ہفتہ، 28 مئی، 2016

شفق شجر/کلیات بانی۔3

12 نومبر 1932 کو ملتان میں پیدا ہونے والے راجیندر منچندا بانی کا یہ تیسرا شعری مجموعہ شفق شجر ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ اس مجموعے میں کچھ ایسی غزلیں بھی شامل تھیں، جو کہ پچھلے مجموعوں میں موجود رہ چکی ہیں، چنانچہ ان کو نکال دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ آپ کو یہ پیشکش ضرورپسند آئے گی۔ بانی کی شاعری پر جلد ہی ہم کچھ اہم ادیبوں سے گفتگو بھی کروائیں گے اور انہیں ادبی دنیا پر اپلوڈ کریں گے۔ غزل میں نئے انوکھے موڑ بدلنے اور پیدا کرنے پر قادر اس شاعر کو تمام لوگوں تک یونی کوڈ میں پہنچادینے سے اب کم از کم یہ اطمینان ہے کہ بانی کی شاعری دنیا میں ہر اس جگہ بہ آسانی پڑھی جاسکے گی، جہاں انٹرنیٹ موجود ہو، خواہ کم وقت کے لیے یا زیادہ وقت کے لیے۔بانی کے ساتھ ساتھ ہم جلد ہی دوسرے اہم شاعروں کی کلیات کو بھی یونی کوڈ میں فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور یہ سفر یونہی جاری و ساری رہے گا۔ شکریہ


نئی غزل
اور نئی غزل کے قارئین کے نام
جنہوں نے میری آواز کو پہچانا
اور
مجھے ، میری انفرادیت کا احساس دِلایا

بانیؔ


ہری سُنہری خاک

نئی غزلیں

1

ہری، سُنہری خاک اُڑانے والا مَیں
شفق شجر تصویر بنانے والا مَیں

خلا کے سارے رنگ سمیٹنے والی شام
شب کی مژہ پر خواب سجانے والا مَیں

فضا کا پہلا پھول کھلانے والی صبح
ہَوا کے سُر میں گیت ملانے والا مَیں

باہر بھیتر فصل اُگانے والا تُو
ترے خزانے سَدا لُٹانے والا مَیں

چھتوں پہ بارش، دُور پہاڑی، ہلکی دھوپ
بھیگنے والا، پنکھ سُکھانے والا مَیں

چار دشائیں جب آپس میں گھُل مل جائیں
سنّاٹے کو دُعا بنانے والا مَیں

گھنے بنوں میں، شنکھ بجانے والا تُو
تری طرف گھر چھوڑ کے آنے والا مَیں

*
2

چلی ڈگر پر، کبھی نہ چلنے والا مَیں
نئے انوکھے، موڑ بدلنے والا مَیں

تم کیا سمجھو، عجب عجب ان باتوں کو
آگ کہیں ہو ۔ یہاں ہوں جلنے والا مَیں

بہت ذرا سی اوس، بھگونے کو میرے
بہت ذرا سی آنچ، پگھلنے والا مَیں

بہت ذرا سی ٹھیس : تڑپنے کو میرے
بہت ذرا سی موج : اُچھلنے والا مَیں

بہت، ذرا سا سفر : بھٹکنے کو میرے
بہت، ذرا سا ہاتھ، سنبھلنے والا مَیں

بہت ذرا سی صبح؛ بکسنے کو میرے
بہت، ذرا سا چاند؛ مچلنے والا مَیں

بہت، ذرا سی راہ؛ نکلنے کو میرے
بہت، ذرا سی آس؛ بہلنے والا مَیں

*
3

تجھے ذرا دُکھ : اور سِسکنے والا مَیں
تِری اُداسی دیکھ نہ سکنے والا مَیں

ترے بدن میں چنگاری سی کیا شے ہے
عکس ذرا سا اور چمکنے والا مَیں

تِرے لہُو میں بیداری سی کیا شے ہے
لمس ذرا سا اور مہکنے والا مَیں

تِری ادا میں پُرکاری سی کیا شے ہے
بات ذرا سی اور جھجھکنے والا مَیں

رنگوں کا اِک باغ حسیں چہرہ تیرا
کیا کیا دیکھوں : آنکھ جھپکنے والا مَیں

سنگ نہیں ہوں، بات نہ مانوں موسم کی
ہَوا ذرا سی اور لچکنے والا مَیں

سفر میں تنہا، قدم اٹھانا مشکل ہو
ساتھ تمہارے کبھی نہ تھکنے والا مَیں

*
4

گھنی گھنیری رات سے ڈرنے والا مَیں
سنّاٹے کی طرح بکھرنے والا مَیں

جانے کون اُس پار بُلاتا ہے مجھ کو
چڑھی ندی کے بیچ اُترنے والا مَیں

رُسوائی : تو رُسوائی منظور مجھے
ڈرے ڈرے سے پاؤں نہ دھرنے والا مَیں

مرے لیے کیا چیز ہے تجھ سے بڑھ کر یار
ساتھ ہی جینے، ساتھ ہی مرنے والا مَیں

سب کچھ کہہ کے توڑ لیا ہے ناطہ کیا
مَیں کیا بولوں، بات نہ کرنے والا مَیں

طرح طرح کے ورق بنانے والا تُو
تِری خوشی کے رنگ ہی بھرنے والا مَیں

دائم، ابدی، وقت گذرنے والا تُو
منظر، سایہ، دیکھ ٹھہرنے والا مَیں

*
5

موڑ تھا کیسا، تجھے تھا کھونے والا مَیں
رو ہی پڑا ہُوں، کبھی نہ رونے والا مَیں

کیا جھونکا تھا، چمک گیا تن من سارا
پتہ نہ تھا پھر راکھ تھا ہونے والا مَیں

لہر تھی کیسی ۔ مجھے بھنور میں لے آئی
ندی کنارے ہاتھ بھگونے والا مَیں

رنگ کہاں تھا، پھول کی پتّی پتّی میں
کرن کرن سی دُھوپ پِرونے والا مَیں

کیا دن بیتا، سب کچھ آنکھ میں پھرتا ہے
جاگ رہا ہوں، مزے میں سونے والا مَیں

شہر خزاں ہے، زردی اوڑھے کھڑے ہیں پیڑ
منظر منظر، نظر چبھونے والا مَیں

جو کچھ ہے اِس پار، وہی اُس پار بھی ہے
ناؤ اب اپنی آپ ڈبونے والا مَیں

*
6

کہاں تلاش کروں اب اُفق کہانی کا
نظر کے سامنے منظر ہے بے کرانی کا

ندی کے دونوں طرف ساری کشتیاں گُم تھیں
بہت ہی تیز تھا اب کے نشہ روانی کا

میں کیوں نہ ڈوبتے منظر کے ساتھ ڈوب ہی جاؤں
یہ شام اور سمندر اُداس پانی کا

پرندے پہلی اڑانوں کے بعد لوٹ آئے
لپک اُٹھا کوئی احساس رائیگانی کا

مَیں ڈر رہا ہُوں ہوا میں کہیں بکھر ہی جائے
یہ پھول پھول سا لمحہ تری نشانی کا

وہ ہنستے کھیلتے اِک لفظ کہہ گیا بانیؔ
مگر مِرے لیے دفتر کھُلا معانی کا
*

7

دوستو کیا ہے تکلف مجھے سر دینے میں
سب سے آگے ہوں میں کچھ اپنی خبر دینے میں

پھینک دیتا ہے اِدھر پھُول وہ گاہے گاہے
جانے کیا دیر ہے دامن مِرا بھر دینے میں

سینکڑوں گُم شدہ دنیائیں دکھا دیں اس نے
آگیا لُطف اُسے لُقمۂ تر دینے میں

شاعری کیا ہے کہ اِک عمر گنوائی ہم نے
چند الفاظ کو امکان و اثر دینے میں

بات اِک آئی ہے دل میں نہ بتاؤں اُس کو
عیب کیا ہے مگر اظہار ہی کر دینے میں

اُسے معلوم تھا اِک موج مِرے سر میں ہے
وہ جھجھکتا تھا مجھے حُکمِ سفر دینے میں

میں ندی پار کروں سوچ رہا ہوں بانیؔ
موج مصروف ہے پانی کو بھنور دینے میں
*

8

سر سبز موسموں کا نشہ بھی مِرے لیے
تلوار کی طرح ہے ہَوا بھی مِرے لیے

میرے لیے ہیں منظر و معنی ہزار رنگ
لفظوں کے درمیاں ہے خلا بھی مِرے لیے

شامل ہُوں قافلے میں مگر سر میں دُھند ہے
شاید ہے کوئی راہ جدا بھی مِرے لیے

مَیں خوش ہوا کہ مُژدہ سفر کا ملا مجھے
پھیلا ہُوا ہے دشتِ سزا بھی مِرے لیے

دیکھوں میں آئینہ تو دُھواں پھیل پھیل جائے
بولوں تو اجنبی ہے صدا بھی مِرے لیے

بانیؔ عجب طرح سے کھِلی خوش مقدری
برگِ شفق بھی، برگِ حنا بھی مِرے لیے
*

9

چاند کی اوّل کرن منظر بہ منظر آئے گی
شام ڈھل جانے دو شب زینہ اُتر کر آئے گی

میرے بستر تک ابھی آئی ہے وہ خوشبوئے خواب
رفتہ رفتہ بازوؤں میں بھی بدن بھر آئے گی

جانے وہ بولے گا کیا کیا اور بَری ہو جائے گا
کچھ سُنوں گا میں تو سب تہمت مِرے سر آئے گی

وہ کھڑی ہے اِک روایت کی طرح دہلیز پر
سیر کا بھی شوق ہے لیکن نہ باہر آئے گی

یوں کہ تجھ سے دور بھی ہوتے چلے جائیں گے ہم
جانتے بھی ہیں صدا تیری برابر آئے گی

کیا کھڑا ندی کنارے دیکھتا ہے وسعتیں
کیا سمجھتا ہے کوئی موجِ سمندر آئے گی

کیا عجب ہوتے ہیں باطن راستوں کے سلسلے
کوئی بھی زنداں ہو بانیؔ روشنی در آئے گی
*

10

شفق شَجر موسموں کے زیور، نئے نئے سے
دعاؤں کی اوس چُنتے منظر، نئے نئے سے

نمک نشیلی گُداز فصلیں، نئی نئی سی
اُفق پرندے، گلاب بستر، نئے نئے سے

خلا خلا بازوؤں کو بھرتی نئی ہوائیں
سفر صدف بادباں سمندر، نئے نئے سے

یہ دن ڈھلے کس کا منتظر مَیں، نیا نیا سا
یہ پھیلتے خواب میرے اندر نئے نئے سے

خنک ہوا شام کی کہانی، نئی نئی سی
پُرانے غم پھر محبتوں بھر نئے نئے سے
*

11

تمام راستہ پھُولوں بھرا ہے میرے لیے
کہیں تو کوئی دُعا مانگتا ہے میرے لیے

تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے ہے میرے لیے
مَیں جانتا ہوں تِرا در کھُلا ہے میرے لیے

وہ ایک عکس کہ پَل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے

گذر سکوں گا نہ اس خواب خواب بستی سے
یہاں کی مٹی بھی زنجیرِ پا ہے میرے لیے

یہ حُسن ختم سفر ۔۔۔ یہ طِلسم خانۂ جنگ
کہ آنکھ جھپکوں تو منظر نیا ہے میرے لیے

یہ کیسے کوہ کے اندر میں دفن تھا بانیؔ
وہ ابر بن کے برستا رہا ہے میرے لیے
*

12

کہاں گئے وُہ نگر کُشادہ
کھُلی چھتیں اور گھر کُشادہ

وہ رات خوابوں کے جگنوؤں میں
وہ، نورِ اوّل، سحر کُشادہ

وہ آنکھ میں پُورے پُورے منظر
وہ پُورے منظر، نظر کُشادہ

اُفق کو جاتے ہوئے پرندے
فضا کہ پرواز بھر کُشادہ

وہ رنگ، گرم و خنک، فراواں
وہ زندگی، زیادہ تر کُشادہ

وہ شہر باہر نکلتی راہیں
حسین اور اس قدر کُشادہ

بہت گھنے قُربتوں کے سائے
بہت دِل ہم سفر کُشادہ
*

13

سِلسِلہ روشن تجسّس کا اُدھر میرا بھی ہے
اے ستارو! اس خلا میں اِک سفر میرا بھی ہے

چار جانب کھینچ دیں اُس نے لکیریں آگ کی
میں کہ چلّایا بہت بستی میں گھر میرا بھی ہے

جانے کس کا کیا چھپا ہے اس دُھوئیں کی صف کے پار
ایک لمحے کا افق اُمید بھر میرا بھی ہے

راہ آساں دیکھ کر سب خوش تھے پھر میں نے کہا
سوچ لیجے، ایک انداز نظر میرا بھی ہے

اب نہیں ہے اس کی کھڑکی کے تناظر میں بھی چاند
ایک پُراسرار موسم سے گذر میرا بھی ہے

یہ بساطِ آرزو ہے اس کو یوں آساں نہ کھیل
مجھ سے وابستہ بہت کچھ داؤ پر میرا بھی ہے

جینے مرنے کا جنوں دل کو ہُوا، بانیؔ بہت
آسماں اِک چاہیے مجھ کو، کہ سر میرا بھی ہے
*

14

علی بِن متّقی رویا
وہی چپ تھا، وہی رویا

عجب آشوبِ عرفاں میں
فضا گُم تھی، کہ جی رویا

یقیں مِسمار موسم کا
کھنڈر خود سے تہی رویا

اذاں زینہ اُتر آئی
سکُوتِ باطنی رویا

خلا ہر ذات کے اندر
سُنا جس نے وہی رویا

ندی پانی بہت روئی
عقیدہ روشنی رویا

سَحر دم کون روتا ہے
علی بِن متّقی رویا
*

15

اِدھر آ اور اِن خیموں کے اندر دیکھ
وہ سوئے ہیں سُکوں فردوس بستر دیکھ

اِنہی کے لب پہ شب کی حمدِ اوّل تھی
اِنہی کے بخت میں خوابوں کے دفتر دیکھ

عجب اُلجھی ہوئی آندھی چلی شب بھر
یہاں ٹوٹا نہیں کس شے کا محور دیکھ

فصیلِ شہر کے پتھر ہَوا میں تھے
مگر قائم رہی خیمے کی چادر دیکھ

اندھیرا اور اندھیرے میں بپا محشر
مگر اِن کے سُکوں کو ردِّ محشر دیکھ

حصارِ حمد کے اندر پڑے سوئے
صفا و صِدق کے بیٹوں کے لشکر دیکھ

ہلاکت خیزیوں کے درمیاں بانیؔ
اُبھرتی صُبح کا محفوظ منظر دیکھ
*

16

صد سوغات، سکوں فردوس ستمبر آ
اے رنگوں کے موسم، منظر منظر آ

آدھے ادُھورے لمس نہ میرے ہاتھ پہ رکھ
کبھی سپُرد بدن سا مجھے میسر آ

کب تک پھیلائے گا دُھند مرے خوں میں
جھوٹی سچی نوا میں ڈھل کر لب پر آ

مجھے پتہ تھا اِک دن لوٹ کے آئے گا تُو
رُکا ہُوا دہلیز پہ کیوں ہے اندر آ

اے پیہم پرواز پرندے، دم لے لے
نہیں اُترتا آنگن میں تو چھت پر آ

اُس نے عجب کچھ پیار سے اب کے لکھا بانیؔ
بہت دنوں پھر گھوم لیا، واپس گھر آ
*

17

غائب ہر منظر میرا
ڈھونڈ پرندے گھر میرا

جنگل میں گُم فصل مِری
ندی میں گُم پتھر میرا

دُعا مِری گُم صر صر میں
بھنور میں گُم محور میرا

ناف میں گُم سب خواب مِرے
ریت میں گُم بِستر میرا

سب بے نور قیاس مِرے
گُم سارا دفتر میرا

کبھی کبھی سب کچھ غائب
نام، کہ گُم اکثر میرا

میں اپنے اندر کی بہار
بانیؔ کیا باہر میرا
*

18

منظر گیر نظر تیری
چاروں سمت خبر تیری

چار دیے روشن تیرے
رات کے بعد سحر تیری

لمبے کوس سفر تیرا
چھاؤں شجر شجر تیری

موسم شفق شفق تیرے
فصلیں ثمر ثمر تیری

آگے عکسِ سفر تیرا
پیچھے یادِ سفر تیری

کیا کیا افق دکھاتی ہے
باتیں خواب اثر تیری

تنہا دیکھنے والا مَیں
ایک ادائے دِگر تیری
*

19

وہی مُلاقات رُو بہ رُو کی
دُھواں بدن کا، مہک لہُو کی

مَیں تشنگی درمیاں نہ لاؤں
فضا رکھوں سبز گُفتکو کی

چمک رہی ہے کوئی عجب شے
قیاس سے آگے جُستجو کی

وہ لمحہ کیا خامشی کا ٹُوٹا
نوا ہوئی زندہ چار سُو کی

وہ لمس زارِ بہارِ بستر
شگفتِ شب فصل آرزو کی

*

20

اِک زیاں فردا بہ فردا ہے، یہاں کیا جاگیے
بس کہ ہیں منظر کا حصہ، لاکھ تنہا جاگیے

دُھوپ گُم کردے گی سب کچھ ساعتِ اوّل کے بعد
ناف میں رکھ لیجیے، پچھلے کا تارا جاگیے

کم نہ ہوگی خواب اندر خواب اندھی تشنگی
کچھ نہ کچھ اوجھل رہے گا، خواہ کتنا جاگیے

اِک کرن کھڑکی سے بستر تک شفق مژدہ ہوئی
اَور اُترا صِحن میں روشن پرندا جاگیے

آنکھ میں بھر لیجیے پہلا سماں آکاش کا
پَل میں ہو جائے گا بانیؔ سب پُرانا جاگیے


21

وہی محور پُرانے
دِلوں کے ڈر پُرانے

کہیں سے لا وہی پھُول
وہی پتھر پُرانے

وہی اُجلے سے آنگن
وہی سب گھر پُرانے

وہی ندّی، وہی چاند
وہی منظر پُرانے

وہی ہر شب نئے خواب
وہی بستر پُرانے

وہی آرائشِ صبح
وہی زیور پُرانے

وہی باہر نئے سے
وہی اندر پُرانے

*

22

بدن بیدار اُس کا
نشہ ہشیار اُس کا

شفق تحریر اُس کی
ہوا اظہار اُس کا

ابھی رُکتا وہاں مَیں
نہ تھا اِصرار اُس کا

وہ کوتاہی ذرا سی
سفر دُشوار اُس کا

کوئی تو منتظر ہے
ندی کے پار اُس کا

جو شام اب ڈھل رہی ہے
میں شب بردار اُس کا

کہیں اک میں نہیں ہوں
یہ سب گھر بار اُس کا

*


23

خلیل الرحمٰن اعظمی کی یاد میں


دِلوں میں خاک سی اُڑتی ہے کیا، نہ جانے کیا
تلاش کرتی ہے پَل پَل ہَوا، نہ جانے کیا

ذرا سا کان لگا کے کبھی سنو گئے رات
کہیں سے آتی ہے گُم صُم صدا، نہ جانے کیا

مسافروں کے دِلوں میں عجب خزانے تھے
زیاں سفر تھا مگر راستہ، نہ جانے کیا

وہ کہہ رہا تھا نہ جھانکوں گا آج صُبح اس میں
مجھے دکھائے یہی آئینہ، نہ جانے کیا

دُعا کے پھول کی خوشبو سا پھیلنے والا
وہ خود میں ڈھونڈتا تھا، گُم شُدہ، نہ جانے کیا

نہیں ہے کس کی نظر میں اُفق کوئی نہ کوئی
اُس آنکھ میں تھی کوئی شے جُدا، نہ جانے کیا

تمام شہر میں گاڑھے دُھویں کا منظر ہے
لکھا ہُوا تھا یہاں جا بہ جا، نہ جانے کیا

وہی بچھڑتے دلوں کی فضائے اشک آلود
وہی سفر کہ پُرانا، نیا، نہ جانے کیا

نکل گیا ہے خلاؤں کی سمت اے بانیؔ
نواحِ جاں سے گذرتا ہُوا، نہ جانے کیا
*

24

خواب میں کوئی خبر رکھ دینا
شب کے ہونٹوں پہ سحر رکھ دینا

راستہ ختم جہاں ہوتا ہے
اک سفر اور اُدھر رکھ دینا

اب کے ملنا تو مِرے سینے میں
مَوج رکھ دینا، بھنور رکھ دینا

ٹانک دینا مرے رستے میں شفق
شاخ پر برگ و ثمر رکھ دینا

بے پناہی کا سفر دینا بھی
دل میں تھوڑا سا خطر رکھ دینا

بھیجنا تحفۂ امکاں مجھ کو
اور عبارت میں اثر رکھ دینا

اب کے وہ خواب دکھانا بانیؔ
اوس کے دل میں شرر رکھ دینا
*

25

اے بجھے رنگوں کی شام، اب تک دُھواں ایسا نہ تھا
آج گھر کی چھت سے دیکھا آسماں ایسا نہ تھا

کب سے ہے گرتے ہوئے پتّوں کا منظر آنکھ میں
جانے کیا موسم ہے، خوابوں کا زیاں ایسا نہ تھا

کوئی شے لہرا ہی جاتی تھی فصیلِ شب کے پار
دُور اُفق میں دیکھنا، کچھ رائگاں ایسا نہ تھا

پیڑ تھے، سائے تھے، پگڈنڈی تھی اک جاتی ہوئی
کیا یہ سب کچھ خواب تھا، سچ مچ یہاں ایسا نہ تھا

فاصلہ کم کرنے والے راستے شاید نہ تھے
اب تو لگتا ہے، سفر ہی درمیاں ایسا نہ تھا

دِل کہ تھا مائل بہت، ویراں جزیروں کی طرف
یہ ہَوا ایسی نہ تھی، یہ بادباں ایسا نہ تھا

کوئی گوشہ خواب کا سا ڈھونڈ ہی لیتے تھے ہم
شہر اپنا شہر بانیؔ بے اماں ایسا نہ تھا
*

26

عجب تھا ذائقہ اُس ایک لمسِ لرزاں کا
کھِلا دیا ہے بدن میں گلاب امکاں کا

نواحِ جاں سے شفق تک ہوائیں چلنے لگیں
وہی ہے دل، وہی موسم امیدِ آساں کا

کہاں سے ایسا کوئی حرفِ منتخب لائیں
کہ ہم پہ سہل ہو اظہار دردِ انساں کا

ذرا سی بے خبری کا گذر نہ تھا اس میں
سفر کے ساتھ عجب سلسلہ تھا ارماں کا

تُجھے بھی یاد تو ہوگی ہوائے دِل داری
سرک گیا تھا کنارا ترے گریباں کا

کہیں کہیں سے کوئی بات یاد آتی ہے
کٹا پھٹا سا ورق ہُوں کتابِ نسیاں کا

بچھڑ گیا وہ کسی موجِ مست کی مانند
مگر کہ ہوش مجھے بھی نہیں تھا پیماں کا

فضیل جعفری تم نے یہ شعر لکھوائے
تمہارا خط تھا کہ دشمن ہُوا دل و جاں کا
*

27

خط کوئی پیار بھرا لِکھ دینا
مشورہ لِکھ دینا، دُعا لِکھ دینا

کوئی دیوار شکستہ ہی سہی
اُس پہ تم نام مرا لِکھ دینا

کتنا سادہ تھا وہ امکاں کا نشہ
ایک جھونکے کو ہوا لِکھ دینا

کچھ تو آکاش میں تصویر سا ہے
مُسکرا دے تو خدا لِکھ دینا

برگِ آخر نے کہا لہرا کے
مجھے موسم کی اَنا لِکھ دینا

ہاتھ لہرانا ہَوا میں اُس کا
اور پیغامِ حِنا لِکھ دینا

سبز کو سبز نہ لکھنا بانیؔ
فصل لِکھ دینا، فضا لِکھ دینا
*

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *