اس کی اداکاری روح کی غذاتھی
وِجینتی مالا کی آنکھیں بہت بڑی بڑی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے اسے قدرت نے نہیں ، یامنی رائے نے بنایا ہو۔ وہ کسی حد تک کانوں کی طرف کھنچی ہوئی ہیں ۔ انھیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ سامنے دیکھتی ہوئی پیچھے بھی دیکھ رہی ہوں گی ۔ ایسی آنکھیں پورے جلال میں آجانے پر کیا ہوتا ہوگا؟ ان میں سے برستا نور میں نے ڈرامائی مناظر میں دیکھا ہے، جہاں ا ن آنکھوں کی وجہ سے مکالمے لکھنے اور بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔
مجھے وجینتی مالا کے سا تھ چار فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا ہے :دیوداس ،مدھومتی ، آس کا پنچھی اور رنگولی میں ۔
’’ دیوداس ‘‘ میں وجینتی مالا نے ایک طوائف کا رول کیا تھا، جو کسی طرح بھی ہیروئن کا رول نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن جنھوں نے شرت چندر کا ناول ’’ دیوداس ‘‘ پڑھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ چندر مکھی کا رول چھوٹا ہونے کے باوجود اپنے آپ میں اتنا ہی تیکھا ہے کہ اس کی بات ہیروئن’پارو ‘ کو میسّر نہیں آتی۔
اُن دنوں وجینتی مالا مدراس کی ایک دو ہندی فلموں میں کام کرچکی تھی ۔ جب وہ ہمارے سامنے آئی، تو ہم اسے ایسی گڑیا سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے، جو چابی دینے سے ہاتھ پان58و چلانے لگتی ہے۔ اس کے سامنے ہیروئن کے رول میں مشہور بنگالی اداکارہ سُچِترا سین تھی، جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اعلا درجے کی فن کا ر بھی تھی ۔ ان ہی دنوں اسے ایک بین الاقوامی ایواڈ بھی ملا تھا ۔ اس کے سامنے وجینتی مالا کا ٹکنا بہت مشکل تھا ۔ اور پھر اس کے رول میں اتنی گہرائی تھی کہ اس کی تہوں کو پانا کسی ایرے غیرے کے بس کی بات نہ تھی ۔
طوائف چندر مکھی ، دیوداس سے اس باعث محبت کرتی ہے کہ وہ پہلا مرد تھا ، جس نے اس سے نفرت کی ۔ اس نفرت نے چندر مکھی کی ’ بری ‘عورت کو سدا کے لیے فنا کردیا اور وہ اپنا پیشہ چھوڑکر جسم کی بجائے صرف روح بن گئی۔ وجینتی مالا نے کچھ اداس سی اداؤں اور بہکی بہکی نظروں سے اُس بے حد مشکل رول کو بہت عمدہ ڈھنگ سے نبھایا ۔ اس کا رقص تفریح کا ذریعہ تھا، تو اس کی اداکاری روح کی غذا تھی ۔
شاید اسی لیے بمل راے نے وجینتی مالا کو اپنی اگلی فلم ’’ مدھومتی ‘‘ میں ہندی فلموں کے سب سے بڑے اداکار، دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کے لیے منتخب کیا ۔’’ مدھومتی ‘‘ میں کئی ایسے منظر آتے ہیں جن میں دلیپ کمار سراسر حسن بن جاتاہے اور وجینتی مالا خالصتاًمحبت ۔ وجینتی مالا نے دیکھنے والوں کے سامنے محبت کی وہ تصویر پیش کی کہ وہ اسے پانے کے لیے آئندہ جنموں کی مصیبتیں سہنے کو بھی تیار تھے ۔ اگر وہ دوسرے جنموں کا سلسلہ نہ ہوتا، تو میں اس فلم کو کیسے لکھتا ؟
’’آس کا پنچھی ‘‘ میں وجینتی مالا کا ایک عام سا رول تھا اور اس کا کینواس بھی ، ہیرو کے مقابلے ، بہت چھوٹا تھا۔ لیکن رول چھوٹا ہونے کے باوجود وجینتی مالا نے اعلا فن کا ثبوت دیا ۔ ’’رنگولی‘‘ میں نے خود لکھی اور بنائی تھی ۔ تب وجینتی مالا سے میرا براہ راست واسطہ پڑا ، جس میں تلخ تجربے بھی ہوئے اور میٹھے بھی ۔ لیکن ایک بات جو وجینتی مالا کے حق میں جا سکتی ہے ،وہ یہ کہ ایک بار ’’ کال شیٹ ‘‘ منظور کر لینے کے بعد ، دیگر اداکاروں کے مقابلے ، وہ اس میں کم ہی ادل بدل کرتی ہے اور سیٹ پر اس کا سلوک بہت اچھا ہوتا ہے ۔ ’’ رنگولی‘‘ کے آغاز میں ، پہلے ہی دن اسے طویل مکالموں پر مبنی ایک ڈرامائی سین دیا گیا تھا ۔ ہماراخیال تھا کہ مادری زبان تامل ہونے کی وجہ سے وہ ہندی لب و لہجہ آسانی سے نہ اپناسکے گی ۔ سین ایک روز پہلے ، شام کے وقت ، اس کے گھر بھیج دیا گیاتھا ۔ اگلی صبح جب وہ سیٹ پر آئی تو اسے نہ صرف سین کا ایک ایک لفظ یاد تھا ، بلکہ اس کا لہجہ اور ادایگی بھی دیکھنے لائق تھی ۔
[زمانۂاشاعت:مارچ1985]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں