میرے عہد کا ابتدائی دور
میں نے نصف صدی پیشتر ادب کی دنیا میں باضابطہ قدم رکھا تھا۔ میرے ساتھیوں میں کچھ تو مرکھپ گئے، کچھ تھک چکے اور بعض اب بھی تواتر سے نہ سہی، کبھی نہ کبھی لکھ رہے ہیں۔ اپنے دور کے آغاز میں ہم نے تخلیق کے لیے ایک بے لوث اور مشفقانہ فضا پائی تھی۔ ادبی اختلافات اس وقت بھی تھے لیکن ان اختلافات کا احترام ہم سب پر اس لیے واجب تھا کہ وہ ہماری ادبی تہذیب کا بنیادی جزو تھا۔ اُس وقت کی ذہن ساز شخصیتوں کے نام گنانے کی ضرورت نہیں کہ نئے اور پرانے ادیب، سب انھیں جانتے ہیں۔ اُس وقت بھی پرانی تحریکیں موجود تھیں اور نئے رجحانات کا دور دورہ تھا۔ عقائد اور خیالات کا ٹکراؤ ہورہا تھا لیکن بدمزگیاں ایسی نہ تھیں کہ زبان کی کڑواہٹ سے متلی آنے لگے کہ شب خون کی ادارت میں احتشام حسین کا نام بھی تھا۔
سرور صاحب، احتشام صاحب، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر محمد حسن، شمس الرحمن فاروقی کے علاوہ پورے ملک کے جامعات کے دانشور ایک پلیٹ فارم پر بیٹھتے تھے۔ اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ہر سمینار میں یہ تمام حضرات اپنے موقف اور خیالات کے اظہار میں ہر اعتبار سے مخلص اور دوسروں کے خیالات کے ہمدرد نظر آتے تھے خواہ اختلاف ہی کیو ں نہ ہو۔ ہم اور ہماری نسل کے لکھنے والے ان کی گفتار اور تحریرو ں کو توجہ سے جذب کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اسی کے ساتھ ساتھ بلران مین را سے لے کر قاضی عبدالستار تک سب اپنی اپنی جگہ بنا رہے تھے اور اپنے تخلیقی عمل کے چراغ کی لَو تیز کررہے تھے۔ بہار، دہلی، علی گڑھ اور لکھنؤ ایک فضا اور ایک سُر میں سرگرمِ عمل تھے۔ اسی سرگرمی میں کئی نئے نام مختلف اصناف میں اپنی اپنی شناخت یا تو بنا چکے تھے یا بنانے کے عمل سے گزر رہے تھے۔ اس وقت کے ادبی رسائل کو شروع صفحات سے پڑھا جاتا تھا، آخر کے صفحات سے نہیں جہاں قارئین کے خطوط برائے نام ہوا کرتے تھے۔ ان رسائل کے انتظار میں ایک عجیب بے چینی سی رہا کرتی تھی۔ اُن میں سے ایک دو ایسے رسالے بھی تھے جن کے مدیر بیوی کا زیور گروی رکھ کر نکالا کرتے تھے، مثلاً عابد سہیل کے ماہنامہ ’کتاب‘ کی کیفیت تو مجھ سے چھُپی نہ تھی۔
کسی دن منظر بدلتا ہے
منظر بدلنے کا دن اور تاریخ وہ لوگ بھی نہیں بتاسکتے جو اُن دنوں ہمارے لیے روشنی کے مینار تھے اور ان میں سے آج بھی کچھ زندہ ہیں۔ اگر سن اسّی میں ظہور پانے الے ادیبوں سے پوچھا جائے تو تبدیلی کا احساس رکھتے ہوئے بھی وہ دن اور تاریخ نہ بتا پائیں گے۔ سب سے بڑی تبدیلی عام ماحول میں محسوس کی گئی۔ ایک ہلکے پن کی، کھلنڈرے پن کی، حق سے زیادہ خود کو نمایاں کرنے کی، طول طویل منزل کے راستے کو چھوٹا اور مختصر کرنے کی، عام اور نازیبا بڑبولے پن کی، مضحکہ پسندی کی، سنجیدہ گفتگو، سنجیدہ مطالعے اور سنجیدہ محفلوں سے بیزاری کی، پگڑیاں گرانے، اچھالنے یا اُتارنے کی، سازشو ں اور منافقوں کی پسماندہ، نیم خواندہ، غیر شریفانہ طبقے کے پس منظر سے نکل کر دلوں میں ادب کا شوق لے کر آنے والوں کی۔ یہ سب تبدیلیاں آپس میں گھل مل کر اور ایک نئی اجتماعی شکل میں ڈھل کر غیر محسوس طریقے سے ادبی فکر کو، ادبی کردار کو اور ادبی رسائل کو اپنے رنگ، اپنے طرزِ احساس، اپنی طرزِ فکر اور اپنے طرزِ اظہار کے سانچوں میں دبے پاؤں یوں اتار رہی تھی جیسے آنکھوں میں نیند اُترتی ہے۔
منظر اور بدلتا ہے
یہ منظر آپسی دوریوں کو بڑھانے، رنجشوں کو اُگانے، نفرتوں کو بونے اور ایک سرد بے مہری اور بے حسی کے کُہرے جیسی دھند کا منظر ہے، لوگوں کے سہم جانے کا منظر ہے، بہت احتیاط سے کچھ بولنے کا منظر ہے، کچھ لکھنے سے پہلے یا تو کچھ بھی نہ سوچنے یا پھر سوچتے ہی رہنے اور کچھ بھی نہ لکھنے کا منظر ہے۔ انا کی تلواریں اور چھُریاں چمکانے اور لہرانے کا منظر ہے اور اپنے اپنے میمنہ اور میسرہ درست کرنے کی فکر میں لگ جانے کا منظر ہے، سرحدیں وضع کرنے اور چوکیاں تعمیر کرنے کی اور نقشہ بندی کا منظر ہے۔ ادب کی ریاست کا سیاسی ریاست (Political State) کی شکل میں میٹامارفاسس کیے جانے کی تدبیروں کا منظر ہے۔ ادب کو نئی اقدار سے نوازنے کی تیاری کا منظر ہے۔
اب نئے مناظر جوان اور میں بوڑھا ہوچکا ہوں
اب میں پچھتّر برس پورے کرچکا ہوں۔ میرے عہد کے کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے ادیب اب بھی موجود ہیں، میں ان کے دل کا درد اب کی موجودہ فضا کر لے کر نہیں جانتا۔ وہ نالاں ہیں، یا متفکر ہیں یا پھر مطمئن ہیں، کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ میرے عہد کے وہ روشنی کے مینارے جو آج بھی حیات ہیں اور میری دعا ہے کہ ان کی عمر اور لمبی ہو، وہ ادب کی عمومی صورتِ حال میں خود کو پاکر کیسا محسوس کررہے ہیں، میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن میں باربار ایسا محسوس کررہا ہوں کہ ہمارے عہدکے ادبی ماحول کی خوبیاں اور اس کا حسن بالکل اسی طرح تبدیل ہوتا جارہا ہے جس طرح گلوبل وارمنگ آج دنیا کو متاثر کررہی ہے۔ مانتا ہوں کہ تبدیلی برحق ہے لیکن اگر تھرما میٹر خود کو گھاس چھیلنے کے کھرپے میں تبدیل کرلے، انٹراکٹکا ریگستان میں بدلنے لگے تو دل دہلے گا۔ ان غیر معمولی تبدیلیو ں کی طرف متوجہ کرنے سے پہلے یہ واضح کردوں کہ میں کسی فرد یا جماعت کو اس کا موردِ الزام قرار نہیں دے سکتا۔ خوفناک تبدیلیاں ادب کی جو عمومی فضا میں اس کے کردار اور اس کے عملی رویوں میں، اس کے بنیادی مقاصد میں، اس کے Discipline میں ہوگئی ہیں یا جن کا غلبہ ہے، مندرجہ ذیل ہیں۔
بنیادی تبدیلی:
ادبی ریاست (Literary State) بہ نام سیاسی ریاست (Political State)
مجھے لگتا ہے کہ اب میرے عہد کی ادبی ریاست (Literary State) (اگر اسے یہ نام دینا غلط نہیں) تو اپنی خصوصیات اور شناخت ترک کرتی جارہی ہے اور ایک Political State یا سیاسی ریاست کا روپ دھار رہی ہے۔ جس طرح سیاسی ریاست کا مرکز اس کا حاکم یا حکمراں طبقہ ہوا کرتا ہے، ہماری ادبی صورتِ حال میں بھی اپنی اقلیم میں ایک نئی نوعیت کی ایک نئی سپریم اتھارٹی قائم کرنے کا شدید رجحان پیدا ہوچکا ہے اور یہ بلند اختیاری طاقت اور اپنا اثر و رسوخ انھیں ہتھکنڈوں سے حاصل کررہی ہے جن سے کسی سیاسی ریاست (Political State) کا حکمراں حاصل کرتا رہا ہے۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۹ء کے ’اردو ادب‘ دہلی کے صفحات پر ’الفاظ کے وارث‘ کے عنوان سے سیّد خالد قادری کا مضمون ہمیں مطلع کرتا ہے کہ سیاسی ریاست میں کچھ طاقتور الفاظ کے وارث ہوا کرتے ہیں جو اس ریاست کے عصری، سماجی اور سیاسی نظام کو حسب حالات reinforce بھی کرسکتے ہیں اور subvert بھی۔
یہی ذہن ساز لوگ الفاظ کے وارث کہلاتے ہیں، اور کوئی سیاسی نظام کتنا ہی قابلِ ستائش کیوں نہ ہو اس کے استحکام کی ضمانت نہیں دی جاسکتی جب تک الفاظ کے یہ وارث اس کے حق میں اپنا منہ نہ کھولیں اور اس کی حمایت میں بولتے اور لکھتے نہ رہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نظام خواہ مرلی منوہر جوشی کا ہو یا بہن جی مایاوتی کا، اپنے قصیدہ خواں الفاظ کے وارثوں کے آگے چند ٹکڑے ڈالنا اس نظام کی مجبوری ہوا کرتی ہے۔ قادری کا مضمون ہمیں یہ معلومات بھی فراہم کرتا ہے کہ کسی State کے الفاظ کے وُرثا میں اپنی منفرد شناخت بنائے رہنے کی شدید خواہش ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ دوسروں کے مقابلے میں ان کی اَنا بھی زیادہ طاقت ور ہوا کرتی ہے۔ اس کی تائید کے لیے نپولین کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے: ’’انا یا تمکنت انقلابات کا باعث ہے، آزادی کا حصول تو ایک بہانہ ہے‘‘۔ Stateکے یہ دانشور جن میں شاعر اور ادیب شامل ہیں، کچھ اس طرح مسائل میں گرفتار رہتے ہیں اور اپنے مخالفین سے نبرد آزما رہا کرتے ہیں کہ انھیں اپنے ناکام رہ جانے کا دھڑکا لگا رہا کرتا ہے۔ ان کی نفسیات ان کے اندر ایک طرح کا بڑبولا پن پیدا کردیتی ہے اور ان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی انا کو محفوظ اور مستحکم رکھنے کا ہوا کرتا ہے۔
قادری کی تحریر کے مطابق سیاسی ریاست کے الفاظ کے وارث انقلابات لانے کے لیے ریاست کے عوام کے ایک مخصوص عقیدے کو ختم کرکے دوسرے کے لیے جگہ بنانے کا کام اس لیے کرتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ اپنی لاحاصل، بنجر اور بے مایہ زندگیوں کا بوجھ کسی یقین یا عقیدے کی روشنی کے بغیر نہیں ڈھوپاتے۔ انھیں کچھ نہ کچھ ایسا چاہیے جو ٹھوس اور قابلِ بھروسہ ہو۔ ریاست کے الفاظ کے وارثوں کی انا اپنی برتری کی تشہیر اور اس کا دفاع (خود کی ناکامی کے امکان کے سدِّباب کے لیے) بڑھ چڑھ کر کرواتی ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ریاست کے عوام یقین و عقیدے کی خود ضرورتی کے سبب الفاظ کے وارثوں کے دفاع کو بھی تقدس کے درجے تک لے جاتے ہیں۔
نئے ادبی نظام کے بلند اختیار نگراں
قادری نے الفاظ کے وارثوں جن میں فنکار، شاعر، ملاّ اور خطیب وغیرہ شامل ہیں، کی نفسیات، ترجیحات، تحریک پسندی، دشواریاں، ریاست سے ان کا رشتہ وغیرہ بتاکر اپنی بات ختم کردی ہے لیکن میری الجھن یہ ہے کہ کیا دنیا کی عام تبدیلیوں کے ساتھ ہماری ادبی ریاست میں کچھ منفی رجحانات داخل ہوچکے ہیں جس نے ایک نئے ادبی نظام کو وضع کرنے کا میلان پیدا کردیا ہے اور وہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور یہ میلان کیا ایسے ادبی نظام کے فروغ کو تقویت دے رہا ہے جس میں اس نظام کے بلند اختیار نگراں پیدا ہوں اور ان کی ترجیحات میں بھی کسی ادبی نظام کو حسبِ حالات reinforce کرنا یا subvert کرنا داخل ہے اور کیا انھیں کسی کمپنی کے Managing Director کی طرح ایسی بالادستی حاصل ہے کہ ادب کی کمپنی کا کوئی بھی کارنامہ یا ادب پارہ اپنے استحکام کی ضمانت نہیں پاسکتا جب تک یہ اس کے حق میں اپنا منہ نہ کھولے اور اس کی حمایت میں بولتی اور لکھتی نہ رہے۔
کیا مملکتِ ادب کوئی کمپنی یا سیاسی نظام ہے؟
نئے ادبی نظام کے بلند اختیار نگراں فرد، یا طبقہ اپنی ترجیحات کے سبب ہمارے ادبی نظام کو Political State کے نظام پر تو قائم نہیں کررہا جس کا کچھ ظاہر اور کچھ خفیہ ایجنڈا ہوا کرتا ہے اور افلاطون کی ریاست کے، الفاظ کے وارثوں کی طرح اس کا بھی پہلا شوق ادب کے کسی نظام کو معطل کرنا، نافذ کرنا یا بے دخل کرنا ہے اور جنھیں افلاطون مملکت سے نکال دینے کا خواہاں تھا، تو کیا ہمارا نیا ادبی نظام جس کی ترجیحات نئے میلانات کے سبب بدل گئی ہیں، سپریم اتھارٹی کے منصب اور دائرۂ اختیار اور قوت کو مجرمانہ حد تک فروغ تو نہیں دے رہا ہے۔
تو کیا یہ گہری تشویش کی بات نہیں کہ جانے انجانے اپنے نئے چہرے اور اختیارات کے ساتھ معاون متون کے شعبے کا یہ دانشور کمپنی کا ایک کامیاب منیجر بننا پسند کررہا ہے اور ادبی نظام کو یہ دکھا رہا ہے کہ نظام کی نکیل اس کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ اپنا حقیقی منصب ترک کرکے سیاسی ریاست کے کامیاب opinion maker کی رعونت، طاقت اور ہٹ دھرمی کا چولا پہن رہا ہے اور آزادیِ اظہار جس کے لیے ڈھکوسلہ ہے جب کہ درحقیقت اس کے پردے میں ادب کی نئی ریاست کا یہ منیجر اپنی انا کی تسکین، اپنی منفرد شناخت اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا خواہاں ہے۔
اگر ہمارے اس نئے نمونے کے نقاد کو ہمارے ادب نے اپنے معاون متون مثلاً تنقید اور تحقیق وغیرہ کی آبرو بڑھانے کا کام سونپ رکھا تھا اور جس کا مرکز ادب اور صرف ادب تھا لیکن ہماری بدقسمتی سے اس بنیادی مرکز کو چھوڑکر اس کو ایسی بلند اختیار منیجری اور اس کی ذیلی آرائش او رایسے اختیارات جن پر کوئی روک ٹوک نہ ہو اس کا دبدبہ وغیرہ پسند آچکا ہے تو ایسی صورت میں اس نئی نوعیت کے ناقد کی اپنے کام سے کہیں زیادہ اس پر دیگر انتظامی ذمہ داریوں، غیر ادبی اور غیر دانشورانہ کاموں کے بوجھ کے نیچے دبے رہنے سے اسے اپنے بنیادی مقدس کام اور ذمہ داری کو دیانت داری سے پورا کرنے کی نہ صلاحیت رہ جائے گی اور نہ فرصت تب کیا آصف فرخی کی یہ شکایت اس پس منظر میں بجا ہوگی: ’’وہ (نقاد) کتابوں یا ادب پاروں کے درمیان سفر کرتے ہوئے انسلاکات اور ربط تلاش کرنے کے عمل سے نہیں گزرتے اور اپنی تنقید کو تخلیق کا تابع نہیں بناتے بلکہ تخلیق کا احتساب کرتے ہیں اور اس پر بندش لگاتے ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا نئی مسموم صورتِ حال میں ہمارے بعض نقاد اپنے مقدس رتبے سے اترکر کسی کمپنی کے منیجر جیسے نہیں بنتے جارہے ہیں۔
معاون متن کی تخلیقی متن سے بیزاری کیوں؟
تنقید کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ ادب کے معاون متون میں سے ایک ہے اور ناقد کا بنیادی سروکار ادبی متن سے ہے۔ تو کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا ناقد ادبی نظام میں نئی بااختیار اور بلند جگہ بنانے کے لیے ادبی متون میں سر کھپانا تضیع اوقات سے بھی بدتر سمجھتے ہیں۔ کسی دوسرے بلند مرتبے پر پہنچنے کے لیے ادبی متن کو اسی طرح حقیر فقیر تو نہیں سمجھتے جس طرح سیاسی ریاست کا وارثِ الفاظ، کمزور ملک کے راجہ کو منہ لگانے کے بجائے عوام سے نظر بازی کرنے میں زیادہ فائدہ محسوس کرتا ہے۔ تو کیا ہمارا نیا الفاظ کا وارث ادبی متون سے ساز باز کرنے کے بجائے اور مملکت ادب کے معاون متن کو وقار بخشنے کے بجائے اسی طرح اقتدار کے حصول کے مقصد پر خود کو لگا رہا ہے جیسے سیاسی ریاست کے الفاظ کا وارث لگاتا ہے۔ تو کیا ادب کے معاون متن کی چاکری کرنے والے کی بھی وہی نفسیات ہے اور وہی نفسیات اس کی ترجیحات بھی متعین کررہی ہے۔ اگر وہ تخلیق کی ’’بہتر، حساس اور عمیق تر تفہیم‘‘ کو ترجیح دیتا تو اُن اوزاروں کو استعمال کرتا جن کو وہ کبھی تخلیقی تنقید کے لیے کرتا تھا اور اس مقدس کام کے لیے کسی مزید بلند مرتبے اور غیر ادبی دبدبے کا طالب نہ ہوتا۔ اس طرح کے رجحان سے ہمارے بعض نقاد جانے انجانے زیادہ ہی متاثر ہوچکے ہیں۔
کیا جمہوری ریاست کے طرز پر ہمارا تنقیدی نظام بن رہا ہے؟
اپنے ادب میں نئی صورتِ حال سے پیدا ہونے والے شبہات مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہماری تنقید ایک نئی ادبی تہذیب کے دور میں داخل ہورہی ہے۔ جس طرح کوئی جمہوری ریاست سیاسی پارٹیوں کے نظام پر قائم ہوتی ہے اور بعد میں اسے ہائی جیک کرلیا جاتا ہے ویسے ہی کیا ہماری ادبی ریاست بھی پارٹیوں والا نظام اپنا رہی ہے جس کا اپنا اپنا مسلک ہوا کرتا ہے اور جہاں ملک کے عام مفاد سے زیادہ پارٹیوں کا بول بالا ہوتے دیکھا جارہا ہے۔ یہ شبہات ہمارے دل میں آج کا ادبی ماحول کیوں بیدار کررہا ہے۔ کیا پہلے بھی ایسی ہی فضا تھی۔ کیا باوجود دوسری شکایتوں کے ہمیں ادبی تنقید کے وارثوں مثلاً مجنوںؔ گورکھپوری، کلیم الدین احمد اور احتشام حسین وغیرہ سے بھی اسی طرح کے رویّے کے شکوک پیدا ہوئے تھے۔ اور کیا اُن لوگوں کے دور کی کارکردگی میں بھی ایسے ہی مشتبہ رجحانات پنپ رہے تھے۔ کیا یہ ناقد جو منیجر بن رہا ہے اور کمپنی کے ملازموں کی چہرہ نظری کرتا ہے، اسے اپنی اہمیت کم ہوجانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ کیا ادب میں اس نئے حکمراں کے سامنے ادیب کی حالت State کی عام رعایا جیسی ہوتی جارہی ہے اور اس نئے حکمراں کو اپنے اقتدار کے لیے اپنی ادبی ریاست کے ایسے افسانہ نگار، شاعر اور دیگر معاون متون تیار کرنے والوں کی حاجت رہا کرتی ہے جو اپنی نقلی، بنجر اور بے مایہ تخلیقات کا بوجھ کسی عقیدے یا یقین کے بغیر نہیں ڈھو پاتے اور اپنے حکمراں کے کبھی ادبی، کبھی نیم ادبی اور کبھی غیر ادبی مسلک کی چھت کے نیچے رہ کر خود کو اور اپنی تخلیقات کو اسی طرح زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں جس طرح ریاست کے عوام ریاست کے حکمراں کے مسلک کی چھت کے نیچے رہ کر محسوس کرتے ہیں۔ تو کیا ایسا ہے کہ ایسے خالی اور منتشر ذہنوں میں نظریے اور تھیوریوں کی روشنی جگانے کا کام ادب کی آبیاری کے لیے نہیں بلکہ اپنی برتری اور ادیب کو ایک مسلک کی لالی پاپ پکڑانے کے لیے کیا جاتا ہے، جس کو ریاست کے محکوم عوام کی طرح ادب کی اقلیم کا محکوم ادیب بھی برسوں چاٹتا اور چوستا رہتا ہے۔
کیا ہمارے تخلیق کار علم و فن سے بے بہرہ ہیں اور
کیا وہ ادب پارے کو خود مکتفی اکائی نہیں بنارہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادب کی یہ مسموم نئی فضا جانے یا انجانے تخلیق کار کو بھی اس دام میں شریک کرتی جارہی ہے۔ اگر ہمارے تخلیق کاروں کو ایسے مجرمانہ ایجنڈوں کی شناخت کرنے کی صلاحیت نہیں اور ان کا علم اور ادراک انھیں خود احتسابی کا شعور نہیں دے سکا ہے تو انھیں لکھنا چھوڑ کر کیا فٹ بال یا کرکٹ نہیں کھیلنا چاہیے۔ ان میں سے کتنے ہیں جو خود کو اپنے گرد و پیش سے باخبر رکھتے ہیں، مطالعے میں غرق رکھتے ہیں، فاروقی یا نارنگ کو ذلیل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ان سے اکتسابِ علم کے لیے انھیں مہذب طور پر ٹوک سکتے ہیں۔ کیوں نہیں وہ اپنی تخلیقی سرگرمیوں میں اسی طرح سرگرداں ہوتے جیسے ہمارے مخلص الفاظ کے وارث رہا کرتے تھے اور بعض اب بھی رہتے ہیں۔ یہ میدان کل وقتی عمل مانگتا ہے، خون لگاکر یہاں شہید بن جانا ممکن نہیں۔ اس کھیل میں کوئی شارٹ کٹ نہیں، پُرخلوص لگن اور ریاض یہاں خداداد ذوق رکھنے والوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ کہیں ان کی بے مائگی انھیں اس کھیل میں پھنسنے کے لیے مجبور تو نہیں کررہی۔ کیوں کہ جس طرح ریاستی وارث الفاظ کو اپنے مطلب کے لیے بے خبر عوام درکار ہیں ویسے ہی ادب میں ادب کے منیجر کی مطلب براری بھولے بھالے مزدور، ادیبوں کی skilled labour کی مدد کے بغیر نہیں ہوپاتی۔ تو کیا ایسا ہورہا ہے کہ ہمارے ادبی نظام میں بیشتر فن پارے خود مکتفی اکائی نہیں بن پارہے اور اپنے معاون متن یعنی تنقید کو بھر پیٹ غذا نہ دے کر بھوکا رکھ رہے ہیں اس لیے تنقید بھی بے چاری ان غیر مکتفی اکائیوں کو ڈنڈی مارکر اور substandard بانٹوں سے تول کر اپنی غذا manupulate کرلیتی ہے جب کہ اس کے برعکس ’آگ کا دریا‘ جیسی خود مکتفی اکائی تنقید کے ہاتھ لگ جائے تو بغلیں بجاتی ہوئی دیکھی جاتی ہے۔ اتنا تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ فن پارہ ایک خود مکتفی اکائی نہ تو کسی ناقد کے مشوروں سے بنتا ہے اور نہ ہونولُولُو کی کانفرنس میں ناقد کے ساتھ اس کا سوٹ کیس لاد کر چلنے سے۔
ہر سسٹم کی اچھائی اور برائی ساتھ آتی ہے
اگر ہماری نئی ادبی صورتِ حال ادب کی ریاست کا میٹامارفاسس کسی سبب سے سیاسی ریاست کے سسٹم کی شکل میں کررہی ہے اور ادب میں Political State کے طور طریقے اور اوزار استعمال کررہی ہے تو اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہوگا کہ ادب کی مملکت کے دبے کچلے عوام یعنی ادیب اپنے مفادات کے لیے ادبی پارٹیاں بناکر اپنا تحفظ کریں، جن کے اپنے جھنڈے ہوں، ان کے گروہوں میں سیاسی قتل کی طرح ادبی قتل ہوں، جلوس نکلیں، پوسٹر لگیں۔ اور یہاں بھی اُن سارے اوزاروں کا استعمال ہو جو (Political State) میں ہوا کرتا ہے۔ کوئی گروہ مخالف گروہ کے بے چارے زید کو خراب کہہ کر بھوک ہڑتال پر بیٹھے گا تو زید کی پارٹی کا ہائی کمان گروہ مخالف کے گھر کی کھڑکیاں تڑوائے گا اور فرنیچر میں آگ لگائے گا اور پھر بالادستی کی ہوس خود کُش بمباروں کے خاک و خون سے بھی بجھائے نہ بجھے گی۔ پھر نہ کوئی leftist رہ جائے گا اور نہ جماعتی، سب اپنے ہائی کمانوں کی بخشی خلعتِ فاخرہ کے حصول کے دیوانے ہوں گے۔
ادب کا نیا سسٹم اور صاحبِ اقتدار کا لونائزر
یہ تو ٹھیک ہے کہ کلیم الدین احمد کی نظر ادب پر تھی کالونیوں پر نہیں اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ ان کے زمانے میں ادب کی پس ماندہ لیکن مالدار بستیاں دریافت ہی نہیں ہوئی تھیں لیکن میرے شکوک یہ ہیں کہ کالونیاں بنانے اور بسانے کی یہ ضرورت کہیں ہمارے نئے ادبی سسٹم کا تحفہ تو نہیں ہے۔ جب ادب کی ریاست کو سیاسی ریاست کے چولے میں بدلا جارہا ہو اور نئے ادبی نظام کے وارث خود کو نئے دبدبے اور مرتبے پر دیکھنا چاہ رہے ہوں اور ایک سسٹم کو چھوڑکر دوسرے کو اپنا رہے ہوں تو نئے سسٹم کی اچھائیاں اور برائیاں دونوں ہی ان کے حصے میں آنا فطری عمل ہے۔
اس سلسلے میں کسی بھی ایک فرد کو موردِ الزام ٹھہرانا انصاف نہ ہوگا بلکہ یہ صورتِ حال تو اس سسٹم کی ضرورت میں اسی طرح شامل ہوگی جس طرح کالونیاں بنانا سرکارِ دولتِ انگلشیہ کی ضرورت میں شامل تھا کہ اقتدار کی ہوس سیاسی مملکتوں کو اسی راستے پر ہانکتی ہے۔ ایسی فضا میں اگر اردو کی نئی بستیوں کے اندر عیسائی مشنریوں کی طرح کام کرنے کے لیے جایا جائے تو اسے بھی خدا ترسی نہیں بلکہ اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کا بہانہ ہی کہا جائے گا۔
گویا اس ہتھکنڈے سے کیا الفاظ کے وارث کے اندر اپنے اقتدار کے استحکام اور منفرد شناخت کے جذبے کی آسودگی نہیں ہوتی۔ اس پس منظر کو لے کر اگر یہ احساس عام ہوجائے کہ اردو کی ریاست میں نئی بستیوں کے غیر خلّاق اوصاف والے مگر مالدار ہی نہیں بلکہ ڈالردار منشیوں اور تکبندوں کو اپنی امارت کی چھت کے نیچے پناہ دے کر اور ان کی بنجر اور بے مایہ تحریروں کے لوہے کو اپنے لمس سے پارس بناکر اور اپنی نئی کالونیوں میں جھنڈے گاڑکر خود کو امر کرلینے کے فعل کا تعلق دور دور تک تخلیقی تنقید سے نہیں ہوا کرتا، تو اس میں حیرت کی بھلا کیا بات ہے۔
تحریکیں اور تجربے خود کو باربار پڑھواتے ہیں
کیا یہ غلط ہے کہ ادب میں آنے والی تحریکیں اور تخلیق میں کیے گئے نئے تجربے باربار اپنے کو پڑھواتے ہیں، اپنا تجزیہ کرواتے ہیں، انھیں ہر درجے اور سطح کے ادیب پڑھتے ہیں۔ نچلی صف اور درمیانی صف کے ادیب بھی۔ ان سب کی قرأت سے ایک اجتماعی نگاہ کا ظہور بھی ایک وقت ہوتا ہے جو ان تجربوں کو اپنے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ اجتماعی شعور اور نگاہ انفرادی نگاہ سے زیادہ سفاک ہوتی ہے، اس کا احتساب لاگ لپیٹ سے عاری ہوتا ہے۔ یہ نگاہ ایک دن ان تحریکوں اور تجربوں کی حقیقی خوبیوں کے ساتھ ان کے نہفتہ کو بڑوں کو جو پہلے یا تو دکھائی ہی نہیں دے رہے تھے یا دھندلے دکھائی دے رہے تھے، صاف اور واضح طور پر دیکھنے لگتی ہے۔ اگر وہ کل کرشن چندر کے کوبڑ دیکھ چکی تو کسی دن نیرّمسعود کے کوبڑ بھی دیکھ لے گی۔ اس اجتماعی نظر نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا ہے کہ ادب میں ایک لہر جس طرح اندرون یا داخل پر زور دینے کے لیے اُٹھی تو دوسری لہر بیرون یا خارج پر زور دینے لگی۔ لیکن اس تربیت شدہ اجتماعی نگاہ کے سامنے نفسیات کے نئے علوم نے یہ حقیقت بھی عیاں کردی ہے کہ فطرتِ انسانی کو ایک پہلو قرار نہیں ملتا، وہ تخلیق سے اندرون اور بیرون کے خلاّقانہ امتزاج کی طلب گار ہے۔ کسی اندھی سرنگ میں دیر تک رہنے سے اس کا دم گھٹتا ہے۔ خواہ کیوئی کتنی ہی وکالت کرے وہ ’شیشہ گھاٹ‘ کو گوارہ کرلیتی ہے مگر جب ’طاؤس چمن کی مینا‘ میں جذبہ اور معروضیت کا خلاّقانہ امتزاج دیکھتی ہے تو پھڑک اٹھتی ہے؛ وہ اقبال پر گردن ہلاتی ہے، احمد مشتاق پر چونکتی ہے مگر نظیرؔ کے اس شعر پر دل پکڑکر رہ جاتی ہے:
ملو جو ہم سے تو مل لو، کہ ہم بہ نوکِ گیاہ
مثالِ قطرۂ شبنم رہے، رہے نہ رہے
ان مسائل پر میرے اس سطحی تبصرے سے کہیں زیادہ بامعنی ڈسکورس ہمارے باخبر اور ذہین نقاد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن کیا ہماری نئی ادبی صورتِ حال کی یہ مجرمانہ بے کسی اور بے بسی ادب کے سنجیدہ موضوعات پر غور کرنے کے بجائے دوسرے نیم ادبی کاموں کی چاٹ ڈلواتی ہے۔ مثال کے طور پر قرۃ العین پر کتنی کتابیں آئیں، دیویندر اسر پر کتنا لکھا گیا، نیّرمسعود پر کیا کام ہوا۔ عابد سہیل ایک کونے میں خاموش بیٹھا ہے، اس نئی ادبی فضا نے اسے سرگرم رکھنے کے لیے کون سے حوصلہ افزا قدم اٹھائے، اگر کوئی کچھ کرتا بھی ہے تو اپنی انا کی تسکین کے لیے، حسین الحق کو اسی ادبی فضا نے ایسے کون سے incentive فراہم کیے جو وہ ملک کی عمدہ لائبریریوں میں بیٹھ کر کام کرسکے اور اپنی صلاحیتوں کو صیقل کرسکے۔ ایسے ہی کتنے ہی اچھی صلاحیتوں کے ادیبوں کے لکھے پرچے اپنی انا کی تسکین کے لیے سجائی گئی سمیناروں کی جھانکیوں کے تماشوں کی گروہ بندی اور منافقانہ فضا میں اڑ جاتے ہیں اور چند چاپلوس سمینار کے منیجنگ ڈائرکٹر کے ساتھ دارو پینے بیٹھ کر اس کی کامیابی کا جام پیتے ہیں۔ کیا یہ M.D. انھیں کو پروموٹ نہیں کرتا جن سے اس کی کمپنی موٹی ہو اور اس کا P.R بڑھے۔ تنقید کو ہمارے عظیم فنی ایوانوں سے اکتاکر باہر نکال لانا، ویسے ہی جس طرح ناپسندیدہ فلم دیکھنے والے چائے پینے کے بہانے سنیما ہال سے باہر نکل آتے ہیں، آسان ہے۔ نقاد کا ادب کے بنیادی موضوعات کے عظیم ایوانوں سے باہر نکل آنا اور اقتدار کے تیل میں تلی اور انا کے نمک میں لپٹی مونگ پھلی ٹونگنا کیا ادب میں سیاسی ریاست یا کمپنی کے سسٹم کو کھینچ کر رائج کرنے کی سزا تو نہیں ہے، جس کا ایجنڈا بس طاقت جمع کرو اور راج کرو ہی ہوا کرتا ہے۔
بیگانگی کا حزن اور نئی ادبی صورتِ حال
ایڈورڈ سعید کا کہنا ہے کہ ’’بیگانگی کے اپاہج کردینے والے حزن پر قابو پانے کی کوشش ظہور لے چکی ہے‘‘۔ کیا وقت کی ستم ظریفی نے ہم سب کو اپنے ہی گھر میں جلاوطن کردیا ہے۔ کیا اس جھنجھلاہٹ میں ہمارے بعض تنقیدی رویے ایک فاشسٹ ریاست کی سرکاری رائے کی تکمیل میں خود کو ڈھالنے کے مرتکب ہورہے ہیں جس سے اختلاف کرنے میں ادیب کو ادب کی سلطنت سے بن باس دے دیا جاتا ہے اور کیا یہ دہشت مختلف شکلوں میں عام ہوکر ادیب کو اس کے اپنے ہی گھر میں جلاوطن کررہی ہے، کیوں کہ ایسی سرد مہر اور غیر معاون فضا نہ تو ہمیں ن. م. راشد کے فن کے حسن کی شناخت کی اہل رکھتی ہے اور نہ میراجی کے فن کے ابہام کی۔ تو کیا ان شاعروں کو بھی ہمارے دانشوروں کے رویّوں اور تہذیبی بے حسی نے جلاوطن کرکے رکھ دیا تھا، یا پھر جلاوطنی کے احساس کی مختلف شکلیں بھی ہوتی ہیں۔ بقول ایڈورڈ سعید ’’فقدان کا ایک دائمی احساس کسی بھی جلاوطن کے ارفع ترین کارناموں کی جڑیں کھوکھلی کرکے رکھ دیتا ہے‘‘۔ فقدان کی ذمہ دار ایک معنی میں ادب میں آنے والی وہ لہر بھی ہے جو الفاظ کی پروڈیوسر سے جرنیلی رویہ اختیار کرواکر ادیب کو اس کے پیدائشی وطن میں ہی جلاوطن کردیتی ہے۔ فقدان کا احساس ذہنی طور پر ایسا مفلوج کرتا ہے کہ لوہار تلوار بنانا تو دور لوہا پگھلانا بھی بھول جاتا ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ جلاوطنی کی یہ نفسیات دھیرے دھیرے filter ہوکر نئے تعلیم یافتہ گروہوں اور ادب سے دل چسپی رکھنے والوں اور اس میدان میں اپنی صلاحیتیں آزمانے والی نئی نسل کی نفسیات میں خاموشی سے داخل ہوگئی ہے اور اب انھیں اپنے خوابوں کی تعبیر ادب کے بدلتے ہوئے مہاجنی کلچر سے ملنے کی امید ہو۔ کیوں کہ یہ مہاجنی کلچر پیسے کی بنیاد پر اور بازار کے اصولوں کے مطابق اصرافیت کے معیار پر نام نہاد literary product کو اپنی تشہیر کا راستہ دکھاتا ہے۔ کیا اسی کے نتیجے میں تو ہم یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں کی طرح روزناموں اور میگزینوں کے صفحات خریدکر ادب کے نوآموز، ادب کے معاون متون سپلائی کرنے والے ایجنٹوں کو منہ مانگا معاوضہ دے کر فراہم کیے گئے خود پر لکھے ہوئے مضامین، خاکے، انٹرویو اور آرا کچھ نثری اور کچھ منظوم شکل میں، اپنی رہائش گاہ، اپنی گاڑی، اپنے کتّوں، اپنے پرائیویٹ بار (BAR) او راپنے عربی نسل کے گھوڑوں کی تصاویر کے ساتھ چھپوالیا کرتے ہیں۔
ایسی صورت میں تو یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ فنکار ہر سال اپنی تخلیق کے ماڈل کی خصوصیات، بالکل اسی طرح بیان کروائے جس طرح نوکیا (NOKIA) کمپنی اپنے موبائل کے ماڈلوں کی کیا کرتی ہے۔ پھر تو یہ بھی بعید نہیں کہ ایک دن کسی ادبی کمپنی کے پیدا کیے افسانے یا غزل کی مارکیٹ میں گراوٹ کے سبب دلال اسٹریٹ کے سن سکس میں ایسی گراوٹ آئے اور اس کمپنی کا literary text ایسا پٹ جائے کہ ہمیشہ کے لیے بازار سے مقابلے کی سکت ہی ختم کرلے اور اس پروڈکٹ کے ناقد دانے دانے کو محتاج ہوجائیں۔ باربار اندر ہی اندر یہ بوڑھا دل سہمی ہوئی آواز میں پوچھتا ہے، کہیں یہ بھی بیگانگی کے حزن کو بہلانے کی ایک صورت تو نہیں؟
اعتذار چہ معنی؟
کیوں اعتذار ہو؟ کس سے معذرت کی جائے۔ کیا کسی کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہوں میں اور کون ہوتا ہوں میں الزام دینے والا۔ میری آنکھوں کے سامنے کیا سب کچھ نہیں ہوا؟ پھر کیا کرلیا میں نے۔ کیا میری شخصیت اتنی بڑی تھی کہ اپنے عصر کی تعمیر ہوتی تاریخ کو اپنی پسند کے مطابق ڈھال لیتی۔ تحقیق کی مٹی خراب ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی کہ مجھ جیسے چہ پدّی چہ پدّی کا شوربہ پر تحقیق کی تین ڈگریاں دی جاچکی ہیں اور یہ بدعت ابھی بھی جاری ہے۔ کیا کرلیا میں نے؟ کیسے کیسے اسکالر، پروفیسر اور عالم موجود ہیں آج جو مجھ سے کہیں زیادہ صاحبِ نظر، اہلِ علم اور اہلِ دانش ہیں جن کا میرا علم مرہونِ منّت ہے۔ جب ایسے لوگ جن کی گانٹھ میں اعلا اور ارفع کارنامے ہیں، فقدان کی اس زہریلی وبا میں اپنے کارناموں کی جڑیں کھوکھلی ہوجانے کے زیاں سے نہیں ڈرتے تو مجھ کھوکھلے کے پاس کھوکھلا ہونے کو کیا رکھا ہے بھلا؟ چار کہانیاں لکھ کر قبر میں پیر لٹکائے بیٹھا ہوں، کانفرنسوں اور سمیناروں کے پھیکے، بے مایہ اور کچھ نہ ہاتھ آنے والے تماشوں کی سیر و تفریح کے لیے کسی بھی موسم میں سفر کی سوچ کر قلب الٹتا ہے۔ یہ تحریر آخری عمر کے دل کے درد کا ایک سیدھا سادا ٹوٹا پھوٹا بیان ہے جو چند روز کے لیے کسی ادبی رسالے کے دوچار صفحے بھردے گا جس کے بعد جیتے جی میرے مزار پر شاید دو ایک قوالیاں ہوجائیں۔ ممکن ہے کسی دل جلے کو کچھ دیر کے لیے حال آجائے اور وہ کچھ اچھل کود لے۔ چلیے چھٹی۔ جب آدمی اپنی کڑیل جوان اولاد کا غم بھول جاتا ہے تو ناک پر بیس روپے کے کپڑے کا ماسک باندھ کر اس وبا کو بھلانے میں کیا دیر لگے گی۔ زندگی کا احساس تمام اشیا کے رنگ برنگے احساسات سے کہیں زیادہ قوت مند امنگوں سے لبریز خوابوں سے بھرپور اور ان گنت رنگینیوں کا احساس ہے۔
مشمولہ اردو ادب، شمارہ جنوری تا مارچ 2010
بشکریہ اطہر فاروقی، جنرل سکریٹری، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں