تصنیف آپ نے سوال کیا ہے کہ ایسی غیرادبی کتابوں کی ایک فہرست مہیا کی جائے جو اردو کے قارئین کو زندگی میں ایک دفعہ ضرور پڑھ لینی چاہئیں۔ گمان ہے کہ غیرادبی سے آپ کی مراد شاید غیر افسانوی ہے جیسے شاعری، ناول ، افسانہ وغیرہ۔ کتاب کے شائقین جانتے ہیں کہ اس قسم کی فہرست ہمیشہ ایک ناگزیر موضوعیت کا شکار ہوتی ہے کیوں کہ یہ سراسرانتخاب کرنے والے کی دلچپسی پر ہی منحصر ہوتا ہے کہ اس کی پسندیدہ موضوعات کون سے ہیں۔ مثال کے طور پر آج کل کی رائج مغربی زمرہ بندی کے مطابق میں ’اپنی مدد آپ‘ یا Self Help کی صنف سے کوسوں دور رہتا ہوں لہٰذا کبھی بچپن میں ڈیل کارنیگی پڑھنے کے علاوہ اس کوچے کا رخ نہیں کیا۔ لیکن یہ صنف بھی اب کافی وسعت سے گزر کر اپنے اندر کئی ایسے مضامین کو سما چکی ہے جنہیں کلاسیکی زمرہ بندی میں شاعری یا افسانوی ادب ہی میں رکھا جاتا تھاجیسے خلیل جبران کی The Prophet ، مچ البم کی Tuesdays with Morrieیا پھر غلام احمد پرویز کے ’سلیم اور طاہرہ کے نام خطوط‘۔ بہرحال چونکہ میری دلچسپیاں متنوع ہیں اور زیادہ ترفلسفے، مذہب، سماجیات اور سائنس سے جڑی ہیں ، لہٰذا کوشش یہی ہے کہ ایک ایسی کتابوں کی فہرست قارئین تک پہنچا دی جائے جن میں سے ہر ایک یا پھر دو تین مل کر ایک مجموعے کی شکل میں اپنے اندر ایک مکمل جہان رکھتی ہوں۔ ان میں سے کچھ کتابیں قاری سے بہت زیادہ عرق ریزی اور اپنے وقت کا ایک قابلِ قدر حصہ وقف کر دینے کا تقاضا کرتی ہیں اس لئے انہیں ایک دفعہ ختم کر لینے کے بعد شاید ہی کتاب کے سفر پر مسلسل گامزن رہنے والےقاری کے لئے یہ ممکن ہو سکے کہ وہ ایک بار پھر اسی پڑاؤ پر خیمہ زن ہو۔ لیکن بہرحال ان میں موجود اشارے قاری کو تفہیم و تنقید کے سفر میں کبھی نہ کبھی اپنی جانب ضرور کھینچتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ ہر قاری اپنے مزاج کے مطابق اہم جگہوں کو نشان زد ضرور کرے۔
چونکہ سوال میں اردو کے قارئین کا ذکر تھا اس لئے اس فہرست میں اردو کی کتابیں شامل نہیں کی گئیں کیوں کہ اردو کے قارئین ہماری اپنی ثقافت میں پیدا ہونے والے ادب سے تو پہلے ہی خاطر خواہ واقفیت رکھتے ہیں اور یہ کام مجھ سے کہیں بہتر آپ جیسے حضرات کر سکتے ہیں جن کی اردو ادب پر گہری نگاہ ہے۔ ان میں سے جن کتابوں کا ترجمہ ہو چکا ہے اور میرے علم میں ہے، کوشش تھی کہ ان کا ذکر آگے قوسین میں کر دیا جائے لیکن وقت کی کمی کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ سو کتابوں کا یہ انتخاب بس اپنی کتابوں کی الماری کے سامنے چہل قدمی کرتے اور اپنی یاداشت کے زور پر کیا گیا ہے لہٰذا اس میں کوئی خاص ترجیح یا مزید زمرہ بندی کرنا فوری طور پر ممکن نہیں ہو سکا۔ یہاں انتخاب کی بنیادی ترجیح یہی ہے کہ قاری ایک دفعہ ان کتابوں کی طرف رجوع کرے تو اسے یوں محسوس ہو کہ گویا ایک نئے جہانِ معنی کی سیر کر آیا ہے یا ایک مخصوص موضوع پر اس سے زیادہ پڑھنا ناممکن بھی ہو تو کم از کم وقتِ نزع تشنگی محسوس نہیں ہو گی۔یہ سب کتابیں قاری کو ایک شدید اتفاق سے لے کر شدید اختلاف تک کئی قسم کے ردعمل پر ابھارتی ہیں اور میری رائے میں یہی ان کی اہمیت کا باعث ہے۔ یہ ایک مشکل انتخاب تھا اور چونکہ مجھے سو کے ہدف پر رکنا ضروری تھا لہٰذا کئی ایسی کتابیں ذہن میں آتی ہیں جو شاید اس فہرست میں آ جانی چاہئیے تھیں۔ یہ الفاظ لکھتے ہوئے میرے ذہن میں روسو کی خودنوشت، میکس ویبر اور ایذرا پاؤنڈ کے مضامین اور آرتھر کوئسلر کی یاداشتیں The Invisible Writingآ رہی ہیں۔
1. Miguel De Unamuno, Tragic Sense of Life (1900)
2. Robert Graves, Greek Myths (1955)
3. Jorge Luis Borges, This Craft of Verse (1992)
4. Oswald Spengler, The Decline of the West (1918)
5. Bryan Magee, Confessions of a Philosopher (1997)
6. Werner Heisenberg, Physics and Philosophy (1958)
7. Alexander Herzen, My Past and Thoughts (1968)
8. Abraham Joshua Heschel, Who is Man? (1965)
9. Albert Speer, Inside the Third Reich (1969)
10. Primo Levi, If This is a Man (1979)
11. Bertrand Russell, Our Knowledge of the External World (1914)
12. Michel de Montaigne, Complete Essays (1572)
13. Baruch Spinoza, Ethics (1677)
14. Umberto Eco, This is Not the End of Book (2009)
15. Edwin Arthur Burtt, Metaphysical Foundations of Modern Science (1924)
16. Isaiah Berlin, Hedgehog and the Fox (1953)
17. Richard Feynman, The Character of the Physical Law (1964)
18. John Dewey, Reconstruction in Philosophy (1919)
19. Muhammad Iqbal, Reconstruction of Religious Thought in Islam (1930)
20. Edward Said, Orientalism (1978)
21. Alasdair MacIntrye, After Virtue (1981)
22. Marshall G. S. Hodgson, The Venture of Islam (1974)
23. David Hume, An Enquiry Concerning Human Understanding (1748)
24. David Hume, A Treatise of Human Nature (1740)
25. David Foster Wallace, This is Water (2009)
26. Truman Capote, In Cold Blood (1965)
27. Carl Sagan, Cosmos (1980)
28. T. E. Lawrence, Seven Pillars of Wisdom (1922)
29. Plato, Dialogues
30. Muhammad Rafiuddin, Ideology of the Future (1949)
31. Orhan Pamuk, The Naive and Sentimentalist Novelist (2010)
32. Fazlur Rahman, Major Themes of Quran (1979)
33. Hermann Weyl, Philosophy of Mathematics and Natural Science (1949)
34. Charles Darwin, Origin of Species (1859)
35. Anne Frank, Diary of a Young Girl (1949)
36. Viktor Frankl, Man's Search for Meaning (1946)
37. Confessions, Augustine of Hippo (397)
38. Friedrich Nietzsche, Thus Spoke Zarathustra (1883)
39. Sigmund Freud, Interpretation of Dreams (1899)
40. Immanuel Kant, Critique of Pure Reason (1781)
41. Thomas Kuhn, The Structure of Scientific Revolutions (1962)
42. Stephen Hawking, Brief History of Time (1987)
43. Jared Diamond, Guns, Germs and Steel (1997)
44. Robert Pirsig, Zen and the Art of Motorcycle Maintenance (1974)
45. Karl Popper, The Open Society and its Enemies (1945)
46. Frantz Fanon, The Wretched of the Earth (1961)
47. Edmund Burke, Reflections on the Revolution in France (1790)
48. Max Weber, The Protestant Ethic and the Spirit of Capitalism (1904)
49. C. G. Jung, Man and His Symbols (1964)
50. Douglas R. Hofstadler, Godel, Escher, Bach: An Eternal Golden Braid (1979)
51. Stephen Jay Gould, Ever Since Darwin (1977)
52. Edwin Arthur Burtt, Religion in an Age of Science (1930)
53. Alexandre Koyre, From the Closed World to the Infinite Universe (1957)
54. Friedrich Engels, The Condition of the Working Class in England (1845)
55. Rene Guenon, The Reign of Quantity and the Signs of the Times (1945)
56. Malik Bennabi, Islam in History and Society (1954)
57. Orlando Figes, A People's Tragedy: The Russian Revolution (1996)
58. Alfred North Whitehead, Science and the Modern World (1926)
59. Hashim Kamali, Freedom of Expression in Islam (1996)
60. Ian Hacking, Taming of Chance (1990)
61. Noam Chomsky, Essential Chomsky (2008)
62. G.H. Hardy, A Mathematician's Apology (1940)
63. Rene Descartes, Discourses on Method (1637)
64. Ian Stewart, In Pursuit of the Unknown (1996)
65. William James, Varieties of Religious Experience (1902)
66. John Sherrif, The Fate of Meaning (1989)
67. Karl Marx, The Communist Manifesto (1848)
68. Abdullahi Ahmed al-Naim, Islam and the Secular State (2008)
69. Fazlur Rahman, Islam (1968)
70. Khalid Abou Al Fadl, Speaking in God's Name (2001)
71. Edwin Abbott, Flatland (1884)
72. Jostein Gaarder, Sophie's World (1991)
73. Karen Armstrong, A Case for God (2001)
74. Jonathan Brown, Hadith: Muhammad's Legacy (2009)
75. Marshall Berman, All that is Solid Melts into Air (1981)
76. G. Bernard Shaw, Intelligent Woman's Guide to Socialism and Capitalism (1928)
77. Jorge Luis Borges, Selected Non Fictions (1999)
78. Josiah Royce, The World and the Individual (1901)
79. Keith Lowe, Savage Continent (2012)
80. Alice Albnia, Empires of the Indus (2008)
81. Fred Donner, Muhammad and the Believers (2010)
82. Lin Yutang, Importance of Living (1937)
83. Neal Robinson, Discovering the Quran (1997)
84. Richard Rubenstein, The Cunning of History (1975)
85. Claude Levi Strauss, The Savage Mind (1968)
86. Mortimer Adler, How to Read a Book (1940)
87. Jean Paul Sartre, The Words (1963)
88. Hermann Hesse, Autobiographical Writings (1972)
89. Richard Feynman, The Pleasure of Finding Things Out (1999)
90. Benedict Anderson, Imagined Communities (1983)
91. Charles Taylor, A Secular Age (2007)
92. Wilfred Cantwell Smith, The Meaning and End of Religion (1959)
93. Michael Polanyi. Science, Faith and Society (1964)
94. Robert Bellah, Religion in Human Evolution (2011)
95. Ralph Waldo Emerson, The Essential Writings (2000)
96. Isaiah Berlin, The Proper Study of Mankind (1997)
97. Herbert Marcuse, One Dimensional Man (1964)
98. Arthur Stanley Eddington, The Nature of the Physical World (1920)
99. Louis Menand, The Metaphysical Club (2001)
100. Hannah Arendt, The Portable Hannah Arendt (2000)
2 تبصرے:
بہت ناقص اور کسی معیاری اصول کے بغیر
جی یاسر جواد صاحب، درست فرمایا۔ ناقص اس لئے کہ مجھے اب دنیا کی تمام کتابیں پڑھنے کا دعوی تو نہیں۔ یقیناً لاکھوں کتابیں ایسی ہیں جو میں نے نہیں پڑھیں اور کم از کم بیسیوں ایسی ہوں گی جن کا مجھے علم تک نہیں۔ غیرمعیاری اس لئے کہ یہ تو ایک ذاتی سی فہرست ہے اور معیاری فہرستوں کے لئے تو ٹائمز اور ماڈرن لائبریری کی فہرستوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ گمان ہے کہ آپ اگر کوئی فہرست مرتب کریں تو میں اپنی لاعلمی کے باعث اس میں سے کئی کتابوں کے بارے میں رائے رکھنے سے قاصر ہوں گا اور آپ کو بھی یقیناً میری فہرست میں موجود تمام کتابیں پڑھنے کا دعوی نہیں ہو گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں