۔ جب کہ دوسرا تدوین کے مراحل میں ہے، یہ چوں کہ میری نظر سے گزر چکا ہے اس لیے میں وثوق سے کَہ سکتا ہوں یہ اردو ناول نگاری کے باب میں ایک اہم سنگِ میل قرار پائے گا۔ وہ کہانیاں بھی لکھتے ہیں ، غیر ملکی فکشن کے غیر معمولی تراجم انھوں نے اردو کو دیے ہیں۔ اردو شاعری اور فکشن کو انگریزی میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے کئی اردو نظموں کے تجزیا تی مطالعے بھی کیے ہیں ،جنھیں جدید نظم فہمی کی تاریخ میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ حاشیہ کے نام سے فیس بک پر ان کا فورم، اعلیٰ پائے مباحث کی بہ دولت، علمی حلقوں میں بہت مؤقر گردانا جاتا ہے۔ انھوں نے نظمیں کم کم لکھی ہیں لیکن یہ نظمیں بھیڑ بھاڑ سے یکسر الگ اپنا شناخت نامہ تشکیل دیتی ہیں۔
ان کی نظموں میں "کہانی" ایک مرکزی حوالہ بنتی ہے، وہ نہایت سادہ زبان میں کہانی کی قوت سے نظم کو اس طرح پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں کہ پڑھنے والے پر ایک جادوئی تاثر مرتسم ہوتا ہے ۔ یہاں تصنیف حیدر کے بہ قول یہ نظمیں ان کی اجازت کے بغیر شائع کی گئی ہیں۔ یہ بات ان کی درویشانہ طبع کی نشان دہی کرتی ہے۔ وہ تخلیقی عمل کو صوفیانہ تجربہ سمجھتے ہیں ،جس کا کل حاصل خود اس تجربے میں مضمر ہے۔ اشاعت کو وہ تخلیق کا ایک مرحلہ گردانتے ہیں ، لیکن وہ شہرت کے لیے ہر گز نہیں لکھتے اور شہرت کو تخلیق کا فطری نتیجہ سمجھتے ہیں۔ مجھے ان کی ایک معروف نظم" ولایت کے شہتوت " یاد آرہی جو "سمبل" میں شائع ہوئی تھی ۔اگر مجھے "سمبل" کی شہ کار نظموں کا انتخاب کرنا پڑے تو یہ پہلے نمبروں میں ہوگی۔نظم دیکھیے:
ولایت کے شہتوت

سنو پیارے بچو، جہاں ہم کھڑے ہیں، یہاں آج سے سال ہا سال قبل ایک شہر ایسا آباد تھا جس کے چرچے زمانے کے وردِ زباں تھے۔

یہاں آسماں صاف و شفاف تھا، کو و برزن کشادہ تھے، گلیاں معنبر تھیں، آب و ہوا معتدل اور کثافت سے عاری تھی۔ برسات کے موسموں میں یہاں سے وہاں شہرکے شہر میں سبزہ ہلکورے لے لے کے بچوں بڑوں کے دلوں میں تراوٹ کے موتی کھلاتا تھا۔

لیکن خدا کا یہ کرنا ہوا اس خداداد بستی کے فرماں روا کو ولایت کی سوجھی۔ وہاں اس نے شہتوت کے پیڑ کی اک نہایت حسیں نسل دیکھی، بہت دل کو بھائی۔ وطن واپسی پر وہ اس پیڑ کی چند شاخیں بھی سامان میں رکھ کے لایا۔

ابھی چند ہی سال گزرے تھے، بستی کے باشندوں پر ایک انوکھا مرض حملہ آور ہوا۔ رات دن چھینکتے، کھانستے ہی گزرتے تھے، آنکھوں میں مرچیں سی بھر جاتی تھیں اور سینے سے سانسوں کے کانٹے نکلتے نہیں تھے۔

سو اک روز تنگ آکے کلہاڑیاں لے کے خلقِ خدا ان ولایت کے شہتوتوں پر پل پڑی، شام تک کاٹتے کاٹتے بازو شل ہو گئے، پر جہاں شاخ گرتی، وہاں ایک اکھوا نیا پھوٹتا تھا۔

سو بچو، جہاں تم افق تا افق سبز کائی میں لپٹے کھنڈر دیکھتے ہو، یہاں آج سے سال ہا سال قبل ایک شہر ایسا آباد تھا جس کے چرچے زمانے کے وردِ زباں تھے۔
پہلے تو اس نظم کی کہانی کو دیکھیے۔ ایک بستیِ برباد کے بصری منظر نامے سے نظم کا آغاز ہوتا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے کسی سکول کے بچے اس شہر قدیمہ کے کھنڈرات دیکھنے آئے ہوئے ہیں۔ نظم کی آوازگائیڈ کی ہے جو اس شہر ِ برباد کی تباہی کا ماجرا بیان کر رہا ہے۔ ذرا کی توجہ سے قاری پر آشکار ہوجاتا ہے کہ نظم کی کہانی زمانہِ حال کی ہے جسے شاعر مستقبل میں جا کرلکھا ہے۔ عنوان نظم کی گرہ کشائی کرتا ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہانی اسلام آباد کی ہے۔
شاعر کے اس شہر کے ایک بڑے مسئلے کو نظم کو موضوع بنایا ہے کہ کس طرح برآمد کیے ہوئے درخت اس خطہِ ارض کی آب و ہوا کو راس نہیں آتے اور سانس کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، دھیان رہے کہ سانس خود زندگی کی علامت ہے۔نظم کا واقعہ بھی اپنی جگہ مکمل سچائی کی تصویر ہے لیکن نظم کا خاص کمال اس کا علامتی اُسلوب ہے۔ ہم من حیث القوم جس طرح غیر ملکی ٹیکنالوجی سے لے کر لنڈے کے لباس تک اور فلسفہِ حیات سے ثقافتی سر گرمیوں تک غیر ممالک کے صارف بنتے جا رہے ہیں اس کامنطقی انجام نظم کا موضوع ہے۔ میں اس نظم کو اس دہائی کی اہم ترین نظموں میں شمار کرتا ہوں۔ اس کی عظمت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس کی کوکھ سے اسی عہد کی ایک مشہور نظم برآمد ہوئی ہے۔
میں اس خیال سے زیف صاحب کی دیگر نظموں پر رائے دینے اس لیے اجتناب کر رہا ہوں میرے اس نوٹ کی روشنی احباب کو ان نظموں کے بطون میں سفر کرنے کی راہ واضح نظر آئے۔ ان اہم نظموں پر بحث ہونا چاہیے۔ احباب آگے بڑھیں تو میں بھی ہم رکاب ہو جاؤں گا۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *