پیر، 4 اپریل، 2016

تنقید نگاری سے توبہ/محمد خالد اختر

محمد خالد اختر کی تحریریں مجھے بہت پسند ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کے نام سے میں بہت بعد میں واقف ہوا۔ پاکستان سے اس زمانے میں شائع ہونے والی چیزیں بہت آسانی سے میسر نہیں آتی تھیں۔ ابھی بھی یہ مسئلہ اس حد تک ہی حل ہوا ہے کہ جو ادیب انٹرنیٹ پر موجود ہیں، ان کی تخلیقات تو پڑھنے کے لیے مل جاتی ہیں، اور جو نہیں ہیں ان کے لیے صرف ایک دیدۂ حسرت نگاہ کے علاوہ ہم لوگ اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے۔ محمد خالد اختر کی یہ تحریر ’تنقید نگاری سے توبہ‘ اردو داں طبقے میں موجود تنقید کے مرض کی تشخیص ہی نہیں کرتی بلکہ اس کے اسباب بھی بتاتی ہے، جسے کمال مہارت سے خالد صاحب نے لکھا ہے۔ اس تحریر میں چھپے طنز کے نشتر کو وہ لوگ زیادہ بہتر طور پر محسوس کرسکتے ہیں جو تنقید کے صحیح طریقے سے بالکل واقف نہ ہوتے ہوئے سیمیناروں کی واہ واہ لوٹ رہے ہیں، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ وہ اس طرح کی اکا دکا بدمزہ کرنے والی تحریروں سے بگڑنے والے نہیں، وہ اپنا کام جاری رکھیں گے۔ بہرحال آپ تحریر پڑھیں، محمد خالد اختر کی مزید تحریریں جلد ادبی دنیا کی زینت بنیں گی۔ بے حد شکریہ(تصنیف حیدر)

مجھے کتابوں پر ریویو لکھنے میں ملکہ حاصل ہے۔اور میں انہیں پڑھے بغیر ہی ریویو لکھ سکتا ہوں۔ یہ خدا کی دین ہے۔جس طرح بعض لوگ شاعر یا پیدائشی مختصر افسانہ نویس ہوتے ہیں۔ غالباً میں ایک پیدائشی تبصرہ نگار ہوں۔
پچھلے دو تین سال کے عرصہ میں میں نے ادیب سازی کے سلسلہ میں جو کام کیا ہے۔وہ آپ سے پوشیدہ نہ ہوگا میرا ریویو کرنے کا طریقہ یہ ہے ۔
’خیال نو‘کا ایڈیٹر جو میرا دوست ہے مجھے کتابیں ریویو کرانے کے لیے بھیجتا ہے۔میں ان کو ادھر ادھر سے الٹ کر کسی صفحہ کو کھول کر دو تین سطریں پڑھتا ہوں۔ مثلاً
اس نے کہا۔’چائے کی پیالی پیو!‘
بھورے خاں نے کہا۔’شکریہ میں ابھی ابھی لیمن پی کر آیا ہوں۔‘
اور پھر کتاب کو بند کرکے اس پر تین چار صفحے کا ریویو گھسیٹ دیتا ہوں۔اگر کتاب ذرا اہم ہوئی تو میں اسے اپنے بھانجے کو (جو آٹھویں جماعت میں تعلیم پارہا ہے)پڑھنے کے لیے دے دیتا ہوں۔اور رات کو سوتے وقت اس سے کہتا ہوں۔کہ مجھے اس کا پلاٹ سنائے۔اگر اس کے پلے کچھ نہ پڑا تو سمجھ لیتا ہوں کہ کتاب فی الواقعی ہائی برو ہے۔اور اپنے ریویو میں اسے وقیع اور عالمانہ بتاتا ہوں اب تک یہ طریقہ بہت کامیاب رہا تھا۔کتنا کامیاب، یہ آپ کو اس شہرت سے اندازہ ہوسکتا ہے، جو اس سلسلے میں مجھے حاصل ہے۔خود میرے ریویوں پر ریویو لکھے جاچکے ہیں اور مجھے ادب کا ہونہار ترین نوجوان نقاد تسلیم کیا جاچکا ہے۔’خیال نو‘جو اس وقت اردو ادب کی آواز ہے۔اپنے ہر شمارے میں میری تصویر کے نیچے یہ چھاپتا ہے’مسٹر شدادپشمی‘۔اردو کے ہونہار ترین نوجوان نقاد، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن چند دنوں سے اسی تنقید نگاری کی بدولت میں ایک عجیب مصیبت میں پھنس گیا ہوں مجھے معلوم نہ تھا کہ ریویوئنگ اتنی پرخطر بھی ہوسکتی ہے۔میرا خیال تھا کہ یہ سب گلابوں کی سیج ہے۔ اب اس کے خطرات مجھ پر کھلے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اس مصیبت کی وجہ سے حالات اس قدرنازک صورت اختیار کرچکے ہیں کہ کتابیں ریویو کرنا تو رہا ایک طرف۔میں نے گھر سے باہر نکلنا بھی ترک کردیا ہے۔اور اب کراچی چھوڑ کر کسی اور جگہ کوچ کرنے کا ارادہ کررہا ہوں۔ وہ جگہ ہے نا جہاں ، وہ کیا مصرعہ ہے۔۔۔۔ہم زباں کوئی نہ ہو۔۔۔اور میزباں کوئی نہ ہو۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔ٹھیک اسی جگہ میں جانا چاہتا ہوں۔صرف وہ جگہ اب مجھے راس آسکتی ہے۔کیا کوئی صاحب مجھے اس کا اتہ پتہ بتلا سکتے ہیں کہ وہ کہاں ہے!
مصیبت کا آغاز یوں ہوا کہ’خیال نو‘کے ایڈیٹر نے مجھے ایک ناول ریویو کرنے کے لیے دیا۔میرا بھانجا کہیں باہر گیا ہوا تھا۔اور پھر میں، سمجھا کہ ناول اتنا اہم بھی نہیں ہے (اس کا مصنف کوئی غیر معروف شخص تھا)میں نے درمیان سے ایک صفحہ کھولا۔ اور پڑھنے لگا۔
’میں پاگل ہوں۔۔۔میں پاگل ہوں۔۔میں پاگل ہوں‘۔عبدالشکور نے اپنے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔اس کے دوست حکیم عبدالعلی نے اس کو اس سے باز رکھنے کے کشمکش کی۔
’کپڑے مت پھاڑو میاں عبدالشکور‘میاں عبدالعلی نے کہا۔’یہ قمیص جو تم پہنے ہوئے ہو میری ہے‘
میں نے کتاب کو ایک اور جگہ سے الٹا۔یہاں اس قسم کے نادر جواہرات جڑے تھے۔
’اگر عبدالشکور اپنے تحت الشعور کو کسی طرح اپنے لاشعور میں مدغم کرسکتا تو اس کی نفسیاتی الجھنوں کا خاتمہ ہوجاتا۔اس کو خود بخود ملازمت مل جاتی۔اور اس کے دفتر کا سپرٹنڈنٹ خود بنفس نفیس ملازمت کو طشت پر رکھے اس کے پاس حاضر ہوتا اس کے مکان کے پچھلے دو ماہ کا کرایہ خود بخود ادا ہوجاتا۔اور اس کے قرض خواہ اس کی خوش طبعی سے متاثر ہوکر اپنے پچھلے قرضے مانگنے کی بجائے اسے اور قرضہ دینے پر اصرار کرتے۔مگر افسوس کہ عبدالشکور محض دس جماعتوں تک پڑھا تھا۔افسوس اس نے ڈاکٹر سگمنڈ فرائڈ کی کتاب ’سائیکالوجی آف نیوروسس‘نہیں پڑھی تھی۔افسوس اس نے آندرے ژید نہیں پڑھا تھا۔افسوس وہ بصد کوشش جیمز جائس کی ’اولیسس‘کو ایک صفحے سے آگے پڑھنے میں کامیاب نہ ہوا تھا۔اگر وہ کم از کم اولیسس ہی آدھی تک مطالعہ کرلیتا تو اس وقت اس کی نفسیاتی اور جسمانی حالت اس قدر قابل رحم نہ ہوتی۔اور چاننان اس سے یوں بے وفائی نہ کرتی۔اب وہ اس طرح محسوس کررہا تھا جیسے وہ پاگل ہوجائے گا۔جیسے اس کے لیے پاگل ہوجانے کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔۔۔۔۔‘
یہ کافی تھا۔اور میں کتاب کو بند کرکے اس پر ریویو لکھنے بیٹھ گیا۔
پندرہ منٹ میں میں نے ریویو لکھ ڈالا۔چھ صفحے کا ریویو۔اس میں میں نے لکھا کہ اس ناول میں مصنف محترم ذوالفقار خاں نے ایک بے کار تعلیم یافتہ نوجوان کے جذبات کی فرائڈین نقطۂ نظر سے تجزیۂ نفسی کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر وہ اس میں زیادہ کامیاب نظر نہیں آتے۔پھر بھی ان کی اس کوشش کونا کامیاب بھی نہیں کہا جاسکتا۔وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کی ہوبہو عکاسی کرتے ہیں مگر ان کی رومانیت پرستی سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ان کی کردار نگاری کی تکنیک خارجی نہیں بلکہ داخلی ہے۔یعنی وہ اپنے کرداروں کے چھپے چھدرے تحت الشعور میں گھس کر ان کی زبان سے بولتے ہیں۔اور جب اس شان دار اور بے حد رقت انگیز سین میں عبدالشکور جو اس ناول کا ہیرو ہے۔اپنے کپڑے پھاڑ کر چلاتا ہے۔’میں پاگل ہوں،میں پاگل ہوں‘تو ہمیں صاف طور پر اس میں مصنف خود بولتا ہوا نظر آتا ہے۔محترم ذوالفقار خاں میں ایک عیب یہ ہے کہ وہ کرداروں کو باہر سے ٹٹولتے ہیں۔اور ان کے بارے میں گہرائی سے نہیں لکھتے۔لیکن امید ہے کہ اپنی اگلی کتاب میں وہ اس کے بالکل برعکس تکنیک استعمال کریں گے۔ان کی پہلی کتاب سے سب کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور ادبی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔سب نے محسوس کیا ہے کہ ایک نیا ادیب منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوچکا ہے جس کی ادبی کاوشوں سے اردو ادب کو چار چاند لگنے کی توقع ہے۔مگر ذوالفقار خاں کو سنبھل سنبھل کر بڑھنا ہوگا۔ابھی انہیں مغل نگارش کے متعلق بہت کچھ سیکھنا ہے اورنفسیات کی سب کتابوں کا مطالعہ کرنا ہے۔ان کے ناول سے گمان ہوتا ہے کہ عبدالشکور نے (جو غالباً مصنف خود ہی ہے)ابھی تک سائیکالوجی آف نیوروسس نہیں پڑھی۔آندرے ژید نہیں پڑھا۔میں محترم ذوالفقار خاں سے پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ اگر انہوں نے خود اپنے اقرار کے مطابق نہ فرائڈ کو پڑھا ہے نہ آندرے ژید کو اور نہ جائس کو۔تو پھر انہوں نے پڑھا کیا ہے۔ان کتابوں کے مطالعہ کے بغیر وہ ہمیں کیسے کوئی ٹھوس یا جامد تخلیق دے سکتے ہیں۔راقم الحروف نے خود ان تینوں مصنفوں کو ہائی اسکول ہی میں پڑھ ڈالا تھا۔اس زمانے میں شاید ذوالفقار خاں پتنگ اڑاتے ہوں گے یا بہرام ڈاکو عرف بے وفا مجاہد کی قسم کے ناولوں سے اپنی راتوں کی نیند حرام کرتے ہوں گے۔۔۔محترام ذوالفقار خاں چینی کلاسیکل مصنف چنگ پھنگ پھوں سے بے حد متاثر معلوم ہوتے ہیں(یہ نام میں نے اسی وقت فرضی گڑھ لیا تھا)اور انہوں نے اپنے ناول کے پلاٹ کے سلسلہ میں مسٹر چنگ پھنگ پھوں کے ناول چیکو چیکو سے کسی حد تک استفادہ کیا ہے۔
کچھ اس قسم کے الفاظ تھے میرے ریویو کے۔لفظوں کے کچھ ہیر پھیر کے ساتھ میں اس موضوع پر متعدد ریویو پہلے کرچکا تھا اور ایڈیٹر خیال نو کو یہ ریویو حوالے کردینے کے بعد میں اس کے اور محترم ذوالفقار خاں کے متعلق سب کچھ بھول گیا۔
جب یہ ریویو ’خیال نو ‘میں چھپا تو اس سے تین چار روز بعد مجھے محترم ذوالفقار خاں کا خط موصول ہوا۔جس میں انہوں نے میرے حوصلہ افزا ریویو کا شکریہ ادا کیا تھا۔اور مجھے یقین دلایا تھا کہ انہوں نے چنگ پھنگ پھوں کی کوئی کتاب نہیں پڑھی اور اگر ان کے ناول کی مسٹر چنگ پھنگ پھوں کے ناول سے کچھ مشابہت ہے تو اسے محض اتفاق پر محمول کیا جاسکتا ہے۔آگے چل کر انہوں نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ آیا میں ان کومسٹر چنگ پھنگ پھوں کے پبلشر کے پتے سے آگاہ کرسکتا ہوں۔جس سے عظیم چینی مصنف کے ناول ’چیکو چیکو‘کا انگریزی زبان کا ایڈیشن دستیاب ہوسکے۔
میں نے جواباً لکھ بھیجا۔’چیکو چیکو ‘تو میں نے اصل چینی زبان میں پڑھا تھا۔جہاں تک مجھے علم ہے ابھی ناول کا انگریزی زبان میں ترجمہ نہیں ہوا۔
میرا خیال تھا معاملہ یہیں پر ختم ہوجائے گا۔دوسرے دن میں ابھی بستر سے نکل کر شیو ہی کررہا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔میں سمجھا شاید دودھ والا ہوگا۔منہ صابن کے جھاگ میں لتھڑا ہوا ہاتھ میں برش۔۔۔اس حلیہ میں میں نے دروازے کو تھوڑا سا کھول کر محتاط انداز میں باہر سر نکالا۔
’کیا آپ ہی شداد پشمی ہیں؟‘ایک کھپے دار مونچھوں والا خطرناک شکل کا انسان دروازے کے پاس کھڑا تھا۔
’ہاں مجھے یہی کہا جاتا ہے۔۔۔دوست احباب صرف پشمی کہتے ہیں‘میں نے مسکرانے اور خرخرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔’آپ کی تعریف؟ کیسے آنا ہوا؟‘
’میں ذوالفقار خاں ہوں ۔۔اور آپ کے حوصلہ افزا ریویو کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔‘
میں اس کو اچھے اخلاق میں شمار نہیں کرتا کہ مصنف لوگ بالکل ہی تبصرہ نگار کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑجائیں۔اور خط و کتابت پر اکتفا نہ کرکے اس کے گھر کا کھوج نکالیں۔میں ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ صبح ہی صبح ذوالفقار خاں کی قسم کے مصنف کو اپنے دروازے کے باہر کھڑا دیکھنا کسی تبصرہ نگار کے دلی سکون میں اضافہ کا موجب نہیں بن سکتا۔میں نے صابن کی جھاگ میں سے اپنے جبڑے چیر کر اس پر یہ ظاہر کیا کہ میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں۔
میں نے کہا’اخاہ ذوالفقار صاحب۔آئیے آئیے اندر تشریف لائیے۔آپ کی کتاب۔کئی حیثیت سے غیر معمولی تھی۔ـ
وہ اندر آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔اور میں ہاتھ میں برش پکڑے اس کے سامنے والے صوفے پر۔
’ہاں تو وہ آپ کی کتاب خوب تھی۔‘
’آپ شیو تو کرلیجیے۔‘اس نےمسکراتے ہوئے کہا۔
میں جانتا تھا کہ اس شخص کی موجودگی میں میرے لیے شیو کرنا ناممکنات میں سے ہے! شیو کرنے کے لیے دلی سکون اور روحانی اطمینان ضروری ہے۔۔۔پھر میرا خیال تھا کہ اس طرح شاید مجھے اس سے جلد چھٹکارا حاصل ہوجائے۔
’شیو کرلوں گا۔۔۔آپ فرمائیے۔اتنے سویرے سویرے۔۔۔۔‘
’ہاں،چینی کتاب چیکو چیکو، آپ کے پاس ضرور ہوگی۔آپ نے اپنے ریویو میں اس کا حوالہ دیا ہے۔وہ نہیں تو چنگ پھنگ پھوں کا کوئی دوسرا شاہکار۔‘
’وہ کتاب چیکو چیکو! ہاں! مجھے یاد آیا ، میں کل ہی تو اسے پڑھ رہا تھا ۔مسٹر چنگ پھنگ پھوں۔یہی نام ہے نا۔۔۔اس وقت چین کے کلاسیکی روایت میں لکھنے والوں میں سب سے زیادہ ممتاز ہے۔وہ جو میں نے آپ کی کتاب پر اپنے ریویو میں لکھا تھا کہ اس کی چنگ پھنگ پھوں کی کتاب سے مشابہت ہے۔۔۔تو۔۔۔‘
’آپ نے چینی زبان کب سیکھی تھی۔مسٹر ذوالفقار نے بات کاٹتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔‘غالباً اس وقت جب میں لکڑی کے گھوڑے پر سیر کیا کرتا ہوں گا۔‘
میں نے اس سوال میں نیش زنی کو نظر انداز کرکے اتنی ہی سنجیدگی سے دور ایک مفکرانہ طور پر دیکھتے ہوئے جواب دیا۔غالباً ۱۹۲۸ میں۔۔۔میں اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔‘
مسٹر ذوالفقار نے قطع کلامی کرکے مجھے مزید دروغ گوئی سے بچاتے ہوئے پوچھا۔
’آپ نے لن یو ٹانگ کی کتابیں پڑھی ہیں۔وہ سب تو انگریزی میں بھی ترجمہ ہوچکی ہیں۔‘
میں نے جواب دیا۔’ہاں اچھا لکھتا ہے مگرخارجی اسکول کا مصنف ہے۔میرا مطلب ہے اس میں داخلیت نہیں۔پھر بھی برا نہیں۔میں نے تو اس کی کتابیں اصلی چینی زبان میں پڑھی ہیں۔ترجمہ میں دراصل وہ بات نہیں رہتی۔
‘اور پنگ پانگ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘ذوالفقار خاں نے پوچھا
’اچھا لکھتا ہے‘میں نے جواب دیا۔’اگرچہ میں نے اس کا نام کبھی نہیں سنا تھا۔چین کی عوامی زندگی کا اس وقت وہ واحد عکاس ہے مگر رومانیت پسندی اس کی تخلیقات میں جو خارجیت۔۔اور۔۔۔رومانیت کا رنگ لے آتی ہے وہ میری رائے میں اس کی اصلی خوبیوں میں سے بہت کچھ منفی کرلیتا ہے۔پھر بھی وہ اس وقت چینی ادب کا آندرے ژید ہے۔‘
’معاف کیجیے۔‘مسٹر ذوالفقار خاں نے یک لخت اٹھتے ہوئے کہا۔
’آٹھ بجے مجھے ایک ضروری کام پر جانا ہے۔اب اجازت چاہتا ہوں۔پنگ پانگ کے متعلق آپ کے ان ارشادات کو میں یہاں کے ہر ادیب تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔خاطر جمع رکھیے اور ویسے جاتے جاتے یہ عرض کردوں کہ پنگ پانگ ایک کھیل کا نا م ہے۔ جو گیند سے میز پر کھیلا جاتا ہے۔‘
’میرا مطلب طریقہ ٔفکر کی مشابہت سے تھا۔۔۔آپ سمجھتے ہیں نا۔۔۔سبجیکٹو طریقہ نہ کہ آبجیکٹو۔۔آپ سمجھتے ہیں نا‘میں نے بازو ہلا کر اسے اپنا مطلب سمجھانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں برش سے اپنی ناک پر سفیدی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
’وہ کتاب تو آپ کے پاس ہوگی ہی۔۔۔بات یہ ہے کہ ہم نئے ادیبوں کو چینی فن کاروں کے شاہکار پڑھنے چاہییں، نیئپر روڈ پر ایک چینی دندان ساز آہ فنگ میرا دوست ہے۔میں اس سے اگلے ہی روز دوداڑھیں نکلوا چکا ہوں‘مسٹر ذوالفقار خاں نے حلق کھول کر اور انگلی اندر ڈال کر مجھے نکلی ہوئی ڈاڑھوں کی جائے وقوع دکھانے کی کوشش کی۔’میرا ارادہ ہے کہ آہ فنگ کی مدد سے میں چیکو چیکو کا اردو ترجمہ کروں۔ورنہ آپ تو ہیں ہی۔‘
’ہاں ضرور کیجیے۔ہمیں اردو داں طبقے کو چینی ادب سے روشناس کرانا چاہیے۔ضرور کیجیے۔۔۔‘میں نے کہا۔
’اچھا تو مجھے وہ کتاب ایک دو دن کے لیے عنایت کردیجیے!‘
کون سی کتاب‘
میں اس کتاب کے متعلق بھول گیا تھا۔
’وہی چیکو چیکو۔۔۔چنگ پھنگ پھوں کا شاہکار۔۔‘
’وہ کتاب۔۔۔۔ہاں! میں نے خدا جانے اس کو کہاں رکھ دیا ہے۔‘میں نے کہا۔’پرسوں بھی تو وہ میرے پاس ہی تھی۔۔دراصل میرا بھانجہ ہے نا۔۔۔عجیب نامعقول لڑکا ہے۔۔میری کتابیں یہاں سے اٹھا کر لے جاتا ہے اور بھینس کے آگے ڈال دیتا ہے۔‘
’بھینس کے آگے؟‘مسٹر ذوالفقار نے کرسی پر سے ہڑبڑا کر اٹھتے ہوئے احتجاج کیا۔
’ہاں بھیینس کے آگے۔۔یہ اس کی ہابیوں میں سے ایک ہے‘
’مگر پنگ پانگ ایک چینی مصنف بھی تو ہے۔۔۔آپ مذاق تو نہیں کررہے۔۔ذوالفقار صاحب ٹھہریے، چائے تو پیتے جائیے۔۔‘مگر میرا ملاقاتی دروازہ کھول کر باہر جاچکا تھا۔۔۔
صابن میرے گالوں پر سوکھ چکا تھا۔۔اور ذوالفقار خاں کے چلے جانے کے بعد مجھے ایک مبہم سااحسا س ہوا کہ ریویوٹری کی حیثیت سے میرا کیریر اب ختم ہوگیا ہے۔
مسٹر ذوالفقار خاں اپنے وعدے کا پکا ثابت ہوا۔۔۔قابل سے قابل ڈھنڈورچی بھی اس خوبی سے اس کام کو سرانجام نہ دے سکتا ۔جس خوبی سے اسے ذوالفقار خاں نے کیا۔ایک ہفتے کے اندر اندر شہر کا ہر ادنیٰ آدمی کافی ہائوس کا ہر جرنلسٹ اس قصہ کو جانتا تھا۔اور ’پنگ پانگ ‘کے متعلق میری رائے کو قہقہوں کے درمیان ادبی محفلوں میں دہرایا جاتا تھا۔کم از کم اردو کے دو ماہناموں ’صبح‘اور ’سکرین‘کے تنقید نگاروں نے طویل مقالوں میں میری خوب خبرلی۔۔۔(تنقید نگاروں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔کاش ہم لوگوں میں یونین اسپرٹ ہوتا)۔مہینے کے اندر اندر ساری ادبی دنیا اس مذاق سے واقف ہوگئی تھی۔اور اب جب کہ تین ماہ بعد بھی جب لوگ مجھے دیکھتے ہیں۔تو ان کی باچھیں چرنے لگتی ہیں اور وہ مجھ سے پوچھتے ہیں۔’پنگ پانگ ‘کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟۔۔۔۔۔
میرے لیے گھر سے باہر نکلنا دوبھر ہوگیا ہے۔
میرا دوست’خیا ل نو‘ کا ایڈیٹر اب مجھے اپنے رسالے کے لیے ریویو لکھنے کی دعوت نہیں دیتا۔میں اب اس جگہ سے کوچ کرنے کا ارادہ کررہا ہوں۔اس جگہ جہاں ہم زباں کوئی نہ ہو اور مہماں کوئی نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔اور جہاں ذوالفقار خاں بھی نہ ہو۔۔۔۔!
(بشکریہ افکار، کراچی،شمارہ نمبر 4،1951)

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *