بدھ، 26 اگست، 2015

آج: پہلی کتاب 1981

۱۹۸۹ میں باقاعدہ سہ ماہی کے طور پر شروع ہونے سے پہلے آج کے دو شمارے ’’آج: پہلی کتاب‘‘ اور ’’آج: دوسری کتاب‘‘ کے عنوان سے بالترتیب ۱۹۸۱ اور ۱۹۸۷ میں شائع ہوے تھے۔ آج کے متن کو یونی کوڈ فارمیٹ میں آن لائن کرنے کا عمل انھی دو کتابوں سے کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد شمارہ ۱ سے لے کر اب تک کے تمام شمارے ترتیب وار پیش کیے جائیں گے۔ آج: پہلی کتاب اب سے ٹھیک چونتیس برس پہلے، اگست ۱۹۸۱ میں، حیدرآباد سندھ سے شائع ہوئی تھی۔ اسے اردو میں اس وقت مروج کتابت اور آفسٹ طباعت کے طریقے کے برعکس، لیٹرپریس کے طریقے سے کمپوز کرا کے شائع کیا گیا تھا، جس میں کمپوزیٹر دھات کے بنے ہوے حروف کو ہاتھ سے اٹھا اٹھا کر جوڑتا اور ایک ایک لفظ، ایک ایک سطر اور ایک ایک صفحہ تیار کرتا تھا۔ اس وقت یہ بات خواب و خیال میں بھی نہ تھی کہ کمیونی کیشن میں ایسا انقلاب بھی آ سکتا ہے جب دنیابھر میں کسی بھی مقام سے کسی متن کو پڑھنے محض کی بورڈ کی ایک کلک درکار ہو گی۔(اجمل کمال)



آج اعلان کا دن ہے۔
اپنی محبت کا اعلان، اور اپنی نفرت کا ، اور اس بات کا اعلان کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں، اور اس بات کا کہ وابستگی اور مزاحمت اس زمین پر محبت اور نفرت کے نائب ہیں۔
اس طرح ایک دریا کے کنارے قائم ایک چھوٹے مگر بامعنی شہر سے شائع ہونے والی یہ کتاب محض نظم و نثر کا مجموعہ نہیں بلکہ محبت اور نفرت کا ایک اعلان نامہ بھی ہے۔ اس میں آپ ہمارے آج کے ادب کے بعض اہم رجحانات کا کراس سیکشن دیکھ سکتے ہیں، لیکن اصرار اس پر نہیں۔ اصرار اس کُل پر ہے جس کا موزائیک یہ اور دوسرے رجحانات مل کر بناتے ہیں، اور جو اس آج کا منظرنامہ ہے جس میں ہم اور آپ جیتے ہیں۔
یہ بدگمانی آرٹ کی توہین ہے کہ وہ اپنے زمان ومکاں سے اوپر اٹھ کر اس کی سمت متعین کرنے کا امکان نہیں رکھتا، لیکن اس کی مثالیں اتنی کم ہیں کہ انھیں مستثنیات میں شمار کرنا چاہیے۔عام طور پر اس کا مائیکروسٹرکچر کسی ایک صورت حال میں سانس لیتے ہوے چھوٹے بڑے لوگوں کے دنوں اور راتوں، دکھوں اور خوشیوں، اندیشوں اور خوابوں کا تانابانا ہی ہوتا ہے۔ آرٹ کا کوئی بھی رجحان معاشرے میں موجود کسی لہر کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ہمارا آرٹسٹ ایک فحش صورت حال میں زندہ رہنے کے عذاب میں مبتلا ہے۔ یہ عذاب اور اس کا ردعمل ہمارے آج کے آرٹ کا بنیادی مٹیریل ہے۔ اگر اس میں غصہ، فردیت پسندی، ایبسرڈٹی اور نی ہی لزم ہے تو یقیناً ہمارے گردوپیش میں اس کا جواز موجود ہو گا۔
آج کی حدیں سیّال ہیں، اور آج کا ادب کسی رجمنٹیشن کو روا نہیں رکھتا۔ 1936 میں شروع ہونے والی ترقی پسند ادب کی تحریک اپنے امکانات پورے کر کے ختم ہو چکی ہے، اور اس کے ساتھ ہی اس کی عائد کردہ ملامتیں اور اس کے بخشے ہوے اعزاز بھی اب بےمعنی ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آج آپ بڑے سے بڑے قدامت پرست، مصلحت اندیش اور کنفارمسٹ کو مہالکشمی کے بائیں کنارے پر پا سکتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آج کی صورت حال کا شعور اب کسی تحریک کا محتاج نہیں رہا؛ یہ اب ہماری زندگیوں میں شامل ہے، اور یقیناً اس میں اس تحریک نے بھی اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ مجرد جدیدیت کا زور بھی اب ٹوٹ چکا ہے۔ دنیا کے جس حصے میں ہم رہتے ہیں اس کی تقدیر کے بارے میں اب کسی اختلاف کی گنجائش نہیں۔ دکھ اور خوف کی وارث خلقت انجمنوں، تحریکوں، اکادمیوں اور کانفرنسوں سے دور اس شعور کو بسر کر رہی ہے۔ وہ ادب سے بےنیاز ہے، اگر چہ ادب اس سے بےنیاز نہیں رہ سکتا۔
ہم لوگ اپنے جیسے دیسوں کے اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ اِنٹی گریشن کے عمل میں ہیں، اور ہمارا ادب ان کے ادب کے ساتھ۔ ہم ایک جیسی تقدیر لے کر پیدا ہوے ہیں اور اس تقدیر سے لڑنے کے لیے ہمارے ہتھیار بھی ایک جیسے ہیں۔ ایک ہی لہو ہے جو ہماری رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے اور ان کی آنکھوں سے ٹپکتا ہے۔ آج لہو کے اس رشتے سے آنکھ ملانے کا دن ہے۔
ہمکاری کا یہی رشتہ آج کے ادب کی فارمز کے مابین بھی ہے۔ نئی شاعری اور نئی کہانی اس کا پتا دیتی ہیں کہ فارمز ایک دوسرے میں اپنی حدیں کم کر کے کسی بڑی فارم کی جستجو میں ہیں۔
یہ آج ہے۔ یہ آپ سے انتخاب کا مطالبہ کرتا ہے۔ آپ اس کے سامنے آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ یا پھر کر سکتے ہیں۔

ترتیب

شاعری

شاہ لطیف
بیت

میرا بائی
پد

سیاوش کسرائی
درخت کی مدح میں

ثروت حسین
وائی
مہران مجھے دو
اگر کسی رات
نگارخانے میں بیل
وہ تین تھے

احمد ہمیش
اشلوک
کچھ چیزیں مجھ سے باتیں کرتی ہیں
۱۹۸۰ء کی ایک نظم

سرویشوردیال سکسینہ
دستکاری کی دکان
رات
دروازے بند ہیں
جب جب سر اٹھایا
اک نئی پیاس
نشچئے کی گھڑی
یہاں
نیلی چڑیاں
کتنا اچھا ہوتا ہے
پناہ
لال سائیکل
انتظار
ہاتھ
راستہ
بھوک
جنگ کا درد
بھیڑیا
دھول
نقشہ
انت میں

اسد محمد خاں
ہارمنی
کھڑکی بھر آسمان
لٹریری راؤنڈ اپ
ہم سب
موت کی نظمیں

فہمیدہ ریاض
سازش

مچاڈو
جرم

تادیوش روزے وچ
خوف
ہمیں تنہا چھوڑدو
زندہ رہ جانے والا
دور دور
ہاسکیل
معصوموں کا قتل
ایک خطاب
گھاس
دیوار
زندگی کے درمیان
بوڑھی عورتوں کی کہانی


صغیر ملال
غزلیں

افضال احمد سید
شاعری میں نے ایجاد کی
اگر میں لوٹ کر نہ آسکا
جتنی دیر میں ایک روٹی پکے گی
شاعر کا دل
مٹی کی کان
بادشاہ کا خواب
لاگ بک
کیا آگ سب سے اچھی خریدار ہے
ایک دن اور زندہ رہ جاتا
تل زعتر سے نشیب
ہمیں ہمارے خوابوں میں مار دیا جانا ہے
زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی
میں مار دیا جاؤں گا

محبوب خزاں
اکیلے شعر

نسرین انجم بھٹی
نظم

ستی کمار
سیلف پورٹریٹ
تاپ
ایک ایبسرڈ صبح

شوکت عابد
غزلیں

عتیق احمد جیلانی
غزلیں

سعیدالدین
ایک منظر کی جزئیات

ذی شان ساحل
پھولوں کے لیے نظم
تجربہ گاہ میں ایک موت
کہانی

کہانیاں

اسد محمد خاں
ناممکنات کے درمیان
سؤروں کے حق میں ایک کہانی

انور خاں
کوّوں سے ڈھکا آسمان

سندیپن چٹوپادھیائے
انقلاب اور راجموہن

حسن منظر
سفید آدمی کی دنیا

ولی رام ولبھ
فوکس سے باہر زندگی

کے ٹی محمد
آنکھیں

افضال احمد سید
حکایت

بورخیس: ایک انتخاب

اجمل کمال
بورخیس: ایک تعارف

خورخے لوئس بورخیس
ELEGY

دستِ خداوند کی تحریر
کرشمۂ مخفی

گول کھنڈر

بابل کی لاٹری

مینارِ بابل کی لائبریری

انفرنو۔1۔32

بورخیس اور میں

سب کچھ اور کچھ نہیں

کافکا اور اس کے پیشرو



شاہ لطیف

بیت

پرديسان پنڌ ڪري هلي آيو هون
اونچو تون عرش تي، آن ڀورو مٿي ڀون
ڪئين تسندين تون، هي سر سوالي مڱڻو

بیجل رائے ڈیاچ سے کہتا ہے:
اے راجہ!
پردیس سے سعی کرتا تجھ تک پہنچا ہوں
تیرا مقام عرش پر ہے، میں انجان دھرتی پر ہوں
تو کیسے میرا سوال پورا کرے گا
میں اپنے گیت کے بدلے تیرا سر مانگتا ہوں
(سُر سورٹھ: پہلی داستان)

میرا بائی

پد

گلی تو چاروں بند ہوئی، میں ہری سے ملوں کیسے جائے
اونچی نیچی راہ رپٹیلی، پاؤں نہیں ٹھہرائے
سوچ سوچ پگ دھروں جتن سے، بار بار ڈِگ جائے
اونچا نیچا محل پیاکا، مھانسوں چڈھیو نہ جائے
پیا دور، پنتھ مھارا جھینو، سرت جھکولا کھائے
کوس کوس پر پہرا بیٹھیا، پینڈ پینڈ بٹ مار
ہے وِدھنا کیسی رچ دینی، دور بسایو مھارے گاؤں
میرا کے پربھو گردھر ناگر، ست گرو دئی بتائے
جگن جگن سے بچھڑی میرا گھر میں لینی لائے


سیاوش کسرائی

فارسی سے ترجمہ:شوکت عابد

درخت کی مدح میں

تو قامتِ بلندِ تمنا ہے اے درخت
سویا ہے تیری گود میں ہر وقت آسماں
اونچا ہے اے درخت
کف تیرے پُر ستارہ ہیں جاں تیری پُر بہار
زیبا ہے اے درخت
جس وقت کہ ہوائیں
گنجان پتوں میں ترے لانے بناتی ہیں
جس وقت کہ ہوائیں
کچنار گیسوؤں کو سہانے بناتی ہیں
رعنا ہے اے درخت
جس دم ہے چنگِ وحشیِ باراں کھلا ہوا
اس بزمِ سرد میں
تو ایک سوزخوانِ خوش آوا ہے اے درخت
قدموں تلے ترے
شب اور شب زدے ہیں کبھی جن کی آنکھ نے
دیکھی نہیں ہے صبح
ہر روز جلوہ گر
سورج کو دیکھ کر
کس دشت میں تو غرقِ تماشا ہے اے درخت
جب خاکیوں کی روح سے با رشتۂ ہزار
پیوند ہے تجھے
پرواے رعد کیا
پرواے برق کیا کہ تو برجا ہے اے درخت
سر کو بلند کر کہ مری آس کی طرح
تو میرے ساتھ رہ کے بھی تنہا ہے اے درخت


ثروت حسین

وائی

کوہیارا، کوہیارا
دیکھ پچھم کے کنارے
چیختے رنگوں کا دھارا
کوہیارا، کوہیارا
دور نیچے بستیوں سے
لہلہاتی پستیوں سے
دیکھتا ہے گھر تمھارا
کوہیارا، کوہیارا
رات آجاتی ہے پل میں
کوئی کہتا ہے جبل میں
دور ہے اب بھی ستارا
کوہیارا، کوہیارا!


مہران مجھے دو

مہران—
مجھے دو
آواز کا ایک پنکھ
مہران —
مجھے دو
ٹوٹے ہوے رشتے
پُرکھوں کے نوشتے
مہران—
مجھے دو
زرخیز کنارا
یہ ہاتھ تمھارا
گرم اور سنہرا
مہران —
مجھے دو
امید اور پانی !


اگر کسی رات

اگر کسی رات
یہ سمندر
ہماری بستی پہ پاؤں رکھ دے
تو کاٹھ گودام اور گلیاں
عدالتیں اور دھوپ گھڑیاں
سپاسناموں معاہدوں سے بنے ہوے یہ تمام منظر
ہمارے جسموں پہ
آ رہیں گے

نگارخانے میں بیل

نگارخانے میں بیل ہے اور سورماؤں کے پاؤں پتھر کے ہوگئے ہیں
کوئی نہیں ہے
کوئی نہیں ہے جو رنگ والواح کی صدا پر مبارزت کا چراغ لے کر ہوا میں نکلے
ہوا میں نکلے کہ رات گہری ہے
بیل بپھرا ہوا ہے
اطراف کی صفوں کو پیوندِ خاک کرتا گزر رہا ہے
تمام آئینے، موقلم اور رنگ کے پیالے
جو آج سینگوں کی نوک پر ہیں
دعا تھے، آواز تھے، بدن تھے
مگر یہ کرچیں—
مگر یہ کرچیں جو میری آنکھوں میں
میرے ہاتھوں میں
میرے تلووں میں چبھ رہی ہیں
حروف واشکال کے جہنم گواہ رہنا
گواہ رہنا کہ کس کے نیزے کی نوک چمکی تھی
کس کے سینے کی ڈھال دیوار بن گئی تھی


وہ تین تھے

وہ تین تھے
اور صبح ہورہی تھی

وہ تین تھے
اور عدالت کی سیڑھیوں پر صبح ہورہی تھی

وہ تین تھے
اور ان کے پیر ننگے تھے

وہ تین تھے
اور لوگ گزر رہے تھے
مذہب سیاست اور گھریلو قضیے

عورت کی چوٹیاں —
صبر اور انتقام سے گندھی ہوئیں
بچہ عورت کو دیکھ رہا تھا
عورت اپنے مرد کو
مرد کی آنکھیں عدالت کے دروازے پر
وہ تین تھے
اور دو پہر بیچ عدالت کی عمارت خالی ہورہی تھی

مجسّمے سیڑھیوں پر رکھے تھے

وہ تین تھے
اور عدالت کی سیڑھیوں سے رات اتر رہی تھی


احمد ہمیش


اشلوک

گیان بلندی کا کشٹ ہے
اس لیے آسانی سے نہیں ملتا
یہ اور بات ہے کہ
تھوڑی دیر کی بارش میں
ان گنت برساتی گڑھے
آسمان کا عکس کھینچ کر اِتراتے ہیں
اور گہرے سمندروں پر ہنستے ہیں


کچھ چیزیں مجھ سے باتیں کرتی ہیں


ماچس کی ادھ جلی تیلی:
جب ان گنت جسموں کے درمیان صرف تیرے جسم کی حق تلفی ہوئی
تو میں نے اس اندھیرے میں تیری موم بتی جلائی
اور جب آب وہوا کی فیاضی صرف خوشحال مکانوں کے لیے تھی
تو میں نے اس بارش میں تیری بیوی کا سنسان چولھا جلایا
تو مجھے بھول گیا
میں تیرے فرش پر پڑی رہی، میں آج بھی تیرے فرش پر پڑی ہوں
اس سے پہلے کہ لوگ مجھے گلی کی نحوست میں پھینک دیں
مجھے اٹھا لے
اور مجھے اس جنگل میں چھوڑ آ جہاں میرا جنم ہوا تھا
جہاں میرا پیڑ تھا


چائے کی ٹوٹی پیالی:
مجھے اٹھا لو
مجھے کسی یادگار جگہ پہ رکھ دو
میں تم سے الگ نہیں ہوں
میں تو خود ان ہونٹوں پہ ادھوری رہی جنھیں تم چوم نہ سکے
میں تو خود ان ہاتھوں سے چھوٹ گئی جنھیں تم تھام نہ سکے


کوڑے کا ڈبا:
مجھ سے نفرت مت کرو
کبھی میرے بھیتر جھانک کر دیکھو، میں تمھارا دل ہوں
مجھ سے نفرت مت کرو
میں تو جوٹھے کھانوں، باسی روٹی کے ٹکڑوں اور
تمھارے بچوں کی ٹوٹی چپلوں کی پناہ گاہ ہوں


بجلی کا بلب:
میں اپنی ایجاد کے دن سے آج تک کہاں کہاں جلا ہوں میں یہ نہیں بتاؤں گا
اس وقت جب کینسر وارڈ میں بلغم سَک کرنے والے پائپ سے چل کر موت
مریض کے گلے تک پہنچتی ہے
یا کسی آدھی روشن گلی میں کسی ناآسودہ مرد کے سینے پر پاؤں رکھ کر
کوئی آسودہ عورت گزر جاتی ہے
دروازہ بند کرلیتی ہے
میں یہ نہیں بتاؤں گا کہ میں کہاں کہاں جلا ہوں


1980 کی ایک نظم

بہت سی باتیں ہواؤں کے بارے میں نہیں کی جا سکتیں
کیونکہ انھیں نہ کرنا ہی اچھا ہے
اور جو برا ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں
اہمیت ہوتی تو میں پہلا شخص ہوتا جو اسے ضرور کرتا
پھر خشک گھاس کا ہوا میں اُڑنا
کسی ایسی ہوا میں اڑنا جس پر پیغمبروں کی گزربسر تھی
اب کون جانتا ہے کہ آدمیوں اور جانوروں کی تاریخ پر بیک وقت چلنا ہے، چلتے رہنا ہے
میرے کتے، مجھے معاف کردے کہ میں نے خود سے زیادہ تجھے نہیں چاہا
ان لکڑی کے ٹکڑوں کے لیے جو کاغذ کے گناہوں سے دور ہیں
جو سو نہیں سکتے کیونکہ ان پر دھوپ گرتی ہے
یا وہ کائی جو اگیان کی سطح پر اُگتی ہے
جسے ہماری پہنچ سے اڑنے والی کوئی چیز
(آپ کسی نامعلوم چڑیا کا نام لے سکتے ہیں) نہیں دیکھ سکتی

چلو چھوڑو، یہاں بیٹھتے ہیں
پر میں تو کہیں بیٹھنے کا ڈھنگ ہی نہیں جانتا
اسی لیے چلتا ہوں، یہ جانتے ہوے کہ میں چلنے کا ڈھنگ بھی نہیں جانتا
اسی لیے بیٹھ جاتا ہوں—
شاید وہاں دھوپ زیادہ تھی یا یہاں دھوپ کم ہے
یہاں کچھ اور ہے یا کچھ اور نہیں ہے
شاید کوئی ایسی چیز جو تھپکی دے اور کہے کہ کسی نے کچھ نہیں لکھا
وہ تو ایک وہم ہے، انجانے طور پر نیند کو جلا دیتا ہے، کسی سوال کو سونے نہیں دیتا
چلو اسے اٹھا لیں
چلو خوش ہو لو کہ کوئی گارہا ہے
وہ جو آج تک گایا نہیں گیا
یہاں مت بولنا، چپ رہنا، یہ جانتے ہوے کہ میں تم سے زیادہ
کسی گالی کے سات ہزار تیور جانتا ہوں
میں اسے بھی مٹا سکتا ہوں جسے مٹانے کے لیے اپنے نہ ہونے کا آڈمبر رچانا پڑتا ہے
عدم وجود کے اس کال میں چلتے رہو چلتے رہو یہاں تک کہ تم سے کہلوایا جائے
کہ تم روٹی اور پانی کا مطلب نہیں جانتے
ایک جیتی جاگتی شہوت کو پہچان نہیں سکتے
چلو مان لیا کہ بہت کچھ یونہی ہو جاتا ہے پھر بھی بہت کچھ یونہی نہیں ہوتا،
نہیں ہوتا نہیں ہوتا نہیں ہوتا
چاہے نامعلوم سے نامعلوم کے بیچ کوئی بےوقوف کتنی ہی کالی دھول کیوں نہ اڑائے
مثلاً تم ٹھوکر سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ جوتے کی نوک سے سمجھوتہ کر لے
جوتے کی نوک تو ٹھوکر ہی ہوتی ہے
ایک معمولی کیل بھی ڈکٹیٹر ہوتی ہے
ایڑی کی کھال میں چبھنے سے پہلے پوچھتی نہیں
یہ جانتے ہوے بھی کہ میں وہ ہوں جسے اس کے پاؤں خوب جانتے ہیں
جینے کے لیے یہی کافی ہے یا یہ کافی نہیں ہے
میں نہیں جانتا کہ کوئی کیا دے سکتا ہے سواے اس کے کہ وہ کچھ لے نہیں سکتا
اور کون ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ اسے کچھ دیا گیا ہے
اور اس نے کچھ لیا ہے
مثلاً اگر رات ہو چکی ہے تو اس لیے نہیں کہ اسے ہونا تھا
بلکہ اس لیے کہ اس کے ہونے سے بہت پہلے بہت کچھ ہو چکا ہے
جن لوگوں کو آنا تھا وہ آنے سے بہت پہلے جا چکے ہیں


سرویشور دیال سکسینہ

ہندی سے ترجمہ اور فرہنگ:اسد محمد خاں


دستکاری کی دکان

صبح —
دمکتے سونے سے رنگ والی
ایک الھڑ کشوری
تولی رنگ کی ساڑھی پہنے
رنگ برنگی مونجھ کی ڈلیا بُن رہی ہے

دوپہر —
گورے چٹے رنگ کی
سن سے سفید بالوں والی بڑھیا
چاندی کی عینک لگائے
کشیدہ کاڑھ رہی ہے

شام—
سیندور کا بڑا ٹیکا لگائے
بُنکر کی سانولی عورت
سوت کی رنگ برنگی لچھیاں رنگ کر
آکاش کی الگنی پر ٹانگ رہی ہے

رات —
کالی ساڑھی پہنے
پانڈومکھی وِدھوا
شیش جھکائے
آکاش کے وِشال کنتھے میں
ڈورا ڈال رہی ہے

دھنی کال نے کھول رکھی ہے
کسی اگیات نگر میں دستکاری کی دکان
میں ان گھڑ کوی
دھول میں اداس بیٹھا
سب کی شِلپ چاتُری دیکھتا ہوں—


کشوری: دوشیزہ تُولی: گہرا سرخ پانڈومُکھی: سیم رو شیش: سر
وشال: بڑا کنتھا:سوزن دھنی کال: مالدار وقت اگیات نگر: نا معلوم شہر
شِلپ چاتری: کاریگری



رات

پلکوں پر بوجھ ہے
اور رات ابھی شروع ہوئی ہے
کوئی سپنا اتنا ہلکا نہیں ہوتا
کہ صبح بن جائے—

اندھیرا پتھر ہے
جسے ہر روشنی اپنے آکار میں
گڑھتی ہے
تب تک رہتی ہے—
پھر ایک پہاڑ کے سامنے
چھینی ہتھوڑا چھوڑ کر
چلی جاتی ہے—

پلکوں پر بوجھ ہے پہاڑ کا
اور رات ابھی شروع ہوئی ہے
دکھ کو ایک نئے سرے سے تراشنا
مجھے شروع کرنا ہے—

آکار: FORM


دروازے بند ہیں

دروازے بند ہیں
گھر میں کوئی نہیں ہے
سوا سمرتیوں کے
دراڑوں سے آتی روشنی
خاموشیوں کی پسلیوں سی
ادھوری ہے
دیواروں پر —
نتھنوں سے دماغ تک
رینگتی ہے گندھ
قید ہوا کی
میں نہیں جانتا تمھیں کیسا لگے گا
جب تم دیوار پھاند کر
اندر آؤ گے—
سفیدی پیلی پڑ گئی ہو گی
اندھیرا کسمساتا
دُھول بن، جم رہا ہو گا—
تمھارے ہاتھ
گھڑی کی سوئیوں کو ہلائیں گے
پری تیکت گھونسلا
گر پڑے گا تمھارے اوپر—
سمے قالین کے نیچے مرا پڑا ہو گا
چیونٹیاں اسے کھینچ کر
لیے جا رہی ہوں گی—


سمرتی: یاد گندھ: بو پری تیکت: چھوڑا ہوا، ترک کردہ



جب جب سر اُٹھایا

جب جب سر اُٹھایا
اپنی چوکھٹ سے ٹکرایا—
مستک پر لگی چوٹ
من میں اٹھی کچوٹ
اپنی ہی بھول پر میں
بار بار پچھتایا
جب جب سر اٹھایا
اپنی چوکھٹ سے ٹکرایا—

دروازے گھٹ گئے
یا میں ہی بڑا ہو گیا
درد کے چھنوں میں کچھ
سمجھ نہیں پایا
جب جب سر اٹھایا
اپنی چوکھٹ سے ٹکرایا

’’شیش جھکا آؤ‘‘
بولا باہر کا آسمان
’’شیش جھکا آؤ‘‘
بولیں بھیتر کی دیواریں
دونوں ہی نے مجھے
چھوٹا کرنا چاہا
برا کیا میں نے جو
یہ گھر بنایا
جب جب سر اٹھایا
اپنی چوکھٹ سے ٹکرایا —

مستک: سر چھن: لمحہ شیش: سر بھیتر: اندر

اک نئی پیاس

میں کب کہتا ہوں
کہ میرے اس مکان میں
دروازے کھڑکیاں اور روشندان مت لگاؤ
کاش کہ تم ان سے ہی مکان بنا پاتے
دیواریں نہ ہوتیں —
کیونکہ مجھے
ساون کی گلابی پھوار سے لے کر
بھادوں کی سانولی موسلادھار تک اچھی لگتی ہے
مجھے برف سی چاندنی
اور آگ سا سورج
دونوں پیارے ہیں، بےحد پیارے
میری التجا تو صرف اتنی ہے
کہ میرے اس مکان کے کہیں کسی کونے میں
ایک چھوٹا سا کمرہ ایسا بھی رہنے دو
جہاں میں دھوپ دیپ جلا سکوں
جہاں میں چند پتلے، رنگین، خوشبودار
پھولوں کے گیت بھرے کاغذ
بیلے کی کچی کلیوں سے دبا کر رکھ سکوں
جہاں میں کبھی ہنستے ہنستے تھک جانے کے بعد جا کر
کسی ست رنگے کپڑے سے
اپنی گیلی آنکھیں بھی پونچھ سکوں
جہاں میں اپنے بھیتر کی ساری گھٹن
ان خاموش پھولوں کے درمیان دبا آؤں
جو ایکانت کی سونی ڈال سے
لگاتار جھرتے رہتے ہیں
جہاں پہنچ کر
میں کسی پوجا گیت کی پوِتر کڑی سا بن جاؤں
اور کنھیں سنگیت بھرے چرنوں پر
کچھ چھن اپنا سر دھر
سب کچھ بھول سکوں
جہاں جا کر میں اپنے بھیتر کی
دیواریں توڑ سکوں اور
تازی ہوا،
طوفان،
پھوار،
چاندنی،
دھوپ،
سب کے لیے ایک نئی پیاس لے کر
سدا واپس آ سکوں—

ایکانت: تنہائی


یقین کی گھڑی

دھوپ میں
ندی پار کر
ہم سب جنگل کے کنارے
پہنچ گئے

تھوڑی دیر پکنک سی اوپری چہل پہل
من بہلاؤ کے لیے
گھاس میں رینگتی رہی
جب بھیتر جانے کا وقت ہوا
یقین کی گھڑی
تو سب ساتھی
الوداع کی مُدرا میں
ہاتھ ہلاتے لوٹ پڑے
کیونکہ بن ابھیگ تھا
اور وہ جسے میں
اپنی مرتیوسنگنی مانتا تھا
صرف میرے گلے میں بانہیں ڈال
میری آنکھوں میں دیکھنے لگی:
کوری سمّوہن درشٹی—

اس نے اپنا سرخ اسکارف کھولا
اور میرے گلے میں باندھ دیا
جیسے لوٹنے کی گھڑی کا آخری اشارہ
پھر بنا میری اور دیکھے ان سب کے ساتھ ہو لی —
وہ سب تیز قدموں سے جا رہے تھے
جیسے لوٹ کے دیکھنے پر دھماکا ہو سکتا ہے

پھر میں اکیلا
راہ ہین، گھنے کالے جنگل میں
گھس گیا ، چلنے لگا

اچانک کھڑکھڑاہٹ ہوئی
میں ہوشیار ہو گیا
میں نے پیچھے دیکھا
ایک ننھا بچہ بےدھڑک
چلا جا رہا تھا

میرے کچھ پوچھنے کے پہلے ہی
اس نے جواب دیا :
’’مجھے رنگین چڑیاں اچھی لگتی ہیں
اس جنگل میں بہت ہیں‘‘

مُدرا: حرکت ابھیگ: ناقابلِ عبور مرتیوسنگنی:رفیقۂ مرگ
سموہن درشٹی: غیرجانبدار نظر راہ ہین: بے رستہ


یہاں

اس نے کہا وہ یہاں نہیں تھی
گویا میں یہاں تھا
یا کچھ بھی یہاں ہے،
رہ سکتا ہے—

’’یہاں‘‘
شبد نہیں ایک چھلانگ ہے
جو ہونے کے ساتھ ہی
کھو جاتی ہے—

یہ دوسری بات ہے
کہ اس سے جڑی بہت سی چیزیں
رہ جائیں
جیسے دیش، کال
... وہ، میں —
یا کچھ اور بھی
جو ان سب کے بیچ نہیں ہے—

نیلی چڑیاں

تمھاری آنکھوں سے اڑیں
نیلی چڑیاں
میرے کھلتے ہونٹوں پر بیٹھ جاتی ہیں
— شبد چگنے لگتی ہیں
اور جب میں شبدہین ہوجاتا ہوں
تب وہ پھر میرے ہونٹوں سے اڑ کر
تمھاری آنکھوں میں چلی جاتی ہیں
ہر بار
میں
چپ رہ جاتاہوں
اور تم
نہارتی

شبدہین: بےلفظ نہارتی: دیکھتی

کتنا اچھا ہوتا ہے

کتنا اچھا ہوتا ہے
اک دوسرے کو بنا جانے
پاس پاس ہونا
اور اس سنگیت کو سننا
جو رگوں میں بجتا ہے
ان رنگوں میں نہا جانا
جو بہت گہرے چڑھتے اترتے ہیں —

شبدوں کی کھوج شروع ہوتے ہی
ہم اک دوسرے کو کھونے لگتے ہیں
اور ان کے پکڑ میں آتے ہی
اک دوسرے کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں
ہر جانکاری میں بہت گہرے
اُوب کا اک پتلا دھاگا چھپا ہوتا ہے
کچھ بھی ٹھیک سے جان لینا
خود سے دشمنی ٹھان لینا ہے
کتنا اچھا ہوتا ہے
اک دوسرے کے پاس بیٹھ
خود کو ٹٹولنا
اور اپنے ہی بھیتر
دوسرے کو پا لینا —

جانکاری: واقفیت



پناہ

ساری زندگی
میں سر چھپانے کو
جگہ ڈھونڈتا رہا
اور انت میں
اپنی ہتھیلیوں سے
بہتر جگہ دوسری نہیں ملی—

لال سائیکل

رات بھر
ایک لال سائیکل
کنٹیلے باڑے سے ٹکی
اکیلی کھڑی رہی
پولیس کی سیٹیاں بجتی رہیں
ان کے بھاری بوٹوں کی آوازیں آتی رہیں

صبح ایک بچہ کہیں سے آیا
اور اوس میں بھیگی ٹھنڈی گھنٹی
بجانے لگا
گھرگھراتی ہوئی ایک کالی بھاری گاڑی
سائرن بجاتی آ کر رکی
بچہ گھنٹی بجانا بھول
گاڑی کی چھت پر ٹمٹماتی
نیلی روشنی دیکھنے لگا
پھر گاڑی اسے لے کر چلی گئی
پہلی بار میں اپنے کمرے کے فرش پر
کھڑکیوں کی سلاخوں کی پرچھائیاں پڑتی دیکھ
سہم گیا

انتظار

انتظار دشمن ہے
اس پر یقین مت کرو

وہ جانے کن جھاڑیوں
اور پہاڑیوں میں
گھات لگائے بیٹھا رہتا ہے
اور ہم پتیوں کی چرمراہٹ پر
کان لگائے رہتے ہیں —

انتظار دشمن ہے
اس پر یقین مت کرو

وہ چھاپہ مار فوجی کی طرح
خود اندھیرے میں رہتا ہے
اور ہمیں اجالے میں کھڑا دیکھتا رہتا ہے
اور ہم اندھیرے میں ٹارچ کی روشنی ہی پھینکتے رہتے ہیں
انتظار دشمن ہے
اس پر یقین مت کرو

وہ ہمیں ندی بنا کر ہمارے بیچ سے ہی
مچھلی کی طرح اَدیکھا تیر جاتا ہے
اور ہم لہروں کے ان گنت ہاتھوں سے
اسے ٹٹولتے رہتے ہیں

انتظار دشمن ہے
اس پر یقین مت کرو
اس سے بچو
جو پانا ہے فوراً پا لو
جو کرنا ہے فوراً کر لو —

ہاتھ

ہاتھ ضروری ہیں
ان کا چلنا اور بھی ضروری
اور نہ رکنا سب سے ضروری

بنا سوئیوں کی گھڑی
سمے کو کیسے پہچانے گی؟
چاہے کلائی کی ہو
یا گھنٹہ گھر کی

ہاتھ ضروری ہیں
گھڑی بند ہو تو بھی
کم سے کم
دوسرے دھوکے میں نہیں رہیں گے


راستہ

بند راستے پر
دوڑنے کی اذیت
جانتے ہوے بھی دوڑو
تبھی اس سکون کو پہچانو گے
جو اس طرح دوڑنے سے ملتا ہے
طے شدہ اذیت
اور حاصل ہونے والا سکون
دونوں جب آمنے سامنے کھڑے ہوں
تب تم وہ نہیں رہ جاؤ گے
جس کے لیے راستہ بند تھا


بھوک

جب بھی
بھوک سے لڑنے
کوئی کھڑا ہوجاتا ہے
سُندر دِکھنے لگتا ہے
جھپٹتا باز
پھن اٹھائے سانپ
دو پیروں پر کھڑا
کانٹوں سے ننھی پتیاں کھاتا بکرا
دبے پاؤں جھاڑیوں میں چلتا چیتا
ڈال پر الٹا لٹک
پھل کترتا طوطا
یا ان سب کی جگہ
آدمی ہوتا

جب بھی بھوک سے لڑنے
کوئی کھڑا ہوجاتا ہے
سندر دِکھنے لگتا ہے


جنگل کا درد

ایک نے مجھ سے پوچھا:
’’جنگل کیا ہوتا ہے؟‘‘
دوسرے نے کہا:
’’اور درد؟‘‘

میں خاموش رہا
میں نے ایک بڑے پنجرے میں
دونوں کو بند کر دیا
اور اوپر ایک کالی
جھینی چادر ڈال دی

کچھ دنوں بعد وہ مجھے
جنگلی جانوروں کی طرح دیکھنے لگے
پہلے ان کی آنکھیں ہری ہوئیں
اہنسک جانوروں جیسی
پھر سرخ ہنسک جانوروں میں بدل گئیں
خونخوار —

وہ بھوکے تھے
میں نے ٹکڑا پھینکا
وے کھانا چھوڑ
آپس میں گتھ گئے
لہو لہان ہو گئے
طاقتور نے سب کھا لیا
کمزور نے لاچاری سے سنتوش کر
درد سے منھ چھپا لیا

یہ سلسلہ بہت دنوں تک
میں نے بنا رہنے دیا
بھوکا رکھنا، ٹکڑا پھینکنا
طاقتور میں درپ جگانا
اور کمزور میں سنتوش

اور جب وہ اس کے اتنے عادی ہو گئے
کہ کچھ اور سوچ پانا
ان کے لیے ناممکن ہو گیا
تب میں نے انھیں
پنجرے سے نکال دیا

اب وہ کھلے میں کھڑے تھے
کھڑے ہیں
کھڑے رہیں گے

ٹکڑے پھینکے جانے کے انتظار میں
لڑنے کو تیار
درپ اور سنتوش کے شکار —

جھینی: مہین اہنسک:غیر متشدد ہنسک:متشدد درپ: زعم، گھمنڈ
سنتوش:صبر، سکون


بھیڑیا

1
بھیڑیے کی آنکھیں سرخ ہیں
اسے تب تک گھورو
جب تک تمھاری آنکھیں سرخ نہ ہو جائیں
اور تم کر بھی کیا سکتے ہو
جب وہ تمھارے سامنے ہو؟
اگر تم منھ چھپا بھاگو گے
تو بھی تم اسے
اپنے بھیتر اسی طرح کھڑا پاؤ گے
اگر بچ رہے

بھیڑیے کی آنکھیں سرخ ہیں
اور تمھاری آنکھیں؟

2
بھیڑیا غراتا ہے
تم مشعل جلاؤ
اس میں اور تم میں
یہی بنیادی فرق ہے
بھیڑیا مشعل نہیں جلا سکتا
اب تم مشعل اٹھا
بھیڑیے کے قریب جاؤ
بھیڑیا بھاگے گا
کروڑوں ہاتھوں میں مشعل لے کر
ایک ایک جھاڑی کی اور بڑھو
سب بھیڑیے بھاگیں گے
پھر انھیں جنگل کے باہر نکال
برف میں چھوڑدو
بھوکے بھیڑیے آپس میں غرائیں گے
ایک دوسرے کو چیتھ کھائیں گے
بھیڑیے مر چکے ہوں گے
اور تم؟

3
بھیڑیے پھر آئیں گے
اچانک
تم میں سے ہی کوئی ایک دن بھیڑیا بن جائے گا
اس کا وَنش بڑھنے لگے گا
بھیڑیے کا آنا ضروری ہے
تمھیں خود کو پہچاننے کے لیے
نڈر ہونے کا سکھ جاننے کے لیے
مشعل اٹھانا سیکھنے کے لیے
اتہاس کے جنگل میں
ہر بار بھیڑیا ماند سے نکالا جائے گا
آدمی ہرش سے ایک ہو کر
مشعل لیے کھڑا ہو گا
اتہاس زندہ رہے گا
اور تم بھی
اور بھیڑیا؟

ونش: خاندان اتہاس: HISTORY ماند: بھٹ ہرش: ہمت


دھول

1
تم دھول ہو
پیروں سے روندی ہوئی دھول
بےچین ہوا کے ساتھ اٹھو
آندھی بن
اُن کی آنکھوں میں پڑو
جن کے پیروں کے نیچے ہو
ایسی کوئی جگہ نہیں
جہاں تم پہنچ نہ سکو
ایسا کوئی نہیں
جو تمھیں روک سکے

تم دھول ہو
پیروں سے روندی ہوئی دھول
دھول سے مل جاؤ

2
تم دھول ہو
زندگی کی سیلن سے
دیمک بنو

راتوں رات
صدیوں سے بند ان دیواروں کی
کھڑکیاں
دروازے
اور روشندان چال دو

تم دھول ہو
زندگی کی سیلن سے جنم لو
دیمک بنو، آگے بڑھو

اک بار راستہ پہچان لینے پر
تمھیں کوئی ختم نہیں کر سکتا


نقشہ

ایک بچہ نقشہ بناتا ہے
تم جانتے ہو وہ کہاں جاتا ہے؟
ایک بچہ نقشے میں رنگ بھرتا ہے
تم جانتے ہو وہ کہاں گیا؟
ایک بچہ نقشہ پھاڑ دیتا ہے
تم جانتے ہو وہ کہاں پہنچا؟

اگر تم جانتے ہوتے
تو چپ نہیں بیٹھتے
اس طرح

انت میں

اب میں کچھ کہنا نہیں چاہتا
سننا چاہتا ہوں
ایک سمرتھ سچی آواز
اگر کہیں ہو

ورنہ
اس کے پہلے کہ
میرا ہر قول
ہر خیال
ہر اظہار
شونیہ سے ٹکرا کر پھر واپس لوٹ جائے
اس بےانت خاموشی میں سما جانا چاہتا ہوں
جو موت ہے

’’وہ بنا کچھ کہے مر گیا‘‘
یہ زیادہ گوروشالی ہے
یہ کہے جانے سے کہ
’’وہ مرنے کے پہلے
کچھ کہہ رہا تھا
جسے کسی نے سنا نہیں‘‘


سمرتھ: توانا شونیہ: صفر،سناٹا، عدم گورَوشالی: قابل فخر


اسد محمد خاں


ہارمنی

صبح جب مشینیں ایک دوسرے کی مدد کررہی ہوتی ہیں
میں شکرگذاری میں جھک جاتا ہوں
شکریہ، دوستو، شکریہ

ایک ٹرک دوسرے کو ٹو کرتا لیے چلتا ہے
ایک موبائل کرین بٹے ہوے تاروں کا رسّہ الجھا کر
دوسری موبائل کرین کو کھینچتی
اور جھٹکے سے اسٹارٹ کر کے چھوڑ دیتی ہے
’’شکریہ، شکریہ ، دوست!’’

45 درجے زاویے کے انکلائن پر تُلا ہوا چھوٹا شنٹر بےبس کریلے کو
حیوانی خواہش کے ساتھ اوپر دھکیلتا ہے
انکلائن گزار کر
دوہری شدت سے رگیدتا ہوا ہموار پلیٹ فارم پر لے آتا ہے...
ایک آخری جھٹکے سے دھکیل کر اسٹارٹ کر دیتا ہے
اب کریلا ہاتھ ہلاتا گودام کے کھلے دروازے میں گھوم سکتا ہے
’’خدا حافظ دوست ، مہربانی ! بہت مہربانی !‘‘

میں شکرگذاری میں جھک جاتا ہوں
شکریہ، چیزو، شکریہ

کہیں نہ کہیں ہارمنی موجود ہے!

ہارمنی: HARMONY کریلا: CARELLA



کھڑکی بھر آسمان

بائیں ہاتھ پر آسمان دوڑ رہا ہے
اور مجھے زنجیر پر اور نیند پر کوئی اختیار نہیں
کہ میرے بائیں ہاتھ پر تم بیٹھے ہو
اور دائیں ہاتھ پر دیوار سے ٹیک لگائے موٹا اونگھ رہا ہے
اور کھڑکی سے جس قدر آسمان تم کو نظر آتا ہے وہ تمھارا ہے
اور جس قدر آسمان مجھ کو نظر آتا ہے وہ میرا ہے

پر میرے آسمان میں تمھارا احمق سلوایٹ پھنسا ہوا ہے
سو میرا آسمان تمھارے آسمان سے کچھ کم ہے
اور اگر موٹا جاگ رہا ہوتا
تو اس کا آسمان میرے آسمان سے بھی کم ہوتا

میں اگر تم کو قتل کر دوں
تو مجھے کھڑکی بھر آسمان مل جائے گا
اور اگر
موٹا اونگھنا چھوڑ کر تمھیں اور مجھے قتل کردے
تو اسے کھڑکی بھر آسمان مل جائے گا

سو مجھے پہلے موٹے کو
پھر تمھیں
قتل کر دینا چاہیے
یا زنجیر کھینچ لینی چاہیے
یا سو جانا چاہیے

سلوایٹ: SILHOUETTE


لٹریری راؤنڈ اپ

وہ اپنی پتلون کے پچھلے سوراخ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا
وہ اگر تمھیں ’’چشتی صاحب، چشتی صاحب‘‘ کہتا ہے
تو اس میں برا ماننے کی کون سی بات ہے
وہ بڑا بیبا آدمی ہے
اگر مقدمہ چلایا جائے تو شاہ ولایت ٹاؤن سے اکوڑہ خٹک تک
تمھاری حمایت میں ایک بھی آواز نہیں اٹھے گی
مگر وہ بول اٹھے گا
اگرچہ تمھیں چشتی صاحب سمجھتا ہے
اور تمھیں پڑھتا بھی نہیں
(تم وہ لکھنا ہی نہیں چاہتے جو وہ لکھوانا چاہتا ہے)

(تم)
مسئلہ یہ ہے کہ تم اپنا کیک کھانا بھی چاہتے ہو
اور اپنا کیک بچائے رکھنا بھی چاہتے ہو
کیپی ٹل والی گلی میں دن بھر اسٹول ڈالے بیٹھے رہو
اور ایک ایک روپیہ
اور دو دو روپے
اور پانچ پانچ روپے
اور دس دس روپے
اور سو سو...
اور ایک دن خود اپنا پرنس آف منروا مووی ٹون کھول لینا
اور پتلونوں کے پچھلے سوراخوں میں تھوک دینا
(جہاں چمچے اُڑسے ہوے ہیں)
سنا ہے گینڈوں کی نظر کمزور ہوتی ہے
وہ مڑ کر نہیں دیکھیں گے

اسی ایک آدمی کو لو
اس کا سالانہ انکریمنٹ ’’اوڈ ٹو دی ویسٹ وِنڈ‘‘ کے بعد سے بند ہے
پچھلے سال برانٹے بہنوں کے ساتھ بدسلوکی کے جرم میں
اسے درّے لگائے جانے تھے
سو اسے ترقی دے دی گئی —
وہ اب شعبے کا سربراہ ہے
اور اپنے خوابوں میں
یاہ یاہ یاہ
یاہ یاہ یاہ
یاہ یاہ یاہ
یاہ یاہ اے
کہتا ہے اور پسینے پسینے ہوجاتا ہے
(یہی اس کی مادری زبان ہے)

وہ اُن دو عورتوں کو پسند کرتا ہے
جو اپنے اپنے وظیفہ ٔ زوجیت لکھ دینے کے بعد
قبولِ عام اور حبسِ دوام حاصل کر چکی ہیں
اور اب استعمال شدہ سنیٹری ٹاول سُکھاتی رہتی ہیں
یا ایک دوسرے کے ساتھ
بیٹھے سے بیگار بھلی
کرتی رہتی ہیں
اللہ بڑا مسبب الاسباب ہے

اکادمی کے افتتاحی اجلاس میں
اس کی شیروانی کا دامن کھینچتے ہوے
اے ڈی سی نے آنکھوں میں آنسو بھر کر
درخواست کی تھی
کہ بیس برس سے باتیں کر رہے ہو
اب کچھ لکھو بھی

اس نے وعدہ کر لیا ہے
اور ایک ریم سادہ کاغذ لے کر
شعبے میں واپس آ گیا ہے...
اور اب چھت پر کھڑا ہوا کھجا رہا ہے


ہم سب

ہم سب پینتیس پینتیس برس کے اینگری ینگ مین ہیں
اسی لیے اپنے بچوں پر خفا ہوتے ہیں
اور اسی لیے فری لو کے نام پر
ہمارے پیٹ میں اور پیٹ کے نیچے اینٹھن ہونے لگتی ہے
اور اسی لیے ہم چوبیس نمبر کا پولی کلور استعمال کرتے ہیں
اور خدا نے چاہا
تو دو چار برس میں
ہمیں تصوف ہو جائے گا


موت کی نظمیں

1
دو گڑھے، کچھ فاصلے سے
ایسے
کہ آدھا آدھا ’میں‘ دونوں میں دفن
قطار اندر قطار لوگ
موت کی مُدرا میں لیٹے ہوے
(کہ تنہائی میں موت دوہری ابتلا ہے)

دو گڑھے، کچھ فاصلے سے
ایسے
کہ آدھا آدھا ’میں‘ دونوں میں دفن

ایک بہت مصروف ایمبولینس
اپنی گھومتی ہوئی پھرکی سے تیز سرخ روشنی پھینکتی ہوئی
اپنے چپٹے لاؤڈسپیکر سے تیز سرخ آواز اچھالتی ہوئی
فریم میں داخل ہوتی ہوئی
پھر فریم سے باہر
پھر فریم میں داخل ہوتی ہوئی—
بہت مصروف

2
میں اپنے حلق سے جو آوازیں نکالتا ہوں
وہ اس فریکوئنسی پر سنی جا سکتی ہیں
جو صرف میرے تصرف میں ہے

ان میں ایک بڑی آواز موت کی آواز ہے کہ
آ ا ا ا ا ا
یہ آ اتنی دہشت ناک ہے کہ
خود مجھے بھی اٹھا کر بٹھا دیتی ہے

(ورنہ لوگ، چالیس کے بعد، لوگ نہیں رہتے
جیلی میں تبدیل ہو جاتے ہیں)

3
موت کی یہ پہچان ہے کہ
ایک شوخ رنگ کے گندے بریزیئر والی فاحشہ
جس کی بغلوں کے بال
(بدجناوروں کے پُٹھوں پر اُگے چھدرے سیاہ تاروں کے گچھے)
پسینے میں اس درجہ بھیگے ہوے
کہ لگتا ہو ہر لمحہ غسلِ جنابت کی کیفیت میں

بغلوں کے ادھ کھلے دہانوں سے
سیاہ اور زرد
زرد اور سیاہ
DECAY
چار دانگِ عالم میں پھیلتا ہوا
اور یہ پہچان غیرمنافقانہ، حتمی اور قطعی —
مگر موت کی ایک پہچان
اور
بھی
ہے

4
موت کے بچپن کا نام خوف ہے

میں بچپن میں موت سے نہیں ڈرتا تھا
کیونکہ میری ماں زندہ تھی
اور میرے باپ کے پاس ایک رائفل تھی

خوف بزدل ہوتا ہے
ان کمروں میں داخل نہیں ہوتا
جن میں کھونٹیوں پر
ماؤں کے شال
اور باپوں کی رائفلیں ٹنگی ہوں


5
میرے باپ کے پاس بہت سی چیزیں تھیں
ایک خوف سے محفوظ کمرہ
زعفرانِ خالص سے تحریر کیا ہوا ایک نقش
جو میرے دادا نے اپنے دستِ مبارک سے تحریر فرمایا تھا
اس پر اصحابِ کہف کے اسماے مبارک درج تھے کہ
لطقمفنجیح
صقبجفلکاس
اور میں اس نقش کے نیچے
کتے کی طرح گٹھڑی بن کر سویا کرتا تھا

گٹھڑی بن کر سونے کی یہ نیکی میرے کام آئی
ورنہ میں تو کبھی کا مر چکا ہوتا

کہ خوف میرے ساتھ چودہ نمبر کی ویگن میں سوار ہوتا ہے
میرے برابر پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھتا ہے
میرے قریب سے اٹھ کر فلش کی زنجیر کھینچتا ہے
کرینیئم میں سوراخ کرتا ہوا
ٹیڑھا ترچھا تیرتا ہوا
گرے میٹر تک جا پہنچتا ہے
مواصلت کرتا ہے


6
رک جاؤ
سائرن بند کر دو
اتر کر سگریٹ پی لو
پیشاب کر لو
اب کوئی جلدی نہیں ہے

اسٹریچر پر پڑا ہوا آدمی
اسٹریچر پر پڑی ہوئی چیز میں بدل چکا ہے


فہمیدہ ریاض


سازش

سازش، محلسرا کی نوچی
تہہ خانوں کی تاریکی میں
شاہی تخت کے رکھوالوں نے شب بھر پالی
اس کو رقص سکھانے پہنچے خواجہ سرا بجاتے تالی

پیلی آنکھیں، پیلی بانہیں، پیلے جال لیے ہاتھوں میں
آخر نوچی باہر نکلی
دیکھو نوچی باہر نکلی
اس پہ پڑی خلقت کی دھوپ
دیکھو اس کا بدلا روپ

لال گلال سا کھل گیا مکھڑا
ماتھے لاگا لہو کا ٹیکا
دوڑ گئی بجلی رگ رگ میں
لہروں کی مستی پگ پگ میں
مل گئی بھیڑ بھری راہوں میں
آ گئی خلقت کی بانہوں میں
ناچ اٹھی جنتا کی گت پر
خون پسینے کی سنگت پر
جھولے کھیتوں کھلیانوں میں
پڑ گیا ماتم ایوانوں میں

خواجہ سرا نے کوسا کاٹا، پیٹا ماتھا
شاہی تخت کے رکھوالوں نے
غیظ میں منھ سے جھاگ اڑائے، داڑھی نوچی
محلسرا کے تہہ خانوں میں
پھر شب بھر اک سازش سوچی




مچاڈو

انگریزی سے ترجمہ:شوکت عابد


جرم


1
صبح دم
طویل شاہراہوں
اور ٹھنڈے میدانوں میں
رائفلوں کے درمیان وہ اب بھی چہل قدمی کرتا ہے
انھوں نے لورکا کو
دن کی روشنی میں قتل کیا
ان میں سے کسی کی ہمت نہ تھی کہ اس کا چہرہ دیکھ سکتا
انھوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں
— ’’ہم تیرے لیے دعا کرتے ہیں
اگرچہ اب تجھے خدا بھی نہیں بچا سکتا‘‘
بےجان لورکا زمین پر آن گرا
خون اس کی پیشانی سے بہتا ہوا نتھنوں میں جا رہا تھا
— یہ سب کچھ غرناطہ میں ہوا
تصور کر اے غرناطہ
لورکا کے غرناطہ میں !

2
خواب اور پتھر کے بنے ہوے الحمرا میں
وہ اب بھی چہل قدمی کرتا ہے
جہاں ایک فوارہ
غرناطہ میں ہونے والے اس جرم کو
ہمیشہ کے لیے دُہرا رہا ہے



تادیوش روزے وچ

انگریزی سے ترجمہ:اسد محمد خاں، شوکت عابد،محمد سلیم الرحمٰن، اجمل کمال


خوف

تمھارا خوف بڑا ہے
مابعد الطبیعیاتی ہے
میرا خوف چھوٹا ہے
بریف کیس اٹھائے ہوے کلرک کی طرح
جس کے پاس ریکارڈ کارڈ ہوں، سوالنامے ہوں
کہ میں کب پیدا ہوا تھا
میری آمدنی کیا ہے
میں نے کیا کچھ نہیں کیا
میرا کس چیز پر ایمان نہیں ہے
میں یہاں کیا کر رہا ہوں
یہ ناٹک کب بند کروں گا
کیا کہیں اور جانے کا ناٹک
بعد میں رچاؤں گا
(ترجمہ: اسد محمد خاں)
ہمیں تنہا چھوڑدو

ہمیں بھول جاؤ
بھول جاؤ ہماری نسل کو
انسانوں کی طرح زندہ رہو
ہمیں بھول جاؤ —
ہمیں پودوں اور پتھروں پر رشک آتا ہے
ہمیں کتوں پر رشک آتا ہے

کاش میں ایک چوہا ہوتا —
میں اس سے کہا کرتا تھا

کاش میں زندہ نہ رہوں
کاش میں سو جاؤں
اور جنگ کے بعد جاگوں —
اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے مجھ سے کہا تھا

ہمیں بھول جاؤ
ہماری جوانی کے بارے میں مت پوچھو
ہمیں تنہا چھوڑ دو
(ترجمہ  شوکت عابد)

زندہ رہ جانے والا

میں چوبیس سال کا ہوں
مجھے ذبح کے لیے جایا گیا
میں زندہ رہ گیا

انسان اور جانور
محبت اور نفرت
دوست اور دشمن، روشنی اور تاریکی
یہ صرف نام ہیں
کھوکھلے اور ایک دوسرے کے متبادل

آدمی کو ایک چوپائے کی طرح ہلاک کیا جا سکتا ہے
میں نے
چھکڑوں بھر ٹکڑے ٹکڑے کیے ہوے لوگ دیکھے
جنھیں کبھی نجات نہیں ملے گی
تصورات محض الفاظ میں
نیکی اور بدی
سچ اور جھوٹ
دلیری اور بزدلی
حسن اور دہشت

نیکی اور بدی ہم پلہ ہیں
میں ایک شخص سے ملا ہوں
جو نیک بھی تھا اور بد بھی

مجھے ایک گرو، ایک دانا کی تلاش ہے
وہ آئے
میری بصارت میری سماعت میری گویائی بحال کرے
وہ آئے
پھر سے تمام تصوروں تمام چیزوں کے نام رکھے

میں چوبیس سال کا ہوں
مجھے ذبح کے لیے لے جایا گیا
میں زندہ رہ گیا


دور دور

اس کی پھیلی ہوئی بانہیں اتنی دور تک پھیل گئیں
کہ اس کا بایاں ہاتھ
افق پر ٹکے ہوے ایک مردہ درخت سے جا لگا
چھوٹا سا دایاں ہاتھ
سختی سے مٹھی بھینچے بھینچے ماں کے ہاتھ میں گم ہو گیا
اس کا سر کچل کچلا کر
وائلن کے ڈبے جیسی سیاہ لمبوتری شکل میں ڈھل گیا
اور دانت اپنی جگہ چھوڑ کر
آنکھ اور کان کے درمیان ایک عمودی قطار بن گئے
— وہ جنوری کے بلوریں تابوت میں پڑا تھا
اس کا بھائی جسے کبھی اسی کوکھ نے جنم دیا تھا
دھماکے سے پہلے یوروپ چھوڑ چکا تھا
اور سمندر کے دوسرے کنارے پر بیٹھا پائپ پی رہا تھا
(ترجمہ: اسد محمد خاں)


ہاسکیل

وہ دوسرے بچوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلا کرتا تھا
اسے سب کونے کھدرے معلوم تھے
ساری دراڑیں سب چھپنے کی جگہیں
پوری دنیا اس کی جیب میں ہوتی تھی

چھپ جانا کتنا آسان تھا
کسی تہہ خانے کسی کوٹھڑی کسی بالاخانے میں
سائے میں یا دھوپ میں
کسی تھرتھراتے ہوے پتے کے نیچے کسی چوہے کی طرح

پھر جرمن آ گئے
اپنی آہنی صلیبوں کے ساتھ
اور سیاہ کوڑے لے کر
وہ لوگوں کے سروں پر کھڑے ہو گئے
ہاسکیل
جو ہر روز کچھ اور بڑا ہو جاتا تھا
اپنے باپ کے کفتان کے اندر سمٹ گیا
لیکن اس کا باپ
اپنی آستین پر ایک ستارہ لگائے
ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنی قبر میں بھر گیا

اس روز اس نے سوچا
کاش وہ چیونٹی کی طرح کسی بل میں چھپ سکتا
تاکہ اس دنیا میں رہ کر
سانس لے کر
کسی کو برہم نہ کرے

ساری دراڑیں مٹ گئیں
سب مہربان گوشوں
ساری چھپنے کی جگہوں نے
ہاسکیل سے غداری کی

وہ سخت پتھریلے فرش پر
کسی مکوڑے کی طرح
سب کے سامنے ظاہر
پڑا رہ گیا
پھر سرخ سمندر اسے نگل گیا
(ترجمہ : اجمل کمال)


معصوموں کا قتل

بچے چلاتے تھے ’’ماں ! ‘‘
’’میں تو اچھا بچہ تھا !‘‘
’’اندھیرا ! اندھیرا کیوں ہے!‘‘

تم انھیں دیکھ سکتے ہو
نیچے جاتے ہوے
تم دیکھ سکتے ہو
ان کے ننھے ننھے قدموں کے نشان
یہاں اور وہاں
نیچے جاتے ہوے

ان کی جیبیں
کنکروں اور کترنوں سے
اور تار کے بنے ہوے گھوڑوں سے
بھری ہوئی
کھلا وسیع میدان
جیومیٹری کی شکل کی طرح ہر طرف سے بند ہو گیا
کالے دھویں کا ایک درخت
سیدھا کھڑا ہوا
مردہ درخت
اس کا سر ستاروں سے خالی
(ترجمہ : اجمل کمال)


ایک خطاب

آنے والی نسلوں سے نہیں
کیونکہ یہ بے معنی ہو گا
ہو سکتا ہے وہ سب عفریت ہوں
ہائی کمیشن کی تنبیہ واضح ہے
سب طاقتوں، حکمرانوں اور فوجی اسٹاف کی
کہ آنے والے
بےدماغ عفریت ہوں گے

اس لیے یہ خطاب
آنے والی نسلوں سے نہیں ہے
بلکہ ان سے ہے
جو اِس لمحے میں
اپنی آنکھیں بند کیے موجود ہیں

میرا یہ خطاب
آنے والی نسلوں سے نہیں ہے

میں سیاست دانوں سے مخاطب ہوں
جو مجھے نہیں پڑھتے ہوں گے
میں پادریوں سے مخاطب ہوں
جو مجھے نہیں پڑھتے ہوں گے
میں جنرلوں سے مخاطب ہوں
جو مجھے نہیں پڑھتے ہوں گے
میں نام نہاد ’عام لوگوں‘ سے مخاطب ہوں
جو مجھے نہیں پڑھتے ہوں گے

میں ان سے مخاطب ہوں
جو مجھے نہیں پڑھتے— نہ مجھے سنتے ہیں— نہ مجھے جانتے ہیں
اور نہ انھیں میری ضرورت ہے

انھیں میری ضرورت نہیں ہے
مگر مجھے ان کی ضرورت ہے
(ترجمہ : شوکت عابد)


گھاس

میں اینٹوں سے چنی دیوار کی
ریخوں میں اگتی ہوں
جہاں دیوار سے دیوار ملتی ہے
جہاں دیوار سے دیوار جڑتی ہے
جہاں دیوار محرابوں میں ڈھلتی ہے
میں اُگتی ہوں

وہاں میں ایک اندھے بیج میں جس کو
ہوا لے آئی ہو
پنجے جماتی ہوں

میں خاموشی کی درزوں میں
بڑھے جاتی ہوں دھیرج سے
میں دیواروں کے
گر کر خاک ہو جانے کی
ہر دم راہ تکتی ہوں

اور اس کے بعد ناموں اور چہروں کو
چھپا لوں گی
(ترجمہ: محمد سلیم الرحمٰن)

دیوار

اس نے اپنا منھ دیوار کی طرف موڑ لیا
اگرچہ وہ اب بھی مجھ سے محبت کرتی ہے
کس طرح سر کی ایک جنبش سے
آدمی اس دنیا سے منھ موڑ لیتا ہے
جہاں چڑیاں چہچہا رہی ہیں
اور نوجوان گلوں میں ہار ڈالے مستِ خرام ہیں

اب وہ تنہا ہے
ایک بےجان دیوار کی موجودگی میں
وہ اسی طرح تنہا رہے گی

وہ اپنی مٹھیاں بھینچے
دیوار کے سامنے کھڑی رہے گی
دیوار جو بڑھتی رہے گی— زیادہ— اور زیادہ

اور میں اپنے پتھر پاؤں لیے بیٹھا ہوں
میں اسے وہاں سے نہیں لے جا سکتا
میں اسے نہیں اٹھا سکتا
وہ جو ایک آہ سے بھی زیادہ ہلکی ہے
(ترجمہ: شوکت عابد)

زندگی کے درمیان

دنیا کے خاتمے کے بعد
اور موت کے بعد
میں نے خود کو زندگی کے درمیان پایا
سو میں نے اپنی تخلیق کی
اور زندگی تعمیر کی
اور لوگ بنائے اور جانور بنائے اور مناظر تخلیق کیے

یہ میز ہے، میں نے کہا
یہ میز ہے
میز پر ایک روٹی اور ایک چھری ہے
چھری روٹی کاٹنے کے کام آتی ہے
لوگ روٹی کھا کے زندہ رہتے ہیں

آدمی سے محبت کی جانی چاہیے
میں نے رات کے وقت اور دن کے وقت
دُہرایا اور یاد کیا
کس سے محبت کی جانی چاہیے— آدمی سے
میں نے جواب دیا، آدمی سے

یہ کھڑکی ہے، میں نے کہا
یہ کھڑکی ہے
کھڑکی کے اُدھر باغ ہے
میں باغ میں سیب کا ایک درخت دیکھتا ہوں
پھولوں سے لدا ہوا سیب کا درخت
پھول گرتے ہیں
پھل بننا شروع ہوتے ہیں
پکتے ہیں
میرا باپ ایک سیب توڑتا ہے
یہ آدمی جو سیب توڑ رہا ہے
میرا باپ ہے

میں ایک مکان کی دہلیز پر بیٹھ جاتا ہوں
یہ بوڑھی عورت
جو بکری کی رسی تھامے گزر رہی ہے
دنیا کے ساتوں عجائبات سے زیادہ ضروری ہے—
ان سے کہیں زیادہ قیمتی ہے
جو کوئی بھی
یہ سوچتا اور محسوس کرتا ہے کہ یہ بڑھیا ضروری نہیں ہے
وہ مجرم ہے
بنی نوعِ انسان کا قاتل ہے

یہ آدمی ہے
یہ درخت ہے، یہ روٹی ہے

لوگ کھاتے اس لیے ہیں کہ زندہ رہیں
میں دل ہی دل میں دُہراتا رہتا ہوں
انسانی زندگی بہت اہم ہے
انسانی زندگی کی اہمیت بہت زیادہ ہے
زندگی کی قیمت
آدمی کے ہاتھوں بنائی ہوئی ہر ایک چیز سے زیادہ ہے
آدمی ایک بےبدل خزانہ ہے
میں بڑے ضدی پن سے دُہراتا ہوں
آدمی ایک بےبدل خزانہ ہے

یہ پانی ہے، میں نے کہا
یہ پانی ہے
میں نے ہاتھ بڑھا کر لہروں کو چھو لیا
اور دریا سے باتیں کیں
پانی سے کہا
مہربان پانی!
یہ میں ہوں

تو آدمی نے پانی سے کلام کیا
چاند سے کلام کیا
اور پھولوں سے اور بارش سے
اور اس نے زمین سے کلام کیا
اور چڑیوں سے
اور آسمان سے باتیں کیں

آسمان چپ تھا
زمین چپ تھی
(بڑی خاموشی تھی)

اور اگر اس نے آواز سنی
جو زمین سے اور پانی سے اٹھ رہی تھی
اور آسمان سے اتر رہی تھی
تو خبر ہو
کہ وہ
دوسرے انسان کی آواز تھی
(ترجمہ: اسد محمد خاں)


بوڑھی عورتوں کی کہانی

مجھے پسند ہیں بوڑھی عورتیں
بھدی عورتیں
بری عورتیں
وہ دھرتی کا نمک ہیں

وہ انسانی گندگی سے گھن نہیں کرتیں
وہ جانتی ہیں کہ
محبت اور ایمان کے
سکے کے دوسری طرف کیا ہے

آتے جاتے ڈکٹیٹروں کا
مسخرہ پن جاری رہتا ہے
ان کے ہاتھ انسانی خون میں لتھڑے رہتے ہیں

بوڑھی عورتیں صبح سویرے جاگ اٹھتی ہیں
گوشت روٹی پھل خریدتی ہیں
صفائی کرتی کھانا پکاتی ہیں
پھر ہاتھ باندھ کر چپ چاپ
گلی میں جا کھڑی ہوتی ہیں

بوڑھی عورتیں لافانی ہیں

ہیملٹ جال میں دہاڑتا ہے
فاؤسٹ اپنا مضحکہ خیز حقیر کردار ادا کرتا ہے
راسکولنیکوف اپنا کلھاڑا چلاتا ہے
بوڑھی عورتوں کو کوئی گزند نہیں آتی
وہ مزے سے مسکراتی رہتی ہیں

ایک دیوتا مر جاتا ہے
بوڑھی عورتیں ہمیشہ کی طرح اٹھ بیٹھتی ہیں
صبح سویرے روٹی شراب مچھلی خریدتی ہیں
تہذیب مر جاتی ہے
بوڑھی عورتیں صبح سویرے جاگ اٹھتی ہیں
وہ کھڑکیاں کھولتی ہیں
گندی سلفچیاں صاف کرتی ہیں
انسان مر جاتا ہے
وہ اسے غسل دیتی ہیں
دفن کرتی ہیں
قبروں پر پھول اگاتی ہیں

مجھے پسند ہیں بوڑھی عورتیں
بھدی عورتیں
بری عورتیں

سدا جاری رہنے والی زندگی پر ان کا ایمان ہے
وہ دھرتی کا نمک ہیں
درخت کی چھال ہیں
پالتو جانوروں کی آنکھوں میں جھلکتی ہوئی عاجزی

بزدلی اور بے خوفی
عظمت اور گھٹیا پن
وہ ہر چیز کو اس کی صحیح جگہ پر دیکھتی ہیں
روزانہ کی ضروریات کے اوپر سے

ان کے بیٹے امریکہ دریافت کرتے ہیں
تھرموپائیلے میں ختم ہو جاتے ہیں
صلیبوں پر مر جاتے ہیں
کائنات کی تسخیر کرتے ہیں
بوڑھی عورتیں صبح سویرے باہر جاتی ہیں
دودھ روٹی گوشت خریدنے
وہ سوپ تیار کرتی ہیں
کھڑکیاں کھولتی ہیں
صرف احمق ہنستے ہیں
بوڑھی عورتوں پر
بھدی عورتوں پر
بری عورتوں پر
جبکہ وہ خوبصورت عورتیں ہیں
اچھی عورتیں
بوڑھی عورتیں
وہ زندگی کی ابتدا ہیں
ایک راز ہیں جو اسرار سے خالی ہے

بوڑھی عورتیں ممیاں ہیں مقدس بلیوں کی
وہ چھوٹے چھوٹے پکے ہوے پھل ہیں
جن پر سلوٹیں پڑ گئی ہیں
یا بھاری بھرکم بدھ ہیں

جب وہ مرتی ہیں
آنکھ سے ایک آنسو ٹپکتا ہے
اور گھل جاتا ہے
ایک نوجوان لڑکی کے ہونٹوں کی مسکراہٹ میں
(ترجمہ: اجمل کمال)

صغیر ملال


غزلیں


وہ حقیقت میں ایک لمحہ تھا
جس کا دورانیہ زمانہ تھا

میری نظروں سے گر پڑی ہے زمیں
کیوں بلندی سے اس کو دیکھا تھا

کیسی پیوندکار ہے فطرت
منتشر ہو کے بھی میں یکجا تھا

روشنی ہے کسی کے ہونے سے
ورنہ بنیاد تو اندھیرا تھا

جب بھی دیکھا نیا لگا مجھ کو
کیا تماشا جہانِ کہنہ تھا

اس نے محدود کر دیا ہم کو
کوئی ہم سے یہاں زیادہ تھا

جب کہ سورج تھا پالنے والا
چاند سے کیا لہو کا رشتہ تھا

مر گیا جو بھی اُس کے بارے میں
دھیان پڑتا نہیں کہ زندہ تھا

یہیں پیدا یہیں جوان ہوا
اس کے لب پر کہاں کا قصہ تھا

کوئی گنجان تھا کوئی ویراں
کوئی جنگل کسی میں صحرا تھا

عمر ساری وہ نیند میں بولا
چند لمحوں کو کوئی جاگا تھا

کہیں جانے کی سب نے باتیں کیں
کیسے آتے ہیں کون بولا تھا

ساری الجھن اسی سے پیدا ہوئی
وہ جو واحد ہے بےتحاشا تھا

دوڑتے پھر رہے تھے سارے لوگ
جبکہ ان کو یہیں پہ رہنا تھا

تجھ کو لانا حصار میں اپنے
میرا ادنیٰ سا اک کرشمہ تھا

فرق گہرائی اور پستی میں
کس بلندی سے دیکھ پایا تھا

اس کی تفصیل میں تھا سرگرداں
ذہن میں مختصر سا خاکہ تھا

پاس آ کر اسے ہوا معلوم
میں اکیلا نہیں تھا تنہا تھا

کتنے فیصد تھے جاگنے والے
کتنے لوگوں کو ہوش آیا تھا

کس کو ابن السبیل کہتے ملال
نئے رستوں کا کون بیٹا تھا
***

پھر اس کے بعد راستہ ہموار ہو گیا
جب خاک سے خیال نمودار ہو گیا

اک داستان گو ہوا ایسا کہ اپنے بعد
ساری کہانیوں کا وہ کردار ہو گیا

سایہ نہ دے سکا جسے دیوار کا وجود
اس کا وجود نقش بہ دیوار ہو گیا

آنکھیں بلند ہوتے ہی محدود ہو گئیں
نظریں جھکا کے دیکھا تو دیدار ہو گیا

وہ دوسرے دیار کی باتوں سے آشنا
وہ اجنبی قبیلے کا سردار ہو گیا

سوئے ہوے کریں گے ملال اس کا تجزیہ
اس خواب گاہ میں کوئی بیدار ہو گیا
***

خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے
اور گہرائی میں اتروں تو دھواں ہوتا ہے

اتنی پیچیدگی نکلی ہے یہاں ہونے میں
اب کوئی چیز نہ ہونے کا گمان ہوتا ہے

اک تسلسل کی روایت ہے ہوا سے منسوب
خاک پر اس کا امیں آبِ رواں ہوتا ہے

سب سوالوں کے جواب ایک سے ہو سکتے ہیں
ہو تو سکتے ہیں مگر ایسا کہاں ہوتا ہے

ساتھ رہ کر بھی یہ اک دوسرے سے ڈرتے ہیں
ایک بستی میں الگ سب کا مکاں ہوتا ہے

کیا عجب راز ہے ہوتا ہے وہ خاموش ملال
جس پہ ہونے کا کوئی راز عیاں ہوتا ہے

***

جب سامنے کی بات ہی الجھی ہوئی ملے
پھر دور دیکھتی ہوئی آنکھوں سے بھی ہو کیا

ہاتھوں سے چھو کے پہلے اُجالا کریں تلاش
جب روشنی نہ ہو تو نگاہوں سے بھی ہو کیا

حیرت زدہ سے رہتے ہیں اپنے مدار پر
اس کے علاوہ چاند ستاروں سے بھی ہو کیا

پاگل نہ ہو تو اور یہ پانی بھی کیا کرے
وحشی نہ ہوں تو اور ہواؤں سے بھی ہو کیا

جب دیکھنے لگے کوئی چیزوں کے اُس طرف
آنکھیں بھی تیری کیا کریں باتوں سے بھی ہو کیا

یوں تو مجھے بھی شکوہ ہے ان سے مگر ملال
حالات اس طرح کے ہیں لوگوں سے بھی ہو کیا

***

فقط زمین سے رشتے کو استوار کیا
پھر اس کے بعد سفر سب ستارہ وار کیا

بس اتنی دیر میں اعداد ہو گئے تبدیل
کہ جتنی دیر میں ہم نے انھیں شمار کیا

کبھی کبھی لگی ایسی زمین کی حالت
کہ جیسے اس کو زمانے نے سنگسار کیا

جہانِ کہنہ ازل سے تھا یوں تو گردآلود
کچھ ہم نے خاک اڑا کر یہاں غبار کیا

بشر بگاڑے گا ماحول وہ جو اس کے لیے
نہ جانے کتنے زمانوں نے سازگار کیا

تمام وہم و گماں ہے تو ہم بھی دھوکا ہیں
اسی خیال سے دنیا کو میں نے پیار کیا

نہ سانس لے سکا گہرائیوں میں جب وہ ملال
تو اس کو اپنے جزیرے سے ہمکنار کیا

***

نکل گئے تھے جو صحرا میں اپنے اتنی دور
وہ لوگ کون سے سورج میں جل رہے ہوں گے

عدم کی نیند میں سوئے ہوے کہاں ہیں وہ اب
جو کل وجود کی آنکھوں کو مل رہے ہوں گے

ملے نہ ہم کو جواب اپنے جن سوالوں کے
کسی زمانے میں ان کے بھی حل رہے ہوں گے

بس اس خیال سے دیکھا تمام لوگوں کو
جو آج ایسے ہیں کیسے وہ کل رہے ہوں گے

پھر ابتدا کی طرف ہو گا انتہا کا رخ
ہم ایک دن یہاں شکلیں بدل رہے ہوں گے

ملال ایسے کئی لوگ ہوں گے رستے میں
جو تم سے تیز یا آہستہ چل رہے ہوں گے
***

ایک رہنے سے یہاں وہ ماورا کیسے ہوا
سب سے پہلا آدمی خود سے جدا کیسے ہوا

تیرے بارے میں اگر خاموش ہوں میں آج تک
پھر ترے حق میں کسی کا فیصلہ کیسے ہوا

ابتدا میں کیسے صحرا کی صدا سمجھی گئی
آخرش سارا زمانہ ہم نوا کیسے ہوا

چند ہی تھے لوگ جن کے سامنے کی بات تھی
میں نے ان لوگوں سے خود جا کر سنا کیسے ہوا

جبکہ ثابت ہو چکا نقصان ہونے کا ملال
فائدہ کیا سوچنے سے کیوں ہوا کیسے ہوا
***

براے نام سہی سائباں ضروری ہے
زمین کے لیے اک آسماں ضروری ہے

تعجب ان کو ہے کیوں میری خود کلامی پر
ہر آدمی کا کوئی رازداں ضروری ہے

ضرورت اس کی ہمیں ہے مگر یہ دھیان رہے
کہاں وہ غیرضروری کہاں ضروری ہے

کہیں پہ نام ہی پہچان کے لیے ہے بہت
کہیں پہ یوں ہے کہ کوئی نشاں ضروری ہے

کہانیوں سے ملال ان کو نیند آنے لگی
یہاں پہ اس لیے وہ داستاں ضروری ہے
***

الگ ہیں ہم کہ جدا اپنی رہ گزر میں ہیں
وگرنہ لوگ تو سارے اسی سفر میں ہیں

ہماری جست نے معزول کر دیا ہم کو
ہم اپنی وسعتوں میں اپنے بام و در میں ہیں

یہاں سے ان کے گزرنے کا ایک موسم ہے
یہ لوگ رہتے مگر کون سے نگر میں ہیں

جو دربدر ہو وہ کیسے سنبھال سکتا ہے
تری امانتیں جتنی ہیں میرے گھر میں ہیں

عجیب طرح کا رشتہ ہے پانیوں سے ملال
جدا جدا سہی سب ایک ہی بھنور میں ہیں
***

خاک میں ملتی ہیں کیسے بستیاں معلوم ہو
آنے والوں کو ہماری داستاں معلوم ہو

جو اِدھر کا اب نہیں ہے وہ کدھر کا ہو گیا
جو یہاں معدوم ہو جائے کہاں معلوم ہو

مرحلہ تسخیر کرنے کا اسے آسان ہے
گر تجھے اپنا بدن سارا جہاں معلوم ہو

جو الگ ہو کر چلے سب گھومتے ہیں اس کے گرد
یوں جدا ہو کر گزر کہ درمیاں معلوم ہو

کتنی مجبوری ہے لامحدود اور محدود کی
بیکراں جب ہو سکیں تب بیکراں معلوم ہو

ایک دم ہو روشنی تو کیا نظر آئے ملال
کیا سمجھ پاؤں جو سب کچھ ناگہاں معلوم ہو
***

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے

دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں
کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے

کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو
واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے

ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے

پہلے دیتے ہیں دلاسا کہ بہت ہے سب کچھ
اور پھر ہاتھ میں کاسہ نہیں رہنے دیتے

جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا
دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے

واقعی نور لیے پھرتے ہیں سر پہ کوئی
اپنے اطراف جو سایہ نہیں رہنے دیتے

زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملال
کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے
***

جس کو طے کر نہ سکے آدمی صحرا ہے وہی
اور آخر مرے رستے میں بھی آیا ہے وہی

یہ الگ بات کہ ہم رات کو ہی دیکھ سکیں
ورنہ دن کو بھی ستاروں کا تماشا ہے وہی

اپنے موسم میں پسند آیا ہے کوئی چہرہ
ورنہ موسم تو بدلتے رہے چہرہ ہے وہی

ایک لمحے میں زمانہ ہوا تخلیق ملال
وہی لمحہ ہے یہاں اور زمانہ ہے وہی
***

رات اندر اتر کے دیکھا ہے
کتنا حیران کن تماشا ہے

ایک لمحے کو سوچنے والا
ایک عرصے کے بعد بولا ہے

میرے بارے میں جو سنا تو نے
میری باتوں کا ایک حصہ ہے

شہروالوں کو کیا خبر کہ کوئی
کون سے موسموں میں زندہ ہے

جا بسی دور بھائی کی اولاد
اب وہی دوسرا قبیلہ ہے

بانٹ لیں گے نئے گھروں والے
اس حویلی کا جو اثاثہ ہے

کیوں نہ دنیا میں اپنی ہو وہ مگن
اس نے کب آسمان دیکھا ہے

آخری تجزیہ یہی ہے ملال
آدمی دائروں میں رہتا ہے
***

افضال احمدسید

شاعری میں نے ایجاد کی

کاغذ مراکشیوں نے ایجاد کیا
حروف فونیشیوں نے
شاعری میں نے ایجاد کی

قبر کھودنے والے نے تندور ایجاد کیا
تندور پر قبضہ کرنے والوں نے روٹی کی پرچی بنائی
روٹی لینے والوں نے قطار ایجاد کی
اور مل کر گانا سیکھا

روٹی کی قطار میں جب چیونٹیاں بھی آ کر کھڑی ہو گئیں
تو فاقہ ایجاد ہو گیا

شہتوت بیچنے والے نے ریشم کا کیڑا ایجاد کیا
شاعری نے ریشم سے لڑکیوں کے لیے لباس بنایا
ریشم میں ملبوس لڑکیوں کے لیے کٹنیوں نے محلسرا ایجاد کی
جہاں جا کر انھوں نے ریشم کے کیڑے کا پتا بتا دیا

فاصلے نے گھوڑے کے چار پاؤں ایجاد کیے
تیزرفتاری نے رتھ بنایا
اور جب شکست ایجاد ہوئی
تو مجھے تیزرفتار رتھ کے آگے لٹا دیا گیا

مگر اس وقت تک شاعری محبت کو ایجاد کر چکی تھی

محبت نے دل ایجاد کیا
دل نے خیمہ اور کشتیاں بنائیں
اور دور دراز کے مقامات طے کیے
خواجہ سرا نے مچھلی کا کانٹا ایجاد کیا
اور سوئے ہوے دل میں چھو کر بھاگ گیا

دل میں چھپے ہوے کانٹے کی ڈور تھامنے کے لیے
نیلامی ایجاد ہوئی
اور
جبر نے آخری بولی ایجاد کی

میں نے ساری شاعری بیچ کر آگ خریدی
اور جبر کا ہاتھ جلا دیا

اگر میں لوٹ کر نہ آ سکا

میں اندھے چیتوں
رنگین مچھلیوں
اور تیز بادلوں کو پکڑتا ہوں

اندھے چیتے
کند کدالوں سے کھدے گڑھوں میں
رنگین مچھلیاں
ریشم کی ڈوریوں سے بنے جال میں
اور تیز بادل
مقناطیس سے پکڑے جاتے ہیں

یہ میرا کنواں ہے
یہ میرا تندور
اور یہ میرا قبر
ان سب کو میں نے خود کھودا ہے

جسے اپنی زنجیر خود کاٹنی ہوتی ہے
اپنی آری خود اُگاتا ہے
مجھے اپنا سمندر خود کاٹنا ہے
میں اپنی کشتی خود حاصل کروں گا
میری کشتی کسی ساحل پہ رنگ ہونے کے بعد سوکھ رہی ہے
کسی غار میں رکی ہے
کسی درخت میں قید ہے
یا کہیں نہیں ہے

مگر میرے پاس ایک بیج ہے
جس کا نام میرا دل ہے
میرے پاس تھوڑی سی زمین ہے
جس کا نام محبت ہے

میں دل کا درخت بناؤں گا
اور ایک دن
اسے کاٹ کر
ایک کشتی بنا کر نکل جاؤں گا

اگر میں لوٹ کر نہ آ سکا
میری رنگین مچھلیوں کو میرے کنویں میں
میرے اندھے چیتوں کو
میرے تندور میں
اور میرے تیز بادلوں کو
میری قبر میں رکھ دینا

جو میں نے بہت گہری کھودی ہے
***

جتنی دیر میں ایک روٹی پکے گی

جتنی دیر میں ایک روٹی پکے گی
میں تمھارے لیے ایک گیت لکھ چکا ہوں گا
جتنی دیر میں ایک مشکیزہ بھرے گا
تم اسے یاد کرکے گا چکی ہوگی

اجنبی تم گیت کاہے سے لکھتے ہو
نمک سے
روٹی کاہے سے کھاتے ہو
نمک سے
مشکیزہ کاہے سے بھرتے ہو
نمک سے

لڑکی تم گیت کاہے سے گاتی ہو

پانی سے
روٹی کاہے سے کھاتی ہو
پانی سے
مشکیزہ کاہے سے بھرتی ہو
پانی سے
پانی اور نمک مل کر کیا بنتا ہے
سمندر بنتا ہے
جتنی دیر میں میرے گھوڑے کی نعل ٹھک جائے گی
ہم سمندر سے ایک لہر توڑ چکے ہوں گے
جتنی دیر میں گھنٹی کی آواز پر قلعی ہو چکی ہو گی
ہم ایک جنگلی کشتی کو سدھا چکے ہوں گے

اجنبی تم گھوڑے کی نعل کاہے سے ٹھونکتے ہو
ٹوٹے ہوے چاند سے میری جان
تم گھنٹی کی آواز کاہے سے قلعی کرتے ہو
ٹوٹے ہوے چاند سے میری جان
تم مجھے کاہے سے تشبیہ دو گے
ٹوٹے ہوے چاند سے میری جان

لڑکی تم سمندر سے لہر کاہے سے توڑتی ہو
تمھاری تلوار سے میری جان
تم جنگلی کشتیوں کو کاہے سے سدھاتی ہو
تمھاری تلوار سے میری جان
تم مجھے کاہے سے زیادہ پسند کرتی ہو
تمھاری تلوار سے میری جان

جتنی دیر میں یہ سمندر طے ہو گا
میں اور تم بچھڑ چکے ہوں گے
جتنی دیر میں تم مجھے بھول چکی ہو گی
میں مر چکا ہوں گا

اجنبی تم سمندر کاہے سے طے کرو گے
اپنی ضد سے
میں تمھیں کاہے سے بھول چکی ہوں گی
اپنی ضد سے
اجنبی تم کاہے سے مر چکے ہو گے
اپنی ضد سے
پنی ضد سے

لڑکی ہم کاہے سے بچھڑ چکے ہوں گے
مجھے نہیں معلوم
میں کاہے سے مرچکا ہوں گا
مجھے نہیں معلوم
روٹی کتنی دیر میں پک چکی ہو گی
مجھے نہیں معلوم

***


شاعر کا دل

جہاں محبت کی حدود پر ختم لکھ دیا گیا
وہاں بند دروازے کے اوپر
میں نے پورا چاند دیکھ کر
نئے چاند کے دیکھنے پر مانگی جانے والی دعا مانگ لی

تم نے میرے دل کو زنجیر سے باندھ دیا
اور میں نے بھونکنا شروع کر دیا

اگر تم چاہو
تو اتنی نازک زنجیر سے
ایک ٹوٹی ہوئی شاخ
ایک نشان لگے درخت سے باندھ سکتی ہو
جس کو ٹھیکےدار
اس موسم میں کاٹ لے جائے گا

زنجیر سے بندھے ہوے دل نے
تمھارے قدموں کو چاٹنا شروع کردیا
اور تم نے کہا
یہ کتا پاگل ہو گیا ہے
جیسا کہ ایک کہانی میں
ایک اندھے آدمی نے اپنی بینائی پانے کے بعد
اپنے کتے کو دھتکار دیا تھا

اگر تم چاہو
تو میں تمھیں ایک نظم سناؤں
جو میں نے اس وقت پڑھی تھی
جب میں باتیں کیا کرتا تھا
اور نہیں جانتا تھا
میرے دانت پیسنے کی آواز
کتنے دروازے پار کر سکتی ہے

شاعر نے کہا تھا:
’’میرا دل ایک شکاری کتا ہے
جسے میں تمھارے کپڑوں کی بو سنگھا رہا ہوں
تم مجھ سے بےوفائی کر کے
ایک اور مرد کے ساتھ بھاگ گئی ہو
میرا دل اس مرد کے تناسل کے اعضا بھنبھوڑ ڈالے گا
اور تمھیں
تمھاری پنڈلیوں میں دانت گاڑ کر
میرے پاس گھسیٹ لائے گا ‘‘—

شاعر کا دل شکاری کتا ہوتا ہے
اور زنجیر میں بندھے ہوے آدمی کا دل
زنجیر میں بندھا ہوا کتا

یہ کتا پاگل ہو گیا ہے
اس نے اپنی زنجیر نگل لی ہے
اور شاید تمھاری انگلیاں بھی
جو لوہے کی طرح سنگدل ہیں
اور اس زنجیر کی طرح بےوفا
جس سے کوئی بھی کتا باندھا جا سکتا ہے
تم نے جانوروں کا علاج کرنے والے کو بلایا
اور اس کی آنکھوں میں مسکرا کر
میری قسمت کا فیصلہ کر دیا

شاید محبت کی حدود پر ختم
تم نے نہیں
کسی اور نے لکھا تھا

جس کا طرزِ تحریر
اس راز کی طرح
میرے دل میں محفوظ ہے
جس پر میں نے پہلی بار
بھونکنا سیکھا تھا

***


مٹی کی کان

میں مٹی کی کان کا مزدور ہوں
کام ختم ہو جانے کے بعد ہماری تلاشی لی جاتی ہے
ہمارے نگران ہمارے بند بند الگ کر دیتے ہیں
پھر ہمیں جوڑ دیا جاتا ہے

ہمارے نگران ہمیں لاپروائی سے جوڑتے ہیں
پہلے دن میرے کسی حصے کی جگہ
کسی اور کا کوئی حصہ جوڑ دیا گیا تھا
ہوتے ہوتے
ایک ایک رواں
کسی نہ کسی اور کا ہو جاتا ہے
خبر نہیں
میرے مختلف حصوں سے جڑے ہوے مزدوروں میں کتنے
کان بیٹھنے سے مر گئے ہوں گے
مٹی چرانے کے عوض
زندہ جلا دیے گئے ہوں گے

مٹی کی کان میں کئی چیزوں پر پابندی ہے
مٹی کی کان میں پانی پر پابندی ہے
پانی مٹی کی حاکمیت کو ختم کر کے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے

اگر نگرانوں کو معلوم ہو جائے
کہ ہم نے مٹی کی کان میں آنے سے پہلے پانی پی لیا تھا
توہمیں شکنجے میں الٹا لٹکا کر
سارا پانی نچوڑ لیا جاتا ہے
اور پانی کے جتنے قطرے برآمد ہوتے ہیں
اتنے دنوں کی مزدوری کاٹ لی جاتی ہے

مٹی کی کان میں آگ پر پابندی نہیں ہے
کوئی بھی نگران آگ پر پابندی نہیں لگاتے
آگ کان کے مختلف حصوں کے درمیان دیوار کا کام کرتی ہے

میں بھی آگ کی چاردیواریوں کے درمیان کام کرتا ہوں
کوئی بھی مزدوری آگ کی چاردیواریوں کے بغیر نہیں ہو سکتی

مٹی کی کان میں آگ کا ایک اور کام بھی ہے
کبھی کبھی نگران ساری کان کو اچانک خالی کرانا چاہتے ہیں
اس وقت کان میں آگ پھیلا دی جاتی ہے
اس دن اگر کوئی سلامت نکل جائے تو اس کی تلاشی نہیں لی جاتی
مٹی اسی دن چرائی جا سکتی ہے

میں نے ایک ایسے ہی دن مٹی چرائی تھی

وہ مٹی میں نے ایک جگہ رکھ دی ہے
ایک ایسے ہی آگ بھڑکائے جانے کے دن
میں نے بےکار اعضا کے انبار سے
اپنے ناخن اور اپنے دل کی لکیر چرائی تھی
اور انھیں بھی ایک جگہ رکھ دیا ہے

مجھے کسی نہ کسی طرح آگ لگنے کی خبر ہو جاتی ہے
اور میں چوری کے لیے تیار ہو جاتا ہوں

میں نے کوڑے کے ڈھیر پر ایک پاؤں دیکھ رکھا ہے
جو میرا نہیں ہے
مگر بہت خوبصورت ہے
اگلی آگ لگنے کے وقت اسے اٹھا لے جاؤں گا
اور اس کے بعد کچھ اور— اور کچھ اور— اور کچھ اور

ایک دن میں اپنی مرضی کا ایک پورا آدمی بناؤں گا

مجھے اس پورے آدمی کی فکر ہے
جو ایک دن بن جائے گا
اور مٹی کی کان میں مزدوری نہیں کرے گا

میں اس کے لیے مٹی چراؤں گا
اور تحقیق کروں گا
کان میں آگ کس طرح لگتی ہے
اور کان میں آگ لگاؤں گا
اور مٹی چراؤں گا

اتنی مٹی کہ اس آدمی کے لیے
ایک مکان، ایک پانی انبار کرنے کا کوزہ، اور ایک چراغ بنا دوں

اور چراغ کے لیے آگ چراؤں گا
آگ چوری کرنے کی چیز نہیں
مگر ایک نہ ایک ضرورت کے لیے ہر چیز چوری کی جا سکتی ہے

پھر اس آدمی کو میرے ساتھ رہنا گوارا ہو جائے گا
آدمی کے لیے اگر مکان ہو، پینے کے پانی کا انبار ہو اور چراغ میں آگ ہو
تو اسے کسی کے ساتھ بھی رہنا گوارا ہو سکتا ہے
میں اسے اپنی روٹی میں شریک کروں گا
اور اگر روٹیاں کم پڑیں
تو روٹیاں چراؤں گا

ویسے بھی نگران ان مزدوروں کو جو کان میں شور نہیں مچاتے
بچی کھچی روٹیاں دیتے رہتے ہیں

میں نے مٹی کی کان میں کبھی کوئی لفظ نہیں بولا
اور اس سے باہر بھی نہیں
میں اپنے بنائے ہوے آدمی کو اپنی زبان سکھاؤں گا
اور اس سے باتیں کروں گا

میں اس سے مٹی کی کان کی باتیں نہیں کروں گا
مجھے وہ لوگ پسند نہیں جو اپنے کام کاج کی باتیں گھر جا کر بھی کرتے ہیں

میں اس سے باتیں کروں گا
گہرے پانیوں کے سفر کی
اور اگر میں اس کے سینے میں کوئی دھڑکنے والا دل چرا کر لگا سکا
تو اس سے محبت کی باتیں کروں گا
اس لڑکی کی جسے میں نے چاہا ہے
اور اس لڑکی کی جسے وہ چاہے گا

میں اس آدمی کو ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا
کسی بھی آدمی کو کوئی ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا

میں اس میں سفر کا حوصلہ پیدا کروں گا
اور اسے اس خطے میں بھیجوں گا
جہاں درخت مٹی میں پانی ڈالے بغیر نکل آتے ہیں
اور وہ ان بیجوں کو میرے لیے لے آئے گا
جن کے اگنے کے لیے
پانی کی ضرورت نہیں ہوتی

میں روزانہ ایک ایک بیج
مٹی کی کان میں بوتا جاؤں گا
بوتا جاؤں گا
ایک دن کسی بھی کے بیج کے پھوٹنے کا موسم آ جاتا ہے

مٹی کی کان میں میرا لگایا ہوا بیج پھوٹے گا
اور پودا نکلنا شروع ہو گا

میرے نگران بہت پریشان ہوں گے
انھوں نے کبھی کوئی درخت نہیں دیکھا ہے
وہ بہت وحشت زدہ ہوں گے اور بھاگیں گے

میں کسی بھی نگران کو بھاگتے دیکھ کر
اس کے ساتھ کان کے دوسرے دہانے کا پتا لگالوں گا
کسی بھی کان کا دوسرا دہانہ معلوم ہو جائے تو اس کی دہشت نکل جاتی ہے

جب میری دہشت نکل جائے گی
میں آگ کی دیوار سے گزر کر
مٹی کی کان کو دور دور جا کر دیکھوں گا
اور ایک ویران گوشے میں
اوپر کی طرف ایک سرنگ بناؤں گا

سرنگ ایسی جگہ بناؤں گا
جس کے اوپر
ایک دریا بہہ رہا ہو

مجھے ایک دریا چاہیے

میں وہ آدمی ہوں جس نے اپنا دریا بیچ کر
ایک پل خریدا تھا
اور چاہا تھا کہ اپنی گزراوقات
پل کے محصول پر کرے
مگر بے دریا کے پل سے کوئی گزرنے نہیں آیا

پھر میں نے پل بیچ دیا
اور ایک ناؤ خرید لی
مگر بے دریا کی ناؤ کو کوئی سواری نہیں ملی

پھر میں نے ناؤ بیچ دی
اور مضبوط ڈوریوں والا ایک جال خرید لیا
مگر بے دریا کے جال میں کوئی مچھلی نہیں پھنسی

پھر میں نے جال بیچ دیا
اور ایک چھتری خرید لی
اور بے دریا کی زمین پر مسافروں کو سایہ فراہم کر کے گزر کرنے لگا
مگر دھیرے دھیرے
مسافر آنے بند ہونے گئے

اور ایک دن جب
سورج کا سایہ میری چھتری سے چھوٹا ہو گیا
میں نے چھتری بیچ دی
اور ایک روٹی خرید لی

کسی بھی تجارت میں یہ آخری سودا ہوتا ہے

ایک رات
یا کئی راتوں کے بعد
جب وہ روٹی ختم ہو گئی
میں نے نوکری کر لی

نوکری مٹی کی کان میں ملی

***

بادشاہ کا خواب

بادشاہ نے ایک خواب دیکھا

اس نے وہ خواب
اپنے وزیر کو سنایا
وزیر نے خواب کو اپنے استعفے میں لکھا
اور روپوش ہو گیا

بادشاہ نے وہ خواب
اپنے سپہ سالار کو سنایا
سپہ سالار نے خواب کو اپنی تلوار پر لکھا
اور ایک لاکھ آدمیوں کو قتل کر دیا

بادشاہ نے وہ خواب
شہزادی کو سنایا
شہزادی نے خواب کو اپنے جسم پر لکھا
اور بازار میں بیٹھ گئی

بادشاہ نے وہ خواب
مذہبی پیشوا کو سنایا
پیشوا نے وہ خواب مقدس کتاب میں لکھ دیا
اور اعتکاف میں چلا گیا

خواب کی کوئی تعبیر نہ پا کر
بادشاہ نے خواب کو قید کروا دیا

خواب کی تعبیر
خواب کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی تھی
اسے تلوار کے ایک وار کے ذریعے خواب سے جدا کردیا گیا تھا
خواب بادشاہ کے پاس چلا گیا
اور تعبیر ایک فقیر کے پاس

فقیر نے تعبیر کو اپنے کشکول پر لکھ دیا
اور ایک دن جب اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا
کشکول نگل کر مر گیا

تعبیر ایک کسان کے پاس چلی گئی
کسان نے تعبیر کو اپنے ہل پر لکھ دیا
اور ایک دن جب اس کے پاس بونے کو کوئی بیج نہیں رہا
اس نے ہل کو زمین میں بو دیا

تعبیر ایک جنازے کے پاس چلی گئی
اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی
چونکہ مرنے والے کی قبر کو کوئی کتبہ میسر نہیں ہوا تھا
تعبیر قبر کے سرھانے کھڑی ہو گئی
ایک دن
قبرستان کے پاس سے گزرتے ہوے ایک سپاہی نے
تعبیر کو مشکوک حالت میں دیکھ کر
گرفتار کر لیا

بندی خانے میں
خواب اور تعبیر
دونوں ایک ہی زنجیر سے جکڑ دیے گئے

اور اسی وقت
بادشاہ مر گیا

***

لاگ بک

لاگ بک میں لکھا ہے
یہ جہاز ڈوب چکا ہے

جہاز ڈوب چکا ہے
اور سمندر زندہ ہے
اور نمکین
اور ان مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے
جن کو اس جہاز کے ڈوبنے کا یقین ابھی نہیں آیا

لاگ بک میں جہاز کے ڈوبنے کے اندراج کے بعد
میرے دستخط ہیں
جن کی سیاہی میرے ہاتھوں میں محفوظ ہے

کیا اسی کا نام موت ہے
کیا یہ کسی اور جہاز کی لاگ بک ہے
کیا میں کسی اور جہاز کا ناخدا ہوں
کیا تمام لاگ بکوں میں یہی لکھ دیا جاتا ہے
’’یہ جہاز ڈوب چکا ہے‘‘

مگر یہ جہاز ڈوب چکا ہے
اس پر کوئی مسافر، کوئی ملاح، کوئی سامان نہیں ہے
ایک ڈوبے ہوے جہاز کو
کسی بندرگاہ پر اتارنے کی ذمہ داری
کسی بھی ناخدا پر عائد نہیں ہوتی
میں اس جہاز کو چھوڑ کر کہیں بھی جا سکتا ہوں
اور مرنے سے پہلے
یہ جان سکتا ہوں
کہ یہ سمندر زیادہ سے زیادہ کتنا نمکین ہو سکتا ہے

***

کیا آگ سب سے اچھی خریدار ہے

لکڑی کے بنے ہوے آدمی
پانی میں نہیں ڈوبتے
اور دیواروں سے ٹانگے جا سکتے ہیں

شاید انھیں یاد ہوتا ہے
کہ آرا کیا ہے
اور درخت کسے کہتے ہیں

ہر درخت میں لکڑی کے آدمی نہیں ہوتے
جس طرح ہر زمین کے ٹکڑے میں کوئی کارآمد چیز نہیں ہوتی

جس درخت میں لکڑی کے آدمی
یا لکڑی کی میز
یا کرسی
یا پلنگ نہیں ہوتا
آرا بنانے والے اسے آگ کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں

آگ سب سے اچھی خریدار ہے
وہ اپنا جسم معاوضے میں دے دیتی ہے
مگر
آگ کے ہاتھ گیلی لکڑی نہیں بیچنی چاہیے
گیلی لکڑی دھوپ کے ہاتھ بیچنی چاہیے
چاہے دھوپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو
لکڑی کے بنے ہوے آدمی کو دھوپ سے محبت کرنی چاہیے
دھوپ اسے سیدھا کھڑا ہونا سکھاتی ہے

میں جس آرے سے کاٹا گیا
وہ مقناطیس کا تھا
اسے لکڑی کے بنے ہوے آدمی چلا رہے تھے
یہ آدمی درخت کی شاخوں سے بنائے گئے تھے
جبکہ میں درخت کے تنے سے بنا
میں ہر کمزور آگ کو اپنی طرف کھینچ سکتا تھا
مگر ایک بار
ایک جہنم مجھ سے کھنچ گیا

لکڑی کے بنے ہوے آدمی
پانی میں بہتے ہوے
دیواروں پر ٹنگے ہوے
اور قطاروں میں کھڑے ہوے اچھے لگتے ہیں
انھیں کسی آگ کو اپنی طرف نہیں کھینچنا چاہیے

آگ
جو یہ بھی نہیں پوچھتی
کہ تم لکڑی کے آدمی ہو
یا میز
یا کرسی
یا دیاسلائی

***

ایک دن اور زندہ رہ جانا

بہت دور ایک ساحل پر
اسکریپ سے بنے ہوے ایک جہاز کا
بوائلر پھٹ جاتا ہے

سیکنڈ انجینئر اسی دن مرجا تاہے
تھرڈ انجینئر
دوسرے دن

اور میں
فورتھ انجینئر
تیسرے دن مر جاتا ہوں

سیکنڈہینڈ جہازوں پر
فرسٹ انجینئر نہیں ہوتے
ورنہ
میں ایک دن اور زندہ رہ جاتا

***

تل زعتر سے نشیب
(تل زعتر: 1976 کے بیروت میں فلسطینیوں کا ایک کیمپ)

میں بادلوں کا وہ ٹکڑا ہوں
جسے پتھر سے باندھ کر
ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے
میرا کوئی خاندانی قبرستان نہیں ہے
کرائے کے فوجیوں کا گھرانہ
وطن سے دور مرنے کی رسم

آٹے کی چکی کی بستیوں میں
مجھے آدمیوں سے خوف آتا ہو گا
میں اس گھاٹ پر نہاتا ہوں
جہاں جانور نہاتے ہیں

ماں میرے سر میں ناریل کا تیل چپڑ دیتی ہو گی
میں گھگھیانا شروع کر دیتا ہوں
میں نے کبھی کوئی لوری نہیں سنی
میں کبھی نہیں سویا ہوں گا
میں شاعروں کی طرح تتلیوں کے پیچھے بھاگتا
مگر ضدی گندے بہن بھائیوں کو بہلانے کے لیے روک دیا جاتا رہا ہوں گا

ہمارے گھر کوئی مہمان نہیں آتا تھا
کوئی تہوار نہیں آتا تھا
ہم مُردوں کا تہوار تک نہیں مناتے تھے

میرا پسندیدہ کھلونا
چوہے دان رہا ہو گا
میری دوپہریں وباؤں کی بستیوں میں آہ وبکا سننے میں گزری ہوں گی
شام کو جب منحوس پرندے شور مچانے لگتے
میں گھر آ جاتا
اور اپنے پاؤں سے زمین کریدنے لگتا
کوئی خزانہ ہمارے گھر کے نیچے دفن ہے
مگر میرا باپ مجھے لہولہان کر دیتا ہے
مجھے اپنے باپ سے محبت رہی ہو گی
جبھی اس کی قبر پر اتنی سبز گھاس اُگی

میرا بچپن ننگی بارشوں میں گزرا ہو گا
دلدلوں پہ شارعِ عام لکھا ہے
میں وہ بارہ سنگھا ہوں
جس کی سینگیں رات کے جنگل میں الجھ جاتی رہی ہوں گی

میں لکڑہارا بن جاتا
مگر ہر درخت پر محبت کرنے والوں کے نام کھدے رہے ہوں گے
میں سورج مکھی کے پھول اگاتا
مگر سورج کو پوجنا بند کر دیا گیا ہو گا

جب شہزادیاں
خواجہ سراؤں کے ساتھ بھاگ رہی تھیں
میں تمھیں کسی پیڑ کے نیچے کھڑا کر کے
کچی جامنیں نہیں جھڑجھڑا سکا

جب کنیزیں
پنجڑے میں بند پرندوں کو نرم اور سبز پتیاں کھلا رہی تھیں
میں تمھیں وہ گھونگھا نہیں بنا سکا
جس کو کان پر لگانے سے
میرا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا سنائی دیتا رہا ہو گا

میں تمھاری الگنی پر نہیں سوکھا
تمھارے گھڑے سے نہیں چھلکا
میں تمھیں گدی سے تلووں تک اپنے نام سے نہیں داغ سکا

سیلاب آنے سے پہلے
تمھاری بستی چھوڑتے وقت
میں نے اپنی انگلی کاٹ کر چہیتوں کے دن کی نشانی لوٹا دی

مگر جب بہار کی آنچ سے مٹی تمتمانے لگی
تم اپنی جلی ہوئی روٹی
اور آدھ چمچے شوربے میں مجھے شریک نہیں کر سکیں

ساری کپاس
شہزادوں کے کفن بنانے میں صرف ہو گئی
سارا ریشم
شہزادیوں کی جرابوں پر
فاتح اور مفتوح فوجی
بھیڑوں کو اون سمیت کھا گئے
گلی میں یتیم کتے
اپنی کھالوں کو دوہرا کیے اوڑھے ہوں گے
اکڑی ہوئی اینٹوں پر سوئے ہوے بچوں کو
دودھ میں مردہ شکر ڈال کر پلائی جا رہی ہے
روشنی آنتوں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہی ہو گی
گزشتہ سال کے تمام دنوں کو ایک ہی قبر میں سلاتے ہوے
غلطی سے نئے سال کا پہلا دن بھی
دفن کر دیا گیا
اب مرنے کا چھوت تمام دنوں کو لگ رہا ہے

جب باہر بھیڑیے گھوم رہے تھے
ماں سے میں نے کہا
جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاؤ

جب باہر لٹیرے گھوم رہے تھے
بہن سے میں نے کہا
کنویں سے پانی بھر لاؤ

جب بادل کو آسمان پر
اور پنیریوں کو کھیتوں پر پھیلانے کا وقت تھا
میں اپنی تنہائی کو ہتھوڑے سے کوٹ رہا ہوں گا
جب بادل کو کھیتوں پر
اور پرندوں کو خوشوں پر آنے سے روکنے کا موسم رہا ہو گا
میں اپنی تنہائی کو
چاک پر چڑھا کر ایک خوبصورت پیالہ بنا رہا ہوں گا

میرے دوستوں نے
اپنے ہاتھ دیواروں میں بو دیے ہوں گے
اور ساحل پر پڑی ہوئی کشتیوں کے پیندے میں اپنے سر
وہ سورج کو ڈوبتا دیکھ کر
سڑی ہوئی مچھلی کی طرح پگھل جاتے رہے ہوں گے
انھوں نے کبھی زمین کا چقماق جلا کر
شعلے نہیں کاشت کیے

اپنے مویشیوں اور بال بچوں کے ساتھ
ایک ناند میں کھانا کھانے کے بعد
وہ اپنی بیویوں کے ساتھ سو جانے کے لیے اپنے بچوں کے آنکھیں موند لینے کا
انتظار نہیں کرتے ہوں گے
برسوں جرابوں کی طرح پہنی ہوئی ان کی بیویوں کے منھ سے
چر اندھ آرہی ہوگی
ان کے بچے
خون کی زندہ جلتی ہوئی بوند رہے ہوں گے

چاند آسمان پر شہد کا چھتا ہے
میں اسے ریچھ بادلوں کے حملے سے بچانے جا رہا ہوں

میرے نیزے روشنی سے تیز چلتے ہیں
بادل میری کشتیوں کے بادبان ہیں
میری توپیں سورج داغتی ہیں

سمندر سرکشی پر آمادہ ہے
میں اسے ہواؤں کے گھوڑوں سے جوتنے والا ہوں
روشنی جو اس شہر کے کھمبوں پر سرنگوں ہے
میں اسے کوڑے مار مار کر اوپر بھیجوں گا

میں انھیں گرد اور غبار کے دریا میں اپنے اعضا ڈھونڈنے پر مجبور کر دوں گا
جن کی پلکیں ہوا چلنے سے جھڑ جاتی ہیں
جن کی آنکھیں روشنی میں تڑخ جاتی ہیں
جن کی گائیں سیاہ دودھ دیتی ہیں

میں اپنے زخموں میں گندھک سے
فتح کا اعلان لکھوں گا
اور
تمھاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں
انھیں اپنی تلوار کے دستے پر لگاؤں گا

***

ہمیں ہمارے خوابوں میں ماردیا جاتا ہے

ہمیں ہمارے خوابوں میں ماردیا جاتا ہے
پہلے بارش ہوتی ہے
پھر کیچڑ پھیل جاتی ہے
پھر ہمیں ماردیا جاتا ہے
ان اسلحوں سے
جن کا نشانہ
تعزیرات کی کتاب میں
ہمیشہ کے لیے درست بنا دیا گیا ہے

ہم اپنے خواب میں لیمپ روم کی طرف جاتے ہیں
جس میں بیٹھے ہوے چور
اپنے دانتوں سے کتری ہوئی رات کا ٹکڑا
ہمارے آگے پھینک دیتے ہیں
جسے ہم چباتے ہیں
اور جاگ جاتے ہیں

ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
اس درخت کو پانی دو
اس میں تمھاری رات ہے

ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
اس سمندر میں اتر جاؤ
اس کی تہہ میں ایک جہاز ڈوب گیا ہے
جس میں تمھاری رات سفر کر رہی تھی

ہماری رات چوری ہو گئی ہے
سیاروں کے کسی اور نظام کے لیے

پھولوں کی نمائش کے دروازے پر کھڑی ہوئی لڑکی پوچھتی ہے
تمھاری رات کہاں ہے؟
اور بارش ہونے لگتی ہے
سمندر الٹ پلٹ ہو جاتا ہے
اور مجھے کھینچ کر چاندماری کے میدان کی طرف لے جایا جاتا ہے

بگھی میں جاتی ہوئی لڑکی گردن باہر نکال کر مجھے دیکھتی ہے
اور بارش میں بھیگ جاتی ہے
اگر میرے دونوں ہاتھ
میری پشت پر بندھے ہوے نہ ہوتے
تو میں اسے الوداع کہتا

کتنی عجیب بات ہے
کل میں نے خواب میں اس لڑکی کا بوسہ لیا تھا
صرف ایک بوسہ
اور بارش ہونے لگتی ہے

بارش ہونے لگتی ہے
یہاں تک کہ چاندماری کی آدھی دیوار پانی میں ڈوب جاتی ہے
بھیگی ہوئی رسی
ہمارے ہاتھوں کو اور سختی سے جکڑ دیتی ہے

ہم بارش میں ننگے پاؤں
اس طرح چلتے ہیں
جیسے زمین ننگے پاؤں چلنے والوں کے لیے بنی ہو

بارش ہو رہی ہے
ہم بھیگ رہے ہیں
اب ہم یہ کپڑے کبھی نہیں بدلیں گے

ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
تمھارے پاس دوسرا جوڑا تو ہو گا

دوسرے جوڑے کے لیے
اپنے گھر
یا کسی اور کے گھر میں نقب لگانی ہو گی
اور ہمارے دونوں ہاتھ پیچھے بندھے ہوے ہیں

ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
تم نے برساتی کیوں نہیں خریدی

اب
جب چاندماری کی دیوار سامنے نظر آنے لگی ہے
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
تم نے برساتی کیوں نہیں خریدی
ہم اپنے خوابوں سے کہتے ہیں
اب بارش بہت تیز ہو گئی ہے
جاؤ
اور جا کر
برساتیوں کی دکان کے سائبان میں سو رہو

برساتی میں ملبوس ایک شخص
بھیگے ہوے رجسٹر میں میرا نام پکارتا ہے
کوئی مجھے دھکا دے کر آگے کر دیتا ہے

اب مجھے مار دیا جائے گا
اتنی بارش میں
مجھے مار دیا جائے گا

میں اتنی دیر میں کوئی خواب دیکھنا چاہتا ہوں

آتشدان کے پاس بیٹھی ہوئی لڑکی سے
کوئی کہتا ہے
تم نے بگھی کی کھڑکیاں بند رکھی ہوتیں

میں اتنی دیر میں کوئی خواب دیکھنا چاہتا ہوں

کوئی اسے
خوبصورت سی شال میں لپیٹ کر کہتا ہے
تمھیں اتنی بارش میں باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا
***

زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی

زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی
میرے دریا حریف کی صفوں سے گزر کر مجھ تک پہنچے
میں نے ہمیشہ جوٹھا پانی پیا
مجھے ایک موسم بارشوں کے نام پر خالی چھوڑنا پڑا
میرے لیے وصیت نامہ اس نے چھوڑا
جو کبھی بارشوں میں ننگے پاؤں نہیں پھرا

مجھے نہیں معلوم کہ
وہ وہی ہے
جسے گود میں لیے ایک عورت گھڑسواروں کے آگے گڑگڑا رہی تھی
اور جو گھوڑے کے نتھنوں سے نکلنے والی بھاپ سے
اپنا چہرہ بچانے کی کوشش عمر بھر کرتی رہتی ہے

مجھے نہیں معلوم کہ
وہ وہی ہے
جسے اس کی ماں نے پالنے میں رسیوں سے باندھ رکھا تھا

میں اپنی ماں کی گود
اور اپنے پالنے سے بار بار گر جاتا تھا
کیونکہ میں ایک کنویں میں پیدا ہوا تھا
جس کو کبھی پانی سے نہیں بھرا گیا
اور ایک مکان میں رہنے لگا
جو ایک کشتی کے ٹوٹے ہوے تختوں سے بنایا گیا تھا

میں نے سرکنڈوں کی کشتی بنائی
اور اسے پتھر کے چپوؤں سے کھیا

میں نے اس کے شہر کے غیرآباد ساحل پر
ایک فصل بوئی
اور ایک کاٹی

ہاتھی دانت کا چاند
سوسن کے پھولوں کی نگہبانی کرتا ہے
وہ اپنے شہد اور روغن کے مرتبانوں کی نگرانی کرتی ہے

پتا نہیں
میرے آسمان پر ہاتھی دانت کا چاند بھی اسی نے دریافت کیا ہو
جیسا کہ اس نے میرے لیے قطب ستارہ دریافت کیا
اور پرانی نہر کھدوائی
مجھے پتا ہے
کہ اس کا باپ
منہیارے سے سوداگر کس طرح بن جاتا ہے
کس طرح
میں رقص گاہ میں اس تک درخواست لیے جاتے جاتے
نرسنگھا بجا کر خیرات دینے والوں کے سامنے
قطار میں کھڑا ہو جاتا ہوں

حالانکہ
میں تو وہ ہوں
جو گیلی سیڑھیوں پر
سورج کا راستہ روکنے کے لیے ہے
اس دن بھی
جب آگ دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا ہے

اگر بیل سے انگوروں کا انبار ناند میں منتقل ہو جائے
اس کی وادیوں کو دوہا نہ جائے اور
ان کا اون اتار نہ لیا جائے
تو اسے کہنا
کوئی قیدی کسی ناراض دیوتا پر قربان کر دیا گیا
اور
یہ موقع وہ تھا
جب مائیں اپنے پہلوٹی کے بچے
رتھوں کے آگے لٹا دیتیں

میں ایک جلائے ہوے شہر میں لایا گیا ہوں

شہر وہی اچھے ہیں
جو لڑکیوں کے نام پر بسائے اور دیوتاؤں کے نام پر جلائے جائیں
لڑکیاں وہی خوبصورت ہیں
جو اُدھڑی ہوئی قبروں میں سے نکلے ہوے ہاتھوں پر
فصل میں پہلی بار توڑے ہوے پھل رکھتی چلی جائیں

اگر شاعری محبت کی کفایت کرتی
تو میں سمندر کے دونوں کناروں کو اپنی شاعری سے جوڑ دیتا
مگر امان نامہ میرے ہاتھوں میں ہے
اور اس کے خداوند کے اہلکار
میری پناہ گاہ ڈھا رہے ہیں

کیا یہ سمندر میرا پردیس رہ سکے گا
جو مجھے یقین دلاتا تھا کہ میں
جب تک اس کے کناروں پر رہوں گا
آدم زاد جیسا رہوں گا

پتا نہیں کب وہ جہاز آ کے رکے
جس کا ناخدا میرے لیے الاؤ روشن کرتا

پتا نہیں کب
وہ دیوی جو اس شہر کی مالکہ ہے
مجھے اپنی خوشنودی عطا کرے
کہ میں ان کے لشکر کے ساتھ نہیں تھا
جنھوں نے اس کی کارواں سرایوں میں صرف ایک رات گزاری

جب دعا سے پہلے
سیب میں خوشبو
اور بددعا سے پہلے
سانپ میں زہر پیدا ہو جائے
کسی جلے ہوے شہر کے پتھروں سے
کوئی جلا ہوا شہر بن رہا ہو
میں اپنے وطن واپس چلا جاؤں—

یہ سمندر پسپا ہو جائے گا
اور بستیوں پر چڑھ آئے گا
جیسا کہ سمندروں کا دستور ہے

اس کے شہر میں صرف ایک عورت بچے گی
جو وہ ہو گی
اور ایک خواجہ سرا بچے گا
جو کوئی بھی ہو سکتا ہے

شاید
اس کے دل میں
کوئی شہتوت کا پیڑ نہیں تھا
مگر میرا دل
ایک ریشم کا کیڑا ہے

میں اس کیڑے کو اپنے شناخت نامے سے نکال چکا ہوں
اور اس کے ساتھ ساتھ
رینگتا ہوں

’’اب جو میرے ساتھ نہیں
وہ میرے خلاف ہے ‘‘—

***


میں مار دیا جاؤں گا

افسوس کہ
بہت سا وقت
ان ہاتھوں کو ہموار بنانے میں ضائع ہو گیا
جو ایک دن میرا گلا گھونٹ دیں گے

ژاں ژینے کی بالکنی کے نیچے
موسیقی فروش
اور کباب بھوننے والے
مجھے بتاتے ہیں کہ
مجھے ایک دن یہیں کھڑا کرکے مار دیا جائے گا
میری قبر بےشناخت رہ جائے گی

اس عمارت کی پہلی منزل پر
دانتے کا جہنم ہے
اور اس سے اگلی منزلوں پر خدا کا
مگر میرے ساتھ ایک دریا ہے
جس کو ابھی سیڑھیوں پر چڑھنا نہیں آتا

مجھے سؤروں کے باڑے میں سلا دیا گیا
جبکہ جس معاوضے پر
میزبان مجھے اپنی بیوی کے بستر میں سلا دیتا
وہ میری جیب میں موجود تھا

افسوس کہ
میری نیندیں
میری راتوں پر ضائع ہو گئیں
افسوس کہ
میں نے جان ڈن کے گرتے ہوے ستارے کو پکڑ لیا

افسوس کہ
افسوس کرنے میں بہت سا وقت ضائع ہو گیا
اتنا وقت کہ
اینٹوں سے ایک مکان بنایا جا سکتا تھا
نظموں سے ایک مجموعہ چھاپا جا سکتا تھا
ایک عورت سے ایک بچہ پیدا کیا جا سکتا تھا

افسوس کہ
میرا بچہ
ایک عورت کے بطن میں ضائع ہو گیا
جبکہ مجھے مارا جانا چاہیے تھا

جبکہ
جلد یا بدیر
میں مار دیا جاؤں گا

میں مار دیا جاؤں گا
جیسے کہ تادیوش روزے وچ کی نظموں کے
کرداروں کو مار دیا جاتا ہے

***

محبوب خزاں

اکیلے شعر

ہمارے اور تمھارے درمیاں جادو کا رشتہ ہے
گھنیری شام میں اڑتے ہوے جگنو کا رشتہ ہے

کیا مانگ رہے ہو نئے پھولوں سے نئے رنگ
ان تازہ پرانوں میں نیا کچھ نہیں رکھا

کیا نشہ ڈھونڈتے ہو تھکن میں
روح گھبرا گئی ہے بدن میں

بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

خوابوں میں خزاں تم نے عبث عمر گزاری
ڈرتے ہی رہے کھل کے محبت بھی نہیں کی

***

نسرین انجم بھٹی

نظم

میں توبہ کے وقت کی پیداوار ہوں اور جھوٹ بولتی ہوں
قراردادوں کے قرار پر میری ناف کھولی گئی تو آگ نکلی
دھویں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی آزاد ہوئی اور میرا گناہ بنی
کیونکہ وہ بھی عورت تھی اور جھوٹ بولتی تھی اور توبہ نہ کرتی تھی
اس کا گناہ میری آبادیوں میں آن بسا ایک پرندہ تھا جو میری ماں نے میرے لیے پکڑا تھا
اور میں نے اس کے لیے جو میری آگ تھی اور میرے ویرانوں پر اتری تھی
میں اس کا نام ہچکیوں میں لیے لیے پھرتی ہوں، کہاں رکھوں؟
کورے کھڑے کے ڈھکن پر؟
موتیے کے پھولوں میں ؟
میری پتیاں کھل رہی ہیں— خوشبو کہاں رکھوں؟
آگ پر سورج شراب لکھتا ہے
میں ناف سے سانس لیتی ہوں اور شہ رگوں کو دودھ بخشتی ہوں
اور اجل کہتی ہوں

***

ستی کمار

پنجابی سے ترجمہ:احمد سلیم


سیلف پورٹریٹ

یہاں ویت نام تھا، کہاں ہے؟
یہاں ایک جھیل تھی، شہر تھا، کہاں ہے؟
نہیں اور نہیں کے درمیان
میں سر جھکائے کھڑا ہوں سوال کی طرح
اٹھ بیٹھا ہوں اپنے کوٹ پر سے جھاڑتا
دھول سے بنے جھیل اور شہر
اٹھ بیٹھا ہوں اپنے بوٹوں پرسے جھاڑتا
ریت سے بنے تپے ہوے دن اور پہر


تاپ

بستر میں کانپتے کانپتے میں دو ہوگیا
اور پھر دو ہوکر کانپنے لگا
تیری آواز (تو جو کوئی بھی ہے)
بھڑ کی طرح میرے کانوں کے آس پاس گونجتی رہی
اور پھر کھڑکی کے راستے اندھیرے میں جا کر مر گئی
اپنی زبان کٹ جانے کے بعد بھی میں
اسے (وہ جو کوئی بھی ہے)
آوازیں دیتا رہا
جو کسی کو بھی سنائی نہ دیں
لیکن اس انوکھے سنسار میں مجھے جب
کچھ بھی نیا ’’ہوتا ‘‘ دکھائی نہ دیا
تو اپنی امید کا ماتم کرنے کے لیے
میں نے ہاتھوں کو اپنے پیٹ کے اندھیرے میں لٹک جانے دیا
دو پیاسی مچھلیوں کی طرح


ایک ایبسرڈ صبح

کرسی پر بیٹھا اخبار خود کو پڑھ رہا ہے
(یا پڑھ رہا ہے خود کو لفظ)
بوند کھول کر گلاس نے ہی پی لیا پانی
آسمان غروب ہورہا ہے، سورج کے مغرب میں
(سورج کے مشرق سے طلوع ہوکر)
چھاؤں اڑ رہی ہے عرش پر
پرندہ اسے دیکھتا ہے بیٹھے ہوے فرش پر
بلا رکاوٹ بیت رہی ہے صبح
صرف ایک ہتھنی نے بور ہو کر
اپنے جسم پر نگاہ دوڑائی ہے
اور ایک پھول میں بند ہو کر
اس نے کر لی ہے
خ
و
د
ک
ش
ی


شوکت عابد

غزلیں


چاند بھی جب سو جاتا ہے
کوئی مجھے جگاتا ہے
نرم ہوا کا جھونکا بھی
کیسی دھول اڑاتا ہے
دروازہ تری یادوں کا
دھیرے سے کھل جاتا ہے
شبنم جیسی رنگت کا
شعلہ سا لہراتا ہے
ساگر جیسی بانہوں میں
دریا شور مچاتا ہے
گہری گھنی اداسی کا
جنگل پھیلتا جاتا ہے
چہرہ آتی صبحوں کا
آنکھوں میں در آتا ہے
بادل جیسے خوابوں سے
سر بھاری ہو جاتا ہے
***
وہی رستہ، خواب، ہوا، دریا
وہی آہٹ، دھند، صدا، دریا
اک پل کو بجلی سی چمکی
پھر شعلہ بن کے جلا دریا
پھر آگ لگی جنگل جنگل
پھر شور اٹھا دریا دریا
بادل پر پھول کھلا کوئی
جنگل کا گیت بنا دریا
بانہوں میں چاند کی ٹھنڈک سی
ہونٹوں سے اُدھر جلتا دریا
شاخوں کے سکوت میں گم منظر
آنکھوں میں وہی بہتا دریا
اک لہر نے خواب دکھائے مگر
خواہش کا خوف بنا دریا
سپنوں کی فصل ہے آنکھوں میں
تو موجِ سراب لٹا دریا
میں لہو کی تان پہ گاؤں گا
تو اپنا رقص دکھا دریا
میں تجھ میں ڈوبتا جاؤں گا
تو مجھ میں گم ہو جا دریا
***
وہی لہریں پلٹ آتی ہیں کنکر لوٹ آتے ہیں
وہی کنکر سمیٹے شام کو گھر لوٹ آتے ہیں
بس اک آواز ہے کھینچے لیے جاتی ہے جو دل کو
بس اک دیوار ہے ہم جس کو چھو کر لوٹ آتے ہیں
چراغِ گل کے جلنے کا سماں تصویر کرنے کو
یہ سائے شام تک چلتے ہیں تھک کر لوٹ آتے ہیں
وہی حالت ہے اس چشمِ فسردہ کی جو پہلے تھی
وہی اک پل کی بارش سے سمندر لوٹ آتے ہیں
***

عتیق احمد جیلانی
غزلیں

ثیات و رفت کی تکرار سے گزرتے ہوے
میں جل بجھا اسی آزار سے گزرتے ہوے
مرے وجود کے سب سلسلے ہوے روشن
خمار و خواب کے اسرار سے گزرتے ہوے
کلاہ و کاسہ کی تفریق بھی غبار ہوئی
نشاطِ جمع و درکار سے گزرتے ہوے
گلاب رکھنا سجل ساعتوں کے زینے میں
سفید صبح کے آثار سے گزرتے ہوے
عتیق شام و سحر کا ملال مت کرنا
امید و بیم کی بیگار سے گزرتے ہوے
***
بادل مجھ سے آگے آگے اڑتا جاتا تھا
میں روزانہ پیاسا آتا پیاسا جاتا تھا
بڑھتے قدموں میں زنجیریں ڈالی جاتی تھیں
مجھ کو میرے گھر سے روز پکارا جاتا تھا
میں اپنی اک اک ساعت کا سب حاصل تفریق
خاموشی سے لوحِ جاں پر لکھتا جاتا تھا
لوگ گھروں میں بیٹھے مجھ پر ہنستے رہتے تھے
میں جنگل سے خوشبو لینے تنہا جاتا تھا
***
فسونِ خوش نظر سے واپسی پر
اندھیرا ہے سفر سے واپسی پر
وہی لاحاصلی کا روگ ہے پھر
خمارِ بے ثمر سے واپسی پر
نیا اک سلسلہ حیرانیوں کا
سکوتِ بام و در سے واپسی پر
پرندے خاک صورت گر رہے ہیں
حصارِ بال و پر سے واپسی پر
وہی خوابِ سفرساعت لہو میں
فروزاں ہے سفر سے واپسی پر
سپاہی مورچوں میں سو رہے ہیں
صفِ تیغ و تبر سے واپسی پر
عتیق احمد کئی جگنو ملے تھے
مجھے دشتِ خبر سے واپسی پر
***

سعیدالدین

ایک منظر کی جزئیات

سب لوگ سورہے ہیں اور باہر کے جنگل مجھے بلا رہے ہیں
جھینگر، مینڈک اور چھپکلی کی ملی جلی آوازیں
یہ آوازیں میرے اس قدر قریب سے گزرتی ہیں
کہ میں دور تک خشک پتے کی طرح ان کے ساتھ اڑ جاتا ہوں
یہاں آسمان ایک انکشاف ہے
اور زمین کسی چاک پر بنے ہوے نا مکمل کوزے کی طرح تروتازہ
مجھے یاد ہے کل تک یہ آسمان
کسی مردہ گداگر کے کاسے کی طرح شہر کے فٹ پاتھ پر پڑا تھا
کل تک یہ زمین گھر تھی، شہر تھی، ملک تھی، سرحد تھی
مگر آج یہ سب ایک منظر کی جزئیات ہیں

ذی شان ساحل


پھولوں کے لیے ایک نظم

پھول کھلے ہوے ہیں
ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ
اور ایرپوٹ پر رن وے کے قریب
چرچ کے احاطے اور فلیٹ کی بالکنی میں
پانی کے کنارے اور کھیتوں کی منڈیروں پہ
خوابوں کے میدان اور تمھاری آنکھوں میں

پھول سجے ہوے ہیں
میز پر منتظر گلدان میں
ہاسپٹل کے لان میں
جنگی مشقوں سے واپس آنے والے ٹینکوں
اور سپاہیوں کی بندوقوں کی نالوں میں
اور تمھارے بالوں میں

پھول رکھے ہوے ہیں
تمھارے پرس اور میرے دل میں
پرانی ڈائری اور آٹوگراف بک میں
کتابوں کے درمیان اور میز کی دراز میں بچھے کاغذ کے نیچے
پھول رکھے ہوے ہیں
تحفوں کی دکانوں اور نئی پرانی قبروں پہ


تجربہ گاہ میں ایک موت

اس موت کی اطلاع ریڈیو سے نشر نہ ہو سکی
اور ٹی وی کے نمائندے ایسی خبروں کی کوریج نہیں کیا کرتے
صبح اور شام کے اخبار ایسی خبریں چھاپ نہیں سکتے
پھر یہ کوئی افواہ بھی نہیں تھی
کہ سارے شہر میں پھیل جاتی
شاید کوئی بھی سچی خبر افواہ نہیں بن سکتی
اس اتفاقیہ موت پر
میرے تھوڑے سے افسوس کے علاوہ
کسی کو کوئی دکھ نہیں ہوا
در اصل کسی کو کچھ پتا ہی نہ چلا
اور افسوس کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ پتا ہونا ضروری ہوتا ہے
مجھے اس کے بارے میں—
مگر آپ کو اس سے کیا
ایسا تو کسی کے سامنے بھی ہو سکتا ہے—
تو میرے دوست نے مجھ سے کہا،
’’کل صبح میڈیکل کالج کی لیبارٹری میں
تجربات کے لیے استعمال ہونے والے جانوروں میں سے
ایک خرگوش اچانک مر گیا ‘‘
شاید جانور سپلائی کرنے والا ٹھیکیدار
ہمیشہ کی طرح انھیں کھانا دینا بھول گیا تھا
اور انھیں جھاڑیوں سے پکڑ کر ٹھیکیدار تک لانے والے
خود کئی کئی دن تک بھوکے رہتے ہیں
عام طور پر تجربات کے دوران یا بعد میں بہت سے جانور مر جاتے ہیں
ان کی موت پر کسی کو افسوس نہیں ہوتا
ان جانوروں کو بھی نہیں جنھیں بعد میں مرنا ہوتا ہے
اس لیے ایک خرگوش کی موت کسی پر بھاری نہیں ہوئی
مگر مجھے ڈر ہے
کسی طرح جو یہ تمام جانور مر جائیں
تو پھر تجربہ گاہوں میں کس کی باری آئے گی؟
اپنے آپ کو بہت اہم سمجھنے والے جانور
تجربوں میں مر جانے پر شاید فخر محسوس کرتے ہیں
مگر وہ خرگوش تو تجربہ شروع ہونے سے پہلے ہی مر گیا
شاید کسی لڑکی نے اس کے دل میں
تیز دھار آلہ چبھو کر دیکھا تھا
یا اس کے دل میں پہلے ہی سے کچھ اٹکا ہوا تھا—
میرا دوست چپ تھا
ہم ایک دوسرے کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے
شاید سارے خرگوش ایک جیسے ہوتے ہیں


کہانی

میں نے ایک کہانی سوچی ہے
میں اسے کبھی نہیں لکھوں گا
لکھی ہوئی کہانیاں پڑھ کر
لوگ بہت سی باتیں فرض کر لیتے ہیں
اور فرضی کہانیاں لکھنی شروع کر دیتے ہیں
میں نے یہ کہانی اس سے پہلے کسی سے نہیں سنی
کہیں پڑھی بھی نہیں اور فرض بھی نہیں کی
اس کے کردار کہانی شروع ہونے سے پہلے
یا شاید ختم ہونے کے بعد
مر چکے ہیں
وہ ایک دوسرے سے کبھی نہیں ملے
یا شاید ہمیشہ ساتھ رہے ہیں
میں ان کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا
غیرفرضی کہانیوں کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا
ان میں سب کچھ خدا کی طرح غیریقینی
موت کی طرح اچانک
اور کبھی کبھی محبت کی طرح خوبصورت اور غیرمتوقع ہوتا ہے
یہ کہانی یوں شروع ہوتی ہے ...
مگر ایسی کہانیاں کسی کو سنائی نہیں جاتیں
ورنہ لوگ خود کو ان کا کردار سمجھنے لگتے ہیں
یا شاید ایسا ہوتا بھی ہے
یہ کہانی میرے پاس دشمن کی کمزوریوں کے راز
اور تاش کے کھیل میں ترپ کے پتوں کی طرح ہے
میں اسے کبھی نہیں لکھوں گا
اسے کسی کو نہیں سناؤں گا
اس کے کرداروں کو اور خود کو بھی نہیں
اپنے دوستوں کو بھی نہیں
اس لڑکی کو بھی نہیں جس کے لیے میں نے یہ کہانی سوچی ہے

اسد محمد خاں

ناممکنات کے درمیان

(آکٹوپس— ایک نظم )
میں نے آدی پُرش کے ننگے اسٹیچوایٹ پر ایک روحِ زندہ کو منڈلاتے اور اترتے ہوے دیکھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ زندگی پیدا کرنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے۔ میں وہیں تھا جب نیلے امن کا پہلا نقطہ آدی پرش کے سر کی پشت پر نمودار ہوا اور پھیلنے لگا اور پھیل کر نیلے ٹھنڈے شعلوں کا الاؤ بن گیا، اور بھیرویں کی نارنجی لپٹ کے ساتھ ایک روحِ زندہ ٹیراکوٹا کے اس ننگے اسٹیچوایٹ پر اتری اور اس نے کہا، ’’جاگیے برج راج کنور جاگیے، کنول کُسم پھولے، ‘‘ اور آدی پرش کے ننگے پن میں نارنجی آگ سے نہایا ہوا، یک خلیاتی زندگی کا پہلا کنول کھل گیا۔ آدی پرش بیدار ہوا۔ وہ متھائی کی طرح گھومتا ہوا نیلے ٹھنڈے حصار سے باہر آیا، اس نے برہمانرتیہ کی سات مدراؤں میں زندگی کو سلام کیا (اس کی آٹھویں مدرا روحِ زندہ کے لیے تھی)اور میں سمجھ گیا کہ زندگی پیدا کرنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے۔

(آکٹوپس— ایک منظر)
میں جس منظر میں تمھیں شریک کر رہا ہوں وہ ایک پل کا منظر ہے۔ یہ پل دو ناممکنات کے درمیان کھنچا ہوا ہے۔ یہ سارا منظر ہی غیرمعمولی ہے، بس ایک بات غیرمعمولی نہیں ہے اور وہ یہ کہ پل کا ایک پیل پایہ ریت میں دھنس گیا ہے۔ میں اسے پیل پایہ ہی کہوں گا کیونکہ ایک نظر میں یہ پیل پایہ ہی دکھائی دیتا ہے۔اصل میں یہ ٹین کا بنا ہوا ایک آکٹوپس ہے اور اپنے زنگ خوردہ بدن کے ساتھ ریت میں دھنسا ہوا ہے، بس اس کی سونڈیں آزاد ہیں۔ یہ آکٹوپس پل گھی کے پرانے کنستروں کو چیر کر بنایا گیا ہے۔ آکٹوپس عام تین منزلہ عمارت جتنا اونچا ہے اور عین مین اس آکٹوپس کی طرح ہے جسے ہم اپنے دہشت ناک خوابوں میں دیکھتے ہیں، مگر خواب کا آکٹوپس بہت چھوٹا ہوتا ہے۔
ٹین کے اس آکٹوپس کی آٹھوں سونڈیں ایک دوسرے سے جفتی کھاتی ہوئی اس طرح پھیل گئی ہیں کہ کچھ سونڈیں پل کی دائیں محراب بناتی ہیں اور کچھ بائیں۔ ایک دو سونڈیں پیش منظر میں تمھاری میری طرف بڑھ آئی ہیں۔ اگر تم غور سے دیکھو تو ان کا مہیب سایہ ہمارے اوپر پڑتا دکھائی دے گا۔ ویسے وہ ہمارے اوپر اتنی بلندی پر معلق ہیں کہ بے موسم کے بادل کی طرح ان سے کوئی فوری خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ آکٹوپس کی ایک سونڈ عقب میں انفی نٹی کی طرف بڑھ گئی ہے، مگر اس سونڈ کو ہم اور تم نہیں دیکھ سکتے۔ یہ سونڈ ہمارا تمھارا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم صرف محرابیں بنانے والی سونڈیں اور اپنی طرف امڈ آنے والی سونڈیں ہی دیکھ سکتے ہیں جن کی مجموعی تعداد سات ہے۔ جس سونڈ کا رخ انفی نٹی کی طرف ہے وہ آٹھویں ہے۔
آکٹوپس پر ایک مکمل سیاہ پینٹ لگایا گیا ہے جس میں سیاہی کے سوا کسی دوسرے امکان کو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔یہ مکمل سیاہ پینٹ اس درجہ سیاہ ہے کہ تمام کی تمام روشنی جذب کر لیتا ہے، ایک کرن بھی منعکس نہیں ہونے دیتا۔ اسے کچھ دیر غور سے دیکھنے کی کوشش کرو تو یوں لگے گا جیسے بینائی کے ساتھ تمھاری آنکھوں کے ڈھیلے بھی کھنچے جا رہے ہوں۔ سیاہی کو دوہرا گھناؤنا بنانے کے لیے سونڈوں کے پیٹ پر پوری لمبائی میں سَکرز کی چار قطاریں لگائی گئی ہیں۔ عام، روزمرہ آکٹوپس اپنی سونڈوں کے پیٹ پر دھڑکتے اور کھلتے بند ہوتے ہوے سکرز کی قطاریں پہنے رہتے ہیں۔ یہ قطاریں آکٹوپس کا سب سے دہشت ناک حصہ ہوتی ہیں۔ ٹین کے اس آکٹوپس پر سستے پلاسٹک کے لجلجے سکرز لگے ہوے ہیں جو کسی اندرونی برقی میکانکی نظام کے تحت بہت فحش انداز میں دھڑکتے اور کھلتے بند ہوتے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان میں سے بعض سکرز پورے ہولناک بلاسٹ کے ساتھ زمین چیر دینے والی آواز میں چیختے ہیں۔ ان میں بسوں کے پریشرہارن نصب ہیں۔ جو سکرز پریشرہارنوں سے خالی ہیں بظاہر بےضرر دکھائی پڑتے ہیں، مگر ان میں ایسے آلات لگے ہیں جو ننگے کانوں سے نہ سنائی دینے والی الٹراسونِک آواز پیدا کرتے ہیں۔ باقی سکرز سے اندھا کر دینے والی تیز سفید روشنی اترتی ہے۔ یہ دھڑکتے نہیں ہیں، بس ان کی روشنی جھپکتی رہتی ہے اور اس جھپک کی تال میں کوئی ترتیب نہیں ہے۔ روشنی کی سفیدی کافور کی سفیدی کی طرح ٹھنڈی اور مردہ ہے، اور ایک غیرشخصی سوگواری سے تربتر ہے۔ یہ روشنی ٹین کی سونڈوں پر لگے مکمل سیاہ پینٹ کی وجہ سے اپنی قطعی اور طےشدہ حدوں میں رہتی ہے، آکٹوپس کی سونڈوں کو یا اس کی سیاہ دہشت کو روشن نہیں کر سکتی۔ وجہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں۔
یہ پل، جیسا کہ میں نے بتایا، دو ناممکنات کے درمیان کھنچا ہوا ہے اور ہر اعتبار سے مردہ ہے۔ اس میں بڑھ کر پھیلنے یا کسی بھی طرح اپنی شکل بدلنے یا حرکت کرنے کا امکان موجود نہیں ہے ، البتہ آکٹوپس کے اصل بدن کو ریت کا جو تودہ ڈھکے ہوے ہے وہ تودہ زندہ ہے۔ مگر یہ زندگی جانوروں اور پودوں اور پتھروں کی زندگی سے مختلف ہے کیونکہ تودہ بھی اپنی طےشدہ حدوں سے بڑھ کر پھیلنے، شکل بدلنے اور حرکت کرنے پر قادر نہیں ہے، بس اس کی ریت سنکھوں مہاسنکھوں ننھے چمکدار گول کیڑوں کی طرح کلبلاتی رہتی ہے۔ اس ریت کے کسی ایک ذرے کو کبھی غور سے دیکھنا، وجہ سمجھ میں آ جائے گی۔ مٹ میلی گیلی چمک میں لتھڑا ہوا ہر ذرہ کہیں نہ کہیں پہنچنا چاہتا ہے؛ وہ سب کہیں نہ کہیں پہنچنا چاہتے ہیں اور اس کوشش میں برابر ایک دوسرے کو ٹھیلتے دھکیلتے رہتے ہیں۔ سماعت پر بہت زور دے کر سننا چاہو تو کبھی ان کی فحش آوازیں سننے کی کوشش کرنا، وہ سب ایک بےضابطہ رِدم میں یکساں پِچ پر چلّاتے رہتے ہیں: ’’چل بھئی! چل بھئی! چل بھئی!‘‘ جیسے کوہِ ندا کے مسافر کسی مقدر کی سفاک ڈور سے بندھے کھنچے چلے جا رہے ہوں: ’’چل بھئی! چل بھئی! چل بھئی!‘‘ مگر یہ گیلی چمک والے ننھے گول کیڑے اصل میں جاتے کہیں نہیں ہیں، تودے میں ہی گردش کرتے رہتے ہیں اور اپنی مکروہ آوازوں سے مٹ میلی چمک پھیلاتے رہتے ہیں۔ تودہ ابھی تک اتنا ہی ہے اور وہیں ہے جہاں تھا، اور اتنا ہی اور وہیں رہے گا جہاں ہے— بس یہ کلبلاہٹ چلتی رہے گی۔
ناممکنات کے درمیان ریت کے تودے کے علاوہ اس منظر کے فرش پر دور تک محجر لہروں کا جال بچھا ہوا ہے۔ روشنیوں والے سکرز سے اندھا کر دینے والی جو سفید روشنی نکلتی ہے وہ ان لہروں پر اتر کر بڑے من موہنے انداز میں جھلملانے لگتی ہے۔ پورے منظر میں بس ایک یہی بات دلاسا دینے والی ہے۔ لگتا ہے یہ بےجان محجر لہریں نہ ہوں، سانس لیتا ہوا پانی ہو جس کی سطح کے نیچے زندہ چیزیں حرکت کر رہی ہوں، اگ رہی ہوں۔
میں ان محجر لہروں کے بصری دھوکے میں آکر پہلی بار اس منظر کے فرش پر دور تک دوڑتا چلا گیا تھا اور پشیمان ہوا تھا۔ اور یقین کرو کتنی ہی بار روحِ زندہ کا بوجھ اٹھائے اس منظر کے بےزندگی فرش پر دوڑا ہوں کہ شاید میرے پیروں کی دھمک سے چیزیں پیدا ہو جائیں اور سانس لینے لگیں۔
میں باربار اپنا بوجھ اٹھائے اس منظر کے سفاک فرش پر دوڑتا ہوا گیا ہوں اور اپنے تلوے لہولہان کر لیے ہیں مگر زندگی پیدا نہیں کر سکا، حالانکہ میں سُروں کی نارنجی لپٹ میں گھرا ہوا دوڑا ہوں اور ان دونوں آکٹوپس محرابوں سے پیاسی ابابیل کی طرح سنسناتا ہوا گزرا ہوں، اور پکارتا ہوا گزرا ہوں۔


اسد محمد خاں

سؤروں کے حق میں ایک کہانی

بہت بلندی سے ایک پہاڑی اترتی ہے۔
جس طرح مسجدِ جامع کی دھلی دھلائی سیڑھیاں متانت کے ساتھ قاضیِ شہر کے پاپوش چومتی ہوئی، نیچے عامتہ الناس کی دھواں لپٹی دنیا میں اتر رہی ہوں۔
ٹھیک اسی طرح ایک پہاڑی اترتی ہے۔
تو شام کے جھٹپٹے میں اور کبھی دھند میں شاید کئی لاکھ فیٹ کی بلندی سے ایک پہاڑی، کبھی ہلکے کبھی گہرے بادلوں والے آسمان سے ساون کی دو تین سو نیرجھروں کی انگلی تھامے قدم قدم اترتی ہے اور تال کے کنارے جا پہنچتی ہے، اور ساون کا یہ جلوس باون گنگا کہلاتا ہے۔ اور جو گنتی کرنے بیٹھو تو ان گنگاؤں کی تعداد باون نہیں رہتی، دو تین سو سے اوپر پہنچ جاتی ہے۔ مگر ساون میں گن کون سکتا ہے، یہ تو بےحسابی کی رت ہے۔
تو یہ کئی سو گنگائیں نیچے پہنچ کر ایک بارہ ماسی تال بناتی ہیں جس کی سطح سنگھاڑے کی بیلوں سے اور جل کمبھی سے اور تین قسم کے کنول سے ڈھکی رہتی ہے۔تال میں بہت سے چھوٹے چھوٹے ٹاپو ہیں جو آدمی کے قد جتنی اونچی، گہرے ہر ے رنگ کی، چکنے تکونے ڈنٹھل والی آبی گھاس پہنے رہتے ہیں۔ اس گھاس کے ڈنٹھل اس قدر چکنے، اتنے آبدار اور لچکدار ہیں کہ لگتا ہے اندرونی آرائش کرنے والوں کی سہولت کے خیال سے انھیں ٹھوس نائیلون سے بنایا گیا ہے اور یہ کوئی بہت پائدار، واشِبل قسم کی آرائشی چیز ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ یہ ڈنٹھل کسی سخت گیر اسکول ماسٹر کی لہراتی ہوئی چھڑیاں ہیں جن کے سروں پر ماسٹر نے سجاوٹ کے لیے چار چار پانچ پانچ شاخوں والے طرّے لگا رکھے ہیں۔ ان شاخوں سے پور پور برابر پتلی لوزینجز کی شکل کی سخت ہری پتیاں چپکی ہوتی ہیں، جیسے کنکھجورے کے بدن سے اس کی ہزاروں بےچین ٹانگیں چپکی ہوں۔ اور جس وقت یہ آبی گھاس بھیگی ہوئی ہوا کے ساتھ لہرا رہی ہوتی ہے تو بےخیالی میں یادیں اس کی تمام لہروں کے خطوطِ حرکت کو خود پر نقش کر لیتی ہیں اور پتا بھی نہیں چلتا اور تیس چالیس برس گزر جاتے ہیں۔ پھر اچانک ایک ایک لہر اقلیدسی اشکال میں خود کو دُہراتی آتی ہے اور آنکھوں کی پتلیوں کے پیچھے بجلیاں سی کوندنے لگتی ہیں۔
تو یہ سارے ٹاپو اس آبی گھاس سے پٹے پڑے ہیں۔ اور یہ آبی گھاس کبھی پیلی نہیں پڑتی، سدا ہری بھری رہتی ہے اس لیے کہ ساون رہے نہ رہے، تال کے اس دور دراز حصے میں بھی کمر کمر پانی تو سارے سال ہی رہتا ہے، پھر یہ ہری ہری پتیاں اور ہرے ڈنٹھل کاہے کو پیلے پڑنے لگے۔ سارے سارے سال ٹاپوؤں کے یہ ماسٹر سڑک پر چلنے والے اکادکا مسافر کو چھڑیاں لہرا لہرا کر دھمکاتے رہتے ہیں، کہ گھن گرج کے ساتھ دوبارہ ساون آ جاتا ہے۔ساون میں یہ ٹاپو ایک دم گھونٹ دینے والی تیز سبز بو اچھالتے ہیں جو مچھلیوں کے جیتے جیتے سرخ گلپھڑوں سے گزرتی ہوئی ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور قریب کے راہگیروں کو (ٹب میں بیٹھے ہوے شریر بچوں کی طرح) شرابور کر دیتی ہے۔
شام گہری ہوتے ادھر سے کم ہی لوگ گزرتے ہیں۔ وہ شاید گہرے ہرے رنگ کے اس اندھیرے سے خوف کھاتے ہوں گے یا شاید وہ اپنی یادوں کو زیادہ تندوتیز چیزوں سے بھرنا نہیں چاہتے — وہ ہلکے پھلکے رہتے ہوے جینا چاہتے ہیں— مگر کیا ہلکے پھلکے رہتے ہوے جینا ممکن ہے؟
میں نے تال کنارے ایک اجڑی ہوئی اَمرائی کو بھرپور ساون میں بھی، سب قصوں قضیوں، سب چیزوں سے الگ تھلگ پڑے دیکھا ہے اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہلکے پھلکے رہتے ہوے جینا کیسے ممکن ہے۔ یہ امرائی تال میں، اور تال کے آس پاس اور پہاڑی پر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے الگ تھلگ اور اس کے بیچوں بیچ موجود ہے اور دھیرے دھیرے مرتی جا رہی ہے۔
یوں ہے کہ تال کے بائیں کنارے سے جو ایک چھوٹی سی مسکین پہاڑی اٹھتی ہے اور باون گنگاؤں والی پہاڑی کی دُسراتھ کے خیال سے کچھ دور چلتی ہوئی پھر ہموار سطحِ مرتفع میں گم ہو جاتی ہے (جیسے بیاہ میں آئے ہوے پڑوسی دعا سلام کے بعد رشتے ناتے والوں سے ذرا ہٹ کر ایک طرف کو جا بیٹھیں)۔ تو پہاڑی کی گود میں یہ چھوٹی سی امرائی پڑی ہے اور یہ دھیرے دھیرے مرتی جا رہی ہے۔ سو دو سو برس پہلے یہاں آم کے بےگنتی پیڑوں پر بےحساب طوطے اور کوئلیں اکٹھا ہوتے اور پکار کرتے تھے۔ اب سناٹا رہتا ہے۔ گنتی کے دس بیس بوڑھے گنجے درخت بکریوں کے ریوڑ سنبھالے بظاہر سکون سے کھڑے رہتے ہیں۔ جہاں اب مینگنیوں کی بچھات بچھی ہے کبھی مست مہک والے آموں کا بور فرش کیے رہتا تھا اور درختوں تلے اُگی ہوئی کمزور ہری گھاس پر چمکیلے دھاری دار گاؤن پہنے گلہریاں دوڑ لگاتی تھیں، بھورے کوٹ والے لنگور اُدھم کرتے تھے اور چالاک گرگٹ پل پل میں لباس بدلتے تھے۔ یہ سب اب اوپر چلے گئے ہیں، کہ اوپر اب بھی سیتاپھلوں کے ٹیڑھے میڑھے درختوں کے بیچ میٹھے کروندوں اور اچاروں کی جھاڑیاں ہیں اور تیز بسنتی رنگ میں رنگے ہوے شہد بھرے قمقموں کے جھابے اٹھائے تیندو کے درخت کھڑے ہیں اور بیل کے تناور پیڑ ہیں جو میٹھی مٹی کے میٹھے پھلوں کے درمیان سنتریوں کی طرح اپنی موجودگی کا یقین دلاتے ہوے چھوٹی پہاڑی پر چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھولوں میں املتاس ہے اور ٹیسو ہے اور گیندے کی جھاڑیاں ہیں اور اس چھوٹی پہاڑی پر بکھرے ہوے برسہابرس کی دھوپ کھائے، کروڑوں برساتیں جھیلے، ٹیڑھے ترچھے پتھروں کو سرکا سرکا کر قیمتی ایلوویئل مٹی نے پیوند لگا دیے ہیں جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی اگنے لگتا ہے۔ جہاں جہاں مٹی کا جس کمزور پڑجاتا ہے وہاں بھربھری مٹی میں خرگوشوں کے قبیلے سرنگیں کھود لیتے ہیں اور سیہہ کا اکا دکا خاندان اپنا بھٹ بنا لیتا ہے اور رات گئے اپنی سیلولائڈ کی زرہ بکتریں پہن کر گھومنے نکلتا ہے تو اپنے نشانات چھوڑ جاتا ہے۔ پھر سطحِ مرتفع پر بنے ہوے گھروں سے بھیگی ہوئی ہوا میں سوں سوں کرتے ہوے بہت سے بچے اترتے ہیں اور یہ سیلولائڈ کی قلمیں اکٹھی کرتے ہیں اور اپنے دفتی کے ڈبوں میں سنبھال کر رکھ دیتے ہیں کہ تیس چالیس برس بعد وہ انھیں اپنی پلکوں سے چنیں گے اور تیس چالیس برس پرانی بھیگی ہوئی ہوا میں سوں سوں کریں گے۔
اور سیاہ ایلوویئل مٹی کے پیوندوں میں گومچی کے نیم قد درخت بیٹھے اپنی مالاؤں کے سیاہ وسرخ ناسُفتہ منکے بکھیرتے رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس تیز ہرے گردوپیش میں ان کا لایا ہوا سرخ اور ان کا لایا ہوا سیاہ بھی چمکتا رہے۔
تو بےشمار چمکیلے رنگوں کا یہ طوفان چھوٹی مسکین پہاڑی پر آیا ہوا ہے جس کی گود میں سب سے بےتعلق یہ مرتی ہوئی امرائی پڑی ہے۔ اور چھوٹی مسکین پہاڑی باون گنگاؤں والی وِشال پہاڑی کی بازگشت ہے کہ اس کے پہلو سے آکار کہتی ہوئی اٹھی ہے۔ اور اس آکار کو گلہریاں اور لنگور اور گرگٹ اور خرگوشوں کے قبیلے اور سیہہ کا اکادکا خاندان اور بھیگی ہوئی ہوا میں سوں سوں کرتے ہوے بچے ہی سن سکتے ہیں۔ اور باون گنگاؤں والی پہاڑی ملہار ہے، اور میگھ راج کے پُرشور رتھ میں جتے ہوے گھوڑوں کی گردنوں کو چومتا ہوا جب دامِنی کا کوڑا لشکتا ہے تو یہی وشال پہاڑی ایک بھینکر روپی راگنی ہے جسے رونگٹے کھڑے کر دینے والی وحشی مسرت کے ساتھ تال کے کمرکمر پانی میں کھڑا ہوا یہ آدمی سن رہا ہے۔
یہ سنتا جاتا ہے کہ اس کی بند آنکھوں کی پتلیوں کے پیچھے سمرتیوں کی بجلیاں کوند رہی ہیں۔
تو یہ آدمی ہے، سؤر نہیں ہے۔
سو اس آدمی کو ہاتھ پکڑ کر ٹاپوؤں کی سنگت سے اور سنگھاڑے کی بیلوں اور جل کمبھی کی سنگت سے اور تین قسم کے کنول کی سنگت سے کھینچ لو۔
کہ سننے والوں اور سؤروں کے درمیان تم اپنا فیصلہ سنا چکے ہو۔
سو اسے ہاتھ پکڑ کر کھینچ لو، اور اُس دوسرے کو، اُس سؤر کے تخم کو لے آؤ جو ناک پر رومال رکھے امرائی میں دبکا بیٹھا ہے۔ یہ دوسرا اپنے بل ڈوزر اور ارتھ موور اور کلھاڑے اور چھینیاں لے کر آئے گا، اور تین سو نیرجھروں کو روک دے گا، ایک نقلی آبشار بنائے گا اور تال کنارے ٹاپوؤں کی ہری ہری گھاس کھینچ کر وہاں سیمنٹ کے بلاک جڑ دے گا، اور کرائے کے موٹربوٹ چلائے گا۔ پھر سنگھاڑے کی بیلوں پر اور جل کمبھی پر، اور تین قسم کے کنول پر سگریٹوں کے بٹ، کاغذ کے گندے رومال اور استعمال شدہ ربر پھینکے جائیں گے اور چھوٹی مسکین پہاڑی پر چونے سے نقشے بننا شروع ہوں گے اور گلہریاں اور لنگور اور رنگین لباسوں والے گرگٹ اور روئی کے دھنکے ہوے خرگوش اور سیہہ اور سوں سوں کرتے ہوے سب بچے پہاڑی سے چلے جائیں گے اور چمکیلے رنگوں والی پہاڑی کی آکار ڈوب جائے گی... بس فلش ٹینکوں کی غراہٹیں رہ جائیں گی، کہ ٹرمپٹ کی آخری سانسوں تک سنی جا سکیں گی۔

انور خاں

کوّوں سے ڈھکا آسمان

آسمان ان گنت سیاہ بھجنگ کووں سے ڈھکا تھا۔ وہ لوگ آگ کے گرد بیٹھے تھے۔ان کے اطراف میں بےشمار عمارتیں تھیں جن کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔
’’بڑی سردی ہے، ‘‘ ایک نے کہا۔
’’اور ہوا بھی ایسی تیز،‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’جیسے رامپوری چاقو ہڈیوں میں اتر رہا ہو،‘‘ تیسرے نے بات پوری کی۔
’’سنتے ہیں دن بھی نکلنے کا نہیں،‘‘ چوتھے آدمی نے کہا۔
’’یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘ پہلا آدمی پریشان ہو کر بولا۔
’’شہر میں ایسی افواہیں ہیں،‘‘ وہ آدمی بولا۔
’’بھلا ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔
’’ایسا نہیں ہو سکتا،‘‘ تیسرے آدمی نے کہا۔
’’آگ دھیمی ہو رہی ہے،‘‘ چوتھا آدمی بولا۔
’’ہمارے پاس ابھی اور لکڑیاں ہیں۔‘‘
’’اس شہر کی سڑکیں اس قدر صاف ہیں۔ کہیں کاغذ، لکڑی یا کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جسے جلا کر آدمی خود کو گرم رکھ سکے۔‘‘
’’آگ رات بھر جل سکے گی؟‘‘
’’کیا پتا۔‘‘
’’اور ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ رات کتنی لمبی ہے۔‘‘
’’رات تو کاٹنی ہی ہو گی۔‘‘
’’چاہے رات کتنی ہی لمبی ہو۔‘‘
وہ چپ ہو گئے اور دیر تک چپ رہے۔ آسمان ان گنت کووں سے ڈھکا تھا۔ تیز سرد ہوا رامپوری چاقو کی طرح ہڈی میں اترتی تھی۔ اطراف میں بلند عمارتیں تھیں جن کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔
قدموں کی چاپ سن کر انھوں نے سر اٹھایا۔ ایک دبلاپتلا، کھچڑی سے بالوں والا آدمی ان کی طرف آ رہا تھا۔ وہ آدمی آگ کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔
’’کون ہو تم ؟ کیا کرتے ہو؟‘‘
’’پردیسی ہوں۔ کہانیاں جمع کرتا ہوں،‘‘ اس نے نرم لہجے میں جواب دیا۔
’’کہانی؟‘‘ ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’پردیسی کوئی کہانی سناؤ کہ رات کٹے۔‘‘
’’میرے پاس کوئی کہانی نہیں،‘‘ اس نے کہا۔
’’ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
’’میں شہر کے تقریباً ہر آدمی سے مل چکا ہوں۔‘‘
’’کسی کے پاس کوئی کہانی نہیں؟‘‘ پہلے آدمی نے پوچھا۔
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’مجھے تو یقین نہیں آتا،‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔
’’مجھے بھی یقین نہیں آتا،‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔
’’لیکن یہ سچ ہے! ‘‘ تیسرے آدمی نے کہا۔
’’یہ سچ ہے؟‘‘ چوتھے آدمی نے کہا۔
’’ہاں یہ سچ ہے، ‘‘ کہانی جمع کرنے والے نے کہا۔
’’مجھے یقین نہیں آتا،‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔
’’مجھے بھی یقین نہیں آتا،‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔
’’کسی مکان میں روشنی نظر نہیں آتی،‘‘ چوتھے آدمی نے کہا۔
’’ہاں ایک بھی کمرے میں روشنی نہیں ہے،‘‘ دوسرے نے غور سے اپنے اطراف دیکھتے ہوے کہا۔
’’شہر کی بجلی فیل ہو گئی ہے،‘‘ کہانی جمع کرنے والا بولا۔
’’بجلی فیل ہو گئی ہے؟‘‘ پہلا آدمی آگ میں گرتے گرتے بچا۔
’’بجلی فیل ہو گئی؟‘‘ دوسرا آدمی ہڑبڑایا۔
’’کیا یہ سچ ہے کہ اب صبح نہیں ہو گی؟‘‘
’’ہاں، میں نے ایسا ہی سنا ہے،‘‘ اس نے کہا۔
’’آگ دھیمی ہو رہی ہے،‘‘ پہلا آدمی بولا۔
’’اور لکڑیاں جمع کرنی چاہییں۔‘‘
دوسرا آدمی اٹھ کر اطراف میں ایسی چیز تلاش کرنے لگا جس کو جلایا جا سکے۔ کچھ دیر بعد وہ مایوس ہو کر لوٹ آیا اور آگ کے پاس بیٹھ گیا۔
’’سالی اس شہر کی مو،نسپلٹی اس قدر واہیات ہے، سڑک پر ایک تنکا بھی نہیں ہے۔‘‘
’’آگ دھیمی ہو رہی ہے،‘‘ کہانی جمع کرنے والا بولا۔
کافی دیر وہ خاموش بیٹھے رہے۔ جب آگ بہت ہی دھیمی ہو گئی تو پہلے آدمی نے کپڑے اتار کر آگ میں جھونک دیے۔سب نے آگ میں اپنے کپڑے جھونک دیے۔ کہانی جمع کرنے والے نے بھی۔
’’پتا نہیں کتنی رات باقی ہے!‘‘ تیسرے آدمی نے کہا۔
’’کیسے کٹے گی یہ رات؟‘‘ چوتھا آدمی بولا۔
’’کیوں نہ ہم کہانی بنائیں۔‘‘
’’ہا! ‘‘ سب کے منھ سے نکلا۔‘‘ کتنی مزیدار بات۔‘‘
’’تو پہلے تم ہی شروع کرو،‘‘ پہلا آدمی بولا۔
’’گلابی صبح،‘‘ کہانی جمع کرنے والا کچھ سوچ کر بولا۔
’’ہنستا بچہ،‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔
’’شرماتی لڑکی،‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔
’’پھونس کا مکان،‘‘ تیسرے آدمی نے کہا۔
’’مٹھی بھر چاول،‘‘ چوتھے آدمی نے کہا۔
’’مچھلی کا شوربہ،‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔
’’کافی کا پیالہ،‘‘ دوسرا آدمی بولا۔
’’روئی کی دُلائی،‘‘ تیسرا آدمی بولا۔
سب ہنس پڑے۔
آسمان ان گنت سیاہ بھجنگ کووں سے ڈھکا تھا اور تیز سرد ہوا رامپوری چاقو کی طرح ہڈیوں میں اترتی تھی۔ اطراف کی بلند عمارتوں کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔ اور وہ دوہرا رہے تھے: گلابی صبح، ہنستا بچہ، شرماتی لڑکی، پھونس کا مکان، مٹھی بھر چاول، مچھلی کا شوربہ ، کافی کا پیالہ، روئی کی دلائی۔
آسمان دھواں دھواں ہوا اور فضا کووں کی کائیں کائیں سے پٹ گئی۔ ملوں کے بھونپو بجے۔ پھر ایک موٹا سا آدمی بنیان اور نیکر پہنے گیلری میں آ کر دانت مانجھتا کھڑا ہوا۔ ایک عورت اپنے بال سمیٹتی آئی اور ایک ادھوری انگڑائی لے کر لوٹ گئی۔ نوکر چاکر دودھ کی بوتلیں، ڈبل روٹی، مکھن، سبز ترکاریاں خریدنے نکلے۔ پھر ایک بس سڑک پر سے گزری جس میں چند آدمی بیٹھے تھے۔ کئی مکانوں سے ٹرانزسٹر کی آوازیں آئیں۔ فلمی گیت اور اشتہارات نشر ہونے لگے۔ اس کے بعد کارپوریشن کی گاڑی آئی اور سڑک کے موڑ پر رک گئی۔ وہاں چند لوگ برہنہ اکڑے پڑے تھے۔ کچھ لوگ گاڑی میں سے اترے، آدمیوں کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا، اور گاڑی پھر چل پڑی۔



سندیپن چٹوپادھیائے

انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

انقلاب اور راجموہن

راجموہن نے خود کو ابھی تک کیوں ہلاک نہیں کیا، اس کی ایک بڑی معقول وجہ ہے—وہ یہ کہ اسے ابھی تک کوئی ریوالور ہاتھ نہیں لگا۔ مگر یہ بڑی بھونڈی سی بات ہے۔یوں کہنا زیادہ درست ہو گا کہ کوئی ریوالور اس کے راستے میں نہیں آیا۔ اس کی زندگی اب تک اتنی ساکت رہی ہے اور اس نے خود کو اتنی کم حرکت دی ہے کہ ممکن ہے وہ ساٹھ یا اکسٹھ برس تک اسی سکون سے زندہ رہے، یہاں تک کہ کوئی بیماری یا حادثہ یا وٹامن کی مستقل کمی اسے اپنی پناہ میں لے لے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اس سے پہلے کوئی ریوالور اسے کوئی زحمت دیے بغیر خود اس کی ہتھیلی میں اتر آئے۔
اگر اسے جانا پڑتا تو وہ یقینا این این کندو کے پاس جا سکتا تھا جو آتشیں اسلحے کے بیوپاری ہیں۔ یہ اس قدر فطری سی بات لگتی ہے کہ اس کے وہاں نہ جانے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ لیکن ریوالور خریدنے کے بعد اسے ریوالور لوڈ کرنے کا کوئی طریقہ بھی ڈھونڈنا پڑتا— ظاہر ہے اسے لوڈڈ ریوالور تو ملنے سے رہا۔ تو پھر ایک روز جب باغ میں سانپ نکل آیا... نکل کیا آیا بلکہ جب وہ ایک درخت کی پتلی سی شاخ پر اپنی دم لپیٹے لٹکا ہوا تھا (وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ سانپ کا سر گلابی جاڑوں کی دھیمی دھوپ میں گلابی نظر آ رہا تھا یا وہ واقعی گلابی تھا)، بہرحال اس موقعے پر اسے فلیٹ میں دیوانگی سے تلاش کرنے کے باوجود ایک لکڑی بھی نہ مل سکی، تو پھر وہ کیا کر سکتا تھا سواے اس کے کہ روما کے ساتھ کھڑا رہے اور چپ چاپ سانپ کے درخت سے آخری چند پھول بھی گرا دینے کا انتظار کرتا رہے اور انھیں درخت کے نیچے سفید پھولوں کے ڈھیر پر گرتا دیکھتا رہے۔ ویسے وہ بڑا خوبصورت نظارہ تھا!
راجموہن صرف ٹرِگر دبانا چاہتا ہے— صرف اتنے عمل کی وہ خود کو اجازت دے سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو وہ بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے گا، پھر اپنا سر تھوڑا سا جھکائے گا جیسے عیسائی پادری آمین کہتے ہوے جھکاتے ہیں، پھر ریوالور کی نالی کو کنپٹی پر رکھ کر دبائے گا— ٹھنڈی نالی کو— اور چار یا پانچ سیکنڈ تک اسی طرح رہنے کے بعد فرش پر گر پڑے گا۔ اسے گولی چلنے کی آواز سنائی دے گی — راجموہن نے ریاضی کی مدد سے یہ سارا حساب کر لیا ہے، اور اسے امید ہے کہ وہ اس لمحے پوری طرح ہوش میں ہو گا۔ اس کا سر یہ جھٹکا محسوس نہیں کرے گا، لیکن پھر بھی خاص طور پر اس کا سر ہی زور سے فرش سے ٹکرائے گا، جیسا کہ سر ایسے موقعوں پر کِیا کرتے ہیں۔ وہ دروازہ ہرگز بند نہیں کرے گا، کیونکہ وہ سب دھکیلنا، کھٹکھٹانا اور دروازہ توڑنے کی کوشش کرنا اسے بہت عجیب لگتا ہے۔
کنپٹی پر سختی سے جما ہوا ریوالور—یہ تصور راجموہن کے ذہن پر بالکل مسلط ہو چکا ہے۔ وہ جملہ ہے نا کہ ’’اس میں کسی انتخاب کی گنجائش نہیں ‘‘، تو راجموہن کے معاملے میں یہ بالکل مناسب ہے۔ دو لفظوں میں اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ جس کا اپنے ذہن پر مسلط ہو جانے والی چیزوں میں کوئی انتخاب نہیں، اس کا معاملے میں کوئی انتخاب نہیں—اور راجموہن کا معاملے میں کوئی انتخاب نہیں!
یوں بھی نہیں ہے کہ اس نے اپنی ساری ہوشمند زندگی بہت سی غیرملکی فلمیں دیکھتے یا غیرملکی کتابیں پڑھتے ہوے گزار دی ہو۔ بنگالی سے زیادہ انگریزی کتابیں پڑھنے کا اس کی اس ذہنی صورت حال میں کوئی ہاتھ نہیں۔ آخر روہنی نے ہری در کے گاؤں میں بارونی کے تالاب میں چھلانگ لگائی تھی، اور اس نے پہلے پہل یہ سولہ سال کی عمر میں بنگالی ہی میں پڑھا تھا۔ اس نے خود کو گوبند لال میں شناخت کیا تھا؛ وہ خود تالاب پر بنے ہوے قدموں پر چلتا ہوا پانی تک گیا تھا اور اس نے خود اپنی آنکھوں سے روہنی کو تالاب کی تہہ میں پڑے ہوے دیکھا تھا، لہروں میں لپٹی ہوئی ایک سنہری مورتی کی طرح۔ اس کا پیتل کا برتن شفاف پانی کی سطح پر نیم اندھیری روشنی میں تیر رہا تھا۔1
سولہ برس بعد ایک روز راجموہن کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اس اقتباس کو—صرف اسی اقتباس کو—ایک بار پھر پڑھے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ٹکن ابھی روما کے پیٹ میں زندہ تھا۔ اس کی آغوش سے خود کو احتیاط سے الگ کر کے وہ دوسرے کمرے میں گیا جہاں اس کا کمر تک اونچا بک کیس رکھا تھا۔ اسے راجموہن نے ایک اوپندر نامی بڑھئی سے بنوایا تھا جو اس کے آبائی گھر کے سامنے لکڑیاں چھیلا کرتا تھا۔ راجموہن نے اس کا ناپ اور ڈیزائن خود بنایا تھا۔ اوپندر نے اس کی اجرت نہ لی کیونکہ فرنیچر قسم کی یہ پہلی چیز تھی جو اس نے بنائی تھی۔ بعد میں راجموہن نے خود اس کے پایوں پر پیتل کی چمک دار نعلیں لگائی تھیں۔
اور اس طرح یہ سب کچھ شروع ہوا۔ اُس روز سولہ برس بعد اسی اقتباس کو ٹیبل لیمپ کی روشنی میں ایک بار پھر پڑھتے ہوے راجموہن نے روہنی کو پھر تالاب کی تہہ میں پشت کے بل لیٹے، گہرائیوں کو روشن کرتے دیکھا۔ بس فرق یہ تھا کہ (افسوس) اب کے اسے اگلا باب، سولھواں باب، پڑھنے کی کوئی ضرورت محسوس نہ ہوئی جس میں گوبند لال نیم جان روہنی کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ پیوست کر کے اس میں سانس کی آمد ورفت پھر سے لوٹانے کی کوشش کرتا ہے اور روہنی کے ہونٹ اس کوشش سے پھولوں کی طرح سرخ ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جب وہ اس حصے پر آیا جب پیتل کا برتن پانی پر تیرتا جا رہا ہے، تو اسے تیرتے ہوے پیتل کے برتن کے بارے میں چتی ساگر کے ایک قبائلی گیت کا ٹکڑا بہت عجیب طرح یاد آ گیا۔ وہ اس ربط کو دبا نہ سکا، حالانکہ اس سولہ برس کے عرصے میں وہ اس قبائلی گیت کا نہایت مہذب ورژن پڑھ چکا تھا جسے بشنو ڈے2 نے نظم کیا تھا۔
اس طرح اس معنی خیز اقتباس سے ایک عرصے کے بعد پھر رجوع کر کے اس نے بہت سے طریقوں پر باربار غور کیا۔ سائنائیڈ سے لے کر گرم پانی میں اپنے ہاتھ کی رگیں کاٹ لینے تک۔ بہرحال اتنے زیادہ طریقے تو ہیں نہیں... ہاں، ایک سبزی والا بھی تو تھا۔ کیا نام تھا اس کا—البریخت گریف...ہاں گریف!
وہ واقعہ بھی دس یا بارہ برس پہلے پیش آیا تھا جب نوجوان راجموہن اپنے ساتھ ننھے آسکر کو لیے خاموشی سے دکان میں داخل ہوا۔ دکاندار شاید کہیں گیا ہوا تھا مگر دکان میں بہت سامان سجا رکھا تھا۔ وہ دونوں زینے کے دروازے سے لے کر تہہ خانے تک دیکھتے رہے۔ روشنی کا ایک مستطیل ٹکڑا تہہ خانے میں پڑی ہوئی پھلوں کی ایک خالی پیٹی پر پڑ رہا تھا اور پیٹیوں سے اوپر جوتے پہنے ہوے گریف کے ٹخنوں سے لپٹا ہوا تھا۔ ننھے آسکر نے پہلے سوچا کہ شاید گریف خالی پیٹیوں پر اونچی الماری میں سے کوئی چیز نکالنے کے لیے کھڑا ہے، لیکن نزدیک جا کر اس نے دیکھا کہ پیٹیوں پر پیاز کے خالی تھیلے بکھرے ہوے ہیں، اور ایک لمحے بعد اس کی نظر گریف کے ٹخنوں اور خالی تھیلیوں کے درمیان کی خالی جگہ پر پڑی۔ گریف سر سے پاؤں تک خون میں لت پت تھا۔ دہشت زدہ خالی چہروں کے ساتھ ان دونوں نے، آسکر اور اس نے، ذرا ذرا کر کے گریف کے ٹخنوں سے سرتک نگاہ کی اور البریخت گریف کے مردہ تاریک جسم کو دیکھا جو جنگ سے پہلے کے پولینڈ کے ایک شہر ڈین زِگ کا ایک سبزی فروش تھا۔
اب، اتنے برس بعد بک کیس سے یہ کتاب نکال کر وہ یہ سب پھر سے پڑھنا چاہتا ہے۔ وہ اس ٹکڑے کو ڈھونڈتے ہوے دیوانگی سے صفحے پلٹنے لگتا ہے، اس کے ہاتھ جوشِ تلاش سے کپکپا رہے ہیں۔ آخرکار اسے یہ اقتباس ہاتھ آجاتا ہے۔ وہیں، صفحہ نمبر 314 پر۔ ہر چیز اسی طرح ہے جیسے دس برس پہلے تھی۔ آخر خزاں کی روشنی اب بھی گریف کے پیروں پر پڑ رہی ہے، اس نے اب بھی گھٹنوں تک اپنی گہری سبز اسٹاکنگز پہن رکھی ہیں اور ان کا بند بھی جسے باندھنا وہ کبھی نہیں بھولتا۔ وہ گریف کو اپنا گردآلود فیلٹ ہیٹ سینے پر دائیں ہاتھ سے تھامے ہوے دیکھتا ہے۔ مگر افسوس، اس بار اس کے ساتھ ننھا آسکر نہیں ہے۔ اب کے وہ اکیلا ہے، اور اس ٹکڑے کو پڑھنے سے اس پر ذرا بھی اثر نہیں ہوتا۔ وہاں صفحہ 314 پر کوئی چیز اب بھی ہے جس نے کبھی اسے بےپناہ خوف کے نرغے میں دھکیل دیا تھا، لیکن اب وہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ و ہ شے اب اسے خوفزدہ نہیں کرتی—اب وہ رونا چاہتا ہے۔
ایک روز اسکول کے راستے میں سحرخیز روشنی میں ریلوے لائن کی پہاڑی سے گزرتے ہوے اس نے اور بیچو نے دور سے ہجوم کا ایک دھندلا سا کنارہ دیکھا اور اس کا الجھا ہوا شور سنا۔ پولیس ابھی تک نہیں آئی تھی اور وہ کوشش کے باوجود لوگوں کی ٹانگوں میں سے نکل کر موقعِ واردات تک جانے اور وہاں ریلوے لائن کے اِدھر اُدھر ایک سر اور ایک دھڑ کو الگ الگ پڑا دیکھنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مایوس ہو کر وہ اسکول کی طرف چل دیے اور راستے پر پڑے خون کے بڑے بڑے دھبوں کو دیکھ کر سوچنے لگے کہ شاید یہ خون گوشت لے جانے والی مال گاڑی سے ٹپکا ہے۔ در حقیقت راجموہن یہ تک نہ بتا سکا کہ وہ کہنی سے کٹا ہوا نیلا بازو جو اس نے ریلوے لائن سے کافی دور پڑا ہوا دیکھا ہے خود اس کے بھائی کا ہے۔ ’’اوہ میرے خدا! ‘‘ بیچو اس قیمتی گھڑی کے خون آلود شیشے پر کان لگا کر چلایا جو عدن میں خریدی گئی تھی۔ کیا وہ اب تک چل رہی تھی؟ کیا بیچو اسی لیے چلایا تھا؟ یہ معلوم کرنے کا اب کوئی طریقہ نہیں تھا۔ راجموہن نے بھی خود اس بازو کو چھو کر دیکھا۔ ہاں، واقعی وہ ریلوے لائن کے پاس اپنے بھائی کے کٹے ہوے بازو کو لیے کوئی دو منٹ تک اکڑوں بیٹھا رہا—لیفٹیننٹ کشوری موہن کے بازو کو۔ اس کے دل میں کوئی شک نہ تھا۔ تب اسے بجلی کے کرنٹ جیسا دہشت ناک صدمہ پہنچا، اس کی پاتال تک ، اس کی ہڈیوں تک جو ایک دم بالکل سیال ہو گئیں۔ اب وہ اس گھڑی کی صرف ایک دھڑکن سننے کے لیے کیا کچھ نہ دے دے گا، اس گھڑی کی جو اس روز دو سیکنڈ تک دھڑکتی رہی تھی۔ اوہ راجموہن! راجموہن!
گریف اب تک صفحہ 314 پر اسی طرح جھول رہا ہے، لیکن اس کا بھائی اب ریلوے لائن کے قریب کہیں نہیں ہے۔ روہنی ابھی تک پندرھویں باب میں چت لیٹی تالاب کی تہہ کو روشن کر رہی ہے، لیکن اس کے لیے روہنی کی طرح پانی کے نیچے جا لیٹنا بےکار ہے۔ راجموہن نے اچھی طرح سوچ لیا ہے: وہ روہنی نہیں ہے، اور نہ گریف—ڈوبنے اور جھولنے کی سکنات جو ان دونوں کے لیے بالکل ٹھیک لگتی تھیں، اس کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ وہ راجموہن ہے اور اسے اب خودکشی کے مزید طریقے ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔
راجموہن کے ذہن میں اب کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ دوسروں نے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا ہو، اس کے لیے یہی ٹھیک ہے کہ وہ چند سیکنڈ تک ریوالور کنپٹی پر رکھے کھڑا رہے اور پھر سیفٹی کیچ الگ کر کے ٹرگر دبا دے۔ اب اس سارے عمل پر اس کا عقیدہ ہے—حیرت ہے کہ راجموہن کے بارے میں کوئی بات اتنے یقین سے کہی جا سکے۔ سوال: ریوالور کی نال کنپٹی سے لگانے اور ٹرگر دبانے کے عمل کا راجموہن سے کیا رشتہ ہے؟ جواب: وہ اس پر یقین رکھتا ہے۔ خیر، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی نہ کسی چیز پر تو اس کا عقیدہ ہے۔ یعنی وہ بالکل ہی بھٹکا ہوا نہیں ہے۔ راجموہن یقین رکھتا ہے، راجموہن باعقیدہ ہے!
پچھلے پانچ برسوں میں راجموہن میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ پانچ سال پہلے وہ جتنی مرتبہ ضرورت ہوتی اپنی آواز میں گونج اور بلندی پیدا کر کے پکار سکتا تھا: ’’ٹیکسی!‘‘ اکثر ٹیکسی میں سوار ہو کر آرام سے پیچھے ٹیک لگاتے ہوے اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو دور، بیلی تک چلنے کو کہا تھا، اور ٹیکسی ڈرائیور اسے وہاں لے جاتے تھے۔ وہ ایک مرتبہ نیو مارکیٹ تک گیا تھا—ایک خریدا ہوا ٹین کا ٹرنک واپس کرنے کے لیے ۔ اور اس بڑی دکان کے مالک نے بغیر کچھ کہے ٹرنک واپس لے لیا تھا۔ اب وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ وہ اس قدر تبدیل ہو چکا ہے۔ ’’یہ لوگوں کا شعور نہیں ہے جو ان کے سماجی وجود کو متعین کرتا ہے، بلکہ اس کے برعکس ان کا شعور ان کے سماجی وجود سے متعین ہوتا ہے۔‘‘ اس نے یہ کہاں پڑھا تھا؟ وہ اب بھی اپنے موٹے شیشوں کی عینک میں سے ان دھندلے دھندلے الفاظ کو دیکھ سکتا تھا۔ یہ سطریں بنگالی رسم الخط میں لکھی ہوئی تھیں۔
ایک موقعے پر روما نے اس سے فون پر کچھ الفاظ کہے تھے اور پھر رسیور پٹخ دیا تھا۔ ’’کمینے! ‘‘ اس نے چلا کر کہا تھا، ’’میں تم پر تیزاب پھینک دوں گی۔ میں تمھیں غنڈوں سے پٹوا دوں گی۔ وہ تمھیں ہلاک نہیں کریں گے بلکہ تمھارے ہاتھ پیر توڑ کر تمھیں میرے رحم وکرم پر چھوڑ دیں گے۔‘‘ ہاں، روما نے واقعی یہی کہا تھا۔ اس نے اپنے ذہن میں بہت سے ایسے دھندلے منظروں کی رہرسل کی ہے جن میں روما کے جسم سے ساڑھی، پیٹی کوٹ، بلاؤز اور بریزیئر نوچ کر اتار ڈالے اور انھیں فرش پر ڈھیر کر دیا، اور روما کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے اس ڈھیر پر اسپرٹ چھڑکی اور ماچس کی دو تیلیاں جلا کر اس پر پھینک دیں—اور تب آہستہ آہستہ اس نے قلم کے ڈھکنے کو چبایا۔ پھر سر کو ٹرام کار کی کھڑکی کی سلاخوں سے ٹکرانے سے بچاتے ہوے اس نے بار کا دروازہ دھکیل کر کھولا اور پکار کر کہا، ’’لاہری!‘‘ اور لاہری نے ہاتھ سے شراب کا بڑا سا گلاس فوراً میز پر رکھ دیا، اور اٹھ کر اس کی طرف آیا۔ اس کے بوٹ فرش پر اس طرح ٹھک ٹھک کر رہے تھے جیسے وہ گن گن کر قدم رکھ رہا ہو۔ اور پھر باہر گلی میں راجموہن اس پر بری طرح ٹوٹ پڑا۔ ایک کے بعد ایک وحشیانہ گھونسا، ایک گھونسا فی سیکنڈ کے حساب سے، اور ناخنوں اور دانتوں کی کشمکش، اور خون کے اچھلتے ہوے فوارے...دونوں ایک حیوانی گرفت میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے، یہاں تک کہ راجموہن نے خود کو لاہری کو مار گراتے ہوے اور اس کا سر فٹ پاتھ پر ڈالتے ہوے دیکھا—اور تب اس نے ٹرام کی کھڑکی کی سلاخوں سے سر اٹھایا۔ انھی دیوانے تصوراتی واقعات سے اسے پتا چلا کہ ہائپرٹنشن کسے کہتے ہیں۔
اب اس کے دل میں لاہری کے خلاف کچھ نہیں ہے اور لاہری بھی ہر جگہ اس کے گن گاتا پھرتا ہے۔ ’’راجموہن جیسا ذہین اور زیرک شخص کوئی اور نہیں ہو سکتا،‘‘ وہ افسوس سے کہتا ہے، ’’اس قدر ہونہار لڑکا—یہ بہت کچھ کر سکتا تھا۔‘ ‘ اب جبکہ وہ چالیس برس کا ہو گیا ہے، روما آخرکار اسے پیاربھرا لمس بخشتی ہے۔ اب اگرچہ اس کی پیٹھ اتنی مضبوط نہیں رہی، اس پر گوشت چڑھ چکا ہے، لیکن بستر کے اندھیرے میں ہر رات روما ٹٹول کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ آج کل وہ بوسوں کے درمیان اس کے کان میں جذبات سے بوجھل آواز میں دھیرے سے بےمعنی سی کوئی بات کہتی ہے، مثلاً، ’’تمھارے اندر کسی مچھلی کا خون ہے،‘ ‘ اور پھر اس کے بوسے لینے لگتی ہے۔
آج بھی اور دنوں کی طرح راجموہن کام سے سیدھا گھر واپس آیا ہے۔ اب اس معمول کو تقریباً ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ درحقیقت وہ اپنے دفتر سے وقت سے پہلے ہی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ روما آج کل جل پائیگوری میں اپنے کسی انکل سے ملنے گئی ہوئی ہے، اور اب اس کی اسکول کی چھٹیاں بھی ختم ہونے والی ہیں۔ کام سے واپس آ کر غسل کرنے کے بعد راجموہن ایک میز پر بیٹھا ہے۔ اس نے ہاتھ اپنی گود میں رکھے ہوے ہیں۔ گول میز پر ٹیبل لیمپ کی روشنی سے ایک اور دائرہ بن گیا ہے۔ تھوڑی دور روشنی کے ایک بیضوی سائے کو کا ٹتا ہوا اس کا سیاہ بک کیس کھڑا ہے۔
میز پر کوئی کتاب کھول کر بیٹھے اسے ایک لمبا عرصہ ہو گیا ہے۔ آج کل اس کی کوئی ڈاک بھی نہیں آتی، نہ کوئی اس سے ملنے آتا ہے، حالانکہ ایک مہینے سے اس کی شامیں گھر پر ہی گزرتی ہیں اور وہ کسی آنے والے کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک شخص آیا بھی تھا۔ جب ایک شام ’’مردہ باد، مردہ باد ‘‘ کے نعرے لگاتا ہوا ایک جلوس ہندوستان کی ایک سڑک سے تیزی سے گزرتا ہوا دھند میں غائب ہو رہا تھا تو وہ چند منٹ کے لیے اس ہجوم میں گھرا رہ گیا تھا، حالانکہ اس وقت وہ اپنے گھر سے بہت قریب تھا۔اس کا وہ ملاقاتی اسی وقت آیا تھا۔
فلیٹ نمبر چار میں رہنے والے ٹبلو نے اسے آنے والے کے بارے میں اگلے روز بتایا۔ اس شخص نے اپنا نام نہیں بتایا تھا۔ ’’نہیں، کوئی پیغام نہیں۔ شام کو تو وہ گھر پر ہی ہوتا ہے نا؟‘‘ اس نے پوچھا تھا، اور پھر جاتے ہوے بولا، ’’میں پھر آؤں گا۔‘‘ اس کے بعد سے راجموہن نزدیک کے چائے خانے تک بھی نہیں گیا۔ ٹبلو نے اسے بتایا کہ آنے والے شخص نے ٹائی باندھ رکھی تھی۔ ’’وہ لمبا سا تھااور ذرا لنگڑا کر چل رہا تھا، انکل ‘‘!

ہاں، اب آگ لگ چکی ہے اور وہ چیز اب بری طرح جل رہی ہے۔ سارا کمرہ دھویں سے بھر گیا ہے۔ راجموہن اپنا سانس روک لیتا ہے، یہاں تک کہ اس کے پھیپھڑے پھٹنے لگتے ہیں۔ تب وہ لپک کر کھڑکی کھول دیتا ہے اور مغرب کی طرف میدانوں کو دیکھنے لگتا ہے۔ سورج غروب ہونے کے بعد گرج چمک ہوئی تھی، اور پھر بارش۔ اب، رات کے اس پہر سامنے تمام مکانوں کی کھڑکیاں بند ہیں؛ کبھی کبھی بجلی چمکتی ہے تو ان پر چھوٹ پڑتی ہے۔ اپنی آنکھیں بند کر کے اور سانس روک کر راجموہن بڑی دقت سے ٹٹولتا ہوا دھویں کے درمیان دیوار پر لگے ہوے سوئچ بورڈ کی طرف بڑھتا ہے، انگلیوں سے ایک سوئچ ڈھونڈ کر اسے دباتا ہے اور ساتھ ہی چھت پر لگے ہوے پنکھے کے ریگولیٹر کو انتہائی دائیں طرف کر دیتا ہے۔ چھت سے آنے والے کے ہوا کے جھکڑ سے آگ اور بھڑک اٹھتی ہے اور دھواں کھڑکی سے باہر نکلنے لگتا ہے۔
اس نے باقی تمام فرنیچر اور تصویریں دوسرے کمرے میں منتقل کردی تھیں اور اپنی آنکھوں پر سیاہ گاگلز اور ہاتھوں پر ازبسٹاس کے دستانے چڑھا لیے تھے۔ پھر اس نے اسپرٹ کی مناسب مقدار اوپندر سنگھ کے بنائے ہوے بک کیس پر چھڑکی اور اپنی کچھ کتابوں کو بھی اچھی طرح بھگو دیا، اور جلدی سے ماچس کی تیلی جلا کر اس پر پھینک دی—اپنے اکلوتے بک کیس پر۔ ایک دم اسپرٹ اور جلتے ہوے روغن کی بو اس کی ناک میں چڑھ گئی۔ وہ ہر سال اپنے بک کیس پر سیاہ روغن کیا کرتا تھا۔

آگ بک کیس کے نچلے حصے سے لگنا شروع ہوئی۔ نچلے شیلف میں نو انچ ضرب نو انچ کی ایک مستطیل جگہ تھی جسے خاص طور پر پیپربیکس رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا، اور دائیں طرف سے آٹھویں کتاب ایڈلبرٹ فان شامیسو کی 93 صفحوں کی کتاب PETER SCHLEMIHL تھی۔ اس کتاب میں ایک وسیع سمندر کا ذکر تھا جس کی ایک موج ساحل کی طرف گرمِ سفر تھی۔ راجموہن نے اس ٹکڑے کے بعد حاشیے پر لکھ دیا تھا: ’’ایک غمزدہ دل ‘‘—اور شعلے اس تک پہنچ چکے تھے۔ پھر وہ بیانیہ تھا: THE TRAGIC SENSE OF LIFE۔ یہ کتاب اسے شادی کے تحفے کے طور پر ملی تھی۔ نکنجا کے علاوہ اور کس کی حسِ مزاح اتنی تلخ ہو سکتی تھی؟ اسے یاد تھا کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس نے تحفے کے طور پر اسے چند سطریں لکھ کر بھیجی تھیں۔ ابھی وہ اس پر نگاہیں جمائے ہوے تھا کہ آگ ایک کڑکڑاتی ہوئی آواز کے ساتھ دوسرے خانے تک پہنچ گئی۔ اتنی جلدی؟— ابھی تو اس نے صرف دو کتابوں کو چھوٹی چھوٹی تفصیلوں کے ساتھ نذرِ آتش ہوتے دیکھا تھا۔ یہ شیلف سب سے لمبا تھا اور بک کیس کی پوری چوڑائی کے برابر تھا۔ اسے اس نے بنگالی کتابیں رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ غروب کے وقت ششی شعلوں میں گھرا ہوا ایک پہاڑی کی چوٹی سے دیکھ رہا تھا 3؛ چاندنی رات میں لوبتولیا4 کا جنگل جل رہا تھا۔ جلتی ہوئی مچھردانی ہواؤں کی رات میں ایک کہکشاں سے دوسرے کہکشاں کو اڑتی جا رہی تھی اور دونوں طرف آسمانی حسن رکھنے والی عورتیں اپنے ہاتھوں میں برچھیاں لیے کھڑی تھیں۔5 اپنے گاگلز کو آنکھوں پر اچھی طرح جماتے ہوے راجموہن قریب گیا۔ اب شعلوں نے ایک آرکٹک سفرنامے NO PASSPORT TO THE ARCTIC کو گھیر لیا تھا جسے اس نے ایک فٹ پاتھ سے پچاس پیسے میں خریدا تھا۔ اس کا سفیدفام مسافر اب شعلوں میں نہا رہا تھا جس طرح وہ برف میں ایک گڑھا کھود کر اس کے پانی میں نہایا تھا۔ شعلوں نے اب اس تتلی کے پروں کو روشن کر دیا تھا جو مغربی محاذ پر ایک مورچے میں کھڑے ہوے کٹ زنسکی کی بندوق کی نال پر بیٹھی تھی۔ اور اس فرن کے پتے کو بھی جو گیتابیتن 6 کے صفحوں کے درمیان رکھا تھا۔ یہ اسے روما نے تحفے میں دی تھی جب انھوں نے ملنا شروع کیا تھا۔ جن صفحوں کے درمیان یہ پتّا رکھا تھا ان پر پانچ پورے اور ایک آدھا گیت تھا۔ دائیں ہاتھ پر آخری گیت کا آخری مصرع تھا کہ ’’مجھے میری تباہی کی طرف مت لے جاؤ۔‘‘ اس زمانے میں روما ہر چیز سوچ سمجھ کر کرتی تھی۔ آگ تیزی سے تیسرے اور چوتھے شیلف کے چھوٹے بڑے خانوں میں پھیل گئی۔
اب سارا بک کیس شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ راجموہن کو اب دیکھنے میں کچھ دقت ہونے لگی ہے کیونکہ اس کی آنکھیں جلنے لگی ہیں۔ اپنی ناک پر رومال رکھتے ہوے وہ فرش پر بیٹھ جاتا ہے۔ اسے ایک کتاب نظر آتی ہے جس کا عنوان MILK AS A MIRACLE DRUG ہے، یہ کتاب پرندوں کے بارے میں ہے اور اس میں ہزاروں آسٹریلوی طوطوں اور کبوتروں کی تصویریں ہیں۔ گورا7 ہاں گورا، اور نستا نیرھ8۔ بھوپتی الٹے قدموں واپس آیا اور اسے بازو سے تھام کر بولا، ’’اچھا چلو، ‘‘ اور چارولتا نے کہا، ’’نہیں۔ ‘‘ بھابنی نے ٹرین میں اسے یہ مجموعہ دیا تھا، ’’بہترین جرمن مختصر ناول‘‘، جب ایک روز پہلے چکردھرپور کے قریب ہیساڈی کے ڈاک بنگلے میں وہ ایک فضول سی بحث میں ہار گیا تھا۔ موڈرن لائبریری والوں کا ایک آدمی ٹارچ اوپر کیے شعلوں میں سے جھانک رہا تھا۔ کیا یہ کتاب مکندو کی ہے، بُھدیب بابو کے بیٹے کی؟
بک کیس کا تیسرا پایہ بھی جل گیا ہے۔وہ کڑکڑا کر ایک طرف جھک جاتا ہے۔ راجموہن اس کے فرش پر گر جانے سے ایک لمحہ پہلے تصور میں اپنے بچپن کے درست بیچو کو شعلوں میں گھرا دیکھتا ہے۔ دراصل یہ کہنا بھی درست نہیں کہ وہ تصور کرتا ہے—یہ بھی بات کہنے کا بھونڈا سا طریقہ ہے۔ سرسوتی کے تیوہار پر جب بیچو نے پھولوں کی آرتی اتارنے کی رسم کے لیے زرد رنگ کی دھوتی پہنی تھی تو اچانک اس کے کپڑوں نے اس کی ماں کے مٹی کے تیل کے چولھے سے آگ پکڑ لی۔ اس کی بیوہ ماں اپنے اکلوتے بیٹے کو آگ میں گھرا دیکھ کر پہلے تو کچھ بھی کرنے کے قابل نہ رہی۔ ’’میں کیا کرتی بیٹا! ‘‘ بعد میں اس نے راجموہن سے کہا، ’’مجھے یوں لگا جیسے شعلوں کے بیچ میں برھما خود موجود ہے۔‘‘ بہرحال تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے بیٹے پر پانی ڈالا—اور اس طرح بیچو مر گیا۔
بارش ختم ہو چکی ہے۔ کمرے میں ہر طرف راکھ بکھری ہوئی ہے۔ کاغذ کے جلے ہوے سیاہ ٹکڑے اِدھر اُدھر اڑ رہے ہیں۔ کچھ اس کے چہرے پر چپک جاتے ہیں جس سے اسے کھجلی ہونے لگتی ہے۔ راجموہن پنکھا بند کر دیتا ہے۔بجلی باربار چمک رہی ہے اور اس کی روشنی راکھ کے ڈھیر میں ایک جلی ہوئی کتاب پر پڑتی ہے۔ راجموہن فرش پر بیٹھ جاتا ہے۔ دستانوں میں لپٹے ہوے ہاتھوں سے راکھ اور جلی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے کرید کر وہ کتاب کو نکالتا ہے۔ اس کے قریب ہی بک کیس کے پایوں کی دو پیتل کی نعلیں پڑی ہیں جو اب بالکل سیاہ ہو چکی ہیں۔ انھیں اس نے خود بک کیس پر لگایا تھا۔ وہ کتاب کو ایک انگارے کے قریب لے جا کر اس کا نام پڑھنے کی کوشش کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے۔ اچانک بجلی چمکتی ہے اور راجموہن کتاب دیکھ کر کہتا ہے: ’’ناممکن! ‘‘ وہ اپنے چہرے پر سے جلے ہوے کاغذ جھاڑتا ہوا دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ تب وہ اس کتاب پر اچھی اسپرٹ چھڑکتا ہے، جس کا نام ہے THE TRAGIC SENSE OF LIFE۔ وہ اس کی مضبوط جلد کو دیکھ کر سوچتا ہے کہ کیا یہ اب اچھی طرح جل سکے گی۔ وہ ماچس کی دو تیلیاں ایک ساتھ جلا کر کتاب پر گرا دیتا ہے۔یہ طریقہ اس نے بھابنی سے پوری کے ساحل ِسمندر پر سیکھا تھا۔ بھابنی اپنی سگریٹ اسی طرح جلایا کرتا تھا—دو تیلیاں جلا کر۔ بھابنی خود بھی اس کتاب کو دیکھتا جو جوناتھن کیپ کی شائع کی ہوئی تھی، تو اس کی نفیس طباعت اور جلدبندی کی تعریف کرتا۔
راجموہن ایک ایک کرکے ساری کھڑکیاں کھول دیتا ہے۔ پو پھٹنے والی ہے۔ کمرے کی صفائی بھی کرنی ہو گی۔ اس نے بک کیس کو اتنی احتیاط سے کمرے کے بیچ میں رکھا تھا کہ صرف وہی جلا تھا۔ صرف ایک دیوار پر آگ نے اپنے نشانات چھوڑدیے تھے جو ایک تازہ لیے گئے ایکسرے میں پسلیوں کے عکس کی طرح چھت تک پھیلے ہوے تھے۔ کیا اسے دیوار پر سفیدی کرا لینی چاہیے؟ وہ کہہ دے گا کہ یہ مالک مکان نے کرائی ہے۔ روما چند روز میں آنے والی ہے۔


حاشیے:

1 بنگالی میں پہلے پہل لکھے گئے رومانی ناولوں میں سے ایک ناول کرشنا کانتیر وِل کا ایک واقعہ۔ مصنف بنکم چندر چٹوپادھیائے (1838-94) ۔
2 ایک جدید بنگالی شاعر۔
3 1940کی دہائی کے ایک ناول نگار مانک بندوپادھیائے (1908-56) کے ایک ناول کا ہیرو۔
4 پتھیر پنچالی کے مصنف بھبھوتی بھوشن بندوپادھیائے (1899-1950) کی تحریرکردہ جنگل کی کہانی کا ایک مقام۔
5 جیبن آنند داس (1899-1954) کی ایک نظم ’’ہواؤں کی رات‘‘ ۔
6 رابندرناتھ ٹیگور (1861-1941)کے گیتوں کا ایک مجموعہ۔
7 رابندرناتھ ٹیگور کا ایک ناول۔
8 رابندرناتھ ٹیگورکی ایک خودسوانحی کہانی جو ستیہ جیت رے کی فلم چارولتا کی بنیاد ہے۔



حسن منظر

سفید آدمی کی دنیا

اُن دنوں میرے دماغ میں بہت سی باتیں جمع ہو گئی تھیں۔ اب بھی ہیں۔ میرا خیال ہے ہم سب ہی بچوں کے دماغ میں بہت سی باتیں تھیں جنھیں ہم کبھی کبھی آپس میں تو ایک دوسرے سے پوچھ لیتے تھے لیکن بڑوں کے پاس یا تو ہماری باتوں کے لےو وقت نہیں تھا یا اگر وہ ان باتوں کا جواب دیتے بھی تھے تو ممکن ہے وہ خود اپنے جواب سے مطمئن ہو جاتے ہوں لیکن ہم جانتے تھے انھیں اصل جواب کا پتا نہیں ہے۔
مثلاً یہی سوال کہ مرنے کے بعد جب آدمی کو ایک بڑا سا کھڈا کھود کر اس میں رکھ آتے ہیں اور اوپر سے مٹی ڈال دیتے ہیں تو وہاں اس کے پاس کون آتا ہے؟
فرشتے؟
لیکن میں جانتا تھا، اول تو فرشتے نہ ہم نے دیکھے ہیں نہ ہی انھوں نے دیکھے تھے، اور پھر جب کسی کو ہر طرف سے بند کر دیں گے اور وہ بھی لکڑی کے ڈبے میں بند کر کے اس پر مٹی ڈال آئیں گے، تو فرشتہ کیسے اندر جائے گا اور اسے کیسے آسمانی باپ کے پاس لے جائے گا؟ یہ سب جھوٹی باتیں ہیں۔
میری بڑی بہن جو پڑھنے کی بہت شوقین ہے، ہر وقت پیٹ کے بل لیٹ کر کہانیوں کی کتابیں پڑھتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی جب ہماری بول چال ایک دوسرے سے بند نہیں ہوتی ہے تو وہ کوئی کہانی مجھے بھی سنا دیتی ہے اور میری چھوٹی بہن کو بھی۔ اس کے پاس کتابوں کی پوری لائبریری ہے۔ اب تو کچھ کتابیں میں نے بھی جمع کر لی ہیں اور جب کبھی ہمارا گھر ہو گا—ممی اور پپا ہمیشہ کہتے ہیں ایک نہ ایک دن تو کہیں گھر بنا کر رہنا ہی ہے—تو میں بھی اپنی لائبریری بناؤں گا۔
میری بہن کی کتابوں میں زیادہ تر ایسے ناول ہیں جن میں جاسوسی کرنے والے بچوں کے کارنامے ہوتے ہیں یا پھر ایسی کہانیاں جن میں چار آدمی مل کر—اور ان میں ایک عورت ضرور ہوتی ہے —کسی مہم پر جاتے ہیں، جیسے انھیں وہ کام کرنے کو کسی نے دیا ہو، کسی حکومت نے، اور وہ آخر میں کسی بڑی سی بلڈنگ یا پل کو ڈائنامائٹ سے اڑا کر واپس اپنے گھر آ جاتے ہیں۔
حکومت کیا ہوتی ہے یہ مجھے اُن دنوں بھی معلوم نہیں تھا اور ابھی بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا ہوں — بس کوئی چیز ہوتی ہے اور وہ بڑے لوگوں سے کام کرواتی ہے، بچوں سے نہیں۔ پپا کا ٹرانسفر بھی حکومت کرتی ہے اور اَور بہت سے کام ہیں جو حکومت کرواتی ہے، لیکن وہ میں بعد میں بتاؤں گا۔
تو بات یہ تھی کہ میری بہن کے پاس بہت سی کتابیں ہیں جن میں سب سے زیادہ اِینڈ بلائیٹن (ENID BLYTON)کی ہیں۔ کبھی کبھی تو اس کی اور ممی کی بحث بھی ہو جاتی ہے، وہ کہتی ہے، اینڈ بلائیٹن سے اچھی کہانیاں کسی نے نہیں لکھیں اور سب سے اچھی کتاب ہائیڈی(HEIDI) ہے، لیکن ممی کہتی ہیں دنیا میں اور بھی بڑے بڑے لکھنے والے ہیں جیسے ٹالسٹائی، ٹامس مان، ڈوسٹوفسکیڈو — اس کا نام مجھے کبھی ٹھیک سے یاد نہیں ہوا—لیکن اس کی ایک کہانی مجھے ممی نے سنائی تھی اور میرا خیال ہے وہ کہانی خاصی اچھی تھی، جس میں ایک بڑھیا کنجوس عورت ہوتی ہے اور ایک پڑھنے والا لڑکا جس کے پاس کھانا کھانے کے لیے اکثر دام نہیں ہوتے تھے اور وہ اس بڑھیا سے اپنی چیزیں بیچ کر دام لیا کرتا تھا۔ پھر وہ اسے پلان بنا کر مار ڈالتا ہے اور کسی کو پتا نہیں چلتا کہ بڑھیا کو کس نے مارا ہے۔ لیکن پھر وہ لڑکا آخر میں خود ہی سب کو بتا دیتا ہے کہ بڑھیا کو میں نے مارا تھا۔ اس کہانی کا نام ہے ’’جرم اور سزا‘‘، اور اس کو سنتے میں مجھے اپنی دادی کی شکل نظر آنے لگی ہے جو جنوبی افریقہ میں پریٹوریا میں رہتی ہے۔
مجھے اس بڑھیا سے نفرت ہے۔ وہ اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہے اور اس کا گھر ایسے علاقے میں ہے جہاں بس بہت امیر آدمی رہ سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہے، ’’اس علاقے میں نہ افریقہ کے لوگ ہیں نہ ایشیا کے—صرف گورے لوگ ہیں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مجھے وہ بڑھیا زہر لگتی ہے۔ ویسے بھی اس نے مجھے کبھی کچھ نہیں دیا۔ ایک مرتبہ بہت پہلے جب ہم چھٹیوں میں پریٹوریا گئے تھے تو اس نے مجھے بیٹری سے چلنے والا ایک جیٹ ایرپلین دیا تھا جس میں سے ٹیک آف کے وقت کی آواز نکلتی تھی اور شاید اسٹاربورڈ سائیڈ کے وِنگ میں ہری بتی جلتی تھی اور پورٹ سائیڈ والے میں سرخ—وہ تھوڑی دور تک زمین پر چلتا تھا اور پھر رکنے کی آواز یعنی ایر بریکس لگانے کی آواز کے ساتھ ٹھیر جاتا تھا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں بہت چھوٹا تھا، لیکن جب بھی ہم اس سے ملنے جاتے ہیں آج تک وہ مجھے وہی جیٹ یاد دلاتی ہے اور کہتی ہے "REMEMBER YOUNGMAN, THE BEAUTIFUL JET-PLANE I GAVE YOU? WHERE IS IT NOW? تم نے ٹھیک سے رکھا ہے؟‘‘
اور پپا کے اشارے پر مجھے سر ہلا کر ’’ہاں‘‘ کہنا پڑتا ہے، کہ وہ ہوائی جہاز ابھی تک میرے پاس بالکل ٹھیک ٹھاک رکھا ہے، حالانکہ مجھے اب اس کی شکل تک یاد نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہ ہری بتی کس طرف تھی اور سرخ کس طرف۔
بڑھیا میری ماں سے ہمیشہ پوچھتی ہے، ’’تم لوگ بالآخر کہاں سیٹل ہو گے؟‘‘
سیٹل کا مطلب میں بھی جانتا ہوں: کسی ایک جگہ گھر بنا کر ہمیشہ وہیں رہنا، جیسے بڑھیا خود رہتی ہے۔ وہ پوچھتی ہے،’’آسٹریلیا میں؟ کینیڈا کیوں نہیں؟ ہینک کے لیے تو یونائیٹڈ سٹیٹس میں بھی فوراً جگہ نکل آئے گی۔‘‘
ہینک میرے باپ کا نام ہے۔
میرے دادا ڈچ تھے، دادی ایفریکانیر ہے—اور شاید دونوں زندگی بھر ایک دوسرے کے خلاف رہے۔ میں نے سنا ہے میرے دادا نے اپنی عمر کا بڑا حصہ انڈونیشیا میں گزارا تھا تاکہ وہ بڑھیا سے دور رہ سکیں۔ میں نے ممی اور پپا کو کھس پس کرتے اکثر سنا ہے کہ میرے دادا بعد میں کسی ایسی عورت کے ساتھ رہنے لگے تھے جو گوری نہیں تھی—اور یہ بھی ان باتوں میں سے ایک ہے جو میرے دماغ میں اُن دنوں بھری ہوئی تھیں کہ دادا نے ایسا کیوں کیا، اور اگر کیا بھی تھا تو اس میں ہرج ہی کیا تھا۔ میں نے یہ بھی سنا ہے حکومت نے انھیں، یا یہ کہ اس عورت کو، جنوبی افریقہ میں ان کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دی تھی اور ایک بار جب وہ ڈربن میں اس کے ساتھ ٹیکسی میں کہیں جا رہے تھے تو دونوں کو پولیس اسٹیشن پکڑ کر لے جایا گیا کیونکہ دونوں کی رنگت فرق تھی اور اس بات کے حکومت خلاف تھی۔ حالانکہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں نیگرو عورت کے ساتھ کوئی انڈین مرد یا نیگرو مرد کے ساتھ کوئی برٹش عورت جہاں چاہے جا سکتے ہیں، مووی دیکھنے، سرکس میں، یا بانہوں میں بانہیں ڈال کر ٹہلنے ہی، جس طرح ممی اور پپا اکثر شام کو اندھیرا ہونے سے پہلے ٹہلنے جاتے ہیں، اور یہ سین مجھے اچھا لگتا ہے—جیسے وہ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں—اور میں جب بڑا ہو جاؤں گا اور شادی کروں گا تو اسی طرح اپنی بیوی کے ساتھ کبھی کبھی باہر نکلا کروں گا، ممی کی طرح اس کا ہاتھ میری کمر پر لپٹا ہو گا اور میرا ہاتھ اس کی گردن کے پیچھے سے جا کر اس کے دور کے کندھے پر ہو گا، لیکن میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر وہ مجھ سے لمبی ہوئی تو پھر شاید ایسا نہ ہو سکے۔
بہرحال، حکومت ساؤتھ میں بھی ہے—ممی، پپا جنوبی افریقہ کو صرف ساؤتھ کہتے ہیں — اور اس ملک میں بھی ہے جہاں ہم رہتے ہیں۔
ایک دفعہ میں نے دادی کو ہانپتے ہوے—جیسے وہ اپنا غصہ دبارہی ہو—پپا سے کہتے ہوے سنا تھا:
’’مجھے ذرہ برابر بھی یہ فکر نہیں ہے کہ تمھارا باپ کہاں ہے، یا کہاں مرا۔ HE WAS LOW
AND THAT IS WHAT HE PROVED BY LIVING WITH A DARK WOMAN. SIN OR NO SIN, THE THING OF ANY IMPORT IS THAT HE LIVED WITH A DARK WOMAN!’’
(وہ گرا ہوا آدمی تھا اور یہی اس نے ایک اندھیری عورت کے ساتھ رہ کر ثابت کر دکھایا۔)
ڈارک کا مطلب میری سمجھ میں یہی آتا ہے۔ لوگ اندھیرے سے ڈرتے ہیں اور ہر چیز سے جو اندھیرے کی طرح کالی ہو—اسکول کے پلیز میں میں نے شیطان کو کالے کپڑے پہنے اور منھ پر کالک ملے ہوے دیکھا ہے۔ جہاں ہم رہتے ہیں، افریقہ میں، اسے بھی پہلے اندھیرا براعظم کہا جاتا تھا۔ میرا خیال ہے لوگ پہلے جب وہ پہاڑوں میں بڑے بڑے کھڈوں میں رہتے تھے اور بجلی وغیرہ نہیں تھی تو رات کو ڈر کے مارے باہر نہیں نکلتے ہوں گے، جیسے آج بھی جس چھوٹے سے شہر میں ہم رہتے ہیں اور جہاں بجلی نہیں ہے، لوگ رات کو باہر نہیں نکلتے ہیں کیونکہ راستے میں سانپ ہوتے ہیں اور اتنے بڑے بچھو کہ میرے دونوں ہاتھوں سے بھی بڑے ہوتے ہیں، اور پھر انھیں اندھیرے میں شیر بھیڑیوں کا بھی ڈر رہتا ہو گا—لیکن خود مجھے اندھیرے سے ڈر نہیں لگتا ہے، اس لیے میں کالے لوگوں سے بھی نہیں ڈرتا ہوں۔
ایک دن میں نے پپاسے ، جب ہم صبح صبح ٹہلنے جارہے تھے اور میری کتیا مِشکا میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ، پوچھا:
’’ڈیڈ، ہم ساؤتھ میں کیوں نہیں رہتے ہیں؟‘‘
ڈیڈ نے نیم کے پھل اپنی ٹہلنے کی چھڑی سے میرے لیے جھاڑتے ہوے کہا:
’’تم وہاں رہنا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے کہا، ’’نہیں، پھر بھی۔‘‘
میں خاموشی سے پھل کھانے لگا اور مشکا نبولیوں کو سونگھ کر جھاڑی میں کسی جانور کا پیچھا کرنے لگی — شاید اسے کوئی جنگلی چوہا وہاں نظر آیا ہو گا۔
ایک بار پھر میں نے پوچھا:
’’ڈیڈ، گرینڈپا واقعی گرے ہوے آدمی ہیں؟‘‘
’’نو!‘‘ پپا نے ایسے لہجے میں جواب دیا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں دل سے کہہ رہے ہیں۔ ’’تمھارے گرینڈپا گرے ہوے نہیں، بہت بڑے آدمی تھے۔‘‘ وہ کچھ دیر رک کر دوبارہ بولے، ’’تھے، اس لیے کہ وہ اب دنیا سے جا چکے ہیں۔‘‘
میری سمجھ میں نہیں آیا ایسے موقعے پر بڑوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے میں ان کے سر کو تھپتھپا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی یہ کہہ سکتا تھا کہ آپ جھکیے تاکہ میں آپ کے سر کو تھپتھپا سکوں جس طرح آپ میرے، ٹینا یا فیونا کے افسردہ ہونے پر کرتے ہیں۔ نہ ہی میں ان سے کہہ سکتا تھا: ’’رنج مت کیجیے۔‘‘
صبح بہت اچھی تھی۔ مشکا دوبارہ میرے ساتھ چل رہی تھی اور سورج ہمارے داہنے طرف کی وادی میں کہرے کے پیچھے ابھر آیا تھا۔
یکلخت میں نے پوچھا، ’’ڈیڈ، گرینڈپا کے ساتھ اس دوسری عورت کو ساؤتھ میں رہنے کی اجازت حکومت نے کیوں نہیں دی تھی؟‘‘
ڈیڈ نے جھینپتے ہوے کہا، ’’شاید اس لیے کہ وہاں جگہ کم ہو گی۔‘‘
مجھے معلوم تھا وہ جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ رات کو ممی اکثر اپنا میڈیسن کا رسالہ پڑھتے ہوے ڈیڈ سے کہتی ہیں:
"HERE IS ANOTHER ONE OF THOSE ADS: EMIGRATING TO SOUTH AFRICA?"
(یہ رہا ایک اور ایڈورٹیزمنٹ: آپ جنوبی افریقہ بسنے کے لیے جا رہے ہیں؟)
یہ اشتہار جو لنڈن سے آنے والے اس رسالے میں ہمیشہ چھپتا ہے، میں نے بارہا سنا ہے:
’’اگر آپ جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، کینیڈا یا یونائیٹڈ سٹیٹس بسنے کے لیے جارہے ہیں تو آپ کا سامان پیک کرانے اور وہاں بھیجنے میں ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
ایسا لگتا ہے ساری دنیا کو جنوبی افریقہ میں بسنے کے لیے بلایا جا رہا ہے، صرف میرے دادا اور اس اندھیری عورت کے لیے وہاں جگہ کی تنگی تھی۔
یہ ایک طرح سے ہمارا گھریلو مذاق ہے جیسے ہر گھر میں ایسی دو چار باتیں ہوتی ہیں جن کا ذکر آ جانے پر لوگ ہنس پڑتے ہیں۔
ایسے موقعے پر ممی اور پپا دونوں ہنس پڑتے ہیں اور چھوٹی فیونا بھی حالانکہ وہ بالکل بےوقوف ہے اور اسے دادی سے ملنا بھی یاد نہیں ہے۔ کبھی کبھی ایسے موقعے پر ڈیڈ کے منھ سے ایک لفظ نکلتا ہے: ’’ہپوکریٹ۔‘‘
ممی نے پوچھنے پر بتایا تھا، ’ہپو کریٹ ‘ ایسے آدمی کو کہتے ہیں جس کے دل کے اندر کچھ اور ہو اور باتیں وہ کچھ اور کرتا ہو۔
لیکن فیونا ابھی تک ہپوکریٹ کو ’ہپو‘ ہی کی قسم کا کوئی بڑا جانور سمجھتی ہے—بلکہ ہپو سے بھی بڑا — جو یہاں دریاؤں میں عام ہیں اور کبھی کبھی کشتی بھی الٹ دیتے ہیں۔
تو اس صبح جب میں اور پپا اور مشکا سیر سے واپس آ رہے تھے، میں نے اچانک کہا، ’’ڈیڈ، اگر بڑا ہو کر میں کسی نیگرویا اندھیری لڑکی سے شادی کروں تو یہ بری بات ہو گی؟‘‘
پپا نے ہنستے ہوے کہا، ’’نہیں، یہ بری بات تو نہیں ہو گی۔ تمھیں اندھیری لڑکیاں اچھی لگتی ہیں؟‘‘
میں نے سر ہلا کر ’ہاں‘ کیا۔
انھوں نے مجھ سے چھیڑنے والے لہجے میں پوچھا، ’’پھر کب تک ارادہ ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’ابھی میرا ارادہ نہیں ہے۔‘‘
ہم دونوں ہنس پڑے۔
ہم اس شہر یا قصبے میں کب آئے یہ بھی ایک اچھی خاصی کہانی ہے۔ پپا کا ٹرانسفر سیرالیون سے یہاں کا ہوا تھا اور ہم لوگ کچھ عرصہ اس ملک کے کیپیٹل میں ایک ہوٹل میں رہے تھے—ساؤتھ کی طرح اس شہر کو بھی سب لوگ صرف کیپیٹل ہی کہتے ہیں اور پتا چل جاتا ہے کس شہر کی بات ہو رہی ہے۔
پھر جب پپا کو اس قصبے میں آ کر کام کرنے کا حکم حکومت نے دیا تو ہم لوگ کیپیٹل کے ریلوے اسٹیشن پر گئے جو سنسان تھا اور جہاں ایک بڑی سی بگھی، جس میں کسی برٹش بادشاہ یا ملکہ نے اس شہر کی سیر کبھی کی تھی، ویٹنگ لاؤنج کے بیچ میں رکھی ہوئی تھی اور اس کے برابر میں پیتل کی ایک پلیٹ پر کچھ لکھ کر اسے سیمنٹ کے بلاک میں لگایا ہوا تھا۔
ٹینا نے پڑھ کر مجھے بتایا کہ جب یہاں انگریزوں کی حکومت تھی تو اٹھارہ سو کتنے میں کون بادشاہ یا ملکہ بگھی میں بیٹھے تھے۔
میں نے مما کو ڈیڈ سے کہتے سنا:
’’THEY SHOULD DO AWAY WITH THESE MEMORABILIA.‘‘
(انھیں چاہیے ان یادگاروں کو نکال پھینکیں۔)
ان کا آخری لفظ میری سمجھ میں نہیں آیا اور ہر بات میں ٹینا سے نہیں پوچھنا چاہتا، ورنہ وہ واقعی اپنے کو کچھ سمجھنے لگتی ہے۔
بعد میں جب ہم ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں بیٹھے تو وہاں ایک سفید عورت بھی پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی جس نے ممی کی طرف دیکھ کر اطمینان سے کا سانس لیا اور جو دو مرد اسے ٹرین میں بٹھانے آئے تھے ان سے بولی:
’’خدا کا شکر ہے۔ میرا خیال ہے اب میں اطمینان سے سو سکوں گی۔‘‘
ٹینا اپنی کہانیوں کی کتاب سنبھال کر اوپر کی برتھ پر چلی گئی، فیونا اپنی ناک کھڑکی کے شیشے سے رگڑ رگڑ کر باہر دیکھنے لگی اور میں اس انتظار میں تھا کہ ٹرین چلے تو میں ممی یا ڈیڈ سے باتیں شروع کروں، کیونکہ ٹرین کی آواز میں وہ سفید عورت ہماری باتیں نہیں سن سکے گی اور میں کھل کر باتیں کر سکوں گا۔
ٹینا کیا پڑھ رہی تھی مجھے معلوم تھا۔ اس کی پڑھی ہوئی کہانیاں کچھ میں خود اب تک پڑھ چکا ہوں اور کچھ وہ مجھے سنا چکی ہے۔اس وقت وہ ٹالسٹائی کی کہانیاں پڑھ رہی تھی اور ان میں سے بھی وہ جس میں پاہم ایک کسان ہے جس کے پاس پہلے بہت تھوڑی سی زمین تھی اور وہ خوش تھا۔ پھر وہ امیر بننے کے لیے اَور زیادہ اَور زیادہ زمین لیتا گیا کیونکہ اس کے دل میں لالچ آ گئی تھی۔ آخر میں وہ باشکروں کے ملک میں جاتا ہے جہاں زمین مفت ملتی ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ تھی کہ اسے صبح چل کر سورج ڈوبنے سے پہلے جہاں سے وہ چلا تھا وہیں لوٹ کر آنا ہو گا اور چکر لگانے میں وہ جتنی زمین گھیر لے گا اتنی اس کی ہو جائے گی۔ لیکن شیطان نے اس کے دل میں لالچ بھر دی کہ آج زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کرنا ہے اور وہ دن بھر اتنا چلا کہ شام کو جب وہ واپس باشکروں کے سردار کے پاس پہنچا تو ٹھیک اسی وقت سورج ڈوب گیا اور وہ باشکروں کے سردار کے پاس پہنچ کر زمین پر گر پڑا۔ سردار نے کہا، ’’یہ ہے آدمی—اس نے تو بہت زمین حاصل کر لی۔‘‘ لیکن جب پاہم کو اس کے نوکر نے اٹھانا چاہا تو اس کے منھ سے خون بہہ رہا تھا اور پاہم مر چکا تھا۔ پھر اس کے نوکر نے اس کے لیے کھڈا کھودا، اور جس طرح ٹینا کہتی تھی:
’’ سر سے لے کر پیر کی انگلیوں تک صرف چھ فٹ زمین حقیقت میں اسے چاہیے تھی۔‘‘
یہ جملہ کہتے وقت ٹینا، ایسا لگتا تھا، چرچ میں پلپٹ (PULPIT) پر کھڑی ہو کر اتوار کی صبح کا وعظ سنا رہی ہے اور میں شاید پاہم کی طرح کے لالچی لوگوں میں سے ہوں اور سر جھکائے اس کے سرمن کو سن رہا ہوں۔ اس کہانی کا نام تھا: ’’ایک آدمی کو کتنی زمین چاہیے۔‘‘
یہ فیصلہ میں کب کا کر چکا تھا کہ کہانی سنانے میں ٹینا کچھ گڑبڑ کرتی ہے، یا وہ آگے چل کر چرچ کی زندگی اختیار کرے گی، اور ایک نہ ایک دن یہ کہانی مجھے خود پڑھنی ہے کہ واقعی ایک آدمی کو کتنی زمین چاہیے ہوتی ہے۔
ٹرین چلنے ہی والی تھی کہ ایک ایشین عورت بچے کو گود میں سنبھالے ہوے تقریباً بھاگتی ہوئی ہمارے کمپارٹمنٹ کی طرف آئی، اس کے پیچھے پیچھے اس کا نیگرو نوکر لڑکا ایک ذرا بڑے بچے کو گود میں سنبھالے ہوے تھا اور ایک میری ہی عمر کی لڑکی قلی سے باتیں کرتی ہوئی کمپارٹمنٹ میں داخل ہوئی۔
سفید عورت نے اسے قافلے کو دیکھ کر گھبراہٹ سے پہلے تو ’’او، نو!‘‘ کہا تھا لیکن جب وہ ایشین عورت قلی سے انگریزی میں بات کرنے لگی تو سفید عورت کی گھبراہٹ کچھ کم ہو گئی۔
قلی سامان اندر رکھ کر چلا گیا۔ ایک برتھ ایشین عورت اور اس کے بچوں نے سنبھال لی اور اسی برتھ پر ایک کونے میں نیگرو نوکر بیٹھ گیا۔
اب ٹرین نے چلنے کی آخری سیٹی دی۔
سفید عورت نے گھبراہٹ اور غصے کے ملے جلے جذبات سے نیگرو نوکر کی طرف اشارہ کرتے ہوے ایشین عورت سے کہا، ’’یہ اس کمپارٹمنٹ میں تو نہیں رہے گا؟‘‘
ایشین عورت نے انگریزی میں کہا، ’’اس کی سیٹ بھی اس کمپارٹمنٹ میں ریزروڈ ہے۔‘‘
’’نہیں، یہ اس کمپارٹمنٹ میں سفر نہیں کرے گا، ‘‘ سفید عورت نے سخت لہجے میں کہا اور ٹرین روکنے کے لیے نیگرو گارڈ سے جو ہمارے کمپارٹمنٹ کے سامنے ہی کھڑا ہو کر ہری جھنڈی ہوا میں بلند کر رہا تھا، حکم چلانے والی آواز میں کہا: ’’STOP THE TRAIN—PLEASE!‘‘
نیگرو گارڈ نے ہری جھنڈی فوراً نیچے کر دی، بغل سے لال جھنڈی نکال کر ہوا میں لہرائی اور ہمارے کمپارٹمنٹ کے پاس آ گیا۔
ٹرین روانہ ہونے کی جو چرچراہٹ بوگیز میں پیدا ہوئی تھی ایک دم رک گئی۔ اس کے بعد ایشین عورت اور سفید عورت میں بحث ہونے لگی۔ نیگرو لڑکا بےبسی سے اپنے کونے میں دبکا ہوا تھا اور ریلوے گارڈ بےبس سا لگ رہا تھا۔
ایشین عورت نے کہا، ’’میں بیمار ہوں اور نوکر کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے میں نے اس کا ٹکٹ اسی کلاس کا بنوایا ہے تاکہ وہ بچوں کی دیکھ بھال کر سکے۔‘‘
’’نہیں، یہ اس کمپارٹمنٹ میں سفر نہیں کر سکتا،‘‘ سفید عورت نے اس طرح کہا جیسے وہ اپنے نوکر سے بات کر رہی ہو۔
’’کیوں نہیں؟‘‘ ایشین عورت نے بھی اسی کے لہجے میں پہلی بار کہا۔
’’اس لیے کہ... اس لیے کہ...‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی اور پھر بولی، ’’اس لیے کہ نوکروں کے لیے درجہ علیحدہ ہوتا ہے۔‘‘
حالانکہ مجھے معلوم تھا وہ دراصل کچھ اور کہنا چاہ رہی تھی یعنی ’’اس لیے کہ تمھارا نوکر نیگرو ہے،‘‘ لیکن یہ بات وہ ایک نیگرو ملک میں رہ کر کیسے کہہ سکتی تھی!
ایشین عورت نے کہا، ’’میڈم، آپ چاہیں تو اپنا کمپارٹمنٹ بدل سکتی ہیں۔ ویسے بھی وہ آپ کی جگہ نہیں لے رہا ہے۔‘‘
سفید عورت نے ممی کی طرف دیکھا جیسے وہ چاہتی ہو وہ بھی اس کی طرف سے بولیں، لیکن پپا ایشین عورت کی بچی سے کھیلنے لگے اور ممی نے اپنے پرس میں سے نکال کر مع ایشین عورت کے بچے اور اس نیگرو لڑکے کے سب بچوں کو چاکلیٹ کے ٹکڑے توڑ توڑ کر دینے شروع کر دیے۔
مجھے معلوم تھا ممی کا یہ اس عورت کو ایک خاموش جواب تھا۔
سفید عورت کو رونے کا دورہ سا پڑنے لگا۔
اس کے دونوں ساتھیوں نے جو پلیٹ فارم پر کھڑے تھے، خفگی سے ہماری طرف دیکھا۔ ان میں سے ایک اسے چپ کراتے ہوے سہارا دے کر نیچے اتارنے لگا اور دوسرے نے اس کا سامان اٹھا لیا۔ میں نے انھیں کہتے ہوے سنا:
"YOU CAN GO BY AIR MI'DAIRE." (MY DEAR)
لیکن میرا خیال ہے نیگرو گارڈ نے اس عورت کو کسی اور کمپارٹمنٹ میں جگہ دلوا دی ہو گی کیونکہ بعد میں جب ٹرین چلی تو مجھے وہی دونوں مرد اکیلے پلیٹ فارم سے باہر جاتے ہوے نظر آئے۔
اس چھوٹے سے واقعے کے بعد ہمارا سفر بہت اچھا گزرا۔ ہم اس قصبے میں پہنچ گئے جہاں نہ بجلی ہے اور نہ ہی پانی نل سے آتا ہے، لیکن ممی، پپا، مجھے، ٹینا اور فیونا سب ہی کو یہ جگہ پسند ہے، کیونکہ ہم جہاں چاہیں اکیلے جا سکتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ قصبے میں سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں— نیگروز، ایشین اور سفید لوگ اور بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کی رنگت چھپکلی کے پیٹ کی طرح پیلی ہوتی ہے اور بال نیگروز والے چھوٹے چھوٹے۔ میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ان کی مائیں نیگرو ہیں لیکن باپ جب یہاں انگریزوں کی حکومت ختم ہوئی تو واپس یوروپ چلے گئے۔
یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ بھی ان ہی باتوں میں سے ہے جو میرے دماغ میں جمع ہو گئی ہیں—ایک باپ کس طرح بچوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا سکتا ہے؟ ایک دفعہ جب یہی بات میں نے ٹینا سے پوچھی تو اس نے بڑوں کے لہجے میں کہا، ’’ہے نا تعجب کی بات ‘‘!
مجھے معلوم تھا وہ میرے سوال کا جواب دینا نہیں چاہ رہی ہے یا یہ کہ اسے خود بھی اس کا جواب معلوم نہیں تھا۔ وہ مجھ سے بحث طلب باتیں صرف اس وقت کرتی تھی جب اس کے پاس مجھے خاموش کرنے کے لیے کوئی ایسی نئی بات ہوتی تھی جو اس نے کسی کتاب میں کچھ ہی دن پہلے پڑھی ہو اور یہ بات کرتے وقت اس کا لہجہ بڑے آدمیوں کا سا ہو جاتا تھا۔
ایک دن جب پپا ٹور پر گئے تھے اور ممی گھر پر مریضوں کو دیکھ رہی تھیں، ٹینا میرے پاس آئی اور کھسرپھسر والی آواز میں بولی:
’’کسی کو دفن ہوتے ہوے دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے بےصبرے پن سے پوچھا، ’’کون مر گیا ہے؟ چلو۔‘‘
اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش کراتے ہوے کہا، ’’پپا کی ٹیم کا ایک ڈرائیور۔‘‘
’’کون سا؟‘‘ میں نے اسی اشتیاق سے پوچھا۔
’’دیکھ کر پتا چل جائے گا۔‘‘ اس نے مجھے پیچھے پیچھے چلے آنے کا اشارہ کیا۔
اس دن ٹینا کے اسکول کی چھٹی تھی۔ فیونا باہر کتیا سے کھیل رہی تھی اور ہمیں خدشہ تھا دونوں ہی ہماری بو سونگھ کر ساتھ چل پڑیں گے۔ لیکن ٹینا کے ذہن میں پورا پلان پہلے سے تیار تھا، اور اس وقت وہ مجھے بہن سے زیادہ انھی مہم والی کہانیوں میں سے ایک لڑکی لگ رہی تھی۔
ہم نے سڑک سے ہٹ کر بھٹے کے کھیتوں میں سے راستہ لیا اور قصبے کے ہسپتال میں بھی، جو ہمارے گھر سے شاید ایک میل دور تھا، باؤنڈری وال کود کر پیچھے سے داخل ہوے۔
وہ مجھے ہسپتال سے ہٹ کر بنی ہوئی چھوٹی سی سنسان عمارت کے پاس لے گئی جس کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ اس نے ہر کھڑکی میں سے اچک اچک کر اندر جھانکا اور پھر ایک میں سے مجھے اندر جھانکنے کے لیے کہا۔
وہاں اندر سفید ٹائلز لگی ہوئی میز پر پپا کا وہ ڈرائیور لیٹا ہوا تھا جس نے کچھ ہی دن پہلے مجھے پالنے کے لیے ایک بندر لا کر دیا تھا۔
میز پر خون پڑا تھا اور ایسا لگتا تھا اس کے سر کے اوپر کے حصے کو کاٹ کر دوبارہ سوئی دھاگے سے سیا گیا ہے۔
ٹینا نے مجھے بتایا، صبح جب اس کی دونوں بیویاں اسے جگانے گئیں تو ڈرائیور بستر میں مرا ہوا پڑا تھا اور اس نے ممی کو کہتے سنا تھا، اس کی آٹاپسی (AUTOPSY) ہو گی جس کے بعد اسے دفنایا جائے گا۔
میں نے آٹاپسی کے معنی پوچھے، حالانکہ اس کے لیے مجھے اپنی شرم پر قابو پانا پڑا۔
ٹینا نے کہا، ’’یعنی یہ کہ اسے کسی نے زہر تو نہیں دیا تھا کہ وہ سوتے کا سوتا ہی رہ گیا۔ لیکن ممی کا کہنا ہے اسے دل کا دورہ پڑا تھا۔ اور یہ بات اس کے جسم کو چیر کر چیک کی گئی ہے۔ یہی آٹاپسی ہے، اور اس کے بعد اس کے جسم کو دوبارہ سی دیا گیا ہے۔‘‘
میں کھڑکی کے پاس سے ہٹ آیا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ ٹینا مجھے ڈرتے ہوے دیکھے۔ دفنانے میں ابھی کافی دیر تھی اس لیے ہم گھر واپس چلے گئے۔
ایک یا دو گھنٹے کے بعد ٹینا دوبارہ میرے پاس آئی اور بولی، ’’چلو۔‘‘
ہم دونوں پھر بھٹے کے کھیتوں میں سے ہوتے ہوے اس طرف چل پڑے جدھر مسلمانوں کا قبرستان تھا۔
گھنی جھاڑیوں کے پیچھے سے ہم پورا سین دیکھ سکتے تھے۔ میں نے لوگوں کے درمیان پپا کو بھی مغموم کھڑے دیکھا، اور ایک طرح کا اطمینان ہو گیا کہ ہماری یہ چوری پکڑی نہیں جائے گی کیونکہ ہم ممی اور فیونا کو گھر پر سوتا چھوڑ کر آئے تھے اور پپا ہمارے سامنے کھڑے تھے۔
ڈرائیور سفید کپڑے میں لپٹا ہوا ایک تختے پر لیٹا ہوا تھا اور خون اس کپڑے میں سے رس کر باہر آ گیا تھا۔
اس کے پاس ہی دو آدمی زمین کھود رہے تھے۔سرخ مٹی جو وہ بیلچوں سے نکال کر باہر پھینک رہے تھے، اس کی دو پہاڑیاں اس لمبے سے کھڈے کے دونوں طرف بن گئی تھیں۔ اس کے بعد وہ لوگ ایک لمبی لائن میں کھڑے ہو گئے اور ان میں سے ایک آدمی نے وہ کام کیا جو ٹینا نے مجھے بعد میں بتایا مرنے والے کے لیے آخری سروس تھی— یعنی اس کا جو کچھ بھی مطلب ہو۔
سروس کے وقت پپا اور ان کچھ ساتھی علیحدہ کھڑے رہے اور اس کی جو وجہ ٹینا نے مجھے بتائی وہ میں خود پہلے ہی سے جانتا تھا کہ پپا کرسچین ہیں اور ڈرائیور اور اس کو دفن کرنے والے مسلمان تھے۔
جھاڑیوں میں ہمارے آس پاس گرگٹ پھر رہے تھے لیکن مجھے سرخ چیونٹیوں سے ڈر لگ رہا تھا جو بالکل ہمارے آس پاس پھر رہی تھیں۔
بعد میں ان لوگوں نے ڈرائیور کو مع کپڑے کے اٹھا کر کھڈے میں لٹا دیا اور اس کے اوپر کیلے کے پتے رکھ کر دوبارہ وہی مٹی اس پر ڈالنے لگے جو کھود کر باہر نکالی گئی تھی۔ دم بھر میں دونوں سرخ پہاڑیاں غائب ہو گئیں اور ان کی جگہ ایک لمبی سی قبر نے لے لی جس کے چاروں طرف کھڑے ہوے لوگ، پپا سمیت، ہاتھ اٹھا کر دعا پڑھ رہے تھے۔
ٹینا نے ایک بار پھر مجھے انھی نظروں سے دیکھا جن سے وہ ہمیشہ یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے جیسے وہ اکیلی دنیابھر کے بھید جانتی ہے، اور آہستہ سے میرے کان میں کہا:
’’چھ فٹ—سر سے لے کر پیر کی انگلیوں تک صرف چھ فٹ زمین حقیقت میں اسے چاہیے تھی۔‘‘
یہاں لانے کے لیے میں ٹینا کا شکرگذار تھا لیکن اس کا چرچ کے پلپٹ پر کھڑے ہو کر وعظ سنانے کا یہ انداز اس وقت بھی مجھے ناگوار گزرا۔
اور شام کو میں نے ٹینا کی موجودگی میں ممی سے پوچھا، ’’واقعی ٹالسٹائی بڑا لکھنے والا تھا؟‘‘
ٹینا کے کان ایک دم سرخ ہو گئے۔
ممی نے کہا، ’’ہاں، واقعی میں بہت بڑا لکھنے والا تھا۔‘‘
’’جوناس اسپائیری اور اِینڈ بلائیٹن سے بھی بڑا؟‘‘
ممی نے سنجیدگی سے کہا، ’’ابھی تو نہیں، لیکن جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو شاید وہ بھی تمھارے ساتھ ساتھ جوناس اسپائیری اور اینڈ بلائیٹن سے بڑا لکھنے والا بن جائے۔‘‘
’’اور جو کچھ اس نے لکھا ہے وہ سچ ہے؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ہوں اوں!‘‘ ممی نے کہا۔
’’اور یہ بھی سچ ہے آدمی کو صرف چھ فٹ زمین چاہیے ہوتی ہے؟‘‘
’’ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بھی صحیح ہے، ‘‘ ممی نے کہا۔
میرا خیال ہے ٹینا کو اس وقت پسینے آ رہے تھے، لیکن وہ اپنی جگہ پر جمی بیٹھی رہی۔
’’پھر...‘‘ میں کہتے کہتے رک گیا۔
’’پھر کیا؟‘‘ ممی نے کریدنے والے لہجے میں کہا۔
’’کچھ نہیں، ‘‘ میں نے بات ٹالنی چاہی۔
’’نہیں، کچھ تو ہے، ‘‘ پپا نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا۔
وہ شام سے خاموش تھے۔ ڈرائیور کی اچانک موت نے ظاہر ہے ان پر گہرا اثر کیا تھا۔ ڈرائیور اور وہ لمبے لمبے سفر پر ساتھ جاتے رہے تھے، اور وہ بھی ان جنگلوں میں جہاں اکثر دن میں بھی اندھیرا رہتا ہے جہاں جنگلی جانوروں کا بھی خطرہ ہوتا تھا اور مخالف قبیلے والوں کا بھی جو ڈرائیور کو اس کے چہرے کے نشانوں سے پہچان کر مار ڈالتے۔ ایسے موقعے پر پپا کار خود چلانے لگتے تھے اور ڈرائیور نیچے کار کے فرش پر بیٹھ جاتا تھا۔ کبھی کبھی کھانا ختم ہو جانے پر وہ پپا کے کھانے میں سے بھی کھا لیتا تھا، بشرطیکہ اس میں سؤر کا گوشت نہ ہو، اور اپنا کھانا ختم ہوجانے پر پپا اس کا کھانا کھا لیتے تھے۔
مجھے معلوم ہے میری ہی طرح وہ بھی اداس تھے، کیونکہ شام کو وہ اور میں دونوں ہی ڈرائیور کے دیے ہوے بندر کی پیٹھ سہلاتے رہے تھے۔
پھر میں ایک دم جیسے پھٹ پڑا۔
’’یہ سب جھوٹ ہے! سب جھوٹ ہے ‘‘ !
ممی اور پپا ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
’’کیا جھوٹ ہے؟‘‘ ممی نے رسانیت سے مجھ سے پوچھا۔
’’جو ٹالسٹائی نے لکھا ہے!‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’کوئی خاص بات ہوئی ہے؟‘‘ ممی نے ٹینا سے پوچھا۔
ٹینا نے اپنا سر جھکا لیا۔
’’اوکے! اوکے! ہم کھانے کے بعد بات کریں گے،‘‘ پپا نے کہا۔
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا میں رو رہا ہوں یا غصے میں ہوں، اور اگر غصے میں ہوں تو ٹالسٹائی پر یا ٹینا پر، اور اگر رو رہا ہوں تو ڈرائیور کی موت پر یا کسی اور بات پر۔
میرے دماغ میں دادی، وہ سفید عورت جس کا ہمارا ساتھ تھوڑی دیر کے لیے ٹرین میں ہوا تھا اور نجانے کتنے ہی دوسرے لوگ آ رہے تھے ۔ اتوار کی صبح کے سرمن کے الفاظ اور خاص طور پر وہ باتیں جو پچھلی چھٹیوں میں میں نے رات بھر کے سفر میں پریٹوریا سے ڈربن آتے ہوے کار میں سنی تھیں، جب ہم دادی سے مل کر واپس آ رہے تھے، اور چلتے وقت دادی نے پپا سے کہا تھا:
’’ہینک ، تم جب چاہو یہاں واپس آ سکتے ہو۔ یہ وہ اکیلا ملک ہے دنیا بھر میں جس کے ہر بسانے والے کا آئیڈیل یہ تھا کہ جب وہ اپنے مکان کی سیڑھیوں پر بیٹھے تو اسے اپنے سب سے نزدیک کے پڑوسی کی چمنی سے اٹھتا ہوا دھواں نظر نہ آئے۔‘‘
اس رات پپا کا ایک ساتھی کار چلا رہا تھا۔ پپا اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے اور ممی، میں، فیونا اور ٹینا پچھلی پر۔ رات کے اندھیرے میں ایسی سڑک پر جس پر میلوں تک ایک بھی جھٹکا نہ لگے، کس کو نیند نہیں آجائے گی۔
باہر وہ پہاڑیاں جو دن میں مخمل کی طرح کی ہری گھاس میں لپٹی نظر آتی ہیں، اس وقت اندھیرے میں چھپی ہوئی تھیں اور کار کی ہیڈلائٹس سے کبھی کبھی ان کا کوئی کونا چمک اٹھتا تھا۔
ہم جانے پہچانے شہروں سے گزر رہے تھے—کولیترو، لیڈی اسمتھ، پیٹر میرِٹس برگ — سب شہر خاموش تھے۔
ہر سفید ایفریکانیر کسان کا گھر آس پاس پھیلی ہوئی اس کی میلوں لمبی زمین کے بیچ میں کھڑا چپ چاپ لگ رہا تھا۔ اور کرال کے ایک کونے پر اس کے نیگرو نوکروں کے چھوٹے چھوٹے سے گھر تھے، ایک دوسرے میں گھسے ہوے۔
میں نے دن میں بھی پیٹر میرٹس برگ کی سڑکوں کو سنسان پایا تھا اور اس وقت تو باوجود اس کے کہ ان میں روشنی تھی، مجھے ان سے ڈر لگ رہا تھا، جیسے یہاں لوگ رہتے ہی نہ ہوں۔
ممی باتوں میں حصہ لیتے لیتے سو گئیں، فیونا سفر کے شروع ہی میں سو گئی تھی اور ٹینا کتاب نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے زیادہ دیر نہیں جاگ سکی۔
صر ف پپا اور ان کا دوست آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے جو میرے لیے بالکل نئی تھیں۔ مثلاً یہ کہ کسی عورت نے اپنی ڈائری میں اس وقت یہ لکھا تھا جب یہ لوگ یہاں آ کر بسنے شروع ہوے تھے کہ ’’کالوں اور گوروں کی برابری کی پالیسی بائبل کی تعلیم کے خلاف ہے۔‘‘
پالیسی کیا ہوتی ہے میں نہیں جانتا، لیکن مجھے معلوم ہے ہمارے یہاں سرمن میں جو کچھ کہا جاتا ہے یہ بات اس کی الٹ تھی۔
ان کی باتوں میں یہ ذکر بھی آیا کہ کالوں اور گوروں کے لیے برابر حقوق خدا کے قانون کے خلاف بات ہے، اور یہ کہ یہاں کہ سفید لوگوں کا یہ پکا یقین تھا کہ زیادہ سے زیادہ زمین کا حاصل کرنا ہر آزاد آدمی کا حق ہے۔
میں ان کی اکثر باتیں پوری طرح نہیں سمجھ رہا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح مجھے پپا کی باتیں سننے میں مزہ آ رہا تھا، اور ان کا دوست بھی ان ہی کی طرح باتیں کر رہا تھا۔
وہ لوگ آسٹریلیا کے پرانے باشندوں کا ذکر کرتے رہے، اور ریڈ انڈینز کا اور یوروپ سے آنے والے اسرائیلیوں کا اور دوسری قسم کے یہودیوں کا جو یوروپین نہیں تھے۔
مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر ملک پر سفید لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے، اور وہ پاہم کی طرح دوڑ رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں، کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ زمین اپنے قبضے میں کر لیں، خواہ اس کے لیے انھیں نیگروز، ریڈ انڈینز اور نجانے کتنے دوسرے قسم کے اندھیرے لوگوں کا خاتمہ کرنا پڑے۔
جب ڈربن پہنچ کر کار رکی اور میں جاگا تو پپا کا دوست صبح کے ہلکے اندھیرے میں ان سے اور ممی سے ہاتھ ملا رہا تھا۔
اس نے چلتے وقت کہا:
"SO HENK, NOT COMING BACK TO THIS GORGEOUSLY BEAUTIFUL SUFFOCATING COUNTRY?"
(’’واپس نہیں آ رہے ہو ہینک، اس خوبصورت ملک میں جہاں سانس گلے میں اٹکتی ہے‘‘؟)
پپا نے کہا، ’’نو تھینکس۔ تم اپنی حفاظت کرو۔‘‘
کچھ عرصے بعد مجھے پتا چلا، پپا کا وہ دوست جیل میں ہے۔
رات کے کھانے کے بعد فیونا کو اوپر بھیج دیا گیا اور پپا اور ممی نے ٹینا سے اس کا چھوٹا سا ایڈونچر سنا جس میں وہ میری لیڈر رہی تھی۔ اس وقت تک میرا غصہ یا رونا، جو کچھ بھی تھا، تھم چکا تھا اور میں اپنے آپ میں تھا۔
’’سو، واٹ از اِٹ، سن؟‘‘ ممی نے مجھ سے پوچھا۔
میں نے کہا، ’’کیا؟‘‘
’’یہی کہ آج کے واقعے کا ٹالسٹائی سے کیا تعلق ہے؟‘‘
میں نے رک رک کر اس رات کے سفر میں سنی ہوئی باتیں دُہرائیں جو پپا اور ان کے دوست کرتے رہے تھے اور ممی اور پپا مجھے حیرت سے دیکھتے رہے—میرا خیال ہے وہ میری یادداشت پر خوش تھے۔
پھر میں نے ایک دم وہ سوال کیا جو آج دوپہر سے ان سے کرنا چاہ رہا تھا۔
’’ٹھیک ہے، ٹالسٹائی نے اچھی کہانیاں لکھی ہوں گی، لیکن میرا خیال ہے ٹینا جھوٹ بولتی ہے کہ اس نے کہا تھا: ’چھ فٹ، سر سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک حقیقت میں ایک انسان کو زمین چاہیے ہوتی ہے۔‘ میرا سوال یہ ہے: ایک سفید آدمی کو کتنی زمین چاہیے ہوتی ہے؟‘‘

ولی رام ولبھ

سندھی سے ترجمہ:اجمل کمال

فوکس سے باہر زندگی

وہ اکثر اسی طرح دیکھتی رہتی ہے۔ آنکھوں میں پانی بھر آتا ہے اور پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ بہت ہوا تو چنری کے پلو سے آنکھیں پونچھ کر ٹھنڈا سانس بھرتی ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی تو نہیں سکتی۔
آنگن سے آگے بر امدے میں پلنگ پر لیٹا ہوا پپو، اور اس کے قریب تپائی پر شیشیاں، گلاس اور پیالیاں—یہ سب اسے باورچی خانے سے نظر آ رہا ہے۔ جب دوسرے بچے کھا پی کر اسکول چلے جاتے ہیں اور وہ اکیلی بیٹھی ہوتی ہے تو زینو کے نہ ہونے کا احساس اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ اس وقت ان گنت سوچیں گِدھوں کی طرح اس کے دماغ کے ارد گرد چکر لگا لگا کر شور مچاتی رہتی ہیں—اور اسے لگتا ہے کہ کہیں وہ پاگل نہ ہو جائے۔
ابھی پرسوں جب اسے پتا چلا کہ پپو نے محلے کے ایک گھر سے پیسے چرائے ہیں تو دل کی عجیب کیفیت ہو گئی تھی۔ نہ اسے پپو پر غصہ آیا، نہ محلے والوں سے شکایت کرنے گئی۔ بس سر پکڑ کر بیٹھی رہ گئی تھی —چپ چاپ۔
اور جب آج صبح اسے معلوم ہوا کہ انو کل کلاس سے بھاگ کر فلم دیکھنے چلا گیا تھا تو اس کی پھر وہی حالت ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے آنکھوں میں پپو کا چہرہ چھایا ہوا تھا کہ پھر محلے کے منو کا چہرہ ابھر آیا۔
’’دیکھو ماسی، میں تو صرف اس لیے کہتا ہوں کہ کہیں اسے عادت نہ پڑ جائے، بس۔ ورنہ کہتا بھی نہیں۔ اور دیکھو، زیادہ غم نہ کرنا۔ اس عمر میں یہی ہوتا ہے۔‘‘
اس کے اپنائیت بھرے لہجے کی چبھن اسے اپنے اندر محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے منو کے سامنے خود کو روکنے کی بہت کوشش کی، لیکن پھر بھی...
’’نہیں بیٹے! ہم یہی سب بھوگنے کے لیے تو ہیں۔ ہمیں تو یہ سہنا ہی پڑے گا... ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے۔‘‘
منو ہکابکا رہ گیا۔ پھر کہنے لگا، ’’اچھا ماسی، میں چلتا ہوں۔ کالج کو دیر ہو رہی ہے۔ پھر آؤں گا۔‘‘
اس کے جانے کے بعد ایک دم گھٹن اور خاموشی چھا گئی، بالکل ویسی کاٹ کھانے والی خاموشی جیسی کھٹکے کے بعد چھا جاتی ہے۔ اس وقت وہ اسی کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اسے رہ رہ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سارا گھر اس کے بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے، یا ہو چکا ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی، کچھ بھی نہیں۔ زینو، انو، پپو، نازو—اور ان سب کے بیچ میں وہ۔
اس کے باوجود وہ اس بارے میں اپنے شوہر سے بہت کم بات کرتی ہے۔ یہ سب کچھ خود سہنے کی کوشش میں لگتا ہے کہ وہ ہانپنے لگی ہے۔
لیکن وہ کہے بھی کیونکر؟ اسے معلوم ہے کہ وہ نو بجے سے بھی پہلے گھر سے نکلتا ہے اور کہیں شام کو چھ بجے اس کی صورت نظر آتی ہے، تب مہینے میں کہیں ساڑھے چار سو روپے ملتے ہیں۔ اگر اوورٹائم نہ کرے تو بیس دن بھی نہ نکلیں۔ اس کا ذہن ویسے ہی تھکن اور الجھن میں ہوتا ہے، اگر وہ یہ سب رونا رونے بیٹھ جائے تو شاید وہ اس سے بھی پہلے پاگل ہو جائے۔ پھر اسے لڑائی جھگڑے کی بالکل سہار نہیں، کوئی ایسی ویسی بات ہو جائے تو ایک دم آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ پچھلے ہفتے انو کو کتنا مارا تھا۔ وہ تو نہ جانے کس طرح خود ہی رحم آ گیا، اور اس کے بعد پشیمانی میں کتنے ہی دن بولنا چھوڑ دیا تھا اور منھ ہی منھ میں کچھ بڑ بڑاتا رہتا تھا۔
وہ ابھی کھانا کھا کر سوچوں میں گم تھی کہ پپو نے پانی مانگا۔ تب وہ چونکی۔ پھر اٹھ کر ہاتھ دھوئے اور پپو کے پاس آ کر اسے پانی پلایا اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اسے آہستہ آہستہ سہلانے لگی۔ پپو نے آنکھیں موند لیں۔
آنگن میں آ کر اس نے کپڑوں کا ڈھیر دیکھا تو سستی چھانے لگی۔ آرام کرنے کی خواہش نے سر ابھارا۔ لیکن ابھی تو بہت کام پڑا ہے— برتن مانجھنے ہیں، کپڑے دھونے ہیں، پپو کو موسمی کا رس پلانا ہے، تب کہیں سکھ کا سانس نصیب ہو گا۔ یہ سوچ کر وہ نل کے آگے برتن اکٹھے کر کے دھیرے دھیرے انھیں دھونا شروع کرتی ہے۔ اچانک اسے وہ بڑھیا یاد آتی ہے جو کئی سال پہلے برتن مانجھنے آیا کرتی تھی — صرف پانچ روپے اور روٹی، اور برتنوں کا ڈھیر! اب تو کوئی پچاس سے کم بات بھی نہیں کرتا۔ ایسی باتیں سوچ کر اسے اپنی تنگدستی پر بڑی بےچینی ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ تھکی ہوئی ہو۔ لیکن اسے پتا ہے کہ اور کوئی راستہ بھی تو نہیں، اس لیے سوچنا بیکار ہی لگتا ہے۔
برتن مانجھنے کے بعد وہ ایک گہرا سانس لیتی ہے جیسے کہہ رہی ہو، چلو کچھ تو بوجھ کم ہوا۔ پھر سستی چھانے لگتی ہے تو پھر دل کو سمجھاتی ہے: بس کپڑے ہی تو رہ گئے ہیں، دھو لوں تو پھر آرام سے لیٹ جاؤں گی۔
وہ بالٹی لا کر پانی بھرتی ہے اور سانس روک کر اٹھتی ہے۔ اسے کچھ تعجب ہوتا ہے، اس عمر میں ایسی تھکن—پینتیس برس بھی کوئی عمر ہے۔ لیکن کچھ بھی کرنے کو اس کا دل نہیں چاہتا۔ پتا نہیں کس بل پر مشین کی طرح سب کچھ کرتی جاتی ہے... کرتی رہتی ہے۔ لیکن وہ مشین تو نہیں ہو سکتی۔
کپڑوں میں زینو کی قمیض بھی آ گئی دھلنے کے لیے۔ کپڑے دھوتے دھوتے جب زینو کی قمیض ہاتھ میں آئی تو آنکھیں بھر آئیں۔ گھر سے چلے جانے سے پہلے اس نے یہی قمیض پہنی ہوئی تھی۔ اس پر اس نے اپنی آنکھیں پھوڑ کر کڑھائی کی تھی۔ جب زینو نے اسے پہنا تو سب محلے والے دیکھتے رہ گئے۔’’قمیض کیسی سج رہی ہے۔ جیسی بیٹی ہے ویسی ہی پیاری قمیض بنائی ہے تم نے۔‘‘ بس نظر لگ گئی۔ گیلی قمیض دونوں ہاتھوں سے بھینچ کر چھاتی سے لگاتی ہے۔ اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ بند آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈنے لگتا ہے اور گیلی قمیض سے پانی۔ وہ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہتی ہے۔ اس کے کانوں میں زینو کے الفاظ گونجتے ہیں۔ جب وہ کپڑا لے کر آئی تھی تو زینو نے کہا، ’’اماں، رنگ تو نہیں چھوٹے گا؟ لگتا ہے کچا ہے۔‘‘ پھر وہ قمیض پر پانی ڈال کر اسے دھونے لگتی ہے۔اس کا رنگ پہلے سے بھی زیادہ نکھر آتا ہے۔
سوچ کی کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے۔ عید قریب آ رہی ہے، انو، پپو اور نازو کے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ وہ کہتا تھا، بڑی مشکل سے پچاس ساٹھ روپے بچے ہیں، احتیاط سے خرچ کرنا۔ سوچتی ہے کہ وہ تو پیسے دے کر آزاد ہو گیا، مصیبت میں میں پڑ گئی—اب میں کیسے کروں؟
کپڑے پھیلا کر پپو کے پلنگ کے پاس بیٹھ کر موسمی کا رس نکالنے لگتی ہے۔ پپو کے زرد چہرے اور کمزور جسم پر نگاہ پڑتی ہے تو دل ڈوبنے لگتا ہے اور اسے گھٹن سی محسوس ہوتی ہے۔
’’پپو تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ، تو پھر عید پر اچھی اچھی مٹھائیاں...‘‘ پھر اچانک اپنی غلطی محسوس کر کے وہ چپ ہوجاتی ہے۔
’’سویاں بھی پکیں گی نا اماں؟ مجھے بھی ملیں گی نا؟‘‘ اس کی آواز کا لگاؤ اس کا دل چھو لیتا ہے۔ بیماری میں سب بچے ایسا ہی کہتے ہیں، وہ سوچتی ہے۔
’’ہاں ہاں، اپنے بیٹے کو کیوں نہیں دوں گی۔‘‘
پیالی سے رس پلا کر وہ اس کا بستر ٹھیک کرنے لگتی ہے۔ پھر قریب ہی کھڑا دوسرا پلنگ بچھا کر بغیر بستر کے لیٹ جاتی ہے اور ٹھنڈا سانس لیتی ہے۔ اس کی آنکھیں سامنے فریم کیے ہوے گروپ فوٹو پر جم جاتی ہیں۔ یہ فوٹو زینو نے پچھلے سال میٹرک کے امتحان سے پہلے اسکول سے رخصت پر فیئرویل کے موقع پر کھنچوایا تھا۔ اسے یاد آیا کہ جب زینو یہ فوٹو فریم کرا کے گھر لائی تھی تو اس نے کہا تھا، ’’اماں جب میں تمھارے پاس نہیں ہوں گی تو یہ فوٹو تمھیں اور سب کو میری یاد دلائے گا۔‘‘ گروپ فوٹو میں زینو مسکرا رہی تھی، اور اس کی ماں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
زینو جب میٹرک میں پاس ہوئی تو محلے والوں سے لے کر رشتے داروں تک سب کو حیرت ہوئی کہ وہ کس طرح پاس ہو گئی، اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں! اس کا سر اونچا ہو گیا تھا۔ مگر اب کے تو اس نے ناک ہی کٹوا دی۔ کسی کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ پھر وہ سوچتی ہے: اس میں اس کا کیا قصور؟ اسے وہ راتیں یاد آتی ہیں جب زینو کرسی پر بیٹھی پڑھتے پڑھتے صبح کر دیتی تھی۔ رات کو جب اس کی آنکھ کھلتی تو اسے بتی کی روشنی میں کتابوں پر سر جھکائے پڑھنے میں محو دیکھتی تھی۔ وہ کہا کرتی، ’’بیٹی زینو، اب سو جا، رات بہت ہو گئی ہے، کہیں طبیعت...‘‘
مگر وہ جواب دیتی، ’’بس اماں، تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ ابھی سوتی ہوں۔‘‘ وہ کروٹ بدل کر سو جاتی تھی۔
اب وہ کرسی خالی پڑی ہے—جیسے ابھی زینو آئے گی اور اس پر بیٹھ کر پڑھنے لگے گی۔ کتاب اس کے سامنے کھلی ہو گی۔ زینو کی تلاش میں اس کی نظریں اس کے پلنگ کی طرف جاتی ہیں لیکن وہ بھی خالی پڑا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ابھی زینو اس پر آ کر سوئے گی۔ وہ آنکھ جھپکتی ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ جاگ رہی ہے۔ وہ سوچنے لگتی ہے کہ ان باتوں میں کیا رکھا ہے؟ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ کسی کا کسی پر کیا بس چلتا ہے۔ حالات آزاد ہیں۔ میرا تو کسی پر کوئی بس نہیں۔ میرا حالات پر بھی بس نہیں۔ اپنے آپ پر بھی نہیں رہا شاید! یہ سوچ کر اسے تسکین سی ہوتی ہے۔ گھڑی پر نگاہ پڑتی ہے تو اس کا سانس آہستہ آہستہ کھنچنے لگتا ہے: دو بجے ہیں۔ کچھ دیر میں بچوں کے آنے کا وقت ہو جائے گا۔
وہ آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرتی ہے لیکن نیند اس سے کوسوں دور ہے۔ سوچوں کے ہجوم اور یادوں سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ ماضی اور مستقبل کے دروازوں پر زنجیر لگانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ یہ دروازے کھڑکھڑاتے رہیں گے۔ وہ تنہائی سے بچنے کی خاطر پرانے اخبار کے صفحے الٹنے لگتی ہے لیکن نظر نہیں جمتی۔ اسے لگتا ہے جیسے زندگی اس سے ہاتھ چھڑا کر چلی گئی ہو، اور وہ زندگی کے فوکس سے باہر رہ گئی ہو۔

کے ٹی محمد

انگریزی سے ترجمہ:ظہور احمد قائم خانی

آنکھیں

وہ سب جن کے پاس دیکھنے کو آنکھیں ہیں مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں۔ کچھ تو بےاختیار ہومر کے انداز میں قہقہے لگانے لگتے ہیں۔ میرے بارے میں سنانے کے لیے ان کے پاس بہت سی مضحک کہانیاں ہیں۔
لیکن جو کچھ وہ کہتے ہیں مجھے معلوم ہے، اور یہ بھی کہ کون سی چیز انھیں یوں گدھوں کی طرح ہنسنے پر اکساتی ہے۔
ان کے ہنسنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ میری بھی ایک محبوبہ تھی—اور یہ کہ میں نے اس سے شادی کر لی! میں کس طرح ایک عاشق اور شوہر بنا، اسے وہ ایک ایسا عجوبہ سمجھتے ہیں جو انھیں مستقل ہنسا سکتا ہے۔ اگر آپ اس حیران کن تفریح کو سمجھنا چاہتے ہیں تو وہ آپ کو مجھ پر ایک نظر ڈالنے کو کہیں گے۔ خیر، میں آپ کے سامنے کھڑا ہو جاؤں گا۔ مجھ میں ایسی عجیب بات کون سی ہے؟ آخر میں ایک انسان ہوں۔
میں ایک ٹھگنا آدمی ہوں، کوئلے کی طرح سیاہ رنگت اور غیرمتناسب اعضا والا۔ میرا بڑا سا سر اس بدہیئتی اور میری بدصورتی پر ایک تاج ہے۔ میرے چہرے پر گہرے گڑھوں میں دو گول آنکھیں ہیں، ایک چپٹی ناک، بڑا سا مینڈک جیسا دہانہ اور دو بڑے کانوں کے درمیان ایک تنگ پیشانی۔ اس پر نشانات بھی ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ میرے بارھویں سال میں چیچک نے مجھ پر حملہ کر کے کس لالچی پن سے میرے چہرے کا گوشت نوچا تھا۔ لڑکپن میں ایک مرتبہ گر پڑنے سے میری دائیں ٹانگ میں لنگ رہ گیا تھا۔ ہاں، میں بدہیئتی کا ایک پہاڑ ہوں۔ لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ مجھ پر پہلی نظر ڈالنے سے ہر شخص میں ایک سیاہ بندر کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ضروری تو نہیں کہ لوگ بندر کو دیکھ کر ہنستے ہی ہوں — ان کی ہنسی یہ بات جاننے سے پیدا ہوتی ہے کہ یہ بندر جیسا جانور ان کا ہم جنس انسان ہے۔ ایک روز سڑک سے گزرتے ہوے میں نے ایک شخص کو اپنے ساتھی سے یہ کہتے سنا، ’’اس شخص کو دیکھ کر مجھے نوٹرے ڈیم کا کبڑا یاد آ جاتا ہے۔‘‘ حالانکہ میں کبڑا نہیں ہوں لیکن میں نے رک کر احتجاج نہیں کیا۔ ظاہر ہے، میں یہ فیصلہ کرنے والا کون کہ مجھے دیکھ کر کس کو کون یاد آئے۔ بہرحال، ان کی ہنسی نے مجھے اپنے متعلق بہت کچھ سکھایا ہے۔
سڑکوں سے گزرتے ہوے رنگین لباسوں والی نوجوان عورتوں کو دیکھ کر میں چھوئی موئی کے پتے کی طرح اپنے آپ میں سکڑ جاتا ہوں، کیونکہ وہ ایک دم ایسے اپنا چہرہ پھیر لیتی ہیں جیسے کوئی برہمن کسی منحوس الو کو دیکھ کر۔ اس وقت جب وہ گھمنڈ سے مجھے اپنا ساتھی انسان ماننے اور میرے انسانی جذبات کا خیال کرنے سے انکار کر دیتی ہیں، اس وقت مجھے اپنی قابلِ رحم حالت کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کی طرح مجھے بھی نظارۂ حسن سے حظ اٹھانے اور خوبصورتی کو محسوس کرنے کی صلاحیت ملی ہے، لیکن آپ لوگ شاید اسے میرا ناقابل ِمعافی جرم سمجھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ دنیا صاف صاف اعلان کرتی ہے کہ مجھ جیسے لوگوں کو اس میں رہنے کا کوئی حق نہیں—اور میں یہ بھی جانتا ہوں۔
میرا باپ مجھ میں یادداشت بیدار ہونے سے پہلے مر گیا تھا، اور اس طرح گھر کے نام پر میرے پاس صرف میری ماں تھی۔ وراثت کا اس میں کس قدر دخل ہے—میری قابلِ رحم اور ہولناک بدہیئتی کا ذمہ دار کون ہے؟ میرا باپ؟ میری ماں؟ نہیں، میں ان میں سے کسی کو الزام نہیں دے سکتا۔ میں انھیں کیوں الزام دوں؟ میں پیدا ہو گیا—شاید انھوں نے کبھی خواہش یا توقع نہیں کی تھی کہ میرا جنم ہو۔ میں، جو مرجھایا نہیں، اور میری ماں، جو گری نہیں، ہم نے اپنے کنبے کے ٹھنٹھ کو کھڑا رکھنے کی کوشش کی۔ کیا اس کنبے کے درخت میں نئی شاخیں نہیں پھوٹنی چاہیںی، اسے زندہ نہیں رہنا چاہیے؟
سماج میں رہنے والے انسان کی گھر بنانے کی خواہش نے میری سیدھی سادی ماں میں اپنا اظہار کیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا ، ’’بیٹا، کیا اس گھر میں تمھاری دلہن نہیں آئے گی؟‘‘
ماں کے اس سوال نے مجھے حیران نہیں کیا۔
اپنے بوجھل دل کو سنبھالتے ہوے میں نے جواب دیا، ’’ہاں ہاں ماں، اپنے وقت پر ضرور آئے گی۔‘‘
اس نے اپنے محلے کے بڑے بوڑھوں سے بات چھیڑی۔ یہ بات چیت چند روز تک چلی۔ ہر روز درد کا احساس چہرے پر لیے واپس آتے آتے وہ میرے لیے ایک مشکل بن گئی۔ ہر روز میں اس سے پوچھتا، ’’کیا بات ہے ماں؟‘‘ اور وہ کہتی ، ’’کچھ نہیں۔‘‘ اس ’کچھ نہیں‘ کے نیچے ایک ماں کا مایوسی اور بےبسی سے بھرا دل دھڑک رہا ہوتا تھا۔
دو ہفتے یوں ہی گزرے۔ پھر ماں نے باہر جانا چھوڑدیا۔ جو لوگ ابھی تک مجھ پر نہیں ہنستے تھے، اب ہنسنے لگے۔ ایک معمر شخص نے ترس کے لہجے میں کہا، ’’بیچارہ! اس کی ماں نے کتنی کوشش کی کہ اس کی شادی ہو جائے ! خدایا ، تو ایسے انسان پیدا ہی کیوں کرتا ہے ‘‘ !
میں نے چھپ چھپ کر سنگھار کی چیزیں استعمال کرنا شروع کر دیں۔ میں اچھے کپڑے پہننے لگا۔ لیکن میری کوششوں سے صرف یہ ہوا کہ لوگ اور بھی بلند آواز میں مجھ پر ہنسنے لگے۔ کیا میں اور بدصورت ہو گیا تھا؟ میں مان گیا کہ کوّا نہانے سے ہنس نہیں بن سکتا۔
میری زندگی کی کہانی چلتی رہی۔ آخرکار مجھے بھی ایک محبوبہ مل گئی۔آپ میری محبت کی کہانی سننے کے لیے بےتاب ہوں گے—میری انسانیت کی کہانی سننے کے لیے۔ میں نے محبت کرنے اور محبت پانے کی آرزو کی۔ کیا یہ فطری بات نہیں تھی؟ میری محبت کی کہانی ایک حیران کن کہانی ہے — جس میں ایک عورت ہے جس نے مجھ سے محبت کی اور بعد میں شادی بھی، میری ظاہری حالت کو نظرانداز کر کے، جو تمام آنکھوں کو مجھ سے پھیر دیتی ہے اور تمام ذہنوں کو مکدر کر دیتی ہے۔
میری ماں کی بہو لانے کی کوششیں ناکامی پر ختم ہو گئیں۔ کوئی عورت اس بن مانس کی بیوی پر راضی نہ ہوئی۔ اس ناکامی کے بوجھ تلے کراہتے ہوے میری ماں بڑھاپے کی بیماریوں کا شکار ہو گئی اور ان سے صحت یاب نہ ہو سکی۔ میری ماں جو کم از کم کبھی کبھار اپنی محبت کی ہوا سے میرے جاتے ہوے دل کو ٹھنڈک دیتی تھی، جو اپنی محبت کے دھاگے سے مجھے اس بےمحبت دنیا سے باندھے رکھتی تھی، جو میری زندگی تھی اور جو میری ہولناک بدصورتی میں بھی ایک طرح کا حسن پا لیتی تھی—وہ مجھے تنہا چھوڑ کر مر گئی۔ میں اس پر نہیں روؤں گا کیونکہ اس میں اب اور دکھ جھیلنے کی سکت نہ تھی۔
اور پھر یہ سب کچھ ہوا۔ سیڑھیوں پر ایک لاٹھی کی کھٹ کھٹ سنائی دی اور پھر ایک لڑکی کی آواز آئی! ’’محتاج کو کچھ دے دو صاحب!‘‘ وہ ایک فقیرنی تھی۔ ’’میں اندھی ہوں مالک!‘‘ اس نے کہا۔ میں نے اسے دیکھا، ور پھر اس کی آنکھوں کو—یہ ایک ترس بھری نظر تھی۔ خود کو بھلا کر میں نے سوچا، ’’بیچاری لڑکی! یہ جوان ہے لیکن اس کی آنکھیں نہیں ہیں—اس کے لیے زندگی میں صرف سننا اور چھونا ہی ممکن ہے۔‘‘
وہ خوش شکل نہیں تھی، لیکن اس کے متناسب جسم میں جوانی کی کشش تھی۔ بیچاری! میرا دل اس کی طرف کھنچنے لگا۔
’’تم اندر آ کر یہاں بیٹھ جاؤ،‘‘ میں نے نرمی سے اس سے کہا۔ وہ دروازے کو ٹٹولنے لگی۔ میں نے اٹھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ پہلی بار میں ایک جوان عورت کو چھو رہا تھا۔ میرا دل کچلے ہوے جذبات سے بوجھل ہو گیا۔ ایک بار پھر میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کی بےنور آنکھوں کے باوجود جوانی نے اس کے چہرے کی خوبصورتی کو محفوظ رکھا تھا۔ اس کا ابھرا ہوا سینہ میرے سینے کے قریب تھا۔ کچھ سوچ پانے سے پہلے میں جیسے سردی سے کپکپانے لگا۔ مجھے لگا کہ میرے ہونٹ خشک ہو گئے ہیں، میرے بازو عجیب طرح سے بدل کر کچھ اور ہو گئے ہیں اور میرا سانس تیز چلنے لگا ہے۔
’’یہاں بیٹھ جاؤ۔‘‘ میں نے اسے برامدے کے سرے پر رکھی کرسی پر بٹھا دیا۔ کیا اسے میرے ہاتھوں کی لرزش محسوس ہو گئی تھی؟ میں نے اسے تھوڑا سا اپنا پکایا ہوا کھانا کھلایا اور ایک روپیہ بھی دیا۔
اس نے مجھے بتایا کہ اس کا نام لیلا ہے، اور وہ اور اس کی بوڑھی ماں شہر میں ایک کارخانے کے قریب پیال کی ایک جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ جب وہ جانے لگی تو میں نے اسے پھر آنے کے لیے کہا۔
لیلا اکثر آنے لگی۔ پھر یہ عادت بن گئی۔ ہم تمام چیزوں کے بارے میں باتیں کیا کرتے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے دل کا، اور میری زندگی کا، بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا ہے۔ مجھے زندگی کے لمحات میں کشش محسوس ہونے لگی۔ لیلا کی آنکھیں! اگر ان میں بینائی ہوتی تو اس کا حسن اور بھی بڑھ گیا ہوتا۔ کیا ایک عورت کی نظر مرد کو پاگل نہیں کر دیتی؟ اگرچہ اس کا پتا مجھے صرف دوسرے لوگوں کے تجربات سے چلا تھا، لیکن میں جان سکتا تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ میرے پیاسے دل کی بھی اپنی امنگیں تھیں۔ کاش لیلا کی آنکھیں ہوتیں! یہ بات نہیں کہ میں یہ نہ جانتا ہوں کہ یہ خواہش کتنی احمقانہ تھی۔ اگر اس کی آنکھیں ہوتیں تو شاید وہ بھکارن نہ ہوتی۔ اگر ہوتی بھی تو مجھ سے بھیک کے سوا کچھ قبول نہ کرتی۔ نہیں، اس کی آنکھیں کبھی اسے اجازت نہ دیتیں کہ وہ ہر روز میرے پاس آئے، مجھ سے باتیں کرے۔
میں انجانے میں یہ سوچتا تھا، کیونکہ میں بھی سب جیسا ہوں—میرا کیا قصور ہے۔
لوگوں کو ہماری ملاقاتوں کا علم ہو گیا، لیکن کسی نے ہم سے حسد نہ کیا۔ ایک ’بن مانس‘ کی حیثیت سے تو میں ان کی تضحیک کا نشانہ تھا ہی، اب ایک اندھی عورت سے میری محبت کی کہانی سے انھیں ہنسنے کا اور موقع مل گیا۔ وہ بدہیئتی اور اندھےپن کے اس ملاپ سے بہت محظوظ ہوے—کیسی مضحکہ خیز بات تھی!
ایک روز میں نے لیلا سے پوچھا، ’’لیلا، تم میرے بارے میں کیا سوچتی ہو؟‘‘ محبوب مسکراہٹ نے مجھے بہت مسرت بخشی۔
’’بتاؤ لیلا !‘‘ میں نے اصرار کیا۔
’’میں نے کب کہا ہے کہ تم برے آدمی ہو؟‘‘ اس نے نرمی سے جواب دیا۔ مجھے لگا کہ اس کا جواب سچا ہے۔ میں خوشی سے بےحال تھا۔ اچانک جذبات کی رو میں میں نے اس سے پوچھا، ’’کیا تم مجھے پسند کرتی ہو لیلا؟‘‘ اس نے شرم سے سر جھکا لیا مگر بولی کچھ نہیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ زندگی کا سارا حسن اس منظر میں ہے۔
تھوڑی دیر بعد لیلا چلی گئی۔ آخرکار اس وسیع اور ویران دنیا میں میرے پاس بھی ایک نام تھا جسے میں محبت سے ادا کر سکتا تھا؛ کوئی تھا جس کا میں بےتاب مسرت سے انتظار کر سکتا تھا۔ زندگی جو مجھے اجاڑ لگتی تھی، شیریں اور پرکشش ہو گئی۔ یہ میری قسمت تھی!
مجھ پر ہنسنے والے لوگ میرے دشمن ہیں—کہیں وہ لیلا کے ذہن میں میری بدصورتی کے خیالات نہ ڈال دیں؛ کہیں انھوں نے ایسا کر ہی نہ دیا ہو—کون جانتا ہے! لیکن وہ حسن اور بدصورتی میں کس طرح تمیز کر سکتی ہے، جب وہ دن اور رات میں فرق نہیں کر سکتی۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اندھی پیدا ہوئی تھی۔ میں نہیں کہتا کہ اس کا اندھا پیدا ہونا میری خوش قسمتی تھی—لیکن کیا وہ میری بدقسمتی تھی؟
لیلا اگلے روز پھر آئی۔ میں اپنی شادی کے بارے میں سوچ رہا تھا—اسے کس طرح انجام دیا جائے؟ کیا خدا کے کسی نمائندے کو ایک مرد اور عورت کے ملاپ کا گواہ نہیں ہونا چاہیے؟ لیکن خدا کا کوئی پجاری ہماری شادی سرانجام دینے پر راضی نہ ہوتا۔ اس کی ایک وجہ ہے۔ان خدا کے نمائندوں کا ایک دنیاداری کا نقطۂ نظر ہے جسے یہ ’روحانی‘ کہتے ہیں۔ لیلا کا اور میرا مذہب مختلف تھا۔ وہ کبھی ہماری مدد نہیں کریں گے، چاہے انھیں کتنی ہی بلند آواز میں بتایا جائے کہ اس دنیا میں جہاں مردوں سے زیادہ عورتیں ہیں، لیلا کے سوا کوئی عورت مجھ سے شادی کرنے کی خواہشمند نہیں ہو گی۔ صرف اس قسم کے معاملات میں خدا کی مختلف ناموں سے نمائندگی کرنے والے آپس میں ایکا کر لیتے ہیں۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ میں مسلمان ہوں—لیکن بہرحال، کیا یہ حقیقت ہے؟
میں نے اس سے پوچھا، ’’لیلا، کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘ میں نے محسوس کیا کہ اسے دھچکا لگا ہے۔ میرے مسلمان ہونے نے اسے رک کر کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ’یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ یہ اندھی بھکارن جتنی ہمدردی کر سکتی تھی اس کی بھی ایک حد تھی۔
’’لیلا، اگر تم یہ مان لو کہ میں ایک انسان ہوں تو کافی ہے۔ خدا نے تمھیں میرے پاس بھیجا ہے۔ مذہب اور ذات پات تو انسان نے خود بنائی ہیں۔‘‘
میں نے مصر انداز میں اس کے لرزتے ہوے ہونٹوں کی طرف دیکھا۔ مجھے لگا کہ میں کوئی قاتل ہوں جسے جج کے فیصلے کا انتظار ہے۔ ہاں، اسے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ میں زندہ رہوں یا مر جاؤں۔ لیلا خاموش تھی۔ کیا یہ کافی نہیں تھا؟ میں نے کہا، ’’بولو لیلا! میں تمھاری حفاظت کرنا چاہتا ہوں۔ وعدہ کرو کہ تم مجھے خوشی دو گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے،‘‘ آخرکار اس نے جواب دیا۔ ’’میں نے لوگوں کو اپنے بارے میں مستقل بہت کچھ کہتے سنا ہے۔ جب میں گزرتی ہوں تو لوگ کہتے ہیں: ’دیکھو بن مانس کی محبوبہ جا رہی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں تم میں کوئی حسن نہیں ہے۔‘‘
’’تم کیا محسوس کرتی ہو لیلا؟‘‘
وہ کہتی رہی،’’میں اس حسن کو نہیں جانتی جس کی وہ سب باتیں کرتے ہیں، نہ میں نے کسی بن مانس کو دیکھا ہے، اس لیے میں اس کی پروا نہیں کرتی جو وہ کہتے ہیں۔ اگر وہ یہ کہتے کہ تم دنیا کے سب سے خوبصورت آدمی ہو تو کیا مجھے مختلف لگتا؟ میں نے دنیا کو اپنے دل سے دیکھا ہے۔ میں حسن اور بدصورتی کو اپنے دل سے دیکھتی ہوں۔ تم مسلمان ہو اور میں ہندو ہوں۔ اگر تمھیں کوئی اعتراض نہیں تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں۔ میرا خیال تھا کہ دنیا میں کوئی مجھ سے سچی محبت نہیں کرے گا۔ لیکن...‘‘
’’پھر یہ ’لیکن ‘کیوں؟‘‘ میں نے مضطرب ہو کر پوچھا۔
’’ہاں، بھکارن کے پیشے کے پیچھے ایک بہت بڑا ’لیکن ‘ ہوتا ہے۔اندھی ہوتے ہوے بھی میں نے محبت کرنا چاہی تھی۔ لیکن میرا کاسہ جو دن بھر بھیک مانگنے پر بھی خالی رہتا تھا، میرے اور میری ماں کے خالی پیٹ پر شیطانی ہنسی ہنستا تھا۔ مجھے ان ہوس کے بندوں کے سامنے جھکنا پڑا جو رات کی دہشت میں میری طرف بڑھتے تھے۔ تمھارے مجھ پر خفا ہونے کا کوئی فائدہ نہیں—کوئی مرد ایک جوان عورت کے کاسے میں خیرات کے نام پر کچھ نہیں ڈالتا۔ میں نے تمھاری پہلے پہل کی ہمدردی کو بھی یہی سمجھا تھا۔ مجھے معاف کر دو۔ لیکن آج میں تمھاری سب انسانوں سے زیادہ عزت کرتی ہوں۔‘‘
میں ایک لمحے کے لیے سن ہو گیا۔ چند منٹ خاموشی رہی۔ آخرکار میں نے کہا، ’’لیلا، یہ مرد کی ننگی خودغرضیوں کی کہانی ہے۔ میں اس کے بارے میں اور کچھ نہیں سوچوں گا۔‘‘ وہ خاموش تھی۔
چند روز بعد وہ واقعہ پیش آیا جس نے میرے گاؤں میں ایک سنسنی پیدا کر دی۔ خدا کے کسی نمائندے کی گواہی کے بغیر، اور کسی شخص کی رضامندی حاصل کیے بغیر، وہ اور میں—لیلا اور عبداللہ — ساتھ کھڑے ہوے اور زندگی کے ساتھی بننے کا خاموش اقرار کر لیا۔
ہمارے اردگرد لوگوں کے قہقہے اور بلند ہو گئے۔ جب لیلا اور اس کی ماں میرے ساتھ رہنے کے لیے آئیں تو بہت غل مچا۔
سماج کے خودساختہ محافظ ہمیں مشتبہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ محبت اور شادی کی کہانی کی تہہ میں دو جلتے ہوے دل ہیں۔ میں نے لیلا کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ ’’لیلا، لوگوں کو ہنسنے دو۔ وہ تو پاگل ہیں۔‘‘
ہم ساتھ رہنے لگے۔ میں نہیں کہتا کہ ہماری گھریلو زندگی بہت پرمسرت تھی۔ یہ ہماری انسانیت کی دیوانی خواہش تھی۔ یہ ہماری زندگی تھی۔ سماجی اخلاقیات اور مذہبی عقیدوں نے ہمارے اردگرد ایک دہشت ناک انتقامی فضا پیدا کر دی۔ ہمیں کوئی مدد یا تعاون نہیں ملا۔ ہمیں کوئی خوش فہمی نہیں تھی کہ ہم خوشی سے زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن ہم زندہ رہنا چاہتے تھے اور اپنی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔
اور پھر یہ ہوا—لیلا ماں بننے والی تھی۔ میرا بن مانس ہونا یا لیلا کا اندھاپن کوئی رکاوٹ نہ بنا۔ ہم نے دنیاوالوں کی بکواس اور تضحیک کی کوئی پروا نہیں کی۔ مجھے وہ خوشیاں ملی تھیں جن کی میں نے زندگی میں کبھی توقع نہیں کی تھی۔ میں نے محبت کی، پھر میں شوہر بنا، اور اب باپ بننے والا تھا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ وہ عظیم ہے! لیلا کی بےنور آنکھوں کے لیے اس کا شکر!
لیکن بچے کی پیدائش سے دو ماہ پہلے لیلا بیمار پڑ گئی۔ میں ایک ڈاکٹر کو لے آیا۔ اس نے اس کا معائنہ کیا۔ میں نے اس سے التجا کی کہ لیلا کی جان بچا لے۔ ڈاکٹر نے کہا، ’’کوئی خطرے کی بات نہیں ہے۔ میں اس کا علاج کروں گا۔ ‘‘ کچھ دیر بعد اس نے پوچھا، ’’کیا یہ پیدائش کے وقت سے نابینا ہے؟‘‘ میرے ہاں کہنے پر اس نے اس کی آنکھوں کا پھر سے معائنہ کیا، اور پھر سوچتے ہوے بولا، ’’میں آپریشن کر کے اس کی بینائی واپس لا سکتا ہوں،لیکن اس وقت یہ ناممکن ہے۔ زچگی کے بعد جب اس کی صحت ٹھیک ہو جائے گی تب۔‘‘
ڈاکٹر کے لفظوں نے میرے دل، میری جوانی اور میری زندگی کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ کہتا ہے کہ لیلا کی آنکھوں کو روشنی دے سکتا ہے! جب وہ دیکھ سکے گی تو کیا وہ مجھے دیکھ کر کانپ نہ اٹھے گی، جسے وہ ایک ایسا آدمی سمجھتی ہے جو ایک دل رکھتا ہے اور محبت کے قابل ہے؟ جب اسے نظر آنے لگے گا تو وہ پھر بھی مجھے محبت اور عزت دیتی رہے گی؟ مجھے ڈاکٹر سے کیا کہنا چاہیے؟ ’’نہیں، اس کی آنکھوں کو بینائی کی ضرورت نہیں، ‘‘ میں نے چلانا چاہا۔ لیکن میں نے کہا یہ کہ، ’’لیلا، ڈاکٹر کہتا ہے کہ تمھارا اندھاپن ٹھیک ہو سکتا ہے۔‘‘
جو کچھ وہ سن چکی تھی میں اسے میکانکی طور پر دُہرا رہا تھا۔ میں اسے کیسے سمجھاتا کہ اس کی بینائی کے لوٹنے سے میری زندگی کی جڑ کٹ جائے گی۔ آدمی اپنی بینائی برقرار رکھنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا۔ کیا یہ کسی کی خوش قسمتی نہیں کہ اس کا پیدائشی اندھاپن ٹھیک ہوجائے؟ لیلا، جو میرے دل کو پوری طرح سمجھتی تھی، میرے دنیاوی رخ سے ناواقف تھی۔ وہ بولی، ’’اگر میری آنکھیں ٹھیک ہو سکیں تو بہت اچھا ہو گا۔ کیا تمھیں خوشی نہیں ہوئی؟ اگر میں تمھیں دیکھ سکوں تو مجھے پتا ہے تم مجھ سے اور بھی زیادہ محبت کرنے لگو گے۔‘‘
اس کا چہرہ بیماری میں بھی مسرت سے دمک رہا تھا۔ کیا یہ صرف اس لیے تھا کہ وہ ایک نئی زندگی کو جنم دینے جا رہی تھی؟
ڈاکٹر نے مجھے ایک نسخہ دیا اور دوا کے بارے میں ہدایات دیتے ہوے لیلا سے کہنے لگا، ’’زچگی کے بعد جب صحت یاب ہو جاؤ تو میرے پاس آنا۔ پھر میں تمھیں آپریشن کے بارے میں اور بتاؤں گا۔‘‘
لیلا پرسکون تھی لیکن مجھ میں ایک طوفان برپا تھا؛ میرا ذہن شدید خیالات سے جل رہا تھا۔ میں برآمدے کے کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ مجھے صرف اپنے اس چھوٹے سے جھونپڑے ہی میں سکون ملتا تھا۔ اب یہ سکون بھی غارت ہونے والا تھا۔ میری دنیا بہت چھوٹی سی تھی۔ ’’نہیں، کبھی نہیں! تم کبھی لیلا کی آنکھوں کو روشنی نہیں دو گے۔ ڈاکٹر، تم نے میرے دشمنوں کے ساتھ مل کر مجھے قتل کرنے کی سازش کی ہے۔ لیکن اس سے پہلے میں تمھیں قتل کر دوں گا۔ تم نے ہماری زندگیوں میں آگ کیوں بھر دی؟ نہیں، تمھارا بھی کیا قصور؟ تمھیں تو بیماریوں کے خلاف لڑنا ہے۔ اندھاپن بدترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ تم اس سے کیسے بےپروا رہ سکتے ہو؟ تم اس کو بینائی دے سکتے ہو۔ میری لیلا دیکھنے لگے گی۔ خدا اسے بھی اس عظیم نعمت سے نوازے جو ہر انسان کو ملنی چاہیے۔ لیکن اس سے پہلے مجھے خاک میں مل جانا ہو گا، اس سے پہلے کہ وہ ’بن مانس‘ کا مطلب جان پائے! تب میں اس کے حافظے میں محبت بھرے ایک آدمی کی طرح زندہ رہ سکوں گا۔ کیا میرے لیے اس کی محبت اور مجھ میں اسے نظر آنے والا حسن ہمیشہ قائم رہ سکے گا؟‘‘ میرا دل رورہا تھا۔
لیلا نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔ سماج ایک ناجائز بچے کی پیدائش پر پریشان تھا۔ کچھ لوگ گدھوں کی طرح ہنسنے لگے۔ کیا یہ مزیدار بات نہیں تھی؟ ایک بدہیئت باپ اور اندھی ماں سے پیدا ہونے والا بچہ معصوم تھا۔ اسے لیلا کی صورت اور میری آنکھیں ملی تھیں۔ یہ کس کی خوش قسمتی تھی؟
لیلا صحت یاب ہو گئی۔ تب اس نے مجھے اس بات کی یاد دلائی جسے میں خودغرضی سے فراموش کرنے لگا تھا۔ ’’چلو چل کر ڈاکٹر سے ملیں !‘‘ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے لفظوں نے میرے دل میں کیسا طوفان برپا کر دیا ہے۔ میں نے اس سے جھوٹ بولا، ’’ہاں، میں بھول گیا تھا۔آج میں جا کر اس کا پتا چلاؤں گا۔‘‘ میں جانتا تھا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ میں خود کو بیچ سمندر میں ڈبکیاں کھاتے ایک شخص کی طرح محسوس کر رہا تھا۔ میں باہر چلا گیا اور جب چند گھنٹے بعد لوٹا تو اس سے کہا، ’’ڈاکٹر مر گیا ہے!‘‘ میں صرف یہی کہہ سکا۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ شاید میں یہ بھی نہ کہہ سکوں۔ میں، اس کے شوہر کی حیثیت سے، اس ڈاکٹر کی موت پر غمزدہ ہونے کا سوانگ نہ رچا سکا جس نے لیلا کے اندھےپن کو ٹھیک کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مجھے اپنے اذیت زدہ دل میں ظلم اور خودغرضی سے پیدا ہونے والے ایک راز کو محفوظ رکھنا تھا۔ یہ ایک ناقابلِ برداشت بوجھ تھا۔ میں نے اپنی سلامتی کے لیے جو کچھ کیا اس نے میرے ذہنی سکون کو ہمیشہ کے لیے تباہ کر دیا تھا۔
جلتے ہوے دن گزرتے رہے۔
ایک روز جب میں گھر واپس آیا تو ایک دل چیر دینے والا منظر دیکھا۔ لیلا کی ماں کمرے کے فرش سے تانبے کے ایک بڑے سے برتن کو اٹھانا بھول گئی تھی۔ لیلا اپنے روتے ہوے بچے کے پنگوڑے کی طرف لاٹھی کے بغیر دوڑتے ہوے اس برتن سے ٹکرا کر گر پڑی تھی۔ اس کا سر دہلیز سے ٹکرا گیا تھا۔ خون بہہ رہا تھا۔ میں اسے فوراً ہسپتال لے گیا۔
زندگیاں ختم ہو رہی تھیں۔ کیا آپ اب بھی ہنسنا چاہتے ہیں؟ اب مجھے کوئی شکایت نہیں — اور میری شکایتوں کی پروا بھی کسے ہے؟
لیلا—میری زندگی ، میری دنیا۔ ایک ڈاکٹر نے مجھے بلایا اور کہا، ’’یہ ضرور بہت شدید چوٹ ہو گی۔ زخم بہت خطرناک ہے۔‘‘ میں لیلا کے پاس گیا۔ وہ درد سے کانپ رہی تھی۔ میں نے اس کو پکارا۔ وہ سسکیاں لیتے ہوے کہنے لگی، ’’تم آ گئے؟ میں جا رہی ہوں۔ کاش میں ایک مرتبہ تمھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتی۔‘‘
لیلا کی آخری خواہش مجھے اپنی برداشت کا امتحان معلوم ہوئی۔ کیا اسے غم تھا کہ ڈاکٹر مر گیا؟ وہ چپ تھی۔
’’لیلا،‘‘ میں نے اسے کہا، ’’مجھے آنکھوں سے دیکھنا اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ کیا تم نے مجھے اپنے وسیع اور شفاف دل سے نہیں دیکھا ہے؟ اس دنیا میں صرف تمھی تو ہو جس نے مجھے دیکھا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔ اور تم اطمینان رکھو میری جان، تم بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گی۔‘‘
لیلا میری بات سنتی رہی، اور پھر ایک وقفہ آیا۔ روشن سورج غروب ہو رہا تھا۔ لیلا رونے لگی۔ میں اذیت میں تھا۔ میرا خوفناک راز کھل جانے کے لیے بےتاب تھا۔ میں وہاں اور کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔ لیلا کی ماں آئی اور اس نے بچے کو اس کے پہلو میں لٹا دیا۔ چھوٹا سا بچہ رونے لگا۔ شاید افسردہ ماحول سے اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ لیلا کی ماں بھی رونے لگی۔ میں بےبسی محسوس کرنے لگا۔
لیلا کی شفاف روح نے آہستہ آہستہ اس کا ساتھ چھوڑا۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کیا کیا۔ ایک دل کی دھڑکن بند ہو گئی، دوسرے دل پھٹ گئے۔
سورج اب مکمل طور پر غروب ہو چکا تھا اور اندھیرا پھیل چکا تھا۔
لوگ جو میری بدہیئتی اور میری محبت کی عجیب کہانی کے نیچے لہروں کا ادراک نہیں کر سکتے اب بھی مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں: میری کہانی کیسی ہوتی اگر میں بھی اندھا ہوتا؟

افضال احمد سید


حکایت

صبح ہوچکی تھی، اس احساس پہ اس کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ اس نے بستر پہ کروٹ بدلی—یہ کروٹ ازخود بےحد شائستہ تھی کیونکہ اس کا احساس کبھی اس سے مبرّا نہیں ہوا کہ پلنگ کے تختے بےتوجہی کے متحمل نہیں اور چوکھٹوں سے جدا ہو جاتے ہیں۔ سورج کی کرنیں اس کے بدن میں پیوست ہو رہی تھیں جیسے سورج، جو خانہ بدوشوں اور رتھ سواروں سبھی کا ہے اور جسے دوسری مصلحتوں کی بنا پر اب کوئی خدا نہیں کہتا، اسے کرنوں کے نیزوں پہ اٹھانے والا ہو۔ یہی کرنیں اس کی آنکھوں میں چبھ رہی تھیں، اور اسی سبب سے صبح کے واقع ہو جانے کے احساس پہ اس کی گرفت بہت مضبوط تھی، اور اسی سبب سے وہ اپنی بینائی کھو دینے کے احساس کو بےگرفت نہیں کر پا رہا تھا۔ اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا،اور صبح ہو چکی تھی۔
جیسا کہ اس کہانی کے سننے والے اپنی خداترسی یا نیک نفسی کے زیراثر متوقع ہوں گے کہ آگے چل کر کسی لغرش یا کسی معجزے کے تحت اس آدمی کی بینائی بحال ہو جائے گی—غلط ہے۔
جب اس شخص کو اپنی بینائی کھو دینے کی اطلاع کی تردید کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی، کیونکہ تاریکی خود تاریکی کی دلیل ہے، تو اس نے بہت کچھ کرنا چاہا ہو گا؛ ایسے ردعمل جو کوئی شخص بھی کسی حادثے کے دوران یا اس کے بعد کرتا ہے—رونا، چیخنا، ہاتھ پاؤں پٹکنا، خدا سے بدظن ہونا اور خودکشی پر صاد کرنا۔ ان مراحل سے وہ آدمی جو کہانیوں میں نہیں بیان کیے جاتے بہت عرصے میں گزر پاتے ہیں، مگر وہ ان سے بےانتہا سرعت سے گزر گیا اور پھر اس نے بےحد شائستہ کروٹ بدلی، کیونکہ بہرحال اس کی پلنگ کے تختے بےتوجہی کے غیرمتحمل تھے، اور اسی پلنگ پہ اس کی دسترس میں وہ عورت سو رہی تھی جو اس کی بینائی سے حاملہ ہوئی۔ اس نے چاہا کہ وہ عورت پہ اپنی کیفیت کھول دے، مگر اس نے خود کو دریافت ہو جانے پہ چھوڑ دیا۔ عورت اب جاگنے والی ہے۔ آخر صبح ہو چکی ہے۔
جیسا کہ اس نے چاہا تھا، اس کی بینائی کا گم ہو جانا اس کی عورت پہ رونما ہو گیا، اس کے پڑوسیوں پہ رونما ہو گیا، اس کے رشتہ داروں، دوست احباب، اس کے ماتحتوں، اس کے حکامِ بالا، سب پہ رونما ہو گیا، اور اگر اس کی کوئی ماں رہی ہو گی تو اس پر بھی رونما ہو گیا ہو گا۔ پھر سب کچھ بدستور ہو گیا۔ اسے ایک قلیل وظیفے پہ روزگار سے دستبردار کر دیا گیا۔ اس کی عورت روزگار سے لگ گئی۔
پھر ایک دن اس نے اپنی عورت سے کہا کہ وہ گھر تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ گھر چھوڑ دیا گیا۔ بہت دنوں بعد عورت پہ منکشف ہوا کہ اس سے یادداشت کے سہارے زینے طے نہیں ہوتے تھے، وہ گنتیاں بھول چکا تھا۔
اس کی عورت نے، جس کے حمل سے ہونے کا واقعہ مذکور ہو چکا ہے، ایک دن ایک بچی جنی۔ وہ آدمی اس موقعے پہ خوشی میں اتنا بےاختیار ہوا جتنا کہ کوئی اور باپ، جو اپنی بچی کو دیکھنے پر قدرت رکھتا ہو۔ بہت دنوں کے بعد اسے تاریکی کی دلیل رد ہوتی ہوئی معلوم ہوئی۔ اس کی بچی اپنی دونوں آنکھیں روشن رکھتی تھی۔
اس نے انگلیوں سے ٹٹول کر اپنی بچی کے نقوش جاننے کی کوشش جاری رکھی تھی کہ کسی نے اسے بتایا کہ بچی اس کی ہم شکل ہے، اور وہ اس اطلاع پہ خوش ہوا۔ عین اسی لمحے اسے خیال آیا کہ اس کی شکل کیسی تھی—اور عین اسی لمحے اس پر ظاہر ہوا کہ وہ اپنی صورت گم کر چکا ہے۔ اس نے دنوں تک غور کیا اور مایوس ہوتا رہا۔ وہ اپنی عورت، اپنے پڑوسیوں، دوستوں، رشتہ داروں، سب سے اپنے نقوش کی بازیافت کا متقاضی ہوا۔ بہت سی یادیں جو متحرک ہونے سے روک دی گئی تھیں، بےقابو ہو گئیں۔ مگر بہرحال اسے اپنی شکل نہیں یاد آئی اور اب کوئی معجزہ ہی اسے اس کے خدوخال لوٹا سکتا تھا۔ اب تک معجزوں پہ اس کا اعتبار قائم رہنے کی کوئی وجہ کہانی کہنے والے کی سمجھ میں نہیں آتی۔
بارہا جب اس کی عورت غیرحاضر ہوتی، اس کا دل چاہتا کہ وہ اپنی بچی کا گلا گھونٹ دے تاکہ کوئی اسے اس کی ہم شکل نہ کہہ سکے، مگر وہ اتنی جرأت کو منطق سے صحیح ثابت نہیں کر سکا۔
سمندر کے کنارے چھوٹے سے مکان میں ایک تبدیلی اس کی زندگی میں داخل ہوئی۔ ایک لڑکی جسے اس نے عنفوانِ شباب میں چاہا ہو گا، اس کی موجودہ حالت سے باخبر ہوئی، اور ایک دن اپنے مرد اور بچوں کے ساتھ اس نے سمندر کے کنارے ایک چھوٹے سے مکان کو مشرف کیا۔ اسی دن اس کی عورت، اور دوسری عورت کے مرد نے مشاہدہ کیا کہ دوسری عورت کے بچے معجزانہ طور پہ اس آدمی کے ہم شکل ہیں جس کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ جتنی حیرت سے یہ مشاہدہ کیا گیا، اتنے ہی تکلف سے اس سے قطعِ نظر کیا گیا۔ پھر کسی تہوار پر دوسری عورت کے مرد نے اپنی ذات اور اپنی عورت کی طرف سے بینائی گم کردہ آدمی کو ایک کتا ہدیہ کیا۔ ہر بینائی گم کردہ شخص کے پاس جلد یا بدیر ایک کتا پہنچ جاتا ہے۔ اس نے کتے کا نام اپنے نام پر رکھ دیا۔
پھر اسے کتے میں یہ دلیری حاصل ہوئی کہ وہ اسے ساتھ لے کر ساحلِ سمندر پر ٹہلتا رہتا اور شام کو گھر واپس آ جاتا، جہاں ایک عورت ایک بچی کا ہاتھ تھامے اس کی منتظر رہتی۔
کہانی کہنے والے کو یہ نہیں معلوم کہ آیا یہ سب کچھ اسی طرح ہوتا رہا، یا اس کا سمندر بستیوں پر چڑھ آیا، یا اس کا کتا کٹکھنا ہو گیا، یا اس کی بیوی یا بچی یا دونوں بدچلن نکل گئیں، گھر سے بھاگ گئیں، یا مر گئیں۔ قلم اور سیاہی سے کہی جانے والی کہانی کو وہیں پر ختم سمجھا جائے جہاں اسے ختم کر دیا گیا۔

انتخاب

خورخے لوئس بورخیس
JORGE LUIS BORGES

بورخیس: ایک تعارف


ہسپانوی زبان کا عظیم اور شہرت یافتہ ادیب خورخے لوئس بورخیس 24 اگست 1899 کو بیونس آئرس، ارجنٹینا، میں پیدا ہوا۔ اس کے اجداد انیسویں صدی میں ارجنٹینا کی قومی آزادی کی جدوجہد میں فوجی اور سیاسی طور پر شریک رہے تھے۔ یوروپ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ اسپین کے آواں گارد ادیبوں سے شناسا ہوا اور 1921 میں اپنے ملک واپسی پر اس نے اسپین کی ULTRAISM کی تحریک کو متعارف کرایا۔ 1930 تک وہ مختلف جریدوں کی ادارت میں شریک رہا اور بیونس آئرس کے پس منظر میں نظمیں لکھتا رہا۔ 1935 میں اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ A UNIVERSAL HISTORY OF INFAMY شائع ہوا اور اس کے بعد کی دہائی میں اگلے دو مجموعے FICCIONES اور EL ALEPH چھپے جو اس کی شہرت کی بنیاد ثابت ہوے۔ انگریزی میں اس کے ترجمے 1960 کے بعد ہوے۔ اس کی تحریروں کو کئی بین الاقوامی اعزازات مل چکے ہیں۔ بورخیس نے مختلف موضوعات پر بہت سے تخلیقی مضامین بھی لکھے ہیں، اور بیونس آئرس اور کیمبرج کی یونیورسٹیوں میں اینگلوسیکسن ادب پر لیکچر دے چکا ہے۔ 1955 سے لے کر اب سے کچھ برس پہلے تک وہ ارجنٹینا کی نیشنل لائبریری کا ڈائرکٹر رہا۔ اب اپنی بینائی کے رفتہ رفتہ زائل ہو جانے کے بعد وہ بیونس آئرس میں رہتا ہے اور اپنے زندگی بھر کے محبوب موضوعات پر کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتا ہے جو پہلے دور کی تحریروں کی طرح پیچیدہ نہیں ہوتیں۔
بورخیس کی تحریروں کا موضوع تقدیر اور انسان کے درمیان شطرنج کا ایک طویل کھیل ہے جس میں دونوں اگلی چال چلنے کے لیے دوسرے فریق کے محتاج ہیں۔ اس کے کرداروں کو احساس ہے کہ وہ ایک ہار جانے والی جنگ لڑ رہے ہیں، اس لیے بورخیس کی کہانیاں ٹریجک ہیں۔ یوں اس احساس سے وہ جرأت بھی پیدا ہو سکتی ہے ’جو تقدیر کو ایک انسانی معاملہ بنا دیتی ہے جسے انسانوں کے درمیان طے ہونا ہے۔‘ اس تشکیک سے بورخیس اس تحیر تک پہنچتا ہے جو سارے مذاہب اور فلسفوں کی ابتدا ہے، اگرچہ وہ ایک نی ہی لسٹ ہے اور اسے کسی بھی نظام فکر کے صرف جمالیاتی پہلو سے دلچسپی ہے۔
بورخیس کی تحریروں کی خصوصیت حیران کن ذہانت، ایجاد کی فراوانی، ان کا کسا ہوا، تقریباً ریاضیاتی اسلوب ہے۔ اپنی اس اوریجنل فارم کو وہ فکشن (FICCIONE) کا نام دیتا ہے جس میں وہ کسی کہانی، مضمون یا کسی فرضی مصنف کی تحریروں پر تبصرے کی شکل میں انفی نٹی (INFINITY) سے کھیلتا ہے۔ وقت، امکانات اور لامتناہیت کے ساتھ یہ کھیل جتنا پیچیدہ ہو، بورخیس کی مسرت اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ اس نے حکایات (PARABLES) بھی لکھی ہیں جو اختصار اور ایمائیت کا کمال ہیں۔
بورخیس لکھنے والوں میں ایک بہت بڑا پڑھنے والا ہے، جو اسی کے الفاظ میں بڑے لکھنے والے سے بھی نایاب جنس ہے۔ اس نے قدیم ترین مذہبی منقولات سے لے کر ڈٹیکٹو اسٹوری تک سب کچھ پڑھا ہے۔ وہ وقت اور فاصلے سے بےنیاز انسانی فکر کے وقیع ترین دھاروں میں تیرتا ہے۔ اسی لیے پیدائش اور مزاج کے اعتبار سے ارجنٹینا کا ہوتے ہوے بھی اس کا کوئی روحانی وطن نہیں۔ وہ اپنی تحریروں پر بہت سے لکھنے والوں کے اثرات کو تسلیم کرتا ہے، اور اسے اپنے اوریجنل ہونے پر سب سے کم اصرار ہے۔ ایڈگر ایلن پو کے بارے میں کہی جانے والی بات بورخیس کے لیے شاید زیادہ صحیح ہے کہ جینیئس مستعار لینے سے کبھی نہیں گھبراتا کیونکہ وہ اس قرض کو اپنے سکے میں ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
وہ کافکا، آندرے ژید، ورجینیا وولف اور ولیم فاکنر کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کر چکا ہے۔
بورخیس کا مضمون THE ARGENTINE WRITER AND TRADITION اس کے ادبی خیالات پر بہت خوبی سے روشنی ڈالتا ہے لیکن اس کا ترجمہ اس انتخاب میں بوجوہ شامل نہیں کیا جا سکا۔ اس کی مختلف تحریروں سے لیے گئے مندرجہ ذیل اقتباسات اس کا زیادہ دیانتدارانہ تعارف ہیں:
’’میرے پڑھنے والے کو بعض صفحات میں ایک فلسفیانہ محویت کا احساس ہو گا۔ یہ میرے ساتھ بچپن سے ہے جب میرے باپ نے ایک شطرنج کی بساط کی مدد سے (جو مجھے یاد پڑتا ہے بلوط کی لکڑی کی تھی) مجھے کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا پیراڈوکس سمجھایا تھا... کسی گلی یا نیشنل لائبریری کی گیلری سے گزرتے ہوے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی شے میرے اندر صورت پذیر ہونے کو ہے۔ یہ شے کوئی کہانی بھی ہو سکتی ہے اور نظم بھی۔ میں اسے گوندھتا نہیں بلکہ خود اپنا راستہ بنانے دیتا ہوں۔ اسے اپنی شکل اختیار کرتے دور سے دیکھتا رہتا ہوں۔ مجھے آغاز اور انجام تو دھندلے سے نظر آتے رہتے ہیں لیکن درمیان کا اندھیرا خلا نہیں۔ یہ درمیانی حصہ مجھے رفتہ رفتہ ملتا ہے۔ اگر اس کا انکشاف دیوتاؤں کے ہاتھوں روک لیا جائے تو میری شعوری ذات کو مداخلت کرنی پڑتی ہے، اور یہ ناگزیر تدبیر میرے خیال میں میرے کمزورترین صفحات ہوتے ہیں...میں منتخب اقلیت کے لیے نہیں لکھتا جو میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی، نہ میں اس خوشامدیافتہ افلاطونی ENTITY کے لیے لکھتا ہوں جسے عوام کہا جاتا ہے۔ میں ان دونوں تجریدوں پر یقین نہیں رکھتا۔ میں اپنے لیے اور اپنے دوستوں کے لیے لکھتا ہوں اور میں وقت کے گزرنے کو سہل بنانے کے لیے لکھتا ہوں... میرے سیاسی عقائد عام طور پر معلوم ہیں۔ میں کنزرویٹو پارٹی کا ممبر ہوں، جو بجاے خود ایک طرح کی تشکیک ہے... میرا یقین ہے کہ ہم ایک روز اس کے مستحق ہو جائیں گے کہ حکومتیں نہ رہیں۔ میں نے اپنے خیالات کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا، آزمائش کے دنوں میں بھی نہیں، لیکن میں نے انھیں ادبی تحریروں میں در آنے کی بھی اجازت نہیں دی... لکھنے کا فن پراسرار ہے اور ہمارے نظریات قلیل زندگی رکھتے ہیں... سیاسی یا مذہبی عقائد کی طرح ادبی نظریات بھی محرکات سے زیادہ نہیں۔ یہ ہر ادیب کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ وٹمین کا قافیے سے چھٹکارا حاصل کرنا درست تھا، لیکن یہ نفی وکٹر ہیوگو کے لیے احمقانہ ہوتی...
’’ادب شاعری سے شروع ہوتا ہے اور نثر کے امکان تک پہنچنے میں اسے صدیاں لگ جاتی ہیں... لفظ ابتدا میں ایک ساحرانہ علامت رہا ہو گا جو وقت کی سودخوری کے ہاتھوں گِھس کر رہ گیا۔ شاعر کا مشن یہ ہونا چاہیے کہ وہ لفظ کو اور اس کی ابتدائی (اور اب مخفی) قوت کو بحال کرے، خواہ جزوی طور پر ہی سہی۔ ہر نظم پر دو باتیں لازم آتی ہیں: ایک تو کسی محدود لمحے کی ترسیل اور دوسرے ہمیں جسمانی طور پر چھونا، جیسے سمندر چھوتا ہے...
’’اندھا پن ایک قید ہے۔ لیکن یہ ایک آزادی بھی ہے۔ ایک تنہائی جو ایجاد کو راس ہے، ایک کلید اور ایک الجبرا۔‘‘

اگلے صفحات میں آپ بورخیس کی تحریروں کا ایک مختصر اور نامکمل انتخاب دیکھیں گے جس میں اس کی کہانیاں، حکایات اور ایک مضمون شامل ہے۔ ان سب کا تعلق اس کے شروع کے دور سے ہے۔ اگلی کتاب میں اس کی دوسرے دور کی کہانیوں اور نظموں کا انتخاب پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
کوئی دو زبانیں، بورخیس کہتا ہے، ایک دوسرے کے متبادل مترادفات کا مجموعہ نہیں ہوتیں بلکہ وہ حقیقت کو دیکھنے اور مرتب کرنے کے دو ممکنہ طریقے ہیں۔ اردو میں بورخیس کی ایک کہانی کا ترجمہ اسد محمد خاں نے کیا ہے اور ایک حکایت کا صلاح الدین محمود نے۔ باقی ترجمے میں نے کیے ہیں۔ یہ ترجمے مجبوراً کیے گئے ہیں کیونکہ مجھ سے زیادہ اس کی اہلیت رکھنے والے لوگوں میں سے بعض اپنے ذمے لینے کے باوجود اس کام پر خود کو آمادہ نہ کر سکے۔ اپنے کیے ہوے ترجموں کے ناقص ہونے کے اعتراف کے ساتھ ہی مجھے یہ اطمینان بھی ہے کہ انگریزی میں بھی بورخیس کی بہت سی تحریروں کے ایک سے زیادہ بار ترجمہ کیے جانے کی روایت موجود ہے۔
— اجمل کمال

JORGE LUIS BORGES
ELEGY

OH DESTINY OF BORGES
TO HAVE SAILED ACROSS THE DIVERSE SEAS OF THE WORLD
OR ACROSS THAT SINGLE AND SOLITARY SEA OF DIVERSE NAMES,
TO HAVE BEEN A PART OF EDINBURGH, OF ZURICH,
OF THE TWO CORDOBAS,
OF COLUMBIA AND OF TEXAS,
TO HAVE RETURNED AT THE END OF CHANGING GENERATIONS
TO THE ANCIENT LANDS OF HIS FORBEARS,
TO ANDALUCIA, TO PORTUGAL AND TO THOSE COUNTRIES
WHERE THE SAXON WARRED WITH THE DANE
AND THEY MIXED THEIR BLOOD,
TO HAVE WANDERED THROUGH THE RED AND TRANQUIL LABYRINTH OF LONDON,
TO HAVE GROWN OLD IN SO MANY MIRRORS,
TO HAVE SOUGHT IN VAIN THE MARBLE GAZE OF THE STATUES,
TO HAVE QUESTIONED LITHOGRAPHS, ENCYCLOPEDIAS, ATLASES,
TO HAVE SEEN THE THINGS THAT MEN SEE
DEATH, THE SLUGGISH DAWN, THE PLAINS,
AND THE DELICATE STARS,
AND TO HAVE SEEN NOTHING, OR ALMOST NOTHING
EXCEPT THE FACE OF A GIRL FROM BUENOS AIRES
A FACE THAT DOES NOT WANT YOU TO REMEMBER IT,
OH DESTINY OF BORGES,
PERHAPS NO STRANGER THAN YOUR OWN.

TRANSLATED FROM THE SPANISH BY DONALD A. YATES

خورخے لوئس بورخیس

انگریزی سے ترجمہ:اسد محمد خاں

دستِ خداوند کی تحریر

قیدخانے کی عمارت بلند ہے اور پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ اس کی شکل تقریباً ایک کامل نصف کرے کی ہے، کیونکہ فرش نے، جو پتھر کا ہے، نصف کرے کو اس کے انتہائی ممکنہ قطر سے ذرا وپر کاٹ دیا ہے۔ اس طرح عمارت کے پھیلاؤ، اس کے جبر کا تاثر کچھ اور گہرا ہوگیا ہے۔ ایک دیوار عمارت کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرتی ہوئی اوپر تک چلی گئی ہے؛ یہ اگر چہ بہت بلند ہے لیکن عمارت کی محرابی چھت تک نہیں پہنچتی۔ دیوار کے ایک طرف میں موجود ہوں، تزیناکن—قہولوم کے اس ہرم کا مہنت جسے پیدرو دی الویریدو نے نذرِ آتش کر دیا تھا—اور دوسری جانب ایک گُلدار ہے جو اپنی اسیری کے زمان ومکاں کو رازدارانہ اور ہموار قدموں سے ناپتا رہتا ہے۔ فرش کی سطح پر بیچ کی دیوار کو چھیدتی ہوئی ایک لمبی کھڑکی ہے جس میں سلاخیں جڑی ہیں۔اس ایک ساعت (نصف النہار) میں کہ جب سائے نہیں ہوتے، چھت میں ایک دروازہ کھلتا ہے اور ایک جیلر جو گزرتے برسوں کے ساتھ گلتا، معدوم ہوتا جا رہا ہے، لوہے کی ایک چرخی کو حرکت دیتا ہے اور ہمارے لیے رسے کے سرے پر بندھے پانی کے مرتبان اور گوشت کے ٹکڑے اتار دیتا ہے۔ تب گنبد میں روشنی داخل ہوتی ہے۔ اس ایک لمحے میں میں گلدار کو دیکھ سکتا ہوں۔
میں جتنے برس تاریکی میں پڑا رہا ان کا شمار بھول چکا ہوں۔ ہرچند کہ میں کبھی جوان تھا اور اس قیدخانے میں چل پھر سکتا تھا؛ اب میں کچھ نہیں کرتا، بس اپنی موت کی مُدرا میں انتظار کرتا ہوں، اس خاتمے کا جو الہٰوں نے میرے لیے تیار کر رکھا ہے۔ میں نے اپنے وقت میں چقماق کے لانبے خنجر سے قربان کیے جانے والوں کے سینے چاک کیے ہیں، مگر اب کسی افسوں کے بغیر میں خود کو خاک سے اٹھا بھی نہیں سکتا۔
ہرم کی آتش زنی سے پہلے والی رات میں، اُن آدمیوں نے جو بلندقامت گھوڑوں سے اترے تھے، ایک کنزِ مخفی کا پتا معلوم کرنے کے لیے مجھے تپا کر سرخ کی ہوئی دھات سے پیٹا۔ میری آنکھوں کے سامنے انھوں نے خداوند کے مجسمے کو گرا دیا، مگر اُس نے مجھے بےیارومددگار نہیں چھوڑا اور میں ان کی اذیتوں تلے بھی خاموش رہا۔ انھوں نے مجھے چیر دیا، مجھے ضربیں پہنچائیں، میرے ہاتھ پاؤں توڑ دیے، اور پھر اس قیدخانے میں میری آنکھ کھلی جس سے اس فانی زندگی میں مجھے چھٹکارا نصیب نہیں ہو گا۔
وقت گزارنے کی خاطر، کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت سے مجبور ہو کر، میں نے فیصلہ کیا کہ اس اندھیرے میں وہ سب کچھ یاد کروں جو میں جانتا ہوں۔ بعض سنگی اژدروں کی ترتیب اور تعداد، یا افسوں سازی کے کسی درخت کی شکل یاد کرنے میں میں نے پوری پوری راتیں ضائع کر دیں۔ اس طرح میں نے برسوں پر فتح پائی اور وہ سب جو میری مِلک تھی، اس کا قبضہ حاصل کیا۔ ایک رات میں نے محسوس کیا کہ میں ایک قطعی یادداشت کے قریب پہنچ رہا ہوں۔ سمندر کو دیکھنے سے قبل مسافر اپنے لہو میں ایک ہیجان محسوس کرتا ہے۔ گھنٹوں بعد میں نے کہیں دور اس یاد کی موجودگی کا ادراک کرنا شروع کیا۔ یہ خداوند سے متعلق ایک روایت تھی۔ تخلیق کے پہلے دن، ایک پیش آگہی سے جان کر کہ وقت کے خاتمے پر بڑی بدنصیبی اور تباہی برپا ہو گی، خداوند نے ایک ایسا کلمۂ سحر تحریر کر دیا تھا جو ان بلاؤں کے رد کی تاثیر رکھتا تھا۔ اس نے یہ کلمہ اس طور لکھا تھا کہ انتہائی دوردراز نسلوں تک پہنچے اور اتفاقِ محض سے متاثر نہ ہو سکے۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس جگہ اور کن حروف میں یہ کلمہ لکھا گیا ہے، لیکن یقینِ کامل ہے کہ یہ راز ہی رہے گا اور بلاشبہ کوئی چنندہ انسان ہی اسے پڑھے گا۔ میں نے غور کیا کہ ہمیشہ کی طرح ہم ایک یُگ کے اختتام پر ہیں اور کیونکہ خداوند کا آخری مہنت ہونا میرا مقدر ہے، سو عین ممکن ہے کہ مجھے ہی اس لکھت کا رمز پڑھنے کی سعادت نصیب ہو۔ ہرچند کہ میں قیدخانے میں پڑا تھا مگر اس حقیقت کا احساس مجھے امید سے محروم نہ کر سکا۔ شاید میں نے قہولوم میں ہزار دفعہ یہ تحریر دیکھی ہو گی، اور میں شاید اسے سمجھنے سے قاصر رہا ہوں۔
اس خیال نے مجھے حوصلہ دیا، مجھے عجیب طرح خیرہ و سرشار کر دیا۔ زمین کی حدود میں ایسے قدیم و کہنہ اجسام اپنا وجود رکھتے ہیں جن میں کوئی بگاڑ نہیں پیدا ہو سکتا —جو لافانی ہیں۔ تو ممکن ہے انھی میں سے کوئی جسم وہ علامت ہو جسے میں ڈھونڈتا ہوں۔ ایک پہاڑی خداوند کا لفظ ہو سکتی ہے؛ اسی طرح ایک دریا، ایک سلطنت، یا ستاروں کی ترتیب — لیکن صدیوں کے دورانیے میں پہاڑیاں ہموار ہو جاتی ہیں، دریا اپنی گزرگاہیں بدل لیتے ہیں، سلطنتیں پامال ہوتی اور تغیر کا شکار ہو جاتی ہیں، ستاروں کی ترتیب بدل جاتی ہے۔ آسمان میں ایک تبدّل ہے۔ پہاڑیاں ثابت و سیّار افراد ہیں، اور افراد معدومیت کی زد پر ہوتے ہیں۔ میں نے زیادہ مستحکم چیزوں کی تلاش شروع کی، کسی ایسی چیز کی جو کم غیرمحفوظ ہو۔ میں نے اناجوں کی نسلوں، اور گھاس، چڑیوں اور انسانوں کی پیڑھیوں کے بارے میں سوچا۔ شاید یہ افسوں میرے چہرے پر لکھا ہو گا۔ شاید اپنی تلاش کا مقصود میں خود ہوں۔ میں اس گتھی کے الجھاوے میں تھا—اچانک مجھے یاد آیا کہ خداوند کی صفات میں سے ایک صفت یہ گلدار ہے۔
اور تب میری روح تکریم و تقدیس سے معمور ہو گئی۔ میں نے شروعاتِ وقت کی اُس پہلی صبح کا تصور کیا۔ میں نے تصور کیا کہ میرا خداوند گلداروں کی زندہ کھال کو یہ ابدی پیغام تفویض کر رہا ہے۔ گلدار لاتعداد بار جفتی کریں گے، غاروں گپھاؤں میں، آبی گھاس کے قطعوں پر، جزیروں میں اپنے جیسوں کو جنتے رہیں گے تاآنکہ آخری آدمی تک یہ پیغام پہنچ جائے۔ میں گلداروں کے اس تسلسل کو، پیچیدگی کے اس سیلِ گرم کو اپنے تصور میں لایا، خیال کیا کہ یہ تسلسل جو چراگاہوں، گلّوں میں دہشت پھیلائے ہوے ہے، یہ اس لیے ہے کہ ایک غایتِ خداوندی کو محفوظ رکھا جا سکے۔ تو دوسرے حصے میں ایک گلدار تھا۔ میں نے معلوم کر لیا کہ یہ موجودگی میرے قیاس کی تصدیق ہے، ایک رازدارانہ عنایت ہے۔
میں نے طویل برس اس گلدار کی کھال پر پڑے نشانات کی ترتیب اور ہیئت کو یاد کرنے میں صرف کیے۔ ہر اندھا دن میرے لیے روشنی کا ایک لمحہ روا رکھتا تھا تاکہ میں زرد کھال پر پڑے سیاہ دھبوں کو اپنے ذہن پر مرتسم کر سکوں۔ ان میں سے کچھ چتّیاں تھیں، کچھ نے ٹانگوں کے اندرونی رخ کو چوڑائی میں کاٹتی ہوئی دھاریوں کی شکل اختیار کر لی تھی، کچھ خود کو دُہراتے ہوے چھلّوں کی صورت میں تھے—شاید ان سے ایک اکیلی آواز، ایک اکیلا لفظ مراد ہو گا۔ بہت سے دھبوں کے گرد سرخ حاشیے تھے۔
میں اپنی مشقت کی تھکن کو بیان نہیں کروں گا۔ ایک سے زیادہ مرتبہ میں نے اس گنبد میں چیخ کر کہا کہ اس عبارت کو پڑھنا ممکن نہیں ہے۔ ایک خداوند کے لکھے جملے کی کلّی چیستاں کے مقابلے میں مجھے الجھانے والی ایک محسوساتی چیستاں کا تردد رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ میں نے خود سے سوال کیا کہ ایک ذہنِ مطلق کس قسم کا جملہ تراشے گا؟ میں نے غور کیا کہ انسانوں تک کی زبانوں میں کوئی بیان ایسا نہیں ہے جو پوری کائنات کو مبتلا نہ کر لیتا ہو، لفظ ’گلدار‘ کہنا ان گلداروں کو بیان کرنا ہے جو اسے وجود میں لائے، ان ہرنوں اور کچھووں کو بیان کرنا ہے جو اس نے مار کر کھا لیے، ان چراگاہوں کو جن میں وہ ہرن چرتے رہے، اس زمین کو جس نے چراگاہیں پیدا کیں اور اس آسمان کو بیان کرنا ہے جس نے زمین پر روشنی اتاری۔ میں نے غور کیا کہ ایک خداوند کی زبان میں ہر لفظ حقائق کی اس سلسلہ بندی کو ظاہر کر دے گا — کسی مضمرانہ بالواسطہ انداز میں نہیں، بلکہ ایک صریح اور قطعی انداز میں؛ بتدریج نہیں بلکہ ایک دم۔ ایک وقت ایسا آیا کہ کسی ربّانی کلمے کا تصور ہی مجھے رکیک اور بےحرمتی والا لگا۔ میں نے سوچا ایک الٰہ کو ایک لفظ ادا کرنا ہے کہ اس ایک لفظ میں ہر بات ادا ہو جائے گی۔ بولا ہوا کوئی بھی لفظ اس کے لیے کائنات سے کمتر یا وقت کے میزانِ کل سے کم نہیں ہو سکتا۔ ’تمام‘، ’کل عالم ‘، ’کائنات‘ — یہ غریب اور ہوس مند الفاظ تو اس ایک لفظ کی پرچھائیاں اور عکس ہیں جو لفظ کہ ایک پوری زبان کے برابر اور اس ’کل‘ کے مساوی ہے جو کوئی زبان اپنے اندر لیے ہوے ہو سکتی ہے۔
ایک دن یا ایک رات — میرے دنوں اور میری راتوں میں فرق بھی کیا ہو سکتا ہے؟ — میں نے خواب دیکھا کہ قیدخانے کے فرش پر ریت کا ایک ذرہ ہے۔ میں بےاعتنائی سے پھر سو گیا، اور خواب دیکھا کہ میں جاگ اٹھا ہوں اور فرش پر ریت کے دو ذرے ہیں۔ میں دوبارہ سو گیا اور میں نے خواب دیکھا کہ ریت کے ذرے تین ہیں۔ وہ اسی طرح بڑھتے گئے یہاں تک کہ قیدخانہ ان سے بھر گیا، اور میں ریت کے اس نصف کرے میں دم توڑنے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں، سو بڑی کاوش سے میں نے خود کو بیدار کیا۔ بیداری بےفائدہ تھی، ریت کے بےشمار ذرے میرا دم گھونٹ رہے تھے۔ کسی نے مجھ سے کہا، ’’تم جاگ کر کسی حالتِ بیداری میں نہیں اٹھے، یہ تو ایک پچھلا خواب ہے۔ یہ خواب ایک اور خواب میں چل رہا ہے اور اس طرح ایک لامتناہیت جاری ہے، جو ریت کے ذروں کی تعداد ہے۔ جس مسافت کو تمھیں پھر سے کاٹنا ہے وہ قطع نہیں ہونے کی، اور اس سے قبل کہ تم حقیقت میں بیدار ہو سکو، تم ہلاک ہو جاؤ گے۔‘‘
میں نے محسوس کیا کہ میں مٹ رہا ہوں۔ ریت میرے دہانے کو کچلے دیتی تھی مگر میں چیخ اٹھا کہ ’’خواب کی ریت مجھے ہلاک نہیں کر سکتی اور خواب اندر خواب کا کوئی وجود نہیں۔‘‘ ایک درخشندگی نے مجھے بیدار کر دیا۔ بالائی تاریکی میں روشنی کا ایک دائرہ نمودار ہوا۔ مجھے جیلر کا چہرہ، ہاتھ، چرخی، رسہ، گوشت کے ٹکڑے اور مرتبان نظر آئے۔
مقدر جو شکل اختیار کر لے، آدمی بتدریج خود کو اس سے شناخت کرنے لگتا ہے، کہ بالآخر آدمی خود ہی اپنے فعل کا ماحول ہے۔ چیستانوں کو بوجھنے والے، یا ایک منتقم، یا خداوند کے ایک مہنت سے زیادہ میں تو ایک قیدی تھا۔ ان تھک بھول بھلیوں سے میں پھر اپنے سنگین قیدخانے میں لوٹ آیا، جیسے کوئی اپنے گھر کو لوٹتا ہے۔ میں نے اس کی سیلن کو دعا دی، گلدار کو دعا دی، میں نے اس روزن کو دعا دی جو روشنی کو راہ دیتا تھا، میں نے اپنے بوڑھے، دکھتے ہوے بدن کو دعا دی، میں نے تاریکی اور پتھر کو دعا دی۔
تب ایسا مظہر پیش آیا جسے نہ میں کبھی بھول سکتا ہوں نہ بیان کرسکتا ہوں؛ کہ الوہیت سے، موجودات سے اتصال کا ظہور ہوا (مجھے نہیں معلوم کہ آیا یہ دو لفظ ہم معنی ہیں)۔ انبساط اپنی علامتوں کو نہیں دُہراتا: بعضوں نے خداوند کو درخشندگی میں دیکھا ہے، بعضوں نے تلوار میں، اور بعضوں نے گلاب کی پنکھڑیوں کے دائروں میں۔
میں نے ایک انتہائی بلند پہیہ دیکھا جو نہ میری آنکھوں کے سامنے تھا، نہ پیچھے، نہ دائیں بائیں — وہ بیک وقت ہر جانب تھا۔ یہ پہیہ پانی سے بنا تھا اور آگ سے بھی، اور (اگرچہ اس کے سرے نظر آ رہے تھے) وہ لامتناہی تھا۔ وہ منجملۂ ماضی و حال و مستقبل سے مرتب تھا۔ اس پوری بُنت کا ایک دھاگا میں تھا اور دوسرا دھاگا پیدرو دی الویریدو، کہ جس نے مجھے اذیتیں دی تھیں۔ اب اسباب وعلل منکشف تھے اور معلول منکشف تھے کہ ہر شے کو لا محدودیت کے ساتھ سمجھنے کے لیے میرا ایک بار اس پہیے کی طرف دیکھنا ہی کافی تھا۔
تصور کرنے یا محسوس کرنے کی مسرت کے مقابلے میں علم و آگہی کی مسرت کس درجہ بڑی ہوتی ہے۔ میں نے کل ممکنات کو دیکھا۔ میں نے کائنات کے مخفی نقش دیکھے۔ میں نے مبداومآخذ دیکھے کہ کتابِ صلاح میں جن کا بیان ہے۔ میں نے پہاڑیاں دیکھیں جو پانیوں پر سے اٹھی تھیں۔ میں نے دشت کے پہلے انسانوں کو دیکھا۔ میں نے پانی کے ظروف دیکھے جو ان آدمیوں سے منحرف ہو گئے تھے۔ میں نے وہ کتے دیکھے جنھوں نے ان کے چہرے چیرپھاڑ دیے تھے۔ میں نے وہ بےچہرہ الٰہ دیکھے جو الہٰوں کے عقب میں ہیں۔ میں نے وہ طریقِ لامتناہی دیکھے جو ایک تنہا مسرت کی تشکیل کرتے ہیں اور ہر شے کی آگہی حاصل کرتے ہوے مجھے گلدار کی کھال کی لکھت کا علم بھی حاصل ہو گیا۔
یہ چودہ بےضابطہ الفاظ سے ترتیب دیا ہوا ایک افسوں ہے (یا شاید وہ ایسے لفظ ہیں جو فی الاصل بےضابطہ نہیں ہیں بلکہ ایسے نظر آتے ہیں)۔ مجھے قدرت و اختیار حاصل کرنے کے لیے محض بلند آواز سے انھیں ادا کرنا ہو گا۔ مجھے اس سنگین قیدخانے کو معدوم کرنے کے لیے، اپنی شبِ تاریک میں دن کے نفوذ کے لیے، مردِ جواں بن جانے کے لیے، لافانی بننے کے لیے، اور اس بات کے لیے کہ شیر الویریدو کو فنا کر دے، ہسپانویوں کے سینوں میں مقدس خنجر اتارنے کے لیے، ہرم کی دوبارہ تعمیر کے لیے، سلطنت کو پھر سے تشکیل دینے کے لیے، ان الفاظ کو ادا کرنا ہو گا— چالیس ارکانِ تہجی، چودہ لفظ—اور پھر میں، تزیناکن، اس قلمرو پر حکمرانی کروں گا جو مونتے زوما کے زیرِنگیں تھی۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ میں وہ الفاظ کبھی ادا نہیں کروں گا، اس لیے کہ اب مجھے کوئی تزیناکن یاد نہیں۔
تو اب گلدار کی کھال پر لکھا ہوا رمز میرے ساتھ ہی فنا ہو جائے۔ وہ جس نے موجودات کی جھلک دیکھ لی ہو، جسے ممکنات کی شعلہ زن نگارشوں کا ایک جلوہ نظر آ گیا ہو، وہ ایک آدمی کے بارے میں، اور اس کی ادنیٰ مسرتوں، اس کی بدنصیبیوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، خواہ یہ آدمی وہ خود ہی کیوں نہ ہو۔ بےشک کبھی وہ یہ آدمی تھا، لیکن اب اسے کوئی پروا نہیں۔ اب جبکہ وہ کوئی بھی نہیں ہے، وہ اس دوسرے کے مقدر کے بارے میں کیوں فکرمند ہو، وہ اس دوسرے کے قبیلے کے بارے میں کیوں سوچے۔
اس لیے میں وہ افسوں نہیں پڑھتا؛اس لیے میں اندھیرے میں پڑا ہوا دنوں کو اجازت دیتا ہوں کہ مجھے فراموش کر دیں، فنا کر دیں۔

خورخے لوئس بورخیس

انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال


کرشمۂ مخفی

پھر مردہ رکھا اس شخص کو اللہ نے سو برس
پھر اٹھایا اس کو
کہا تو کتنی دیر یہاں رہا
بولا میں رہا ایک دن، یا ایک دن سے کچھ کم
(القرآن 2/259)

14 مارچ 1943 کی شب پراگ شہر کے زیلٹرنر گاسے کے ایک اپارٹمنٹ میں جیرومیر ہلاڈک نے، جو نامکمل ڈرامے ‘‘دشمنان’’ (THE ENEMIES)، ابدیت کی ایک تاریخ اور جیکب بوہم کے بالواسطہ یہودی مآخذ کے ایک مطالعے کا مصنف تھا، شطرنج کا ایک طویل کھیل خواب میں دیکھا۔ کھلاڑی دو افراد نہیں بلکہ دو عالی مرتبت خانوادے تھے۔ کھیل صدیوں سے جاری تھا۔ کیا شے داؤ پر لگی تھی یہ کسی کو بھی یاد نہیں تھا، لیکن کہا جاتا تھا کہ وہ بہت بڑی، شاید بےنہایت چیز ہے۔ مہرے اور بساط ایک مخفی برج میں تھے۔ جیرومیر اپنے خواب میں ان مقابل خانوادوں میں سے ایک کا ولی عہد تھا۔ وقت بتانے والی تمام گھڑیوں نے اگلی چال کے وقت کا اعلان کردیا جسے ٹالا نہ جا سکتا تھا۔ اب خواب دیکھنے والا تیز بارش میں دوڑتا ہوا ایک بیابان کے ریتیلے پن کو عبور کررہا تھا اور مہروں اور شطرنج کے قاعدوں کو فراموش کر چکا تھا۔ اس موقعے پر وہ بیدار ہو گیا۔ بارش کا شور اور وحشت ناک گھنٹے کی گونج تھم گئی۔ ایک ہموار دھمک، جس پر فوجی آوازے تال دے رہے تھے، زیلٹرنر گاسے سے بلند ہوئی۔ فجر کا وقت تھا اور تیسری رائخ کے مسلح ہر اول دستے پراگ میں داخل ہو رہے تھے۔
انیس تاریخ کو جیرومیر ہلاڈک کے خلاف حکام کو ایک فردِ جرم موصول ہوئی اور اسی روز شام پڑے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اسے مولڈاؤ کے دوسرے کنارے پر ایک بےداغ سفید بیرک میں لے جایا گیا۔ وہ گسٹاپو کے لگائے ہوے کسی بھی الزام کو رد کرنے سے قاصر رہا۔ اس کی ماں کا خاندانی نام جیروسلاوسکی تھا، اس کی رگوں میں یہودی خون تھا، بوہم کے بارے میں اس کی تحقیق یہودیانہ نوعیت کی تھی، ANSCHLUSS 1 کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں اس کے دستخط نے ایک کا اضافہ کیا تھا۔ 1928 میں اس نے ہرمن بارسڈوف کے اشاعت گھر کے لیے سیفر یزیراہ (SEFER YEZIRAH) کا ترجمہ کیا تھا۔ اشاعت گھر کی جامع فہرست میں تجارتی مقاصد کے لیے ترجمہ کرنے والے کی شہرت کے بیان میں مبالغہ کیا گیا تھا۔ یہ فہرست جولیس روتھ کی نظر سے گزری جو ان افسروں میں سے ایک تھا جن کے ہاتھوں میں ہلاڈک کی تقدیر تھی۔ کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنے مخصوص میدان سے باہر کے معاملات میں دھوکا کھا جانے والا نہ ہو۔ گوتھک خط میں دو تین اسماے صفت جولیس روتھ کو ہلاڈک کے امتیاز کا یقین دلانے اور اس بات کا حکم دینے کے لیے کافی تھے کہ اسے سزاے موت دی جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ سزا کی کارروائی کے لیے 29 مارچ صبح نو بجے کا وقت مقرر کیا گیا۔ یہ تاخیر (جس کی معنویت سے قاری آگے چل کر واقف ہو گا) حکام کی اس خواہش کے سبب سے تھی کہ وہ سبزی کی بیلوں اور پودوں کی طرح آہستہ اور غیرشخصی انداز میں اسے سرانجام دیں۔
ہلاڈک کا پہلا ردعمل محض دہشت کا تھا۔ اسے یقین تھا کہ پھانسی یا خنجر کے وار یا گردن اڑا دینے کی سزا اسے خوفزدہ نہیں کر سکتی تھی، لیکن فائرنگ اسکواڈ کے سامنے مرنا ناقابلِ برداشت تھا۔ اس نے خود کو قائل کرنے کی بےسود کوشش کی کہ خوف کا اصل منبع موت کی سادہ اور بےریا حقیقت ہے نہ کہ وہ حالات جن میں موت واقع ہوتی ہے۔ وہ موت کے تمام حالات کا تصور کرنے سے کبھی نہیں تھکا؛ اس نے ذرا ذرا سی تبدیلیوں کے ساتھ اپنے ذہن میں تمام ممکنہ حالات کو جمع کرنے کی دیوانگی سے کوشش کی۔ اس نے لامتناہی انداز میں اپنی موت کے عمل کا تصور کیا — بےخواب فجر سے لے کر رائفلوں کی پراسرار باڑھ کے چلنے تک۔ جولیس روتھ کے مقررکردہ دن سے پیشتر اس نے سیکڑوں بار موت کا سامنا کیا، ان احاطوں میں جن کی شکلوں اور زاویوں کے تنوع کے سامنے اقلیدس کے تمام امکانات عاجز تھے؛ سپاہیوں کی ہر ممکنہ تعداد پر مشتمل دستوں کے سامنے جو کبھی قریب سے اس پر موت عائد کرتے تھے اور کبھی دور جا کر۔ ان اموات کا سامنا اس نے اصیل دہشت (شاید اصیل مردانگی) کے ساتھ کیا۔ ان مناظر میں سے ہر ایک کا دورانیہ صرف چند سیکنڈ تھا۔ ہر بار دائرہ مکمل ہونے پر جیرومیر طوالت کی تھکن سے چور اپنی موت سے پیشتر کی لرزاں شام میں لوٹ آتا۔ اس نے خیال کیا کہ ہم جو پیش بینی کرتے ہیں حقیقت عموماً اس جیسی نہیں ہوتی۔ اس سے اپنی ہی ایک منطق سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ واقعے کی کسی تفصیل کی پیش بینی کر لینا اسے ہونے سے روک دینا ہے۔ اس ضعیف افسوں پر یقین کرتے ہوے اس نے انتہائی ہولناک تفصیلات اپنے ذہن میں ایجاد کیں تاکہ انھیں ہونے سے روک دے۔ جیسا کہ فطری بات تھی، آخر میں وہ اس خوف کے نرغے میں آ گیا کہ شاید یہ تفصیلات آنے والے واقعات کا الہام تھیں۔ ابتلا کی ان راتوں میں اس نے کسی نہ کسی طور وقت کی گریز پا حقیقت سے چمٹے رہنے کی کوشش کی۔ وہ جانتا تھا کہ وقت 29 تاریخ کی صبح کی طرف اندھادھند دوڑ رہا ہے۔ اس نے بلند آواز میں استدلال کیا: ’’میں اس وقت 22 مارچ کی رات میں ہوں۔ جب تک یہ رات باقی ہے (اور آنے والی چھ راتوں تک) میں محفوظ ہوں، لافانی ہوں۔‘‘ اسے اپنی نیند کی راتیں گہرے تاریک تالاب معلوم ہوئیں جن میں وہ خود کو غرق کرسکتا تھا۔ بعض لمحوں میں وہ بےتابی سے رائفلوں کی آخری باڑھ کے چلنے کی آرزو کرنے لگتا جو اسے تصورات کے بے بنیاد جبر سے رہائی دلادے، خواہ انجام کچھ بھی ہو۔ 28 مارچ کو جب آخری غروبِ آفتاب سلاخوں والی کھڑکی سے جھلملا رہا تھا، اپنے ڈرامے ’’دشمنان‘‘ کا خیال اسے ان زبوں تصورات سے نکال لے گیا۔
ہلاڈک چالیس برس سے زیادہ کا تھا۔ چند دوستوں اور بہت سی عادتوں کو چھوڑ کر ادب کی دشوارگزار ریاضت سے اس کی زندگی عبارت تھی۔ تمام لکھنے والوں کی طرح وہ دوسرے لکھنے والوں کو ان کی کارکردگی سے پرکھتا اور خود یہ چاہتا تھا کہ اسے اس منصوبوں اور خیالات سے پرکھا جائے۔ اس کی تمام تصانیف سے اسے صرف ندامت کا احساس حاصل ہوا تھا۔ ابن عذرا، بوہم اور فلڈ کی تحریروں پر اس کی تحقیق کی خصوصیت صرف مشقت تھی، اور سیفریزیراہ کے ترجمے کی خصوصیت بےپروائی، اکتاہٹ اور قیاس آرائی۔ شاید اس کی لکھی ہوئی ابدیت کی تاریخ میں کم خامیاں تھیں۔اس کی پہلی جلد میں ابدیت کے بارے میں انسان کے تصورات کی تاریخ بیان کی گئی تھی، پارمےنیدس کے ناقابلِ تغیر وجود سے لے کر ہنٹن کے قابلِ تبدیل ماضی تک۔ دوسری جلد میں (فرانسس بریڈلے کے ساتھ) اس بات کو رد کیا گیا تھا کہ کائنات کے تمام واقعات ایک زمانی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ دلیل یہ تھی کہ انسان کے ممکنہ تجربات کی تعداد لامحدود نہیں ہے اور کسی بھی ایک واقعے کی تکرار یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وقت ایک مغالطہ ہے... بدقسمتی سے جو دلائل اس مغالطے کو درست ثابت کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں وہ بھی اتنے ہی مغالطے میں ڈالنے والے ہیں۔ ہلاڈک ان دلائل کو تحقیرآمیز الجھن کے ساتھ سننے کا عادی تھا۔ اس نے ایکسپریشنسٹ انداز کی چند سلسلہ وار نظمیں بھی لکھی تھیں، اور وہ اس بات پر برہم تھا کہ انھیں 1924 میں مرتب ہونے والے ایک انتخاب میں شامل کیا گیا اور اس کے بعد شائع ہونے والا شاعری کا کوئی بھی انتخاب ان سے خالی نہیں تھا۔ ہلاڈک اپنے منظوم ڈرامے سے اپنے اس دھندلے بےکیف ماضی کی تلافی کی امید رکھتا تھا۔ (وہ نظم کی ہیئت کو ضروری خیال کرتا تھا کیونکہ اس سے دیکھنے والوں کی نظروں سے لاواقعیت اوجھل نہیں ہونے پاتی، اور یہ آرٹ کے مطالبات میں سے ہے۔)
ڈرامے میں زمان ومکاں اور عمل کی اکائیاں قائم رکھی گئی تھیں۔ منظر انیسویں صدی کی آخری سہ پہروں میں سے ایک سہ پہر شہر ہراڈکینی میں بیرن رومرسٹاٹ کی لائبریری میں واقع ہوتا ہے۔ پہلے منظر میں ایک اجنبی شخص رومرسٹاٹ سے ملاقات کے لیے آتا ہے۔ (گھنٹہ سات بجا رہا ہے، ڈوبتے ہوے سورج کی تند کرنوں سے کھڑکیاں دمک رہی ہیں، ایک جانی پہچانی پرجوش ہنگیرین موسیقی سے فضا لبریز ہے۔) اس ملاقات کے بعد اور ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ رومرسٹاف ان خوشامدی لوگوں سے ناواقف ہے جو اسے پریشان کر رہے ہیں، لیکن اسے یہ الجھن آمیز احساس ہوتا ہے کہ اس نے انھیں کہیں دیکھا ہے— شاید کسی خواب میں۔ وہ لوگ اس کی چاپلوسی کر رہے ہیں، لیکن یہ ظاہر ہوجاتا ہے — پہلے دیکھنے والوں پر اور پھر خود بیرن پر بھی — کہ وہ لوگ اس کے چھپے ہوے دشمن ہیں جنھوں نے اسے برباد کر دینے کی سازش کر رکھی ہے۔ رومرسٹاٹ ان کے گمراہ کن منصوبوں کو سمجھنے اور بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مکالمے میں اس کی محبوبہ جولیا ویڈیناؤ کا ذکر ہوتا ہے اور کسی جیروسلاو کیوبن کا بھی جو کبھی اس کا امیدوار رہ چکا ہے۔ کیوبن اب ذہنی توازن کھو چکا ہے اور خود کو رومرسٹاٹ خیال کرتا ہے۔ خطرے بڑھتے جاتے ہیں۔ دوسرے ایکٹ کے خاتمے پر رومرسٹاٹ ایک سازشی کو قتل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تیسرا اور آخری ایکٹ شروع ہوتا ہے۔ اب بےربطیاں رفتہ رفتہ بڑھنے لگتی ہیں — وہ کردار جو ڈرامے سے جا چکے ہیں، پھر سے نمودار ہوجاتے ہیں؛ وہ شخص جسے رومرسٹاٹ نے قتل کر دیا تھا ایک لمحے کے لیے لوٹ آتا ہے؛ کوئی شخص بتاتا ہے کہ ابھی شام نہیں ہوئی۔ گھنٹہ سات بجا رہا ہے، بلند کھڑکیاں مغرب کے سورج سے جھلملا رہی ہیں، ہوا میں ایک جذباتی ہنگیرین نغمہ تیر رہا ہے۔ پہلا اداکار آتا ہے اور وہی جملے دُہراتا ہے جو اس نے پہلے ایکٹ کے پہلے منظر میں کہے تھے۔ رومرسٹاٹ اس سے بغیر کسی استعجاب کے گفتگو کرتا ہے۔ ناظرین سمجھ جاتے ہیں کہ رومرسٹاٹ خود خستہ حال جیروسلاو کیوبن ہے؛ ڈراما کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا، یہ صرف ایک چکردار ہذیان ہے جسے کیوبن لاانتہا طور پر باربار بسر کرتا ہے۔
جیرومیر ہلاڈک نے کبھی خود سے یہ سوال نہیں کیا کہ آیا یہ فروگزاشتوں کا الم طربیہ (TRAGICOMEDY) بےمعنی ہے یا قابلِ تعریف، اچھی طرح سوچا سمجھا ہے یا بےتکا۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ ابھی بیان کیا گیا پلاٹ اس کی خامیوں پر پردہ ڈالنے اور اس کی خوبیاں اجاگر کرنے کے لیے بہترین تدبیر ہے، اور اس میں یہ امکان موجود ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معنی (علامتی طور پر) بحال کر سکے۔ وہ پہلا ایکٹ مکمل کر چکا تھا اور تیسرے ایکٹ کے ایک یا دو مناظر۔ تحریر کے منظوم ہونے کی وجہ سے اس کے لیے یہ ممکن ہو گیا تھا کہ مسودہ سامنے رکھے بغیر اس پر مزید کام کرتا رہے اور اشعار میں تبدیلیاں کرتا رہے۔ اس نے سوچا کہ ابھی دو ایکٹ باقی ہیں اور اس کی موت جلد آنے والی ہے۔ وہ اندھیرے میں خدا سے ہم کلام ہوا: ’’اگر میں وجود رکھتا ہوں، اگر میں تیرا حرفِ مکرر، تیری غلطی نہیں ہوں، تو میرا وجود اس ڈرامے کے مصنف کی حیثیت سے ہے۔ اس ڈرامے کو مکمل کرنے کے لیے، جو میرا جواز ہو گا، اور تیرا بھی، مجھے ایک سال درکار ہے۔ مجھے یہ سال عطا کر، کہ صدیاں اور وقت تیرے ہی تصرف میں ہیں۔‘‘ یہ آخری رات تھی، تمام راتوں سے زیادہ دہشت ناک، لیکن دس منٹ بعد ایک تاریک سمندر کی طرح نیند نے اس پر غلبہ پا لیا، اور وہ اس میں غرق ہو گیا۔
فجر کے قریب اس نے خواب دیکھا کہ وہ کلیمنٹائن لائبریری میں الماریوں کی قطاروں سے بنی ہوئی ایک راہداری میں جا چھپا ہے۔ سیاہ شیشوں کی عینک لگائے ایک لائبریرین نے اس سے پوچھا، ’’تم کیا تلاش کر رہے ہو؟‘‘ ہلاڈک نے جواب دیا، ’’میں خدا کو تلاش کر رہا ہوں۔‘‘ لائبریرین نے اس سے کہا، ’’خدا کلیمنٹائن کی چار لاکھ کتابوں میں سے کسی کتاب کے کسی صفحے کے کسی حرف میں ہے۔ میرے باپ اور میرے باپوں کے باپ اسی حرف کو ڈھونڈتے رہے ہیں۔ میں بھی اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے اندھا ہو گیا ہوں۔‘‘ اس نے اپنی عینک اتاری اور ہلاڈک نے اس کی آنکھیں دیکھیں جو مردہ ہو چکی تھیں۔ اتنے میں کوئی پڑھنے والا ایک اٹلس واپس کرنے کے لیے آیا۔ ’’یہ اٹلس بےکار ہے،‘‘ اس نے کہا اور اسے ہلاڈک کے ہاتھ میں تھما دیا جس نے اسے یونہی ایک جگہ سے کھول لیا۔ غنودگی کی سی کیفیت میں اسے ہندوستان کا ایک نقشہ نظر آیا۔ اچانک اس نے ایک انتہائی چھوٹے حرف کو گہرے یقین سے چھوا۔ ایک ہمہ گیر آواز اس سے ہم کلام ہوئی: ’’تجھے تیری محنت کا وقت عطا کیا گیا۔‘‘ اس جگہ ہلاڈک بیدار ہو گیا۔
اسے یاد تھا کہ انسان کے خوابوں کا تعلق خدا سے ہوتا ہے، اور میمونائدس نے لکھا ہے کہ خواب میں سنے گئے لفظ الوہی ہوتے ہیں جب وہ واضح اور ممتاز ہوں اور انھیں ادا کرنے والا شخص نظر نہ آئے۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ دو سپاہی کوٹھڑی میں داخل ہوے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔
دروازے کے پیچھے سے ہلاڈک راہداریوں، زینوں اور جدا جدا عمارتوں کی بھول بھلیوں کا تصور کرتا رہا تھا۔ حقیقت اتنی قابل ِدید نہ تھی — وہ ایک تنگ آہنی سیڑھی سے ایک اندرونی احاطے میں اترے۔ چند سپاہی، جن میں سے کئی کی وردیوں کے بٹن کھلے ہوے تھے، ایک موٹرسائیکل کا معائنہ کرتے ہوے اس پر بحث کر رہے تھے۔ سارجنٹ نے گھنٹے کی طرف دیکھا: آٹھ بج کر چوالیس منٹ ہوے تھے۔ انھیں نو بجے تک انتظار کرنا تھا۔ ہلاڈک، جو قابلِ رحم سے زیادہ غیراہم تھا، جلائی جانے والی لکڑیوں کے ایک ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ سپاہی اس سے نظریں ملانے سے کترا رہے ہیں۔ انتظار کو اس پر آسان کرنے کے لیے سارجنٹ نے اسے ایک سگریٹ دے دیا۔ ہلاڈک تمباکو نہیں پیتا تھا لیکن اس نے شائستگی یا انکسار کے باعث سگریٹ لے لیا۔ اسے جلاتے ہوے اسے معلوم ہوا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ دن کا آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ سپاہی آہستہ آواز میں باتیں کر رہے تھے جیسے وہ مرچکا ہو۔ اس نے اُس عورت کو یاد کرنے کی بےسود کوشش کی جس کی ایک علامت جولیا ویڈیناؤ تھی۔
اسکواڈ ترتیب سے تیار ہو کر کھڑا ہو گیا۔ بیرک کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہلاڈک باڑھ چلنے کا انتظار کرنے لگا۔ کسی نے کہا کہ دیوار پر خون کے چھینٹے پڑ جائیں گے۔ قیدی کو چند قدم آگے آنے کا حکم دیا گیا۔ اس سے ہلاڈک کو بڑے بےمحل انداز میں اناڑی فوٹوگرافروں کی تصویر کھینچنے کی تیاریوں کا خیال آیا۔ بارش کا ایک بڑا سا قطرہ ہلاڈک کی کنپٹی پر پڑا اور اس کے گال پر سے ہوتا ہوا نیچے بہنے لگا۔ سارجنٹ نے چلا کر آخری حکم دیا۔
مادّی کائنات تھم گئی۔
بندوقوں کا رخ ہلاڈک کی طرف تھا لیکن اسے ہلاک کرنے والے لوگ بےحس وحرکت کھڑے تھے۔ سارجنٹ کا بازو ایک دوامی نامکمل حرکت میں تھا۔ فرش پر جمے ہوے ایک پتھر پر ایک مکھی کا ساکت سایہ پڑ رہا تھا۔ ہوا ٹھہری ہوئی تھی، جیسے کسی تصویر میں۔ ہلاڈک نے چلّانے کی، کوئی لفظ ادا کرنے کی، ہاتھ کو جنبش دینے کی کوشش کی۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ مفلوج ہو گیا ہے۔ رکی ہوئی دنیا سے کوئی آواز اس تک نہیں آ رہی تھی۔ اس نے سوچا: ’’میں دوزخ میں ہوں، میں مر چکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا: ’’میں پاگل ہوں۔‘‘ اس نے سوچا: ’’وقت رک گیا ہے۔‘‘ پھر اسے خیال آیا کہ اگر ایسا ہوتا تو اس کا ذہن بھی رک گیا ہوتا۔ اس نے اس کا امتحان کرنا چاہا۔ ہونٹ ہلائے بغیر اس نے ورجل کے چوتھے رمزیانہ بیت کو دہرایا۔ اس نے سوچا کہ دور کھڑے سپاہی بھی اسی کرب سے دوچار ہوں گے۔ وہ ان سے رابطہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ اسے حیرانی ہوئی کہ اسے کوئی تھکن محسوس نہیں ہو رہی تھی، قید کی بےحرکتی سے پیدا ہونے والا کھنچاؤ تک نہیں۔ ایک درمیانی وقفے کے بعد وہ سو گیا۔ جب وہ بیدار ہوا تو دنیا اسی طرح ساکت اور خاموش تھی۔ بارش کا قطرہ اب بھی اس کے گال پر تھا، مکھی کا سایہ اب بھی پتھر پر ٹھہرا ہوا تھا، اس کے پھینکے ہوے سگریٹ کا دھواں بھی ٹھہر گیا تھا۔ ہلاڈک کے سمجھنے میں ایک ’دن‘ اور گزر گیا۔
اس نے اپنا کام مکمل کرنے کے لیے خدا سے پورا ایک سال مانگا تھا۔ قادرِ مطلق نے اسے یہ عرصہ عطا کر دیا تھا۔ خدا نے اس کے لیے ایک کرشمۂ مخفی کا اہتمام کیا تھا۔ جرمن سیسے کو اسے مقررہ وقت پر ہلاک کر دینا تھا لیکن حکم اور اس کی تعمیل کے درمیان اس کے ذہن میں ایک سال کا عرصہ گزرنا تھا۔ وہ الجھن سے استعجاب پر آیا، استعجاب سے تسلیم پر، اور تسلیم سے ایک فوری شکرگذاری پر۔
اس کے پاس کوئی مسودہ نہیں تھا، صرف اس کی یادداشت تھی؛ ہر نئے شعر کے اضافے کی تربیت سے اسے ایک باضابطگی حاصل ہو گئی تھی جس پر وہ لوگ شبہ نہیں کر سکتے جو نامکمل عارضی پیراگرافوں کو ذہن میں بٹھاتے اور بھول جاتے ہیں۔ وہ آنے والی نسلوں کے لیے کام نہیں کر رہا تھا؛ خدا کے لیے بھی نہیں جس کے ادبی مذاق سے وہ لاعلم تھا۔نہایت باریک بینی سے، بےحرکت، رازدارانہ انداز میں وہ اپنی مقدس غیرمرئی چیستاں کو وقت میں بُنتا رہا۔ اس نے تیسرے ایکٹ کو دو مرتبہ نئے سرے سے بنایا۔ اس نے کچھ ایسی علامات ترک کر دیں جو بہت زیادہ واضح تھیں، مثلاً گھنٹے اور موسیقی کی تکرار۔ اس پر کسی چیز کی پابندی نہ تھی۔ وہ حذف اور تلخیص اور اضافہ کرتا رہا۔ بعض موقعوں پر وہ ڈرامے کے اصل ورژن پر واپس آ جاتا۔ وہ قتل گاہ کے احاطے اور بیرکوں سے اُنس محسوس کرنے لگا۔ اس کے سامنے جو چہرے تھے انھوں نے اس کے رومرسٹاٹ کے کردار کے ادراک کو بہتر بنایا۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ ناگوار بےآہنگی جو فلوبیر کو مکدر کرتی تھی صرف مرئی توہمات تھے؛ یہ لکھے ہوے لفظ کی کمزوریاں اور بندشیں تھیں، بولے ہوے لفظ کی نہیں... اس نے اپنا ڈراما مکمل کیا۔ اس کا مسئلہ صرف ایک جملے کا تھا، اور اس نے وہ جملہ پا لیا۔ پانی کا قطرہ اس کے گال سے نیچے گر گیا۔ اس نے ایک مجنونانہ چیخ میں اپنا منھ کھولا، اپنا چہرہ پھیرا اور چار سمتوں سے آنے والی باڑھ سے فرش پر گر گیا۔
جیرومیر ہلاڈک 29 مارچ کو صبح نو بج کر پانچ منٹ پر ہلاک ہو گیا۔

حاشیہ:

1 ANSCHLUSS آسٹریا کے جرمنی میں ضم کیے جانے کی تجویز، جس پر ہٹلر کے دباؤ پر آسٹریا نے رضامندی ظاہر کی، پھر اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی، جس کے نتیجے میں ناتسی جرمنی کی فوجوں نے آسٹریا پر قبضہ کر لیا۔
خورخے لوئس بورخیس

انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

گول کھنڈر


AND IF HE LET OFF DREAMING ABOUT YOU...
THROUGH THE LOOKING GLASS, IV

کسی نے اُسے اس ذہنِ واحد کی رات میں اس کنارے پر اترتے نہیں دیکھا تھا، کسی نے بانس کی اس ناؤ کو کنارے کے مقدس گدلے پانی میں غرقاب ہوتے نہیں دیکھا تھا، لیکن چند ہی روز میں کوئی شخص اس سے بےخبر نہیں رہا کہ وہ خاموش آدمی جنوب سے آیا تھا اور اس کا گھر سنگلاخ پہاڑوں میں دریا کے قریب کے بےانت گاؤوں میں سے کوئی گاؤں تھا جہاں ژند زبان یونانی سے آلودہ نہیں ہوئی تھی اور جہاں کوڑھ اتنا عام نہیں تھا۔ یقین ہے کہ اس خاکی مائل رنگت والے آدمی نے خاک کو بوسہ دیا اور اپنے گوشت کو پھاڑتی ہوئی خاردار جھاڑیوں کو ایک طرف ہٹائے بغیر (شاید انھیں محسوس کیے بغیر) کنارے سے اوپر آیا، اور خود کو گھسیٹتا ہوا، خونم خون ہوتا اور متلی محسوس کرتا ہوا اس گول احاطے تک لایا جس کے دروازے کے اوپر ایک پتھر کا بنا ہوا شیر یا گھوڑا نصب تھا، اور جو کبھی آگ کے رنگ کا تھا اور اب راکھ کے رنگ کا۔ یہ دائرہ ایک معبد تھا جسے بہت پہلے قدیم آگ نے نگل لیا تھا اور ملیریائی جنگل نے گھیر لیا تھا اور آدمی جس کے خداوند کی اب عبادت نہیں کرتے تھے۔ اجنبی ستون کے پائے کے قریب پیر پھیلا کر دراز ہو گیا۔ سورج چڑھنے پر اس کی آنکھ کھلی۔ اس نے بغیر استعجاب کے دیکھا کہ اس کے زخم بھر چکے ہیں۔ اس نے اپنی زردی مائل آنکھیں پھر بند کر لیں اور سو گیا۔ کسی جسمانی کمزوری کے سبب سے نہیں بلکہ مضبوط عزم کے ساتھ۔ اسے خبر تھی کہ یہ معبد ہی وہ جگہ ہے جو اس کے ناقابلِ تسخیر مقصد کو درکار ہے۔ اسے خبر تھی کہ دریا کی دوسری جانب درخت ایک اَور مقدس معبد کو گھیرنے میں کامیاب نہیں ہوے ہیں، جہاں کے معبود بھی جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اسے خبر تھی کہ اس کی فوری ذمہ داری سونا ہے۔ آدھی رات کے قریب ایک پرندے کی دلگیر پکار سے وہ جاگ اٹھا۔ ننگے پیروں کے نشانات، انجیروں اور پانی کے کوزے سے اسے معلوم ہوا کہ علاقے کے لوگ چھپ کر اسے سوتے ہوے دیکھ چکے ہیں، اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کے طلسم سے خوفزدہ ہیں۔ اسے خوف کی سرد لہر محسوس ہوئی اور وہ شکستہ دیوار میں مردے دفن کرنے کا ایک طاق تلاش کر کے خود کو نامعلوم پتوں سے ڈھانپ کر لیٹ گیا۔
اس کے سامنے جو مقصد تھا وہ ناممکن نہیں تھا، اگرچہ مافوق الفطرت تھا۔ وہ ایک شخص کا خواب دیکھنا چاہتا تھا۔وہ اسے خواب میں تفصیلی سالمیت کے ساتھ دیکھنا اور اسے حقیقت میں لانا چاہتا تھا۔ اس طلسمی منصوبے نے اس کے جسم وجان کے کُل کو کھینچ لیا تھا۔ اگر کوئی اس سے اس کا نام یا اس کی پچھلی زندگی کی کوئی بات دریافت کرتا تو وہ جواب نہیں دے سکتا تھا۔ یہ غیرآباد اور شکستہ معبد اسے موزوں تھا کیونکہ یہ مرئی دنیا کا کم سے کم حصہ تھا، کاشتکاروں کا قریب ہونا بھی اس کے لیے مناسب تھا کیونکہ وہ اس کی موہوم ضروریات کی چیزیں فراہم کرتے۔ ان کے نذر کیے ہوے چاول اور پھل اس کے جسم کو باقی رکھنے کے لیے کافی تھے جو سونے اور خواب دیکھنے کے کام کے لیے وقف ہو چکا تھا۔
ابتدا میں اس کے خواب منتشر تھے، کچھ عرصے بعد ان کی نوعیت منطقی سی ہو گئی۔ اجنبی نے خواب دیکھا کہ وہ ایک گول تماشاگاہ کے درمیان میں ہے جو کسی نہ کسی طرح یہ جلا ہوا معبد ہے۔ نشستوں کی قطاریں خاموش طالب علموں کے بادلوں سے پُر ہیں۔ آخر میں بیٹھے ہوؤں کے چہرے صدیوں دور اور ایک کائناتی بلندی پر آویزاں معلوم ہوتے تھے، لیکن بالکل واضح اور مکمل تھے۔ آدمی انھیں علم الابدان، ترکیبِ کائنات اور طلسم کا سبق دے رہا تھا۔ وہ چہرے اسے احتیاط سے سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تھے، جیسے وہ اس امتحان کی اہمیت سے باخبر ہوں جو ان میں سے کسی ایک کو اس بے حقیقت وجود کی حالت سے نکال کر اسے حقیقت کی دنیا میں داخل کر دے گا۔ آدمی نے خواب میں، اور خواب سے جاگ کر، اپنے خیالی پیکروں کے جوابات پر غور کیا۔ وہ عیاروں کے فریب کا شکار نہیں ہوا، اس نے بعض پیچیدگیوں میں ایک بڑھتی ہوئی ذہانت کو محسوس کیا۔ وہ ایک ایسی روح کی تلاش میں تھا جو کائنات میں شرکت کی مستحق ہو۔
نو یا دس راتوں کے بعد وہ کچھ تلخی سے اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ ان طالب علموں سے کوئی توقع نہیں کر سکتا جو اس کے نظریات کو مجہول انداز میں قبول کر لیتے ہیں، لیکن اسے اُن سے کچھ امید ہو سکتی ہے جو کبھی کبھار کسی معقول اختلاف کا حوصلہ کرتے ہیں۔ اول الذکر طلبا اگرچہ محبت اور شفقت کے مستحق ہیں لیکن افراد کے رتبے پر نہیں پہنچ سکتے؛ آخرالذکر طلبا پہلے ہی سے ان سے کچھ زیادہ وجود رکھتے تھے۔ ایک سہ پہر (اب اس کی سہ پہریں بھی نیند کی نذر ہوتی تھیں، اور وہ صرف صبح کے وقت چند گھنٹوں کے لیے جاگتا تھا) اس نے اس خیالی درسگاہ کو ہمیشہ کے لیے نابود کر دیا اور صرف ایک طالب علم کو باقی رکھا۔ وہ ایک خاموش لڑکا تھا، زرد رنگت والا، کچھ کچھ ضدی۔ اس کے تیکھے نقوش خواب دیکھنے والے کے نقوش کو دہراتے تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے یکایک معدوم ہو جانے سے بہت دیر تک پریشان نہیں رہا۔ چند خصوصی اسباق کے بعد اس کی ترقی نے اس کے استاد کو متحیر کر دیا۔ اس کے باوجود مصیبت تعاقب میں رہی۔ ایک روز آدمی خواب سے یوں باہر آیا جیسے کسی دلدلی ریگستان سے، اور اس نے سہ پہر کی رائیگاں روشنی کو دیکھا جو اسے پہلے فجر کی روشنی معلوم ہوئی، اور وہ سمجھا کہ درحقیقت اس نے خواب نہیں دیکھا ہے۔ اس پوری رات اور تمام دن بےخوابی کی ناقابلِ برداشت خیرگی اس پر مسلط رہی۔ اس نے جنگل میں مارا مارا پھر کر خود کو تھکانے کی کوشش کی لیکن شیکران کے زہریلے درختوں کے درمیان بمشکل ہلکی سی نیند کے چند جھونکے پا سکا جو بےسود نامکمل بینائی سے ملوث تھے۔ اس نے درسگاہ کو پھر سے جوڑنے کی کوشش کی، اور ابھی نصیحت کے بمشکل چند الفاظ ادا کیے تھے کہ اس کی صورت بگڑنے لگی اور وہ فنا ہو گئی۔ اس تقریباً مسلسل بےخوابی میں اس کی بوڑھی آنکھیں غصے کے آنسوؤں سے جلنے لگیں۔
اس کی سمجھ میں آیا کہ خواب جس بےربط اور چکرا دینے والے مادّے سے بنے ہیں، اسے ڈھالنے کی کوشش کرنا سب سے کٹھن کام ہے جو کوئی انسان اپنے ذمے لے سکتا ہے، خواہ وہ بلندوپست ہر قسم کے چیستانوں کو بوجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ یہ ریت کی رسی بٹنے یا بےچہرہ ہوا کی تشکیل کرنے سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ اس کی سمجھ میں آیا کہ ابتدا میں ناکامی ناگزیر ہے۔اس نے عہد کیا کہ ان بےشمار واہموں کو فراموش کر دے گا جنھوں نے اسے شروع میں گمراہ کیا تھا۔ اس نے ایک اور راستہ دریافت کیا۔ اسے اختیار کرنے سے پہلے اس نے ان قوتوں کو پھر سے مجتمع کرنے کی غرض سے ایک مہینہ وقف کیا جو اس کے اضطراب سے ضائع ہو گئی تھیں۔ اس نے پہلے سے کوئی خواب دیکھنے کے ارادے کو ترک کر دیا اور تقریباً فوری طور پر دن کا بڑا حصہ سو کر گزارنے کے قابل ہو گیا۔ اس عرصے میں چند بار اسے خواب نظر آئے لیکن اس نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اپنا کام پھر سے شروع کرنے کے لیے وہ انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ چاند کا طشت مکمل ہو گیا۔ تب اس نے سہ پہر کے وقت دریا کے پانی سے خود کو پاک کیا، آسمانی معبودوں کی پرستش کی، ایک قدرت والے نام کا ایک جائز حصہ زبان سے ادا کیا، اور سو گیا۔ تقریباً اسی وقت اس نے ایک دھڑکتے ہوے دل کو خواب میں دیکھا۔
خواب میں اس نے اس دل کو سرگرم، پُرحرارت، مخفی اور بند مٹھی جتنا دیکھا۔ چہرے یا جنس سے بےنیاز ایک انسانی جسم کے نیم سائے میں وہ ایک لعل کے رنگ کا تھا۔ باریک بیں اشتیاق کے ساتھ وہ چودہ راتوں تک اسے دیکھتا رہا۔ ہر رات وہ پچھلی رات سے زیادہ صراحت سے اس کا ادراک کرتا۔ اس نے اس دل کو چھوا نہیں، خود کو صرف اسے دیکھنے، اس کا مشاہدہ کرنے، شاید اسے نظروں سے سنوارنے تک محدود رکھا۔ اس نے مختلف فاصلوں اور مختلف زاویوں سے اس کا ادراک کیا، اسے بسر کیا۔ چودھویں رات اس نے پھیپھڑے کی شریان کو انگلی سے چھوا، اور پھر اندر اور باہر سے پورے دل کو۔ اس آزمائش سے وہ مطمئن ہو گیا۔ دانستہ طور پر اس نے ایک رات کوئی خواب نہ دیکھا، اور پھر دل کو ہاتھ میں لیا۔ ایک سیارے کی مناجات کی اور پھر ایک اور عضوِ رئیس کا تصور کرنا شروع کیا۔ ایک سال میں وہ ڈھانچے کو مکمل کر کے پلکوں تک پہنچ چکا تھا۔ ناقابلِ شمار بال شاید سب سے مشکل تھے۔ اس نے ایک مکمل انسان کا خواب دیکھا، ایک لڑکے کا، لیکن یہ لڑکا اٹھ نہیں سکتا تھا، نہ بول سکتا تھا۔ بہت سی راتوں تک خواب میں وہ اسے مسلسل خوابیدہ دیکھتا رہا۔
غناسطی نظریۂ تکوینِ کائنات میں ہے کہ خداوند نے سرخ مٹی کو گوندھ کر آدم کو بنایا جو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ خاک کے آدم جتنا ہی خام اور ناپختہ ساحر کی مشقت کی راتوں کا بنایا ہوا یہ خواب کا آدم تھا۔ ایک سہ پہر کو آدمی نے اپنی غلطی سے اپنے کام کو تلف ہی کر دیا ہوتا، لیکن پھر وہ نادم ہوا۔ (اس کے لیے بہتر ہوتا اگر وہ اسے تلف کر دیتا۔) اس نے دریا اور زمین کے معبودوں کے سامنے دعائیں پوری کر کے خود کو اس سنگی مجسمے کے قدموں پر گرا دیا جو شیر تھا یا شاید گھوڑا، اور اس کی نامعلوم نصرت کی التجا کی۔ اس جھٹپٹے میں اس نے خواب میں اس مجسمے کو دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک زندہ اور مرتعش چیز ہے، وہ محض شیر اور گھوڑے کا وحشیانہ مرکب نہیں بلکہ یہ دونوں تند مخلوقات بیک وقت، اور ساتھ ہی ایک بیل، ایک گلاب اور ایک سمندری طوفان بھی ہے۔ اس گوناگوں خداوند نے اس پر منکشف کیا کہ اس کا زمینی نام آتش ہے، اور اس گول معبد میں (اور اس طرح کے اور معبدوں میں) لوگ اس کے سامنے قربانیوں اور عبادات کی نذر دیتے رہے ہیں، اور یہ کہ وہ اپنے افسوں سے اس خوابیدہ خیالی پیکر کو زندگی بخشے گا، اس طرح کہ خود آگ اور خواب دیکھنے والے کے سوا تمام مخلوقات اسے گوشت پوست کا آدمی خیال کریں گی۔ اس الوہیت سے آدمی کو یہ حکم صادر ہوا کہ وہ اپنی مخلوق کو اس کی مذہبی رسوم کی تعلیم دے اور اسے دوسرے شکستہ معبد میں بھیجے جس کے ہرم نما مینار دریا کے دوسری طرف ابھی باقی ہیں، تاکہ اس ویران مکان میں ایک آواز خداوند کی شان بیان کرے۔ خواب دیکھنے والے کے خواب میں، خواب کے پیکر نے آنکھ کھولی۔
ساحر نے ان احکام کی تعمیل کی۔ اس نے وقت کا ایک وقفہ (جو بالآخر دو سال پر محیط ہوا) اپنے خواب کی اولاد پر کائنات اور آتش پرستی کے بھید کھولنے کے لیے وقف کیا۔ اندرونی طور پر اسے لڑکے سے جدا ہوتے ہوے تکلیف ہو رہی تھی۔ معلمانہ ضروریات کے بہانے سے وہ ہر روز خواب کے لیے وقف گھنٹوں کا دورانیہ بڑھاتا گیا۔ اس نے دائیں شانے کو پھر سے بنایا جس میں شاید کچھ نقص رہ گیا تھا۔ کبھی کبھی اسے یہ تاثر پریشان سا کر دیتا کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہو چکا ہے... عام طور پر اس کے دن مسرور تھے۔ جب وہ آنکھیں بند کرتا تو سوچتا، ’’وہ بچہ جسے میں نے خلق کیا ہے میرا انتظار کر رہا ہے، اور اگر میں اس کے پاس نہیں گیا تو وہ فنا ہو جائے گا۔‘‘
رفتہ رفتہ اس نے لڑکے کو عالمِ حقیقت سے آشنا کیا۔ اس نے ایک بار اسے دورافتادہ پہاڑ کی چوٹی پر ایک پھریرا گاڑنے کے لیے کہا۔ اگلے روز پھریرا پہاڑ کی چوٹی پر لہرا رہا تھا۔ اس نے اسی طرح کے اور تجربے کیے، جن میں سے ہر ایک پچھلے سے زیادہ حوصلہ آزما ہوتا تھا۔ کچھ تلخی سے اس نے محسوس کیا کہ اس کا بیٹا پیدا ہونے کے لیے تیار —اور شاید بےقرار — ہے۔ اس رات اس نے پہلی مرتبہ اسے بوسہ دیا اور دوسرے معبد کی طرف روانہ کر دیا جس کے سفید کھنڈر ناقابلِ گزر جنگل اور دلدلوں کے اُس طرف نظر آ رہے تھے۔ لیکن اس سے پہلے (اس غرض سے کہ اسے کبھی یہ معلوم نہ ہو کہ وہ محض ایک خیالی پیکر ہے اور اسے دوسروں کی طرح ایک انسان سمجھا جائے) اس نے اس کے تربیت کے برسوں کی جگہ ایک مکمل فراموشی داخل کر دی۔
آدمی کی فتح اور اس کی تسکین تھکن سے دھندلا گئی۔ فجر اور غروب کے وقت وہ خود کو سنگی مجسمے کے سامنے سربسجود کر دیتا اور یہ تصور کرتا کہ اس کا بیٹا بھی دریا کے کنارے پر گول معبد میں یہی رسم ادا کر رہا ہو گا۔ رات میں وہ خواب نہ دیکھتا، یا اسی طرح خواب دیکھتا جیسے سب انسان دیکھتے ہیں۔ وہ کائنات کی شکلوں اور آوازوں کا ادراک بےرنگی سے کرتا، اس کا غیرموجود بیٹا اس کی روح کے اس زوال پر پرورش پا رہا تھا۔ اس کی زندگی کی مقصد پورا ہو چکا تھا۔ آدمی اب ایک سرخوشی میں زندہ تھا۔ ایک عرصے کے بعد، جسے اس کی کہانی کے بعض راوی برسوں میں شمار کرنا پسند کرتے ہیں اور بعض قرنوں میں، ایک نصف شب اسے دو کشتی بانوں نے جگایا۔ وہ ان کے چہرے نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن انھوں نے اسے شمال کے معبد کے طلسمی آدمی کے بارے میں بتایا جو آگ پر چلتا تھا اور وہ اسے نہیں جلاتی تھی۔ ساحر کو ایک دم خداوند کے الفاظ یاد آئے۔ اسے یاد آیا کہ دنیا کی تمام مخلوقات میں صرف آگ جانتی ہے کہ اس کا بیٹا محض ایک پیکرِ خیال ہے۔ اس یاد نے، جو پہلے پہل اسے تسکین آمیز محسوس ہوئی، بعد میں اسے عقوبت میں مبتلا کر دیا۔ اسے خوف ہوا کہ کہیں اس کا بیٹا اپنی اس غیرمعمولی مراعت پر غور کر کے یہ معلوم نہ کر لے کہ وہ صرف ایک شبیہ کی حالت میں ہے۔ انسان نہ ہونا، محض کسی اور انسان کے خوابوں کی توسیع ہونا، کیسی ذلت اور پریشانی کی بات تھی۔تمام باپ اپنے ان بچوں میں دلچسپی لیتے ہیں جنھیں انھوں نے لاعلمی یا لذت میں پیدا کیا ہو (یا وجود میں آنے کی اجازت دی ہو) تو یہ قدرتی بات تھی کہ ساحر اپنے اس بچے کے مستقبل کے لیے فکرمند ہوتا جس کا ایک ایک عضو، ایک ایک نقش اس نے عالمِ خیال کی ایک ہزار ایک رازدارانہ راتوں میں تخلیق کیا تھا۔
اس کے مراقبات کا انجام ناگہانی تھا، اگرچہ بعض آثار اس کی پیش گوئی کر چکے تھے۔ پہلا (ایک طویل خشک سالی کے بعد) دور ایک پہاڑی پر پرندے کی طرح سبک اور تیزرفتار بادل، پھر جنوب کی سمت آسمان پر چیتے کے منھ جیسا گلابی رنگ، پھر آہنی راتوں کو زنگ خوردہ کرتا ہوا دھواں، اور آخر میں حیوانوں کا وحشت میں فرار — کہ جو کچھ ہو رہا تھا، کئی صدیوں پہلے بھی ہو چکا تھا۔ خداوندِ آتش کے معبد کا کھنڈر آگ کے ہاتھوں تلف ہوا۔ ایک بےطائر صبح نے دیواروں کے قریب حلقہ در حلقہ شعلے دیکھے۔ ایک لمحے کے لیے اس نے دریا میں پناہ لینے کے بارے میں سوچا، لیکن پھر وہ جان گیا کہ موت اس کے بڑھاپے کے سر پر تاج رکھنے اور اسے اس کی مشقت سے سبک کرنے آ پہنچی ہے۔ وہ شعلوں کی دیواروں میں داخل ہو گیا — لیکن انھوں نے اس کے گوشت میں دانت نہیں گاڑے۔ انھوں نے اسے احترام سے مس کیا اور اسے جلائے یا جھلسائے بغیر اپنے غلاف میں لے لیا۔ تسکین اور ذلت اور دہشت کے ساتھ اسے معلوم ہوا کہ وہ بھی محض ایک شبیہ تھا جسے کسی اور نے خواب میں دیکھا تھا۔

خورخے لوئس بورخیس

انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

بابل کی لاٹری


بابل کے تمام باشندوں کی طرح میں ایک حاکم رہا ہوں، اور سب کی طرح ایک غلام بھی۔ میں قدرتِ مطلق ، ذلت اور قید سے بھی واقف رہا ہوں۔ دیکھو: میرے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت غائب ہے۔ دیکھو: میری قبا کے اس چاک سے تم میرے پیٹ پر بنے اس سرخ کیے ہوے نقش کو دیکھ سکتے ہو۔ یہ دوسرا حرف ’ب‘ ہے۔ یہ حرف پورے چاند کی راتوں کو مجھے ان لوگوں پر قدرت عطا کرتا ہے جن کا نشان ’ج‘ ہے، لیکن یہ مجھے ’الف‘ کے نشان والوں کے تابع بھی کر دیتا ہے، جو بےچاند کی راتوں کو ’ج‘ کے نشان والوں کے مطیع ہوتے ہیں۔ فجر کے وقت ایک تہہ خانے میں میں نے ایک سیاہ پتھر پر متبرک بیلوں کی شہ رگیں قطع کی ہیں۔ ایک قمری سال کے دوران مجھے غیرمرئی قرار دے دیا گیا تھا: میں چلّاتا تھا اور میری آواز کا کوئی جواب نہیں ملتا تھا، میں روٹیاں چراتا تھا اور میرا سر قلم نہیں کیا جاتا تھا۔ میں اس چیز سے بھی واقف ہوں جس سے یونانی بےخبر تھے: غیریقینیت سے۔ کانسی کی ایک کوٹھڑی میں پھانسی دینے والے کے خاموش رومال کے سامنے امید ہمیشہ مجھ سے وفادار رہی ہے، جس طرح مسرتوں کے بہاؤ میں دہشت نے کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ پونٹیکا کے ہیریقلیطس نے مداحانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ فیثاغورث کو یاد تھا کہ وہ اس سے پہلے فیرو رہ چکا ہے، اور اس سے پہلے یوفوربس، اور اس سے پہلے کوئی اور۔ ان یکساں نشیب وفراز کو یاد کرنے کے لیے مجھے موت سے (حتیٰ کہ عیاری سے بھی ) رجوع کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس تقریباً وحشیانہ تنوع کے لیے میں ایک ایسے ادارے کا مرہونِ منت ہوں جس کے بارے میں دوسری جمہوریتیں کچھ نہیں جانتیں، یا جو ان کے درمیان خام صورت میں یا خفیہ طور پر کام کرتا ہے — یہ ادارہ لاٹری ہے۔ میں نے اس کی تاریخ کی کرید نہیں کی۔ مجھے معلوم ہے کہ داناؤں میں اس بارے میں اتفاقِ رائے نہیں ہو سکتا۔ اس کے طاقتور مقاصد کے بارے میں میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا علمِ فلکیات سے ناواقف کوئی شخص چاند کے بارے میں۔ میرا تعلق ایک مضطرب سرزمین سے ہے جہاں لاٹری پر حقیقت کی بنیاد ہوتی ہے۔ آج تک میں نے اس کے بارے میں اتنا ہی کم سوچا ہے جتنا ناقابلِ فہم خداؤں کے طرزعمل کے بارے میں یا اپنے دل کے بارے میں۔ اب جبکہ میں بابل سے اور اس کے محبوب رسم ورواج سے دور ہوں، میں لاٹری کے متعلق قدرے تعجب سے سوچتا ہوں اور جھٹ پٹے کے وقت نقاب پوش انسانوں کے ان ملحدانہ منتروں کے ادا کرنے پر غور کرتا ہوں۔
میرا باپ بیان کیا کرتا تھا کہ شروع میں — صدیوں یا شاید برسوں پہلے — بابل کی لاٹری ادنیٰ طبقے کے لوگوں کا ایک کھیل تھی۔ اس کا کہنا تھا (میں نہیں جانتا یہ کہاں تک سچ تھا) کہ حجام تانبے کے سکّوں کے بدلے ہڈی یا منقش چمڑے کے مستطیل ٹکڑے دیا کرتے تھے جن پر علامتیں کندہ ہوتی تھیں۔ نصف النہار کے وقت لاٹری کا قرعہ ڈالا جاتا تھا۔ جیتنے والوں کو قسمت کی مزید تائید کے بغیر چاندی کے ڈھلے ہوے سکے ملتے تھے۔ یہ طریقہ، جیسا کہ تم دیکھ سکتے ہو، بالکل ابتدائی درجے کا تھا۔
قدرتی طور پر یہ ’لاٹریاں‘ ناکام ہو گئیں۔ ان کی اخلاقی خوبی صفر تھی۔ ان میں انسانوں کی تمام صلاحیتوں کے لیے کشش نہ تھی، بلکہ صرف امید کے لیے۔ لوگوں کی بےتوجہی کے سبب وہ تاجر جنھوں نے یہ زراندوز لاٹریاں قائم کی تھیں، نقصان اٹھانے لگے۔ پھر کسی نے ایک خفیف سی اصلاح کرنے کی کوشش کی۔ جیتنے والے اعداد کے درمیان چند ناموافق ٹکٹ بھی شامل کر دیے گئے۔ اس اصلاح سے منقش مستطیلوں کے خریدار ایک رقم جیتنے یا ایک بڑا جرمانہ ادا کرنے کے دوہرے امکان کا سامنا کرنے لگے۔ اس خفیف سے خطرے نے (ہر تیس جیتنے والے اعداد پر ایک ناموافق ٹکٹ ہوتا تھا) فطری طور پر لوگوں کی دلچسپی کو ابھارا۔ بابلیوں نے خود کو اس کھیل کے سپرد کر دیا۔ جو شخص رقمیں نہ جیتتا اسے پست ہمت اور کم ظرف سمجھا جاتا۔ رفتہ رفتہ اس حقارت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب نہ صرف جو شخص کھیل میں حصہ نہ لیتا اسے حقیر سمجھا جاتا تھا بلکہ ہار کر جرمانہ ادا کرنے والوں پر بھی نفرین کی جاتی تھی۔ کمپنی کو (اسے اس نام سے جبھی پکارا جانے لگا تھا) جیتنے والوں کے تحفظ کے لیے انتظامات کرنے پڑے جنھیں جیتی ہوئی رقم اس وقت تک نہیں مل سکتی تھی جب تک جرمانوں کی ساری رقم جمع نہ ہو جائے۔ کمپنی نے ہارنے والوں پر مقدمہ دائر کر دیا۔ منصف نے انھیں جرمانہ اور مقدمے کے اخراجات ادا کرنے یا کچھ دن قید میں گزارنے کی سزا میں انتخاب کرنے کو کہا۔ کمپنی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ہر شخص نے قید کا انتخاب کیا۔ ابتدا میں چند لوگوں کی اسی دکھاوے کی بہادری کے سبب کمپنی کو اس کی موجودہ متبرک مابعدالطبیعیاتی حیثیت حاصل ہوئی۔
کچھ عرصے بعد قرعہ اندازی کی فہرستوں میں جرمانوں کی رقم کا اندراج غائب ہو گیا اور اس کی جگہ ہر ناموافق عدد کے لیے لازم آنے والی قید کی میعاد نے لے لی۔ یہ بلیغ اختصار، جسے اس وقت محسوس نہیں کیا گیا، بعد میں اصل اہمیت کا حامل بن گیا۔ ’’یہ لاٹری میں غیرمالیاتی عنصر کی پہلی آمد تھی۔‘‘ اسے عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی۔ کھیلنے والوں کے اصرار پر کمپنی کو ناموافق اعداد میں اضافہ کرنا پڑا۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ بابل کے لوگ منطق کے بہت دلدادہ ہیں، حتیٰ کہ موزونیت کے بھی۔ انھیں یہ بات بےجوڑ معلوم ہوئی کہ خوش قسمت اعداد کو گول سکّوں میں شمار کیا جائے جبکہ بدقسمت اعداد کو قید کے دنوں اور راتوں میں۔ کسی معلّمِ اخلاق نے استدلال کیا کہ دولت کی ملکیت ہمیشہ مسرت کا باعث نہیں ہوتی اور یہ کہ خوش بختی کی دوسری صورتیں شاید زیادہ موثر ہیں۔
غریب لوگوں میں بےچینی کا ایک اور سبب بھی تھا۔ راہبوں کے کالج کے ارکان نے داؤ پر لگائی جانے والی رقم بڑھا دی اور دہشت اور امید کے مدّوجزر سے خود لطف اندوز ہونے لگے۔ غریب لوگوں نے معقول یا ناگزیر رشک کے ساتھ خود کو اس بدنام لذت سے بھرے مدوجزر سے محروم پایا۔ اس جائز مطالبے نے کہ غریب اور امیر دونوں کو لاٹری میں برابر کا حصہ حاصل ہو، اس غضب ناک احتجاج کو جنم دیا جس کی یاد اتنے برسوں میں بھی محو نہیں ہوئی۔ چند ضدی لوگ نہ سمجھ سکے (یا انھوں نے نہ سمجھنے کا ڈھونگ رچایا) کہ یہ نیا ضابطہ تاریخ کی ایک لازمی منزل تھی... ایک غلام نے ایک قرمزی رنگ کا ٹکٹ چرا لیا جس سے اگلی قرعہ اندازی کے موقعے پر اس کی زبان جلائی جانے کا قرعہ نکلا۔ تعزیرات میں ٹکٹ چرانے والے کے لیے یہی سزا مقرر کر دی گئی۔ بہت سے بابلیوں نے کہا کہ وہ اس چوری کی پاداش میں تپتے ہوے لوہے سے داغے جانے کا مستحق ہے۔ جو زیادہ عالی ظرف تھے انھوں نے قرار دیا کہ جلاد لاٹری کی سزا کو خود عائد کرے کہ قسمت کا یہی فیصلہ ہے۔
ہنگامے پھوٹ پڑے، افسوسناک طریقے سے خون بہنے لگا۔ لیکن آخرکار بابل کے عوام نے امیروں کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی منوا لی۔ لوگوں کو اپنے اعلیٰ مقاصد مکمل طور پر حاصل ہو گئے۔ ایک تو یہ کہ کمپنی کو مطلق اختیار حاصل ہو گیا۔ (نئے طریقوں کی وسعت اور پیچیدگی کے پیش نظر یہ اکائی قائم کرنا ضروری تھا۔) دوسرے یہ کہ لاٹری کو خفیہ، مفت اور عام کر دیا گیا۔ رقم کے بدلے ٹکٹوں کی فروخت ختم کر دی گئی۔ ایک بار بعل کے اثر میں آ جانے کے بعد، ہر آزاد شخص خودبخود مقدس قرعہ اندازی میں حصہ لینے لگتا، جو ہر ستر راتوں کے بعد دیوتاؤں کی بھول بھلیوں میں کی جاتی تھی اور اگلی قرعہ اندازی تک ہر شخص کی تقدیر کو متعین کرتی تھی۔ اس کے نتائج ناقابلِ شمار تھے۔ کوئی موافق نتیجہ کسی شخص کو داناؤں کی کونسل تک پہنچا سکتا تھا یا کسی بدنام یا جانی دشمن کو اس کی تحویل میں دے سکتا تھا یا وہ ایک کمرے کے سکون بھرے سایوں میں اشتعال دلانے والی اس عورت کو پا سکتا تھا جسے دوبارہ دیکھنے سے وہ مایوس ہو چکا ہو۔ کسی ناموافق نتیجے سے مراد قطعِ اعضا، ذلت یا موت ہو سکتی تھی۔ کبھی کبھی کوئی ایک واقعہ — مثلاً ج کا مے خانے میں قتل یا ب کے درجات میں پراسرار بلندی — تیس یا چالیس قرعہ اندازیوں کا پُرمسرت نتیجہ ہو سکتا تھا۔ بہت سی قرعہ اندازیوں کے نتائج کو جوڑنا مشکل تھا لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کمپنی کے عملدار عیار اور سب کچھ کرنے پر قادر تھے (اور ہیں)۔ بہت سی صورتوں میں یہ علم ہو جانے سے کہ کسی خاص مسرت کا سبب محض قسمت ہے، ان کی مہارت کی شہرت کو ضعف پہنچ سکتا تھا۔ اس سے بچنے کے لیے کمپنی کے ایجنٹ ترغیب اور جادو کی قوت کا استعمال کرتے تھے۔ ان کے افعال اور نقل وحرکت خفیہ تھی۔ ہر شخص کی دلی دہشتوں اور دلی امیدوں کا کھوج لگانے کے لیے وہ نجومیوں اور جاسوسوں کو استعمال کیا کرتے تھے۔ کچھ پتھر کے بنے ہوے شیر تھے، ایک مقدس بیت الخلا تھا جو قفقہ کہلاتا تھا، ایک نالے میں کچھ دراڑیں تھیں جو عام خیال کے مطابق کمپنی کی طرف لے جانے والی تھیں۔ حاسد یا بہی خواہ لوگ ان شگافوں کو اپنی معلومات سے بھرتے رہتے تھے۔ سچائی کے مختلف معیاروں کی حامل ان معلومات کو حروفِ تہجی کے اعتبار سے ایک فائل میں اکٹھا کیا جاتا تھا۔
ناقابلِ یقین بات یہ ہے کہ شکایات پھر بھی ہوتی تھیں۔ کمپنی اپنی دوراندیشی کی عادت کے سبب براہ راست جواب نہیں دیتی تھی۔ اس نے نقابوں کے کارخانے میں لکڑی کے بیکار ٹکڑوں پر وہ مختصر سا بیان بےاعتنائی سے گھسیٹ دینے کو ترجیح دی جو اب مقدس منقولات میں شامل ہے۔ ادب کے اس اصول ساز نمونے میں کہا گیا تھا کہ لاٹری دنیا کے نظام میں قسمت کو داخل کرنے کا نام ہے اور غلطیوں کے وجود کو قبول کرنا قسمت کو رد کرنا نہیں بلکہ اس کی تائید کرنا ہے۔ مزید یہ کہ ان شیروں اور مقدس دراڑوں کو اگرچہ کمپنی کی طرف سے ناجائز قرار نہیں دیا گیا (کہ وہ ان سے استفادہ کرنے کے حق سے دستبردار نہیں ہونے والی) لیکن وہ کسی سرکاری ضمانت کے بغیر کام کرتے تھے۔
اس اعلان نے لوگوں کی بےچینی فرو کر دی۔ اس سے کچھ اور اثرات بھی پیدا ہوے جو لکھنے والے کے اندازے سے باہر تھے۔ اس نے کمپنی کی روح اور افعال میں گہری ترمیم کر دی۔ میرے پاس وقت بہت کم ہے، ہمیں پہلے ہی تنبیہ کی جا چکی ہے کہ جہاز لنگر اٹھانے والا ہے، پھر بھی میں وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا۔
خواہ یہ کتنا ہی خارج از امکان نظر آتا ہو، لیکن اس وقت تک کسی نے کھیلوں کا کوئی عام نظریہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بابلی زیادہ قیاس آرائیاں کرنے والے نہیں ہوتے۔ وہ تقدیر کے فیصلوں کی تعظیم کرتے ہیں اور اپنی زندگیاں، اپنے خوف اور اپنی امیدیں اس سے وابستہ کر دیتے ہیں، لیکن انھیں کبھی ان کے چیستانی قوانین یا ان کا اعلان کرنے والے گھومتے ہوے کُروں کی تحقیق کرنے کا خیال نہیں آتا۔ اس کے باوجود اس غیرمستند اعلان سے، جس کا میں نے ابھی ذکر کیا، بہت سی قانونی اور ریاضیاتی بحثوں کی ابتدا ہوئی۔ ان میں سے ایک بحث سے یہ قیاس پیدا ہوا کہ اگر لاٹری کا مقصد قسمت میں شدت پیدا کرنا ہے، اور کائنات میں انتشار کا مسلسل نفوذ ہے، تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اتفاق کا دخل صرف قرعہ اندازی کے موقعے پر ہونے کے بجاے ہر مرحلے پر ہو؟ کیا قسمت کے لیے یہ بات مضحکہ خیز نہیں کہ وہ صرف کسی کی موت کا اعلان کرے جبکہ اس کی موت کے تفصیلی حالات، اس کا برسرِعام یا خفیہ ہونا، یا ایک گھنٹے یا ایک صدی کے بعد واقع ہونا، اس کی دسترس سے باہر رہیں؟ آخرکار ان اعتراضات نے بہت بڑی اصلاح کی راہ ہموار کی جس کی پیچیدگیاں (جن میں برسوں کے عمل سے اور اضافہ ہو گیا) معدودے چند ماہرین کے سوا کوئی بھی نہ سمجھ سکتا تھا۔ لیکن میں انھیں، علامتی طور پر ہی سہی، مختصراً بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
ایک پہلی قرعہ اندازی کا تصور کرو جس میں کسی شخص کے لیے موت کی سزا کا قرعہ نکلتا ہے۔ اس سزا کی انجام دہی کے لیے ایک اور قرعہ اندازی ہوتی ہے جس سے (مثال کے طور پر) نو ممکنہ جلادوں کے نام تجویز ہوتے ہیں۔ ان میں سے چار ایک اور قرعہ ڈال سکتے ہیں جس سے اصل جلاد کا تعین ہو جائے؛ دو اس ناموافق حکم کو موافق حکم میں بدل سکتے ہیں (مثلاً کسی خزانے کا حصول)؛ ایک اور شخص سزاے موت کے حکم میں مزید شدت پیدا کر سکتا ہے (یعنی اسے خفیہ رکھ کر یا اس میں تشدد کا اضافہ کر کے)؛ باقی لوگ اس سزا کو عائد کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ اس کی علامتی صورت اس طرح کی ہے: درحقیقت قرعہ اندازیوں کی تعداد لامحدود ہے، کوئی فیصلہ آخری نہیں، سب دوسرے فیصلوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ بےخبر لوگ فرض کر لیتے ہیں کہ لامحدود قرعہ اندازیوں کے لیے لامحدود وقت درکار ہوتا ہو گا، حقیقت میں وقت کا صرف لامحدود طور پر قابلِ تقسیم ہونا کافی ہے، جیسا کہ کچھوے اور خرگوش کی مشہور حکایت میں ہے۔ یہ لامحدودیت لاٹری کے اس مقدس نمونے سے پُرستائش مطابقت رکھتی ہے جس کے فلاطونی مداح تھے۔ ہمارے رواج کی ایک ذرا بگڑی ہوئی گونج دریاے ٹائبر کے کنارے پر سنائی دیتی معلوم ہوتی ہے۔ ایلیس لیمپریڈیس نے اپنی کتاب LIFE OF ANTONINUS HELIOGABALUS میں بتایا ہے کہ کس طرح یہ بادشاہ اپنے مہمانوں کو ملنے والی چیزیں سیپیوں پر تحریر کر دیا کرتا تھا کہ کسی کو دس پونڈ سونا حاصل ہو اور کسی کو دس مکھیاں، دس گلہریاں یا دس ریچھ۔ یہ یاد کرنا برمحل ہو گا کہ ہیلیوگبالس نے ایشیاے کوچک میں نامور خدا کے راہبوں کے درمیان پرورش پائی تھی۔
غیرشخصی قرعہ اندازیاں بھی ہوتی ہیں جن کا مقصد متعین نہیں ہوتا، مثلاً کسی قرعے سے یہ حکم صادر ہو سکتا ہے کہ ٹپروبین کا ایک یاقوت فرات کے پانیوں میں پھینک دیا جائے، یا یہ کہ ایک پرندے کو کسی مینار پر سے آزاد کیا جائے، یا یہ کہ ساحل پر پڑے ہوے ریت کے ناقابلِ شمار ذروں میں ہر ایک صدی کے بعد ایک ذرہ بڑھا (یا گھٹا) دیا جائے۔ اس کے دوررس نتائج ہولناک ہو سکتے ہیں۔
کمپنی کے مفید اثر سے ہمارے رواجوں میں اتفاق کا بےحد دخل ہو گیا ہے۔ دمشق کی شراب کے درجن بھر مٹکے خریدنے والے کو کوئی تعجب نہیں ہو گا اگر ان میں سے کسی میں کوئی تعویذ یا سانپ موجود ہو۔ معاہدے تحریر کرنے والے خوش نویس ہمیشہ اس میں کوئی نہ کوئی نادرست مفروضہ شامل کر دیتے ہیں۔ میں نے خود اس عجلت میں کیے ہوے ذکر میں کچھ نہ کچھ ردوبدل کر دیا ہے اور ایک قسم کا جلال یا کرختگی شامل کر دی ہے — شاید ایک پراسرار یک آہنگی بھی۔ ہمارے مورخوں نے، جو دنیا میں سب سے زیادہ دانشمند ہیں، اتفاق کی تصحیح کرنے کا ایک طریقہ وضع کیا ہے۔ اس طریقے کے افعال عام طور پر قابلِ اعتماد تصور کیے جاتے ہیں، اگرچہ فطری طور پر اس کی شہرت میں کچھ نہ کچھ عنصر فریب کاری کا بھی شامل ہے۔ بہرصورت، کمپنی کی تاریخ سے زیادہ افسانوں سے ملوث اور کوئی چیز نہیں ہے۔ کسی معبد سے برآمد ہونے والی ایک دستاویز کسی کل کی قرعہ اندازی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور صدیوں پہلے کی قرعہ اندازی کا بھی۔ کوئی کتاب ایسی نہیں جس کے ہر نسخے میں کچھ نہ کچھ فرق نہ ہو — کاتب حذف، تحریف اور تبدیل کرنے کا خفیہ طور پر حلف اٹھائے ہوے ہوتے ہیں۔ بالواسطہ جھوٹ کو بھی رواج دیا جاتا ہے۔
الوہی انکسار کے سبب کمپنی ہر قسم کی تشہیر سے گریز کرتی ہے۔ اس کے عملدار، جیسا کہ فطری بات ہے، خفیہ ہیں۔ اس کے مسلسل جاری ہوتے رہنے والے احکام دھوکے بازوں کے جاری کیے ہوے نقلی احکام کے سیلاب سے مختلف نہیں ہوتے۔ اور پھر کون ہے جو دھوکے باز ہونے کا خود دعویٰ کرے گا؟ مدہوشی میں لایعنی فیصلے صادر کرنے والا شرابی، یا کوئی خواب دیکھنے والا جو یکایک نیند سے چونک کر اپنے پہلو میں سوئی ہوئی عورت کا گلا گھونٹ کر اسے مار ڈالتا ہے، کیا یہ دونوں غالباً کمپنی کے کسی خفیہ فیصلے کو پورا نہیں کر رہے ہوتے؟ یہ خاموش کارگزاری، جو خدا کے کاموں کی ہم پلّہ ہے، ہر قسم کی قیاس آرائیوں کو جنم دیتی ہے۔ ان میں سے ایک قیاس بڑے مکروہ انداز میں یہ جتاتا ہے کہ کمپنی کی عمر چند صدیوں سے زیادہ نہیں، جبکہ ہماری زندگیوں کی یہ بےترتیبی موروثی ہے۔ دوسرے کہتے ہیں کہ کمپنی ابدی ہے اور دنیا کی آخری رات تک قائم رہے گی جب آخری خدا کائنات کو منہدم کردے گا۔ ایک اور قیاس یہ اعلان کرتا ہے کہ کمپنی ہر شے پر قادر ہے لیکن وہ اپنی قدرت صرف بہت چھوٹے معاملات میں استعمال کرتی ہے، مثلاً کسی پرندے کی چیخ، زنگ اور غبار کی تہوں یا فجر کی غنودگی میں۔ ایک اور خیال، چھپے ہوے بےعقیدہ لوگوں کی زبان میں، یہ ہے کہ ’’کمپنی کا وجود کبھی نہیں تھا، اور نہ کبھی ہو گا۔‘‘ اتنا ہی حقارت آمیز ایک اور قیاس یہ بھی ہے کہ کسی مشتبہ کارپوریشن کے ہونے کے اقرار یا انکار سے کچھ فرق نہیں پڑتا، کیونکہ بابل اتفاق کے ایک لامحدود کھیل کے سوا کچھ نہیں۔


خورخے لوئس بورخیس

انگریزی سے ترجمہ: اجمل کمال

مینارِبابل کی لائبریری

BY THIS ART YOU MAY CONTEMPLATE THE VARIATION OF 23 LETTERS...
THE ANATOMY OF MELANCHOLY
( PART 2, SECT 11, MEM IV)

کائنات (جسے دوسرے لوگ لائبریری کہتے ہیں) مسدس گیلریوں سے بنی ہوئی ہے جن کی تعداد غیرمتعین، شاید لامحدود، ہے اور جن کے درمیان میں پستہ قد جنگلوں سے گھری بڑی بڑی ہوادار سرنگیں ہیں۔ ہر مسدس سے اوپر اور نیچے کی منزلیں دور دور تک دیکھی جا سکتی ہیں۔ پانچ پانچ طویل الماریوں نے دو کے سوا ہر دیوار کو ڈھانپ رکھا ہے۔ ان کی اونچائی، جو ہر منزل کی بلندی کے برابر ہے، ایک اوسط لائبریرین کے قد سے زیادہ نہیں۔ دو خالی پہلوؤں میں سے ایک میں ایک تنگ سی راہداری کا دروازہ ایک اور گیلری میں کھلتا ہے جو بالکل پہلی گیلری اور باقی تمام گیلریوں کی طرح ہے۔ دروازے کے دائیں اور بائیں جانب دو چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوے ہیں؛ ایک میں کھڑے ہو کر سونے کی جگہ ہے اور دوسرے میں اسفل ضروریات کی تسکین کا انتظام ہے۔ اس حصے سے ایک چکردار زینہ بھی گزرتا ہے جو نیچے کہیں پاتال میں اتر جاتا ہے اور اوپر دور بلندیوں میں چڑھتا چلا جاتا ہے۔ راہداری کے دروازے میں ایک آئینہ لٹکا ہوا ہے جو آثار کو وفاداری سے دُہراتا رہتا ہے۔ لوگ عام طور پر اس آئینے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ لائبریری لامحدود نہیں ہے (کہ اگر واقعی ایسا ہوتا تو اس پُرفریب دُہراہٹ کی کیا ضرورت تھی؟) میں یہ خیال کرنے کو ترجیح دیتا ہوں کہ چمکدار سطحوں میں لامتناہیت کی ایجاد کا امکان چھپا ہوتا ہے... روشنی ان گول قمقموں سے آتی ہے جنھیں لیمپ کہا جاتا ہے۔ ہر مسدس میں اس طرح کے دو لیمپ ایک دوسرے کے مقابل نصب ہیں۔ ان سے نکلنے والی روشنی ناکافی اور متواتر ہے۔
لائبریری کے تمام لوگوں کی طرح میں اپنی جوانی میں سفر کر چکا ہوں؛ میں ایک کتاب کی تلاش میں سرگرداں رہا ہوں جو شاید فہرستوں کی ایک فہرست ہے۔ اب جبکہ میری آنکھیں میرا اپنا لکھا ہوا بھی مشکل سے پڑھ سکتی ہیں، میں خود کو اُس مسدس سے چند فرسنگ دور مرنے کے لیے تیار کر رہا ہوں جہاں میں پیدا ہوا تھا۔ مرنے کے بعد مجھے جنگلے سے نیچے دھکیلنے کے لیے پارسا ہاتھوں کی کمی نہیں۔ میری قبر اتھاہ ہوا ہو گی۔ لامتناہی طور پر گرتے ہوے میرا جسم لمبا ڈوبتا جائے گا اور گل کر مخالف ہوا میں مل جائے گا۔ میں کہتا ہوں کہ لائبریری لاانتہا ہے۔ مثالیت پسند بحث کرتے ہیں کہ مکانِ مطلق کے لیے، یا جو کچھ اس کا ہمارے ذہن میں تصور ہے اس کے لیے، مسدس ہال لازمی ہیئت ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مثلث یا مخمس ہال کا تصور ناممکن ہے۔ (صوفیوں کا دعویٰ ہے کہ انبساط ان کے لیے ایک گول کمرہ ہے جس میں ایک عظیم کتاب کمرے کی دیواروں کو اپنی مسلسل پشت سے ڈھکے ہوے ہو۔ لیکن ان کی شہادت غیرمعتبر ہے اور الفاظ مبہم۔ یہ کروی کتاب خدا ہے۔) فی الحال میں صرف اس کلاسیکی مقولے کو دُہرانے پر اکتفا کرتا ہوں: ’’لائبریری ایک کرہ ہے جس کا مرکز کوئی ایک مسدس ہے اور جس کا محیط ناقابلِ ادراک ہے۔‘‘
ہر مسدس کی ہر دیوار کے لیے پانچ الماریاں ہیں۔ ہر الماری میں یکساں تقطیع کی بتیس کتابیں ہیں، ہر کتاب چار سو دس صفحات پر مشتمل ہے، ہر صفحہ چالیس سطروں پر اور ہر سطر کم وبیش اسّی سیاہ حروف پر۔ ہر کتاب کے پشتے پر بھی کچھ حروف لکھے ہوے ہیں؛ کتاب میں جو کچھ کہا جانے والا ہے یہ حروف اس کا کوئی خلاصہ یا اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ بےربطی کبھی پراسرار معلوم ہوتی تھی۔ مختصر طور پر اس کا حل بیان کرنے سے پہلے (جس کا انکشاف، اپنے المیہ کنایوں کے باوجود، شاید تاریخ کی بنیادی حقیقت ہے) میں چند مسلمہ مفروضوں کو یاد میں لانا چاہتا ہوں۔
اول: ’’لائبریری کا وجود ازل سے ہے۔‘‘ کوئی معقول ذہن اس حقیقت پر شک نہیں کر سکتا، جس کا فوری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا مستقبل میں ہمیشہ باقی رہے گی۔ انسان، ناقص لائبریرین، کا وجود محض اتفاق یا بداندیشی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ کائنات، اپنی الماریوں، اپنی چیستانی کتابوں، مسافروں کے لیے ان تھک سیڑھیوں اور بیٹھے ہوے لائبریرین کے لیے مخصوص نشستوں کی خوش وضع ترتیب کے ساتھ، کسی خدا ہی کا کام ہو سکتی ہے۔ الوہیت اور انسان کے درمیان فاصلے کے ادراک کے لیے ان بھدے شکستہ حروف کا جو میرا غلطی کرنے والا ہاتھ کسی کتاب کے آخر کے سادہ صفحوں پر رقم کرتا ہے، کتاب کے اندر کے نامیاتی حروف سے موازنہ کرنا کافی ہے جو باقاعدہ ، نازک، بالکل سیاہ اور ناقابلِ تقلید طور پر موزوں ہیں۔
دوم: ’’ہجے کی علامتوں کی تعداد پچیس ہے۔‘‘1 اس چھوٹی سی شہادت سے، تین سو سال قبل یہ ممکن ہوا کہ لائبریری کا ایک عمومی نظریہ قائم ہو سکا اور اس مسئلے کا اطمینان بخش حل دستیاب ہوا جس کی وضاحت آج تک کسی قیاس سے نہیں ہو سکی تھی: یعنی تقریباً تمام کتابوں کی بےہیئتی اور انتشار۔ ان میں سے ایک کتاب جو سرکٹ نمبر 1584 کے ایک مسدس میں میرے باپ نے دیکھی تھی، پہلی سے آخری سطر تک تین حروف MCV کی ضدی پن سے تکرار پر مشتمل تھی۔ایک اور کتاب (جس سے اس علاقے میں بہت رجوع کیا جاتا ہے) محض حروف کی بھول بھلیاں ہے لیکن آخری سے پہلے صفحے پر یہ الفاظ پڑھے جاسکتے ہیں: OH TIME THY PYRAMIDS۔ جیسا کہ بخوبی جانا جاتا ہے، سیدھے سادے بیانیے کی ایک معقول سطر کے لیے بےحس بےآہنگی، الفاظ کے پچ میل اور بےربطی کے فرسنگ کے فرسنگ ناپنے پڑتے ہیں۔ (مجھے ایک ایسے علاقے کا علم ہے جہاں کے لائبریرین کتابوں میں کسی مفہوم کو تلاش کرنے کے بےفائدہ توہمانہ رواج کو رد کرتے ہیں، اور اسے خوابوں میں، یا ہتھیلی کی منتشر لکیروں میں کوئی مفہوم ڈھونڈنے کے مترادف سمجھتے ہیں... وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان تحریروں کے موجدوں نے پچیس فطری علامات ہی کو نقل کیا ہے، لیکن ان کا اصرار ہے کہ یہ استعمال محض اتفاق ہے اور کتابیں بجاے خود کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ہم دیکھیں گے کہ یہ رائے مکمل طور پر غلط نہیں ہے۔)
بہت عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ ناقابلِ گزر کتابیں کسی قدیم زمانے کی یا دوردراز علاقے کی زبانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ سچ ہے کہ قدیم ترین انسان، جو اولین لائبریرین تھے،ایسی زبان بولتے تھے جو ہماری آج کل کی زبان سے یکسر مختلف تھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ دائیں جانب چند میل کے فاصلے پر زبان کا محاورہ مقامی ہے، اور نوے منزل اوپر یہ بالکل ناقابلِ فہم ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ یہ سب سچ ہے لیکن چار سو دس صفحات تک MCV کی بےتغیر تکرار کسی زبان سے مطابقت نہیں رکھتی، چاہے وہ کتنی ہی علاقائی یا ابتدائی زبان کیوں نہ ہو۔ کچھ لائبریرین خیال کرتے تھے کہ ہر حرف اپنے اگلے حرف کو متاثر کرتا ہے، اور صفحہ 71 کی تیسری سطر پر MCV کی قدر وہ نہیں ہو گی جو کسی اور صفحے کی کسی سطر پر، لیکن یہ مبہم نظریہ پنپ نہ سکا۔ کچھ اور لوگ اسے خفیہ زبان کی تحریر سمجھتے تھے؛ یہ قیاس اب عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، اگرچہ ان معنوں میں نہیں جن میں اس قیاس کے موجدوں نے اسے وضع کیا تھا۔
پانچ سو برس پہلے ایک بالائی منزل کے سربراہ2 کو ایک ایسی کتاب ملی جو یوں تو باقی تمام کتابوں ہی کی طرح پراگندہ کن تھی لیکن جس میں ہم آہنگ سطروں پر مشتمل کم وبیش دو صفحے موجود تھے۔ اس نے اپنی دریافت ایک خفیہ زبانیں پڑھنے والے کو دکھائی جس نے بتایا کہ یہ سطریں پرتگالی زبان میں لکھی ہوئی ہیں۔ دوسروں کا خیال تھا کہ یہ یِدش زبان میں ہیں۔ ایک صدی سے کم عرصے میں اس زبان کی نوعیت طے ہو گئی: یہ گوارانی زبان کی سوئیدک لتھوینین بولی تھی جس پر کلاسیکی عربی کے بھی اثرات تھے۔ متن کو بھی پڑھ لیا گیا: یہ الفاظ کے ملاپ کے تجزیے سے متعلق چند نظریات تھے جو الفاظ میں ذرا ذرا سی تبدیلی کے ساتھ لامحدود تکرار کی مثالوں سے مزین تھے۔ ان مثالوں کی مدد سے ایک ذہین لائبریرین کے لیے لائبریری کے بنیادی اصول کا سراغ لگانا ممکن ہو گیا۔ اس مفکر کا خیال تھا کہ تمام کتابیں، چاہے وہ کتنی ہی مختلف ہوں، یکساں عناصر سے بنی ہیں: پیریڈ ، کاما، وقفہ اور بائیس حروفِ تہجی۔ اس نے ایک اور حقیقت پیش کی جس کی تصدیق مسافروں نے کی: ’’اس وسیع لائبریری میں کوئی دو کتابیں ایسی نہیں ہیں جو مکمل طور پر یکساں ہوں۔‘‘ ان تمام ناقابلِ تردید مقدمات سے اس نے اخذ کیا کہ لائبریری ’’مکمل ‘‘ ہے، اور اس کی الماریوں کے خانوں میں بائیس حروف تہجی کی تمام ممکنہ ترتیبیں موجود ہیں (جن کی تعداد چاہے کتنی بھی وسیع ہو، لامحدود نہیں ہے) —یعنی تمام زبانوں میں ہر قابلِ اظہار شے۔ ان الماریوں میں ہر چیز ہے: مستقبل کی تفصیلی تاریخ، فرشتوں کے سرداروں کے خودنوشت سوانح حیات، لائبریری کے درست کٹیلاگ، ہزارہا غلط کٹیلاگ، غلط کٹیلاگوں کی غلطیوں کی فہرستیں، صحیح کٹیلاگوں کی غلطیوں کی فہرستیں، باسیلیدس کے عارفانہ ملفوظات کی تفسیر، اس تفسیر کی تفسیر، تمھاری موت کا درست احوال، ہر کتاب کا ہر زبان میں ترجمہ، تمام کتابوں کے درمیان ہر کتاب کا نفوذ۔
جب یہ اعلان کیا کہ لائبریری ’’تمام ‘‘ کتابوں پر مشتمل ہے تو پہلا تاثر بےپناہ خوشی کا تھا۔ تمام انسانوں نے خود کو ایک مخفی، ان چھوئے خزانے کا مالک محسوس کیا۔ کوئی نجی یا کائناتی مسئلہ ایسا نہ تھا جس کا حل کسی نہ کسی مسدس میں موجود نہ ہو۔ کائنات باجواز ہو گئی، امید کی بےنہایت حدوں تک پھیل گئی۔ اس موقعے پر روداد کی کتابوں کا بہت چرچا ہوا: یہ عذرخواہی اور پیش گوئی کی وہ کتابیں تھیں جو ہر زمانے کے لیے، کائنات کے ہر انسان کے تمام افعال کی تفصیل رکھتی تھیں اور مستقبل کے لیے بےشمار امکانات کا ذخیرہ۔ روداد کی کتابیں حاصل کرنے کے فضول مقصد سے حریص انسان اپنے اپنے عزیز آبائی مسدس کو چھوڑ کر زینوں پر ہجوم کرنے لگے۔ یہ یاتری تنگ راہداریوں میں ایک دوسرے سے جھگڑتے، ایک دوسرے کو سیاہ بددعائیں دیتے، الوہی زینوں پر ایک دوسرے کی راہ روک لیتے، پرفریب کتابوں کو ہوادار سرنگوں کی تہہ میں پھینک دیتے، اور دوردراز علاقوں کے انسانوں کے ہاتھوں اسی قسم کی موت کا شکار ہو جاتے۔ کچھ لوگ پاگل ہو گئے... روداد کی کتابوں کا وجود ہے (میں نے خود ایسی دو کتابیں دیکھی ہیں جن کا تعلق آنے والے زمانوں کے افراد سے تھا، افراد جو شاید فرضی نہیں تھے) لیکن انھیں تلاش کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی شخص کے اپنی کتاب یا اس کی کوئی تبدیل شدہ شکل پا لینے کا قابلِ شمار امکان تقریباً صفر ہے۔
اس زمانے میں یہ توقع بھی کی جاتی تھی کہ انسانیت کے بنیادی اسرار—لائبریری کی اور وقت کی حقیقت—کی وضاحت ممکن ہے۔ یہ بات قابلِ یقین ہے کہ ان گمبھیر رازوں کو الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اگر فلسفیوں کی زبان ناکافی ثابت ہو تو متنوع لائبریری یہ بےمثال زبان، اور اس کے ضروری ذخیرۂ الفاظ اور قواعد، پیدا کر لے گی جو اس بیان کی متحمل ہو سکے گی۔
تقریباً چار صدیاں ہوتی ہیں کہ انسان ان مسدسوں میں بھٹک رہے ہیں... ان میں کچھ سرکاری متلاشی (INQUISITORS) ہیں۔ میں نے انھیں اپنے فرائض انجام دیتے ہوے دیکھا ہے: وہ ہمیشہ اپنے سفر سے تھکے ہوے آتے ہیں، ان کی زبان پر ایک ٹوٹے ہوے زینے کا ذکر ہوتا ہے جس کے باعث وہ مرتے مرتے بچے تھے۔ وہ مقامی لائبریرین سے گیلریوں اور زینوں کی باتیں کرتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ اجنبی الفاظ کی تلاش میں اپنے قریب رکھی ہوئی کوئی کتاب اٹھا کر اس کی ورق گردانی شروع کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کوئی بھی کسی دریافت کی توقع نہیں کر سکتا۔
قدرتی طور پر اس غیرمعمولی امید کی جگہ گہری مایوسی نے لے لی۔ یہ یقین کہ کسی مسدس کی کسی الماری میں قیمتی کتابیں موجود ہیں جن کا حصول ناممکن ہے، ناقابلِ برداشت معلوم ہونے لگا۔ ایک بدعتی فرقے نے تجویز کیا کہ اس تلاش کو ترک کر دیا جائے اور تمام لوگ ہر جگہ حروف اور علامتوں کو چھانٹتے رہیں، یہاں تک کہ وہ قسمت کی ایک غیراغلب عنایت سے ان قوانین کی کتابیں مرتب کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ حکام کو سخت احکام جاری کرنے پڑے۔ یہ فرقہ نابود ہو گیا، لیکن میں نے اپنے بچپن میں ایسے بوڑھے آدمی دیکھے ہیں جو بہت طویل عرصے کے لیے چھوٹے کمروں میں پانسہ پھینکنے کی ممنوعہ ڈبیوں میں دھات کے ٹکڑے لے کر چھپ جایا کرتے اور الوہی بےترتیبی کو منھ ہی منھ میں دہرایا کرتے۔
اس کے برخلاف دوسرے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ پہلا کام بےمصرف تحریروں کو تلف کرنا ہے۔ وہ مسدسوں پر حملہ آور ہوتے اور ایسے کاغذات دکھا کر جو ہمیشہ جعلی نہیں ہوتے تھے، ایک کتاب کو سرسری طور پر ناگواری سے دیکھتے اور پھر پوری الماری کو تباہ کرنے کے قابل قرار دے دیتے: ان کا یہ راہبانہ اور معالجانہ طیش لاکھوں کتابوں کے لایعنی نقصان کا ذمہ دار ہے۔ ان کے نام پر لعنت کی جاتی ہے، لیکن اس جنون کے ضائع کردہ ’خزانوں‘ کا افسوس کرنے والے لوگ دو اہم حقائق کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ لائبریری اتنی بڑی ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں ہونے والی کوئی بھی کمی انتہائی خفیف ہے۔ دوسرے یہ کہ یوں تو ہر کتاب منفرد اور بےبدل ہے، لیکن (چونکہ لائبریری ’مکمل‘ ہے) سیکڑوں ہزار ناقص نقلیں اور ایسی تحریریں موجود ہیں جن میں صرف ایک حرف یا ایک کاما کا فرق ہے۔ عام خیال کے برعکس، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان جنونیوں کی پھیلائی ہوئی دہشت سے اس غارت گری میں مبالغہ پیدا ہو گیا ہے۔اس غارتگری کو مزید مہمیز سرخ مسدس میں ان کتابوں تک پہنچنے کی خواہش سے ملی جو عام تقطیع سے چھوٹی، ہر شے پر قادر، مصور اور طلسماتی تھیں۔
ہم اس زمانے کے ایک اور واہمے کو بھی جانتے ہیں: یعنی مردِ کتاب کا تصور۔ لوگوں کا اصرار تھا کہ کسی مسدس کی کسی الماری میں ایک کتاب ضرور ایسی موجود ہے جو ’’باقی تمام کتابوں ‘‘ کی کلید اور مکمل ترین تلخیص ہے: ایک لائبریرین اس کا مطالعہ کر چکا ہے اور وہ خدا کے مثل ہے۔ اس قدیم کارپرداز کی پرستش کے آثار اس علاقے کی زبان میں اب بھی ملتے ہیں۔ بہت سوں نے اس کی تلاش کی ہے۔ ایک صدی تک وہ پیچیدہ ترین علاقوں کو بےسود کھنگالتے رہے ہیں۔ اس پراسرار مسدس کا سراغ کس طرح لگایا جائے جہاں وہ موجود ہے؟ کسی نے اس کے لیے ایک مراجعتی طریقہ تجویز کیا تھا: کتاب الف کا مقام معلوم کرنے کے لیے پہلے کتاب ب سے رجوع کیا جائے جس میں کتاب الف کا سراغ موجود ہے، کتاب ب کا پتا لگانے کے لیے کتاب ج سے رجوع کیا جائے، اور اسی طرح لامتناہیت تک ...
میں نے اس قسم کی مہمات میں اپنی زندگی کے برس لٹائے اور صرف کیے ہیں۔ مجھے یہ بات غیرممکن نہیں لگتی کہ کائنات کی کسی الماری میں کوئی مکمل کتاب موجود ہے۔3 میں نامعلوم خداؤں سے دعا کرتا ہوں کہ کسی شخص نے — کسی ایک شخص نے، خواہ وہ ہزاروں برس پہلے کا کوئی شخص ہو— اس کتاب کو پرکھا اور پڑھا ہو۔ اگر اعزاز اور دانش اور مسرت میرے لیے نہیں ہیں تو وہ کسی اور ہی کے لیے ہوں۔ جنت کا وجود ہو، چاہے مجھے جہنم ہی میں جگہ ملے۔ خواہ میں پامال اور نابود ہو جاؤں لیکن تیری عظیم لائبریری کا کسی ایک موقعے پر کسی کے لیے جواز فراہم ہو۔
بےدین لوگ اصرار کرتے ہیں کہ بےمعنویت لائبریری کا قاعدہ ہے اور کوئی بھی معقول شے (یہاں تک کوئی معمولی یا سادہ سا ربط بھی) تقریباً معجزاتی استثنیٰ ہے۔ وہ لوگ (میں جانتا ہوں) اس سرسامی لائبریری کی بات کرتے ہیں ’’جس کی اتفاقیہ کتابیں ہمیشہ دوسری کتابوں میں تبدیل ہو جانے کے خطرے سے دوچار رہتی ہیں اور ایک ہذیانی الوہیت میں ہر شے کا انکار، اقرار اور الجھاؤ پیدا کرتی رہتی ہیں۔‘‘ یہ الفاظ (جن میں خود وہ بےنظمی موجود ہے جس کی یہ مذمت کرتے ہیں) کہنے والوں کی بدمذاقی اور جہالت پر گواہ ہیں۔ درحقیقت لائبریری میں الفاظ کی تمام ممکنہ ترکیبیں، پچیس تحریری علامات کی ہر ممکن ترتیب موجود ہے، لیکن اس میں مطلق لایعنیت کا وجود ممکن نہیں۔ یہ کہنا بےمعنی ہو گا کہ ان بےشمار مسدسوں میں جو میرے تصرف میں ہیں، بہترین کتاب THE COMBED THUNDERCLAP یا THE PLASTER CRAMP یا AXAXAXAS MLO ہے۔ یہ فقرے جو پہلی نظر میں بالکل بےربط معلوم ہوتے ہیں، بلاشبہ اپنا رمزی یا تمثیلی جواز رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ جواز بھی الفاظ پر مشتمل ہے اس لیے مفروضاتی طور پر یہ بھی لائبریری میں موجود ہے۔ میں الفاظ کو کسی ایسی ترتیب (مثلاً DHCMRLCHTDJ) میں یکجا نہیں کر سکتا جو اس الوہی لائبریری میں پہلے ہی سے موجود نہ ہو، اور جو اس کی خفیہ زبانوں میں سے کسی زبان میں کسی دہشت ناک مفہوم کا احاطہ نہ کرتی ہو۔ کوئی شخص ایسی کسی آواز کو تحریر میں نہیں لاسکتا جو نرمی اور دہشت سے پُر نہ ہو اور جو کسی نہ کسی زبان میں کسی نہ کسی خدا کا طاقتور نام ظاہر نہ کرتی ہو۔ بولنے کا مطلب تکرار کا شکار ہو جانا ہے۔ یہ بےمصرف اور لفظی تحریر بھی جو میں لکھ رہا ہوں، پہلے سے کسی مسدس کی کسی الماری پر رکھی تیس کتابوں میں کہیں نہ کہیں موجود ہو گی — اور اس کا رد بھی۔ (تمام ممکنہ زبانوں کی تعداد N، ایک ہی ذخیرۂ الفاظ کو استعمال کرتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک زبان میں لفظ ’’لائبریری‘‘ کا مطلب یہ ہے: ’’مسدس گیلریوں کا ہمہ گیر اور ابدی نظام۔‘‘ لیکن کسی اور زبان میں اس اس کے معنی ’’روٹی‘‘ یا ’’ہرم‘‘ کے ہو سکتے ہیں، اور لائبریری کی تعریف بیان کرنے والے سات الفاظ کا مفہوم کچھ اور ہو سکتا ہے۔ تم جو مجھے پڑھتے ہو، کیا تمھیں یقین ہے کہ تم میری زبان سمجھتے ہو؟)
لکھنے کا باضابطہ کام مجھے انسانوں کی موجودہ صورت حال سے نکال لیتا ہے، لیکن یہ یقین کہ ہر تحریر پہلے سے لکھی جا چکی ہے، ہم سب کو باطل کر دیتا اور خیالی پیکروں میں بدل دیتا ہے۔ میں ایسے علاقوں سے واقف ہوں جہاں نوجوان کتابوں کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں اور ان کے صفحات کو بربریانہ انداز میں چومتے ہیں، حالانکہ وہ ایک حرف کو بھی شناخت کرنا نہیں جانتے۔ وباؤں، بدعتی اختلافات اور قتل و غارتگری میں بدل جانے والی یاتراؤں نے آبادی کے دسویں حصے کو تلف کر دیا ہے۔ اور خودکشیوں کا ذکر تو میں پہلے ہی کر چکا ہوں، جن میں ہر سال اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس گمراہی کی وجہ بڑھاپا اور خوف ہو لیکن مجھے شبہ ہے کہ نوع انسانی—منفرد نوعِ انسانی—خاتمے کے راستے پر ہے، جبکہ لائبریری ہمیشہ باقی رہے گی: روشن، تنہا، لامحدود، ساکت، قیمتی کتابوں سے پُر، بےمصرف، ناقابلِ مسخ اور مخفی۔
میں نے ابھی ابھی ’’لامحدود‘‘ کا لفظ لکھا ہے۔ میں نے اسے خطیبانہ عادت کے سبب استعمال نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوچنا غیرمنطقی بات نہیں ہے کہ دنیا لامحدود ہے۔ وہ جو اسے محدود خیال کرتے ہیں، گویا یہ سمجھتے ہیں کہ بہت دوردراز کسی جگہ پر راہداریوں، سیڑھیوں اور مسدسوں کا یہ سلسلہ (ناقابل تصور طور پر) رک سکتا ہے—جو کہ ظاہر ہے بالکل لایعنی بات ہے۔ دوسری طرف وہ جو اسے بےنہایت جانتے ہیں، یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ کتابوں کی ممکنہ تعداد محدود ہے۔ اس قدیم مسئلے کا میں یہ حل تجویز کرنے کی جسارت کرتا ہوں: ’’لائبریری لامحدود اور تکراری نوعیت کی ہے۔‘‘ اگر کوئی ابدی مسافر کسی سمت میں بڑھتا چلا جائے تو وہ صدیوں بعد یہ پائے گا کہ وہی کتابیں اسی بےترتیبی میں دہرائی جا رہی ہیں (جن کی تکرار سے وہ نظام بنتا ہے جو اصل نظام ہے)۔ اس لطیف توقع سے میری تنہائی کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔4

حاشیے:
1 اس تحریر کے اصل مسودے میں ہندسے یا بڑے حروف نہیں ہیں۔ پنکچویشن صرف کاما اور پیریڈ تک محدود ہے۔ ان دونوں علامتوں کے علاوہ وقفہ اور بائیس حروفِ تہجی مل کر وہ پچیس کافی علامات ہیں جو نامعلوم مصنف نے بیان کی ہیں۔
2 پہلے ہر تین مسدسوں پر ایک آدمی ہوا کرتا تھا۔ خود کشی اور پھیپھڑے کی بیماریوں نے اس تناسب کو غارت کر دیا۔ میری یادداشت میں ناقابلِ بیان ویرانی کے مناظر محفوظ ہیں جب میں کئی کئی راتوں تک راہداریوں اور چمکدار زینوں میں سفر کرتا رہتا تھا اور مجھے کوئی لائبریرین نہیں ملتا تھا۔
3 میں دُہراتا ہوں: کسی کتاب کے ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کا ہونا ممکن ہو؛ صرف جو ناممکن ہے وہ اس سے باہر ہے۔ مثلاً کوئی کتاب ایسی نہیں جو کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زینہ بھی ہو۔ اگرچہ اس امکان سے بحث کرنے والی، اسے رد کرنے والی اور اس کی تائید کرنے والی کتابیں موجود ہیں، اور ایسی کتابیں جو اپنی ساخت میں زینوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔
4 لتیزیا الواریز دی تولیدو نے تبصرہ کیا ہے کہ یہ وسیع لائبریری بے مصرف ہے۔ درحقیقت ’’صرف ایک کتاب‘‘ کافی ہے، عام تقطیع کی ایک کتاب، جو نو یا دس پوائنٹ کے ٹائپ میں چھپی ہو، اور لاانتہا طور پر باریک اوراق کی لامحدود تعداد پر مشتمل ہو۔ (سترھویں صدی کے شروع میں کوالیئری نے کہا تھا کہ تمام ٹھوس اجسام مستویوں PLANES کی لامحدود تعداد کے ایک دوسرے کے اوپر واقع ہونے سے بنتے ہیں۔) اس ریشمی دفتر کو برتنا سہل نہیں ہو گا کیونکہ ہر ورق اپنے جیسے اور اوراق میں تقسیم ہو جائے گا۔ صرف ناقابل تصور درمیانی ورق کا کوئی الٹ نہیں ہو گا۔

خورخے لوئس بورخیس

انگریزی سے ترجمہ:صلاح الدین محمود

انفرنو 32/1


صبح کے جھٹ پٹے سے شام کے جھٹ پٹے تک ایک چیتا، تیرھویں صدی کے آخری برسوں میں، چند لکڑی کے تختوں، چند لوہے کی عمودی سلاخوں، بدلتے مردوں اور عورتوں، ایک دیوار اور شاید خشک پتوں سے بھری پتھر کی ایک ناند کو دیکھتا تھا۔ اس کو علم نہیں تھا، نہ ہو سکتا تھا، کہ وہ محبت، سفاکی، چیزوں کو پھاڑنے کی تپتی مسرت اور ہرن کی مہک پائے ہوا کی طلب کرتا ہے۔ مگر کوئی چیز اس کے اندر گھٹ گئی اور اس نے بغاوت کی اور خدا ایک خواب میں اس کا ہم گفتار ہوا: ’’تم اس اسیری ہی میں زندگی گزارو گے، اور مر جاؤ گے، اس واسطے کہ ایک انسان، جس کے بارے میں میں جانتا ہوں، تم کو معدودے چند بار دیکھ پائے اور تم کو نہ بھولے اور تمھاری ہستی و نقش کو ایک نظم میں جگہ دے، کہ اس کائنات کے اسلوب میں، جس کا ایک مقام ہے، تم قید جھیلتے ہو مگر تم اس نظم کو ایک لفظ دے گزرو گے۔‘‘ خدا نے، اس خواب میں، اس جانور کی حیوانیت کو روشن کیا اور جانور نے ان وجوہات کو سمجھ کر اپنے مقدر کو قبول کیا، مگر جب کہ وہ بیدار ہوا اس میں محض ایک مخفی توکل تھا، ایک بہادرانہ بےخبری، اس لیے کہ اس جہان کی ساخت، ایک جانور کی سادگی کے واسطے، ازحد پیچیدہ ہے۔
برسوں بعد، دانتے راوینہ میں فوت ہو رہا تھا، ویسا ہی بےداد اور اکیلا جیسے کوئی اور انسان۔ ایک خواب میں خدا نے اس پر اس کی حیات اور جدوجہد کا پوشیدہ مقصد عیاں کیا اور اس نے اپنی جان کی تلخی کو شاد کہا—روایت ہے کہ بیدار ہونے پر اس کو احساس تھا کہ جیسے اس نے کوئی لاانتہا شے پا کر گنوا دی ہو، ایسی شے کہ جس کو بحال کرنا، جس کی جھلک تک پانا ناممکن تھا، اس لیے کہ اس جہان کی ساخت، ایک انسان کی سادگی کے واسطے، ازحد پیچیدہ ہے۔

خورخے لوئس بورخیس

انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

بورخیس اور میں


یہ دوسرا، جو بورخیس کہلاتا ہے، وہ ہے جس کے ساتھ واقعات پیش آتے ہیں۔ میں بیونس آئرس کی گلیوں سے گزرتے ہوے کسی ہال کے دروازے کی محراب اور پھاٹک کی جالیوں پر ایک نگاہ کرنے کی غرض سے، اب شاید میکانکی طور پر، ایک لمحے کے لیے رک جاتا ہوں۔ میں بورخیس کو اس کی ڈاک سے جانتا ہوں اور اس کا نام پروفیسروں کی فہرست یا کسی سوانحی لغت میں دیکھتا ہوں۔ مجھے ریت گھڑیاں، نقشے، اٹھارھویں صدی کے چھاپے کے حروف، کافی کا ذائقہ اور اسٹیونسن کی نثر پسند ہیں۔ وہ بھی ان ترجیحات میں شریک ہے لیکن ایک رائیگاں انداز سے جس سے یہ سب کسی اداکار کے ڈھونگ میں بدل جاتے ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ ہو گا کہ ہمارا رشتہ عداوت کا رشتہ ہے۔ میں جیتا ہوں، خود کو زندگی کرنے دیتا ہوں، تاکہ بورخیس اپنے ادب کی تدبیر کر سکے، اور یہ ادب میرا جواز فراہم کرتا ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ اس نے چند معتبر صفحات لکھے ہیں، لیکن وہ صفحات مجھے نہیں بچا سکتے، شاید اس لیے کہ جو کچھ اچھا ہے کسی کا نہیں ہے، اس کا بھی نہیں، بلکہ زبان اور روایت کی ملکیت ہے۔ اس کے علاوہ، فنا حتمی طور پر میرا مقدر ہے، اور صرف میرا کوئی لمحہ ہی اس میں باقی رہ سکتا ہے۔ رفتہ رفتہ میں ہر چیز اس کے حوالے کرتا جا رہا ہوں، حالانکہ میں اس کے تحریف اور مبالغہ کرنے کے گمراہ طریقے سے بخوبی واقف ہوں۔ اسپینوزا کو علم تھا کہ تمام اشیا اپنی ہی جون میں باقی رہنا چاہتی ہیں: پتھر ابد تک پتھر رہنا چاہتا ہے اور چیتا چیتا۔ میں خود میں نہیں، بورخیس میں رہوں گا (اگر یہ سچ ہے کہ میں بھی کوئی ہوں)، لیکن میں خود کو اس کی کتابوں سے زیادہ دوسری بہت سی کتابوں میں اور گٹار کے تھکا دینے والے سُروں میں شناخت کرتا ہوں۔ برسوں پہلے میں نے خود کو اس سے آزاد کرانے کی کوشش کی تھی، اور گردونواح کی دیومالا سے وقت اور ابدیت سے کھیلنے کی طرف چلا گیا تھا، لیکن یہ کھیل اب بورخیس کی ملکیت ہیں اور مجھے دوسری چیزوں کا تصور کرنا پڑے گا۔ میری زندگی ایک فرار ہے اور میں ہر شے ہار جاتا ہوں اور ہر شے آخرکار فراموشی کی ملکیت ہے، یا اس کی۔
میں نہیں جانتا کہ یہ صفحہ ہم میں سے کس نے لکھا ہے۔

خورخے لوئس بورخیس

انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

سب کچھ اور کچھ نہیں


اس شخص کے اندر کوئی نہیں ہے۔ اس کے چہرے کے پیچھے (جو اُس زمانے کی ناقص مصوری کے باوجود کسی اور سے مشابہت نہیں رکھتا) اور اس کے لبریز، پُرتخیل اور طوفانی لفظوں کے پیچھے، صرف ایک ہلکی سی خنکی تھی—ایک خواب جسے کسی نے نہیں دیکھا۔ پہلے پہل وہ سوچتا تھا کہ تمام لوگ اس جیسے ہیں، لیکن جب ایک دوست سے اس نے اپنے خالی پن کی بات کرنا شروع کی تو اس کی حیرت نے اسے اپنی غلطی کا احساس دلا دیا، اور اس میں ہمیشہ کے لیے یہ سوچ پیدا کر دی کہ کسی فرد کو اپنی ظاہری وضع میں مختلف نہیں ہونا چاہیے۔ ایک بار اس نے سوچا کہ وہ کتابوں میں اپنی اس بیماری کا علاج پا لے گا، اور یوں اس نے تھوڑی بہت لاطینی اور یونانی زبانیں سیکھیں جو اس وقت مروج تھیں۔ بعد میں اس نے خیال کیا کہ اسے جس شے کی تلاش ہے وہ انسانیت کے بسیط رسوم ورواج میں مل سکتی ہے، اور جون کی ایک طویل سہ پہر کو خود کو این ہیتھاوے سے آشنا ہو جانے دیا۔ بمشکل بیس برس کی عمر میں وہ لندن چلا گیا۔ جبلی طور پر اس کی یہ ظاہر کرنے کی عادت پختہ ہو گئی تھی کہ وہ کوئی ہے—تاکہ دوسرے لوگ یہ نہ جان لیں کہ وہ کوئی نہیں ہے۔ لندن میں اس نے وہ پیشہ اپنا لیا جو اس کے لیے مقدر ہو چکا تھا — ایک اداکار کا پیشہ جو اسٹیج پر کوئی اور شخص ہونے کا ڈھونگ رچاتا ہے، ان لوگوں کے اجتماع کے سامنے جو اسے وہ دوسرا شخص سمجھنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اس کے ان دکھاوے کے کارناموں نے اسے ایک منفرد تسکین بخشی، شاید پہلی مرتبہ وہ کسی تسکین سے آشنا ہوا۔ لیکن جب آخری مصرع داد پا چکتا اور آخری مردہ کردار اسٹیج سے ہٹا لیا جاتا تو بےحقیقتی کی نفرت انگیز مہک اس کے پاس لوٹ آتی۔ جوں ہی وہ فیریکس یا تیمور لنگ ہونا ترک کرتا، ایک بار پھر کوئی نہیں ہو جاتا۔ اسی ہانکے میں اس نے دوسرے سورماؤں اور دوسری المیہ داستانوں کا تصور کرنا شروع کر دیا۔ اور اس طرح جب اس کا جسم لندن کے چکلوں اور مےخانوں میں جسم کے طور پر اپنی تقدیر کو پورا کر رہا ہوتا تھا، اس میں موجود روح سیزر ہوتی تھی جو نجومیوں کی فہمائشوں کو خاطر میں نہ لاتا تھا، اور جولیٹ جسے گانے والے پرندوں سے وحشت ہوتی تھی، اور میکبتھ جو ان چڑیلوں سے روبرو ہو کر بات کرتا تھا جو تقدیریں بھی ہیں۔ کوئی اور شخص کبھی اتنے سارے اشخاص نہیں ہوا جتنا یہ شخص، جو مصری پروتیئس کی طرح حقیقت کے سارے بھیس تمام کر سکتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنی تحریروں کے کسی کونے میں ایک اعتراف اس یقین کے ساتھ چھپا چھوڑدیتا تھا کہ اسے کوئی نہیں پڑھ سکے گا۔ رچرڈ اقرار کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں بہت سے لوگوں کا کردار ادا کرتا ہے، اور ایاگو عجیب الفاظ میں دعویٰ کرتا ہے کہ ’’میں وہ نہیں ہوں جو ہوں۔‘‘ ہونے، خواب دیکھنے اور اداکاری کرنے کی بنیادی پہچان نے اس کے مشہور اقتباسات کو متاثر کیا۔
بیس برس تک وہ اس منضبط واہمے میں رہا لیکن اچانک ایک صبح تلوار سے قتل کیے جانے والے بہت سے بادشاہ اور ملنے بچھڑنے اور گاتے ہوے ختم ہو جانے والے بہت سے دکھی عاشق ہونے کی دہشت اور کوفت نے اسے آ لیا۔ اسی روز اس نے اپنا تھیٹر بیچ ڈالا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر وہ اپنے آبائی گاؤں واپس پہنچ چکا تھا، جہاں اس نے اپنے بچپن کے درخت اور دریا بحال کیے، اور ان کا ذکر اُن دوسروں سے نہ کیا جنھیں اس کے استغراق سے شہرت ملی تھی اور جو دیومالائی تلمیحات اور لاطینی اصطلاحوں سے مزین تھے۔ اسے کوئی شخص ہونا تھا۔ وہ ایک تھیٹر کا ریٹائرڈ منتظم تھا جس نے اپنی جائیداد بنائی اور خود کو قرضوں، مقدموں اور حقیر سودخوری میں مصروف رکھا۔ یہ سب اس کے کردار کا حصہ تھا کہ وہ اس بنجر قوتِ ارادی اور دوراندیشی کا استعمال کرے جس سے ہم بھی واقف ہیں۔ اس کردار سے اس نے جان بوجھ کر دلگدازی اور ادب کے تمام شائبوں کو خارج کر دیا تھا۔ جب اس کے لندن کے دوست اس سے ملنے اس کی آرام گاہ پر آتے تو وہ ان کے لیے اپنا شاعر ہونے کا کردار دوبارہ اختیار کر لیتا۔
تاریخ اضافہ کرتی ہے کہ مرنے سے پہلے یا بعد میں اس نے خود کو خدا کے حضور میں پایا، اور اس سے کہا: ’’میں جو بےفائدہ اتنے بہت سے افراد رہا ہوں، چاہتا ہوں کہ میں ایک فرد ہو جاؤں، اور وہ میں خود ہوں۔ ‘‘ ایک گردباد میں سے خداوند کی آواز نے جواب دیا: ’’میں بھی کوئی نہیں ہوں۔ میں نے اس جہان کا خواب دیکھا، جیسے تم نے اپنی تحریروں کا خواب دیکھا۔ اور اے میرے شیکسپیئر، میرے خواب کی شکلوں میں تم بھی ہو، جو میری طرح بہت سے ہو، اور کوئی نہیں ہو۔‘‘

خورخے لوئس بورخیس

انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

کافکا اور اس کے پیشرو


میں نے ایک مرتبہ کافکا کے پیشرووں کا مطالعہ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ پہلے پہل میں اسے ایسا ہی یکتا سمجھتا تھا جیسے خطیبانہ مدح کا ابوالہول۔ اس کے صفحات سے ذرا روزانہ کی آشنائی کے بعد مجھے خیال ہوا کہ میں اس کی آواز یا اس کے انداز مختلف ادبیات اور مختلف زمانوں کی تحریروں میں پہچان سکتا ہوں۔ یہاں میں ان میں سے چند کو زمانی ترتیب سے درج کرنا چاہتا ہوں۔
پہلا زینو (ZENO) کا حرکت کے خلاف پیراڈوکس ہے۔ (ارسطو بیان کرتا ہے کہ) مقام الف پر موجود ایک آبجیکٹ مقام ب تک نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ پہلے اسے ان دو نقاط کے درمیانی فاصلے کا نصف طے کرنا ہو گا، اور اس سے پہلے اس نصف کا نصف، اور اس سے پہلے اس نصف کے نصف کا نصف، اور اسی طرح لامتناہی طور پر۔ اس معروف قضیے کی ہیئت بالکل THE CASTLE کی طرح ہے، اور یہ متحرک آبجیکٹ اور تیر اور خرگوش ادب کے اولین کافکائی کردار ہیں۔ دوسری تحریر میں، جو اتفاق سے میرے سامنے آئی، مشابہت ہیئت کی نہیں بلکہ لہجے کی ہے۔ یہ نویں صدی کے ایک چینی نثرنگار ہان یو کا ایک قصہ ہے، اور مارگولیے کے قابلِ تحسین انتخاب ANTHOLOGIE RAISONNEE DE A LITTERATURE CHINOIS میں دوبارہ درج کیا گیا ہے۔ یہ وہ پراسرار اور خاموش پیراگراف ہے جسے میں نے نشان زد کیا: ’’یہ بات مسلمہ ہے کہ یونی کورن اچھے شگون والا مافوق الفطرت حیوان ہے۔ یہی کچھ قصیدوں، قصوں اور نامور انسانوں کے سوانح حیات میں اور دوسری تحریروں میں درج ہے جن کا استناد شک وشبے سے بالاتر ہے۔ بچے اور دیہاتی عورتیں بھی جانتی ہیں کہ یونی کورن ایک اچھا شگون ہے۔ لیکن یہ جانور گھریلو جانوروں میں شمار نہیں ہوتا۔ اسے پانا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، یہ خود کو حیوانی درجہ بندی کا مطیع نہیں ہونے دیتا۔ نہ یہ گھوڑے یا بیل کی طرح ہے، اور نہ ہی بھیڑیے یا ہرن کی طرح۔ ان حالات میں ممکن ہے ہم ایک یونی کورن کے روبرو ہوں اور یقین سے نہ جان پائیں کہ یہ کیا تھا۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس شکل کا ایال والا جانور گھوڑا ہے، اور اس صورت کا سینگوں والا حیوان بیل ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ یونی کورن کس طرح کا ہوتا ہے۔‘‘1
تیسری تحریر ایک ایسے ماخذ سے برآمد ہوتی ہے جس کی پیش گوئی کرنا آسان ہے، یعنی کیرکیگارد کی تحریروں سے۔ ان دونوں لکھنے والوں کی روحانی مماثلت ایسی چیز ہے جس سے کوئی بھی بےخبر نہیں، لیکن جو بات ابھی تک دریافت نہیں کی گئی، میرے خیال میں، یہ ہے کہ کیرکیگارد نے کافکا کی طرح کئی مذہبی حکایات لکھی تھیں، جو ہم عصر اور بورژوا موضوعات پر تھیں۔ لاری نے اپنی تصنیف کیرکیگارد (آکسفورڈ یونیوسٹی پریس، 1938) میں ان میں سے دو کو نقل کیا ہے۔ پہلی حکایت ایک جعلساز کا قصہ ہے جو مستقل بےاعتباری کی حالت میں بینک آف انگلینڈ میں نوٹ گنتا رہتا ہے۔ اسی طرح خدا کیرکیگارد پر بھروسا نہ کرتے ہوے اسے ایک کام سونپتا ہے کیونکہ خدا کو معلوم ہے کہ وہ بدی سے واقف ہے۔ دوسری حکایت کا موضوع قطبِ شمالی کی مہمات ہیں۔ ڈنمارک کے پادری اپنے منبروں سے اعلان کرتے ہیں کہ ان مہمات میں حصہ لینا روح کی ابدی بھلائی کے لیے مفید ہے۔ لیکن وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قطب تک پہنچنا مشکل، بلکہ شاید ناممکن ہے، اور یہ کہ تمام لوگ اس مہم کا بیڑا اٹھا بھی نہیں سکتے۔ آخر میں وہ اعلان کرتے ہیں کہ کوئی بھی سفر—مثلاً معمول کے مطابق چلنے والی اسٹیمر پر ڈنمارک سے لندن تک کا سفر—غور کیا جائے تو قطبِ شمالی کی مہم ہے۔ چوتھی پیش گویانہ تحریر جو میں نے تلاش کی ہے، براؤننگ کی نظم FEARS AND SCRUPLES ہے جو 1876 میں شائع ہوئی۔ ایک شخص کا ایک نامور دوست ہے، یا اس کا خیال ہے کہ وہ اس کا دوست ہے۔ اس نے اپنے دوست کو کبھی نہیں دیکھا اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے دوست نے آج تک کبھی اس کی مدد نہیں کی، اگرچہ اس کے باعزت اطوار کی کہانیاں زبان زد ہیں اور اس کے معتبر خطوط گردش کرتے رہتے ہیں۔ پھر ایک شخص ان اطوار پر شک کا اظہار کرتا ہے اور تحریر کا ماہر خطوط کو ناقابل اعتبار قرار دیتا ہے۔ آخری سطر میں وہ شخص سوال کرتا ہے: ’’اور اگر یہ دوست—خدا ہو؟‘‘
میرے نوٹس میں دو کہانیاں بھی درج ہیں۔ ایک لےاوں بلوئے کی HISTOIRS DESOBLIGEANTES سے ہے اور کچھ لوگوں کا معاملہ بیان کرتی ہے جن کے پاس ہر قسم کے گلوب، اٹلس، ریلوے گائیڈ اور صندوق ہیں، لیکن جو اپنے آبائی شہر سے روانہ ہو پانے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ دوسری کہانی کا عنوان ’’کارکاسون‘‘ ہے اور یہ لارڈ ڈنیسنی کی تحریر ہے۔ جنگ بازوں کی ایک ناقابل تسخیر فوج ایک لامتناہی قلعے سے روانہ ہوتی ہے اور سلطنتوں کو فتح کرتے اور بلاؤں کا مقابلہ کرتے ہوے پہاڑوں اور ریگزاروں کو طے کرتی ہے لیکن وہ لوگ کبھی کارکاسون تک نہیں پہنچ پاتے، اگرچہ ایک مرتبہ انھیں دور سے اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہ کہانی، جیسا کہ ہر شخص دیکھ سکتا ہے، پہلی کہانی کی قطعی الٹ ہے— پہلی کہانی میں شہر کبھی چھوڑا نہیں جاتا، دوسری میں کبھی وہاں پہنچا نہیں جاتا۔
اگر میں غلطی پر نہیں تو یہ مختلف النوع اقتباسات جو میں نے شمار کیے ہیں، کافکا سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو یہ ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے۔ دوسری حقیقت زیادہ معنی خیز ہے۔ ان تمام تحریروں میں ہمیں کافکا کا مزاج ملتا ہے، کسی میں کم کسی میں زیادہ؛ لیکن اگر کافکا نے کبھی ایک سطر بھی نہ لکھی ہوتی تو ہم اس خصوصیت کا ادراک نہ کر پاتے۔ دوسرے لفظوں میں، اس کا وجود ہی نہ ہوتا۔ براؤننگ کی نظم کافکا کی تحریروں کی پیش گوئی کرتی ہے لیکن ہمارا کافکا کا مطالعہ قابلِ احساس طور پر نظم کے مطالعے میں شدت اور انحراف پیدا کر دیتا ہے۔ براؤننگ نے اسے اس طرح نہیں پڑھا ہو گا جیسے ہم اب اسے پڑھتے ہیں۔ نقادوں کی لغت میں لفظ پیشرو بےبدل ہے، لیکن اسے نزاع اور رقابت کی تمام تعبیرات سے پاک کر لینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر لکھنے والا اپنے پیشرووں کو خود ’خلق‘ کرتا ہے۔ اس کی تحریر ہمارے ماضی کے تصور کو تبدیل کر دیتی ہے، اور پھر ہمارے مستقبل کے تصور کو بھی۔2 اس باہمی تعلق میں شامل لوگوں کی انفرادی پہچان اور مجموعیت غیراہم ہے۔ BETRACHTUNG (MEDITATION)کا ابتدائی کافکا، افسردہ اساطیر اور وحشیانہ اداروں والے کافکا کا اتنا پیشرو نہیں جتنے براؤننگ اور لارڈ ڈنیسنی ہیں۔

حاشیے:

1 مقدس جانور کو نہ پہچان پانا، اور لوگوں کے ہاتھوں اس کی بےحرمت یا حادثاتی موت چینی ادب کے روایتی قصوں میں سے ہے۔ ژونگ کی PSYCHOLOGIE UND ALCHEMIE (زیورچ، 1944) کا آخری باب ملاحظہ کیجیے جس میں اس قسم کی دو مثالیں موجود ہیں۔
2 ٹی ایس ایلیٹ، POINTS OF VIEW ، 1944 ، صفحہ 25-6۔

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *