منگل، 15 دسمبر، 2015

نقش فریادی/کلیات فیض احمد فیض۔1

فیض احمد فیض کی شاعری کے تعلق سے کیا کہا جاسکتا ہے، وہ اردو کے بہت ہی اچھے شاعر ہیں، مجھے فیض کی کلیات کو آن لائن کرنے کا خیال اس لیے آیا کیونکہ بڑی بڑی تنظمیں، روپیہ پیسہ خرچ کرکے فیض پر مقالےپڑھواتی ہیں، ان کی شاعری کے اسرار و رموز کو بحر نقد سے ڈھونڈ کر لانے کی کوشش کرتی ہیں، مگر جو بنیادی کام ہے، یعنی فیض کی تحریر کا عام ہونا اس پر حیرت ہے کہ ان تنظیموں کا خیال کبھی نہیں گیا۔فیض پر ابھی چند روز پہلے ایک سیمینار ہوا، جس پر بی بی سی میں ظفر سید کی ایک خبر کے مطابق زہرا نگاہ نے بڑی اچھی اچھی باتیں کیں۔ان باتوں میں فیض پر سرسری تنقید نہیں کی گئی تھی، اور نہ ہی بے تکے فتوے صادر کیے گئے تھے، بلکہ اس شاعر کو جو ایک درد مند دل رکھتا تھا، نزدیک سے جاننے اور سمجھنے کے لیے لوگوں کے سامنے اس کی زندگی کے کچھ ایسے واقعات پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جن سے لوگ ناواقف تھے، اور شاعر کی شاعری، اس کی شخصیت دونوں پر اس طرح کی گفتگو سے واقعی روشنی پڑتی ہے۔بہرحال ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ چھ دنوں کے دوران فیض کے چھ شعری مجموعے آن لائن کردیے جائیں گے، اور چونکہ یہ یونی کوڈ میں ہونگے اس لیے دنیا میں کہیں بھی بیٹھا شخص انہیں کاپی کرکےورڈ فائل میں سیو کرکے اطمینان سے بعد میں پڑھ سکتا ہے، دوسری اردو کی معیاری ادبی و علمی ویب سائٹس اسے کاپی کرکے بلا کسی شکریے کے اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرسکتی ہیں، کیونکہ ہمارا بنیادی مقصد اچھی شاعری کو لوگوں تک پہنچانا ہے، انہیں پڑھوانا ہے، ان لوگوں کو جو انٹرنیٹ کے ذریعے اچھا ادب تلاش کررہے ہیں اور پڑھنا چاہتے ہیں۔رہی فیض پر تنقید کی بات، تو وہ اس کے بعد کا مرحلہ ہے اور تھوڑا نازک ہے۔شکریہ(تصنیف حیدر)


برو اے عقل و منہ منطق و حکمت درپیش
کہ مرا نسخۂ غمہائے فلاں درپیش است
(عرفی)
۰۰۰

اشعار

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

دل رہین غم جہاں ہے آج
ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفل ہستی
اے غم دوست! تو کہاں ہے آج
۰۰۰

خدا وہ وقت نہ لائے۔۔۔

خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو

سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہوجائے
تری مسرت پیہم تمام ہوجائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہوجائے
غموں سے آئینۂ دل گداز ہو تیرا

ہجوم یاس سے بیتاب ہو کے رہ جائے
وفور درد سے سیماب ہو کے رہ جائے
ترا شباب فقط خواب ہوکے رہ جائے
غرور حسن سراپا نیاز ہو تیرا

طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے
تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے
کوئی جیبں نہ تری سنگ آستاں پہ جھکے

کہ جنس عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے
فریب وعدۂ فردا پہ اعتماد کرے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے
وہ دل کہ تیرے لیے بے قرار اب بھی ہے
وہ آنکھ جس کو ترا انتظار اب بھی ہے
۰۰۰

حسن مرہون جوش بادۂ ناز
عشق منت کش فسون نیاز
دل کا ہر تار لرزش پیہم
جاں کا ہر رشتہ وقف سوز و گداز
سوزش درد ددل کسے معلوم
کون جانے کسی کے عشق کا راز
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گمشدہ آواز
ہوچکا عشق! اب ہوس ہی سہی
کیا کریں فرض ہے ادائے نماز
تو ہے اور اک تغافل پیہم
میں ہوں اور انتظار بے انداز
خوف ناکامیٔ امید ہے فیض
ورنہ دل توڑدے طلسم مجاز
۰۰۰

انتہائے کار

پندار کے خوگر کو
ناکام بھی دیکھوگے
آغاز سے واقف ہو
انجام بھی دیکھوگے

رنگینیٔ دنیا سے
مایوس سا ہوجانا
دکھتا ہوا دل لے کر
تنہائی میں کھو جانا

ترسی ہوئی نظروں کو
حسرت سے جھکا لینا
فریاد کے ٹکڑوں کو
آہوں میں چھپالینا

راتوں کی خموشی میں
چھپ کر کبھی رو لینا
مجبور جوانی کے
ملبوس کو دھو لینا

جذبات کی وسعت کو
سجدوں سے بسا لینا
بھولی ہوئی یادوں کو
سینے سے لگا لینا
۰۰۰

انجام

ہیں لبریز آہوں سے ٹھنڈی ہوائیں
اداسی میں ڈوبی ہوئی ہیں گھٹائیں
محبت کی دنیا پہ شام آچکی ہے
سیہ پوش ہیں زندگی کی فضائیں

مچلتی ہیں سینے میں لاکھ آرزوئیں
تڑپتی ہیں آنکھوں یں لاکھ التجائیں

تغافل کے آغوش میں سورہے ہیں
تمہارے ستم اور میری وفائیں
مگر پھر بھی اے میرے معصوم قاتل
تمہیں پیار کرتی ہیں میری دعائیں
۰۰۰

ادائے حسن کی معصومیت کو کم کردے
گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے
۰۰۰

سرود شبانہ

کم ہے اک کیف میں فضائے حیات
خامشی سجدۂ نیاز میں ہے
حسن معصوم خواب ناز میں ہے

اے کہ تو رنگ و بو کا طوفاں ہے
اے کہ تو جلوہ گر بہار میں ہے
زندگی تیرے اختیار میں ہے

پھول لاکھوں برس نہیں رہتے
دو گھڑی اور ہے بہار شباب
آکہ کچھ دل کی سن سنا لیں ہم

میری تنہائیوں پہ شام رہے
حسرت دید ناتمام رہے
دل میں بے تاب ہے صدائے حیات
آنکھ کو ہر نثار کرتی ہے

آسماں پر اداس ہیں تارے
چاندنی انتظار کرتی ہے
آکہ تھوڑا سا پیار کرلیں ہم
زندگی زر نگار کرلیں ہم
۰۰۰

عشق منت کش قرار نہیں
حسن مجبور انتظار نہیں
تیری رنجش کی انتہا معلوم
حسرتوں کا مری شمار نہیں
اپنی نظریں بکھیر دے ساقی
مے باندازۂ خمار نہیں
زیر لب ہے ابھی تبسم دوست
منتشر جلوۂ بہار نہیں
اپنی تکمیل کررہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
چارۂ انتظار کون کرے
تیری نفرت بھی استوار نہیں
فیض زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی
کیا ہوا گر وفا شعار نہیں
۰۰۰

آخری خط

وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے
جب دور سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا اندوہ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن جائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں
چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی

شاید مری الفت کو بہت یاد کروگی
اپنے دل معصوم کو ناشاد کروگی
آئو گی مری گور پہ تم اشک بہانے
نوخیز بہاروں کے حسیں پھول چڑھانے

شاید مری تربت کو بھی ٹھکراکے چلو گی
شاید مری بے سود وفائوں پہ ہنسوگی
اس وضع کرم کا بھی تمہیں پاس نہ ہوگا
لیکن دل ناکام کو احساس نہ ہوگا

القصہ مآل غم الفت پہ ہنسو تم
یا اشک بہاتی رہو، فریاد کرو تم
ماضی پہ ندامت ہو تمہیں یا کہ مسرت
خاموش پڑا سوئے گا واماندۂ الفت
۰۰۰

ہر حقیقت مجاز ہوجائے
کافروں کی نماز ہوجائے
دل رہین نیاز ہوجائے
بے کسی کارساز ہوجائے
جنت چارہ ساز کون کرے؟
درد جب جاں نواز ہوجائے
عشق دل میں رہے تو رسوا ہو
لب پہ آئے تو راز ہوجائے
لطف کا انتظار کرتا ہوں
جور تا حد نا ز ہوجائے
عمر بے سود کٹ رہی ہے فیض
کاش افشائے راز ہوجائے
۰۰۰

حسینۂ خیال سے

مجھے دے دے
رسیلے ہونٹ، معصومانہ پیشانی حسیں آنکھیں
کہ میں اک بار پھر رنگینیوں میں غرق ہوجائوں
مری ہستی کو تیری اک نظر آغو ش میں لے لے
ہمیشہ کے لیے اس دام میں محفوظ ہوجائوں
ضیائے حسن سے ظلمات دنیا میں نہ پھر آئوں

گزشتہ حسرتوں کے داغ میرے دل سے دھل جائیں
میں آنے والے غم کی فکر سے آزاد ہوجائوں
مرے ماضی و مستقبل سراسر محو ہوجائیں
مجھے دو اک نظر اک جاودانی سی نظر دے دے
(برائوننگ)
۰۰۰

مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو

مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
ابھی تک دل میں تیرے عشق کی قندیل روشن ہے
تری جلووں سے بزم زندگی جنت بدامن ہے
مری روح اب بھی تنہائی میں تجھ کو یاد کرتی ہے
ہر اک تاز نفس میں آرزو بیدار ہے اب بھی
ہر اک بے رنگ ساعت منتظر ہے تیری آمد کی
نگاہیں بچھ رہی ہیں راستہ زرکار ہے اب بھی
مگر جان حزیں صدمے سہے گی آخرش کب تک
تری بے مہریوں پر جان دے گی آخرش کب تک
تری آواز میں سوئی ہوئی شیرینیاں آخر
مرے دل کی فسردہ خلوتوں میں جانہ پائیں گی
یہ اشکوں کی فراوانی سے دھندلائی ہوئی آنکھیں
تری رعنائیوں کی تمکنت کو بھول جائیں گی
پکاریں گے تجھے تو اب کوئی لذت نہ پائیں گے
گلو میں تیری الفت کے ترانے سوکھ جائیں گے
مبادا یاد ہائے عہد ماضی محو ہوجائیں
یہ پارینہ فسانے موج ہائے غم میں کھو جائیں
مرے دل کی تہوں سے تیری صورت دھل کے بہہ جائے
حریم عشق کی شمع درخشاں بجھ کے رہ جائے
مبادا اجنبی دنیا کی ظلمت گھیر لے تجھ کو
مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
۰۰۰
بعد از وقت

دل کو احساس سے دو چار نہ کردینا تھا
ساز خوابیدہ کو بیدار نہ کردینا تھا
اپنے معصوم تبسم کی فراوانی کو
وسعت دید پہ گلبار نہ کردینا تھا
شوق مجبور کو بس ایک جھلک دکھلا کر
واقف لذت تکرار نہ کردینا تھا
چشم مشتاق کی خاموش تمنائوں کو
یک بیک مائل گفتار نہ کردینا تھا
جلوۂ حسن کو مستور ہی رہنے دیتے
جلوہ حسن کو مستور ہی رہنے دیتے
۰۰۰

سرود شبانہ

نیم شب، چاند، خود فراموشی
محفل ہست و بود ویراں ہے
پیکر التجا ہے خاموشی
بزم انجم فسردہ ساماں ہے
آبشار سکوت جاری ہے
چار سو بے خودی سی طاری ہے
زندگی جزو خواب ہے گویا
ساری دنیا سراب ہے گویا
سو رہی ہے گھنے درختوں پر
چاندنی کی تھکی ہوئی آواز
کہکشاں نیم وا نگاہوں سے
کہہ رہی ہے حدیث شوق نیاز
ساز دل کے خموش تاروں سے
چھن رہا ہے خمار کیف آگیں
آرزو، خواب، تیرا روئے حسیں
۰۰۰

اشعار

وہ عہد غم کی کاہشہائے بے حاصل کو کیا سمجھے
جو ان کی مختصر روداد بھی صبر آزما سمجھے
یہاں دلبستگی، واں برہمی، کیا جانیے کیوں ہے؟
نہ ہم اپنی نظر سمجھے نہ ہم ان کی ادا سمجھے
فریب آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی
ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز پا سمجھے
تمہاری ہر نظر سے منسلک ہے رشتۂ ہستی
مگر یہ دور کی باتیں کوئی نادان کیا سمجھے
نہ پوچھو عہد الفت کی، بس اک خوا ب پریشاں تھا
نہ دل کو راہ پر لائے نہ دل کا مدعا سمجھے
۰۰۰

قطعات

وقف حرمان و یاس رہتا ہے
دل ہے اکثر اداس رہتا ہے
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
۰۰۰

فضائے دل پر اداسی بکھرتی جاتی ہے
فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے
فریب زیست سے قدرت کا مدعا معلوم
یہ ہوش ہے کہ جوانی گزرتی جاتی ہے
۰۰۰

انتظار

گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاض زیست ہے آزردۂ بہار ابھی
مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی
جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری
ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں
طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری
اداس آنکھیں تری دید کو ترستی ہیں
بہار حسن پہ پابندیٔ جفا کب تک
یہ آزمائش صبر گریز پا کب تک
قسم تمہاری بہت غم اٹھا چکا ہوں میں
غلط تھا وعدۂ صبر و شکیب آجائو
قرار خاطر بے تاب تھک گیا ہوں میں
۰۰۰

تہہ نجوم

تہ نجوم، کہیں چاندنی کے دامن میں
ہجوم شوق سے اک دل ہے بے قرار ابھی
خمار خواب سے لبریز احمریں آنکھیں
سفید رخ پہ پریشان عنبریں آنکھیں
چھلک رہی ہے جوانی ہر اک بن مو سے
رواں ہو برگ گل تر سے جیسے سیل شمیم
ضیا ئے مہ میں دمکتا ہے رنگ پیراہن
ادائے عجز سے آنچل اڑا رہی ہے نسیم
دراز قد کی لچک سے گداز پیدا ہے
ادائے ناز سے رنگ نیاز پیدا ہے
اداس آنکھوں میں خاموش التجائیں ہیں
دل حزیں میں کئی جاں بلب دعائیں ہیں
تہ نجوم کہیں چاندنی کے دامن میں
کسی کا حسن ہے مصروف انتظار ابھی
کہیں خیال کے آبادکردہ گلشن میں
ہے ایک گل کہ ہے ناواقف بہار ابھی
۰۰۰

حسن اور موت

جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو
فروغ نور ہو جس سے فضائے رنگیں میں
خزاں کے جور و ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو
بہار نے جسے خون جگر سے پالا ہو
وہ ایک پھول سماتا ہے چشم گلچیں میں

ہزار پھولوں سے آباد باغ ہستی ہے
اجل کی آنکھ فقط ایک کو ترستی ہے

کئی دلوں کی امیدوں کا جو سہارا ہو
فضائے دہر کی آلودگی سے بالا ہو
جہاں میں آکے ابھی جس نے کچھ نہ دیکھا ہو
نہ قحط عیش و مسرت نہ غم کی ارزانی
کنار رحمت حق میں اسے سلاتی ہے
سکوت شب میں فرشتوں کی مرثیہ خوانی
طواف کرنے کو صبح بہار آتی ہے
صبا چڑھانے کو جنت کے پھول لاتی ہے
۰۰۰

تین منظر

تصور
شوخیاں مضطر نگاہ دیدۂ سرشار میں
عشرتیں خوابیدہ رنگ غازۂ رخسار میں
سرخ ہونٹوں پر تبسم کی ضیائیں جس طرح
یاسمن کے پھول ڈوبے ہوں مئے گلنار میں

سامنا
چھنتی ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں
بے خوابیاں، افسانے، مہتاب ، تمنائیں
کچھ الجھی ہوئی باتیں، کچھ بہکے ہوئے نغمے
کچھ اشک جو آنکھوں سے بے وجہ چھلک جائیں

رخصت
فسردہ رخ، لبوں پر اک نیاز آمیز خاموشی
تبسم مضمحل تھا مرمریں ہاتھوں میں لرزش تھی
وہ کیسی بے کسی تھی تیری پر تمکیں نگاہوں میں
وہ کیا دکھ تھا تری سہمی ہوئی خاموش آہوں میں
۰۰۰

سرود

موت اپنی ، نہ عمل اپنا، نہ جینا اپنا
کھوگیا شورش گیتی میں قرینہ اپنا
ناخدا دور، ہوا تیز، قریں کم نہنگ
وقت ہے پھینک دے لہروں میں سفینہ اپنا
عرصۂ دہر کے ہنگامے تہ خواب سہی
گرم رکھ آتش پیکار سے سینہ اپنا
ساقیا رنج نہ کر جاگ اٹھے گی محفل
اور کچھ دیر اٹھا رکھتے ہیں پینا اپنا
بیش قیمت ہیں یہ غمہائے محبت مت بھول
ظلمت یاس کو مت سونپ خزینہ اپنا
۰۰۰

یاس

بربط دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل
مٹ گئے قصہ ہائے فکر و عمل
بزم ہستی کے جام پھوٹ گئے
چھن گیا کیف کوثر و تسنیم
زحمت گریہ و بکا بے سود
شکوۂ بخت نارسا بے سود
ہوچکا ختم رحمتوں کا نزول
بند ہے مدتوں سے باب قبول
بے نیاز دعا ہے رب کریم
بجھ گئی شمع آرزوئے جمیل
یاد باقی ہے بے کسی کی دلیل
انتظار فضول رہنے دے
راز الفت نباہنے والے
بار غم سے کراہنے والے
کاوش بے حصول رہنے دے
۰۰۰

آج کی رات

آج کی رات ساز درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھرپور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم؟
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر کسے معلوم
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی رات ساز درد نہ چھیڑ
اب نہ دہرا فسانہ ہائے الم
اپنی قسمت پہ سوگوار نہ ہو
فکر فردا اتاردے دل سے
عمر رفتہ پہ اشکبار نہ ہو
عہد غم کی حکایتیں مت پوچھ
ہوچکیں اب شکایتیں مت پوچھ
آج کی رات ساز درد نہ چھیڑ
۔۔۔

ہمت التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اک تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اپنی مشق ستم سے ہاتھ نہ کھینچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی
تیری چشم الم نواز کی خیر
دل میں کوئی گلا نہیں باقی
ہوچکا ختم عہد ہجرو وصال
زندگی میں مزا نہیں باقی
۔۔۔

ایک رہگزر پر

وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں
وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پنہاں
ہزار فتنے تہ پائے ناز، خاک نشیں
ہر اک نگاہ خمار شباب سے رنگیں
شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں
وقار، جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں
ادائے لغزش پا پر قیامتیں قرباں
بیاض رخ پہ سحر کی صباحتیں قرباں
سیاہ زلفوں میں وارفتہ نکہتوں کا ہجوم
طویل راتوں کی خوابیدہ راحتوں کا ہجوم
وہ آنکھ جس کے بنائو پہ خالق اترائے
زبان شعر کو تعریف کرتے شرم آئے
وہ ہونٹ فیض سے جن کے بہار لالہ فروش
بہشت و کوثر و تسنیم و سلسبیل بدوش
گداز جسم، قبا جس پہ سج کے ناز کرے
دراز قد جسے سرو سہی نماز کرے
غرض وہ حسن جو محتاج وصف و نام نہیں
وہ حسن جس کا تصور بشر کا کام نہیں
کسی زمانے میں اس رہگزر سے گزرا تھا
بصد غرور و تجمل، ادھر سے گزرا تھا
اور اب یہ راہگزر بھی ہے دلفریب و حسیں
ہے اس کی خاک میں کیف شراب و شعر مکیں
ہوا میں شوخی رفتار کی ادائیں ہیں
فضا میں نرمی گفتار کی صدائیں ہیں
غرض وہ حسن اب اس کا جزو منظر ہے
نیاز عشق کو اک سجدہ گہ میسر ہے
۔۔۔

چشم میگوں ذرا ادھر کردے
دست قدرت کو بے اثر کردے
تیز ہے آج درد دل ساقی
تلخی مے کو تیز تر کردے
جوش وحشت ہے تشنہ کام ابھی
چاک دامن کو تاجگر کردے
میری قسمت سے کھیلنے والے
مجھ کو قسمت سے بے خبر کردے
لٹ رہی ہے مری متاع نیاز
کاش وہ اس طرف نظر کردے
فیض تکمیل آرزو معلوم
ہوسکے تو یونہی بسر کردے
۔۔۔

ایک منظر

بام و در خامشی کے بوجھ سے چور
آسمانوں سے جوئے درد نہاں
چاند کا دکھ بھرا فسانہ نور
شاہراہوں کی خاک میں غلطاں
خواب گاہوں میں نیم تاریکی
مضمحل لے رباب ہستی کی
ہلکے ہلکے سروں میں نوحہ کناں
۔۔۔

میرے ندیم

خیال و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے
فضائے فکر و عمل ارغوان تھی جن سے
وہ جن کے نور سے شاداب تھے مہ و انجم
جنون عشق کی ہمت جوان تھی جن سے
وہ آرزوئیں کہاں سو گئی ہیں میرے ندیم؟

وہ ناصبور نگاہیں، وہ منتظر راہیں
وہ پاس ضبط سے دل میں دبی ہوئی آہیں
وہ انتظار کی راتیں طویل تیرہ و تار
وہ نیم خواب شبستاں، وہ مخملیں باہیں
کہانیاں تھیں، کہیں کھو گئی ہیں میرے ندیم

مچل رہا ہے رگ زندگی میں خون بہار
الجھ رہے ہیں پرانے غموں سے روح کے تار
چلو کہ چل کے چراغاں کریں دیار حبیب
ہیں انتظار میں اگلی محبتوں کے مزار
محبتیں جو فنا ہوگئی ہیں میرے ندیم
۔۔۔

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہ ے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہوجائے
یوں نہ تھا، میں فقط چاہا تھا یوں ہوجائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب سے بنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کجیے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجیے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
۔۔۔

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بے گانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے
۔۔۔

سوچ

کیوں میرا دل شاد نہیں ہے
کیوں خاموش رہا کرتا ہوں
چھوڑو میری رام کہانی
میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں
میرا دل غمگیں ہے تو کیا
غمگیں یہ دنیا ہے ساری
یہ دکھ تیرا ہے نہ میرا
ہم سب کی جاگیر ہے پیاری
تو گر میری بھی ہوجائے
دنیا کے غم یونہی رہیں گے
پاپ کے پھندے،ظلم کے بندھن
اپنے کہے سے کٹ نہ سکیں گے
غم ہر حالت میں مہلک ہے
اپنا ہو یا اور کسی کا
رونا دھونا جی کو جلانا
یوں بھی ہمارا، یوں بھی ہمارا
کیوں نہ جہاں کا غم اپنالیں
بعد میں سب تدبیریں سوچیں
بعد میں سکھ کے سپنے دیکھیں
سپنوں کی تعبیریں سوچیں
بے فکرے دھن دولت والے
یہ آخر کیوں خوش رہتے ہیں
ان کا سکھ آپس میں بانٹیں
یہ بھی آخر ہم جیسے ہیں
ہم نے مانا جنگ کڑی ہے
سر پھوٹیں گے، خون بہے گا
خون میں غم بھی بہہ جائیں گے
ہم نہ رہیں، غم بھی نہ رہے گا
۔۔۔

وفا سے وعدہ نہیں، وعدہ دگر بھی نہیں
وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں
برس رہی ہے حریم ہوس میں دولت حسن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
نگاہ شوق سر بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
یہ عہد ترک محبت ہے کس لیے آخر
سکون قلب ادھر بھی نہیں، ادھر بھی نہیں
۔۔۔

رقیب سے

آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے

تونے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹادی ہم نے
تجھ پہ اٹحی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنوائوں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھائوں تو سمجھانہ سکوں

عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بے کس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سوجاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
۔۔۔۔

تنہائی

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلادیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
۔۔۔

راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہوکے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے
سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
فیض تکمیل غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
۔۔۔

کچھ دن سے انتظار سوال دگر میں ہے
وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے
سیکھی یہیں مرے دل کافر نے بندگی
رب کریم ہے تو تری رہگزر میں ہے
ماضی میں جو مزا مری شام و سحر میں تھا
اب وہ فقط تصور شام و سحر میں ہے
کیا جانے کس کو کس سے ہے داد کی طلب
وہ غم جو میرے دل میں ہے تیری نظر میں ہے
۔۔۔

پھر حریف بہار ہو بیٹھے
جانے کس کس کو آج رو بیٹھے
تھی، مگر اتنی رائگاں بھی نہ تھی
آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے
تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے
عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے
ساری دنیا سے دور ہوجائے
جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے
نہ گئی تیری بے رخی نہ گئی
ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے
فیض ہوتا رہے جو ہونا ہے
شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے
۔۔۔

چند روز اور مری جان!

چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز
ظلم کی چھائوں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پہ یونہی تو نہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد
دل کی بے سود تڑپ،جسم کی مایوس پکار
چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز
۔۔۔

آئو کہ مرگ سوز محبت منائیں ہم
آئو کہ حسن ماہ سے دل کو جلائیں ہم
خوش ہوں فراق قامت و رخسار یار سے
سرو و گل و سمن سے نظر کو ستائیں ہم
ویرانی حیات کو ویران تر کریں
لے ناصح آج تیرا کہا مان جائیں ہم
پھر اوٹ لے کے دامن ابر بہار کی
دل کو منائیں ہم کبھی آنسو بہائیں ہم
سلجھائیں بے دلی سے یہ الجھے ہوئے سوال
واں جائیں یا نہ جائیں، نہ جائیں کہ جائیں ہم
پھر دل کو پاس ضبط کی تلقین کر چکیں
اور امتحان ضبط سے پھر جی چرائیں ہم
آئو کہ آج ختم ہوئی داستان عشق
اب ختم عاشقی کے فسانے سنائیں ہم
۔۔۔

کتے

یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑادو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھادو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مرجانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقائوں کی ہڈیاں تک چبالیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلادے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلادے
۔۔۔

بول۔۔۔

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زیاں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
۔۔۔

پھر لوٹا ہے خورشید جہانتاب سفر سے
پھر نور سحر دست و گریباں ہے سحر سے
پھر آگ بھڑکنے لگی ہر ساز طرب میں
پھر شعلے لپکنے لگے ہر دیدہ تر سے
پھر نکلا ہے دیوانہ کوئی پھونک کے گھر کو
کچھ کہتی ہے ہر راہ ہر اک راہگزر سے
وہ رنگ ہے امسال گلستاں کی فضا کا
اوجھل ہوئی دیوار قفس حد نظر سے
ساغر تو کھنکت ہیں شراب آئے نہ آئے
بادل تو گرجتے ہیں گھٹا برسے نہ برسے
پاپوش کی کیا فکر ہے، دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزرجائے گی سر سے
۔۔۔

اقبال

آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزلخواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہوگئیں
ویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
اب دور جاچکا ہے شاہ گدانما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
دو اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور اس کی لے سے سینکڑوں لذت شناس ہیں
اس گیت کے تمام محاسن ہیں لازوال
اس کا وفور اس کا خروش اس کا سوز و ساز
یہ گیت مثل شعلہ جوالہ تند و تیز
اس کی لپک سے باد فنا کا جگر گداز
جیسے چراغ وحشت صر صر سے بے خطر
یا شمع بزم صبح کی آمد سے بے خبر
۔۔۔

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسن دو عالم سے
مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی
کئی بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا
مگر یہ چشم حیراں، جس کی حیرانی نہیں جاتی
نہیں جاتی متاع لعل و گوہر کی گراں یابی
متاع غیرت و ایماں کی ارزانی نہیں جاتی
مری چشم تن آساں کو بصیرت مل گئی جب سے
بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
سر خسرو سے نازکجکلاہی چھن بھی جاتا ہے
کلاہ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی
بجز دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے
جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی
۔۔۔

موضوع سخن

گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمہ مہتاب سے رات
اور۔۔مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
اور۔۔ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہات
ان کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں
جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھائوں میں
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں
آج پھر حسن دلآرا کی وہی دھج ہوگی
وہی خوابیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر
رنگ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غبار
صندلی ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر
اپنے افکار کی اشعار کی دنیا ہے یہی
جان مضموں ہے یہی شاہد معنی ہے یہی
آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سائے کے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گزرے گی، اجداد پہ کیا گزری ہے؟
ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے
یہ حسیں کھیت، پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہ ے
یہ ہر اک سمت پراسرار کڑی دیواریں
جل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چراغ
یہ ہر اک گام پہ ان خوابوں کی مقتل گاہیں
جن کے پرتو سے چراغاں ہیں ہزاروں کے دماغ
یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہونگے
لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کمبخت دلآویز خطوط
آپ ہی کہیے کہیں ایسے بھی افسوں ہونگے
اپنا موضوع سخن ان کے سوا اور نہیں
طبع شاعر کا وطن ان کے سوا اور نہیں
۔۔۔

ہم لوگ

دل کے ایواں میں لیے گل شدہ شمعوں کی قطار
نور خورشید سے سہمے ہوئے اکتائے ہوئے
حسن محبوب کے سیال تصور کی طرح
اپنی تاریکی کو بھینچے ہوئے لپٹائے ہوئے
غایت سود و زیاں، صورت آغاز و مآل
وہی بے سود تجسس، وہی بے کار سوال
مضمحل ساعت امروز کی بے رنگی سے
یاد ماضی سے غمیں ، دہشت فردا سے نڈھال
تشنہ افکار جو تسکین نہیں پاتے ہیں
سوختہ اشک جو آنکھوں میں نہیں آتے ہیں
اک کڑا درد کہ جو گیت میں ڈھلتا ہی نہیں
دل کے تاریک شگافوں سے نکلتا ہی نہیں
اور اک الجھی ہوئی موہوم سی درماں کی تلاش
دشت و زنداں کی ہوس، چاک گریباں کی تلاش
۔۔۔

شاہراہ

ایک افسردہ شاہراہ ہے دراز
دور افق پر نظر جمائے ہوئے
سرد مٹی پہ اپنے سینے کے
سرمگیں حسن کو بچھائے ہوئے
جس طرح کوئی غمزدہ عورت
اپنے ویراں کدے میں محو خیال
وصل محبوب کے تصور میں
مو بمو چور، عضو عضو نڈھال
۔۔۔

نصیب آزمانے کے دن آرہے ہیں
قریب ان کے آنے کے دن آرہے ہیں
جو دل سے کہا ہے، جو دل سے سنا ہے
سب ان کو سنانے کے دن آرہے ہیں
ابھی سے دل و جاں سر راہ رکھ دو
کہ لٹنے لٹانے کے دن آرہے ہیں
ٹپکنے لگی ان نگاہوں سے مستی
نگاہیں چرانے کے دن آرہے ہیں
صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے
چمن کو سجانے کے دن آرہے ہیں
چلو فیض پھر سے کہیں دل لگائیں
سنا ہے ٹھکانے کے دن آرہے ہیں
۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *