سید کاشف رضا ایک بے حد
عمدہ شاعر ہیں، بہترین ترجمہ نگار ہیں اور ایک صحافی کی حیثیت سے بھی اپنی پیشہ
ورانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی جانب میرا دھیان زمرد مغل
نے دلوایا تھا۔جب میں نے انہیں پڑھاتو واقعی بے حد متاثر ہوا۔ان کے اب تک دو شعری
مجموعے ’محبت کا محل وقوع‘ اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘اب تک شائع ہوچکے ہیں۔نوم
چومسکی، میلان کنڈیرااور بورخیس میں ان کی دلچسپی ان کے تراجم سے ثابت ہے۔اس کے
علاوہ پاکستان کے ماےۂ ناز انگریزی ناول نگار محمد حنیف کے ناول’A case of exploding mangoes\' کا ترجمہ انہوں نے ’پھٹتے آموں کا کیس‘کے عنوان سے کیا ہے۔جس کا ایک
حصہ اجمل کمال کے رسالے ’آج‘ میں شائع ہوا ہے۔میں اگر اس انٹرویو کو اپنے اب تک کے
تمام مکالموں میں سب سے بہتر قرار دوں تو کچھ غلط نہ ہوگا ، امید ہے کہ آپ سب کو
بھی یہ گفتگو سیر حاصل معلوم ہوگی۔
تصنیف
حیدر: نظم کے اچھے نقاد کا وجود غیر ممکن ہے، کیونکہ اچھی نظمیں اپنے معنی کی مکمل
ترسیل میں ہمیشہ مانع ہوتی ہیں۔ کیا آپ بات سے اتفاق رکھتے ہیں؟
سید
کاشف رضا: ادب کے شعبے میں اگر کوئی شے غیر ممکن ہے تو وہ یہی ’غیر ممکن‘ کا تصور
ہے۔ معنی کی ترسیل میں نظم کم ہی مانع ہوتی ہے۔ معنی کی ترسیل میں اصل رکاوٹ تب
پیدا ہوتی ہے جب ہم نظم، یا کسی بھی تخلیق، کے تخلیقی عمل اور پس منظر کو گرفت میں
لینے سے قاصر رہ جائیں۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں کہ ادب اور تخلیق تو دنیا بھر میں
پھیلی ہوئی ایک عظیم الشان دعوت یا ضیافت ہے۔ ایک نامختتم بوفے ڈنر۔ اس ضیافت میں
آپ کا مقصدِ اولین تو ہونا چاہیے دعوت اڑانا، خوب مزے سے کھانا اور کوشش کرنا کہ
ہر کھانے، ہر ریسی پی سے ہر ممکن لطف کشید کیا جائے۔ ادبی بحثوں اور پنچائتوں کا
نمبر تو بہت بعد میں آتا ہے۔ نقاد کا اصل کام بھی یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنے
مطالعے میں شریک کرے، اور ہمیں یہ بتائے کہ کسی تخلیق کو کس کس زاویے سے دیکھا اور
چکھا جائے کہ اس سے حاصل ہونے والے لطف میں اضافہ ہو۔ میرے پاس ازابیل آئندے کی
ایک کتاب ہے جس میں اس نے مختلف کھانے پکانے کی ریسی پیز اور ان سے حاصل ہونے والے
مزوں کا تذکرہ کیا ہے۔ نقاد، اور اس میں نظم کا نقاد بھی شامل ہے، کو چاہیے کہ وہ
ایسی ہی کتابیں اپنے مطالعات کے بارے میں تحریر کرے جس سے ہمارے ٹیسٹ بڈز بہتر ہوں
اور مطالعے سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہو سکیں۔ اور جی ہاں، ایسے نقاد مجھے اردو
میں تو کم ملے۔ نقاد تو ایک طرف، مجھے تو ایبوں میں بھی مطالعے کا چسکا کافی کم
نظر آتا ہے۔ حالانکہ اگر آپ خود کو ادیب کہاتے ہیں تو آپ کا پہلا کام یہ ہونا
چاہیے کہ دنیا بھر میں پھیلی تخلیق کی عظیم الشان ضیافت، دعوت، اس نامختتم بوفے کے
زیادہ سے زیادہ حصے سے حظ اٹھانے کے قابل ہوں۔ گر یہ نہیں تو بابا باقی کہانیاں
ہیں۔ اور یاد رکھیے کہ ادب تو تخلیق کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، ورنہ تخلیق کے شعبے
میں تو مصوری، مجسمہ سازی، فلم سازی، اداکاری اور بیسیوں دیگر اصناف بھی آتی ہیں۔
آپ کو تو کوشش کرنی چاہیے کہ ہر تخلیق کے لطف تک پہنچیں۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے
کہ آپ اس تخلیق کے ساتھ یگانگت محسوس کریں، اس کے تخلیقی عمل کو پیاز کے چھلکے کی
طرح کریدیں اور اس کی ری کری ایشن کا مزا لیں۔ مگر آج کا ادیب دنیا کے بے کار ترین
قاریوں میں شامل ہو چکا ہے۔میں بالکل عام قاریوں سے ملتا ہوں اور وہ مجھے تخلیق کا
لطف اٹھانے پر قادر دکھائی دیتے ہیں۔ مگر ادیب؟ ان کی اول تو پڑھنے سے جان جاتی ہے
اور اگر پڑھ بھی لیں تو ادب کی ایک آدھ صنف اور اس ایک آدھ صنف کی صرف ایک آدھ رَو
ہی کا لطف لینے پر قادر ہوتے ہیں۔ اردو کا اوسط ادیب تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کے
چاروں کونے دیکھ کر ہی شانت ہو جاتا ہے اور اسے کوئی غرض نہیں کہ باہر بھی ایک بڑی
دنیا ہے۔ نقاد اور نظم کے نقاد اگر ایسے ادیبوں میں سے سامنے آئیں گے تو سوچیے
تخلیق کا کیا حال کرتے ہوں گے۔ تخلیق جب ایسے نقاد کے سامنے آتی ہے تو وہ اپنے ذوق
کی کند چھری لے کر اس پر چڑھ دوڑتا ہے اور اس کی نفاستوں کا احساس کیے بغیر اس کی
تکا بوٹی کر دیتا ہے۔ بھئی اگر آپ کو مثلاً ایڈونچر والا فکشن پسند نہیں تو آر ایل
اسٹیونسن کے ناولوں سے پرہیز کر لیجیے۔ آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ جس تخلیق کے
پس منظر اور تخلیقی عمل کا آپ کو ککھ نہیں پتا، آپ اس کے بارے میں فیصلے کرنے بیٹھ
جائیں۔ تو تصنیف بھائی، نظم کے بھی اچھے نقاد کا وجود تو ممکن ہے، مگر اچھا نقاد
وہی ہوگا جس کا ذوق کئی پہلوؤں پر محیط ہوگا۔حمید نسیم اردو نظم کے ایک اچھے نقاد
تھے۔ ذرا ان کی تنقید پڑھیے اور دیکھیے کہ انھوں نے کس کس شعبہ کے علم سے کام لے
کر فیض، راشد اور میرا جی کی شاعری ہمیں سمجھائی ہے۔ مگر وہی حمید نسیم جب مجید
امجد کی شاعری پر لکھنے کو آئے تو ان کا ذوق پیچھے رہ گیا اور مجید امجد کی شاعری
آگے نکل گئی۔ تخلیق کی قدر کا تعین، نقاد کا اہم ترین کام ہے، لیکن اس سے پہلے
ضروری ہے کہ وہ تخلیق کو کھنگالنے کا ذوق بھی رکھتا ہو۔ جیسے ناصر کاظمی اور فراق
گورکھپوری ہماری کلاسیکی شاعری کی تنقید کے لیے شاندار ذوق کے مالک تھے۔ نظم کے
مکمل معنی کی ترسیل نہ بھی ہوتی ہو تو کوئی بات نہیں۔ مطالعہ جاری رکھیے۔ اور نظم
کے مکمل معنی تو خود شاعر کے سامنے بھی نہیں ہوتے۔ نظم کے انسلاکات پرندوں کی طرح
ہوتے ہیں جنھیں وہ تخلیق کر کے آزاد فضاؤں میں چھوڑ دیتا ہے۔ یہ پرندہ کیسا ہوتا
ہے؟ کیا جانیے تو نے اسے کس رنگ میں دیکھا۔ نظم کے معنی کی تشکیل اکیلا شاعر نہیں
کرتا، شاعر اور قاری مل کر کرتے ہیں۔ مگر فقط معنی کی تشکیل سے بات نہیں بنتی ناں۔
ایک آدھ معنی تو کوئی پاگل قاری بھی تشکیل دے دے گا۔ اچھے نقاد کے ہاں پرندے بچے
بھی دینے لگتے ہیں۔
تصنیف
حیدر: کسی بھی تخلیق کار کا اختراعی تجربہ ری پروڈیوس ہو سکتا ہے یا نہیں؟ یعنی
ایک ہی امکان سے جنم لینے والی دو یا تین نظمیں توارد کا نہیں بلکہ ماحول اور
ذہنیت کی یک سانیت کا ثبوت ہوتی ہیں؟ یہ بات سچ ہے؟ مبہم ہے یا سرے سے غلط ہے؟
سید
کاشف رضا: ورڈزورتھ نے تو خود تخلیق کے تجربے کو بھی ری پروڈکشن کہا تھا۔ توارد کا
معاملہ ایسا سادہ نہیں۔ ایلیٹ نے بھی اس پر ایک جگہ خاصی بحث کر رکھی ہے۔ کسی کو
کیا معلوم کہ شاعر یا ادیب اپنی کٹھالی میں کہاں کہاں سے مصالحے لا کر ڈال رہا ہے۔
پوسٹ ماڈرن دور میں اشیاء میں کچھ نہ کچھ اضافہ یا کمی کر کے انھیں نئی معنویت سے
ہم کنار کرنے اور اسے نئی تخلیق قرار دینے کا رجحان بڑھا۔ کسی بڑے ادیب اور تخلیق
کار کے مرنے کے بعد اس کی تخلیقات اس اجتماعی کارپَس کا حصہ بن جاتی ہیں جن سے نیا
ادیب اپنا خام مواد حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ جیمز جوئس کے ہنر کا خاص الخاص پہلو ہی
یہ ہے کہ وہ تخلیق کے اجتماعی کارپَس، جسے میں نے تخلیق کی عظیم الشان عالمی ضیافت
کا نام دیا تھا، پر کسی سلطانہ ڈاکو کی طرح دھاوا بولتا ہے اور ہر قسم کے مال پر
اپنی مہر لگا کر اسے اپنا مال بنا لیتا ہے۔ تو بھیا پوسٹ ماڈرن ادب میں توارد کا
معاملہ ایسا سادہ نہیں جیسا ہماری کلاسیکی تنقید کے زمانے میں سمجھا جاتا تھا۔
زیادتی وہاں ہوتی ہے جب کسی تخلیقی تصور کے یوز اور ری یوز سے اس کی چمک دمک پامال
کر دی جاتی ہے۔ جیسے ن م راشد نے لفظ ’کوزہ‘ کو ایک نئی معنویت سے روشناس کرایا۔
اب پاکستانی شاعری میں کوزے کو اس قدر رگڑا جا چکا ہے کہ میں تو یہ لفظ سنتے ہی
کہتا ہوں کہ لو جعلی برتن بیچنے والا ایک اور اندھا کباڑی آ گیا۔
تصنیف
حیدر: آپ کی اچھی نظموں میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پھیلی
ہوئی مایوسی کا تاثر بھی ملتا ہے۔ یہ دہشت ہے؟ وحشت ہے یا قنوطیت ہے؟
سید
کاشف رضا: ویسے قنوطیت مجھے پسند نہیں اور میں اس سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش
کرتا ہوں مگر مجھے اس حقیقت کی بہت تکلیف ہے کہ میری دھرتی کی تاریخ ایک خاص رخ پر
چل رہی ہے اور اگر یہ راستہ تبدیل نہ کیا گیا تو اس راستے پر آگے بھی بہت سا کشت و
خون نظر آ رہا ہے۔ مستقبل کا یہ کشت و خون دیکھنے کے لیے قنوطی ہونے کی ضرورت
نہیں، بس تاریخ سے معمولی سی آگاہی ہی کافی ہے۔ جیسے فکشن پڑھتے ہوئے آپ کسی کردار
کو دیکھ کر اس کی آیندہ زندگی کے بارے میں کچھ اندازہ لگا لیتے ہیں، ویسا ہی
اندازہ کسی خطے کی تاریخ کو دیکھ کر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ چلیے آپ اسے اوور
جنرلائزیشن کہہ لیجیے لیکن یہ صرف ایک مثال تھی۔ پاکستان میں دہشت گردی اور تشدد
سے متعلق میری نظموں کو آپ مزاحمت یا احتجاج کہہ سکتے ہیں۔ ہماری مزاحمتی شاعری کی
روایت کو اگر آپ جعفر زٹلی سے بھی شروع کر لیں تو یہ تین سو برسوں کی ایک توانا
روایت ہے۔ میرے نزدیک پاکستان جیسے معاشرے میں وہ ادیب مکمل ہی نہیں جس کی کوئی
سماجی کمٹ منٹ نہ ہو اور جو اپنی دھرتی کا درد محسوس کرنے کے بجائے بس لفظوں سے
طوطا مینا بناتا رہتا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے معاشرے اور میری دھرتی کا مجھ پر
یہ قرض ہے کہ میں اس کے دشمنوں کو شناخت کروں اور تاریخ کے سامنے انھیں اپنے لفظوں
سے نشان زد کرتا جاؤں۔ کسی نظریاتی دشمن کو شکست دینے کے لیے آپ صفحے کے صفحے بھی
سیاہ کر سکتے ہیں لیکن بعض اوقات ایک نظم یا نظم کا ایک مصرع بھی اس کے لیے زہرِ
قاتل کا کام دے سکتے ہیں۔ شاعری میرے لیے ایسا ہی ہتھیار ہے اور میں اپنی دھرتی کے
دشمنوں کے لیے اپنی تلوار کی دھار تیز اور تازہ رکھتا ہوں۔ اس میدان میں اور بھی
بہت سے ساتھی ہیں جو شاعری کے علاوہ دیگر میدانوں میں لڑ رہے ہیں تاکہ ہماری تاریخ
کا دھارا تبدیل کیا جا سکے۔ میں بھی ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا کردار ادا کرتا ہوں۔
جب میری دھرتی پر پھول کھلنے کا موسم آئے گا تو میں شاید اپنی تلوار کو گلدستہ بنا
کر گل فروشی کروں گا۔
تصنیف
حیدر: نوم چومسکی کو آپ نے پڑھا ہے۔ ان کی دو کتابیں ترجمہ کی ہیں۔ چومسکی کی
فکریات کو چند جملوں میں آپ کسی شخص تک کن الفاظ میں پہنچا سکتے ہیں؟
سید
کاشف رضا: نوم چومسکی کا کام کئی میدانوں میں پھیلا ہوا ہے اور ان کی فکریات کو
چند الفاظ میں سمونا ممکن نہیں۔ لسانیات کے شعبے میں ان کے تصورات پر درجنوں
کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ لیکن ان کا دانش ورانہ خانقاہوں سے نکل کر رسمِ شبیری ادا
کرنے کا کردار مجھے بہت پسند ہے۔ جہاں تک ان کی سیاسی فکر کا تعلق ہے تو مجھے اس
وقت ان کا ایک فقرہ یاد آ رہا ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ دنیا میں اور بھی تو بہت
سی حکومتیں ظلم کر رہی ہیں، پھر آپ سب سے زیادہ امریکا کو نشانہ کیوں بناتے ہیں؟
اس پر انھوں نے کہا کہ دانش ور کا پہلا فرض خود اپنے اور اپنے معاشرے کے گریبان
میں جھانکنا ہے۔ اسے سب سے پہلے اپنے معاشرے کی خرابیاں گنوانی چاہئیں۔ دوسرے
ملکوں کی حکومتوں اور معاشروں کی خرابیاں گنوانے کے لیے ان کے اپنے دانش ور بھی تو
ہیں۔ یعنی بجائے اس کے کہ بھارت کے دانش ور پاکستان پر اور پاکستانی دانش ور بھارت
پر تنقید کریں، ہم کیوں نہ اپنے اپنے معاشروں کی خرابیاں گنوائیں اور ان کے خاتمے
کے لیے جیسی بھی بن پڑے جدوجہد کریں۔ چومسکی کا ایک اور تصور جو مجھے بہت پسند ہے
وہ یہ ہے کہ ہر ریاست ’غنڈہ‘ ریاست ہوتی ہے۔ اب آپ اس تصور کی تفسیر کر لیجیے۔
دنیا کے ہر ملک میں امریکا کو گالی دی جا رہی ہے، مگر ہم نے جو تیسری دنیا میں
چھوٹے بڑے رجواڑے کھڑے کر رکھے ہیں تو ان کی خامیوں پر کون روشنی ڈالے گا؟۔ آپ
دیکھیے کہ پاکستان اور ہندوستان سمیت تیسری دنیا کی ہر وہ ریاست، جو عالمی سطح پر
خود کو مظلوم کہلاتی ہے، خود اپنے شہریوں پر کس کس طریقے سے ظلم کر رہی ہے اور
وہاں لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کس طرح پامال کیے جا رہے ہیں۔ انسانوں نے
اپنی تاریخ کے ارتقاء کے دوران ریاست کی تشکیل کے لیے جب عُمرانی معاہدہ کیا تھا
تو اس کا مقصد یہ تھا کہ ریاست اپنے کمزوروں کی حفاظت کرے۔ جمہوریت کا مطلب اکثریت
کی حکم رانی ہے۔ مگر اقلیتوں کی نگہبانی اور ان کے حقوق کا تحفظ اور معاشرے کی
تکثیریت اور تنوع کی حوصلہ افزائی بھی تو ریاست ہی کو کرنا ہے۔ تو ایسا ہے کہ
چومسکی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور میں نے ان کا ترجمہ بھی اسی نیت سے کیا
تھا۔
تصنیف
حیدر:بورخیس اور میلان کنڈیرا، ان دونوں کے تخلیقی رجحانات اور اچھے برے پہلوؤں پر
آپ کس طرح روشنی ڈالیں گے؟
سید
کاشف رضا: بورخیس اور میلان کنڈیرا کے میں نے کچھ تراجم کیے ہیں لیکن میں ان کے
علاوہ جیمز جوئس کی تحریروں اور اس کے تحریروں کی جوڑ جاڑ کے طریقہ ء کار سے بھی
کافی متاثر ہوا ہوں۔ مارکیز، ہیمنگوے، سٹیونسن اور ڈی ایچ لارنس سے بھی زندگی کے
مختلف ادوار میں بہت کچھ حاصل کیا۔ ان سات ادیبوں میں کچھ بہت سادہ ہیں اور کچھ
بہت پے چیدہ۔ میں ان کا اچھا مرید تو نہیں، لیکن میں نے ان کے تخلیقی نظام، جسے
میں نے تخلیقی جوڑ جاڑ کا نام دے رکھا ہے، یا ان کے تخلیقی پراسیس کو کافی دلچسپی
سے دیکھا ہے۔ آپ نے ان میں سے دو کے بارے میں پوچھ کر میرا کام کچھ آسان کر دیا
ہے۔ عرض یہ ہے کہ فی الحال تو میرے نظر صرف ان کے اچھے پہلوؤں پر ہے۔ دونوں ایک
دوسرے سے بے حد مختلف ہیں۔ دونوں جس طرح اپنی تحریر میں اپنے موضوع کو سٹڈی کرتے
ہیں، اس میں جیسے خود کو ملوث کرتے ہیں، جیسے اس موضوع کو کئی طرف سے ٹٹول ٹٹول کر
اپنے انتخاب کا لطف اٹھاتے ہیں وہ مجھے بہت پسند آیا۔ بورخیس کم سخن ہے۔ بہت کم
صفحوں میں دنیا جہان کی کسی بڑی جہت کو گرفت میں لیتا ہے اور دنیا کی ایک نئی
تفہیم سے ہمیں باخبر کر دیتا ہے۔ اس دریافت سے حاصل شدہ مسرت ویسی ہی ہوتی ہے جیسی
ریاضی کا کوئی فارمولا دریافت کرنے پر ریاضی دانوں کو ہوتی ہو گی۔ بورخیس ایک ایسا
انسائکلوپیڈک ادیب ہے کہ چار صفحے کا افسانہ پڑھوا کر آپ کے دل میں مزید دس کتابیں
پڑھنے کی بھوک پیدا کردے گا۔اور میلان کنڈیرا؟ اس کا شکریہ تو میں ادا ہی نہیں کر
سکتا۔ اس کی مدد سے تو میں نے خود اپنی دریافت میں بھی مدد لی ہے۔ فکشن میں اس کے
بنیادی سروکار بھی دو نظر آتے ہیں۔ ایک تو معاشرے سے فرد کے تعلق اور فرد کی آزادی
کے لیے اس کی جدوجہد اور دوسرا عورت اور مرد کا تعلق۔ یہ دو سروکار اور بھی ادیبوں
کے ہوں گے لیکن میلان کنڈیرا نے انھیں کس تخلیقی سطح پر برتا ہے وہ کسی اور کے بس
کی بات نہیں۔ اشیاء، معاشرے اور صنفِ مخالف سے تعلق کے سلسلے میں کنڈیرا کی
دریافتیں بے مثال ہیں۔ اس کے فکشن میں امیج کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی نے
بتایا کہ ہر انسان کی زندگی میں کچھ خاص امیج ہوتے ہیں جو اس کے لیے زندگی کے معنی
کی تشکیل کرتے ہیں۔ ان امیجز میں وہ خاص الفاظ بھی ہوتے ہیں جو کسی انسان کے لیے
خاص معنی رکھتے ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے مجھے اس کے ناول کا ایک باب یاد آ رہا ہے جس
کا عنوان ہے: ورڈز مس انڈرسٹڈ، یعنی غلط سمجھے جانے والے الفاظ۔ لفظوں کے معنی کو
غلط سمجھے جانے سے کسی بھی فرد کی غلط تفہیم کا المیہ پیدا ہوتا ہے اور دنیا کا
تقریباً ہر آدمی اپنی غلط تفہیم کا درد لیے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور اس کی
شخصیت کے اصل معنی کی پوٹلی اس کے ساتھ ہی اس کی قبر میں دفن یا کریمی ٹوریم میں
جلا دی جاتی ہے۔ یہ بھی ہیں، ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے۔ غرض بورخیس اور
کنڈیرا ان ادیبوں میں شامل ہیں جن کے ہاں میں نے وہ موتیف دریافت کیے جن سے خود
مجھے خاصا سروکار ہے۔ میں تخلیق کی عظیم الشان عالمی ضیافت میں ان دونوں کے کیاسک
یا کھوکھے کے اردگرد منڈلانا زیادہ پسند کرتا ہوں۔
تصنیف
حیدر:حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری ہونے کے باوجود اگر میں آپ سے اب ان اجلاسوں کی
خامیوں کے بارے میں استفسار کروں تو وہ کیا ہوں گی؟ جن کو دور کرنے کی آپ کوشش بھی
کر رہے ہیں؟
سید
کاشف رضا: کراچی میں حلقہ اربابِ ذوق عرصے سے غیر فعال تھا۔ عقیل عباس جعفری، فہیم
شناس کاظمی اور میں نے متعدد مرتبہ لاہور اور اسلام آباد میں حلقے کے اجلاسوں میں
شرکت کی اور ہمیں اس ضرورت کا احساس ہوا کہ کراچی میں کوئی ایسا حلقہ ہونا چاہیے
جہاں تخلیق پر بات ہو سکے؛ ورنہ تو کراچی میں صرف شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ سو
اس گناہ میں مذکورہ بالا دوست شریکِ اول ہیں۔ عقیل صاحب نے ڈھائی برس حلقے کا
انتظام خوب چلایا اور پھر یہ بھاری پتھر میرے کاندھوں پر رکھ دیا۔اس کے اجلاسوں کی
خامی وہی ہے جو خامی ادب کے قاری کی قرات میں ہے اور وہ یہ کہ وہ تخلیق کے تمام یا
بیش تر یا کچھ پہلوؤں کو سمجھے بغیر فتویٰ بازی پر یقین رکھتا ہے اور ایک ہی آن
میں تخلیق کو منظور یا مسترد کر دیتا ہے۔ بھئی اب تخلیق کوئی قرارداد تو ہوتی نہیں
جس کے بارے میں فوری طور پر ایسے فیصلے کیے جا سکیں۔ تو ہماری کوشش یہی ہے کہ حلقے
کے اجلاسوں میں سینئرز زیادہ سے زیادہ شرکت کریں تاکہ نوجوانوں کی رہ نمائی ہو اور
اجلاسوں کا معیار بھی بہتر ہو سکے۔ حلقے کے اجلاسوں کی خوبیاں بھی بے شمار ہیں،
لیکن وہ آپ نے پوچھی نہیں اس لیے میں کیوں بتاؤں؟ لیکن چلتے چلتے ایک غلط فہمی کا
ازالہ کرتا چلوں کہ حلقہ اربابِ ذوق اور انجمن ترقی پسند مصنفین کی رقابت اب صرف
کتابوں میں ملتی ہے۔ ہمارے حلقے کے کارپرداز انجمن ترقی پسند مصنفین کے رکن بھی
رہے ہیں اور اس کے مداح و معترف بھی۔ اب تو حلقے کے اجلاس بھی کراچی یونین آف
جرنلسٹس کے دفتر میں ہوتے ہیں جسے سرخوں کا فورم کہا جاتا تھا۔ بائیں بازو والے
وہابی نہ ہوں تو مجھے بہت عزیز ہیں اس لیے وہ بھی آئیں اور جم جم آئیں۔
تصنیف
حیدر:محمد حنیف کے ناول کے ایک حصے کا ترجمہ آپ نے ’پھٹتے آموں کا کیس‘ کے نام سے
کیا ہے جو کہ ’آج‘ میں شائع بھی ہوا۔ ترجمے کے اس تجربے کے بارے میں ہم آپ سے کچھ
جاننا چاہیں گے؟
سید
کاشف رضا:میں نے جب بھی کسی تحریر کا ترجمہ کیا، اسے اپنے تخلیقی عمل اور اپنے
ادبی سروکار کا حصہ سمجھ کر کیا، جیسا کہ اس سے پہلے چومسکی کے تراجم کا بھی ذکر
ہوا۔ لیکن تراجم میں فکشن اور نان فکشن کے تراجم ایک ایسا شعبہ ہے جس میں توفیق
ہوئی تو میں مزید کام کرنا چاہوں گا۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں نے جو فکشن پڑھا
اس میں محمد حنیف کا یہ ناول سرفہرست ہے۔ مگر میں نے جب اسے انگریزی میں پڑھا تو
اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ضیاء الحق دور کے بارے میں اس ناول کی قرات کی اصل
ضرورت تو اردو قاری کو ہے۔ اس گیارہ سالہ تاریک دور کا تجربہ اس انداز میں کوئی
اردو ادیب بھی نہیں لکھ پایا تھا۔ معاشرہ جب کسی آمر کو ختم نہیں کر پاتا تو اس کا
مذاق اڑا کر اس کے پرخچے اڑا دیتا ہے۔ سٹالن کی موت کے بعد اس کے شخصی بت کو توڑنے
میں اس سے متعلق لطیفوں اور مزاحیہ قصوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان قصوں سے
متعلق نکولائی کروتکوف نے ایک کتاب لکھی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی۔ پرویز مشرف
کی فوں فاں اور نام نہاد پرسنالٹی کو بھی پاکستانی معاشرے کے مذاق نے دریا برد کر
دیا۔ پاکستانی معاشرے کے مزاح میں وینم کی ایک کاٹ دار رو ہے جو ہر ظالم اور ہر
ڈکٹیٹر کا بت پاش پاش کر دیتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ محمد حنیف نے اس خالص پاکستانی
طنز اور مزاح کو بہت عمدہ طریقے سے پیش کیا۔ پھر یہ ایسا ناول تھا جو مجھے انگریزی
میں بھی اردو سے بہت قریب لگا۔ اس کا ترجمہ میں نے اپنا فرض سمجھ کر کیا۔ کتابی
سلسلے ’آج‘ میں تو اس کے ایک حصے کا ترجمہ شائع ہوا تھا لیکن میں پورے ناول کا
ترجمہ کر چکا ہوں۔ اب دیکھیے یہ شائع کب ہوتا ہے۔ ویسے ہندوستان کے مزاحیہ شو دیکھ
کر میں سوچتا ہوں کہ وہاں مزاح سے ویسا تخلیقی کام نہیں لیا جا رہا جیسا پاکستان
میں لیا گیا۔ مزاح بہت کارآمد چیز ہے۔ جو دشمن توپ کے گولے سے نہ مرتا ہو، اسے
مزاح کے دو فقروں سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ میں تو کوشش کرتا ہوں کہ اپنی نظم و نثر
میں بھی اس زہریلے تریاق سے بھی کچھ کام لیا کروں۔
تصنیف
حیدر:کسی بھی تخلیق کی فلسفیانہ تعبیر اسے اچھے اور نئے معنی فراہم کرتی ہے یا اور
گنجلک بناتی ہے؟
سید
کاشف رضا:کسی بھی تخلیق کی فلسفیانہ تعبیر اس کی صرف ایک جہات یا چند جہات کی نشان
دہی کر سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کا اسے دعویٰ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اور کسی بھی تخلیق
کی صرف فلسفیانہ تعبیر کیوں کی جائے؟ جمالیاتی، نفسیاتی، لسانیاتی، ساختیاتی اور
سوشیالوجیکل تعبیر کیوں نہ کی جائے؟ ’معنی فراہم کرنا‘ کے تصور سے ایسا لگتا ہے
جیسے کوئی نقاد تخلیق کی معنی سے تہی خالی ٹینکی میں معنی کے ڈول بھر بھر کر ڈال
رہا ہو۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تصور ہے بالکل درست۔ نقادوں نے یہ کام کیا
بھی ہے اور بعض نے تو خوب کیا ہے۔ کرنا بھی چاہیے، کیونکہ لطافت بے کثافت جلوہ
پیدا کر نہیں سکتی۔
سوال:
زاہد ڈار کی نظموں کا مرکزی موضوع بھی عورت ہے۔ آپ نے بھی عورت کو تخلیق کا منبع
کہا ہے، لیکن زاہد ڈار نے گوشت پوست کی عورت سے کام لیا ہے، اور آپ نے اسے ایک
تقدیس کے گھیرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ یہ بات درست ہے یا سرے سے ہی بے معنی ہے؟
جواب:پہلے
تو آپ مجھے دماغی مشقت کی چکی میں پیستے رہے اور مزے کا سوال آپ نے آخر میں آن کر
کیا ہے۔ عورت اور مرد سبھی گوشت پوست ہی کے تو ہوتے ہیں۔ زاہد ڈار صاحب کی نظمیں
مجھے بہت پسند ہیں۔ عورت سے محبت کے بارے میں یہ نظمیں سادہ ہیں اور بڑی ٹو دی
پوائنٹ۔ ان کی نظموں کی عورت ہے تو گوشت پوست کی لیکن یہ بات زاہد ڈار صاحب نے خود
مجھے بتائی تھی کہ انھوں نے اس سے ’کام‘ کوئی نہیں لیا، صرف اسے چاہا اور اس کی
پرستش کی۔ میرے نزدیک عورت مادرِ تخلیق ہونے کے ناطے تخلیق کا منبع تو ہے ہی لیکن
عورت تخلیق پر اکساتی بھی ہے۔ میرے کچھ دوست تو سمجھتے ہیں کہ میں نے شاعری میں
عورت کے ساتھ کافی لبرٹی لی ہے۔ تقدیس کے گھیرے میں کھڑا کرنا تو شاید ایک مختلف
بات ہو گی۔ شاعری میں اگر میں نسوانی حسن کے بیان کے حوالے سے کچھ حدود توڑتا
محسوس ہوتا ہوں تو اس کی وجہ میری یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنے تجربے کو اسی حسن و
خوب صورتی کے ساتھ شاعری میں منتقل کر سکوں جیسا یہ مجھے ہوا ہے۔ یونانی دیومالا
میں ’میڈوسا‘ نام کا ایک کردار ہے۔ جو بھی شخص اس کے چہرے کی طرف دیکھتا تھا، پتھر
کا ہو جاتا تھا۔ نسوانی حسن مجھ پر الٹا اثر کرتا ہے اور میری پانچوں حسیات کی
یادداشت کو تیز کر دیتا ہے۔ اس لیے شاید یہ اس قسم کی شاعری ہے جسے سنشوئس شاعری
کہا جاتا ہے۔ ہمارے اردو شاعر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ شعر تبھی کہتا ہے جب
وہ اداس ہوتا ہے۔ میں نے شاعری کو اپنی مسرتوں میں بھی شریک کرنے کی کوشش کی ہے؛
وہ مسرتیں جن میں نسوانی حسن میرا ہم دم و ہم قدم رہا۔ اور لفظ بھی وہی اچھے رہے
جو اس کی شکرگزاری میں صرف ہو گئے۔ میرا فلموں اور موسیقی کا شوق بھی مجھ میں کبھی
کبھار ایسا ہی مسرت آگیں تخلیقی ولولہ بھر دیتا ہے۔ایسے میں یادیں بہت دور دور سے
آ کر کوئی پڑیا سی تھما جاتی ہیں۔ میں کوئی میڈاس نہیں کہ جس کے چھونے پر ہر حرف
سونے کا ہو جائے۔میں نے تخلیق کو ایک عظیم الشان عالمی ضیافت کہا تھا۔ اس عالمی
ضیافت میں ہر باورچی کو اپنی ریسی پی بہت عزیز ہو سکتی ہے۔ میں اپنے کیاسک، اپنے
کھوکھے پر اپنی ریسی پیز کے ساتھ مگن رہتا ہوں۔ کبھی کوئی ایسا قاری بھی آ نکلتا
ہے جسے رش والے کھوکھوں پر جانے کی جلدی نہ ہو، تو ہم دونوں ایک دوسرے سے مل کر دو
گھڑی خوش ہو لیتے ہیں۔ یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر۔
تصنیف
حیدر: نظم کی تکنیک میں تنوع کے امکانات پر آپ کی کیا رائے ہے؟
سید
کاشف رضا:ہر صنف کی طرح نظم کی تکنیک میں تنوع کے بھی بے پناہ امکانات ہیں۔ ابھی
تو آزاد نظم کی تکنیک میں بھی تنوع کے بے شمار امکانات ہیں جنھیں دریافت کرنا باقی
ہے اور نثری نظم تو ہے ہی نئی نویلی صنف۔ مستقبل میں موضوعاتی اور تکنیکی تنوع
ہمیں نثری نظم میں ہی نظر آئے گا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ نثری نظم فکشن کے
کافی قریب ہے جو ہمارے عہد کی نمایندہ ترین صنف ہے۔ ایلیٹ نے تو یہ بات کافی عرصہ
پہلے کہی تھی کہ اچھی شاعری بھی وہ ہوتی ہے جو نثر، اور اچھی نثر، کے قریب ہو۔
لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ شاعری، اور خصوصاً نثری نظم، فکشن اور اس کے بعد نان فکشن
کے چشمے سے اپنی پیاس بجھائے گی اور فکشن اور نان فکشن میں کیے جانے والے تجربات
نظم کو بھی موضوعاتی اور تکنیکی تنوع کے امکانات سجھائیں گے۔ باقی مستقبل بعید کا
کس کو پتا ہے؟ آج سے سو سال پہلے کس کو پتا تھا کہ فلم اظہار کا اتنا بڑا میڈیم
قرار پائے گا کہ تخلیق سے وابستہ اعلیٰ ترین اذہان کو اپنی جانب متوجہ کر لے گا؟
کیا خبر آج سے سو سال بعد تخلیق سے تحریر کا رشتہ اتنا مضبوط رہے یا نہ رہے جتنا
آج ہے۔ اور شاعری کا مستقبل تو خود تخلیق بہ طور تحریر ہی کے مستقبل سے جڑا ہوا
ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں اب بارڈ نہیں ملتے۔ موسیقی کو شاعری کی ضرورت
رہے گی لیکن یہ ضرورت دو طرفہ ہوئی تو شاعری بھی تبدیل ہو گی۔ ہماری کلاسیکی
موسیقی تو ہماری کلاسیکی شاعری کو سمجھ کر خود میں سمو بھی لیتی تھی۔ کیا جدید
موسیقی جدید اردو شاعری کو خود میں ایسے سمو پائے گی؟ شاعری کی طرح موسیقی بھی کسی
معاشرے کے دل کی دھڑکن ہوتی ہے۔ ایک سہ لسانی معاشرہ کیا اپنی موسیقی، اپنی شاعری
اور اپنے دل کی دھڑکن کے بارے میں کنفیوز تو نہیں ہو جائے گا؟ کیا مرتی ہوئی
زبانوں کی شاعری بھی مر جائے گی؟ یا لاطینی زبان کی شاعری کی طرح اسے ترجمے کے
ذریعےدوسری
زبانوں میں محفوظ کر لیا جائے گا؟۔ جہاں ایسے بڑے بڑے سوالات موجود ہوں وہاں میں
نظم کی تکنیک میں تنوع کے امکانات پرمزید
کیا بات کروں؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں