مرطوب، حبس آلود دوپہر۔ آسمان پر بادل کی کترن تک نہیں۔ ۔ ۔ دھوپ میں پکی ہوئی گھاس تھکی ماندی، مایوس دکھائی دے رہی ہے، جیسے اگر بارش ہو بھی جائے تب بھی یہ کبھی سرسبز نہیں ہو سکے گی۔ جنگل خاموش، ساکت کھڑا ہے، جیسے درختوں کے اوپر سے کسی کی راہ تک رہا ہے، یا اسے کسی بات کی امید ہے۔
میدان کے کنارے پر ایک لمبا تڑنگا، تنگ شانوں والا مرد، جس کی عمر 40 کے قریب ہو گی، اس نے سرخ قمیص اور پیوند لگی پتلون پہن رکھی تھی جو کسی زمانے میں کسی زمیندار کی رہی ہو گی۔ اس کے پاؤں میں لمبے بوٹ تھے اور وہ سست روی سے قدم گھسیٹتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ دائیں طرف سبزہ تھا، بائیں جانب پکی ہوئی رائی کا سنہرا سمندر جو افق تک پھیل گیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ تھا جس سے پسینہ بہہ رہا تھا، اس کے خوبصورت بھورے سر پر سفید ٹوپی ایک ادا سے لہرا رہی تھی، جس پر گھڑسواروں کی سی کھڑی کلغی تھی اور جو واضح طور پر کسی فراخ دل نوجوان رئیس کا تحفہ لگتی تھی۔
اس کے کندھوں سے ایک شکاری تھیلا لٹک رہا تھا جس میں ایک سیاہ جنگلی مرغ تھا۔ آدمی نے ہاتھوں میں دونالی بندوق تھام رکھی تھی۔ اس نے اپنے کتے کی طرف آنکھیں سکیڑیں جو اس سے آگے آگے جھاڑیاں سونگھتا چلا جا رہا تھا۔ ہر طرف سکوت تھا، کہیں کوئی آواز نہیں۔۔۔ ہر زندہ چیز گرمی سے ڈر کر چھپی ہوئی تھی۔
’یگور ولاسچ!‘ شکاری نے یکایک ایک نرم آواز سنی۔ وہ چونک گیا۔ گھوم کر دیکھا تو اس کی تیوری چڑھ گئی۔ اس کے قریب ہی ایک تیس سالہ سفید رو عورت درانتی ہاتھ میں تھامے کھڑی تھی جیسے یکایک زمین سے اگ آئی ہو۔ وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر شرماتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔
’اوہ، یہ تم ہو پیلاگیا!‘ شکاری نے رکتے ہوئے اور جان بوجھ کر بندوق کا گھوڑا چڑھاتے ہوئے کہا۔ ’ہم م م ۔۔۔ تم یہاں کیسے آئیں؟‘
’ہمارے گاؤں کی عورتیں یہاں کام کر رہی ہیں، میں انھی کے ساتھ آئی ہوں ۔۔۔ بطور مزدور، یگور ولاسچ۔‘
’اوہ ۔۔۔ یگور ولاسچ نے کہا اور آہستگی سے چلنا شروع کر دیا۔
پیلاگیا اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔ وہ بیس قدم خاموشی سے چلتے گئے۔
’تمھیں دیکھے ہوئے عرصہ ہو گیا، یگور ولاسچ۔۔۔‘ پیلاگیا نے شکاری کے ہلتے ہوئے شانوں کی طرف ملائمت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’میں نے تمھیں اس وقت سے نہیں دیکھا جب تم ایسٹر کے دن ہماری جھونپڑی میں پانی پینے آئے تھے۔۔۔ تم ایسٹر کے دن ایک لمحے کے لیے آئے اور پھر خدا جانتا ہے کیسے ۔۔۔ نشے میں ۔۔۔ تم نے مجھے ڈانٹا اور مارا پیٹا، اور پھر چل دیے ۔۔۔ میں انتظار کرتی رہی، انتظار کرتی رہی ۔۔۔ میں نے تمھاری راہ تکتے تکتے آنکھیں تھکا لیں۔ آہ، یگور ولاسچ! تم ایک بار تو آ کر دیکھ لیتے!‘
’میرے لیے وہاں کیا دھرا ہے؟‘
’تمھارے لیے وہاں بالکل کچھ نہیں دھرا ۔۔۔ لیکن پھر بھی ۔۔۔ وہاں ایک جگہ ہے جس کی دیکھ بھال کرنی ہے ۔۔۔ یہ دیکھنا ہے کہ کیا حالات ہیں ۔۔۔ تم مالک ہو ۔۔۔ میں کہتی ہوں، تم نے ایک سیاہ مرغ مارا ہے، یگور ولاسچ! تم بیٹھ کر تھوڑا آرام ہی کر لو۔‘
یہ کہتے ہوئے پیلاگیا کسی نادان لڑکی کی طرح ہنس دی۔ اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ اس نے یگور کی طرف دیکھا۔
’بیٹھ جاؤں؟ اگر تم چاہو ۔۔۔‘ یگور نے لاپروایانہ انداز سے کہا، اور فر کے دو درختوں کے نیچے ایک جگہ منتخب کر کے بیٹھ گیا۔ ’تم کیوں کھڑی ہو؟ تم بھی بیٹھ جاؤ۔‘
پیلاگیا تھوڑا سا ہٹ کر دھوپ میں بیٹھ گئی۔ اپنی خوشی سے شرمسار، اس نے اپنے مسکراتے ہوئے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ دو منٹ خاموشی سے گزر گئے۔
’تم ایک بار تو آ سکتے ہو،‘ پیلاگیا نے کہا۔
’کس لیے؟‘ یگور نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ ٹوپی اتار کر اس نے ہاتھ سے اپنا سرخ ماتھا پونچھا۔ ’میرے آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایک دو گھنٹوں کے لیے آنے سے وقت ہی ضائع ہو گا۔ اس سے تم خود بھی پریشان ہو گی، اور گاؤں میں مستقل رہنا میری روح کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گا۔۔۔ تم خود جانتی ہو کہ میں نازپروردہ ہوں۔۔۔ مجھے سونے کے لیے بستر چاہیے، پینے کے لیے عمدہ چائے، بولنے کے لیے اچھی گفتگو کرنے والے۔۔۔ مجھے یہ ساری نفیس چیزیں چاہییں، جب کہ تم گاؤں میں غربت اور گند میں رہتی ہو۔۔۔ میں اسے ایک دن کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ فرض کرو ایسا کوئی حکم نامہ جاری ہو جائے کہ مجھے لازماً تمھارے ساتھ ہی رہنا پڑے، تو میں یا تو جھونپڑی کو آگ لگا دوں، یا خود کو کچھ کر بیٹھوں۔ لڑکپن ہی سے مجھے ایسی ہی سہولیات سے پیار تھا، اب اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
’تم کہاں رہ رہے ہو؟‘
’یہاں کے زمیندار دمتری ایوانِچ کے ساتھ، بطور شکاری۔ میں اس کے کھانے کی میز کے لیے شکار مار کر لاتا ہوں، لیکن اس نے مجھے۔۔۔ کسی اور چیز سے زیادہ مجھے اپنی تفریح کے لیے رکھا ہوا ہے۔‘
’تم کوئی اچھا کام نہیں کر رہے، یگور ولاسچ۔۔۔ دوسرے لوگوں کے لیے شکار مشغلہ ہو گا، لیکن تمھارے لیے کام ہے۔۔۔ جیسے مزدوری۔‘
’تم نہیں سمجھتیں، بےوقوف،‘ یگور نے آسمان کی طرف مایوسی سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’تم کبھی سمجھیں ہیں نہیں، اور جب تک تم زندہ ہو، کبھی جان نہیں سکو گی کہ میں کس قسم کا انسان ہوں۔۔۔ تم مجھے احمق سمجھتی ہو، جو برے راستے پر چل نکلا ہے، لیکن جو کوئی بھی مجھے سمجھتا ہے، وہ مجھے پورے ضلعے میں سب سے اچھا انسان مانتا ہے۔ زمیندار بھی یہی مانتے ہیں، اور انھوں نے میرے متعلق ایک رسالے میں بھی ایسی ہی خبریں چھاپ رکھی ہیں۔ بطور شکاری کوئی میری ٹکر کا نہیں۔۔۔ اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں نازپروردہ یا مغرور ہوں یا میں تمھارے گاؤں کی زندگی کو حقارت سے دیکھتا ہوں۔۔۔ تم جانتی ہو کہ بچپن ہی سے مجھے بندوقوں اور کتوں کے علاوہ کسی اور چیز کا شوق نہیں تھا۔ اگر کوئی میری بندوق مجھ سے لے لیتا تو میں مچھلی پکڑنے کا کانٹا لے کر نکل جاتا، اگر وہ کانٹا لے لیتے تو میں اپنے ہاتھوں سے چیزیں پکڑنے لگتا۔ اور میں گھوڑوں کی تجارت کرتا رہا، میرے پاس جب بھی پیسے ہوتے، میں میلوں ٹھیلوں میں چلا جاتا، اور تم جانتی ہو کہ اگر کوئی کسان شکاری یا گھوڑوں کا بیوپاری بن جائے تو پھر ہل کو خداحافظ۔ جب کسی آدمی میں آزادی کی ہوا سما جائے تو تم اسے اس کے اندر سے کبھی بھی نہیں نکال سکتیں۔ اسی طرح اگر کوئی رئیس اداکاری یا اسی طرح کی کوئی چیز شروع کر دے تو پھر وہ کبھی بھی کوئی افسر یا زمیندار نہیں رہ سکتا۔ تم عورت ہو، تم نہیں سمجھ سکتیں، لیکن تمھیں سمجھنا پڑے گا۔‘
’میں سمجھتی ہوں، یگور ولاسچ۔‘
’اگر تم نے رونا شروع کر دیا ہے تو تم نہیں سمجھیں۔۔۔‘
’میں رو نہیں رہی۔۔۔‘ پیلاگیا نے منھ دوسری طرف موڑتے ہوئے کہا۔ ’یہ گناہ ہے یگور ولاسچ! تم مجھ نصیبوں ماری کے ساتھ صرف ایک دن تو گزار سکتے ہو۔ میری تم سے شادی کو بارہ سال ہو گئے ہیں، اور۔۔۔ اور۔۔۔ ہمارے درمیان کبھی بھی محبت نہیں رہی!۔۔۔ میں۔۔۔ میں رو نہیں رہی۔‘
’محبت۔۔۔‘ یگور اپنا ہاتھ کھجاتے ہوئے بڑبڑایا۔ ’محبت ہو ہی نہیں سکتی۔ ہم صرف نام کے میاں بیوی ہیں، حقیقت میں نہیں۔ میں تمھاری نظر میں ایک وحشی انسان ہوں، اور میرے نزدیک تم ایک سادہ لوح دیہاتی عورت ہو جسے کسی چیز کی سمجھ نہیں۔ کیا ہمار جوڑ برابر ہے؟ میں ایک آزاد، نازپروردہ، عیاش آدمی ہوں۔ تم مزدور عورت ہو، جو چھال کے جوتے پہن کر چلتی ہے اور جس کی کمر ہمیشہ دہری رہتی ہے۔ میرا اپنے بارے میں خیال یہ ہے کہ میں ہر قسم کے کھیل میں اول نمبر ہوں، اور تم مجھے رحم کی نظروں سے دیکھتی ہو۔۔۔ کیا یہ کوئی جوڑ ہے؟‘
’لیکن ہم شادی شدہ ہیں، یگور ولاسچ،‘ پیلاگیا نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔
’اپنی مرضی سے شادی شدہ نہیں۔۔۔ تم بھول گئی ہو؟ نواب سرگے پائلووچ اور تم خود اس کے ذمہ دار ہو۔ صرف اس وجہ سے کہ میرا نشانہ اس سے بہتر تھا، وہ حسد کے مارے مجھے ایک مہینے تک شراب پلاتا رہا، اور جب کوئی شخص نشے میں دھت ہو تو آپ اس کا مذہب تک تبدیل کروا سکتے ہیں، شادی تو معمولی چیز ہے۔ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے اس نے نشے کی حالت میں میری تم سے شادی کروا دی۔۔۔ شکاری کو چرواہی سے ملا دیا! تم نے دیکھ لیا تھا کہ میں نشے میں ہوں، پھر تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟ تم تو اس کی مزارع نہیں تھیں، تم انکار کر سکتی تھیں، تم نہ کر سکتی تھیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ کسی چرواہی کی شکاری سے شادی اس کی خوش قسمتی ہے، لیکن تمھیں اس کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ ٹھیک ہے، اب غموں کی ماری بن جاؤ، روؤ۔ یہ نواب کے لیے مذاق تھا لیکن تمھارے لیے رونے کی بات ہے۔۔۔ اب دیوار سے ٹکریں مارو۔‘
خاموشی چھا گئی۔ تین جنگلی مرغابیاں میدان کے اوپر سے گزریں۔ یگور نے نگاہوں سے ان کا پیچھا کیا، پھر وہ وہ تین بمشکل نظر آنے والوں نقطے بن کر جنگل کے پیچھے غائب ہو گئیں۔
’تمھاری گزربسر کیسے ہوتی ہے؟‘ اس نے مرغابیوں سے نظریں ہٹا کر پیلاگیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’میں کام کرتی ہوں۔ سردیوں میں میں فاؤنڈلنگ ہسپتال سے ایک بچہ لے آتی ہوں اور اسے بوتل سے دودھ پلاتی ہوں۔ مجھے اس کا مہینے کا ڈیڑھ روبل مل جاتا ہے۔‘
’اوہ۔۔۔‘
دوبارہ خاموشی۔ گھاس کے کٹے ہوئے قطعے سے ایک سریلے گیت کی آواز بلند ہوئی، پھر جلد ہی دم توڑ گئی۔ گرمی کی شدت گلوکاری کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔
’سنا ہے تم نے اکولینا کے لیے نئی جھونپڑی ڈال رکھی ہے،‘ پیلاگیا نے کہا۔
یگور کچھ نہیں بولا۔
’تو وہ تمھیں زیادہ پیاری ہے۔۔۔‘
’یہ تمھاری قسمت ہے، یہی نصیب ہے!‘ شکاری نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔ ’تمھیں گزارا کرنا پڑے گا۔ لیکن اب خداحافظ، گپ شپ میں پہلے ہی دیر ہو گئی ہے۔۔۔ مجھے شام تک بولتوو پہنچنا ہے۔‘
یگور اٹھا، انگڑائی لی اور بندوق کندھے پر ڈال لی۔ پیلاگیا بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’تم گاؤں کب آؤ گے؟‘ اس نے ملائمت سے کہا۔
’وہاں آنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، میں وہاں ہوش کی حالت میں نہیں آؤں گا، اور نشے میں تمھیں مجھ سے کچھ نہیں ملے گا، میں نشے میں بہت کمینہ بن جاتا ہوں۔ خداحافظ!‘
’خداحافظ، یگور ولاسچ۔‘
یگور نے سر پر ٹوپی سیدھی کی اور کتے کو بلا کر اپنی راہ پر چل دیا۔ پیلاگیا کھڑے اسے دیکھتی رہی۔۔۔ اس نے اس کے ہلتے ہوئے کندھے دیکھے، اس کی شوخ ٹوپی، اس کی لاپروایانہ، سست چال، اور اس کی آنکھیں غم اور ملائمت سے بھر گئیں۔۔۔ اس کی نگاہیں اپنے خاوند کے لمبے اور پتلے بدن پر جمی رہیں، اسے سہلاتی، تھپکتی رہیں۔۔۔ اس نے جیسے اس کی نظریں محسوس کر لیں، وہ رکا، مڑ کر دیکھا۔۔۔ منھ سے کچھ نہیں بولا، لیکن اس کے چہرے، اس کے اچکائے ہوئے کندھوں سے پیلاگیا کو احساس ہوا کہ وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ وہ اس کی طرف بڑھی اور متلاشی نظروں سے دیکھا۔
’یہ لے لو،‘ وہ مڑا۔
اس نے ایک روبل کا مڑا تڑا نوٹ اسے تھما دیا اور تیزی سے چل پڑا۔
’خدا حافظ یگور ولاسچ،‘ اس نے مشینی انداز میں نوٹ لیتے ہوئے کہا۔
وہ چمڑے کی تانت کی طرح تنا ہوا چلتا رہا۔ یہ بت کی طرح زرد اور ساکت کھڑی رہی، اس کی نظریں اس کے ہر قدم کا حساب لیتی رہیں۔ پھر اس کی سرخ قمیص گہرے رنگ کی پتلون میں مدغم ہوئی، قدم نظر آنا بند ہو گئے، پھر کتا بھی اس کے جوتوں کے ساتھ مل گیا۔ اب ٹوپی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، اور۔۔۔ اچانک یگور تیزی سے میدان کی طرف مڑا اور اس کی ٹوپی سبزے میں غائب ہو گئی۔
’خداحافظ یگور ولاسچ،‘ پیلاگیا نے سرگوشی کی، اور اس کی سفید ٹوپی کی ایک اور جھلک دیکھنے کے لیے پنجوں کے بل کھڑی ہو گئی۔
***
ترجمہ: ظفر سید
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں