جمعرات، 7 اپریل، 2016

اشتہار کے تعلق سے دو اہم مضامین

ذیل کے دونوں مضامین امریکہ میں اشتہار بازی کی وبا اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات کا بخوبی جائزہ لیتے ہیں۔اشتہار کا سب سے اعلیٰ فن یہ ہے کہ وہ ہمیں اپنی پیدا کی ہوئی اجتمائی اخلاقیات کا قائل بنادے۔مثال کے طور پر اچھا ہونا اخلاقیات میں شامل ہے، لیکن خوبصورت ہونا ، کچھ مخصوص مصنوعی چمک پیدا کرنے والے پروڈکٹس کی پیدا کردہ اخلاقیات ہیں۔آپ کریم لگائیے، پائوڈر ملیے، خوش لباس رہیے، فیشن کا ممکنہ حد تک پیچھا کیجیے تو دنیا کے بازار میں آپ ایک عزت دار شخص کہلاسکیں گے، یہ وہ غلط فہمیاں ہیں، جو دراصل انسانی اعتماد کو مجروح کرنے کی سب سے بڑی مجرم ہیں۔لیکن ان کو ہم نے رفتہ رفتہ ایسے قبول کیا ہے کہ اب ہم نئے سے نئے اورمہنگے سے مہنگے پروڈکٹ کے غلام بنتے جارہے ہیں، اس موضوع پر یہاں پیش کیے جانے والے مضامین پرانے ہیں، غالباً ٹیلی ویزن کے دور سے بھی کچھ عرصہ پہلے کے۔ لیکن آپ دیکھیں گے کہ ان کی حقانیت اور ان کی اثر انگیزی آج بھی قائم ہے، وجہ یہ ہے کہ ہم سوچے سمجھے بغیر ایک خاص قسم کی مصنوعی رمق کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، اپنا وجود بدلنے کے لیے۔ اچھا لگنا، اچھا دکھائی دینا انسان کا حق ہے، اچھی چیزوں پر بھی اس کا دھیان جانا فطری ہے، لیکن اشتہار بازی کی یہ جنگ انسانی ذہن کو جس طرح کند کرتی ہے، وہ مذہب اور سماجی اقدار کی اندھادھند پاسداری سے پیدا ہونے والی خطرناک صورت حال سے کچھ کم نہیں۔کیونکہ اشتہار صرف پراڈکٹ کا ہو، ضروری نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو اس دنیا میں کون سی ایسی شے ہے جسے بطور پروڈکٹ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔(تصنیف حیدر)

اشتہار کی نفسیات/ژاں پال سارتر

امریکہ میں جو قوتیں انسان کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہیں، بڑی نرم اور ملائم ہیں اور ان کا عمل آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ آپ ذرا سا سڑک پر نکلیں یا کسی دوکان میں داخل ہوں یا ریڈیو سنیں تو فوراً ہی یہ قوتیں ایک گرم گرم سانس کی طرح آپ کے اوپر ڈالتی ہوئی محسوس ہوں گی۔
امریکہ میں آپ سڑک پر اکیلے کبھی نہیں رہ سکتے۔ دیواریں تک آپ سے باتیں کرتی ہیں۔ دائیں بائیں ہر طرف آپ کو تختوں پر لگے ہوئے اشتہار، منور سائن بورڈ اور دکانوں کی بڑی بڑی آراستہ کھڑکیاں نظر آئیں گی۔ جن میں ایک تو بڑی سی تصویر ہوتی ہے اور کچھ اعداد و شمار۔ ان تصویروں میں آپ دیکھیں گے کہ ایک پریشان حال عورت ایک امریکن سپاہی کو اپنے ہونٹ پیش کررہی ہے، یا ایک ہوائی جہاز کسی شہر پر بمباری کررہا ہے۔اور تصویر کے نیچے لکھا ہوگا ’ہم نہیں انجیل سڑک پر پوری قوم آپ کے ساتھ چلتی ہے‘ آپ کو مشورہ اور حکم دیتی ہے لیکن قوم یہ ساری باتیں دھیمے لہجے میں کہتی ہے اور جو نصیحت کرتی ہے اس ے ساتھ ساتھ بڑی احتیاط سے تفصیلاً تشریح بھی بیان کرتی ہے۔ مثلاً آرائشی سامان کا اشتہار اس طرح ہوگا۔ ’ہمیشہ سے زیادہ آج آپ کا یہ فرض ہے کہ اپنے آپ کو خوبصورت بنائیں۔ وہ واپس آرہے ہیں۔اپنا چہرہ درست کرلیجیے۔۔۔فلاں کریم خریدیے۔۔۔۔‘ غرض کاروباری اشتہار ہو یا سرکاری اعلان اس کے ساتھ مختصر سا تبصرہ یا تشریحی تصویر ضرور ہوتی ہے۔
کل میں فونٹانا کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے گیا تھا۔ وہاں سڑک کے کنارے ایک بہت بڑا بورڈ لگا ہوا تھا جس پر کارٹون کی شکل میں باہمی تعاون کی ضرورت سمجھائی گئی تھی۔ دو گدھے ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں اور گھاس کے دو ڈھیروں کی طرف جانے کی کوشش کررہے ہیں جو ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر ہیں۔ ایک گدھا رسی کو ایک طرف کھینچ رہا ہے اور دوسرا گدھا دوسری طرف، اس طرح دونوں کا گلہ گھٹ رہا ہے۔ لیکن آخر بات ان کی سمجھ میں آجاتی ہے۔ وہ دونوں مل کر کام شروع کرتے ہیں اور پہلا ڈھیر کھانے لگتے ہیں۔ اسے ختم کرنے کے بعد وہ دوسرا ڈھیر کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس کارٹون میں تبصرہ سے گریز کیا گیا ہے اور نتیجہ اخذ کرنے کا کام دیکھنے والے پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس پر کوئی دبائو نہیں ڈالا گیا، بلکہ کارٹون براہ راست اس کی ذہانت سے توجہ کا طالب ہے۔ اسے کارٹون کو سمجھنا پڑتا ہے اور اس کی تشریح کرنی پڑتی ہے۔ دیکھنے والے سے زبردستی کوئی بات نہیں منوائی جاتی جیسے ہٹلر کے پروپگینڈہ میں ہوتا ہے۔ بات کہنے کا یہ طریقہ زیر لبی ہے۔ایسے اشتہار کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ دیکھنے والا تعاون کرے۔ایک دفعہ مطلب سمجھ میں آجائے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ خیال خود اس کے ذہن میں پیدا ہوا ہو۔اس طرح وہ آدھا ایمان تو فوراً ہی لے آتا ہے۔
کارخانوں میں ہر جگہ لائوڈ اسپیکر لگادیے گئے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ بے جان مادہ کے سامنے مزدور جو تنہائی محسوس کرتا ہے۔ اسے کم کیا جائے۔بالٹی مور کے زبردست کارخانے میں داخل ہوں تو پہلے آپ کو مزدور کی تنہائی کا وہی احساس ہوگا جس سے یورپ والے مانوس ہیں۔ نقاب پوش انسان دن بھر جھکے ہوئے اپنی مشینیں چلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی وہ نقاب چڑھاتے ہیں انہیں موسیقی سنائی دینے لگتی ہے اور یہ موسیقی بھی ایک قسم کی ہدایت ہے جو چپکے چپکے ان کے اندر اپنا کام کرتی ہے۔موسیقی بھی ایک ایسا خواب ہے جو زبردستی دکھایا جارہا ہے۔پھر موسیقی ختم ہوجاتی ہے اور مزدوروں کو ان کے کام کے متعلق معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ ریڈیو سے ہدایات نشر کی جاتی ہیں۔’اخباروں میں خط لکھے جاتے ہیں۔بیسیوں ادارے ایسے موجود ہیں جن کے مقاصد ہمیشہ تعلیمی ہوتے ہیں ۔ان سب چیزوں کو نظر میں رکھیے تو آپ کو اندازہ ہوگا ہ امریکہ کا شہری چاروں طرف سے محصور ہے۔‘
لیکن یہ نہ سمجھیے گا کہ یہ امریکہ کی حکومت یایا سرمایہ داروں کا ایک حربہ ہے۔
یہ تعلیمی رجحان دراصل خود قوم کے اندر سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر امریکی دوسرے امریکیوں سے تعلیم پاتا ہے، اور دوسروں کو تعلیم دیتا ہے۔ نیویارک کے اسکولوں اور دوسرے اداروں میں ایک باقاعدہ نصاب ہوتا ہے۔ جس میں امریکی بننا سکھایا جاتا ہے۔
امریکہ میں ہر چیز کی تعلیم ہوتی ہے۔کپڑے سینے کی، کھانا پکانے کی، یہاں تک کہ عشق بازی کی۔نیو یارک میں ایک اسکول ہے جو لڑکیوں کو سکھاتا ہے کہ اپنے عاشقوں کو شادی کی درخواست پیش کرنے پر کس طرح آمادہ کیا جائے۔اس تعلیم و تربیت کا مقصد لوگوں کو انسان نہیں بلکہ خالص امریکی بنانا ہے۔لیکن امریکی، عام عقل اور امریکی عقل کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کرتا۔اسے زندگی میں قدم قدم پر ہدایت اور مشورہ ملتا ہے، یہ ہدایت اتنی منظم اور موثر ہوتی ہے کہ امریکہ کے اندر یہ خوش آئند احساس پیدا ہے کہ اس کے گرد ایک عظیم اور مہربان طاقت موجود ہے جو اسے کبھی یکہ و تنہا اور لاچار نہیں چھوڑتی۔
میں نے آج کل کے زمانے کی مائیں دیکھی ہیں جو پہلے تو اپنے بچوں کو کہنا ماننے کی تلقین کرتی ہیں اور اس کے بعد انہیں کوئی حکم دیتی ہیں۔ اس طریقہ سے انہیں اپنے بچوں پر اتنا خوفناک اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ پیٹنے یا دھمکی دینے سے بھی نہ ہوتا۔اسی طرح امریکی شہری کی عقل اور آزادی سے دن میں ہر لحظہ اپیل کی جاتی ہے، چنانچہ وہ اپنا فرض بنالیتا ہے کہ جو اس سے کہا جائے وہی کرے۔ وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ معقول اور سب سے زیادہ امریکی اس وقت سمجھتا ہے جب دوسرے لوگوں کی طرح عمل کررہا ہو۔ایک مقررہ طریقے کی پابندی کرکے وہ اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے ۔
امریکہ کے رہنے والے کی خصوصٰت یہ ہے کہ وہ اپنے خیال کو عالم گیر چیز سمجھتا ہے۔اس میں کچھ تو پیورٹن مذہب کا اثر ہوگا۔لیکن سب سے زیادہ یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ امریکی کو عقل ایک ٹھوس اور مرئی چیز معلوم ہوتی ہے چنانچہ میں نے جن لوگوں سے باتیں کیں وہ عقل کی صفات پر نہایت شدید اور سادہ دلانہ ایمان رکھتے تھے۔
اس کے علاوہ مشین ہے جو ایک طرح کی عالم گیریت پیدا کرتی ہے۔مشین کو استعمال کرنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے یعنی جو ساتھ والے کتابچہ میں لکھا ہو۔ امریکی اپنا ریفریجریٹر اور اپنی اپنی کار اسی طرح اور اسی وقت استعمال کرتا ہے جیسے دوسرے امریکی۔پھر یہ مشین آرڈر دے کر بھی نہیں بنوائی جاتی۔مشین تو ہر ایک لیے ہوتی ہے اور ہر ایک کا کہنا مانتی ہے، بشرطیکہ وہ طریقہ استعمال سے واقف ہو۔
چنانچہ جب امریکی مشین میں پیسے ڈال کر ٹرام کا ٹکٹ نکالتا ہے تو اس کا احساس وہی ہوتا ہے جو دوسرے لوگوں کا۔یعنی وہ اپنے آپ کا ایک بے نام اکائی نہیں محسوس کرتا، بلکہ ایک ایسا انسان جس نے انفرادیت ترک کردی ہو اور کسی عالمگیر چیز کی غیر شخصیت حاصل کرلی ہو۔
امریکہ میں مجھے یہی چیز سب سے پہلے محسوس ہوئی۔۔۔۔مقررہ طریقوں کی پابندی میں یہ آزادی کا احساس۔نیویارک سے زیادہ آزاد شہر دنیا میں کوئی نہیں۔ وہاں آپ جو چاہے کرسکتے ہیں پولیس کے فرائض رائے عامہ ادا کرتی ہے۔دوچار امریکنوں سے مل کر ہی مجھے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ آزادی کے ذریعہ پابندبنتے ہیں اور عقلیت کے ذریعہ انفرادی شخصیت کھوتے ہیں۔
ترجمہ: ثنااللہ
***

اشتہار اور جنس/فرڈی نینڈ برگ

اشتہار بازی بہت بڑھ چکی ہے اس کی وجہ یہ دریافت ہے کہ بنیادی انسانی جذبہ خوف ہے۔بیشتر اشتہار بازی۔ جیسے کہ ہم اپنے چاروں طرف دیکھ کر بتاسکتے ہیں، کسی نہ کسی طرح خوف کے جذبہ سے کام لیتی ہے۔یہ بات صحیح نہیں کہ مشتہرین اپنے فائدے کے لیے لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے خوف پیدا کرتے ہیں۔انہوں نے تو صرف عام خوف سے(ایسے خوف سے جس کی کوئی وجہ آسانی سے نہیں ڈھونڈی جاسکتی)فائدہ اٹھایا ہے اور اسے اپنے انداز میں ڈھال لیا ہے۔ایسا خوف آج کل عام طور سے پایا جاتا ہے۔
عام طور پر دونوں جنسوں میں خوف کی ایک مختلف قسم ملتی ہے۔عورتوں میں خوف کا شکل و صورت سے بلاواسطہ تعلق ہے اور مردوں میں اس کا رشتہ قوت سے ہے۔لوگوں کو یہ بات جس میں دونوں جنسوں کی بنیادی عادت شامل ہے۔بالکل قدرتی معلوم ہوگی لیکن یہ بات فطری نہیں کہ جب تک ان کی خود اعتمادی کو سخت صدمہ نہ پہنچا ہو عورتیں اپنی شکل و صورت کے بارے میں اور مرد اپنی قوت کے بارے میں شدید اجتماعی بے چینی میں مبتلا ہوجائیں۔
حالانکہ مردوں کے معاملے میں سماجی خواہشات کو ابھارا جاتا ہے لیکن بنیادی طور پر دونوں جنسوں میں جنسی خوف سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔۔۔یعنی محبت اور جنسی تسکین حاصل نہ ہونے کا خوف۔گو ظاہری طور پر مردوں کے خوف سطح کے نزدیک ہوتے ہیں لیکن اصل میں وہ اتنے ہی گہرے ہوتے ہیں جتنے عورتوں کے۔
ہمارا زمانہ انا کے ناکام ہوجانے کا ہے اور مرد اور عورت دونوں انا کو تقویت پہنچانے کی جان توڑ کوشش کررہے ہیں۔عورتیں اپنی شکل و صورت کی فکر میں رہتی ہیں۔ اور مرد اپنی قوت کی فکر میں۔ ہر ایک اپنے طور پر ذاتی قوت حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ایسی قوت جو خودی ، گرد وپیش اور دوسروں پر حاوی ہوسکے۔
۰۰۰
مشتہرین کا فیشن زدہ عورتوں سے تخاطب ایک ایسی ہستی سے متعلق ہے جو یہ محسوس کرتی ہے گویا اس کی کوئی چیز کھو گئی ہے۔اور جس چیز کی کمی محسوس ہورہی ہے۔گو اس کا نام صاف طور پر نہیں لیا جاتا۔اس کا تعلق مردوں سے ہے۔موجودہ دور کی بیشتر اشتہار بازی، جیسا کہ ہم رسالوں اور اخباروں کو دیکھ کر بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں، ’اشاراتی ہے‘۔یہ جنس کی سرحدوں کو چھوتی ہے۔بیشتر اشتہارات کا تعلق اور بعض دفعہ تو صاف صاف عورتوں کی جنسی تسکین سے ہوتا ہے۔
مشتہرین عورتوں کے خوف کو بڑے زور و شور سے استعمال کرتے ہیں۔ موجودہ دور کی عورتوں کا شکل و صورت سے نرگسی لگائو جنسی ناکامی اور بنیادی طور پر عورت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔عطریات کے اشتہاروں میں خاص طور پر جنسی تسکین کے حصول کی خواہش کو صاف طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔جیسا کہ نیچے درجے کے حیوانات کے مشاہدے سے ظاہر ہے خوشبو کا جنس سے بلاواسطہ تعلق ہے۔عطر خوشبو کا مصنوعی بدل ہے۔اس دور کے عطریات بنانے والوں نے جو اشاراتی اور سنسنی خیز نام رکھے ہیں، ان میں عورتوں کی بنیادی جنسی خواہش کے لاشعوری خوف کی طرف صاف اشارہ ہوتا ہے۔ان اشتہاروں میں بتایا جاتا ہے کہ ان خوشبویات کے استعمال سے کوئی عورت ناکام نہیں ہوسکتی۔جس پیغام کو الفاظ کا جامہ نہ پہنایا جاسکے اسے چاندنی رات میں سرمست جوان عورتوں کی تصویروں سے واضح کیا جاتا ہے۔یہ عورتیں جنسی جذبے سے مغلوب معلوم ہوتی ہیں۔
آرائشی مصنوعات کے تمام اشتہارات اس قسم کے ہوتے ہیں۔
’لبوں کو مقناطیسی کیسے بنایا جائے۔‘
’نئی لپ اسٹک منہ کو جنسی کشش بخشتی ہے۔بحر جنوبی کی ایک رقاصہ سے چرائی ہوئی۔۔۔۔۔آپ کے لیے نئے رومان کا راز!‘
’جب لڑکی کے بال چمکیلے ہوں تو پہلی نظر میں محبت کو ئی عجب بات نہیں ہے۔‘
’میں اسی بوسہ کا خواب دیکھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔اتنی پیاری جلد آپ کی بھی ہوسکتی ہے۔‘
’اس کی منگنی ہوچکی ہے!وہ خوبصورت ہے!وہ۔۔۔۔۔۔۔۔استعمال کرتی ہ ے۔‘
آج کل عورتوں کے بنائو سنگار کے رجحان کا رخ مردوں کی طرف ہے اور یہ عورتوں کے لیے جائز بھی ہے۔لیکن اس چیز پر اتنا زیادہ زور دے دیا گیا ہے کہ پوری کی پوری صنعتوں کی، جن میں لاکھوں ڈالر لگے ہوئے ہیں، بنیاد اسی پر ہے۔صرف متواتر ناکامی ہی زندگی کے صرف ایک پہلو کو اتنی مبالغہ آمیز اہمیت دے سکتی ھی۔
ترجمہ: محمد حسن رابع

***

(مشمولہ نیادور، شمارہ پندرہ تا اٹھارہ، کراچی)

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *