علی محمد فرشی ایک اہم ادیب، شاعر اور مدیرہیں۔ان کی شاعری بے
حد توجہ چاہتی ہے۔ایک طویل نظم'علینہ'تخلیقی حوالے سے ان کی شناخت کا ایک اہم ذریعہ
ثابت ہوئی۔سمبل کا ایک شمارہ میں نے سب سے پہلے تب دیکھا تھا جب معید رشیدی کا ایک
مضمون'عروض، معروض اور نئی بوطیقا'اس میں شائع ہوا تھا۔اس کے بعد مجھے فرشی صاحب
سے کئی بار بات کرنے کی خواہش ہوئی، الغرض ظفر سید کے بنائے گئے معیاری ادبی گروپ
حاشیہ کے ذریعے میری ان سے بات ہوئی۔سمبل کو اردو ادب کے چنندہ معیاری اور اہم
ترین رسائل میں سے ایک قرار دینا شاید غلط نہ ہوگا۔ان کی نظموں کے دو مجموعے'تیز
ہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے'اور 'زندگی خودکشی کا مقدمہ نہیں'شائع ہوچکے ہیں۔ساتھ
ہی ساتھ ماہیوں کا ایک مجموعہ'دکھ لال پرندہ ہے'کے نام سے سامنے آیا ہے۔ان کے
تنقیدی اور فکری رویوں، تخلیقی رجحانات اورکچھ دیگر حوالوں سے کیا گیا ان کا یہ
انٹرویو امید ہے آپ سبھی کو ضرور پسند آئے گا۔
تصنیف حیدر:کیا 'علینہ'کو آپ اپنے اب تک کے تخلیقی سفر کی
معراج مانتے ہیں؟کیوں؟
علی محمد فرشی:شکریہ قبول کیجیے کہ اتنے اعلیٰ ادبی سلسلے
میں آپ نے مجھے یاد رکھا اور ایسے فکر انگیز سوالات پوچھے جن سے خود میرے دماغ کو
روشنی حاصل ہوئی۔ سلیم احمد نے کہیں لکھا ہے کہ بعض اوقات میں ایسے سوال پر لکھنا
شروع کر دیتا ہوں جس کا جواب مجھے معلوم بھی نہیں ہوتا۔ اس چوتھی سمت ہمکنے کا عمل
ہی تخلیق و تنقید کے نئے امکانات تک رسائی کو ممکن بناتا ہے۔ مجھے یہ حق حاصل نہیں
کہ میں اپنی کسی نظم کے بارے میں کوئی حتمی رائے دوں، کیوں کہ میرا تخلیقی عمل اس
قدر لا شعوری ہے کہ خود مجھے اس کی کوئی کل کبھی سمجھ میں نہیں آئی۔ ۔مجھے اپنی
کوئی نظم زبانی یاد نہیں ہوتی، حتٰی کہ بالکل تازہ لکھی ہوئی بھی۔ میں نظم کا تخلیقی عمل مکمل ہو
جانے کےبعد اس سے لاتعلق ہو جاتا ہوں۔ آج کل ایک اور طویل نظم کی گرفت میں ہوں،
دیکھیے پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔بہ ہرحال علینہ کی تخلیق سے پہلے بھی میرا
میلان
طویل نظم کی طرف
موجود تھا۔ ’’ہوا مرگئی ہے‘‘، ’’فراک‘‘اور ’’برف نے ساری قبریں اک جیسی کردی ہیں‘‘
طویل نظمیں ہیں جو میری نظموں کے پہلے مجموعے ’’تیز ہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے‘‘میں
شامل ہیں۔ خارج میں جب نگاہ دوڑاتا ہوں تو اقبال کے بعد طویل نظموں کی قطار میں
مجھے ’’علینہ‘‘ سربلند نظر آتی ہے۔ بس یہی اطمینان میرے لیے کافی ہے کہ میں نے
طویل نظم نگاری کے باب میں محض حصہ نہیں ڈالا بل کہ باقاعدہ اضافہ کیا ہے۔ عین
ممکن ہے کہ میں نے ’’علینہ‘‘ سے بہتر نظم لکھ رکھی ہو یا مستقبل میں مجھ سے سر زد
ہو جائے لیکن کوئی اس کا نام بھی نہ لے کیوں کہ ’’علینہ‘‘ میرے نام کے ساتھ چپک
گئی ہے۔ یہ تنقید کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی چھان پھٹک کرے اور اس کے مقام کا
تعین کرے۔
تصنیف حیدر:ہندوستان میں اس وقت دو یا تین نظم نگاروں کے
علاوہ اس صنف کو سنجیدگی سے کہنے والے ناپید ہیں، آپ اس کی وجہ کیا سمجھتے ہیں؟
علی محمد فرشی:میرے خیال میں ہندوستان میں جدید اردو نظم شروع
ہی سے اپنی جڑیں وہاں کی زمین میں مضبوط نہیں کر سکی۔اس لیے اس کی روایت عہدِ حاضر
تک نہیں پہنچ سکی۔ اصناف خلا میں پیدا نہیں ہوتیں۔ ان کا پھلنا پھولنا سماج کے
اندر ہی ممکن ہے۔اقبال سے لے کرآج تک جتنے اصیل نظم نگار ہیں ان میں سے ننانوے فی
صد کا تعلق پاکستانی پنجاب سے ہے۔ اب اسے اتفاق کہیے کہ آج کے معروف نظم نگار راولپنڈی
اسلام آباد میں رہائش پذیرہیں۔ مثلاً آفتاب اقبال شمیم، احسان اکبر، کشور ناہید،جلیل عالی، محمد اظہار الحق،سرمد صہبائی، رفیق
سندیلوی، وحید احمد، انوار فطرت، نصیر
احمد ناصر، سعید احمد، فرخ یار، پروین طاہر،ارشد معراج، روش ندیم،اختر رضا
سلیمی،شہزاد نیر، خلیق الرحمن، نجیبہ عارف،ابرار عمر، یٰسین آفاقی،خاوراعجاز،
تابش کمال، علی اکبر ناطق،الیاس بابر اعوان، عابدہ تقی،عمران اذفر وغیرہم۔ کچھ
شعرا ایسے بھی ہیں جو شہرِ نظم سے دور رہتے ہیں لیکن وہ نظم کے راولپنڈی سکول ہی
سے منسلک ہیں۔ یامین(مظفرآباد)،ثروت زہرا (یو اے ای)،زاہد امروز(فیصل آباد) اس کی
واضح مثالیں ہیں۔ یہاں میں نے صرف ان شعرا کا ذکر کیا ہے جن کی کتابیں شائع ہو چکی
ہیں یا وہ کسی مستند ادبی پرچے میں متواتر شائع ہو رہے ہیں۔ میں نے ان شعرا کا نام
نہیں لیا جو حلقہ اربابِ ذوق کی ہفت وار تنقیدی نشستوں میں اپنی نظمیں پیش کرتے
ہیں۔ ان شعرا کی ایک پوری کھیپ تیار ہورہی ہے۔ زیف سید کے فورم ’’حاشیہ‘‘ پر ہونے
والے ای۔ مباحثے کس بلند معیار کے تھے، اس سے بھی آپ خوب آگاہ ہیں۔ یہ سب عوامل مل
کر یہاں نظم کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔
تصنیف حیدر:پاکستان میں سب سے بہترین نثری نظمیں لکھنے والے
آپ کی نظر میں کون سے شاعر ہیں؟۔۔
علی محمد فرشی:نظم لکھنا غزل کہنے سے زیادہ مشکل ہے تو نثری
نظم لکھنا نظم سے بھی مشکل تر! کیوں کہ اس میں شاعر کو وزن کا خارجی سہارا دست یاب
نہیں ہوتا۔ ابھی تو نظم غزل کے جبر سے مکمل آزاد نہیں ہوئی، نثری نظم ذرا دور کی
بات ہے، ویسے جو لوگ نظم لکھ رہے ہیں وہ نثری نظم میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
خود میری نثری نظموں کی کتاب’’گم شدہ شہرمیں‘‘ طباعت کی منتظر ہے۔ جب کہ میں نثری
نظم بھی شروع ہی سے لکھ رہا ہوں، لیکن اس کی جانب میرا لاشعوری رجحان کم رہا، جب
تک یہ آپے سے باہر ہو کر مجھ پر ٹوٹ نہیں پڑتی میں قلم نہیں تھامتا۔ میری رائے میں
ابھی تک اردو نثری نظم میں کوئی راشد، میرا جی یا مجید امجد نہیں پیدا ہوا۔
تصنیف حیدر:آپ کی نظمیں بعض اوقات بے حد مبہم ہوتی ہیں، اس
اشکال پسندی کی وجہ کیا ہے؟
علی محمد فرشی:آپ زیرک نقاد ہیں اوریہ بات مجھ سے بہتر
جانتے ہیں کہ کسی نظم میں ابہام کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر
کوئی نظم نئے اسلوب میں سامنے آتی ہے تو یہ نیا پن قاری کے لیے مشکل کا باعث بن
جاتا ہے، ڈکشن اور اسلوب دو مختلف اصطلاحات ہیں، ڈکشن اسلوب کا حصہ ہے، اسلوب ڈکشن
کا حصہ نہیں۔ میری نظمیں اپنے اسلوب کی وجہ سے ابہام کی خصوصیت سے متصف ہیں، ورنہ
ان کا ڈکشن تو بہت ہی سادہ ہے، خال کہیں کسی لفظ کے معنی دیکھنے کے لیے قاری کو
لغات کا سہارا لینا پڑے۔ اب تازہ امیجزاور نئےسمبلزکے معانی تو آپ کو نوے فی صد
نظم کے اندر ہی سے تلاش کرنا ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ نظم کا موضوع قاری کے لیے نیا
ہو۔ میں نظم کی کلیت کا پورا خیال رکھتا ہوں۔ ممکن ہے جو نظم میں نے لاشعورکی مدد
سے ایک گھنٹے میں لکھ ڈالی ہو اسے سنوارنے میں ایک مہینا لگ جائے۔ میں نے اپنے لیے
14 اصول وضع کر رکھے ہیں اگر کوئی نظ۔م 10 سے کم سکور کرتی ہے تو میں اسے پھینک
دیتا ہوں۔ کوئی فن پارہ تکمیل کی بالائی سطح کو خال ہی مس کرتا ہے اور جو اس درجہ
پر جا پہنچتا ہے وہ شہ کار بن جاتا ہے۔ میں بھی ہر فن کار کی طرح ایسے ہی شہ کار
کی تلاش میں رہتا ہوں۔ خیال رہے کہ نیا تجربہ پہلے پہل ابہام کی دھند میں ہونے کے باعث
اپنے تمام خال و خد قاری پرعیاں نہیں کرتا۔
تصنیف حیدر:غالب کیا آپ کی نظر میں اردو کا سب سے بڑا شاعر
ہے؟کیوں؟
علی محمد فرشی:غالب اردو کا عظیم شاعر ہے اور میرا پسندیدہ
بھی لیکن اس سے پہلے میر اور بعد ازاں اقبال بھی اسی طرح عظیم ہیں۔ اقبال کا پلڑا
اس لیے ذرا بھاری ہو جاتا ہے کہ اس نے جدید نظم کی بنیاد رکھی۔ متن کو شاعر کے جبر
سے آزاد کیا۔ اس سے پہلے تو دیوان میر، دیوانِ مصحفی وغیرہم کا چلن تھا۔ یہ اس
تہذیب میں ہو رہا تھا جس نے کئی صدیاں پہلے کتاب کو نام دیا تھا، یعنی ’’قرآن‘‘
پڑھا جانے والا متن۔ اقبال سے پہلے حالی نے ایک کوشش کی تھی ’’مدّو جزرِ اسلام‘‘!
لیکن آج تک وہ مسدسِ حالی ہی کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ متن پر شاعر کا جبر اس قدر
زیادہ تھا کہ اسے کوئی عظیم شاعر ہی توڑ سکتا تھا۔ اور یہ کام اقبال کی ’’بانگِ
درا‘‘ نے کیا۔ اگر اقبال نہ ہوتا تو شاید ہم آج بھی صرف غزلیں، قصائد اور مثنویاں
لکھ رہے ہوتے۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘، ’’خضرِ راہ‘‘، ذوق و شوق‘‘،ابلیس کی مجلسِ
شورٰی‘‘اور ’’طلوع اسلام‘‘ کی سطح کی نظم ہم ابھی تک نہیں لکھ سکے۔ مجھے یہ کہنے
میں کوئی باک نہیں کہ آزاد نظم کی ہیئت اپنانا لاشعوری طور پر اقبال کی نظموں کی
ہیبت کا شاخسانہ تھا۔
تصنیف حیدر:سمبل آپ نے کس ادبی نقطہ نظر کے تحت جاری کیا
تھا؟اس کو بند کیوں کردیا گیا ہے؟
علی محمد فرشی:’’سمبل‘‘ خالص ادبی اقدارکے فروغ کا ایک خواب
تھا۔ ایسا خواب جس میں کسی قسم کی دھڑے بندی نہ ہو، مدیر کی شان میں تعریفی خطوط
کے ذریعے اسے عظیم شاعرثابت کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو، کسی ایک صنف کا نمائندہ نہ
بنایا گیا ہو۔ اعلیٰ ادب کی تلاش و پیش کش اس کا مطمحِ نظر ہو! مجھے اس خواب کی
بھاری قیمت چکانی پڑی، وہ یوں کہ اس کا پہلا شمارہ 800 کی تعداد میں شائع ہوا تھا
اورآٹھواں صرف 300 کی تعداد میں! ہوا یوں کہ جیسے جیسے اس کے معیار میں اضافہ ہوتا
گیا اس کی اشاعت گرتی گئی! کیوں؟ہم سب کو اس انحطاط پر غور کرنا چاہیے۔ ’’سمبل‘‘
تو بند ہو گیا لیکن اعلیٰ تخلیق اور تنقید کے دروازے تو کھولنے کی کوشش کرتے رہنا
چاہیے۔
تصنیف حیدر:علی محمد فرشی کی شخصیت کے ادبی پہلوئوں کے
علاوہ اور کون کون سے پہلو ہیں؟
علی محمد فرشی:شاید ایک بھی نہیں۔ میں نے دیگر پہلووں کو
ذمہ داری سے نبھانے کوشش بہت کی لیکن ناکام رہا جس پر مجھے افسوس بھی ہے اور
شرمندگی بھی۔ بس۔۔۔۔ میں بے بس تھا۔
تصنیف حیدر:آپ نے ایک بحث کے دوران لکھا تھاکہ تنقید کا کام
فن پارے میں سے بہتر یا اچھے نکات کو نکال کر سامنے لانا ہے۔کیا واقعی تنقید کی
یہی تعریف ہے؟اس کی وضاحت کیجیے؟
علی محمد فرشی:یہ تنقید کی مکمل تعریف تو بالکل نہیں، اس کی
دیگر ذمہ داریوں میں سے ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ میں نے ایک خاص تناظر میں بات کی تھی،ایک
مثال سے واضح کرتا ہوں کہ کیا منٹو کے تمام افسانے شہ کار ہیں؟ تنقید نے اس کے
افسانوں کے ڈھیر سے کیسے ’’نیا قانون‘‘،ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘، ’کالی شلوار‘‘،’’ بابو
گوپی ناتھ‘‘، ’’کھول دو‘‘ اور’’ہتک‘‘ کو نکال کر سامنے رکھ دیا۔ کسی ایک فن پارے
میں بھی بعض اوقات ایسا ہی معاملہ ہوسکتا ہے اورتنقید کو اصل نکات تک پہنچنا
ہوتاہے مثلاً غلام عباس کے افسانے ’’کن رس‘‘ کے معانی کی تین پرتیں ہیں تنقید نے
تینوں کو دریافت کرنا ہے لیکن ضروری نہیں کسی ایک پرت پر زور دیا جائے تاہم ادب
ہمیشہ ’’خیر‘‘ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، جب اس زاویے سے دیکھیں گے تو ’’تقدیر‘‘ کے
جبر کے اضافی معانی بھی حاصل ہو جائیں گے۔
تصنیف حیدر:پاکستان میں اس وقت اردو تنقید کا حال پتلا
ہے؟کیا آپ اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں؟
علی محمد فرشی:میں زیادہ مایوس نہیں ہوں البتہ ناصر عباس
نیر جیسے قد آورنقاد نہ ہونے کے برابر ہیں۔
تصنیف حیدر:بڑے فن پارے کس پس منظر کی وجہ سے پیدا ہوتے
ہیں؟آپ کو کیا لگتا ہے؟
علی محمد فرشی:اس سوال کا جواب ذرا مشکل اور تفصیل طلب ہے،
کئی صفحات لکھنے کے بعد بھی تشنگی باقی رہے گی۔ ان گنت پہلو ہیں۔ البتہ وقت اور تاریخ کا تناظر ایسے عوامل ہیں جن
کے بغیر خال ہی بڑا فن پارہ وجود میں آسکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں