بدھ، 25 مئی، 2016

حرف معتبر/کلیات بانی۔1

اردو کے بے حد اہم شاعر منچندا بانی کا کلام صحیح معنوں میں اب تک بہت سے پڑھنے والوں تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ اب ہم ان کی کلیات جس میں ان کے تین شعری مجموعے 'حرف معتبر'، 'حساب رنگ' اور'شفق شجر' ادبی دنیا پر اپلوڈ کرنے جارہےہیں۔اس طور ایسے عظیم شاعر کو کم از کم اردو والے دوبارہ یاد کریں اور شاعری کے ایک بالکل الگ اور انوکھے ڈھنگ کو پڑھ کر دیر تک اپنا سر دھنیں۔ بانی کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ اول تو انہیں بہت زیادہ پڑھا نہیں گیا، دوسرے ان کے کلام پر کہیں کہیں سے تبصروں اور واہ واہی کے چھینٹے ضرور چھڑکے گئے لیکن ان کے حوالے سے کوئی سنجیدہ گفتگو نہیں ہوئی اور کوئی اہم مقالہ بھی کبھی سنجیدگی سے شاید لکھا ہی نہیں گیا۔اردو کے بہت سے اچھے لکھنے والوں کے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے، بانی کوئی انوکھے نہیں ، صغیر ملال، رئیس فروغ، غلام محمد قاصر، محمد انور خالد، زیب غوری، آشفتہ چنگیزی اور نہ جانے کتنے نام ہیں، جنہیں گنوایا جاسکتا ہے۔ممکن ہوا تو بہت جلد ایسے شاعروں پر گفتگو کا آغاز بھی کیا جائے گا۔ فی الحال آپ یہ شاعری پڑھیں اور بانی کی کلیات کے اس پہلے باب کا بغور مطالعہ کریں، شکریہ!(ادبی دنیا)

انتساب
والدِ محترم گوبند رام منچندہ (مرحوم) کے نام
مکرّم کیول کرشن وڈیرہ کے نام


اے صفِ ابرِ رواں تیرے بعد
اِک گھنا سایہ شجر سے نِکلا


1

زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
میں ڈھیر ہوگیا طولِ سفر سے ڈرتے ہوئے

دکھا کے لمحۂ خالی کا عکسِ لاتفسیر
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کر تے ہوئے

بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
ہزار غم تھے مگر بھولتے بِسر تے ہوئے

وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حُسنِ آخر تھا
کہ چُپ سی لگ گئی دونوں کو بات کر تے ہوئے

عجب نظارا تھا بستی کا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اُترتے ہوئے

میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں
عجب زمانے مِرے سر سے تھے گزر تے ہوئے

وہی ہوا کہ تکلّف کا حُسن بیچ میں تھا
بدن تھے قُربِ تہی لمس سے بِکھرتے ہوئے

*
2

پتّہ پتّہ بھرتے شجر پر ابر برستا دیکھو تم
منظر کی خوش تعمیری کو لمحہ لمحہ دیکھو تم!

مجھ کو اِس دلچسپ سفر کی راہ نہیں کھوٹی کرنی
میں عجلت میں نہیں ہوں یارو، اپنا رستہ دیکھو تم

آنکھ سے آنکھ نہ جوڑ کے دیکھو سُوئے افق اے ہمسفرو
لاکھوں رنگ نظر آئیں گے تنہا تنہا دیکھو تم!

آنکھیں ، چہرے ، پاؤں سبھی کچھ بکھرے پڑے ہیں رستے میں
پیش رؤوں پر کیا کچھ بِیتی ، جا کے تماشہ دیکھو تم

کیسے لوگ تھے ، چاہتے کیا تھے ،کیوں وہ یہاں سے چلے گئے
گُنگ گھروں سے مت کچھ پوچھو، شہر کا نقشہ دیکھو تم

میرے سر ہے شراپ کسی کا ، چھوڑ دو میرا ساتھ یہیں
جانے اِس ویران ڈگر پر آگے کیا کیا دیکھو تم

اب تو تمہارے بھی اندر کی بول رہی ہے مایُوسی
مجھکو سمجھانے بیٹھے ہو ، اپنا لہجہ دیکھو تم!

پلک پلک من جوت سجاکر کوئی گگن میں بِکھر گیا
اب ساری شب ڈھونڈو اُسکو تارا تارا دیکھو تم

بھاری رنگوں سے ڈرتا سا ، رنگ جدا اِک ہَلکا سا
صاف کہِیں نہ دکھائی دے گا آڑھا تِر چھا دیکھو تم

پانی سب کچھ اندر اندر دُور بہا لے جا تا ہے۔۔۔
کھوئی شے اِس گھاٹ نہ ڈھونڈو ساتوں دریا دیکھو تم

جیسے میرے سارے دشمن مِرے مقابل ہوں اِک ساتھ
پاؤں نہیں آگے اُٹھ پاتے ، زور ہوا کا دیکھو تم

ابھی کہاں معلوم یہ تم کو ویرانے کیا ہو تے ہیں
میں خود ایک کھنڈر ہو ں جس میں وہ آنگن آدیکھو تم

اَن بَن گہری ہو جائے گی یونہی سَمے گذُرنے پر،
اُس کو منا نا چاہوگے جب ، بس نہ چلے گا۔۔۔دیکھو تم

ایک اِسی دیوار کے پیچھے ، اور کیاکیا دیواریں ہَیں
اِک دیوار بھی راہ نہ دے گی سر بھی ٹکرا دیکھو تم

ایک اتھاہ گھنی تاریکی کب سے تمہاری تاک میں ہے
ڈال دو ڈیرہ وہیں ، جہاں پَرنُور ذرا سا دیکھو تم

سچ کہتے ہو ، اِن راہوں پر چَین سے آتے جا تے ہو
اب تھوڑا اِس قید سے نِکلو ، کچھ اَن دیکھا دیکھو تم

خا لی خالی سے لمحوں کے پھُول ملیں گے پوُجا کو،
آنے والی عُمر کے آگے ، دامن پھیلا دیکھو تم

ہم پہنچے ہَیں بیچ بھنور کے روگ لیے دُنیا بھرکے
اور کنارے پر دُنیا کو لَوٹ کے جاتا دیکھو تم

اِک عکسِ موہوم عجب سا اِس دُھند لے خاکے میں ہے
صاف نظر آئے گا تم کو اب جو دوبارہ دیکھو تم

اپنی خوش تقدیر ی جانو اب جو راہیں سہل ہوئیں
ہم بھی اِدھر ہی سے گُذرے تھے، حال ہما را دیکھو تم

رات ، دُعامانگی تھی بانی ہم نے سب کے کہنے پر
ہاتھ ابھی تک شل ہیں اپنے، قہر خدا کا دیکھو تم
*

3

مِرے بدن میں پِگھلتا ہوا سا کُچھ تو ہے
اِک اور ذات میں ڈھلتا ہو سا کُچھ تو ہے

مِری صدا نہ سہی۔۔۔ہاں۔۔۔ مِرا لہو نہ سہی
یہ موج موج اُچھلتا ہوا سا کُچھ تو ہے

کہیں نہ آخری جھونکا ہو مِٹتے رِشتوں کا
یہ درمیاں سے نکلتا ہوا سا کُچھ تو ہے

نہیں ہے آنکھ کے صحر امیں ایک بُوند سراب
مگر یہ رنگ بدلتا ہُوا سا کُچھ تو ہے

جو میرے واسطے کل زہر بن کے نکلے گا
تِرے لبوں پہ سنبھلتا ہوا سا کُچھ تو ہے

یہ عکس پیکرِ صد لمس ہے، نہیں۔۔۔نہ سہی
کسی خَیا ل میں ڈھلتا ہوا سا کُچھ تو ہے

بدن کو توڑ کے باہر نکلنا چاہتا ہے
یہ کچھ تو ہے یہ مچلتا ہُوا سا کُچھ تو ہے

کسی کے واسطے ہو گا پیام یا کوئی قہر
ہمارے سر سے یہ ٹلتا ہُو ا سا کُچھ تو ہے

یہ میں نہیں ۔۔۔ نہ سہی ، اپنے سرد بستر پر
یہ کروٹیں سی بدلتا ہُوا سا کُچھ تو ہے

وہ کُچھ تو تھا میں سہارا جِسے سمجھتا تھا
یہ میرے ساتھ پھسلتا ہُوا سا کُچھ تو ہے

بِکھررہا ہے فضا میں یہ دُودِ روشن کیا
اُدھر پہاڑ کے جلتا ہُوا سا کُچھ تو ہے

مِرے وجود سے جو کٹ رہا ہے گام بہ گام
یہ اپنی راہ بَدلتا ہُوا سا کُچھ تو ہے!

جو چاٹتا چلا جا تا ہے مجھ کو اے بانیؔ
یہ آستین میں پَلتا ہُوا سا کُچھ تو ہے!
*

4

نہ منزلیں تھیں ، نہ کچھ دل میں تھا ، نہ سر میں تھا
عجب نظارۂ لاسمتیت نظر میں تھا

عتاب تھا کسی لمحے کا اِک زمانے پر،
کسی کو چین نہ باہر تھا اور نہ گھر میں تھا

چھُپا کے لے گیا دُنیا سے اپنے دل کے گھاؤ
کہ ایک شخص بہت طاق اِس ہُنر میں تھا

کِسی کے لَوٹنے کی جب صدا سُنی تو کھُلا
کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی سفر میں تھا

کبھی میں آب کے تعمیر کردہ قصر میں ہوں
کبھی ہوا میں بنائے ہوئے سے گھر میں تھا

جھِجک رہاتھا وہ کہنے سے کوئی بات ایسی
میں چُپ کھڑا تھا کہ سب کچھ مری نظر میں تھا

یہی سمجھ کے اُسے خود صدا نہ دی میں نے
وہ تیز گام کِسی دُور کے سفر میں تھا

کبھی ہوں تیری خموشی کے کٹتے ساحل پر
کبھی میں لَوٹتی آواز کے بھنور میں تھا

ہماری آنکھ میں آکر بنا اِک اشک ، وہ رنگ
جو برگِ سبزکے اندر ، نہ شاخِ تر میں تھا

کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مِرے دُکھ سُکھ ،
اِک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا

ابھی نہ برسے تھے بانی گِھر ے ہوئے بادل
میں اُڑتی خاک کی مانند رہ گذر میں تھا

*
5

اِک گُل تر بھی شرر سے نِکلا
بس کہ ہر کام ہُنرسے نِکلا

میں تِرے بعد ۔۔۔ پھِر اے گُم شُدگی
خیمۂ گردِ سفر سے نِکلا

غم نِکلتا نہ کبھی سینے سے
اِک محبّت کی نظر سے نِکلا

اے صفِ ابرِ رواں تیرے بعد
اِک گھنا سایہ شجر سے نِکلا

راستے میں کوئی دیوار بھی تھی
وہ اِسی ڈر سے نہ گھرسے نِکلا

ذکر پھر اپنا ، وہاں ، مّدت بعد
کِسی عنوانِ دِگر سے نِکلا

ہم کہ تھے نشّۂ محرومی میں،
یہ نیا درد کدھر سے نِکلا!


ایک ٹھوکر پہ سفر ختم ہُوا
ایک سَودا تھا کہ سَرسے نِکلا

ایک اِک قصّۂ بے معنی کا۔۔۔
سِلسہ تیری نظر سے نِکلا

لمحے ، آدابِ تسلسل سے چھُٹے
میں کہ امکانِ سحر سے نِکلا

سرِ منزل ہی کھُلا اے بانیؔ
کون کِس راہ گُذر سے نِکلا
*

6

سیاہ خانۂ اُمّیدِ رائگاں سے نکِل
کھُلی فضا میں ذرا آ ، غبارِ جاں سے نکِل

عجیب بھِیڑ یہاں جمع ہے ، یہاں سے نکِل،
کہیں بھی چل مگر اِس شہرِ بے اماں سے نکِل

اِک اور راہ ، اُدھر دیکھ ، جا رہی ہے وہیں
یہ لوگ آتے رہیں گے ، تُو درمیاں سے نکِل

ذرا بڑھا تو سہی واقعات کو آگے
طلسم کارئ آغازِ داستاں سے نکِل

تُو کوئی غم ہے تو دل میں جگہ بنا اپنی
توُاِک صدا ہے تو احساس کی کماں سے نکِل

یہیں کہیں تِرا دشمن چھپا ہے اے بانی
کوئی بہانہ بنا ، بزمِ دوستاں سے نکِل
*

7

تھی اپنی اِ ک نگا ہ کہ جس سے ہلاک تھے
سب واقعے ہمارے لیے درد ناک تھے

اندازِ گفتگو تو بڑے پُر تپاک تھے
اندر سے قُربِ سر د سے دونوں ہلاک تھے

ٹُوٹا عجب طرح سے طلسمِ سفر کہ جب
منظر ہمارے چار طرف ہولناک تھے

اب ہو کوئی چُبھن تو محبّت سمجھ اُسے
وہ ربط خود ہی مٹِ گئے جو غم سے پاک تھے

ہم جسم سے ہٹا نہ سکے کاہلی کی برف
جس کی تہوں میں خواب بڑے تابناک تھے
*

8

میں اُس کی بات کی تردیر کر نے والا تھا
اِک اور حاثہ مُجھ پر گذرنے والا تھا

کہیں سے آگیا اِک اَبر درمیاں ، ورنہ
مِرے بدن میں یہ سُورج اُترنے والا تھا

مجھے سنبھال لیا تیری ایک آہٹ نے
سُکوتِ شب کی طرح میں بِکھرنے والا تھا

عجیب لمحۂِ کمزور سے میں گذرا ہوں
تمام سلِسلہ پَل میں بِکھرنے والا تھا

میں لڑکھڑا سا گیا سایۂ شجر میں ضرور
میں راستے میں مگر کب ٹھہرنے والا تھا

اب آسماں بھی بڑا شانت ہے ، زمیں بھی سُکھی
گذرگیا ہے جو ہم پر گُذرنے والا تھا!

لگا جو پیٹھ میں آکر وہ تیر تھا کسِ کا
میں دُشمنوں کی صفوں میں نہ مرنے والا تھا

*

9

میں ایک بے برگ و بار منظر ۔۔۔ کمر برہنہ ۔۔۔ میں سنسناہٹ تمام یخ پوش
اپنی آواز کا کفن ہوں
محاذ سے لوٹتا ہوا نصف تن سپاہی ۔۔۔ میں اپنا ٹوٹا ہوا عقیدہ۔۔۔
اب آپ اپنے لیے وطن ہوں

میں جانتا تھا گھنے گھنے جنگلوں کے سینوں میں دفن ہے جو متاعِ نم
وہ کسی طرح بھی نہ لاسکوں گا
میں پورے دن کی چتا جلا کر چلاہوں گھر کو کہ جیسے سورج کے پیٹ میں
ٹوٹتی ہوئی آخری کرن ہوں !


مرا کوئی خواب تھا ، جسے میں سجا چکاہوں بڑی نفاست سے اپنے
دیرینہ شہر کے سارے آئینوں میں
میں نام سے اِ ک جڑا ہوا شخص ۔۔۔طے شدہ شخص ۔۔۔ ایک پہچان کے علاوہ
نہ اب صدا ہوں نہ اب سخن ہوں

کہیں مری گرد لے اڑی ہے مرے فسانے ۔۔۔ کہیں کوئی رنگ لے اڑا ہے
مرے حسیں بے بہا خزانے ۔۔۔
کہیں ۔۔۔ کسی کی نگاہ میں فکرِ رائگاں ہوں ، کہیں۔۔۔ کسی کی نگاہ میں
رونقِ فضائے ہزار فن ہوں !


عدم زوال ایک تیرگی ہے۔۔۔کسی اُفق سے سحر نہ ہرگز طلوع ہوگی ۔۔۔
کہاں تلک منتظر رہوگے۔۔۔
کہ میرے سینے میں لاکھوں شمعوں سا ہے ا لاؤ۔۔۔ مجھی سے یہ روشنی نکا لو۔۔۔
کہ اک یہاں میں ہی شب شکن ہوں

*

10

چاند سے ۔۔۔ سارا آسماں خالی
ہر جگہ ہے یہاں وہاں خالی

غم کے بے کیف سلسلے ہیں تمام
حادثوں سے ہے داستاں خالی

آتشِ گل ہی جب ہوئی کچھ تیز
خود کئے ہم نے آشیاں خالی!

یہ اَنا کیسی درمیاں آئی
ہو چلی بزمِ دوستاں خالی!

وقت خود ہی عجب عذاب میں ہے،
ایک اکِ لمحہ رائگاں ، خالی!

آتا جاتا کہیں نہیں کوئی،
ایک اِک راہِ بے نشاں ، خالی!

کیسے کیسے مقام آئے ہیَں،
میں ہُوا ہوں کہاں کہاں خالی!

عشق میں پوری زندگی کو سنبھال
اِس میں جی کا نہیں زیاں خالی!

اب ہے بانی فضا فضا محروم
گونجتا ہے مکاں مکاں خالی!
*

11

پی چکے تھے زہرِ غم۔۔۔خستہ جاں پڑے تھے ہم۔۔۔چین تھا
پھر کسی تمناّ نے ، سانپ کی طرح ہم کو ، ڈس لیا

میرے گھر تک آتے ہی ، کیوں جُدا ہو ئی تُجھ سے ، کچھ بتا
ایک اورآہٹ بھی ساتھ ساتھ تھی تیرے ، اے صبا

سر میں جو بھی تھا سَودا اڑگیا خلاؤں میں مثلِ گرد
ہم پڑے ہیں رستے میں ، نیم جاں۔۔۔شکستۂ دل۔۔۔خستۂ پا!

سب کھڑے تھے آنگن میں اور مُجھ کو تکتے تھے ،بار بار،
گھر سے جب میں نِکلا تھا مجھ کو روکنے والا کون تھا!

جوش گھٹتا جا تا تھا ، ٹو ٹتے سے جاتے تھے حوصلے
اور سامنے ، بانی ، دوڑتا سا جاتا تھا راستہ!


12

میں چُپ کھڑا تھا ، تعلق میں اختصار جو تھا
اُسی نے بات بنائی وہ ہوشیار جو تھا

پٹخ دِیا کسی جھونکے نے لاکے منزل پر
ہوا کے سر پہ کوئی دیر سے سوار جو تھا

محبتیں نہ رہیں اُس کے دل میں میرے لیے
مگر وہ ملِتا تھا ہنس کر کہ وضع دار جو تھا


عجب غرور میں آکر برس پڑا بادل
کہ پھیلتا ہوا چاروں طرف غبار جو تھا

قدم قدم رمِ پامال سے میں تنگ آکر
ترِے ہی سامنے آیا ، ترِا شکار جو تھا
*

13

سر بسر ایک چمکتی ہوئی تلوار تھا میں
موجِ دریا سے مگر بر سرِ پَیکار تھا میں

میں کسی لمحۂ بے وقت کا اک سایہ تھا
یا کسیِ حرفِ تہی اسم کا اظہار تھا میں

ایک اِک موج پٹخ دیتی تھی باہر مُجھ کو
کبھی اِس پار تھا میں اور کبھی اُس پار تھا میں

اُس نے پھر ترکِ تعلّق کا بھی موقع نہ دیا
گھٹتے رشتوں سے کہ ہر چند خبردار تھا میں

اس تماشے میں تاثّر کوئی لانے کے لیے
قتل ، بانی ، جِسے ہونا تھا ، وہ کردار تھا میں
*
14

شب ، چاند تھا جہاں ۔۔۔ وہیں اب آفتاب ہے
سر پر مِرے یہ صبح کا پہلا عتاب ہے

آواز کوئی سر سے گذرتی چلی گئی۔۔۔
میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حرفِ خطاب ہے

ہرگز یہ سچ نہیں کہ لگن خام تھی مِری
ہاں کچھ بھی اب کہے ۔۔۔ جو یہاں کامیاب ہے

شب ، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا
اب کوئی موجِ آب نہ موجِ سراب ہے

اِک لمحہ جس کے سینے میں کچھ پَل رہا ہے کھوٹ
بانیؔ ابھی وہ اپنے لیے خود عذاب ہے !
*


15

شعلہ اِدھر اُدھر ۔۔۔ کبھی سایا یہیں کہیں
ہوگا وہ برق جسم ، سبک پا ، یہیں کہیں!

کِن پانیوں کا زور اُسے کاٹ لے گیا
دیکھا تھا ہم نے ایک جزیرہ یہیں کہیں

منسوب جس سے ہو نہ سکا کوئی حادثہ
گُم ہوکے رہ گیا ہے وہ لمحہ یہیں کہیں

آوارگی کا ڈر ، نہ کوئی ، ڈوبنے کا خوف
صحرا ہی آس پاس ۔۔۔ نہ دریا ، یہیں کہیں

وہ چاہتا یہ ہوگا کہ میں ہی اُسے بلاؤں،
میری طرح وہ پِھر تا ہے تنہا یہیں کہیں!

بانی ذرا سنبھل کے محبت کا موڑ کاٹ
اِک حادثہ بھی تاک میں ہوگا یہیں کہیں
*

16

تنہا تھا ۔ مثل آئینہ ۔ تارہ ، سرِ اُفق
اُٹھتی نہ تھی نگاہ دوبارہ ، سرِ اُفق

سب دم بخود پڑے تھے خسِ جسم و جاں لیے
لہرا رہا تھا کوئی شرارہ سرِ اُفق

اِک موجِ بے پناہ میں ہم یُوں اڑے پِھرے
جیسے کوئی طِلسمی غُبارہ سرِ اُفق!

کب سے پڑے ہیں بند زمان و مکاں کے در
کوئی صدا نہ کوئی اشارہ سرِ افق

سب کچھ سمیٹ کر مرے اَندر سے لے گیا
اِک لوٹتی کِرن کا نظارہ سرِ اُفق
*

17

منا لینا اس کو ہُنر ہے مِرا
بہانہ ہر اِک کارگر ہے مِرا

ہَوا ہم سفر ہو گئی ہَے مِری
قدم ہَیں مِرے، اب، نہ سر ہے مِرا

مجھے کیا خبر تھی، تِری آنکھ میں
عجب ایک عکسِ دِگر ہے مِرا

مجھے آسماں کر رہا ہے تلاش،
گھنے جنگلوں سے گذر ہے مِرا

میں دو دِن میں خود تُجھ سے کٹ جاؤں گا
کہ ہر سِلسلہ مختصر ہے مِرا!

زمانے ۔ تِری رہبری کے لیے
بہت یہ غُبارِ سفر ہے مرا

تِرے سامنے کچھ نہ ہونے کا عکس
مِرے سامنے کوئی ڈر ہے مرا
*

18

سفر ہے مِرا اپنے ڈر کی طرف
مِری ایک ذاتِ دِگر کی طرف

بھرے شہر میں اِک بیاباں بھی تھا
اِشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف

مِرے واسطے جانے کیا لائے گی
گئی ہے ہوا اِک کھنڈر کی طرف

کِنارہ ہی کٹنے کی سب دیر تھی
پِھسلتے گئے ہم بھنور کی طرف

کوئی درمیاں سے نکلتا گیا،
نہ دیکھا کسی ہم سفر کی طرف

تِری دشمنی خود ہی مائل رہی
کسی رشتۂ بے ضرر کی طرف

رہی دل میں حسرت کہ بانی چلیں
کسی منزلِ پُر خطر کی طرف
*


19

وہ ستم گر تو بڑا دشمنِ جاں ہے ۔۔۔ سب کا
کوئی بھی زخم سے چیخا تو زیاں ہے ۔۔۔ سب کا

ہے تو اِک شخص کے ہونٹوں پہ تِرا قصۂ غم
شاملِ قصّہ مگر دُودِ فغاں ہے ۔۔۔ سب کا

آ ہی جاتے ہیں اِدھر بیتی رُتوں کے جھونکے
اب یہی خانۂ غم کُنجِ اماں ہے ۔۔۔ سب کا

اِک چمک سی نظر آجائے تڑپ اُٹھتے ہیں
حُسن کے باب میں ادراک جواں ہے ۔۔۔ سب کا

ایک اِک شخص ہے ٹوٹا ہوا اندر سے یہاں
کیا چھپائے گا کوئی ۔۔۔ حال عیاں ہے ۔۔۔ سب کا

کوئی سر پھوڑنا چاہے تو نہ اِک سنگ مِلے،
اب تو اس شہر میں شیشے کا مکاں ہے ۔۔۔ سب کا

خیمۂ گرد جو راہوں میں تَنا ہے بانی،
اب یہی سب کا پتہ ہے ، یہ نشاں ہے ۔۔۔ سب کا
*

20

دن کو دفتر میں اکیلا ، شب ۔۔۔ بھرے گھر میں اکیلا
میں کہ عکسِ منتشر ، ایک ایک منظر میں اکیلا

اُڑ چلا وہ ، اِک جُدا خا کہ لیے سر میں ۔۔۔ اکیلا
صبح کا پہلا پرندہ آسماں بھر میں اکیلا!

کون دے آواز ، خالی رات کے اندھے کنوئیں میں
کون اُترے ۔۔۔ خواب سے محروم بستر میں ۔۔۔ اکیلا

اُس کو تنہا کر گئی کروٹ کوئی پچھلے پہر کی
پِھر اُڑا بھاگا وہ سارا دن ، نگر بھر میں اکیلا

ایک مدّھم آنچ سی آواز ، سر گم سے الگ کچھ،
رنگ اِک دَبتا ہُوا سا ، پُورے منظر میں اکیلا

بولتی تصویر میں اِک نقش لیکن کچھ ہَٹا سا،
ایک حرفِ معتبر ، لفظوں کے لشکر میں اکیلا

جاؤ موجو ، میری منزل کا پتہ کیا پوچھتی ہو،
اِک جزیرہ ۔۔۔ دور اُفتادہ ۔۔۔ سمندر میں اکیلا


جانے کِس احساس نے آگے نہیں بڑھنے دیا تھا
اب پڑا ہوں قید ، میں رستے کے پتھر میں ۔۔۔ اکیلا

ہُو بہُو میری طرح چپ چاپ ، مجھ کو دیکھتا ہے
اِک لرزتا ، خوبصورت عکس ، ساغر میں اکیلا
*

21

ہر طرف سامنا کوتاہ کمالی کا ہے
عِشق اب نام کِسی قدرِ زوالی کا ہے

شہر کا شہر نمُونہ ہے عجب وقتوں کا،
ایک اِک شخص یہاں وضعِ مثالی کا ہے

کوئی منظر ہے نہ عکس ، اب کوئی خاکہ ہے نہ خواب
سامنا آج یہ کس لمحۂ خالی کا ہے!

آ ملاؤں تجھے اِک شخص سے آئینے میں
جس کا سر ، شاہ کا ہے ، ہاتھ سوالی کا ہے

اب مِرے سامنے بانیؔ کوئی رستہ ہے نہ موڑ
عکس چاروں طرف اِک شہر خیالی کا ہے


22

مجھے پتہ تھا کہ یہ حادثہ بھی ہونا تھا
میں اُس سے مِل کے نہ تھا خوش۔۔۔ جُدا بھی ہونا تھا

چلو کہ جذبۂ اظہار چیخ میں تو ڈھلا،
کسِی طرح اِسے آخر ادا بھی ہونا تھا

بنا رہی تھی عجب چِتر ڈوبتی ہوئی شام
لہُوکہِیں کہیِں شامل مِرا بھی ہونا تھا

عجب سفر تھا کہ ہم راستوں سے کٹتے گئے
پھر اُس کے بعد ہمیں لا پتہ بھی ہونا تھا

میں تیرے پاس چلا آیا لے کے شکِوے گِلے
کہاں خبر تھی کوئی فیصلہ بھی ہونا تھا!

غُبار بن کے اُڑے تیز رَو ، کہ اِن کے لیے،
تو کیا ضرور کوئی راستہ بھی ہونا تھا!

سرائے پر تھا دھواں جمع ، ساری بستی کا
کچھ اِس طرح کہ کوئی سانحہ بھی ہونا تھا


مجھے ذرا سا گماں بھی نہ تھا ، اکیلا ہوں
کہ دُشمنوں کا کہیِں سامنا بھی ہونا تھا!
*

23

گُذر رہاہوں سیہ ، اندھے فاصلوں سے میں
نہ اب ہوں رہ سے عبارت ، نہ منزلوں سے میں

کہاں کہاں سے الگ کر سکوگے تم مجھ کو
جُڑا ہوُا ہوں یہاں لاکھ سِلسِلوں سے میں

قدم مِلانے میں سب کررہے تھے قوّتیں صرف
مِلاہوں راہ میں کتنے ہی قافلوں سے میں

میں اُس کے پاؤں کی زنجیر دیکھتا تھا بہت
کچھ آشنا نہ تھا اپنی ہی مُشکلوں سے میں

عجیب لوگ ہیں ، کچھ کہہ دو ، مان لیتے ہیں،
ہوا ہوں زیر بہت زُود قائلوں سے میں

کہو تو ساتھ بہالے چلوں یہ دُکھ بھرے شہر
گُذر رہاہوں عجب خستہ سا حلوں سے میں

میں کیوں بُرائی سُنوں دوستوں کی اے بانی
الگ نہیں اِنہیں کھوٹے کھرے دِلوں سے میں
*

24

مجھ سے اِک اِک قدم پر بچھڑتا ہوا کون تھا
ساتھ میرے ، مجھے کیا خبر ، دوسرا کون تھا

تابہ منزل یہ بکِھری ہوئی گردِ پاکِس کی ہے
اے برابر قدم دوستوں ، وہ جُدا کون تھا

جانے کِس خطرے نے بخش دی سب کو ہم ساءئگی
ورنہ اک دوسرے سے یہاں آشنا کون تھا

پہلے کِس کی نظر میں خزانے تھے اُس پار کے
مِثل میرے، حدوں سے اُدھر دیکھتا کون تھا

کو ن تھا، موسمِ صاف بھی جس کو آیا نہ راس
کچھ تو ہم سے کہو وہ ہلاکِ ہَوا کون تھا

کون تھا، میرے پر تولنے پر نظر جِس کی تھی،
جِس نے سر پر مِرے آسماں رکھ دیا کون تھا

کِس کی بھیگی صدا جھانکتی تھی مری خاک سے
میں تھا اپنا کھنڈر، اِس میں میرے سوا کون تھا

کون تھا قائلِ قہر ہو نا تھا جِس کو ابھی،
ٹُوٹ کر جس پہ برسی بھیانک گھٹا، کون تھا
*

25

عجیب تجربہ تھا بھیڑ سے گُذرنے کا
اُسے بہانہ ملاِ مُجھ سے بات کر نے کا

پھر ایک موج، تہِ آب اُس کو کھینچ گئی
تماشہ ختم ہُوا ڈوبنے اُبھرنے کا

مجھے خبر ہے کہ رستہ مزار چاہتا ہَے،
میں خستہ پا سہی ، لیکن نہیں ٹھہرنے کا!

تھماکے ایک بِکھر تا گُلاب میرے ہاتھ
تماشہ دیکھ رہا ہے وہ میرے ڈرنے کا

یہ آسماں میں سیاہی بکھیر دی کِس نے
ہمیں تھا شوق بہت اِس میں رنگ بھرنے کا

کھڑے ہوں دوست کہ دشمن ، صفیں سب ایک سی ہیں،
وہ جانتا ہے ، اِدھر سے نہیں گذرنے کا!

نگاہ ہم سفروں پر رکھو سرِ منزل،
کہ مرحلہ ہے یہ، اِک دوسرے سے ڈرنے کا!

لپک لپک کے وہیں ڈھیر ہوگئے آخر،
جتن کیا تو بہت سطح سے اُبھرنے کا!

کراں کراں نہ سزا کوئی سیر کرنے کی
سفر سفر نہ کوئی حادثہ گذرنے کا

کسی مقام سے کوئی خبر نہ آنے کی،
کوئی جہاز زمیں پر نہ اب اُترنے کا

کوئی صدا نہ سماعت پہ نقش ہونے کی
نہ کوئی عکس مِری آنکھ میں ٹھہرنے کا

نہ اب ہو ا مِرے سینے میں سنسنانے کی
نہ کوئی زہر مِری رُوح میں اُترنے کا

کوئی بھی بات نہ مُجھ کو اُداس کر نے کی
کوئی سلوک نہ مجھ پر گراں گذرنے کا

بس ایک چیخ گِری تھی پہاڑ سے یک لخت
عجب نظارہ تھا پھر دُھند کے بِکھرنے کا
*

26

وہاں سے اب کوئی آئے گا لَوٹ کر بھی کیا
حریف کیا، مِرے یارانِ معتبر بھی کیا!

نہ اب ہے آب میں موتی ، نہ خاک میں سونا
مری طرح ہوئے خالی یہ بحر و بر بھی کیا

نہیں رہے گا یہ ہنگامہ کچھ قدم تک بھی
پھر اُس کے بعد ، مرے ساتھ ہم سفر بھی کیا

خبر اُڑانے سے موقع پہ چُوکتا بھی نہیں
ہمارا دوست ہے، لیکن ہے بے ضرر بھی کیا

وہ فاصلے تھے کہ دونوں کو راس آتے گئے
کِسی کو دوسرے کی پھر کوئی خبر بھی کیا

ہمارے دل میں ہے کیا ، سُن تو کچھ تسّلی سے
کہ ٹو کنا یہ تِرا بات بات پر بھی کیا!

کسِی چٹان کے اندر اُتر گیا ہوں میں،
کہ اب مِرے لیے طوفاں بھی کیا، بھنور بھی کیا

عجب مثال ہے غم کی یہ قِصّہ۔۔۔پڑھیے اِسے
کَہیں کَہیں سے بھی کیا، اور تمام تر بھی کیا

چلو کہ چَین سے بیٹھیں کہیں تو اے یارو
نہیں ہے شہر سے باہر کوئی کھنڈر بھی کیا

یہی کہ خالی سے لفظوں کو معنی دیتے پِھریں
ہمارے پاس ہے اِس کے سِوا ہُنر بھی کیا

ذرا تو دیکھو کہ کِس حال میں ہیں میرے رقیب
کہ اب نگاہ نہ ڈالو گے تم اُدھر بھی کیا

جواب دِہ نہ ہوئے ہم کہیں بھی ، تیرے بعد،
کہ سچ تو یہ ہے ہمیں تھا کِسی کا ڈر بھی کیا

تمام سِلسلے اُن گیسوؤں کے ساتھ گئے
رِدائے ابر بھی کیا ، سایۂ شجر بھی کیا

جھُلستی خاک پہ تنہا پڑا ہے برگِ اُمید
ہَوا کا اِس لُٹے رستے سے اب گذر بھی کیا

کھُلے فراغ سے اِک روز ہم سے آ مِل بیٹھ
کبھی کبھی کی ملاقاتِ مختصر بھی کیا

عجیب گھور سیاہی میں گُم کھڑا ہوں میں
برونِ در بھی یہاں کیا ، درُونِ در بھی کیا

اُٹھائی خود ہی یہ دیوار ۔۔۔ خود نہ پھاند سکے
وہ پہلی جَست بھی کیا ، کوششِ دِگر بھی کیا

کِسی عجیب سی دُھن میں اُداس پھِر تا ہوں
مِرے لیے یہ تماشائے رہ گذر بھی کیا!

ہمارے آگے تو یُوں بھی نہ تھے نشانِ راہ
ہوَا نے چاٹ لی گردِ پسِ سفر بھی کیا

میں ہوں عجیب سی محرُومیوں میں گُم اِس وقت
کہ مجُھ پہ تیری محّبت بھری نظر بھی کیا

یہ تُم نے کس کے لیے شہر چھوڑا اے بانیؔ
کہ اب نہ لَوٹ کے آؤ گے اپنے گھربھی کیا!
*

27

اِک دُھواں ہلکا ہلکا سا پھیلا ہوا ہے اُفق تا اُفق
ہر گھڑی اِک سماں ڈوبتی شام کا ہے اُفق تا اُفق

کِس کے دل سے اُڑیں ہیں سُلگتے ہوئے غم کی چنگاریاں
دوستو شب گئے یہ اُجالا سا کیا ہے اُفق تا اُفق

ہجر تو رُوح کا ایک موسم سا ہے ، جانے کب جائے گا
سرد تنہائیوں کا عجب سلسلہ ہے اُفق تا اُفق

سینکڑوں وحشتیں چیختی پھر رہی ہیں کراں تا کراں
آسماں نیلی چادر سی تانے پڑا ہے اُفق تا اُفق

روتے روتے کوئی تھک کے چُپ ہوگیا دو گھڑی کے لیے
ایک نمناک سنّاٹا اب چیختا ہے اُفق تا اُفق


ایک میں ہوں پُرانا ہوا جارہا ہوں نفس یک نفس
وہ سحر ہے شفق در شفق ، وہ فضا ہے اُفق تا اُفق

میرے ذہنِ شگفتہ کی رنگینیوں کی طرح ہُو بہُو
ایک نظّارہ لمحہ بہ لمحہ نیا ہے اُفق تا اُفق
*

28

قدم زمیں پہ نہ تھے ۔۔۔ راہ ہم بدلتے کیا
ہوا بندھی تھی یہاں پیٹھ پر ۔۔۔ سنبھلتے کیا

پھر اُس کے ہاتھوں ہمیں اپنا قتل بھی تھا قُبول
کہ آچکے تھے قریب اتنے ، بچ نکلتے کیا

یہی سمجھ کے وہاں سے میں ہو لیا رخصت
وہ چلتے ساتھ ؛ مگر دُور تک تو چلتے کیا!

تمام شہر تھا اک ، موم کا عجائب گھر
چڑھا جو دن تو یہ منظر نہ پھر پِگھلتے کیا!

وہ آسماں تھے کہ آنکھیں سمیٹتیں کیسے
وہ خواب تھے کہ مری زندگی میں ڈھلتے کیا

نباہنے کی اُسے بھی تھی آرزو تو بہت،
ہَوا ہی تیز تھی اِتنی ۔۔۔ چراغ جلتے کیا!

اُٹھے اور اُٹھ کے اُسے جا سنایا دُکھ اپنا
کہ ساری رات پڑے کروٹیں بدلتے کیا

نہ آبروئے تعلّق ہی جب رہی بانیؔ
بغیر بات کئے ہم وہاں سے ٹلتے کیا
*

29

جو زہر ہے مِرے اندر وہ دیکھنا چاہوں
عجب نہیں ، میں تِرا بھی کبھی بُرا چاہوں

میں اپنے پیچھے عجب گَرد چھوڑ آیا ہوں
مجھے بھی رَہ نہ مِلے گی جو لَوٹنا چاہوں

وہ اِک اشارۂ زیریں ہزار خوب سہی
میں اب صدا کے صِلے میں کوئی صدا چاہوں

مِرے حروف کے آئینے میں نہ دیکھ مجھے
میں اپنی بات کا مفہوم دوسرا چاہوں

کُھلی ہے دل پہ کچھ اِس طرح غم کی بے سببی
تِری خبر نہ کچھ اپنا ہی اب پتہ چاہوں

کوئی پہاڑ، نہ دریا، نہ آگ رستے میں
عجب سپاٹ سفر ہے کہ حادثہ چاہوں
ق
نہ چاہوں دُور سے آتی ہوئی کوئی آواز
نہ اپنے ساتھ میں اپنی صدائے پا، چاہوں

نہ چاہوں سامنے اپنے کوئی بھی عکسِ سفر
نہ سر پہ راہ دکھاتی ہوئی ہوا چاہوں

وہ لائے تو کسی رنجش کو درمیاں بانیؔ
میں بات کرنے کو تھوڑا سا فاصلہ چاہوں
*

30

آج تو رونے کو جی ہو جیسے
پھر کوئی آس بندھی ہو جیسے

شہر میں پِھرتا ہوں تنہا تنہا
آشنا ایک وہی ہو جیسے!


ہر زمانے کی صدائے معتوب،
میرے سینے سے اُٹھی ہو جیسے!

خوش ہوئے ترکِ وفا کرکے ہم
اب مقدر بھی یہی ہو جیسے!!

اِس طرح شب گئے ٹوٹی ہے اُمید
کوئی دیوار گِری ہو جیسے!

یاس آلود ہے ایک ایک گھڑی
زرد پھولوں کی لڑی ہو جیسے

میں ہوں اور وعدۂ فردا تیرا
۔۔۔ اور ۔۔۔ اِک عُمر پڑی ہو جیسے

بے کشش ہے وہ نگاہِ صد لُطف
اِک محبت کی کمی ہو جیسے!

کیا عجب لمحۂ غم گذرا ہے۔۔۔
عمر اِک بیت گئی ہو جیسے!
*


31

بجائے ہم سفری اتنا رابطہ ہے بہت،
کہ میرے حق میں تِری ’’بے ضرر‘‘ دعا ہے بہت

تھی پاؤں میں کوئی زنجیر ۔۔۔ بچ گئے ، ورنہ
رَم ہَوا کا تماشہ یہاں رہا ہے بہت

یہ موڑ کاٹ کے منزل کا عکس دیکھوگے
اِسی جگہ مگر امکانِ حادثہ ہے بہت

بس ایک چیخ ہی یوں تو ہمیں ادا کردے
معاملہ ہُنرِ حرف کا جُدا ہے بہت!!

مِری خوشی کا وہ کیا کیا خیال رکھتا ہَے
کہ جیسے میری طبیعت سے آشنا ہے بہت

تمام عمر جنہیں ہم نے ٹُوٹ کر چاہا ،
ہمارے ہاتھوں اُنہیں پر ستم ہوا ہے بہت

ذرا چُھوا تھا کہ بس پیڑ آگِرا مُجھ پر
کہاں خبر تھی کہ اندر سے کھوکھلا ہے بہت

کوئی کھڑا ہے مری طرح بھیڑ میں تنہا
نظر بچا کے مری سمت دیکھتا ہے بہت

یہ احتیاط کدہ ہے کڑے اصولوں کا
ذرا سے نقص پہ بانیؔ یہاں سزا ہے بہت
*

32

شب وہاں تذکرۂ کم ہُنراں تھا کتنا
کیا چمکتا کوئی شعلہ کہ دُھواں تھا کتنا

ہم کِھنچے بیٹھے تھے شمشیرِ برہنہ کی طرح
ہم پہ اک پُھول کا سایہ بھی گِراں تھا کتنا!

پھر نہ گنجائشِ یک صدمہ بھی ہم تم میں رہی
ٹُوٹتا سِلسِلہ دونوں پہ عیاں تھا کتنا

دیکھ لی تھی مِرے اندر کی سیاہی اُس نے
اِک ستارہ مِری جانب نِگراں تھا کتنا!

آنکھ سُورج نے چُرالی تو جبیں ، پربت نے،
کچھ ہَوا لے اُڑی ، سرمایۂ جاں تھا کتنا
ایک آواز کہ ہونٹوں پہ جمی تھی کب سے
ایک زہراب کہ سینے میں رواں تھا کتنا!

بن کے ہم رہ گئے یک قطرہ تلاطم ہی کا جھاگ
ہم کہ پی جائیں گے، دریا ہی گماں تھا کتنا!
*


33

نہ حریفانہ مِرے سامنے آ، میں کیا ہوں
تیرا ہی جھونکا ہوں اے تیز ہوا، میں کیا ہوں

رقصِ یک قطرۂ خُوں، آپ کشِش، آپ جُنوں
اے کہ صد تشنگیِ حرف و صدا، میں کیا ہوں

ایک ٹہنی کا یہاں اپنا مقدّر کیسا،
پیڑ کا پیڑ ہی گِرتا ہے ۔۔۔ جُدا میں کیا ہوں

اِک بکھرتی ہوئی ترتیبِ بدن ہو تم بھی
راکھ ہوتے ہوئے منظر کے سِوا، میں کیا ہوں

تُو بھی زنجیر بہ زنجیر بڑھا ہے مِری سمت
ساتھ میرے بھی روایت ہے ۔۔۔ نیا میں کیا ہوں

کون ہے جس کے سبب تجھ میں محبت جاگی
مجھ میں کیا تجھ کو نظر آیا ۔۔۔ بتا ۔۔۔ میں کیا ہوں

ابھی ہونا ہے مجھے اور کہیں جَا کے طُلوع
ڈوبتے مِہر کے ہمراہ بُجھا میں کیا ہوں!
*


34

اگر باقی کوئی رِشتہ رہے گا،
تِرے جی کو بھی کچھ دُکھ سا رہے گا!

چلو رسمِ وفا ہم بھی اُٹھا دیں،
کوئی دن شہر میں چرچا رہے گا!

نہ جائے گا کبھی دل سے تِرا غم،
یہ جوگی دشت میں بیٹھا رہے گا۔۔۔!

تِرے خستہ مزاجوں کو ہمیشہ
جنوں ترکِ محبت کا رہے گا

یہ دشتِ دل ہے ، کوئی آئے یا جائے
برابر ایک سنّاٹا رہے گا

ہوائے یاس کا ہلکا سا جھونکا
تِرے آنے سے پہلے آ رہے گا

ہم اِک دن خود سے غافل ہو رہیں گے
تِرا غم دل ہی میں رکھّا رہے گا!

عدم کی سمت بڑھتا جائے گا دِل
تجھے آواز بھی دیتا رہے گا

اَبد تک ادھ کُھلی آنکھوں میں تیری
کوئی جادو ، کوئی دھوکا رہے گا
*

35

چُھپی ہے تُجھ میں کوئی شے ، اِسے نہ غارت کر
جو ہوسکے تو کہیں دِل لگا ، محبت کر

ادا یہ کِس کٹے پتّے سے تُو نے سیکھی ہے
سِتم ہوا کا ہو اور شاخ سے شکایت کر

نہ ہو مخل مِرے اندر کی ایک دنیا میں
بڑی خوشی سے بر و بحر پر حکومت کر

وہ اپنے آپ نہ سمجھے گا ، تیرے دل میں ہے کیا
خلش کو حرف بنا ، حرف کو حکایت کر

مرے بنائے ہوئے بُت میں روح پُھونک دے اب
نہ ایک عمر کی محنت مِری اکارت کر

کہاں سے آگیا تُو بزمِ کم یقیناں میں،
یہاں نہ ہوگا کوئی خوش ، ہزار خدمت کر!

کچھ اور چیزیں ہَیں دنیا کو جو بدلتی ہَیں
کہ اپنے درد کو اپنے لیے عبارت کر

نہیں عجب اِسی پَل کا ہو منتظر وہ بھی،
کہ چُھو لے اُس کے بدن کو ۔۔۔ ذرا سی ہمت کر

خلوص تیرا بھی اب زد میں آگیا بانیؔ
یہاں یہ روز کے قِصّے ہیں ، جی بُرا مت کر
*

36

ہوائیں زور سے چلتی تھیں ہنگامہ بلا کا تھا
میں سنّاٹے کا پَیکر منتظر تیری صدا کا تھا

وہی اِک موسمِ سفّاک تھا ، اندر بھی باہر بھی
عجب سازش لُہو کی تھی ، عجب فتنہ ہو ا کا تھا

ہم اپنی چُپ کو افسُوں خانۂ معنی سمجھتے تھے
کہاں دِل کو خبر تھی ، امتحاں حرف و صدا کا تھا

غلط تھی راہ لیکن کِس کو دَم لینے کی مہلت تھی،
قدم جِس سمت اُٹھتے تھے اُدھر ہی رُخ ہوا کا تھا

ہمارے دوست بننے کو ضرورت حادثے کی تھی
عجب اِک مرحلہ سا درمیاں میں اِبتدا کا تھا

ہم اپنے ذہن میں کیا کیا تعلّق اس سے رکھتے تھے
وہاں سارا کرشمہ ایک بے معنی ادا کا تھا

مسافر تنہا تنہا لَوٹ آئے راہ سے آخر
سمجھتے تھے جِسے رہبر وہ اِک جھونکا ہوا کا تھا

وہاں ٹھنڈی سماعت تھی سمندر کی طرح بانیؔ
یہاں الفاظ پر سایہ کِسی بنجر صدا کا تھا!!
*


37

آج کیا لَوٹتے لمحات میسر آئے!
یاد تم اپنی عنایات سے بڑھ کر آئے!!

آشنائی تِرے جلووں سے مگر کیا تھی ضرور
اِک نظر دیکھ لیں ہم رونقیں ، جی بھر آئے

کیا خبر ترکِ تعلق ہی اُسے ہو منظور
اب گِلہ کرتے بھی اِس جی کو بہت ڈر آئے

تُو ہی کچھ کہہ کہ ترے عہدِ وفا سے پہلے
غم وہ کیا تھا کہ ہم اک عُمر بسر کر آئے!

تیرے قصّے نہیں کم یوں تو رُلانے کے لیے
اِک اُچٹتا سا تعلق بھی میسر آئے!

اپنی خاموش نگاہی کو نہ اِک راز سمجھ
غم زدوں تک تِرے پیغام برابر آئے

کِس نے دیکھی ہے مگر جنّتِ فردا ، بانیؔ
یہ وہ دُنیا ہے کہ بس دھیان میں اکثر آئے

*


38

وہ ، جِسے اب تک سمجھتا تھا میں پتھّر ، سامنے تھا
اِک پِگھلتی موم کا سیّال پَیکر ، سامنے تھا

میں نے چاہا آنے والے وقت کا اِک عکس دیکھوں
بیکراں ہوتے ہوئے لمحے کا منظر ، سامنے تھا

اپنی اِک پہچان دی آئی گئی باتوں میں اُس نے
آج وہ اپنے تعلّق سے بھی بڑھ کر سامنے تھا

میں یہ سمجھا تھا کہ سرگرمِ سفر ہے کوئی طائر
جب رُکی آندھی تو اَِک گِرتا ہُوا پَر سامنے تھا

میں نے کتِنی بار چاہا خود کو لاؤں راستے پر،
میں نے پھر کوشِش بھی کی لیکن مقدّر سامنے تھا

سرَد جنگل کی سیاہی پاٹ کر نکِلے ہی تھے ہم
آخری کرنوں کی تہہ کرتا سمندر سامنے تھا

ٹُوٹنا تھا کچھ عجب قہرِ سفر پہلے قدم پر،
مُڑ گئی تھی آنکھ ، ہنستا کھیلتا گھرسامنے تھا!

پُشت پر یاروں کی پَسپائی کا نظّارہ تھا شاید
دُشمنوں کا مُسکراتا ایک لشکر سامنے تھا

آنکھ میں اُترا ہُوا تھا شام کا پہلا ستارا
رات خالی سر پہ تھی۔۔۔اور سرد بستر سامنے تھا
*


39

تمام راستہ پھُولوں بھرا ہے میرے لیے
کہیں تو کوئی دُعا مانگتا ہے میرے لیے

تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے میرے لیے
میں جانتا ہوں تِرا دَر کُھلا ہے میرے لیے

مجھے بچھڑنے کا غم تو رہے گا ہم سفرو
مگر سفر کا تقاضا جُدا ہے میرے لیے

وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے

عجیب در گذری کا شِکار ہوں اب تک
کوئی کرم ہے نہ کوئی سزا ہے میرے لیے

گذر سکوں گا نہ اِس خواب خواب بستی سے
یہاں کی مٹّی بھی زنجیرِ پا ہے میرے لیے

اب آپ جاؤں تو جاکر اُسے سمیٹوں میں
تمام سِلسِلہ بِکھرا پڑا ہے میرے لیے

یہ حسنِ ختمِ سفر ۔۔۔ یہ طِلسم خانۂ رنگ
کہ آنکھ جھپکوں تو منظر نیا ہے میرے لیے

یہ کیسے کوہ کے اندر میں دفن تھا بانیؔ
وہ ابر بن کے برستا رہا ہے میرے لیے
*

40

اِدھر کی آئے گی اِک رَو اُدھر کی آئے گی
کہ میرے ساتھ تو مٹّی سفر کی آئے گی

ڈھلے گی شام جہاں ۔۔۔ کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اُس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی

نہ کوئی جا کے اُسے دُکھ مِرے سُنائے گا
نہ کام دوستی اب شہر بھر کی آئے گی

ابھی بلند رکھو یارو آخری مشعل،
اِدھر تو پہلی کرن کیا سحر کی آئے گی!

کچھ اور موڑ گُزرنے کی دیر ہے بانیؔ ‘‘
صدا ، نہ گرد کسی ہم سفر کی آئے گی

41

وہ مناظر ہیں یہاں ، جن میں کوئی رنگ نہ بُو ۔۔۔ بھاگ چلو
جاتے موسم کی فضا ہے ، کہیں مانگے نہ لہو ۔۔۔ بھاگ چلو

کوئی آواز پسِ در ہے ، نہ آہٹ سرِ کُو۔۔۔ بھاگ چلو
بے صدائی کا وہ عالم ہے کہ جم جائے لُہو۔۔۔ بھاگ چلو

یہ وہ بستی ہے جہاں شام سے سوجاتے ہیں سب اہلِ وفا
شب کا سنّاٹا دکھائے گا عجب عالمِ ہُو۔۔۔ بھاگ چلو

کیا عجب منظرِ بے چہرگی ہر سَمت نظر آتا ہے،
ہر کوئی اور کوئی ہے ، نہ یہاں میں ہے نہ تُو۔۔۔ بھاگ چلو

پھر کسی حرفِ تمنا کو اُڑا دے گا دھوئیں کے مانند،
وقت بیٹھا ہے یہاں بن کے کوئی شعبدہ جُو۔۔۔ بھاگ چلو

دوستو شکر کرو ، چاکِ جگر تک نہیں بات آئی ابھی
یہ گریبان تو ہوجائے گا سو بار رُفو۔۔۔ بھاگ چلو

کسی تصویر کے پیچھے نہیں یاں کوئی تصور بانیؔ
ایک اِک چیز ہے بیگانۂ ادراکِ نُمو۔۔۔ بھاگ چلو
*

42

رنگ، لپک سے عاری ۔۔۔ جسم، ادا سے خالی
یہ کیسی بستی ہے، عکسِ ہوا سے خالی

ہم سے پہلے شاید کوئی آیا نہ گیا،
اِک اِک راہ پڑی ہے نقشِ پا سے خالی

یوں نکلا ہوں گھر سے ، گھر کے ہر منظر سے
کچھ ٹوٹے اوپر سے، ہونٹ، دعا سے خالی

پِچھلے پہر نے بڑھ کر میری چیخ سمیٹی
کاسۂ شب تھا شاید ایک صدا سے خالی

اب کے چلی وہ آندھی ، لمحۂ روشن غائب
دن ، سنگھرش سے عاری ۔۔۔ رات ، خدا سے خالی
*

43

جادُو گری اُس پر کسی صُورت نہ چلے گی
اے عشق ، تری سعیِ متانت نہ چلے گی

مجھ سا ترا دشمن بھی یہاں کون ہے ، کچھ سوچ
دو روز بھی اپنی یہ عداوت نہ چلے گی!

خوابیدہ سے لہجے میں سُنالے ابھی قصّے،
وہ درد اُٹھے گا کہ نزاکت نہ چلے گی!

تُو اپنے غمِ ذات کو کیسے ہی بیاں کر
اَوروں کی تراشیدہ عبارت نہ چلے گی

جُھلسی ہوئی اِک راہ پہ آنے کی ہے سب دیر
پھر ساتھ تِرے گردِ مسافت نہ چلے گی

بستی ہے مِری جاں یہ عجب بند گھروں کی
چل دے کہ یہاں رسمِ محبت نہ چلے گی!

میں ترکِ وفا کر لوں، مگر مجھ کو بتا دو
اِس حادثے سے کوئی روایت نہ چلے گی!

جو آئے تِرے دھیان میں دل باختہ کہہ دے
بے ساختہ کہہ دے ۔۔۔ کہ حکایت نہ چلے گی

ٹُوٹے ہوئے خوابوں کا یہ درماں نہیں بانیؔ
شب بھر ترے پینے کی یہ عادت نہ چلے گی
*


44

تیرگی بَلا کی ہے میں کوئی صدا لگاؤں
ایک شخص ساتھ تھا اُس کا کچھ پتہ لگاؤں

بہتے جانے کے سِوا، بس میں کچھ نہیں تو کیا
دشمنوں کے گھاٹ ہَیں ناؤ کیسے جا لگاؤں

وہ تمام رنگ ہے اُس سے بات کیا کروں
وہ تمام خواب ہے اُس کو ہاتھ کیا لگاؤں

کچھ نہ بن پڑے تو پھر ایک ایک دوست پر
بات بات شک کروں، تہمتیں جُدا لگاؤں

منظر آس پاس کا ڈوبتا دکھائی دے
میں کبھی جو دُور کی بات کا پتہ لگاؤں!

ایسی تیری بزم کیا ۔۔۔ ایسا ضبط و نظم کیا
میرے جی میں آئی ہے آج قہقہہ لگاؤں

یہ ہے کیا جگہ میاں کہہ رہے ہَیں سب کہ یاں
کچھ کشاں کشاں رہوں ، دِل ذرا ذرا لگاؤں
*

45

گِرد میرے نہ فصیلیں تِرے کام آئیں گی
کچھ ہوائیں تو مِری سمت مدام آئیں گی

یہ مسافت کہ چلے جائے گی رَستہ رَستہ
منزلیں یوں تو نئی گام بہ گام آئیں گی!

کچھ تو دل آپ ہی بُجھتا سا چلا جاتا ہے
اور ۔ کیا کیا نہ ہوائیں سرِ شام آئیں گی

اِس اندھیرے میں نہ اک گام بھی رُکنا یارو
اب تو اک دوسرے کی آہٹیں کام آئیں گی

بَین کرتی ہوئی سمتوں سے نہ ڈرنا بانیؔ ،
ایسی آوازیں تو اِس راہ میں عام آئیں گی!
***

نظمیں


پناہ کہیں ملے !

شب کی آوارہ ہوا
ایک ڈائن کی طرح :
آسمانوں سے چُرا لائی ہے گم گشتہ صدائیں ۔۔۔
عرصۂ آفاق کا تاریک شور !
اجنبی دیسوں کے پیڑوں سے
اُڑا لائی ہے پتّے ۔۔۔
سِسکیاں بھرتے ہوئے !

تھک چکی ہے
اور باقی شب سکوں سے کاٹنے کے واسطے
چاہتی ہے
اپنے شانوں سے اُتارے
زہر آلودہ صداؤں ،
چیختے پتّوں کا بوجھ !
ڈھونڈتی ہے
کوئی دروازہ کُھلا
کوئی کھڑکی اَدھ کُھلی
کوئی بستر ۔۔۔ جو کسی کے واسطے خالی پڑا ہو !
 ***

آج ۔۔۔ سب ایک جگہ پر

وقت کے آنگن میں لاکھوں خستہ پا ایّام
اوندھے مُنہ پڑے ہیں
حادثے اب ڈھونڈتے پِھرتے ہیں اُن لمحات کو
۔۔۔ جن سے رشتہ جوڑنا مُشکل نہ تھا !
آج ۔ ہے ساری فضا کا چہرہ خالی
آج ۔ بستی کے کسی نظّارے کو اظہار کی خواہش نہیں ہے
آج ۔ پربت سے کوئی پتھر لُڑھکتا ہی نہیں ہے
آج ۔ ہر جھونکا ہوا کا اِس طرح سہما ہُوا ہے
ایک بھی چیونٹی کے پَر ہِلتے نہیں ہیں !
آج ۔ ہاں ۔۔۔ سارے پرندے چیختے ہیں
خشک پیڑوں کی کُھلی بانہوں میں اِک زیور نہیں ہے
چاند نکلے گا تو ہم ننگے نظر آئیں گے سب اِک دُوسرے کو !!

***

معمُول

ایک بُڑھیا ، شب گئے دہلیز پر بیٹھی ہوئی
تک رہی ہے اپنے اِکلوتے جواں بچے کی راہ !
سوچکا سارا محلہ ۔۔۔ اور گلی کے موڑ پر
بُجھ چکا ہے لیمپ بھی !
سرد تاریکی کھڑی ہے ۔۔۔ جیسے دیوارِ مہیب !
بوڑھی ماں کے جسم کے اندر مگر
جگمگاتی ہیں ہزاروں مشعلیں !
آنے والا لاکھ بے ہوشی کی حالت میں ہو
لیکن
راستہ گھر کا کبھی بُھولا نہیں !
اور بے آہٹ سڑک
جانتی ہے ۔۔۔
کِس کے قدموں سے ابھی محرُوم ہوں !

***

دی برتھ آف کرائیسٹ

مِرا ہاتھ اک سمندر ہے
مِری سخت اُنگلیاں صدیوں پُرانی برف
کی شفّاف قاشیں ہیں !
مِرا چہرہ گذرتے وقت کا خالی جزیرہ ہے
مِرے دو بازوؤں کے درمیاں ۔۔۔
گہری ۔ خلیجِ بے تموّج ہے !
مرے سینے کا یخ آلُود سنّاٹا
مقفل آرزو کو سانس تک لینے نہیں دیتا !
مجھے مت چُھو ۔۔۔
مجسّم برف ہوں میں ۔۔۔
برف میں تحلیل ہونے دے
مجھے سونے دے ۔۔۔
راتوں رات مجھ کو ۔۔۔
پُھول میں تبدیل ہونے دے !
***

حرفِ غیر

میرے احباب میں اک شا عرِ کم نام بھی ہے
ذہن ہے جس کا عجب راحت گاہ
حادثے ایک زمانے کے جہاں آکے سکوں پاتے ہیں !
جب چمک اُٹھتے ہیں کچھ حادثے اظہار کی پیشانی پر
وہ سِمٹتا سا چلا جاتا ہے
یعنی ہر نظم اُسے اور بھی بیگانہ بنا دیتی ہے !!
شب ۔۔۔ نئی نظم لیے بیٹھا تھا احباب کے بیچ
اور سب ۔۔۔. ہمہ تن گوش ۔۔۔ اُسے سُنتے تھے
نظم کے بعد وہ عالم تھا کہ سنّاٹا نہ کروٹ لے پائے !
(نوٹ : غیر پسندیدگی کی وجہ سے )
اُس نے یوں دیکھا انہیں داد طلب نظروں سے
جیسے اِس آس میں ہو
گُل کے گِرنے کی صدا فرش سے آئے گی ابھی !!
***

رقص

ناچ ہاں ناچ کہ ہر شورش و ہنگامہ پر
پھیل جائے تِری جھن جھن کا حسیں پیراہن
ناچ ہاں ناچ کہ سینے میں ترے
ایک موتی کی طرح راز زمانے کا سِمٹ کر رہ جائے !
بازوؤں کو کبھی ہونے دے دراز
جمع کرنے دے خد و خال کبھی اپنی حسیں آنکھوں کو !
فرشِ آواز پہ رکھ اپنے پُر اسرار قدم
اور چمکتے ہوئے سنگیت کا جادُو پی جا
ناچ صد نشّہ و شادابی سے
ناچتی جا اِسی مستی میں کہ تُو ایک کنول بن جائے
اور تجھ کو کسی تالاب کے سینے میں اُتار آئیں ہم
بھُوت آکر تری رنگت میں بسیرا کر لیں
اور ہم ۔۔۔
بوڑھے درختوں کی کُہن سال لٹکتی ہوئی شاخوں
سے لپٹ کر روئیں
سالہا سال لپٹ کر روئیں !
***

ہرجادۂ شہر

شہر کی اک اک سڑک
پھانکتی آئی ہے لاکھوں حادثوں کی سَرد دُھول !
جانے کتنے اجنبی اک دوسرے کے دوست بننے سے کنارہ کر گئے
اور کتنے آشناؤں کے دِلوں سے مِٹ گئی پہچان بھی !
سو نگاہیں ۔۔۔ لاکھ زخم
چار سمتی لاکھ جُھوٹ !
سو تماشوں کے پڑے ہَیں جابجا دھبّے
جِنہیں
گردِ مسافت میں چُھپانے کے لیے
برق پا لمحوں کو تھامے دوڑتے جاتے ہیں ہم !
لمحے دو لمحے کو ۔۔۔ دم لینے کی خاطر ۔۔۔ سُست ہوجائیں اگر
شہر کی اِک اِک سڑک ۔۔۔
آنکھوں سے خوں رُلوائے گی
اور بنا کر ہم کو بھی اک داستاں ۔۔۔
دُہرائے گی ۔ !
ہانپتی تہذیب کے اِک اِک مسافر سے کہے گی
دوڑتے جاؤ ۔ یہی ہے زندگی
مت رُکو اک دوسرے کے واسطے
بھاگتا ہے وقت
لیکن
لمحہ لمحہ
دوڑنا ہے سب کو
لیکن
تنہا تنہا !
***

کہیں کوئی ۔۔۔

مِرے دائیں
ننگی صداؤں کی جلتی چتاؤں کا شمشان ہے
جس کے چاروں طرف
چھوٹی چھوٹی انائیں
قدم دو قدم دُور اک دوسرے سے کھڑی
دیکھتی ہیں تماشا

۔۔۔ مگر ایک اک آنکھ میں
برف ہے
جو پگھلتی نہیں
۔۔۔ ایک اک تن میں
ناگن بسی ہے
جو باہر نکلتی نہیں !
مِرے بائیں بھی
جُھوٹے آدرشوں کی
۔۔۔ جھونکا جھونکا سی اُڑتی ہوئی ریت کا ایک میدان ہے

اور میدان کے اُس سرے پر
دُکھوں کا سمندر ہے
۔۔۔ جس کی ہر اک موج اور چاند میں جنگ ہے
موج تلوار ہے
چاند تلوار ہے
سالہا سال سے کوئی جیتا نہیں
کوئی ہارا نہیں
مرے دائیں بائیں بھیانک نظارے ہیں لیکن
رواں میں ہوں جس راستے پر
اُسے کوئی شاید دُعا دے رہا ہے !
***

عورت ، کتّا اور پڑوس

اِک حسین سی عورت
اپنے نرم چہرے کو
مُضطرب سا رکھتی ہے
جس کے فِقرے فِقرے میں
گونجتی ہے جھلّاہٹ

اپنے گھر کے آنگن میں
جب ٹہلنے آتی ہے
دُور سے اگر کوئی
دیکھ لے ذرا اُس کو
یا کوئی گذر جائے
اس کے گھر کے آگے سے
ناک بھوں چڑھاتی ہے
اور بڑبڑاتی ہے !
لیکن اپنے کُتّے کو
پیار سے بُلاتی ہے
اور لگاکے چھاتی سے
چُوم چُوم لیتی ہے
اُس کا مُضطرب چہرہ
گول ہوتا جاتا ہے

ساور دیکھنے والے
اپنے گھر کی کھڑکی سے
چُھپ کے دیکھ لیتے ہیں
کوئی اپنے کمرے سے
باہر آنہیں سکتا
ہر پڑوسی ڈرتا ہے
اُس حسین عورت کی
لمحہ کی مسرّت بھی
اُس سے چھِن گئی ۔ تو ۔ پھِر !! ؟
***

ابدّیت

۔۔۔ مگر مری زندگی کے آنگن میں
سینکڑوں بے سحر شبیں
ایک ڈھیر بن کر سُلگ رہی ہیں ۔۔۔
اگرچہ سو بار پَو پھٹی ہے
اگرچہ سو بار دن ہُوا ہے !
***

سفرِ مختصر

انتظار ۔۔۔
ہر ستارے کے رو پہلے ہاتھ میں ہنستا تھا
سنّاٹے کا پھُول !
ایک دم آہٹ ہوئی
پھُول کی ایک ایک پتّی ٹُوٹ کر گِرنے لگی
گِر رہی ہیں پتّیاں ۔۔۔
آنے والے کی مسلسل آہٹیں
دیر سے مُجھ کو سُنائی دے رہی ہیں اِس طرح ۔۔۔
اب مرے گھر تک پہنچنے کے لیے باقی ہے
گویا دو قدم کا فاصلہ !!
***

آخری بس

آخری بس
تیرتی سی جارہی ہے
شب کے فرشِ مرمریں پر ۔۔۔
شبنم آگیں دُھند کی نیلی گپھامیں !
بس کے اندر ہر کوئی بیٹھا ہے
اپنا سر جھُکائے
خستگی دن کی چبائے
کیا ہوئی اک دوسرے سے بات کرنے کی
وہ راحت
وہ مسرّت !
آج دنیا ۔ آخری بس کی طرح محوِ سفر ہے
سب مسافر
قُرب کے احساس سے نا آشنا بیٹھے ہوئے ہیں
اب کسی کو اجنبی ہونا بُرا لگتا نہیں ہے !
***

بساطِ اظہار

جادُوئے اظہار کا ایک ایک فِتنہ
میرے ہونٹوں سے چمٹ کر رہ گیا ہے !
یہ مرے الفاظ ۔۔۔ آتش ناک کنکر
یہ تری ٹھنڈی سماعت ۔۔۔ اک سمندر
اِس سمندر میں سُلگتے کنکروں کو
پھینکتا آیا ہوں میں
روزِ ازل سے
ختم ہوجائیں گے جب کنکر
تو میں خود کو اُٹھا کر پھینک دوں گا
اور ۔۔۔ تِرا ہوجاؤں گا !
***

جِینا ہے مُجھے ۔۔۔

پھر خیال آیا کہ جینا ہے مجھے ۔۔۔
جس طرح ایک تھکا ماندہ پرند
لاکھ ہو برف بہ جاں
لاکھ ہو آہستہ سفر
اِک بلندی پہ تو ہوتا ہے ضرور
زیرِ پرواز کوئی گہرا سمندر ہے تو کیا
اُسے اُوپر سے گذر جانا ہے !!
***

روایت

گھر کی محدود وسعت میں اُڑتی ہوئی
دُھول کی تتلیاں
بیٹھتی ہیں کبھی ریڈیو پر ۔۔۔
کبھی کرسیوں کے سکوں بخش آغوش میں !
آئینہ سے ہٹادیں اگر
تو کتابوں کے شانوں پہ سوجائیں گی
دُھول کی تِتلیاں ۔۔۔
تا ابد گھر کے اندر رہیں گی ۔۔۔
اگر روشنی اِن کو باہر بُلائے
تو یہ مُسکراتی رہیں گی دریچے کے پاس !!
***

آخری موسم

زماں مکاں کے ہزار ہنگامے قلبِ خستہ کو اِس طرح ڈھیر کر گئے ہیں
کہ جیسے اک خشک خشک پتے کی کپکپاتی ہوئی رگوں سے
چِپک رہی ہو تمام ماحول کے مناظر کی ماندگی بھی
ہر ایک جھونکے خستگی بھی
یہ خشک پتہ
ہوا کے مبہوت دائروں میں زمیں سے سر پٹک کے اپنی تمام رنگت بدل چکا ہے
اب ایک پتھر کے یخ زدہ اور سیاہ سینے پہ آکے بے ہوش ہوگیا ہے !
میں قلبِ خستہ کو لے کے سنگین دَور کے فرش پر پڑا ہوں !!
مگر یکایک کچھ ایسے چَونکایا قلبِ خستہ کو ایک خوابِ حسیں نے آکر
کہ جیسے بارش کا پہلا قطرہ
کچھ اتنی شدت سے خشک پتّے پہ آگرے‘‘ اُس کو توڑ ڈالے!!!
***

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *