جمعہ، 29 جولائی، 2016

تمہید و مقدمہ (کلیات غلام عباس)/ندیم احمد



تمہید

غلام عباس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ’’آنندی‘‘مکتبہ جدید ،لاہور سے پہلی بار اپریل ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا ۔اس کے بعد اس مجموعے کی کسی اشاعت کا مجھے کوئی علم نہیں۔ان کا دوسرا مجموعہ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘جولائی۱۹۶۰ء میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔اور اس کے متعدد ایڈیشن ۱۹۸۰ء تک شائع ہوتے رہے۔عباس صاحب کا تیسرا اور آخری مجموعہ’’کن رس‘‘دسمبر ۱۹۶۹ء میں پہلی دفعہ لاہور سے شائع ہوا اور اغلب ہے کہ یہ اس کا واحد ایڈیشن تھا۔پاکستان میں وقفے وقفے سے ان کے افسانوں کے متعدد انتخابات بھی شائع ہوتے رہے لیکن ہندوستان میں غلام عباس کا ذکر بہت کم ہوا۔کم سے کم مجھے تو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ ہندوستان سے ان کے افسانوں کا کوئی مجموعہ یا انتخاب شائع ہوا ہو۔ہندوستان میں’آنندی‘ کے سوا غلام عباس کا کوئی بھی افسانہ عام اردو والوں کی دسترس میں نہیں۔۶۰ کی نسل نے تو عباس صاحب کو پڑھا بھی تھا لیکن ۸۰ کے بعد اردو میں جو نسل سامنے آئی اسے’’ کہانی کی واپسی ‘‘نے ایسا پاگل کر رکھا تھاکہ عباس صاحب جیسا غیر معمولی قصہ گو بھی ان کی نظروں سے اوجھل رہا۔’آنندی‘کو تو ہماری درسگاہیں بچا لے گئیں ورنہ اس کا بھی وہی حال ہوتا جو عباس صاحب کے دوسرے افسانوں کا ہوا۔
ہندوستان میں افسانہ ’آنندی ‘دستیاب تو ہے لیکن اس کا متن نہایت ہی ناقص اور غیر تشفی بخش ہے۔اس معاملے میں پاکستان بھی ہم سے پیچھے نہیں۔وہاں سے شائع ہونے والے انتخابات کا حال تو اتنا پتلا ہے کہ عباس صاحب کا افسانہ’’غازی مرد‘‘،’’نمازی مرد‘‘بن گیا ہے۔
عباس صاحب جیسے بڑے افسانہ نگار کے متعلق اسی غیر محتاط روئیے نے مجھے ان کے افسانوں کو جمع کرنے اور ان کا درست متن تیار کرنے پر مجبور کیا۔مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ غلام عباس کے افسانوں کی ایک نئی دنیا ہمارے سامنے آئے گی۔
افسانوں کے متن کو ہر طرح سے معتبر بنانے کے لئے ضروری تھا کہ غلام عباس صاحب کے تمام افسانوی مجموعوں کے ان اولین نسخوں کو حاصل کیا جائے جو خود غلام عباس صاحب کی نگرانی میں شائع ہوئے تھے۔چنانچہ میں نے وہ تمام نسخے حاصل کئے اور ان کی روشنی میں متن تیار کیا۔ہندوستان میں شاید میں واحد آدمی ہوں جس کی ذاتی لائبریری میں یہ تمام نسخے اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔
تحقیق کے جدید رویوں کے مطابق میں نے کلیات کو مجموعے کے اعتبار سے ترتیب دیاہے تاکہ کتاب حوالے کے طور پر استعمال کی جاسکے اور نو دریافت افسانوں کو ایک الگ باب کے تحت رکھا ہے ۔
شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مجھے اپنے مشوروں سے نوازااور کتاب کے پس سرورق کے لئے رائے لکھی۔ان کی شفقتوں کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔کام کے دوران آصف فرخی،فضیل جعفری،شمیم حنفی،ابوالکلام قاسمی اورانیس اشفاق صاحب سے میری گفتگو ہوتی رہی ۔میں نے ان کے مشوروں سے فائدہ اٹھایا اور ان لوگوں کاشکر گزار ہوں۔
استاد محترم پروفیسر شہناز نبی صاحب نے ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھا یا ۔ان کے احسانات بے شمار ہیں مجھ پر۔میرے دوست احمد اقبال صدیقی نے کتاب کا دیدہ زیب سرورق تیار کیا جس کے لئے میں ان کا شکر گزار ہوں۔عزیزشاگردمحمد شہنواز عالم نے کتاب کے بعض حصوں کے پروف پڑھے اورڈاکٹرتسلیم عارف نے کتاب کے بعض حصے کی حرف کاری کی ان لوگوں کے لئے دل سے دعاء نکلتی ہے۔کتاب کی تکمیل میں میری شریک حیات انجم آراء نے میری کافی معاونت کی اور میرے ہر کام کواپنی توجہ سے آسان بنایا،لیکن وہاں کا معاملہ درد دل ہے۔

ندیم احمد

***

مقدمہ

غلام عباس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سب کے لئے افسانے نہیں لکھے۔ یہ بیان نظریوں کو سینے سے لگائے اور قدم قدم پر گم شدہ قاری کی تلاش میں سرگرداں ناقدوں کے لئے خاصہ پریشان کن ہے۔ پابند ادبی سیاست کے زیر اثر Politically Correct بیانات دینے کے ہم ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ فساد خلق کا خطرہ دیکھتے ہی آئیڈیالوجی کا سہارا ڈھونڈنے لگتے ہیں خواہ اس کے نتیجے میں لفظوں کے مرکبات اور ان میں موجود تجربوں کی شکل مسخ ہی کیوں نہ ہوجائے۔ سب کے لئے افسانے لکھنا یا ایسے افسانے لکھنا جسے پڑھ کر ناتیار (Unprepared) قاری بھی رواں ہوجائے میرے خیال میں بڑا غبی فعل۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ میں متن کے باہر قاری کے وجود سے انکاری ہوں یا متن کی تفہیم کے لئے کسی عقلیت کوش بورژوازم کا حمایتی۔ بات صرف اتنی ہے کہ آرٹ کے بغیر قاری کا وجود ممکن نہیں۔ فن کار اس لئے نہیں لکھتا کہ اسے کیسے اور کتنے قاری میسر آئیں گے۔ تخلیق کا اندرونی عمل تو اسے یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ منشائے مصنف اور متن کی پُراسراریت کے نتیجے میں معنی کی غیر قطعیت کے درمیان ایک پیکار کا عمل ہوتا ہے جو مسلسل جاری رہتا ہے۔ رن کی اس صورت میں فن کار کو یہ مہلت ہی نہیں ملتی کہ وہ فرضی چیزوں پر اپنی توجہ صرف کرے اور تخلیقی عمل کی Originality کو خود اپنے ہاتھوں سے تہس نہس کردے۔ متن بناتے وقت ادیب کو خارجی اشیا سے بھی لڑنا پڑتا ہے اور اپنے آپ سے بھی۔ مشرقی شعریات نے عینی متن The Ideal Text کے متعلق اس حقیقت کو بہت پہلے پا لیا تھا البتہ مغربی تنقید کو اس نکتہ تک پہنچنے کے لئے والیری کا انتظار کرنا پڑا ۔ والیری کہتا تھا:
IL FANT TENTER DE VIVSE
والیری کی طرح ملارمے بھی تخلیقی عمل کو نتائج سے الگ رکھ کر دیکھتا تھا۔ ادیبوں کے ایک اجتماع کے موقع پر کہی گئی نظم ’سلام‘ Salutation میں وہ کہتا ہے:
NOTHING! THIS FORM AND VIRGIN VERSE
TO DESIGNATE NOUGHT BUT THE CUP
SUCH FAR OFF THERE PLUNGES A TROOPS
OF MANY SIRENS UPSIDE DOWN

WE ARE NAVIGATING. MY DIVERSE FRIENDS

ALREADY ON THE POOP YOU THE SPLENDID
PROW WHICH CUTS THE MAIN OF THUNDERS AND OF WINTERS

A FINE CLARITY CALLS ME WITHOUT FEAR OF ITS ROLLING TO CARRY UPRIGHT THIS TOAST

SOLITUDE IT WAS THAT WAS WORTH
OUR SAIL'S WHITE SOLICITTED
عسکری صاحب کی مانیں تو ملارمے نے نظم کی پہلی سطر میں ہی کہہ دیا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ یعنی یہ ساری نظم ایک کھیل ہے لیکن اس نظم کی طرح فنی تخلیق کا آغاز بھی اسی ’’کچھ بھی نہیں‘‘ اسی کھیل سے ہوتا ہے ۔ آج کل کچھ نقاد ایسے بھی ہیں جو فن کے سلسلے میں کھیل کانام سن کر بگڑ جاتے ہیں اور فوراً یہ سمجھانا شروع کردیتے ہیں کہ کھیل کا نفسیاتی مطلب کیا ہے اور انسان کے لئے اس کی حیاتیاتی اہمیت کتنی ہے۔ لیکن فن کار یہ سوچ کر لکھنے نہیں بیٹھتا کہ اس وقت مجھے انسان کی ایک زبردست خدمات انجام دینی ہے۔ اس کی تخلیقی سرگرمی کے نتائج انسانیت کے لئے کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں تخلیقی لمحے میں اسے نتائج سے سروکار نہیں ہوتا۔ عشق کرنے سے پہلے آدمی یہ نہیں سوچا کرتا کہ نسل انسانی کی افزائش میرا فرض ہے۔ فن کار بھی ایک تخلیقی شہوت کے پنجے میں گرفتار ہوتا ہے وہ اس کھیل کے لطف کی خاطر اپنے آپ کو اس تحریک کے حوالے کردیتا ہے۔ اس معاملے میں فن کار کی حیثیت کچھ عورت کی سی ہے۔ برسوں کے دکھ تخلیقی لمحے کی لذت میں تحلیل ہوکے رہ جاتے ہیں۔ اس کھیل کی مسرت میں فن کار کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کون سی اذیت اپنے سر لے رہا ہے۔‘‘ غلام عباس نے بھی یہ اذیت اپنے سر لی ہے وہ جان بوجھ کر افسانہ لکھتے ہیں۔ ملارمے نے تخلیقی عمل کو باقاعدہ ریاضت بنا دیا تھا۔ غلام عباس کے بارے میں ایسی کوئی بات تو نہیں کہی جاسکتی لیکن انسانی ذہن کے کسی عمل کو رد کئے بغیر روز مرہ کے تجربات میں حقیقت کی تلاش ان کے افسانے کو عام انسانی سطح سے بہت بلند کردیتی ہے۔ وہ تجربات سے نہیں جھینپتے اور نہ ہی خواب دیکھنے سے بلکہ انہی کے ذریعہ ان کا تخئیل حرکت میں آتا ہے۔ فن میں جو حقیقت ہے اس کے مقابلے میں اور حقیقتیں صر ف ایک سایہ ہیں، غلام عباس کو بھی اس کا احساس ہے۔ چنانچہ حقیقت میں ڈوب جانے کے لئے کبھی تو افسانے میں انہیں روز مرہ کی حقیقت سے تھوڑے وقفے کے لئے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور کبھی ساری حقیقتیں متن کی سطح پر ایک ساتھ چلنے لگتی ہیں۔ جو لوگ افسانے میں حقیقت، موضوع، خیال یا جذبے کی وحدت کو فوراً پا لینا چاہتے ہیں انہیں غلام عباس کے افسانے ہیٹے معلوم ہوں گے۔ دراصل وحدت ان کے یہاں جلدی سے نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ منٹو اور بیدی کی طرح اچھے افسانے لکھنے کے باوجود انھیں وہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی جس کے وہ مستحق تھے۔ عسکری صاحب نے ایک موقعہ پر یہ بات کہی تھی:
عام طور پر افسانے کے متعلق جو تنقیدی مضامین لکھے جاتے ہیں ان میں عباس کا ذکر بھولے بھٹکے ہی ہوتا ہے۔ مضمون نگار ذرا باخبر یا ستھرے ذوق کا ہو تو اس نے ان کے متعلق کچھ لکھ دیا، ورنہ غائب مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی درست ہے کہ انفرادی طور سے ان کے دو تین افسانے مقبول بھی ہوئے اورمشہور بھی ہوئے بلکہ آنندی کا شمار تو اردو کے مشہور ترین افسانوں میں ہوتا ہے۔ اگر آ پ ادب سے سنجیدہ دلچسپی رکھنے والے کسی آدمی سے پوچھیں کہ تمہیں کون کون سے افسانے اب تک پسند آئے ہیں تو وہ آنندی کا نام ضرور لے گا۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غلام عباس مجموعی طور سے مقبول نہیں ہیں ، مگر ان کے بعض افسانے بہت مقبول ہیں۔ اگر ہم اس تضاد کی وجہ معلوم کرلیں تو ہم غلام عباس کے فن کی خصوصیت کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔
جدید ناقدوں میں فضیل جعفری نے بھی غلام عباس کے آرٹ کو ایک عرصے تک نظر انداز کئے جانے کی بات کہی ہے۔ اپنی کتاب ’آبشار اور آتش فشاں‘ میں انہوں نے عباس پر بڑا زبردست مضمون باندھا ہے۔فضیل صاحب منٹو، کرشن چندر، بیدی اور عصمت کے ساتھ غلام عباس کا نام لینا پسند کرتے ہیں۔ انہیں عباس کی تکنیک اور کردار نگاری سے دلچسپی ہے۔ ’سیاہ و سفید‘،’ بھنور‘، ’سایہ‘، ’غازی مرد ‘اور ’مردہ فروش ‘کے کرداروں کی خارجی زندگی اور داخلی پہلوؤں پر فضیل صاحب نے جو گفتگو کی ہے اس کی توقع صرف فضیل جعفری یا پھر فاروقی صاحب جیسے بڑے ناقدوں سے ہی کی جاسکتی ہے۔ تکنیک اور کردار نگاری غلام عباس کی طاقت ہیں مگر ان کے فن پر نظری گفتگو کرتے وقت کچھ اور باتیں بھی بڑی توجہ طلب ہیں۔ غلام عباس نے ۳۶ء کی تحریک سے تقریباً آٹھ دس سال پہلے لکھنا شروع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاسی، معاشی، سماجی اور نفسیاتی پیچیدگیاں پردے ہی پردے میں نشوونما پارہی تھیں اور اب تک واضح نہ ہوپائی تھیں۔ نفرت اور محبت کے مرکز اب تک معین نہیں تھے ۔ ادیبوں کے یہاں بغاوت یا بیزاری کا یہ عالم نہ تھا کہ وہ اپنا اصل کام چھوڑ کر چند چیزوں کے خلاف اور دوسری چند چیزوں کے حق میں لکھنا شروع کردیں یعنی نفرت اور محبت کے لئے چند چیزیں چن لیں اور پھر نظریے کی تھیلی میں بند کر کے ان چیزوں کو لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ الحمرا کے افسانے سے چل کر جزیرۂ سخنوراں اور پھر آنندی تک آئیے غلام عباس نے نظریے کا جھنجھٹ ہی نہیں پالا۔ نظریے بازی نے ان کے یہاں وہ پیچیدگی پیدا نہیں کی جو ہمیں کرشن چندر کے یہاں ملتی ہے۔ غلام عباس نے دوسرے معاصرین کے علی الرغم آئیڈیالوجی اور اس کے زیرِ اثر جعلی موضوعات سے اپنے افسانے کو الگ تھلگ رکھا ہے۔ وہ ان ادیبوں میں سے نہیں ہیں جو لکھنے سے پہلے ایسے موضوع چنتے ہیں جن کے متعلق وہ پہلے ہی سے فرض کرلیتے ہیں کہ یہ ان کے مقاصد کے لئے مناسب اور موزوں ہیں۔ فارمولے کے تحت ایسے افسانے لکھنا جن سے ایک قسم کی جمالیاتی سنسنی پیدا ہوسکے، میرے خیال میں بڑا کمزور اور غیر دلچسپ کام ہے۔ ۳۶ء کی تحریک کے فوراً بعد قائم ہونے والے بہت سے جدید افسانہ نگاروں کے اسی رویہ کے متعلق عسکری صاحب نے کہا تھا:
جدید افسانہ نگاروں نے افسانے کا ایک فارمولا تیار کرلیا ہے۔ اسی کے مطابق وہ اپنے افسانے گڑھتے ہیں۔ اس فارمولا کا مقصدیہ ہے کہ ایک قسم کی جمالیاتی سنسنی پیدا ہوسکے ۔ کہیں ایک گھنٹی سی بجتی ہے لیکن اتنی مدھم اور مبہم آواز سے کہ بس کان میں ایک بھنک سی سنائی دیتی ہے۔ یہ آواز اس سے زیادہ بلند نہیں ہونی چاہیے۔ فیشن کا تقاضا ہے کہ یہ آواز کئی بے آواز رموز کے پردوں میں لپٹی ہوئی ہو۔ بس ہلکی سی ٹن کی آواز آنی چاہیے۔ پڑھنے والوں کا ردِّعمل بھی اب بہت مخصوص اور محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جدید افسانے پڑھتے ہوئے بس یہ دیکھ لینا کافی ہے کہ وہ وضعی اعتبار سے درست ہیں یا نہیں۔ یہ پوچھنا مشکل ہوگیا ہے کہ وہ واقعی لکھنے کے قابل بھی تھے یا نہیں۔ جدید افسانوں میں زندگی کے متعلق ایک بہت ہی مخصوص و محدود اور غیر اہم رویہ ملتا ہے۔ انھیں پڑھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بس زندگی کا سارا مقصد ہی کوئی ایسا واقعہ فراہم کرنا ہے جو ایک مختصر سے نقش میں ٹھیک بیٹھ سکے اور اس نقش کا مقصد افسانہ نگار کو کوئی چھوٹا سا چست خیال فراہم کرنا ہے، جسے وہ اخلاقی سبق کے طور پر افسانے کے آخر میں چپکاسکے۔* 

اخلاقیات سے پیچھا چھڑانا تو فن کا رکے لئے ممکن نہیں لیکن اس لفظ کو چھوٹے سے چھوٹے اور تنگ سے تنگ معنوں میں استعمال کر کے ناتیار (Unprepared) قاری کے لئے سامان تفریح فراہم کرنا ایک نہایت ہی غیر ادبی کام ہے۔ اخلاقی رشتے حقیقت کا حصہ ہیں بلکہ سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ غلام عباس کو بھی اس کا احساس ہے لیکن وہ ۳۶ء کی تحریک سے متاثر نوجوانوں کی طرح مابعدالطبیعیاتی معاملات کو طبیعیات کی سطح پر نہیں گھسیٹتے۔ یہ رویہ مروجہ ادبی فیشن کے خلاف تھا چنانچہ غلام عباس کو اس کا نقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ ’آنندی‘جیسا افسانہ لکھنے کے باوجود وہ اس طرح مشہور نہ ہوپائے جس طرح کرشن چندر، منٹو، عصمت، بیدی، ممتاز مفتی اور اشک وغیرہ نے شہرت پائی۔ غلام عباس اور ان کے افسانوں سے نام نہاد قاری کی عدم دلچسپی اور اس کے نتیجے میں نقادوں کی بے توجہی کے اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اپنے معاصرین کے برخلاف افسانے کو دلچسپ بنانے کے لئے وہ کسی خاص قسم کے موضوع کا انتخاب کبھی نہیں کرتے یعنی دلچسپ ہونا ان کے افسانے کی شرط نہیں۔ وہ کسی خاص موضوع ، اسلوب یا جذباتی فضا کے چوکھٹے میں بند بیانیہ کے تفاعل سے افسانہ خلق نہیں کرتے بلکہ ایک صورت حال ہوتی ہے جو بیان اور کردار کے تفاعل کو ہمارے لئے قابلِ قبول بناتی ہے اور جس کی بنا پر ہم ان سے انسانی جذبات کے دائرے میں رہ کر معاملہ کرتے ہیں۔ بیان غلام عباس کے یہاں وسیلہ ہے جس سے کہانی وجود میں آتی ہے۔ ’آنندی‘ اس کی بہترین مثال ہے۔اس میں کردار کوئی نہیں ، یہ بیانیہ اور صورت حال کے آپسی تعامل Interaction کا افسانہ ہے۔ کہانی کی بڑائی اس بات میں ہے کہ یہاں روایتی بیانیہ کا وہ عنصر موجود ہے، جہاں واقعہ یا صورت حال ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ یعنی صورت حال اور واقعہ کے آپسی تعامل میں کردار کا عمل دخل بہت کم ہو اور واقعہ اس قدر پیش منظر میں ہو کہ کردار ہمیں غیر اہم معلوم ہونے لگے۔ ’آنندی‘ میں بیانیہ کی پکڑ اتنی مضبوط ہے کہ کہانی پڑھتے وقت ہم فرضی چیز کی تلاش نہیں کرتے ہمیں اس کی فکر ہی نہیں رہتی کہ یہاں کردار کتنے ہیں اور کردار نگاری کتنی۔ ایک شہر ہے جسے غلام عباس نے طاقت ور بیانیہ کی مدد سے عدم سے وجود میں آتے، آباد ہوتے اور چلتے پھرتے دکھایاہے۔ ’آنندی‘ میں جو چیز بیش از بیش حاوی ہے، وہ دراصل وہی صورت حال ہے جو کہانی پن کو خلق کرتی ہے۔ 

بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کچھاکھچ بھرا ہوا تھا اور خلاف معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہ تھا۔ بلدیہ کے زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ زنان بازاری کو شہر بدر کردیا جائے کیوں کہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بدنما داغ ہے۔ بلدیہ کے ایک بھاری بھرکم رکن جو ملک و قوم کے سچے خیر خواہ سمجھے جاتے تھے، نہایت فصاحت سے تقریر کررہے تھے ۔ ........ اور پھر حضرات! آپ یہ بھی خیال فرمائیے کہ ان کا قیام شہر کے ایک حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے بیچوں بیچ عام گزر گاہ ہے بلکہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے۔ چنانچہ ہر شریف آدمی کو چار و ناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے علاوہ ازیں شرفا کی پاک دامن بہو بیٹیاں اور بازار کے تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہاں آنے اور خرید و فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
پانسو سے کچھ اوپر بیسواؤں میں سے صرف چودہ ایسی تھیں جو اپنے عشاق کی وابستگی یا خود اپنی دل بستگی یا کسی اور وجہ سے شہر کے قریب آزادانہ رہنے پر مجبور تھیں اور اپنے دولتمند چاہنے والوں کی مستقل مالی سرپرستی کے بھروسے بادلِ ناخواستہ اس علاقے میں رہنے پر آمادہ ہوگئی تھیں، ورنہ باقی عورتوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ یاتو اسی شہر کے ہوٹلوں کو اپنا مسکن بنائیں گی یا بظاہر پارسائی کا جامہ پہن کر شہر کے شریف محلوں کے کونوں کھدروں میں جاچھپیں گی یا پھر اس شہر ہی کو چھوڑ دیں گی۔ یہ چودہ بیسوائیں اچھی خاصی مالدار تھیں۔ اس شہر میں ان کے جو مملوکہ مکان تھے، ان کے دام انھیں اچھے مل گئے تھے اور اس علاقے میں زمین کی قیمت برائے نام تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ملنے والے دل وجان سے ان کی مالی امداد کرنے کے لئے تیار تھے۔ چنانچہ انھوں نے اس علاقے میں جی کھول کر بڑے عالیشان مکان بنوانے کی ٹھان لی۔ ایک اونچی اور ہموار جگہ جو ٹوٹی پھوٹی قبروں سے ہٹ کر تھی منتخب کی گئی۔ زمین کے قطعے صاف کرائے اور چابکدستی نقشہ نویسوں سے مکانوں کے نقشے بنوائے گئے اور چند ہی روز میں تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔ دن بھر اینٹ، مٹی ، چونا، شہیتر، گارڈر اور دوسرا عمارتی سامان لاریوں، چھکڑوں، خچروں ، گدھوں او انسانو ں پر لد کر اس بستی میں آتا اور منشی حساب کتاب کی کاپیاں بغلوں میں دبائے انھیں گنواتے اور کاپیوں میں درج کرتے۔ میر عمارت معماروں کو کام کے متعلق ہدایات دیتے۔ معمار مزدوروں کو ڈانٹتے، مزدور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔ مزدور نیوں کو چلا چلا کر پکارتے اور اپنے ساتھ کام کرنے کیلئے بلاتے ۔

ایک دن ایک دیہاتی بڑھیا جو پاس کے کسی گاؤں میں رہتی تھی، اس بستی کی خبر سن کر آگئی۔ اس کے ساتھ ایک خوردسال لڑکا تھا،۔ دونوں نے مسجد کے قریب ایک درخت کے نیچے گھٹیا سگریٹ، بیڑی چنے اور گڑ کی بنی ہوئی مٹھائیوں کا خوانچہ لگادیا۔ بڑھیا کو آئے ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک بوڑھا کسان کہیں سے ایک مٹکا اٹھا لایا اور کنوئیں کے پاس اینٹوں کا ایک چھوٹا سا چبوترہ بنا، پیسے کے دو دو شکر کے شربت کے گلاس بیچنے لگا۔ ایک کنجڑ ے کو جو خبر ہوئی ،وہ ایک ٹوکرے میں خربوزے بھر کے لے آیا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس بیٹھ کر:’’لے لو خربوزے۔ شہد سے میٹھے خربوزے۔‘‘ کی صدا لگانے لگا۔ اس شخص نے کیا کیا گھر سے سری پائے پکا، دیگچی میں رکھ، خوانچہ میں لگا، تھوڑی سی روٹیاں مٹی کے دو تین پیالے اور ٹین کا ایک گلاس لے کر آموجود ہوا اور اس بستی کے کارکنوں کو جنگل میں ہنڈیا کا مزا چکھانے لگا۔
ان بیسواؤں کے مکانوں کی تعمیر کی نگرانی ان کے رشتہ داریا کا رندے تو کرتے ہی تھے۔ کسی کسی دن وہ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر عشاق کے ہمراہ خود بھی اپنے اپنے مکانون کو بنتا دیکھنے آجاتیں اور غروب آفتاب سے پہلے یہاں سے نہ جاتیں ۔ اس موقع پر فقیروں اور فقیر ینیوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں سے آجاتیں اور جب تک خیرات نہ لے لیتیں اپنی صداؤں سے برابر شور مچاتی رہتیں اور انھیں بات نہ کرنے دیتیں۔ کبھی کبھی شہر کے لفنگے او باش بے کارمباش کچھ کیا کرکے مصداق شہر سے پیدل چل کر بیسواؤں کی اس نئی بستی کی سن گن لینے آجاتے اور اگر اس دن بیسوائیں بھی آنی ہوتیں تو ان کی عید ہوجاتی۔وہ ان سے ذرا ہٹ کر ان کے ارد گرد چکر لگاتے رہتے۔

بستی میں ایک جگہ ایک ٹوٹا پھوٹا مزار تھا جو قرائن سے کسی بزرگ کا معلوم ہوتا تھا۔ جب یہ مکان نصف سے زیادہ تعمیر ہوچکے تو ایک دن بستی کے راج مزدوروں نے کیا دیکھا کہ مزار کے پاس سے دھواں اٹھ رہا ہے اور سرخ سرخ آنکھوں والا لمبا، تڑنگا مست فقیر، لنگوٹ باندھے چار ابرو کا صفایا کرائے اس مزار کے ارد گرد پھر رہا اور کنکر پتھر اٹھا کر پرے پھینک رہا ہے۔ دوپہر کو وہ فقیر ایک گھڑالے کر کنوئیں پرآیا اور پانی بھر بھر کر مزار پر لے جانے لگا اور اسے دھونے لگا۔ ایک دفعہ جو آیا تو کنوئیں پر دوتین راج مزدور کھڑے تھے۔ وہ نیم دیوانگی اور نیم فرزانگی کے عالم میں ان سے کہنے لگا: ’’جانتے ہو یہ کس کا مزار ہے؟ کڑک شاہ پیر بادشاہ کا۔ میرے باپ دادا ان کے مجاور تھے۔‘‘ اس کے بعد اس نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں میں آنسو بھر بھر کے پیر کڑک شاہ کی کچھ جلالی کرامات بھی ان راج مزدوروں سے بیان کیں۔ شام کو یہ فقیر کہیں سے مانگ تانگ کر مٹی کے دودئیے اور سرسوں کا تیل لے آیا اور پیر کڑک شاہ کی قبر کے سرہانے اور پائتی چراغ روشن کردیے۔ رات کو پچھلے پہر کبھی کبھی اس مزار سے، اللہ ہو، کامست نعرہ سنائی دے جاتا۔ چھ مہینے گزرنے نہ پائے تھے کہ یہ چودہ مکان بن کر تیار ہوگئے۔

ایسے زمانے میں جب لوگ اپنی بات کہنے کے لئے تڑپ رہے تھے۔ بعض تیار شدہ موضوعات نئے لکھنے والوں کواپنا ذریعۂ اظہار بنا کر دنیا کے سامنے آنا چاہتی تھیں۔ غلام عباس نے ایسے افسانے خلق کئے جو زبان و بیان کی سطح پر غیر معمولی طور پر صاف ستھرے اور فرضی الجھیڑوں سے پاک ہیں۔ مطالب کے اظہار پر قدر ت غلام عباس کی قوتِ بیان کا بہترین مظہر ہے۔ عسکری صاحب نے درست کہا ہے:
غلام عباس کی زبان آلائشوں اور الجھیڑوں سے پاک ہے۔ جن مطالب کو وہ بیان کرنا چاہتے ہیں ان کے اظہار پر قاد، اپنی صلاحیتوں سے واقف، اپنی حدوں کے اندر بالکل مطمئن اور ان سے متجاوز ہونے کے خیال سے گریزاں۔ یہ خوبیاں مجموعی اعتبار سے نئے افسانہ نگاروں میں کم یاب ہیں۔ عصمت چغتائی کی نثر کا تو خیر کہنا ہی کیا، وہ تو جتنا کہنا چاہتی ہیں اس سے کہیں زیادہ کہہ جاتی ہیں مگر غلام عباس کا یہ وصف ہے کہ وہ جو کہنا چاہتے ہیں اسے کہہ ضرور دیتے ہیں،یہ نہیں ہوتا کہ کہیں کوئی کسر رہ جائے اور پڑھنے والا تشنگی محسوس کرے وہ اپنی بساط سے بڑھ کر بات کہنے کی کوشش بھی نہیں کرتے جسے ان کی زبان یا اسلوب سنبھال نہ سکے۔ اگر انہیں کسی پیچیدگی یا باریکی کا بیان منظور ہوتا ہے تو وہ پہلے ٹھہر کے اسے سمجھ لیتے ہیں، اور پھر جس حد تک وہ ان کی گرفت میں آتی ہے اسی حد تک کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے انداز میں بڑا توازن، اعتدال اور قرار پیدا ہوگیا ہے جو بے حسی یا جمود ہرگز نہیں ہے۔ غلام عباس کی قوت بیان کا بہترین مظہر ان کا افسانہ ’آنندی‘ ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ زبان و بیان ہی نے اسے افسانہ بنایا ہے، ورنہ ایک چٹکلہ تھا مگر مجھے کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اظہار کے معاملے میں ان کی احتیاط اب حد سے زیادہ بڑھنے لگی ہے، سنبھال سنبھال کے قدم اٹھانا بڑی ضروری چیز ہے بلکہ نئے ادب کے ماحول میں تو قابل ستائش ہے۔ مگر اتنا سنبھلنا بھی اچھا نہیں کہ قدم ہی رکنے لگے۔ اس کشمکش میں پڑھنے والے کا ذہن جھٹکے کھانے شروع کردیتا ہے۔ اسی وجہ سے آدمی افسانے کی فضا میں جذب ہوتے ہوتے پھر الگ ہوجاتا ہے۔ یہ چیز افسانے کی اثر انگیزی میں ذرا سی مانع ہوتی ہیں۔*۱
عسکری صاحب نے غلام عباس کی زبان اور اظہار کے معاملے میں ان کے محتاط رویے سے متعلق بڑی بنیادی بات کہی ہے۔ ’آنندی‘ کی زبان میں جو اعتدال اور توازن ہے وہ غلام عباس کے کسب کا نتیجہ ہے۔ ایک ذاتی مشاہدے کو بیانیہ کی مدد سے پرجلال تخلیقی تجربے میں تبدیل کردینا عباس کا ایسا کارنامہ ہے جو ان کے معاصرین میں صرف منٹو کے یہاں ملتا ہے۔ ’آنندی‘ کے متعلق خود غلام عباس کا بیان ہے:
میرا افسانہ ’آنندی‘ بھی اسی قسم کے مشاہدے پر مبنی ہے جو میں نے طوائفوں کے علاقے کی تعمیر نو کے سلسلے میں مشاہدہ کیا۔ یہ علاقہ میرے راستے میں تھا اور میں ہر روز دفتر آتے جاتے اسے بنتا سنورتا دیکھتا رہتا تھا۔ مشاہدے کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی خیال آفرینی افسانے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔ واقعہ صرف اتنا تھا کہ طوائفوں کو چاوڑی سے نکال دیا گیا تھا اور اس طبقے کو شہر سے کوسوں دور ایک اجاڑ مقام پر لے جا پھینکا گیا تھا۔ جب بیس برس بعد ان آبرو باختہ عورتوں کے ارد گرد شہر آباد ہوگیا تو اس کی میونسپل کمیٹی نے بھی اپنے علاقے سے انھیں نکالنے کا مطالبہ کردیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بعض دفعہ اس میں خیال آفرینی کرنی پڑتی ہے۔*۲
غلام عباس نے ’آنندی‘ کی کہانی کو جس مشاہدے پر استوار کیا ہے مجموعی طور پر ان کی بعض دوسری کہانیاں بھی اس مرکز کے قریب آجاتی ہیں۔ عباس کو انسانوں اور ان کی نفسیات سے دلچسپی ہے۔ ان کی تحقیق و تفتیش کا مرکز انسانی جبلت کا وہ احساس ہے جو انسان کو فریب اور دھوکے کے سہارے جینے اور اسی یوٹوپیا میں مسلسل فریب کھاتے رہنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ کوشش سے کچھ ثابت نہ ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا طاقتورفریب غلام عباس کے یہاں زندگی کو لسٹم پسٹم ہی سہی ،بحال رکھنے کا واحد ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔دھوکا کھانے کی صلاحیت اور ایک ہمہ گیر ذہنی فریب کا تجربہ ان کے زیادہ تر کرداروں کے یہاں تقریباََ المیاتی شدت اختیار کر گیا ہے۔
نِکّو پہلے ہی سے اس حملے کے لئے تیار تھا۔ پولیس کے چھاپہ مارنے سے لے کر اس وقت تک تو اس نے چپ سادھے رکھی تھی اور اس سارے قضیے میں اس کا رویہ ایک بے گانے کا سا رہا تھا۔مگر اب جبکہ سب طرف سے اس پر تیز تیز نظروں کے حملے شروع ہوئے تو اس نے ایک جھرجھری لی اور اپنی مدافعت میں ایک لطیف مسکراہٹ جس میں خفیف سی شوخی بھی ملی ہوئی تھی اپنے ہونٹوں پر طاری کی۔ یہ مسکراہٹ چند لمحے قائم رہی۔ پھر اس نے نہایت اطمینان کے ساتھ سب پر ایک نظر ڈالی اور بڑی خوداعتمادی کے لہجہ میں کہا:’’ آپ لوگ بالکل بھی فکر نہ کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔ میرے ہاں پچھلے پانچ برس میں آج تک ایسا نہیں ہوا تھا۔ اسے تو، کیا کہنا چاہئے، مذاق سمجھو مذاق!‘‘
جواری

رات کو جب وہ کھلے آسمان کے نیچے اپنے گھر کی چھت پر اکیلا بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا۔ تو اس سنگ مرمر کے ٹکڑے کا ایک مصرف اس کے ذہن میں آیا۔ خدا کے کارخانے عجیب ہیں۔ وہ بڑا غفورالرحیم ہے۔ کیا عجب اس کے دن پھر جائیں۔ وہ کلرک درجہ دوم سے ترقی کرکے سپرنٹنڈنٹ بن جائے۔ اور اس کی تنخواہ چالیس سے بڑھ کر چار سو ہوجائے .......... یہ نہیں تو کم سے کم ہیڈ کلرکی ہی سہی۔ پھر اسے ساجھے کے مکان میں رہنے کی ضرورت نہ رہے۔ بلکہ وہ کوئی چھوٹا سا مکان لے لے۔ اور اس مرمریں ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کراکے دروازے کے باہر نصب کردے۔
کتبہ

اس کا جواب سننے کے لئے مولانا ہی نہیں بلکہ محسن عدیل کے سارے ساتھی بھی ان ہی جیسا اشتیاق رکھتے تھے۔چنانچہ بھٹناگر جو اکیلا ہی فرش پر بازی لگا رہا تھااس کے ہاتھ میں تاش کا پتّا پکڑا کا پکڑا رہ گیا۔ دیپ کمار سراغ رسانی کا ایک انگریزی ناول پڑھ رہا تھا۔ اس کی نظریں پڑھتے پڑھتے آخری لفظ پر جم کر رہ گئیں۔اور اس کے کان محسن عدیل کی آواز پر لگ گئے۔ قاسم اور شکیبی پا س ہی پاس بیٹھے نہ جانے کن تصورات میں غرق تھے۔ دونوں نے چونک کر پر معنی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اور پھر نظریں عدیل کے چہرے پر گاڑ دیں۔
’’بھئی تم نہیں سمجھتے۔ ‘‘آخر محسن عدیل نے کہا۔ اس کی آواز دھیمی ہوتے ہوتے ایک سرگوشی سی بن گئی تھی۔ ’’بات یہ ہے۔ اس دن وہ آئی تھیں نارات کو۔ اور پھر غسل کیا تھا نا ٹھنڈے پانی سے۔ آج سردی بہت زیادہ ہے۔ میں نے سوچا۔ بے کار بیٹھے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو لگے ہاتھوں پانی ہی گرم کردیں۔‘‘
یہ کہتے کہتے اس نے پہلو بدلا۔ اپنا سر گاؤ تکئے پر ڈال دیا اور آنکھیں بند کرلیں۔
حمام میں

جوں جوں گھر قریب آتا گیا۔ اس کے قدم آپ سے آپ تیز سے تیز تر ہوتے چلے گئے۔ آخر جب وہ گھر کے سامنے پہنچا ۔تو ایک استہزا آمیز تبسم اس کے ہونٹوں پر جھلکنے لگا۔ اس نے اپنے دل میں کہا:
’’ یہ سچ سہی کہ میری بیوی باعصمت نہیں۔ لیکن آخر وہ عورتیں بھی کون سی عفیفہ ہیں جن کے پیچھے میں قلاش ہوگیا۔اور جن سے ملنے کے لئے میں آج بھی تڑپتا رہا ہوں۔‘‘
وہ اوپر کی منزل میں تن تنہا کھلے آسمان کے نیچے چھپرکٹ پر خوشبوؤں میں بسی ہوئی کچھ سو رہی کچھ جاگ رہی تھی۔ کہ اچانک کھڑکا سن کر چونک اٹھی۔ کان آہٹ پر لگا دئیے۔ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی سیڑھیوں پر سہج سہج قدم دھرتا اس کے پاس آرہا ہو۔
سمجھوتہ

’’اچھا ہی ہوا کہ ہم خود اس مکان میں نہ گئے۔ایک تو اس کی بناوٹ بڑی ناقص ہے دوسرے اس میں رہنا بھی خطرے سے خالی نہیں ۔مگر اب مجھے مکان بنوانے کا بخوبی تجربہ ہو گیا ہے۔اب کے میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گااور کدا نے چاہا تو ایسا مکان بنواؤں گا جو بے عیب ہوگا۔پھر خواہ کوئی مجھے کتنا ہی روپیہ دے میں اسے کرائے پر نہیں اٹھاؤں گا ۔وہ مکان ہمارے اپنے رہنے کے لئے ہوگا۔کیوں کہ لڑکیاں بڑی ہو گئی ہیں اور ہم سب کا ایک ہی کمرے میں سونا اخلاقی لحاظ سے اچھا نہیں‘‘
یہ کہہ کراس نے اخبار اٹھایا اور اس کا وہ کالم بڑے غور سے پڑھنے لگا جس میں خالی پلاٹوں کی خرید و فروخت کے اشتہار درج تھے۔
بحران

غلام عباس کی ا س دلچسپی کے متعلق عسکری صاحب نے جو نظری بات کہی ہے اس پر ترقی ممکن نہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ غلام عباس کی دلچسپی اور تحقیق و تفتیش کا مرکز یہ احساس ہے کہ انسان کے دماغ میں دھوکا کھانے کی بڑی صلاحیت ہے بلکہ فریب خوردگی کے بغیر اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور وہ ہر قیمت پر کسی نہ کسی طرح کا ذہنی فریب برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے مجموعے میں دس افسانے ہیں جن میں سے پانچ کا موضوع وضاحتاً یہی ہے اور یہی پانچ افسانے غلام عباس کے بہترین افسانے ہیں۔ ان افسانوں میں کردار یا تو کسی نئے فریب میں مبتلا ہوتے ہیں یا کسی فریب کا پردہ چاک ہوتا ہے۔ جواری کا ہیرو اپنے ذہنی فریب کے نشے میں ایسا مست ہے کہ وہ ذلیل ہونے کے بعد بھی نہیں چونکتا بلکہ اپنے آپ کو مخمور رکھنے اور دوسروں کو بھی اسی نشے کے دو ایک گھونٹ پلانے کی جان توڑ کوشش کرتا رہتا ہے۔ کتبہ میں باپ کے خوابوں کی عمار ت تو ڈھے جاتی ہے مگر بیٹا باپ کی قبر پر کتبہ نصب کراکے اپنے لئے اہمیت کا ایک نیا فریب ایجاد کرتا ہے۔ ’حمام میں‘ کے کرداروں کے سارے ذہنی فریب خاک میں مل جاتے ہیں اور وہ صاف صاف اس کا اعلان کردینا چاہتے ہیں مگر پھر بھی ان فریبوں کے بغیر انہیں اپنی زندگی ہی ناممکن نظر آنے لگتی ہے۔ چنانچہ وہ اس شکست و ریخت کے احساس ہی کو اپنے شعور سے مٹانے کی فکر شروع کردیتے ہیں۔ انہیں زندگی کی چند تلخ حقیقتوں کو راستہ دینا پڑتا ہے اور وہ اپنے مطالبات میں ترمیم گوارا کرلیتے ہیں تاکہ زندہ رہ سکیں۔ سمجھوتہ کے ہیرو نے اخلاقیات کی دیوار کے پیچھے جھانک کے دیکھ لیا ہے مگر وہ ذرا عملی قسم کا آدمی ہے۔ دل شکستہ نہیں ہوتا۔ اپنے نئے علم سے فائد ہ اٹھاتا ہے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ اس کی عقلیت پسندی بھی ایک فریب نہیں ہے؟ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اخلاقی اقدار سے سمجھوتہ کیا ہے مگر یہ سمجھوتا دراصل اس نے اپنے آپ سے کیا ہے اور ایک نئی قید کو آزادی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ’آنندی‘ میں ایک فرد کیا پوری جماعت نے اپنے آپ کو جان بوجھ کر دھوکے میں مبتلا کیا ہے۔ شہر آنندی کی تعمیر اور اس کی آبادی اور رونق میں درجہ بدرجہ اضافہ انسانی حماقت کے قصر کی تعمیر ہے۔ ’آنندی‘ میں جو نئی اینٹ دوسری اینٹ پر رکھی جاتی ہے ، وہ اس قصر کو بلند تر اور مستحکم تر بناتی ہے۔ آنندی کیا بن رہا ہے ایک نیا فریب بن رہا ہے۔ اسی وجہ سے شہر کی تعمیر ایک خاص طنزیہ معنویت اختیار کرلیتی ہے اور اس کے طول طویل بیان ہی میں ساری افسانویت ہے۔ یوں دیکھنے میں تو شہر بسنے کی کہانی بڑے مزے لے لے کر بیان کی گئی ہے مگر دراصل یہ چٹخارہ ہی ایک دبا دبا زہر خندہ ہے، جیسے انسانی حماقت کے نئے سے نئے ثبوت مہیا کرنے میں مصنف کو لطف آرہا ہو۔‘‘
انسانی سائیکی پر اتنی غیر معمولی دسترس رکھنے والے غلام عباس کا فن ایک عرصے تک اس لئے بھی مرکز نگاہ نہ بن سکا کہ اس وقت کی سب سے طاقتور تحریک سے انہوں نے خود کو جوڑنے کی کوشش نہیں کی انہوں نے لکھا ہے :
میری چیزیں ترقی پسندانہ رہیں لیکن میں نے لیبل لگانا پسند نہیں کیا۔ اس تحریک سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا میں سمجھتا تھا کہ ادب کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنا غلط ہے۔ کسی سیاسی نقطۂ نظر کو ادب یا ڈرامے کے ذریعہ پھیلا یا جائے تو میں اسے ادب نہیں سمجھتا۔ ترقی پسند تحریک دراصل کمیونسٹ تحریک تھی اور اسی لئے پروفیسر احمد علی اور احمدندیم قاسمی اس تحریک کو چھوڑ کر بھاگ گئے کیونکہ وہ کمیونسٹ نہ تھے۔*
غلام عباس نے کافی کچھ پڑھ لکھ رکھا تھا۔ جو افسانے انہوں نے لکھے وہ کسی اعتبار سے ہیٹے یا اس دور میں لکھے گئے نمائندہ افسانوں کے مقابلے میں کم رتبہ نہیں تھے باوجود اس کے انہیں وہ مقبولیت نہ مل سکی جو ان کے دوسرے معاصرین کے حصے میں آئی۔ غالباً پہلی بار محمد حسن عسکری نے اپنے مضمون میں غلام عباس اور ان کے فن کو نظر انداز کئے جانے کی بات کہی تھی۔ عسکری صاحب کی طاقتور تحریر نے غلام عباس کو فائدہ تو پہنچایا اور اب لوگ منٹو، کرشن چندر، بیدی اور عصمت کی طرح غلام عباس کے افسانے بھی کسی نو دریافت شدہ متن کی طرح پڑھنے لگے۔ قاری، عباس کو میسر آگیا تھا لیکن نقاد کی بے توجہی کا سلسلہ تو آج تک جاری ہے۔بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ’آنندی‘ سے جس غلام عباس کی ادبی شہرت استوار ہوئی اس کی تصانیف کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔ ’جزیرۂ سخنوراں‘ (۱۹۴۱ء) سے چل کر ’آنندی‘ (۱۹۴۷ء) ، ’الحمرا کے افسانے ‘، ’جاڑے کی چاندنی‘(۱۹۶۰ء) ،’اور پھر کن رس‘ (۱۹۶۹ء)، ’دھنک‘ (۱۹۶۹ء) ، ’گوندنی والا تکیہ‘ (۱۹۸۳ء)، ’چاند تارا ‘ اور ان کے علاوہ اعلیٰ پائے کے تراجم کا ایک تخلیقی سلسلہ ہے۔ کیا کچھ ہے اس میں ۔ کتنے اعصاب شکن تجربے ہیں۔ بیانیہ کی تکنیک اور اس کے گرد گرد نموپذیر کرداروں کا کتنا غیر معمولی مشاہدہ ہے اور ان سب سے بڑھ کر انسانی سائیکی کا کتنا غیر معمولی ادراک۔ تنوع کی بات کریں تو غلام عباس کا مقابلہ اردو کے صرف گنے چنے فکشن رائٹروں کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔
***

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *