ڈیئر تصنیف حیدر!
آپ نے پوچھا ہے کہ طلبا اور اردو کے شائقین کو فکشن کی کون سی کتابیں اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور پڑھنی چاہئیں؟میں اس کا جواب دینے کی اپنی سی کوشش کروں گا۔سب سے پہلے اردو فکشن کا ذکر کرنا چاہوں گااور اس میں اولین رتن ناتھ سرشار کے فسانہِ آزاد کا ذکر ہونا چاہیے، جو آزاد اور خوجی کے کارناموں سے آراستہ ایک بہت ہی دل چسپ کتاب ہے ۔ یہ کتاب لکھنو کی تہذیبی اور ثقافتی جھلکیوں کے ساتھ ساتھ اپنے زبان و بیان کے حوالے سے بھی اہم ہے۔اس کے بعد امرائو جان ادا کا نام لوں گا، جس کی وجہ سے ہادی الدین رسوا آج بھی اردو کے اہم ادیب شمار کیے جاتے ہیں۔اس ناول کے ذریعے ہمیں اپنی قدیم تہذیب اور معاشرت کے حوالے سے اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔منشی پریم چند بلاشبہ اردو کے بے حد اہم فکشن نگارہیں مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ اردو کے جدید فکشن پر جیسا اثر ان کے افسانے کفن نے ڈالا ، شاید ان کی اور کوئی تحریر نہیں ڈال سکی۔مجھے ان کے افسانے ان کے ناولوں سے زیادہ اہم معلوم ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے افسانوی مجموعے ضرور پڑھے جانے چاہئیں۔اس کے بعد کے دور میں احمد علی کے افسانے اور ان کا ناول شامِ دہلی اہم ہے۔ محمد حسن عسکری کے افسانے بھی عام طلبا اور فکشن کے شائقین کے لیے کم دلچسپ نہیں ہو ں گے۔ کرشن چندر کے ناولوں کے بجائے ان کے افسانوں کا مطالعہ زیادہ بہترر ہے گابلکہ ان کے افسانوں کے کسی اچھے سے انتخاب کا۔سعادت حسن منٹو کے حوالے سے بھی یہی رائے دوں گا کہ ان کوئی جامع انتخاب پڑھ لیا جائے تو کافی ہوگا۔ البتہ ان کے دور کے دو اور اہم لکھنے والے یعنی غلام عباس اور راجند سنگھ بیدی ہیں۔ غلام عباس کے افسانوں کی کلیات یعنی زندگی نقاب چہرے فکشن کی ایک ناگزیر کتاب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ راجندر سنگھ بیدی کی کلیات بھی نہایت اہم ہے کیوں کہ دونوں ادیب اپنے قاری کی تربیت بھی کرتے ہیں۔ خاص طور پر اسلوب کے حوالے سے۔ قرۃ العین حیدر کا ناول آگ کا دریا اور ان کے نمائندہ افسانوں کا انتخاب مطالعے کے لیے کافی ہوگا۔ عصمت چغتائی کا ناول ٹیڑھی لکیر اور ان کے بعض افسانے یقینی طور پر بے حد اہم ہیں۔ بلونت سنگھ کے ناول کالے کوس اور رات ، چکور اور چاند کو بھی ضرور پڑھا جانا چاہیے۔ احمد ندیم قاسمی کا نام بھی اردو افسانے کے حوالے سے بے حد اہم ہے ۔ ان کے افسانوں کا کوئی بہت اچھا سا انتخاب فکشن کے شائقین کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔علامتی اور تجریدی دور کے ادب میں یقینی طور پر تین ادیب اور ان کی کتب کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ انورسجاد کا افسانوی مجموعہ استعارے اور ان کا ناول خوشیوں کا باغ۔ سریندر پرکاش کی کتاب دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم اور بازگوئی۔ بلراج مین را کی کلیات ۔ جس دور میں علامتی اور تجریدی افسانے کا ڈنکا بج رہا تھا اسی دور میں ایک ادیب اپنی بغل میں ایک ناول دبائے ہماری ادبی دنیا میں واردہوا۔ وہ عبدللہ حسین تھے اوران کا ناول اداس نسلیں چھپتے ہی اردو کا اہم ترین ناول بن گیا۔ ان کا ایک اور ناول ’’ باگھ‘‘ بھی بلاشبہ ارود کا اہم ناول ہے۔انتظار حسین کی تمام افسانوی کتب میں ان کی دو کتابیں مجھے اہم ترین معلوم ہوتی ہیں ۔ پہلی ـــ’’ آخری آدمی‘‘ اور دوسری ’’ شہرِ افسوس‘‘۔ ان کے ناولٹ دن اور داستان کو بھی اہم کتب میں شامل سمجھیے۔خالدہ حسین کا مجموعہ ’’دروازہ‘‘ بھی اہم ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ ساتھ مجھے منیرالدین احمد کے افسانوی مجموعے سوکھے ساون کی بھی یاد آرہی ہے۔اسے بھی ضرور پڑھا جانا چاہیے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار منشا یادکا ابتدائی مجموعہ ’’ ماس اور مٹی‘‘ بھی اردو افسانے کی اہم کتابوں میں شامل قرار دیا جانا چاہیے۔اور اس کے ساتھ طاہر اسلم گورا نے منشا یاد کا جو انتخاب کیا ہے ، وہ بھی ضرور پڑھنا چاہیے۔محمد خالد اختر کی کتابیں ’’ کھویا ہوا افق ‘‘ ’’ یاترا‘‘ اور ’’چاکیواڑا میں وصال‘‘ بھی سب کو پڑھنی چاہئیں۔
اب کچھ ذکر عصرِ حاضرکے ادیبوں کا ہوجائے کیوں کہ ان میں بعض اتنے اہم ہیں کہ ان کے بغیر یہ فہرست نامکمل رہے گی۔ اسد محمد خاں صاحب کے افسانوں کی کلیات’’ جو کہانیاں لکھیں‘‘ اردو ادب کے ہر طالب علم کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ حسن منظر کا افسانوی مجموعہ ’’ سوئی بھوک‘‘ اور ناول ’’ دھنی بخش کے بیٹے‘‘ ہر ایک کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ فاورق خالد کا ناول ’’ سیاہ آئینے‘‘ بھی اہم ناول ہے۔ نیر مسعود کی ’’ سیمیا‘‘ اور’’ عطرِ کافور‘‘ بے حد اہم کتابیں ہیں۔ سید محمد اشرف کے افسانوی مجموعے ’’ ڈارسے بچھڑے‘‘ اور ان کا ناولٹ ’’ نمبردار کا نیلا‘‘ بے حد قابلِ مطالعہ ہے۔ خالد جاوید کی دو کتابیں’’ موت کی کتاب ‘‘ اور ’’نعمت خانہ‘‘ کو بھی لازماً پڑھا جانا چاہیے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول ’’غلام باغ‘‘ اور ’’ حسن کی صورت حال‘‘ بھی پڑھے جانے چاہئیں۔ فرانسیسی ادیب ژولیاں کی کتاب ’’ تین ناولٹ‘‘ بھی بے حد اہم ہے۔
یہ فہرست حتمی اور مکمل ہرگز نہیں ہے۔ مگر میری دانست میں یہ تمام کتابیں اردو فکشن کے شائقین اور طلباء کو اپنی زندگی میں ایک بار ضرور پڑھنی چاہئیں کیوں کہ یہ کتب انسان اور اس کی زندگی کے حوالے سے ہماری سمجھ بوجھ اور ہمارے علم میں اضافے کا موجب بن سکتی ہیں۔ ان کے ذریعے ہم اپنے ماضی اور حال کو بہتر انداز سے سمجھ سکتے ہیں۔
3 تبصرے:
یعنی اردو فکشن کے ہر دور کا مطالعہ کرنا چاہیے....
یار سوکھے ساون والے منیر الدین احمد ہیں یا ضمیر الدین احمد ہیں...
nihayat kharaab tehreer
بہت اچھا کام ہے آپ قابل تحسین ہین
ایک تبصرہ شائع کریں