جمعرات، 26 مئی، 2016

حساب رنگ/کلیات بانی۔2

منچندا بانی کو اپلوڈ کرنے کا کام جاری ہے۔ اس کلیات کا یہ دوسرا حصہ یعنی کہ بانی کا دوسرا شعری مجموعہ 'حساب رنگ' یہاں اپلوڈ کیا جارہا ہے۔بانی کی شاعری کے تعلق سے کل میں نے یہ بات کہی تھی کہ ان پر کوئی ڈھنگ کا تنقیدی مقالہ میں نے نہیں دیکھا۔ کچھ دوستوں نے فاروقی اور نارنگ کا حوالہ دیا۔شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون میں نے پڑھا ہے اور نارنگ کی تحریر بھی نظر سے گزری ہے۔ لیکن یہ دونوں مضامین مجھے پسند نہیں ہیں، یہ بانی کے تعلق سے نہایت سرسری قسم کی تحریریں ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان تمام شاعروں پر جن کے تعلق سے سنجیدہ گفتگو نہیں ہوئی، ان پر اہم گفتگوکروانے کا آغاز کیا جائے۔ممکن ہے بہت جلد میں کسی ایک یا دو اشخاص کو بانی پر گفتگو کرنے کے لیے راضی کرلوں، ہوسکتا ہے اس طور سے ان تمام شاعروں کے کلام کو نئے قسم کے فکری زاویوں سے دیکھنے کا ہم سب کو موقع مل سکے۔مجھے خوشی ہے کہ ادبی دنیا ایسے اہم شاعروں کے کلیات کو یونی کوڈ میں فراہم کرنے کا کام کرپارہی ہے۔اور امید ہے کہ یہ سلسلہ بہت دور تک جائے گا۔شکریہ!

وہ اَسرار محفوظ بیدار باطن
دمِ گفتگو صد سخن معتبر رازؔ
راج نرائن رازؔ کے نام


مشفقِ محترم جناب ٹھاکر داس صاحب بھاٹیہ
کی نذر


حمد

سبز سکُوں، جنگل کا

نام ترا
شور، گھنے بادل کا

نام ترا



چُپ، خود میں ڈوبوں کی

ڈور تری
نعرہ، دُکھی پاگل کا

نام ترا



رنگ، طلائی حنائی

عکس ترے
قِصّہ، ہر مشعل کا

نام ترا



نیند کا پہلا جھونکا

پنکھ ترے
پہلا سُر، ہلچل کا

نام ترا



یاد، گئے وقتوں کی

ذات تری
خواب، آتے ہوئے کل کا

نام ترا











وہ مری زندہ دِلی کا جانے کیا مانگے حساب
جاتا موسم ہے ، کوئی پتّا ہرا لیتا چلوں











غزلیں


1

پیہم موجِ امکانی میں
اگلا پاؤں نئے پانی میں

صفِ شفق سے مرے بستر تک
ساتوں رنگ فراوانی میں

بدن، وصال آہنگ ہَوا سا
قبا، عجیب پریشانی میں

کیا سالم پہچان ہے اُس کی
وہ کہ نہیں اپنے ثانی میں

ٹوک کے جانے کیا کہتا وہ
اُس نے سُنا سب بے دھیانی میں

یاد تری، جیسے کہ سرِ شام
دُھند اُتر جائے پانی میں

خود سے کبھی مِل لیتا ہوں میں
سنّاٹے میں، ویرانی میں


آخر سوچا دیکھ ہی لیجے
کیا کرتا ہے وہ من مانی میں

ایک دِیا آکاش میں بانی
ایک چراغ سا پیشانی میں
*

2

فَضا کہ پھر آسمان بھر تھی
خوشی سفر کی ، اُڑان بھر تھی

وہ کیا بدن بھر خفا تھا مُجھ سے
کہ آنکھ بھی چُپ گمان بھر تھی

اُفق کہ پھِر ہو گیا منوّر
لکیر سی اِک کہ دھیان بھر تھی

وہ موج کیا ٹوٹ کر گِری ہے
تو کیا یہ بس امتحان بھر تھی

وہ اک فسانہ زبان بھر تھا
یہ اک سماعت کہ کان بھر تھی

سَبب کہ اب تک وہ پُوچھتا ہے
مِری اُداسی کہ آن بھر تھی

کھُلا سمندر کہ چاند بھر تھا
ہَوا ، کہ شب ، بادبان بھر تھی

ہمیں نے مِسمار کر دکھائی
وہ اِک رُکاوٹ : چٹان بھر تھی

شفق بنی آسماں میں جاکر
جو خُوں کی بُوند ، اک نشان بھر تھی

نہ لوٹ پایا ، وہ جانتا تھا
کہ واپسی درمیان بھر تھی

کسی غزل میں نہ آئی بانیؔ
وہ اک اذیت کہ جان بھر تھی
*

3

خاک و خوں کی وسعتوں سے باخبر کرتی ہوئی
اک نظر امکاں ہزار امکاں سفر کرتی ہوئی

اک عجب بے چین منظر ، آنکھ میں ڈھلتا ہُوا
اک خلش ، سفّاک سی ، سینے میں گھر کرتی ہوئی

اک کتابِ صد ہنر ، تشریحِ زائل کا شکار
ایک مہمل بات ، جادُو کا اثر کرتی ہوئی

جسم اور اک نیم پوشیدہ ہوس آمادگی
آنکھ اور سیرِ لباسِ مختصر کرتی ہوئی

تشنگی کا زہر سینے کو سیہ کرتا ہوا
اک طلب اپنے نشے کو تیز تر کرتی ہوئی

وہ نگاہ اپنے لیے ہے صد حسابِ آرزو
اور مجھے بیگانۂ نفع و ضرر کرتی ہوئی

ایک تہذیبی شکایت تیرے میرے درمیاں
خود بسر ہُوتی ہوئی مجھکو بسر کرتی ہوئی
*

4

اے لمحو ، میں کیوں لمحۂ لرزاں ہوں بتاؤ
کس جاگتے باطن کا میں امکاں ہوں بتاؤ

میں ایک کھُلے بابِ تصور کی رسائی
میں کس کے لیے اس قدر آساں ہوں بتاؤ

کس لمس کی تحریر ہوں محرابِ ہَوا پر
کس لفظ کا مفہومِ فرواں ہوں بتاؤ

کس منظرِ اثبات کے ہونٹوں کی ضیا ہوں
کس چُپ کی میں آوازِ فروزاں ہوں بتاؤ

میں سلسلہ در سلسلہ اک نامۂ روشن
کِس حرفِ بشارت کا دبستاں ہوں بتاؤ

کِس بوسۂ بے سا ختہ کا ہوں میں تقدّس
کِس سینۂ بے داغ کا ارماں ہوں بتاؤ

میں صبح کے نظّارۂ اول کی خُنک بُو
میں کِس کا یہ سرمایۂ ارزاں ہوں بتاؤ
*

5

عجیب رونا سِسکنا نواحِ جاں میں ہے
یہ اور کون مِرے ساتھ امتحاں میں ہے

یہ رات گزرے تو دیکھوں طرف طرف کیا ہے
ابھی تو میرے لیے سب کچھ آسماں میں ہے

کٹے گا سر بھی اِسی کا کہ یہ عجب کِردار
کبھی الگ بھی ہے ، شامل بھی داستاں میں ہے

تمام شہر کو مِسمار کر رہی ہے ہَوا
میں دیکھتا ہوں وہ محفوظ کس مکاں میں ہے

نہ جانے کس سے تری گفتگو رہی بانیؔ
یہ ایک زہر! کہ اب تک تری زباں میں ہے
*

6

ہم ہیں ، منظر سیہ آسمانوں کا ہے
اک عتاب آتے جاتے زمانوں کا ہے

ایک زہرابِ غم ، سینہ سینہ سفر
ایک کردار ، سب داستانوں کا ہے

کس مُسلسل اُفق کے مقابل ہیں ہم
کیا عجب سلسلہ امتحانوں کا ہے

پھر ہوئی ہے ہمیں مٹّیوں کی تلاش
ہم ہیں ، اُڑتا سفر اب ڈھلانوں کا ہے

کون سے معرکے ہم نے سر کر لیے
یہ نشہ سا ہمیں کن تکانوں کا ہے

یہ الگ بات ، وہ کچھ بتائے نہیں
لیکن اس کو پتہ سب خزانوں کا ہے

سب چلے دُور کے پانیوں کی طرف
کیا نظارہ کھُلے بادبانوں کا ہے

اُس کی نظروں میں سارے مقامات ہیں
پر اُسے شوق اندھی اُڑانوں کا ہے

آؤ بانیؔ کہ خواجہ کے دَر کو چلیں
آستانہ ہزار آستانوں کا ہے
*

7

کچھ نہ کچھ ساتھ اپنے یہ اندھا سفر لے جائے گا
پاؤں میں زنجیر ڈالوں گا تو سر لے جائے گا

اندر اندر یک بیک اُٹھے گا طوفانِ نفی
سب نشاطِ نفع ، سب رنجِ ضرر لے جائے گا

ایک پیلا رنگ باقی رہ گیا ہے آنکھ میں
ڈوبتا منظر اُسے دامن میں بھرلے جائے گا

گھومتا ہے شہر کے سب سے حسیں بازار میں
اک اذیت ناک محرومی وہ گھر لے جائے گا

منتظر اک لمحۂ سادہ اُمیدی کا ہوں میں
جانے کب آئے گا ، سینے کے بھنور لے جائے گا

اب نہ لائے گا کوئی اُس کا پتہ میرے لیے
اور وہاں کوئی نہ اب میری خبر لے جائے گا

اس قدر خالی ہُوا بیٹھا ہوں اپنی ذات میں
کوئی جھونکا آئے گا! جانے کدھر لے جائے گا
*

8

آج اک لہر بھی پانی میں نہ تھی
کوئی تصویر روانی میں نہ تھی

ولولہ مصرعۂ اول میں نہ تھا
حرکت مصرعۂ ثانی میں نہ تھی

کوئی آہنگ نہ الفاظ میں تھا
کیفیت کوئی معانی میں نہ تھی

خوں کا نَم سادہ نوائی میں نہ تھا
خوں کی بُو شوخ بیانی میں نہ تھی

کوئی مفہوم تصوّر میں نہ تھا
کوئی بھی بات کہانی میں نہ تھی

رنگ اب کوئی خلاؤں میں نہ تھا
کوئی پہچان نشانی میں نہ تھی

خوش یقینی میں نہ تھا اب کوئی نور
ضَو کوئی خندہ گمانی میں نہ تھی

جی سُلگنے کا دھواں خط میں نہ تھا
روشنی حرفِ زبانی میں نہ تھی

رنج بھُولے ہوئے وعدے کا نہ تھا
لذّت اب یاد دہانی میں نہ تھی

لو کہ جامد سی غزل بھی لِکھ دی
آج کچھ زندگی بانیؔ میں نہ تھی
*

9

اِس تُند سیاہی کے پگھلنے کی خبر دے
دے پہلی اذاں ، رات کے ڈھلنے کی خبر دے

اے ساعتِ اوّل کے ضیا ساز فرشتے
رنگوں کی سواری کے نکلنے کی خبر دے

طائر کو دے آزاد اُڑانوں کی فضائیں
کہسار کو دریا کے اُچھلنے کی خبر دے

ہر آن صداؤں کو نئے راگ عطا کر
ہر لمحہ مناظر کے بدلنے کی خبر دے

سب کو سفر و سمت پسندی کا دے مژدہ
اب گھاٹ کی سب کشتیاں چلنے کی خبر دے

*
10

سیرِ شبِ لامکاں اور میں
ایک ہُوئے رفتگاں اور میں

سانس خلاؤں نے لی ، سینہ بھر
پھیل گیا آسماں اور میں

سَر میں سُلگتی ہوا ، تشنہ تر
دَم سے اُلجھتا دھواں اور میں

اِسمِ اَبد کی تلاشِ طویل
حُسن شروعِ گماں اور میں

میری فراوانیاں ، نَو بہ نَو
اب ہے نشاطِ زیاں اور میں

دونوں طرف جنگلوں کا سکوت
شور بہت درمیاں اور میں

خاک و خلا بے چراغ اور شب
نقش و نوا بے نشاں اور میں


پھر مرے دِل میں کوئی تازہ کھوٹ
پھر کوئی سخت امتحاں اور میں

کب سے بھٹکتے ہیں باہم الگ
لمحۂ کم مہرباں اور میں

دُور چھتوں پر برستا تھا قہر
چُپ رہے کیوں تم یہاں اور میں

غیر مطالب کہیں اور ڈھونڈ
سہل بہت شرحِ جاں اور میں
*

11

دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اُس کا
ذرا سے لمس نے روشن کیا بدن اُس کا

وہ خاک اڑانے پہ آئے تو سارے دشت اُس کے
چلے گداز قدم تو چمن چمن اُس کا

وہ جھوٹ سچ سے پرے ، رات ، کچھ سناتا تھا
دِلوں میں راست اُترتا گیا سخن اُس کا

عجیب آب و ہوا کا وہ رہنے والا ہے
مِلے گا خواب و خلا میں کہیں وطن اُس کا

تری طرف سے نہ کیا کیا ستم ہوئے اُس پر
میں جانتا ہوں ، بہت دوست بھی نہ بن اُس کا

وہ روز ، شام سے شمعیں دھواں دھواں اُس کی
وہ روز ، صبح اجالا کِرن کِرن اُس کا

مِری نظر میں ہے محفوظ آج بھی بانیؔ
بدن کَسا ہوا ، ملبوس بے شکن اُس کا
*

12

کہا نہ تھا کہ انکشافِ حال کر نہ پاؤگے
سخن سخن میں بات کا خیال کر نہ پاؤگے

بہت چلو فساد پا ، یہ خاک ہے نمو ادا
تمام کیمیا کہ پائمال کر نہ پاؤگے

اگر ہمارے درمیاں سے اب ہَوا گزر گئی
تو پھر یہی رفاقتیں بحال کر نہ پاؤگے
یہ ایک پَل جو کھو دیا تو کچھ نہ یاد آئے گا
کہ عمر بھر شمارِ ماہ و سال کر نہ پاؤگے

دریدہ منظری کے سلسلے گئے ہیں دُور تک
پَلٹ چلو ، نظارۂ زوال کر نہ پاؤگے
*

13

کیا دُھند تجھ میں ہے کہ تو چُپ ہے ، اُداس بھی
اک لمحے کا حساب نہیں تیرے پاس بھی

اِن مٹّیوں پہ نقش ہے کس کے قدم کا زہر
اب دور دور تک نہیں پیلی سی گھاس بھی

اے دوست مت دِکھا کوئی تصویرِ ہولناک
میرے لیے بہت ہے ذرا سا ہراس بھی

اِک بُوند میرے خُوں کی اُڑی تھی طرف طرف
اب سارے خاکداں میں چمک بھی ہے باس بھی

کیا دُود منظری سا دکھائی دیا کہ پھر
خوش آسکا نہ لمحۂ خندہ حواس بھی

اک موج وہ اُٹھی کہ سفینہ اُلٹ گیا
ڈوبا سبھی کے ساتھ تلاطم شناس بھی

اچھا کہ اب کوئی نہیں میرا شریکِ جام
پی لُوں گا زہر بھی ، میں بجھا لوں گا پیاس بھی

پھر اپنے اپنے راستوں سے ہم نہ لوٹ پائے
سچ نکلا میرا ڈر بھی ، تمہارا قیاس بھی

کل تک نہ انتہا مری برہم صدا کی تھی
اب بن کے رہ گیا ہوں سراپا سپاس بھی

بانیؔ شکن شکن سا تمہارا دُروں بھی ہے
کچھ پارہ پارہ سا ہے تمہارا لباس بھی
*

14

محراب نہ قندیل ، نہ اَسرار نہ تمثیل
کہہ اے ورقِ تیرہ ، کہاں ہے تری تفصیل

اِک دُھند میں گم ہوتی ہوئی ساری کہانی
اک لفظ کے باطن سے الجھتی ہوئی تاویل

میں آخری پرتَو ہوں کسی غم کے اُفق پر
اک زرد تماشے میں ہُوا جاتا ہوں تحلیل

واماندۂ وقت آنکھ کو منظر نہ دِکھا اور
ذِمے ہے ہمارے ابھی اک خواب کی تشکیل

آساں ہوئے سب مرحلے اک موجۂ پا سے
برسوں کی فضا ایک صدا سے ہوئی تبدیل
*

15

نہ جانے کل ہوں کہاں ، ساتھ اب ہَوا کے ہیں
کہ ہم پرندے مقاماتِ گُم شدہ کے ہیں

ستم یہ دیکھ کہ خود معتبر نہیں وہ نگاہ
کہ جس نگاہ میں ہم مستحق سزا کے ہیں

قدم قدم پہ کہے ہے یہ جی کہ لَوٹ چلو
تمام مرحلے دشوار انتہا کے ہیں

فصیلِ شب سے عجب جھانکتے ہوئے چہرے
کِرن کِرن کے ہیں پیاسے ہَوا ہَوا کے ہیں

کہیں سے آئی ہے بانیؔ کوئی خبر شاید
یہ تیرتے ہوئے سایے کسی صدا کے ہیں
*

16

عکس کوئی کسی منظر میں نہ تھا
کوئی بھی چہرہ کسی در میں نہ تھا

صبح اک بُوند گھٹاؤں میں نہ تھی
چاند بھی شب کو سمندر میں نہ تھا

کوئی جھنکار رگِ گُل میں نہ تھی
خواب کوئی کسی پتھر میں نہ تھا

شمع روشن کسی کھڑکی میں نہ تھی
منتظر کوئی کسی گھر میں نہ تھا

کوئی وحشت بھی مرے دِل میں نہ تھی
کوئی سودا بھی مرے سر میں نہ تھا

تھی نہ لذّت سُخنِ اوّل میں
ذائقہ حرفِ مکرّر میں نہ تھا

پیاس کی دُھند بھی ہونٹوں پہ نہ تھی
اوس کا قطرہ بھی ساغر میں نہ تھا

مٹھّی بھر اُون نہ تھی بھیڑوں پر
لُقمہ بھر گوشت کبوتر میں نہ تھا

جُون میں تھی نہ سلگتی ہوئی لُو
برف کا لمس دسمبر میں نہ تھا

چاند تارے کسی گردش میں نہ تھے
دل کسی شوق کے چکّر میں نہ تھا

اب گِرہ کوئی مقدّر میں نہ تھی
خَم کوئی گیسوئے ابتر میں نہ تھا

راہ شفّاف تھی چادر کی طرح
یعنی کچھ بھی مِری ٹھوکر میں نہ تھا

خود روی قلبِ قلندر میں نہ تھی
بے دھڑک حوصلہ لشکر میں نہ تھا

دِن میں تھا کارِ جنوں کا نہ سُرور
شب کا آرام بھی بستر میں نہ تھا

شاہ کردار تھا غائب ، یعنی
ذکرِ دل شوق کے دفتر میں نہ تھا

یوں تو ہم ڈرتے تھے غم سے اب بھی
پر کوئی خاص مزہ ڈر میں نہ تھا

بعض طائر تو منڈیروں پہ نہ تھے
رِزق کا ہمہمہ اکثر میں نہ تھا

میری پلکوں سے سفر کرتا ہُوا
تھا کوئی سایہ کہ دم بھر میں نہ تھا

اِک مہک بعد کی بارش میں نہ تھی
اِک دھواں صحنِ منوّر میں نہ تھا

کوئی تشبیہ علامت میں نہ تھی
استعارہ کوئی پیکر میں نہ تھا

کیا عجب فصل تھی ویرانی کی
پھول تک دستِ پیمبر میں نہ تھا

اب ہوا جاتی کہیں کیا لے کر
کچھ بھی ماحولِ مکدّر میں نہ تھا

یوں اکیلے کا سفر تھا بانیؔ
میں بھی خود اپنے برابر میں نہ تھا
*

17

دل میں خوشبو سی اتر جاتی ہے ، سینے میں نور سا ڈھل جاتا ہے
خواب اِک دیکھ رہا ہوتا ہوں ، پھر یہ منظر بھی بدل جاتا ہے

چاہتا ہوں کہ میں اُٹھ کر دیکھوں ، چھت سے آکاش کا منظر دیکھوں
ابھی چھت تک ہی پہنچتی ہے آنکھ ، پاؤں زینے سے پھسل جاتا ہے

خواب کی گُمشدہ تعبیر ہوں میں ، اک عجب ضبط کی تصویر ہوں میں
پھر بھی اِن برف سی آنکھوں میں کبھی ، کوئی غم ہے کہ پگھل جاتا ہے

اِک دُھواں جو نہ بکھرنے دے مجھے ، خاک میں بھی نہ اُترنے دے مجھے
جب سیاہی کی طرف بڑھتا ہوں ، اک دِیا سا کہیں جل جاتا ہے

راہ چلتا ہوں ارادوں کے ساتھ ، شوق کے ساتھ ، مرادوں کے ساتھ
پاؤں ہوتے ہیں قریبِ منزل ، وقت ہاتھوں سے نکل جاتا ہے
*



18

لباس اُس کا علامت کی طرح تھا
بدن ، روشن عبارت کی طرح تھا

فضا صَیقل سماعت کی طرح تھی
سکوت اس کا ، امانت کی طرح تھا

ادا موجِ تجسس کی طرح تھی
نفس خوشبو کی شہرت کی طرح تھا

بساطِ رنگ تھی مٹھّی میں اُس کی
قدم اُس کا بشارت کی طرح تھا

گریزاں آنکھ دعوت کی طرح تھی
تکلّف اک عنایت کی طرح تھا

خلش بیدار نشّے کی طرح تھی
رگوں میں خوں مصیبت کی طرح تھا

تصوّر پر حنا بکھری ہوئی تھی
سماں آغوشِ خلوت کی طرح تھا



ہوس اندھی ضرورت کی طرح تھی
وہ خود دائم محبت کی طرح تھا

وہی اسلوبِ سادہ ، شرحِ دل کا
کسی زندہ روایت کی طرح تھا
*

19

اِس طرح نارسائی بھی کب تھی، یہ کیا امتحاں ہے
گاہ بنجر صدا، گاہ پامال چُپ درمیاں ہے

کون جھونکا چھپا رہ گیا تھا، پرانی رتوں کا
کس سلگتی ہوئی باس کا میرے اندر دھواں ہے

میں خلاؤں میں اڑتا ورق تیرے اقرار کا ہوں
نقش جس پر تیرے بوسۂ اولیں کا نشاں ہے

تم کسی لمحے سے رشتہ قا ئم نہیں کر سکے ہو
کیا پتہ ہے تمھیں، وقت کتنا بڑا مہرباں ہے

دیکھ اک بوند خوں کے بکھرنے کا نایاب منظر
رت بدلتی ہے، گلنار ہوتا ہوا آسماں ہے

آج آسان ہیں سارے مفہوم اُس کے لئے بھی
رُو برو اب وہ بیٹھا ہے ، میری طرح بے زباں ہے

کب سے ہیں منتظر ایک سوغات کے ہم بھی بانی
جس کے ہاتھوں سے بٹتے ہیں سکھ دکھ سبھی وہ کہاں ہے
*

20

خود چاک، باطن خبر ایک لمحہ
عالم بہ عالم سفر ایک لمحہ

مسمار آنکھ اور خس ڈھیر منظر
غارت، طبق طاق و در ایک لمحہ

لرزاں ہے کب سے لہو کے افق پر
زہراب میں تر بہ تر ایک لمحہ

شک ایک لمحہ کہ پہلے بھی کیا تھا
آئندہ کیا ہو، یہ ڈر ایک لمحہ

پیلے خلاؤں میں دیکھا کیے ہم
ڈھونڈا کیے ہم دگر ایک لمحہ

چمکی تو تھی مثلِ برقِ تجسسّ
برہم ، برہنہ ، نظر ایک لمحہ

کیا کیا بساطیں اُلٹا گیا ہے
لمحات سے ٹوٹ کر ایک لمحہ
*

21

کوئی بھوُلی ہوئی شے طاقِ ہر منظر پہ رکھّی تھی
ستارے چھت پہ رکھّے تھے شکن بستر پہ رکھّی تھی

لرزجاتا تھا باہر جھانکنے سے اُس کا تن سارا
سیاہی جانے کن راتوں کی اُس کے در پہ رکھّی تھی

وہ اپنے شہر کے مٹتے ہوئے کردار پر چپُ تھا
عجب اک لاپتہ ذات اُس کے اپنے سر پہ رکھّی تھی

کہاں کی سیرِ ہفت افلاک ، اوپر دیکھ لیتے تھے
حسیں اُجلی کپاسی برف بال وپر پہ رکھّی تھی

کوئی کیا جانتا کیا چیز کس پر بوجھ ہے بانیؔ
ذراسی اوس یوں تو سینۂ پتّھر پہ رکھّی تھی

22

وہی دردِ مسلسل ، وہی صرفِ دعا میَں
بسر ہوتی ہوئی شب ، بسر ہوتا ہوا میَں

اکیلا اپنا محرم کہ اپنا دوسرا میَں
نظر میَں ، آئینہ میَں ، سماعت میَں صدا میَں

میانِ محشرستاں ، عجب بے واسطہ میَں
نہیں اُس کی خبر میَں ، نہیں اپنا پتہ میَں

میں آساں بھی کٹھن بھی ، مگرتم کون میرے
میں آپ اپنا تذبذب ، خود اپنا فیصلہ میں

سکوں نا آشنا لوگ ، یہ آپس میں جُدا لوگ
بہت کچھ دیکھتا ہوں سرِ راہے کھڑا میَں

میں کیا ہوں ، کس جگہ ہوں ، کہو وابستگاں کچھ
نہ مّٹی کی مہک میَں ، نہ پر بت کی ہَوا میَں

تمھیں جب لَو ٹنا ہو، خوشی سے لَوٹ آنا
وفا قائم مِلوں گا، یہی میَں، طے شدہ میَں
*


23

ہاتھ تھے روشنائی میں ڈوبے ہوئے اور لکھنے کو کوئی عبارت نہ تھی
ذہن میں کچھ لکیریں تھیں ، خاکہ نہ تھا، کچھ نشاں تھے نظر میں علامت نہ تھی

زر د پتّے کہ آگاہِ تقدیر تھے، ایک زائل تعلق کی تصویر تھے!
شاخ سے سب کو ہونا تھا آخر جُدا ! ایسی اندھی ہو ا کی ضرورت نہ تھی

اک رفاقت تھی زہریلی ہوتی ہوئی ، راستہ منتظر خود دو راہے کا تھا
پھر وہ اک دوسرے سے جُدا ہوگئے ، دونوں چُپ تھے کہ دونوں کو حیرت نہ تھی

ایک آراستہ گھر میں تھا کب سے میں ، ایک صد برگ منظر میں تھا کب سے میں
میری خاطر تھیں کیا کیا ہُنرکاریاں ! اک نظر دیکھنے کی بھی فرصت نہ تھی

آج رکھا ہے لمحہ ترے ہاتھ پر ، لمسِ اول کی لذت کو محفوظ کر
کل نہ کہنا فلک خوش تعاون نہ تھا ، کل نہ کہنا زمیں خوبصورت نہ تھی

کتنا پانی بہالے گئی ہے ندی ! کتنے منظر اڑا لے گئی ہے ہَوا
اک خزانہ کہ اب تک نہ خالی ہُوا ، اک زیاں تھا کہ جس کی شکایت نہ تھی

ایک اک لفظ کے سینۂ زرد سے فصلِ صد رنگ معنی اگانا پڑی
اپنی تقدیر میں کوئی ورثہ نہ تھا ! نام اپنے کوئی بھی وصیت نہ تھی
*



24

آسماں کا سرد سنّاٹا پگھلتا جائے گا
آنکھ کھُلتی جائے گی منظر بدلتا جائے گا

پھیلتی جائے گی چاروں سمت اک خوش رونقی
ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا

میری راہوں میں حسیں کرنیں بکھرتی جائیں گی
آخری تارا پسِ کہسار ڈھلتا جائے گا

بھُولتا جاؤں گا گُزری ساعتوں کے حادثے
قہرِ آئندہ بھی میرے سر سے ٹلتا جائے گا

راہ اب کوئی ہو، منزل کی طرف لے جائے گی
پاؤں اب کیسا پڑے، خود ہی سنبھلتا جائے گا

اک سماں کھُلتا ہُوا سا! اک فضا بے داغ سی
اب یہی منظر مرے ہمراہ چلتا جائے گا

چھُو سکے گی اب نہ میرے ہاتھ طوفانی ہوا
جس دیے کو اب جلا دوں گا وہ جلتا جائے گا
*


25

اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا
قائل ہی تری بات کا اندر سے نہیں تھا

ہر آنکھ کہیں دُور کے منظر پہ لگی تھی
بیدار کوئی اپنے برابر سے نہیں تھا

کیوں ہاتھ ہیں خالی کہ ہمارا کوئی رشتہ
جنگل سے نہیں تھا کہ سمندر سے نہیں تھا

اب اُس کے لیے اس قدر آسان تھا سب کچھ
واقف وہ مگر سعیِ مکرّر سے نہیں تھا

موسم کو بدلتی ہوئی اک موجِ ہَوا تھی
مایوس میں بانیؔ ابھی منظر سے نہیں تھا
*

26

یہ ذرا سا کچھ اور ایک دم بے حساب سا کچھ
سرِ شام سینے میں ہانپتا ہے سراب سا کچھ

وہ چمک تھی کیا جو پگھل گئی ہے نواحِ جاں میں
کہ یہ آنکھ میں کیا ہے شعلۂ زیرِ آب سا کچھ

کبھی مہرباں آنکھ سے پرکھ اس کو ، کیا ہے یہ شے
ہمیں کیوں ہے سینے میں اِس سبب اضطراب سا کچھ

وہ فضا نہ جانے سوال کرنے کے بعد کیا تھی
کہ ہِلے تو تھے لب ، مِلا ہو شاید جواب سا کچھ

مرے چار جانب یہ کھنچ گئی ہے قنات کیسی
یہ دُھواں ہے ختمِ سفر کا یا ٹوٹے خواب سا کچھ

وہ کہے ذرا کچھ تو دِل کو کیا کیا خلل ستائے
کہ نہ جانے اُس کی ہے بات میں کیا خراب سا کچھ

نہ یہ خاک کا اجتناب ہی کوئی راستہ دے
نہ اُڑان بھرنے دے ، سر پہ یہ پیچ و تاب سا کچھ

سرِ شرح و اظہار جانے کیسی ہوا چلی ہے
کہ بکھر گیا ہے سخن سخن ، انتخاب سا کچھ

یہ بہار بے ساختہ چلی آئی ہے کہاں سے
تنِ زرد میں کھِل اُٹھا ہے پیلے گلاب سا کچھ

ارے کیا بتائیں ہوائے امکاں کے کھیل کیا ہیں
کہ دلوں میں بنتا ہے ، ٹوٹتا ہے ، حباب سا کچھ

کبھی ایک پل بھی نہ سانس لی کھُل کے ہم نے بانیؔ
رہا عمر بھر بسکہ جسم و جاں میں عذاب سا کچھ
*

27

خطائے بسیار ہوں ، سزا دے
دلیلِ بے کار ہوں ، سزا دے

میں حرفِ اثبات کا ہوں قاتل
نفی کا اظہار ہوں ، سزا دے

نہیں ہے اب کچھ بھی مثلِ دیوار
میں آر ہوں پار ہوں ، سزا دے

نہ پوچھ اجداد کیا تھے میرے
میں ننگ ہوں ، عار ہوں ، سزا دے

تمام وزن و وقار زائل،
زوالِ معیار ہوں ، سزا دے

طرب طرب ساری لذتوں میں
میں زہر کی دھار ہوں ، سزا دے

جو سارے قصّے کی وجہِ غم ہے
وہی میں کردار ہوں ، سزا دے
*

28

بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا
کہ لمحہ لاکھ امکانات کا تھا

بچا لی تھی ضیا اندر کی اُس نے
وہی اک آشنا اب رات کا تھا

رفاقت کیا ، کہاں کے مشترک خواب
کہ سارا سلسلہ شبہات کا تھا

بگولے اُس کے سر پر چیختے تھے
مگر وہ آدمی چُپ ذات کا تھا

حِنائی ہاتھ کا منظر تھا بانیؔ
کہ تابندہ ورق اثبات کا تھا

29

کیا گزشتہ و امکاں کے ہے درمیاں دیکھتے جائیں ہم
خود کہ ہیں ایک سرمایۂ رائگاں دیکھتے جائیں ہم

اک مسلسل سیہ پوش ہوتے چراغوں کا ہے جشنِ شب
آگہی چاک اپنی صدا کا دھواں دیکھتے جائیں ہم

اس ندی کے اِدھر کے کنارے کا سیدھا سفر پیش ہے
آنکھ کہتی ہے چپ چاپ آبِ رواں دیکھتے جائیں ہم

کوئی سنگِ سیہ اپنی ٹھوکر سے جب تک نہ ٹوکے ہمیں
جادہ جادہ بڑھے جائیں اور آسماں دیکھتے جائیں ہم

کچھ دھڑکتے ہوئے سلسلے کیا ہمارے علاوہ بھی ہیں
اور کِس کِس کو حاصل نہیں ہے زباں دیکھتے جائیں ہم

ہم تری زد سے محفوظ رہ پائیں گے کیا دیارِ خراب
اس سے پہلے کہ ہم بھی کھنڈر ہوں ، سماں دیکھتے جائیں ہم

آتی جاتی ہَوا اب ہمارے دریدہ لباسوں میں ہے
شے جو دل میں ہے ، ٹوٹے تو سارا زیاں دیکھتے جائیں ہم
*


30

اک ڈھیر راکھ میں سے شرر چُن رہا ہوں میں
خوابوں کے درمیان خبر چُن رہا ہوں میں

کیا دِل خراش کام ہُوا ہے مرے سُپرد
اِک زرد رُت کے برگ و ثمر چُن رہا ہوں میں

اِک خواب تھا کہ ٹوٹ گیا خوں کے حبس میں
اب تُند دھڑکنوں کے بھنور چُن رہا ہوں میں

کیا جانے اُس کے خط میں دھواں کیا ہے حرف حرف
مفہوم چُن رہا ہوں ، اثر چُن رہا ہوں میں

اے رمز آشنائے تجسس ، ادھر بھی دیکھ
اندھے سمندروں سے گہر چُن رہا ہوں میں

وہ مستقل غُبار ہے چاروں طرف کہ اب
گھر کے تمام روزن و در چُن رہا ہوں میں

بانیؔ نظر کا زاویہ بدلا ہے اس طرح
اب ہر فضا سے چیزِ دگر چُن رہا ہوں میں
*


31

آج کھُلا ، آنکھ میں نشّہ سرابوں کا تھا
میں تھا اور اب سلسلہ ٹوٹتے خوابوں کا تھا

کس نے اُچھالا نہ تھا ، زہر میں ڈوبا سوال
اور کہ اب انتظار سب کو جوابوں کا تھا

خاک و خلا کی بہار ، ہم نے بھی دیکھی کہ جشن
پیلے ستاروں کا تھا ، زرد گلابوں کا تھا

پاؤں تلے آنچ سی تشنہ زمینوں کی تھی
سر پہ نظارہ عجب اُڑتے سحابوں کا تھا

ایک سلگتی سی دُھند خوں میں بکھرنے لگی
تشنگیوں کی تھی بات، ذکر شرابوں کا تھا

اب نہ کہیں بستیاں گوشہ نشینوں کی تھیں
اور نہ تماشا کہیں خانہ خرابوں کا تھا

اس نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے نہ تھے
لمحہ جو گزرا ابھی لاکھ ثوابوں کا تھا

سب کی زبانوں پہ رات دعوے فقیری کے تھے
اور دِلوں میں کہیں حشر حسابوں کا تھا

خاک میں خوشبو نہ تھی، گلیوں میں جگنو نہ تھے
خالی و تنہا تھے ہم، شہر عذابوں کا تھا
*

32

وہ بات بات پہ جی بھر کے بولنے والا
اُلجھ کے رہ گیا ڈوری کو کھولنے والا

لو سارے شہر کے پتھر سمیٹ لائے ہیں ہم
کہاں ہے ہم کو شب و روز تولنے والا

ہمارا دِل کہ سمندر تھا؛ اُس نے دیکھ لیا
بہت اُداس ہوا، زہر گھولنے والا

کسی کی موجِ فراواں سے کھا گیا کیا مات
وہ اک نظر میں دِلوں کو ٹٹولنے والا

وہ آج پھر یہی دُہرا کے چل دیا بانیؔ
میں بھول کے نہیں اب تجھ سے بولنے والا


33

صدائے دل عبادت کی طرح تھی
نظر، شمعِ شکایت کی طرح تھی

بہت کچھ کہنے والا چُپ کھڑا تھا
فضا اجلی سی حیرت کی طرح تھی

کہا دِل نے کہ بڑھ کے اس کو چھُو لوں
ادا خود ہی اجازت کی طرح تھی

نہ آیا وہ مِرے ہمراہ یوں تو
مگر اک شے رفاقت کی طرح تھی

میں تیز و سُست بڑھتا جارہا تھا
ہوا، حرفِ ہدایت کی طرح تھی

نہ پُوچھ اُس کی نظر میں کیا تھے معیار
پسند اُس کی رعایت کی طرح تھی

مِلا اب کے وہ اک چہرہ لگائے
مگر سب بات عادت کی طرح تھی


نہ لڑتا میں کہ تھی چھوٹی سی اک بات
مگر ایسی کہ تہمت کی طرح تھی

کوئی شے تھی : بنی جو حُسنِ اظہار
مِرے دِل میں اذیت کی طرح تھی
*

34

اپنے سینے میں کہیں میری وفا ، محفوظ کرلے
میں کہوں تیرا ہوں میں ، میرا کہا محفوظ کرلے

اس تعلق سے تجھے شاید کبھی میں یاد آؤں
شام کی اُودی چمک ، گم سُم ہوا محفوظ کرلے

اپنے آنچل پر سجا لے میری کچھ سیّال یادیں
میں سُلگتا رنگ ہوں ، میری ضیا محفوظ کرلے

اس رواں پانی سے اک رشتہ ہے میری دھڑکنوں کا
اس ندی کی ریشمی سی نم صدا محفوظ کرلے

کچھ نہ کچھ میرا یہاں چاروں طرف بکھڑا پڑا ہے
پھول سے مہتاب تک سب سلسلہ محفوظ کرلے

ایک رستہ درمیاں رہنے دے جیسے کوئی ڈوری
اِک سرا مجھ کو تھما دے ، دوسرا محفوظ کرلے

آخری بار اُس پہاڑی شانت مندر چل مرے ساتھ
اور بوجھل شام کی پہلی دعا محفوظ کرلے
*

35

کیا کہوں کیا تھی اُڑان خود میں خبر میں نہ تھا
گُم شدگی کے سِوا کچھ بھی سفر میں نہ تھا

آج دِکھائی دِیا جانے یہ کیا فاصلہ
تجھ کو خبر اِس کی ہو ، میری نظر میں نہ تھا

کوئی عجب موجِ دُود اُس کی چُپ آنکھوں میں تھی
میں اُسے قائل کروں ، میرے ہنر میں نہ تھا

اَدھ کھُلی کھڑکی سے ہم وسعتیں دیکھا کیے
گھر سے نکلتے نہ تھے ، چین بھی گھر میں نہ تھا

اتنے قریب آشنا ، ہم کہ ہوئے تھے نہ جب
کیا ترے دل میں نہ تھا ، کیا مرے سر میں نہ تھا

سارے نشے بُجھ گئے ، اب کوئی لطفِ سُراغ
خیر و سکوں میں نہ تھا ، خوف و خطر میں نہ تھا

سارے مکاں ، لامکاں خالی و بے نقش تھے
برق ، خلامیں نہ تھی سانپ ، کھنڈر میں نہ تھا

ایک کو پھر ایک سے کوئی شکایت نہ تھی
دیکھ کے چُپ تھے سبھی ، کون بھنور میں نہ تھا

ریت بنی خود سراب ، رنگ بنا خود گلاب
کوئی بھی منظر کہ خواب ، میرے اثر میں نہ تھا
*

36

مست اُڑتے پرندوں کو آواز مت دو کہ ڈر جائیں گے
آن کی آن میں سارے اوراقِ منظر بکھر جائیں گے

شام: چاندی سی اک یاد پلکوں پہ رکھ کر چلی جائے گی
اور ہم روشنی روشنی اپنے اندر اُتر جائیں گے

کون ہیں ، کس جگہ ہیں کہ ٹوٹا ہے جن کے سفر کا نشہ
ایک ڈوبی سی آواز آتی ہے پیہم کہ گھر جائیں گے

اے ستارو تمھیں اپنی جانب سے شاید نہ کچھ دے سکیں
ہم مگر راستوں میں رکھے سب چراغوں کو بھر جائیں گے

وقت میں اک جگہ سی بناتے ہوئے تیرہ لمحے یہی
کوئی اندھی کہانی مرے دل پہ تحریر کر جائیں گے

ہم نے سمجھا تھا موسم کی بے رحمیوں کو بھی ایسا کہاں
اس طرح برف گرتی رہے گی کہ دریا ٹھہر جائیں گے

آج آیا ہے اک عمر کی فُرقتوں میں عجب دھیان سا
یوں فراموشیاں کام کر جائیں گی ، زخم بھر جائیں گے
*

37

دیکھیے کیا کیا ستم موسم کی من مانی کے ہیں
کیسے کیسے خشک خطّے منتظر پانی کے ہیں

کیا تماشا ہے کہ ہم سے اک قدم اُٹھتا نہیں
اور جتنے مرحلے باقی ہیں ، آسانی کے ہیں

وہ بہت سفّاک سی دھومیں مچا کر چل دیا
اور اب جھگڑے یہاں اُس شخصِ طوفانی کے ہیں

اک ، عدم تاثیر لہجہ ہے مری ہر بات کا
اور جانے کتنے پہلو میری ویرانی کے ہیں

اُس کی عادت ہے گھرے رہنا دھوئیں کے جال میں
اُس کے سارے روگ اک اندھی پریشانی کے ہیں
*

38

ہمیں ، لپکتی ہوا پر سوار ، لے آئی
کوئی تو موج تھی دریا کے پار لے آئی

وہ لوگ جو کبھی باہر نہ گھر سے جھانکتے تھے
یہ شب انھیں بھی سرِ رہ گزار لے آئی

اُفق سے تا بہ اُفق پھیلتی بکھرتی گھٹا
گئی رُتوں کا چمکتا غبار لے آئی

متاعِ وعدہ سنبھالے رہو کہ آج بھی شام
وہاں سے ایک نیا انتظار لے آئی

اُداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہَوا
ہمیں پھر آج پُرانے دیار لے آئی

نہ شب سے دیکھی گئی برگِ آخری کی تھکن
کہ بُوند اوس سے اِس کو اتار لے آئی

میں دیکھتا تھا شفق کی طرف ، مگر تتلی
پروں پہ رکھ کے عجب رنگ زار لے آئی

بہت دِنوں سے نہ سوئے تھے ہم اور آج ہَوا
کہیں سے نیند کی خوشبو اُدھار لے آئی

وہ اِک ادا کہ نہ پہچان پائے ہم بانیؔ
ذرا سی بات تھی ، آفت ہزار لے آئی
*

39

دیکھتا تھا میں پلٹ کر ہر آن
کس صدا کا تھا نہ جانے امکان

اُس کی اک بات کو تنہا مت کر
وہ کہ ہے ربطِ نوا میں گنجان

ٹوٹ بکھری : کوئی شے تھی ایسی
جس نے قائم کی ہماری پہچان

لوگ منزل پہ تھے ہم سے پہلے
تھا کوئی راستہ شاید آسان

سب سے کمزور ، اکیلے ہم تھے
ہم پہ تھے شہر کے سارے بہتان

اوس سے پیاس کہاں بُجھتی ہے
موسلا دھار برس ! میری جان

کیا عجب شہرِ غزل ہے بانیؔ
لفظ شیطان ، سخن بے ایمان
*

40

پھر وہی تُو ساتھ میرے ، پھر وہی بستی پُرانی
ایک اک رستہ ہے تیری رونقِ پا کی کہانی

اے گلِ آوارگی تیری مہک تاروں سے کھیلے
اے ندی بہتا رہے دائم ترا بیدار پانی

سبز ، نیلی دُھند میں ڈوبے پہاڑوں سے اترتی
کیا عجب منظر بہ منظر روشنی ہے ، داستانی

اک گھنے سرشار حاصل کی فضا ہے اور دونوں
اب نہیں ہے درمیاں کوئی بھی منزل، امتحانی

میں کہ تھا مُنکر ترا، اور اب کہ میں قائل کھڑا ہوں
اے وصالِ لمحہ لمحہ، اے عطائے آسمانی
*

41

ہر خلش اور خواب کو ایک علامت کہوں
دُھند کو امکاں کہوں، گرد کو شہرت کہوں

برقِ ہوس کوند جا، راکھ بنا دے مجھے
جاکے ہواؤں سے میں اپنی ضرورت کہوں

آج مِری آنکھ میں نشّہ نہ جانے ہے کیا
ریت کو منظر کہوں، دشت کو وسعت کہوں

ایک ہی جستِ جنوں لائی خلا میں مجھے
اب کِسے منزل کہوں، کس کو مسافت کہوں

یوں کہ تمھارے لیے اس کے نہ معنی ہوں اور
کچھ مری چپ میں جو ہے، میں کسی صورت کہوں

صبح کی پہلی کرن دُھوپ بچھاتی گئی
میں ترے خط کی اِسے شوخ عبارت کہوں

ناف میں گُل ہے ابھی ، گُل میں ہے خوشبو ابھی
صَر صَرِ شب کے حضور ، حرفِ سلامت کہوں
*

42

اب آر پار دھیان کی مشعل کہاں ہے زیبؔ
گنجان درد کا مرے اندر دھواں ہے زیبؔ

گاڑھے سیاہ میں ہے لہو کی لپک نہ لہر
کیوں اس قدر بھی نقشِ نفس بے نشاں ہے زیبؔ

کیوں بے اثر ہے میری دعا صحنِ صبح میں
کیوں شب کدے میں میری فغاں رائگاں ہے زیبؔ

کیوں مٹھی بھر سراب سے نقصانِ دشت ہے
کیوں آنکھ بھر نمی سے چمن کا زیاں ہے زیبؔ

کیوں بادباں پہ بوجھ ہے اک بوند اوس بھی
کِس آبِ ناتواں میں سفینہ رواں ہے زیبؔ

کیوں بار بار مجھ سے بچھڑتا ہے ، کون ہے
کیوں موڑ موڑ میرے لیے امتحاں ہے زیبؔ

کیوں ایک خواب روز کی نیندوں پہ ہے محیط
کیوں اک ورق ہی میرے لیے داستاں ہے زیبؔ

اب ارضِ شش جہت ہے ، نہ دریائے ہفت موج
مسمار آنکھ میں عدمِ آسماں ہے زیبؔ

تا عمر تیرے نام سے لکھّوں غزل غزل
اک دردِ مشترک کا سخن درمیاں ہے زیبؔ
* زیبؔ غوری



43

جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا
اُس سے بچھڑا ہے کوئی ، اتنا پتہ دیتا تھا

کوئی کچھ پوچھے تو کہتا کہ ہَوا سے بچنا
خود بھی ڈرتا تھا بہت ، سب کو ڈرا دیتا تھا


اُس کی آواز کہ بے داغ سا آئینہ تھی
تلخ جملہ بھی وہ کہتا تو مزہ دیتا تھا

دن بھر ایک ایک سے وہ لڑتا جھگڑتا بھی بہت
رات کے پچھلے پہر سب کو دعا دیتا تھا

وہ کسی کا بھی کوئی نشّہ نہ بجھنے دیتا
دیکھ لیتا کہیں امکاں تو ہَوا دیتا تھا

اک ہنر تھا کہ جسے پاکے وہ پھر کھو نہ سکا
ایک اک بات کا احساس نیا دیتا تھا

جانے بستی کا وہ اک موڑ تھا کیا اُس کے لیے
شام ڈھلتے ہی وہاں شمع جلا دیتا تھا

ایک بھی شخص بہت تھا کہ خبر رکھتا تھا
ایک تارا بھی بہت تھا کہ ضیا دیتا تھا

رُخ ہَوا کا کوئی جب پوچھتا اُس سے بانیؔ
مُٹھّی بھر خاک ، خلا میں وہ اڑا دیتا تھا!
*



44

حال سناتا تھا وہ ایک زمانے کا
رستہ بھول گیا گھر لوٹ کے جانے کا

ماضی سے اُبھریں وہ زندہ تصویریں
اُتر گیا سب نشّہ نئے پُرانے کا

ڈھانپ دیا سارا آکاش پرندے نے
کیا دِل کش منظر تھا پَر پھیلانے کا

گرم ، خنک رنگوں سے لاکھ وہ روپ بھرے
ایک سخن : اُس کی پہچان بتانے کا

ذرا ذرا سے زیاں پہ رو پڑتا ہوں میں
یار مرے ، میں نہیں ہوں بھرے خزانے کا

پڑھتے پڑھتے ایک لفظ سے پھیلی دُھند
بُجھا دیا پھر اُس نے لیمپ سرہانے کا
*




45

صبح کے سبز نَم سی نوا کِس کی تھی
محوِ ترتیبِ نغمہ فضا کِس کی تھی

سارے رنگوں پہ عکسِ حنا کِس کا تھا
سارے منظر پہ حاوی ادا کِس کی تھی

ایک بے داغ باطن سے نکلی ہوئی
بات ، بے ساختہ ، بے خطا کِس کی تھی

شوخ و شائستہ موجِ فراواں ، مدام
اِک تمنا زیادہ ذرا کِس کی تھی

کون زنجیر سا تھا محافظ مِرا
ہم دمی ، مرحلہ مرحلہ کِس کی تھی

ہم کہ اک دوسرے کے سوا کس کے تھے
یعنی دھڑکن سے دھڑکن جدا کِس کی تھی

راستے تھے دُھلے منظروں کی طرح
اَبر بن کر جو برسی ، دعا کِس کی تھی
*


نظمیں


۳۱ دسمبر

اے خبر تشنہ
وضاحت زخم
معنی کے پرندے
سبز ، سیندوری
طِلائی ، سُرمگیں ریشم
ترے چاروں طرف
دامِ حروف
پھانک ، تقدیسِ زیاں
ویراں دسمبر کی
شبِ آخر کا
خوش لذّت سفوف
اور توانائی تراشیدہ پَروں پر
ٹانک ، خواہش کے غبارے
آسمانی استعارے
طے شدہ مفہوم
اپنے حلق سے نیچے اُتار
جھانک روشن آنکھ سے
آفاقِ پُر اسرا ر کے
آبی دھوئیں میں !
دِل نہ کر لیکن اُداس
دیکھ اپنے پاؤں کے اُوپر تلے
آراستہ
فصلِ گداز ۔۔۔
اُجلی کپاس !!
 ***

کوئی خواب خواب سا فاصلہ

لبِ زرد پر
کوئی حمد ہے کہ گلہ
کہو
مِری پیلی آنکھ میں
بجھتے خوں کا
الاؤ ہے کہ طِلا
کہو
مِرے دست و بازو
میں آج بھی
کوئی لمس قید ہے
اور سینے کی
بے وقاری
کے اندروں
کوئی حرف اپنا ہی صید ہے
کہ جسے رسائی
نہ مل سکی
یہ مری جھجک کی
بُرید ہے کہ صِلہ
کہو
کبھی ایک بات نہ کہہ سکوں
کبھی اب ، کہ چیخ
کے رو پڑوں
مجھے چاہیے وہی
دُود دود سا
ایک قرب کے درمیاں
کوئی خواب خواب سا
فاصلہ
کوئی آج مجھ سے
وہ بات پوچھے
کہ جس کے معنئ دُور
جانتا ہوں میں اب
کہ ہزار شعلوں
کی راکھ پر
کسی بُوند آنسو
کے سیل میں
یہ گنوائے رشتوں
کا سرد پھول کھِلا
کہو
لبِ زرد پر
کوئی حمد ہے کہ گِلہ
کہو !

***

اِدھر کی آواز اِس طرف ہے

اُجار سی دھوپ
آدھی ساعت
کہ نامکمل علامتیں
داغ داغ آنکھیں
یہ ٹیلہ ٹیلہ
اُترتی بھیڑیں
کہاں ہے
جو اِن کے ساتھ ہوتا تھا
اِک فرشتہ
کٹی پھٹی زرد
شام سے
کون بڑھ کے پوچھے
کہ ایک اک برگ
آگہی کا
ہوا کے پیلے
لرزتے ہاتھوں سے گِر رہا ہے
تمام موسم بکھر رہا ہے
کہ دھیمے دھیمے سے آتی شب کا
یہ آبی منظر
خنک سا شیشہ
کہ وادی وادی کے درمیاں ہے
اگر اُدھر کی صدا ہے کوئی
تو اُس طرف ہے !
اِدھر کی آواز
اِس طرف ہے !!

***

نہ قائل ہوتے ہیں ، نہ زائل

بنجر چہرے
جن پر
نہ بارش کی پہلی بُوند کا
اظہار اُگتا ہے
نہ آتے جاتے لمحوں کا
کوئی اقرار ۔۔۔ انکار
نہ اطمینان ، نہ ڈر
آنکھیں
جن میں کوئی نگاہ
پلکوں سے نہیں الجھتی
باقی حواس بھی
خوشبواور خوشبو کی شہرت سے
آواز اور آواز کی قوت سے
یکسر عاری ہیں
کون ہیں یہ لوگ
کس موجِ فضولیت کی زد میں آگئے ہیں
چُپ کھڑے ہیں
اور ہم
دن بھر میں
شہر کے سارے
فرشتوں اور شیطانوں سے
مِل کر لَوٹ آتے ہیں
مگر یہ چپ کھڑے ہیں
نہ قائل ہوتے ہیں
نہ زائل !
اِن سے ہمارا تعلق
ابھی تک واضح نہیں ہُوا
تعلق اس لیے
کہ ہم مزدور ہیں
اور یہ جاننے کا
اشتیاق رکھتے ہیں
ہمیں کیا کام مِلے گا
ان کے لیے ٹاور بنانے کا
کہ ان کے لیے قبریں کھودنے کا !!

***

ایک شبِ رقص
(خانہ بدوشوں کے درمیان)

اک سنسناتا دائرہ
شب کا حسیں قیام ، تنفّس کا
رنگ زار ، کہ جس میں
سمٹ کے آگیا
سارا کشادِ شب
اوپر
سیاہ دُھند ، سِرے پر
کوئی بلند سی مشعل
کہ نم نواز
اِ ک لَے کے ساتھ
کھُلتے ہوئے
دَف گداز ، راز
آواز
اور شعلۂ آواز
جِسم جِسم
آواز
جس طرح کوئی
خنجر بکف طِلسم
اک رقص
درمیاں
کہ چٹختے ہوئے
حواس
اک جسم
برق برق
مسلسل ، بھنور سی ناف
تحلیل ، خود طواف
اک بُوند رنگ
سُرخ دھواں ، تشنہ ، تشنہ تر
سیّال جسم
سارے عناصر کے رُو برُو
صد سمت آنکھ
اور شبِ لامکاں کی سَیر
رقص و نَوا کے
سیل میں اَبتر طلائی پَیر
سُرخ انگلیاں
کہ جن کی لَووں سے
لپٹتی رات
یہ بازوؤں کے درمیاں
اک روشنی
سَن سَن ، شرر شرر
برہم
برہنہ اور برہنہ ، برہنہ تر ۔۔۔

***

نفی سارے حسابوں کی

لپکتا سُرخ امکاں
جو مجھے آئندہ کی
دہلیز پر لا کر کھڑا کرنے کی خواہش میں
مچلتا ہے
مرے ہاتھوں کو چھُو کر
مجھ سے کہتا ہے
تمھاری انگلیوں میں
خون کم کیوں ہے
تمھارے ناخنوں میں
زردیاں کس نے سجائی ہیں
کلائی سے
نکلتی ہڈیوں پر
اُون کم کیوں ہے
میں اُس سے
ناتواں سی اک صدا میں
پُو چھتا ہوں
اس سے پہلے تم کہاں تھے ۔۔۔
اس سے پہلے بھی یہی ساری زمینیں تھیں
یہی سب آسماں تھے
اور میری آنکھ میں
نیلے ، ہرے کے درمیاں
اک رنگ شاید اور بھی تھا
اب مِرے اندر نہ جھانکو
میرے باطن میں مسلسل تیرتی ہے ، او نگھتی دُنیا سرابوں کی
نفی سارے حسابوں کی !!

***

کیا زمینوں کا اپنا سفر کچھ نہیں؟

اک الجھتے ہوئے رنگ میں
شعلۂ نیم تشکیک ، آدھے یقیں
کے بکھرتے ، پُر اسرار آہنگ میں
ایک آوازِ باریک
سنتا ہوں میں
تشنہ سے تشنہ تر
جنگلوں کی حنائی مہک
پر بتوں کا طلائی غبار
اک سفر ساز سودا ، مگر
اونگھتی روشنی
بے سفر
بے تکان
لمحۂ نیم سوز
آرزوئے فرار
آہ
اک ملک سے
دوسرے ملک تک
تیز جھونکوں
کے معمور ۂ شام میں
بُعدِ بے نام میں
نصف جاں
مُژدہ محروم
کاغذ کی کمزور
اک پھڑ پھڑاہٹ
کہ جیسے کراہ !
پیٹ میں
خار و خس بھی نہیں
اور اُگتا ہے
ماہ
آنکھ میں
بے وطن
اک نگاہ
کوئی راہ
کوئی راہ !!
اوس کے
خوابِ زرتاب میں
اک کنول
ذہن کے پیاسے تالاب میں
ابر کے
ٹوٹنے کا بہت منتظر
تازہ پانی
کی بُوند
اور بُوند
اور بُوندوں کے
دائم سفر
چھوٹے چھوٹے
حفاظت کدوں ، جیسے
مردہ دِیاروں
کی سوراخ سوراخ
تاریخ خوردہ
فصیلوں کو
مسمار کر !
اے چراغِ مہ و سال
اونچے مناروں
کی ٹھنڈی سِلوں
سے اُتر
اور یقیں تشنہ
خاکِ سیہ
کو ذرا
روشنی میں پرکھ
کون ذرّے
کہاں دفن ہیں
کون سرحد
کہاں ختم ہے
کون ہے
جو ہمیں ٹوکتا ہے
لہو کے تعلق
کی آواز کو
روکتا ہے
یہیں۔۔۔
یا وہیں ۔۔۔
کیا زمینوں کا
اپنا سفر
کچھ نہیں ؟ !!

***

گزشتہ و گزراں ، گزشتہ

کوئی بار بار گزشتگی
کبھی سُست پا کہ گریز پا
سوئے رفتگاں
کبھی تیز پا
ابھی ایک لمحہ کہ حال ہے
خبرِ فساد کا
خیر کا
دمِ دوست کا
غمِ غیر کا
کسی قہر کا
کسی لہر کا
کوئی لطف ہے نہ ملال ہے
یہ متاعِ دید و شنید
جیسے
لہو کی ساری خرید
کوئی سمیٹ لے
یہ طویل عمروں
کے فیصلے
کہ ۔۔۔ثوابِ صد مہ و سال
جیسے
حروف قید توقعات
کے سلسلے
کہ ہے بات بات
میں ذکر جن کا
بہت ضروری
یہ لاکھ قرب
کی ناصبوری
یہ ڈر ، کہ لمحہ کے ساتھ ہی
کہیں بیت جائیں نہ آپ ہم
کہ یہ آپ ہم ، یہ ہمہ بہم
یہ طرح طرح کے
معاہدات شریکِ دم
یہ سفر سفر رہِ خاک و نور
قدم قدم
کبھی اک نگاہ
کہ دیکھتی ہے مقامِ دُور
یہ اک چمک
کہ چلی گئی ہے جہت کے پار
جو لَوٹتی ہے تو بے وقار !
کہیں دُودِ شوق بھی رہ گیا
صفِ رنگِ فکر بھی رہ گئی
کہیں رہ گیا ہے
جلالِ آرزو و طلب
کہیں رہ گئی ہے
قلندری
کہیں رہ گئے ہیں
تمام مرحلے صبح کے
کہیں رہ گئی ہے
سکوتِ شب کی
دعا گری
کہ تمام روشنیاں ہیں رفتہ
تمام اِسم و نشاں
گزشتہ
عظیم لفظ و بیاں
گزشتہ
متاعِ خوش ہنراں
گزشتہ
رِدائے رنگ
ادائے عکس
صدائے خلق
نوائے شخص
گزشتہ و گزراں ، گزشتہ
کبھی کبھی
یہ خیال آئے
تمام معجزے پیشتر ہوگئے تمام
ہمارے حصے
کی اب نہیں کوئی آبرو
کوئی افتخار ، مقام ، نام
کبھی ، جو لمحۂ قبل کے
کہیں اندروں میں
ذرا سا جھانکیں
تو یوں لگے
کہ گَیَوں کے ساتھ
چلا گیا ہے تمام وقت
بساط ساری بشارتوں کی
اُلٹ چکی ہے
وہ زندگی ہے
کہ سب کہیں نہ کہیں
نسب سے جڑے ہوئے ہیں
کہ سارے تذکرے
طے شدہ ہیں
گزشتگی سے
وفا کا عہد
ہزار عہد سے ہورہا ہے
جو ہم سے پہلے گزر چکا ہے
وہی دوبارہ گزر رہا ہے
کہ یہ بار بار کی رفتگی
کبھی سُست پا کہ گریز پا
سوئے رفتگاں
کبھی تیز پا ۔۔۔
ابھی ایک لمحہ کہ حال ہے
کہ بسر شدہ کو
بسر کریں
کہ یہی ہمارا کمال ہے !!

***

ن. م. راشدؔ کے انتقال پر

یہ رات ہے کہ حرف و ہنر کا زیاں کدہ
اظہار اپنے آپ میں مہمل ہوئے تمام
اب میں ہوں اور لمحۂ لاہوت کا سفیر
محوِ دعا ہُوا مرے اندر کوئی فقیر
سینے پہ کیسا بوجھ ہے ، ہوتا نہیں سُبک
ہونٹوں کے زاویوں میں پھنسا ہے ’’خدا ۔۔۔خدا‘‘
کیا لفظ ہے کہ جیبھ سے ہوتا نہیں ادا،
کمزور ہاتھ ہیں کہ نہیں اٹھتے سُوئے بام
اظہار اپنے آپ میں زائل ہوئے تمام
صرف آنکھ ہے کہ دیکھتی ہے چاند ، نصف گول
اے خامشی کی شاخ پہ بیٹھے پرند ۔۔۔ بول !
***

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *