(الف) آخری سواریاں مصنّف: سید محمد اشرف، مبصّر: خالد جاوید
سید محمد اشرف ہمارے زمانے کے سب سے اچھے فکشن نگاروں میں سے ایک ہیں۔ زبان و بیان پر انھیں جو دسترس حاصل ہے وہ انھیں اپنے بیشتر ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ اپنے ثقافتی، تہذیبی، جغرافیائی اورذہنی ماحول کو جس طرح وہ محسوس کرتے ہیں اور پھر ان تمام محسوسات اور تجربات کو جس خوبی کے ساتھ اظہار کے نت نئے سانچوں میں ڈھال دینے پر قادر نظر آتے ہیں، یہ اُن کی ایک غیر معمولی صفت ہے، اس کی کوئی دوسری مثال فی زمانہ نظر نہیں آتی۔
اپنے افسانے ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ سے سید محمد اشرف نے جو تخلیقی سفر شروع کیا تھا وہ ان کے تازہ ترین ناول’’ آخری سواریاں‘‘تک آ پہنچا ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس درمیان اُن کی ہر تخلیق اردو فکشن میں ایک سنگِ میل ہی ثابت ہوئی ہے۔ چاہے وہ ’’آدمی‘‘ ہو یا ’’روگ‘‘ ، ’’ساتھی‘‘ ہو یا’’ نمبر دار کا نیلا‘‘۔
آج جب اردو میں معمولی درجہ کے ناولوں کا ایک سیلاب سا آیا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ’’آخری سواریاں‘‘ کی اشاعت بے حد نیک شگون ہے۔
بقول میلان کنڈیرا ناول اگر انسان کی پوشیدہ وجودی جہات کی دریافت نہیں کرتا تو اسے نہیں لکھا جانا چاہیے۔ ’’آخری سواریاں‘‘ اگرچہ گنگا جمنی ہندو مسلم تہذیب کے گُم ہوتے جانے کا استعارہ ہے مگر اس میں انسان کے وجودی نہاں خانوں پر جو ایک ناقابلِ یقین قسم کی روشنی پڑتی ہے وہ اس ناول کے متن کو اس کے تھیم سے بلند تر اور ماورا کردیتی ہے اور مختلف معنی کی ایک روشن زنجیر جگ مگ کرنے لگتی ہے۔ اس زنجیر کے حلقوں میں ناول کا متن اپنی پوری طاقت اور توانائی کے ساتھ پیوست ہے ۔ ایک مثال پیش ہے:
’’جب میرے پیر اُس کے پاؤں جتنے گرم ہوگئے تو اُس نے چاہا کہ میری گردن کے نیچے اُس کی بانہہ آجائے۔ لیکن میں بہت نیچے سرکا ہوا تھا۔ جب وہ میری گردن کے نیچے ہاتھ رکھنے میں ناکام ہوئی تو اُس نے میرے سر کو اپنے پیٹ سے لگا کر مجھے لپٹا لیا۔ پھر میں نے ایک عجیب بات محسوس کی کہ اُس کے پیروں میں گرمی اور نرمی کے علاوہ وہاں دھڑکن جیسی ایک کیفیت تھی اور وہ دھڑکنیں بہت متواتر تھیں اور اُسی کے پیٹ پر جہاں میرے رُخسار اور کان لگے ہوئے تھے وہاں بھی اُس کے دل کی دھڑکنیں مجھے صاف سُنائی دے رہی تھیں۔ کیا پیروں میں بھی دھڑکن ہوتی ہے؟ کیا انسان کے پورے بدن میں ایسی دھڑکن ہوتی ہے جسے دوسرا محسوس کرسکتا ہے۔‘‘
(آخری سواریاں، ص70)
ایک اجتماعی منظرنامے میں وجودی جہات اس لیے روشن ہوئی ہیں کہ اِسی ناول کو Polyphonicکہاجاسکتا ہے۔ Polyphonic کی اصطلاح میخائیل باختن کی دین ہے جو بیسویں صدی میں ناول کا سب سے بڑا پارکھ اور شارح ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ناول کو ہمیشہ Polyphonic ہونا چاہیے یعنی اس میں محض ایک راوی کی نہیں بلکہ بہت سے راویوں کی آوازیں شامل ہونا چاہئیں۔ ’’آخری سواریاں‘‘ میں یوں تو محض ایک ہی راوی ہے مگر راوی کی یہ آواز ایک کورس کی طرح ہے جس کے ساتھ بہت سے کرداروں کی آوازیں اپنی اپنی انفرادیت کے ساتھ صاف سُنائی دیتی ہیں۔ کسی ناول میں کئی کرداروں کا ہونا ایک عام سی بات ہے مگر اس سے بہ قول باختن کوئی ناول Polyphonic نہیں ہوجاتا۔ ضروری یہ ہے کہ ناول کے متن اور اس کے شور میں ہر کردار اپنی ایک نمایاں اور منفرد آواز بھی رکھتا ہو۔
جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیا گیا ہے کہ’’ آخری سواریاں‘‘میں مصنّف/ راوی ایک کورس (chorus)کی مانند ہر جگہ موجود ہے اور اپنے کرداروں کے رویّے کا تجزیہ کرتا رہتا ہے اور اس کے پسِ پردہ جو عوامل کارفرما ہیں، ان پر تبصرہ بھی کرتا رہتا ہے۔ دراصل ’’آخری سواریاں‘‘ میں راوی/ مصنّف پوری شدّت کے ساتھ موجود ہے جس کے سبب ناول میں سوانحی عناصر بڑے لطیف اور فطری انداز میں پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ کوئی قابلِ گرفت بات نہیں بلکہ کسی بھی سچّے ناول کی ناگزیر خوبی ہے۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہی ناول نگار کے سوانحی عناصر بہ وجوہ ناول سے غائب ہوئے ہیں یعنی اٹھارہ ویں صدی میں راوی بہ طور ناول نگار ہمیشہ اپنے ناول میں موجود رہا ہے۔ کیوں کہ ناول نگار کا کام کسی صورتِ حال کے جوہر کو کھنگالنا ہے صرف صورتِ حال کو پیش کردینا ہی نہیں ہے۔ سید محمد اشرف نے ماضی کی جو صورتِ حال پیش کی ہے وہ صرف بیان ہی نہیں ہے بلکہ انھوں نے اس صورتِ حال کے جوہر کو کھنگالنے کی بھی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ سید محمداشرف کی دل چسپی ماضی یا گنگا جمنی تہدیب کی تاریخ میں کسی Nostalgia سے عبارت نہیں ہے بلکہ وہ ماضی کی تاریخ کے ذریعے حال کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لہٰذا انھوں نے ’’آخری سواریاں‘‘میں کم و بیش قصّہ گوئی کا وہ انداز اختیار کیا ہے جس کے سرے اٹھارہویں صدی کے مغربی ناول یا کسی حد تک داستان سے بھی جاکر ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’’احوالِ سفرِ سمرقند‘‘ وغیرہ کی شمولیت کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔
میں جب یہ ناول پڑھ رہا تھاتو مجھے یہ احساس ہوا کہ میں بھی ’’آخری سواریاں‘‘ میں سے ایک ہوں۔ ناول میں مجھے اپنے سوانحی آثار بھی پیدا ہوتے نظر آئے۔ ہم میں سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی تاریخ کو بار بار لکھتا رہتا ہے۔ ہم ہمیشہ واقعات کو اپنی پسند اور ترجیحات کے مطابق مفہوم دیتے رہتے ہیں اور ایسی اشیا کو بھلا ئے رہتے ہیں جو کسی معنی میں ہمارے لیے تکلیف دہ ہوتی ہیں مگر ناول نگار کا کام بہ قول میلان کنڈیرا فراموشی کے خلاف ایک جنگ لڑنا ہے۔ ایک جینوئین ناول نگار کے لیے کچھ بھی ناقابلِ فراموش نہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں ناول نگار نہ صرف ایک عام انسان سے بلکہ جیسا کے لارنس نے کہا ہے کہ وہ ایک سائنس دان، فلسفی اور ستی جتی سے بھی بلند ہوجاتا ہے کیوں کہ یہ سب لوگ زندہ انسان کے مختلف اجزا کے ماہر ہیں مگر ان اجزا کی سالم صورت کا ادراک صرف ناول نگار کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح ناول ہی فقط ایک روشن کتابِ زندگی ہے۔ ’’آخری سواریاں‘‘ اس تعریف پر پورا اُترتا ہے کیوں کہ اس ناول کے ذریعے سید محمد اشرف نے ساٹھ کی دہائی کے اجتماعی ذہن کو ’ناقابلِ فراموش‘ کی دولت سے نوازا ہے۔ فرحت احساس نے کیا عمدہ بات کہی ہے کہ ’’آخری سواریاں‘‘ کو وقت کے گزران اور ایک ثقافتی وفات کا نوحہ بھی کہا جاسکتا ہے جو افسانے کی تخلیقی نثر میں شاید پہلی بار پڑھا گیا ہے۔‘‘
وہ نسل جو ساٹھ کی دہائی میں پیدا ہوئی (میرا تعلق بھی اسی نسل سے ہے) اس جذباتی کشمکش سے پوری طرح مانوس ہوسکتی ہے جسے اس ناول میں پیش کیا گیا ہے۔ اس نسل نے ایک بالکل مختلف زمانے میں اپنے بچپن اور جوانی کو پلتا بڑھتا دیکھا ہے اور اب ڈھلتی ہوئی عمر کے اس پڑاؤ پر یہ نسل اُس سے قطعاً مختلف بلکہ متضاد زمانے میں بھی سانسیں لے رہی ہے۔ تبدیلی کے جس پُر اسرار عمل اور وقت کے جس بھیانک اور فنا کے تماشے کی گواہ یہ نسل ہے شاید اس سے پہلے اور اس کے بعد کی نسلیں اس احساس تک نہ پہنچ سکیں۔ اس ناول کے سچے اور ایماندار قاری وہ ہیں جو خود بھی ایک پُر اسرار اور نادیدہ گاڑی میں بیٹھ چکے ہیں اور جلد ہی یہ گاڑی ایک ابدی کہرے میں گُم ہوجانے والی ہے۔
سید محمد اشرف کا ہم جیسے لوگوں پر بڑا احسان ہے اور یہ اردو فکشن کی تاریخ میں اضافے کا سبب بھی بنا ہے کہ انھوں نے دور کہرے میں گُم ہوتے ہوئے ندی کے کنارے کو اس کے پورے خد و خال اور مکمل منظر نامے کے ساتھ ایک دستاویزی حیثیت کی شے بنا دیا ہے اور اس کے لیے اُن کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ناول کو اس طرح لکھا گیا ہے کہ اس کی تکنیک اور اس کا متن ؍ مواد آپس میں پوری طرح ہم آہنگ ہوگئے ہیں۔ ناول ایک زبانی ساخت ہوتا ہے اس لیے ہر درس گاہ میں اُسے اس زبان و قوم کے حوالے سے ہی پڑھایا جاتا ہے جس سے ناول کا تعلق ہو۔ اس طور دیکھیں تو ’’ آخری سواریاں‘‘ کو جس درس گاہ میں پڑھایا جانا چاہیے اس کا نام اردو معاشرہ ہے اور ہم سب کو اسے طالبِ علموں کی طرح پڑھنا چاہیے کیوں کہ یہ ناول ہمیں فراموشی کے حملے سے بچاتا ہے۔ اس کا متن ہمیں ایک بھُولاہوا سبق یاد دلاتا ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو پہچاننے پر مجبور کرتا ہے۔ ’’آخری سواریاں‘‘ ہمارے حافظے کا ایک مضبوط قلعہ تعمیر کرتا ہے۔
’’رخصت کے تانگے رکشے چلے گئے تو میں پیدل پیدل اسٹیشن روانہ ہوا۔ میرے پیچھے کچھ اور لوگوں کو بھی روانہ کیا گیا۔ ریل گاڑی آنے تک میں پانی کی ٹنکی کے پیچھے کھڑا رہا۔ ریل آئی، دلہن کو اُس کے بیٹوں نے سہارا دے کرچڑھایا۔ وہ کھڑکی کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ گارڈ نے سیٹی بجائی اور ہری جھنڈی دکھائی۔ میں ٹنکی کے پیچھے سے نکل کر اس ڈبّے کے سامنے آیا۔ ریل چل دی۔ اُس کا بوڑھا، کمزور باپ ریل کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اُس نے ریل کے ساتھ چلتے اپنے باپ کے ہاتھوں کو کھڑکی کی سلاخوں کے ساتھ چھُڑایا۔ دوڑتے ہوئے باپ کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے ساتھ چلنے سے روکا۔ کسی نے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر کردیا۔ اب دلہن نے مجھے دیکھا۔ اس نے گھونگٹ نہیں پلٹا۔ مہندی رچا ہاتھ اُٹھا دیا اور اُٹھائے رکھا۔ دور تک وہ ہاتھ نظر آتا رہا۔ میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔ امّاں میرا ہاتھ اٹھائے کھڑی تھیں۔ ریل کے آخری ڈبّے کی لال بتّی دھیرے دھیرے اندھیرے میں ڈوب گئی۔ میں وہیں کھڑا رہا۔ امّاں نے میرا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر انگلیوں سے میرے بال برابر کیے اور کہا:’’اب اس پٹری پر یہ ریل واپس نہیں آئے گی۔‘‘ (آخری سواریاں، ص 93-94 )
مندرجہ بالا اقتباس محض ایک بیان نہیں ہے ۔ کسی بھی اچھے ناول میں چیزیں اتنی سادہ اور سہل نہیں ہوتی ہیں جتنی کہ نظر آتی ہیں۔ یہ بیان ایک پینٹنگ کی طرح جامد اور ساکت ہے جسے ساٹھ کی دہائی کی آنکھ گھورتے رہنے سے تھکتی نہیں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ منظر متحرک اور سیّال بھی ہے۔ بڑے شہروں کی تو بات ہی کیا۔ اب کسی چھوٹے سے قصبے میں بھی یہ Visualنہیں نظر آئے گا۔ جذبات کی یہ شائستگی، انسانی جسم کی حرکات و سکنات کی یہ تنظیم و ترتیب اور نظم و ضبط اب قصّۂ پارینہ ہوچکا ہے۔ اب تو بس ایک سیاہ فحش باڑھ ہے جو اپنا منہ پھاڑے چلی آتی ہے۔ سارے آرٹ، ساری تہذیب اور ساری حیاداری کو اپنے کالے پانی میں بہا لے جانے کے لیے تیار۔
مگر یہاں سب سے حیرت زدہ کردینے والی بات یہ ہے کہ سید محمد اشرف کی زبان، اس شائستگی اور تنظیم و تربیت کو ایک توانا اور جاندار پیکر میں تبدیل کردیتی ہے۔ دراصل اُن کی سب سے بڑی طاقت تو اُن کی یہ پاکیزہ اور بامعنی زبان ہی ہے جس کے ذریعے وہ کاغذ ایک سلولائیڈمیں بدل جاتا ہے جس پر اشرف کے قلم کی روشنائی پھیلتی ہے۔
زبان کے حوالے سے یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اشرف کی تمام تحریروں میں کلچرل کوڈز، فطری اور قدرتی کوڈز کے ساتھ ایک استعاراتی نظام قائم کرلیتے ہیں اور سب سے بڑا کرشمہ جو اس عمل کے دوران رونما ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ زبان خود بھی ایک فطری یا قدرتی مظہر میں ڈھل جاتی ہے۔ ایک جنگل کی سی پُر اسراریت اور پاکیزگی لیے۔ میرا خیال ہے کہ سید محمد اشرف کی زیادہ تر تخلیقات کا مطالعہ ماحولیاتی تنقیدی نقطۂ نظر سے بھی کیا جانا چاہیے۔ ادب اور ماحول کے درمیان جو رشتہ ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور بہ قول Cheryll Glotfelty کسی فن پارے کی پوشیدہ اخلاقیات اس وژن کے ذریعے سامنے لائی جاسکتی ہیں۔ مگر ابھی میں eco-criticism اور اس مسئلے کو کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتا ہوں لیکن ناول سے یہ اقتباس ضرور پیش کرنا چاہوں گا:
’’روزانہ صبح جاگ کر مایوس ہوتا اور رات کو غمگین ہوکر سوجاتا۔ د ن میں کئی بار میلے آسمان کو تاکتا۔ چھُٹّی والے روز دوپہر کو باہر جاکر اس سبز چڑیا کا انتظار کرتا۔ ایک دن دو پہر سے پہلے میں نے کنویں سے پانی کھینچا اور کٹورے کی مدد سے نل کے منہ میں اتنا بھردیا کہ لُو اور دھوپ سے اگر خشک بھی ہوجائے تو چند قطرے ضرور باقی رہیں۔ اس دن ٹیکا ٹیک دوپہر میں دروازے کے پیچھے کھڑے ہوکر میں نے دیر تک انتظار کیا۔ اچانک وہ مجھے کنویں کے پاس والی دیوار پر نظر آئی۔ میرا دل بہت زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ اُڑ کر وہیں ایک چھوٹا سا چکّر لگا کر پھر اسی دیوار کی منڈیر پر بیٹھ جاتی۔ وہ نل کی طرف نہیں آرہی تھی۔ وہ شاید پائپ سے مایوس ہوچکی تھی۔ اچانک وہ پھر سے اُڑی اور کنویں کے من کھنڈے پر چھوٹے چھوٹے چکّر لگانا شروع کردیے۔‘‘
(آخری سواریاں،ص 105 )
’’اس نے کنویں کے اندر وہ چمکتا ہوا پانی دیکھ لیا ہے۔ میرے دل نے مجھ سے کہا۔ کیا یہ کنویں کے اندر جاکر اپنا قطرہ لائے گی؟ لیکن یہ تو ہمیشہ بیٹھ کر پانی کا قطرہ لینے کی عادی ہے۔ تو کیا یہ کنویں میں جاکر ڈوب جائے گی۔ پھر میں بالٹی سے پانی کھینچوں گا تو اس میں ایک مُردہ سبز چڑیا بھی ہوگی جس کی چونچ کھُلی ہوئی ہوگی۔‘‘
(آخری سواریاں،ص105)
’’یہ نماز بھی ہے اور دعا بھی ہے۔ اس میں مخصوص سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔ دعا کے لیے جب ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو اپنی ہتھیلیاں چہرے کی طرف نہیں اوپر کی طرف بلند کر دیتے ہیں۔ عاجزی کے ساتھ اسے دکھاتے ہیں کہ اے مالک و معبود ہمارے ہاتھ خالی ہوگئے ہیں۔ سورج نکلنے کے بعد گرمی میں جاکر جنگل میں اس لیے پڑھنا لازمی ہے کہ عاجزی اور مشقّت کے بغیر کوئی بڑا انعام نہیں ملتا۔ اپنے پالتو جانور بھینس، بکریاں اور بیل بھی لے کر چلنا۔ وہ سب بھی دعا کرتے ہیں۔‘‘
(آخری سواریاں، ص102)
مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ سید محمد اشرف نے اس ناول کو داخلی طور پر دو حصّوں میں لکھا ہے۔ پہلا حصّہ وہ ہے جو جمّوکے رخصت ہونے پر ختم ہوجاتا ہے۔ ’’آخری سواریاں‘‘ میں سب سے پہلی جھلک ہمیں جمّو میں ہی نظر آتی ہے اور باقی ناول کو دوسرے حصّے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ پہلے حصّے میں انفرادی معصومیت کی دبازت زیادہ ہے اور دوسرے میں اجتماعی منظر نامے میں وجودی عناصر کی دریافت کی گئی ہے۔ تقریباً دو الگ الگ کہانیاں ہونے کے باوجودزیریں سطح پر دونوں کا تھیم ایک ہی ہے اور اس طرح ناول میں وحدت پیدا ہوجاتی ہے۔ انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی آپس میں مل کر ایک اِکائی خلق کرتی ہیں اور اس طرح ناول کا تھیم دو مختلف آوازوں کی جُگل بندی کے ذریعے تخلیقی طور پر ایک بامعنی اور بلند مقام حاصل کر لیتا ہے۔
مگر یہ بھی ہے کہ کوئی بھی تخلیق چاہے وہ ناول ہو یا افسانہ یا شاعری اپنی ماہیت میں ایک ہیجانی اور وجدانی تجربہ ہی ہوتی ہے۔ اس قسم کے معنی تو تجربے کے بعد ہی اس میں سے برآمد کیے جاتے ہیں۔ خود اشرف کے ناول میں کسی تبلیغ یا تلقین کا رنگ نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی تجربے کو خاموشی اور آہستگی کے ساتھ کاغذ پر اُتاردیا ہے۔
میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ آج ناول بھی ہر کلچر اور ہر آرٹ کی طرح ماس میڈیا کے ہاتھ میں آچکا ہے۔ یہ سہل پسندی کا دور ہے۔ لکھنے والوں سے زیادہ تو قاری سہل پسند ہوچکے ہیں۔ یہ ماس میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کے ذریعے ہورہا ہے۔ ناول لکھے جانے کی جگہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ناول کا اسکرین پلے لکھا جارہا ہو۔ ہماری بصیرت، ہمارا عقیدہ اور ہماری فکر ریزہ ریزہ ہورہی ہے۔ اِس لیے یہ بہت اطمینان بخش امر ہے کہ ’’آخری سواریاں‘‘ ایسے زمانے میں سامنے آیا ہے جب ایک سنجیدہ اور گہرے ناول کی شدّت سے کمی محسوس کی جارہی تھی۔ ایسے ناول کو ماس میڈیا کبھی نہیں ہڑپ سکتا۔ آخری سواریاں خالص ادبی شرطوں پر پڑھے جانے کا اصرار کرتا ہے۔ یہ ناول شاید اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو زندگی کو سہل تر بنانے کے درپے ہیں بلکہ ان کے لیے جو اسے بامعنی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
میں سید محمد اشرف کے اس ناول پر بہت سی رسمی باتوں اور ادبی کلیشوں سے بہ وجوہ گریز کرتا ہوں اور آخر میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ’’آخری سواریاں‘‘ جاتے ہوئے میں نے بھی دیکھی ہیں۔
میں بھی اس کا گواہ ہوں اور میری نسل کے میری طرح کے بے شمار افراد سید محمد اشرف کے ساتھ سڑک کے اُسی موڑ کی طرف دیکھتے ہوئے اُسی جگہ بیٹھے ہیں،یہ دیکھنے کے لیے کہ سواریاں واپس آتی ہیں یا نہیں۔
***
(ب) نعمت خانہ مصنّف:خالد جاوید، مبصّر: سیّد خالد قادری
غالباً 1994 میں محمود ایاز کی ادارت میں شائع ہونے والے معروف ادبی جریدے ’سوغات‘ کے ستمبر کے شمارے میں خالد جاوید کی ایک نظم ’وعدہ‘ میری نظر سے گزری تھی۔ یہ نظم کچھ یوں تھی:
میں تمھارے پاس آؤں گا
تب شدید بارش ہورہی ہوگی
تمہارے گھر کے دروازے کے نیچے دلدل ہوگی
وہاں کچھ مویشوں کے کھروں کے نشان بھی ہوں گے
ان کھروں کے نشانوں پر میرے قدم شاید تم تلاش نہ کر پاؤ
جب کائی لگے سیاہ تالاب میں
کنارے اُگے اداس درخت کے
سارے جنگلی پھول گر چکے ہوں گے
تب میں آؤوں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتا نہیں میرے بدن کی بو کیسی ہوگی
کیچڑ میں لتھڑے پھول جیسی
مٹی جیسی
یا مچھلیوں جیسی
مجھے نہیں معلوم میں تمہارے پاس کیوں آؤں گا
لیکن میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا کبھی
اس لیے میں آؤں گا
اور پھر تاریک سناٹے میں
دور ہوتی ہوئی راہ رو کی چاپ کی طرح
معدوم ہوجاؤں گا۔
ان دنوں اردو میں جیسی شاعری ہورہی تھی اس لحاظ سے نظم قابلِ توجہ تھی۔ پھر اس کے بعد ایک عرصے تک خالد جاوید کا نام بحیثیت Budding Poet کے ہی ذہن میں محفوظ رہا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ جب وہی نام کچھ الگ نہج کی چونکا دینے والی کہانیوں کے ساھ بھی جڑا دکھائی دیا تو اندازہ ہوا کہ غالباً ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوا جو کئی دوسرے معروف ادیبوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے یعنی کہ وہ ادب میں اپنی تخلیقیت کی ابتدا شاعری سے کرتے ہیں مگر پھر اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد آخر کار اپنے لیے اس صنف کو دریافت ہی کرلیتے ہیں جو ان کے تخلیقی تشخص سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ اب پلٹ کر سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ شاید وہ نظم بھی ان کے مستقبل کے تخلیقی رویے کو Anticipate کرتی ہوئی ہی تھی۔ پھر ایک دو دہائیوں کے اندر یہی نام تنازعات و تعصبات میں گھرے رہنے کے باوجود رد و قبول کے مراحل طے کرتا ہوا قارئین کے ایک بڑے طبقے کے لیے مابعد جدید اردو فکشن کا شناخت نامہ تصور کیا جانے لگا۔
عرصے سے اردوکا جو فکشن نظر سے گزرتا رہا ہے اس میں اکثر تازہ کاری اور تخلیقی توانائی کا فقدان محسوس ہوا ہے۔ کچھ استثنائی تخلیقات کو چھوڑ کر ان میں سے زیادہ تر ایک گھسی پٹی ڈگر پر چلنے کے باعث یکسانیت اور ذہنی بنجر پن کا احساس دلاتی ہیں۔ ہر چند کہ ان کی بھی تعریف و تحسین میں یاروں نے صفحے کے صفحے سیاہ کر ڈالے ہیں اور کرتے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب خالد جاوید جیسے کسی منفرد ادیب کی تخلیق کسی ادبی دریافت کے طور پر سامنے آجاتی ہے تو آپ حیرت و مسرت سے دو چار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کی چند کہانیاں پڑھ کر ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ بحیثیت ایک تخلیق کار ان پر ہر راز افشاء ہوچکا ہے کہ فکر کے ازکار رفتہ سانچوں کو توڑ کر نیز اظہار کے وسیلوں (لفظ و لسان) کو روز مرہ کے عمومی استعمال سے دور لے جاکر ہی ایک عام ادیب اپنی انفرادی شناخت کے اعلان کے ساتھ ساتھ اپنی تخلیقات کو معنی خیزی کی نئی جہات سے روشناس کروا سکتا ہے۔ چناں چہ وہ ایک فکشن نگار کے لبادے میں مسلسل مروّجہ ذہنی تشکیلات کو مشتبہ بنانے اور اپنے چونکا دینے والے پیرایۂ اظہار میں ان کی نفی کے ذریعے نئی فکری و حسی تشکیلات کی ترسیل میں لگے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’موت کی کتاب‘‘ اور حال میں شائع ہوا ناول ’’نعمت خانہ‘‘ بھی بالواسطہ طور پر اسی اہم ادبی منصب کی تکمیل کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ ناول کے روایتی Format سے انحراف کے ذریعہ بحیثیت ایک ادبی صنف اردو میں اس کے فروغ کے امکانات میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔
در اصل دنیاے انسانی اور موت و زیست کے مسائل بہت وسیع ہیں اور ان سے متعلق فکشنل بیانیہ خود اپنے آپ میں کسی قدر کا حامل نہیں۔ اسے تخلیق کرنے والا ہی اس کا موضوع و مزاج متعین کرتا ہے۔ خالد جاوید اپنی فکری تجریدیت اور الفاظ و اسلوب کی ندرت سے ان سب سے متعلق اپنی تخلیقات کو ایک ایسا قالب عطا کردیتے ہیں جو اجنبی اور نامانوس ہوتے ہوئے بھی ذہن و ادراک کو متحرک کرسکتا ہے۔ ’’برے موسم میں‘‘ یا ’’آخری دعوت‘‘ کی کہانیاں ہوں یا ’’موت کی کتاب‘‘ یا ’’نعمت خانہ‘‘ کا متن ہو سبھی جمالیات کے روایتی تصورات یا نام نہاد مطلق سچائیوں کی اپنے اپنے طور پر قلب ماہیت کرتی نظر آتی ہیں بلکہ کبھی کبھی تو انھیں اُلٹا کرکے سر کے بل بھی کھڑا کردیتے ہیں۔ ان کا بیانیہ Cause اور Effect یا عمل او ررد عمل وغیرہ کے اصولوں سے بندھا نہیں لگتا کہ یہاں واقعات یا Happenings کی لسانی تشکیل سے زیادہ کیفیت یا صورت حال کی لفظی تشکیل پر زور دکھائی دیتا ہے۔
اپنے اس مخصوص قسم کے فکشنل بیانیہ کے خالد جاوید خود موجد ہیں۔ الفاظ کی اس پُراسرار دنیا میں دبے پاؤں داخل ہوکر اس سے ایسا رشتہ انھوں نے کب اور کیسے جوڑ لیا اور کب اپنے اندر کی چنگاری کو پکڑ کر اس کے حوالے کردیا اس پر روشنی وہ خود ہی بہتر طور پر ڈال سکتے ہیں۔
اپنے تخلیقی عمل کے بارے میں حالیہ ناول ’’نعمت خانہ‘‘ کے پیش لفظ (جیسے وہ متضاد بیانات کی پانچویں قسط کہتے ہیں) میں بھی اپنے مخصوص انداز میں انھوں نے کچھ چونکا دینے والی باتیں کی ہیں:
’’میں اپنی الٹی سیدھی تحریروں کو ناول یا کہانی کا نام دیتا رہتا ہوں مگر فکشن کو بحیثیت ایک ادبی صنف لکھنے میں بہرحال ناکام ہی ثابت ہوا ہوں۔ میرا فکشن ایک جیتے جاگتے انسان کے شعور کے ذریعے لکھا گیا ہے۔ ’ادیب‘ نام کی کسی پیشہ ور مگر عمومی ہستی کے ذریعہ نہیں۔‘‘
’’میرے شعور کی مٹی دکھ سے گندھی ہوئی ہے۔ اس لیے میں جو بھی لکھتا ہوں اُسے فکشن کی ایسی دستکوں میں بدل دیتا ہوں جو ضمیرکے دھول بھرے دروازے پر دی جاتی ہیں۔ میرا انفرادی شعور (اجتماعی شعور کی طرف نہ کان دھرتا ہوں نہ میرا ناول یا افسانہ ، افسانہ یا ناول) مروجہ ادبی اخلاقیات اور جمالیات کو تواتر سے صدمہ پہنچانا چاہتا ہے۔ جمالیاتی انبساط کو مد نظر رکھ کر گزشتہ 25 سال سے نہ میں نے کوئی سطر پڑھی نہ لکھی۔‘‘
’’میں محض اپنے دماغ کے منطقی حصے نہیں لکھتا ۔ میرا شعور اکیلے ہونے کے اس تکلیف دہ عمل میں سارے جسم کو شامل کرتا ہے۔ یہاں تک کہ میرے ناخن جو مردہ خلیوں کے سوا کچھ نہیں پتھر پر خراشیں ڈالنے کے لیے خود بخود لپکنے لگتے ہیں۔‘‘
’’میں اپنی تحریروں کے بارے میں کوئی بات کرنے سے قاصر ہوں۔ مجھے ان کے بارے میں اب کچھ نہیں معلوم کیوں کہ ان سطروں کے لکھنے سے بہت پہلے ہی وہ میرے شعور سے باہر جاچکی ہیں (لاشعور کا مجھے علم نہیں)۔‘‘
یہ باتیں متضاد بھی ہیں اور چونکا دینے والی بھی مگر کیا یہ بھی سچ ہے کہ کائنات فطرت اور انسان سے تعلق پر بات تضاد اور پیچیدگی (Complexity) سے ہی عبارت ہے۔ ویسے خالد جاوید اپنی غیر روایتی سوچ اور اپنے پوری طرح شخصی و انفرادی تصورات سے متعلق کچھ نہ کچھ Clue اپنی بیش تر تحریروں میں یہاں وہاں فراہم کرتے رہتے ہیں ایک طرح کی یاد دہانی (Reminder) کے طور پر کہ انھیں اوروں کی طرح نہ سمجھ لیا جائے۔ (یہ تشویش Anxiety) ہر اس اہم تخلیق کار میں پائی جاتی ہے جو روایات کو رد کرکے خود اپنے لیے نئے راستے بناتا ہے) تو بہرحال ان اشاروں سے ان کے تخلیقی تشخص کا جو خاکہ ابھرتا ہے وہ کچھ اس طرح کا ہے۔
لکھنا ان کی ایک شخصی اور اندرونی ضرورت ہے جو ان کے لیے محض ایک Vocation یا پیشہ نہیں۔ چنانچہ ان کی تحریریں کسی مخصوص ادبی روایت میں ڈھلی ہوئی نہیں۔ نیز یہ کہ ان کے لیے یہ تحریریں ازکار رفتہ اخلاقیات و جمالیات کو رد کرنے کا ذریعہ بھی ہیں کہ وہ روایتی شعریات سے فاصلہ بناکر اپنے انفرادی شعور (ضمیر) اور ضمیر کی تحریک پر ایک الگ شعریات کی تشکیل کرنا چاہیں گے جن کے تحت تخلیقی عمل میں دنیاوی علم، منطق یا عقل کی موشگافیوں سے زیادہ چھٹی حس (Intuition) اور ادراک سے کام لیا جاسکے اور روح کے بوجھ سے دبے انسانی جسم کے آشوب کی پوری کہانی کہی جاسکے۔ اقساط میں ایک کے بعد دوسری اپنی ہر تخلیق میں وہ یہی کہانی غیر معمولی کامیابی سے کہتے آرہے ہیں جب کہ حالیہ ناول ’’نعمت خانہ‘‘ میں ان کی اس کہانی کا بیانیہ غیر معمولی وفور و شدت کا حامل ہے) مزید یہ کہ صرف ان کا ذہن نہیں بلکہ ان کا تمام تر وجود شامل ہوتا ہے ان کے تخلیقی عمل میں۔
خالد جاوید کی تحریروں کے درون میں جایا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مختلف موضوعات سے وابستہ مروجہ فکر یا چیزوں کے تسلیم شدہ رشتوں پر بہ انداز نو نظر ڈالنے کا عمل ان کے فکشنل بیانیہ پر حاوی ہے۔ (آج سے تقریباً سو سال پہلے انگریزی شاعر و نقاد Coleridge نے فینسی (Fancy) سے الگ اسے پرائمری Imagination کانام دیا تھا جو اس کے نزدیک اشیاء کے پرانے رشتوں کو Revise یا رد کرکے انھیں نئی صورتیں دیتی ہے اور یوں معنویت کے نئے تلازمے وجود میں لاتی ہے)۔ مزید یہ کہ ان کا بیشتر بیانیہ ایک مرگ آسا تخیل سے برآمد کیا گیا لگتا ہے جہاں ہر شے پر کہنگی، زوال آمادگی، انہدام اور موت کی مہریں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں تعمیر اور انہدام کے درمیان کوئی وقفہ نہیں۔ ایسے Haunted تخیل کی خلق کی ہوئی لفظی تشکیلات ہیں جہاں زندگی کا ہر مظہر تنظیم سے انہدام کی جانب رواں دواں ہے۔
اس طرح اسے عصری ادب میں کافکائی تخیل کی بازیافت کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے جو اشیا اور زندگی کے مظاہر کی مسخ شدہ صورتوں کے تصور سے زندگی کی حقیقت کو سامنے لاتا ہے اور یوں بیانیہ کے منظر نامے کو مایوسی،تشویش، سنسنی خیزی یا خوف و ہراس سے بھر سکتا ہے۔
خالد جاوید کا پہلا ناول ’’موت کی کتاب‘‘ خود اپنی ہستی اور اس کی حریف قوتوں کے درمیان کشاکش کا ایک ایسا ڈرامائی رزمیہ معلوم ہوا جو وجود کی بریدگی سے شروع ہوکر ماں کی چھاتیاں چوس کر نئی زندگی کے حصول کی آرزو پر ختم ہوجاتا ہے۔ اپنی ہستی کا خارجی وجود یا صبح سے باہر نکلنے کے لیے اکسایا جانا۔ موت یا خودکشی پر ۔’’باہر نکلو اس ذلیل جسم سے باہر نکلو‘‘۔ اور پیدائش سے قبل ہی موت سے سابقہ۔ شاید یہی اس کے بیانیہ کا جبر (Compulsion) بھی ہے (وہ بات منظر یا واقعہ جو بیان کنندہ کی مجبوری کے طور پر اس میں موجود اس بات جذبے یا ارادے کی نمائندگی کرتا ہے جو مصنف کے تحت الشعور یا تخلیقی تشخص پر حاوی ہو)۔ چنانچہ اپنے دوسرے ناول ’’نعمت خانہ‘‘ کو بھی وہ ’’موت کی دوسری کتاب‘‘ کہتے ہیں بلکہ اپنی ہر آنے والی تحریر کو موت کی ایک اور کتاب۔ مگر مجھے کسی سنکی یا شہرت پرست ادیب کا محض سنسنی پھیلانے کے لیے دیا گیا بیان نہیں لگتا بلکہ مصنف کے اپنے شعور کے مطابق اُس کی اپنی زبان میں زندگی کے حوالے سے موت کی ناگزیریت کا ایک بلند بانگ اعلان ہوسکتا ہے۔
خالد جاوید کے بیانیہ کا ایک اور نمایاں فیچر اس کا بڑی حد تک Sinister اور Eerie ہونا بھی ہے۔ اسے فرائیڈین تنقیدی اصطلاح میں ’Uncanny‘ (اجنبی، غیر مانوس، عجیب و غریب یا ڈراؤنا) کہا جاسکتا ہے۔ اس کی مثالیں کسی نہ کسی درجے میں ان کے یہاں جگہ جگہ ملیں گی۔ ان کے نئے ناول ’’نعمت خانہ‘‘ سے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں:
’’باورچی خانے کی گرتی ہوئی دیواروں پر بے شمار کاکروچ اکٹھا ہو گئے ہیں۔ عدالت لگ گئی ہے۔
باورچی خانہ۔ ایک خطرناک جگہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا کبھی اس بات پر غور کیا گیا کہ باورچی خانے کی تقریباً تمام اشیا میں چند خاص مواقع پر ایک خطرناک ہتھیار بن جانے کے امکانات پوشیدہ ہیں۔ چاہے وہ ترکاری کاٹنے والی چھری ہو، توا ہو، چمٹا ہو پھکنی ہو، جلتی ہوئی لکڑی ہو...‘‘
’’گھر کے کسی اور حصے میں اتنے خطرناک بہروپئے نہیں پائے جاتے جتنے کہ رسوئی میں اور گھر کے کسی بھی مقام پر عورتیں اتنی بر انگیختہ بر افروختہ حسد سے بھری ہوئی، تشدد آمیز اور چھوٹی ذہنیت کی نہیں ہوتیں جتنی باورچی خانے میں۔ ‘‘
’’انسانی آنتوں کی بھوک اور دو وقت کی روٹی میں ایک پُراسرار اور بھیانک شہوت چھپی ہوئی ہے۔ یہ شہوت صرف سیاہی اور خون کی طرف بڑھتی ہے اور انجام کار بس ایک فحاشی اور مغالطہ آمیز بدنیتی بچی جاتی ہے جس کے نشے کے زیر اثر کال پیلی اور گوری عورتیں گرم برتنوں کو اپنے سنّ ہاتھوں سے اٹھاتے رہنے کی عادی ہوکر باورچی خانے کے برتنوں سے وہی سلوک کرنے لگتی ہیں جو وہ اپنے مردوں سے کرتی ہیں۔ ان کے مرد آہستہ آہستہ چھوٹے بڑے برتنوں میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ باورچی خانے میں وہ سب بے حد حاوی اور خود غرض ہوجاتی ہیں۔ عورتیں باورچی خانے کے برتنوں سے مباشرت کرتی ہیں۔‘‘
(’’نعمت خانہ‘‘۔ پہلا حصہ۔ ’ہوا‘ سے)
یہاں گھر کی عام چیزوں جیسے کہ باورچی خانے کے سامان یا روز مرہ کے معمولات جیسے کہ گھر کی عورتوں کا باورچی خانے میں کام کرنا وغیرہ کو مصنف کا Wearied تخیل ایک یکسر نئی اور سنگین معنویت سے بھر دیتا ہے۔۔۔ ایک ایسی Fatalistic تخلیقیت جو روز مرہ سے اخذ کی گئی امیجری کو مہلک اور سنگین بنا دیتی ہے۔ Domestic surrealist کی ایسی مثالیں امریکی ادیبوں جیسے کہ Dylan Thomas کے شعری مجموعے ’’Death and Entrances‘‘ کی نظموں، Marine-Moor کی شاعری اور ملویا پلاتھ کی نظموں یا ان کے معروف ناول ’’The Belljar‘‘ وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
روح کی پاکی کے تصور کے برخلاف ابن آدم کے جسم کے بدصورتی، بدبو، غلاظت اور زوال آمادگی وغیرہ سے رشتے کی ناگزیریت کا شدید احساس بھی خالد جاوید کے فکشنل بیانیہ پر حاوی ہے اور وہ بحیثیت ایک حساس فنکار انسانی وجود کی اس سفاک حقیقت سے نہ صرف پوری دیانت داری بلکہ ایک حیرت انگیز جرأت مندی کے ساتھ معاملہ کرتے نظر آتے ہیں۔ بنیادی جبلّتوں کی تسکین میں لگے آج کے نام نہاد مہذب انسان کو بھی اس کی ماقبل تہذیب کی اصل حالت کے پس منظر میں میں رکھ کر ان کا وزن ایک مسخ شدہ (Distorted) اور مضحکہ خیز (Ridiculous) شکل میں دیکھتا ہے۔
ان باتوں کی توثیق کے طور پر ’’نعمت خانہ‘‘ سے چند مثالیں درج کی جاتی ہیں:
’’یہ پوری گلی ہیضے کے مریضوں سے اور پیشاب پاخانے کی ناگوار بدبوؤں سے بھرتی رہتی تھی۔ مریض ایک کے اوپر ایک لدے رہتے اور اکثر اپنی اپنی الٹیاں اور قے برداشت نہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی پیٹھ پر ہی کردیتے... وہ سب لگاتار الٹیوں بخار اور کچھ نہ کھانے پینے کی وجہ سے انتہائی لاغر اور کمزور ہوچکے تھے۔ ان کی کھال گوشت اور ہڈیوں میں پانی کی بوند تک نہ بچی تھی۔‘‘
’’ان دونوں کی ہذیانی چیخوں سے سارا گھر جاگ جاتا ہے۔ مکھیاں دونوں پر بری طرح چمٹ گئی تھیں۔ چاندانی رات میں مکھیوں کے سائے بھیانک تاریک دھبّوں کی طرح اڑتے اور گردش کرتے پھر رہے تھے۔ فیروز خالو کو میں نے بھاگتے ہوئے زینے کی جانب جاتے دیکھا۔ ان کی قمیص اور پتلون ان کے کندھوں پر تھی۔ وہ بار بار اپنے نچلے حصے پر ادھر اُدھر ہاتھ مار رہے تھے شاید ان کے پوشیدہ اعضاء کو مکھیوں نے ڈنک مارے تھے۔
ثروت ممانی بری تک چیخیں مار رہی تھیں اور دیوانوں کی طرح زمین پر لوٹیں لگارہی تھیں۔ کبھی وہ اٹھ کھڑی ہوتیں اور کبھی بگولے کی طرح چکرانے لگتیں۔ ان کے بال کھل کر ان کے گھٹنوں تک جارہے تھے۔ میں نے انھیں اپنا جمپر اتارتے دیکھا۔ ان کی غیر معمولی طور پر بڑی اور بھاری بھاری لٹکی ہوئی چھاتیوں کی پرچھائیں کبھی زمین پر پڑتی کبھی دیوار پر۔ ان کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ کوئی خوفناک تانڈوے ناچ ناچے رہی ہوں۔ ایک چیڑیل ایک آسیب کی مانند۔ وہ کسی غیر انسانی شے میں تبدیل ہوچکی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد بالکل خاموش ہوکر وہ زمین پر ایک وزنی درخت کی مانند گر پڑیں۔ نور جہان خالہ نے ثروت ممانی کے ننگے بدن پر اپنا سوتی دوپٹہ ڈال دیا تھا مگر ڈوپٹہ ڈالنے سے پہلے میں نے ان کے سینے کی طرف دیکھا تھا۔ وہاں اب چھاتیاں نہ تھیں۔ وہ سوج کر ایک بڑے سے تھیلے میں بدل چکی تھیں۔ مجھے آٹا لانے والا تھیلا یاد آگیا۔‘‘
’’مگر انجم بانو کی ہوس اس کی روح میں پوشیدہ تھی اور اس بھیانک ہوس اور شہوت کا ساتھ دینے میں اس کا بیمار خون کی کمی کا مارا ہوا یرقان زدہ جسم ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے وہ جسم ایک خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزنے اور کانپنے لگا۔ انجم بانو کی روح کی پیاس نہ جانے کتنی صدیوں کی پیاس تھی اور یہ پیاس اس لیے بے قابو تھی کہ انجام بانو کا جسم بیمار تھا۔ روح جسم پر اپنی شہوت، اپنی خواہش اور اپنی ہوس کے وار پر وار کھاتی جارہی تھی۔ وہ کمزور بیمار مگر پاکیزہ جسم کے ٹکڑے ٹکرے کرکے ہلاک کردینے کے درپے تھی۔‘‘
یہ آخری مثال یہ بھی واضح کرتی ہے کہ مصنف نے روح اور جسم کے درمیان رشتے کے روایتی تصور کو جہاں روح جسم کے حصار میں مجبور و بے بس ہے اور اس قید سے آزاد ہونے کے لیے مضطرب تقریباً الٹا (Reverse) کردیا ہے۔ یہاں جسم پر روح کا جبر بھی ہوسکتا ہے اس کے ان مطالبات کی صورت جنھیں پورا کرنا جسم کے بس میں نہیں۔
خالد جاوید کے فکشن میں موجودہ کائنات اور انسانی زندگی کا منظر نامہ واضح طور پر نہ صرف مضحکہ خیزی و مہملت سے عبارت دکھائی دیتا ہے بلکہ اس پر غالب Imagery کے حوالے سے غور کیا جائے تو ایک مہلک قسم کی بربریت (Brutality)، اذیت پسندی اور تشدد سے بھی۔ اوپر دی گئی مثالوں کے علاوہ بھی ان کے بیانیہ میں ایسی مثالیں قدم قدم پر مل جائیں گی۔ ’’نعمت خانہ‘‘ سے کچھ اور مثالیں پیش کی جارہی ہیں:
’’وہ بہت ضدی اور شیطان قسم کا بچہ تھا۔ ایک دن اپنے باورچی خانے میں اودھم مچارہا تھا۔ وہاں بر ادے کی انگیٹھی دہک رہی تھی۔ ایک پل کے لیے ماں کی نظر بچی تو ببّو کے جی میں کیا آئی کہ انگیٹھی پر جاکر بیٹھ گیا۔ اس کے منھ سے دردناک چیخیں نکلیں۔ وہ رو بھی نہ سکا۔ اس کا رونا صرف چیخ بن کر رہ گیا۔ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی چیخ۔ اس کے ننھے معصوم پوشیدہ اعضاء جل کر رہ گئے۔ نچلا دھڑ بری طرح جھلس گیا۔ ببّو اب چالیس سال کا ہوچکا تھا۔ اس کا دماغ خراب ہوچکا تھا۔ وہ گھر میں ننگاگھوما کرتا تھا اور رات دن چیخیں مارا کرتا، بالکل اسی طرح جیسے وہ آج بھی جلتی ہوئی انگیٹھی پر بیٹھا ہوا ہو۔ مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ میں کبھی قریب سے ببّو انگیٹھی کو دیکھ نہ سکا۔ اپنی زندگی میں میں نے اسے صرف ایک بار دیکھا تھا۔ اس کے تن پر صرف میلی سی پھٹی ہوئی بنیان تھی۔ میں نے غور سے اس کے نچلے دھڑ کی طرف دیکھا تھا۔ جہاں ایک خاموش مردہ سفیدی کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘
’’نور جہاں خالہ نے چولہے میں سے سلگتی ہوئی لکڑی نکالی اور وہیں بیٹھے بیٹھ لوٹے سے پانی ڈال کر اسے بجھا دیا۔ جلتی سلگتی لکڑی پر جیسے ہی پانی گراسن سن کی ایک تیز آواز باورچی خانے میں گونجی۔ جیک اس تیز آواز سے بری طرح خوف زدہ ہوکر حواس باختہ ہوتے ہوئے زور سے اچھلا اور چولہے میں جاگرا۔ چولہے میں تازہ بھوبھل تھی۔ اس کی تہہ میں انگارے دہک رہے تھے۔
وہ چیں چیں کی بڑی دردناک آوازیں تھیں۔ پھر چھوٹے چچا نے اسے باہر نکالا وہ چیں چیں کرتا ہوا لڑ کھڑاتا ڈگمگاتا فرش پر ادھر اُدھر چکر لگا رہا تھا۔ اس کے ننھے منّے پیر پوری طرح جل گئے تھے اور قصائی کی دوکان پر رکھے چھیچھڑوں کے مانند نظر آرہے تھے۔ اس کی جلد پر سے سفید دھاریاں غائب تھیں۔ اس کی دم جل کر ٹوٹ گئی تھی۔ وہ ایک گلہری نہ ہوکر ایک بد نما خارش زدہ اور گندا دم کٹا چوہا نظر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر وہ اسی طرح اچھلتا کودتا رہا پھر خاموش ہوکر فرش پر پڑگیا۔ میں نے دیکھا اس کی آنکھیں غائب تھیں۔ سر کی جلی ہوئی کھال آگے کو لٹک رہی تھی۔‘‘
’’پام کے درخت کی جانب کھلنے والے روشندان سے انجم باجی اور انجم آپا دو بھیگی ہوئی بلیوں کی مانند کود کر اندر آگئیں۔
سفید بلی اور کالی بلی۔
وہ دونوں فرش پر مسکینیت سے بیٹھ کر اسے قتل ہوتا ہوا دیکھ رہی ہیں۔ اس لالچ اور امید میں کہ جب ہڈیاں ابل جائیں تو اس کی بیوی ان کا گودا نکال کر خالی ہڈیوں کو ان کے آگے چوسنے کے لیے ڈال دے۔
وہ آہستہ آہستہ قتل ہورہا ہے۔
اس نے یوں ہی کروٹ سے فرش پر گرے گرے دیکھا کہ انجم کی سفید شلوار میں سے پیروں کے پاس سے خون کی ایک لکیر رینگ کر فرش پر پھیل رہی ہے۔ شلوار کے اندر اس کی بچہ دانی کا منھ اس طرح کھل گیا ہے جس طرح شیر خوار بچہ رونے سے پہلے اپنا معصوم اور صاف ستھرا منھہ کھولتا ہے دانتوں سے پاک ایک پوپلا منھہ۔‘‘
’’دنیا کی نوٹنکی قربان گاہ میں جاری ہے۔ چاقو کے پھل میں لپٹی آنتیں ٹپکتا اور بہتا ہوا خون زمین لال نالیوں میں ۔۔۔ بہتا رکتا لال پانی۔ مجھے کھڑا تماشا دیکھنا ہے۔ ذبح کا تماشا ایک ایسا جادو جس سے دلچسپ اور کشش انگیز دوسرا کوئی کھیل نہیں ہوسکتا۔ جانور کا سرکس طرح اس کے جسم سے الگ ہوجاتا ہے اور ذرا سے فاصلے سے کنارے پر پڑے پڑے اپنے باقی جسم کے ٹکڑے اور بوٹیاں ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اس کے چہرے پر لگی حیرت زدہ آنکھیں کس طرح سب کچھ دیکھتی ہیں۔ یہ رہا گردہ اور یہ کلیجی۔ تازہ خون میں ڈوبے یہ دل یہ پھیپھڑے یہ آینتیں اور اوجھڑیاں اور یہ پائے یہ بھیجا یہ کان یہ کلّا... سب الگ الگ سلیقے سے رکھے ہوئے ہیں۔ چھریوں کے شامیانے تلے سکون اور آرام سے۔‘‘
’’نعمت خانہ‘‘ کے خصوصی حوالے سے بات کی جائے تو اس کے پروٹوگونسٹ و فرسٹ پرسن بیان کنندہ کی زندگی کی کہانی ایک شرم و جھجھک کے بوجھ تلے دبے کمسن بچے سے شروع ہوکر جو وقت سے پہلے بالغوں کی دنیا کا مشاہد بن جاتا ہے اشتہا و شہوت، جرم و سزا، علت و عذاب کے شدید احساسات سے گزرتے ہوئے Adult اور پھر انہدام ، زوال، آمادگی، ویرانی اور موت کے مقابل کھڑے بوڑھے کی داستان پر ختم ہوتی ہے۔ شاید یہی زندگی کی حقیقی کہانی بھی ہے۔ تشکیل و تنظیم سے بکھراؤ، لاتشکیل اور نیستی تک کے سفر کی۔ چناں چہ مصنف کا اپنی ہر آنے والی تخلیق کو ’’موت کی ایک اور کتاب‘‘ کہنا کچھ عجیب نہیں لگتا بلکہ اس سے آگے جاکر اس سے اتفاق کرتے ہوئے انہدام، زوال آمادگی یا موت کو زندگی سے متعلق ان کی تحریروں کا Co-author بھی کہا جاسکتا ہے۔ یوں بھی خالد جاوید کے پروٹوگونسٹ اپنی کہانی جس سفاکیت (Ruthlessness)، Cynicism، اوگھڑ پن اور غیر آرائشی کھردری زمینی زبان میں کہتے ہیں وہ انھیں اردو کے دیگر فکشن نگاروں سے ممتاز بنا دیتا ہے۔ ایسے ہی امتیاز کا حامل ان کے حالیہ ناول ’’نعمت خانہ‘‘ کا موضوع ہے (انسانی وجود کی اس کی آنتوں کی بھوک سے رشتے کی ناگزیت) اور اس سے متعلق مصنف کی آواں گار د سوچ بھی ہے۔ اسی جبلتی بنیادوں پر استوار انسان کے حیوانوں اور فطرت سے قدیم تر رشتے کے گہرے ادراک کو اس ناول میں بے شمار جانوروں (خرگوش، گلہری، بلی، چھپکلی، کاکروچ، کیچوا اور شہد کی مکھی وغیرہ) کی موجودگی کا جواز بھی بنایا جاسکتا ہے۔ مختلف فنی ثقافتوں کے تحت انگریزی کے معروف تمثیلی ناول ’’Animal Josman‘‘ (جس میں جنگل میں پائے جانے والے بڑے جانوروں کو ایک سیاسی Satire کا کردار بنایا گیا ہے) اور اردو میں کرشن چندر کے بچوں کے لیے لکھے ایسے ہی تمثیلی ناول ’’الٹا درخت‘‘ کے علاوہ میری نظر میں کوئی اور فکشنل بیانیہ ایسا نہیں جہاں اتنے جانور کسی انسانی کردار کی زندگی کی سرگزشت کا فطری طور پر حصہ بنے ہوں۔
خالد جاوید کی تحریریں یہ بھی محسوس کراتی ہیں کہ ان میں خلق کی گئی فکشنل کائنات اور اس کے ذی روح اعلیٰ جذبات و افکار کے اظہار یا انسانی رشتوں کی عظمت و رفعت کاا حساس دلانے سے کہیں زیادہ اپنی اس بنیادی سرشت اور جبلّت کا ادراک کرواتے ہیں جو اکثر عمومی ذہنوں پر حاوی بھاری بھرکم تصورات و اقدار کی نفی کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ یا پھر اس امر کو منوانے پر زور کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمیشہ محبت و نفرت، امید و نا امیدی ، حقیقی و تخیلاتی اور معقولیت وغیر معقولیت کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ جو کچھ کرتا ہے یا اس کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے یہ دونوں باتیں کسی دنیاوی یا اخلاقی اصول یا منطق کے مطابق نہیں بلکہ کسی پُراسرار مابعد الطبیعاتی قوت کے زیر اثر وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں جن کا ادراک وہ عقل کے بجائے اپنی چھٹی حس (Intuition) کو بیدار رکھ کر ہی کرسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے حالیہ ناول ’’نعمت خانے‘‘ کے پلاٹ کی بنیاد انھوں نے اپنی اسی فلفسیانہ بصیرت پر رکھی ہے۔ ان کے فکشن کا ذہین قاری یہ محسوس کیے بنا بھی نہیں رہ سکتا کہ وہ اپنے بیانیہ کے توسط سے ایک ایسی دنیا خلق کرتے ہیں جس میں اپنے کرداروں ساتھ وہ خودبھی شامل ہوکر اس کے اسرار و رموز ، زندگی یا موت نیز اپنے وجود کی حقیقت سے متعلق ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں جو ان کے تخلیقی ذہن کو مضطرب رکھتے آئے ہیں۔
کچھ ادبی تخلیقات ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ساتھ ان کے موضوع سے جڑا ایک یکسر نیا فلسفیانہ نقطۂ نظر بھی وجود میں آجاتا ہے۔ ’’نعمت خانہ‘‘ میرے نزدیک ایک ایسی ہی تخلیق ہے۔ یہ حقیقت کی خلق کردہ اس نئی فلسفیانہ فکر کو نہایت کامیابی اور پوری فنکاری سے سامنے لاتی ہے کہ غالباً انسان ذہنی اور روحانی طور پر اپنی آنتوں کے اندر ہی رہتا ہے۔ (یہاں اس فلسفیانہ فکر کا ماخذ بیک وقت مشاہدہ اور چھٹی حس (Intuition) دونوں ہیں۔ ساتھ ہی یہ نقطۂ نظر ایک ہی وقت میں مادی یا بدنی (Body Centric) اور مابعد الطبیعاتی مانا جاسکتا ہے) اتنا ہی نہیں یہ ناول جس سرعت و فنکارانہ چابکدستی سے اپنی یہ غیر معمولی فلسفیانہ بصیرت قاری کو سونپ دیتا ہے یہ فکشن کا ایک ایسا وصف ہے جو صرف بڑی اور اہم تخلیقات سے ہی منسوب رہا ہے اور ایسی بڑی اور اہم تخلیقات تبھی وجود میں آتی ہیں جب کوئی مصنف اپنے تخیل کی تمام تر قوت اپنی خلق کردہ فکشنل دنیا کی اندرونی تہوں تک پہنچنے میں لگادے اور ایسا کچھ ڈھونڈ کر لاسکے جو سچا ہوتے ہوئے بھی، چونکا دینے والا، پراسرار اور آسانی سے یقین میں آنے والا نہ ہو۔
خالد جاوید کی اس ناول کی قرأت کے ساتھ ذہن میں یہ خیال بھی آتا رہا کہ غالباً وہ اپنا فکشن اس انسان کے Behalf پر لکھتے ہیں جو ازل سے زوال کے مقابل کھڑا رہا ہے اور جس کی زندگی کی مملکت ہر بکھراؤ، انہدام اور موت کی حکمرانی ہے۔ چنانچہ نعمت خانے کی کہانی بھی زندگی میں موت کی اور موت میں زندگی کی یاد پر مبنی ہے اور یہاں بھی ایک بار پھر انھوں نے انسانی وجود کے ان دو سرِوں کو تخلیقی طور پر یکجا (Equate) کرنے کی ایک Brilliantکوشش کی ہے۔
میں ’’نعمت خانہ‘‘ کا شمار اردو کے ان چند نمایندہ ناولوں میں کرنا چاہوں گا جو اس کے فکشن کو مغرب کے بہترین فکشن کے ہم پلہ ثابت کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
***
(ج) اخترالایمان نمبر، اڈیٹر: اطہر فاروقی، مبصر: بیدار بخت
اب تک اخترالایمان پر مضامین کی صرف دو کتابیں چھپی تھیں۔ پہلی کتاب محمد فیروز دہلوی کی مرتب کردہ ’اخترالایمان: مقام اور کلام‘ تھی، جس کا پہلا اڈیشن 1997 میں شائع ہوا اور دوسرا ، معمولی اضافے کے ساتھ، 2001 میں۔ دوسرے ایڈیشن میں 15 مضامین اور چار مصاحبوں کے علاوہ اخترالایمان کی نظموں کا انتخاب بھی شامل ہے۔ 44 صفحوں پر پھیلا ہوا یہ انتخاب غالباً خود محمد فیروز دہلوی نے کیا تھا۔ شاہد ماہلی کی مرتب کردہ کتاب ’اخترالایمان، عکس و جہتیں‘ 2000 میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں 29 مضامین اور مصاحبوں کے علاوہ خود اخترالایمان کے پیش لفظ اور کچھ کہانیاں، تصویریں اور خطوط بھی شامل ہیں۔ شمیم حنفی کا مرتب کردہ اخترالایمان کی نظموں کا انتخاب بھی اس کتاب میں ہے جو تقریباً 80 صفحوں کو محیط ہے۔ ان دونوں کتابوں کے اکثر مضامین پہلے ہی شائع ہو چکے تھے۔
اخترالایمان صدی کی تقریبات کے سلسلے میں انجمن ترقی اردو (ہند) نے اپنے سہ ماہی مجلّے ’اردو ادب‘ کا ایک ضخیم ’اخترالایمان نمبر‘ مارچ 2016 میں شائع کیا۔ اس مجلے میں محمد فیروز دہلوی اور شاہد ماہلی کی مرتب کردہ کتابوں سے بھی کچھ مضامین نقل کیے گئے ہیں۔ان میں پانچ ایسے مضامین بھی ہیں جو ان دونوں ہی کتابوں میں شامل ہیں۔ ان مضامین کو اخترالایمان پر شائع ہونے والی ایسی ہر کتاب میں شامل ہونا چاہیے جس میں ان کے فن و شخصیت پر مضامین شامل ہوں۔
’اردو ادب‘ کے ’اخترالایمان نمبر‘ میں 24 مضامین بالکل نئے اور خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ’اخترالایمان نمبر‘ میں نظموں کا انتخاب شاید اس لیے نہیں ہے کہ اخترالایمان کی نظموں کے کئی انتخاب پہلے ہی شائع ہو چکے ہیں۔ دو تو وہی ہیں جو محمد فیروز دہلوی اور شاہد ماہلی کی کتابوں میں شامل ہیں۔ ایک انتخاب شمس الرحمن فاروقی کا ہے جو 1994 میں شائع ہوا تھا، اور ایک زبیر رضوی کا انتخاب ہے جو ’ذہنِ جدید‘ کے آخری شمارے کے ’گوشۂ اخترالایمان‘ میں حال ہی میں شائع ہوا تھا۔ (ابھی تک جی نہیں چاہتا کہ زبیر رضوی کو مرحوم لکھوں۔) میرا انتخاب ’درد کی حد سے پرے‘ کے عنوان سے ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی نے 2000 میں چھاپا تھا۔
شمس الرحمن فاروقی کا مضمون حاصلِ شمارہ ہے۔ ’باقیاتِ اخترالایمان‘ کی ایک کاپی میں نے انھیں 14 فروری2016 کی شام کو دی تھی جس سے پہلے انھوں نے یہ کتاب نہیں دیکھی تھی۔ اور 17 فروری 2016 کو اطہر فاروقی نے جب مجھ سے ممبئی میں فون پر بات کی تو یہ بھی بتایا کہ فاروقی صاحب نے ’اردو ادب‘ کے اخترالایمان نمبر کے لیے ایک مضمون لکھا ہے۔ مضمون دیکھنے پر پتا چلا کہ انھوں نے ’باقیاتِ اخترالایمان‘ کے اندرجات سے بھی استفادہ کیا ہے۔ یہ تو میں جانتا تھا فاروقی صاحب کے پڑھنے اور لکھنے کی رفتار بہت تیز ہے مگر مجھے یہ علم نہیں تھا کہ اس قدر تیز ہے۔ دوڈھائی دن میں کوئی تین سو صفحے کی کتاب پڑھ لینا اور 29 صفحے کا مضمون لکھنا (خواہ اس میں بہت سے صفحے پہلے کے لکھے ہوئے ہوں) حیران کن کارنامہ ہے۔
خدا جانے فاروقی صاحب نے اخترالایمان کے’پتھر کے صنم‘ والے دو مصرعے کہاں پڑھے یا سنے تھے۔ میں نے پہلی بار انھیں ابن صفی کے جاسوسی ناول ’قاتل سنگ ریزے‘ میں پڑھا تھا، جس میں فریدی حمید سے کہتا ہے، ’’خدا کی قسم بڑا پیارا شعر کہا ہے ندیم (کذا) نے: اب یہ سوچا (کذا) ہے کہ پتھر کے صنم پوجوں گا، تاکہ گھبراؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں۔‘‘ جب میں نے 1964 میں ایک روپے والی سٹار پاکٹ بک سے شائع ہونے والا ’یادیں‘ کا اڈیشن پڑھا تو ابنِ صفی کی غلطی کا احساس ہوا۔
نظموں کے تجزیے کا سلسلہ بہت دلچسپ ہے اور جاری رہنا چاہیے۔ اخترالایمان کی نظم ’موت‘ کے تجزیے کا حق صرف خالد جاوید کو ہے جن کی ’موت کی کتاب‘ میری پسندیدہ کتاب ہے۔ ایسی کتابیں اردو میں کم ہی لکھی گئی ہیں۔ نظم ’موت‘ کا تجزیہ بہت اچھا ہے۔ یہ صرف خالد جاوید ہی کہہ سکتے تھے کہ ’’یہ نظم اتنی ہی پر اسرار ہے کہ جتنی ’موت‘ پر اسرار ہوتی ہے‘‘۔ اس تجزیے کا اختتام انھوں نے اس غیر معمولی جملے سے کیا ہے، جسے صرف کوئی صوفی، سادھو یا سنت ہی لکھ سکتا تھا: ’’یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ مرنا نہیں چاہتے کیوں کہ انھیں جینا نہیں آتا۔‘‘ میں نے کسی اردو نظم کا اس سے اچھا تجزیہ کبھی نہیں پڑھا، میراجی کا بھی نہیں۔
سراج اجملی کا ’کل کی بات‘ کا تجزیہ بھی خوب ہے۔ ایک مصرع میں کتابت کی غلطی در آئی ہے: ’ہم سے دور ابّا اسی کمرے کے اک کونے میں‘ والے مصرع میں ’ہم سے‘ چھوٹ گیا ہے۔ کوثر مظہری نے لکھا ہے کہ ’’اخترالایمان نے مسجد کو اسلامی حمیت اور ایمانی قوت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے‘‘۔ ایک پہلو سے یہ بات ٹھیک ہے مگر میرے خیال میں نظم کی خوبی یہ ہے کہ نظم میں ’مسجد‘ نہ صرف اسلام کی بلکہ سب مذہبی عقیدوں کی علامت ہے۔ نظم ’ایک لڑکا‘ کا تجزیہ پہلے بھی کئی لوگوں نے کیا ہے۔ شہناز نبی کا تجزیہ اچھا تو ہے، مگر اس میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی جو پہلے نہ کہی جاچکی ہو۔
اطہر فاروقی نے اپنا مضمون ’پہلا ورق‘ کے طور پر لکھا ہے۔ ’اردو ادب‘ میں یہ عنوان اداریے کے لیے مخصوص ہے۔ اداریہ ہونے کے باوجود اطہر فاروقی کا یہ مضمون بہت دلچسپ اور اس سے اخترالایمان کی زندگی کے کچھ ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جو پہلے مخفی تھے۔
مجھے خوشی ہے کہ ارجمندآرا کو اخترالایمان کو پڑھنے کا ویسا ہی چسکا لگ گیا جیسا ’’اسکول کے زمانے میں ابن صفی [کو] پڑھنے کا لگا تھا‘‘۔ میں تو دونوں کی تحریروں کا تریاکیِ قدیم ہوں۔ ارجمند آرا کا مضمون احمد محفوظ کے مضمون کی طرح ڈگر سے ہٹ کر ہے، اور دونوں پڑھنے کے لائق ہیں۔
جب سے اخترالایمان نے ’بازآمد‘ کے رمضانی قصائی کو ’بنتِ لمحات‘ کے پیش لفظ میں وقت کی علامت لکھا ہے اور ایک بیان میں ruthless time کا symbol بتایا ہے، بیچارے رمضانی قصائی کی شامت آگئی ہے۔ ہر ایک اس کو بے رحم وقت کی علامت لکھتا ہے۔ قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے بھی اپنے مضمون ’اخترالایمان کی عشقیہ شاعری‘ میں اس کو وقت کی ستم ظریفی کا استعارہ بتایا ہے۔ اگر رمضانی قصائی وقت کی علامت ہے تو بھی اسے مہربان وقت کی علامت اس لیے ہونا چاہیے کہ وقت نے ایک المیے کو خوشی کے موقع میں بدل دیا۔ گویا زخم پر پھاہا رکھ دیا۔ شاعر کے اپنے شعر کی تشریح سے شعر سمجھنے میں مدد تو ملتی ہے، مگر بعض دفعہ اس کا بیان شعر کے معنی کو محدود بھی کر سکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو رمضانی قصائی ’ظالم سماج‘ کی علامت بھی ہو سکتا جس نے نظم کے واحد متکلم کو اس کی محبوبہ سے شادی کرنے پر روکا ہوگا۔ اسی طرح وہ آگہی کی علامت بھی ہو سکتا ہے جو انسان کو بتاتی ہے کہ ایک فصل کا کٹ جانا کوئی ایسا بڑا المیہ نہیں ہے۔ ایک فصل کٹنے کے بعد ہی دوسری تیار ہوتی ہے جو ارتقا کے ناگزیر عمل کا حصّہ ہے۔ بر سبیلِ تذکرہ ’بازآمد‘ کی حبیبہ کو اخترالایمان کی زندگی سے مربوط کرنا مناسب نہیں ہے۔ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تھا تو انھوں نے کہا کہ حبیبہ کا نام صرف اس لیے استعمال کیا ہے کہ اس کے لغوی معنی معشوقہ ہیں۔
سرور الہدیٰ کے دونوں مضمون اچھے ہیں، مگر ’اخترالایمان کے ناقدین‘ کی خاص اہمیت ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے ان تمام سکہ بند ناقدوں کی تحریروں کا اچھا جائزہ لیا ہے جنھوں نے اخترالایمان کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے۔صرف عزیز قیسی سکہ بند نقاد نہیں تھے مگر ان کی تنقیدی بصیرت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سرور الہدیٰ تو بہت لکھاڑ ہیں۔ وہ اگر تھوڑی سی محنت اور کریں تو اس طویل مضمون کو کتاب کی شکل دے سکتے ہیں جس میں ان ناقدین کا ذکر بھی ہو سکتا ہے جو مضمون میں چھوٹ گئے ہیں۔ مثلاً عقیل احمد صدیقی (ان کا مضمون زیرِ تبصرہ مجلے میں شامل ہے)، زاہدہ زیدی (رموزِ فکر و فن، ۱۹۹۳)، فضیل جعفری (صحرا میں لفظ، 1994)۔ اور پھر کچھ کتابیں بھی ہیں جو صرف اخترالایمان کی شاعری سے متعلق ہیں۔ میرے کتب خانے میں یہ کتابیں ہیں: شفیع ایوب کی کتاب ’گرداب: ایک مطالعہ‘، شمشاد جہاں کی ’اخترالایمان کی نظم نگاری‘، خواجہ نسیم اختر کی ’اخترالایمان، تفہیم و تشخص‘، اور محمد آصف زہری کی ’اخترالایمان کی دس نظمیں: تجزیاتی مطالعہ‘۔ اور پھر اخترلایمان نمبر کے کئی اور مضامین بھی ہیں جن کا ذکر اس کتاب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
ناصر عباس نیّر کا مضمون ’اخترالایمان کی نظم میں جلا وطنی کا اظہار‘ اس شاعر کے شعر کی تفہیم کی نئی جہت پیش کرتا ہے، جس سے اتفاق کرنے میں مجھے قدرے تامل ہے مگر ان کے اس جملے سے اختلاف کرنے میں مجھے کوئی تکلّف نہیں ہے کہ ’’اخترالایمان نے خاصی کمزور آپ بیتی لکھی ہے‘‘۔
اخترالایمان کا تخلیقی سفر فلمی ادب میں بہت اہم مقام کا حامل ہے جسے لوگ ’کم تر ادب‘ کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر منوج پنجانی کا مضمون اخترالایمان کی اس نظر انداز کی ہوئی جہت سے متعارف کرانے میں بہت مدد گار ثابت ہوگا۔ ویسے ان کا یہ بیان غلط ہے کہ اخترالایمان نے فلمی گانے کبھی نہیں لکھے۔ فلم ’بکھرے موتی‘ کے اشتہار کا عکس منسلک ہے جو اخترالایمان، میراجی اور مدھو سودن کے رسالے ’خیال‘ کے جنوری 1949 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ جیسا کہ اس اشتہار میں درج ہے کہ اس فلم کے گانے اخترالایمان لکھنے والے تھے۔ ’خیال‘ کے جون 1949 کے شمارے میں اس فلم کا اشتہار پھر چھپا مگر اس بار گانے اخترالایمان اور خمار بارہ بنکوی کے تھے۔ اخترالایمان نے صرف دو گانے لکھے تھے۔ ان میں سے ایک گانا HMV کے دس کیسیٹوں کے سیٹ ’یادوں کی منزل‘ میں ہے۔ اخترالایمان نے مجھے بتایا کہ جب وہ فلم کا گانا لکھنے بیٹھتے تھے تو گاڑی ’’چل چل چمیلی باغ میں گڈّی اڑائیں گے‘‘ سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔
فیروز دہلوی نے یہ درست لکھا ہے کہ 2000 یا اس سے کچھ پہلے میں نے، سلطانہ ایمان صاحبہ سے مشورہ کر کے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ’باقیاتِ اخترالایمان مرتب دیں۔ اور اس سلسلے میں انھیں کچھ مواد بھی دیا تھا مگر جب دس بارہ سال بعد بھی وہ کتاب پر کام نہ کرسکے تو میں نے فیصلہ کیا کہ یہ کتاب میں خود مرتب کروں۔ تب ہی یہ فیصلہ بھی کیا کہ اخترالایمان کی تین ڈائریوں سے کچھ اقتباسات بھی ’باقیاتِ اخترالایمان‘ میں شامل کر لیے جائیں۔ یہ ڈائریاں سلطانہ ایمان صاحبہ نے مجھے دی تھیں جو میں نے اپنی دوسری کتابوں کے ساتھ یونیورسٹی اوف ٹورونٹو کی لائبریری کو دے دی ہیں۔ واضح رہے کہ سب کتابیں اور ڈائیریاں، ہمارے باہمی معاہدے کے مطابق، ہیں تو یونیورسٹی اوف ٹورونٹو کی ملکیت مگر تا حیات میری تحویل میں رہیں گی۔ فیروز دہلوی نے ’ارددو ادب‘ کے قارئین سے درخواست کی ہے کہ وہ انھیں اخترالایمان کی ایسی منظوم تخلیقات بھیج دیں جو ’کلیاتِ اخترالایمان‘ اور ’باقیاتِ اخترالایمان‘ میں شامل نہیں ہیں۔ مجھے خوشی ہوگی اگر فیروز دہلوی ’بقیہ باقیاتِ اخترالایمان‘ مرتب کر سکیں۔ اپنے مضمون میں انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’خیال‘ اور دوسرے رسالوں کی مکمل فائلیں کہیں دستیاب نہیں ہیں۔ یہ بیان درست نہیں کیوں کہ خدابخش لائبریری میں ’خیال‘ کی پوری فائل موجود ہے۔ اس فائل کا عکس میں نے اسی لائبریری سے لیا تھا۔
’باقیاتِ اخترالایمان‘ پر میں نوشاد منظر کے مضمون کی تعریف کیسے کر سکتا ہوں جب کہ انھوں میری بہت حوصلہ افزائی کر دی ہے۔
اطہر فاروقی سے شرمندہ ہوں کہ ’توقیتِ اخترالایمان‘ میں ان کی ڈوکیومنٹری کا ذکر نہیں کر سکا۔ یہ واقعہ ہے کہ یہ ڈوکیومنٹری میں نے ابھی تک نہیں دیکھی۔
’دستاویز‘ میں کئی اہم مضامین شامل ہیں۔ میں گوپی چند نارنگ کی تحریر بہت شوق سے پڑھتا ہوں مگر اخترالایمان والا مضمون میری نظر سے پہلے نہیں گزرا۔ ان کا موقف ہے کہ ہر شعر میں کہانی کا عنصر ہوتا ہے۔ اس موقف کی توضیح کے لیے اخترالایمان کی نظموں سے بہتر اور کوئی مثال آسانی سے نہیں مل سکتی۔
’اردو ادب‘ کے اخترالایمان نمبر کو کچھ اضافے کے ساتھ ایک کتابی شکل میں شائع کرنا چاہیے۔ میرا مشورہ ہے کہ مندرجۂ ذیل مضامین، ایک نظم اور ایک مصاحبہ، اس کتاب میں شامل کر لیے جائیں جو محمد فیروز دہلوی اور شاہد ماہلی کی کتابوں میں شامل نہیں ہیں، سواے جمیل الدین عالی کے خاکے کے۔
(1) جمیل الدین عالی کا اخترالایمان پر خاکہ اس کی تاریخی حیثیت کی بنا پر شامل کرنا چاہیے۔ عالی صاحب نے اس مضمون کی کاپی پر میرے لیے اپنے ہاتھ سے یہ لکھا تھا: ’’یہ مضمون ’نیا دور‘ کراچی کے لیے 1955-56 میں لکھا گیا تھا۔ بہ عجلت، یک نشستی، غیر محتاط، ناپختہ مگر کوئی بات غلط نہیں لکھی۔ جمیل الدین عالی، ٹورانٹو، 12 جولائی 2000۔‘‘ عالی صاحب نے غالباً یہ اس لیے لکھا تھا کہ اخترالایمان کو عالی کا مضمون شاید اس لیے بالکل پسند نہیں تھا کہ اس میں عالی نے کچھ ایسے جملے لکھے تھے جو اخترالایمان کی نرگسیت کو گوارہ نہیں تھے۔ اخترالایمان میں تھوڑی بہت نرگسیت تو تھی ہی جو ان کی ڈائری کے اقتباسات میں نظر آتی تھی۔ اپنے مضمون میں عالی نے انھیں ’بد صورت اور غریب طالبِ علم‘ لکھا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ان کے بے تکلف دوست انھیں ’بلیک جاپان‘ کہتے تھے۔
(2) اخترالایمان سے آخری ملاقات، باقر مہدی کی نظم، ’ترسیل‘، اپریل 1996۔
(3) اخترالایمان سے ایک ملاقات، مصاحبہ یونس اگاسکر اور یعقوب راہی کے ساتھ۔ ’ترسیل‘، اپریل 1996۔
(4) اخترالایمان کا انفرادی آہنگ، منظر اعجاز، اردو دنیا، نومبر 2015۔
(5) اخترالایمان کا نظمیہ افق، کرشن بھاوک، اردو دنیا، نومبر2015۔
(6) اخترالایمان کی شاعری میں قومی یکجہتی کا تصور، صدیق محی الدین، اردو دنیا، نومبر 2015۔
(7) اخترالایمان، رومانیت سے آگے کا سفر، یوسف رامپوری، اردو دنیا، نومبر2015۔
(8) روحِ کرب کا بیانیہ، محمد امتیاز احمد، اردو دنیا، نومبر2015۔
’اردو ادب‘ کا اخترالایمان نمبر اب تک اس شاعر کی زندگی اور شاعری پر سب سے مفصل اور اچھی دستاویز ہے جس کے لیے رسالے کے مدیرِ اعلا صدیق الرحمن قدوائی، مدیر، اطہر فاروقی، اور معاون مدیر، سرور الہدیٰ صاحبان مبارکباد کے مستحق ہیں۔
***
مشمولہ اردو ادب اپریل تا جون اپریل تا جون 2016
بشکریہ اطہر فاروقی
1 تبصرہ:
اچھا تبصرہ ہے "آخری سواریوں" پر - کیا ہی اچھا ہو کہ اشاعت گھر کا تذکرہ بھی ہو تا کہ اسکی دستیابی میں آسانی ہو جائے.
ایک تبصرہ شائع کریں