لاریب بابو راؤ پٹیل فرقہ پرست تھا، اُس نے منافرت پھیلائی اور مذہبی تعصب کو ہوا دی، اُس نے مذہبی جنون پیدا کیا، دل آزاری کا باعث بنا اور قومی یک جہتی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک بہکی اور بھٹکی ہوئی اندھی طاقت تھا جو جوشِ جنون میں اِدھر اُدھر اپنا سر پھوڑتی رہی۔لیکن یہ بات بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ اُس نے اپنے دوست عابد گلریز کو قوتِ لایموت مہیا کرنے کی غرض سے اردو ہفت روزہ ’کارواں‘ جاری کیا، بعد ازاں سعادت حسن منٹو کو اس کا اڈیٹر مقرر کیا۔ منٹو اس کا حبیبِ صادق تھا۔ خواجہ احمد عباس اور نذیر کشمیری مالک ’مصور‘ ویکلی اس کے رفیق تھے۔ اُس کی اپنی لڑکی ایک مسلم نوجوان سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئی۔ اور یہ بھی یاد رکھیے کہ بابو راؤ پٹیل کی فطرت سیمابی تھی اور اُس کے مزاج میں تلوّن تھا۔ اُس نے پنڈت جواہر لال نہرو کے خلاف دل آزار جملے تحریر کیے۔ وی شانتا رام سے لے کر پرتھوی راج کپور تک پر کیچڑ اچھالی اور خود اپنے دفتر میں دن دہاڑے سب کے سامنے مشہور مرہٹہ ہیروئن شانتا آپٹے سے سڑاپ سڑاپ ہنٹروں کی مار کھائی۔اُدو زبان میں پہلی بار درج ذیل سطور میں فلم جرنلزم کے جم داتا کی رودادِ حیات۔ درحقیقت وہ کیا تھا اس کا فیصلہ یہ مضمون پڑھنے کے بعد خود کیجیے۔( وشواناتھ طاؤس)
آنجہانی بابو راؤ پٹیل اڈیٹر ماہنامہ ’فلم انڈیا‘ بمبئی، ہندوستان میں انگریزی فلم جرنلزم کے جنم داتا تھے۔ لگ بھگ پینتیس سال تک فلمی دنیا میں اُن کے نام کا ڈنکا بجتا رہا اور کوئی بھی اخبار یا رسالہ ’فلم انڈیا‘ جیسی شہرت اور عظمت حاصل نہ کرسکا۔ وی پی ساٹھے، بی ڈی گارگا، آر کے کرنجیا، فیروز رنگون والا، خواجہ احمد عباس اور دولت رام کو انگریزی فلمی صحافت میں نمایاں حیثیت حاصل رہی لیکن اُن میں سے کوئی بھی پٹیل کے مقام تک نہ پہنچ سکا، نہ ہی کوئی فلمی اخبار یا جریدہ ’فلم انڈیا‘ جیسی مقبولیت حاصل کرسکا۔ نفاست اور سلیقے کے ساتھ مکمل طور پر آرٹ پیپر پر بلیک اینڈ وہائٹ اور سہ رنگی جاذبِ نظر تصاویر کے ساتھ شائع ہونے والا یہ مجلہ ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کرتا تھا۔ فلمی اشتہارات بھی اتنے خوب صورت انداز سے چھاپے جاتے تھے کہ قارئین اُنھیں مضامین کی طرح دیکھنا اور پڑھنا پسند کرتے تھے۔ ’بمبے کا لنگ‘ اس رسالے کے اداریے کا مستقل عنوان تھا۔ سوال و جواب کے کالموں میں قارئین کے سوالوں کے جواب بڑے دل چسپ مگر تیکھے ڈھنگ سے دیے جاتے تھے اور نئی فلموں پر تبصرے بصیرت افروز ہوا کرتے تھے۔ پٹیل کو انگلش پر اس قدر عبور حاصل تھا جیسے یہ اُن کی مادری زبان ہو مگر ہندوستانی میں بات کرنے کا ڈھنگ گنواروں جیسا تھا، بات بات میں بمبئی کے موالیوں کی طرح ’سالا‘ کہتے اور گالیاں نکالتے تھے، بولتے وقت ہر فُل اسٹاپ کے بعد یا اس سے پہلے ایک ’سالا‘ ضرور آتا تھا۔ اردو فلمی ہفت روزہ ’مصور‘ کے مالک نذیر لدھیانوی کے ساتھ اُن کا پیشہ وارانہ میل جول تھا۔ ایک بار نذیر نے اُن کے سامنے سعادت حسن منٹو کی بہت تعریف کی تو بولے ’’ہاں ہاں مجھے معلوم ہے، وہ سالا میرا دوست عابد گلریز ہر ہفتے مجھے ’مصور‘ میں چھپنے والے اُس کے اردو مضمون پڑھ کر سنا جاتا ہے لیکن یہ سالا ’منٹو‘ کا کیا مطلب ہے؟‘‘
بمبئی سے نکلنے والے انگریزی روزنامے Daily News Centinal کو چوٹی کا اخبار مانا جاتا تھا۔ اُس کے اڈیٹر مسٹر بی جی ہارنیمین کو انگریزی اداریہ نگاری میں جو برتری حاصل تھی وہی مہارت بابو راؤ پٹیل کو فلمی مضامین اور تبصروں میں حاصل تھی۔ اُن کے اندازِ تحریر میں غضب کی فصاحت اور بلا کا طنز تھا۔ ان کے جملے اس قدر نوکیلے، دلائل اتنے پختہ اور قلمی چوٹیں اتنی گہری ہوتی تھیں کہ مخالف صفوں میں ہلچل پیدا ہوجاتی اور اضطراب پھیل جاتا۔ اُن گھرانوں میں جہاں فلمیں دیکھنا معیوب اور فلم اسٹاروں کا ذکر کرنا بدعت سمجھا جاتا تھا وہاں بھی ’فلم انڈیا‘ پہنچ جاتا تھا کیوں کہ انگریزی زبان پر دسترس حاصل کرنے کا ایک وسیلہ اس میگزین کا مطالعہ بھی تھا۔ ’فلم انڈیا‘ کا ہر نیا شمارہ بازار میں آتا تو فلمی حلقوں میں تہلکہ مچ جاتا اور وہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتا۔ پٹیل کو جرنلزم کے اپنے فن پر اس قدر بھروسہ تھا کہ جو بھی مقابل آتا مات کھاجاتا۔
ان تمام محاسن کے باوجود اُن کی فطرت سیمابی تھی اور اُن کے مزاج میں تلوّن تھا۔ وہ ایک اسٹول پر ٹک کر نہیں بیٹھتے تھے اور باربار سیٹ بدلتے رہتے تھے۔ اُن کا قلم کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں بلکہ جذبات کے روکے ساتھ بہتا تھا۔ خوش ہوتے تو قصیدہ تحریر کرتے، ناراض ہوتے تو ہجو لکھ ڈالتے۔ فلمی حلقوں میں اُنھیں ایک ایسے دریا سے تشبیہ دی جاتی تھی جو اپنا ساحل متواتر بدلتا رہتا ہو، جس دریا میں ہمیشہ طغیانی برپا رہتی ہو اُس سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی ہے۔ جو شخصیتیں ان کے دشنۂ قلم کی قتیل تھیں اُن کی طبع حزیں پر ان کی دشنام طرازی گراں نہیں گزرتی تھی۔ اُن کا رعب اس قدر تھا کہ سبھی فلم ساز، ہدایت کار، ڈسٹری بیوٹرز اور اداکار اُن کی حمایت کے حصول کے لیے سرگرداں رہتے تھے، جو لوگ زبان درازی کی جسارت کرتے تھے وہ بھی چند روز بعد منہ کی کھاتے اور صلح کا سفید پرچم لے کر اُن کے دربار میں حاضر ہوجاتے تھے، بہرحال رفاقت ہو یا عداوت، دوستی ہو یا ناراضگی بابوراؤ پٹیل کا خامۂ سحر طراز دونوں کا حق بخوبی ادا کرتا تھا۔
پیشے کے لحاظ سے اُنھیں ایک فلم اڈیٹر ہی رہنا چاہیے تھا کیوں کہ وہ ملک کے سب سے بڑے سیکولر انسٹی ٹیوشن یعنی فلم انڈسٹری کے ترجمان تھے جہاں کام کرنے والوں کا صرف ایک ہی نشانہ ہے اور وہ ہے اس فنِ لطیف کی خدمت۔ فلم آرٹ پر کسی مذہب، نظریے یا عقیدے کی چھاپ نہیں ہوتی، یہ وہ فنی ادارہ ہے جس سے وابستہ سبھی افراد کا مطمحِ نظر ہوتا ہے ایک اچھی فلم کی تخلیق چاہے وہ بعد میں باکس آفس پر ہٹ ثابت ہو یا فلاپ، پٹیل نے اس بنیادی نکتے کو ترک کرتے ہوئے سیاست میں ٹانگ اڑانی شروع کردی اور بساطِ سیاست پر اپنے مہرے بٹھانے شروع کردیے جو کسی بھی طرح واجب نہیں تھا۔ اُنھوں نے تعصب اور تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرقہ پرستی کا زہر پھیلانا شروع کردیا۔ ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے جذبات کو مجروح کرنے لگے۔ اپنے اس اقدام میں وہ کئی بار اعتدال کی حدوں کو پار کرگئے۔ لوگ حیران تھے کہ ایک ذہین اور باوقار فلمی مدیر کو بیٹھے بٹھائے فرقہ پرستی کے دلدل میں پھنسنے کی ضرورت پڑگئی اور کیوں کر اُن کے منور ذہن میں یہ زہر سما گیا جو ہر ایک کے لیے مضر ہے، جس کا اثر انسان کو سوچ اور فکر کے اعتبار سے اندھار اور اپاہج بنادیتا ہے۔
جو لوگ پٹیل کو نزدیک سے جانتے تھے انھیں معلوم تھا کہ اُس کے سینے میں انسانی ہمدردی سے بھرپور دل دھڑکتا ہے اور ایک بار اُس نے ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ بمبئی میں بلڈنگیں بہت اونچی ہیں جن میں لفٹ لگی ہوتی تھی اور سیڑھیاں بھی جاتی تھیں لیکن پوسٹ مین اس سہولیت سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے تھے۔ دوسرے سب لوگ لفٹ سے مستفید ہوسکتے تھے لیکن پوسٹ مین اس سے محروم تھے۔ انھیں سیڑھیوں سے اوپر چڑھنا اور اُترنا پڑتا تھا۔ نہ جانے کسی سرپھرے افسر نے یہ انسانیت سوز حکم جاری کررکھا تھا۔ اس چڑھنے اور اترنے میں بے چارے پوسٹ مین کا پسینہ چھوٹ جاتا تھا اور سانس اکھڑنے لگتا تھا۔ پٹیل سے یہ برداشت نہ ہوا، اُس نے اپنے جریدے میں باربار صدائے احتجاج بلند کی اور پریس میں کئی بار یہ معاملہ اٹھاکر وہ طوفان کھڑا کیا کہ حکومت لرز گئی اور بے چارے ڈاکیوں کی جان میں جان آئی۔
اب اُس پس منظر کو جان لیجیے جس کے تحت رسالہ ’فلم انڈیا‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز میں پربھات فلم کمپنی کا بڑا نام تھا، یہ کمپنی صرف پندرہ ہزار روپے کے سرمائے سے کولہاپور میں قائم ہوئی۔ اُس کی بنیاد رکھنے والوں میں دھائیبر، وی شانتارام، فتح لال اور داملے شامل تھے، بابو راؤ پنڈھارکر اس کے جنرل منیجر تھے۔ اگرچہ سرمایہ قلیل تھا لیکن اسے چلانے والوں میں جوش اور جذبے کی کمی نہیں تھی۔ اس کمپنی نے کئی خاموش فلمیں بنائیں، بعد ازاں متکلم فلموں کے شروع کے دور میں گوپال کرشن، خونی خنجر، رانی صاحب اور اودے کال بنائیں۔ فلم ’رانی صاحب‘ میں چھ سال کے ایک بچے نے جس کا نام بجربٹّو تھا، بڑی عمدہ اداکاری کی تھی۔ کسی بچے سے اتنی اچھی اداکاری کروانے کی یہ پہلی مثال تھی۔ فلم ’اودے کال‘ میں وی شانتارام نے شیواجی مرہٹہ کا مرکزی کردار نبھایا تھا، وہی شانتارام جس کو چند سال بعد فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا ڈائرکٹر تسلیم کیا گیا۔
پربھات فلم کمپنی بعد میں پونا شفٹ ہوگئی اور اُس نے ’امرت منتھن‘ جیسی شاہکار فلم بنائی جس کے ایک منظر میں چابک دست کیمرہ مین نے اداکار چندر موہن کی ایک آنکھ کو پورے پردے پر اس انداز سے دکھایا کہ تماشائی خوف اور دہشت سے کانپ اُٹھے۔ بمبئی کے ایک سنیماگھر میں ایک خاتون تو بھیانک آنکھ کے اس منظر کو دیکھ کر بے ہوش ہوگئی، ہوش آنے پر بھی وہ بڑی دیر تک چیخیں مارتی رہی۔ خیال رہے کہ چندر موہن کی کنچی آنکھیں جنگلی بلّی کی طرح تھیں۔
اس پربھات فلم کمپنی کی کوکھ سے نیوجیک پرنٹنگ پریس پیدا ہوا جس کے مالکانہ حقوق ایک معمولی پڑھے لکھے آدمی مسٹر پارکر کو تفویض کیے گئے۔ اس پریس کا کام پربھات فلم کمپنی کے تمام پوسٹر، دستی اشتہارات اور کتابچے (Book-let) چھاپنا تھا۔ پارکر بابو راؤ پٹیل کا دوست تھا، دونوں نے مل کر طے کیا کہ ایک فلمی رسالہ جاری کیا جائے جس میں پربھات کمپنی کی تمام فلموں کے اشتہار ہوں اور اپنے اثر و رسوخ سے دوسرے فلمی اداروں کے اشتہارات بھی حاصل کیے جائیں۔ پٹیل کیٖل کے سر پر چوٹ لگانا جانتے تھے، چناں چہ محنتِ شاقہ کے بعد جب رسالہ ’فلم انڈیا‘ کا اولین شمارہ مارکیٹ میں آیا تو اس کا گٹ اپ اور ریڈنگ مٹیریل دیکھ کر لوگ چکاچوند ہوگئے۔ فلمی دنیا میں ایک زلزلہ پیدا ہوگیا، خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس سے پہلے اس شان کا کوئی پرچہ میدان میں نہیں آیا تھا۔ اس کے مضامین میں لوگوں کو چاٹ مسالے کا مزا آیا۔ ڈسٹری بیوٹرز کو اشتہارات کا ’لے آؤٹ‘ اس قدر بھایا کہ اگلے دو پرچوں کے لیے اشتہارات کی بُکنگ فوراً ہوگئی۔
بابو راؤ پٹیل ایک دور اندیش آدمی تھے، اُنھوں نے اپولو اسٹریٹ بمبئی کی مبارک بلڈنگ میں ایک شاندار دفتر کرائے پر لیا، زرِ کثیر صرف کرکے اسے بڑی نفاست سے اس طرح آراستہ کیا کہ ہر آنے والا شخص متاثر ہو۔ رسمِ افتتاح کے موقعے پر جتنے بھی افراد آئے وہ پٹیل کے آرائش و زیبائش کے اعلا ذوق کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ تمام بڑے اخبارات نے دفتر کے فوٹو شائع کیے، تقریب کی تفصیلات کو نمایاں جگہ دی اور پُرتکلف ضیافت کی ستائش کی۔ اُس دور کی سب بڑی فلمی ہستیاں اس یادگار فنکشن میں شریک تھیں۔
اُن دنوں بمبئی کے فلمی حلقوں میں شاعر اور ادیب عابد گلریز کا نام جانا پہچانا تھا۔ اخبارات و رسائل میں اُس کی غزلیں اور کہانیاں چھپا کرتی تھیں۔ وہ بابو راؤ پٹیل کا قریبی دوست تھا۔ ادب کی خدمت سے پیٹ نہیں بھرتا لہٰذا وہ تنگ دست تھا۔ اُس کو قوتِ لایموت مہیا کرنے کی غرض سے اردو کا ایک ہفت روزہ اخبار ’کارواں‘ جاری کرنے کا اہتمام پٹیل کی جانب سے کیا گیا اور اس کی ادارت عابد گلریز کے سپرد کی گئی۔ ’کارواں‘ کے کچھ شمارے ڈھنگ سے نکلے اور اس کی صحافتی حلقوں میں اچھی پذیرائی ہوئی۔ اُن دنوں فلمی دنیا میں اردو جاننے والے لوگ کافی تعداد میں موجود تھے جو اس کے خریدار بنے۔ عابد گلریز لااُبالی قسم کا آدمی تھا، اُس کے سر پر مکالمہ نویسی اور نغمہ نگاری کا جنون سوار ہوگیا کہ اس سے زیادہ آمدنی متوقع تھی، وہ فلم ساز بننے کے خواب بھی دیکھنے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اچھا چلتا ہوا اخبار اڈیٹر کی بے توجہی کے باعث ہچکولے کھانے لگا۔
امپیریل فلم کمپنی اُس زمانے میں بہت مشہور تھی۔ سعادت حسن منٹو اس میں اسّی روپے ماہوار پر ملازم تھے۔ ایک ہی برس گزرا تھا کہ اس کامیاب ادارے کی فلمیں بدقسمتی سے پے درپے فیل ہونے لگیں۔ صفِ اوّل کا یہ ادارہ دیکھتے دیکھتے گردش میں آگیا اور اس کا دیوالہ پٹ گیا۔ منٹو کو صرف آٹھ مہینے کی تنخواہ ملی تھی، باقی کی تنخواہ کمپنی فیل ہوجانے کی وجہ سے رُکی ہوئی تھی۔ یہاں سے منٹو سروج فلم کمپنی میں چلے گئے مگر یہ بھی جلد ہی بند ہوگئی۔ اس کے سیٹھ تانو بھائی ڈیسائی نے ہاتھ پاؤں مارکر نئی کمپنی کھڑی کردی اور منٹو سو روپے ماہوار تنخواہ پانے لگے۔ اُن کی ایک کہانی پر فلم بننی بھی شروع ہوگئی۔ اُنھی دنوں منٹو کا نکاح ہوگیا مگر رخصتی ابھی باقی تھی۔ منٹو کو نئی نویلی دلہن کے لیے کرائے کے فلیٹ کی حاجت تھی۔ جب انھوں نے ڈیسائی سے روپے مانگے تو اُس نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ میری مالی حالت سخت خراب ہے اور میں اس مرحلے پر کچھ نہیں دے سکتا۔ منٹو کو غصہ آگیا، تو تکار ہوئی تو ڈیسائی نے انھیں کمپنی سے برطرف کردیا۔ سسرال والوں کے سامنے منٹو کی عزت خاک میں مل گئی۔
منٹو کو کمپنی سے باہر نکالے جانے کی یہ خبر بابو راؤ پٹیل تک پہنچی تو اُنھیں دُکھ پہنچا۔ ایک دفعہ منٹو نے پربھات فلم کمپنی کی ایک فلم کی انگریزی بک لٹ (جسے بمبئی کی زبان میں چوپڑی کہتے ہیں) کا اردو میں ترجمہ کرکے دیا تھا۔ ترجمے کا یہ معاملہ نذیر لدھیانوی پروپرائٹر ہفتہ وار ’مصور‘ کے توسط سے طے پایا تھا۔ پٹیل کو منٹو سے ہمدردی تھی اس لیے فون پر سیٹھ نانو بھائی کو بمبئی کی زبان میں کئی گالیاں دیتے ہوئے منٹو سے حساب صاف کرنے کے لیے کہا۔ معاملہ آٹھ سو روپے میں نمٹ گیا جب کہ بنتے بارہ سو تھے۔ خیر منٹو کا نکاح خانہ آبادی میں بدل گیا اور وہ اپنی بیوی صفیہ کو لے کر فلیٹ میں آگئے۔
سعادت حسن منٹو شکریہ ادا کرنے کی غرض سے پٹیل سے ملے۔ اُنھوں نے اپنے اردو اخبار ’کارواں‘ کی اڈیٹری سنبھالنے کو کہا اور ڈیڑھ سو روپے ماہانہ کی آفر دی۔ منٹو نے کہا کہ وہ صرف ساٹھ روپے مہینہ پر کام کریں گے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اوقاتِ دفتر کے پابند نہیں ہوں گے۔ جب من چاہے گا آجائیں گے اور جب جی چاہا چلے جائیں گے مگر کام میں کوتاہی ہرگز نہیں ہوگی اور پرچہ وقت پر چھپے گا۔ بات طے پاگئی۔
’فلم انڈیا‘ کے دفتر کے ایک دوسرے کمرے میں منٹو کے بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا۔ دو اڈیٹر اکثر مل بیٹھتے۔ یہ میل ملاپ دوستی میں بدل گیا۔ دوستی اس حد تک بڑھی کہ پٹیل اپنے خاص پرائیویٹ معاملات میں بھی منٹو سے مشورہ کرنے لگے۔ ایک روز پٹیل نے کسی بات سے خوش ہو کر منٹو کو MAD MULLA(یعنی پاگل مُلّا) کا خطاب بھی دے ڈ الا۔ اسی ہنسی خوشی کے ماحول میں آدھا سال گزر گیا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ کچھ سال پہلے جب خواجہ احمد عباس بطورِ جرنلسٹ اپنا کیریئر شروع کرنے کے لیے پہلی بار بمبئی پہنچے تھے تو اُنھیں بابو راؤ پٹیل کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ دونوں میں اچھی دوستی ہوگئی تھی جو وقتی اُتار چڑھاؤکے ساتھ زندگی کے آخری دور تک جاری رہی۔ خواجہ صاحب پٹیل کے قلم کی مہارت کو تسلیم کرتے تھے اور پٹیل خواجہ کے خلوص اور شرافت کے قائل تھے۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔
ایک بار بابو راؤ پٹیل کا ٹکراؤ ملک گیر شہرت رکھنے والے اخبار نویس بی جی ہارنیمین اڈیٹر روزنامہ 'Bomday Santinal' سے ہوگیا جنھیں ہندوستان میں انگلش صحافت کا ابا جان (Father of English Journalism) کہا جاتا تھا۔ جھگڑے کی بنیاد یہ تھی کہ ہارنیمین نے اپنے اخبار میں پٹیل کے خلاف چند جملے چُست کردیے تھے۔ پٹیل نے طیش میں آکر اُس پر ہتک عزت کا دعویٰ ٹھونک دیا۔ اسّی برس کا جہاندیدہ ہارنیمین جیسا عظیم صحافی پٹیل کو کیا خاطر میں لاتا۔ اُس نے پیغام بھجوایا کہ دیکھو اگر تم لڑنا چاہتے ہو تو میں تیار ہوں لیکن اگر تم اپنی عافیت چاہتے ہو تو اپنے نوٹس کے عوض دو ہزار روپے ہرجانہ ادا کردو۔ پٹیل کو ہوش آیا کہ اس بار ایک بڑے ہاتھی سے پالا پڑا ہے اور ٹکراؤ کی شکل میں وہ واقعی ہاتھی کے بھاری بھرکم پاؤں تلے کچلے جائیں گے۔ انھوں نے دو ہزار روپے دے کر جان چھڑائی۔
پٹیل ایک زمانے میں وی شانتارام کو ملک کا سب سے بڑا ڈائرکٹر کہا کرتے تھے۔ جس پربھات فلم کمپنی کے قائم کیے ہوئے پرنٹنگ پریس میں پٹیل کا میگزین ’فلم انڈیا‘ چھپا کرتا تھا اور جس کمپنی کی تمام فلموں کے اشتہار انھیں ملا کرتے تھے اُسی شانتارام سے ان بن ہوگئی۔ ۱۹۴۳ء میں شانتارام نے فلم ’ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی‘ بنائی، ہیرو کا رول اُنھوں نے خود ادا کیا تھا اور ہیروئن اُن کی بیوی جے شری تھی۔ اس فلم کی کہانی خواجہ احمد عباس کے ایک انگریزی ناولٹ 'ONE WHO DID NOT COME BACK' پر مبنی تھی۔ یہ ایک ایسے ہندوستانی ڈاکٹر کی کہانی تھی جو چین اور جاپان کی جنگ کے دوران ایک دوستانہ طبی مشن لے کر چین جاتا ہے اور وہاں ایک چینی نرس سے شادی کرلیتا ہے۔ زخمیوں کا علاج کرتے کرتے وہ اپنی ایجاد کردہ ایک دوائی کا اپنے اوپر تجربہ کرتا ہے اور موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ یہ ایک شاہکار فلم تھی جسے پورے ملک میں شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور نقادوں نے اس پر شاندار تبصرے لکھے۔ باکس آفس پر اسے نمایاں کامیابی ملی اور کئی مقامات پر اس نے سلور جوبلی منائی۔ اس کا انگریزی ورژن بھی تیار ہوا تاکہ دیگر ممالک میں اس کی نمائش کی جاسکے۔ پٹیل نے اس فلم کے خلاف ریویو لکھا اور اسے بُری طرح لتاڑا۔ انھوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلم اس قابل ہے کہ اسے بمبئی کے کسی چوراہے پر رکھ کر نذرِ آتش کردیا جائے۔ سارا ملک اس تنقید پر بھونچکا رہ گیا۔ آزادی کی تحریک کے دنوں میں اُنھوں نے ہندوستان کے بے تاج بادشاہ پنڈت جواہر لال نہرو کی ہر دلعزیزی سے چِڑکر اُنھیں گاندھی جی کا لے پالک اور ساری قوم کا سردرد کہا تھا جس کا لوگوں نے بہت بُرا مانا تھا اور پٹیل کو احتجاجی خطوط لکھے تھے۔
ملک کا بٹوارہ ہوا تو فلم ساز و ہدایت کار اے آر کاردار (پورا نام: عبدالرشید کاردار) کا بھتیجا نصرت کاردار فلم ’درد‘ میں اپنی بے جان اداکاری کے باعث پاکستان چلا گیا کہ شاید اُسے وہاں کامیابی حاصل ہوجائے۔ اے آر کاردار کا لاہور سے پرانا تعلق تھا، وہاں اُس نے کسی زمانے میں پہلے چند خاموش فلمیں اور بعد میں کچھ متکلم فلمیں بنائی تھیں۔ وہاں سے وہ بمبئی شفٹ ہوا اور کاردار پروڈکشنز کے تلے کئی فلمیں بنائیں جن میں باغباں، قانون، شاردا، درد، شاہجہاں، یاسمین، دُلاری، جادو، دلِ ناداں، جیون جیوتی، چاچا چودھری، باپ رے باپ، دل دیا درد لیا مشہور ہوئیں۔ اُس نے پریل بمبئی میں اپنا شاندار اسٹوڈیو بھی بنایا۔ پٹیل اُسے پاکستان پہنچانا چاہتے تھے۔ انھوں نے کاردار اسٹوڈیو اور عبدالرشید کاردار کی دیگر جائیداد اور اثاثے ضبط کرنے کے لیے قلم چلایا اور کئی زوردار آرٹیکل لکھے۔ بیچارے کاردار کا مقدر اچھا تھا کہ بچ گیا اور اس کا اسٹوڈیو و دیگر جائیداد بھی بچ گئی۔ اسی کاردار کی وہ کسی زمانے میں بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ پٹیل نے پرتھوی راج کپور اور کشور ساہو کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا۔ پرتھوی راج کپور کو تو اُنھوں نے ایک حقیر کیڑا قرار دیا تھا۔
بیچ میں ایک ایسا زمانہ بھی آیا تھا کہ بقول سعادت حسن منٹو پٹیل نے ببانگِ دُہل اعلان کیا کہ فلم سازی صرف میاں بھائی (مسلمان) جانتے ہیں، جو رکھ رکھاؤ، سلیقہ اور قرینہ مسلم فلم ہدایت کاروں کو ودیعت ہوا ہے وہ کسی ہندو فلم ساز کے حصے میں نہیں آسکتا۔ ایک جگہ منٹو نے پٹیل کی اینٹی مسلم ذہنیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھا:
’’میں آپ کو بتاتا ہوں ۔۔۔۔ اُس کو یہ دُکھ ہے کہ مسلمان کیوں اتنے بے وفا ہوتے ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اُس کے کئی مسلمان دوستوں نے اس سے بے وفائی کی ہے۔ ہندو دوستوں نے بھی کی ہے لیکن مسلمان اُسے زیادہ عزیز تھے۔ وہ اُن کی خوبو پسند کرتا تھا، اُن کا رہن سہن پسند کرتا تھا۔ اُس کو اُن کی خوب صورتی پسند تھی، سب سے زیادہ اُسے ان کے کھانے پسند تھے‘‘۔
بابوراؤ پٹیل عقائد کے اعتبار سے ترقی پسند اور روشن خیال تھے۔ اُن کی ایک جوان لڑکی اپنے پریس کے ایک معمولی مسلم ملازم کی محبت میں مبتلا ہوگئی جو کم تعلیم یافتہ تھا جب کہ لڑکی اعلا تعلیم یافتہ تھی۔ عشق کب امیری غریبی، اونچ نیچ اور ذات پات کو دیکھتا ہے۔ دونوں گھر سے فرار ہوگئے۔ پٹیل کی راتوں کی نیند اُڑ گئی۔ انھیں اپنی بچی سے بہت پیار تھا، دونوں کو تلاش کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا اور آخر ایک روز اُنھیں ڈھونڈ ہی لیا۔ پٹیل نے چاہا کہ لڑکے کو کچھ رقم دے دلاکر یہ قضیہ ختم کردیا جائے لیکن لڑکی کے سرپر عشق کا بھوت سوار تھا۔ اُس نے صاف کہہ دیا کہ میں صرف اِسی لڑکے کے ساتھ زندگی بسر کروں گی ورنہ عمر بھر کنواری رہوں گی۔ باپ ہار گیا بیٹی جیت گئی۔ پٹیل نے اُسی مسلمان لڑکے سے بیٹی کی شادی کردی۔
پٹیل کو زندگی میں ایک انتہائی ناخوشگوار واقعے کا سا منا کرنا پڑا۔ جن دنوں وہ پربھات فلم کمپنی سے منسلک تھے تو شانتا آپٹے اس ادارے کے تحت بننے والی فلموں کی مستقل ہیروئن تھی۔ وہ خوب صورت تھی اور اداکاری کے فن میں ماہر تھی اس لیے وی شانتارام اُسے بہت پسند کرتے تھے۔ پٹیل بھی اُس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے مگر جب وہ پربھات سے علاحدہ ہوئے تو شانتا آپٹے انھیں بدصورت نظر آنے لگی اور اُس کی ایکٹنگ بھی بے جان لگنے لگی۔ ’فلم انڈیا‘ میں اس فنکارہ کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا مگر وہ بھی مرہٹے کی بچی تھی۔ ایک روز برجس پہنے اور ہاتھ میں ہنٹر لے کر دن دہاڑے پٹیل کے دفتر میں گھس گئی اور سڑاپ سڑاپ چھ سات ہنٹر اُن کے جسم پر جڑ دیے اور اطمینان سے باہر نکل گئی۔ پٹیل بھونچکا رہ گیا، کیا کرتا تماشا ہوچکا تھا۔ اس افسوس ناک واقعے کو فلمی دنیا کے لوگ آج تک نہیں بھولے۔
اس کے برعکس مدھوبالا نے بابو راؤ پٹیل کی تعظیم میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی کیوں کہ ایک زمانے میں اُنھوں نے اپنے زورِ قلم سے اس حسین و جمیل ممثلہ کو شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ ’فلم انڈیا‘ کے شمارے مدھوبالا کی تصاویر سے بھرے رہتے تھے۔ پٹیل کہا کرتے تھے کہ اس اداکارہ کی خوب صورتی اور نزاکت میں انھیں ایک خاص بات نظر آتی ہے جو کسی اور آرٹسٹ میں موجود نہیں۔ ۱۹۵۰ء میں جب مدھوبالا بھگوان داس ورما کی فلم ’بادل‘ (ہیرو: پریم ناتھ) میں کام کررہی تھی تو اُس نے فلمی اخبار نویسوں کو سیٹ پر آنے سے منع کردیا تھا کیوں کہ بقول اُس کے اُن کی موجودگی میں وہ کھل کر اداکاری نہیں کرسکتی تھی۔ اس پر فلمی اخبارات و رسائل نے مغرور اور بددماغ قرار دیتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ اُس دور کے ۱۹ مشہور پرچوں نے متحدہ محاذ بناکر اُس کی کسی بھی فلم کا اشتہار چھاپنے سے انکار کردیا تھا اور اس کی کسی بھی فلمی سرگرمی کی اطلاع شائع نہیں کی جاتی تھی۔ اس سنگین صورتِ حالات میں بابوراؤ پٹیل نے پریس کے اپنے پرانے رُفقا کی ناراضگی مول لے کر بھی مدھوبالا کی بھرپور پبلسٹی جاری رکھی تھی اور اُس کی مارکیٹ ویلیو گرنے نہیں دی تھی۔ کئی مہینوں تک ۱۹ پرچوں کی جانب سے مدھوبالا کا مقاطعہ جاری رہا جو بالآخر اداکار اوم پرکاش کی مداخلت سے ختم ہوگیا۔ مدھوبالا بابو راؤ پٹیل کی رفیقۂ حیات محترمہ سوشیلا رانی ایم اے سے انگلش کی ٹیوشن بھی لیتی رہی جس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوگئی تھی کہ غیرملکی اخبار نویسوں اور فلم انڈسٹری میں اپنے خیرخواہوں کے ساتھ بے تکلفی سے انگلش میں بات کرسکتی تھی۔
٭٭٭
فلم سنسر بورڈ آف انڈیا فلموں کو ہندی زبان کا سرٹیفکٹ دیتا تھا لیکن رسالہ ’فلم انڈیا‘ کے اڈیٹر بابوراؤ پٹیل اپنے انگریزی تبصروں میں ان فلموں کی زبان ہندوستانی قرار دیتے تھے۔ پٹیل کا کہنا تھا کہ فلموں کی زبان ہندی نہیں ہندوستانی ہے۔ ہر فلم کے تبصرے کے استھ بوکس میں فلم کا مکمل تعارف ہوتا تھا۔ چند فلموں کے تعارف کے عکس یہاں پیش ہیں:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں