حرف چند
اردو میں جدیدیت کے آغاز کیساتھ ہی ہمارے نقادوں کو ماضی میں ایک ایسے بزرگ کی تلاش ہوئی جو دقیانوسی ہو اور نوجوانوں کی آزادی پر پابندیاں عائد کرتا ہو۔ یہ بزرگ انہیں پانی پت کے خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی صورت میں مل گئے۔ جنہوں نے اپنے بے مثال پہلی اردو کی تنقیدی کتاب "مقدمہ شعرو شاعری" میں کچھ باتیں غزل اور غزل کی عشقیہ شاعری کے خلاف لکھی تھیں۔ انہیں نشانہ بناکر جدید نقادوں نے ان پر جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر میرا دل بہت دکھی ہوا کیونکہ اردو ادب کے طالب علم کی حیثیت سے عناصر خمسہ کا مطالعہ میں نے بڑے ذوق و شوق سے کیا تھا اور ان میں حالی کی شخصیت اور ان کے ادبی کارنامے میرے لئے مینارِ نور کی حیثیت رکھتے تھے۔ میں نے محسوس کیا تو میرے ہم عصر جدید ساتھی حالی کے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں اسلئے میں نے ان کے معترضات کے جواب میں مذکورہ مضمون لکھا جو شب خون میں قصہ وار شائع ہوتا رہا۔ اسے ساحل احمد )الہ آباد( نے کتابی صورت میں شائع کیا۔ لیکن اس کی اشاعت خاطر خواہ نہ ہوئی۔ بعد میں پاکستان میں اسے سٹی پریس بک شاپ کے زیراہتمام اجمل کمال نے شائع کیا۔ یہ اشاعت کافی اطمینان بخش تھی اور پاکستان میں کتاب بہت مقبول بھی ہوئی۔
اب جبکہ ہندوستان میں یہ کتاب لگ بھگ نایاب ہوچکی ہے اور حالی ہمارے یونیورسٹی کے نصاب کے اہم مصنف رہے ہیں۔ تو مجھ میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ یہ کتاب ان نوجوان طالب علموں کے لئے بھی آسانی سے دستیاب ہوسکے تو اچھا ہے۔ میں اس کشمکش میں تھا کہ خدا نے شاہ فیصل کو فرشتہ رحمت بناکر جنت نظیر کشمیر سے بھیجا اور انہوں نے اسکی اشاعت کی پوری ذمہ داری لے لی۔ میں کتابی دنیا کے مالکان کا بھی ممنون ہوں کہ وہ یہ کتاب حسنِ خوبی سے شائع کررہے ہیں۔
وارث علوی
۱
’’مقدمۂ شعر وشاعری‘‘ پڑھنے سے پیش تر بہتر ہوگا اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے حالی کی تصویر پر نظر کرلیں، خصوصاً اس تصویر پر جو وحید قریشی کے ایڈیشن میں شامل ہے۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ حالی تصویر کے لیے باقاعدہ تیار ہوکر آئے ہیں۔۔۔ داڑھی بھی تراشی ہوئی ہے، شاید کنگھی بھی کی ہو۔۔۔ لیکن اس تیاری میں کوئی بناوٹ، کوئی کاوش، کوئی اہتمام نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی شیروانی، اپنی عبا اور اپنا صافہ ٹھیک سے پہنا ہے، لیکن ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ بہترین شیروانی یا بہترین صافے کے لیے انھوں نے پورے گھر کو اتھل پتھل کیا ہو۔ یہ تصویر ایک نفیس، شائستہ اور مہذب آدمی کی ہے؛ جس کے لیے نفاست اور شائستگی سامانِ آرائش نہیں بلکہ جینے کا قرینہ ہے، مہذب آداب محض عوائدِ رسمیہ نہیں بلکہ فطرت ثانیہ بن گئے ہیںَ حالی ہر کام سلیقہ مندی سے کرتے ہیں، چاہے یہ کام تصویر کھنچوانے ہی کا کیوں نہ ہو۔ تصویر میں نہ وہ پھوہڑ پن ہے جو تہذیب و تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہوتا ہے، نہ وہ آراستگی ہے جو خود کے مہذب اور شائستہ ہونے کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔ تہذیب و شائستگی نے حالی میں خود پسندی اور خودنمائی کی بجائے انکساری اور بے نیازی پیدا کی ہے۔ انکسار بھی بڑے لوگوں کا خود آگاہ انکسار نہیں جو چھوٹوں میں ان کے بڑے پن کے اثر کو زیادہ مستحکم کرتا ہے بلکہ ایک ایسے آدمی کا انکسار جو فی الواقع خود کو بڑا سمجھ ہی نہیں رہا، جو اپنے مرتبے سے نہیں بلکہ مقام سے آگاہ ہے۔ بے نیازی بھی اپنی ذات سے بے نیازی ہے۔ تصویروں میں عموماً وہ بے نیازی بھی ہوتی ہے جو ہشیاری کا نتیجہ ہوتی ہے، وہ سادگی بھی ہوتی ہے جو پُرکاری سے پیدا ہوتی ہے، گویا صاحب تصویر کہہ رہے ہوں کہ مجھ جیسا آدمی بھلا تصویر جیسی چھچھوری اور حقیر چیز کے لیے خاص طور پر تیار ہو، خاص زاویے سے بیٹھے اور خاص انداز میں مسکرائے! لہٰذا وہ نہایت اہتمام سے اک شانِ بے نیازی پیدا کرتے ہیں۔ تصویر کے لیے پوز نہ دینا بھی ایک قسم کا پوز ہے۔ حالی کی تصویر میں کسی قسم کا پوز نہیں۔ یہ ایک ایسے آدمی کی تصویر ہے جو سیدھا سادا اور بھلا مانس ہے لیکن سادہ لوح اور ان گڑھ نہیں۔ ان سے کہا گیا کہ آئیے تصویر کھنچوائیے، تو وہ شیروانی کے بٹن بند کر کے آن بیٹھے۔ نہ خود نمائی ہے نہ خود آگہی، نہ بناوٹ ہے نہ پوز۔ یہ ایک ایسی دل آویز شخصیت ہے جس کی رگوں میں ایک پوری تہذیب اور ایک پورے تمدّن نے اپنا عرق نچوڑ دیا ہے۔ یہ ایک مہذب، متمدّن، شائستہ اور شریف آدمی کی تصویر ہے۔ یہ تصویر ان سے بہت مختلف ہے جن میں لوگ فیلٹ ہیٹ اور گوگلز پہن کر ٹھسّے سے براجمان ہوتے ہیں۔
تصویر دیکھنے کے بعد آپ ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ پڑھیے۔ آہستہ آہستہ آپ پر یہ بات عیاں ہوتی جائے گی کہ یہ کتاب ایک نہایت ہی مہذب، متمدن اور شائستہ ذہن کا عکس ہے۔ دنیاے تنقید میں ایسا ذہن کمیاب اور اردو تنقید میں نایاب ہے۔ حالی سے زیادہ تیز اور طرار ذہن مل جائیں گے، حالی جیسا سلجھا ہوا اور پختہ ذہن نہیں ملے گا۔ اس ذہن کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا کلاسیکی رچاؤ ہے۔ کہیں عامیانہ پن اور سوقیانہ پن نہیں ہے۔ اپنے علم و فضل کی نمائش نہیں، اپنی رایوں پر اصرار نہیں، اپنی بات منوانے اور دوسروں کو زک دینے کا التزام نہیں، کردار کا قتل اور غیر منصفانہ نکتہ چینی نہیں، رشک، حسد، رقابت کا نام و نشان نہیں، اصابت راے کا پندار نہیں، فخر و مباہات کی وہ چمک نہیں جو رہروانِ صراطِ مستقیم کی آنکھوں میں نظر آتی ہے، باغیوں کی بے صبری اور مجاہدوں کا جوش و غلغلہ نہیں، مناظرہ بازوں کی اعصاب زدگی اور چڑچڑاپن نہیں، خطیب کی بلند آہنگی نہیں، خیر خواہوں کی جذباتیت، خود ترحمی اور رقت انگیزی نہیں، انسان دوستوں کی دردمندی، ہم دردی اور نیک اندیشی کا جذباتی بیان نہیں۔ نہ پُر جلال پیغمبروں کا قہر و غضب ہے نہ مطلق العنان آمروں کی حکمرانی، نہ فقیہوں کی خوردہ گیری نہ محتسبوں کی سخت گیری، نہ مفتیوں کا ذوقِ تکفیر نہ قاضیوں کا فرمانِ عقوبت۔ غرض یہ کہ وہ تمام نقائص اور کمزوریاں جو ایک ناپخت اور غیر تربیت یافتہ ذہن سے عبارت ہیں، حالی کا ذہن ان سے یکسر پاک ہے۔ اگر آپ یہ دیکھنا چاہیں کہ حالی کا ذہن ان نقائص سے کتنا پاک ہے تو آپ ’’مقدمہ‘‘ پڑھیے اور پھر وہ تمام تنقیدیں پڑھیے جو حالی کے بعد لکھی گئی ہیں۔ کلیم الدین احمد اور دوسرے نقادوں کو یہ شکایت ہے کہ ’’مقدمہ‘‘ سے بہتر ہمارے یہاں کوئی تنقید نہیں لکھی گئی۔ مجھے یہ شکایت ہے کہ خیر بہتر لکھنا تو دور کی بات ہے، ہم نے حالی سے تنقید لکھنے کے وہ آداب تک نہیں سیکھے جن کے بغیر آدمی ادب کے مسائل پر ایک مہذب آدمی کی طرح سوچ بچار کرنے کی اہلیت تک پیدا نہیں کر سکتا۔ حالی کے مقابلے میں ہمارے نقادوں کو رکھ کر دیکھیے۔ کہیں مجاہدوں کا جوش و خروش ہے تو کہیں مبلغوں کی نعرہ زنی، کہیں سرزنش ہے تو کہیں مفتیوں کی فتویٰ نویسی، کہیں مناظرہ بازوں کا غیظ و غضب ہے تو کہیں محتسبوں کی خوردہ گیری، کہیں خودرائی ہے تو کہیں کچ بخشی، کہیں خود پسندی کی نمائش ہے تو کہیں علم و فضل کی۔ مدرّسوں، مفتیوں اور کٹھ ملّاؤں کے بیچ حالی کی شخصیت ایک کشادہ جبیں اور دل نواز مفکّر کی شخصیت معلوم ہوتی ہے، اور اس شخصیت کا بہترین اظہار ان کی تنقید کی زبان اور اسلوب میں ہوا ہے۔
حالی کے تنقیدی اسلوب کی تعریف میں ان کے سبھی نقاد رطب اللسان ہیں۔ کلیم الدین احمد کہتے ہیں :
حالی نے صاف اور سادہ طرز ایجاد کی، لیکن اس طرز میں بے رنگی نہیں، پھسپھساپن نہیں۔ اس میں ایک لطافت ہے، ایک جاذبیت ہے، ایک رنگینی بھی اور پھر یہ تنقیدی مسئلوں پر بحث کرنے کے لیے موزوں بھی ہے۔
آگے چل کر وہ حالی کی نثر کے بارے میں لکھتے ہیں :
حالی کا یہی کارنامہ ہے کہ انھوں نے نثر کو اپنایا، اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو وہ صرف مضمون کی ادا میں ہو، جو اپنے میں ہو وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔ او راس نثر کو انفرادی خصوصیتیں عطا کی اور اپنے انفرادی رنگ میں جو کچھ کہنا چاہتے تھے اسے حسن و خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ اور یہی ان کی نثر کی ادبی اہمیت ہے۔
حالی نے تنقید کے لیے جو اسلوب ایجاد کیا وہی آگے چل کر تنقید کے بازار میں سکۂ رائج الوقت ٹھہرا۔ اردو کی بہترین نگارشات اسی اسلوب میں ہیں۔ جو لوگ اس اسلوب کے حسن اور اس کی طاقت کو نہ سمجھے وہ یا تو عبارت آرائی کی دلدل میں پھنسے یا مکتبی تنقید کی خندق میں گرے، جو اصطلاحوں اور کلی شیز (cliches) کی خاردار جھاڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ذوق کی آرائش اور زیبائش سے عبارت آرائی پیدا ہوتی ہے، اور علم و فضل اور ہنر مندی کی نمائش سے اسطلاحوں اور کلی شیز سے بوجھل وہ طرزِ ادا جنم لیتا ہے جس میں کلف لگے دستارِ فضیلت کی کھڑ کھڑاہٹ ہوتی ہے۔ حالی کے اسلوب میں نرمی اور ملائمت ہے لیکن شاعرانہ اسلوب میں نثر لکھنے والوں کا لجلجاپن نہیں۔ ان کی زبان میں سادگی اور کراراپن ہے، لیکن وہ کھڑکھڑاہٹ نہیں جو لٹھے کے نئے پجامے کی نمائشی رگڑ سے پیدا ہوتی ہے۔ حالی کے یہاں زبان دھلی دھلائی، صاف اور لچک دار ہے۔ یہ اس آدمی کی زبان ہے جو زبان سے کچھ کام لینا چاہتا ہے۔ زبان کے ضدّی، بد کے ہوے گھوڑے کو قابو میں کرنا ذہن کی کلاسیکی تربیت کی طرف پہلا قدم ہے۔ حالی کی رانوں تلے زبان کا گھوڑا وادیِ خیال مستانہ وار طے کرتا ہے اور حالی کے ہاتھوں سے نہ کبھی لگام چھوٹتی ہے نہ ان کا پاؤں رکاب سے باہر ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں تعقید اور گنجلک کا نام و نشان نہیں۔ خیالات پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں، لیکن زبان میں گانٹھ نہیں پڑتی۔ وادیِ فکر میں نشیب و فراز آتے ہیں، مباحث پُر پیچ راہوں کی طرح بل کھاتے ہیں، لیکن زبان ہر موڑ پر نزاکت سے مڑجاتی ہے۔ وہ ہرچڑھائی چڑھ جاتی ہے اور اس کا سانس نہیں پھولتا، ہر نشیب پر سنبھل جاتی ہے اور اس کا توازن نہیں بگڑتا۔
دل کی بات، کام کی بات کہنا بہت اچھی بات ہے لیکن وہ لوگ جو بات کرنے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے وہ اپنی بات کہہ بھی نہیں سکتے۔ حالی اسی پر مطمئن نہیں کہ انھیں دل کی بات کہنی ہے بلکہ وہ اپنی بات کو ڈھنگ اور سلیقے سے کہنا چاہتے ہیں۔ بات کو سجا بنا کر نہیں کہتے کیوں کہ حسنِ معنی کو مشاطگی کی ضرورت نہیں۔ لیکن حسنِ معنی بھی اظہار کے لیے زبان کا وسیلہ ڈھونڈھتا ہے، اور حالی معنی کو اس کا مناسب اظہار بخشتے ہیں۔ حسنِ معنی کو زیوروں سے لادنا وہ پسند نہیں کرتے لیکن بد صورت، بے رنگ اور بے ڈھنگے لباس کو بھی وہ پھوہڑپن کی نشانی سمجھتے ہیں۔ انھوں نے خلوصِ دل کو اندازِ بیان کی نزاکتوں سے بے پروائی کابہانہ نہیں بنایا۔ ان کی سادگی ایک متمدّن آدمی کی سادگی ہے، اُس آدمی کی سادگی نہیں جو متمدن زندگی کی تمام لطافتوں سے بے بہرہ ہو۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں جو پجامے پر بنیان پہنے، بغلوں کے بالوں کی نمائش کرتے ہوئے آپ سے ملاقات کرتے ہیں۔ حالی جانتے ہیں کہ لوگ ان سے ملنے آئیں تو انھیں بنیان پر پہرن پہن کر ان سے ملنا چاہیے۔ یہ تکلّف نہیں بلکہ وہ آداب ہیں جو آدمی کو ان حرکتوں سے باز رکھتے ہیں جو ممکن ہے دوسروں کے لیے ناگوار ثابت ہوں۔ حالی کا تنقید لکھنا گویا ایک مہذب آدمی کا تہذیب کے مسئلے پر دوسرے مہذب آدمیوں سے سرگرمِ گفتگو ہونا ہے۔ شیروانی کے بٹن اوپر سے لے کر نیچے تک بند ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے۔۔۔ جیسا کہ سلیم احمد اور دوسرے حضرات سمجھتے ہیں، کہ حالی کی شخصیت بند تھی۔۔۔ بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ ایک سلجھے ہوئے اور شائستہ آدمی تھے، آداب، مجلس اور آدابِ گفتگو دونوں سے واقف تھے۔ ’’مقدمہ‘‘ ایک نستعلیق ذہن کا عکس ہے، بانورے آدمی کی پریشاں خیالی کا طومار نہیں۔
حالی کے اسلوب میں کوئی بناوٹ نہیں، کیوں کہ حالی کو بننا نہیں آتا۔ بناوٹ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آدمی اپنی حقیقی آواز میں نہیں بلکہ مستعار آواز میں بات کرنے لگتا ہے؛ چہرے پر نقاب پہنتا ہے یا تصویر کے لیے ایک ایسا پوز اختیار کرتا ہے جو اسے جو کچھ کہ وہ ہے، اس کے برعکس جو کچھ کہ وہ بننا چاہتا ہے وہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ ہمارے تنقیدی اسالیب کی اکثر خرابیاں کردار کے نقائص کی خرابیاں ہیں۔ کوئی عالم و فاضل ہونے کا پوز اختیار کرتا ہے کوئی خیر خواہِ انسانیت ہونے کا۔ کہیں احساس کی نزاکت کی نمائش ہے تو کہیں ذہانت اور فطانت کی؛ کہیں بلند جبینی کی تو کہیں بلند مذاقی کی؛ کہیں دوسروں سے مختلف اور منفرد ہونے کی تو کہیں دوسروں سے بہتر اور افضل ہونے کی۔ حالی کی تصویر کو دیکھیے۔ اس تصویر میں کوئی پوز نہیں۔ آپ اس شخص پر پورا بھروسا کر سکتے ہیں۔ یہ شخص آپ کو قائل کرنے، مرعوب کرنے، غلط ثابت کرنے اور احساسِ گناہ میں مبتلا کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ یہ جھنڈے گاڑنے اور جھنڈے اکھاڑنے، بت بنانے اور بت توڑے والے آدمی کی تصویر نہیں۔ یہ ایک ایسے شفیق اور مہربان آدمی کی تصویر ہے جس نے زندگی میں کچھ دیکھا ہے، کچھ سوچا ہے۔ اس کے تجربات اور اس کے افکار شاید ہمارے لیے بصیرت افروز ثابت ہوں۔ ہمیں اس کی بات سننی چاہیے۔
اور حقیقت میں حالی ادب اور شاعری کے متعلق بات چیت ہی کرتے ہیں۔ زبان شائستہ گفتگو کی بے تکلف زبان ہے۔ نثر کا پورا اسلوب بول چال کی زبان کے قریب ہے۔ ابھی تنقید مکتب میں داخل نہیں ہوئی۔ ایک وقت وہ آئے گا جب تنقید کی زبان اصطلاحات کی بوریاں کندھے پر اٹھائے ہانپتی ہوئی، لڑکھڑاتی ہوئی چلنے لگے گی۔ بوڑھے حالی کی زبان میں اٹھتی ہوئی جوانی کی سرشاری اور تابناکی ہے۔ ہر قسم کی آرائشوں اور سجاوٹوں سے بے نیاز، اس زبان کا حسن سادہ جنگلی حسینہ کے شباب کے مانند آنکھوں کو برماتا اور گرماتا ہے۔ حالی شاعری کے مسائل پر بات چیت کرتے ہیں۔ ابھی یونیورسٹیوں نے جنم نہیں لیا اس لیے تنقید کی فضا پی ایچ ڈی کے مقالوں سے روہانسی نہیں بنی۔ لوگ کہتے ہیں کہ ’’مقدمہ‘‘ میں ترتیب وتنظیم نہیں۔ جی ہاں نہیں، کیوں کہ ’’مقدمہ‘‘ مقالہ نہیں؛ حالی کوئی تھیسس ثابت کرنا نہیں چاہتے، وہ شاعری کا کوئی نظریہ تشکیل دینا نہیں چاہتے، وہ شاعری کی جمالیات کی تدوین نہیں کر رہے، وہ بوطیقا نہیں لکھ رہے۔ انھیں شاعری میں دل چسپی ہے۔ وہ خود ایک اچھے شاعر تھے۔ انھوں نے اردو، فارسی اور عربی شاعری کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ وہ شاعری کے مسائل کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔ انھیں کچھ باتیں پسند اور کچھ ناپسند ہیں۔ انھیں بہت سی باتوں کا علم ہے، بہت سی باتوں کا علم نہیں، لیکن علم حاصل کرنے کی تڑپ ہے۔ وہ اپنے انگریزی داں دوستوں سے پوچھتے ہیں کہ انگلستان میں لوگ کس قسم کی شاعری کرتے ہیں؛ وہاں کے لوگ شاعری کے متعلق کس قسم کے تصورات رکھتے ہیں۔ ان کا ذہن یہ معلومات جمع کرتا رہتا ہے۔ اور جب وہ ’’مقدمہ‘‘ لکھنے بیٹھتے ہیں تو یہ معلومات ان کے تجربات، اور ان کے خیالات ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں۔ شاعری کا کوئی نظریہ آخری نظریہ نہیں ہوتا، شاعری کا کوئی تصور اتنا جامع نہیں ہوتا جو پوری شاعری کا احاطہ کر سکے۔ شاعری کے کسی بھی ایک پہلو پر زور دیجیے، دوسرے پہلوؤں کو گزند پہنچے گی۔ معنی پر زور دیجیے، زبان کا معاملہ کھٹائی میں پڑے گا۔ زبان پر زور دیجیے، موضوع غیر اہم بن جائے گا۔ اخلاق پر زور دیجیے، جمالیات جزبز ہو گی۔ جمالیات پر زور دیجیے، شاعری کی سماجی اور اخلاقی حیثیت کم ہوجائے گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نقاد کو شاعری کے ایک جامع نظریے کی تشکیل کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ شاعری کے نظریے میں قطعیت ممکن نہیں۔ شاعری سائنس نہیں جس کے متعلق نتیجوں پر پہنچا جاسکے، یا حتمی فیصلے سنائے جاسکیں۔ شاعری کی تنقید اور شاعری کی جمالیات میں کوئی قول قولِ فیصل نہیں، اور کوئی حرف حرفِ آخر نہیں۔ نقاد شاعری کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا ہے، مختلف سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان میں سے بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا کوئی آخری جواب نہیں۔ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کا کوئی دائمی حل نہیں۔ لیکن نقاد سوالات پوچھتا ہے، مسائل سے الجھتا ہے، کسی ایک نتیجے، ایک فیصلے، ایک حل پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کا حل دوسرے مسائل پیدا کرتا ہے۔ اس کے فیصلے دوسری نسل، دوسرے زمانے کے لیے بے کار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے جوابات دوسروں کے لیے ہزاروں سوالات پیدا کرتے ہیں۔ اسی لیے تنقید میں اہمیت فیصلوں، مسائل کے حل اور سوالوں کے آخری جوابات کی نہیں، بلکہ اس پورے فکری عمل کی ہے جس سے گزر کر نقاد کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتا ہے۔ نقاد مسئلے پر سوچ بچار کرتا ہے، اس کی تحقیق اور تفتیش کرتا ہے، تفحص اور استقرار سے کام لیتا ہے، اور کسی نتیجے پر پہنچنے کے اس پورے فکری عمل کے دوران وہ مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا جاتا ہے، الجھے ہوے دھاگوں کو سلجھاتا ہے، موہوم نقوش کو واضح کرتا ہے، فکر کی نئی جہتوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس طرح تنقید ایک انکشاف اور دریافت کا عمل بنتی ہے۔ نقاد فقیہ یا قاضی نہیں ہوتا ہے جو بنے بنائے اصولوں یا اٹل قوانین کے مطابق شاعری کی تاویل اور تفسیر کر کے کوئی فیصلہ صادر کرے۔ وہ تو شاعری کے سمندر کا سیّاح ہوتا ہے جو اپنی سیاحت کے دوران ان قدروں کو جمع کرتا رہتا ہے جن پر مختلف شعری نگارشات کو پرکھا جاسکے۔ کسی بھی نقاد کی عظمت کا اندازہ محض ان تصورات کی بنیاد پر نہیں لگایا جاسکتا جو اس نے شاعری سے متعلق قائم کیے ہیں۔ جانسن کا شاعری کا تصور اخلاقی تھا۔ آرنلڈ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ مذہب کی جگہ شاعری لے گی۔ الیٹ شاعری میں عقیدے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ نئے لسانی نقاد محض ہیئت کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ لیوس اور اس کے گروہ کے نقاد سماجی اور اخلاقی قدروں پر زور دیتے ہیں۔ یہ سب باتیں جنھیں ہم قبول بھی کر سکتے ہیں اور رد بھی، ان نقادوں کے متعلق کچھ بھی نہیں بتاتیں۔ جانسن ادب میں اخلاقیات کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔۔۔ یہ جملہ ہمیں اس جانسن کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتاتا جس کی تنقید اس کے زمانے تک کے پورے انگریزی ادب کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ ایف آر لیوس نے جانسن کے تنقیدوں سے کچھ نہیں تب بھی پچاس ساٹھ ایسی رایوں، فیصلوں اور نتیجوں کی نشان دہی کی ہے جو غلط، بے تکے، بے بنیاد اور احمقانہ ہیں۔ لیکن جانسن کتنا بڑا نقاد تھا اس کا اندازہ اس کی تنقیدوں کو پڑھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ خود الیٹ کے تصورات اور تنقیدی رایوں پر کم لے دے نہیں ہوئی، لیکن الیٹ بیسویں صدی میں دنیاے تنقید کی سب سے بڑی آواز ہے۔ غرض یہ کہ تنقید میں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ نقاد نے مسائل پر سوچ بچار کیسے کیا ہے؛ اس کی تنقید شاعری کے بارے میں ہمیں کچھ نئی اور اہم باتیں بتاتی ہے یا نہیں؛ نقاد فکر کی نئی سرزمینوں کے انکشاف اور دریافت میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں؛ ادب کی سیاحت میں وہ جب تجربات سے گزرا ہے ان کی نوعیت کیا رہی ہے، اور ان تجربات سے وہ کس قسم کے نتائج اخذ کرتا ہے۔ تنقید کی اہمیت دعوت کو ثابت کرنے میں نہیں بلکہ اسے explore کرنے میں ہے، کسی نظریے کو پیش کرنے میں نہیں بلکہ نظریے کی تشکیل کے پورے عمل کو پیش کرنے میں ہے۔ تنقید اس معنی میں دریافت، انکشاف اور جہانِ فکر کی سیاحی کا عمل ہے۔ ’’مقدمۂ شعر وشاعری‘‘ کی عظمت کا راز اسی نکتے میں پنہاں ہے کہ یہ نتائج نظریوں، فیصلوں اور رایوں سے بھری ہوئی کسی پروپیگنڈسٹ، پنفلٹ باز، مفتیِ عصر کی جھولی نہیں، بلکہ ایک شائستہ اور متجسس ذہن کی سیاحت اور ادب کی دستاویز ہے۔
حالی اس معنی میں نقاد نہیں جس معنی میں مجھ جیسے لوگ آج کل نقاد بنے پھرتے ہیں۔ حالی کو صرف ادب اور شاعری ہی میں دل چسپی نہیں تھی؛ انھیں اپنی قوم، اپنے سماج، اپنی تاریخ، اپنی مذہبی روایت اور اپنی تہذیبی قدروں میں جو دلچسپی تھی اس کی آئینہ داری ان کی شاعری اور ان کی مختلف تصانیف کرتی ہیں۔ یہ عرب و عجم وہند کی صدیوں کی تہذیبی اور تمدنی روایتیں تھیں جنھوں نے مل جل کر حالی کے ذہن کی تربیت کی تھی۔ تاریخی مجبوریوں کی بنا پر یہ ذہن مغرب کے تہذیبی سرچشموں سے بہت سیراب نہیں ہوسکا، لیکن ان کے سخت سے سخت نکتہ چیں بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مغربی ادب کے اپنے محدود علم سے حالی نے جو فائدہ اٹھایا اور اس سے جو کام نکالے، اس کا عشرِ عشیر بھی ان لوگوں سے بن نہ پڑا جو حالی سے زیادہ مغربی ادب سے واقف تھے اور جنھیں حالی سے کہیں زیادہ اس ادب سے فیض یاب ہونے کے مواقع حاصل تھے۔ حالی کو اپنے سماج میں کتنی دلچسپی تھی اور اس سماج کی تہذیبی، اخلاقی اور مذہبی زندگی میں کتنے ڈوبے ہوے تھے، اس کا اندازہ ’’حیاتِ جاوید‘‘ کے مطالعے سے ہوجائے گا جو صرف سر سید کی سوانح نہیں بلکہ اپنے دور کی ایک جیتی جاگتی تاریٰخ ہے۔ وہ لوگ جو اپنے بیس صفحات کے تنقیدی مضامین میں بمبئی کے جہازیوں کی ہڑتال اور لکھنؤ کے طالب علموں کے مظاہروں کا صحافتی ذکر کرتے ہیں انھیں ذرا اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ حالی، جس کا ذہن اپنی عصری زندگی کا مکمل طور پر احاطہ کیے ہوے تھا اور اس کی خفیف سی خفیف لرزش کو محسوس کرتا تھا، باوجود اس کے کہ وہ شاعری کو ایک سماجی سرگرمی سمجھتا تھا، اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں اپنے وقت کی سماجی اور سیاسی زندگی کا سرسری سا بیان بھی نہیں کرتا۔ اسے کہتے ہیں ذہن کا کلاسیکی نظم و ضبط۔ ایسا ذہن ہر بات موقع محل دیکھ کر کرتا ہے۔ ہمارے نقاد سیاست تو بہت بگھارتے ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اس تمام سیاست زدگی کے باوجود کیا ان میں ایک بھی آدمی ایسا ہے جس پر آنے والی نسلیں ایک ایسی کتاب لکھیں جیسی کہ جذبی نے حالی کے سیاسی شعور پر لکھی ہے؟ مذہب، سیاست، تاریخ، سماج اور اپنے وقت کی تہذیبی اور تمدنی زندگی میں سر سے پیر تک ڈوبا ہوا آدمی جب ’’مقدمہ‘‘ لکھنے بیٹھتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص زندگی بھر شاعری ہی کرتا رہا ہے اور شاعری ہی پڑھتا رہا ہے۔ کاش ہمارے نقاد ’’مقدمہ‘‘ کو ذرا غور سے پڑھتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ موضوع پر دھیان مرکوز کرنے کے کیا معنی ہوتے ہیں۔
حالی محض نقاد نہیں؛ بنیادی طور پر وہ دانش مند ہیں۔ ان کی رگوں میں اپنی پوری نسل اور پوری قوم کی دانش مندی، جسے صدیوں کے تہذیبی ارتقا نے پروان چڑھایا ہے، خون بن کر دوڑ رہی ہے۔ ایسے آدمی کو خوردہ گیری اور نکتہ چینی میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ ایسا آدمی trifles اور trivialities میں نہیں الجھتا۔ ایسا آدمی ادب اور شاعری کی باتیں ہواؤں اور خلاؤں میں نہیں کرتا۔ ادب کو وہ انسان کی پوری تہذیبی اور روحانی زندگی کے تناظر میں رکھ کر دیکھتا ہے، لیکن دیکھتا ہے وہ ادب ہی کو۔ وہ ہمیں اپنے علم و فضل سے مرعوب نہیں کرتا۔ وہ اپنے منفرد زاویہ نظر، اپنی انوکھی اور اچھوتی تاویلوں اور تفسیروں سے ہمارے ذہن کو مغلوب نہیں کرتا۔ یہ اس کی دانش مندی ہوتی ہے جو ہمیں بصیرت عطا کرتی ہے۔ وہ چیزوں کے رشتے کو سمجھتا ہے، اور ہر چیز کو ہمارے نظام حیات میں ایک موزوں اور مناسب مقام عطا کرتا ہے۔ شاعری اس کے لیے ایک قدر رکھتی ہے اور قدروں کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔ ادبی تجربے کو وہ ہماری زندگی کا ایک جزو بنانا چاہتا ہے اور ہماری زندگی کو وہ ایک سالم اور صحت ور نظامِ اخلاق کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ آدمی کے پاس سے اس کا اخلاقی شعور لے لیجیے اور وہ ایک جگالی کرنے، رفع حاجت کرنے اور مجامعت کرنے والا جانور بن کر رہ جاتا ہے۔ دانش مند آدمی انسان کو اس کے پورے اخلاقی، جذباتی اور روحانی ڈائمنشن کے ساتھ قبول کرتا ہے اور اس کی زندگی کو ایک معنویت عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ خشک اور تنگ نظر معلّم اخلاق اور کٹھ ملّا نہیں ہوتا۔ وہ code of morals تیار نہیں کرتا بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں، زندگی کی ہر کشمکش میں، جہدِ عمل کے ہر میدان میں، وہ انسان کے اخلاقی رویے کو ایک توازن عطا کرنا چاہتا ہے۔ حالی ایسے ہی ایک دانش مند ہیں۔ وہ چاہے باتیں زندگی کے متعلق کریں یا سماج کے متعلق، شاعری کے متعلق کریں یا اخلاق کے متعلق، ان کی باتیں دل نشیں اور بصیرت افروز ہوتی ہیں، کیوں کہ وہ ایک دانش مند کی باتیں ہیں۔ ان کی باتوں میں ایک واقف کار کی انکساری ہوتی ہے، ایک ماہر کا طنطنہ نہیں ہوتا۔ وہ جس موضوع پر بات کرتے ہیں اس سے وہ واقف ہوتے ہیں۔ شعر وادب سے ان کی واقفیت ایک فن کار کی واقفیت ہے۔ وہ اچھے اور برے شعر میں تمیز کر سکتے ہیں۔ وہ اچھی شاعری کی قوتوں کو جانتے ہیں اور بری شاعری کی کمزوریوں کو بھی پہچانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کے زمانے میں شاعری متبذل کیوں بنی اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ابتذال سے باہر نکلنے کے راستے کون سے ہیں۔ ان کی باتوں سے ہمیں اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ باتیں سوچ سمجھ کر، ناپ تول کر نہیں کہی گئیں۔ اختلافِ رائے بھی اس رائے سے کیا جاتا ہے جو حکیمانہ اور rational ہوتی ہے۔ بے سوچی سمجھی اٹکل رایوں سے اختلاف نہیں کیا جاتا، انھیں صرف نظر انداز کیا جاتا ہے۔ حالی کی رایوں سے جو اتنا اختلاف کیا گیا ہے تو یہ حالی کی کمزوری نہیں اس کی طاقت کی دلیل ہے۔ اسی لیے تو سخت تنقید بھی بڑے نقاد کو نقصان نہیں پہنچاتی کیوں کہ نقاد اپنی کمزوریوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی طاقتوں کی وجہ سے زندہ رہتا ہے۔ ایک بڑے نقاد کے پاس قاری کو دینے کے لیے اتنا سب کچھ ہوتا ہے کہ خوردہ گیروں کی خوردہ گیری اس کی تنقید کی رفیع الشان عمارت پر محض غیر اہم خراش بن کر رہ جاتی ہے۔
افسوس صرف اس بات پہ ہے کہ حالی کے نکتہ چینوں کا رویہ عموماً rational آدمی کا رویہ نہیں رہا۔ کلیم الدین احمد، محمد احسن فاروقی، وحید قریشی اور دوسرے نقادوں کو مرور ایّام اور تغیّر حالات کی وجہ سے حالی پر جو privilege حاصل ہوا انھوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ کسی شخص پر اپنے privilege کا فائدہ اٹھانا نہ صرف دانش مندانہ کام ہے بلکہ اصولِ شرافت کے بھی خلاف ہے۔ ان نقادوں نے انگریزی ادب کا حالی سے زیادہ مطالعہ کیا تھا کیوں کہ انھیں مطالعے کے مواقع زیادہ ملے تھے۔ لہذا یہ لوگ حالی پر ٹوٹ پڑے کہ حالی نے ان تمام کتابوں کو کیوں نہیں پڑھا جو ان حضرات کی نظروں سے گزری تھیں۔ حالی کے limitaion کو ان کی کمزوری سمجھنا ایک غیر عقلی رویہ ہے۔ بڑے سے بڑا نقاد بھی اپنے موضوع کو exhaust نہیں کر سکتا۔ کسی بھی ادبی موضوع پر جامع سے جامع کتاب بھی اس موضوع کی تمام پہنائیوں کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ سمجھ دار آدمی یہ دیکھتا ہے کہ نقاد نے جو بات کہی ہے وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ مثلاً ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ حالی نے تخیل پر جو کچھ لکھا ہے، وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ اگر ٹھیک ہے تو اس موضوع پر حالی اپنے محدود وسائل میں جو کچھ دے سکتے تھے اسے قبول کر کے اپنے کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔ کیوں کہ نقاد کسی موضوع کو مکمل طور پر exhaust نہیں کر سکتا اس لیے آنے والے نقاد اس کے کام کو آگے بڑھاتے ہیں، گویا اس کے موضوع کو substantiate کرتے ہیں۔ اگر حالی نے تخیل پر کچھ کام کی باتیں کی ہیں تو ہمیں انھیں قبول کرنا چاہیے۔ اگر اس موضوع کے کچھ اور نازک پہلوؤں کو وہ اس لیے نہیں چھو سکے کہ اس موضوع پر ان کی نظر سے کچھ اور اہم کتابیں نہیں گذریں، تو یہ ان کی تنقید کا نقص نہیں، محض ان کی مجبوری ہے۔ کسی کی مجبوری پر ہنسنا یا طنز کرنا نہایت ہی قبیح حرکت ہے۔ لیکن کیا کریں، ہمارے نقاد نئے نئے انگریزی کے پروفیسر بن کر آئے تھے۔ انگریزی تنقید میں کالرج کے تخیل کے تصور کے چرچے بھی عام تھے۔ انگریزی کا بی اے کا طالب علم چوں کہ اسکاٹ جیمز کو پڑھتا ہے اس لیے فینٹسی اور امیجینیشن اور esemplastic امیجینیشن کی گردان کیا کرتا ہے۔ حالی کے نکتہ چیں بھی یہی گردان کرنے لگے۔ حالی آج کل کے نقادوں کی طرح یہ بتانا نہیں چاہتے تھے کہ تخیل کے موضوع پر انھوں نے کون کون سے تیس مارخانوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے؛ وہ تو تخیل کے موضوع پر کچھ ایسی کام کی باتیں بتانا چاہتے تھے جو تخلیق شعر کے عمل پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔ چناں چہ انھوں نے جانسن، مکالے وغیرہ کے یہاں سے اس موضوع پر جو کچھ تھوڑا بہت مواد مل سکتا تھا اس سے فائدہ اٹھایا اور اس مواد کو بنیاد بنا کر تخیل کی ایسی تعریف کی جو آج بھی اردو تنقید میں حرفِ آخر کا مقام رکھتی ہے۔ حالی نے لنگوٹی میں پھاگ کھیلا لیکن ایسا کھیلا کہ پوری تنقید کو گلنار کردیا۔ بڑا نقاد، بڑا مورخ، بڑا فن کار حقیر اور اسفل چیزوں سے وہ کام لیتا ہے جو چھوٹا ذہن بڑی چیزوں سے بھی نہیں لے سکتا۔ ایک مٹی کو ہاتھ لگاتا ہے تو سونا بنا دیتا ہے، دوسرا جواہر کو خزف ریزوں میں بدل دیتا ہے۔ خلّاق اور تربیت یافتہ ذہن مختلف علوم سے استفادہ کرتا ہے جب کہ ان گڑھ ذہن لقمہ چینی اور پیوند دوزی کرتا ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ چوں کہ حالی نے کالرج کو نہیں پڑھا اس لیے وہ تخیل کی تعریف جامع طریقے پر نہیں کر سکے، تب بھی ہم یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ انھوں نے جو کچھ تعریف کی ہے وہ اپنی حدود میں درست، مناسب اور فکر انگیز نہیں ہے۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ کالرج کے بعد اس موضوع پر دو سو سال تک لوگوں نے کچھ اضافہ نہ کیا ہو۔ تخیل پر مزید تحقیق کالرج کے افکار کو فرسودہ اور پارینہ نہیں بناتی۔ اسی طرح حالی کی کالرج سے عدم واقفیت ان کی فکر کو ناقص نہیں بناتی، تاوقتیکہ ہم دلائل و شواہد کے ذریعے ثابت نہ کردیں کہ ان کی تعریف ناقص یا غلط ہے۔ حالی کے نکتہ چیں ایسا نہیں کرتے؛ بس انھیں تو یہ شکایت ہے کہ تخیل پر لکھتے وقت انھوں نے کالرج کو سامنے نہیں رکھا۔ اب مجھ جیسے افلاطونوں کو لیجیے جس نے کالرج کو بھی پڑھا ہے اور تخیل پر اور بھی بہت سی کتابیں جمع کر رکھی ہیں کہ اس موضوع پر طبع آزمائی کرنے کا نہ جانے کب سے ارادہ کیے بیٹھے ہیں، لیکن کیا کریں، ماہروں کی اس دنیا میں قلم اٹھانے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ ایک کے بعد ایک ایسی عالمانہ کتابیں سامنے آتی رہتی ہیں کہ ابھی ہم علم و تحقیق کی اک موجِ تندوتیز سے سر اونچا کرنے بھی نہیں پاتے کہ دوسری موج سر سے گذرجاتی ہے۔ ابھی ہم آنکھیں مل کر پھیپھڑوں سے پانی خارج بھی نہیں کر پاے تھے کہ یہ خبر پہنچی کہ اب تخیل ادبی تنقید کا موضوع رہا ہی نہیں بلکہ نفسیات کا موضوع بن چکا ہے۔ سماجی علوم کے پروفیسروں کے ہاتھوں اب تو کوئی بھی موضوع ادبی تنقید کا موضوع رہا ہی نہیں۔ آپ شاعری میں لفظ و معنی کی اہمیت پر کچھ لکھنے کے لیے کمر بستہ ہوئے، لوگ کہیں گے کہ پہلے لسانیات، صوتیات، semantics میں مہارت پیدا کرو۔ اور لسانیات بھی آج کل اپ بھرنش اور سورسینی پراکرت کے مطالعے تک تھوڑی محدود رہی ہے، مصیبت تو یہ ہے کہ زبان کا علم بذات خود اس قدر ٹیکنیکل اور سائنٹفک بن چکا ہے کہ اس علم کی زبان تک سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ نے تو سوچا تھا شاعری میں الفاظ پر کچھ خامہ فرسائی ہوجائے؛ اب آپ کی حالت یہ ہے کہ ہاتھ میں قلم کی بجاے علمِ صوتیات کے آلے ہیں اور تجربہ گاہ میں بیٹھے کبھی یہ بٹن دباتے ہیں کبھی وہ ٹیپ چالو کرتے ہیں۔ ماہرین لسانیات کے سامنے آپ لفظ کے جادو، لفظ کی رنگینی، لفظ کی شیرینی کا ذکر کیجیے اور وہ آپ کو ایسی نظروں سے گھوریں گے گویا آپ کوئی اپ بھرنش بھاشا میں بات کر رہے ہیں۔ نقادوں نے ادبی تنقید کو سائنس کی قطعیت عطا کرنے کے جو خواب دیکھے تھے اس کی تعبیر ٹیکنیکل علوم کے اس کابوس میں ظاہر ہوئی جو ہمارے اوسان خطا کیے ہوئے ہے۔ ان اکسپرٹ حضرات کے سامنے اب تو بیچارے پروفیسر نقاد بھی گلشنِ بے خار کے زمانے کے آدمی نظر آتے ہیں۔ حالی نے ’’مقدمہ‘‘ میں الفاظ کی اہمیت پر جو کچھ لکھا ہے کلیم الدین احمد اسے سطحی قرار دیتے ہیں۔ لیکن ’’سخن ہائے گفتنی‘‘ میں انھوں نے ’’شاعری اور الفاظ‘‘ کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے اس کی آج کے ہیئت پرستوں اور لسانی نقادوں کی نئی تحقیقات اور تصورات کی روشنی میں کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ لیکن کلیم الدین احمد کا مضمون اہم ہے، اور الفاظ پر حالی کی بحث بھی اہم ہے، کیوں کہ تنقید میں دونوں نقادوں کا رویہ pragmatic ہے۔ دونوں تنقید کو ادب سے اور ادب کو زندگی سے وابستہ کر کے دیکھتے ہیں۔ دونوں کی تنقید ادب کی ایسی صداقتوں کا بیان کرتی ہے جو لازوال ہیں۔ ان موضوعات پر نئی تحقیقات اضافہ کر سکتی ہیں لیکن حالی یا کلیم الدین کے تصورات کی تنسیخ نہیں کر سکتیں۔ ادبی تنقید وہی اچھی پائیدار ہوتی ہے جو فن، ادب، زندگی اور انسان کے تہذیبی مسائل سے سروکار رکھتی ہے۔ تنقید میں عالمانہ وسعت اور فکرِ رسا دونوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ فکرِ رسا کی عدم موجودگی میں عالمانہ وسعت سے تنقید معلوماتی بنتی ہے لیکن بصیرت افروز نہیں۔ ہمارے یہاں نقادوں کا ایک بڑا گروہ صرف اپنے مطالعے کو ٹھکانے لگانے کے لیے تنقید لکھا کرتا ہے۔ مکتبی تنقید بھی علمی پھیلاؤ کو فکری گہرائی کا نعم البدل بنانا چاہتی ہے اور پھر دوسرے علوم کے ماہر ہیں جو ادبی تنقید کو اپنی جولاں گاہ بنائے ہوئے ہیں۔ حالی کا تنقید میں رویہ ان سب سے مختلف ہے۔
ایک زمانہ تھا جب کہ نقاد کسی علم کا اکسپرٹ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا تھا، یعنی ادبی تنقید میں اس کا رویہ کسی علم کے ماہر کا رویہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ تاریخ پر ایک مورخ کی طرح اور فلسفے پر ایک فلسفی کی طرح بات نہیں کرتا تھا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ان علوم کا ماہر نہیں تھا۔۔۔ حالی اور شبلی علم تاریخ اور علم فلسفہ سے جتنا واقف تھے، اتنا تو ہمارے ادبی نقاد ادب سے بھی واقف نہیں ہیں۔۔۔ وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ادبی تنقید کو ادب اور زندگی کی تفسیر کی حدود میں رکھنا چاہتا تھا۔ ادب علم نہیں ہے جسے سمجھنے کے لیے اکسپرٹ کی ضرورت پڑے؛ ہر عام پڑھا لکھا آدمی ادب سے اپنی بساط اور حیثیت کے مطابق فیض یاب اور لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ ادب پر بات چیت کرنے کے لیے بھی ماہرین کی ضرورت نہیں ہے؛ ہر تعلیم یافتہ اور سلجھا ہوا آدمی اپنی ذہنی استعداد کے مطابق اپنے ادبی تجربات کا بیان کر سکتا ہے۔ ادب ایک تجربہ ہے، اور ادبی تنقید اس تجربے کا جائزہ، تجزیہ اور بیان ہے۔ ادبی تنقید بھی عام قارئین سے کبھی اس علمی مہارت کا مطالبہ نہیں کرتی جو دوسرے علوم کرتے ہیں۔ اسی لیے فلسفے میں فلسفے کے طالب علموں ہی کو دلچسپی ہو سکتی ہے اور اقتصادیات کا مطالعہ وہی کرتا ہے جو اس علم سے واقف ہے۔ مجھ سے اور آپ سے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم کسی زبردست ماہرِ اقتصادیات کی کتاب کو اٹھالیں اور پڑھنا شروع کردیں۔ ارے خود اقتصادیات اور نفسیات کے پروفیسر تک یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے علوم کی جدید ترین اور اعلیٰ ترین تحقیقات کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہر پروفیسر کے لیے اپنے شعبۂ علم کی ایک سدرۃ المنتہیٰ ہوتی ہے جس پر پہنچ کر اس کے پر جلنے لگتے ہیں۔ اقتصادیات جب علم ہندسہ (statistics) اور علم ہندسہ جب علم حساب کی حدود میں داخل ہونا شروع ہوتا ہے تو پروفیسر لوگ اپنی حد پہچان کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن ادبی تنقید ایسا کوئی علم نہیں۔ ادب کا طالب علم اس فن کے اعلیٰ ترین مفکروں کے افکار خیالات سے یکساں خود اعتمادی کے ساتھ فیض یاب ہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم ایک سطح کے نقادوں کو سمجھ سکتے ہیں اور دوسری سطح کے نقادوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ ادبی تنقید کی درجہ بندی اس طرح نہیں ہوتی کہ ایک درجے کے نقادوں میں آدمی جب تک مہارت نہ پیدا کرے تب تک وہ دوسرے درجے کے نقادوں کو سمجھنے کا اہل نہیں بنتا۔ وہ شخص جسے ادبی تنقید میں دلچسپی ہے۔۔۔ اور ادب کے قاری کی طرح یہ شخص بھی ایک عام آدمی ہوتا ہے۔۔۔ وہ بیک وقت افلاطون، ارسطو، ڈرائیڈن، جانسن، کالرج، آرنلڈ، الیٹ، شلر، ساں بیو، حالی، شبلی، سرور اور عسکری، غرض یہ کہ دنیا بھر کے چھوٹے بڑے نقادوں کو پڑھ سکتا ہے، انھیں سمجھ سکتا ہے اور ان سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس کی عمر، اس کے علم اور اس کی ذہنی استعداد کے مطابق وہ کسی کو کم کسی کو زیادہ سمجھے، کسی کو صحیح کسی کو غلط سمجھے، لیکن ان نقادوں میں فی نفسہ کوئی ایسی چیز نہیں جو ادب کے کسی قاری کو ان کے مطالعے سے باز رکھے۔ ادب کو ہر انسان سمجھتا ہے اور ہر آدمی اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے، کیوں کہ ادب اس کی زندگی کے تجربات کا بیان ہے۔ ادبی تنقید کو بھی ہر آدمی سمجھ سکتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے، کیوں کہ ادبی تنقید ادبی تجربات کا بیان ہے اور ادب کے واسطے سے زندگی کے تجربات اور مسائل سے سروکار رکھتی ہے۔ آرنلڈ اور کالرج، حالی اور شبلی، عالموں اور فاضلوں یا ماہرینِ علوم کے لیے تنقیدیں نہیں لکھتے تھے، بلکہ اس عام لیکن تعلیم یافتہ اور مہذب آدمی کے لیے لکھتے تھے جو ادب کا ذوق رکھتا ہو اور جو ادب کے ذریعے انسان کی اخلاقی اور جذباتی زندگی کی آگہی حاصل کر کے اپنی زندگی کو زیادہ بھرپور اور کشادہ بنانا چاہتا ہو۔ تنقید کا سروکار اسی طرح عام لوگوں، عام زندگی اور ادب کے عام تجربات اور عام مسائل سے رہا ہے۔ نقاد جب ان مسائل پر بات کرتا ہے تو اس کا روے سخن پوری ادبی دنیا سے ہوتا ہے۔ اور ادبی دنیا سے مطلب ہے وہ دنیا جس میں زندگی کے ہر فرقے، شعبے، طبقے اور پیشے کے لوگ بستے ہیں اور ادب، آرٹ اور تہذیب کے مسائل میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب بڑے نقاد بھی عموماً وہی لوگ ہوا کرتے تھے جو بڑے فن کار ہوتے تھے۔ ڈرائیڈن، جانسن، کالرج، ورڈزورتھ، کیٹس، آرنلڈ، الیٹ، حالی اور شبلی بڑے شاعر بھی تھے اور بڑے نقاد بھی۔ وہ اپنی تنقیدوں میں اس فن کے بارے میں جسے انھوں نے اپنایا تھا، لوگوں کو کچھ بتانا چاہتے تھے۔ جس قسم کی شاعری انھیں پسند تھی اس کے متعلق وہ کچھ کہنا چاہتے تھے۔ ان کی تنقید عموماً empirical ہوا کرتی تھی، اور ادب، انسان اور سماج کے رشتے کا بیان کرتی تھی۔ اس طرح تنقید کا تعلق زندگی، ادب اور سماج سے براہِ راست قائم تھا۔ لیکن جب تنقید پروفیسروں کے ہاتھوں مکتب میں پہنچی اور سماجی علوم کے ماہرین نے اس میں طبع آزمائی شروع کی تو تنقید کا سماجی اور ادبی زندگی سے رشتہ کمزور ہونے لگا، یعنی تنقید اب اکسپرٹ کے ہاتھ کا کھلونا بن گئی۔ ادب کا مطالعہ زندگی کے تناظر میں نہیں بلکہ اکادمی کی تجربہ گاہ میں ہونے لگا۔ فن اب زندگی میں برتنے کی چیز نہیں رہی بلکہ چیرنے اور پھاڑنے کی چیز بن گئی۔ نقاد کے پاس اب چھان بین، تحقیق وتدقیق، خوردہ گیری اور موشگافی کا وقت تھا، سہولتیں تھیں، مواقع تھے اور اس کام کے لیے اسے یونیورسٹی سے تنخواہ بھی ملتی تھی۔ نقاد اب پیشہ ور نقاد بن گیا۔ مکتبی تنقید لکھنے کا فن کار کے پاس نہ حوصلہ تھا نہ وقت۔ فن کار کو زندگی میں دوسرے بھی بہت سے کام کرنے تھے، اور سب سے بڑا کام خود تخلیقِ فن کا کام تھا۔ اگر اس نے کہانی کے ارتقا کا جائزہ بابل و نینوا سے شروع کیا تو پھر کہانیاں لکھے گا کون؟ چناں چہ فن کار میدانِ تنقید سے بھاگ کھڑا ہوا اور تنقید پر پروفیسر نقادوں کی حکم رانی مسلّم ہوگئی۔ تنقید کا فن آہستہ آہستہ ایک ایسے ڈسپلن کی شکل اختیار کرتا گیا جو بعد میں چل کر بڑی حد تک ادب سے بھی بے نیاز ہوگیا۔ لوگ تنقید کو ادب کی تفسیر اور تاویل کے طور پر نہیں بلکہ ایک آزاد فن کی صورت میں پڑھنے لگے۔ تنقید میں فلسفے، اقتصادیات، نفسیات اور لسانیات کے ماہروں کا دور دورہ ہوا۔ زبان اصطلاحوں اور کلی شیز سے بھر گئی۔ مضامین دوسرے علوم کے خام مواد سے اٹ گئے۔ ان راکھشسی مضامین کو سمجھنے کا فن کار میں حوصلہ تک نہ رہا۔ پروفیسر نقاد کے مضمون کا جواب بھی پروفیسر نقاد دے سکتا تھا۔ فن کار نے ادب اور آرٹ کی باتیں کرنے کے جملہ حقوق نقاد کے نام لکھ دیے۔ ادب میں تنقید کی حکمرانی ہوئی اور تنقید میں پروفیسر کی مطلق العنانی۔ وحید قریشی لکھتے ہیں کہ شبلی اور حالی اپنے زمانے کے دو بڑے ادبی ڈکٹیٹر تھے۔ ذرا حالی کی تحریریں پڑھیے اور سوچیے کہ کیا ڈکٹیٹروں کا یہی لب و لہجہ اور وطیرہ ہوتا ہے؟ نہیں جناب ! ڈکٹیٹروں کا زمانہ، کیا ادب میں کیا سیاست میں، ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ یہ زمانہ اس وقت شروع ہوگا جب لوگ حالی کی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور اس کی شخصیت کو نظر انداز کر دیں گے۔ جب اس کی رایوں سے الجھیں گے لیکن اس کے ذہن سے، جو ایک متین، متوازن اور نکتہ رس ذہن ہے۔ اپنی ذہنی تادیب اور دانشورانہ تنظیم کے آداب نہیں سیکھیں گے۔ اس وقت تنقید کا میدان ڈکٹیٹروں کے چرمی جوتوں کی آواز سے گونج اٹھے گا۔ وہ جن شاعروں سے خوش ہوں گے ان کے سینے پر تمغے آویزاں کریں گے، جن سے ناراض ہوں گے انھیں فٹیگ مارچ کرائیں گے۔ یہ وہی ہوں گے جو تہذیبی وفود کے لیڈر، اکادمی کے ممبر، رائٹرز گلڈ کے سکریٹری اور ساہتیہ سبھاؤں اور سیمیناروں کے صدر بنیں گے۔ بغیر کسی اقتدار کے بھی نقاد سے بحروبر کانپتے تھے، اور اب تو وہ اکادمی کا ممبر بھی بن گیا۔ طاقت کا نشہ سب کے سر چڑھ کر بولتا ہے، اور نقاد اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اردو جیسی مفلوک الحال زبان کے نقاد ڈکٹیٹر تو کیا بنتے۔۔۔ اتنی طاقت ہی ان میں نہیں تھی۔۔۔ بن بن کر بنے بھی تو حوالدار بنے۔ حوالداری سے میرا کیا مطلب ہے، اسے سمجھنے کے لیے محمد احسن فاروقی کے یہ جملے دیکھیے جو ان کی ’’مقدمہ‘‘ پر تنقید میں سے جستہ جستہ انتخابات کیے گئے ہیں :
’’ایسی باتیں پڑھ کر تو یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ایسا شخص کسی طرح شاعری کرے اور شاعری پر رائے دینے کا اہل ہی نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’اس اخلاق کی وکالت میں انھوں نے بڑے دھوکے کھائے ہیں اور تنقید نگاری کی بہت ہی غلط مثالیں قائم کی ہیں۔ اس کی بدترین مثال مقدمہ کا وہ حصہ ہے جس میں مراثی کی اخلاقی نوعیت کو واضح کیا گیا ہے۔‘‘
’’ یہاں وہ تنقیدنگاری کے نقطۂ نظر سے ایسا جرم کر ہے ہیں جس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔‘‘
’’یہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کم علم کس قدر پُر خطر ہو سکتا ہے۔‘‘
’’جتنی زیادہ یہ بحث اہم ہے، حالی اتنے ہی اس پر طبع آزمائی کے لیے نااہل ہیں۔‘‘
(’’اردو تنقید‘‘)
آپ یہ نہ سمجھیں کہ احسن فاروقی کے دل میں حالی کے لیے کوئی عزت نہیں۔ حالی کی تعریف میں چند بہترین جملے بھی انھوں نے ہی لکھے ہیں۔ میں تو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نقاد جب حوالداروں کی طرح بات کرنا شروع کرتا ہے تو اس کا طرزِ گفتگو بھی کتنا غیر شریفانہ بن جاتا ہے۔ جوشِ تنقید میں انھیں یہ تک خیال نہیں رہا کہ حالی جیسے نقاد پر قلم اٹھاتے وقت ہمیں آدابِ گفتگو کی پاس داری کرنی پڑتی ہے۔ اگر احسن فاروقی ’’مقدمہ‘‘ کو ذرا غور سے پڑھتے تو حالی کا اسلوبِ نگارش انھیں آدابِ تنقید بھی سکھاتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تنقید سخت نہیں ہونی چاہیے۔ میں تو صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سخت ترین تنقید میں بھی ایک لفظ ایسا نہیں آنا چاہیے جو نقاد یا فن کار کی شخصیت کے شایانِ شان نہ ہو، یا جو نقاد کو ہمارے سامنے حقیر بنا کر پیش کرتا ہو۔ احسن فاروقی کی نیت خراب نہیں، صرف زبان خراب ہے۔ یہ زبان نقاد کی نہیں، حوالدار کی ہے۔ اس زبان کے آپ کچھ اور نمونے دیکھنا چاہیں تو ان تنقیدوں کو پڑھیے جو ترقی پسند نقادوں نے منٹو، میراجی، بودلیر، الیٹ اور لارنس پر لکھی ہیں۔ نقادوں نے ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ کو خوردہ گیری اور موشگافیوں کے مقصد کے تحت پڑھا، ذہن کو سنوارنے، شخصیت کو دل نواز بنانے، ادبی شعور کو چمکانے اور تنقیدی اسلوب کو شائستہ بنانے کی غرض سے نہیں پڑھا۔ مکتبی نقاد ادب سے کچھ سیکھتا نہیں، کیوں کہ سیکھنا اس کا کام نہیں۔۔۔ اس کا کام تو سکھانا اور پڑھانا ہے۔
تنقید فلسفہ یا سماجیات کی دستاویز نہیں بلکہ ایک ادبی چیز ہے جو کسی ادبی مسئلے یا ادب پارے کے سمجھانے اور اس کی قدر وقیمت متعین کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔ تنقید وہی اچھی ہوتی ہے جو مختلف علوم سے فائدہ اٹھاتی ہے، لیکن ان علوم کا مقالہ نہیں بنتی۔ تنقید میں پھیلاؤ اور وضاحت مختلف طریقوں سے پیدا ہوتی ہے۔ تاریخ حالات، سوانحی حالات، تشریح و تفسیر، یا ادب پارے کی ظاہری خصوصیات، مثلاً مثنوی کے معاشرتی حالات، قدرتی مناظر یا پھر رزمیے کے واقعات، جنگ اور لڑائی کے طور طریقوں، یا پھر مرثیے میں جذبات نگاری، گھوڑے کی تعریف، تلوار کی تعریف وغیرہ وغیرہ کے تشریحی بیان کے ذریعے نقاد تنقید میں غیر ضروری پھیلاؤ پیدا کرتا ہے۔ خصوصاً ہماری متنی تنقید اس قسم کے پھیلاؤ کا بری طرح شکار ہوئی ہے۔ متنی تنقید کس ژرف نگاہی اور بصیرت کی متقاضی ہے اس کا اندازہ آپ کو شیکسپیئر کے ڈراموں یا دستووسکی کی ناولوں وغیرہ پر لکھی گئی تنقیدوں سے ہوجائے گا۔ لیکن ہمارے یہاں متنی تنقید صرف کتاب کا خلاصہ یا ظاہری خصوصیات اور پیش پا افتادہ چیزوں کا بیان کرتی ہے۔ شبلی کی تنقید کا بہت بڑا حصّہ متنی ہے اور متذکرہ بالا تمام کمزوریوں کا شکار ہے۔ گجرات میں ہم گجراتی تنقید کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ یہاں کا نقاد شاعر یا شعری مجموعے کے بغیر دو قدم چل نہیں سکتا۔ سامنے شاعر کی کتاب رکھیے اور شعروں کی تشریح کرتے جائیے۔ چند صفات اور خصوصیات بیان کر دیجیے، اس سے ملتے جلتے دوسرے شاعروں کے شعر پیش کر دیجیے، شعری تخلیقات کی موضوع اور صنف سخن کے مطابق درجہ بندی کیجیے، صنفِ سخن کی تاریخ بیان کیجیے، غرض یہ کہ متنی تنقید کے بگڑنے کے ہزار لچھن ہیں اور ہماری مکتبی تنقید اسی بگاڑ کا عبرت ناک نمونہ ہے۔ شبلی تو پھر خیر بہت ذہین آدمی تھے اور ان کی تنقید ادھر ادھر ذہنی جودت کے دلچسپ نمونے پیش کرتی ہے؛ اس کے باوجود آج ’’موازنہ‘‘ اور ’’شعر العجم‘‘ کو پڑھنا اتنا آسان نہیں رہا۔ شبلی کی وضاحت اور شعر کے ظواہر کا تفصیلی بیان ذہنی تھکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ فرخی کی منظر نگاری تو اس کے قصائد ہی سے ظاہر ہے؛ لیکن نقاد جب تک اس منظر نگاری کی خصوصیات کی نشان دہی اس طور پر نہ کر ے کہ یہ خصوصیات اس کا امتیاز بن جائیں تب تک تنقید میں گہرائی پیدا نہیں ہوتی، اور شبلی عموماً ایسا نہیں کرتے۔ البتہ ہندوستان کے فارسی غزل گو شعرا پر ان کی تنقید نہایت پُر لطف ہے اور اس کی وجہ اشعار کی دلچسپ تفسیریں ہیں۔ لیکن شبلی کا یہ جوہر ایسا نہیں کہ وہ بلا شرکتِ غیرے اس کے مالک ہوں؛ حالی اس معاملے میں ان کے ہم سر ہیں، بلکہ اکثر ان سے سبقت لے جاتے ہیں، کیوں کہ حالی کی نظر شعر کے معنی اور محاسن پر شبلی سے گہری پڑتی ہے۔ شبلی کے یہاں بھی اخلاقیات کا عنصر کافی گہرا ہے، لیکن جس چیز نے لوگوں کو ان کے متعلق فریب میں مبتلا کیا ہے وہ ان کی جمالیات ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شبلی مولوی ہونے کے باوجود شعر سے جمالیاتی سطح پر لطف اندوز ہو سکتے تھے اور وہ حالی کی طرح شعر کو محض اخلاقی نظر سے نہیں دیکھتے۔ یہ فریب اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ شبلی کے یہاں اخلاقیات اور جمالیات دو الگ الگ خانوں میں بٹی رہتی ہیں اور۔۔۔ جس طرح ایک بڑے نقاد کی تنقید میں ہونا چاہیے، اور حالی کے یہاں ہوتا ہے۔۔۔ وہ دونوں باہم fuse نہیں ہوتیں۔ موقع ملنے پر شبلی حالی سے بھی زیادہ اخلاقیات بگھارتے ہیں، اور جب شاعری سے مزہ لینے بیٹھتے ہیں تو اخلاقیات کو ایک طرف رکھ کر فصاحت وبلاغت، منظر نگاری اور محاکمات کی وضاحت کرتے رہتے ہیں۔ شبلی کی جمالیات شعر کے اخلاقی تصور کا چیلنج قبول کرنے سے پیدا ہوئی۔ دراصل شاعری کے معاملے میں انھوں نے کسی بھی چیز کا چیلنج قبول کیا ہی نہیں۔ حالی ادب کی ایسی جمالیات تشکیل کرنے میں کامیاب ہوئے جو ادب کے اخلاقی تصورات کا چیلنج قبول کرتی ہے۔ شبلی حسن اور صداقت میں ثنویت روا رکھتے ہیں جبکہ حالی نہیں رکھتے۔ واقعیت اور اصلیت کے شبلی کے تصورات پر حالی کے اثرات بہت گہرے ہیں، لیکن شبلی جب واقعیت اور اصلیت کی قدروں پر انیس کی شاعری کو پرکھتے ہیں تو وہ اتنی سی بات نہیں دیکھ سکتے کہ خود ان کی تعریف پر انیس کا کلام پورا نہیں اتر رہا۔ گویا ان کی تعریف ایک طرف رہتی ہے اور انیس کا کلام دوسری طرف؛ جب کہ حالی جو بھی قدری معیار پسند کرتے ہیں وہ ایک نشتر کی طرح شعر کو چیرتا ہوا اس کی گہرائی میں پہنچ جاتا ہے، اور شاعر کے کلام کا کوئی عنصر ایسا نہیں ہوتا جو ان کے معیار کی کسوٹی پر پرکھا نہ گیا ہو۔ اسی طرح شبلی فصاحت اور بلاغت کی تعریف کرتے ہیں اور پھر یہ دیکھتے ہیں کہ اس تعریف کے مطابق انیس کا کلام فصیح اور بلیغ ہے یا نہیں۔ ایک نقاد کی حیثیت سے انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ انیس کے کلام کی فصاحت اور بلاغت اپنی کیا امتیازی خصوصیت اور قدروقیمت رکھتی ہے۔ ہمارے مکتبی نقادوں کا بھی طریق کار یہی رہا ہے۔ وہ مکتبی کتابیں پڑھ کر پہلے سے یہ طے کر لیتے ہیں کہ ایک ناول میں کردار نگاری کے لوازمات کیا ہوتے ہیں، یا پلاٹ کی تعمیر کیسے کی جاتی ہے؛ پھر وہ کسی ناول نگار کی کردار نگاری یا پلاٹ کا تجزیہ ایسے کرتے ہیں کہ ان کا تجزیہ مکتبی تصورات کی مثال بن جاتا ہے۔ کمزور سے کمزور ناول نگار کے کرداروں اور پلاٹ پر بھی مکتبی تنقید کے طریق کار سے ایسی تنقید لکھی جاسکتی ہے کہ اس کی کمزوریاں عیاں نہ ہوں اور اس کے ناولوں میں بھی کردارنگاری اور پلاٹ کی تمام خوبیاں جھلکنے لگیں۔ یا دوسری مثال لیجیے۔ شیکسپیئر کے ڈراموں پر آپ دو چار کتابیں پڑھ کر امیجری کی تعریف اور خصوصیات نوٹ کر لیتے ہیں؛ پھر آپ ان خصوصیات کا اطلاق کسی بھی شاعر پر کر سکتے ہیں۔ مثلاً آپ نوح ناروی اور بیکل اُتساہی کے یہاں بھی ایسے اشعار تلاش کر سکتے ہیں جن میں لامسہ، سامعہ اور شامّہ کے حواس سے شعری پیکر اخذ کیے گئے ہوں۔ مکتبی تنقید کی یہی مصیبت ہے کہ وہ تھوک کے بھاؤ نظریات اور تصورات خریدتی ہے اور پھر جس شاعر پر چاہے انھیں منطق کرتی رہتی ہے۔ ڈرامے کے اصولوں کا مطالعہ کر کے انیس کو شیکسپیئر بھی ثابت کیا جاسکتا ہے اور میٹافزیکل concept کا مطالعہ کر کے غالب کی شاعری میں ڈن کی خصوصیات بھی دیکھی جاسکتی ہیں، اور دیکھی گئی ہیں۔ بہر حال، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شبلی کی تنقید بڑی حد تک تاریخ، سوانحی، تفسیری اور ظواہر کو بیان کرنے والی ہے، گویا اردو میں مکتبی تنقید کی روایت کا آغاز شبلی ہی سے ہوتا ہے۔ ان کے برعکس حالی کی تنقیدی روایت عبد الحق سے لے کر شمس الرحمن فاروقی تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ اردو تنقید کی مرکزی روایت ہے اور اپنی انفرادی خصوصیات، اختلافات اور تضادات کے باوجود اردو کے ان تمام نقادوں کو منسلک کیے ہوئے ہے جو شاعری اور سماج، اخلاقیات اور جمالیات کی کشمکش کو قبول کرتے ہیں اور اپنی نظریاتی اور عملی تنقید میں اس کشمکش کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ مکتبی نقاد باہم دست و گریباں نظریات اور گتھم گتھا خیالات کو سمجھا بجھا کر الگ کرتا ہے، ان کی خانہ بندی کرتا ہے، سب کو صحیح مانتا ہے اور کسی کو غلط نہیں کہتا۔
اخلاقیات اور جمالیات کی کش مکش کو قبول کیے بغیر کوئی بھی نقاد بڑا نقاد نہیں بن سکتا۔ حالی کے یہاں یہ کش مکش گو ابتدائی سطح پر ہے لیکن شدید ہے۔ جہاں تک شاعری سے مسرّت یابی کا تعلق ہے وہ شبلی سے کسی طرح کم نہیں؛ لیکن وہ اس مسرت کی نوعیت سمجھنا چاہتے ہیں، اسے انسانی تناظر میں رکھ کر دیکھنا چاہتے ہیں، اپنے ادبی تجربے کو وہ زندگی کے دوسرے تجربات سے relate کرنا چاہتے ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ یہ کام آسان نہیں، اور اسی لیے وہ مسئلے کا آسان حل تلاش نہیں کرتے۔ چناں چہ حالی پر تنقید کرتے وقت ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری قطعیت سے ان کے ادبی تصورات کی پہلوداری اور ان کے خیال کے نازک پہلوؤں کو ضرب نہ پہنچے۔ ہم نے یہ خیال نہیں رکھا کیوں کہ ہمارا ذہن راے کی قطعیت کا عادی ہے۔ خیال کی پیچیدگیوں کو قبول نہیں کرتا، اس شخص کی بات نہیں سمجھ سکتا ہے جو غزل کو قائم رکھتے ہوئے اس میں اعلیٰ شاعری کے امکانات کی جستجو کرتا ہے؛ البتہ ان لوگوں کی باتوں کو سمجھ سکتا ہے جو غزل کو نیم وحشی، مبتذل، عامیانہ، پریشاں خیال اور ناکارہ، یا نہایت کارآمد، بے مثال یا بہترین صنف سخن قرار دیتے ہیں۔ حالی تنقید کرتے ہیں، رائے زنی نہیں کرتے؛ اور ہم رائے زنی کے خوگر ہیں۔ حالی پر ہماری پوری تنقید اختلافِ رائے سے آگے نہیں بڑھی۔ حالی نے شاعری کی اخلاقی بحث کی؛ ہم نے حالی کے پورے اخلاقی رویے کو، جو ٹھوس کلاسیکی تصورات اور ان تجربات پر مبنی تھا جو مشرقی ادبیات کے گہرے مطالعے کا نتیجہ تھے، محض ایک رائے کی شکل دے دی اور کہا کہ حالی شاعری کی دیوی کو اخلاقیات کی چٹان سے باندھ دینا چاہتے ہیں اور ان سے ’’اختلافِ رائے کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی کہ شاعری کا اخلاقیات سے کوئی سمبندھ نہیں۔ ہمیں چاہیے تو یہ تھا کہ اخلاقیات کو اس طرح ادب کی حدود سے ex-cathedra (نکال باہر) کرنے کی بجائے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے کہ حالی کے اخلاقی تصورات کیا ہیں اور یہ تصورات شاعری اور زندگی کے لیے کیوں کافی نہیں ہیں۔ وہ آدمی جو غزل کو قبول کرتا ہے، غزل میں عشق کی اہمیت کو قبول کرتا ہے، خود نہایت اعلیٰ درجے کی عشقیہ شاعری کرتا ہے، اس آدمی کو آپ اپنے thesis کے مقصد کے تحت معلّمِ اخلاق اور ملّائے خشک کا روپ کیسے دے سکتے ہیں۔
حالی کے نکتہ چینوں کی دوسری کمزوری ان کی قیاس آرائیاں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ادب میں جو گڑبڑ مچی ہوئی ہے اس کی تمام تر ذمہ داری گویا حالی کے سر ہے۔ مثلاً محمد احسن فاروقی لکھتے ہیں :
...مگر حالی نے جتنی بھی مثالیں دی ہیں ان سے شاعری کے محض وقتی اثر ہی کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ آج کل ادب برائے زندگی کا پرچار کرنے والوں کو (جو محض ہنگامی چیزوں ہی کو زندگی کی ترجمانی سمجھتے ہیں) کلام کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کی غلط فہمی اور بے راہ روی کی بنیاد حالی ہی نے رکھی ہو۔ ممکن ہے ان لوگوں نے حالی سے اثر نہ لیا ہو، مگر یہ یقین ہے کہ یہ لوگ اور حالی دونوں ادب برائے زندگی کی بابت اتنا سطحی نظریہ دے رہے ہیں جو ادب کو فنا کر کے محض صحافت ہی کو ادب منوانے کا ذریعہ ہوگا۔ اس لیے مقدمۂ شعر و شاعری کے اس حصے پر ہر اس شخص کو سخت اعتراض کرنے کی ضرورت ہے جو ادب کو تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتا...
اس طویل اقتباس کو پیش کرنے کا میرا ایک یہ مقصد بھی ہے کہ میں اعصاب زدہ نقاد کی ذہنی کیفیت کا ایک نمونہ بھی بتاتا چلوں۔ ذرا حالی کا ’’مقدمہ‘‘ دیکھیے؛ کیا poise ہے اس کے اسلوب میں، حالاں کہ حالی کو پریشاں خاطر اور کف دردہاں ہونے کے اسباب اور وجوہات کی کمی نہیں تھی۔ اور یہ سب غصہ محض اس بات پر ہے کہ حالی نے ادب اور زندگی اور ادب اور اخلاق کی بات کی ہے۔ ترقی پسند ادب کی تحریک محض حالی کے ایک خیال کا نتیجہ نہیں تھی۔ دنیا کا ایک تہائی حصہ جب فاشزم کے خلاف کمر بستہ ہوا اور ہندوستان کے پچاس کروڑ آدمی آزادی اور سماجی انصاف کے لیے جب بے چین ہوے تو اردو ہی میں نہیں بلکہ تمام ملک کی زبانوں کے ادب میں ایک انقلابی لہر دوڑ گئی، اور لوگ مارکس کے ادبی تصورات پر غور کرنے لگے۔ حالی ہی کیا، ہر بڑا نقاد ادب اور زندگی، اور سماج، ادب اور اخلاق کے مسائل سے الجھتا ہے اور ہر دور میں الجھتا ہے۔ یہ مسائل ایسے نہیں ہیں جنھیں کوئی بھی ایمان دار نقاد نظر انداز کر سکے۔ چوں کہ حالی نے ادب اور زندگی کی بات کی اس لیے ادب کا ستیاناس ہوگیا۔۔۔ ایسا سوچنا ادبی تنقید کو الہامی ارشادات کا مقام دینا ہے۔ ’’مقدمہ‘‘ کا اردو ادب اور اردو تنقید پر گہرا اثر ہوا، لیکن ایسا سوچنا کہ محض ایک تنقیدی کتاب پورے ادب کا مزاج بدل دیتی ہے، ان تمام تاریخی، معاشرتی اور تہذیبی قوتوں کو نظر انداز کرنے کے برابر ہے جو فی الحقیقت ادبی انقلابات کا سبب ہوتی ہیں۔ اگر اقبال کی غزل نتیجہ ہے غزل پر حالی کی تنقید کا، تو مجھے کہنے دیجیے کہ حالی کا ’’مقدمہ‘‘ اعجاز سے کم نہیں۔ حالی کا ’’مقدمہ‘‘ ایک دَور کی ذہنی تبدیلی کی علامت ہے، اور اس نے آنے والے ان ادوار کو بھی متاثر کیا جو متنوع معاشرتی اور تہذیبی قوتوں کے زیرِ اثر نئی تبدیلیوں سے گذر رہے تھے۔ اگر ہمارے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود نہ ہوں جن کی بنا پر ہم یہ ثابت کر سکیں کہ حالی کے فلاں خیال نے فلاں غلط نتائج پیدا کیے، تو پھر ایسی اٹکل قیاس آرائیوں سے ہم حالی کے ساتھ تو ناانصافی کرتے ہی ہیں، لیکن ساتھ ہی خود اپنی حماقتوں اور غیر عقلی رویوں کی نمائش بھی کرتے ہیں۔ حالی نے شاعری کی تاثیر کے متعلق جو مثالیں دی ہیں ان پر بہت جزبز ہونے کی ضرورت نہیں۔ حالی نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ درست ہیں اور جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ بھی غلط نہیں۔ شاعری کی تاثیر کا معاملہ دراصل نفسیات کا معاملہ ہے۔ شعر قاری پر کیا اثر کرتا ہے اور کیسے اثر کرتا ہے، یہ جمالیات اور جمالیاتی نفسیات کا مسئلہ ہے، لیکن شعر قاری کے عمل کو کیسے متاثر کرتا ہے، یہ نفسیات اور اخلاقیات کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے نے بھی افلاطون سے لے کر katharsis کے جدید مفسّروں تک سب کو الجھایا ہے۔ مسئلہ ہمارے زمانے میں، جب کمر شل اور تفریحی ادب کا دور دورہ ہے اور قتل و خون، تشدد، زنا اور برہنگی کو کمر شل ادب ہر طرح اکسپلائٹ کر رہا ہے، زیادہ شدید شکل اختیار کر گیا ہے۔ پیورٹنوں (Puritans) نے انگلستان میں جب ڈراموں کی مخالفت کی تھی اس وقت بھی ڈراما کے اخلاقی عمل پر اثر کا مسئلہ پوری شدت سے موضوعِ بحث رہا تھا۔ حالی محسوس کرتے ہیں کہ شاعری کا اثر جذبات پر، جذبات کے ذریعے ذہن پر اور ذہن کے ذریعے اخلاق پر ضرور ہوتا ہے۔ ایسا سوچنے میں حالی نہ پہلے ہیں نہ آخری۔ افلاطون سے لے کر سرفلپ سڈنی، ڈرائیڈن، جانسن، شیلے، آرنلڈ، الیٹ اور ایمپسن تک کو اس مسئلے نے پریشان کیا ہے۔ ادب اور اخلاق کے مسئلے کو آپ ex-cathedra (ٹاپ بابر) نہیں کر سکتے۔ یہ مسئلہ ادب میں آتا ہی رہا ہے اور ہمیشہ آتا رہے گا؛ اس وقت تک آتار ہے گا جب تک انسان انسان ہے، یعنی ایک اخلاقی وجود ہے۔ یہ سمجھنا کہ حالی نے شاعری کو اخلاقی بنا کر شاعری کی شعریت کو غارت کر دیا، غلط ہے۔ ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے کہ اخلاقی شاعری ’’مقدمہ‘‘ کا نتیجہ ہے۔ قومی، اخلاقی، تعلیمی، وطنی شاعری ہر زبان کے ادب میں مقبول عام لیکن معمولی ادب کے طور پر ہمیشہ جاری وساری رہتی ہے۔ عام لوگوں کو ایسی شاعری میں دلچسپی ہوتی ہے۔ ایسی شاعری کا جمالیاتی معیار بہت بلند نہیں ہوتا۔ ان ہی موضوعات پر بڑا ادب پیدا کرنے کے لیے بڑے شاعرانہ تخیل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اخلاقی شاعری جب تلقینی اور تعلیمی بنتی ہے تو اچھی شاعری نہیں رہتی، لیکن بڑا فن کار جب انسان کے اخلاقی مسائل کو ادب میں برتتا ہے تو شیکسپیئر کے المیے اور دوستو وسکی کے ناول جنم لیتے ہیں۔ شاعری اخلاقیات کو کیسے برتتی ہے اس کی تفصیلات میں حالی نہیں اترے، لیکن حالی اس نکتے سے بے خبر نہیں تھے کہ شاعر معلّمِ اخلاق نہیں ہوتا، اور شاعری اخلاقی تعلیم کا کام اخلاقی کتابوں کی طرح نہیں کرتی۔ وہ کہتے ہیں :
شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن ازروئے انصاف اس کو اخلاق کا نائب مناسب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔
شیلے بھی ادب میں اخلاق کی اہمیت پر زور دیتا ہے، لیکن وہ بھی تعلیمی اور تلقینی شاعری سے متنفر ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شاعری قاری کے تخیل پر اثر انداز ہوکر اس کی اخلاقی تربیت کرتی ہے۔ یہ خیال empathy کے تصور کو جنم دیتا ہے، جو ادبی جمالیات کا ایک اہم تصور ہے، یعنی شاعری ہمارے تخیل کو متاثر کر کے ہماری جذباتی ہمدردیوں کو وسیع کرتی ہے۔ آندرے ژید کا کہنا ہے کہ شاعری انسانی تعصبات کی دیواروں کو توڑتی ہے۔ گویا شاعری ذہن کو کشادہ اور دل کو دردمند بناتی ہے اور آدمی کو حقیر اور اسفل وابستگیوں سے بلند کر کے اس کے ذہن کی ایسی تہذیب کرتی ہے کہ آدمی انسانی زندگی کا تماشا ایک وسیع تناظر میں کر سکتا ہے۔ حالی کے یہاں اس خیال کا بیج ضرور موجود ہے، لیکن وہ اس خیال کا پورا تفحص نہیں کر سکے۔ یہی نہیں بلکہ اسے کچھ ایسے گٹھل طریقے پر پیش کیا ہے کہ ان کے نکتہ چیں ان کے عندیے کو نہ سمجھ سکے اور حالی کے تصور میں انھیں ایک خاص قسم کی سماجی منصوبہ بندی اور اخلاقی پروگرام کا اشارہ نظر آیا۔ حالی کہتے ہیں :
ہر قوم اپنے ذہن کی جودت اور ادراک کی بلندی کے موافق شعر سے اخلاق فاضلہ اکتساب کر سکتی ہے۔ قومی افتخار، قومی عزت، عہد و پیمان کی پابندی، بے دھڑک اپنے تمام عزم پورے کرنے، استقلال کے ساتھ سختیوں کو برداشت کرنا اور ایسے فائدوں پر نگاہ نہ کرنی جو پاک ذریعوں سے حاصل نہ ہوسکیں، یہ سب چیزیں شعر کے ذریعہ سے حاصل ہو سکتی ہیں۔
ہم لوگ اپنے تاریخی تجربات کی بنا پر قومی افتخار اور قومی عزت وغیرہ قسم کے تصورات سے اس قدر برگشتہ خاطر ہوگئے ہیں کہ ادب کا ان سے کوئی سروکار رکھنا پسند ہی نہیں کرتے۔ لیکن حالی کے تجربات اور تصورات ہم سے مختلف تھے۔ حالی نے جن virtues کا ذکر کیا ہے ان کا تعلق کسی code سے نہیں، بلکہ انسان کی پوری اخلاقی شخصیت سے ہے۔ وہ شاعری سے اخلاقی تعلیمات اخذ کرنے کی بات نہیں کرتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ شاعری کے مطالعے سے آدمی کے کردار میں چند ایسی صفات پیدا ہوتی ہیں جو اس کی شخصیت کو زیادہ انسانی اور زیادہ اخلاقی بناتی ہیں۔ حالی ایک ایسے معاشرے کے فرد تھے جو اپنا ایک نظامِ اخلاق رکھتا تھا۔ ان کا ہیومنزم اس نظامِ اخلاق میں رہ کر اپنے معنی پاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں، جبکہ تمام اخلاقی قدریں ایک بحران سے گذر رہی ہیں، ہم ہیومنزم کے مختلف تصورات میں پناہیں تلاش کرتے ہیں۔ گویا ہمارا ہیومنزم مذہبی اخلاقیات کا نعم البدل ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ادب آدمی کو زیادہ human بناتا ہے۔ حالی یہ کہتے تھے کہ وہ آدمی کو زیادہ moral بناتا ہے۔ آرنلڈ اور رچرڈز کا بھی یہ کہنا تھا کہ ادب اور شاعری مذہب کی جگہ لے گی، یعنی تالیفِ قلب، شخصیت کی تربیت اور جذبات کی تہذیب کا جو کام مذاہب کیا کرتے تھے وہ ہمارے زمانے میں شاعری کرے گی۔ الیٹ نے سیاست دانوں کو مشورہ دیا تھا کہ سیاسی کتب پڑھنے سے پیش تر انھیں وہ علمی اور ادبی کتابیں پڑھنا چاہئیں جو انسانی مقدّر کے مسائل کا بیان کرتی ہیںَ گویا شعر و ادب انسانی شخصیت کو نکھارنے اور کردار کو تراشنے کا کام کرتے ہی ہیں۔ ان کا اثر ذہن، جذبات اور احساسات پر دور رس ہوتا ہے۔ ادب کا طالب علم زیادہ انسان دوست، زیادہ دردمند، زیادہ کشادہ ذہن اور اعلیٰ ظرف ہوتا ہے؛ وہ تنگ نظر، کج بحث، جھکی اور جانگلو نہیں ہوتا۔ وہ سیاست بازوں، ترقی کوشوں، حوصلہ مندوں اور مادّہ پرستوں کی طرح حقیر اور مبتذل قدروں کے پیچھے نہیں بھاگتا۔ وہ ایسے فائدوں پر نگاہ نہیں کرتا جو پاک ذریعوں سے حاصل نہ ہوسکیں۔ وہ وطن پرست، قوم پرست، فرقہ پرست، تنگ نظر اور فناٹک (fanatic) نہیں ہوتا۔ آج سائنس دانوں اور ٹیکنیکل علوم کے طالب علموں کے لیے دنیا میں شعر و ادب پڑھایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ ذہنی اور جذباتی طور پر سلجھے ہوئے، مہذب اور شائستہ بنیں۔ حالی نے صرف اتنی بات کہی ہے کہ ادب کا انسانی ذہن اور انسانی کردار پر اثر پڑتا ہے، اور دنیا کا کون سا نقاد ہے جو اس تصور کا انکار کرے گا۔ اگر ادب انسان کے ذہن اور اس کے کردار کو اپنے طور پر بدلتا نہیں تو وہ ادب نہیں، محض ایک نشہ ہے۔ کمر شل اور مقبول عام ادب یہی نشہ پلاتا ہے۔
کہنے کا یہ مطلب ہے کہ ادب اور سماج، ادب اور اخلاق کے متعلق حالی کے جو تصورات رہے ہیں وہ اتنے سطحی، گٹھل اور یک طرفہ نہیں ہیں کہ ہم ان سے سیدھے سادے نتائج اخذ کر سکیں۔ یہ تصورات ایک بڑے نقاد کے تصورات ہیں اور اسی لیے پہلودار ہیں، ہمارے بعد کے نقادوں کی طرح dogmatic اور doctorinal نہیں بنے۔ اگر حالی کے تصورات کو ہمارے معاشرتی نقادوں نے vulgarize کیا تو اس میں قصور حالی کا نہیں۔ حالی نے اگریہ کہا کہ خیال مادّے سے پیدا ہوتا ہے تو انھوں نے مادّیت پرستی کی بنیاد نہیں رکھی، اور نہ ہی صحافتی حقیقت نگاری کے لیے دروازہ کھولا، بلکہ ان کا مقصد تھا کہ ادب کو زیادہ حقیقی اور اصلی بنیادوں پر قائم کیا جائے، تاکہ لوگ شاعری میں محض طوطامینا نہ اڑاتے رہیں۔ ترقی پسند بھی حقیقت جیسی ہے ویسی پیش نہیں کرتے بلکہ اپنے انقلابی مقصد کے زیر اثر اس کی صورت مسخ کرتے ہیں اور سرمایہ دار کو شیطان اور مزدور کو فرشتہ بنا کر پیش کرتے ہیں، اور اس طرح گویا وہ حقیقت کی دنیا نہیں بلکہ اپنے خیالات اور آدرشوں کی دنیا میں جیتے ہیں۔ ان کے ادب میں بھی حقیقت خیال سے پیدا ہوتی ہے کیوں کہ آدرش واد بہر حال خیال کی سطح پر جینے کا عمل ہے۔ ایک نظر سے دیکھیے تو ترقی پسندوں نے بھی خیالات اور آدرشوں کے طوطا مینا ہی اڑائے ہیں۔ اور ان کے ادب میں بھی کوئی واقعیت اور اصلیت نہیں۔ یوٹوپیائی خواب بھی فنٹاسی کا ادب پیدا کرتے ہیں اور فنٹاسی میں جینے والا آدمی اپنے حقیقی گردوپیش کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ ترقی پسندوں کو حالی کا جملہ کہ خیال مادّے سے پیدا ہوتا ہے، پسند تو بہت آیا لیکن ان کا عمل حالی کے سبق سے معکوس ہی رہا۔ یہ حالی کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ انھیں دوست اور دشمن دونوں ہی نادان ملے۔ سب حالی کے یہاں اپنے معنی تلاش کرتے ہیں، کوئی حالی کی بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ترقی پسندوں کے آدرش وادی اور سماجی ادب کے تصورات کا ان تصورات سے کچھ لینا دینا نہیں جو حالی کے تصورات رہے ہیں۔ حالی اور ترقی پسندوں میں وہی فرق ہے جو ایک کٹھ ملا اور پیغمبر میں ہوتا ہے۔ پیغمبر کا سروکار انسان کے روحانی، اخلاقی، جذباتی اور سماجی مسائل سے ہوتا ہے جب کہ کٹھ ملا کے یہاں یہ تمام مسائل سمٹ سمٹا کر استنجے اور حیض و نفاس کے مسائل بن جاتے ہیں۔ حالی کے یہاں ہر بڑے نقاد کی طرح ادب اور اخلاق کا مسئلہ کوئی آسان حل تلاش نہیں کرتا، کیونکہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل ہے بھی نہیں، جبکہ ترقی پسند ہر مسئلے کی طرح اس مسئلے کا بھی آسان حل تلاش کرتے ہیں اور ادب کو سیدھا سادا پروپیگنڈا بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ کٹھ ملالحیم شحیم، توانا اور تندرست ہوتا ہے، کیوں کہ ہر قسم کی اخلاقی کشمکش سے دور ہوتا ہے۔ اس کا دل رزمِ خیر و شر کا میدان نہیں ہوتا بلکہ وہ گول گنبد ہوتا ہے جس میں ہُو حق کی آواز گونجا کرتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ سر پر ٹوپی پہن کر کھانے سے فرشتے خوش ہوتے ہیں اور بیٹھ کر پیشاب کرنے سے شیطان دور رہتا ہے۔ زندگی ایسے سیدھے سادے بندھے ٹکے راستے پر لڑھکتی ہوئی چلی جائے تو اخلاقی کش مکش کا بھوت خون چوس چوس کر آدمی کو دُبلا نہیں کرتا۔ ترقی پسندوں کا ادب بھی ان ہی معنوں میں موٹا ہے؛ لحیم شحیم بھی ہے، اور صحت مند بھی۔ بھلا جس سماج میں سیاہ اور سفید کی تقسیم اتنی واضح ہو وہاں اخلاقی کشمکش کے معنی ہی کیا رہتے ہیں! بس ٹوپی پہن کر مزدور کا نام لیجیے اور بیٹھ کر سرمایہ دار کے نام پر پیشاب کیجیے؛ مختصر یہ کہ اخلاقی کشمکش کو طبقاتی کشمکش میں بدل دیجیے اور پھر دیکھیے کہ ادب مولوی کی طرح کیسا صحت مند ہوتا ہے۔ مولوی لوگوں کے بارے میں صرف اتنا جانتا ہے کہ جو لوگ اس کی امامت میں نماز پڑھ رہے ہیں وہ جنت کی تیاری کر رہے ہیں اور جو نماز نہیں پڑھتے وہ شیطان کے ورغلائے ہوئے ہیں۔ ترقی پسند بھی انقلابیوں کے امام ہیں جو جنت ارضی قائم کرنا چاہتے ہیں، اور جو ان کے ساتھ نہیں انھیں سرمایہ داروں کے ورغلائے ہوئے اور سامراج کے ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ مولوی ہی کی طرح ترقی پسند بھی یہی دیکھتے ہیں کہ مارکسی آئیڈیولوجی کے حوض سے شاعر برابر وضو کر رہا ہے یا نہیں، ناک میں پانی لے رہا ہے یا نہیں، مسح ٹھیک سے کر رہا ہے یا نہیں؛ اگر کان کی لویں کوری رہ جاتی ہیں تو وہ شاعر کے کان اینٹھتے ہیں کہ گو شاعر باجماعت نماز پڑھ رہا ہے لیکن اس کا وضو ٹھیک نہیں بنا۔ مولوی کے لیے کشمکش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ پابندِ شرع ہوتا ہے، حلال کام کرتا ہے، حرام سے دور رہتا ہے۔ کوئی متنازعہ فیہ مسئلہ پیدا بھی ہوا تو دار الفتاویٰ موجود ہے۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین تحلیلِ نفسی کے مسئلے کے بیچ؟ کیا فرائڈ کافر ہے، الیٹ زندیق ہے، منٹو مرتد ہے؟ فسادات پر لکھتے وقت ترازو ہاتھ میں ہونی چاہیے یا نہیں؟ عورتوں کے ہاتھ میں جھنڈا نہ ہو تو ان پر کس قسم کی شاعری کرنی چاہیے؟ غزل گویوں کو جنت نصیب ہوگی یا نہیں؟ کیا اہلِ ایمان خیّام اور حافظ کا مطالعہ کر سکتے ہیں؟ کیا بودلیر، الیٹ، لارنس، میراجی منٹو جیسے مرتدوں کی کتابیں مسجد کی لائبریری میں ہونی چاہییں یا نہیں؟ آپ سمجھتے ہیں کہ میں مذاق کر رہا ہوں؟ آپ ترقی پسند تنقید پڑھیے، آپ کو پتا چل جائے گا کہ میری باتوں میں کتنا مذاق ہے۔
حالی اور ترقی پسند ادیبوں میں ایک بھی چیز مشترک نہیں۔ ترقی پسند نقاد کی شخصیت بنیادی طور پر ایک فناٹک آدمی کی obsessive شخصیت ہے، جب کہ حالی کی شخصیت میں وہ کشادگی اور رچاؤ ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آدمی روایت اور بغاوت، قدیم اور جدید، خیر اور شر کی اندرونی کشمکش سے گذر کر، اور اپنے لیے اہم اخلاقی فیصلے کر کے، خود کو مسلسل بدلتا رہتا ہے۔ مذہب، سیاست، سماج اور ادب کے متعلق حالی نے جو فیصلے کئے وہ خود ان کے اپنے تھے؛ اسی لیے ادب میں ان کی شخصیت اپنی ایک دلربا انفرادیت رکھتی ہے۔ وہ کسی دوسرے شخص کی پرچھائیں اور عکس نہیں ہیں۔ سر سید سے اتنے زبردست لگاؤ کے باوجود، حالی نے اَور تو اَور خود سیاست میں اپنی ڈگر آپ بنائی۔ جذبی کے مقالے کا thesis ہی یہ ہے کہ حالی کا سیاسی شعور محض سر سید کی پرچھائیں نہیں بلکہ سیاست میں ان کے اپنے کچھ مسائل تھے جنھیں انھوں نے اپنے طور پر حل کیا، اور اس طرح اس سیاسی نظر کو پیدا کیا جو خود ان کی تھی۔ حالی سمٹی سکڑی شخصیت کے مالک نہیں تھے کہ کسی ایک چیز کے ہورہتے۔ ایک عظیم شخصیت کی مانند وہ زندگی کے ہر شعبے پر چھائے ہوئے تھے۔ ان کی ذات مذہب، سیاست، ادب، سماج، تہذیب، ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اور زندگی کے ان تمام شعبوں میں وہ نہایت انکسار اور نرم مزاجی سے، بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے، سرگرمِ عمل رہے۔ ایک نہایت ہی حوصلہ شکن اور تاریک دور میں وہ اپنی قوم اور اپنی تہذیب کے بکھرے اجزا کو سمیٹتے رہے؛ ٹوٹتی ہوئی روایتوں کو سنبھالتے ہوئے، نئی قدروں کا چیلنج قبول کرتے رہے۔ جب آدمی حالات کے مقابلے پر کمر بستہ ہوتا ہے، سرکتی ہوئی زمین پر قدم جمانے کی کوشش کرتا ہے، طوفانِ حوادث میں اپنے ہوش وحواس برقرار رکھتا ہے، اور ایک قیامت خیز عبوری دور میں کچھ چیزوں کو بچانے اور کچھ چیزوں کو اپنانے کے لیے چند اہم اخلاقی فیصلے کرتا ہے، تب کہیں جاکر اس کی شخصیت میں وہ کلاسیکی حسن پیدا ہوتا ہے جو حالی کی شخصیت کو آج بھی ہمارے لیے اتنا دلنواز بنائے ہوئے ہے۔ اگر ایک خندہ جبیں صوفی کا جانشیں ایک تند خو ملّاے مکتب بن سکتا ہے تو ترقی پسند نقاد حالی کے جانشین ہیں۔ حالی کی نثر ان کی شگفتہ طبیعت کی آئینہ دار ہے۔ ایک متین، شائستہ، شریف لیکن شرمیلے آدمی کی ظرافت ان کے اسلوب کے رخساروں کو چمکاتی ہے۔ ترقی پسند نقاد حسنِ مزاح سے یکسر محروم ہیں۔ مجاہد خندہ بہ لب نہیں ہوتا، کف در دہاں ہوتا ہے۔ اس کے چہرے پر نرمی اور ملائمت نہیں ہوتی، خشم ناکی اور شعلہ باری ہوتی ہے۔ کٹھ ملّا جب ہنستا ہے تو لوگ اس کی ہنسی میں شامل نہیں ہوتے بلکہ سہم جاتے ہیں۔ کٹھ ملّا کی ظرافت اس وقت جاگتی ہے جب وہ دوسرے مذاہب کے خداؤں کا مذاق اڑاتا ہے۔ وہ ان کے منھ پر سیاہی ملتا ہے اور ہنستا ہے۔ یہ ہنسی بڑی سفاک ہوتی ہے، اسی لیے لوگ سہم جاتے ہیں۔ یہ ہنسی اس کے اندرونی تشدد کی غماز ہوتی ہے۔ ترقی پسند نقاد بھی اُس وقت ہنستے ہیں جب وہ رجعت پسند فنکاروں کے منھ پر کالک پھیرتے ہیں، اور یہ ہنسی خوش طبعی کی ہنسی نہیں ہوتی؛ یہ ہنسی اس آدمی کی ہنسی ہوتی ہے جس نے اپنے عقائد کے ہاتھوں اپنی حسِ مزاح کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ حالی کے ایک نکتہ چیں کا کہنا ہے کہ جس قسم کی اخلاقی شخصیت انھوں نے اپنی بنائی اس کے بعد ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ غالب جیسے رند مشرب کی شاعری کی تنقید لکھتے، لہذا ان کی تنقید غالب کے شعروں کی محض تفسیر بن کر رہ گئی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ غالب پر اردو میں تنقیدی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ذاتی طور پر میرا خیال یہ ہے کہ اردو میں غالب پر صرف دو اچھے تنقیدی مضامین لکھے گئے: ایک آفتاب احمد کا مضمون ’’غالب کا غم‘‘ اور دوسرا حمید احمد خان کا مضمون ’’غالب کی شاعری میں حسن و عشق‘‘۔ غالب پر حالی نے جو کچھ لکھا ہے وہ آج بھی غالب پر لکھی گئی بہترین نگارشات میں شمار ہوتا ہے۔ ایک رند مشرب کی شخصیت کو حالی نے جس خوش طبعی سے پیش کیا ہے، وہ ان کے مزاج کی کشادگی کا ثبوت ہے۔ تفسیری تفسیر حالی کو پسند تھی، کیوں کہ حالی کے زمانے میں فن پارے کو چیرنے پھاڑنے والے پروفیسر نقاد ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ حالی شعر کی تفسیر کے ذریعے شعر کے حسنِ معنی اور حسنِ صورت کو نمایاں کرتے تھے، اور مجھے کہنے دیجیے کہ اس میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے ’’تفہیمِ غالب‘‘ کے عنوان سے ’’شب خون‘‘ میں غالب کے شعروں کی جو تنقیدی شرحیں پیش کی ہیں وہ حالی ہی کی روایت کو آگے بڑھاتی ہیں۔ حالی کا مقصد یہ تھا کہ غالب کے اشعار کی شاعرانہ خوبیوں کو اس طرح سے بیان کیا جائے کہ قاری شعر کی معنوی اور صوری خوبیوں سے واقف ہوکر شعر سے لطف اندوز ہونے کا اہل بنے، اور حالی کی تنقید یہی کام کرتی ہے۔ جدید ہیئتی تنقید آخر تفسیری تنقید کی ترقی یافتہ شکل نہیں تو اَور کیا ہے؟ فن پارے کو ایک اکائی کے طور پر قبول کرنا اور ایک اکائی کے طور پر پیش کرنا ہیئتی تنقید کا بنیادی اصول ہے۔ ہیئتی تنقید پر بھی تو یہی اعتراض کیا جاتا ہے کہ نقاد فن پارے کی قدروقیمت متعین نہیں کر سکتا، کیوں کہ تعریف کی سطح سے فوراً قدر کی سطح میں قدم رکھنا ممکن نہیں۔ یہی نقص تاثراتی تنقید کا ہے۔ شاید تنقید کی ان قسموں کے لیے نقص کا لفظ بہت مناسب نہیں؛ شاید یہ انکی حدود ہیں۔ حالی کی تفسیری تنقید کی بھی چند حدود ہیں، لیکن حالی ان حدود میں ایک کامیاب نقاد ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ حالی evaluative تنقید کے اصولوں سے واقف نہیں۔ آخر ’’مقدمہ‘‘ کے دوسرے حصے کی اہمیت تو یہی ہے (اور سبھی نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ دوسرا حصہ پہلے سے بہتر ہے) کہ اس میں انھوں نے پوری اردو شاعری کا کچا چٹھا دکھا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن غالب پر لکھتے وقت ان کے پیش نظر جو مقصد تھا وہ evaluation سے زیادہ appreciation کا تھا۔ آخر غالب اتنا عظیم شاعر تھا اور حالی غالب کے اتنے قریب تھے کہ ان سے پہلی قسم کی تنقید کی توقع رکھنا بھی ہماری زیادتی ہے، خصوصاً اس وقت جب کہ ہم تاحال غالب پر اس قسم کی تنقید کا کوئی قابلِ قدر نمونہ پیش نہیں کر سکے۔ لہٰذا یہ بات صریحاً بے بنیاد ہے کہ حالی کی اخلاقی شخصیت غالب پر اچھی تنقید لکھنے میں مانع ہوئی۔ آدمی جب ایک اخلاقی اور روحانی شخصیت بنتا ہے تو ادب کی طرف اس کے رویے میں کس قسم کی تبدیلی آتی ہے، اس کی عبرت ناک مثال ٹالسٹائی میں ملتی ہے۔ ٹالسٹائی کا مضمون ’’آرٹ کیا ہے‘‘ افلاطون کے بعد دوسرا اہم مضمون ہے جو خالص اخلاقی بنیادوں پر ادب، شاعری اور آرٹ کو کلّی اور حتمی طور پر مسترد کرتا ہے۔ حالی کا مقصد ادب اور شاعری کا اخلاقی بنیادوں پر استرداد نہیں بلکہ ان کی تعمیرِ نو ہے۔ ارے حالی غزل اور مثنوی تو ٹھیک، قصیدے تک کی شاعری کو قبول کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ غزل کو پسند کرتے ہیں بلکہ خود ایک اچھے غزل گو شاعر ہیں؛ البتہ غزل کے ابتذال اور انحطاط کو دور کر کے اسے زیادہ وسعت اور نگارنگی بخشنا چاہتے ہیں۔ یہ بات بھی حالی کے نکتہ چینوں کو پسند نہ آئی؛ وہ سمجھے کہ حالی غزل میں عشقیہ مضامین کی مخالفت کرتے ہیں اور غزل میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی مضامین کی شمولیت کے حامی ہیں۔ حالی کا مقصد جو بھی رہا ہو، اقبال کی غزلوں نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ غزل کو پھیلایا جا سکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اردو غزل میں جو جدید انحراف شروع ہوا ہے، اس نے غزل کے معنی اور موضوع کو اتنا تو پھیلایا ہے کہ غزلِ گرد وپیش کی پوری زندگی کی آئینہ دار بن گئی ہے۔ جدید غزل کو کسی بھی معنی میں آپ عشقیہ غزل نہیں کہہ سکتے۔ جدید غزل حالی کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہے؟ حالی کو جدید شاعروں کا امام ثابت کرنے کے شواہد بھی ان کی تنقید میں اتنے ہی ہیں جتنے انھیں ترقی پسندوں کا امام ثابت کرنے کے۔ لیکن تنقید میں دستارِ امامت باندھنے کا یہ رویہ ہی بنیادی طور پر غلط ہے۔ حالی کی تمام باتوں کو ایک دوسرے کے سیاق و سباق، اردو شاعری اور ان کے زمانے کے تہذیبی حالات کے حوالے ہی سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حالی ادب میں اخلاق یا سماج کی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب ہرگز وہ نہیں ہوتا جو ان کے نکتہ چیں اور ترقی پسند مدّاح سمجھتے ہیں۔ ادب کی اخلاقی اور سماجی اہمیت کی بات کر کے وہ ترقی پسندوں کو ہرگز وہ لائسنس نہیں دیتے جس کے تحت انھوں نے ادب کو نہ اخلاقی بنایا نہ سماجی بلکہ پروپیگنڈا لٹریچر بنا کر رکھ دیا۔ حالی کا ادب کا تصور اتنا وسیع تھا کہ ترقی پسند اس کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ ترقی پسند صرف سماجی، سیاسی اور انقلابی ادب کے پرستار تھے۔ ادب انسان کی روحانی، اخلاقی اور جذباتی زندگی کا بھی ترجمان ہو سکتا ہے، یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر تھی؛ اس لیے نفسیاتی، جنسی اور متصوفانہ ادب کو وہ مشکوک نظر سے دیکھتے رہے۔ ان کے نزدیک انسان کے تمام مسائل گویا سیاسی مسائل تھے، اور اگر ایک مرتبہ طبقاتی نظام ختم ہوجائے تو انسان کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا، بس جنتِ ارضی میں بیٹھا سکھ کی بانسری بجایا کرے گا۔ ان کے نزدیک انسان کی تمام جذباتی الجھنیں، نفسیاتی خرابیاں اور روحانی مسائل بورژوا طبقے کے پیدا کردہ ہیں، اور بورژوا طبقہ ختم ہوگیا تو یہ مسائل بھی نہ رہیں گے۔ اس سلسلے میں ملاحظہ فرمائیے فرائڈ کی طرف ترقی پسندوں کا عام رویہ، خصوصاً تحلیلِ نفسی پر ممتاز حسین کے مضامین۔ اب رہے انسان کے روحانی مسائل تو مذہب کو تو مار کس نے افیون کہہ کر معاملہ صاف کر دیا۔ لیکن ترقی پسندوں کا مسئلہ اس سے حل نہیں ہوا، کیوں کہ ان کے لیے مشکل یہ آن پڑی کہ اردو اور خصوصاً فارسی کی صوفیانہ شاعری کا کیا علاج کیا جائے؛ چنانچہ ماضی کے ادب العالیہ اور حافظؔ اور خیامؔ کی شاعری پر ان کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوگیا۔ ان سرکش باغیوں کا آپس میں اختلاف رائے بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ مناظرہ باز مولویوں کی طرح پوری بحث اس احتیاط سے کرتے ہیں کہ چاہے حافظ و خیّام غارت ہوجائیں لیکن مارکسی شریعت کو آنچ نہ آنے پائے۔ مولویوں ہی کی طرح ان کا مسئلہ بھی یہی تھا کہ صوفی شاعروں کو کتنا مسلمان یا ترقی پسند سمجھا جائے۔ چنانچہ انھوں نے ان کی انسان دوستی پر زور دیا؛ خدا چوں کہ ان کے کام کی چیز نہیں تھا لہٰذا اسے بالکل نظر انداز کر دیا۔ یعنی جو چیز صوفی کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے وہ ان کے لیے بالکل غیر اہم ٹھہری، اور صوفی کی انسان دوستی، جو اس کی خدا دوستی کا by-product ہے وہ اہم ٹھہری۔ سجاد ظہیر کی کتابوں میں حافظ کی جو تصویر ابھرتی ہے اس میں صرف ایک بند گلے کے کوٹ کی کمی ہے۔ ترقی پسندوں نے صوفیوں تک کو کمیشار بنا کر چھوڑا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حافظ نے اس کے زمانے میں لگ بھگ وہی کام کیا ہے جو ہمارے زمانے میں ٹریڈ یونین لیڈر کیا کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ترقی پسندوں کی بارگاہ میں سوائے ان کے ہم مذہبوں کے کسی اَور کا گذر نہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان کی تنقیدوں میں دنیا کے بڑے فن کاروں کا ذکر تک نہیں ملتا۔ ترقی پسندوں کی آدرشی زندگی اس جنون کو پہنچی ہوئی تھی کہ وہ دوستو وسکی، لارنس، الیٹ، منٹو اور میراجی پر لعنت بھیجتے تھے اور مرزا ترسوں زادہ اور ناظم حکمت کے نام کی مالا جپتے تھے۔ یہ ترقی پسند تھے، حالی نہیں، جن کا ادب کا تصور اتنا محدود ہوگیا تھا کہ سوائے ایک خیال، ایک ڈاکٹرائن (doctrine) ایک ڈاگما (dogma) کے کھلے پرچار کے ان کے نزدیک کوئی چیز ادب کہلانے کی مستحق نہیں رہی تھی۔ یہ طویل پیراگراف جو حالی کے ’’مقدمہ‘‘ سے لیا گیا ہے، ذرا غور سے پڑھیے :
صدرِ اسلام کی شاعری میں، جب تک غلامانہ تملّق اور خوشامد نے اس میں راہ نہیں پائی، تمام سچے جوش اور ولولے موجود تھے۔ جو لوگ مدح کے مستحق ہوتے تھے ان کی مدح اور جو ذم کے مستحق ہوتے تھے ان کی مذمت کی جاتی تھی۔ جب کوئی منصف اور نیک خلیفہ یا وزیر مرجاتا تھا، اس کے دردناک مرثیے لکھے جاتے تھے اور ظالموں کی مذمت ان کی زندگی میں کی جاتی تھی۔ خلفا و سلاطین کی مہمّات اور فتوحات میں جو بڑے بڑے واقعات پیش آئے تھے، ان کا قصائد میں ذکر کیا جاتا تھا۔ احباب کی صحبتیں جو انقلابِ روزگار سے برہم ہوجاتی تھیں، ان پر دردناک اشعار لکھے جاتے تھے۔ پارسا بیویاں شوہروں کے اور شوہر بیویوں کے فراق میں درد انگیز شعر انشا کرتے تھے۔ چراگاہوں، چشموں اور وادیوں کی، گزشتہ صحبتوں اور جمگھٹوں کی ہوبہو تصویر کھینچتے تھے۔ اپنی اونٹنیوں کی جفاکشی اور تیزرفتاری، گھوڑوں کی رفاقت اور وفاداری کا بیان کرتے تھے۔ بڑھاپے کی مصیبتیں، جوانی کے عیش اور بچپن کی بے فکریاں ذکر کرتے تھے۔ اپنے بچوں کی جدائی اور ان کے دیکھنے کی آرزو حالتِ غربت میں لکھتے تھے۔ اہلِ وطن کی، دوستوں کی اور ہم عصروں کی سچی تعریفیں اور ان کے مرنے پر مرثیے کہتے تھے۔ اپنی سرگذشت، واقعی تکلیفیں اور خوشیاں بیان کرتے تھے۔ سفر کی محنتیں اور مشقتیں جو خود ان پر گذرتی تھیں بیان کرتے تھے۔ عالمِ سفر کے مقامات اور مواضع، شہر اور قریے، ندیاں اور چشمے سب نام بہ نام جو بری یا بھلی کیفیتیں وہاں پیش آئی تھیں، ان کو مؤثر طریقے پر ادا کرتے تھے۔ بیوی اور بچوں یا دوستوں سے وداع ہونے کی حالت دکھاتے تھے۔ اسی طرح تمام نیچرل جذبات جو ایک جوشیلے شاعر کے دل میں پیدا ہوسکتے ہیں، سب ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔
اس پیراگراف سے پتا چلتا ہے کہ عربی شاعری کا range کیا تھا..... اور صاف بات ہے کہ حالی کو شاعری کی یہ آفاقی وسعت پسند ہے۔ پوری کائنات مل کر مواد بہم پہنچاتی ہے۔ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ مواد کی نوعیت میں فرق آتا ہے۔ اونٹ اور گھوڑوں کی جگہ گاڑیاں اور موٹریں لے لیتی ہیں، اور سفر کی مشقتوں کی بجائے سفر کی راحتوں کا بیان ہونے لگتا ہے، لیکن شاعری کے range میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ترقی پسند شاعری کا range محدود ہے، اسی لیے ترقی پسند نقاد موضوع کی اہمیت کا ذکر کرتے ہیں، تنوع کا نہیں۔ حالی ادب میں رنگارنگی اور تنوع کے دل دادہ تھے۔ وہ بہ یک وقت سعدی، غالب اور سرسید پر قلم اٹھاتے تھے؛ غالب کا مرثیہ بھی لکھتے تھے، بیوہ کی مناجات بھی، برکھا رُت کا بیان بھی، عشقیہ غزلیں بھی اور مدو جزرِ اسلام بھی۔ ابھی آپ اس بحث میں نہ پڑیے کہ یہ شاعری بڑی ہے یا نہیں۔ بیوہ کی مناجات کی تعریف حسن عسکری نے کی ہے؛ غزلوں کی تعریف عسکری، مجنوں گورکھ پوری اور دوسرے سبھی نقادوں نے کی ہے؛ مسدّس کی تعریف میں خود فراق رطب اللسان ہیں، اور غالب پر مرثیے کی تعریف کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ اردو ادب کا شاہکار ہے۔ ترقی پسند نقاد شاعری کا جب بھی ذکر کرتے ہیں تو طبقاتی کشمکش، پیداواری رشتوں اور اشتراکی نظام کے لیے مزدوروں کی انقلابی جدوجہد سے آگے نہیں بڑھتے۔ جس روز وہ اوپر دیے ہوئے حالی کے اقتباس جیسے پانچ جملے لکھنے کے اہل بنیں گے، اس روز سے ان پر ایک ادبی نقاد کے طور پر بھی غور کیا جاسکے گا۔
’’مقدمہ‘‘ میں مرثیے پر حالی کی تنقید کی فنی اور اخلاقی کشمکش کی بڑی اچھی آئینہ داری کرتی ہے۔ بھلا مرثیے سے بڑھ کر اخلاقی شاعری اور کیا ہوسکتی تھی ؟ ایک تو موضوع بہ ذات خود اخلاقی، دوسرے مرثیے کو انیس اور دبیر جیسے شاعر ملے جن کی قدرتِ زبان اور رفعتِ تخیّل میں کسی کو کلام نہیں۔ حالی نے مرثیے کے موضوع اور مواد یعنی واقعاتِ کربلا کی ایک طویل لیکن نہایت ہی اثر انگیز تصویر پیش کی ہے جس سے ان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مرثیے کا موضوع اور مواد اخلاقِ حسنہ کے کیسے نادر نمونے پیش کرتا ہے۔ اس کے باوجود شاعروں کو مرثیے کی صنف سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس کی انھوں نے تین وجوہات بیان کی ہیں۔
ایک تو یہ کہ اس کی کوئی امید نہیں کہ اس خاص طرز میں اب کوئی شخص انیس ودبیر اور مرثیہ گویوں کا ساکمال حاصل کرسکے۔ دوسرے یہ کہ مرثیے میں رزم وبزم اور شحر وخودستائی اور سراپا وغیرہ کو داخل کرنا، لمبی لمبی تمہیدیں اور توطئے باندھنے، گھوڑے اور تلوار وغیرہ کی تعریف میں نازک خیالیاں اور بلند پروازیاں کرنی اور شاعرانہ ہنر دکھانے مرثیہ کے موضوع کے بالکل خلاف ہیں۔ تیسرے مرثیے کو صرف واقعۂ کربلا کے ساتھ مخصوص کرنا اور تمام عمر اسی ایک مضمون کو دہراتے رہنا اگر محض بہ نیت حصول ثواب ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ لیکن شاعری کے فرائض اس سے زیادہ وسیع ہونے چاہییں۔
ان تین وجوہات پر آپ ذرا گہرائی سے غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ خالص فن کارانہ ہیں۔ پہلی وجہ شاعر کو اپنے پیش رو شعرا کے ایسے اتّباع سے باز رکھتی ہے جس میں نقّالی کے طبع زاد جوہر پر غالب آنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ حالی غیر شعوری طور پر محسوس کرتے ہیں کہ مرثیے کا فارم چند ایسی روایتوں کا مجموعہ بن گیا ہے اور ان روایتوں کو مرثیہ گو شعرا نے اتنی شدت سے برتا ہے کہ مرثیہ ایک فارم نہیں رہا بلکہ فارمولا بن گیا ہے ؛اور شاعر اس فارمولے میں قید ہوکر بڑی شاعری کے امکانات خود پر ختم کر دیتا ہے۔ بڑا شاعر اپنے موضوع کے لیے جو فارم ایجاد کرتا ہے اسے اتنی بلندی پر پہنچا دیتا ہے اور اسے اتنی شدت سے استعمال کرتا ہے کہ دوسرے شاعروں کے لیے اس فارم میں اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنے کی گنجائش نہیں رہتی، چناں چہ وہ اپنا فارم ایجاد کرتے ہیں۔ ادنیٰ درجے کے شاعر بڑے شاعر کے فارم سے ایک فارمولا بنا لیتے اور پھر اس میں طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں مَیں فارم کو صنفِ سخن کے معنی میں استعمال نہیں کر رہا اور نہ ہی حالی استعمال کرتے ہیں۔ گھوڑے اور تلوار کی تعریف، نازک خیالیوں اور بلند پروازیوں کے ذکر ہی سے پتا چلتا ہے کہ حالی مرثیے کی structural خصوصیات سے زیادہ formalistic خصوصیات کا ذکر کر رہے ہیں۔ معمولی درجے کے شاعروں میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ کسی فارم میں ترمیم واضافہ کر کے اسے اپنائیں۔ وہ اجتہاد کی بجائے تقلید سے کام لیتے ہیں، اور حالی کی پوری جنگ تقلیدی رویے کے خلاف ہے۔ جسے ہم مقبولِ عام ادب اور کمرشل لٹریچر کہتے ہیں وہ بڑے ادب کے فارم سے چند خصوصیات کو اپناتا ہے اور اسے فارمولے کی شکل دے دیتا ہے۔ اس طرح وہ گویا بڑے ادب کی ہیئتی اور موضوعی خصوصیات کو vulgarizeکرتا ہے۔ المیہ ڈراموں میں سنسنی خیزی کے عناصر کچھ کم نہیں ہوتے، لیکن المیہ سنسنی خیز ڈرامہ نہیں ہے؛ جب کہ مقبولِ عام ادب اور فلمیں المیہ ڈراموں سے چند خصوصیات لے کر انھیں میلوڈرامیٹک اور سنسنی خیز بنا کر پیش کرتی ہیں اور اس طرح ایک کلاسیکی فارم کو عامیانہ بنا کر اسے فارمولے میں بدل دیتی ہے۔ حالی کے یہاں یہ بات وضاحت سے بیان نہیں ہوئی، لیکن ان کی دور رس نظروں سے یہ نکتہ پوشیدہ نہیں رہا کہ مرثیہ اپنے فارم میں چند ایسے عناصر کو جگہ دے چکا ہے جو اعلیٰ فنکاری کی راہ میں مانع ہیں۔ اور یہ عناصر مرثیے کے فارم کی ایسی جامد روایتیں بن چکے ہیں جو شاعر کی اخلاقی کا گلا روندھ دیتی ہیں۔ ان کی تیسری وجہ ادب اور شاعری کے میدان میں مقدس ارادوں (pious intensions) کے رویے پر بھرپوروار ہے۔ ادب میں کوئی کام حصولِ ثواب کی نیت سے نہیں کیا جاتا۔ اتنے زبرست مذہبی آدمی ہونے کے باوجود حالی تمام شاعری اور ادب تو کیا، اس کی ایک صنف تک کو محض واقعاتِ کربلا تک محدود کرنے کے روادار نہیں تھے۔ یہ میر انیس کا المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ قدرت نے انھیں اتنی زبردست تخلیقی صلاحیت دی تھی اور ایک مذہبی جذبے کے زیرِ اثر انھوں نے اپنی پوری صلاحیت ایک ایسے فارم پر برباد کی جو موضوعی اور ہیئتی اعتبار سے اتنا محدود تھا کہ مجالسِ عزا کے باہر نہ اس کی کوئی جمالیاتی قدر تھی نہ ادبی اہمیت۔ مرثیے کے ساتھ ساتھ میر انیس بھی ختم ہوگئے اور اب وہ صبح کے مناظر اور دھوپ کی شدّت کے ٹکڑوں میں درسی کتابوں میں نظر آتے ہیں۔ اتنا خلّاق ذہن اور ہمارے لیے محض بند کتاب ہے۔ شاعری کی جولاں گاہ تو پوری انسانی زندگی ہے۔ الیٹ نے بھی مذہبی شاعری کو اسی لیے چھوٹی شاعری کہا ہے کہ وہ انسانی زندگی کے گوناگوں پہلوؤں سے مسائل کا احاطہ نہیں کرتی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شاعری کا مذہب سے سروکار نہیں ہوتا۔ الیٹ کے لیے مذہب کی کیا اہمیت تھی، اس سے ہم بے خبر نہیں۔ الیٹ کا تو پورا ذہنی رویہ مذہبی ہے، اور اس کی شاعری انسان کے روحانی مسائل ہی کا بیان کرتی ہے۔ مذہبی شاعری اَور چیز ہے، ایک عنصری قوت کے طور پر شاعری میں مذہبی اور روحانی تجربے کا استعمال دوسری چیز ہے۔ حالی جب یہ کہتے ہیں کہ شاعری کے فرائض زیادہ وسیع ہیں تو ان کی بات کے یہ معنی نہ لیے جائیں کہ وہ مذہب کی جگہ قوم کو رکھنا چاہتے ہیں، اور اس طرح ایک نہیں تو دوسری طرح شاعری کی تحدید کرتے ہیں۔ حالی اس ضمن میں آگے چل کر لکھتے ہیں :
پس شاعر جو قوم کی زبان ہوتا ہے، اس کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ جب کسی موت سے اس کے یا اس کے قوم اور خاندان کے دل کو فی الواقعہ صدمہ پہنچے، اس کیفیت یا حالت کو جہاں تک ممکن ہو درد اور سوز کے ساتھ شعر کے لباس میں جلوہ گر کرے۔
مرثیے کو یہاں حالی ذاتی اور قومی غم کی سطح پر رکھ کر دیکھ رہے ہیں۔ غم کی کیفیت یا حالت کو درد اور سوز کے ساتھ بیان کرنے کی بات میں شخصی، داخلی اور غنائی شاعری کے جو امکانات پوشیدہ ہیں ان کا مقابلہ اس شاعری سے کیجیے جو گھوڑے اور تلوار کی تعریف میں نازک خیالیاں اور بلند پروازیاں کرتی ہے۔ حالی کا رچا ہوا مذاقِ سخن یہ بات گوارا نہیں کرتا تھا کہ :
کوئی شخص اپنے باپ یا بھائی کے مرنے پر اظہارِ حزن و ملال کے لیے سوچ سوچ کر رنگین اور مسجّع فقرے انشا کرے اور بہ جائے حزن و ملال کے اپنی فصاحت وبلاغت کا اظہار کرے۔
یہاں پر ان کا جملہ براہِ راست اس صنعت گری پر ہے جو آرٹ کی بے ساختگی اور برجستگی کو سوچی سمجھی منصوبہ بندی پر قربان کر دیتا ہے۔ کیٹس نے جسے آرٹ کی palphable design کہا ہے اور جس کی موجودگی سے شاعری میں تعلیمی اور تلقینی عناصر پیدا ہوتے ہیں، اس کا تریاق اگر حالی کے ان جملوں میں نہیں تو اور کہاں ہے :
ہم یہ نہیں کہتے کہ مرثیہ کی ترتیب میں مطلق فکر و غور کرنا اور صنعت شاعری سے بالکل کام لینا نہیں چاہیے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو شاعری کا سارا کمال زبان کی صفائی، مضمون کی سادگی و بے تکلفی، کلام کے موثر بنانے اور آورد کو آمد کر دکھانے میں صرف کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ اشعار جو بے انتہا فکر و غور اور کاٹ چھانٹ کے بعد مرتب ہوتے ہیں ایسے معلوم ہوں کہ گویا بے ساختہ شاعر کے قلم سے ٹپک پڑے ہیں۔
حالی آمد اور بے ساختگی کو تخلیقی طریق کار کا مقام نہیں دیتے اور جانتے ہیں کہ شاعری بڑی حد تک جگر کاوی ہے، الفاظ کے دروبست اور زبان و عروض کے الجھیڑوں کا نام ہے۔ اسی لیے وہ بے ساختگی کو طبعِ رواں کی موجِ برجستہ سمجھنے کی بجائے فن کاری اور ہنرمندی کا جوہر قرار دیتے ہیں۔ اگر کلام میں بے ساختگی طبعِ رواں کا نتیجہ ہے تو جبذا؛ اگر نہیں ہے تو بے ساختگی پیدا کرنے کا ہنر سیکھو۔ آخر کلاسیکی ذہن کے نظم و ضبط کے معنی کیا ہیں سوائے اس کے کہ شعر گوئی کے چند فنکارانہ اصولوں کا پابند کیا جائے تاکہ کلام صنعت گری کا شکار نہ ہوجائے، زبان خام نہ رہ جائے، مضمون کی سادگی اور بے تکلفی پر ایسی صناعی اور سوفسطائیت کے پردے نہ ڈال دے جس سے قاری کا ذہن مضمون سے ہٹ کر شاعری پر مرکوز ہوجائے، کیوں کہ اس سے کلام کی تاثیر میں فرق آتا ہے۔
گویا حالی کی مرثیے سے غیر اطمینانی کی وجوہات فنّی تھیں، ورنہ مرثیے کی اخلاقیات میں انھیں کوئی قابلِ اعتراض بات نظر نہیں آتی۔ وہ غیر شعوری طور پر محسوس کرنے لگے تھے کہ مرثیے کا فارم چند ایسے نقائص کا شکار ہوا ہے جس سے وہ لوگوں کے ذہنوں کو اس طرح متاثر نہیں کر سکتا جیسا کہ بڑی شاعری کو کرنا چاہیے۔ مرثیے کا مطالعہ اتنا دردناک ہے کہ ماہِ محرم میں کارِ ثواب کی خاطر ہی آدمی مرثیے کی کتاب کھولنے کی ہمت کرتا ہے۔ مرثیہ المیے، شاعری اور ڈرامے کی طرح قاری کو جمالیاتی مسرّت نہیں بخشتا بلکہ اسے کربناک جذباتی اذیت میں مبتلا کرتا ہے۔ المیہ ڈرامے کی طرح خوف و رحم کے جذبے کو ابھار کر وہ جذبات کی تطہیر نہیں کرتا بلکہ، جیسا کہ حالی جانتے تھے، اس کا مقصد رونا رُلانا ہے؛ اس لیے وہ اپنی پوری قوّت رقّت انگیزی اور شیون و بکا میں صرف کرتا ہے۔ مرثیہ المیہ اور رزمیہ شاعری کے عناصر لیے ہوئے ہے، لیکن وہ المیہ اور رزمیہ شاعری کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ مرثیہ کسی ایک واقعے کو المیہ اور رزمیہ عملی action عطا نہیں کرتا بلکہ اپنی پوری قوّت مختلف واقعات میں بکھیرتا پھرتا ہے۔ مرثیے کا episodic character اُسے کسی ایک مربوط اور عظیم عمل کے بیان سے مانع رکھتا ہے۔ المیے میں سب سے اہم چیز اس کا عمل اور پلاٹ ہے، اور مرثیے میں عمل اور پلاٹ نہیں ہوتا، محض ایک واقعہ ہوتا ہے۔ یہ المیے کا فارم ہے جو طوفانی اور سرکش جذبات کو اپنے قابو میں رکھتا ہے، اور یہ جذبات فارم کے مضبوط حصاروں کو توڑ کر کبھی اتنے بے قابو نہیں ہوتے کہ ڈراما نگار یا قاری کو مغلوب کریں۔ گویا کتھارسس اگر موضوع اور مواد میں نہ ہو تب بھی قارم کے ذریعے رونما ہوسکتا ہے۔ اسی لیے توارسطوالمیے پر اپنی پوری بحث کو فارم تک محدود رکھتا ہے اور ہیگل کے زمانے تک المیے کے موضوع کی اخلاقیات نقادوں کی توجہ کا مرکز نہیں بنتی۔ مرثیہ المیے کی طرح پورے عمل کو پیش نہیں کرتا، اس لیے المیہ واقعات کربلا کی تاریخ میں ہو تو ہو، مرثیے میں نہیں ہوتا۔ چوں کہ مرثیے کا مقصد آہ و بکا ہے اس لیے غم کے شوریدہ سر جذبات فارم میں قید نہیں رہتے بلکہ فارم کو توڑ کر شاعر اور قاری دونوں کو مغلوب کرتے ہیں۔ اس طرح شاعر اپنے موضوع سے جمالیاتی فاصلہ قائم رکھنے میں ناکام رہتا ہے۔ وہ غمِ حسین کو اپنا غم بنالیتا ہے جبکہ ہم ہملٹ یا آتھیلو کے غم کو اپنا غم نہیں بناتے۔ پھر اہلِ بیت سے شدید عقیدت مندی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مرثیہ کے تمام کردار ہر قسم کی انسانی کمزوریوں سے پاک دامن بتائے جاتے ہیں۔ hamartia کا عنصر صرف یونانی المیوں کا ناگزیر عنصر نہیں ہے، بلکہ شیکسپیئر کے اور جدید دور کے المیوں کو بھی اس اصول کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔ اس اصول کی عدم موجودگی میں المیہ میلوڈراما میں بدل جاتا ہے۔ لیکن اہلِ بیت میں کسی قسم کی شخصی کمزوری کا تصوّر تک مرثیہ گوشاعروں اور امام حسین کے عقیدت مندوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ اگر امام حسین کی شخصیت میں حوصلہ مندی کے عنصر کو دکھایا جاتا تو ان کا کردار ایک المیہ dimension پیدا کر سکتا تھا، لیکن اس قسم کا تصور تک اہل عقیدت کے لیے کفر سے کم نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کے کردار المیہ پیدا نہیں کر سکتے؛ لیکن پھر ان کرداروں کو بڑی حد تک انسانی سطح پر ہونا چاہیے۔ مرثیہ نگار اہلِ بیت کی تعریف میں قصیدہ گو شاعروں کی روایات اور طرز کا التزام کرتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ نکتہ ہے کہ حالی نے مرثیے اور قصیدے کی بحث ایک ہی عنوان کے تحت کی ہے۔ وجہ صاف ہے کہ مرثیہ نگار کا کرداروں کی طرف پورا رویہ قصیدہ نگار کا ہے۔ لیکن اتنی سب قصیدہ خوانی کے باوجود مرثیہ نگار اپنے کرداروں کو رزمیہ ہیرو کا قدوقامت عطا نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو صاف بات ہے کہ ان کی شہادت پر رحم کے جذبات پیدا نہ ہوتے؛ رزمیہ ہیرو کی موت سے دل پر ہیبت اور جلال کے جذبات طاری ہوتے ہیں، رحم و ہمدردی کے نہیں، اور مرثیہ نگاروں کا مقصد رقّت انگیزی تھا۔ مرثیہ نگار اہلِ بیت کو شجاع، معصوم اور مظلوم بتاتا ہے، لہذا ان کے کرداروں میں نہ المیہ عنصر پیدا ہوتا ہے نہ رزمیہ۔ المیہ عنصر تو اس وجہ سے پیدا نہیں ہوتا کہ مرثیے میں المیہ عمل کا فقدان ہوتا ہے اور رزمیہ عنصر اس وجہ سے پیدا نہیں ہوتا کہ رقت انگیزی کی خاطر مرثیہ نگار انھیں عام آدمیوں کی طرح روتا دھوتا، آہ و فریاد کرتا بتاتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ سب نقائص مرثیے کے اس فارم کے ہیں جسے ہمارے یہاں مجالسِ عزانے پروان چڑھایا۔ مرثیہ کی تمام کمزوریاں، فارم کی کمزوریاں ہیں، موضوع اور مواد کی نہیں۔ وہ فارم جو مجالسِ عزانے متعین کیا ہے اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس میں اعلیٰ شاعری کی جاسکے۔ فارم ناقص رہتا ہے تو موضوع بھی ناقص رہتا ہے۔ فارم پر عبور نہ ہو تو موضوع سے بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ مرثیہ ایک بیانیہ، المیہ، رزمیہ اور ڈرامائی ہیئتِ شعر کے طور پر ناکام رہا کیوں کہ اس نے اپنے ارتقا کے دوران جن اسالیب کو پیدا کیا تھا وہ مجالسِ عزاکے تقاضوں سے اس قدر conditioned ہوگئے تھے کہ ان کا پابند رہ کر نہ تو واقعات نگاری کا حق ادا ہوسکتا تھا نہ کردار نگاری کا۔ حالی کی تنقید مرثیے کی اخلاقیات پر نہیں بلکہ فارم کے نقائص پر ہے، جب کہ مرثیے کے تمام مدّاحوں کی تنقید فارم کے ان نقائص کا ذکر تک نہیں کرتی اور مرثیے کی شاعری کو اعلیٰ اخلاقی شاعری کے طور پر ہی پیش کرتی رہتی ہے۔ حالی نہ المیے سے واقف تھے نہ رزمیہ شاعری کے اصولوں سے، اس لیے انھوں نے اپنی باتوں کو وضاحت سے بیان نہیں کیا؛ لیکن مرثیے کے مقصد نے اس کے فارم کا جس ڈھنگ سے تعین کیا تھا وہ اس سے خوش نہیں تھے۔ حالی نے مبہم اور موہوم طریقے پر ہی سہی لیکن جن باتوں کو محسوس کیا تھا ان پر شبلی سے لے کر اثر لکھنوی تک کے انیس کے مدّاحوں کی نظریں نہیں پڑیں۔
=== O ===
۲
نقاد کے طاقتور پہلوؤں کی قیمت پر اس کے vulnerable پہلوؤں کی تلاش بت شکن تنقید کا شیوہ رہا ہے۔ بت تو اپنی جگہ مستحکم رہتا ہے، لیکن پینترے پر پینترے اور اوزار پر اوزار بدل کر حملہ کرنے والا نقاد مضحکہ خیز نظر آنے لگتا ہے۔ اسی لیے بڑا نقاد اپنے نکتہ چینوں کی کسوٹی ثابت ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جانسن کے الفاظ میں مکھی گھوڑے کو ڈنک مارتی ہے لیکن بہر صورت مکھی مکھی ہے اور گھوڑا گھوڑا۔ کلیم الدین احمد کا دو ٹوک فیصلہ ہے :
خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم و ادراک معمولی، غور و فکر ناکافی، تمیز ادنیٰ، دماغ و شخصیت اوسط۔ یہ تھی حالی کی کل کائنات۔
اس فیصلے پر پہنچنے کے لیے کلیم الدین احمد بظاہر تجزیہ، دلائل اور ثبوت بھی پیش کرتے ہیں، لیکن یہ محض التباس اور تنقید کا چھلاوا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی ان کی تنقیدی گرفت ہی میں نہیں آتے۔ انگریزی ادب سے حالی کی ناواقفیت کے پہلو کو مسلسل مضروب کرتے رہنا اس مفروضے کے تحت ہے کہ چھنگلیا کاٹوٹنا بت کا ٹوٹنا ہے۔
کلیم الدین احمد لکھتے ہیں :
یہ بات ایک حد تک صحیح ہے کہ مقدمہ میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ حالی پوری عربی، فارسی اور اردو شاعری پر حاوی نظر آتے ہیں لیکن انگریزی ادب سے حالی کی واقفیت محدود تھی۔
ان جملوں میں حالی کی طاقت اور کلیم الدین احمد کی کمزوری کا پورا راز چھپا ہوا ہے۔ ’’مقدمہ‘‘ کا اہم اور وافر حصہ انگریزی ادب پر نہیں بلکہ اردو شاعری کی نہایت جزرس اور بصیرت افروز تنقید پر مشتمل ہے۔ عربی، فارسی، اردو شاعری، غزل، قصیدے، مثنوی اور مرثیے پر حالی نے جو کچھ لکھا، کلیم الدین احمد کو اس سے سروکار نہیں۔ انھیں تو صرف انگریزی ادب سے حالی کی ناواقفیت کو بے حجاب کرنے کے مزے لُوٹنے ہیں۔ ایسی تنقید طبیعت کو بہت منغّض کرتی ہے کیوں کہ اس کا بڑا عیب اکسپرٹائز (expertise) کا کلچر پر حملہ ہے۔ ایک ماہر لسانیات بڑے سے بڑے نقاد کے متعلق یہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ وہ لسانیات کی مبادیات سے واقف نہیں اور ادب کا تو میڈیم ہی زبان ہے، اسی لیے وہ سرے سے نقاد ہو ہی نہیں سکتا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کلیم الدین احمد جیسے ذہین نقاد کو بھی اخیر تک یہ احساس نہیں ہو پایا کہ ان کا طریق کار بنیادی طور پر تنقیدی رہا ہی نہیں بلکہ بت شکنی کا بن گیا ہے جسے debunking کے اسفل آرٹ میں بدلتے بہت دیر نہیں لگتی۔ انگریزی ادب سے واقفیت کے معاملے میں بھی حالی تنقیدی گرفت کے مواقع بہت کم دیتے ہیں؛ چنانچہ ان کے نقادوں کو خوردہ گیری اور موشگافی کا سہارا لینا پڑتا ہے جیسا کہ سادگی، واقعیت اور جوش کے تصورات پر حالی کے نقادوں کی تنقید سے ظاہر ہے۔ یہی حالی کی جیت اور ان کے نقادوں کے ہار ہے، کیوں کہ طاقتور نقاد کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مدّاحوں کو حاشیہ آرائی اور نکتہ چینوں کو موشگافی کے غیر دلچسپ اور غیر ثمر آور مشغلے کی سطح سے بلند نہیں ہونے دیتا۔
حالی ’’مقدمہ‘‘ میں مکالے کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں جو اپنی جگہ مناسب بھی ہے اور بے حد دلچسپ بھی۔ اس اقتباس میں مکالے بتاتا ہے کہ شاعری کو دوسرے فنونِ لطیفہ مثلاً مصوّری، مجسمہ سازی اور ڈراما وغیرہ پر کیوں سبقت حاصل ہے۔ ادب کے ایسے نظریاتی اور فلسفیانہ مسائل پر جب آج بھی ہمارے پاس کوئی تنقیدی سرمایہ نہیں تو حالی کے زمانہ میں مکالے کے اقتباس نے وہی جادو جگایا ہوگا جو ہمارے زمانے میں الیٹ اور رچرڈز کے اقوال جگاتے ہیں۔ اگر حالی پر تنقید کرنی ہوتی تو اتنا کہنا کافی تھا کہ حالی مکالے کے زیرِ اثر شاعری کے نقالی ہونے کے اس تصوّر سے، جو افلاطون اور ارسطو کی تعلیمات کے سبب مغربی تنقید کا اہم کلاسیکی ورثہ تھا، تھوڑے بہت متاثر ہوئے تھے جس کے نتیجے کے طور پر ان کی نظریاتی اور عملی تنقید میں فلاں فلاں معائب اور فلاں فلاں محاسن پیدا ہوئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ چوں کہ کلیم الدین احمد کو خوردہ گیری کرنی ہے اس لیے یہ بتانا ضروری ہوگیا کہ ’’حالی کی شعر کی ماہیئت سے بھی وہی بے خبری ہے جو شعر کی اہمیت سے تھی۔ حالی صرف میکولے کا قول نقل کرتے ہیں۔ میکولے کی نقاد کی حیثیت سے کوئی وقعت نہیں۔ شاعری نقّالی نہیں۔ آئینۂ شعر میں فطرت کے بدلنے والے مناظر اور انسانی دنیا کے داخلی اور خارجی کرشموں کی جھلک ضرور ملتی ہے؛ اس جھلک اور نقّالی میں فرق مشرقین ہے۔ شاعری کو آئینہ یا کیمرا سمجھنا ناسمجھی ہے۔ شاعری اور دوسرے فنون لطیفہ کو نقّالی سے تعبیر کرنا غلطی ہے۔ شاعری حسین اور بیش قیمت انسانی تجربات کا حسین، مکمل اور موزوں بیان ہے۔ بیان کا مفہوم نقالی نہیں تخلیق ہے۔‘‘
اس تقریر کو سن کر حالی تو یہی کہیں گے کہ ’’چلیے صاحب! شاعری نقالی نہ سہی، بیان سہی؛ لیکن بیان آخر کسی نہ کسی چیز کا ہوگا۔ اس میں واقعیت کا تھوڑا بہت عنصر بھی ہوگا۔ آپ خود کہتے ہیں کہ آئینے میں فطرت کی جھلک ضرور ملتی ہے۔ اب جھلک ٹھیک ہے یا نہیں اس کی پرکھ کے لیے ہمیں تھوڑی بہت واقعیت کی کسوٹی کا استعمال بھی کرنا ہوگا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ واہ، شاعری نے کیا ہو بہو تصویر دکھائی ہے! تو ایک معنی میں ہم آئینے اور کیمرے کے استعارات ہی کی زبان بول رہے ہیں۔ بھئی ہم بڑے بوڑھے تو خوش ہولیا کرتے تھے کہ نقل برابر اصل ہے۔ چلیے یوں نہ سہی، بیان کا مفہوم نقلی نہ سہی، تخلیق سہی، لیکن تخلیق میں بھی نقل کا عنصر کچھ نہ کچھ تو ہوگا کہ تخلیق اگر بیان ہے تو آخر ۔۔۔‘‘
اس موقعے پر حالی کا سانس پھول جاتا ہے؛ وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں نہیں کہہ پاتے۔ کیوں کہ شاعری بطور بیان اور شاعری بطور تخلیق کے جدید تصورات سے وہ واقف نہیں۔ لیکن عربی، فارسی اور اردو شاعری کا مطالعہ انھوں نے ہم سے زیادہ کیا ہے، اس لیے وہ شاعری کی حقیقت سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں وہ غلط نہیں؛ اس میں کچھ نہ کچھ صداقت ہے۔ وہ ہمارے ناقدانہ رویوں سے واقف نہیں، اس لیے وہ اپنے خیالات ہماری اصطلاحوں میں ظاہر نہیں کر سکتے۔ ہو بہو نقالی کا تصور صرف افلاطون کے یہاں ملتا ہے۔ ارسطونے اس پر جو کچھ ترمیم و اضافہ کیا اس سے نقالی کا تصور تخلیق کے تصور سے بہت قریب آگیا۔ آئینۂ شعر میں فطرت کی جھلک اب ہوبہو نہیں ہوتی بلکہ زیادہ تخلیقی ہوتی ہے۔ لیکن جھلک یا عکس ہونے ہی کے ناتے اس کا کم وبیش ہوبہو ہونا بھی ضروری ہے۔ لہذا نقالی کا تصور تخلیق کی ضد نہیں بلکہ تخلیق کا تصور نقالی کے تصور کی معنوی توسیع ہے جو ہمیں ارسطو کے یہاں ملتی ہے۔ ویسے دیکھنے جاؤ تو شعر بطور بیان اور شعر بطور تخلیق کے تصورات بھی اب آج کے نئے تصورات کے سامنے کافی پرانے نظر آتے ہیں۔ جدید تنقید نے کلیم الدین احمد کے استاد ایف آرلیوس کو بھی مکالے جتنا ہی از کار رفتہ بنا دیا ہے۔ کلیم الدین کا رویہ اس غلط مفروضے پر قائم ہے کہ شاعری کا نیا تصور تنقیدی روایت کے سلسلے کی کڑی نہیں بلکہ قفل ہوتا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر اہم اجتہاد پیش رو تصورات کی حتمی تنسیخ نہیں بلکہ ان پر ترمیم و اضافہ کے ذریعے معنوی توسیع کا کام کرتا ہے۔ اٹکل کے برعکس اجتہاد میں روایت کا عرق ہوتا ہے، اسی لیے اٹکل شررِ جستہ ثابت ہوتی ہے جب کہ اجتہاد روایت کی کہکشاں کا ستارہ بنتا ہے جہاں وہ بطور ایک منفرد تصور کے نہیں بلکہ تصورات کے ایک درخشاں سلسلے کے ہمارے ذہن کو روشنی عطا کرتا ہے۔
اگر مکالے اور حالی سے یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے شاعری کو نقالی سمجھا تو اس غلطی کا شکار تمام یورپ کا ادب سترھویں صدی تک رہا ہے۔ رومانوی تحریک سے ’’آئینہ‘‘ کا امیج ٹوٹتا ہے اور شاعری کا ’’نباتاتی‘‘ تصور ابھرتا ہے یعنی یہ تصور کہ نظم ایک بیج سے خود روپودے کی طرح نشوونما پاتی ہے اور گنجان درخت بنتی ہے۔ علامت پسندوں، سررئیلسٹوں اور جدیدیوں تک آتے آتے یہ تصور بھی علامت، استعارہ، لسانی تشکیل، فنی مفروض، آرٹیفکٹ (artifact) اور verbal icon میں بدل جاتا ہے؛ لیکن اس سے آئینے اور درخت کے تصورات ازکار رفتہ ثابت نہیں ہوتے۔ وہ اب بھی کچھ نہ کچھ شاعری کی ماہیئت کے متعلق کارآماد باتیں بتاتے ہیں، کیوں کہ شاعری میں بہر صورت داخلی اور خارجی دنیا کی عکاسی (تخلیقی عکاسی کہہ لیجیے) اور خودرو پودے کی نشو ونما کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح شاعری ایک معنی میں صناعی بھی ہے، لفظی مجسمہ بھی اور علامت کا پیکر بھی۔ یہ تصورات ہیں اور ہر تصور کسی نہ کسی حقیقت کا بیان ہے۔ شاعر کا کوئی بھی تصور اتنا ہمہ گیر نہیں ہوتا کہ تمام اصناف اور ہر نوع کی شاعری کا کلّی احاطہ کر سکے۔ لسانی تشکیل، لفظی مجسمے اور استعارے کا تصور اپنی جگہ اہم سہی، لیکن دیکھنا یہ ہوتاہے کہ نقاد ان تصورات سے شاعر اور شاعری کو سمجھنے، عملی تنقید کے ذریعے ان کی خصوصیات اجاگر کرنے کے کیا کیا کام نکالتا ہے۔ ایک مختصر غنائی نظم کو ایک شعری پیکر، لسانی تشکیل اور لفظی مجمسے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، لیکن شاید طویل اور رزمیہ ڈرامائی نظم کو اس نظر سے دیکھنا بہت سودمند ثابت نہ ہو۔ نقالی کے افلاطون کے تصور کو تو خود ارسطونے بدل دیا تھا اور اشیا کی نئی ترتیب کے تصور میں تخلیقی تخیل کا رمز پایا تھا۔ افلاطون کے نہ سہی، ارسطو کے اس تصور نے رزمیے اور ڈراما کو سمجھنے میں بہت مدد دی اور بعد میں فکشن کی تنقید ہمارے زمانے تک اس تصور سے کام لیتی رہی اور ’’آئینہ داری‘‘ اور ’’کمیرے کی آنکھ‘‘، یا حالی اور سر سید کے زمانے کی اصطلاحوں میں ’’نیچر‘‘ یا ’’اصلیت‘‘ کی ترجمانی حقیقت پسند فکشن کی تنقید کے اہم اجزار ہے۔ مغرب میں فکشن اور المیے کی تنقید اسی لیے فلسفیانہ ہے کہ وہ پوری انسانی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ اس تنقید کا مقابلہ ہمارے یہاں کی علامتی اور اسطوری تنقید سے کیجیے۔ فلسفے اور جار گون کا فرق واضح ہوجائے گا۔ پھر حالی نقالی کے تصور پر بہت زور نہیں دیتے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ شاعری کی کسی بھی تعریف کو مکمل اور قطعی تعریف نہیں سمجھتے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
شعر کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں مگر کوئی تعریف ایسی نہیں جو اس کے تمام افراد کو جامع ہو اور مانع ہو دخول غیر سے۔ البتہ لارڈ مکالے نے جو کچھ شعر کی نسبت لکھا ہے گو اس کو شعر کی تعریف نہیں کہا جاسکتا لیکن جو کچھ شعر سے آج کل مراد لی جاتی ہے، اس کے قریب قریب ذہن کو پہنچا دیتا ہے۔
اب یہ درست ہے کہ لارڈ مکالے کی نقاد کی حیثیت سے کوئی وقعت نہیں۔ اس نظر سے دیکھیے تو وکٹورین عہد کے دوسرے ’’خطیبانِ منبر‘‘ گالزوردی اور رسکی کی بھی دنیاے تنقید میں اب کچھ بہت زیادہ اہمیت نہیں رہی گو یہ دونوں حضرات لارڈ مکالے سے بہت بڑے نقاد تھے۔ لیکن ان سب کے یہاں شعر وادب کے متعلق بہت سی کار آمد باتیں مل جاتی ہیں۔ ایڈیسن بھی بہت بڑا نقاد نہیں تھا، لیکن تخیل پر اس کی بحث کی آج بھی مکتبی اہمیت ہے کیوں کہ وہ چند بنیادی باتوں کو زیرِ بحث لاتا ہے۔ پھر ایڈیسن، رسکی اور مکالے کی ایک بڑی خصوصیت ان کا نہایت صاف ستھرا اور دل پذیر اندازِ فکر اور اسلوبِ بیان ہے جو ان لوگوں کو بہت اپیل کرتا ہے جو مبادیاتِ ادب سے غیر سوفسطائی طریق کار پر واقف ہونا چاہتے ہیں۔ چناں چہ ’’مقدمہ‘‘ میں حالی نے لارڈ مکالے کا جو طویل اقتباس پیش کیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ بے حد دلچسپ ہے بلکہ شاعری کے متعلق چند ایسی باتیں بتاتا ہے جن پر ہم آج کل زور و شور سے لکھ رہے ہیں۔ مثلاً یہ کہ شاعری کی کل کس چیز سے بنی ہوئی ہے؟ الفاظ کے پرزوں سے، یا یہ کہ شاعری کو بت تراشی، مصوری اور ناٹک پر اس بات میں فوقیت ہے کہ انسان کا بطون صرف شاعری ہی کی قلم رو ہے یا یہ کہ ’’مگر نفسِ انسانی کی باریک، گہری اور بوقلموں کیفیات صرف الفاظ ہی کے ذریعے سے ظاہر ہوسکتی ہیں۔‘‘
مکالے نے شاعری کو دلائل کے ذریعے بت تراشی، مصوری اور ناٹک سے افضل ثابت کیا ہے۔ حالی بحث کو آگے بڑھا کر فردوسی، سعدی، ابن دراج اندلسی اور نظیری نیشاپوری کے اشعار سے مثالیں فراہم کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ الفاظ کہاں رنگ پر سبقت لے جاتے ہیں۔ یہ تمام مثالیں نہایت طبّاع اور بصیرت افروز ہیں۔ اور اس بات کی شہادت ہیں کہ جس کی نظر سطحی فہم و ادراک معمولی اور غور وفکر ناکافی تھا، تنقید کی باریکیوں کو کتنا سمجھتا تھا اور اپنے ذہن رسا سے کتنی نکتہ رس مثالیں ڈھونڈ لاتا تھا۔ شاعری اور مصوری کے رشتے پر لیسنگ کی بحث سنگ میل کا مقام رکھتی ہے اور بعد کے نقادوں میں بحث امیجری کے دائرے میں جذب ہوجاتی ہے۔ البتہ جمالیات کی کتابوں میں فنونِ لطیفہ کو اب بھی ایک دوسرے کے تعلق سے دیکھا جاتا ہے اور شاعری اور مصوری کا تقابلی مطالعہ ہوتا ہے لیکن ایسا مطالعہ اب ادبی تنقید کا غالب رجحان نہیں رہا۔ حالی اور شبلی کے زمانے میں محاکات پر زور تھا، ہمارے زمانے میں امیجری اور استعارے پر ہے۔ چوں کہ ہم استعارے پر یقین رکھتے ہیں اس لیے لازم نہیں آتا کہ ہم حالی سے بہتر نقاد ہوے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ حالی نے محاکات پر جتنی گہرائی سے سوچ بچار کیا ہے، کیا ہم استعارے پر لکھتے وقت اتنی گہرائی کا ثبوت دیتے ہیں۔ چنانچہ کلیم الدین احمد کو دیکھنا یہ چاہیے تھا کہ حالی نے جو مثالیں دی ہیں وہ غلط ہیں یا صحیح؛ ان کی فراست کی دلیل ہیں یا کند ذہنی کی۔ ایسے تجزیے کے بعد ہی انھیں یہ حق پہنچتا تھا کہ وہ حالی کو سطحی نظر اور ادنیٰ تمیز والا نقاد قرار دیتے۔ اس وقت وہ کہہ سکتے تھے کہ حالی مصوری اور شاعری کے رشتے کو سمجھ نہیں پائے ہیں، رنگ اور الفاظ میں تمیز نہیں کر رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کلیم الدین احمد ایسا نہیں کرتے کیوں کہ یہ حالی کے مضبوط پہلو ہیں۔ حالی کلیم الدین احمد سے زیادہ درّاک اور طرّار نقاد تھے۔
حالی نے نقالی پر بہت زیادہ زور نہیں دیا لیکن شعر وادب کے حقیقت کا آئینہ ہونے کا احساس ان میں شدید تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ مرثیے اور مثنوی پر اتنی اچھی اور ثمرآور بحث کر سکے۔ اس بحث کا مقابلہ پی ایچ ڈی کے ان مقالوں سے کیجیے جو مرثیے اور مثنوی پر ہماری دانش گاہوں میں لکھے گئے ہیں؛ ذہین اور غبی کا فرق واضح ہوجائے گا۔
حالی لکھتے ہیں :
شعر میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک خیال، دوسرے الفاظ۔ خیال تو ممکن ہے کہ شاعر کے ذہن میں فوراً ترتیب پا جائے، مگر اس کے لیے الفاظ مناسب کا لباس تیار کرنے میں ضرور دیر لگے گی۔ یہ ممکن ہے کہ ایک مستری مکان کا نہایت عمدہ اور نرالا نقشہ ذہن میں فوراً تجویز کرلے مگر یہ ممکن نہیں کہ اسی نقشہ پر مکان بھی ایک چشم زدن میں تیار ہوجائے۔ وزن اور قافیہ کی اوگھٹ گھاٹی سے صحیح سلامت نکل جانا اور مناسب الفاظ کے تفحص سے عہدہ برآ ہونا کوئی آسان کام نہیں۔
اب کلیم الدین احمد کی تنقید دیکھیے :
ان جملوں میں بھی سطحیت ہے۔ حقیقت سے بے خبری ہے۔ حالی کی حیثیت شاعر کی نہیں تماشائی کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ الفاظ کے انتخاب الفاظ کی ترتیب میں دقت نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن حالی کو تجربوں اور لفظوں کے ناگزیر تعلق سے آگاہی نہیں۔ شاعر کو مستری سمجھنا بھی اسی بے خبری کو خبر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر پہلے خیالات کا نقشہ، وہ عمدہ اور نرالا سہی، ذہن میں تجویز کر کے اس پر لفظوں کا مکان نہیں بناتا۔ کیا آپ خیالات کا نقشہ وہ ذہن میں ہی سہی لفظوں کی مدد کے بغیر کھینچ سکتے ہیں۔ خیالات اور الفاظ بہ یک وقت اس کے ذہن میں آتے ہیں خیالات اور الفاظ کا انتخاب خیالات اور الفاظ کی جانچ، خیالات اور الفاظ کی ترتیب یہ سب چیزیں ساتھ ساتھ عمل میں آتی ہیں۔ حالی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ایک خیال دوسرے خیالوں اور لفظوں کو کھینچ لاتا ہے، ایک لفظ دوسرے لفظوں اور خیالوں کا دھیان دلاتا ہے۔ پھر کوئی خیال یا کوئی لفظ دوسرے لفظوں اور خیالوں میں تغیر بھی پیدا کرتا ہے اور ان کی ترتیب کو بھی بدل دیتا ہے، اور جب تک نظم مکمل نہیں ہوجاتی اس وقت تک لفظوں اور خیالوں کا پورا نقشہ شاعر کے ذہن میں مرتب نہیں ہوتا۔ اور نہ ہو سکتا ہے۔
حالی کا مقصد لفظ و معنی، خیال اور الفاظ کے تعلق کو نمایاں کرنے کا نہیں تھا بلکہ وہ شاعری میں الفاظ کی اہمیت پر روشنی ڈالنا چاہتے تھے۔ الفاظ اور خیال کے تعلق کی بحث فلسفے کا موضوع ہے اور کافی مشکل اور دقّت طلب ہے۔ فلسفے اور لسانیات کے ماہرین ہی ان مشکل مباحث میں الجھتے ہیں۔ خود کلیم الدین احمد کی باتیں سرسری ہیں لیکن ان کی تنقیدی اہمیت ہے، حالی سے کچھ زیادہ سہی، لیکن ان میں بھی وہ گہرائی اور گیرائی نہیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ماہرین کی کتابوں میں ملتی ہے۔ لیکن ادبی تنقید کے اپنے کچھ حدود ہیں۔ وہ بسیط فلسفیانہ تفکر اور ماہرین کے ٹیکنیکل مباحث کی ذرا مشکل ہی سے متحمل ہوتی ہے۔ ورنہ ہمیں تو بحث کا آغاز ہی اس سوال سے کرنا ہوگا کہ خیال کیا ہے۔ ذہن میں کیسے خیال پیدا ہوتا ہے۔ زبان اور خیال کا رشتہ کیا ہے۔ کیا ایسے خیال کا تصور ممکن ہے جو زبان کے ذریعے سوچا نہ گیا ہو۔ کلیم الدین احمد کی باتوں سے پتا لگتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ برٹرینڈرسل کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ پھر سرسید اور حالی کے زمانے میں ’’خیال‘‘ کا لفظ، ’’نیچر‘‘ کے لفظ ہی کی مانند، بہت سی باتوں کا احاطہ کرتا تھا۔ ورنہ ہم جانتے ہیں اور حالی بھی جانتے تھے کہ شاعری محض خیالات کا بیان نہیں بلکہ جذبات و احساسات، ذہنی کیفیات، یادوں اور آرزومندیوں کا بھی بیان ہے۔ اور ’’خیال‘‘ کے برعکس جو زبان کے بغیر وجود میں نہیں آتا، یہ کفییات اپنے وجود کے لیے زبان کی مرہونِ منت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کیفیات کے شاعرانہ اظہار کا عمل بھی بعینہ ’’خیال‘‘ کے اظہار کے مطابق ہوگا جہاں خیال اور الفاظ عمل میں آتے ہیں، یا ایک مخصوص احساس کے بیان کے لیے تفحص الفاظ کا عمل دوسری سطح پر ہوگا۔ یہ خیال کہ ذہن میں خیال و الفاظ بیک وقت پیدا ہوتے ہیں، اتنا ہی نہیں جتنا کلیم احمد سمجھتے ہیں، بلکہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ علمِ منطق۔ logos کا تصور بھی لفظ و معنی کی اسی وحدت کا علامیہ ہے کہ تخلیقِ کائنات کے وقت خالق کے ذہن میں خیال اور لفظ ساتھ ساتھ پیدا ہوئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آدمی کی امتیازی صفت اس کا حیوانِ ناطق ہونا نہیں بلکہ حیوانِ متفکر ہونا ہے، اور جب آدمی نے سوچنا شروع کیا تو زبان وجود میں آئی۔ گویا نطق و فکر کی تخلیق ساتھ ساتھ ہوئی۔ ان تصورات پر مکمل طور سے عمل پیرا ہونے کا مطلب ہے علمِ بیان اور ادبی تنقید سے ہاتھ دھونا، کیوں کہ تنقید تو اپنی اصل میں ہی تجزیہ اور تحلیل ہے؛ یہ دیکھنے کے لیے کہ گھڑی کس طرح کام کرتی ہے، اس کے کل پرزے الگ کرتی ہے۔ علمِ بیان تو یہی سکھاتا ہے کہ خیال کی ادائیگی کا افص ترین طریقہ کیا ہے اور تقریر و کلام میں فصاحت و بلاغت کیسے پیدا ہوتی ہے۔
اتنا سب کچھ جاننے کے باوجود ہم تخلیقی عمل کے پراسرار علم کو ابھی تک سمجھ نہیں پائے ہیں۔ شاعر خود نہیں جانتا کہ شعری تجربہ اپنی اصل میں کیا ہوتا ہے تاوقت یہ کہ وہ شعر میں ڈھل کر اس کے سامنے نہیں آتا۔ اسی لیے جیسا کہ الیٹ نے بتایا ہے کہ تخلیقِ شعر کے وقت شاعر کا سروکار ایک چیز سے ہوتا ہے۔۔۔ موزوں ترین لفظ کی تلاش۔۔۔ اور حالی بھی اپنے طور پر اسی بات پر زور دیتے ہیں۔ تخلیق شعر کے عمل ہی کے مانند تفحصِ الفاظ کا عمل شعوری بھی ہوتا ہے اور غیر شعوری بھی۔ اگر الفاظ اور خیالات ساتھ ساتھ جنم لیں تو اوّلین اظہار ہی کو مکمل ترین اظہار ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا بہت ہی شاذ صورتوں میں ہوا ہے، اور قطع و برید، ترمیم واضافہ، حک و اصلاح کا عمل ہر شعر ونظم پر ہوتا رہا ہے۔ الفاظ کی یہ بخیہ گری اور زبان کی ادھیڑبن ہی اس تصویر کی جزوی صداقت کا ثبوت ہے کہ اسلوب خیال کا لباس ہے۔ خیال اور الفاظ کی مکمل وحدت میں autotelic شاعری کے خدشات بھی پنہاں ہیں جس سے فن کاری، صنّاعی اور ماہرانہ سلیقہ مندی کی اقدار ثانوی بن جاتی ہیں۔ شاعر تو یہی کہے گا کہ جیسے خیالات اور جیسے الفاظ بیک وقت ذہن میں آئے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوگئے۔ لیکن بہترین خیالات کا موزوں ترین الفاظ میں اظہار الہام ووجدان (جو فہم و ادراک سے ماورا ہیں) کے علاوہ لوازماتِ فن کی آگہی اور تھوڑی سی عرق ریزی اور جگر کاوی (جو انسانی فہم کے دائرے میں ہیں) کو بھی ضروری قرار دیتا ہے۔ یہیں سے شاعری ایک پراسرار تخلیقی سرگرمی کے دائرے سے نکل کر فن میں داخل ہوتی ہے۔ اور بطور فن کے جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو زبان و بیان کے سیکڑوں مسائل زیر غور آتے ہیں۔ ان مسائل کو سمجھانے کے طریقے مختلف ہیں۔۔۔ کوئی کاریگر، بڑھئی اور لوہار کی مثال دیتا ہے، کوئی حاملہ اور آسیب زدہ عورت کی؛ کبھی بیج اور درخت کی مثال دی جاتی ہے، کبھی سیپ اور موتی کی۔ ان مثالوں میں مکمل صداقت نہ ہونا ان کے سطحی ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
چشمۂ شعور (Stream of Consciousness) کی تکنیک کی امتیازی صفت یہی ہے کہ وہ لسانی سطح پر سوچے گئے خیالات ہی کی نہیں بلکہ تحتِ لسانی سطح پر محسوس کیے گئے خیالات، جذبات و احساسات واہموں، خوابوں، یادوں کی جھلکیوں، دھندلی تصویروں اور images کو بھی اظہار کی گرفت میں لیتی ہے۔ الفاظ پگھل پگھل کر دوسرے الفاظ سے ملتے ہیں اور نت نئی اور انوکھی لسانی تشکیلات وجود میں آتی ہیں۔ فنکار یہاں تخیل کی بھٹی جلائے لوہاری کی طرح کام کرتا نظر آتا ہے۔ جمیز جوائس کی زبان کا مطالعہ بتا دے گا کہ اس کا طریق کار کس قدر پیچیدہ اور صناعانہ تھا۔ اگر زبان سازی کا عمل پورا شعوری نہیں تھا تو پورا غیر شعوری بھی نہیں تھا۔
پھر یہ بھی دیکھیے کہ مختصر غنائی نظم کو تو ہم ایک وحدت کے طور پر قبول کرتے ہیں، لیکن طویل، بیانیہ نظموں، ماجرائی نظموں، رزمیوں، مثنویوں اور مرثیوں کو ایک جذبے یا ایک شعری تجربے کے اظہار کے طور پر دیکھنے کی بجائے ہم انھیں ایک ڈزائن، ایک بڑے کینوس کی تصویر، ایک لفظی تعمیر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس وقت ہماری نظر کاریگری پر زیادہ ہوتی ہے۔ یہی حال ڈرامے اور ناول کا ہے۔ آرٹ کے پورے پیٹرن کو گرفت میں لیے بغیر ان کی تنقید ممکن نہیں۔
فرض کیجیے کہ شاعر کسی گھر کا نقشہ کھینچنا چاہتا ہے۔ اشیا کی کوئی نہ کوئی ترتیب اسے پیدا کرنی ہوگی۔ اشیا کے لیے نام بھی تلاش کرنے ہوں گے۔ اگر وہ جدید صنعتی شہر کا شاعر ہے تو صاف بات ہے کہ اس کے پاس وہ الفاظ بھی نہیں ہوں گے جو یوپی کے کسی قدیم جاگیردارانہ گھرانے کے اثاثے کے بیان کے لیے ضروری ہیں۔ اگر لفظ نہیں تو نظم میں شے بھی نہیں۔ لہٰذا اسے الفاظ کی تلاش کرنی پڑے گی۔ گویا ارادہ و عمل میں ایک فاصلہ ہوتا ہے جس کے دوران خیالات و اشیا کی ترتیب بدلتی رہتی ہے اور نظم کا مواد پکتا رہتا ہے۔ اس دوران شاعر زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہے کہ اپنی زبان کے خزانے میں اضافہ کرتا رہے کہ تخلیق کے وقت مناسب الفاظ کی کمی کے باعث اظہار کا دامن تنگ نہ ہونے پائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حالی کے بیان میں مستری کا لفظ اتنا مضحکہ خیز اور بے معنی نہیں جتنا کلیم الدین احمد سمجھتے ہیں۔ اگر ہو بھی تو کلیدی اہمیت اس لفظ کی نہیں بلکہ ان الفاظ کی ہے : ’’وزن اور قافیہ کی اوگھٹ گھاٹی سے صحیح سلامت نکل جانا اور مناسب الفاظ کے تفحص سے عہدہ برآ ہونا کوئی آسان کام نہیں۔‘‘ اسی معنی کا حامل حالی کا ایک اور بیان ہے :
شاعری کامدار جس قدر الفاظ پر ہے اس قدر معانی پر نہیں۔ معنی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں اگر عمدہ الفاظ میں بیان نہ کیے جائیں گے ہرگز دلوں میں گھر نہیں کر سکتے۔
حالی کے ایسے بیانات ان لوگوں سے تنقید کے ہتھیار چھین لیتے ہیں جو حالی کی کشادہ اور وسیع المشرب شخصیت کو ایک تنگ نظر، تند جبیں، اخلاقی نقاد کی شخصیت میں بدل کر اس کی قیمت پر اپنے modish آرٹی تصورات کی نمائش کرنا چاہتے ہیں۔
کبھی کبھی تو حالی زبان کے متعلق ایسی زیرک باتیں کرتے ہیں کہ ہمیں ان کی طبّاعی پر حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً ’’یادگارِ غالب‘‘ میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں :
لارڈمکالے نے اس باب میں جو کچھ لکھا ہے اس میں پایا جاتا ہے کہ کوئی شخص غیر مادری زبان میں اعلیٰ درجہ کا شاعر نہیں ہو سکتا۔ بے شک ان کا ایسا سمجھنا یورپ کی شاعری کے لحاظ سے بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے کیوں کہ یورپ کی شاعری درحقیقت نیچر کی ترجمانی ہے۔ اس کا میدان اس قدر وسیع ہے کہ جس قدر نیچر کی فضا۔ اس کے فرائض مادری زبان کے سوا دوسری زبان میں جیسے کہ چاہیں ادا نہیں ہو سکتے۔ بلکہ ایشیائی شاعر جو اس طریقۂ شاعری سے نابلد ہیں وہ اپنی مادری زبان میں بھی اس کی مشکلات سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ بخلاف ایشیائی شاعری اور خاص کر متاخرین کی فارسی شاعری کے کہ ہاں انھیں معمولی خیالات کو جو قدما سیدھے سادے طور پر بیان کر گئے ہیں، نئے نئے اسلوبوں اور نئی نئی نزاکتوں کے ساتھ باندھنا یہی کمال شاعری سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بہت بڑا کمال ہے، لیکن ایسی شاعری میں زبان کا ایک محدود حصہ مستعمل ہوتا ہے جس کو غیر زبان والا آسانی سے سیکھ سکتا ہے، اور بشرطیکہ اس میں شاعری کی اعلیٰ قابلیت ہو اس کو شعرائے اہل زبان کی طرح، بعض صورتوں میں ان سے بہتر استعمال کر سکتا ہے۔
(حواشی، ’’مقدمہ شعر وشاعری‘‘، مرتبہ وحید قریشی)
غالب اور اقبال کی فارسی شاعری کی زبان پر ویسے بھی ہمارے یہاں بہت سوچ بچار نہیں ہوا؛ ایرانیوں میں تو خیر تنقید کا مادہ ہے ہی نہیں کہ وہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے۔ ہمارے یہاں بھی جن نقادوں نے شاعرانہ زبان پر حالی سے زیادہ کتابیں پڑھی ہیں وہ اس مسئلے پر تشفی بخش ڈھنگ سے سوچ بچار نہیں کر سکے۔ قطع نظر اس سے کہ ہمیں حالی کے خیال سے اتفاق یا اختلاف ہے، ہمیں یہ تو قبول کرنا ہی پڑے گا کہ حالی نے ایک اچھوتے اور نازک مسئلے پر خیال آرائی کی ایک حوصلہ مندانہ کوشش کی ہے اور شاعرانہ زبان، شعری لفظیات، رسمیہ شاعری، نیز حقیقت پسند اور مفکرانہ شاعری میں زبان کے ٹھوس اور تجریدی استعمال کے فکر انگیز سوالات اٹھائے ہیں۔ محولہ بالا اقتباس خود اس بات کا شاہد ہے کہ زبان و بیان کے مسائل میں حالی کو کتنی دلچسپی تھی۔
اردو میں جدیدیت کے رجحان کے ساتھ اسلوبیات، لسانی تنقید، شاعری میں زبان، استعارے اور شعری تجربے کے مسائل پر نئے مباحث کے دروازے کھلے ہیں۔ لیکن اکثر نومشق نقادوں نے ان تصورات کو کلیثے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ انھیں بھی انحراف کے لیے ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جس کی زنگارِ قدامت کے مقابلے میں وہ اپنی جدیدیت کا آئینہ چمکا سکیں۔ چنانچہ پھر حالی دھرلیے گئے۔ ذرا دیکھیے تو شمیم حنفی اپنی کتاب ’’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘‘ میں حالی کے ماتھے پر کلی شیز کی کیلیں کیسے ٹھوک رہے ہیں :
اس دیباچہ میں حالی نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ انھیں مغربی شاعری کے اصول سے نہ اس وقت کچھ آگہی تھی او رنہ اب ہے۔ لیکن مغربی شاعری کے اصول سے ناواقفیت کے باوجود حالی نے مشرقی شاعری کی تنقید میں مغربی خیالات کے سرسری علم کو اپنا رہنما بنایا۔ شاعری میں اساسی حیثیت خیالات کے بجائے شعری تجربہ اور اس کے اظہار کی نوعیت کی حامل ہوتی ہے۔
کیا اکڑ ہے! کیا تراہٹ ہے! ’’شعری تجربے‘‘ کی تلوار ہاتھ لگ گئی ہے تو کمر سے باندھے تنقید کے راجپوت کی طرح تنّائے پھرتے ہیں۔ شمیم حنفی نے مغربی ادب کا مطالعہ حالی کی سی سلیقہ مندی سے کیا ہوتا تو ان کی نظر سے الیٹ کا یہ قول ضرور گذرتا کہ ’’جان ڈن کے لیے خیال بھی ایک تجربہ ہوتا تھا۔‘‘ پھر حالی کی مشرقی اور خصوصاً اردو شاعری کی تنقید سرتاسر pragmatic ہے۔ ان کا ہر ناقدانہ خیال صنف سخن اور شاعری کے متن کی زمین سے پھوٹا ہے۔ ہر شعر کے محاسن و معائب کا بیان زیرِ بحث شعر کی ساخت اور بافت، زبان و بیان میں اس قدر گتھا ہوا ہے کہ اس کا اطلاق کسی دوسرے شعر پر نہیں ہو سکتا۔ حالی ہماری طرح فربہ تعمیمات کے آرٹ سے واقف نہیں تھے۔ وہ انیس کو شیکسپیئر اور پریم چند کو گورکی ثابت کرنے کے ہتھکنڈوں سے واقف نہیں تھے۔ یہ ہم ہیں جو حنوط زدہ تمثیلی نظموں پر علامات کی پھولوں کی چادر بچھاتے ہیں اور سہ سطری نثری نظم پر اس طور کا ہمالہ کھڑا کرتے ہیں۔ شمیم حنفی کو اس بات کا بڑا بھرّا ہے کہ شاعری میں اساسی حیثیت خیالات کی نہیں شعری تجربے کی ہے۔ لیکن حالی کی کتاب کا نام ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ ہے، جب کہ شمیم حنفی کی کتاب کا نام ’’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘‘ ہے۔ شمیم حنفی فلسفۂ تاریخ، سائنس، نفسیات پر نہایت بورمبتدیانہ لن ترانیاں کرتے ہیں اور پوری کتاب میں ایک نظم، ناول اور ڈرامے کا تجزیہ نہیں ملتا۔ اِدھر حالی ہیں کہ غزل، مرثیے، قصیدے اور مثنوی پر لگاتار بحث کرتے چلے جاتے ہیں، اور بحث بھی ایسی کہ قدامت پسند حلقوں میں مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔ خیالات کی ریوڑیاں بانٹنے والے نقاد حالی کے بعد پیدا ہوئے۔ حالی کا تنقیدی طریق کار تو یہ تھا :
وہ جو چشمِ پُر آب ہیں دونوں
ایک خانہ خراب ہیں دونوں
اس میں ’’ایک‘‘ لفظ ایسا بے ساختہ اور بے تکلف واقع ہوا ہے کہ گویا شاعر نے اس کا قصد ہی نہیں کیا۔ ’’دونوں‘‘ کے مقابل ’’ایک‘‘ کے لفظ نے آکر شعر کو نہایت بلند کردیا ہے ورنہ نفسِ مضمون کے لحاظ سے اس کی کچھ بھی حقیقت نہ تھی۔
کیا یہ طریق کار زبان و بیان کے محاسن کو توسط سے حسنِ معنی تک رسائی کا نہیں ہے؟
شمیم حنفی کا طریقۂ فکر زائیدہ ہے خود رائی کا، جو خود اعتمادی سے قدرے مختلف چیز ہے، کہ خودرائی نانچت، پُرنخوت ذہن سے پیدا ہوتی ہے جبکہ خود اعتبادی پختہ منکسر مزاج ذہن کی صفت ہے۔ یہ توقع کہ شمیم حنفی کسی کی بات کو کشادہ ذہن سے سمجھنے کی کوشش کریں عبث ہے؛ چنانچہ وہ حالی کی بات کو سمجھتے ہی نہیں، یا سمجھتے ہیں تو غلط سمجھتے ہیں یا اپنے مقصد کے لیے اسے غلط معنی پہناتے ہیں۔ مثلاً ان کا یہ اقتباس دیکھیے :
محض خیال پرستی شاعرانہ انفرادیت کی سب سے بڑی دشمن ہے لیکن ’’مجموعۂ نظم حالی‘‘ کے دیباچہ میں جدید شاعری کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے حالی نے اسی خیال پرستی میں جدید شاعری کے میلان کا سراغ لگایا ہے اور لکھتے ہیں کہ ’’یہ تحریک خوش قسمتی سے ایسے وقت میں ہوئی جب اردو زبان میں مغربی خیالات کی روح پھونکی جارہی تھی۔ لٹریچر میں بہت سی کتابیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہوگئی تھی اور ہوتی جاتی تھیں۔ دیسی اخباروں میں بھی جن میں سے سائنٹفک سوسائٹی علی گڈھ کا اخبار خصوصیت کے ساتھ ذکر کے قابل ہے، اکثر انگریزی آرٹکلوں کے ترجمے ہونے لگے تھے۔
پہلی بات تو یہ کہ دنیاے ادب میں خیال پرستی جیسی کوئی چیز نہیں؛ کوئی شاعر زندگی بھر کسی ایک خیال کی پرستش نہیں کرتا۔ خیال پرستی کی بات جانے دیجیے، آئیڈیولوجی یا مخصوص نظامِ افکار کی پیروی بھی شاعرانہ انفرادیت کی دشمن نہیں، کہ فیض، مخدوم، سردار جعفری، جاں نثار اختر، سب کا رنگِ سخن منفرد ہے۔ جو چیز انفرادیت کو ابھرنے نہیں دیتی وہ شعری روایت کا غلبہ یا کسی طاقتور شاعر کے رنگِ سخن کا شدید اثر یا خود شاعر میں اجتہادی صلاحیت کا فقدان اور اسی نوع کے دوسرے اسباب ہوتے ہیں۔ خیالات کی شاعری کے باوجود پوپ اور اقبال بڑے شاعر ہیں اور بہت منفرد۔ پھر شاعر کا عمل ’’تراشیدم، پرستیدم، شکستم‘‘ کے اصول پر ہوتا ہے، محض پرستش پر نہیں ہوتا۔ خیالات میں اسے دلچسپی ہوتی ہے لیکن خیالات بھی اس کی شاعری میں خام مواد کے طور پر ہی کام کرتے ہیں۔ لیکن یہ پوری بحث حالی کے محولہ بالااقتباس سے غیر متعلق ہے کیوں کہ مغربی خیالات کی روح پھونکنے کے معنی شعر و ادب، تنقید و فلسفے میں مغربی ادب سے استفادہ ہے، ورنہ دیسی اخباروں اور سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ کے اخبار میں جن انگریزی آرٹکلوں کے ترجمے شائع ہوئے ہوں گے وہ مختلف علوم پر مبنی ہوں گے، اور حالی تو کیا کوئی بھی نقاد اتنا بے وقوف نہیں ہو سکتا کہ یہ کہے کہ ان خیالات کو نظم کرنا چاہیے۔ جہاں تک جدید تنقید کا تعلق ہے ہم نے تو استفادے پر بھی قناعت نہیں کی بلکہ صاف سرقہ وتوارد سے کام لیا ہے۔ شمیم حنفی نے بھی اپنی چار سو صفحات کی کتاب میں مغربی خیالات کی ایسی تو روح پھونکی ہے کہ اردو تنقید اور اردو ادب سے کتاب کا تعلق بس واجبی ہی سا رہ گیا ہے۔ کم از کم حالی نے شمیم حنفی کی طرح خیالات کی کوئی ایسی فہرست تیار نہیں کی جو ایک مخصوص ذہنیت کی تشکیل میں تبلیغی پمفلٹ کے فرائض انجام دے۔ انھوں نے تو ایک عام حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا کہ علم و ادب، سائنس اور تمدّن کے متعلق مغربی خیالات کا اثر و نفوذ ہندوستان میں ہو رہا ہے۔ ان کے خیال کی ایسی تاویل کہ حالی شاعری میں خیالات کو اہمیت دیتے تھے، غلط ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دیتے تھے، جس طرح گوئٹے، اقبال، پوپ اور دوسرے بے شمار بڑے شاعر دیتے تھے؛ لیکن محولہ بالا اقتباس اس خیال کا حامل نہیں۔ حالی انگریزی کتابوں کے ترجموں، دیسی اخباروں میں مضامین کے ترجمے وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ سب علم و ادب کی باتیں ہیں، اور آزاد اور سرسید نے بھی یہ باتیں کی ہیں۔ لیکن شمیم حنفی حالی کو نہیں بخشتے تو بے چارے سرسید کا کیا ذکر، جو بقول انھیں کے باقاعدہ طور پر ادب کے نقاد نہیں تھے۔ چنانچہ وہ پہلے باب کے حواشی میں سرسید کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
ہماری قوم اس عمدہ مضمون نیچر کی طرف متوجہ رہے اور ملٹن اور شیکسپیئر کے خیالات کی طرف توجہ فرمائے اور مضامین عشقیہ اور مضامین خیالیہ اور مضامین بیان واقعہ اور نیچر میں جو تفرقہ ہے اس کو دل میں بٹھا لے تو ان بزرگوں کے سبب ہماری قوم کا لٹریچر کیسا عمدہ ہوجائے گا۔
اب اس قول پر شمیم حنفی کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے :
یعنی شاعری مفید خیالات کا اظہار ہے اور یہ خیالات انگریزی صندوقوں میں بند ہیں۔ ان خیالات کی بھرپور اشاعت کے لیے سرسید بھی حالی کی طرح ردیف وقافیہ اور وزن کی پابندی کو نامطبوع قرار دیتے ہیں۔
شمیم حنفی کج بحث ہیں، جھگڑالو عورت کی طرح سامنے والے کی بات سے غلط معنی اخذ کرتے ہیں۔ سرسید نے قطعی یہ نہیں کہا کہ شاعری مفید خیالات کا اظہار ہے، بلکہ وہ تو ملٹن اور شیکسپیئر کا ذکر کرتے ہیں جن کا نام تک جدید نقادوں کی تنقید میں نہیں ملتا، کیوں کہ اردو کے فارغ التحصیل نیم خواندہ طبقے نے مغربی کلاسکس کا مطالعہ ڈھنگ سے کیا ہو ایسا ان کی تحریروں سے نہیں لگتا۔ ملٹن اور شیکسپیئر کے خیالات یا ان کے مضامین یا ان کے موضوعات کی عظمت و شان کو سرسید نے نہیں شمیم حنفی نے ’’مفید‘‘ کی سطح پر گھسیٹا ہے، اور یہ حرکت انھوں نے دشمن کو نام دے کر پھانسی پر چڑھانے کے اسفل جذبے کے تحت کی ہے۔ ورنہ سر سید تو مضامین میں ’’بیانِ واقعہ‘‘ اور ’’نیچر‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو ان کے تصورات کو افادیت اور اخلاقیات کے دائرے سے نکال کر وسیع فلسفیانہ حقیقت نگاری کے دائرے میں لے جاتے ہیں۔ پھر شمیم حنفی ’’خیالات کی بھرپور اشاعت‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تاکہ ثابت ہوکہ سر سید شاعروں کو شیکسپیئر کے خیالات کے سیلزمین اور پروپیگنڈسٹ بنانا چاہتے تھے؛ حالاں کہ سر سید کی بات کا صرف یہ مطلب ہے، جو آئینے کی طرح صاف ہے، کہ ملٹن اور شیکسپیئر کے مطالعے سے ادبی شعور میں گہرائی اور گیرائی آتی ہے جس سے خود ہمارے قومی لٹریچر کے عمدہ بننے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ حالی اور سر سید صدیوں سے بند ہندوستانی ذہن کی کال کوٹھری میں روزن وشگاف ڈالنا چاہتے تھے، لیکن یہ ذہن آج بھی بند ہے اور فناٹک ہٹ دھرمی اسے دوسرے کی بات سمجھنے ہی سے باز رکھتی ہے۔ مغربی اثرات کے تحت حالی اور سر سید بدل گئے تھے، لیکن ہماری مٹی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس سے مہذب، شائستہ اور سلجھا ہوا ذہن نہیں بلکہ ملّاے مکتب کا ضدّی، کج بحث، مناظرہ باز اور اپنی صائب الرائی اور راست روشنی کے پندار میں ڈوبا ہوا وہ ذہن پیدا ہوتا ہے جو بڑے تصورات کو بھی فناٹک رویوں میں بدل دیتا ہے۔ ترقی پسندوں نے بھی یہی کیا اور جدیدیوں نے بھی یہی کیا۔ کیوں کہ زمانہ چاہے ترقی پسندی کا ہو یا جدیدیت کا، وہ ملّاہی کیا جو ہر زمانے میں اپنی ملّائیت کو برقرار نہ رکھ سکے۔
ردیف، قافیے اور وزن کے خلاف بغاوت ادب کی مستحکم ترین روایت کے خلاف بغاوت تھی، اور یہ بغاوت اخلاقی نہیں، خالص فنّی سطح پر تھی کیوں کہ ردیف، قافیے اور وزن کے مسائل اتنے تو ٹیکنیکل ہیں کہ وہ جسے قوم کا غم کھائے جاتا ہو، ان مسائل میں الجھنے کو تضیع اوقات سمجھتا ہے۔ لوگ غریبوں کی بپتا، محنت کشوں کے استحصال، فرد کی تنہائی، روحانی بحران، وجودیت کے کرب پر خامہ فرسائی کو تنقیدی فرائض سے سبک دوشی سمجھتے ہیں کہ ان مسائل پر پمفلٹ بازی کا مواد خیالات کی کتابوں میں تیار مل جاتا ہے؛ لیکن فنی محاسن و معائب کی تمیز تنقیدی بصیرت کے بغیر ممکن نہیں، جو ان کے پاس سرے سے نہیں ہوتی۔ حالی نے ردیف و قافیہ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ اس قدر مجتہدانہ ہے کہ صرف ہٹ دھرم اور خوردہ گیر ذہن ہی اس سے مرعوب ہونے سے منکر رہتاہے۔ عیب جوُ کو کوئی عیب نظر نہ آئے تو وہ سپر انداز نہیں ہوتا، عیب پیدا کرتا ہے۔ ذبح ہونے کے لیے بکرے کا عیب دار ہونا ضروری نہیں، بکرا ہونا کافی ہے۔ یہ ہماری بھی بے وقوفی ہے کہ قصّابوں کے گاؤں میں جاکر ہم قلم تراش مانگتے ہیں؛ بغدوں کے علاوہ گھر میں کوئی اوزار نہیں۔ پہلے حالی کا بیان دیکھیے :
قافیہ بھی ہمارے یہاں شعرا کے لیے ایسا ہی ضرور سمجھا گیا جیسا کہ وزن، مگر در حقیقت وہ بھی نظم ہی کے لیے ضروری ہے نہ شعر کے لیے۔ ’’اساس‘‘ میں لکھا ہے کہ یونانیوں کے ہاں قافیہ بھی (مثل وزن کے) ضروری نہ تھا اور جبشونی نام کے ایک پارسی گو شاعر کا ذکر کیا ہے جس نے ایک کتاب میں اشعار غیر مقفیٰ جمع کیے ہیں۔ یوروپ میں آج بھی بلینک ورس یعنی غیر مقفیٰ نظم کا بہ نسبت مقفیٰ کے زیادہ رواج ہے۔ اگرچہ قافیہ بھی وزن کی طرح شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے جس سے اس کا سننا کانوں کو نہایت خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور اس کے پڑھنے سے زبان زیادہ لذت پاتی ہے، مگر قافیہ اور خاص کر ایسا کہ شعرائے عجم نے اس کو نہایت سخت قیدوں سے جکڑ بند کر دیا ہے اور پھر اس پر ردیف اضافہ فرمائی ہے، شاعر کو بلاشبہ اس کے فرائض ادا کرنے سے باز رکھتا ہے۔ جس طرح صنائع لفظی معنی کا خون کر دیتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ قافیہ کی قید ادائے مطلب میں خلل انداز ہوتی ہے۔
ممکن ہے رچرڈز اور الیٹ کو اس پیراگراف کے متعلق کچھ خاص باتیں نہ کہنی ہوں، لیکن شمیم حنفی کو کہنی ہیں۔ وہ بہت سی باتیں کہتے ہیں، بے تکان کہتے ہیں، ایک ہی سانس میں کہتے ہیں۔ سانس نہیں اکھڑتا چاہے بات بگڑجائے۔ وہ لکھتے ہیں :
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالی نے اظہار کی ایک نئی جہت کی تلاش کیوں کی؟ وہ کہتے ہیں کہ ردیف و قافیہ کی قید شاعر کو اپنے فرائض کی ادائیگی سے بازرکھتی ہے۔ یعنی مسئلہ پھر فنی معیار سے ہٹ کر اخلاق کے دائرے میں اسیر ہوجاتا ہے۔
دیکھیے ’’یعنی‘‘ کے بعد حالی کی بات کو کیا معنی پہنائے گئے ہیں۔ میرا بس چلے تو سنگین کی نوک پر شمیم حنفی کو ’’یعنی‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کی ممانعت کردوں۔ شمیم حنفی کے یہاں ’’یعنی‘‘ وہ کیمیا ہے جس سے سونامٹی بنتا ہے۔ حالی کے لیے اسم سے پہلے صفت رکھنے کا معاملہ ذات وصفات کے معاملے جتنا ہی نازک تھا، کیوں کہ جس علمی ماحول میں ان کی تربیت ہوئی تھی اس میں زبان کی نگہداشت کے معنی کردار کی نگہداشت کے تھے۔ ہم تو خیر زبان استعمال ہی نہیں کرتے؛ ایک تنقیدی جار گون ہے جس کی مثال اس جامے کی ہے جس کا نہیں الٹا سیدھا۔ اب دیکھیے حالی صرف ’’شاعر کے فرائض‘‘ لکھتے ہیں اور فرائض کے آگے ’’اخلاقی اور سماجی‘‘ کی صفات نہیں لگاتے؛ یہ صفات شمیم حنفی لگاتے ہیں۔ صاف سیدھی باتوں کی الٹی سیدھی تعبیریں کرنا نہایت نازیبا حرکت ہے۔ حالی کی بات کا صرف یہ مطلب نکلتا ہے کہ وسعتِ بیان کے لیے ترکِ قافیہ غیرمستحسن نہیں۔ شاعرانہ فرائض کی تفصیل ہی بیان کرنی ہو تو میں اس طرح کروں گا کہ ڈرامائی مونولوگ، انقلابی طنزیہ نظم، یا تلازمِ خیال، سر رئیلی خواب آفرینی، یا ریل کے سفر، شہر کی شام، برسات کی رات، یا دیہاتی بازار، فساد زدہ شہر یا بوسہ بازی اور مجامعت کے بیان میں اگر قافیہ حائل ہوتا ہو تو شاعر آزاد نظم کا فارم اپنا سکتا ہے۔ آپ کہیں گے حالی کی شخصیت کے پیش نظر شاعر کے فرائض کی جو شرح میں نے کی ہے وہ غالباً حالی کے عندیے کے خلاف ہے۔ اوّل تو یہ کہ حالی کی شخصیت کو مسلمانوں نے نیک مسلمان، ترقی پسندوں نے سماجی انسان اور جدیدیوں نے ایک خشک اخلاق پسند کی صورت میں پیش کیا ہے۔ قلم اگر نادان دشمنوں کے ہاتھ میں نہیں تو دانا دوستوں کے ہاتھ میں بھی نہیں رہا۔ ذرا ذیل کے اقتباسات کو پڑھیے اور دیکھیے کہ حالی کا تصورِ شاعری کتنا وسیع تھا:
نئی طرز کی شاعری میں سوا اس کے کہ لوگوں نے جابجا مسلمانوں کے تنزّل کا رونا رویا ہے، اور مضامین کی طرف بہت ہی کم توجہ کی گئی ہے۔ حالانکہ نیچرل مضامین کا ایک وسیع اور ناپیدا کنار میدان موجود ہے جس میں ہمارے شعرا طبیعت کی جولانیاں اور فکر کی بلند پروازیاں دکھا سکتے ہیں۔
(’’مکاتیب حالی‘‘۔ حواشی، ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘، مرتبہ وحید قریشی)
انسان میں جیسا کہ ظاہر ہے ہرگز یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کو عدم محض سے وجود میں لاسکے۔ اس کی بڑی دوڑ یہی ہے کہ وہ موجودات میں سے چند چیزوں کو ترکیب دے کر اس میں ایک نئی صورت پیدا کر دے۔ پس جس طرح معمار عمارت تیار کرنے میں اینٹ مٹی اور چونے کا، یا بڑھئی ایک تخت کے بنانے میں لکڑی اور لوہے کا محتاج ہے، اسی طرح ضروری ہے کہ شاعر بھی کسی شعر کے ترتیب دینے میں کسی ایسے مصالح کا محتاج ہو جو اینٹ اور مٹی یا لکڑی اور لوہے کی طرح نفس الامر میں موجود ہو۔ وہ مصالح کیا ہے، یہی دنیا کے حالات جو روز مرہ ہماری آنکھوں کے سامنے گذرتے ہیں خواہ وہ انسان سے علاقہ رکھتے ہوں یا زمین آسمان، چاند سورج، پہاڑ اور دریا جیسی چیزوں سے یا مچھر، مکڑی اور بھنگے جیسی چیزوں سے۔ (دیباچہ دیوانِ حالی)
خوردہ گیری ہی کرنی ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ حالی میڈیم کو مواد سے خلط ملط کر رہے ہیں، لیکن حالی کے عندیے کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے مثال کو مثال ہی سمجھنا چاہیے، بیانِ واقعہ نہیں۔ واقعہ تو وہ ہے جو پیراگراف کے آخری چار جملوں میں بیان ہوا ہے : شاعری کا مصالح وہ حالات ہیں جو روز مرہ ہماری آنکھوں کے سامنے گذرتے ہیں۔ وہ حالات جو انسان سے علاقہ رکھتے ہیں، اس کی اندرونی دنیا کی داخلی کیفیات بھی ہیں اور خارجی دنیا کے واقعات بھی۔ گویا جذبات واحساسات، خیالات، ذہنی کیفیات، روحانی تجربات اور سررئیل خواب آفرینی جیسی داخلی کیفیات کے ساتھ ساتھ دیہاتی بازار، سیاسی جلوس، جنگ و فساد، انقلاب اور انسان کی سماجی زندگی کے دوسرے تمام خارجی مظاہر شاعری کا مصالح ہیں۔ پھرپوری کائناتِ فطرت ہے جو مچھر اور مکڑی سے لے کر چاند اور سورج تک پھیلی ہوئی ہے، اور انسان اس کا ایسا جزوِ لاینفک ہے کہ بقول وائٹ ہیڈیہ تک کہنا مشکل ہے کہ فطرت کہاں ختم ہوتی ہے اور انسان کہاں شروع ہوتا ہے۔ خیر چاند اور سورج اور پہاڑ اور دریا تو شاعری کے اہم موضوعات رہے ہی ہیں لیکن ساتھ ہی مچھر، مکڑی، کوئل، بلبل، گاے اور بکری، شیر اور شاہین، گویا تمام چرند پرند اور درند اور رینگنے والے جانور بھی موضوعاتِ شاعری رہے ہیں، ہمارے یہاں کم انگریزی شاعری میں زیادہ؛ اسی لیے تو ہم طنزاً کہا بھی کرتے تھے کہ انگریزی شاعری میں چڑیوں کے سوا رکھا کیا ہے۔ حالی کو اگر میں Anthology of Animal Verse میں سے نظمیں پڑھ کر سناتا تو قسم خدا کی پھڑک اٹھتے اور شاعروں کو قوی جلسوں سے پکڑ پکڑ کر چڑیا گھر کی سیر کرانے لے جاتے۔ اردو کے پہلے نقاد تھے، ہکلا ہکلا کر بولتے تھے، ورنہ بات تو انھوں نے وہی کہی جو مثلاً مغرب کے عظیم ترین نقاد کہتے آئے ہیں کہ شاعرانہ تخیل پوری کائنات کو انسانی حواس کا جزو بناتا ہے۔ اب ’’یعنی‘‘ کہہ کر معنی ہی پہنانے ہوں اور طنز کے جوہر دکھانے ہوں تو فدوی بھی کسی سے کم نہیں۔ وحید قریشی کی ہاں میں ہاں ملانا اتنا مشکل بھی نہیں کہ حالی چھوٹے کپڑوں سے شرماتے ہیں، اسی لیے انگیا کی بجائے آنگن اور لڑکی کی بجائے مکڑی کی بات کرتے ہیں۔ لیکن حالی تو صرف مصالح کا ذکر کرتے ہیں اور اشیا کے نام گناتے ہیں۔ کند ذہنوں کو سمجھانے کے لیے اشیا کو موضوعات میں میں نے بدلا ورنہ حالی موضوعات بانٹنے والے نقادوں میں سے نہیں ہیں۔ ان کے محولہ بالا اقتباس کی ایک کلاس روم تشریح یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حالی نے جن اشیا کے نام گنائے ہیں وہ نہ صرف بطور موضوع شعر کے ہی کام لگتے ہیں بلکہ شاعری کا حقیقی مواد ہیں کیوں کہ ان کے بغیر شاعرانہ تخیل کے لیے ممکن نہیں کہ تشبیہ، استعارے، شعری پیکر اور علامت کا استعمال کر سکے۔ آخر سینے کی تشبیہ گدّر انار سے دینی ہی پڑتی ہے۔ حالی مختلف النوع اقسامِ شعر جو ان کے تجربے میں آئے تھے، سب کے دلدادہ تھے۔ صرف خیالی طوطا مینا اڑانا انھیں پسند نہیں تھا۔ ان کا رویہ شاعری کو زیادہ ٹھوس بنانے کا تھا۔ صاف بات یہ ہے کہ نظم میں جب پہاڑ آئے گا تو نظم ٹھوس ہی بنے گی؛ تو مطلب صرف یہ نہیں کہ پہاڑ پر نظم لکھی جائے، بلکہ پہاڑ اور دریا، چاند اور سورج کا استعمال تشبیہ، استعارے، شعری پیکر اور علامت میں کیا جائے۔ اب اس بات پر تو پوری جدید تنقید کا زور صَرف ہوا ہے کہ استعارہ اور امیج تجریدیت کا تریاق ہے۔ استعارے اور امیج سے شاعری میں اشیا کا عمل دخل ہوتا ہے اور شاعری زیادہ ٹھوس اور محسوس بنتی ہے۔ مجرد خیالات کی شاعری عموماً تجریدی ہوتی ہے اور استعاراتی، پیکر سازانہ علامتی اسلوب کی بجائے ایسے شعری ڈکشن کا استعمال کرتی ہے جس میں محسوس اشیا کی شبیہوں کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے۔ ٹھوس پن کی عدم موجودگی میں شاعری کے موہوم بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اور vague شاعری خراب شاعری ہوتی ہے، کیوں کہ الفاظ اشیا سے دور ہونے کے سبب محض تجربے کا التباس، خیال کا چھلاوا اور جذبے کا فریب پیدا کرتے ہیں، یعنی وہی بات کہ مضامین کے طوطا مینا اڑاتے ہیں۔
شمیم حنفی کا سانس ابھی اُکھڑا نہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
حالی یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ قافیہ وزن کی طرح شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے اور حواس کو اس سے لذت ملتی ہے، لیکن ذوقِ جمال کی آسودگی محض ان کے نزدیک فن کا منصب نہیں، گویا شاعر کے فرائض کی حد فن سے آگے شروع ہوتی ہے۔
دیکھیے، حالی شاعر کی بات کر رہے تھے، شمیم حنفی قاری کی بات لے بیٹھے۔ تخلیقِ شعر کے وقت شاعر کے سامنے قاری کا مسئلہ ہوتا ہی نہیں۔ شاعر تو سوچے گا کہ قافیہ قدغن ہے۔ تو برہم زن لوگوں کو پابند نظمیں پسند نہیں تو کہیں اور تلاش کریں۔ یہی تو شاعر کی انفرادیت ہے جس پر شمیم حنفی لن ترانیاں کرتے ہیں، لیکن یہاں شاعر کو قاری کا اسیر بناتے ہیں۔ حالی قافیے کے خلاف نہیں لیکن قافیے کو پاؤں کی بیڑی بنانا نہیں چاہتے۔ شمیم حنفی حالی کی صحیح باتوں کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں۔ وہ ہانپ رہے ہیں لیکن حالی کا گریبان نہیں چھوڑتے۔
لیکن غیر مقفیٰ نظم کی روایت کا یہ مقصد تھا ہی نہیں کہ شاعر کو ادائے مطلب میں آسانیاں فراہم کی جائیں۔ حالی نے ہیئت کے جدید تجربے کی حمایت میں اس تحریک کے اصل تقاضوں کو نظر انداز کر دیا اور اس سے غلط معنی اخذ کیے۔
غلط معنی حالی نہیں، شمیم حنفی اخذ کر رہے ہیں، کیوں کہ ہیئت کا ہرنیا تجربہ ان دشواریوں پر قابو پانے کی کوشش ہوتا ہے جو بدلے ہوے حالات میں شاعری کی تبدیل شدہ نئی ہوش مندی کے اظہار میں حائل ہوتی ہیں۔ حالی کے اقتباس میں آسانی کا لفظ کسی بھی جگہ استعمال نہیں ہوا؛ یہ لفظ شمیم حنفی استعمال کر رہے ہیں، اور غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اگر کرنا ہی تھا تو انھیں سہولت کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ مثلاً جب سائنس داں کسی مشکل اور پیچیدہ تجربے کے لیے تجربہ گاہ کی سہولتیں مانگتا ہے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ آسانیاں ڈھونڈ رہا ہے۔ حالی تو اپنی بات نہایت موزوں الفاظ میں ادا کرتے ہیں کہ ’’جس طرح صنائع لفظی معنی کا خون کردیتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ قافیہ کی قید ادائے مطلب میں خلل انداز ہوتی ہے۔ ’’حالی کا پورا ’’مقدمہ‘‘ آسان شاعری کے خلاف بغاوت ہے جو انھوں نے نہیں بلکہ ان کے زمانے کے تک بند غزل گو شاعروں نے کی ہے۔ اور شمیم حنفی فن کا ڈنڈا بہت اچھالتے ہیں لیکن انھیں جاننا چاہیے کہ فارم کی تبدیلی کے پیچھے صرف فنی تقاضے کام نہیں کرتے بلکہ، جیسا کہ ڈبلیوپی کیر اور الیٹ نے بتایا ہے، ان تبدیلیوں کے پس پشت زبردست تاریخی اور معاشرتی طاقتیں سرگرم عمل ہوتی ہیں۔ پہلے شاعری گائی جاتی تھی۔ جب مغنّی اور سارندے شاعر سے ہاتھ ملا کر رخصت ہوئے اور پرنٹنگ پریس کا کارندہ شاعر کے دروازے پر دستک دینے لگا تو غنائی شاعری کی ہیئت بدل گئی، کیوں کہ اب وہ گانے کی نہیں، پڑھنے کی چیز بن گئی۔ فکشن کا رومان سے ناول کی طرف سفر تاریخ کے اس سفر کے متوازی ہے جو اس نے سامنتی کال سے بورژوا تمدن کی طرف کیا ہے۔
شمیم حنفی لکھتے ہیں :
قومی تعمیر اور سماجی افادیت کے طلسم نے حالی کی جذباتی کشمکش اور داخلی ہیجان کو پس پشت ڈال دیا اور ان کی ذات ان کی اجتماعی کائنات کا حصہ بن گئی۔ انھوں نے اپنی انفرادیت یا ذات کو معاشرے کا مرکز سمجھنے کے بجائے خود معاشرے کی مرکزیت کو ایک سماجی قدر کے طور پر تسلیم کیا۔
ممکن ہے شمیم حنفی یہ بات تسلیم نہ کریں کہ رند، صبا، وزیر کی مزے دار شاعری کی بجائے اُبالی کھچڑی جیسی شاعری کرنا کسی زمانے میں انفرادیت کی دلیل ہو سکتی ہے؛ میں تو سمجھتا ہوں کہ ریلوے پلیٹ فارم جب عجیب و غریب ملبوسات پہنے ہوئے ہپّیوں سے بھرا ہو تو کسی ایک آدمی کا شیروانی کے تمام بٹن بند کر کے اور گلے میں مفلر ڈال کر گذرنا اس کی انفرادیت ہی کی دلیل ہے کہ وہی سب سے الگ نظر آتا ہے۔
نقاد کو چاہیے کہ شاعر کا نہیں شاعری کا مطالعہ کرے کیوں کہ شاعر کی شخصیت کبھی مکمل طور پر بے حجاب نہیں ہوتی، حتیٰ کہ اس کی شاعری بھی اس کی حقیقی شخصیت کا نہیں صرف شاعرانہ شخصیت کا مبہم بیان ہوتی ہے۔ شمیم حنفی کوکیسے پتا چلا کہ حالی میں ایک داخلی کشمکش اور جذباتی ہیجان بھی تھا جو ان کی قومی تعمیر وغیرہ کے طلسم کے سبب پس پشت چلا گیا؟ ایسی بات شاعری اور نجی زندگی کے شواہد کے بغیر کہنا درست نہیں۔ جدیدیوں کا یہ خیال کہ شاعر کے کوئی سماجی قومی سیاسی سروکار ہو ہی نہیں سکتے اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ ترقی پسندوں کا یہ خیال کہ سماجی سروکاروں کے علاوہ شاعر کے کوئی شخصی، یا جذباتی یا روحانی مسائل نہیں ہو سکتے۔
شمیم حنفی سمجھتے ہیں کہ شاعر کے سماجی یا سیاسی سروکار اس میں داخلی ہیجان یا جذباتی کشمکش پیدا ہی نہیں کر سکتے، حالاں کہ ہیجان اور کشمکش کے الفاظ ہی خارج محرک اور داخلی عمل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اقبال، سارتر، کامیو کا ادب ہی سامراج، جنگِ عظیم اور فاشزم کا پیدا کردہ ہے۔ کیا فسادات سے شاعر کے دل میں داخلی ہیجان پیدا ہوتا ہے؟ یہ تو میں آج کی بات کر رہا ہوں جب فرد اور سماج میں اتنا بُعد پیدا ہوچکا ہے کہ سوائے اجتماعی بہیمیت کے ہاتھوں اپنی مرگِ ناگہاں کے فرد سماج سے کوئی توقعات وابستہ نہیں کر پاتا۔ حالی کے زمانے میں ایسی معاشرت نہیں تھی۔ اب رہا ذات کو معاشرے کا مرکز سمجھنا تو یہ نرگسیت کے مارے ہوئے نوخیز لونڈوں کا کام ہے۔ ذات کو اجتماعی کائنات کا حصہ بنانا تو اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ صرف گنے چنے لوگوں کے نصیب میں ہی یہ سعادت آئی ہے۔
الیٹ نے ایک جگہ کہا ہے کہ بن جانسن پر تنقید کرتے وقت نقاد کو چاہیے کہ خود کو ذہنی طور پر بن جانسن کے لندن میں پہنچا دے، نہ یہ کہ بن جانسن کو اپنے زمانے کے لندن میں کھینچ لائے۔ اس نکتے سے عدم واقفیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ہمارے زمانے کے مسائل اور ان کا حل حالی کے یہاں تلاش کرتے ہیں، اور جب مایوس ہوتے ہیں تو حالی پر غصہ اتارتے ہیں۔ چنانچہ شمیم حنفی لکھتے ہیں :
انیسویں صدی کے مذہبی یا سماجی مصلحوں میں کوئی بھی جذبہ و عقل کے تصادم کی پیدا کردہ افسردگی سے دوچار نظر نہیں آتا۔
صاف بات ہے کہ جب آدمی تصادم کو توازن میں بدل دے تو افسردگی نہیں بشاشت اور ولولہ خیزی پیدا ہوتی ہے۔ ان مذہبی اور سماجی رہنماؤں کو جو زمانہ ملا تھا وہ مشرقی اور مغربی اقدار کے تصادم کے سبب اپنا توازن گنوا بیٹھا تھا۔ انھیں ایک نیا توازن پیدا کرنا تھا، جو انھوں نے کیا۔ ہمارا زمانہ اقدار کی شکست و ریخت کا زمانہ ہے؛ ہم اگر نیا توازن پیدا نہیں کرپائے تو ہمیں حق ہے کہ پیٹ بھر کر افسردہ رہیں۔
شمیم حنفی کو ہندوستانی نشأۃ الثانیہ سے یہ شکایت ہے کہ اس نے روحانیت، سرّیت اور نجات کی بجائے مادّیت، عقلیت، اخلاقیات اور ہیومنزم پر کیوں زوردیا۔ اسی لیے وہ بیواؤں کی شادی، ستی کے انسداد، داشتاؤں اور زیادہ شادیوں کی رسم کے خاتمے سے بھی بہت خوش نظر نہیں آتے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
ظاہر ہے کہ یہ تمام کوششیں عقیدے سے انسلاک کے باوجود ایک طبعی دائرے میں گردش کرتی ہیں۔ ان میں جس رشتے کا احساس غالب نظر آتا ہے وہ مادی ہے مابعد الطبیعاتی نہیں، اس لیے انھیں تعقل کی تائید حاصل ہے۔ لیکن غیر عقلیت کا عنصر قدم قدم پر تعقل کے سفر میں مزاحم ہوتا ہے۔
کیسی احمقانہ باتیں ہیں ! تھیولوجی اور علمِ کلام فلسفۂ مذہب ہے اور ہر فلسفے کی مانند اس کی بنیاد عقل و منطق پر ہے۔ گویا شروع ہی سے غلط عقائد، غلط رسوم اور غلط بدعتوں کی اصلاح کے لیے مذہب عقل و منطق کی مدد لیتا رہا ہے۔ اندھی عقیدت کی سطح پر تو سَتی اور بچوں کی قربانیاں بھی ارکانِ مذہب میں شمار ہوتی ہیں۔ غلط رسوم اور بدعتوں کو حقیقی مذہب سے الگ کرنے کے لیے انسان کے پاس سوائے تعقل کے کون سا راستہ ہے؟ سرّیت تو گھناؤنے جرائم کا نقاب بن سکتی ہے، اور بنی ہے۔ بھلا ستی کی رسم کے انسداد سے ہندودھرم کی روح کو کیا نقصان پہنچا ہے؟ ویدانت روحِ مذہب ہے، اور ویدانت تمام تر فلسفہ ہے جو عقائد پر نہیں عقل و منطق پر قائم ہے۔ علمِ کلام کی بنیاد بھی سرتاسر عقل و منطق پر ہے، اور اسلام کی ہربڑی اصلاحی تحریک اپنا علم کلام آپ لے کر آئی ہے اور الہیات اور مابعد الطبیعیات سے لے کر اخلاقیات اور غلط رسوم و بدعتوں کے لیے عقل کی کسوٹی کا استعمال کیا ہے۔ اسلام کی آخری بڑی اصلاحی تحریک سر سید احمد خاں کی تھی جنھوں نے ایک نئے علم کلام کی بنیاد رکھی۔ سر سید کی اہمیت کو علمائے دین کم کرتے ہیں جو اجتہاد پر زور دیتے ہیں لیکن اجتہاد کر نہیں پاتے؛ فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کے خواہشمند ہیں لیکن ان کی مساعی کا انجام نئی قدامت پرستی اور fundamentalism کے سوا اور کیا نکلا ہے؟ سر سید کے لائے ہوئے سماجی، اخلاقی، تعلیمی اور مذہبی انقلاب نے وہ مہذب، شائستہ اور روشن خیال دانشور پیدا کیا جو مشرق و مغرب کی صالح ترین روایات کا وارث بنا۔ اس کی جگہ اب اس طبقے نے لے لی ہے جو تنگ نظر، متعصب، قدامت پسند اور فرقہ پرست ہے اور انسان دوست اقدار سے تہی دامن ہے۔ وہ سیاسی آمروں کا ہتھکنڈا اور اقتدار پسندوں کا کاسہ لیس ہے۔ دارو رسن، سنگساری، سرِ عام مجرموں پر کوڑے برسانا، مذہبی اقلیتوں کی تکبیر، تہذیبی سرگرمیوں کا احتساب، آزادی رائے پر پابندی اور عورتوں پر سختی اس کے وہ بہیمانہ مشاغل ہیں جو مذہب کے نام پر روا رکھے گئے ہیں۔
راجہ رام موہن رائے نے ستی کی رسم کا خاتمہ کیا، داشتاؤں اور زیادہ شادی کی رسم کو نابود کیا، بیواؤں کی شادیاں کرائیں۔ حالی نے ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ لکھی۔ گاندھی جی نے وِدھوا وِواہ اور اچھوت ادھار کا کام کیا۔ کچھ تو انسانی مسائل حل ہوئے۔ گو آدمی کے اندر جو ایک خبیث بیٹھا ہوا ہے وہ آج بھی رام نہیں ہوا۔ بیوہ کا شباب اور ہریجنوں کی جھونپڑیاں بدستور جلتی ہیں۔ آج کے آدمی کا مسئلہ روحانیت کا نہیں اندرونی خباثت کا ہے جسے اگر گیتا اور قرآن، وید اور انجیل بھی دور نہیں کر سکے تو بے چاری ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ کیا کرتی۔ اگر گیتا اور قرآن ہمارے روحانی اضطراب کا مرہم نہیں تو شکایت راجہ رام موہن رائے اور الطاف حسین سے نہیں، خدا سے کرنی چاہیے کہ وہ ایک اور کتاب لکھے۔ یا تو راشد کی طرح خدا سے کہنا چاہیے کہ وہ اپنے نہ ہونے کا اعلان کرے تاکہ انسان، جو ’’گماں کا ممکن‘‘ ہے، انسانی سطح پر جینا شروع کرے اور ’’لا‘‘ کے معنی پائے، یا پھر خدا کی تلاش میں ہمالہ کا رخ کیا جائے یا مہارشی کے آشرموں کا۔ لیکن یہ عام انسانیت کا مسئلہ نہیں ہے۔ عام انسانیت کا مسئلہ تو انسان کے ظلم کا ہے جو لاکھوں پیغمبروں اور اوتاروں کے نزول کے باوجود جہاں تھا وہیں رہا۔ ان کے لائے ہوئے مذہب کا استعمال بھی آدمی اپنی خبیثانہ کام جوئی، حرص آزاور طاقت و اقتدار کے لیے کرتا رہا۔ مذہبی رہنماؤں نے غیر منصفانہ سماج کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ کلیسائی اسکول حبشیوں کے پاس سے وصول کیے گئے جابرانہ محصول کا نوّے فیصدی حصہ سفید فام بچوں پر اور دس فیصدی حصہ حبشی بچوں پر خرچ کرتے رہے۔ مذہب ہی کے نام پر چھوت چھات کا بازار گرم رہا۔ اور آج بھی معمولی گناہوں کے لیے بہیمانہ سزائیں شہری جشن اور دلچسپ تماشے کی کشش رکھتی ہیں۔ سیاسی سَنت گایوں پر اتنے مہربان ہیں کہ آدمی سوچتا ہے کہ اگلے جنم میں اگر وہ گائے بنے تو کم از کم فسادات میں کتّے کی موت مرنے سے بچ جائے گا۔ مذہبی رہنماؤں نے نہ صرف سماجی نا انصافی، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کو برداشت کیا بلکہ ان کے ساجھے دار بھی رہے، اور آج بھی ہیں۔ سب سے زیادہ خوں ریزی بھی مذہب ہی کے نام پر ہوئی ہے آدمی کو سمجھنے کے لیے اور اس کے اندر کے حیوان کو زیر کرنے کے لیے مذہب کے دائرے سے نکلنا ہی پڑتا ہے اور آدمی کے اخلاقی، سیاسی اور سماجی مسائل کو انسانی سطح پر حل کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں چارلس ڈکنز، الطاف حسین حالی اور راجہ رام موہن رائے کی شخصیت ایک مذہبی آدمی کی شخصیت سے بلند ہوجاتی ہے۔
جب عقیدے اور عمل میں گھمسان کا رن پڑا ہو تو پانی پت میں ٹکے رہنا الطاف حسین کی آزمائش ہے، ورنہ خانقاہ کا راستہ بھی کھلا ہوا ہے اور مذہبی مفاہمت کا بھی۔ دنیا میں ان مہارشیوں کی کمی نہیں رہی جو سٹّے بازوں کے سامنے روحانیت کا فلسفہ بگھارتے ہیں، اور ان خدّامِ مذہب کی بھی جو مدرسوں اور مسجدوں کے لیے اسمگلروں سے چندہ وصول کرتے ہیں۔ اخلاقیات کو مذہب سے الگ کر دیجیے تو مہارِشیوں کی رنڈی بازیاں اور سجادہ نشینیوں کی لونڈے بازیاں، کالے بازاریوں کی پوجاپاٹ اور اسمگلروں کی چڑھاوے اور چراغیاں سبھی کی گاڑی چلتی رہے گی۔ عیاشی رتی کریڈا میں شمار ہوگی اور لوگ عیاری کے معنی تک بھول جائیں گے۔ سنیاسیوں کے آشیرواد سے سنساری لوگ اپنے لوٹ کھسوٹ کا کاروبار جاری رکھیں گے اور کلیسائی دعائیں ان فاشی عقابوں کو طاقت پرواز عطا کریں گی جو انسان پر عرصۂ حیات تنگ کرنے والے ہیں۔ جب کعبے ہی سے کفر اٹھے، جب دھرم ہی سے دھاڑ پڑے، جب مذہب ہی سفاکی کا سرچشمہ بنے، تو ضرورت آدمی میں مذہبیت کو جٹانے کی نہیں انسانیت پیدا کرنے کی ہوتی ہے۔ حالی انسان کو رحم دل، شفیق اور ایثار نفس بنانا چاہتے ہیں۔ مذہب بھی اپنے وسیع معنوں میں یہی چاہتا ہے، جیسا کہ رومی اور کبیر کی شاعری سے ظاہر ہے۔ لیکن رومی اور کبیر علمائے دین اور دھرم شاستریوں سے مختلف آدمی ہیں۔ وہ تو آدمی کے باطن کو بدلنا چاہتے ہیں۔ اگر آدمی اندر سے نہیں بدلتا تو مذہبی رہنماؤں کو غم نہیں؛ وہ تو اس کی عقائد پرستی اور کریاکرم سے خوش ہولیتے ہیں۔ پھر تو سبحہ و زنّار ہی کرداروں کی کسوٹی بنتے ہیں، رسم پرستی اور ظاہرداری کے دروازے کھل جاتے ہیں، ذات کی شناخت اور باطنی طہارت کی بجائے ظواہر کی پابندی مذہبی فرائض سے سبک دوشی کا بہانہ بنتی ہے۔ بہو پر ستم کے پہاڑ توڑنے والی ساس کے ہاتھ میں مالا کا جاپ مسلسل جاری رہتا ہے۔ مذہبی تادیب کے نام پر سخت گیر باپ بچوں پر ظلم و ستم روا رکھتا ہے اور انہیں جان پاتا کہ ممکن ہے مذہب نقاب ہو اس کی اقتدار پسندانہ آمرانہ شخصیت کا۔ ایک دھرم کرم کا پابند سفّاک شوہر سمجھتا ہے کہ کیا ہوا اگر بیوی ناخوش ہے، خدا تو اس سے خوش ہے۔ عموماً آدمی کو پتا نہیں ہوتا کہ اس کے اعمال کے پیچھے کون سی تاریک جبلّتیں کام کرتی رہتی ہیں۔ ذات کو سمجھنا مشکل ہے، عقائد کو اپنانا آسان ہے۔ اندر کی آگ میں جلنا مشکل ہے، ہون میں گھی جلانا آسان ہے۔ لیکن یہ تو اندر کی آگ ہوتی ہے جو کوئلے کو ہیرا بناتی ہے۔ اسی لیے تو مذاہب کی بنیادی تعلیم یہی ہے کہ ذات کا عرفان حاصل کرو۔ لیکن وہ جو سگِ دنیا ہے مذہب بھی اس کے منھ میں چچوڑی ہوئی ہڈی ہے۔ وہ زکوٰۃ دیکر مطمئن ہوجائے گا کہ ایک دینی فرض ادا ہوا، چاہے اس کی دولت نتیجہ ہو سماج اور انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم کا۔ حالی کو ایسا آدمی قبول نہیں، کیوں کہ شاعر وادیب ہونے ہی کے ناتے وہ اردو اور فارسی شاعری کی ایک طاقتور انسان دوست روایت کے وارث تھے۔ مذہبی آدمی کو نجات، مُوکش اور نروان کی فکر ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک صرف عقائدِ صالحہ ہی اعمالِ صالحہ کی ضمانت اور کسوٹی ہیں۔ اس کے نزدیک اگر سماج اچھا نہیں تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ مذہب پر کاربند نہیں؛ حالاں کہ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ کوئی بھی معاشرہ مکمل طور پر مذہبی معاشرہ نہیں رہا، نہ ہی مذہبی معاشرہ ہمیشہ انسانی نا انصافیوں اور اخلاقی برائیوں سے پاک رہا۔ یہی وجہ ہے کہ حالی سماجی اور انسانی مسائل پر غور کرتے وقت خالص مذہبی نقطۂ نظر نہیں اپناتے۔ سماجی مسائل کے وہ سماجی حل ہی تلاش کرتے ہیں اور انسانی مسائل کو وہ انسانی سطح پر سلجھاتے ہیں۔ وہ خود ایک خدا ترس مذہبی آدمی تھے، لیکن مذہب کو انھوں نے ایک آئیڈیولوجی میں نہیں بدلا۔ ایک ایسے سماج میں جس پر مذہب کا گہرا اثر ہو، ایک مذہبی آدمی کے لیے انسان کی انسانیت کو اس کے اعمال کی کسوٹی بنانا عدم مفاہمت کی طرف پہلا قدم ہے۔ انسانی شخصیت کی پرکھ کے لیے ایک ایسی اخلاقی کسوٹی کی تلاش جو مذہب کے خلاف نہ ہو لیکن خالصاً مذہبی بھی نہ ہو، حالی کے لیے ناگزیر تھی۔ شاعری کرنے کا مطلب ہی تخیل کی آنکھ کھولنا، ظاہر و باطن، دکھاوے اور حقیقت کے فرق کو پہچاننا، موروثی اور مروجہ اخلاقیات کے فریب کو توڑنا، اور نئی قدروں کو انسانی اعمال کی کسوٹی بنانا۔ اخلاق پسندی نہ حالی کی مجبوری تھی نہ تکیہ، بلکہ ان کا مقدّر تھا۔ خدا سے اپنا عہد وپیمان استوار کرنے کے بعد حالی انسانوں کی بستی میں لوٹ آتے ہیں؛ اسی لیے ان کا لبرل ہیومنزم مذہبی نہیں، گو مذہب اس کا ایک اہم جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی مسائل پر ایک سماجی آدمی کے طور پر سوچ بچار کرتے ہوئے انھیں اپنے عقائد کو کھنگالنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ خواجہ غلام الثقلین نے حالی کو ’’ایک صاحبِ باطن ولی ’’غلط نہیں کہا۔ وہ صوفی نہیں تھے لیکن صوفی منش ضرور تھے۔ روحِ مذہب ان میں حلول کر گئی تھی اور ان کی ذات اعلیٰ ترین درویشانہ صفات کا آئینہ بن گئی تھی۔ اس ذات کا سب سے اہم عنصر انسانی دردمندی ہے۔ ’’مناجات بیوہ‘‘ کی امتیازی صفت اس کا انسانی آہنگ ہے۔ اگر وہ یہ کہتے کہ بانیِ اسلام نے بیوہ کی شادی کی اجازت دے کر انسانیت پر کتنا بڑا احسان کیا ہے تو ان کی بات سے وہ لوگ خوش ہوتے جو اپنے مذہب کی تعریف سن کر اپنے پندار کی تسکین کرتے ہیں۔ ایک انسانی مسئلہ مذہبی فخر ومباہات کے رویے میں بدل جاتا۔ لیکن حالی ہر بڑے شاعر کی طرح پندار کو پوسنے والے نہیں بلکہ توڑنے والے شاعر ہیں۔ وہ نظم میں ایک انسانی صورت حال کا نہایت حقیقت پسندانہ اور دردمندانہ نقشہ کھینچ کر ہمارے انسانی جذبات میں تلاطم پیدا کرتے ہیں اور ہمارے عادی مذہبی رویوں میں خلل ڈالتے ہیں۔
’’مناجاتِ بیوہ‘‘ پر عسکری نے جو خوبصورت سا مختصر مضمون لکھا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں :
حالی کی شاعری کا مخصوص حسن، رچاؤ، گھلاوٹ، دل گیری، یہ سب باتیں اس ایک بات سے پیدا ہوئی ہیں کہ ان کی نظر انسانی دنیا سے باہر نہیں جاتی۔ خوب سے خوب ترکی تلاش میں وہ مطلقات یا اعیان کی دنیا میں نہیں جا پہنچتے بلکہ اسے انسانی زندگی، انسانی فطرت اور انسانی تعلقات کی رنگارنگی اور پیچیدگی میں ڈھونڈتے ہیں۔ حالی کی طبیعت متصوفانہ یا ماورائی لگن سے بالکل عاری تھی۔ ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ کے پہلے تین صفحوں سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایک مطلق اور مجرد تصور کی حیثیت سے وہ خدا پر غور نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے لیے خدا سے مراد تھی خدا اور انسان کا درمیانی رشتہ۔ خدا کے خالص وجود کا ادراک حالی کے بس کی بات نہیں تھی۔ انھیں تو اس وجود کے اس پہلو سے زیادہ مناسبت تھی جو انسان سے تعلق رکھتا ہے اور انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ میں انھوں نے خدا کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ایک مہربان گو ذرا سخت گیر باپ کے تصور سے زیادہ قریب ہے۔
حالی کی شخصیت کا یہ خوبصورت تجزیہ ان کی مذہبی انسان دوستی اور انسان دوست مذہبیت کا نقش واضح کرتا ہے۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ روشن خیالی کی اس روایت کو، جسے شیخ محمد اکرام اور عزیز احمد، احتشام حسین اور آل احمد سرور نے برقرار رکھا اور سر سید اور حالی کی صحیح قدروقیمت پہچانی، اسے ہندوپاک کے مذہب و سیاست زدہ نئے دانشوروں نے اپنی قدامت پرستی اور فناٹسزم کی بلی پر بھینٹ چڑھادیا۔ گاندھی افریقہ میں انگریزوں کا مکروہ چہرہ دیکھ آئے تھے، لیکن یہ وہ چہرہ نہیں تھا جسے سرسید، راجہ رام موہن رائے اور ان کے جانشینوں نے دیکھا تھا۔ گجرات میں نہاتالال اور بلونت رائے ٹھاکر اور بنگال میں ٹیگور خوش نہیں تھے کہ گاندھی جی گوکھلے کے لبرلزم کو چھوڑ کر تلک واد کو اپنا رہے تھے۔ انھیں خوف یہی تھا کہ عدم تعاون تحریک سے مشرق و مغرب کے بیچ دیوار چین کھڑی ہوجائے گی۔ کوی نہانالال نے تو بمبئی یونیورسٹی کے قیام کو ایک عظیم تہذیبی واقعہ گردانا تھا۔ یہ سب لوگ بڑے شاعر اور بڑے ادیب تھے، یعنی کلچر کے آدمی تھے، اور انگریزوں کے آنے کے بعد اس سرزمین میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں انھیں وہ سیاسی آدمیوں کے مقابلے میں بہتر طور پر سمجھ سکتے تھے۔ بلونت رائے ٹھاکر تو نہ صرف بہت بڑے شاعر اور نقاد تھے بلکہ تاریخ کے پروفیسر بھی تھے۔ گاندھی جی کو ہمیشہ ’’بھائی موہن‘‘ کہہ کر خط لکھتے اور گاندھی جی خوش ہوجاتے کہ کم ازکم ایک آدمی تو ہے جو انھیں مہاتما کی بجائے بھائی کہہ کر خطاب کرتا ہے۔ بلونت رائے ٹھاکر گاندھی جی کی تحریک کے حامی نہیں تھے، اور ان کے نقطۂ نظر میں تبدیلی صرف دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہوئی جب کہ پوری دنیا کی فضا بدل گئی تھی۔ ۱۹۴۶ء میں انھوں نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا ’’چوپاٹی کی بنچ پر‘‘۔ اس نظم میں شاعر سوچتا ہے کہ انگریزوں کے آنے سے ایک نئے ہندوستان نے جنم لیا، ان کے جانے کے بعد ایک دوسرا ہندوستان جنم لے رہا ہے؛ اور شاعر سوچتا ہے کہ اس نئے ہندوستان میں کون سی طاقتیں زور پکڑیں گی۔۔۔ روشن خیالی، حریتِ فکر، عقلیت پسندی اور انسان دوستی کی یا قدامت پرستی، احیا پسندی، تنگ نظری اور قوی تعصّب کی۔
کہنے کا مطلب یہ کہ دانشوروں کا تاریخ اور معاشرے کا تصور سیاسی آدمی کے تصور سے مختلف ہوتا ہے۔ جمال الدین افغانی نے اگر سر سید کو ’’انگریزوں کا ’’کتّا‘‘ کہا تھا تو ایسے کتّے ہندوستان کی تمام علاقائی زبانوں میں بھونک رہے تھے۔ سلیم احمد جب فیلڈمارشل ایوب خان کے حلقہ بگوش بنے تو انھوں نے مضمون لکھا : ’’آزادئ رائے کو بھونکنے دو‘‘۔ حالی ’’حیاتِ جاوید‘‘ میں آزادیِ رائے پر اس طرح سوچتے ہیں :
جس ملک میں جو فرقہ برسر حکومت ہوا، اس ملک میں ہمیشہ اسی فرقہ کے مذہب نے رواج پایا۔ باقی تمام فرقے مضمحل اور متلاشی ہوگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں آزادیِ رائے بالکل معدوم ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں نے چوں کہ انگریزی سلطنت میں آزادی کا نیا نیا سبق پڑھا ہے اسی لیے جو بات ان کی رائے یا عقیدے کے خلاف یا ان کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے اس سے ہمیشہ ایسا اختلاف کرتے ہیں جو آخر کو منجربہ مخالفت ہوجاتا ہے۔
نشأۃ الثانیہ علم و ادب اور دانشوری کے عروج کا زمانہ تھا۔ ہمارا زمانہ دانشوری کے زوال کا ہے۔ تہذیبی آدمی پر سیاسی آدمی کا غلبہ ہے۔ ہم سیاسی آدمی کی نگہداشت کیا کرتے، اس کے تہذیب دشمن اثرات سے ہمارے دانشورانہ خلوص اور پاکیزگی تک کو بچا نہ سکے۔ الیٹ نے کلچر پر جو مضمون لکھا ہے اس میں ایک جگہ لکھتا ہے :
علمی زندگی کی کوئی سطح ایسی نہیں ہے جس میں فکر کو نظر انداز کیا جاسکے، اور فکر کی کوئی ایسی قسم نہیں ہے جس کا اثر عمل پر نہ پڑتا ہو۔ دانشور کا تو کام ہی یہی ہے کہ وہ سیاسی آدمی کے افکار و خیالات اور اس کے آدرشوں کا تجزیہ کرتا رہے۔ ایک طاقت ور دانشورانہ روایت جو ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، جمہوریت کو طوفانِ حوادث سے محفوظ کرتی رہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آدمی آدرشوں سے پیار کرنے والا جانور ہے، لیکن جو چیز آدرش کو نشہ اور جنوں بننے نہیں دیتی وہ عقل کی کسوٹی ہے جس پر ملک کے دانشور آدرشوں کو پرکھتے رہتے ہیں۔
یہ ہے اس کا کلاسیکی ذہن کا طریقۂ فکر جو جدید ادب کا معمار تھا۔ زبان و مکاں کے فرق کے باوجود الیٹ کی آواز ہندوستانی نشأۃ الثانیہ کے معماروں کی آواز سے جاملتی ہے، ہماری آواز سے نہیں ملتی کیوں کہ ہم کلچر کی نہیں سیاست کی مکروہ پیداوار ہیں۔ گاندھی جی کا آشرم، کمیونسٹوں کا کمیون، دھرم دھندریوں کے سنگھ اور علمائے دین کی جماعتیں، سب فناٹسزم اور فکرواژگوں کے سرچشمے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سر سید اور راجہ رام موہن رائے کے ہاتھوں روشن خیالی اور دانشوری کا جو سوتا پھوٹا تھا وہ مخبوط الحواس انتہا پسندوں کی فکر کے جوہڑ میں گم ہوگیا۔ سر سید پر سردار جعفری کی، حالی پر سلیم احمد، شمیم احمد اور شمیم حنفی کی تنقید ایک مفکر اور دانشور کی تنقید نہیں بلکہ اس ذہن کی تنقید ہے جو سیاسی اور مذہبی جنون اور سرّیت پرستی میں اپنا توازن گنواچکا ہے۔
جب تہذیب کے مسائل سیاست کے میدان میں حل کیے جاتے ہیں تو ایک نئی بربریت جنم لیتی ہے، کیوں کہ سیاست اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انسان کے سفلہ جذبات کو مشتعل کرتی ہے۔ جنوں کے شعلۂ جوّالہ میں پہلے تو بدیشی ادب، بدیشی کلچر اور بدیشی زبان کو جھونکا جاتا ہے، پھر اپنے ہی دیس کی زبان اور ادب کو زندہ جلایا جاتا ہے۔ کافروں سے لڑنے سے فرصت ملتی ہے تو کلمہ گو کلمہ گویوں کے گلے پر چھریاں پھیرتے ہیں۔ ہم وطنوں کو جلاوطن کیا جاتا ہے، ہم مذہبوں پر تکفیر کے فتوے صادر ہوتے ہیں اور وہ انار کی پیدا ہوتی ہے کہ آدمی کا آدمی پر سے بھروسا اٹھ جاتا ہے۔ کل شام تک جو وفادار تھا وہ صبح کو غدّار کی تہمت تلے بھون دیا جاتا ہے۔ نفسی نفسی کے اس عالم میں پھر لوگ انسانیت، رواداری، بھائی چارے، غیر تعصّبی، یک جہتی کی دہائیاں دیتے ہیں۔ لیکن یہی تو وہ قدریں ہیں جنھیں جھولی میں بھر کر حالی محلۂ انصار سے چلے تھے۔ انھیں قدموں تلے روندنے کے بعد پھر ہم ان کی تلاش کرتے ہیں، لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ تیر کمان سے نکل چکا ہے اور فتنہ جاگ چکا ہے۔ وہ تاریک قوتیں جنھیں سیاسی اور مذہبی آدمیوں نے آزاد چھوڑا ہے، ان کے قابو سے باہر ہیں بربریت اپنا ننگا کھیل کھیلے گی اور بہت بہیمانہ طور پر کھیلے گی۔ اسی لیے الیٹ نے کہا تھاکہ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ ان قدروں کو محفوظ کرلیں جن کی ضرورت بربریت کی آندھی گزرنے کے بعد انسانیت کو اپنی تعمیرِ نو کے لیے پڑے گی۔ دانشور اور فن کار اپنی اس اخلاقی ذمّے داری سے بھی عہدہ بر آ نہیں ہورہا۔ ایسا لگتا ہے کہ کلاسک سے اس کا رشتہ مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے۔ ایک عظیم تہذیبی روایت بسترِ مرگ پر ہے اور باہر گلی میں ان لونڈوں کا غل غپاڑا ہے جنھیں اساطیر اور علامتوں، مصوتوں اور مصمتوں کا نیا کھیل ہاتھ لگا ہے۔
وحید قریشی لکھتے ہیں :
ادبی مسائل میں جہاں کہیں بھی دو بزرگوں میں اختلاف کا موقع آیا، حالی اعتدال کا ترازو لے کر آگئے۔ حالی کی دکان داری کا یہ انداز ان کی صلح جو طبیعت کا ترجمان اور ان کی شخصیت پرستی کا آئینہ دار ہے۔ لیکن ان ہی دو راہوں پر ان کا تنقیدی نظام متزلزل نظر آتا ہے۔ شاعری شائستگی کے زمانے میں ترقی پاتی ہے یا ناشائستگی کے زمانے میں، اس پر انھوں نے مقدمے میں طویل بحث کی ہے۔ مشکل یہ تھی کہ ہر دو آرا مغرب سے آئی تھیں جس کی پیروی کی انھوں نے قسم کھا رکھی تھی۔ مرحلہ نازک تھا لیکن فیصلہ قطعی، اس لیے دونوں کو خوش کرنے کے خیال سے اور احترام کی خاطر انھوں نے درمیان کی راہ نکالی کہ پہلی بات بھی کسی قدر صحیح ہے اور دوسری بھی۔
یہ میں کہہ چکا ہوں کہ ہم میں حالی کی شخصیت کی شناخت کی استعداد نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نازک مرحلوں کے نہیں، قطعی فیصلوں کے آدمی ہیں۔ اور قطعیت اور انتہا پسندی دانشوری کا بطلان ہے جس کے نتیجے کے طور پر مفکر کی جگہ مجاہد جنم لیتا ہے جو ذہن کی آزاد علمی جستجو یعنی free inquiry کا آدمی نہیں بلکہ قطعی فیصلوں، تکفیری فتوؤں، حزبی وفاداریوں اور احتساب وتنسیخ کی علامت ہوتا ہے۔ تہذیب، ادبی اور تخلیقی امور میں انتہا پسندی بہت ہی کڑوے پھل لاتی ہے۔ ایسے تصوراتِ ادب جنم لیتے ہیں جو exclusive ہوتے ہیں inclusive نہیں، یا حالی کے الفاظ میں ’’ایسی تعریف جو اس کے تمام افراد کو جامع ہو اور مانع ہو دخول غیر سے‘‘، یعنی جو زیادہ سے زیادہ ادب کو اپنے دامن میں لینے کی بجائے ادب کے وافر حصے کو ٹاٹ باہر کرتے ہیں۔ اصرار اس بات پر ہوتا ہے کہ چاہے اقبال شاعری کے دائرے سے باہر رہ جائیں، ہمارے اس نظریۂ شعر پر آنچ آنے نہ پائے جس کی رو سے میراجی کی شاعری ہی صحیح شاعری کا نمونہ ٹھہرتی ہے۔ چنانچہ جب اقبال صدی منائی جارہی ہوتی ہے تو مجاہد اقبال کے متعلق ایک لفظ نہیں کہتا اور اقبال کا منھ چڑانے کے لیے میراجی پر خصوصی مضمون شائع کرتا ہے۔ انتہا پسند ایک خاص قسم کی شاعری کو جو ’’الف‘‘ پر ہوتی ہے اچھا سمجھتا ہے، اور فی الواقع وہ شاعری اچھی ہوتی بھی ہے؛ لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتا کہ ایک دوسری قسم کی شاعری جو ’’ب‘‘ پر ہوتی ہے وہ بھی اچھی ہو سکتی ہے۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ پہلی بات غلط ہے اور دوسری صحیح، لیکن ادبی، تہذیبی اور انسانی مسائل اخلاقی مسائل کی طرح سیاہ و سفید میں اس طرح منقسم نہیں ہوتے کہ ایسے دو ٹوک فیصلے سنائے جائیں۔ اسی سبب سے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ پہلی بات بھی کسی قدر صحیح ہے اور دوسری بھی۔ حالی اپنی مناظراتی نظموں میں دونوں فریقوں کا، واعظ وشاعر اور رحم و انصاف وغیرہ کا، پورا حق کر دیتے ہیں۔ چنانچہ محولہ بالا مسئلے پر، کہ شاعری شائستگی کے زمانے میں ترقی پاتی ہے یا ناشائستگی کے زمانے میں، حالی کی بحث دیکھنے کے قابل ہے۔ ادبی مباحث میں اہمیت کسی نتیجے پر پہنچنے کی اتنی نہیں ہوتی ہے۔ اور حالی یہ کام بڑی سلیقہ مندی اور بصارت سے کرتے ہیں۔ انھیں فیصلوں پر پہنچنے کی کچھ جلدی نہیں ہے۔ مجاہد فیصلہ کن رایوں کا آدمی ہوتا ہے، اسی لیے فکر واستدلال کی زمین پر اس کی حالت ’’نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے‘‘ کی مصداق ہوتی ہے، کیوں کہ وہ فیصلے پر جلد پہنچنا چاہتا ہے اور فکر و استدلال کے بغیر فیصلے پر پہنچا نہیں جاسکتا۔ حالی کا اسلوب شانت اور پُرسکون ہے؛ مجاہد کا اسلوب بے صبر، بانورا اور بانپتا ہوا ہوتا ہے۔ یہ فرق دو شخصیتوں کا ہے جو دو مختلف زمانوں کی پیدا کردہ ہیں، اور مجھے اس فرق پر اصرار ہے۔
حالی ہندوستانی نشأۃ الثانیہ کی پیداوار تھے اور نشأۃ الثانیہ شخصیت، چاہے وہ مغربی ہو یا مشرقی، ایک تراشے ہوئے ہیرے کی مانند پہلودار اور جاذبِ نظر ہوتی ہے۔ نئے علوم، نئی تہذیب اور نئے تمدن سے اسے سابقہ پڑتا ہے اور ان کے صالح اثرات قبول کرنے کے لیے اسے اپنی صوبائی اور شووِنسٹک (chauvinistic) وابستگیوں سے بلند ہوکر ایک بین الاقوامی ذہنی سطح پیدا کرنی پڑتی ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اپنی تہذیبی سرزمین میں اس کی جڑیں مضبوط ہوں تاکہ متزلزل ہوئے بغیر وہ نئی ہواؤں سے قوت نمو حاصل کر کے نئے برگ و بار پیدا کر سکے۔ نشأۃ الثانیہ شخصیت کی پہچان ہے اس کی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کی شگفتگی، اس کی روشن خیالی اور دردمندی، اس کا ہیومنزم اور ریشنلزم، اس کی اخلاقی صلابت اور سماجی ذمے داری، اس کا روایت کا شعور اور روایت کے فرسودہ عناصر کے خلاف بغاوت کا حوصلہ، اہلِ وطن اور اہلِ قوم سے اس کی بے لوث محبت، لیکن شووِنسٹک مفاہمت سے مکمل انکار، ذہنی جذبوں اور تعصبات کی شکست و ریخت، نئے عناصر کی گنجائش کے لیے نظامِ افکار و اقدار کی نئی ترتیب و تدوین، فکر و عمل کی وحدت، ذات اور غیر ذات میں ہم آہنگی، بے پناہ علمی تجسس اور رجائیت جو تاریک ترین مایوسی کے بطن سے پیدا ہوتی ہے، وہ ثبات جو نیچے سے سرکتی زمین پر قدم جمانے کا نتیجہ ہے، اور وہ توازن جو اس کربناک لمحے کا زائیدہ ہے جس میں ایک مرتی ہوئی دنیا کے بطن سے دوسری نئی دنیا جنم لیتی ہے۔
حالی پورے آدمی تھے جب کہ ہم لوگ ادھورے آدمی ہیں۔ ہمارے پاس کوئی نظامِ اقدار نہیں، تاریخی تناظر نہیں، روایت کا شعور نہیں، کھرے کھوٹے کے پیمانے نہیں۔ روشن خیالی کی جگہ تنگ نظری اور انتہا پسندی ہے، علمی خلوص کی جگہ سنابری اور سوفسطائیت ہے، ہیومنزم کی جگہ کلبیت ہے۔ فکر ایسی جو قوتِ عمل کو مفلوج کرے، اور عمل فکر سے بے نیاز ہے۔ اور اسی لیے دہشت پسندی، بربریت اور تشدد کا دور دورہ ہے کہ عمل کی کسوٹی انسانی اقدار نہیں بلکہ کامیابی اور حریف کی شکست رہ گئی ہے۔ ہم اثرات قبول نہیں کرتے، نقالی کرتے ہیں۔ تنقید نہیں کرتے رائے زنی کرتے ہیں۔ نظریہ سازی نہیں کرتے، حزبی اور گروہی اعلان نامے شائع کرتے ہیں۔ تنقیدی کتابیں نہیں لکھتے، تعصبات کے دفتر سیاہ کرتے ہیں۔ کبھی جنس کو پوری زندگی سمجھتے ہیں، کبھی مذہب کو، کبھی روحانیت کو، کبھی انقلاب کو۔ کبھی سماجی ادب ہی کو ادب سمجھتے ہیں، کبھی اشتراکی ادب کو، کبھی وجودی ادب کو، کبھی علامتی ادب کو۔ ترقی پسند ہوں یا جدید یہ سب سمٹی سمٹائی شخصیتوں کے مالک ہیں۔ حالی انفرادیت سے بھی بڑی چیز کی تعمیر کر رہے تھے، اور یہ چیز تھی ایک ایسا متعین، دردمند اور مستحکم کردار جو ذہنی اور جذباتی توازن گنوائے بغیر پورے ایک دور کے اضطراب کو اپنی ذات میں جذب کر سکے۔ کیسا زلزلہ خیز تھا مشرق و مغرب کا پہلا تصادم اور حالی کیسے شانت سُبھاؤ سے اس کی ہرلرزش کو ادبی، سماجی اور اخلاقی سطح پر اپنے فکری اور جذباتی نظام میں جذب کرتے رہے۔ حالی تنہا نہیں تھے؛ ہندوستان کی ہر زبان میں ایک ہی وقت میں یہ تبدیلیاں ہو رہی تھیں اور ہر زبان اپنا الطاف حسین حالی اور اپنے عناصرِ خمسہ پیدا کررہی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ الطاف حسین وارث حسین جتنے بے چین اور بے قرار نہیں تھے، لیکن ان کے غم میں سمندروں کی گہرائی تھی کیوں کہ یہ غم اُس ذات کی شکست کا غم تھا جو تیرہ سو سال کے تہذیبی اور تمدنی مدّوجزر سے گذر کر گوہر بنی تھی۔ عرب و عجم و ہند کی روایات کو ٹوٹتے دیکھنا اور ان کے صالح عناصر کو لے کر ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈالنا بڑی حوصلہ مندی کا کام ہے۔ ہم تو حالی کی روایت تک کو سنبھال نہ سکے۔ کلیم الدین احمد کی یہ بات سوفی صدی درست ہے کہ ’’یہ خیال کہ مقدمۂ شعر و شاعری اردو میں بہترین تنقیدی کارنامہ ہے، نہایت حوصلہ شکن ہے‘‘۔ ایسا اس لیے ہوا کہ بجائے اس کے کہ آنے والی نسلیں حالی کے تصورات کے فلسفیانہ توسیع کرتیں، انھوں نے ان کے تصورات کو vulgarize کیا۔ حالی کے ادب کے سماجی تصور کو انھوں نے پارٹی لٹریچر میں، اعلیٰ مقصدیت کو افادیت اور سودمندی میں، تعلیم و تلقین کو پروپیگنڈے میں، افکار و خیالات کے آزادانہ تفحص کو حزبی پمفلٹ بازی میں، انسان دوستی کو جذباتی انسان پرستی میں، تجاویز کو منصوبہ بندی میں، خیال کی اہمیت کو معاشرتی جارگون میں، اور زبان کی اہمیت کو لسانیاتی موشگافی میں بدل دیا۔ نعرہ زنوں، مناظرہ بازوں، لقمہ چینوں، اور پیوند دوزوں سے سوچ بچار نہیں ہوتا، کیون کہ سوچ بچار کے لیے سنبھلا ہوا ذہن اور شانت چیت چاہیے، جو حالی کے پاس تھا اور ہمارے پاس نہیں ہے۔ وہ کلچر ہیرو تھے کیوں کہ انھوں نے کلچر سے متعلقہ تمام علوم، تاریخ، فلسفہ، مذہب، تعلیم، اخلاقیات اور شعر و ادب پر لکھا اور گہری بصیرت سے لکھا۔ آپ انفرادیت کی بات کرتے ہیں، ارے حالی تو ہجوم ہی میں نہیںِ عناصرِ خمسہ میں بھی الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی ذات سے ہم پورے ایک تاریخی عہد کو جانتے ہیں۔
فناٹک کی ایک تعریف یہ ہے کہ ’’خیالات‘‘ کا نہیں صرف ایک ’’خیال‘‘ کا پرستار ہوتا ہے۔ اس ایک خیال کو ثابت کرنے کے لیے کلیم الدین احمد نے ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ لکھی، سردار جعفری نے ’’ترقی پسند ادب‘‘ لکھی، اور شمیم حنفی نے ’’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘‘ لکھی۔ حالی کے ’’مقدمہ‘‘ کے شانت، سجل اور مفکرانہ لب و لہجے کے مقابلے میں یہ تینوں کتابیں اس پھٹی آنکھوں والے بور کی بحث معلوم ہوتی ہیں جو اپنی بات پر اَڑا ہوا ہے اور اس وقت تک آپ کا گریبان نہیں چھوڑتا جب تک تھک ہار کر آپ قائل نہیں ہوجاتے۔ ان بلند بانگ کارناموں کے مقابلے میں حالی کے نیازمندانہ کام کے زندہ رہنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
حالی اور سر سید کی انگریزوں سے دوستی پر ان ترقی پسند مجاہدوں کو غصہ تھا جو انگریزی کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے اس وقت کمر بستہ ہوے جب انگریز اپنا بوریا بستر باندھ چکے تھے۔ ان کے لبرلزم پر وہ آرتھوڈوکس نوجوان چراغ پا ہوے جنھوں نے پاکستان جانے کے بعد نمازیں پڑھنا شروع کردی تھیں اور جنھیں اکبر الہٰ آبادی کی دقیانوسیت میں روحِ اسلام نظر آئی تھی۔ حالی اور سر سید کے ریشنلزم اور ہیومنزم پر ان جدیدیوں کا اعتراض ہے جنھوں نے فاشزم اور فسادات کی غیر عقلی قوتوں کا بہیمانہ ننگا ناچ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ہندوستانی نشأۃ الثانیہ نے بین الاقوامی سطح پر تہذیبی اور تمدنی لین دین اور قومی سطح پر حب الوطنی اور مذہبی رواداری، سماجی سطح پر روشن خیالی اور اصلاح پسندی، انسانی سطح پر دردمندی اور ایثار نفسی کے بیج بوئے تھے۔ بے محابا تشدد، تہذیبی اور لسانی فاشزم، طبقاتی لوٹ کھسوٹ اور اقتدار پسندی، فرقہ وارانہ نفرت وحقارت، تعصب اور تنگ نظری کی تند وتیز آندھیوں میں وہ پودے اکھڑ گئے ہیں جو ان بیجوں سے پھوٹے تھے۔ جدید دور کے راکھشس کو حالی نے جنم نہیں دیا، نہ ہی راجہ رام موہن رائے اور سر سید نے۔ ذرا سوچو تو کہ فاشزم اور نازی ازم کو کس نے پید اکیا، مذہب کو فرقہ پرستی اور ریاستی آئیڈیولوجی میں کس نے بدلا، پرائیوٹ سیناؤں کے ہاتھوں نسل کشی کا بازار کس نے گرم کیا؟ مذہبی اور سیاسی آدرشوں کے نام پر ملکوں کی تقسیم، مہاجرین کے رینگتے ہوئے قافلے، خون کی ندیاں، جلی ہوئی بستیاں اور لیبرکیمپ میں انسانی ڈھانچوں اور پھانسیوں پر لٹکی ہوئی لاشوں کا منظر نامہ کس نے لکھا؟ وہ کون تھے جنھوں نے معاشی مساوات کے مارکسی فلسفے کو مذہب اور اخلاقیات کی ضد بنا کر پیش کیا، اور ادب، آرٹ فلسفے، تاریخ اور سماجی علوم کو ریاستی احتساب کے آ ہنی پنجے کے حوالے کر دیا؟ آدمی کے خاندانی انسانی اور تہذیبی رشتوں کو تہس نہس کر کے اسے ایک روبوٹ (robot) بنانے میں اشتراکیوں اور بورژواؤں نے کون سی کسر اٹھار کھی ہے؟ چی گوارا کی یہ بات کہ عوام کے مانوس اسالیبِ حیات کو خواہ مخواہ کے لیے درہم برہم کرنے سے انقلابیوں کو احتراز کرنا چاہیے، نہ اُس وقت انقلابیوں کی سمجھ میں آتی تھی نہ آج آرہی ہے۔ آج تو انقلاب بھی ایک نئی بربریت میں بدل گیا ہے۔ چاروں طرف کیسا ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ وہ جنگل پھر سے ہرے ہوگئے ہیں جنھیں نشأۃ الثانیہ کے معماروں نے اپنی کلھاڑیوں سے کاٹا تھا۔ ایسے وقت میں حالی پر لکھتے وقت کم ازکم اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ گردوپیش کے مسائل حالی کے لیے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا مسالا نہیں تھے بلکہ زندگی اور موت کا معاملہ تھے۔ جب پوری انسانیت خاک و خون میں لتھڑی ہوئی ہو، جیسی کہ آج ہے، اس وقت حالی کے سماجی سروکاروں کو ان کی آرٹ دشمنی کے طور پر پیش کرنے والا نقاد اس جمال پرست سوفسطائی دانشور کا نقشہ پیش کرتا ہے جس کے ڈرائنگ روم میں خالص آرٹ کی نہایت چمکدار بحث چھڑی ہوئی ہے اور حالی گھر کے ایک غریب رشتے دار کی مانند ٹوٹی کوٹھری میں اکڑوں بیٹھے حقہ گڑگڑاتے ہیں۔ یہ آرٹی دانشور اتنا نہیں جانتا کہ ہم اور تم آج جو کچھ ہیں حالی اور سر سید کے سماجی سروکاروں کی وجہ ہی سے ہیں؛ ورنہ یونیورسٹی میں مقالہ لکھنے کی بجائے ہم لوگ یا تو مدرسوں کے ملّا ہوتے یا مسجدوں کے بانگی۔ کالج کینٹین میں انڈر گریجویٹ لڑکیوں کے سامنے آرٹ کی سنابری اور آرٹی کا پوز اپنا رنگ جماتا ہے، لیکن حالی کی تصویر کے سامنے فوق البھڑک معمول ہوتا ہے۔ جس طرح مارکسی نقاد کارل مارکس سے بھی زیادہ مارکسی ہوتے ہیں، اسی طرح آرٹی نقاد آرٹسٹ سے بھی زیادہ آرٹ پرست ہوتا ہے۔ فن کار اپنے فن کے بارے میں شعوری طور پر اتنا خود آگاہ نہیں ہوتا جتنا ہم سمجھتے ہیں، ورنہ فن کی محسوس ڈزائن اس کے فن کا عیب بن جائے۔ میٹا فزیکل اور رومانی شاعر اس شعور کے ساتھ شاعری نہیں کر رہے تھے کہ وہ کسی نئے اسلوبی فینومینا کی داغ بیل ڈال رہے ہیں۔ یہاں تو ایسا لگتا ہے کہ ہر فنکار اساطیر کی تلاش میں کیلاش پھلانگ رہا ہے۔ بڑا فنکار خاموشی سے پتھر کو دیوتا بنا دیتا ہے، جب کہ فن کے پجاری کھنٹیاں بجاتے اور ناقوس پھونکتے ہی رہ جاتے ہیں، حالی یہ بات جانتے تھے۔ ان کی تصویر کی طرف دیکھو۔ چہرہ کیسا غیر متفکر ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ آرٹ کا پورا بار ان کے کندھوں پر آگیا ہے۔ تلمیذ الرحمن کے معنی بھی سمجھتے تھے، شاعری کے وہبی ہونے کے بھی اور ’’ایں سعادت بروزِ بازونیست‘‘ کے بھی، اور خداداد صلاحیت کے بھی۔ اسی لیے آرٹ کے چودھراپے اور فن کی فکر میں دبلے ہونے کا کام وہ ہمارے لیے چھوڑ گئے۔
=== O ===
۳
نقادوں کی ایک اَور قسم جس سے حالی کی شخصیت کو گزند پہنچی ہے وہ ہے جو کسی تھیسِس کو ثابت کرنے کے لیے تنقید لکھتی ہے۔ سلیم احمد اس کھیپ کے سربر آوردہ نقاد ہیں۔ چوں کہ آدمی بہت ذہین ہیں اور بہت ہی خوبصورت انداز میں تنقید لکھتے ہیں، اس لیے عام قارئین کو پتا تک نہیں چلنے پاتا کہ نہ صرف ان کا تھیسس غلط ہے بلکہ ان کے ادبی مفروضات اور تنقیدی اصول بھی ناقص ہیں۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’غزل، مفلر اور ہندوستان‘‘ میں حالی کے ساتھ سراسر ناانصافیاں کی ہیں۔ جب تنقید کسی تھیسس کو ثابت کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے تو شاعروں کا استعمال محض خام مواد کے طور پر ہوتا ہے۔ اس مضمون میں بھی حالی کا استعمال ایک ذہنی رویے کی علامت کے طور پر کیا گیا۔ تنقید میں یہ طریق کار غیر مستحسن ہے، کیوں کہ جہاں آپ نے شاعر کو ایک رویے کی علامت بنایا وہاں اس کی شخصیت کی تمام پیچیدگی اور پہلوداری کو خیر باد کہا۔ آپ اس کے ان پہلوؤں پر زور دیں گے جو آپ کے کام کے ہیں۔ آپ شاعر کو معروضی طور پر دیکھنے کے بجائے اس کا استعمال اپنے تھیسِس کو ثابت کرنے کے لیے کریں گے۔ آپ حقائق کو مسخ کریں گے، ان کی غلط تاویل کریں گے، اور اس کی شاعری اور شخصیت کی وہ تمام خصوصیت جو آپ کے کام کی نہیں، یا آپ کے تھیسس کے خلاف ہیں، انھیں نظر انداز کریں گے۔ یہ معاملہ کتّے کو نام دے کر اسے پھانسی پر چڑھانے والا معاملہ ہے۔ حسن عسکری کے جواب میں ممتاز حسین نے ’’انفعالی رومانیت‘‘ کے عنوان سے بودلیر پر جو مضمون لکھا ہے، یا ہکسلے نے بودلیر اور ورڈزورتھ پر جو مضامین لکھے ہیں، وہ اسی غلط طریق کار کی افسوس ناک مثالیں ہیں۔ سلیم احمد ہندوستان کی سیاسی حالت اور یہاں کے لوگوں کے جنسی رویے کو غزل کی شاعری کے ذریعے سمجھنا چاہتے ہیں۔ جس آسانی سے سلیم احمد سماج سے شاعری اور شاعری سے سماج میں نکلتے بیٹھتے ہیں اس سے تو یہی گمان گذرتا ہے کہ سلیم احمد ادب کو زندگی اور زندگی کو ادب سمجھتے ہیں۔ غزل کی شاعری سے آپ ہندوستان کے پچاس کروڑ آدمیوں کی جنسی زندگی کے متعلق کوئی دستاویز تیار نہیں کر سکتے۔ ارے آپ کِنزے کی طرح حقیقی زندگی میں تحقیقات کر کے کوئی رپورٹ تیار کریں تو یہ رپورٹ بھی ہر رپورٹ کی طرح ناقص ہوگی کیوں کہ کوئی رپورٹ کروڑوں آدمیوں کی زندگی کے تجربات کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اگر آپ ہندوستانیوں کی جنسی زندگی کے متعلق خاطر خواہ مواد اکٹھا بھی کرلیں تو اسے سیاست سے correlate کرتے کرتے آپ کی ناک میں دم آجائے گا۔
میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادب کے ذریعے ایک عہد کی معاشرتی زندگی کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ سمجھا ضرور جاسکتا ہے لیکن اس میں بڑی دشواریاں بھی ہیں۔ ادب معاشرتی زندگی کا ڈاکیومنٹ یا اس زندگی کی فوٹوگرافک تصویر نہیں ہوتا۔ اوّل تو ادب مختلف اصنافِ سخن کے ذریعے ترتیب پاتا ہے جن کی اپنی روایتیں ہوتی ہیں۔ پھر ادب ایک داخلی سرگرمی ہے یعنی فن کار کی حسّیت کا ترجمان ہوتا ہے۔ مثلاً غزل کا محبوب ایک روایتی محبوب ہے جسے غزل کا شاعر ایک convention کے طور پر قبول کرتا ہے اور اس کی مدد سے اپنے شخصی تجربات کا بیان کرتا ہے۔ پھر ہر دو رکے معاشرتی حالات اور پوری سوسائٹی کا مذاقِ سخن بھی غزل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کبھی شاعر اس مذاقِ سخن کا پیرو بنتا ہے، کبھی اسے مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔ اب غزل کے محبوب کا تجزیہ کر کے ایک پورے معاشرے کی جنسی زندگی کے متعلق نتائج اخذ کرنا خطرات سے خالی نہیں۔ انگریزی میں restoration comedy کے ذریعے اس وقت کی فیشن ایبل زندگی کے متعلق جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں اس پر بھی یہی اعتراض کیا جاتا ہے کہ کامیڈی اپنے وقت کے اخلاق وعادات کی ترجمان بھلے ہو، لیکن بہر حال وہ کامیڈی ہے اور ڈراما نگار خالص ڈرامائی ضرورتوں کے تحت ظرافت، طنز اور بذلہ سنجی کی خاطر اپنے اس مواد کو جو اس نے عام سوسائٹی کی زندگی سے لیا ہے، اس قدر بدل دیتا ہے کہ پھر وہ مواد فن کا مواد بن جاتا ہے، زندگی کا مواد نہیں رہتا۔ یعنی اس مواد کے ذریعے اس وقت کی زندگی پر کوئی حکم لگانا خطرات سے خالی نہیں۔ اسی طرح خالص فنکارانہ اثر آفرینی کے ذریعے فن کار اپنے فن پارے سے ایسی تفصیلات کو دور رکھتا ہے جو زندگی میں تو اہم ہوتی ہیں لیکن فن پارے میں اس لیے بیان نہیں ہوتیں کہ اس سے فن پارے کی تاثیر میں کھوٹ آتی ہے۔ ہکسلے نے اس کی بہت دلچسپ مثال دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ رزمیہ زندگی کو اس کی پوری grossness کے ساتھ پیش کرتا ہے جبکہ المیہ وحدت تاثر کی خاطر کسی واقعے یا جذبے کو دو آتشہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ مثلاً یولیسس جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک جزیرے کے خوفناک دیو کے چنگل سے بھاگ کر نکلتا ہے تو وہ سب کشتی میں بیٹھے تمام دن کی مسافت کے بعد ایک اور جزیرے میں پہنچتے ہیں اور اس قدر تھکے ہارے اور بھوکے ہوتے ہیں کہ سب سے پہلے وہ کھانا پکاتے ہیں اور کھانا کھانے کے بعد پھر بیٹھ کر اپنے ان ساتھیوں کو یاد کر کے روتے ہیں جو دیو کے منھ کا نوالہ بن گئے ہیں۔ ہومر رزمیے میں کھانا کھانے کا ذکر کرتا ہے، لیکن المیہ فنکار اس ذکر سے احتراز کرے گا کیوں کہ اس سے اس کے المیہ تاثر میں فرق آجاتا ہے۔ اس لیے ناول کا فن المیہ کی بہ نسبت رزمیہ سے زیادہ قریب ہے۔ زندگی کی حیاتیاتی قوتیں المناکیوں کو بھی اپنے قابو میں رکھتی ہیں اور ایک کوٹھری میں ہمارے عزیز کا جنازہ رکھا ہوا ہوتا ہے، لیکن باہر دالان میں یا اندر باورچی خانے میں بڑے بوڑھے سوگواروں کو سمجھا بجھا کر کھانا کھلارہے ہوتے ہیں۔ غرض یہ کہ فن زندگی سے بہت کچھ لیتا ہے، زندگی سے بہت کچھ چھوڑتا ہے، بہت کچھ فن کار کا تخیل ایجاد کرتا ہے اور اپنے پورے تخلیقی مواد کو فن کار ایک خاص مقصد کے تحت ترتیب دیتا جاتا ہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ آدمی اردو غزل یا اردو افسانے کے ذریعے ہندوستان کے لوگوں کی جنسی زندگی کے متعلق کیسے حکم لگا سکتا ہے۔ غزل کی شاعری یا افسانہ علامات ہیں جن سے مرض کی تشخیص کی جا سکتی ہے، مرض کا بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مرض کے بیان کے لیے آپ کو خود مرض کا مطالعہ کرنا ہوگا، اور ڈاکٹر آپ کو بتائے گا کہ مرض جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، صرف مریض ہوتا ہے۔ گویا ہر مرض مریض کی مناسبت سے ایک نئی شکل اختیار کرتا ہے، ہر مریض منفرد ہوتا ہے اور اسے انفرادی طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھیے کہ تمام ادب ایک ہی مقصد کے تحت تخلیق نہیں ہوتا ہے۔ کبھی مقصد تعلیم و تربیت ہوتا ہے کبھی ترجمانی اور آئینہ داری، کبھی اظہارِ ذات، کبھی ترسیلِ جذبات اور کبھی محض تفریح و مسرت۔ غنائی اور شخصی شاعری میں سماجی اور اخلاقی عنصر سب سے کم ہوتا ہے اور المیے میں سب سے زیادہ۔ اسی لیے تو افسانہ اور ناول کے پیمانوں سے غنائی شاعری کو ناپا نہیں جاسکتا۔ اسی لیے تو بعض کٹّر فن پرستوں نے ناول کو آرٹ کا روپ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر غنائی شاعری میں تو زندگی کا مواد، علامات، مِتھ اور استعاروں میں اس قدر رچابسا ہے کہ اسے الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جاسکتا۔ غنائی شاعری پر تاثراتی اور ہیئتی تنقید ہی ممکن ہے۔ جبکہ المیہ اور ناول کی اخلاقیات پر الگ سے بحث کی جاسکتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سلیم احمد جیسا نقاد بھی اپنے موضوع اور مواد سے اتنا چکا چوند ہوگیا کہ اپنے تنقیدی اصولوں کو منظم نہ کر سکا اور ان تمام گمراہیوں کا شکار ہوگیا جو معاشرتی نقادوں کی تنقید میں ملتی ہیں۔ سلیم احمد کی فکر انھیں قدم قدم پر اندھیری گلیوں میں لے جاتی ہے اور ان کے لیے impasses کھڑے کرتی ہے۔ ان کے سیاسی، اخلاقی اور جنسی تصورات ناقص اور ادبی تصورات نحیف البنیاد ہیں۔ وہ حسرت کو ہیرو بناکر پیش کرتے ہیں اور انھیں حالی سے ٹکراتے ہیں۔ حالی ان کے لیے لبرلزم کی علامت ہیں جب کہ حسرت بغاوت کی۔
سلیم احمد کو حالی پر غصہ ہے کہ انھوں نے غزل کی اصلاح کا جو کام کیا ہے وہ نوجوانوں کے حق میں مضر ثابت ہوا۔ وہ لکھتے ہیں :
دراصل مولانا حالی کو غزل پر ویسا ہی اعتراض تھا جیسا مسلمانوں کو رنڈی بازی پر۔ ان کے نزدیک یہ صرف ایک عیاشی تھی، اور عیاشی کے معنی مولانا کی لغت میں ہر اس کام کے تھے جس سے قوم کا بھلا نہ ہو۔ قوم چوں کہ بدحالی اور تباہی کا شکار تھی اس لیے حالی نے یہ سبق دیا کہ غزل سے عشقیہ جذبات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ حالی نے پہلے تو ’’اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کر چھوڑا‘‘ والی مسلسل غزل لکھ کر قوم کو ڈرایا، اور ڈرانے کے باوجود اگر قوم راہ راست پر نہ آئی تو اسے مشورہ دیا کہ کم از کم شرفا میں بیٹھ کر اس سرِمّکتوم کو فاش کر کے اپنی تنگ ظرفی اور بے جو صلگی کو ظاہر نہ کیجیے۔
سلیم احمد کہتے ہیں کہ :
اس دوسرے نسخے نے نئی غزل کو بڑی تقویت پہنچائی اور رفتہ رفتہ ایسے شاعروں اور ادیبوں کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی جنھوں نے ذاتی تجربے کو ادب سے نکال پھینکا اور شریفانہ جذبات کے اظہار کو ادب پرستی، انسانیت دوستی اور تہذیب پروری کا مظہر سمجھ لیا۔ فسادات کا مقبول ادب حالی کی اسی معنوی اولاد نے پیدا کیا۔
لیکن گھٹے ہوئے جنسی جذبات بڑے گھناونے ہوتے ہیں۔ آپ انھیں جتنا بند رکھیں گے اتنی ہی سڑاند پیدا ہوتی جائے گی۔
سلیم احمد اس کے بعد اردو کے جمال پرستوں اور متوسط طبقے کے دوسرے لکھنے والوں اور کانگریس کے لیڈروں کا جائزہ لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جنسی طور پر ان گھٹے ہوئے لوگوں نے کیسے ادب، کیسے طبقے اور کیسی سیاست کو پروان چڑھایا :
ان کے ادب اور ان کی سیاست کے خلاف بغاوت حسرت نے کی اور غزل میں عشق اور سیاست کی مکمل آزادی کے نعرے گونج اُٹھے۔ نئے لکھنے والوں نے کھل کر عشق بھی کیا اور کھل کر سیاسی بغاوت بھی کی۔ نئی نسل نے جنسی اور سیاست کے مسائل کو اپنی تحریک کے بنیادی عناصر قرار دیا اور صاف صاف اعلان کردیا کہ وہ ان دونوں معاملوں میں ڈرنے یا شرمانے کے قائل نہیں ہیں۔ انھوں نے سیاست میں گاندھوی فلسفہ اور ادب میں اصلاح بازی کا یکساں طور پر مذاق اُڑایا۔ یہ نہ گزارشات کے قائل تھے نہ مناجاتوں کے۔ انھیں گاندھی کی لنگوٹی اور حالی کے مفلر سے یکساں طور پر چڑھ تھی۔
لیکن بعد میں چل کر خود ترقی پسند جوشِ اصلاح میں جنس کے مخالف ہوگئے اور اپنے ہی مخالفوں یعنی ماہر القادری کی زبان میں بات کرنے لگے۔ انھوں نے میراجی اور منٹو پر فحش نگاری کے الزامات لگائے اور ادب میں فحاشی کے سدِّ باب کے لیے تجویز پیش کی۔ اس تجویز کی مخالفت بھی ۷۰ برس کے بوڑھے حسرت ہی نے کی۔
مضمون کا اختتام سلیم احمد ان چبھتے ہوئے جملوں میں کرتے ہیں :
پتا نہیں جیت کس کی ہوئی، حالی کی یا حسرت کی۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ ترقی پسندوں نے معاشی اور سیاسی نظریات کے بل پر جس صحت مند معاشرہ کی تصویریں دکھانی شروع کی تھیں اس نے ۴۷۔۴۶ء میں ننگی عورتوں کے جلوس نکالے، ان عورتوں کے جلوس جنھیں حالی نے ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے روپ میں دنیا کی عزت کہا تھا، جنھیں حسرت نے بنتِ عم کے روپ میں چاہا تھا، اور جن سے بات کرنے کا دوسرا نام غزل ہے۔ غالباً حالی نے جب غزل کے خلاف آواز بلند کی تھی، تو اس میں عورتوں کا یہ انجام شامل تھا۔۔۔ اور شاید تہذیب کا بھی۔
سلیم احمد کا پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو جاندار اسلوب اور ذہین تجزیے کا خوبصورت نمونہ ہے۔ لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، مضمون کی تنقیدی بنیادیں بہت کمزور ہیں۔ پہلے ہندوستان کی سیاست کو لیجیے۔ ہمارے نقاد اپنی تنقیدوں میں جب بھی سیاست کا ذکر کرتے ہیں تو اہم سیاسی معاملات کو محض بذلہ سنیچ سے نپٹانا چاہتے ہیں۔ وہ بڑی سے بڑی سیاسی شخصیت پر ایک پھبتی کس کر اس سے اپنی علیحدگی اور دانشورانہ فوقیت کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً حسن عسکری جب اپنے مضامین میں گاندھی جی کا ذکر کرتے ہیں تو انھیں مسٹر گاندھی لکھتے ہیں۔ مہاتما کو مسٹر بنا کر گاندھی جی کو اپنی نظروں میں بہت ہی چھوٹا اور حقیر کر لیتے ہیں۔ عسکری کی نظر میں اس پوری سیاست کی کوئی قیمت نہیں جس کی قیادت گاندھی جی نے کی۔ ان کے لیے تو ہندوستان کی سیاست کا آغاز صرف قیامِ پاکستان سے ہوتا ہے۔ اسی طرح سلیم احمد کے لیے بھی ہندوستانی سیاست میں جان اس وقت پڑتی ہے جب تحریک خلافت کے زیرِ اثر مسلمان اس میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے پہلے کی سیاست تو صرف انگریزوں کی جوتیاں چاٹنے والی سیاست ہے؛ اس کے بعد کی سیاست بھی بے جان ہے۔ ۱۹۴۲ء کی تحریک اس لیے ناکام اور بے جان رہتی ہے کہ اس میں مسلمان شامل نہیں ہیں، اور مسلمانوں کو کھو دینے کی ذمے داری گاندھی کی سیاست پر جاتی ہے۔ سلیم احمد لکھتے ہیں :
مگر اب یہ تحریکِ خلافت والا ہندوستان نہیں تھا۔ اب ہندوستان کی ایک آواز نہیں تھی۔ گاندھی کی یہ سیاست نے ہندوستان کے بہترین سپاہی کھو دیے تھے۔ دس کروڑ افراد کی وہ قوم جس نے ۱۸۵۷ء میں اپنے خون سے ہندوستان کی آزادی کا پہلا منشور لکھا تھا، اب ہندوستان سے الگ ہونا چاہتی تھی۔ مسلمانوں کے بغیر اہنسا کے اس دیوتا کی آواز میں وہ قوت پیدا نہ ہو سکی جو انگریزوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیتی۔ کانگریس کے تمام لیڈر گرفتار کرلیے گئے اور بالآخر ’’ہندوستان چھوڑدو‘‘ کی تحریک کا خاتمہ مہاتما گاندھی کے برت اور برت کا خاتمہ وائسرائے سے راز ونیاز پر ہوا۔
آپ دیکھیں گے کہ یہ رائے ایک سیاسی مبصر کی نہیں، ایک متعصب ذہن کی رائے ہے۔ اس کا تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک ایسے پر جوش نوجوان کی رائے ہے جو اکھاڑے میں اپنے ہی پہلوانوں کو جیتتا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے پہلوان کے ہرداؤپیچ پر تالیاں بجاتا ہے، اور اگر اس کا پہلوان زک کھاتا ہے تو قصور ریفری یا سامنے والے کے foul play کا نکالتا ہے۔ آپ اس زاویے سے ہندوستانی سیاست کی تاریخ لکھنے کی کوشش کیجیے؛ آپ کو معلوم ہوگا تاریخی حقائق آپ کا ساتھ نہیں دیتے۔ سیاسی تاریخ میں ویسے بھی تاریخی معروضیت مشکل ہی سے قائم رہتی ہے۔ ہر شخص واقعات کی تاویل اپنے طور پر کرتا ہے۔ پھر سیاست میں کسی کا دامن پاک نہیں ہوتا۔ نیتوں کا کسی کو علم نہیں ہوتا۔ motives آسانی سے attribute کیے جاسکتے ہیں اور واقعات کو اپنے طور پر توڑا مروڑا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک غیر جانب دارانہ بے لوث سیاسی تجزیہ ممکن ہی نہیں۔ مجھے بھی سیاست سے کچھ کم دلچسپی نہیں رہی۔ میں ایک نہیں سینکڑوں کتابیں سلیم احمد کو بتا سکتا ہوں جو ان کے تھیسس کو غلط ثابت کر سکتی ہیں۔ لیکن میں ایسا کرنا نہیں چاہتا، کیوں کہ آدمی کے گہری جڑوں والے سیاسی اعتقادات مشکل سے اکھیڑے جاسکتے ہیں۔ ترقی پسندوں نے بھی اپنے اوپر ان تمام کتابوں کا مطالعہ حرام کر رکھا ہے جو اشتراکی ملکوں کی تنقید پیش کرتی ہیں۔ سلیم احمد کو شاید پتا نہیں کہ مجھ جیسے لوگوں کی آدھی زندگی ہندو فرقہ پرستوں اور مسلمان فرقہ پرستوں کے خلاف لڑتے جھگڑتے فنا ہوئی ہے۔ ایک جمہوری اور لبرل فکر کو ہر قسم کے فناٹسزم سے بچانے کے کیا معنی ہوتے ہیں، وہ ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس طرح تاریخ کے ہیرو اور ان کی فرقہ پرست سیاست کو تاریخ کی سنہری لہر ثابت کرنے میں نقصان مسلمانوں ہی کا ہے۔ ایسے تھیسس سیکٹیرین تھیسس ہوتے ہیں جنھیں ہمارا زرد جرنلزم پروان چڑھاتا ہے۔ سنجیدہ ادبی مباحث میں ایسی رائیں سنسنی پیدا کرتی ہیں لیکن بصیرت نہیں بخشتیں۔ اسی لیے تنقیدی مضامین میں جب نقاد سیاست بگھارنے لگتا ہے تو میں اسے بہت ہی مشکوک نظروں سے دیکھتا ہوں، کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ ادبی تنقید کی حدود کا فائدہ اٹھا کر محض رائے زنی سے خوش ہولیا کرے گا، اور یہ رائے بھی یا تو خود کو بھلا ثابت کرنے کے لیے ہوگی یا اپنے پندار کی تسکین کے لیے۔ ذرا ہمارے نقادوں کو کامیو کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ انھیں یہ پتا چلے کہ سیاسی آندھیوں کی زد میں آئی ہوئی انسانی قدروں پر ایک سنجیدہ آدمی کس ڈھنگ سے بات کرتا ہے۔ کئی بار تو جی چاہتا ہے کہ اردو نقادوں کے سیاسی افکار کے عنوان سے ایک کتاب انگریزی میں شائع کرائی جائے تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ ہماری زبان کے بہترین دماغ بھی جب سیاست پر رائے زنی کرنے لگتے ہیں تو کیسے پمفلٹ بازوں کی سطح پر اتر آتے ہیں۔ اب رہا گاندھی جی کا معاملہ تو میں تو خیر سے ان کا ایسا بھگت ہوں کہ مٹی کے ذریعے علاج تک پر ان کی کتابیں پڑھ کر بیٹھا ہوں۔ سوائے اس کے میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ گاندھی جی دنیا کے ان سر پھرے لوگوں میں سے تھے جنھوں نے سیاست کو چند انسانی اور اخلاقی قدریں دینے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ انھوں نے اپنے دشمنوں تک کو دشمن نہیں سمجھا۔ ہر قسم کی اخلاقی اور انسانی قدروں سے عاری ہماری اقتدار پسند، سیاست زدہ سوسائٹی میں ایسے آدمی کا انجام سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کی حمایت میں وہ گولی سے بھُونا جائے وہی لوگ اس کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے رہیں۔ سنا ہے کہ گاندھی جی کو حالی کی ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ بہت پسند تھی۔ دونوں ایک ہی مٹی کے بنے ہوئے تھے اور سلیم احمد دونوں کو مٹی کے مادھو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
فسادات کیوں ہوتے ہیں، لوگ برہنہ عورتوں کے جلوس کیوں نکالتے ہیں، یہودیوں کو گیس چیمبر میں کیوں پھونک دیتے ہیں، بنگالیوں کو کیوں بھون ڈالتے ہیں، ویت نامیوں کو کیوں تباہ کر ڈالتے ہیں۔۔۔ ان مسائل پر ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں گے تو ہمیں پتا چلے گا کہ انسان کے اندر کا بھیڑیا ابھی رام نہیں ہوا۔ اِنھیں مسائل پر کامیونے بھی غور کیا ہے، کیوں کہ کامیو اور یورپ کا ہر آدمی انسانی بربریت کے جس جہنم زار سے گزرا تھا اس کی ہلکی سی آنچ ہم نے فسادات کی صورت میں محسوس کی ہے۔ ذرا یہ بھی دیکھیے کہ کامیو گاندھی کا ذکر کس عقیدت مندی سے کرتا ہے۔ حالی اور گاندھی جی اور دنیا کے ہر بڑے مذہبی رہنما کی کوشش ہی یہ تھی کہ آدمی کو اندر سے بدلا جائے، اس کی تشدد کی قوتوں کو قابو میں رکھا جائے اور اسے اخلاقی اور جذباتی اعتبار سے بہتر انسان بنایا جائے۔ عشق و محبت اور جنس کی طرف حالی کے رویے کو ان کے اسی جذبے کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔
ہم لوگ تو سمجھتے ہیں مجامعت اور انزال کے صحیح طریقوں سے تو صرف ہماری نسل ہی واقف ہوئی ہے، ورنہ ہم سے پہلے تو لوگ صرف نطفے ہی چھوڑا کرتے تھے۔ جنس کی جس بے محابا آزادی کا تجربہ پچھلے دس سالوں میں دنیا کو ہوا ہے اس نے بھلے آدمیوں کو ہڑبڑا کر رکھ دیا ہے۔ اس جنسی آزادی کے متعلق میں فی الحال کوئی رائے دینا نہیں چاہتا۔ سردست تو میں یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ صرف حالی نہیں بلکہ بیسویں صدی تک تو پوری دنیا جنسی اخلاق کے معاملے میں صدیوں سے سخت گیر رہی تھی۔ وکٹورین انگلینڈ کی بات جانے دیجیے، آج بھی آپ کو پورے یورپ اور امریکہ میں ایسے خاندان ہزاروں کی تعداد میں مل جائیں گے جو جنسی اخلاق کے معاملے میں یورپ اور امریکہ میں ایسے خاندان ہزاروں کی تعداد میں مل جائیں گے جو جنسی اخلاق کے معاملے میں کافی پیورٹن اور قدامت پرست ہیں اور دورِ جدید کے جنسی انتشار سے پریشان حال بھی۔ یہ تو میں آگے چل کر بتاؤں گا کہ گناہ کی لذت بھی اسی سماج میں ہوتی ہے جہاں گناہ کا کوئی تصور ہوتا ہے؛ اور وہ سماج جو خیر و شر کی قدروں سے بے نیاز ہوجائے وہ لذتِ گناہ سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ جنسی عمل بھی اس کے لیے ایک میکانکی اور فطری چیز بن کر رہ جاتی ہے جسے وہ بے دلی سے کرتا رہتا ہے۔ حالی جس معاشرے کی پیداوار تھے وہ معاشرہ چند اخلاقی قدروں پر تعمیر ہوا تھا۔ جنسی جذبے پر پابندیاں تھیں، جیسی کہ ہر سماج میں ہوتی ہیں۔ اس جذبے کی تسکین ازدواجی زندگی کی حدود میں ہی ممکن تھی اور ان حدود کے باہر معیوب اور ممنوع۔ عقل اور جبلّت، تمدّن اور ایروز (Eros) کا مسئلہ ایسا نہیں کہ اس کا کوئی سیدھا ساحل نکل سکے۔ آسان حل تلاش کرتے جائیے اور آپ مسئلے کو oversimplifyکریں گے۔ ایسی سوسائٹی جو جنسی اخلاقیات سے مکمل طور پر آزاد ہو اس کی بحث میں ہم نہیں پڑیں کیوں کہ ہمیں اس کا تجربہ نہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ایسی سوسائٹی مکمل طور پر ابھی تک وجود میں نہیں آئی۔ سلیم احمد فراق سے خوش ہیں کہ وہ امرد پرستی کے جواز پر بات کرتے نہ شرمائے لیکن سکینڈی نیوین ملکوں میں تو ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں جو incest تک کی قانونی اجازت مانگ رہے ہیں۔ اردو کے ایک جرنلسٹ شاعر ہیں جو خود کو جدید شاعر کہتے ہیں، نام ہے صہبا وحید۔ شاعری وہ کیسی کرتے ہیں اس کا حال مغنی تبسم سے جاکر پوچھیے۔ مجھے تو صرف اتنی بات سے سروکار ہے کہ اپنے مجموعۂ ’’تمنا کا دوسرا قدم‘‘ کے دیباچے میں، جسے انھوں نے ’’پہلا قدم‘‘ کہا ہے، وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں :
میری نظم ’’زرتشت کی واپسی‘‘ میں زرتشت کا کردار اسی نظریہ کا موید ہے کہ عورت صرف ایک حیاتیاتی مظہر (biological phenomenon ہے اور اس لیے وہ تمام رشتے اور ناتے جو عورت کی ذات سے منسوب کر دیے گئے ہیں اور جو اس مظہر سے قطعاً مختلف ہیں، ایک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں زندگی کے کسی بھی مظہر کے بارے میں کسی ایسی ماورائیت کا کبھی قائل نہیں رہا جو عام طور پر افلاطونی مکتبِ فکر کا طرۂ امتیاز سمجھی گئی ہے۔ میں نے ارضیت کو اہمیت دی ہے اور اسی نظریے پر میرے محبت کے جذبے کی اساس قائم ہے۔
سلیم احمد کو پتا ہی نہیں کہ ان کے حسرت موہانی کی معنوی اولاد کا تیسرا قدم کہاں پڑ رہا ہے۔ اگر عورت حیاتیاتی مظہر ہے تو مرد کیا ہے؟ وہ تمام رشتے ناتے جو عورت کی ذات سے منسوب کر دیے گئے ہیں، کیا ان رشتوں کا اطلاق مرد پر نہیں ہوتا؟ اگر عورت اور مرد حیاتیاتی مظہر ہیں تو حیاتیاتی سطح پر جینے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ آخر محرم کا تصور خالص اخلاقی ہے، کیوں کہ محرم رشتوں ناتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ حیاتیاتی سطح پر کیا ماں اور کیا بہن، سب ایک ہیں۔ حیوانوں میں آخر محرموں کے ساتھ مباشرت ہوتی ہی ہے۔ بکرانہ اپنی ماں کو پہچانتا ہے نہ بہن کو۔ سکینڈی نیویا میں بعض لوگ اگر محرمات کے ساتھ مباشرت کی اجازت مانگتے ہیں تو مجھے ان پر کوئی اعتراض نہیں؛ لیکن اپنی حرکتوں کو جب وہ عقلی طور پر ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ایک بے وقوف آدمی کی حیثیت سے میرا بھی کچھ سوالات ان عقل مندوں سے پوچھنے کو جی چاہتا ہے۔ صہبا وحید اپنی نظم میں کہتے ہیں :
میں ایک آدم ہوں تم ایک حوّا
لیکن یہ دعویٰ ان کے پہلے قدم کے بیان کو جھٹلاتا ہے۔ صہبا وحید نہ آدم ہیں نہ ان کی محبوبہ حوّا، کیوں کہ آدم وحوّا نے شاعری نہیں کی جب کہ صہبا وحید کرتے ہیں۔ آدم و حوّا کے پاس زبان تک نہیں، شاعری کیا خاک کرتے۔ کہیں ہزاروں برس کے ارتقا کے بعد آدمی نے زبان پیدا کی اور شاعری تو صرف متمدّن سماج کا عطیہ ہے۔ ارے آدم وحوّا کا تصور بذاتِ خود متمدن سماج کا پروان چڑھایا ہوا ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ آدم ہوں اور تو حوّا، تو آپ اسی زبان میں بات کر رہے ہیں جسے ہزاروں سال کے ارتقا کے بعد انسان نے پروان چڑھایا۔ آدم ’’میں‘‘ اور ’’تو‘‘ کے الفاظ بول ہی نہیں سکتا تھا، کیوں کہ مَیں کا تعلق عرفانِ ذات سے ہے، اور آدم کی کوئی ذات نہیں تھی۔ ابھی آدم نے روح تک پیدا نہیں کی تھی، صرف جسمانی سطح پر ایک حیاتیاتی مظہر کے طور پر جیتا تھا۔ صہبا وحید آدم کے روپ میں اپنی حوّا سے کہتے ہیں :
اگر روح بیگانہ ہے تب بھی کیا ہے
بدن کے تقاضے سدا ایک دوجے کو پہچانتے ہیں
لیکن یہ باتیں صہبا وحید کر رہے ہیں جو روح کے لفظ اور اس کے معنی کو جانتے ہیں۔ آدم نہ اس لفظ سے واقف تھا نہ اس کے معنی سے؛ وہ تو صرف بدن کے تقاضوں کو پہچانتا تھا۔ اسے حوا کے ساتھ مجامعت کرنی ہوتی تھی تو وہ صہبا وحید کی طرح حوّا کے سامنے شعر نہیں پڑھتا تھا، مجامعت کرتا تھا۔ حیاتیاتی سطح پر روح، اخلاق، ضمیر سب بے معنی الفاظ ہیں۔ حیاتیاتی سطح پر جینے والے آدمی کو یہ الفاظ ہی نہیں بلکہ زبان تک استعمال نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ زبان کا تعلق خیال سے اور خیال کا تعلق ذہن سے ہے؛ اور جہاں آدمی میں آپ نے ذہن کو قبول کیا اسے آپ نے حیاتیاتی سطح سے اٹھا کر انسانی سطح پر رکھا، اور اس سطح پر رشتوں ناتوں کا جال پھیلا ہوتا ہے اور رشتے ناتے اخلاقی قدروں کو جنم دیتے ہیں اور اخلاقی قدریں ضمیر کو، اور آدمی کی روح خیر و شر کی رزم گاہ بن جاتی ہے۔ صہبا وحید کہتے ہیں :
ہماری اساسِ جبلّت گنہ ہے
صہبا وحید کو پتا ہی نہیں کہ گناہ کا تعلق خیر و شر کے تصورات سے ہے۔ خیر و شر کے تصور کے بغیر آدمی لذتِ گناہ تک سے محروم ہوجاتا ہے؛ بس حیوانوں کی طرح میکانکی اور فطری انداز میں مجامعت کرتا رہتا ہے، گویا رفعِ حاجت کر رہا ہے۔ صہبا وحید کی اس بھونڈی نظم کی دلچسپی کا راز بھی تو اسی میں ہے کہ وہ محبوب کو سیدھے بستر پر لے جانے کی بجائے اس کی مزاحمت کو توڑنے، ایک معنی میں اسے seduce کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ ہم بستر ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر نوجوان لڑکیوں کا seduction بھی تو ایک طاقتور افروڈیزیاک (aphrodisiac) ہے۔ بادۂ نورس پر ہمارے شاعروں کی نظمیں دیکھیے، کیا معجونِ شباب آور کی تاثیر رکھتی ہیں۔ لیکن افروڈیزیاک کی ضرورت بھی تو آدمی ہی کو پڑتی ہے، جانوروں کی جنسی سرگرمیاں تو موسمی اور صرف نطفہ رکھنے کی خاطر ہوتی ہیں۔ ادھر مادہ حاملہ ہوئی اور نر صاحب رخصت ہوگئے۔ ادھر آدمی ہے کہ بارہ مہینے بغیر کسی موسم کی قید کے سرگرمِ عمل رہتا ہے؛ حد تو یہ ہے کہ جنسی کتابوں میں حاملہ عورتوں سے مجامعت کے آسن تلاش کیا کرتا ہے۔ انسان نے اپنی جنسی سرگرمی تک حیوان کی سطح سے بلند ہوکر بنائی ہے۔ مباشرت اس کے لیے جانوروں کی طرح محض نطفہ رکھنے کا عمل نہیں رہا۔ خاندانی زندگی کی بنیاد رکھنے کے بعد عورت کو ضرورت ہوئی کہ وہ مرد کو اپنے پاس ٹکائے رکھے؛ کہیں ایسا نہ ہوکہ شکار پر یا آفس جائے تو گھر کو لوٹے ہی نہیں۔ لہذا مسلسل جنسی سرگرمی کے ذریعے عورت مرد کو اپنے پاس رکھ سکی۔ انسان نے انسانی ارتقا کے دوران چند ایسی جبلّتوں کو پروان چڑھایا ہے جو جانوروں میں نہیں ملتیں، اور اگر ملتی ہیں تو اتنی شدّت سے نہیں ملتیں۔ جنسی جبلّت بھی انھیں میں سے ایک ہے۔ عورت کے ساتھ سونے کے لیے بھی آدمی کو حیوان نہیں انسان بننا پڑتا ہے۔ اس کی مجامعت کا آسن بھی پورا انسانی ہے، کیوں کہ جانوروں کے برخلاف وہ محض ایک بدن سے نہیں بلکہ ایک بھرے پُرے وجود سے ہم بستر ہوتا ہے۔ اس کی ذات ایک غیر ذات کی طرف سفر کرتی ہے، اور وہ اپنی آگ کے شرارے اپنی محبوب کی آنکھ میں ٹوٹتے دیکھنا چاہتا ہے۔ غرض یہ کہ آدمی کسی بھی صورت محض بایولوجیکل فینومینا نہیں؛ وہ ایک انسانی فینومینا ہے۔ اس کی انسانی سائیکی چند ایسی خصوصیات کی حامل ہے جو صرف اس کی ہیں۔ وہ انسان رہ کر غیر انسانی حرکتیں کر ہی نہیں سکتا، اور جب کرتا ہے تو انسان نہیں رہتا۔ دستووسکی کا راسکولنیکوف سمجھتا تو یہی ہے کہ ایک بڑھیا کا خون بھلا اسے کیا گزند پہنچائے گا۔ اس قتل کا کیا نتیجہ ہوتا ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ منٹو کے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کا ایشر سنگھ غیر انسانی حرکت کرنے کے بعد مرد ہی نہیں رہتا۔ آخر نامردی اور frigidity کی ننانوے فیصدی وجوہات تو نفسیاتی ہی ہوتی ہیں۔ آپ انسانی سائیکی کو نظر انداز کر کے جسمانی سطح پر کتنا جی سکتے ہیں؟ صہبا وحید کہتے ہیں : ہماری اساسِ جبلّت گنہ ہے۔ انھیں پتا نہیں گناہ کا تعلق جبلّت سے نہیں ضمیر سے ہے؛ اور ضمیر آدمی بندروں سے لے کر نہیں آیا بلکہ اس وقت پیدا ہوا جب وہ درختوں سے نیچے اُترا اور بستیاں بسائیں۔ کہتے ہیں کہ اوّل اوّل اللہ تعالیٰ دنیا کی آبادی بڑھانا چاہتا تھا اس لیے آدم کی اولاد آپس ہی میں شادیاں کرتی تھی؛ بعد میں چل کر جب اس کی ضرورت نہ رہی تو انسانی ارتقا کی کسی منزل پر ایسی شادیاں ممنوع قرار پائیں، اور دنیا کا پہلا الطاف حسین حالی پیدا ہوا۔ آج کا انسان حالی کو مار کر ہی محض بایولوجیکل سطح پر جی سکتا ہے۔ سلیم احمد کا مضمون اس قتل کی طرف پہلا قدم ہے۔
لیکن سلیم احمد پھر بھی سلیم احمد ہیں، صہبا وحید نہیں۔ راسکولنیکوف کی طرح بوڑھے حالی کو مار کر ان کی فکر ایسے کابوس کا شکار ہوئی ہے جو ہر ناسمجھ باغی کا مقدّر ہے۔ حالی کا مقصد تو انسان کی انسانیت اوراس تہذیب وتمدن کو جسے اس نے پروان چڑھایا تھا، بچانے کا تھا۔ حالی اور سر سیّد کے یہاں ’’نیچر‘‘ کا لفظ تو اتنی بار استعمال ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ نیچر کا انھیں خبط ہوگیا ہے۔ حالی نہ انسان کے فطری جذبات پر پابندیاں لگانا چاہتے تھے نہ جبلی تقاضوں پر۔ حالی نے ادب میں کوئی آشرم نہیں کھولا۔ آشرم گاندھی جی نے سابرمتی کے کنارے اور ٹالسٹائی نے اپنے گاؤں میں کھولا۔ ٹالسٹائی کے متعلق تو ہیری لیون نے بتایا ہے کہ وہ جوانی میں نہایت ہی passionate آدمی تھا اور بڑھاپے میں جنس سے برگشتگی جوانی کی ہوسناکی کا رد عمل تھی۔ اس میں اس کی بیوی کی frigidity بھی ذمّے دار تھی۔ گاندھی جی نے جب برہمچاریہ کی تلقین شروع کی تو انھوں نے ’’شکنتلا‘‘ کا مطالعہ ممنوع قرار دیا۔ حالی کی پوری زندگی اور پورا ادب آپ کو بتائے گا کہ وہ ان لوگوں سے کتنے مختلف تھے۔ جیسی غزلیں انھوں نے کہی ہیں وہ ان کی جذباتی توانائی کی شاہد ہیں۔ باوجود وضع داری اور شرمیلے پن کے، حالی prude نہیں تھے۔ وہ مرزا شوق کی مثنویوں کا تجزیہ کرتے وقت نہایت خوبصورتی سے ’’کھلتے جانے میں ڈھانپتے جانا‘‘ کی فنکارانہ احتیاط کا مقابلہ ’’چھوٹے کپڑوں کو ڈھانپتے جانا‘‘ کی بداحتیاطی سے کرتے ہیں۔ جھوٹی شرم حالی کا ہاتھ نہیں روکتی جیسا کہ ممتاز حسین کا ہاتھ پکڑتی ہے جب وہ اپنے تحلیل نفسی والے مضمون میں عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’تہذیب مانع ہے۔ میں اس چیز کو لکھ نہیں سکتا ہوں۔ ’’حالی بھی ایسی ہی بات کہتے ہیں، لیکن اس وقت جب وہ اختلاط کی مزید تفصیلات میں پڑنا نہیں چاہتے میں پوچھتا ہوں کہ اگر وہ پڑتے بھی تو آخر نتیجہ کیا نکلتا ؟ اردو کے سبھی نقاد ایسی ہی احتیاطیں برتتے ہیں۔ دراصل تنقیدی مضمون کو کوک شاستر کی بھاشا میں لکھنے کا کام بھی مجھ جیسے لفنگوں ہی سے شروع ہوا ہے۔
مطلب یہ کہ حالی نہ سوامی تھے نہ prude۔ وہ نہایت بے تکلّفی سے، لیکن پورے وقار کے ساتھ، حسن وعشق کے مسائل بیان کرتے تھے۔ ان کی اخلاقیات نے انھیں زاہد خشک یا معلّمِ تند خو نہیں بنایا۔ ان کی کسی تحریر سے یہ پتا نہیں چلتا کہ انھوں نے فی نفسہ عشق کے سماجی اور اخلاقی مسائل پر الگ سے بحث کی ہو اور لوگوں کو عشق و محبت سے دور رہنے کی تلقین کی ہو۔ وہ جس سماج کے فرد تھے اس سماج کے اپنے چند اخلاقی رویے تھے جو دنیا کے دوسرے معاشروں سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھے۔ لہذا حالی کو مسز گرنڈی کا چچا ابّا ثابت کرنے کا ایک ہی میدان رہ جاتا ہے، یعنی ان کی غزل کی اصلاح کی کوشش۔ سلیم احمد اور دوسرے نقادوں نے ان پر اسی مورچے سے گولہ باری کی ہے۔
سلیم احمد کے تنقیدی اصول کی خام کاری کا پول تو اسی وقت کھل جاتا ہے جب وہ ایک نقاد کے ادبی رویے کو اس کے سماجی رویے کے طور پر دیکھتے ہیں اور خالص فنکارانہ تصورات سے چند سماجی نتائج اخذ کرتے ہیں۔ یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے کہ میں مزدوروں پر لکھے گئے ادب پر فنّی حیثیت سے نکتہ چینی کروں تو مجھے مزدور تحریک کا دشمن سمجھ لیا جائے؛ یا مذہبی شاعری پر تنقید کرتے ہوئے کہوں کہ نظم میں حضور اکرم کا نام ہزار بار لینے سے نظم اچھی نہیں بنتی، تو مولوی لوگ مجھ پر الزام لگائیں کہ میرے خیالات کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں نے درود پڑھنا چھوڑدیا۔ سلیم احمد کی منطق کچھ اسی قسم کی ہے، گویا ادب میں اکاڈمک مباحثے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔ حالی نے غزل پر تنقید کی تو گویا لوگوں نے اپنی بیویوں کے ساتھ سونا ہی چھوڑ دیا۔ غزل کے عشقیہ مضامین پر نکتہ چینی کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے برہنہ عورتوں کے جلوس نکالے۔ حالی نقاد ہیں، بہت بڑے نقاد ہیں؛ تنقید لکھتے ہیں، ہمارے نقادوں کی طرح بیانات اور رائیں نہیں دیتے۔ باریک سے باریک تجزیہ اور تحلیل کر کے فن پارے کا نقص یا خوبی بتاتے ہیں۔ مثنوی، مرثیے، قصیدے اور غزل پر ان کی تنقید آج بھی بے مثال ہے۔ اتنی عریانی اور فحاشی کے باوجود انھوں نے مرزا شوق کی جو کھلے دل سے تعریف کی ہے، ہمارے معاشرتی نقاد منٹو تک کی نہیں کر سکے۔ وہ منٹو کو محض نظر انداز کرتے رہے۔ جو شاعر حالی کے مزاج کے خلاف ہوتا ہے حالی اسے بھی نظر انداز نہیں کرتے بلکہ اس کا چیلنج قبول کرتے ہیں۔ یہ عالی ظرفی تو ہم آج تک پیدا نہیں کر سکے۔ حالی کو، اور اس معنی پر ہر کلاسیکی ذہن والے نقاد کو، جو چیز ناگوار گزرتی ہے وہ فن کا ابتذال ہے۔ فنکارانہ ارتباط اور جمالیاتی تکمیل کا انھیں کتنا خیال ہے، اس کا اندازہ ویسے تو ’’مقدمہ‘‘ کے ہر صفحے پر ہمیں ہوتا ہے، لیکن خصوصاً مثنوی اور مرثیے کی تنقید اس خاص معاملے میں نظیر ہے۔ جس چیز کو وہ برداشت نہیں کر سکتے وہ فنکار کا پھوہڑ پن اور اس کی فنی خام کاری ہے۔ جس مثنوی میں شہزادیاں رنڈیوں کی بھاشا میں بات کریں اسے حالی کا ذہن کیسے قبول کر سکتا ہے۔ قصّے میں واقعیت اور اصلیت پر انھوں نے جو بحث کی ہے اسے ہمارے ان نقادوں کو پڑھنا چاہیے جو ادب میں سروے آفیسر کا کام کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ حالی نے تنقید اس لیے نہیں لکھی کہ پچیس سالہ افسانوں کی فہرست جمع ہوجائے؛ تنقید اس لیے لکھی کہ وہ شاعری میں اصلاح کرنا چاہتے تھے، لوگوں کے سامنے ادب کے اعلیٰ معیار رکھنا چاہتے تھے، ادب اور شاعری سے عامیانہ پن، ابتذال اور فنی خام کاری کے عناصر دور کرنا چاہتے تھے۔ اسی سلسلے میں انھوں نے غزل پر بھی تنقید کی۔ اور غزل پر حالی سے بھی زیادہ سخت تنقید کون سے دور میں نہیں ہوئی۔ اردو تنقید کا آدھا حصّہ تو غزل کی ٹھیکری اُڑانے میں صرف ہوا ہے۔ اور حالی کے زمانے کی غزل کے انحطاط سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ یہ اَور بات ہے کہ مصلحت کی خاطر ہم اس سے چشم پوشی کریں۔ مصلحت سے میرا مطلب ہے کہ ہم جب تنقید کی بجائے لچھے دار اسلوب میں کسی دور کا جائزہ لیتے ہیں، یا کوئی تھیسس ثابت کرنے پر کمربستہ ہوتے ہیں تو ہم فن پاروں کی ایسی تعریف کرتے ہیں جس کے وہ مستحق نہیں ہوتے، یا پھر ایسی تاویل کرتے ہیں جو ہمارے تھیسس کے کام کی ہوتی ہے لیکن فن پارے سے انصاف نہیں کرتی۔ حالی ’’زہرِ عشق‘‘ کی ہیروئن کو نہ ایناکارے نینا کہتے ہیں نہ انیس کو شیکسپیئر ثابت کرتے ہیں۔ وہ فن کار اور فن پارے کی قدروقیمت سے واقف ہوتے ہیں اور اس کی تعریف یا تنقیص میں غلو سے کام نہیں لیتے۔ غرض یہ کہ حالی کو اردو غزل میں چند کمزوریاں نظر آئیں اور حالی نے انھیں دور کرنے کے لیے کچھ سجھاؤ رکھے۔ اسی سلسلے میں انھوں نے مضامینِ عشق پر بھی تنقید کی۔ یاد رکھیے کہ انھوں نے عشق کو غزل سے خارج کرنے کی بات نہیں کی۔ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ ’’اگر غزل میں عشق و محبت کی چاشنی نہ دی جائے تو حالتِ موجودہ میں اس کا سرسبز اور مقبول ہونا ایسا ہی مشکل ہے جیسا شراب میں سرکہ بن جانے کے بعد سرور قائم رہے، اور فلسفۂ جمالیات، سچائی، اچھائی، اور حسن کی اقدار پر قائم رہے۔ اور گو حالی فلسفۂ جمالیات سے واقف نہیں تھے، لیکن ادب کی جس شاندار روایت نے ان کے ذہن کی تربیت کی تھی وہ ان تینوں قدروں ہی سے تشکیل پائی تھی، اور حالی جھوٹ اور سچائی، بدصورتی اور حسن میں امتیاز کر سکتے تھے اور آرٹ میں وہ اسے حسین کہنے کو تیار نہیں تھے جو معنوی اور صوری اعتبار سے بدصورت ہو۔ گویا حالی کا مسئلہ تربیتِ اخلاق سے زیادہ تربیت ذوق کا مسئلہ تھا۔ اور اگر آپ غزل پر ان کی تنقید کو غور سے دیکھیں گے تو اس میں اخلاق کی پستی کی بجائے مذاق کی پستی اور ذوقِ سخن کے عامیانہ پن اور بازاری پن پر تبصرہ ملے گا۔ ادب ہمیشہ اسفل لوگوں کے ہاتھوں vulgarize ہوتا رہا ہے۔ آج کا کمر شل ادب، ادب کی اعلیٰ themes کو عامیانہ اور بازاری بنا کر پیش کر رہا ہے۔ فنکار فن کے معاملے میں جب تک انتہا درجہ چوکنّا نہیں ہوتا وہ بھی غیر شعوری طور پر مذاقِ عام کو دیکھ کر انھی کا رنگ اختیار کرنا شروع کرتا ہے۔ لوگ اس کی نظروں کے سامنے رہتے ہیں اور وہ انھیں متاثر کرنے اور انھیں خوش کرنے کے لیے اپنے فن میں ایسے عناصر کو راہ دیتا ہے جو اس کے فن کو ’’دلچسپ‘‘ بنائیں۔ کبھی effect پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کبھی جذبات کو چھونے کی، کبھی ڈرامیٹک بنتا ہے کبھی جذباتی۔ ارے خود سٹائن بک جیسے ناول نگار کو سخت گیر نقادوں نے معاف نہیں کیا اور اس کے ناولوں کے ڈرامائی اور تھیٹریکل عناصر کی نشاندہی کر کے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کیسے اس کا فن آرٹ کی بلندیوں کو چھونے سے قاصر رہتا ہے۔ آج ہمارے یہاں کون سا ایسا فنکار ہے جو آرٹ کی اس پستی کا شکار نہیں۔ فنکاروں کو پتا تک نہیں چلتا کہ کمر شل ادب کے عناصر کہاں اور کب ان کے فن میں در آئے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مشاعروں میں بڑے audience کو face کرنے، ان کی تعریف حاصل کرنے، انھیں متاثر کرنے کی نفسیات نے غزل پر کوئی اثرات نہیں چھوڑے؟ اور اس بات کو میں بیانِ واقعہ کے طور پر ہی عرض کروں گا کہ غزل میں بگڑنے کے ایک نہیں ہزار لچھن موجود ہیں۔ ناول ہی کی طرح غزل کو آپ نے سنبھالا نہیں کہ کوٹھے چڑھی۔ ناول کے نقاد ناول کی سہل انگاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنزاً کہتے ہیں کہ ہر گپ باز ناول لکھ سکتا ہے اور شاید اس لیے ناول نگاروں میں عورتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ آج کل کمر شل مشاعروں میں بھی غزل سراخواتین کی تعداد کا اندازہ لگائیے۔ مطلب یہ کہ صنفِ سخن جتنی مقبول ہوگی اس کے عامیانہ بننے کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے؛ لہٰذا اس کی تادیب اور تنقید بھی اتنی ہی سختی سے کی جائے گی۔ سخت تنقید ہمیشہ ڈراما، ناول یا بیانیہ شاعری کی ہوتی ہے، غنائی یا فلسفیانہ شاعری کی نہیں۔ پھر ڈراما، ناول وغیرہ کی بحث اخلاقیات سے بے بہرہ نہیں رہ سکتی۔۔۔ کبھی رہی ہی نہیں۔۔۔ چناں چہ اخلاقی بحث جتنی مثنوی، مرثیے اور قصیدے کے ضمن میں حالی نے کی ہے اتنی غزل کے سلسلے میں نہیں کی۔ غزل کی تنقید میں ان کے پیش نظر ایک ہی مقصد ہے، اور یہ مقصد ہر بڑے نقاد اور فن کار کے سامنے ہوتا ہے، کہ غزل کو ابتذال سے کیسے بچایا جائے۔ مشاعروں، کوٹھوں اور بے فکروں نے اس میں جو رکاکت اور سوقیانہ پن پیدا کیا ہے اسے کیسے دور کیا جائے۔ یہ نہ سمجھے کہ حالی کی یہ تنقید محض اصلاحی ہے؛ حالی کی یہ تنقید کلاسیکی بنیادوں پر شاعرانہ مذاق کی تخلیق کی طرف پہلا قدم ہے۔ عشق و محبت پر حالی نے جو کچھ کہا ہے اسے اسی context میں سمجھنا چاہیے۔ حالی اسی عشق پر بات کر رہے ہیں جو غزل میں ہے، اس عشقیہ جذبے پر بات کر رہے ہیں جو غزل میں اظہار پاتا ہے، جس عشق کی وہ نکتہ چینی کر رہے ہیں وہ بھی وہی ہے جو غزل میں بیان ہوا ہے؛ اور عشق کی اس تنقید اور نکتہ چینی کو زندگی میں عشق کی مخالفت سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے۔ لہذا ایسے سوالات نہیں پوچھنا چاہییں جن کا منطقی implication یہ ہو کہ کیا حالی اپنے بیٹے بیٹیوں کو عشق کی اجازت دیتے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ سماج میں جنسی اخلاق کا معاملہ تا حال تمام دنیا میں سخت ضابطے اور تادیب کا معاملہ رہا ہے، اس لیے اس بات کو چھوڑیے کہ عام زندگی میں حالی یا کسی بھی آدمی کا عشق یا جنسی اخلاق کی طرف کیا رویہ رہا ہے، اور اپنی بحث کو صرف غزل کی حدود میں رکھیے کہ حالی نے انھیں حدود میں بحث کی ہے۔ سلیم احمد ایسا نہیں کرتے۔ وہ غزل کی بحث کو زندگی کی بحث میں لے جاتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں کہ فراق امرد پرستی کی حمایت کرتا ہے؛ حالاں کہ اس حمایت کے کوئی معنی نہیں تاوقتے کہ وہ فن میں نہ جھلکے، یعنی امردپرستی جب فن کا موضوع بنے گی تبھی ہم اس پر ادبی تنقید میں بحث کر سکنے کے اہل بنیں گے کیوں کہ ادبی تنقید کے باہر امردپرستی سماجیات اور نفسیات کا موضوع ہے۔ ادب کا موضوع بننے کے بعد ہم سوچیں گے کہ فنکار نے اس موضوع سے کیا کام لیا ہے۔ چاہے اس کی حمایت انصاف پر مبنی ہو لیکن ہم کہیں گے کہ یہ حمایت اچھا ادب پیدا نہیں کر سکی، یعنی فن کار اپنے موضوع سے انصاف نہیں کرسکا۔ اس کی نیت اچھی سہی لیکن فن برا ہے۔ اسی طرح اگر نقاد ادبی تنقید میں سماجی یا اخلاقی مسائل کی بحث کرتا ہے تو اسے تنقید کے سباق ہی میں دیکھنا چاہیے۔ اس بحث کو سماجیات اور اخلاقیات کی سطح پر نہیں لے جانا چاہیے۔ حالی اگر مثنوی کی تنقید میں یہ کہتے ہیں کہ شہزادی بیسوا کی زبان بولتی ہے، تو ان پر اگر ہم اس قسم کا اعتراض کریں کہ حالی کٹر مولوی کی طرح بیسواؤں سے نفرت کرتے ہیں، اور ان سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے تو یہ غیر منصفانہ ہوگا۔ عشق کے جو آداب انھوں نے بتائے ہیں وہ غزل کی حدود میں رہ کر غزل کی روایت کے پس منظر ہی میں بتائے ہیں۔ مثلاً ان کی ایک رائے ہے، جسے ان کے نکتہ چینوں نے حسبِ معمول غلط معنی پہنائے ہیں، کہ غزل میں کوئی ایسا لفظ نہ آنے پائے کہ جس سے کھلم کھلّا محبوب کا مرد یا عورت ہونا پایا جائے۔ اس تجویز کا محرک اخلاقیات نہیں بلکہ جمالیات ہے۔ اگر اخلاقیات ہوتی تو وہ مرزا شوق کی مثنویوں کو عشقیہ ہونے کی بنیاد پر ٹاٹ باہر کرتے۔ انھوں نے مثنویوں کو ٹاٹ باہر کیا تو اس سبب سے نہیں کہ وہ عشقیہ ہیں، بلکہ اس سبب سے کہ وہ فحش اور گندی ہیں۔ ورنہ وہ میر کی مثنویوں کو مسترد کرتے جو خالص عشقیہ ہیں۔ اگر حالی محبوب کی جنس ظاہر نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تو اس کا سبب عورت بیزاری یا عشق بیزاری نہیں، بلکہ غزل کو ابتذال سے بچانا ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ عورت کے ذکر سے غزل مبتذل ہوجاتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اردو غزل میں محبوب سے مخاطب کی روایت میں ’’تم‘‘ کے استعمال نے افعال کو تذکیر و تانیث کے جھگڑے میں پڑنے ہی نہیں دیا۔ یہی نہیں بلکہ اعلیٰ ترین شاعروں کے ہاتھ میں یہ طرزِ تخاطب منجھ منجھا کر اتنا پُروقار بن گیا کہ حالی کے بعد آج تک غزل میں محبوب سے خطاب کا یہی صوغہ مروّج ہے۔ یعنی غزل کے آسن پر عورت کو براجمان کرنے کی ہماری تمام کوششوں کے باوجود ہماری غزل کے وہ تمام اشعار جو محبوب کو مخاطب کر کے کہے گئے ہیں وہ غزل کی روایت کے عین مطابق ہیں۔ غرض یہ کہ حالی کا مشورہ کتنا صحیح تھا اسے ہماری غزل کی اس تمام شاعری نے ثابت کر دکھایا جو حالی کے بعد لکھی گئی۔ یہ حالی کے مشورے سے زیادہ خود غزل کی روایت کے درست اور مضبوط ہونے کی دلیل ہے۔ یعنی حالی نے درست سمجھا تھا کہ غزل کے وہی اشعار پروقار ہوتے ہیں جن میں محبوب کو آتی ہو اور جاتی ہو کے بجائے آتے ہو اور جاتے ہو کہہ کر خطاب کیا جاتا ہے۔ سوال یہاں عورت کی جنس کو مخفی رکھنے کا نہیں تھا بلکہ لب و لہجہ کی متانت کو برقرار رکھنے کا تھا۔ یہ بات پیشِ نظر ہے کہ حالی نے یہ تمام باتیں غزل کی شاعری کے متعلق کہی ہیں۔ اس لیے انھیں نظم یا دوسری اقسامِ شاعری پر منطبق نہیں کرنا چاہیے۔ حالی شاعر کو ایسے الفاظ کے استعمال سے منع کرتے ہیں جن سے مطلوب کا مرد یا عورت ہونا پایا جائے، مثلاً کلاہ، دستار، سبزۂ خط، یا محرم، کرتی، مہندی، چوڑیاں، چوٹی، موباف وغیرہ۔ یہاں پر الفاظ کی فہرست پر نظر رکھنے کی بجائے حالی کے عندیے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ سب چیزیں غزل کے انحطاطی دور میں محض معاملہ بندی اور مضمون بندی کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ شاعر داخلی جذبات میں تپنے کی بجائے خارجی اشیا سے کھیلتا تھا۔ مجھے یہاں پر تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ لکھنؤ اسکول کی شاعری کے انحطاط اور ابتذال سے سبھی واقف ہیں۔ حالی گنگھی اور چوٹی کے خلاف نہیں تھے بلکہ ان کا جیسا vulgarization ہوا اس کے خلاف تھے، یہ بھی صرف غزل کی شاعری میں۔ ممکن ہے چوٹی یا موباف پر کوئی اچھی نظم لکھی جاسکے یا مثنوی میں ان کا اچھا استعمال ہوسکے۔ لیکن غزل کی جو ہیئت رہی تھی اس میں چوٹی یا موباف بے مصرف چیزیں تھیں اور ان سے کوئی اچھا شاعرانہ کام لینا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا وہ محض ایک لفظی کھیل یا سیدھی سادی معاملہ بندی ہی کے کام آسکتے تھے، سبزۂ خط، زرگر پسر، کلاہ ودستار، چوٹی، موباف، کُرتی یا محرم پر آپ اردو غزل سے ایسے کتنے اشعار انتخاب کر سکتے ہیں جو اچھے اور معنی خیز ہوں؟ لہٰذا حالی کا مشورہ غلط نہیں تھا اور غزل کے ایک رچے ہوئے مذاق پر مبنی تھا۔ پھر عشقیہ شاعری کو بھی ہمیں fetish نہیں بنانا چاہیے۔ بڑی شاعری ہمیں ہمیشہ ایک پیچیدہ جذباتی تجربے کی شاعری ہوتی ہے۔ شاعرانہ تخیل عشق کے پر لگا کر اڑتا ہے لیکن سیر وہ ان فضاؤں کی کرتا ہے۔ خالص رومانی عشق کی شاعری کی اپنی ایک اہمیت اور دل آویزی ہے، لیکن عنفوان شباب کے یہ ایک دو سکّہ بند جذباتی معاملات شاعری کو کتنی پہنائی عطا کر سکتے ہیں؟ بڑی شاعری میں محبت کا جذبہ بھی اپنے ساتھ حیات و کائنات کے نہایت ہی نازک، پیچیدہ اور بنیادی تجربات کا احاطہ کرتا ہے، اور اس جذبے کے ساتھ یہ تجربات اس قدر آمیختہ ہوتے ہیں کہ انھیں علیحدہ کر کے شاعری کو خالص عشق کے خانے میں مقید نہیں کیا جاسکتا۔ خالص عشقیہ شاعری کی ایسی خانہ بندی صرف رومانی محبت کے نغموں تک محدود ہوگی اور ایسے نغمے اپنی تمام غنائی دل آویزی کے باوجود ان فن پاروں کی عظمت کو نہیں پہنچ سکیں گے جن میں شاعر انسان کے جذباتی اور روحانی تجربات کے نازک پہلوؤں کی تصویر کشی کرتا ہے۔ آندریو مارویل کی شہرۂ آفاق نظم To His Coy Mistress کو کیا آپ خالص عشقیہ نظم کہیں گے؟ نظم کی تھیم عشق ہی ہے اور شاعر اپنی عشوہ طراز اور نٹ کھٹ محبوبہ کو عشوہ ناز ترک کرنے اور اس کے ساتھ مسرت کی چند کلیاں چن لینے کی ترغیب دلاتا ہے، لیکن جس ڈھنگ سے وہ اپنا عندیہ پیش کرتا ہے وہ انسانی زندگی کی فنا پذیری کی ایسی ترجمانی کرتا ہے کہ نظم عشقیہ جذبے سے بلند ہوکر زیادہ پیچیدہ تجربے کی آئینہ دار بن جاتی ہے۔ کسی زمانے میں خود سلیم احمد نے فیض پر طنز کیا تھا کہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود پچیس سالہ نوجوانوں کی سی شاعری کر رہے ہیں۔ خالص رومانی محبت کی شاعری شاعر کو نوجوانوں میں مقبول بنا سکتی ہے لیکن اس میں محدود رہ کر شاعر وہ عظمت اور بلندی حاصل نہیں کر سکتا جو ان شاعروں نے پائی ہے جنھوں نے عشق کے آئینے میں پوری کائنات کا مطالعہ کیا ہے۔ کیا غالب اور فراق کی شاعری کو آپ محض عشقیہ جذبات کی شاعری کہیں گے ؟ آخر ان کے عشق اور رند، صبا اور وزیر کے عشق میں فرق کیا ہے؟ فرق صرف یہی ہے کہ غالب اور فراق نے عشق کے جذبے کو اتنی وسعت بخشی کہ وہ انسان کی پوری جذباتی اور روحانی زندگی پر محیط ہوگیا۔ اور جب غالب ہجر کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں معنی کی وہ تہہ داری ہوتی ہے کہ معشوق کی جدائی سے لے کر محبوبِ ازلی کے فراق تک ہر قسم کی جدائی کے کرب ناک تجربات کا ذکر سما جاتا ہے اور قاری کا ہجر و فراق کا تجربہ کسی بھی نوعیت کا کیوں نہ رہا ہو، وہ شعر میں اپنے تجربے کا عکس دیکھتا ہے یا شعر کے تجربے کو شناخت کرلیتا ہے۔ گویا بڑی شاعری بڑے جذبات کی شاعری ہوتی ہے، اور یہ جذبات اس معنی میں آفاقی ہوتے ہیں کہ وہ شاعری کے معاملات تک محدود نہیں ہوتے۔ چھوٹا شاعر جذبے کو اپنی ذات تک محدود کرتا ہے؛ یہی نہیں بلکہ جذبے کو دوسرے جذبات یا متنوع افکار سے آمیز ہونے نہیں دیتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جذباتی، خطیبانہ اور اکہری شاعری پیدا ہوتی ہے۔ لکھنؤ اسکول کے شاعروں کی جذباتی دنیا اکہری ہے۔ ان کا مقصد بھی صہبا وحید کی مانند عورت کے ساتھ پلنگ پر لوٹ پوٹ ہونا ہے۔ ان کی تمام معاملہ بندی بندِ قبا کھلنے تک ہے۔ یہاں پر سوال عریانی اور فحاشی کا نہیں محض ابتذال کا ہے، اور یہ ابتذال آرٹ کا ہے۔ مقبولِ عام رسالوں کی رومانی اور جذباتی نظموں اور فلمی گانوں سے ہم جس طرح برگشتہ خاطر ہوتے ہیں حالی اسی طرح اپنے وقت کی عامیانہ غزلوں کے رنگِ سخن سے ہوئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کم از کم غزل میں اکہرے عشقیہ جذبات متبذل معاملہ بندی کی شاعری پیدا کریں گے۔ انھوں نے عشقیہ جذبہ کو ختم کرنے کی بات نہیں کی بلکہ اسے تہہ دار، پہلودار اور آفاقی بنانے کا مشورہ دیا۔ چناں چہ وہ خود کہتے ہیں :
اسی لیے ہماری یہ رائے ہے کہ غزل میں جو عشقیہ مضامین باندھے جائیں وہ ایسے جامع الفاظ میں ادا کیے جائیں جو دوستی اور محبت کی تمام انواع و اقسام اور تمام جسمانی اور روحانی تعلقات پر حاوی ہوں۔
مضمون طویل ہو رہا ہے ورنہ میں مزید مثالوں سے ظاہر کرتا کہ غزل پر حالی کی تنقید کس قدر انصاف اور ژرف نگاہی سے لکھی گئی ہے۔ عشق ہی کی طرح خمریات پر انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اور زاہد وواعظ پر طنز کی اخلاقی بنیادوں پر جیسی بحث انھوں نے کی ہے وہ ان کی تنقیدی بصیرت کا عین ثبوت ہے۔ طنز تو بہر حال ایک صریحاً اخلاقی چیز ہے، کیوں کہ طنز نگار اچھائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے۔ شاید اسی لیے طنزیہ ادب کو اعلیٰ ترین ادب کے نمونے کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا، کیوں کہ اعلیٰ ترین ادب جمالیات کی اس متنزّہ ترین سطح پر حرکت کرتا ہے جہاں اخلاقیات کے پر جلنے لگتے ہیں لیکن طنزیہ ادب اپنی اعلیٰ ترین شکل میں بھی اخلاقی رویّوں کا ادب ہوتا ہے۔ غزل کا ایک معتدبہ حصہ طنز پر مشتمل ہے، لہٰذا نقاد کو یہ دیکھنا ہی پڑتا ہے کہ شاعر کے طنز کی اخلاقی بنیادیں جامع ہیں یا نہیں۔ حالی چاہتے ہیں کہ طنز طنز رہے اور ہزل نہ بن جائے۔ طنز اس وقت ہزل بنتا ہے جب وہ اخلاقی قدروں کی بجائے شخصیتوں پر پھبتیاں کس کر بھنگڑوں اور شرابیوں کی ضیافت طبع کرتا ہے۔ ہم ہمارے سرمایہ داروں اور امیروں پر محض اس لیے طنز کرتے ہیں کہ وہ سرمایہ دار اور امیر ہیں، کیوں کہ جہاں تک اخلاقی قدروں کا تعلق ہے ہم بھی اتنے ہی مادّہ پرست ہیں جتنے کہ سرمایہ دار، کیوں کہ وہ چیزیں جو ایک سرمایہ دار کے گھر میں ہیں انھیں ہم ہر مزدور کے گھر میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ صاف بات ہے کہ اس طنز کا محرک کوئی اخلاقی قدر نہیں بلکہ حاسدانہ رقابت ہے، جو سماجی انصاف کا نقاب پہن کر آتی ہے اس لیے اور بھی عیارانہ معلوم ہوتی ہے۔ جب ہم سرمایہ دار پر اس لیے طنز کریں کہ وہ ایک خوب صورت عورت کے ساتھ سوتا ہے، لیکن خود ہمارے دل میں اس عورت کے ساتھ ہم بستر ہونے کی خواہش موجود ہو تو پھر طنز طنز نہیں رہتا، ایک بھوکے اور مفلوک الحال آدمی کی جلی کٹی بن جاتا ہے۔ فلم کے مارواڑی سیٹھوں پر ہمارے فلمی ادیبوں کا طنز اسی لیے طعل و تشنیع بن گیا ہے کہ یہ ایک ناکام آدمی کا کامیاب آدمی پر طنز ہے۔ بڑا طنز نگار خالص اخلاقی بنیادوں پر اس تمام نظام کو مسترد کرتا ہے جو مادّہ پرست، اسفل، اور عیار قدروں پر تعمیر کیا گیا ہے۔ وہ اس سوسائٹی کا حصہ بننا ہی نہیں چاہتا جس پر وہ طنز کر رہا ہے۔ وہ اس آدمی جیسا بھی بننا نہیں چاہتا جو اس کے طنز کا نشانہ ہے۔ وہ ایک عیار آدمی کو اپنے قد سے ناپتا ہے اور اسے ایک حقیر کیڑا بنا کر چھوڑتا ہے۔ طنز کیا ہوتا ہے، اعلیٰ طنزیہ ادب کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں، اس کی بحث میں اب میں کیا پڑوں۔ ہمارے نقادوں نے نہ ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ کا ڈھنگ سے مطالعہ کیا ہے نہ سوئفٹ کی ’’گلیورز ٹریولز‘‘ کا، کیوں کہ ان دونوں کتابوں سے اپنے طالب علمی کے زمانے ہی میں اتنے مانوس ہوجاتے ہیں کہ انھیں صحیح طور پر جان تک نہیں سکتے۔ ورنہ ان دونوں کتابوں کو اگر پختگی کو پہنچ کر وہ پڑھتے تو تنقید اور طنز کے بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوتے۔ جن لوگوں نے سوئفٹ کو غور سے نہیں پڑھا اور طنز پر مضامین لکھتے ہیں، ان لوگوں کے سامنے بائرن کی طویل نظم ’’ڈان جوان‘‘ کی ان آخری چار کتابوں کی بات کیا کریں جن میں بائرن لندن کی پوری سوسائٹی کو اپنے شدید طنز کا نشانہ بناتا ہے۔ یاد رکھیے بائرن اسی سوسائٹی کا نکالا ہوا تھا اور ڈان جوان کے روپ میں پھر اس سوسائٹی میں آتا ہے؛ اس سوسائٹی کا رکن بننے کے لیے نہیں بلکہ اس سوسائٹی کا پردہ چاک کرنے کے لیے ایسے طنز کی مثال ہم لوگ کبھی پیش نہیں کر سکتے کیوں کہ ہم میں سے ہر شخص اس دنیا کی خواہش میں مراجاتا ہے جو فلم، سیاست، اقتدار اور دولت کی دنیا ہے۔ وہ بدقسمتی سے اس دنیا کے باہر رہ گہا ہے لیکن اس میں داخل ہونے کے لیے بے چین ہے۔ ایسے لوگ اپنی حرمان نصیبی کا رونا رو سکتے ہیں، دوسروں کی اقبال مندی پر جل سکتے ہیں؛ لیکن چوں کہ یہ دونوں رویّے نہایت ہی ذلیل ہیں، اس لیے ایک پر انسانی ہمدرددی اور دوسرے پر سماجی انصاف کی زرّیں نقاب ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ پہلی شکل میں وہ جذباتیت پیدا ہوتی ہے جو خود ترحّمی کا نتیجہ ہے۔ دوسری شکل میں وہ طعن و تشنیع پیدا ہوتا ہے جو جلے ہوئے آدمی کے اندرونی تشدد کا نتیجہ ہے۔ ہمارا طنزیہ ادب جذباتی اور جارحانہ ہے۔ بڑا طنز جرّاح کے ہاتھوں کا سرد عمل ہوتا ہے۔ یہ عمل کتنا سرد ہوتا ہے، اسے جاننے کے لیے پوپ وغیرہ کی باتیں جانے دیجیے، سوئفٹ کا وہ چھوٹا سا خط پڑھ لیجیے جس میں وہ آئرلینڈ کے بچوں کا گوشت انگلینڈ نکاس کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے۔
بہر حال، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ طنز کو ادب میں استعمال کرنے کا سلیقہ ہوتا ہے، اور سلیقہ محض لکھنے کے گُر سیکھنے سے نہیں بلکہ اپنی شخصیت کو صحیح اخلاقی اور انسانی قدروں پر تعمیر کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر آدمی سرمایہ دار پر اس لیے طنز نہیں کرتا کہ وہ سرمایہ دار ہے بلکہ اس لیے کہ وہ زندگی کی اسفل قدروں کا ترجمان ہے۔ وہ اس پر اس لیے طنز نہیں کرتا کہ وہ اچھے کھانے کھاتا ہے اور اچھی شرابیں پیتا ہے، بلکہ اس لیے کہ ہوا وہوس نے اسے انسانی صفات ہی سے محروم کر دیا ہے؛ وہ لطیف جذبات اور اعلیٰ انسانی قدروں کا حامل ہی نہیں رہا۔ بالزاک اور فلوبیر نے بورژوؤں کی pettiness کو اسی طرح ظاہر کیا ہے۔ طنز ان کی توند اور موٹی گردن پر نہیں پورے طریقہ زندگی پر ہے۔ اسی طرح شاعر زاہد اور واعظ کی ریاکاری کا پردہ چاک کرتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کو ان کی گندم نمائی اور جو فروشی سے بہتر سمجھتا ہے۔ وہ ان سے اس لیے نہیں الجھتا کہ وہ لوگ نیک ہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ اپنی نیکی پر فخر کرتے ہیں اور دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کا جھگڑا سفید داڑھی سے نہیں بلکہ خرقۂ سالوس سے ہے۔ واعظ کی داڑھی کھینچنا اتنا ہی مذموم فعل ہے جتنا سرمایہ دار کی توند پر ہنسنا۔ حرکت اسی وقت قابلِ برداشت بنتی ہے جب شاعر کی وجہِ مخالفت کسی اخلاقی بنیاد پر ہو۔ اسی لیے واعظ زاہد کے ساتھ دھول دھپّار ذیلوں کا کام ہے، لیکن ان کی ریاکاری کا پردہ چاک کرنا طنز نگار کا کام ہے۔ اس نازک اور لطیف نکتے کو حالی کتنی ذہانت اور بصارت سے پیش کرتے ہیں، ذرا دیکھیے :
ان پر نکتہ چینی کرنی انھیں لوگوں کو زیبا ہے جن کو فی الواقع ان کے ساتھ کوئی وجہ مخالفت کی ہو۔ ہاں باوجود نہ ہونے کسی کی مخالفت کے صرف ایک صورت سے واجبی طور پر ایسے مضامین باندھے جاسکتے ہیں۔ یعنی نکتہ چینی ایسے طریقہ سے کی جائے جس سے معلوم ہو کہ محض ریاومکرو سالوس کی برائی بیان کرنی مقصود ہے نہ زہّاد وواعظین کی ذات پر حملہ کرنا۔ کیونکہ رذائل کی برائی اور فضائل کی خوبی بغیر اس کے دل نشین نہیں کی جاسکتی کہ کسی شخص یا گروہ کو ان کا موضوع فرض کرلیا جائے، اور معقولات کو محسوسات کے پیرائے میں ظاہر کیا جائے۔ ظلم اور عدل کا بیان واضح طور پر اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ظالم یا منصف بادشاہ کی مذمت یا تعریف کی جائے۔ اور نامردی یا بہادری کی تصویر یوں ہی دکھائی جاسکتی ہے کہ ان کو کسی بزدل یا بہادر کے قالب میں ڈھالا جائے۔ لیکن اس صورت میں ضرور ہے کہ واعظ و زاہد وغیرہ کی کسی ایسی صفت کی طرف جو عقلاً یا شرعاً قابلِ الزام ہو، کچھ اشارہ کیا جائے۔ ورنہ کہا جائے گا کہ نیکوں پر نہ اس لیے کہ وہ قابلِ الزام ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ نیک ہیں حملہ کیا جاتا ہے۔
حالی اس بحث کو دلچسپ مثالوں کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ میں جس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حالی اپنی خداداد ذہانت کی بنا پر یہ بات سمجھ لیتے تھے کہ اعلیٰ آرٹ اور اچھے ادب کے لیے کیا چیزیں ضروری ہیں۔ گویا ان کا بنیادی سروکار فنّی لوازمات سے تھا۔ یہ اور بات ہے کہ جس چیز کو وہ اعلیٰ ادب کے لیے اچھی سمجھتے تھے وہ اخلاقی اعتبار سے بھی اچھی ہوتی تھی۔ گویا حالی کی جمالیاتی صداقت اخلاقی صداقت سے ہم آہنگ ہے، اور جو عناصر ادب العالیہ کی تخلیق کے لیے ضروری ہیں وہ اخلاقی طور پر بھی معتبر ہیں۔ حالی کی ریاست میں معلّمِ اخلاق شاعر کو دیس بدر نہیں کرتا، نہ ہی شاعر معلّم اخلاق کو۔ اور یہ اخلاقیات و جمالیات کا وہ fusion ہے جسے صرف کلاسیکی ذہن ہی پا سکے ہیں۔ اسی لیے کم از کم حالی کے معاملے میں نقادوں کو بہت ہی احتیاط برتنی پڑتی ہے؛ بالکل ایسی ہی احتیاط جیسی کہ جانسن کے معاملے میں برتنی پڑتی ہے۔ الیٹ نے تو صاف لفظوں میں تنبیہ کردی ہے کہ جانسن بڑا خطرناک نقاد ہے۔ یہی بات ہم حالی کے متعلق کہہ سکتے ہیں۔ حالی خطرناک اس معاملے میں ہیں کہ آپ ان پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کر سکتے جس سے وہ واقف نہ ہوں۔ حالی بے وقوف سے سیدھے سادے مولوی قسم کے آدمی نہیں ہیں کہ شاعری پر جو کچھ ان کی سمجھ میں آیا اناپ شناپ ہانک دیا۔ ان کی تنقید ایک بہت ہی رچے ہوئے اور کسے ہوئے ذہن کی پیداوار ہے، اسی لیے نقاد جب ان کے ادبی تصورات کو ان کے اخلاقی تصورات بنا کر پیش کرتے ہیں تو وہ اپنے لیے ایک بڑا خطرہ مول لیتے ہیں۔ مثلاً اگر اوپر کی پوری بحث سے کوئی یہ نتیجہ نکالے کہ حالی اتنے تو خشک معلّمِ اخلاق ہیں کہ وہ زاہد و واعظ کی آبرو بچانے کے لیے شاعروں کو اس سے ٹھٹھول کرنے تک کی اجازت نہیں دیتے، تو یہ غلط ہوگا۔ حالی کی یہ پوری تنقید ادب میں طنز کے صحیح تصور پر مبنی ہے؛ اور گو انھوں نے طنز کی ان تمام کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا جو مثلاً طنز پر مضمون لکھنے کے لیے میں نے جمع کر رکھی ہیں، لیکن اپنی ذہانت کی وجہ سے وہ طنز کی ماہیت کو جتنا سمجھے ہیں وہ مجھ جیسے غبی لوگ اتنی سب کتابیں پڑھنے کے بعد بھی شاید نہ سمجھ سکیں۔ غرض یہ کہ حالی کی وہ رائیں جو اعلیٰ ادبی تقاضوں کے تحت تشکیل پائی ہیں انھیں ان کے اخلاقی فیصلوں کی شکل دے کر پیش کرنا ان سے ناانصافی کرنا ہے۔ سلیم احمد نے یہی حرکت کی ہے۔ ان کے دوسرے نکتہ چینوں نے بھی یہی حرکت کی ہے۔ حالی بات غزل کے عاشق اور غزل کے رند کی کر رہے تھے، انھوں نے ان کی بات کو ایک عام عاشق اور ایک عام رند پر منطبق کیا۔ آپ ذرا سوچیے تو کہ میں انگریزی زبان میں حالی پر مضمون لکھتے ہوئے یہ کہوں کہ وہ عشق اور عاشق سے کیسے شرماتے تھے، تو لوگ تو یہی قیاس کریں گے کہ حالی ایک prude تھے، کیوں کہ انگریز قاری غزل اور غزل کی روایت، غزل کے حسن اور غزل کے ابتذال سے واقف ہی نہیں۔ آپ ذرا یہ بھی سوچیے کہ حالی نے غزل پر جن اصولوں کے تحت تنقید کی ہے، کیا آپ ان اصولوں پر مثنوی ناول، یا افسانہ کو پرکھ سکتے ہیں۔ گویا مثنوی کی ہیروئن پر اس تنقید کا اطلاق کیا ہی نہیں جاسکتا جو حالی نے غزل کے محبوب پر کی ہے۔ مثنوی میں کنگھی، چوٹی اور کُرتی کے ذکر پر حالی نے کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن غزل کے محبوب کے سلسلے میں کیا ہے۔ غزل کی سی صنفِ سخن دنیا کے کسی ادب میں موجود نہیں، لہٰذا غزل کی شاعری کی تنقید اصولوں پر ہی ممکن ہے جو غزل کی روایت کی چھان بین کرنے کے بعد غزل کو پرکھنے اور غزل کو بہتر بنانے کے لیے نقاد وضع کرتا ہے۔ حالی نے بھی یہی کیا۔ کیوں کہ حالی پانی پت میں پیدا ہوئے تھے، بجنور اور سندیلے میں نہیں کہ ایک پائپ لائن کے ذریعے پوری انگریزی تنقید کا پٹرول بہا کر غالب کی غزل اس میں ناک تک غرق کر دیں اور پھر اپنی رایوں کے فلیتے جلا جلا کر اس میں پھینکتے رہیں۔ مغرب میں تو لوگ المیے کی تنقید کو بھی المیے تک ہی محدود رکھتے ہیں کیوں کہ ان کی نظر میں المیہ خود ایک ایسا فارم ہے جس کی مثال خود مغرب کی دوسری اصناف مثلاً ناول وغیرہ میں پیدا نہیں کر سکا۔ گویا المیے کا ایک دور تھا جو شیکسپیئر، ریسن اور کارنیلی کے ساتھ ختم ہوا اور تنقید کے وہ اصول جو کلاسیکی المیہ ڈراما نویسوں کو جانچنے کے لیے وضع کیے گئے تھے ان پر ان تخلیقات کو جو غلطی سے دورِ جدید کے المیے قرار دیے گئے ہیں، پرکھا نہیں جاسکتا۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ حالی کی تنقید کو اس کے متن سے علیحدہ کر کے دیکھنا، ایک خاص صنف کے متعلق ان کی دی ہوئی رایوں کی تعمیم کرنا، ان کے ادبی تصورات کو ان کی اخلاقی تعلیمات سمجھنا، ہمارے حددرجہ ناقص تنقیدی شعور کا ثبوت ہیں۔ یہ تقلیدی شعور اس قدر ناقص ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ جس زبان کا یہ پیدا کردہ ہے اس میں ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ لکھی ہی نہیں گئی۔ ہمارے نقادوں نے اس کتاب تک کو دھیان سے نہیں پڑھا، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حالی اس بات کو غیر شعوری طور پر جانتے تھے کہ انھیں کیسی ناخلف اور بے تربیت اولاد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کتاب کا خاتمہ انھوں نے جن جملوں پر کیا ہے وہ ایک ایسی پیش بینی کے مظہر ہیں جو معجزے سے کم نہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ آخر کے پورے دو صفحات نقل کروں لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے آخری پیراگراف کی بھی آخری چند سطریں ہی پیش کرتا ہوں:
پس اس انسانی قاعدہ کے موافق ہم کو یہ امید رکھنی تو نہیں چاہیے کہ اس مضمون کی غلطیوں کے ساتھ اس کی خوبیاں بھی (اگرچہ کچھ ہوں) ظاہر کی جائیں گی۔ لیکن اگر صرف غلطیوں کے سکھانے ہی پر اکتفا کیا جائے اور خوبیوں کو بہ تکلّف برائیوں کی صورت میں ظاہر نہ کیا جائے تو بھی ہم اپنے تئیں نہایت خوش قسمت تصور کریں گے۔
آپ ایمان داری سے کہیے کہ ہم ان کی خوبیوں کو برائیوں کی صورت میں ظاہر کرنے کے علاوہ اور کرتے ہی کیا رہے ہیں؟ اگر آپ کو پھر بھی اصرار ہو کہ ہمارے نقادوں نے ’’مقدمہ‘‘ کو دھیان سے پڑھنے اور اس کے معنی اور مطلب کو خلوص سے سمجھنے کی کوشش کی ہے تو پھر پورے ترقی پسند ادب اور خصوصاً ترقی پسند تنقید کو پڑھیے اور پھر حالی کے ان جملوں پر غور کیجیے :
اگر چہ اس میں شک نہیں کہ جس طرح شعر میں جدّت پیدا کرنی اور ہمیشہ نئے اور اچھوتے مضامین پر طبع آزمائی کرنی شاعر کا کمال ہے اسی طرح ایک ایک مضمون کو مختلف پیرایوں اور متعدد اسلوبوں میں بیان کرنا بھی کمالِ شاعری میں داخل ہے۔ لیکن جب ایک ہی مضمون ہمیشہ نئی صورت میں دکھایا جاتا ہے تو اس میں تازگی باقی نہیں رہتی۔ ہر مضمون کے چند محدود پہلو ہوتے ہیں۔ جب وہ تمام پہلو ہو چکتے ہیں تو اس مضمون میں تنوع کی گنجائش نہیں رہتی۔ اب بھی اگر اسی کو چھیڑتے چلے جائیں تو بجائے تنوع کے تکرار اور اعادہ ہونے لگے گا۔ بہروپیا دوچار روپ بھر کر لوگوں کو شبہ میں ڈال سکتا ہے مگر پھر اس کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ہر کوئی اس کو دور ہی سے دیکھ کر پہچان لیتا ہے کہ بہروپیا ہے۔ ہم لوگ جب غزل لکھ کر مشاعرے میں جاتے ہیں تو اپنے دل میں سمجھتے ہیں کہ ہم سب الگ اچھوتے مضمون باندھ کر چلے ہیں، مگر غزل کو دیکھیے تو وہی انگریزی مٹھائی کا بکس ہے کہ مٹھائیوں کی شکلیں مختلف ہیں لیکن مزا سب کا ایک ہے۔ فرض کرو مختلف شکلوں کے متعدّد سانچے تیار ہیں، کوئی مدوّر ہے کوئی مستطیل، کوئی مثلث، کوئی مربّع، کوئی مسدّس، اور کوئی مثمن۔ اب ہر ایک سانچے میں موم پگھلا کر ڈالو۔ ظاہر ہے کہ ہر سانچے سے موم نئی شکل پر ڈھل کر نکلے گا۔ بعینہ ایسا ہی حال غزل کا ہے۔ مضمون وہی معمولی ہیں مگر بحر وقافیہ کے اختلاف سے مختلف شکلیں پیدا کرلیتے ہیں۔
اس سے پیشتر کہ ہیئتی تنقید کا کوئی ماہر مجھے یہ بتائے کہ موضوع اور ہیئت، اور مواد اور صورت کی یہ ثنویت مناسب نہیں، میں یہ عرض کروں کہ تخلیقِ فن میں مواد اور صورت کی وحدت پر اصرار حق بجانب ہے لیکن تنقید اس ثنویت کے بغیر دو قدم چل نہیں سکتی۔ میں ایک مضمون میں اس موضوع پر بحث کر رہا ہوں۔ سردست صرف اتنا عرض کروں گا کہ حالی مواد کے تنوع پر زور دیتے رہے ہیں اور گو وہ موضوع، معنی، مضمون کو مواد سے الگ کر کے نہیں دیکھ رہے ہیں، لیکن موم کا استعارہ پورے مواد کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ صورت کو صنفِ سخن تک محدود سمجھنا حالی ہی کا نہیں پوری مغربی تنقید کا تاحال رویہ رہا ہے۔ یہ زیر بحث مسئلے کے نازک پہلو ہیں، لیکن اس سے حالی کی رائے ناقص ثابت نہیں ہوتی۔ مواد کے تنّوع کے بغیر ادب محض تکرار بن جاتا ہے۔ انقلابی ادب، نوجوانوں کی رومانی محبت والا ادب، کمر شل اور تفریحی ادب تکرار اور مقبول فارمولوں کا ادب ہوتا ہے۔ ترقی پسند ادب پر منصوبہ بندی، فارمولا بازی اور بی بے والی شاعری کے اعتراضات میں حالی کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔
=== O ===
۴
اب ایک بار پھر سلیم احمد کی طرف پلٹیے۔ سلیم احمد نے حالی کو عشق کا محتسب، جنسی آزادی کا منکر، اور صرف قومی خدمت کرنے اور انگریزوں کو مائی باپ کہنے والا شاعر بنا کر رکھ دیا۔ ان کے تھیسس کا ایک پہلو تیار ہوگیا، یعنی خشک آرتھوڈوکسی جو تھوڑا بہت روشن خیال بننے کی کوشش کرتی ہے۔ اب انھیں ضرورت تھی اس رومانی سرشاری اور بغاوت کی جو بوڑھے حالی کے تھامے تھم نہ سکے اور ان کے خلاف بغاوت کر کے ایک نئی پُرامن راہ پر گامزن ہو۔ رومانی بغاوت کا یہ عنصر انھیں حسرت میں ملا جو نئے ادیبوں کے ہاتھوں پروان چڑھ کر ’’شعلے‘‘ اور ’’انگارے‘‘ کی شکل اختیار کرتا، منٹو، عصمت، میراجی کی بے باکی جنس نگاری سے ہوتا ہوا فراق کی امردپرستی کی حمایت تک پہنچا۔ سلیم احمد کے مضمون کے بعد جو زمانہ گذرا ہے اس میں مغرب میں نئی نسل کی جنسی بغاوت اور آزادی اُس انتہا کو پہنچ گئی ہے جس کے سامنے سلیم احمد خود بوڑھے نظر آنے لگے ہیں۔ دراصل سلیم احمد سمجھتے تھے کہ الطاف حسین اپنے محلۂ انصار میں گوشہ نشین ہوجائیں تو پھر صہبا وحید کا بایولوجیکل فینومینا والا معاملہ کچھ ٹھیک سے چلنے لگے۔ یعنی روح کو مارو گولی، یارو اگر بدن سے بدن مل گئے تو بس مزہ آگیا۔ لیکن منٹو، عصمت، میراجی جیسے نئے ادیبوں کا جو قافلہ آیا تھا اس کا زندگی کا مطالعہ اور تجربہ ریڈیو جرنلسٹوں سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ سلیم احمد تو سمجھتے تھے کہ بوڑھے حالی خانقاہ میں تسبیح لے کر بیٹھ جائیں تو پھر حسرت کی معنوی اولاد بنتِ عم کو بغل میں لے کر میراجی کے جھولے ہی جھولا کرے گی۔ لیکن دراصل ایسا ہوا ہی نہیں۔ صحت مند رومانی شاعری کی بجائے ایسے ہیرو آئے جو گندی گھاٹن کے بغل کے بال سونگھتے تھے، عورت کو پیشاب کرتے دیکھ کر جلق لگاتے تھے اور لحاف میں ہاتھیوں کی اچھل کود کا تماشہ دیکھتے تھے۔ اب سلیم احمد سٹ پٹائے۔۔۔ آخر اس گھپلے کا کیا علاج کیا جائے۔ انھوں نے تو لکھنے والوں کو باغیوں کی فوج بتایا تھا، برطانوی سامراج سے ٹکراتے تھے، اور نئے لکھنے والوں نے تو رنڈیوں اور بھڑووں پر خامہ فرسائی شروع کر دی۔ اب سلیم احمد تاویلیں کرنے لگتے ہیں، لیکن تاویل بن نہیں پڑتی۔ تو پھر وہ جھنجھلا کر نئے ادیبوں کو ماہر القادری ہی کی طرح ڈانٹنے لگتے ہیں کہ جنسی آزادی کا مطلب تھا کہ بیک وقت سامراج سے ٹکراتے اور محبوب سے ہم بستر ہوتے۔۔۔ یعنی جب گھر سے باہر نکلتے تو سر پر کفن باندھے نکلتے، اور گھر میں داخل ہوتے تو کفن تہمد کی صورت میں بندھا ہوتا۔ بنتِ عم بھی گھر میں دو قسم کا پانی تیار رکھتی۔۔۔ ایک نمک کا پانی جو اشک آور گیس کے اثر کو زائل کرنے کے لیے ہوتا اور دوسرا آبِ گرم جو مباشرت کے بعد استعمال کیا جاتا۔ لیکن ایسا ہیرو پیدا ہونے کی بجائے ہیرو غنڈے، قزاق اور عورتوں کی بغلیں سونگھنے والے پیدا ہوئے۔ غصّے میں سلیم احمد ماہر القادری کی بھاشا بولنے لگتے ہیں، اور پھر انھیں احساس بھی ہونے لگتا ہے کہ وہ ماہر القادری کی زبان بول رہے ہیں۔ بعد میں خود ترقی پسند یہ زبان بولنے لگتے ہیں تو سلیم احمد انھیں حالی کی معنوی اولاد کہہ کر ان پر بپھرتے ہیں۔ فراق کی جرأتِ رِندانہ پر بانس بانس اچھلتے ہیں اور جب علی سردار جعفری امردپرستی کو لونڈے بازی کہہ کر فراق پر اعتراض کرتے ہیں تو سلیم احمد ان کی ہی ہی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ پھر وہ نیا ہندوستان جو تحریکِ خلافت اور خصوصاً ہندوستانی سیاست کے بے رنگ اور مردہ اسٹیج پر مسلمانوں کی شان دار اور heroic آمد سے پیدا ہوا تھا، اسی نئے ہندوستان کے سپوتوں کے ہاتھوں نکالے ہوئے ننگی عورتوں کے جلوس کو دیکھتے ہیں تو اسے بھی حالی کی غزل کی مخالفت اور غزل کے ذریعے عشق کی مخالفت کا نتیجہ بتاتے ہیں۔ ان سب متضاد خیالوں کو بہر حال ہم آہنگ کیسے کیا جائے، سلیم احمد یہ کام کر دکھاتے ہیں، اپنے رواں اسلوب اور زورِ خطابت سے۔ چوں کہ خیالات ان کے ہیں اس لیے ان کا بچنا ضروری ہے؛ اگر انھیں بچانے میں حالی سے لے کر منٹو تک سب حلال ہوجائیں تو ایسی چھچھوری باتوں کی فکر وہ نقا دنہیں کیا کرتا جو ایک تھیسس ثابت کرنے چلا ہے۔ جن غلط مفروضوں پر ان کے تھیسس کی تعمیر ہوتی ہے وہ یہ ہیں :
(۱) وہ ایک وسیع انسانی معاشرہ جس میں بے شمار زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں، اور جو مختلف تہذیبی، مذہبی اور علاقائی اکائیوں میں بٹا ہوا ہے، اس معاشرے کے لوگوں کے جنسی رویے کا قیاس ایک زبان کے ادب سے لگاتے ہیں، اور اپنے اس قیاس کو حقیقت سمجھتے ہیں، حالاں کہ اس کی تصدیق کا ہمارے پاس کوئی سرمایۂ شواہد نہیں جس پر اعتبار کیا جاسکے۔ اس غلط طریق کار سے جس غلط تنقیدی رویے کی تشکیل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ادب عصری زندگی کا ہو بہو آئینہ ہے اور ادب کے آئینے میں زندگی کے رویّوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ گویا سلیم احمد معاشرتی نقادوں کے پُر فریب تصورات کا شکار ہوئے ہیں۔ جس طرح وہ ماہر القادری کی prudish بھاشا بولنے لگے تھے، وہ ترقی پسندوں سے اپنے تمام اختلافات کے باوجود پورے مضمون میں انھیں کی بھاشا میں بات کرتے ہیں۔
(۲) کسی بھی سماج کی زندگی مختلف تاریخی قوتوں کی پیدا وار ہوتی ہے۔ پورے ہندوستان کی سیاست کو محض غزل کی شاعری اور تنقید کی روشنی میں سمجھنا طفلانہ حرکت ہے۔ فسادات، قتل وغارت گری، زنا بالجبر اور برہنہ جلوس کو انسان کے اندر رہے ہوئے جارحیت اور تشدد کے عناصر، ہجوم کی نفسیات، مذہبی جنون اور سیاسی تعصّب، روحانی کھوکھلے پن اور تہذیبی بے مایگی، جدید انسان کی غیر محفوظیت، تنہائی اور تردّد کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔ اس مطالعے کا مواد معاشرے کی سماجی اور سیاسی زندگی فراہم کر سکتی ہے، اور مختلف سماجی علوم سے مدد لی جاسکتی ہے، خصوصاً نفسیات سے۔ اس مطالعہ کے لیے ادب کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ ادب بہر حال سماج کی تہذیبی اور نفسیاتی زندگی کا عکس ہوتا ہے، لیکن ادب اپنے طور پر کوئی ایسا data فراہم نہیں کرتا جس پر سماجی تصورات کی بنیاد رکھی جاسکے۔ ادب شواہد فراہم نہیں کرتاجس پر سماجی تصورات کی بنیاد رکھی جاسکے۔ ادب شواہد فراہم نہیں کرتا، محض مفروضات کا سرمایہ عطا کرتا ہے۔ ادب یہ نہیں بتاتا کہ مرد چوں کہ جنسی معاملے میں عورت سے غیر مطمئن تھا اس لیے خنجر لے کر عورتوں کا سینہ کاٹنے نکل گیا۔ ادب بتاتا ہے کہ یہ ایک سبب ہو سکتا ہے، حالاں کہ جنسی تشدد کے دوسرے بھی بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔ سبھی لوگ ایشر سنگھ نہیں ہوتے۔ آخڑ سینکڑوں قاتل اور خونی ہوتے ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ آرام سے سوتے ہیں اور اپنے بچوں کو پیار بھی بہت کرتے ہیں۔ مغویہ عورتوں کے ساتھ شاید آج بہت سے لوگ محبت سے جی بھی رہے ہوں؛ ان میں سے بہت سوں کے بچے آج سنِ شعور کو بھی پہنچ گئے ہوں گے۔ مطلب یہ کہ ادب کے بیانات کو ٹھوس شواہد کے طور پر قبول کر کے انسان یا معاشرے کے بارے میں ایک ایسے نظریے کی تشکیل کرنا جس کی تشکیل زندگی کے ان حقائق سے نہ ہوتی ہو جو سماجی علوم کا تحقیقی مواد ہوتے ہیں، ادب کا غلط استعمال ہی نہیں بلکہ غلط علمی رویہ بھی ہے۔ ادبی نقاد کا فرض ہے کہ وہ ادبی حدود میں رہ کر بات کرے، اور سماجی مسائل کا ذکر کرتے وقت وہ یہ بھی نہ بھولے کہ یہ مسائل ادب کا موضوع بننے کے بعد محض سماجی نہیں رہے بلکہ فن کار کے اندازِ فکر، تخیل اور جذباتی اور اخلاقی رویّوں نے انھیں ایسا بدل دیا ہے کہ ان مسائل کو ادب کے حدود میں رہ کر ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ انھیں بنیاد بنا کر سماج کے متعلق خیال آرائی کرنا خطرات سے خالی نہیں۔ افسانے، ڈرامے اور ناول کا ہر کردار ایک منفرد کردار ہوتا ہے، اور ہم اپنا رویہ اس کردار کے متعلق ہی درست کر سکتے ہیں، ان تمام لوگوں کی طرف نہیں جن کا وہ نمائندہ ہے۔ ہر رنڈی سوگندھی نہیں ہوتی اور ہر غنڈہ محمد بھائی نہیں ہوتا۔ ہر عیاش بابو گوپی ناتھ نہیں ہوتا اور ہر ساس عصمت کی ساس نہیں ہوتی۔ آپ اپنے ادبی تجربات کو زندگی کے تجربات سے خلط ملط نہیں کر سکتے۔ ادبی تجربات کے ذریعے زندگی کے تجربات کو سمجھ سکتے ہیں لیکن ادبی تجربات کو زندگی کے تجربات قرار نہیں دے سکتے۔ ادب زندگی کے حقائق کی دستاویز نہیں ہوتا بلکہ ان حقائق کا بیان ہوتا ہے جن کا علم یا تجربہ فن کار نے اپنے تخیل کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ عورتوں کے جلوس لوگوں نے کیوں نکالے اس کی ایک نہیں سینکڑوں وجوہات ہو سکتی ہیں، اور ان کی تحقیق کا میدان نفسیات اور سماجیات ہے۔ فن کار کی بتائی ہوئی وجوہات درست بھی ہوسکتی ہیں اور غلط بھی، اس لیے سماجی مفکر انھیں evaluate کیے بغیر کام میں نہیں لاتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ آیا فسادات کے متعلق ادب کوئی ایسی بات بتاتا ہے جو سماجی طور پر سود مند ہو۔ ادبی نقاد اس طرح نہیں سوچتا۔ فن کار نے جو بات بتائی ہے وہ چاہے سماجی تحقیق کے میدان میں کار آمد ثابت نہ ہو لیکن ایک تجربے کے طور پر اہم ہے تو ادبی نقاد اس کی تعریف کرے گا، پھر چاہے ماہرِ نفسیات یا مفکر اس کے تجربے کو غیر سود مند یا غلط ہی کیوں نہ قرار دے۔ سلیم احمد چوں کہ ایک سماجی مفکر کے طور پر سوچتے ہیں اس لیے افسانوں میں بیان کیے ہوئے واقعات کو وہ شواہد کے طور پر قبول کرتے ہیں، لیکن انھیں evaluate نہیں کرتے لہٰذا سماجی مفکر کے طور پر وہ ناکام رہتے ہیں۔ انکی سماجیات اور سیاسیات دونوں غلط ہیں کیوں کہ وہ ادب سے ماخوذ ہیں۔ سماجی طور پر وہ سوچنا چاہتے ہیں کہ حسرت کی بغاوت کے بعد جیالے نوجوان اب عشق کریں گے اور چکی پیسیں گے، لیکن منٹو کا ہیرو بغل کے بال سونگھتا ہے۔ ان کی سماجی فکر ان کے ادبی تجربے کو جھٹلاتی ہے، لہذا وہ منٹو کے افسانے کی قدر وقیمت ایک ادبی نقاد کے طور پر نہیں بلکہ ایک سماجی مفکر کے طور پر متعین کرتے ہیں۔ منٹو کی پوری تنقید ان کے اسی تضاد کا شکار ہوگئی ہے۔ منٹو کی ’’بو‘‘ پر میں الگ سے مضمون لکھ چکا ہوں اور بتا چکا ہوں کہ اس افسانے میں منٹو کون سے تجربے کو بیان کرنا چاہتا تھا۔ سلیم احمد کہتے ہیں کہ مولانا حالی کے شریفوں کی اولاد اس نوبت کو پہنچ گئی تھی کہ اسے ذہنی سکون کے لیے عورتوں کی بغلیں سونگھنی پڑتی تھیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ منٹو کا ہیرو ذہنی سکون کے لیے یہ حرکت نہیں کرتا۔ وہ گھاٹن کی بغل کے بال نہیں سونگھتا؛ وہ تو گھاٹن کے بدن کی بو میں اتنا سرشار ہے کہ اپنے وجود کو اس کے وجود میں جذب کر دینا چاہتا ہے۔ سلیم احمد سمجھتے ہیں کہ منٹو گندگی کا بیان کر رہا ہے، حالاں کہ منٹو جنسی تجربے کے حسن کا بیان کررہا ہے۔ سلیم احمد کو نوجوان کی یہ حرکت گندی نظر آتی ہے؛ منٹو کے لیے تو یہ بہت ہی حسین تجربہ ہے۔ سلیم احمد سمجھتے ہیں کہ نیا ہندوستان معاشرے کی خوفناک بلاؤں سے لڑنے کے لیے تیار ہوا تو صف بندی سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ کی ذمے داری نئے ادیبوں کے سر ڈالی گئی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نئے فن کار ڈاکٹروں کی طرح سماج کی نبض دیکھنے نکلے۔ اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ منٹو نے کوٹھے پر ایسی نائیکائیں، نوچیاں، دلال، تماش بین دریافت کیے جن کی انسانیت ابھی مری نہیں تھی، بلکہ معاشرے کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے ان میں ایسی تلخی پیدا ہوئی تھی جسے کسی وقت بھی کام میں لایا جاسکتا تھا۔ یہ تاویل غلط تاویل ہے؛ یہاں پر وہ منٹو سے وہ مقاصد تعبیر کر رہے ہیں جو افسانہ لکھتے وقت اس کے سامنے نہیں تھے۔ منٹو نہ سماج کے خلاف لڑنے کے لیے لوگوں کو تیار کرنا چاہتا ہے، نہ اس مقصد کے لیے وہ ایک ڈاکٹر کی طرح سماج کی نبض شناسی کے لیے روانہ ہوتا ہے۔ وہ ڈاکٹر کی نظر سے نہیں بلکہ فن کار کی نظر سے سماج کا مشاہدہ کرتا ہے اور اپنے تجربات بیان کرتا ہے۔ اس کے سامنے کوئی اصلاحی یا انقلابی مقاصد نہیں تھے۔ اس کے افسانے سماجی مقصدیت کی قدر کے نہیں بلکہ فن کارانہ انکشاف کی قدر کے حامل ہیں۔ سماجی مجاہد کا رول نہ منٹو کو پسند تھا نہ اس کا فن اس کی تصدیق کرتا ہے۔ ’’بو‘‘ کا تجربہ اسے جنسی اعتبار سے اہم معلوم ہوا سو اس نے بیان کیا۔ سلیم احمد کے تھیسس کے لیے یہ کارآمد ثابت نہیں ہوا سو انھوں نے اسے رد کیا۔
(۳) سلیم احمد اپنے تجزیے میں فن کار کے تخلیقی رول کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نئے لکھنے والوں نے سماج اور سامراج کے خلاف لڑنے کے لیے ہی ادب پیدا کیا۔ یہ بات ترقی پسندوں تک تو ٹھیک ہے، لیکن عام طور پر درست نہیں۔ فن کار تخلیقِ فن مختلف وجوہات کی بنا پر کرتا ہے، کبھی ذاتی تسکین کی خاطر، کبھی کسی تجربے کو بیان کرنے کی خاطر، کبھی محض تفنّنِ طبع کی خاطر، کبھی اپنی زندگی کی محرومیوں کی تلافی کی خاطر؛ غرض یہ کہ تخلیقِ فن کی سینکڑوں وجوہات ہو سکتی ہیں۔ سماج کے خلاف لڑنا ان میں سے ایک وجہ ہے لیکن واحد وجہ نہیں۔ میراجی کی نظم ’’لبِ جوئبارے‘‘ کی سلیم احمد غلط تنقید کرتے ہیں، کیون کہ یہ نظم بھی مجاہدوں کی ترجمان نہیں بلکہ اس کا تجربہ بالکل دوسری قسم کا ہے۔ اس نظم کا جنسی تجربہ نہایت ہی اہم ہے۔ فی الحال میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ صرف اتنا بتاؤں گا کہ سلیم احمد بھی بنیادی طور پر ایک prude آدمی ہیں۔ وہ فراق کی امرد پرستی کی حمایت کی تعریف کرتے ہیں لیکن جنس کے sensous تجربات کے تنّوع کو قبول کرنے سے شرماتے ہیں۔ آخر جنسی ہیجان اور تلذّذ کے ایک نہیں ہزار طریقے ہیں۔ سلیم احمد اگر ایک طریقے کو پسند اور دوسرے کو ناپسند کرتے ہیں تو ان کے پاس عقلی وجوہات کون سی ہیں؟ ’’لحاف‘‘ میں تو خیر عصمت نے اپنا سماجی نقطۂ نظر قائم رکھا ہے، یعنی عورتوں کو ہم جنسی کو عصمت پسند نہیں کرتیں اور اس کی چند سماجی اور اخلاقی وجوہات بتاتی ہیں۔ لیکن امرد پرستی ہی کی طرح لسبیانزم (lesbianism) بھی ایک جنسی deviation ہے جسے آج مغرب کا سماج ایک حقیقت کے طور پر قبول کررہا ہے؛ یعنی اخلاقی طور پر یہ تعلّق بھی مذموم نہیں ایک فطری مجبوری ہے، اور اگر دو عورتیں ہم جنس کے طور پر رہنا چاہتی ہیں تو انھیں پورا حق ہے اور ہم ان کی قانونی اور اخلاقی گرفت نہیں کر سکتے۔ عصمت کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ لونڈے باز نواب کا کردار بیچ میں لائیں؛ بودلیر کی lesbians کی طرح وہ خالص sensious سطح پر انھیں پیش کرتیں۔ پتا نہیں اُس وقت سلیم احمد عصمت کی تعریف کرتے یا نہیں۔ آخر انھوں نے فراق کی تعریف تو کی لیکن ’’لحاف‘‘ کی تعریف نہیں کی کیوں کہ ترقی پسندوں کی طرح انھیں یہ افسانہ سماجی طور پر کار آمد معلوم نہیں ہوا۔ اس کے تجربے کو وہ قبول نہیں کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کا جنسی آزادی کا تصور بنتِ عم سے صحت مند محبت تک ہی محدود ہے یا صہبا وحید کی طرح وہ بایولوجیکل فیونومینا والے تصور تک جانا چاہتے ہیں؟ بنتِ عم سے محبت کی اجازت تو حالی بھی انھیں دے دیتے۔ خواہ مخواہ اتنا دھوم دھڑاکا کیوں؟
جی ہاں، حالی عشق کی اجازت دے دیتے، اور حالی کے متعلق یہ میری تمام بحث کا مرکزی نقطہ ہے؛ کیوں کہ حالی قدامت پسند تھے، روایت پسند تھے، وضع دار تھے، پابندِ شرع واخلاق تھے، ثقہ، سنجیدہ، شریف اور شرمیلے تھے، لیکن وہ شاعر تھے اور غزل کے شاعر تھے۔۔۔ اور بہت ہی اچھے شاعر تھے۔ وہ تنگ نظر، کم ظرف، بددماغ، جھگڑالو، اعصاب زدہ، بدمزاج، لکیر کے فقیر، ضدی اور اڑیل آدمی نہیں تھے۔ وہ دقیانوسی نہیں تھے، فقیہ اور محتسب نہیں تھے، کٹھ ملّا نہیں تھے۔ ایک زمانے کے انتشار نے ان کی شخصیت میں قرار پایا تھا۔ اقدار کا نراج ایک خوبصورت تنظیم میں بدل گیا تھا۔ روایتوں کی ٹوٹتی ہوئی دیواریں ان کے ہاتھوں کا سہارا پاکر پھر سے استوار ہوگئی تھیں۔ وہ حادثات کی شوریدہ سرموجوں کے درمیان ثابت قدم رہے تھے۔ وہ افکار خیالات کی آندھیوں کے درمیان لچک دار شاخ کی طرح مڑجاتے تھے لیکن ٹوٹتے نہیں تھے۔ انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک پوری تہذیب، ایک پورے تمدن، ایک پورے طریقۂ زندگی کو بکھرتے دیکھا۔ جو کچھ انھیں عزیز تھا وہ چھِن رہا تھا۔ جس سے وہ مانوس نہیں تھے وہ ان کی زندگی میں راہ پارہا تھا۔ پرانی دنیا پرانی ہورہی تھی لیکن انھیں عزیز تھی۔ نئی دنیا دلکش اور چمکدار تھی لیکن نامانوس تھی۔ عرب و عجم وہند کی ایک عظیم تہذیبی روایت نے ان کے ذہن کی پرورش کی تھی، لیکن ہر روایت کی طرح اس کے بھی بہت سے عناصر فاسد، فرسودہ اور ازکار رفتہ ہوچکے تھے۔ مغرب سے آئے ہوئے تمدنی اور تہذیبی رجحانات ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈال رہے تھے۔ حالی کا کام اپنی روایت کے انحطاطی عناصر کو کاٹ کر اسے اس دہلیز پر لاکھڑا کرنا تھا جہاں پر ایک نیا تمدّن ایک نئی روایت کی تشکیل کر رہا تھا۔ مشرقی تہذیب کی یہ عظیم روایت جو غالب کی غزل میں آخری بہار دکھا گئی، حالی کے واسطے سے ایک نئی توانائی حاصل کرتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے فرسودہ عناصر کو ترک کرکے نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر اس معاشرے کو جو قدیم وجدید کی کشمکش سے گذر رہا تھا، جینے کا ایک نیا قرینہ سکھاتی ہے۔ حالی کی آواز جو روایت کی پروقار آواز ہے، اس لیے اَور چمکدار بن گئی ہے کہ اس نے اپنے پورے شعور سے نئے زمانے کی روشنی کو جذب کیا ہے۔ یہ آواز قدروں کے انتشار کی نہیں بلکہ منتشر قدروں کو یکجا کرنے والے ذہن کی آواز ہے، اس لیے اس میں نہ مرتے ہوئے بوڑھے کی تھرتھری ہے نہ مجاہد کا شوروغلغلہ، بلکہ وہ ٹھہراؤ اور توازن ہے جو اپنے ماضی کے دانش مندانہ شعور کے ساتھ حال کا چیلنج قبول کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ حالی اپنے زمانے کے انتشار میں ڈوب کر نکلے ہیں، بڑی مشکل سے اپنے بکھرے ہوئے اجزا سمیٹے ہیں، اسی لیے تو ان کی آواز میں وہ دردمندی اور ملائمت ہے جو اس شخصیت کا خاصّہ ہے جو ٹوٹ ٹوٹ کر جڑی ہے، بکھر بکھر کر یکجا ہوئی ہے۔ ایسی شخصیت خیر وشر، ترقی انحطاط، حُسن وبدصورتی، نیک وبد میں امتیاز کرنا جانتی ہے، کیوں کہ وہ حوادث کی موجوں پر بے دست وپا بہتی ہے نہ اپنے محفوظ مقام سے رزمِ خیر و شر کا تماشا کرتی ہے، بلکہ موجوں کے تھپیڑے کھا کھا کر گوہرِ آب دانہ بنتی ہے۔ شخصیت تعمیر ہوتی ہے داخلی اور خارجی کشمکشوں سے گذرنے کے بعد، ناسازگاری کو سازگاری میں، اختلافات کو اتفاق میں، تفاوات کو تطابق میں، انتشار کو ہم آہنگی میں اور شور وشر کو ایک نغمۂ دل نواز میں بدلنے سے۔
حالی کو اعتراض تھا، عشق پر نہیں بلکہ عیاشی پر، مسرت پر نہیں بلکہ مزے داری پر، مشغلے پر نہیں بلکہ بیکاری پر، سلیقہ مندی پر نہیں بلکہ پھوہڑ پن پر، دعوتِ کام و دہن پر نہیں بلکہ ندیدے پن اور ہَوکے پر، ظرافت پر نہیں بلکہ بازاری پن پر، مشاطگی پر نہیں بلکہ صنّاعی پر، الفاظ پر نہیں بلکہ لفّاظی پر۔ وہ دشمن تھے انحطاط، زوال اور بدصورتی کے، اور دوست تھے توانائی، صحت اور حسن کے۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انھوں نے ابتذال کے زمانے میں مذاقِ سلیم کی بات کی، ہزل اور ٹھٹول کے زمانے میں شائستہ مزاح پر زور دیا، ہوس پرستوں کے بیچ محبت کے ارفع جذبات کا ذکر کیا، بدتمیزوں کو آدابِ محفل سکھانے کی کوشش کی، ہرزہ گویوں کو رموزِ سخن بتائے، اور کابلوں کو کام کی اور تن آسانوں کو محنت کی اہمیت جتائی۔ انھوں نے روایت کی پیروی کرنے کے باوجود روایت سے انحراف کیا، اور اجتہاد پسندی کے باوجود اٹکل تجربوں اور ایجادِ بندہ کا شکار نہ ہوئے۔ وہ چند اصولوں کے پابند تھے، چند قدروں پر زور دیتے تھے؛ لیکن تنگ نظر، ضدی اور تند مزاج اصول پرستوں کی طرح نہ وہ تمام دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے تھے، نہ تمام انسانیت کو اپنے اصولوں کے سانچوں میں ڈھالنا چاہتے تھے۔ وہ قدروں پر اصرار کرتے تھے، لیکن ان کے پاس کوئی ڈاگما (dogma)، ڈاکٹرائن (doctrine) یا آئیڈیولوجی نہیں تھی، اسی وجہ سے وہ تعصب، جنون اور فناٹِسزم کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ وہ اپنے مضامین میں ظاہری آداب، خوش سلیقگی، پسندیدہ اطوار کا ذکر کرتے ہیں کہ یہ تہذیب الاخلاق کا دور تھا، اور اس زمانے میں جب کہ سماجی اور مجلسی زندگی کے وہ آداب اور اطوار جو ایک تمدنی وراثت کے پروردہ تھے، درہم برہم ہوگئے تھے، لوگوں کو یہ سکھانا کہ کھانے کے بعد ڈکارتے پھرنا اور پان کی پیک سے دیواروں کو گندی کرتے پھرنا کوئی اچھی بات نہیں، ایک شائستہ اسلوبِ حیات کی تشکیلِ نو میں اپنا مقام رکھتا ہے۔ لیکن، جیسا کہ ان کی تحریروں سے ظاہر ہے، حالی آداب کو اخلاق کا نعم البدل نہیں سمجھتے، اور جب وہ اخلاق کی بات کرتے ہیں تو وہ ان آفاقی قدروں پر زور دیتے ہیں جو انسانی ہمدردی، دردمندی، انصاف، صداقت، ایثار، رحم، کریم النفسی، فیاضی اور انکساری کی قدریں ہیں۔ حالی ہماری ادبی دنیا کی سب سے humane شخصیت ہیں۔ وہ پدری جلال کا نہیں بلکہ مادرانہ شفقت کا نمونہ ہیں۔ تنقید میں بھی وہ ہماری تمہاری طرح ہاتھ میں کوڑا لیے خشم ناک آواز میں اس طرح نہیں گرجتے کہ شاعر بچّے کھڑے کھڑے پاجامے میں پیشاب کردیں۔ ایک سلیقہ مند لیکن مہربان ماں کی طرح وہ شاعری کی بہتی ہوئی ناک پونچھ کر اور ڈھیلے ازاربند کو دوبارہ ناف کے اوپر چڑھا کر اسے اپنے کھیل میں آزاد چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔ وہ ہر کلاسیکی نقاد کی طرح شاعری کو صاف ستھرا اور چاق چوبند دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھیں ایسے شعر پسند نہیں جن کے ناخنوں میں مَیل اور آنکھوں میں چِیپڑے ہوں۔ بچوں کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے عورت گھر میں اصولوں کا کوئی چارٹ بنا کر نہیں رکھتی؛ اپنا اور دوسروں کا تجربہ اسے سکھاتا ہے کہ بچوں کو نک سک سے کیسے درست کیا جائے۔ اسی لیے میں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حالی کے پاس کوئی ڈاگما یا ڈاکٹرائن نہیں تھی، ایک common sense تھی جو انھیں یہ طریقے سمجھاتی تھی جو شاعر کو صحت مند اور توانا بنانے کے طریقے ہیں۔ ابھی تنقید میں ان کمیشاروں نے جنم نہیں لیا تھا جو بچے کو ایک خاص رنگ کی وردی پہنانا اور اس کی بغل میں ڈاگما اور ڈاکٹرائن کی تختیاں تھمانا چاہتے ہیں۔ ابھی پروگرام اور منصوبہ بندی کے چارٹ گھر میں نہیں لگے تھے۔ وہ ماں جو ہر مہمان کے سامنے اپنے بچے سے ’’بابا بلیک شیپ‘‘ کی نظم پڑھواتی ہے، اُس ماں سے بہت مختلف ہے جو اپنے بچے کو صرف بولنا سکھاتی ہے۔ حالی شاعری کے منصوبے کو نہیں رٹوانا چاہتے تھے۔ وہ شاعری کو صحت مند اس لیے نہیں بنانا چاہتے تھے کہ نودولتیوں کی طرح اپنے بچے کو تندرستی کے مقابلے میں لے جا کر انعام جیتیں۔ بِہار شریف سے ابھی کرامت علی صاحب کرامت پیدا نہیں ہوئے تھے جو انعام یافتہ ادیبوں کی فہرستیں تیار کریں۔ پیغمبر تو آفاقی اخلاقی قدروں کی باتیں کرتا ہے اور لوگوں کو شخصی، سماجی اور روحانی سطح پر بھرپور زندگی گزارنے کا قرینہ سکھاتا ہے۔ یہ تو فقیہوں کا قافلہ ہوتا ہے جو اس کی اخلاقیات کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سخت گیر نظام میں بدل دیتا ہے۔ پیغمبر ذہنی بصیرت عطا کرتا ہے، فقیہ موشگافیوں میں الجھا کر ذہن کو تنگ، مزاج کو تُند اور فکر کو پریشان کرتا ہے۔ پیغمبر آئیڈیا دیتا ہے، فقیہ اسے آئیڈیولوجی میں بدل دیتا ہے۔ حالی اور حالی کے بعد آنے والے ہمارے نقادوں میں یہی فرق ہے۔ ’’مقدمہ‘‘ کو پڑھنے کے بعد آپ ہمارے دوسرے نقادوں کو پڑھیے۔۔۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ حلیم الطبع، خندہ جبیں اور کشادہ صوفی کے آستانے کو چھوڑتے ہی آپ ایسے دار العلوم میں داخل ہوگئے ہیں جہاں عباؤں اور قباؤں میں ملفوف، کف دردہاں مولوی مناظرہ بازی میں مشغول ہیں۔ ان میں سے ہر شخص بدر العلما اور بحر العلوم ہے، شہریارِ علم و ہدایت اور تاج دارِ عقل وروایت ہے، خطیب الہند، فخر المقررین، قدوۃ السالکین اور زبدۃ العارفین ہے۔ ان کے بیچ پانی پت کے الطاف حسین اپنے مفلر اور صافے میں اتنے ہی بے رنگ لگتے ہیں جتنی بریانی کی قاب کے سامنے مونگ کی کھچڑی۔
حالی کے سامنے اپنے مرتبے کا احساس نہیں، محض اپنے مقام کی آگہی ہے۔ حالی اپنے مرتبے کو بلند کرنا نہیں بلکہ اپنے مقام کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی کوشش یہ نہیں تھی کہ عالمِ ملکوت کو چھولیں بلکہ یہ تھی کہ خود کو حیوانی سطح پر گرنے سے بچالیں۔ وہ ایک اچھے انسان بننا چاہتے تھے لیکن وہ انسان پرست نہیں تھے۔ وہ انسان کو اشرف المخلوقات سمجھتے تھے لیکن اس کی پستی سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔ وہ انسان کی فطری کمزوریوں، اس کی طوفانی جبلّتوں کی حشر سامانیوں، اس کی ضعیف الاعتقادی، تن آسانی، خود پسندی، خود غرضی، اقتدار پسندی، حرص و ہوس، جوع النفسی، رذالت، ابتذال، حیوانیت، سب سے اچھی طرح واقف تھے۔ اسی لیے وہ محسو س کرتے تھے کہ اخلاقی تنظیم، روحانی ڈسپلن اور ذہنی تربیت کے بغیر آدمی اپنے انسانی کردار کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ یہ بات یاد رکھیے کہ انسان کو قدرت کی طرف سے جو صلاحیتیں ودیعت ہوتی ہیں ان سے لطف اندوز ہونے اور ان کا بھرپور تخلیقی استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان انسانی سطح پر اپنے انسانی کردار کو برقرار رکھے۔ فرشتگی اور حیوانیت دونوں انسان کی فطری طاقتوں اور جبلّی قوتوں کا انکار ہیں۔ آدمی انسان بنتا ہے اپنی فرشتگی اور حیوانیت دونوں کو انسانی سطح پر برقرار رکھ کر۔ یہی کش مکش اس کے انسانی کردار کو ڈھالتی ہے۔ بغیر کردار کا آدمی بے پیندے کا لوٹا ہوتا ہے جسے ہم ایک بھرے پُرے آدمی سے متمائز کرنے کے لیے جدید اصطلاح میں پرچھائیں کہتے ہیں۔ پرچھائیں عامل نہیں بلکہ مفعول ہوتی ہے۔ اس کی نہ اپنی فکر ہوتی ہے نہ نظر۔ وہ ہوا کے دھاروں پر بہتی ہے اور ہر قسم کے اثرات قبول کرتی ہے۔ وہ حالات کو بنانے والی نہیں بلکہ اس کا شکار ہوتی ہے۔ وہ انسانی تعلّقات پر جیتی ہے لیکن انھیں سمجھتی نہیں۔ وہ ان تعلّقات کا استعمال کرتی ہے لیکن انھیں نبھاتی نہیں۔ انسان نے جب اپنے طبعی ارتقا میں حیوانی منزل سے انسانی منزل میں قدم رکھا تو یہ اتنی بڑی چھلانگ تھی کہ اس کے بعد سے آج تک انسان چاند پر پہنچنے کے باوجود اتنی بڑی چھلانگ نہیں لگا سکا۔ جیسا کہ آرنلڈ ٹائن بی نے بتایا ہے، دو چیزیں جو انسان نے اپنی انسانی منزل میں حاصل کیں وہ قوّتِ ارادی اور شعور تھا۔ انھیں دو ذہنی صفتوں نے انسان کی پوری تہذیب اور اس کے تمدن کی بنیاد رکھی۔ انسانی فطرت تو انسان کے انسان بننے کے بعد سے لے کر آج تک لگ بھگ وہی رہی ہے جیسی کہ وہ ابتدائی منزلوں میں تھی۔ اگر یہ بدلی بھی ہے تو یہ تبدیلی ایسی نہیں جو اہم اور بنیادی ہو۔ انسانی فطرت اور نسلی خصوصیات تو آدمی ورثے میں پاتا ہے لیکن، جیسا کہ ٹائن بی آگے چل کر کہتا ہے، تہذیب و تعلیم اس کی قوتِ ارادی اور شعور کے تابع ہیں؛ انھیں وہ شعوری طور پر حاصل کرتا ہے اور حاصل کرنے کے دوران ہی میں انھیں وہ بدلتا بھی رہتا ہے۔ اسی لیے کلچر، انسانی فطرت کے برعکس تغیر پذیر اور لچک دار ہے۔ انسان کا کردار اس کی جبلّی قوتوں سے نہیں بنتا کہ وہ سب انسانوں میں مشترک ہیں۔۔۔ بقول الیٹ کے، کیا عام آدمی اور کیا پنڈت دونوں بستر پر تو ایک ہی سی حرکتیں کرتے ہیں۔۔۔ انسان کا کردار بنتا ہے اپنے ماحول اور اپنے گردوپیش کی دنیا کے ساتھ حرکی اور فاعلی رشتہ قائم کرنے سے، اپنے شعور اور اپنی قوتِ ارادی کے ذریعے خارجی حالات کو متاثر کرنے سے، اپنی ذات کو جبلّی شرانگیزیوں اور خارجی قوّتوں کے قبیح اثرات سے محفوظ رکھنے سے۔ انسانی سطح پر آدمی اپنی جبلّتوں کا بے محابا استعمال نہیں کرتا بلکہ انھیں عقل و شعور کے تابع رکھ کر نہ صرف یہ کہ ان سے بہتر کام لیتا ہے بلکہ ان کی تسکین کے ذرائع کا بہتر اور زیادہ تشفی بخش انتظام بھی کرتا ہے۔ میری نظر سے ایسی emancipated لڑکیاں گذری ہیں جو آزاد زندگی گذارنا چاہتی ہیں اور ہر قسم کے قید وبند سے متنفّر ہیں، لیکن جس مقصد کے لیے انھوں نے آزادی حاصل کی ہے وہ انھیں حاصل نہیں ہوتا، کہ جنسی اختلاط اتنا آسان نہیں کہ جس کسی کے ساتھ جی چاہا ہاتھ پکڑ کر بستر پر لیٹ گئے۔ اس معاملے میں لگاؤ، پسند، موقع محل، ہر چیز کی ایک اہمیت اور قدر ہے۔ جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی تیّاری چٹکیوں میں حاصل نہیں ہوتی۔ پھر ایسے تعلّقات میں مقصد لمحاتی لذّت حاصل کرنا یا لذّت دینا ہوتا ہے؛ پہلی صورت میں وہ اتنا خود آگاہ بن جاتا ہے کہ خود کوئی لذت حاصل نہیں کر سکتا۔ عورت کے orgasm کے جدید خبط کا اثر، جیسا کہ ماہرین جنسیات بتاتے ہیں، سوائے اس کے اَور کیا ہوتا کہ بہت سے مرد نفسیاتی نامردی کا شکار ہوجائیں، یا خود کو ایک لذّت بخش آلے میں تبدیل کردیں۔ پھر جنسی جبلّت اندھی ہوتی ہے، لیکن یہ اندھاپن کب تک کا؟ جذبات کا سپرد پڑتے ہی وجود کی ازلی تنہائیاں اور الم ناکیاں ہوٹل کے زرد کمرے میں بھائیں بھائیں کرنے لگتی ہیں، باہیں پھر جذباتی سہارے ڈھونڈتی ہیں۔ اب یا تو آپ اپنائیت سے کام لیجیے یا بے نیازی سے، بے نیازی کی صورت میں آپ انسانی سطح سے گرتے ہیں اور آپ کا پورا کردار ایک خود غرض، خود پسند، کام جُو اور کٹھور آدمی کا کردار بن جاتا ہے۔ اپنائیت کی صورت کا عمل چاہت اور ایک دوسرے پر اعتماد کے بغیر ممکن نہیں۔ مباشرت میں ناکامی پندارِ مردمی کو ضرب لگاتی ہے اور انا کو زخمی کرتی ہے۔ چاہت اور اعتماد کے بندھن آدمی کو جذباتی انتشار اور ذہنی کرب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ جنسی فعل کی کامیابی کا دارومدار بہجت اور سکون پر ہوتا ہے۔ آخر نامردی کے زیادہ تر اسباب نفسیاتی ہی ہوتے ہیں۔ جنسی فعل کے لیے درست نفسیاتی فضا کا ہونا ضروری ہے۔ یہ بات جاننے کے لیے اعداد وشمار جمع کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو بی اے پاس کرتے ہی شادی کرلیتی ہیں، ان کی مباشرت کی تعداد ان لوگوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو ازدواجی زندگی کے باہر جنسی تسکین کے سامان کی تلاش کرتے ہیں۔ اسی لیے تو کسی ستم ظریف نے کہا ہے کہ شادی زیادہ سے زیادہ تر غیبات اور ان ترغیبات کے سامنے زیادہ سے زیادہ سِپر اندازی کا دوسرا نام ہے۔ شادی گویا جنس کی بے محابا عیاشی کا پروانہ ہے۔ ازدواجی زندگی میں جسمانی اور جذباتی زندگی کی تسکین کے جو سامان ہیں وہ ازدواج کے باہر آدمی کو میسّر نہیں۔ آخر ’’اینا کارے نینا‘‘ اور ’’مادام بوواری‘‘ جذبے کی تباہ کاریوں ہی کی داستان ہیں۔ دنیاے ادب میں ابھی تک کوئی ایسا فن پارہ وجود میں نہیں آیا جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ آدمی نے دنیائے ہوس میں fulfilment پایا اور خوش رہا۔ رومانیت کے تاریک پہلو الم ناکی ہی کی کہانیاں سناتے ہیں۔ بائرنی ہیرو زندگی کا norm نہیں، محض deviationہے۔ مینفرڈ میں چاہے اتنا شیطانی جلال سہی لیکن اس کا انجام؟ بہر حال، حالی کی اخلاقیات اور سماجیات کا ایک ہی مقصد تھا کہ انسان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی فطری قوّتوں اور صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرسکے۔ انسانی سطح پر جنسی قوّت کا بھرپور استعمال عشق ومحبت، ازدواج، اولاد اور خاندانی زندگی کی حدود ہی میں ممکن ہے۔۔۔ کم از کم دنیا بھر کے ادب کا تجربہ ہمیں یہی بتاتا ہے۔
ہر بڑے فن کار کی طرح حالی کا سروکار بھی اپنے وقت کی حقیقت سے تھا۔ ان کے وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہ تھا کہ بکھری ہوئی سماجی زندگی کو از سرِ نو ترتیب دیا جائے اور لوگوں کے سامنے ایسی قدریں رکھی جائیں جن کی بنیاد پر ایک مہذّب اور متمدّن زندگی کی تعمیر ہوسکے۔ نِراج اور پریشاں حالی کے زمانے میں بڑے جذبات کا تو ذکر ہی کیا، آدمی اپنی چھوٹی جذباتی وابستگیاں تک نہیں نبھا سکتا۔ حالی کی اخلاقیات محض اطوار اور عادتوں کی اصلاح تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ رحم وانصاف، جود وسخا، کریم النفسی اور دردمندی کی اقدار تک کا احاطہ کرتی ہے۔ محض خوش اطواری پر زور دینا اخلاقی عیّاری کے لیے راہ کشادہ کرتا ہے، کیوں کہ بزرگوں کے سامنے سگریٹ نہ پینے والا ایک خود غرض اور خود پسند آدمی بھی ہوسکتا ہے۔ حالی بدتمیزی اور پھوہڑپن کو پسند نہیں کرتے تھے، لیکن انھوں نے تمیز اور سلیقہ مندی کو بنیادی اخلاقی قدروں کے ساتھ گڈمڈ نہیں کیا۔ ان کا زور اطوار اور عادات پر نہیں بلکہ پورے انسانی کردار کی تبدیلی پر ہے۔ خوش اطوار آدمی اگر کم ظرف ہے تو حالی کو اس کی ظاہری چمک دمک میں کوئی دل چسپی نہیں۔ اس کے برعکس عالی ظرف آدمی کی وہ بہت سی کمزور عادتوں کو، نظر انداز کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ جن اخلاقی قدروں پر حالی زور دیتے تھے وہ انھوں نے افلاطون اور ارسطو سے نہیں سیکھی تھیں، بلکہ یہ وہ قدریں تھیں جسے انسان نے اپنی تہذیبی اور تمدنی زندگی کے ارتقا کے دَوران پروان چڑھایا تھا۔ جدید دور کا آدمی انھیں قدروں کی موت کا نوحہ سنج ہے۔ ہمارے ماہرینِ نفسیات اور ماہرینِ جنسیات اپنی بیش بہا تحقیقات کے بعد جن نتائج پر پہنچے ہیں وہ انسان کے ان جنسی رویّوں کی تائید کر رہے ہیں جنھیں آدمی نے اپنے سماجی ارتقا کے دوران اخلاقی قدروں کی بنیاد پر تعمیر کیا ہے۔ محبت اگر ازدواج میں، ازدواج اگر اولاد میں، اولاد اگر خاندانی زندگی میں منتج نہیں ہوتی تو نہ صرف یہ کہ جنسی تجربہ ادھورا رہتا ہے بلکہ آدمی ایسی حرماں نصیبی، غیر اطمینانی اور جذباتی ویرانی کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس کی پوری زندگی مسرت کے بھرپور تجربے سے ناآشنا رہتی ہے۔ عیاش قوّت کا استعمال نہیں کرتا بلکہ لُٹاتا ہے۔ محبت میں ہاتھ کالمس محبوب کے بدن کو جلتا ہوا شعلہ بنا دیتا ہے جبکہ عیاش کے ہاتھوں میں خریدا ہوا جسم سکّوں ہی طرح سرد اور کسیلا رہتا ہے۔ حالی کی لغت میں عیاشی کے معنی یہ نہیں ہیں، جیسا کہ سلیم احمد سمجھتے ہیں کہ ہر وہ کام جس سے قوم کا بھلا نہ ہو، بلکہ عیاشی کے معنی ہیں وہ کام جس میں آدمی اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہ کرے۔ اپنے تخیل کی قوت کو لفظوں کی کرتب بازی پر، اور جنس کی قوت کو رنڈی بازی پر برباد کرنا عیاشی ہے۔ حالی خواب گاہ کے آسن نہیں بلکہ زندگی کے آداب سکھاتے ہیں جن سے اگر آدمی واقف نہ ہو تو وہ خواب گاہ میں اتنا ہی ناکارہ رہتا ہے جتنا زندگی میں۔ عورت پیار مرد سے کرتی ہے پرچھائیں سے نہیں، اور مرد بنتا ہے زندگی کی جدوجہد میں شامل ہو کر۔ وہ اپنے شعور کے ذریعے زندگی کے پیچ و خم اور نشیب وفراز کی آگہی حاصل کرتا ہے، اپنی قوت ارادی کے ذریعے خیر وشر میں تمیز کر کے صحیح اخلاقی انتخاب کرتا ہے، وہ قدرت کا چیلنج قبول کرتا ہے، مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہوتا ہے، امواجِ حوادث کے تھپیڑے کھاتا ہے اور مصائب سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ اس دنیا میں آدمی کے لیے زندگی کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہی۔ جب آدمی پتھریلی زمین سے اناج کے دودانے اور خشک ریگ راز سے پانی کے دو قطرے لے کر عوت کے پاس جاتا ہے تو پیار بھرے ہاتھ کا لمس اس کی زندگی کی پوری تھکن کو دور کر دیتا ہے۔ نکھٹو آدمی کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ وہ کبوتر اڑاتا ہے، بٹیریں لڑاتا ہے، فقیروں کے تکیوں میں رمنا کرتا ہے، امیروں کی جوتیاں سیدھی کرتا ہے، چرس اور افیون کے نشے میں غین رہتا ہے، اور جب بساندھ مارتا ہوا رات گئے گھر پہنچتا ہے تو عورت کے بدن کو بھی ایک آلۂ نکاس، ایک گندی موری کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہ بدن دن بھر کیا کرتا رہا، کیا کھاتا رہا، اس کی اسے فکر نہیں ہوتی۔ وہ تو اندھے کی طرح رات کے اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ اندھے کی طرح گھڑونچی کے پاس جاکر پانی کا ایک گھونٹ پیتا ہے، بیڑی سلگاتا ہے، بلغم تھوکتا ہے اور جھلواں چارپائی پر پہلو بدل کر سوجاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں بایولوجیکل فینومینا کی سطح پر جینا۔ عورت کے بدن کا حسن، آنکھ کا جادو، دل کی حرارت، کسی چیز کو وہ نہیں سمجھتا۔ جسم کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے لیکن یہ آدمی اس زبان کو نہیں سمجھتا، کیوں کہ اس کا خود غرض جسم صرف خود کلامی کا عادی ہے۔ مرد تو اپنے پانچوں حواس سے عورت سے ترسیل کا رشتہ قائم کرتا ہے۔۔۔ انگلیاں دل کی دھڑکن کو سمجھتی ہیں، ناک بُو کو پہچانتی ہے، کان سانسوں کی پھٹکار سنتے ہیں، آنکھیں تاروں کے ٹوٹتے ہوئے کنول دیکھتی ہیں۔۔۔ لیکن یہ سب اُس وقت ممکن ہے جب آدمی کے حواس بیدار ہوں اور وہ دوسرے وجود کو ایک شے کے طور پر نہیں بلکہ ایک وجود کے طور پر قبول کرتا ہو۔ پوری دنیا کا ادب ایک جدوجہد ہے انسان کے حواس کو بیدار رکھنے کی، تاکہ وہ دوسرے وجود کو ایک شے نہ سمجھے۔ جنسی اختلاط کُھلتے جانے میں ڈھانپتے جانے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ صوفی کا وہ مقام ہے جب درمیان میں کوئی پردے حائل نہیں رہتے اور ذات غیر ذات میں فنا ہوجاتی ہے۔ صوفی بھی اس مقام پر ایک طویل روحانی سفر کے بعد ہی پہنچتا ہے۔ یہ سفر شروع تو ذات سے ہوتا ہے لیکن ختم ہوتا ہے نفیِ ذات پر۔ یہ دشوار گذار سفر ہی صوفی کے کردار کی تشکیل کرتا ہے اور اسے ایک صاف باطن، بے لوث، بے غرض، خندہ جبیں اور دل رُبا شخصیت عطا کرتا ہے۔ نکھٹو کا کوئی کردار نہیں ہوتا کیوں کہ وہ سفر کا نہیں، حضر کا آدمی ہوتا ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح اس کی شخصیت بدبودار ہوتی ہے۔ نہ وہ اخلاقی کشمکش سے گذرتا ہے نہ جہدِ حیات سے، نہ روحانی سفر سے نہ ذہنی پیچ و تاب سے۔ وہ خود غرض، فراری، تن آسان، کاہل اور ناکارہ ہوتا ہے۔ عورت ایسے مرد پر حقارت کی نظر کرتی ہے۔ آدمی کے پاس کردار نہ ہو تو وہ عورت کا پیار تک حاصل نہیں کر سکتا۔ خواب گاہ میں بدن جلتے ہیں لیکن روح سیراب نہیں ہوتی، کیوں کہ روح کا تعلق کردار سے ہے۔ قوّتِ ارادی، شعور اور ضمیر مل کر آدمی کی روحانی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں، اور حالی انھیں تین عناصر کو بیدار رکھ کر آدمی کے کردار کی تعمیر کی کوشش کرتے ہیں۔ جانوروں کے پاس نہ قوتِ ارادی ہوتی ہے نہ ضمیر نہ شعور۔ آدمی جب خواب گاہ میں جاتا ہے تو ان تین عناصر کو لے جاتا ہے۔ جنس جبلّت کا عمل سہی لیکن انسان جنس سے جو لذت حاصل کرتا ہے وہ حیوانوں کی مانند ایک اندھی جبلّت کی تسکین نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے شعور کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ وہ جبلّت کے ہاتھوں اندھا نہیں بنتا بلکہ خالص لذت اندوزی کی خاطر اپنی آنکھوں، اپنے حواس اور اپنے پورے شعور کو بیدار رکھتا ہے۔ شراب کے نشے میں دُھت آدمی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ رات اس نے کیا کِیا، جب کہ باشعور آدمی کے وجود پر رات کی رسیلی یادوں کا نشہ بھینی بھینی خوشبو کی مانند چھایا رہتا ہے۔ انسانی شعور نے مباشرت کے فطری عمل کو فطرت کی میکانکی سطح سے بلند کر کے ایک ایسی انسانی سطح پر پہنچا دیا ہے کہ وہ محض جبلّت کی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ سائیکولوجیکل فینومینا ہے۔ خالص بایولوجی لینے جائیں گے تو بدن کی لذت تک حاصل نہیں ہوگی، محض ایک اندھی جبلّت کی اندھی تسکین ملے گی جس کے لیے آدمی کو بدن تک کی ضرورت نہیں۔ حالی کا خطاب آدمی سے ہے جو محض ایک حیاتیاتی حقیقت نہیں بلکہ نفسیاتی حقیقت بھی ہے۔ وہ نکھٹو کو اچھا آدمی اس لیے نہیں بنانا چاہتے کہ اس میں قوم کی بھلائی ہے، بلکہ آدمی کی بھلائی بھی اس کے اچھا آدمی بننے ہی میں ہے۔ یہ بات یاد رکھیے کہ اچھا آدمی بننے سے میرا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ کامیاب یا نستعلیق آدمی ہے۔۔۔ آخر مہدی افادی حالی کے نہیں شبلی کے دوست تھے۔ پھر میں اس بات سے بھی بے خبر نہیں کہ متوسط طبقے کی پوری کامیابی اور شائستگی خواب گاہ کے مسائل نہیں سلجھاتی۔ آخر ہمارا نیا ادب آدمی کی جذباتی، نفسیاتی اور جنسی الجھنوں سے ہی سروکار رکھتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کے مسائل سماجی ہی نہیں ہوتے بلکہ ذاتی اور شخصی بھی ہوتے ہیں۔ لیکن حالی کے زمانے میں نہ تو زندگی اتنی پیچیدہ ہوئی تھی جتنی کہ ہمارے زمانے میں ہوئی ہے، نہ ہی ان ادبی رویّوں نے جنم لیا تھا جو زندگی کو اس کی تمام پیچیدگیوں کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ سبھی کام حالی کر جاتے تو ہمارے لیے کرنے کو رہتا بھی کیا؟ پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ حالی کی ادبی سرگرمی کا دائرہ سوانح، شاعری اور تنقید تک محدود تھا؛ افسانہ، ناول اور ڈراما، جو سماجی اور جنسی حقیقت نگاری کے طاقتور میڈیم ہیں، ان سے حالی بے نیاز ہی رہے۔ اس لیے وہ اگر آدمی کے ذاتی اور نفسیاتی مسائل کا ذکر نہیں کرتے تو یہ ان کے زمانے کی مجبوری کے تحت زیادہ سے زیادہ ان کا limitation قرار دیا جاسکتا ہے، نقص نہیں۔ آدمی کی نفسیاتی الجھنیں بھی خالص نفسیاتی یا جنسی گھٹن کا نتیجہ نہیں رہیں۔ نفسیات کو مابعد الطبیعیات سے اتنی آسانی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ وجودی نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کا اعصابی خلل ماحول سے غیرہم آہنگی ہی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے اندر کے ٹوٹاؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جدید آدمی اپنی شخصیت کے اندرونی آہنگ، ارتباط اور تنظیم کو کیوں گنوا بیٹھا ہے، اس کی وجوہات اگر آپ جنسی نفسیات میں تلاش کرنے بیٹھیں گے تو کسی اطمینان بخش نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں گے کیوں کہ جنسی طور پر تو آدمی آج ان تمام حصاروں کو توڑ بیٹھا ہے جو اس میں بقول ماہرینِ نفسیات کے گھٹن اور خلفشار پیدا کرتے تھے۔ اگر جنسی جبلّت آدمی کی سائیکی کا ایک حصّہ ہے تو روحانی آرزومندی ایک دوسرا حصّہ ہے۔ وجودی فلسفے کے مابعد الطبیعیاتی کرب کے آخر کیا معنی ہیں؟ مادّہ پرست تمدّن کی طرف ایک پاگل کی طرح بھاگنے والے آدمی نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ جس طرح جنسی جبلّت عورت کا بدن مانگتی ہے اسی طرح روحانی آرزو مندی ایک ماورائی قوت سے وصال کی طلب گار ہوتی ہے۔ وصالِ صنم ہی کی طرح اگر خدا نہ ملے تو آدمی اپنا اندرونی ارتباط قائم نہیں رکھ سکتا۔ اعصابی خلل جنسی محرومی ہی کا نتیجہ نہیں بلکہ روحانی محرومی کا نتیجہ بھی ہوتا ہے۔ حالی کی اخلاقیات اندر سے ٹوٹے پھوٹے آدمی کو کردار کی سا لمیت عطا کرنے کی ایک کوشش ہے، اور یہ سا لمیت پیدا ہوتی ہے جب انسان دوسرے انسانوں سے، کائنات سے، اور کائنات کی ماورائی قوتوں سے اپنا رشتہ استوار کرتا ہے۔ جب آدمی پڑوسی سے لے کر خدا تک کا خیال کرتا ہے اور غزل میں بہتر لفظ سے لے کر بہتر معشوق تک کی تلاش کرتا ہے تو گویا وہ ایک بھرپور انسانی زندگی کی طرف پہلا قدم بڑھاتا ہے۔ مجھے کیا شاید آپ کو بھی حیرت ہوتی ہوگی کہ ’’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں‘‘ جیسا مصرع آخر حالی کے قلم سے کون سے الہامی لمحے میں نکلا ہوگا۔۔۔ایسی غزلیں معجزوں سے کم نہیں ہوتیں۔۔۔ لیکن حالی کے پورے کردار اور شخصیت پر نظر کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ مصرع تو اسی شاعرانہ شخصیت کا ایک خود رو پھول ہے جسے حالی سینچتے رہے تھے۔ تو یہ ایک باشعور آدمی ہوتا ہے جو خوب اور ناخوب میں تمیز کرتا ہے، اِسے پسند اور اُسے ناپسند کرتا ہے، جو پسند ہے اسے پسندیدہ تر بناتا ہے۔ بے کردار آدمی کے پاس نہ قوتِ ممیّزہ ہوتی ہے نہ قوتِ ارادی۔ یا تو وہ روایت سے چمٹا رہتا ہے یا ہر فیشن کے پیچھے بھاگتا ہے؛ یا جو کچھ ہے اس پر قناعت کرتا ہے یا جو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا اس کی تمنا کرتا ہے۔ سمجھدار آدمی اپنی قوتوں اور اپنی حدود دونوں سے آگاہ ہوتا ہے، اور اپنی حدود میں رہ کر اپنی قوتوں کا بہترین مصرف ذہنی پختگی اور دانش مندی کی دلیل ہے۔ حالی یہی پختگی، دانش مندی اور ذہنی توازن لوگوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ خدائی فوج دار نہیں تھے۔ انھوں نے ادب میں کوئی آشرم نہیں کھولا۔ انھوں نے رنڈی بازی اور شراب نوشی کے خلاف کوئی محاذ قائم نہیں کیا۔ انھوں نے انسان کے فطری جذبات پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ رومانی باغیوں کو اپنا ہدف تلاش کرنا ہو تو کہیں اَور تلاش کریں؛ حالی پر ان کے تیر خطا ہوں گے۔ حالی کوئی prude نہیں تھے۔ وہ سخت گیر باپ کی علامت بھی نہیں تھے۔ انھیں ایسی شکل میں پیش کرنا ان کے صحیح خدوخال کو مسخ کرنا ہے۔ یہ ناقدانہ بے ایمانی ہے۔ حالی کے ’’مقدمہ‘‘ سے صرف اتنا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ادب کے ذریعے لوگوں کی ایسی ذہنی تربیت کرنا چاہتے تھے کہ لوگ اپنی قوّتوں کو موریوں میں بہاتے نہ پھریں۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو تفریحی اور مکرشیل ادب کو بھی قوتوں کو ضائع کرنے کا ذریعہ کہتے ؛ اس لیے نہیں کہ ایسے ادب سے قوم کا بھلا نہیں ہوتا، بلکہ اس لیے کہ ایسے ادب سے ادب کا بھی بھلا نہیں ہوتا۔ آدمی اسے پڑھ کر نکھٹو بنتا ہے، اور حالی کی لغت میں ہر وہ کام جو آدمی کو نکھٹو بنائے عیّاشی ہے۔
حالی کا ہیومنزم ماورائیت کے عنصر سے خالی نہیں تھا۔ اسی لیے وہ انسان پرست نہیں تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آدمی اپنے جذبات اور جبلّتوں پر عقل و شعور کی حکمرانی قائم کر کے ہی ان سے ٹھیک کام لے سکتا ہے۔ وہ جنسی جبلّت سے گاندھی جی اور ٹالسٹائی کی طرح برگشتہ خاطر نہیں ہوئے، نہ ہی سارتر اور ایلیٹ کی طرح اسے مشکوک نظر سے دیکھتے ہیں اور نہ ہی برنارڈشا اور اقبال کی طرح وہ زندگی کے دوسرے اہم کاموں کے مقابلے میں اسے کمتر خیال کرتے ہیں۔ جنس کی طرف ان کا رویہ ایک سیدھے سادے شریف آدمی کا رویہ تھا۔ لڑکا اور لڑکی جوان ہوں تو ان کی شادی کر دو۔ وہ لڑکے اور لڑکی کو آشرم بھیجنے، فوق الانسان بنانے یا قومی خادم بنانے کی بات نہیں کرتے۔ وہ شریف آدمی تھے لیکن prude نہیں تھے، اس لیے عشق، معشوقہ، اختلاط، چھوٹے کپڑوں اور رنڈی کا ذکر کرتے ان کے پسینے نہیں چھوٹتے تھے۔ وہ اتنے سادہ لوح نہیں تھے کہ اتنی سی بات نہ سمجھیں کہ مرد کو عورت اور عورت کو مرد چاہیے۔ البتہ ابھی وہ زمانہ نہیں آیا تھا کہ لوگ خواب گاہ کے راز بھی طشت از بام کریں اور بتائیں کہ آدمی نے اپنے جنسی جذبے کو بھی کیسا مسخ کیا ہے۔ آدمی کی جنسی زندگی میں پیچیدگیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں، جذباتی تعلّقات میں گانٹھیں کیوں پڑتی ہیں، اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔۔۔ اخلاقی بھی اور نفسیاتی بھی۔ نفسیاتی وجوہات کو حالی سمجھ نہیں سکتے تھے کیوں کہ حالی کے زمانے تک اس علم سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ نفسیات آدمی کے کردار کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے لیکن کردار کی تعمیر تو اخلاقی قدروں ہی پر ممکن ہے۔ کام جُو اور خود غرض آدمی روح کی لطافتوں کو نہیں سمجھتا، صرف بدن پر حملہ کرتا ہے۔ وہ اپنی ذات کو مرکزِ کائنات سمجھتا ہے اس لیے سب کچھ اپنی طرف سمیٹنا چاہتا ہے؛ خود اتنا پھیلنا نہیں چاہتا کہ دوسرے وجود کو اپنی محبت بھری فضاؤں میں آزادانہ پھلنے پھولنے دے۔ خود غرضی، کام جوئی، نفس پرستی، نرگسیت، دوسروں کا استعمال اور استحصال۔۔۔ کیا یہ ذات کی وہ خرابیاں نہیں ہیں جو انسان کو ہوسناک ترین حیوان بنا کر رکھ دیتی ہیں؟ بے غرضی، بے لوثی، ایثار، وفا شعاری، دوسروں کے غم اور دوسروں کی مجبوری کا احساس۔۔۔ کیا یہ وہ اخلاقی صفات نہیں ہیں جن کے بغیر آدمی اسیرِ ذات رہتا ہے اور غیرِ ذات کو سمجھ تک نہیں سکتا؟ جو غیر ذات کو سمجھے گا نہیں وہ اس کے ساتھ سوئے گا کیا! محض اپنے جنسی تشنّج سے فراغت کے لیے دوسروں کا استعمال ایک شے کے طور پر کرتا ہے۔ حالی جب چند اخلاقی صفات پر زور دیتے ہیں تو گویا وہ آدمی کے کردار کی ایسی تربیت کی طرف قدم بڑھاتے ہیں جو اسے ایک باشعور اور پختہ کردار کا آدمی بنائے۔ کردار کی پختگی اور شعور کی بلوغت کے بغیر آدمی ادنیٰ جذبات کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ ذہنی طور پر خام نوجوانوں کا عشق بھی کھٹمل مارنے کی دواؤں پر ختم ہوتا ہے۔ مرزا شوق کے نابالغ اور ناپخت ذہن نے ایسے ہی ناپخت عشق کی واردات لکھی ہے۔ سلیم احمد ’’زہرِ عشق‘‘ کی تعریف میں رطب اللّسان ہیں، حالی قلم روک کر بات کرتے ہیں۔ حالی کو عشق پر نہیں بلکہ ان عاشقوں پر اعتراض ہے جو کردار کے اعتبار سے خام ہیں۔ مرثیہ گوئی کی فضاؤں میں تربیت پایا ہوا ذہن عاشق کو باغی بنا کر نہیں بلکہ صیدِ زبوں کا روپ دے کر ہی خوش ہوتا ہے۔ آخر جذباتیت اور رقّت انگیزی بھی تو کردا رکی ایک خرابی ہی ہے۔ مذاقِ سلیم رقّت انگیزی کو کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔ حالی اور منٹو ’’زہرِ عشق‘‘ کی فحاشی کو برداشت نہیں کرسکے۔ فن کارانہ ناپختگی اور رقت انگیزی کو آج کا ذہن برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن سلیم احمد کے لیے تو اتنا کافی ہے کہ کوئی عشق کا ذکر کرے تو اس کا طمانچہ حالی کے منھ پر مارا جائے۔ ’’مقدمہ‘‘ میں مرزا شوق پر حالی کی تنقید نے مخالفت کا جو طوفان کھڑا کیا تھا اس کی ایک الگ داستان ہے جسے میں دہرانا نہیں چاہتا؛ لیکن مرزا شوق پر حالی کی تنقید نہ صرف یہ کہ متوازن ہے بلکہ اعلیٰ فنکارانہ شعور اور ذوقِ سلیم کی نمائندہ بھی ہے۔ شوق کی مثنویوں، اور اس معنی میں اردو کی تمام عاشقانہ مثنویوں، کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کا قصّہ حد درجہ معمولی، سیدھاسادا، naiveقسم کا ہوتا ہے؛ اس میں کوئی طبّاعی، کوئی پیچیدگی، کوئی تخیّلی پُر کاری نہیں ہوتی۔ کردار نگاری جیسی تو کوئی چیز ہی مثنویوں میں نہیں ملتی۔ سیدھے سادے افراد ہوتے ہیں، عشق میں پڑتے ہیں، جیبھ سے جیبھ بِھڑاتے ہیں، خود کشی کرتے ہیں اور قصّہ ختم ہوجاتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ حالی کے بعد کے نقاد ان کرداروں پر اس طرح غور کرتے ہیں گویا وہ شیکسپیئر کے ڈراموں اور ٹالسٹائی اور دستووسکی کے ناولوں کے کردار ہیں۔ حالی اردو کی مثنویوں کو اس طرح آسمان پر نہیں چڑھاتے۔ وہ شوق کی مثنویوں کی فحاشی پر چراغ پا بھی نہیں ہوتے بلکہ زبان کے معاملے میں وہ ایک پہلو سے شوق کی مثنویوں کو میر حسن کی مثنویوں پر ترجیح بھی دیتے ہیں۔ شوق کے متعلق حالی کے یہ جستہ جستہ جملے دیکھے :
میر حسن کے بعد نواب مرزا شوق لکھنوی کی مثنویاں سب سے زیادہ لحاظ کے قابل ہیں۔۔۔ ان میں سے تین مثنویوں میں اس نے اپنی بو الہوسی اور کام جوئی کی سرگزشت بیان کی ہے۔ یا یوں کہو کہ اپنے اوپر افترا باندھا ہے۔ اور ایک مثنوی یعنی لذتِ عشق میں ایک قصہ بالکل بدرِ منیر کے قصے سے ملتا ہے۔ اسی کی بحر میں لکھا ہے۔۔۔ ان مثنویوں میں اکثر مقامات اس قدرِ ام مورل اور خلافِ تہذیب ہیں کہ ایک مدّت سے ان تمام مثنویوں [صرف ایک مثنوی؟] کا چھپنا حکماً بند کردیا گیا ہے۔۔۔ لیکن اگر شاعری کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ایک خاص حد تک ان کو بدر منیر پر ترجیح دی جاسکتی ہے۔۔۔ اگرچہ مثنویوں میں بدرمنیر کی طرح ہر موقع کا سین نہیں دکھایا گیا جس سے شاعر کی قدرتِ بیان کا پورا پورا اندازہ ہو سکے۔ مگر جو کچھ اس نے بیان کیا ہے خواہ وہ مورل ہو خواہ ام مورل، اس میں حسنِ بیان کا پورا پورا حق ادا کردیا ہے۔
حالی نے مرزا شوق پر اور بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :
چوں کہ وہ ایک شوخ طبع آدمی تھا اور بیگمات کے محاورات پر بھی اس کو زیادہ عبور تھا، اس نے اپنی مثنوی کی بنیاد ’’خواب و خیال‘‘ کے انھیں ۴۰،۴۵ شعروں پر رکھی اور معاملات کو جو خواجہ میر اثر کے ہاں ضمناً مختصر طور پر بیان ہوئے تھے اپنی مثنویوں میں زیادہ وسعت کے ساتھ بیان کیا۔۔۔۔
ایک اور مقام پر وہ کہتے ہیں :
۔۔۔ بلکہ جو باتیں بے شرمی کی ہوتی ہیں وہاں اَور بھی زیادہ پھیل پڑتے ہیں اورنہایت فخر کے ساتھ ناگفتنی باتوں کو کھلّم کھلّا بیان کرتے ہیں۔ افسوس کہ ہم ایسے موقعوں کی زیادہ صاف اور کھلی مثالیں نہیں دے سکتے۔ صرف تصریح اور کنایہ کی صورت زیادہ ذہن نشین کرنے کے لیے یہاں ایک سرسری مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔
ان طویل اقتباسات پیش کرنے سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں یہ ثابت کروں کہ حالی نے شوق کے ساتھ انصاف کیا یا نہیں۔ میں تو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ مرزا شوق کی مثنویاں حالی کے اخلاقی مزاج کے بالکل منافی تھیں، حالی جھلّائے، جھنجھلائے، آگ بگولا ہوئے بغیر نہایت خوش دلی سے اپنی رائے دیتے ہیں۔ وہ شوق کے منھ پر کالک ملتے نظر نہیں آتے۔ وہ شوق کو گند، غلاظت اور عفونت کا ڈھیر نہیں کہتے۔ وہ مثنویوں پر حکومت کے احتساب کو خوش آمدید نہیں کہتے، محض ایک بیانِ واقعہ کے طور پر اس کا ذکر کرتے ہیں۔ اور پھر اختلاط کے موقعے کے اشعار کا تقابلی مطالعہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ حالی کے اس رویے کا مقابلہ آپ ہمارے نقادوں کے اس رویے سے کیجیے جو انھوں نے منٹو، میراجی اور عصمت کی طرف اختیار کیا تھا۔ حالی کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ’’زہرِ عشق‘‘ کی تعریف میں ہمارے دوسرے نقادوں کی مانند رطب اللسان نہیں ہیں۔ ’’زہرِ عشق‘‘ ایک کمزور مثنوی ہے کیوں کہ اس کا قصہ کمزور ہے، پلاٹ کمزور ہے، واقعہ نگاری ناقص ہے اور کردار نگاری خام ہے۔ حالی مثنوی پر احتیاط سے بات اس لیے نہیں کرتے کہ انھیں عشقیہ مثنویوں سے قدغن ہے، یا اس میں اختلاط کا فحش بیان ہے، بلکہ اس لیے کہ مرزا شوق کی تمام مثنویاں اس قابل نہیں کہ ان کو بانس پر چڑھایا جائے، انھیں ادبی شاہکار ثابت کیا جائے اور ان کی تعریف میں ایسی گل فشانی کی جائے جن کی وہ مستحق نہیں۔ اتنا یاد رکھیے کہ مثنوی کی پوری بحث حالی نے فارم اور تکنیک کے نقطۂ نظر سے کی ہے اور اس ضمن میں ناول کے چند تنقیدی اصولوں کو انھوں نے نہایت احتیاط سے مثنوی کے قصہ پن، واقعہ نگاری اور کردار نگاری کی پرکھ کا معیار بنایا ہے۔ ’’زہرِ عشق‘‘ کے مدّاح اس کی تعریف میں صرف لچھے دار زبان استعمال کرتے ہیں، تنقیدی اصولوں کو بھی کام میں نہیں لاتے۔
ممکن ہے اس موقعے پر آپ پوچھیں کہ حالی آج زندہ ہوتے تو منٹو، میراجی اور پورے جدید ادب کی طرف ان کا رویہ کیا ہوتا۔ اس کے جواب میں مَیں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جانسن، کالرج اور ورڈزورتھ کا بیسویں صدی کے ادب کی طرف رویہ کیا ہوتا؟ جدید غزل کے متعلق غالب کیا سوچتے؟ شیکسپیئر اور شاایبسرڈ ڈرامے کے متعلق کیا رائے رکھتے؟ بودلیر، والیری اور ملارمے آج کل کی علامت پسندی اور فارم کی توڑ پھوڑ اور ابہام کو کس نظر سے دیکھتے؟ اقبال آج پاکستان میں ہوتے تو وہ کس قسم کی شاعری کرتے؟ الغرض ایسی خیال آرائیوں سے کیا فائدہ جو نہ ہمارے ماضی کے ادب کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں نہ عصری ادب کو! حالی کے تنقیدی تصورات اس ادب کے مطالعے کا نتیجہ تھے جو ان کے تجربے میں تھا۔ حالی کی تنقید اضافی ہے اور اسے اردو ادب کے پس منظر میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ادب کے مطلق یا کلّی تصورات کی تشکیل کی کوشش نہیں کی، مثلاً ادب میں مبالغہ، فوق الفطرت اور خارقِ عادت عناصر، مضمون آفرینی، خیال آرائی، عشقیہ شاعری کا معشوق، قصّہ گوئی میں واقعاتی تسلسل، سادگی، واقعیت، جوش، کلام کا مقتضاے فطرت کے مطابق ہونا وغیرہ وغیرہ کی تمام بحث اردو شاعری کے تعلق سے کی گئی ہے۔ فوق الفطرت عناصر کا ذکر وہ شیکسپیئر کے Midsummer Night's Dream کے حوالے سے نہیں کرتے بلکہ ان کے پیش نظر اردو شاعری ہے جس میں فوق الفطرت اور خارقِ عادت عناصر اپنی مبتدیانہ اور طفلانہ سطح پر ہیں۔ شاعری میں سادگی کا ان کا تصور صنّاعی کے خلاف ردِ عمل تھا۔ کلیم الدین احمد اس تصور پر وہی اعتراضات کرتے ہیں جو مثلاً ورڈز ورتھ کے سادگی کے تصور پر کیے گئے ہیں۔ لیکن حالی کے یہاں سادگی کی بحث زبان اور خیال کی سادگی تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ شاعری کی آفاقی اپیل تک کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ سادگی کا ان کا تصور تسلّی بخش نہ ہو، لیکن یہ تصور آفاقی شاعری کی چند بنیادی خصوصیات اجاگر کرتا ہے۔ اس تصور کی روشنی میں شیکسپیئر کی شاعری کو نہیں بلکہ ان شاعروں کے کلام کو دیکھنا چاہیے جو ذوق اور خاقانی کی طرح مختلف علوم سے مستعار دقیق خیالات اور اسالیب سے کلام کو ادق بناتے ہیں، یا پھر ان شاعروں کو دیکھنا چاہیے جن کے یہاں پیچیدگی کی بجائے تعقید، الجھاؤ یا ابہام ہے۔ حالی کی سادگی، اصلیت اور جوش کی پوری کی پوری بحث آج کی دنیا بھر کی شاعری (جو زیادہ سے زیادہ پیچیدہ، مبہم اور محدود بنتی گئی ہے) کے پس منظر میں ایک نئی بصیرت کی حامل ہوگئی ہے۔ یہ بصیرت ایک تجربہ کار اور سیدھے سادے دانش مند کی بصیرت ہے جو سوفسطائی مکتبی نقاد کی تمام علمی موشگافیوں کے مقابلے میں زیادہ کام کی باتیں بتاتی ہے، کیوں کہ حالی کا سروکار ادب کے علمی مسائل سے تھا، مکتبی نقادوں کی طرح فکر کی تجریدی سطح پر ادب کے نظریات گڑھنے سے نہیں تھا۔ حالی کا ناقدانہ کردار کسی نظریے کے حصار میں قید نہیں ہے، کیوں کہ انھوں نے نظریہ بنایا ہی نہیں، صرف ادب کے متعلق چند تصورات قائم کرنے اور اچھے برے ادب کی پرکھ کے چند معیاروں کی تشکیل کی کوشش کی ہے۔ وہ ادب کو اخلاقی اور تعلیمی معیار پر بھی پرکھتے ہیں کیوں کہ ادب کا اخلاق اور تعلیم سے گہرا تعلق ہے۔ مجھ جیسے لوگ جو ادب کی خالص جمالیاتی قدروں پر زور دیتے ہیں وہ بھی اپنے کام کا آغاز اس مفروضے کے تحت ہی کرتے ہیں کہ ادب کی چند اخلاقی اور تعلیمی قدریں بھی ہوسکتی ہیں لیکن ادب کے ایسے مقاصد دور ازکار ہوتے ہیں اور وہ ان خصائص کا تعین کرتے جو ادب کو ایک آزاد، خود مختار بالذات جمالیاتی تجربہ بناتے ہیں۔ خود براڈلے نے شاعری کے نظریے کو یش کرتے ہوئے ادب کے اخلاقی مقاصد کا اقبال کیا ہے۔ وہ یہ بات قبول کرتا ہے کہ شاعری تہذیبِ نفس کا کام کرتی ہے، تعلیم دیتی ہے، جذبات کی تادیب کرتی ہے، کسی اچھے مقصد کو آگے بڑھاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان باتوں کی وجہ سے بھی شاعری کی قدر ہوسکتی ہے، لیکن یہ باتیں شاعری کی جمالیاتی قدریں متعین نہیں کرتیں۔ جمالیاتی قدروں کا تعین شاری کے ان اندرونی خصائص اور ہیئت کے ان وضعی رشتوں ہی سے متعین نہیں کرتیں۔ جمالیاتی قدروں کا تعین شاعری کے ان اندرونی خصائص اور ہیئت کے ان وضعی رشتوں ہی سے ممکن ہے جو ایک تخیلی تجربے کا موجب بنتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ادب اور شاعری میں کافی ایسا مواد ہے جس کی بنیاد پر ادب کے اخلاقی تصورات قائم کیے جاسکتے ہیں، اور لوگوں نے کیے ہیں۔ حالی کے یہاں یہ تصورات تصورات ہی رہتے ہیں، گٹھل عقائد کی شکل اختیار نہیں کرتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حالی کی شخصیت obsessive آدمی کی شخصیت نہیں تھی جو کسی عقیدے کا خبط خود پر طاری کر کے اپنے ذہن کو دوسرے تمام تجربات اور خیالات سے بے بہرہ کرلے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ امردپرستی کے موضوع پر اس طرح کھل کر بحث نہ کرتے جیسی کہ انھوں نے ’’حیاتِ سعدی‘‘ میں کی ہے۔ اس موضوع پر اس سے بہتر بحث ممکن نہیں۔ وہ لوگ جو حالی کو prude کرنا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ حالی کی اس بحث کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کریں۔ کوئی پہلو، کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس پر حالی نے خیال آرائی نہ کی ہو۔ ان کا مزاج شرمیلا تھا، جیسا کہ بہت سے لوگوں کاہوتا ہے، لیکن وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کی کان کی لویں جنس کا نام سن کر سرخ ہوجاتی ہیں۔ حالی اپنے ادبی تصورات کی اصابت پر یقین رکھتے تھے۔ وہ خود فریب لوگوں میں سے نہیں تھے جو سمجھتے ہیں کہ اچھے تصورات ہی سے اچھا ادب بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ ظفر علی خاں کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
میرا حال اب یہ ہوگیا ہے کہ پرانی طرز کی نظمیں تو (الّا ماشاء اللہ) اس لیے دیکھنے کو جی نہیں چاہتا کہ ان میں کوئی نئی بات دیکھنے میں نہیں آتی۔ اور نئی طرز کی نظموں میں گو مضامین نئے نئے ہوتے ہیں مگر وہ چیز جس کو شاعری کی جان کہنا چاہیے اور جس کو ’’جادو‘‘ کے سوا اور کسی لفظ کے ساتھ تعبیر نہیں کیا جاسکتا کہیں نظر نہیں آتی۔ لیکن اس نظم کو [ظفر علی خاں کی نظم ’’رودِ موسیٰ] دیکھ کر متحیّر رہ گیا۔۔۔۔ (مقدمہ وحید قریشی ایڈشن، ص۳۶۹)
افلاطون سے لے کر حالی تک ہر معلّمِ اخلاق کے یہاں شاعری کا جادو تو سر پر چڑھ کر ہی بولتا ہے۔ یہ بات نہیں تھی کہ حالی شاعری کے تقاضوں سے واقف نہیں تھے اور محض اخلاقی مضامین ہی کی اہمیت پر زور دیا کرتے تھے۔ وہ خواجہ غلام الحسنین کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :
جو مضمون تم نے بنایا ہے وہ نظم میں لکھنے کے قابل نہیں ہے بلکہ کسی اسپیچ یا لکچر میں کوئی لائق اسپیکر یا لکچرار اس مضمون کو اچھی طرح ادا کر سکتا ہے۔ (ایضاً۔ ص۳۷۲)
’’دیوانِ حالی‘‘ کا دیباچہ، جو اسلوب کی شگفتگی اور فکری تعمّق کا نادر نمونہ ہے، ادب اور اخلاق کے مسئلے کو ایک اور ہی زاویے سے پیش کرتا ہے۔ حالی شاعر اور ناصح اور واعظ میں فرق کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک بہت ہی دلچسپ بحث کا باب کھولا ہے کہ آیا شاعر کے کردار کو اس کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیے یا نہیں۔ یہی نہیں بلکہ جب ہم جائس کی طرح کہتے ہیں کہ شاعر اپنی روح کی بھٹّی میں اپنی قوم کا ضمیر تیار کرتا ہے، یا جب منٹو کی طرح کہتے ہیں کہ ادب سماج کا مقیاس الحرارت ہے، یا جب کہتے ہیں کہ شاعر کی روح خیر وشر کی رزم گاہ ہے یا شاعر اپنے خون میں بیماری کے جراثیم دوڑا کر بیماری کی تشخیص اور تجزیہ کرتا ہے، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم حالی ہی کی باتوں کو ہمارے زمانے کے علمی اور ادبی پس منظر میں ہماری زبان میں بیان کررہے ہیں۔ حالی کا یہ طویل اقتباس ذرا غور سے پڑھیے :
شاعر جب اخلاقی مضامین بیان کرتا ہے تو اس کو بضرورت اکثر نصیحت و پند کا پیرایہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ مگر اصلی ناصح کی نصیحت اور شاعر کے ناصحانہ بیان میں بہت بڑا فرق ہے۔ اصلی ناصح خود برائیوں سے پاک ہوکر اوروں کو ان سے باز رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ مگر شاعر چوں کہ برائیوں کی ہو بہو تصویر کھینچ کر دکھاتا ہے اور گھر کے بھیدی کی طرح چھپے رستموں کے پترے کھولتا ہے اس لیے سمجھنا چاہیے کہ وہ زیادہ اپنے ہی عیب اوروں پر دھر کر ظاہر کرتا ہے۔ ہربدی اور گناہ کا نمونہ کم یا زیادہ، پوشیدہ یا اعلانیہ، انسان کے نفس میں موجود ہے۔ پس اگر بدی یا گناہ کے متعلق کوئی پتے کی بات شاعر کے قلم سے مترشح ہو تو جاننا چاہیے کہ وہ اپنے ہی نفس کی چوریاں بیان کر رہا ہے۔
ہیں عاشقی کی گھاتیں معلوم اس کو ساری
حالی سے بدگمانی بیجا نہیں ہماری
شاید اس موقع پر شاعر کی طرف سے عذر ہو سکے کہ اس میں فطرت انسانی کے حقائق و غوامض سمجھنے کا شاندار ملکہ ہوتا ہے جس کی مدد سے بعض اوقات ایک رند مشرب اور خراباتی شاعر جس پر پرہیزگاری کی کبھی چھینٹ نہ پڑی ہو وہ پرہیزگاروں کی سوسائٹی کا ایسا نقشہ کھینچ دیتا ہے کہ خود اس سوسائٹی کے ممبر بھی اپنی سوسائٹی کا ویسا نقشہ نہیں کھینچ سکتے۔
آگے چل کر حالی لکھتے ہیں :
مگر پھر بھی اس کو [شاعر کو] واعظ وناصح کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ ناصح کی غرض براہ راست ارشاد وہدایت ہوتی ہے بخلاف شاعر کے کہ اس کا مقصود فطرتِ انسانی کی کرید اور واقعاتِ دہر سے متاثر ہوکر دل کی بھڑاس نکالنی ہے اور بَس۔ وہ کسی کو سمجھانے کے لیے نہیں چلّاتا بلکہ خود سمجھ کر چیخ اٹھتاہے :
ناصح مشفق ہیں یاروں کے نہ مصلح اور مشیر
دردمند ان کے نہ ان کے درد کے درماں ہیں ہم
پھوٹ پڑتے ہیں تماشا اس چمن کا دیکھ کر
نالۂ بے اختیارِ بلبلِ نالاں ہیں ہم
ان تمام مثالوں سے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نقاد حالی کا کردار ایک سخت گیر اور گٹھل معلّمِ اخلاق کا کردار نہیں ہے۔ یہ اُس آدمی کا کردار ہے جو ادب میں اخلاقی رویے کو اپناتا ہے لیکن شاعری کے جادو، اس کی تمام طلسم آرائیوں اور نزاکتوں سے واقف ہوتا ہے۔ وہ ان سے نہ آنکھیں چراتا ہے نہ انھیں جھٹلاتاہے بلکہ ان کا چیلنج قبول کرتا ہے اور اپنے نظامِ اقدار میں ان کے لیے جگہ بناتا ہے۔ حالی کی اس پوری شخصیت کے پس منظر میں میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ سلیم احمد کو عشق کی اجازت ضرور دیتے لیکن اتنا کہتے کہ بھئی اب ان کی شادی وہ جہاں کہتے ہیں وہاں فوراً کر دینی چاہیے۔ آخر مغرب کا رویہ بھی تو کورٹ شپ کے دنوں کو طول دینے کا رویہ نہیں ہے۔ آخر امریکی نوجوان بھی شادی کی عمر کو طول دینا پسند نہیں کرتے۔ آخر نوجوان بیاہتا جوڑے سے زیادہ خوبصورت چیز دنیا میں کون سی ہے۔ یہ جوڑا خواہشوں کی تکمیل کی ہی علامت نہیں بلکہ ایک نئی زندگی کے سفر کی بھی علامت ہے، وہ نئی زندگی جو باہمی اعتماد، محبت اور وفا شعاری کی قدروں پر تعمیر ہوئی ہے۔ ان اخلاقی قدروں کو نکال دیجیے، شادی کے کوئی معنی نہیں رہتے۔ بیوہ کی شادی بھی اسی سماج میں اہمیت رکھتی ہے جس میں شادی کی کوئی اہمیت ہو۔ اگر شادی بھی ایک سماجی اور اخلاقی ادارہ نہیں اور محض بایولوجیکل ضرورت پوری کرنے کی ایک سہولت ہے تو پھر بیوہ کی شادی کے بھی کوئی معنی نہیں رہتے۔ بیواؤں کو فٹ پاتھ پر چھوڑ دیجیے تو وہ مردوں کو چن چن کر اپنی جنسی تسکین کر لیا کریں گی۔ اور معاملہ جب جنسی تسکین ہی کا ٹھہرا تو مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی ضرورت بھی کیا ہے۔۔۔ ربڑ کی عورت نہ سہی، جلق تو ہے ہی۔۔۔ اور ہماری جنسی کتابوں نے بھی کچھ نہ ملنے کی صورت میں ان کی حمایت کی ہے۔ بدن کے پیچھے بھاگنے والے کو عورت کا بدن تک ہاتھ نہیں آتا۔ شبِ عیش کی سحر خمار آلود آنکھوں، ٹوٹے ہوے گجروں اور مسہری کی سلوٹوں پر نہیں ہوتی بلکہ اداس اور سرد جسموں، خالی بوتلوں اور گھورے پر پڑے ہوئے ربڑ کے زرد پچکے ہوئے غباروں پر ہوتی ہے۔ عمیق حنفی کو مریض کہنے والے ذرا اس کی شاعری کو پڑھ لیں اور دیکھیں کہ مریض کون ہے۔۔۔ وہ یا ان کا مادّہ پرست معاشرہ۔ حالی خواب گاہ کی پُر بہار زندگی کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اس کسیلی، بدبودار عیاشی کے مخالف ہیں جس کے پیچھے ہمارا ہوس پرست معاشرہ اتنا پاگل ہوا ہے۔ جنس کی طرف رویہ ہمیں درست کرنا ہے، حالی کو نہیں۔ حالی نے کسی فلسفیانہ، دانشورانہ یا روحانی تصور کے تحت جنس کا انکار نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے لیے ایسے پوز اختیار ہی نہیں کیے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو شہنائیوں کی آواز سن کر کان میں روئی بھر لیں کہ آدمی پھر حیوانی کام کے لیے گھوڑے پر چڑھ رہا ہے۔ ایک عام آدمی کی دانش مندی، انسان کی پوری مذہبی اور اخلاقی روایت، انھیں بتاتی ہے کہ یہ کام تو ہونا ہی ہے۔ بھئی اس کام کی اہمیت کو اس کے روایتی اور اخلاقی پس منظر میں قبول کیجیے تو پھر گناہ بھی بے معنی اور بے لذت نہیں بنتا۔ آدمی لذتِ گناہ کے پیچھے بھاگتا ہے، لیکن بے اطمینانی سیری، جذباتی تشنج اور بے کیفی اس کا حاصل ہے۔ رومانی آرزومندی اور حرماں نصیبی کی کشمکش سے گزر کر ہی وہ کوئی توازن پیدا کر سکتا ہے۔ جوانی کی کج رائی کو کج رائی سمجھو تو جوانی بھائے گی بھی۔ جوانی کی کج رائی کو بھی فطری عمل ہی سمجھو تو جوانی بھائے گی نہیں، کیوں کہ بڑھاپے میں آدمی یہ بات یاد نہیں کرتا کہ اس نے کتنی بار قبض کشا دوائیں لیں بلکہ یہ یاد کرتا ہے، کتنی بار شراب پی۔ اپنی بہکی ہوئی لغزشیں اور بہکی ہوئی حرکتیں اس کی یاد کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ برہمچاری اور تپسّوی کے پاس تجربات کا ایسا سرمایہ نہیں ہوتا جنھیں یاد کر کے وہ مسکرائے۔ اس کی کوشش لغزشوں کو یاد کرنے کی نہیں بلکہ فراموش کرنے کی ہوتی ہے۔ حالی تپسّوی نہیں تھے اس لیے یہ شعر کہہ سکے :
گو جوانی میں تھی کج رائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
حیاتیاتی سطح پر کج رائی جیسی کوئی چیز ہی نہیں۔ کج رائی بھی اخلاقی چیز ہے، گناہ کا تصور بھی اخلاقی ہے۔ ایک بار بااخلاق آدمی بنےن پھر دیکھیے کہ رنڈی بازی میں کتنا مزہ آتا ہے۔
لیکن جنس کو جنسی اخلاقیات کے ساتھ قبول کرنے میں بڑی جھنجھٹ ہے۔ عشق کا جذبہ جنسی جبلّت پر قائم ہے، لیکن عشق چوں کہ ایک پورے وجود کے ساتھ سروکار رکھتا ہے اس لیے اس کا تصور بھی ایک اخلاقی تصور ہے۔ عشق کی اخلاقیات کیا ہوتی ہے، یہ آپ کو دنیا بھر کی شاعری بتادے گی۔ پاسِ ناموسِ عشق کی خاطر آخر آدمی کیا کیا نہیں کرتا۔ میر، غالب اور فراق بڑے عاشق ہیں، عشق کے لیے سارے سماجی بندھن توڑ ڈالتے ہیں، لیکن جو ایک بندھن نہیں ٹوٹتا وہ معشوق کا بندھن ہے۔ معشوق کے پاس پہنچتے ہیں تو پھر ایک نئی اخلاقیات کا انھیں سامنا ہوتا ہے۔۔۔ دونوں ساتھ سوئے ہوں تب بھی بیچ سے رضائی نہیں ہٹائی جاسکتی۔ یہی تو آزمائشیں ہیں جن کو بوالہوس تاب نہیں لاسکتا اور بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
تمہیں تو اہلِ ہوس امتحاں سے بھاگ چلے
یہ کیا ضرور کہ ہوتی تو موت ہی ہوتی
(فراق)
اختلاط میں بھی عاشق کا ذہن کیسے کیسے وسوسوں کا شکار ہوتا ہے۔ ذرا سنیے :
یارب اس اخلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
(حالی)
اور ذرا یہ بھی دیکھیے کہ وصل کی شب جب سب پردے اٹھ جاتے ہیں تو پھر کون سے پردے نہ جانے کہاں سے بیچ میں حائل ہوجاتے ہیں :
پردے بہت سے وصل کی شب درمیاں رہے
شکوے وہ سب سنا کیے اور مہرباں رہے
ایسے وصل سے تو ہجر کی راتیں کیا خراب تھیں :
بے قراری تھی سب امّیدِ ملاقات کے ساتھ
اب وہ اگلی سی درازی شبِ ہجراں میں نہیں
اور شبِ ہجر کی صبح ہوئی تو :
گھر ہے وحشت خیز اور بستی اُجاڑ
ہو گئی اک اک گھڑی تجھ بن پہاڑ
غرض کہ کیا ہجر اور کیا وصال، دونوں میں مصیبت ہے :
غیبت ہے یا حضوری، دونوں بری ہیں تیری
جب بدگمانیاں تھیں، اب بدزبانیاں ہیں
اگر معشوق بدزبانی نہ کرے، اس کے خلاف کوئی بدگمانی نہ ہو، وہ واقعی مہربان ہوجائے، تو پھر اس کی مہربانی کے مستحق بننے کے لیے چوبیس گھنٹے چوکنّے رہیے۔ کوئی ایسی حرکت نہ کیجیے جس سے اس مہربانی کو گزند پہنچے :
سچ ہے کہ پاسِ خاطرِ نازک عذاب ہے
تھا دل کو جب فراغ کہ وہ مہرباں نہ تھا
دیکھا آپ نے بھلا عشق میں راحت کا نام و نشان! گھر میں عورت ڈالنے کے بعد آدمی کے لیے کیا کیا مسائل پیدا ہیں، ان کا بیان آپ دنیا بھر کے افسانوں اور ڈراموں میں دیکھ لیجیے۔ اس پورے جھنجھٹ سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے۔۔۔ چند سکّے، ایک رات اور ایک سرد جسم۔ بالکل بایولوجیکل سطح پر بدن کو بدن سے ملنے دیجیے، کوئی جھگڑا ہی نہیں رہے۔ جو تن آسان سماج ہم نے پیدا کیا ہے اس میں آدمی جس چیز سے بھاگنا چاہتا ہے وہ ہر قسم کا جھگڑا اور جھنجھٹ ہے۔ حالی کی غزل کی شاعری بھی اس جھنجھٹ ہی سے نجات پانے کی کشمکش کا بیان ہے۔ معصیت پر نفس اور شرع میں لڑائی چھڑی ہوئی ہے، اور اللہ ہی خیر کرے۔ نفس کی طرف جاتے ہیں تو شرع چھوٹتی ہے، اور شرع پر قائم رہتے ہیں تو نفس پریشان کرتا ہے۔ حالی فیصلہ کیا کرتے ہیں اور اس فیصلے کا ان کی غزل پر کیا اثر پڑتا ہے، اس کا بیان آپ حسن عسکری کے مضمون ’’بھلا مانس غزل گو‘‘ میں ملاحظہ فرمائیے۔ میں تو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حالی اپنے اس dilema کا کوئی آسان حل تلاش نہیں کرتے۔ اس dilema کو وہ میر، غالب اور فراق کی طرح resolve نہیں کر سکتے، یعنی نفس و شرع، جذبہ وعقل، جبلت واخلاق کو ایک ہم آہنگی میں نہیں بدل سکتے، اسی لیے ان کی غزل میر وغالب کی غزل جیسی عظیم نہیں بن پاتی۔ لیکن حالی اپنی کش مکش کو قبول کرتے ہیں، وہ خود کو امتحان اور آزمائش میں رکھتے ہیں۔ اس کمشکش سے نجات کے لیے وہ نہ تو روحانی حل اپناتے ہیں نہ حیوانی حل۔ روحانی حل تارک الدنیاکا ہوتا ہے جو آشرم یا خانقاہ کی محفوظ فضا میں خود کو بند کر لیتا ہے :
نہ ملا کوئی غارتِ ایماں
رہ گئی شرم پارسائی کی
اور دوسرا آسان حل تھا بایولوجیکل سطح پر جینے کا۔ ذرا حالی سے ایسی بات کہہ کر دیکھیے۔۔۔ خدا کی قسم ہر مسلمان پر پندرہ سال کی عمر کو پہنچتے ہی عشق کرنا فرض کر دیتے۔ حسن عسکری کہتے ہیں :
ادب نہ خالی زہد وتقویٰ سے پیدا ہوتا ہے نہ فسق و فجور سے۔ ان دونوں کی جنگ فنکار کے لیے مفید ہوتی ہے۔ خود آندرے ژید کی تخلیقات، نیک وبد، واعظ ورند کی کشمکش سے نکلی ہیں۔ اسی کشمکش نے حالی سے غزل کہلوائی۔ حالی کی شاعری کا بھید پانا ہے تو اسی اندرونی آویزش کا مطالعہ کرنا پڑے گا، اور یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ ان کے اندر جو کشمکش جاری ہے وہ میر یا غالب کی باطنی کشمکش سے کس قدر مختلف ہے۔
گویا حیاتیاتی سطح پر عشق ہی نہیں بلکہ شاعری بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے صہبا وحید سے اپنے اصول کے مطابق شاعری ہو نہ سکی۔ ان کی تمام شاعری ساحر لدھیانوی کی خام نقالی بن کر رہ گئی، اور ساحر رومانی محبت کا شاعر ہے۔ رومانی شاعر عورت کے بدن کو نہیں جھنجھوڑتا، اس کے پورے وجود کو قبول کرتا ہے۔ صہبا وحید کو شاعری کرنی چاہیے تھی فسق و فجور کی، لیکن ایسی شاعری ممکن ہی نہیں۔ آپ میراجی کی طرح شاعری میں بدن کی لذتوں کا ذکر کر سکتے ہیں، لیکن بدن کا حسن اور لذت کا احساس ایک انسانی تجربہ ہے کیوں کہ انسان میں حسن اور احساس شعور کی سطح کو پہنچ کر ہی مسرت آگیں بنتا ہے اور شاعری میں ڈھلتا ہے، اور انسانی شعور آدمی کو حیوان سے جدا کرتا ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ انسان کا یہ شعور ہی ہے جو اس کے لیے عذاب بنا ہوا ہے۔ شعور ہی نے تو ضمیر کی تخلیق کی ہے، اور ضمیر کی آواز کو آپ دبا سکتے ہیں، بند نہیں کر سکتے۔ یعنی صاحب، انسان کی مصیبتوں کی کوئی حد ہے! اسی لیے تو حالی نے کہا ہے :
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں
لیکن ہم لوگ ہر کشمکش کے آسان حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ فسق وفجور ہمارے لیے سہل بن جائے اس لیے ہم انسان کا حیوانی تصور پیش کرتے ہیں۔ ہم سکھ کے نہیں محض آسائشوں کے طلبگار ہیں۔ ہم شانتی نہیں محض اطمینان چاہتے ہیں۔ ہم مسرت نہیں محض اشتعال کے خواہاں ہیں۔ آج کے آدمی کے انسانی زندگی کی بنیادی المناکیوں سے؛ انگیختگی بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ ترقی پسندوں کا اگر بس چلے تو یہاں تک کہہ دیں کہ روس کے آدمی کو زکام تک نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے موت، دنیا کی بے ثباتی، حیات کی شرر جستگی، مابعد الطبیعاتی کرب، فلسفیانہ تردّد کا ذکر کرنے کا مطلب ہے شکار کے شوقین نواب کے سامنے موسم کی خرابی کا ذکر کرنا۔ بس موڈ خراب ہوجاتا ہے ان کا۔ تحلیلِ نفسی کو تو ممتاز حسین بورژواژیوں کا فتنہ سمجھتے ہیں۔ نفسیاتی گتھیاں، جذباتی الجھنیں، انسانی فطرت کی پیچیدگیاں، روحانی مسائل، اخلاقی کشمکش۔۔۔ ان سب باتوں میں ترقی پسندوں کو کوئی دل چسپی نہیں، کیوں کہ غیر طبقاتی سماج کے وجود پذیر ہوتے ہی یہ سب مسائل حل ہوجائیں گے۔ ایک طبقہ انسان کو بایولوجیکل فینومینا سمجھتا ہے، دوسرا اقتصادی۔ دونوں کسری تصورات ہی نہیں، غیر انسانی تصورات ہیں۔ یہ آدمی کو اس کو totality میں نہ دیکھنے کا نتیجہ ہے کہ ہم صرف کسری، ناقص اور چھچھلا ادب پیدا کرتے رہے ہیں۔ پورے جدید ادب سے الیٹ کی برگشتگی کی وجہ بھی یہی تھی کہ جدید لکھنے والا آدمی کو سمجھ ہی نہیں رہا۔ دانشورانہ سنابری کے تحت وہ انسان کا ایسا تصور پیش کر رہے ہیں جو بڑا ادب پیدا کرہی نہیں سکتا۔ ہارورڈ کے ہیومنسٹوں کے خلاف بھی اس کی جنگ اسی وجہ سے تھی کہ انسان کو اس کے ماورائی ڈائمنشن سے محروم کر کے وہ انسان کے قد کو کم کر رہے ہیں۔ ماورائی آرزومندی کی عدم موجودگی میں انسان کو حیوانی سطح پر اترتے دیر نہیں لگتی۔ ’’ویسٹ لینڈ‘‘ میں کاربونیکل کلرک اور ٹائپسٹ لڑکی کی مباشرت کی پوری تصویر اسی بایولوجیکل آدمی کی تصویر ہے۔ ہم لوگوں کو تو اس تصویر کے ایک ایک لفظ پر غور کرنا چاہیے۔ مباشرت کے ختم ہوتے ہی عورت یہ سوچتی ہے کہ اچھا ہوا، یہ کام بھی جلد ہی پورا ہوگیا۔ میکانکی انداز سے وہ اپنے بال ٹھیک کرتی ہے اور گراموفون پر ریکارڈ رکھتی ہے۔ کلرک اندھیرے میں سیڑھیاں ٹٹولتا ہوا نیچے اترجاتا ہے۔ اندھیرے میں زینہ چڑھنا، اندھیرے میں سیڑھیاں اترنا، اندھیرے میں جسم بھنبھوڑنا۔۔۔ یہ ہے اس آدمی کا لمحۂ عیش جس نے جنس کو محض فطرت کا تقاضا سمجھا۔ ایسا آدمی سیڑھیاں اترتے ہی بھول جاتا ہے کہ وہ سیڑھیاں کیوں چڑھا تھا۔ وہ کیا جانے کہ شبِ عیش تو وہ ہوتی ہے جس کا نشہ ایک ہلکا سرور بن کر اس کے وجود کو دنوں تک ایک کیف کے عالم میں مدہوش رکھتا ہے۔ آپ کو تعجب ہوگا، یہ بات شرمیلے حالی جانتے تھے :
خود رفتگیِ شب کا مزا بھولتا نہیں
رہتے ہیں آج آپ میں یارب کہاں سے ہم
حالی کے ’’مقدمہ‘‘ پر اس طول طویل مقدمہ بازی کے لیے معذرت خواہ ہوں، لیکن کیا کیا جائے، لے دے کر ہماری تنقید میں حالی کا ’’مقدمہ‘‘ ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے ہمارے قد کو ناپاجائے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ حالی کے سامنے ہم سب بونے نظر آتے ہیں، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ حالی کے آئینے میں ہم جب ہمارا عکس دیکھتے ہیں تو کافی ٹوٹے پھوٹے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ آپ چاہے جتنی جمالیاتی بحثیں کیجیے، اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ادب و شعر کا موضوع انسان ہے، اور ہر وہ شعری تصور جو انسان کو مرکز میں نہیں رکھتا ناقص ہے۔ حالی کا انسان کا تصور کسری نہیں تھا، بلکہ وہ انسان کو اس کی حیوانی انسانی اور روحانی تینوں سطحوں پر قبول کرتے تھے۔ انسان کو انھوں نے ٹکڑے ٹکڑے نہیں دیکھا، اسی لیے ادب کو بھی انھوں نے ٹکڑے ٹکڑے نہیں دیکھا۔ حالی کی باتیں ایک مربوط اور سالم ذہن کی باتیں تھیں۔ ان کی شخصیت مختلف خانوں میں بٹی ہوئی نہیں تھی۔ ان کے لیے نہ شاعری عیّاشی کا نام تھا نہ زندگی پارسائی کا۔ وہ جانتے تھے کہ نہ اچھی شاعری آسانی سے ہاتھ آتی ہے نہ اچھی زندگی۔ دونوں کے لیے نظم و ضبط، سلیقہ مندی، رکھ رکھاؤ اور عقل وفکر کی ضرورت ہے۔ انھوں نے انسان کو مرکزِ کائنات سمجھا، نہ شاعری کو حاصلِ زندگی، نہ عشق و محبت کو کل متاعِ شاعری۔ انھوں نے شاعری کو زندگی سے، زندگی کو سماج سے اور سماج کو انسان کی اخلاقی تہذیبی اور روحانی روایت سے وابستہ کرنے کی کوشش کی۔ حالی کی آواز میں وہ حسن اور وقار تھا
جو ایک شاندار تہذیبی روایت کا بخشا ہوا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت اتھل پاتھل دیکھی تھی، تہذیبوں اور تمدنوں کے ٹکراؤ کو دیکھا تھا، آئینِ زندگی کو بدلتے اور بساطِ اقدار کو الٹتے دیکھا تھا، لیکن وہ ٹوٹ ٹوٹ کر پھر جڑے تھے اور گر گر کر سنبھلے تھے۔ ان کی زندگی بکھرے ہوئے اجزا کو سمیٹنے کی ایک مسلسل جدوجہد تھی۔ ہم، جو ایک ایسے سماج کے پروردہ ہیں جو لبرل تک نہیں رہا، محض permissive بن چکا ہے، جو ترقی کوشی، مادّہ پرستی، اقتدار پسندی کے پیچھے اپنی تمام تہذیبی روایتوں اور اخلاقی اور روحانی قدروں کو کھوتا جارہا ہے، ایک ایسے سماج میں پرچھائیں کی طرح حرکت کرنے والے ہم لوگ جب حالی کی تصویر پر نظر کرتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ انھیں کیمرے کے سامنے آنے کے لیے صرف کپڑے ٹھیک کرنے تھے، ہمیں کپڑے ہی نہیں ہماری بکھری ہوئی ذات کو سمیٹنا پڑتا ہے۔ کیا ہمارے لیے یہ ممکن رہا ہے کہ کیمرے کے سامنے بغیر کوئی پوز اختیار کیے اس طرح کھڑے ہوجائیں جس طرح حالی کھڑے ہوے ہیں؟
=== O ===
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں