منگل، 14 جون، 2016

آہنی ارادوں والا مدراراکشس /ہمانشو باجپئی

مدراراکشس کا نام ان لوگوں کے لیے شاید اجنبی نہ ہو جنہوں نے اجمل کمال کے رسالے آج میں ان کی کہانیاں پڑھ رکھی ہوں۔ہم بہت جلد بلکہ کچھ ہی روز میں ان کی وہ کہانیاں آپ کے سامنے آڈیو یا بلاگ کی صورت میں پیش کریں گے۔مگر ہمانشو باجپئی کا یہ مختصر سا مضمون جو 'کیچ نیوز'کے لیے لکھا گیا ہے، بہت کمال ہے اور اس اہم افسانہ نگار کی زندگی، اندازو اطوار اور قابل مطالعہ کاموں کے بارے میں بہت اہم جانکاریاں دیتا ہے۔ہندی اور اردو کے لکھنے اور پڑھنے والوں کے درمیان فاصلہ کم ہونا چاہیے۔اس کے لیے ہمیں باقاعدہ کوئی پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے یہ کام ڈھنگ سے اور صحیح نیت کے ساتھ انجام دیا جاسکے۔کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ہندی، اردو کے بہت سے اہم ادیب خاموشی سے اس دنیا سے کوچ کرگئے ہیں اور دونوں زبانوں کے پڑھنے والوں کو اس کی بھنک تک نہیں لگی ہے۔میں ہمانشو باجپئی کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے اس اہم مضمون کو ادبی دنیا پر شائع کرنے کی اجازت دی اور کیچ نیوز کا بھی، جہاں پڑھ کر مجھے اس مضمون کو آپ تک پہنچانے کا خیال آیا، ساتھ ہی ساتھ میں اپنے دوست ابھیشیک شکلا کا بھی شکر گزار ہوں، جنہوں نے ترجمے کے دوران کچھ اہم چیزوں کی تفصیل مجھ سےبیان کی۔آئیے! اس مضمون کے ساتھ مدرا راکشس کو یاد کریں۔(تصنیف حیدر)

ہندی کے مشہور ادیب اور رنگ کرمی مدرا راکشس نہیں رہے۔ پیر یعنی 13 جون کو انہوں نے اپنے شہر لکھنئو میں آخری سانس لی۔ وہ پچھلے کچھ وقت سے بیمار چل رہے تھے۔ہندی ادب میں ہمیشہ اپنے باغیانہ تیور ، نرالے انداز اور بے پناہ صلاحیت کے لیے پہچانے گئے مدرا راکش لکھنئو کے ہندی والوں میں سب سے سینیر تھے۔بھگوتی بابو ناگر جی اور یش پال کی تگڑی (تثلیث)کے لیے مشہور یہ شہر شری لال شکل اور کامتاناتھ سے پہلے ہی خالی ہو چکا تھا اور اب اس سلسلے کا ایک اور چراغ بجھ گیا۔
سبھاش چندر عرف مدرا راکشس کا جنم 21 جون 1933 کو لکھنئو کے بیہٹا گائوں میں ہوا۔ان کے والد شو چرن لال 'پریم'اتر پردیش کے لوک ناٹیہ سوانگ سپیڑا اور نوٹنکی کے استادوں میں تھے۔
مدرا راکشس میں ادب و ثقافت سے گہری دلچسپی اپنے والد سے قریب رہ کر ہی جاگی۔یہی وجہ ہے کہ کم عمری میں ہی وہ نوٹنکی کی باریکیوں کو سمجھنے لگے اور لڑکپن سے ہی انہوں نے نوٹنکی میں اداکاری کے تجربے بھی شروع کردیے تھے۔اسی دور میں ادب نے بھی انہیں اپنی آغوش میں کسنا شروع کردیا۔اب لکھنے اور چھپنے کا سلسلہ زورپکڑنے لگا۔

زندگی میں کبھی نوکری نہ کرنے کا فیصلہ:

1955 میں 22 سال کی عمر میں لکھنئو یونیورسٹی سے ہندی میں ایم اے کیا، وہ بھی گولڈ میڈل جیتتے ہوئے۔اسی سال کلکتہ سے انہیں 'گیانودے*'کے معاون مدیر کی نوکری کے لیے بلاوا آگیا۔ان دنوں لکھنئو جیسے چھوٹے شہر کے کسی بھی معمولی نوجوان کے لیے یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔
مدرا راکشس نے کلکتہ جاکر گیانودے جوائن کیا۔اس کے بعد ان کی صلاحیت دھیرے دھیرے اپنی پہچان بنانے لگی۔گیانودے میں مدرا راکشس 1958 تک رہے۔ان سالوں میں انہوں نے اپنے نام کو اتنا مشہور کرلیا کہ 1959 میں 'انوبرت*'کے مدیر ہوگئے۔یہاں بھی ان کی ادبی صلاحیت کو خوب پہچان ملی۔
1962 میں آل انڈیا ریڈیو میں سکرپٹ ایڈیٹر کے طور پر ان کا تقرر ہوا۔ریڈیو میں رہتے ہوئے انہوں نے اس میڈیم کے لیے تو عمدہ کام کیا ہی ساتھ ہی ادب کی تخلیق کا کام بھی چلتا رہا۔1976 میں اصولوں کی لڑائی پر انہوں نے ریڈیو کی نوکری چھوڑی تو زندگی میں کبھی نوکری نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے نبھایا بھی۔

بے شمار اعزازات کے مالک

دلی چھوڑ کر لکھنئو واپس آگئے تو پوری زندگی بطور آزاد ادیب بسر کی۔سولہ ڈراموں کی ہدایت کاری کی، پندرہ سے زیادہ ناٹک لکھے جن میں سے نو چھپے ۔بارہ ناول ، پانچ کہانیوں کے مجموعے، تین طنز یہ مضامین کے مجموعے اور تنقید کی پانچ کتابیں شائع ہوئیں۔یہ تفصیل ہمیں بتاتی ہے کہ مدرا راکشس کی ادبی صلاحیت کتنی بڑی اور مختلف سمتوں میں پھیلی ہوئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ راشٹریہ سنگیت ناٹک اکادمی ایوارڈ، اترپردیش سنگیت ناٹک اکادمی ایوارڈ، اتر پردیش ہندی تنظیم کا ساہتیہ بھوشن سمان، امبیڈکر مہا سبھا کا دلت رتن سمان، شودرمہاسبھا کا شودراچاریہ سمان سمیت بے شمار اعزازات انہیں ملے۔
مدراراکشس ہمیشہ سے باغی رہے۔شروع سے لے کر آخر تک۔متھراداس کی ڈائری اور راکشس اواچ (بول) جیسے اپنے انوکھے طنزیہ مجموعوں میں انہوں نے ہندی جگت کی ایسی خبر لی کہ ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔یہ طنزیہ مضامین جب اخباروں میں شائع ہوئے تو کئی بار نوبت یہاں تک آگئی کہ دفتر پر پتھرائو ہوگیا اور ایڈیٹر کو معافی مانگ کر کالم بند کرنا پڑا۔مگر مدرا راکشس اپنی جگہ اٹل رہے۔نہ معافی مانگی نہ ڈرے۔۔۔برابر لکھتے رہے۔پھر ہندو دھرم گرنتھوں کو جی جان لگا کر کھنگالا اور اس کے بعد "دھرم گرنتھوں کاپُنر پاٹھ'(مذہبی صحائف کا پھر سے مطالعہ) جیسی مشہور کتاب لکھی۔

مجھ سے بحث کرو۔۔۔میں بتائوں گا کہ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں

اپنے انتقال کے کچھ سال پہلے لکھنئو کی مشہور تگڑی ناگر، بھگوتی بابو اور یشپال کے سمان میں منعقدہ ایک بڑے پروگرام میں سٹیج سے بول آئے کہ امرت لال ناگر تیسرے درجے کے ناول نگار تھے اور ان کے ناول عالمی ادب کے بڑے ناولوں کے آگے کہیں نہیں ٹھہرتے۔ان کے مطابق ناگر ناول کے بجائے علم آثار قدیمہ میں قسمت آزمائی کرتے تو بہتر تھا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ناگر جی نے اپنے سب سے مشہور ناول بوند اور سمندر کا ڈکٹیشن مدرا کو ہی دیا تھا اور باقاعدہ کتاب کے دیباچے میں ان کا ذکر کیا تھا۔جیسے ہی ناگر جی کے لیے وہ بیان مدراراکشس کے منہ سے نکلا۔
مجلس میں ان کے خلاف نعرے بازی شروع ہوگئی۔کچھ لوگ تو سیدھے غصیلے انداز میں چلاتے ہ وئے سٹیج کی طرف چلے آئے۔سب گھبرانے لگے۔مگر مدرا مسکراتے رہے اور دھیمے لہجے میں بار بار دوہراتے رہے۔مجھ سے مباحثہ کرو۔۔۔میں بتائوں گا کہ میں ایسا کیوں کررہا ہوں۔۔مجھ سے مباحثہ کرو۔۔مجھ سے بحث کرو۔۔۔حالانکہ نعرے لگانے والوں میں سے کسی نے ان سے بحث نہیں کی۔کیونکہ مدراراکشس سے بحث و مباحثہ کرنے کی ہمت لکھنئو تو کیا دیش بھر میں کم ہی لوگ جٹا پاتے تھے۔

نہیں لیا کسی کا سہارا


آخری وقت میں کمزورری کے باوجود وہ دیش اور دنیا کا جتنا ادب پڑھتے تھے وہ حیرت میں ڈالتا ہے۔مضبوط ارادوں کے سیدھے انسان تھے۔آخری بار جب وہ لکھنئو کتاب میلے میں آئے تو کافی کمزور ہوگئے تھے۔سٹیج پر چڑھنے میں انہیں مشکل ہورہی تھی تو دو لوگوں نے سہارا دے کر انہیں چڑھایا۔
مائک پر جاتے ہی پہلی بات انہوں نے کہی۔'مجھے یقین نہیں ہورہا کہ میں اتنا کمزور ہوگیا ہوں۔لوگوں کا سہارا لے کر چڑھنا پڑرہا ہے۔مجھے تو لگتا تھا کہ میں بہت مضبوط ہوں۔میں نے کبھی کسی کا سہارا نہیں لیا۔۔۔'مدراراکشس کو یہ کہتے سننا ایک عجیب سا احساس تھا۔
سارے لوگوں نے ہمیشہ انہیں ویسا ہی دیکھا تھا جیسا وہ اپنے بارے میں بتارہے تھے۔مگر اس دن جب انہیں پہلی بار اپنے کمزور پڑنے کا احساس ہوا، تبھی سامنے موجود لوگوں کو بھی یہ احساس ہوا کہ مدراراکشس بھی کمزور پڑسکتے ہیں۔اس کے بعد وہ کمزور پڑتے ہی گئے۔بیماری سے ان کی لڑائی جاری رہی۔کبھی گھر، کبھی ہسپتال اور آخر کار13 جون کو یہ لڑائی لکھنئو کے میڈیکل کالج ٹراما سینٹر میں ختم ہوئی۔
مدرا اپنی بجھتی ہوئی آنکھوں اور گم ہوتے ہوئے حواس کے وقت بھی شاید یہی سوچ رہے ہوں کہ مجھے یقین نہیں ہورہا کہ میں اتنا کمزور ہوگیا ہوں۔۔۔

*گیانودے اس وقت بھی ہندی کا سب سے معتبررسالہ ہے۔اور عام طور سے بھی اس کا ذکر ہندی کے تین اہم رسائل میں کیا جاتا ہے، جن میں ہنس بھی شامل ہے،جسے منشی پریم چند نے جاری کیا تھا۔
*انوبرت کلکتہ سے ہی شائع ہونے والا اہم رسالہ تھا۔جو کافی عرصہ پہلے بند ہوگیاتھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *