جمعرات، 16 جون، 2016

حسین عابد کی نظمیں

گرم راتوں میں جے این یو کی ہوا کھاتے ہوئے ہر ہاسٹل پر جب ہم نے یہ اعلان چسپاں کیا کہ چار جون 2015کو حسین عابد کی نئی کتاب ’بہکتے عکس کا بلاوا‘پر ایک پروگرام ہونا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہندی۔اردو شاعروں کی ایک محفل سجائی جانی ہے تو ہمیں امید نہیں تھی کہ لوگ اس سخت ترین موسم میں ، کیمپس میں چلنے والی چھٹیوں کے باوجود اتنی تعداد میں وہاں جمع ہونگے اور کتاب پر مکمل گفتگو سننے کے ساتھ تمام شاعروں کا کلام بھی سنیں گے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ کوئی نمائشی قسم کا پروگرام نہیں تھا۔ اس میں آنے والے تمام لوگ وہ تھے، جن کا خالصتاً ادب سے تعلق ہے، مشاعرے بازی اور سیمینار سازی سے نہیں۔معین الدین جینابڑے جو کہ جے این یو میں ہی استاد ہیں، مشہور افسانہ نگار ہیں، جن کی کتاب تعبیر پاکستان سے بھی شائع ہوچکی ہے اور بیانیے جیسے اہم موضوع پر جن کی غیر معمولی کتاب موجود ہے۔وہ نہ صرف ہماری درخواست پر اس کتاب پہ ہونے والی گفتگو کے دوران صدارت کرنے تشریف لائے بلکہ انہوں نے آصف زہری، معید رشیدی اور میرے خیالات اس کتاب کے تعلق سے سنے اور آخر میں اپنی تفصیلی رائے سے بھی نوازا۔حسین ایاز نے اس گفتگو میں ناظم کا کردار ادا کیا اور تمام شرکا سے بہت اہم سوالات پوچھے۔یہ پروگرام بہت جلد ویڈیو کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہوگا۔ اس پروگرام میں ہندی اور اردو کے نئے لکھنے والے شاعر و ادیب موجود تھے۔ظاہر ہے کہ تفصیلی گفتگو کبھی نہ کبھی ویڈیو کی صورت میں آپ لوگوں کے سامنے آجائے گی، مگر فی الحال یہ بتانا مقصود ہے کہ اس پروگرام میں شارق کیفی ، نعمان شوق، مہیش ورما اور مونیکا کمار جیسے اہم شاعر موجود تھے، جن کو یقیناًاس بات سے خوشی محسوس ہوئی کہ پہلی بار کسی مشاعرے میں نہ صرف بنیادی طور پر نظم کے ایک شاعرکے حوالے سے نہ صرف گفتگو ہوئی بلکہ بعد میں بھی زیادہ تر نظمیں سنائی گئیں۔میں حسین عابد اور ہیری اتوال کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ادبی دنیا کو یہ موقع دیا کہ وہ اس کتاب پر اہم افراد سے گفتگو کراسکیں۔پروگرام میں موجود تمام افراد نے تسلیم کیا کہ اس طرح کے پروگرام کتابوں پر ہونے والی گفتگو کے تعلق سے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا جاری رہنا بہت ضروری ہے۔آصف زہری نے اس کتاب میں موجود نظموں کا باریکی سے تجزیہ کرتے ہوئے کچھ سوالات بھی قائم کیے، جن کا جواب معید رشیدی نے اپنی گفتگو میں دیا۔نظمو ں کے اسلوب، آہنگ، بنت اور موضوعات پر یہ مختصر گفتگو ہر لحا ظ سے جامع کہی جاسکتی ہے۔چونکہ یہ کتاب حسین عابد کے مختلف مجموعہ ہائے شاعری سے کیا گیا خود ان کا ایک انتخاب ہے، اس لیے اس سے شاعر کی اپنی پسند و ناپسند پر بھی بہت حد تک روشنی پڑتی ہے۔ ممکن ہوا تو بہت جلد اس پروگرام کی کوئی تفصیلی رپورٹ تیار کرکے آپ کے سامنے پیش کروں گایا پھر ممکن ہے کہ اس کا ویڈیو ہی پہلے آجائے۔بہرحال پروگرام کامیاب رہا۔جس کے لیے میں ادبی دنیا کے مزید معاونین طیفور اشرف اور نثار احمد کا تو شکر گزار ہوں ہی، لیکن خاص طور پر جس شخص کا مجھے بے حد شکریہ ادا کرنا چاہیے اور جس کے خلوص سے یہ پروگرام بہت اچھے طور پر اپنی تکمیل کو پہنچا اس کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی، اس لیے میں شرجیل الاسلام کا نہ صرف اس معاملے میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، بلکہ انہیں پروگرام کی کامیابی پر مبارکباد بھی دینا چاہوں گا، وہ خود بھی نوجوان ہوتے ہوئے ادب کی بہتر سمجھ رکھتے ہیں اور ان میں سیکھنے ، سمجھنے اور جاننے کا جذبہ ہمارے عہد کے دیگر طلبا سے کہیں زیادہ ہے۔مشاعرے کے تمام شاعروں کے ساتھ ساتھ بے حد عمدہ نظامت کرنے کے لیے میں اپنے دوست اظہر اقبال کا بھی میں شکر گزار ہوں، جن کی محبت نے واقعی پروگرام کو کامیاب بنایا۔اب آئیے حسین عابد کی چند ایسی نظموں کا مطالعہ کریں جو ان کی شاعری کی بہترین نمائندگی کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ایسے اہم شاعر پر گفتگو ہونا کیوں ضروری ہے۔شکریہ


چہرہ بھر پردہ

ایک مدت اداکاری کرنے کے بعد
میں نے گرتے پردے سے
چہرہ بھر ٹکڑا کاٹا
اور عقبی سیڑھیاں اُتر گیا
سرد ہوتی رات کی
پتھریلی گلیوں میں
مجھے ایک عورت ملی
وہ برہنہ تھی اور کندھے پہ بیگ لٹکائے
ٹہلنے کے انداز میں چل رہی تھی
میں نے پوچھا،’’ تمہیں سردی نہیں لگتی؟‘‘
وہ بولی
’’ لگتی ہے
پر جب سے میں نے خود کو دیکھنا شروع کیا ہے
کپکپی ختم ہو گئی ہے‘‘
دریا کے پُل پہ
ایک ننگا بچہ تاریک پانی میں کنکر پھینک رہا تھا
میں نے کہا
’’ کپڑے پانی میں پھینک دیے؟‘‘
وہ بولا، ’’ میں تو ایسے ہی پیدا ہوا تھا‘‘
ایک بوڑھا ملا
وہ کھلے دروازے کی دہلیز پر
ننگا بیٹھا پاؤں دھو رہا تھا

مجھے دیکھ کر بولا
’’ میں گھر کے ننگے فرش کو
گلی کی کالک سے داغدار نہیں کرتا‘‘
ایک جگہ دیمک کا ایک کنبہ
بھوک سے نڈھال بیٹھا تھا
میں نے چہرہ بھر پردے کا ٹکڑا
اس کے آگے ڈال دیا
***

سیدھی بارش میں کھڑا آدمی

بارش بہت ہے
وہ ٹیِن کی چھت کو چھیدتی
دماغ کے گودے میں
اور دل کے پردوں میں
چھید کرتی
پیروں کی سوکھی ہڈیاں
چھید رہی ہے
میں چاہتا ہوں
چھت پہ جا کر لیٹ جاؤں
اور سوراخوں کو
چھلنی وجود کے بوجھ سے
بند کر دوں
مگر
سیدھی بارش کی میخوں نے
پاؤں
بہتے فرش میں گاڑ دیے ہیں
***

ائیر پورٹ پر

میرے پاس صرف ایک گیت ہے
تلاشی لینے پر
نہیں ملے گا
میرے ساز کے پردے
چاک کرنے پربھی
تم اسے پہچان نہ پاؤگے
وہ تمہارے دل سے نکل گیا تھا
جب تم نے بندوق میں
پہلی گولی بھری تھی
۔۔
یوں بھی
تمہارے جہاز کی منزل
میری منزل نہیں
مجھے صرف ایک گیت کے پار اترنا ہے
***

نیند کے انتظار میں

نیند کے انتظار میں
آج پھر کئی خواب ادھر اُدھر نکل گئے
اُن آنکھوں کی طرف
جنہوں نے اپنی چکا چوند سے دن کو تسخیر کیا
اور شام ہوتے ہی
نیند کی دیوی نے سوئمبر کے پھول
پلکوں پر رکھ دیے
یا بند باندھنے کی عجلت میں
اُن آنکھوں کی طرف
جن کا نور کالے دن کے دریا میں بہہ گیا
یا شاید وہ کہیں نہیں جاتے
ٹہلتے رہتے ہیں
اپنی نیند کے انتظار میں
رستے میں اُگتی گھاس پر
اُن آنکھوں کی انتظارگاہ کے باہر
جہاں رات اور دن
گھڑی کی سوئیوں کی طرح
محض ٹِک ٹِک ٹِک ٹِک کرتے ہیں
***

پھر کوئی پیڑ!

بیٹھے بیٹھے رستے نکل آتے ہیں
چلتے چلتے گُم جاتے ہیں
پھر کوئی پیڑ نکل آتا ہے
جس کے نیچے بیٹھ کے ہم
گُم رستے دوہراتے ہیں
لمحہ بھر سستاتے ہیں
بیٹھے بیٹھے
رستے نکل آتے ہیں
***

بچہ اور بالغ

ممکن ہے
ڈھلتے دن کی دھوپ میں
تم اُسے ایک خالی میدان میں ملو
اور حیرت بھری امید سے
اکڑوں بیٹھ کر
پھٹی جلد والا ہاتھ پھیلا دو
اور وہ اپنے بنٹے چھُپا لے

ممکن ہے
گہری ہوتی شام میں
سِکّوں سے بھری جیب میں ہاتھ ڈالے
قدیم آشنا گلی میں مُڑتے
تم ایک اجنبی پتھر سے ٹھوکر کھاؤ
اور وہیں بیٹھ کر
پھوٹ پھوٹ کر رو دو

ممکن ہے
تم صبح کے الارم پر جاگو
تو گھڑی پر چھوٹا سا
پلاسٹک کا خرگوش بیٹھا ہو
اور وہ
تمہارے موٹے بوٹ پہن کر
تمہاری کُدال اٹھائے جا چکا ہو
***

اُڑتے خُلیے

سائیکل چلاتا ایک روبوٹ آتا ہے
اور چوک میں ریہڑی سے ٹکرا کر
پھٹ جاتا ہے
اس پھٹے لمحے میں
اسکی پھٹی سکرین پر
منجمد منظر چلتا ہے
۔باغ، ندیاں، عورتیں ۔
جس کے لیے اس نے روح کا سودا کیا
روبوٹ کے اُڑتے خُلیے
زندہ بچنے والوں کی کھال میں گھُس جاتے ہیں
اور ان کی روحوں کی رسولیاں بن جاتے ہیں
جن کا علاج
روبوٹ کا مالک اپنے ہسپتال میں کرتا ہے
***

دو کناروں میں رکا دن

ملگجی شام جیسا دن
دیر سے
دو کناروں میں رُکا ہے
سرمئی پانی پہ سفید ہنس
ہلکی پھوار میں تیرتا
میری جانب آتا ہے
مگر میری نگاہ
دوسرے کنارے پہ مرکوز ہے
جہاں خالی کشتیاں
اپنے اپنے کھونٹے سے بندھی
ہولے ہولے ڈول رہی ہیں
***

رات ٹھہر گئی ہے

بالکنی میں بہکتے
گٹار کے گیت میں
دیے کی لَو پر
دہکتے بدن کے نشیب و فراز میں
رات ٹھہر گئی ہے
جھیل کے پانیوں پر
جہاں دو چاند ہلکورے لیتے ہیں
ساحل سے آتی
ڈھول کی تھاپ پر
رات ٹھہر گئی ہے
بھیگے درختوں
شہر کی روشنیوں سے ٹپکتی
بوندوں پر
جزیروں پر
جہاں دوست ملتے ہیں
رات ٹھہر گئی ہے
ایک آدمی کے دل پر
جو دن کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتا ہے
ْ***

ایک لمحہ کافی ہے

ایک لمحہ کافی ہے
کسی اجنبی، نیم وا دریچے سے
کھنکتی ہنسی پر ٹھٹھکتے
محبوب آنکھوں میں جھانکتے
پکی خوشبو
اور معصوم آوازوں کے شور میں
بدن سے دن کی مشقت دھوتے
یا کھلے، وسیع میدان میں بہتی
ندی کے ساتھ چلتے
جس کے کناروں کی گھاس
پانی میں ڈوب رہی ہو

وقت کی دھڑکتی تھیلی میں پڑا
ابدی مسرت کا لمحہ
جو سارے مساموں سے پھوٹ نکلے

ایک گہرے دوست جیسا
جو کبھی جدا نہ ہو
ایک جگنو جیسا
جوگمبھیر رات میں چلتے
اچانک تمہارے سامنے آنکلے
ایک لمحہ کافی ہے
***

گونج

تمہاری چال شکستہ ہے
اور کمر خمیدہ
میں تم پر اپنا دیوان نہیں لاد سکتا
ہوسکتا ہے
اس میں آنسو ہوں
اور تمہاری اُدھڑی کھال میں
نمک جم جائے
ہو سکتا ہے پتھر ہوں
اور تمہارا راستہ طویل ہو جائے
ہو سکتا ہے پرندے ہوں
دبکے ہوئے
اور جب تم پنجرے میں چلتے چلتے
گِر جاؤ
تو وہ تمہارا دانہ چُگ جائیں

یہ لفظ اُن کے لیے ہیں
جن کے کان میری چیخ پر بند رہے
***

اوائلِ بہار کا اضطراب

بارش سے بھیگے رستے پر
جہاں چیری کے شگوفے
پتی پتی بکھر گئے ہیں
میں اپنے آپ میں گم چلتا ہوں
اردگرد
تتلیوں کی پرواز میں تمہاری چاپ ہے
شہد کی مکھیوں کی دھیمی گنگناہٹ میں
تمہارے لہجے کا رس ہے
اور پیڑوں کے بھیگے تنے تمہاری اوٹ ہیں
لیکن میں جانتا ہوں
تم یہاں نہیں ہو
میرے اندر، دور دور تک
موسموں کے تغیر سے بے نیاز
تمہارا چہرہ دمکتا ہے
لیکن میں جانتا ہوں
تم یہاں نہیں ہو
یہاں صرف میرا دل ہے
مضطرب
کہ جب تم اس رستے پر آؤ
تو شدتِ انتظار سے جھکتی ایک ٹہنی پر
ایک چیری پوری طرح پک چکی ہو
***

عریاں بدن کا مستور چہرہ

وہ عورت
جو سڑک پر اپنا بدن بیچتی ہے
اس کے کئی چہرے ہیں
تم جس چہرے کے ساتھ مجامعت کرتے ہو
وہ اسے تھوڑی دیر بعد نالی میں بہا دیتی ہے
تم اسے
کبھی بھی پہچان سکتے ہو
بو سونگھ کر
مگر تم ایسا نہیں کروگے
تم اسے جعلی پرفیوم تحفہ میں دوگے
تاکہ وہ اپنا چہرہ کبھی نہ ڈھونڈ سکے
***

سِکوں سے بھرا برتن

دماغ کبھی خاموش نہیں ہوتا
لیکن دل
کبھی کبھی خاموش ہوجاتا ہے
دوری اور نزدیکی کے بیچ
بل کھاتی پگڈنڈی پر

وہ جب مجھے ملی
میرا دل تھوڑی دیر کے لیے
بالکل خاموش ہو گیا تھا

سڑکوں اور شہر کے شور میں
برتنوں، سِکوں
کم پڑتی الماریوں کے شور میں
دل کبھی کبھی خاموش ہو جاتا ہے
دوری اور نزدیکی کے بیچ
بل کھاتی پگڈنڈی پر
***

زندگی نظم نہیں

زندگی نظم نہیں
نظم زندگی میں چھُپی رہتی ہے
گلی میں اترتی سیڑھیوں کے پیچھے
ایک دل سے دوسرے دل تک بنتے
پیچ دار رستے میں
اور ایسی جگہوں پر
جہاں سے وہ دونوں اکٹھے گزرتے ہیں
مجھے زندگی کی پرواہ نہیں
مگر میری نظم
اسی میں کہیں چھُپی ہے
***


1 تبصرہ:

گمنام کہا...

ہر نظم کو پڑھتے ہوے ایک احساس شدت سے ہوتا ہے کہ جیسے آپ کے اندر سے کوئ نکل کر نظم کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے دریا کے کنارے ٹھرتا ہے بارش میں بیگھتا ہے مگر درد کم نہیں ہوتا، زبردست

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *