اتوار، 30 اگست، 2015

منیرہ سورتی کی دو کہانیاں



 پری

مہر کا فیصلہ سنتے ہی کمرے میں یکلخت سنا ٹا چھا گیا، سب لوگ ہکا بکا ، ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، گو ہر نے آنکھیں پھاڑ کر مہر کی طرف دیکھا اور سوچا کہ اسکا دماغی توازن بالکل بگڑ گیا ہے ، اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی ، چند لمحوں میں خاموشی اتنی گہری ہو گئی مانو اب پھٹ پڑیگی، پھر اچانک پھو پھی جان نے اپنے سینے پر زورسے ہتھڑ مارے اور بلبلا کر رونے لگیں..
’’..........ہائے نصیبوں جلی............کمبخت .........بدنصیب........‘‘
سب لوگ چونک کر بے اختیار پھوپھی جان کی طرف لپکے اور مہر دبے قدموں، کمرے سے باہر نکل گئی۔
باہر آسمان سرخ تھا، سورج کا قتل ہو چکا تھا اور برسی گزر چکی تھی۔
ابابیلوں کی ڈار کسی نا معلوم سمت سے نمودار ہوئی اور افق کی سرخی میں غائب ہو گئی۔
مہر سر جھکا کر چپ چاپ کھڑی رہی تا کہ اسکی سانسیں کچھ بحال ہو جائیں پھر وہ دالان میں بچھے تخت پر بیٹھ گئی، اور آنکھیں بند کر کے دماغ میں پھیلے، پیچیدہ خیالات کی گرہیں کھولنے کی کو شش کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہاں تو صرف پھوپھی جان کی سسکیاں گونج رہی تھیں،
’’ میری بدنصیبی کس نے طے کی۔۔۔؟ ‘‘
اس سوال کے سر اٹھاتے ہی اسکی آنکھیں کھل گئیں اور نظر ان چہروں پر پڑی جوباورچی خانے کی کھڑکی سے جھانک رہے تھے ،وہ شفقت سے مسکرائی لیکن وہ چہرے سہم کر فوراً پردے کی آڑ میں چھپ گئے۔
یہ وہی چہرے ہیں جن کے لئے وہ کسی اور دنیا کی بے حد پر اسرار ہستی ہے............ اس نے اداسی سے سوچا
سسکیاں پھر گونجیں۔۔۔۔۔
’’نصیبوں جلی۔۔۔۔۔۔کمبخت ۔۔۔۔۔۔۔بدنصیب۔۔۔۔۔۔‘‘
اور اس گونج کی بازگشت کہیں دور بہت دور سے سنائی دی،
’’ہوائی دیدہ.........آوارہ..........حرافہ...........فاحشہ..........‘‘
گذرتی ہوئی ہوا کے جھونکے نے تڑپ کر ایک ز ناٹے دار چکر کاٹا، صحن میں بکھرے پتے پھڑپھڑائے ،شاخوں میں چھپی ہوا نے بین کیا اورآشیانوں کی طرف لوٹتے ہوئے پرندوں نے اچانک چپ ہو کر سر جھکا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاروں دھام ویرانی چھا گئی۔
یکا یک مہرکو اپنے سینے میںآہٹ سی محسوس ہوئی،ایک جانی پہچانی دستک، وہ چونکی،ا س نے بے چینی سے پہلو بدلا اورپھر دونوں ہاتھ اپنی بغلوں میں دبا کر جھک گئی، مانو کسی بھولے بسرے درد کو کروٹ لینے سے روک رہی ہو پھر آہستہ سے دونوں گھٹنوں کو جوڑ کر ان پر اپنا سر رکھ دیا اور تیز تیز سانسیں لینے لگی ، پھر تیزی سے سر اٹھا یا،دونوں ہاتھ اپنے سامنے پھیلا ئے اوراپنے ناخنو ں کا بغور جائزہ لینے لگی ،ہلکی سی گلابی رنگت لئے ، نفاست سے ترشے ہوئے سپید ناخن اسکے سامنے اپنی قدرتی ترتیب میں موجود تھے،وہ پوری توجہ سے نظریں جمائے انہیں دیکھتی رہی،اوردیکھتے ہی دیکھتے اس نے محسوس کیا کہ وہ دھیرے دھیرے بڑھ رہے ہیں، جوں جوں اسکے سینے میں کپکپاتی آہٹ تیز ہورہی ہے ، ناخن بھی ساتھ ساتھ بڑھ رہے ہیں،مہر سہم گئی،اس نے اپنی مٹھیاں کس کر بند کر لیں اور سارے مکان پر بے قراری سے نظریں دوڑایءں جیسے کو ئی سہارا ڈھونڈتی ہو جو اس سنگین لمحے کی گرفت سے اسے نجات دلاسکے ، پھر وہ اٹھی اور دوڑتی ہو ئی چھت پر جانے والی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
اپنے کمرے میں پہونچتے ہی وہ تیزی سے آئینے کے سامنے گئی اور اپنا کرتا اتار پھینکا، دستک گونج رہی تھی، اسکے سینے کے مخصوص ابھار کسی انجانی لرزش سے ہولے ہو لے کانپ رہے تھے،انکے درمیانی حصے کا رنگ سرخی مائل ہو رہا تھا،دستک تیز ہوئی اور مہر نے اسی تیزی سے اپنی ہتھیلیوں کو ان پر پھیلا دیا، ایک پل گذرا مانو ایک صدی گذری،اس نے آہستہ سے ہتھیلیاں ہٹائیں اور آنکھیں کھول دیں،بائیں پسلی کے اوپر چھاتی کے بیچو ں بیچ سرخ رنگ کا داغ تھا،ا جس کا دائرہ نا محسوس رفتار سے بڑھتا جا رہا تھا،مہر کے چہرے پر سراسیمگی پھیلنے لگی،اس نے آہستہ سے اپنی انگلیاں پھیلائیں، اورناخن اس داغ پر.....................
اچانک دھڑام کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا ،گوہر لپکتی ہو ئی اندر آ ئی اور جھٹ سے مہر کو کس کر جکڑ لیا، مہر اسکی بانہوں میں جھول گئی۔

اگلے ہی پل رشتہ داروں کے مانوس چہرے چھت پر جمع تھے، سب دبی زبان میں کچھ نہ کچھ بدبدا رہے تھے، اکثرکے چہروں پر تشویش اور تجسس چھا یا ہواا تھا،جوں ہی گوہر کمرے سے باہر آئی، ماموں جان لپک کر آگے بڑھے ، سب نے سوالیہ نگاہوں سے گوہر کی طرف دیکھا،
’’ وہ ٹھیک ہے ماموں جان ،سو رہی ہے‘‘ گوہر نے کہا
ماموں جان نے فکر مندی سے سر ہلا یا اور وہاں سے چل دئے ۔۔۔’’ تمہاری پھوپھی جان کو خبر کر دوں ، سخت پریشان ہیں‘‘
عورتیں ماموں جان کے قدموں کی آہٹ پر کان لگائے رہیں اور جیسے ہی وہ سیڑھیاں اتر گئے گوہر پر سوالوں کی بو چھار شروع ہو گئی،
’’کیا ۔۔۔۔ نوچ لیا تھا‘‘ منی خالہ نے قدرے بے چینی سے پوچھا
’’ اگر میں وقت پر نہ پہونچتی تو۔۔۔۔۔‘‘ گوہر کی آواز میں اداسی نمایاں تھی
’’ کیا واقعی سو رہی ہے‘‘ منی آپا نے مزید تسلی چاہی،
’’ جی ہاں سو رہی ہے‘‘
’’ لیکن گوہر بیٹی میں تو یوں سنو ں تھی کہ اب یہ دورے نہیں پڑتے ۔۔۔پھر آج اچانک۔۔۔کیوں‘‘قمر خالہ جان نے پو چھا۔۔۔
’’سنا میں نے بھی یہی تھا آپا مگر ہم تو صرف سنا ہی کرتے ہیں۔۔۔۔وہ برسوں بعد گھر آئی ،دیکھا نہیں کسقدر بے چین رہی سارا دن، اس گھر میں بسی یادیں، ماں کی برسی ۔۔۔۔ ا ور پھر یہ بحث جو ہوتی رہی گھنٹوں۔۔۔سب کچھ اسی ایک دن میں‘‘منی خالہ نے کہا،
’’ اے ہے اسی لئے تو میںیوں چاہوں تھی کہ کمبخت رک کیوں نہ جائے تھوڑے دن اور ۔۔۔ساری باتیں تسلی سے ہو جانی تھیں مگر اسکی ضد‘‘ قمر خالہ ناگواری سے بولیں،
’’ میں نے تو خالہ جان آج کی ملاقات کا برسوں انتظار کیا تھا ، مگر کیا کروں مہر نے صبح آتے ہی کہہ دیا تھا کہ رک نہیں سکتی ، اور پھر یہ دورہ۔۔ گوہر جز بز ہو کر بولی،
پل دو پل کے لئے سب سوچ میں ڈوب گئے، پھر قمر خالہ جان نے ہنکارا بھرا
’’ تم سب میری بات نہیں مانو ہو ،مگر میں آج بھی یہی کہوں کہ اس نا مراد پر جنوں کے سائے ہیں‘‘
’’ آپ کے کہنے پر ولی شاہ کی درگاہ پر لیجاتے تورہے تھے برسو ں۔۔۔۔کیا انجام ہوا؟ ‘‘منی آپا نے کہا
’’ اے ہے فقط حاضری دینے سے کیا ہو وے ہے بی بی، پاک و صاف رہنا پڑے، طہارت ، وضو ، نماز روضہ سب کی پابندی کرنی پڑے ہے ،اور اس کلموہی کا کچھ پتہ ہے۔۔۔ جانے کہاں کہاں بھٹکتی ہے، کبھی اس دیس میں کبھی دوسرے ملک ما۔۔ جوان لڑکی کیا یوں دنیا بھر ما ماری ماری ماری پھرے ہے ؟۔۔ مگر اسکا پیر تو بچپن سے گھر ہی میں ٹکے کہا ں تھا ، ہمیشہ کی آوارہ تھی جنم جلی ‘‘
منی آپا اور گوہر کے چہروں پر نا گواری پھیل گئی،
’’ ماری ماری نہیں پھرتی مہر ، دنیا بھر میں اسکی خطاطی کی نمائش رکھی جاتی ہے، کیا آپ نہیں جانتیں‘‘ گوہر نارضگی سے بولی
’’ اے ہے اسی مارے تو ۔۔۔ اللہ رسول کا نام مٹی جیسی ذلیل چیز پر لکھے کلموہی۔۔قران پاک کو ناپاک چونے اور گارے پر کاڑھتی پھرے۔۔ اور خوف خدا نام کو نہیں ۔۔۔۔اللہ کا عذاب نہ نازل ہو گا تو اور کیا ہوگا؟ خالہ جان کی آواز ایمان کے جوش سے بھر گئی۔
گوہر نے منہ پھیر لیا۔۔۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد قمر خالہ پھرگویا ہوئیں،
’’میں تو یوں کہوں کہ اس بار جن نا ہیں، کوئی روح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں یہ جمیلہ کی روح نہ ہو‘‘
’’ امی کی روح؟ ‘‘گوہر گھبرا گئی۔
قمر خالہ نے آس پاس جمع لڑکیوں اور عورتوں کی جانب دیکھا اور اپنے ابروؤں سے اشارہ کیا، سب آ ہستہ قدموں سے وہاں سے چلی گیءں۔
’’ہائے بٹیاکیا تم بھول گئیں ‘‘۔۔۔۔۔ قمر خالہ فورا بول پڑیں’’ جمیلہ عمر بھر کتنی نالاں رہی اس لڑکی سے، اس حرافہ نے کیسے کیسے تماشے نہ کئے، سیدوں کی عزت پر ذلت کی کالک پوت دی ،جمیلہ تو اسکے مرنے کی دعایءں مانگا کرتی تھی، میں تو کہوں یہ اسی کی روح ہے ‘‘
’’ لیکن آپا جمیلہ باجی نے تو مرنے سے پہلے کتنی عاجزی کی تھی کہ انکے تمام زیور مہر کو دے دئے جائیں ‘‘ منی آپا نے مظبوط لہجے میں کہا
’’اے ہے بہن جمیلہ نے تو زیور اس مارے دئے ، کہ یہ نامراد کسی طرح پھر اپنے خاندان سے جڑ جائے ، خاندانی بیٹیوں کے طور طریقے سیکھ جائے ، گھر بسا لے اور زمانے بھر کی خاک نہ چھانتی پھرے ،مگر آج تم نے دیکھ لیا ۔۔ ۔کمینی ہمیشہ کی ضدی تھی۔۔۔بی بی تم کچھ بھی کہو، یہ جمیلہ کی روح ہے جو کچھ کہنا چاہے ہے، روحیں سب کچھ دیکھیں اور جانیں جو ہم نہیں جان سکتے‘‘
’’ مجھے تو ہول اٹھ رہاہے ، میں توڈاکٹر کو بلا رہی ہوں‘‘ گو ہر چلنے کو ہوئی،
’’ یہ غضب متی کرنا بے وقوف لڑکی، تمہیں قیامت کی وہ رات یاد نہیں؟ کیوں انہونی کو بلاوا دیتی ہو‘‘ قمر خالہ جان لرز کر بولیں،
’’کون۔۔۔کون سی رات؟ ‘‘گوہر کی آواز پھنس رہی تھی،
’’وہی رات بی بی جب پہلی بار مہر پر یہ دورہ پڑا تھا ، تمہارے ابا نے اللہ انہیں جنت نصیب فرمائے ، مارے وحشت کے، ڈاکٹر کو بلا لیا تھا، ڈاکٹر جیسے ہی انجکشن لگانے کو ہوا مانو جیسے قیامت آگئی، اچانک طوفانی ہواؤں کے جھکڑ چل پڑے ، وہ تیز آندھی اٹھی کہ غضب۔۔سب کچھ اڑا لے گئی، ،پھر جو مینہ برسا ہے۔۔۔بی بی لگاتار دس دن تک برستا رہا۔۔۔ہائے ہائے ۔۔بہٹ کی تاریخ میں ایسی بھیانک رات کاہے کو کسی نے دیکھی تھی اور نہ آگے دیکھے گا۔۔۔۔۔‘‘
خالہ جان خاموش ہو گئیں ، گوہر دھیمے دھیمے سسکیاں لینے لگی۔
رات کے چہرے پر ویرانی بوند بوند برسنے لگی۔
مہر بے خبر سوتی رہی۔
جمیلہ عرف دلنواز بیگم جن کی برسی میں شرکت کرنے کے لئے توقع سے زیادہ لوگ آئے تھے، بہٹ اور اسکے آس پاس کے علاقوں میں اپنے حسن ، نفاست اور نازک مزاجی کے لئے جانی جاتی تھیں،وہ لکھنؤ کے کسی معزز خاندان سے آئی تھیں اور وہاں کی پر تکلف تہذیب کی تمام نفاستیں اپنے ساتھ لائی تھیں،کوٹھی کا کوئی کونہ ہو یا باغ کا کوئی چپہ،ملازموں کے لباس ہوں ،پھولوں کا انتخاب ہو یا خوشبوؤں کی شناخت ہو،کھانے کے رنگ ہوں یا دسترخوان پر انکی نشست ہو،سب انکے اعلی ذوق ا ور جمالیاتی حس کی تصویر ہوتے تھے، کہا یہ جاتا تھا کہ صرف وہ ملازم انکے حضور میں رسائی پاتے تھے جو نہ صرف خوش شکل ہوں، سڈول ہاتھ پیر رکھتے ہوں بلکہ تمیز دار ہوں اور شائستہ زبان بولتے ہوں،اور وہ سب جو ان خصوصیات سے محروم تھے نہ تو انکے سامنے جاتے تھے نہ زبان کھولتے تھے۔
بیگم صاحبہ کے حسن وجمال کا جادو انکے شوہر شاہصاحب کے سر پر چڑھ کر تو بولتا تھا خود بیگم صاحبہ کے سر پر چڑھ کر بھی بولتا تھا، یہ کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ ہر ہفتے جمعہ کی نماز کے بعد بیگم کوٹھی کے پچھلے صحن میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی تھیں جہاں انکے دیدار کے لئے آنے والی عام عورتیں ،مخملی چوکی پر رکھے انکے پیروں کا دیدار کرتیں اور نظر اتارتی تھیں، ان پیروں کے متعلق مشہور تھا کہ انکی سبک ایڑیاں اتنی اونچی ہیں کہ سورج کی شعائیں انکے آر پار آتی جاتی دکھائی دیتی ہیں۔
پیروں سے بھی زیادہ عورتیں انکے دراز بالوں پر، جو انکی ایڑیوں تک پہونچتے تھے، فریفتہ تھیں، ان بالوں کی پرورش اور زیبائش کے لئے تین ملازم لڑکیا ں مخصوص تھیں، ہر دسویں دن کی رات یہ لڑکیا ں ریٹھے بھگوتیں، شکاکئی ابالتیں، سڑا ہوا ناریل بادام اور میتھی کے دانے پتھر کی سل پر پیستیں اور خالص دہی گھولتیں۔
دوسری صبح حمام تیار کرتیں، بیگم کو صندل کی اونچی چوکی پر بٹھاتیں اور گلاب کی پتیوں میں بسے گرم پانی اور نرم ملائم ہاتھوں سے انکے بال دھوتیں پھر عود، صندل اور دوسری بوٹیوں کو انگاروں پر دہکاتیں، بیگم شہنیل سے سجے تخت پر دراز ہوتیں،لڑکیاں انکے بالوں کو بید کی ٹوکری پر پھیلاتیں اوران میں خوشبو بساتیں ۔
تیسرے دن خشک بالوں میں خالص بادام کا تیل پڑتا ،صندل کی کنگھی سے انہیں سنوارا جاتا، پھر کئی ساری چوٹیاں گوندھی جاتیں،جنہیں سر کے ارد گرد سجا دیا جاتا اور ا ن میں موتی پرو دئے جاتے ۔
اسی شام عورتیں بیگم کے حضور،حاضری دینے آتیں اور انہیں دیکھ کر اللہ کی صناعی پر انکا ایمان تازہ ہو جاتا۔
عورتوں کی آنکھوں سے چھلکتی حیرت اور عقیدت دیکھ کر بیگم کا سینہ فخر و انبساط سے سرشار ہو جاتا۔
شاہ صاحب، جنکی زمینداری اپنے عروج کا زمانہ دیکھ چکی تھی ، ا پنی مختصر سی حیثیت کے باوجود اس قصبے میں سب سے زیادہ مالا مال تھی ، اپنی بیگم پر عاشق تھے،یہ عاشقی کتنی ایماندار تھی اور کتنی مصلحت آمیز ، خود شاہ صاحب بھی نہیں جانتے تھے، ہاں لیکن جب وہ اپنی بیگم کی زبانی سنتے کہ۔۔ ’’ اللہ حسین ہے اور حسن کو پسند کرتا ہے‘‘ ۔۔تو انکی آنکھوں میں تردد صاف دکھائی اور سنائی پڑتا، اور وہ اپنی بیگم کی دلجوئی میں دل و جان سے جٹ جایا کرتے تھے ۔
اپنے پہلو میں بدصورت ،مہاسوں سے بھرے چہرے والے شاہ صاحب کو دیکھ کر بیگم پر کیاگذرتی تھی کون جان سکتا تھا،مگر گھر کی خادمائیں اتنا ضرور بتاتی تھیں کہ بیگم صاحبہ سنگھار کرنے کے بعد آئینے میں ا پنا عکس دیکھ کر اشکبار ہو جایا کرتی ہیں ۔
ان آنسوؤں کے پیچھے سے بیگم اور شاہ صاحب کی عمروں کا مجرمانہ فرق جھانکا کرتا تھا،جس نے ان خوابوں پر خاک ڈل دی تھی جو انہوں نے ایک وجیہ، خوبرو نوجوان شوہر کی رفاقت کی آرزو میں کبھی سجائے تھے، حا لانکہ گذرتے وقت نے ان خوبوں کو آنکھوں سے نوچ کر لاشعور کی درازوں میں دفن کر دیا تھا مگر جوانی کی پر زور ترنگیں پھر بھی شور مچاتی رہتی تھیں، اپنا حسین سراپا ڈنک مارتا تھا اور تشنگی سے حلق میں کانٹے اگ آتے تھے۔
بے ڈھب، کم رو،بد صورت شکلوں سے بے نام سی بیزاری اور نفرت بڑھتی جاتی تھی۔
آج بیگم کی پہلی برسی تھی ، جس میں توقع سے زیادہ لوگ آئے تھے ،مگر آنے والوں کی کثیر تعداد کی وجہ بیگم کی نہیں بلکہ انکی بیٹی مہر کی مقبولیت تھی۔
مہر، نیند کی گہرائیوں میں ڈوبی سو رہی تھی۔
مگر رات جاگ رہی تھی کہ جاگنا رات کا مقدر ہے۔

منی آپا نے نیند سے بوجھل آنکھیں کھول کر دیکھا، پھوپھی جان تکیوں سے پیٹھ لگائے بیٹھی تھیں، ان کا سر سینے تک یوں جھکا ہوا تھا مانو وہ سجدے میں ہوں،
’’رشیدہ باجی۔۔۔۔‘‘ منی آپا نے آواز دی
پھوپھی جان نے سر اٹھا یا اور کہیں دور دیکھتے ہوئے سرگوشی سی کی۔۔۔۔’’ وہ زندہ رہیگی ‘‘
منی آپا خاموش رہیں۔
’’ ذہین ہے، دنیا میں جگہ بنا لیگی‘‘
’’ جی باجی ‘‘
’’ شاید دل میں کبھی نہ بنا پائے‘‘ پھوپھی جان کی آواز میں لرزش تھی ۔
’’ ایسا کیوں کہتی ہیں باجی ابھی مہر کی عمر ہی کیا ہے‘‘
پھوپھی جان کا سر پھر سینے تک جھک گیا، کچھ اور پل گذرے،
’’ جب اسکی نال کٹی ۔۔۔تو اس نامراد نے پٹ سے آنکھیں کھول دی تھیں۔۔ ننھی جانیں یوں آنکھیں نہیں کھولتیں، ۔۔وہ بے طرح ڈر گئی تھی‘‘
’’ لیکن ۔۔۔۔‘ ‘ منی آپا بات پوری نہ کر سکیں،
’’ جن بچوں کو چڑیا گھونسلے سے باہر گرا دیتی ہے وہ اڑتے نہیں۔۔‘‘
’’ لیکن وہ تو پری ہے آپکی‘‘
’’ میری پری نے نال کٹتے ہی اعتبار کھو دیاتھا، اور دل اعتبار چاہتا ہے‘‘
پھوپھی جان نے پھر سر جھکا لیا ، رات ڈوبنے لگی۔

دلنواز بیگم گوہر کی پیدائش سے پہلے سے ہی جانتی تھیں کہ انکی اولاد حسن و نزاکت میں اپنی مثال آپ ہو گی، اور جب گوہر پیدا ہو ئی تو دیکھنے والوں کی تجربہ کار نگاہوں نے پہلی نظر میں اس بات پر مہر بھی لگا دی ، لیکن جو بات دلنواز بیگم نہیں جانتی تھیں، اس نے انکی زندگی کے معنی بدل ڈالے۔
ہوا یوں کہ گوہر کی پیدائش سے فارغ ہونے کے بعد وہ ٹھیک سے آ رام بھی نہ کر نے پائی تھیں کہ نصف رات کے قریب انہیں شدت سے درد اٹھا ، دائی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ، شہر سے سینئر لیڈی ڈاکٹر بلوائی گئی اور صبح کے چار بجے نیلے رنگ کے لعاب میں لپٹی، سرمئی رنگ کی،بیڈھب سے نقوش والی ، کپکپاتی کانپتی ، کمزور بے جان سی بچی پیدا ہو ئی جو مہر تھی۔
اذان سے پہلے مہر کے کانوں نے سہمی ہوئی حیرت زدہ چیخیں سنیں جو اسے دیکھتے ہی عورتوں کے منہ سے بے اختیار نکلی تھیں۔
سب نے اس ’’ کرامت‘‘ کو شاہ صاحب کے نام منسوب کر دیا تھا۔
بہٹ کے لوگوں میں مہر کے لئے تجسس، اسکی پیدائش کے ساتھ پیدا ہوا، اور وقت کے ساتھ ساتھ نشو ونما پاتا گیا۔
دلنواز بیگم کا یہ یقین کہ ’’ اللہ حسین ہے اور حسن کو پسند کرتا ہے‘‘ اپنی جگہ مسلم تھا لہذا گوہر انکی ممتا اور چاہت کا مرکز بنی رہی اور مہر ان کے دل و دماغ سے محو ہو نے لگی، مہر نے نہ جانے کس طرح اپنی ماں کے دل کا حال جان لیا اوران کی نظروں سے غائب رہنا سیکھ گئی،وہ گھر کے پچھواڑے ، دھوبی یا جمعدار کے گھر، انکے بچوں کے ساتھ پائی جاتی، یا مٹی میں سنی ہوئی کیچڑ سے لت پت بھینسوں کے طبیلے سے بر آمد ہوتی، اکثر و بیشتر بیمار رہتی، ناک سڑکتی ، کھانستی ، سر کھجاتی، منہ بسورتی ، میلی کچیلی بھوسلی سی بچی کسی طو ر دلنواز بیگم کی گود کی مستحق نہیں سمجھی جاتی تھی۔
ٹھیک اسکے بر عکس گوہر کی خوبصورتی، شگفتہ مزاجی، صحتمندی، اسکی چہلیں ،شرارتیں، ادائیں ، تیز طراری اور ناز نخرے ، لوگوں کا دل موہ لیتے ، گھر کے سب لوگ اس پر فریفتہ رہتے، بیگم دلنوازکے لئے گوہر ،بیٹی سے بڑھ کر ان کے حسن پر لگی مہر تھی ، ایک تمغہ تھی جسے وہ اپنے سینے پر سجائے رکھتی تھیں۔ اس پر عاشق ہوتی رہتی تھیں اور اسکی ناز برداری میں جٹی رہتی تھیں۔
مہر کسی خادمہ کی گود میں دبکی پلو کی آڑ سے کبھی ماں کبھی گوہر کو ٹکر ٹکر تاکا کرتی ، دودھ کی شیشی اسکے ہونٹوں سے جھولتی رہتی، کچھ مبہم سے سوال اسکی آنکھوں سے جھانکا کرتے،لاچار سی بے بسی کے میلے رنگ اسکے معصوم چہرے پر پھیلے رہتے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اتفاقاً بیگم اسکی طرف دیکھ لیتیں تو وہ فوراً اپنا سر خادمہ کے سینے میں گاڑ دیتی اور پھوپھی جان کی پسلیوں میں درد ٹھونگیں مارنے لگتا۔
رفتہ رفتہ گوہر بھول گئی کہ اسکی ایک جڑواں بہن بھی ہے۔
رفتہ رفتہ بیگم بھول گئیں کہ انکی ایک اور بیٹی بھی ہے۔
لیکن پھوپھی جان کیسے بھول سکتی تھیں، وہ جب بھی بیگم کو انکی غفلت پر متوجہ کرتیں تو بیگم کی ممتا ہڑ بڑا کر جاگ جاتی اور وہ ملازمہ کو حکم دیتیں کہ مہر کو نہلا دھلا اور سجا کر انکے سامنے پیش کیا جائے، پھر وہ اسکے چہرے پر اپنے ہاتھوں سے خوشبو دار پاؤڈر لگاتیں، اسے چاندی کی طشتری میں پروسی بالائی اور شہد کھلاتیں، ایک کھلونا تھماتیں، آہستہ سے اسکے گال چومتیں اور بار بار مسکراتیں ۔۔لیکن نتیجہ بے سود رہتا۔
ا چانک در آ نے والی یہ تبدیلیاں مہر پر ایکدم وحشت سی سوار کر دیتیں ، آرام اور آسائش کے یہ سارے سامان اسے خوفزدہ کر دیتے ، وہ ایکدم گونگی ہو جاتی ، خاموشی کے ساتھ ان مرحلوں سے یوں گذرتی مانو سزا جھیل رہی ہو، بیگم پاؤڈر لگا رہی ہوتیں اوراسکی ناک بہنے لگتی، بالائی شہد،چاکلیٹ ،پھل کھا لیتی اور پھر بیگم کی گود میں قے کر دیتی ،بیگم غصے سے تلملاتیں تو بے اختیار اسکی رال بہنے لگتی ، ہونٹ کھل جاتے، زبان اسکے دانتوں میں پھنس جاتی، اور بیگم کو محسوس ہوتا جیسے وہ مسکرا رہی ہے۔
بیگم زناٹے دار چانٹا جڑ دیتیں تو وہ خالی آنکھوں سے انہیں دیکھتی اور ٹس سے مس نہ ہوتی۔
ایک شام بیگم کی خاص ملنے والیوں کی دعوت تھی،حسب دستور پائیں باغ میں، جوہی اور رات رانی کی شاخوں سے ڈھکے کنج میں مہمانوں کی نشستوں کا انتظام بیگم کی نگرانی میں کیا گیا، موم بتیوں کی روشنی سے ماحول میں ایک رومانی کیفیت تخلیق کی گئی، جسے مہکتی ہوئی فظاؤں میں بکھرتی ترنم ریز موسیقی نے سرور آگیں بنا دیا ۔
عموماً ایسی دعوتوں میں ملازمہ کو تاکید دی جاتی تھی کہ مہر کا سایہ بھی دعوت کی جگہ سے دور رہے، لیکن اس شام کی مہمان لکھنؤ سے آئی تھیں اور دونوں بیٹیوں سے ملنے کی مشتاق تھیں، بیگم نے مہر کوتیار کرنے کے بعد باغ میں لانے کا حکم دیا، لیکن مہر عین وقت پر غائب ہو گئی، بہت ڈھونڈنے پر ملازمہ نے اسے د الان سے ملحق راہداری کے ایک تاریک کونے میں لیٹا ہواپا یا۔
جب مہر ملازمہ کے سنگ کنج میں داخل ہو ئی تب گوہر ،بیگم کی گود میں تھی اور مہمان عورتیں اسے نہار رہی تھیں،مہر کو دیکھتے ہی انکے چہروں پر تذبذب کے تاثر ات ابھر آئے ، کمرے میں گونگی سی خاموشی چھا گئی ، چند ایک خواتین نے کبھی گوہر کی جانب اور کبھی مہر کی جانب دیکھا، بیگم کی حسین پیشانی پر نازک سے بل پڑ گئے،انہوں نے اپنی بھنویں پیشانی پر چڑھائیں اور اپنی جگہ سے اٹھ کر مہر کی طرف بڑھیں، انہیں آتا دیکھ کر مہر کی کشادہ آنکھیں مزید کشادہ ہو گئیں اسکی ناک بہنے لگی ، ہونٹ پچکنے لگے اور جونہی بیگم نے اسے اپنی گود میں اٹھا یا اس کا پیشاب خطا ہو گیا۔
اپنی محفل کی اعلٰی آراستگی اور تہذیبی نفاست کے لئے جانی جانے والی بیگم اپنی بیٹی کی بدصورتی کے اس بھونڈے مظاہرے کی تاب نہ لا سکیں اور انہوں نے حکم دے د یا کہ مہر کو ہمیشہ ہمیشہ انکی نظروں سے دور رکھا جائے۔
مہر اب اکثر دالان سے ملحق راہداری کے تاریک کونے میں لیٹی پائی جانے لگی۔
کوئی اور نہ سہی ، مگرپھوپھی جان اسے ڈھونڈ لیتیں،شاہ صاحب کی اس بن بیاہی بہن رشیدہ کے دل میں ممتا کی سر پھری موجیں کہاں سے سر اٹھاتی تھیں کون جانے، لیکن وہ مہر کو شرابور کر دیتی تھیں، بن بیاہی ،بھائی اور بھابھی کے گھر پڑی تھیں اسلئے اور کچھ بس نہ چلتاتھا،بس بیگم کی نظروں سے چھپ کر وہ مہر کو اپنے سینے سے بھینچے رہتیں،اسے لوریا ں سناتیں، اسکے بال گوندھ دیتیں،اسکی نظر اتارتیں،اسکی پلکوں پر رکھے مسے کو پیار کرتیں، اپنا زیور پہنا کر اسے نہارتیں یہاں تک کہ مہر مسکرانے لگتی اور اسکی رال بہنا بند ہو جاتی۔
اسے رخصت کرتے وقت وہ اسکے گلے میں دو چار تعویذ باندھ دیتیں۔
پھر انہوں نے روئی کی ا یک گڑیا ا پنے ہاتھوں سے بنائی ، اسکے کاندھوں کو پروں سے سجا یا، اورننھی مہر کو دیتے وقت کہا ’’ تم پری ہو‘‘

’’سنا آج وہ قبرستان گئی تھی‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔پھوپھی جان نے اپنے سینے سے سر اٹھاکر پوچھا
’’ جی ۔۔جب قرآن خوانی شروع ہوئی تو اچانک غائب ہو گئی، پتہ چلا قبرستان گئی ہے ‘‘ منی آپا نے کروٹ بدل کر جواب دیا
’’ غائب ہو نا تو اس نے اپنی عمر کے تیسرے سال میں سیکھ لیا تھا ‘‘
خاموشی نے دونوں کو گھڑی بھر کی عافیت میں لیا۔۔۔
’’ وہاں گلزاری کی قبر بھی ہے‘‘ پھوپھی جان نے یاد کرتے ہوئے کہا،
’’ شاید وہیں گئی ہو،انہیں کی گود میں تو پلی تھی‘‘
’’ کب لوٹی‘‘
’’ پتہ نہیں ،مجھے تو کنویں پر ٹنگی ملی ‘‘
’’ ہاں اس کنویں میں اسکی سکھیاں رہتی ہیں، جگنو جیسی جل پریاں ۔۔۔گھنٹوں ان سے باتیں کرتی تھی‘‘
’’ میں نے تو اسے کبھی بولتے دیکھا نہ سنا، آ پ نے سنا ہے؟‘‘
’’ نہیں۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔عمر بھر گونگی رہی ‘‘
پھوپھی جان کا سر پھر سینے تک جھک گیا۔
پھوپھی جان کی پری جو اب عمر کے دسویں سال میں تھی، خاد ماؤں کے ساتھ انکی کو ٹھری میں رہتی انکے بستر میں سوتی،انکے برتنوں میں کھاتی، ان کے بچوں کے ساتھ کھیلتی اور زبان بھی انکی بولتی۔ انکی بولی ٹھولی میں گیت گاتی ،انکے بچوں کے بالوں کی طرح اسکے بالوں میں بھی جوئیں پڑ جاتیں اور ان کی طرح اسکا سر بھی مونڈ دیا جاتا۔
گنجے سر پر لپٹی کپڑے کی دھجی ،زرد چہرے کی چبھتی ہوئی اداسی اور سہمی ہوئی کشادہ آنکھوں سے جھانکتے اٹ پٹے سوا ل کوئی کہانی کہتے دکھائی پڑتے، پیڑ کے نیچے، کواڑوں کے پیچھے یا دالان کے ستون کی آڑ میں چپ چاپ ا کیلے گڑیا کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر پاس پڑوس اور محلے بستی کے لوگ رحم سے زیادہ اضطراب محسوس کرتے اور خادماؤں سے سوال کرتے پھر اسکے قصے سن کر اوروں کو سناتے،کسی کسی کا تجسس اتنا بڑھ گیا کہ وہ خلوت میں بیگم سے پوچھ بیٹھی ،
’’ بیگم صاحب ، کہیںیہ ان لونڈیوں کی اولاد تو نا ہے ؟ ۔۔اسی مارے تو آپ نے ان کے منہ پر دے ماری ‘‘ ۔ ۔۔ ’’ ہاں اس ما غلط کیا ہے، آپ کی کوکھ سے توہے نہیں جو آپ پالیں، پھر بھی ہفتا دو ہفتا آپ کی گود ما رہی۔۔۔ ہم نے دیکھا ۔۔۔’’ پرکچھ ہی کہو اسے دیکھ کلیجہ منہ کو آوے ‘‘
بیگم نے اس صبح لڑکیوں کو حکم دیا کہ آج انکی ایک ہی چوٹی باندھی جائے، جب وہ نمٹ چکیں تو انہوں نے فوراً شاہ صاحب کو طلب کیا اور دروازے بند کرکے دیر تک ان سے گفتگو کرتی رہیں، شاہ صاحب نے اسی وقت استانی کو جو اسکول کے بعد گوہر کی تعلیم کے لئے تعینات تھی بلوایا اور درخواست کی کہ وہ مہر کو اپنی شاگردی میں لے لیں۔
دوپہر میں جب استانی سے ملنے کے لئے مہر کی ڈھونڈ پڑی تو وہ جیسے آسمانوں میں غائب ہوگئی اور خود شاہ صاحب کو زحمت کرنی پڑی ، انہوں نے اسے اناج کی اندھیری کوٹھری میں دیوار کے کونے میں پیٹھ موڑے بیٹھا پایا، مہر نے شاہ صاحب کو پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا، اور دیکھتی رہی اور دیکھتے دیکھتے ، مہر کے چہرے اور جسم کے خطوط جیسے پگھلنے لگے، شاہ صاحب کو محسوس ہوا کہ اسکے ہونٹ اسکی آنکھوں پر، اور آنکھیں اسکے سینے پر چلی گئی ہیں، آنکھیں پھیلتی جا رہی ہیں، ان آنکھوں کا رنگ نیلا لال اور نارنجی ہو رہاہے، اسکے لمبے بال ہوا میں اوپرا ٹھ رہے ہیں، اسکی پیٹھ پر پھیل رہے ہیں پھیلتے جا رہے ہیں، جیسے وہ بال نہیں پرہیں اور مہر انسان نہیں کسی نا معلوم دنیا کی نا معلوم مخلوق ہے،شاہ صاحب دو قدم پیچھے ہٹ گئے مگر اس پر سے نظریں ہٹا نہ سکے، اور دھیرے دھیرے انکے دیکھتے دیکھتے مہر پھر مہر جیسی ہو گئی، شاہ صاحب نے اسے گود میں اٹھا لیا، وہ انہیں ایک ٹک دیکھتی رہی پھر آہستہ سے اپنا ننھا ہاتھ بڑھایا اور انکے چہرے پر بکھرے مسوں کو دھیرے دھیرے سہلانے لگی ۔
شاہصاحب گھر پہونچے تو دالان میں انکا خاندانی نائی استرا لئے بیٹھا تھا، بیگم پردے کی آڑ میں کھڑی تھیں، خادمہ نے لپک کر مہر کو اپنی گود میں جکڑا اور نائی کے پاس لیکر بیٹھ گئی، مہر نے بے ساختہ اپنی ننھی بانہیں شاہ صاحب کی طرف پھیلائیں،شاہ صاحب نے منہ پھیر لیا اور نائی نے سرعت سے اسکی بھنووں کے اوپر اگا ہوامسہ استرے سے کاٹ ڈالا۔
سوتی ہوئی مہرگھٹی ہو ئی چیخ کے ساتھ اٹھ بیٹھی،اس پر نزع طاری تھا، سینہ دھونکنی جیسا اچھل رہا تھا،سانس بھرنے کی کوشش کی تو سینہ خر خر بولنے لگا، پسلیاں چٹخنے لگیں، آنکھیں بہنے لگیں نزع طاری ہونے لگا، اس نے دوسرے پلنگ پر بے خبر سوتی ہوئی گوہر کو پکارنا چاہا مگر آواز دم توڑ گئی ،وہ پلنگ سے اتری اور میز کی دراز سے ان ہیلر نکالا اور اپنے پھیپھڑوں میں سانسیں بھرنے لگی۔
’’ گھڑی دو گھڑی رات بچی ہے‘‘ اس نے کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا اور سانسیں جمع کرنے میں لگی رہی۔

زخمی بھنووں پر پٹی لپیٹے مہر ،خادمہ گلزاری کی گود میں دبکی پڑی رہی، نائی مرہم لایا مگر مہر کی پٹی کھولنے کی ہمت گلزاری میں کہاں تھی،تین دن گذر گئے ، اور تین دن بعدایک صبح جب بیگم جاگیں تو انکے ہوش اڑ گئے، انکے جسم پر مرگی کی سی کیفیت طاری ہو گئی، صدمے سے لرزتی انکی چیخوں سے کوٹھی کی دیواریں تھر تھرا اٹھیں، گھر کے سبھی افراد دوڑتے آئے اور دیکھا کہ انکے ایڑی تک پہونچتے دراز بالوں کی چوٹی نصف سے اوپر کٹی ہو ئی تھی،اور بقیہ نصف سے کم ، فرش پر پڑی تھی۔
استرا مہر کے کپڑوں میں پایا گیا ۔
بیگم نے اسے گھسیٹ کر مکان کی پشت پر بنی اجاڑ تاریک کوٹھری میں بند کر دیا،یہ کوٹھری کبھی باورچی خانہ تھی،دھویں کی چمنیاں اسمیں اب بھی موجود تھیں، دیواریں اور چھت سیاہ تھیں ، دھویں کے مرغولوں نے جگہ جگہ دیواروں پر ہیبت ناک نشان کاڑھ رکھے تھے ، کھڑکی ایک نہ تھی اورچھت کی کالی کڑیا ں نیچے کی طرف جھول گئی تھیں اور فضا میں موت جیسی فرسودہ بو بسی ہوئی تھی ، مہر نے پورا ایک دن اور ایک رات مکمل خاموشی سے وہاں گذارا اور دوسری صبح بے ہوش پائی گئی۔
اس دن کے بعد مہرکبھی سانس نہیں لے سکی،اس کے پھیپھڑوں میں دھواں بھرا رہتا، راکھ جمع رہتی، سینے میں خر خراتی آوازیں گھٹی رہتیں،سانس لینے کی کوشش میں اسکا جسم پچھاڑیں کھاتا،درد سے پسلیاں ٹوٹنے لگتیں، آنکھیں پھیل جاتیں زبان لٹکنے لگتی ، جلد پر زردی برسنے لگتی اور وہ بیدم ہو کر گر پڑتی۔
پھر ایک دن اسکے لئے ان ہیلر منگوالیا گیا۔

بچپن کی عمر اب مہر کو لڑکپن کے ہاتھوں سونپ کر رخصت ہو رہی تھی،وہ استانی کے پاس کبھی نہ بیٹھی ، مگردالان کے ستون کے پیچھے چھپ کر سنتے ہوئے اس نے سارے سبق گوہر سے بہتر یاد کر لئے، وہ خاموشی سے سنتی ،دیکھتی ،لکھتی اور استانی کے دستخط لیکر چلی جاتی،بہت جلد وہ گوہر سے آگے نکل گئی لیکن جشن بیگم نے گوہر کی کامیابی کا منایا، اسکو ل کی استانیوں سمیت مہر کی استانی بھی جشن میں شریک ہوئیں،اور مہمانوں کو مہر کی غیر معمولی ذہانت کے قصے سناتی رہیں ،مگر پھول اورتحفے سب نے گوہر کو دئے،شاہ صاحب شہر جا کر خود گوہر کے لئے کہانیوں کی کتابوں کا مکمل سیٹ لے کر آئے۔
دوسرے دن گلزاری کے منہ سے کتابوں کی بات سنتے ہوئے مہر کی آنکھوں میں ایک اجنبی سی چمک آ گئی ، گلزاری نے یہ چمک پہلے کبھی نہ دیکھی تھی، انہوں نے پھوپھی جان سے ذکر کیا اور پھوپھی جان نے کسی طرح کہانی کی ایک کتاب مہر کو بھجوادی، اس چوری کا پتہ چلنے پر ؒ ٓؒ ُ ٰؒ ٰ صڑگوہر دندناتی
گوہر شور مچاتی ،چلاتی ،دندناتی شاہ صا حب کی بیٹھک میں گھس گئی، ، شاہ صاحب نے فورا اسے گو د میں بھر ا اور اندر آئے، پھوپھی جان نے یہ ہنگامہ سنا اور کواڑ بند کر لئے، بیگم نے تیز آنکھوں سے شاہ صاحب کو گھورا، وہ پلٹے او ر الٹے پاؤں گلزاری کی کوٹھری میں جا دھمکے، مہر نے کتاب سے نظریں اٹھا کردونوں کو دیکھا اور کتاب چھپادی، گوہر گود سے اچھل کر اتری ، دوڑ کر مہر کے پاس پہونچی اور بے دردی سے اسکا ہاتھ مروڑ کر کتاب جھپٹ لی۔
ٹھیک اس لمحے مہر پگھلنے لگی، گوہر نے دیکھا اسکے جسم اور چہرے کے خطوط آپس میں گڈ مڈ ہو رہے ہیں ،اسکی آنکھیں اسکے ماتھے پر چڑھ کرپھیلنے لگی ہیں، اسکے ہونٹ اسکیّ آنکھوں پر پھڑکنے لگے، اس کا سینہ چاک ہو گیا ، سیاہ گاڑھا دھواں اگلنے لگا، اسکی پسلیاں ننگی ہو گئیں ،اسکا دل جسکا رنگ پیلا تھا اندر سے جھانکنے لگا، اسکے گلے میں پڑے تعویز کھل گئے اور ان کے اندر موجود قرآنی آیتیں باہر نکل کر ہوا میں ناچنے لگیں ۔۔۔ دہشت زدہ گوہر چیختے ہوئے شاہ صاحب سے لپٹ گئی ،انہوں نے اسے گود میں بھرا اور دو ڑتے ہوئے باہر نکل گئے۔

دوسری شام مہر کے اوپر سوار جنات کو قابو میں کرنے کے لئے ولی شاہ کی درگاہ سے کسی عالم کو بلوایا گیا، خادماؤں کی مدد سے مہر کو رسیوں سے باندھ کر عالم کے سامنے بٹھا دیا گیا، انہوں نے جوں ہی عمل شروع کیا مہر لاتیں چلانے لگی، عالم صاحب عمل کرتے گئے اور مہر پر پانی کی چھینٹیں ڈالتے گئے ،مہر لاتیں چلاتی گئی،اسکے پیر رسی سے آزاد ہو گئے، عالم کے سامنے رکھے پانی کے برتن الٹ گئے،مہر کے بال کھل کر اسکے چہرے پر بکھر گئے ، عالم کی آواز اونچی ہوتی گئی ، مہر خاموشی سے لاتیں چلاتی رہی، اور پھر اچانک وہ ہوا میں اچھلی اور غش کھا کر گر پڑی عالم نے فیصلہ سنایا کہ مہر کو ولی شاہ صاحب کی درگاہ پر چالیس دن تک حاضر ی دینی پڑیگی ۔
شاہ صاحب نے یہ تجویز مسترد کر دی کہ اسمیں بدنامی کا خطرہ تھا، مگر انکی لا علمی میں کسی نہ کسی بہانے، مہر کو برقع پہنا کر درگاہ پر لے جایا جانے لگا، مہر پر قابو پانا آسان نہ تھا، ، تب خالہ جان کے سجھانے پر افیم کے خشک پھول رات بھر پانی میں بھگوئے جانے لگے ،وہ پانی کسی بہانے مہر کو پلا یا جا نے لگا اور وہ نیم بے ہوشی اورغنودگی کے عالم میں درگاہ پہونچا ئی جانے لگی۔
رفتہ رفتہ مہر نے خادماؤں کے بچوں کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیا ، وہ اکثر سوتی رہتی، کتاب اسکے سامنے کھلی رہتی مگر اسے کچھ یاد نہ ہوتا، خالی خالی آنکھوں سے خلاء میں تکتی رہتی، بھوک تقریبا ختم ہوگئی ، وہ کمزور ہوتی گئی،تہوار آتے چلے جاتے، گوہر کی سالگرہ کی دعوت ہوتی،اس کے امتحان پاس کرنے پر جشن منایا جاتا مگر مہر پر سکوت طاری رہتا، جیسے وہ موجود نہیں ہے،جیسے وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتی ہے۔
مگرمہر موجود تھی اور نو خیز جوانی ،تمام حشر سمانیوں کے ساتھ اسکے جسم و دل پر دستک دے رہی تھی۔

اچانک دور کہیں خوابوں کی سرحدسے آتی ریل کی تیز سیٹی کی گونج ، رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی ابھری اوردور کہیں گم ہوتی چلی گئی، مہر چونک کر اٹھ بیٹھی ، ریل کی سیٹی پھریوں گونجی، مانووہ دور درازدنیا ؤں کے سفر پر رواں ہو ں اور گزری ہوئی منزلوں کی الم ناک داستان سنارہی ہو، مہر پلنگ سے اتری اوردبے قدموں سے چھت پر چلی آئی، باہرہوا خنک تھی چاندروشن تھا اور رات پر خمار طاری تھا۔
چھت کی منڈیر سے ٹک کراس نے نظر یں اٹھائیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ٹھیک سامنے تھا۔
ماضی کی دھند لپیٹے خاموش کھڑا تھا، شکستہ ، لاچار اور اجاڑ۔۔۔چاند کی روشنی اسکی خستہ حا لی کوعیاں کر رہی تھی، مہر کے سینے میں ہوک سی اٹھی اس نے نظریں پھیر لیں،اور زینے کی طرف بڑھ گئی،پھر رک کر دوبارہ اس مکان کو دیکھنے لگی۔۔۔ ’’ میری روح اس اجڑے ہوئے مکان میں بھٹکتی ہے ، جب کہ میرا جسم زندہ ہے‘‘ اس نے سوچا۔۔ ’’ شاید میں وہ لمحہ دوبارہ جینا چاہتی ہوں ، وہ پل بھر کی جنت، جو پل بھر بعد گم ہوگئی‘‘۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ’’لیکن گمشدہ جنتیں نہیں ملتیں اور ہم انکی تلاش میں بھٹکتے ہیں ‘‘
دیکھتے دیکھتے وہ مکان بیٹھنے لگا، زمین میں سمانے لگا۔۔ہوا ؤ ں میں گھلنے لگا۔۔ غبار کا گھنا بادل بن گیا۔ ۔پھروہ بادل چھٹنے لگا۔ ۔دھوپ طلوع ہو گئی۔۔اور مہر نے دیکھا کہ مکان کے صحن میں جوہی اور گلاب کی کیاریا ں ہیں اور ایک دراز قد ،شفیق آنکھوں، شرمیلی مسکراہٹ اور چوڑے کندھوں والاشخص انکی آبیاری کر رہا ہے، باورچی خانہ مہک رہا ہے، حوض میں سنہری مچھلیاں تیر رہی ہیں، کواڑوں، راہداریوں، دالانوں اور دروازوں پر نئی نویلی دھوپ رقصاں ہے ، لڑکیوں کی شوخ ہنسی تھرک رہی ہے اور تین نو عمر لڑکیا ں دوپٹے بدل رہی ہیں۔
یہ حیات خان کا مکان ہے۔
حیات خان ،شاہ صاحب کے پڑوسی اور دوست تھے، وہ مقامی کالج میں مدرس تھے، بیوی کے بے وقت انتقال کے بعد ان کا زیادہ وقت اپنی دو بیٹیوں افشاں اور عفت کی پرورش اور تربیت میں گذرتا تھا،خطاطی ان کا مرغوب مشغلہ تھا اورتنہا ئی کاٹنے کا بہانہ بھی۔
اپنی استانی سے مہر کی غیر معمولی ذہانت کے بارے میں سن سن کر عفت اور افشاں کو ا سمیں دلچسپی پیدا ہوگئی ،وہ اکثر اسے اپنی چھت سے دیکھتیں اور دوستی کے پیغام بھیجتیں جو مہر کے لئے کوئی معنی نہ پیدا کر پاتے،مگر پھر دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ مہر اپنی چھت سے انکی طرف دیکھنے لگی۔
اور ایک دن اس نے دیکھا کہ حیات خان صحن میں ایزل پر کینوس سجائے انگلیوں میں برش پکڑے ،سیاہی سے کچھ کاڑھتے ہیں جو انکی انگلیوں کی جنبش سے دیدہ زیب پیکرمیں تبدیل ہو جاتا ہے، مہر دیکھتی رہ گئی۔
پہلی بارپھوپھی جان اسے اپنے ساتھ حیات خان کے گھر لے گئیں، پہلی بار مہر درگاہ کی بجائے کسی گھر میں گئی جہاں کا شادا ں، فرحاں اور دوستانہ ماحول اسکے اندر جمی برف کو پگھلنے پر مجبور کرنے لگا، جہاں اسکی پہلی پہلی سہیلیاں تھیں ، پہلی پہلی دنیا تھی جو ملائم تھی، زندہ تھی،گرم تھی۔
وہ صحن تھا جس میں حیات خان ایزل پر لگے کینوس پر ا پنی صناعی کے نمونے کاڑھتے اور دم بخود کھڑی مہر کا دل ا نکی انگلیو ں کی جنبش کے ساتھ ہولے ہولے رقص کرتا، تازہ تازہ رنگ کینوس سے اتر کر اسکے اندر ون میں پہونچ جاتے اور وہا ں صدیوں سے بسے سرد ،سیاہ بے جان ا ندھیروں پر پھرنے لگتے۔
پھوپھی جان نے اسکی بدلتی کیفیت کا حال اسکی آنکھوں سے پڑھ لیا ، اور ڈر گئیں، انکے اندرون میں ایک موہوم اندیشے نے سر اٹھایا، وہ جانتی تھیں کہ یہ مقنا طیسی کشش جو مہر کو عمر رسیدہ حیات خان کی طرف کھینچے لئے جاتی ہے دراصل اسکے باپ کی محبت اور شفقت اور احسا س تحفظ کی محرومیوں نے پیدا کی ہے ، وہ جانتی تھیں کہ اسکا انجام درد ناک ہو سکتا ہے لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھیں، مہر اپنی عمر میں پہلی بار زندگی کے حسن کی جلوہ ریزی انگیز کر رہی تھی ۔
مہر نے رنگ دریافت کر لئے اور خطاطی کی مشق کرنے لگی، وہ خوشخط تھی، تخیل زرخیز تھا، سینت کر رکھی امنگیں نو خیز تھیں ، سارا حسن کینوس پر بکھرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔مہر مسکرانے لگی۔
پھر ایک شام پھوپھی جان گلزاری کی کوٹھری میں آئیں، کینوس ایزل پر تھا، پھوپھی جان نے کپڑا ہٹا کر دیکھا او ر دیکھ کر آنکھیں موند لیں، نہایت خوشخط لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ’’ اللہ حسین ہے اور حسن کو پسند کرتا ہے‘‘

اچانک کہیں دور کوئی پرندہ بولا مانو اپنے محبوب کو پکارتا ہو،جوہی کی بیل ہولے سے کانپی، صحن میں اگے پیڑ سرسرائے اور حوض میں ساکن پڑی مچھلیاں مضطرب ہوگئیں، مہر نے اپنے دونوں بازو اپنے سینے کے گرد لپیٹ لئے مانو اس میں چھپے دفینے کو محفوظ رکھنا چاہتی ہو، پھر وہ اٹھی اور دبے قدموں سے زینہ اترنے لگی۔
صحن میں پہونچ کر وہ چبوترے پر بیٹھ گئی، کوٹھی پر پر اسرار سا سکوت چھا یا ہوا تھا، سرمئی سی چاندنی میں لپٹی دیواریں فرش اور دروازے محو خواب تھے ، مہر دیکھتی رہی ، اسے محسوس ہوا جیسے فرش ہولے سے کسمسا یا ا ور دیواریں نوحہ زن ہوگئیں،
’’ یہاں گڑے ہو ئے گناہ ، ظلم ، غم اور نوحے آج بھی ماتم کناں ہیں ؟ ‘‘ اس نے سوچا اور انہیں سننے لگی۔

ایک شام مہر بخار کی تپش سے بہت بے چین تھی، گلزاری نے نے سونے سے پہلے اسے دوا دیدی تھی لیکن مہر کو کسی پل قرار نہ تھا، اسی مضطرب حالت میں، جب رات جوان ہو رہی تھی ،وہ اٹھی ،خاموشی سے گھر سے نکلی ، حیات خان کے گھر کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوئی اور انکے سامنے بیٹھ گئی، چند قدموں کا یہ سفر اس نے یوں طے کیاگویا صدیوں سے خواب میں چل رہی ہو، حیات خان کے مکان پر مکمل خاموشی طاری تھی،وہ کمرے میں اکیلے بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے، انہوں نے اسے دیکھا اور نہ جانے کیا دیکھا کہ د یکھتے رہے پھر دھیرے سے اپناہاتھ بڑھایا اور اسکے سینے کے کمسن ابھار پر رکھ دیا، مہر کی سانسیں تیز ہو گئیں ہو نٹ کانپے، جسم تمتمانے لگا اور آنکھیں مندنے لگیں، حیات خان نے اپنا ہاتھ ہٹانا چاہا مگر مہر نے ا نکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھدیا۔۔۔۔ اگلے ہی پل دروازہ کھلا اور شاہ صاحب نمودار ہوئے۔
اس گھڑی آسمان اور زمین کی گردش شق ہوئی اور قیامت برپا ہو گئی۔
مہر کی عمر اس وقت پندرہ سال تھی۔
کسی نے مہر سے کوئی سوال پوچھانہ حیات خان سے، شاہ صاحب بیٹی کو گھر لائے اورا سکے پیروں میں بیڑیاں پہنا کر اسے اسی کال کوٹھری میں بند کر دیا جو کبھی باورچی خانہ تھی اور خود بستر سے جا لگے، عیادت کو آئے عزیز رشتہ داروں کو یہ باور کرا دیا گیا کہ مہر پر مسلط جنوں سے نجات حاصل کرنے کا یہ نسخہ، درگاہ کے سجادہ نشین کے خواب میں آکر خود ولی شاہ نے دیا ہے۔
پھر وہ زمانہ گذرا جب راتوں کی مہیب خاموشی میں کال کوٹھری کی دیواریں رسوائی ، گناہ، عذاب اور شکستہ خاندانی وقار کے نوحے سن سن کر لرزتیں، مہر کے ناپاک وجود پر برستی لعنتوں اور گالیوں سے تھراتیں،اسکے پیروں میں پڑی بیڑیوں کی آواز سے جھنجھناتیں، مہر کی درد ناک کراہوں کے ساتھ ساتھ چیختیں۔۔
سننے والے سنتے سنتے بہرے ہوتے گئے کہ انہیں راتوں میں سے ایک رات چیختے چیختے مہر کے جسم پر تشنج طاری ہو گیا، اس نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اپنی چھاتیوں کو نوچ ڈالا۔
اسکے بعدساری آوازیں بند ہو گئیں، بیگم ، خالہ جان اور ممانی جان سبکدوش ہو گئیں۔
برس بیتے ،مہر کی جوانی شباب کی دہلیز پر آئی او ر ٹھٹھر گئی ، اس عرصے میں اس نے خادمہ کے علاوہ کسی کا منہ نہ دیکھا۔
شاہ صاحب کے انتقال پر اسے کو ٹھری سے نکالا گیا، جب جنازہ اٹھا تو اس نے کھڑا ہونا چاہا مگروہ دونوں پیروں سے معذور ہو چکی تھی۔
ماموں جان اسے اپنے ساتھ دلی لے گئے اور اسپتال میں داخل کر دیا۔
بیگم نے امید کا دامن پھیلا کر صدق دل سے بیٹی کی موت کی دعائیں مانگیں کہ موت اکثر گناہ کی ذلت کو ڈھانپ دیتی ہے ۔

چاند نے بادل میں پناہ لی اور اندھیرا گھنا ہو گیا مہر اٹھی اور آ ہستہ قدموں سے چلتے ہوئے بڑے کمرے میں پہونچی جو کسی زمانے میں شاہ صاحب اور بیگم کا کمرہ تھا لیکن اب وہاں پھو پھی جان سو رہی تھیں، وہ انکے سرہانے کھڑی غور سے انکے چہرے کو دیکھتی رہی، ایکدم اسکے سینے کے اندر کو ئی نرم سی گیلی گیلی شے بہنے لگی ، وہ پلٹی اور تیزی سے باہر نکل آئی۔
اندھیرا اندھیرے میں گھل رہا تھا، صرف باورچی خانے میں مدھم سی لال ٹین جل رہی تھی، مہر نے لال ٹین اٹھا ئی اور مکان کے پچھلے حصے میں بنی کوٹھری کی طرف چل پڑی۔
دروازے کی کنڈی کھول کر اس نے جیسے ہی اندر قدم رکھااس کے سینے میں بہتی اسی نرم سی گیلی شے نے ایک جھٹکے سے کروٹ بدلی اور اسکے حلق میں آ بیٹھی، مہرفوراً فرش پر بیٹھ گئی اوردھیمے دھیمے، گہرے سانس لینے لگی،جیسے کسی کو سلانے کی کوشش کر رہی ہو، چند لمحوں بعد اس نے سر اٹھا یا ، کھڑی ہوئی اور دروازہ بند کر لیا۔
کچھ دیر بعد سر ا سیمہ سی گوہر دروازے پر کان لگائے کھڑی تھی، پھر اس نے آہستہ سے دروازے کا ایک پٹ کھولا اور اندر چلی گئی، اندرلالٹین کی مدھم زرد روشنی میں کو ٹھری کے فرش پر ساکت و جامد بیٹھی مہر پر اسرار لگ رہی تھی ، سیاہ دیوار وں پر کھرچی ہوئی مبہم سی لکیریں ، ہیبت نال شکلیں ، چھت کی جھولتی کڑیاں اور روشندان سے چھنتی ہوئی چاندنی ۔۔۔ سب کسی طلسمی دنیا جیسا پر کشش پر اسراراور خوفناک محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
گوہر بے آواز قدموں سے چل کر مہر کے پاس بیٹھ گئی، مہر کی انگلیوں پر کوئی کپڑا لپٹا ہوا تھا ،اسکی آنکھیں بند تھیں،جیسے وہ مراقبے میں ہو،گوہر ایک ٹک اس کو دیکھتی رہی۔۔۔ اس گھڑی مہر دنیا کی حسین ترین لڑکی تھی۔
مہر نے آنکھیں کھولیں اور مسکرائی، گوہر نے دھیرے سے اسکی انگلیوں سے لپٹا ہوا کپڑا چھوا۔۔۔۔
’’ یہ شاید وہی۔۔۔۔کرتا ہے ناجو اس رات۔۔۔‘‘
’’ ہاں وہی۔۔۔‘‘
’’ اور یہ وہی ڈراؤنی کوٹھری ۔۔۔۔‘‘
’’ وہی۔۔۔‘‘
’’ لیکن مہر تم یہ۔۔ تم ایسا کیوں کر رہی ہو۔۔۔ ان تمام جگہوں کی یادیں۔۔۔ یہ اذیت ناک ہے مہر ۔۔‘‘
’’ ہاں۔۔۔ ہے تو۔۔مگریہ اذیت میرے فن کو جلا بخشتی ہے، مجھے مظطرب رکھتی ہے ،میں ا سے زندہ رکھنا چاہتی ہوں‘‘
گوہر کی آنکھوں میں حیرت اور عقیدت ایکساتھ تیری۔۔۔۔کچھ خاموش پل گذرے۔۔
’’ لیکن اگر دورہ پڑ جاتا ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ وہ دورے اب میرے سفر کا حصہ ہیں گوہر ‘‘ مہر بدستور مسکراتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا تمہارے جسم پر ان۔۔۔بیڑیوں کے نشان اب بھی ہیں‘‘
’’ ہاں ‘‘
۔۔۔۔۔گوہر پلکیں جھپکا جھپکا کر دیکھتی رہی
’’ایک میں ہوں کہ اپنے شوہر کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتی ، اسکی بیوی ہونے کے علاوہ میری کوئی شناخت نہیں اور تم ہو کہ۔۔۔۔!!‘‘
مہر پھرمسکرا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ مہر۔۔۔۔ایک سوال میرے اندر واویلہ مچاتا رہتا ہے۔۔پوچھ لوں ۔۔۔ جب۔۔۔۔جس وقت۔۔۔۔میرا مطلب ہے جب انہوں نے۔۔ اس حیات خان نے وہ حرکت کی تھی تو تم چلائی کیوں نہیں، بھاگی کیوں نہیں، ان کو کاٹ کیوں نہیں کھایا۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔؟‘‘
مہر نے کچھ پل توقف کیا پھر رسان لہجے میں بولی ’’ انہوں نے اپنا ہاتھ ہٹانا چاہا تھا مگر میں نے روک دیا تھا‘‘
گوہر کا منہ مارے حیرت کے کھل گیا ۔
’’ وہ لمحہ میرے اختیار میں نہیں تھا گوہر۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ مہر۔۔۔۔ایک بات بتاؤگی۔۔۔۔۔کیا تمہارے دل میں مرد کے پیار کی آرزو جاگتی ہے کبھی ‘‘
’’ پیار ۔۔۔ بے حد پرکشش ہے گوہر ۔۔ آسانی سے مجھے ورغلا لیتا ہے، لیکن پھر۔۔ وہ تلوار بن کر میرے سر پر لٹک جاتا ہے، خوف بن کر مجھے ڈراتا ہے کہ بچھڑ جائیگا،۔۔چھین لیگا۔۔ چھن جا یئگا۔۔۔۔ نہیں گوہر۔۔۔۔ پیار یا اعتبار میرے لئے مکمل اجنبی ہے وہ مجھ سے دوستی نہیں کرتا ‘‘
دونوں بہنیں چپ ہو گئیں ،
’’ مگردل کے اندر بن موسم بارش لگی رہتی ہے، تنہائی جاں بلب کئے رہتی ہے ......اعتبار روٹھا رہتا ہے اور جسم زندہ رہتاہے ‘‘
گوہر نے تڑپ کر اپنی بانہیں پھیلائیں اور مہر کو اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کی نئی نویلی کرنوں نے آسمان کے کناروں پر سنہرا رنگ بکھیر کر نئے دن کی آمد کا سندیسہ دیا، تازہ دم شفیق نرم دھوپ نے بیتی ہو ئی رات کی تاریکی کے سارے نشان نگل لئے ۔
مہر پھوپھی جان کے پاس بیٹھی تھی، کمرے کی دیوار پر اسکا پہلا کینوس سجا تھا اور انکے سامنے زیورات کا ڈبہ رکھا تھا۔
’’ اب کہاں جاؤگی‘‘
’’ اسپین‘‘
’’ سنا، تم اپنے فن کے قدر دان کو اپنی تخلیق مفت دے دیتی ہو۔۔۔‘‘ مہر مسکرا دی۔
پھو پھی جان نے زیور کا ڈبہ کھولا ،مہر انہیں دیکھنے لگی،
’’ مرنے والوں کی آ خری خواہش ٹھکر ایا نہیں کرتے بیٹی ‘‘
’’ کیا زندہ کی ٹھکر ا سکتے ہیں ؟ ‘‘ مہر نے رسانیت سے پوچھا
پھوپھی جان لا جواب ہو گئیں۔ مہر نے ڈبہ اٹھا یا ، بند کیا اور گوہر کے ہاتھ میں تھما دیا،
’’ تم میری جڑواں بہن ہو گوہر ‘‘
’’ لیکن امی نے یہ تمہیں دئے تھے مہر۔۔۔ اور تمہیں ضرورت بھی ہے ‘‘
’’ تم کیا جانو میں کتنی امیر ہوں۔۔۔‘‘
ماموں جان نے آگے بڑھ کر مہر کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور بولے،
’’ جمیلہ تمہیں اپنے حصے کا کچھ دینا چاہتی تھی بیٹی ‘‘
’’ امی نے جو دیا ، اسکا مول کسی خزانے کے پاس نہیں ہے ماموں جان، میری ہر کامیابی انکی مرہون منت ہے ‘‘
ماموں جان خاموش رہے۔
مہر نے باری باری سب کو گلے لگایا اور ان سے رخصت طلب کی۔
مامون جان، ،منی ، آپا، ممانی جان، خادمائیں، حتی کہ خالہ جان نے بھی اسے رخصت کرتے وقت وہی اظطراب محسوس کیا جس اظطراب میں وہ اپنے بچپن میں سب کو مبتلا کر دیا کرتی تھی ۔
سائیکل رکشہ کی آواز سن کر مہر نے سب کو سلام کیا اور باہر کی طرف چل پڑی، گوہر جو مشکل سے اپنے آنسو روکے ہو ئے تھی اسکے پیچھے دوڑی،
’’ مہر۔۔امی مرتے وقت بہت شرمندہ تھیں ‘‘
مہر خامو ش رہی،
’’ تم نے امی کو معاف نہیں کیا۔۔۔۔۔‘‘
’’ تو برسی میں نہ آتی‘‘
’’پھر کیوں۔۔۔تم کیوں نہیں لینا چاہتی وہ زیور‘‘
’’لے لیتی تو میرے پر کٹ جاتے گوہر، ۔۔ ایک یہی تو دولت ہے میرے پاس۔۔۔تم بھول گئیں۔۔۔۔پری ہوں میں۔۔۔۔‘‘
رکشا آگے بڑھ گیا۔
گوہر لاجواب دیکھتی رہ گئی۔ ختم شد


آرٹسٹ

گل مہر روڈ با رش میں بھیگ رہا ہے۔
روڈ کے دونوں طرف بنی فلک بوس عمارتوں میں بسے لوگ اپنی اپنی بالکنیوں میں کھڑے، موسم کالطف لے رہے ہیں لیکن ان عمارتوں کے سامنے بچھی فٹ پاتھ کے کنارے اورکونوں کھدروں میں بسی مختصر سی دوکانوں کے اندر بیٹھے موچی،دھوبی، پنواڑی اور کباڑی بارش کی اس سازش سے خاصے پریشان نظر آتے ہیں۔
گل مہر روڈ کی یہ عمارتیں ،یہاں سو سال سے بسی ہوئی خستہ حال بلڈنگوں کو مسمار کر دینے کے بعد وجود میں آئی ہیں ، ان بلڈنگوں میں آباد نچلے اور درمیانی طبقے کے باسیوں کے یہاں سے ہجرت کر جانے کے بعد، گل مہر روڈ تعلیم یافتہ، ا میر، ما ڈرن اور مصروف لوگوں کی شناخت بن گیا ہے۔
یہ روڈ کچھ فرلانگ آگے جا کر بائیں طرف مڑ جاتا ہے، اور صرف چند قدم کے بعد ایک شکستہ سڑک میں تبدیل ہو جاتا ہے ، جس کے کنارے، سبزی فروش ، مچھلی فروش، قصائی، نائی، بھکاری اور مزدور آباد ہیں ، میڈیکل اسٹور ، موٹر گیراج، ڈیری فارم ، ڈسپنسری ، موبائیل رچارج اسٹال اور خورد و نوش کے سامان کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کے علاوہ یہاں شیوسینا کی ایک شاکھا بھی ہے۔
گل مہر روڈ اور اس بستی کے ٹھیک بیچو بیچ ایک کونے میں مختصر سی مسجد اور اسکے ٹھیک سامنے سائیں بابا کا مندر ہے ۔
کچے پکے مکانوں، ٹیڑھی میڑھی بلڈنگوں اور دم توڑتی چا لیوں والی یہ بستی جس کا نام سائیں بابا گلی ہے، ان دنوں بلڈرز کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے جہاں خستہ حال گھروں کو مسمار کردینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
محض چند فرلانگ کے فاصلے سے، ایک دوسرے کے پڑو س سے گزرتی ان دونوں سڑکوں کے کناروں پر بسی ہوئی زندگیاں ایک دوسرے سے بظاہر مختلف نظر آتی ہیں۔
یہ اتوار کا دن ہے،بارش کے مدھم شور میں ڈوبا گل مہر روڈ سنسان ہے۔
لوگ محو نظارہ ہیں۔
اچانک ایک بڑا سا ٹرک گرجتا ہوا داخل ہوا او رمشتاق کباڑی کی دوکان کے سامنے رک گیا، مشتاق کے ملازم لڑکے ٹرک سے اچھل کر اترے اور چستی سے ٹرک کے اندر رکھا ہواسامان اتار کر دوکان کے اندر پہنچانے لگے،کچھ دیر بعد مشتاق اترا لیکن وہ دوکان میں جانے کی بجائے بارش میں بھیگتا ہوا سڑک پر کھڑا رہا، سارا سامان اتر چکا وہ تب بھی نہ ہٹا ۔
کچھ وقفے کے بعد ٹرک سے ایک نو جوان بھیگی ہوئی لڑکی برآمد ہوئی ۔
عمارتوں کی بالکنیوں پر کھڑے لوگ جن میں عرفان اور ورما بھی شامل ہیں، فورا اپنی اپنی بالکنیوں میں جھک گئے،لڑکی بارش کی چلمن کے پیچھے سے صاف دکھائی نہیں دے رہی تھی، اس کا چہرہ دوپٹے میں چھپا ہوا تھا، اور اس نے اپنی دونوں بانہوں میں خود کو سمیٹ رکھا تھا،مشتاق نے لڑکی کو چادر کی اوٹ دی اور اسے دوکان کے اندر لے کر چلاگیا۔ ورما اور عرفان ایکدوسرے کی جانب دیکھ معنی خیز انداز میں مسکرائے۔
مشتاق گل مہر روڈ کا بے حدمقبول کباڑی ہے،اس کی عمر پینتالیس کے لگ بھگ ہوگی ،وہ اچھا خاصا خوش شکل ، چست اور چاق و چوبند آدمی ہے، اپنے بیوی بچوں کو بھوپال کے نواح میں چھوڑ کر روزی کمانے دس سال پہلے ممبئی آیا تھا اور سالوں کی محنت و مشقت کے بعد وہ نہ صرف کباڑ کا دھندہ جما نے میں کامیاب ہو گیا ہے بلکہ اس نے سائیں بابا گلی میں ایک چھو ٹی سی کھولی کے ایڈریس پر اپنا راشن کارڈ بھی بنوا لیا ۔
گل مہر روڈ کے کے کونے میں دبکی، مشتاق کباڑی کی دوکان اس لحاظ سے بہت مشہور ہے کہ اس کے یہاں ہر طرح کا پرانا سامان کباڑ کے داموں مل جاتا ہے،ہتھوڑی ، کرسی یا کتاب سے لیکر فرج کمپؤٹر او رسی سی ٹی وی کیمرہ تک ہر چیز اسکے یہاں موجود ہو تی ہے یا وہ گاہک کے کہنے پر منگوا دیتا ہے،اسے ان چیزوں سے بے حد دلچسپی ہے جن کا وقت گذر چکا ہو ، جو اپنی قدر کھو چکی ہوں ، وہ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا ہے،
’’ میں نے تو بھائی شادی بھی پرانی عورت شے کی ہے،پرانے میں کچھ نیا ڈھونڈ نکالنا آرٹشٹ کا کام ہے بھائی، میں ایک آرٹشٹ ہوں‘‘

گزشتہ سے وابستہ، فرسودہ اور بیکار چیزوں کو وہ اپنی تجربہ کار نگاہ سے آنکتا ہے کہ کون سی چیز کس قیمت میں آ نی چاہیے ا ور کس قیمت میں جانی چاہیے ،کسے کس چیز کی ضرورت ہے ،ہو سکتی ہے یا پیدا کی جا سکتی ہے، یہ سمجھ لینے کے بعد وہ اس چیز کو اپنی دکان کے باہر بڑے اہتمام سے سجاتا ہے اور گاہک کا انتظار کرتا ہے، یا پھر صحیح وقت دیکھ کراسکو کو فون کر تا ہے،
’’ بھائی میاں ایسی چیز آئی ہے جس کی قدر نا صرف آپ کر شکتے ہیں،بس آپ کے لئے ہی آئی ہے ،ویشے تو آج کل زمانہ یوں چل رہا ہے کہ ہنش کی بجائے ،کوا موتی چگ رہا ہے، مگر ہنش تو ہنش ہوتا ہے نا ،موتی تو اسکے اوپر ہی جچے گا نا، تو کل شام آپ کی راہ دیکھتا ہوں ‘‘

سودا کرنے کے معاملے میں مشتاق کی زبان سارے گن جانتی ہے، وہ گاہک کے دل و دماغ میں دلچسپی اور تجسس پیدا کرنے میں تقریباً ہمیشہ کامیاب ہو جاتی ہے،وہ ایک ہوشیا ر سوداگر ہے،چھوٹی موٹی بے ایمانیاں جائز سمجھتا ہے اور جمعہ کی نماز کبھی قضا نہیں کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔ا سکے گاہکوں میں علاقے کے فیشن ایبل نوجوان لڑکے لڑکیوں سے لیکر گھریلو خاتون اور بزرگ عورتیں ،سنجیدہ طالب علم سے لیکر شوقین مزاج نوجوان، نو عمر بچے اور بزرگ سبھی شامل ہیں، انکے علاوہ آس پڑوس کے دکاندار اور دوسرے کباڑی بھی اسکی دکان سے اپنی پسند اور ضرورت کا سامان حا صل کر تے ہیں، مذہبی کتابوں سے لیکر فیشن میگزین تک، اسکول اور کالج کے کورس کی کتابوں سے لیکر لٹریچر، شاعری اور سیاست تک اور سائنس کی کتابوں سے لیکر پلے بوائے میگزین تک سب مشتاق کی دوکان میں میسر ہے۔
اپنے تمام گاہکوں سے مشتاق کے تعلقات بہت خوشگوار اور دوستانہ ہیں، وہ ہر گاہک کے گھر کے سارے افراد کو جانتا ہے، سب کے نام اور نمبر اسکی ڈائری میں محفوظ رہتے ہیں، ضرورت پڑنے پر وہ گاہکوں کی خرید و فروخت کے بارے میں رازداری بھی برتتا ہے،ایک بار جب مولوی حمایت علی کے بیٹے متین نے جو ابھی قرآن حفظ کر رہا تھا، پلے بوائے میگزین دیکھنے کی خواہش ظاہرکی تو مشتاق نے نہ صرف اسکی خواہش پوری کی بلکہ متین کو اپنی دکان میں جگہ بھی فراہم کر دی تاکہ وہ بنا کسی خوف کے میگزین سے لطف اندوز ہو سکے، اسی خلوص اور ایمانداری سے وہ مولوی حمایت علی کے لئے مذہبی کتابیں بھی فراہم کر دیا کرتا تھا۔
مشتاق کی سائیکی پرگل مہرروڈ کی بلند و بالا عمارتیں عجب انداز میں اثر ڈالتی تھیں، وہ سوچتا کہ اگر اسکے باپ نے اسے مدرسے میں قرآن حافظ بنانے کی بجائے اسکول بھیجا ہو تا تو وہ بھی ان عمارتوں کے باسیوں کے ساتھ رہتا اور عزت دار زندگی گزارتا، وہ مدرسہ چھوڑ کر ممبئی بھاگ آیا تھا کیونکہ اسے ٹخنوں سے اوپر تنگ موریوں والے پاجامے سے اور ہر مہینے اپنے گھونگھریالے بال منڈوانے کے جبر سے نفرت ہوگئی تھی ۔
یا اگر وہ قرآن حافظ بن جاتا تو سائیں بابا گلی کے مولوی صاحب کی طرح اسکی بھی قدر افزئی ہوتی،مگر وہ صرف ایک ذلیل کباڑی ہے جو خود کو آ رٹشٹ سمجھتا ہے۔
اب دن ڈھل رہا ہے اور شام بھیگ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشتاق کی دوکان پر سارا دن ٹاٹ کا پردہ جھولتا رہا، وہ دوکان کے چھجے کے نیچے بیٹھا سستاتا رہا اور وہ بھیگی ہوئی لڑکی دوکان کے اندر بند رہی، شام ڈھلتے ڈھلتے بارش نے راحت کی سانس لی، مشتاق اٹھا اورنکڑ والی چائے کی دوکان پر جا بیٹھا۔ چائے کے اسٹال پر استری کرنے والے چھوکرے ، پنواڑی کا بھائی، موچی کا بیٹا اور دوچوکیدار بھی جمع تھے اور مشتاق کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے مگر مشتاق اطمینان سے چائے پیتا رہا، چائے ختم کر کے اس نے سب کی طرف دیکھا اور کہا ، ’’ جاؤ بھائی لوگ اپنا کام کرو ، وہ میری سگے والی ہے ‘‘
’’سگے والی ہے تو اپنی کھولی پر لے جاؤ نا مشتاق بھائی ‘‘ پنواڑ ی نے ہنس کر کہا، دوسروں نے کھل کر ٹہاکا لگایا، مشتاق مسکراتا رہا پھر رسانیت سے بولا ’’ گھر والی گھر میں ہو تی تو لے جاتا،۔۔۔چلو اپنے اپنے دھندے پر لگو۔۔۔جاؤ‘ ‘
لڑکے کھسیا کر ہنسنے لگے، مشتاق نے چائے والے کو چائے بسکٹ کا آرڈر دیا اور مسکراتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
دوکان کے پاس پہونچ کر اس نے آہستہ سے پردہ ہٹایا، وہ لڑکی اپنی پوٹلی سینے سے بھینچے ،بیٹھی ،دھیرے دھیرے رو رہی تھی،مشتاق نے تردد کے ساتھ پوچھا،’’ کیا بھوک لگی ہے‘‘ لڑکی چپ چاپ روتی رہی، اسی وقت چائے والا داخل ہوا، مشتاق نے اسکے ہاتھ سے چائے بسکٹ لئے اور لڑکی کے سامنے رکھ دئے، لڑکی نے منہ پھیر لیا، مشتاق چند سیکنڈ اسے دیکھتا رہا پھر تیزی سے باہر نکل گیا۔
چند منٹ بعد سامنے فٹ پاتھ پربیٹھے موچی کی بیوی رجنی ،دوکان کے اند ر لڑکی کے پاس بیٹھی تھی ۔
’’ کائے کو روتی رے تو؟‘‘ رجنی نے شفقت سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا،
لڑکی نے اپنے سر کو دو چار بار جنبش دی اور روتی رہی۔۔۔رجنی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنی ساری کے پلو سے اسکے آنسو پونچھے، پھر چائے میں بسکٹ ڈبو کر اسکے منہ میں ڈالا، لڑکی ہچکیوں کے درمیان بسکٹ کھاتی رہی اور روتی رہی۔کافی کوششوں کے بعد رجنی کوپتہ چلا لڑکی کوئی پہاڑی زبان بولتی ہے جو سب کی سمجھ سے باہر ہے۔

رات نے آسمان کی گود سے اترکر زمین کو اپنی آغوش میں لے لیا ۔
مشتاق اور اسکا اکلوتادوست راجو سڑک کے بیچوبیچ اگے ہوئے پیپل کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر چرس کا دم کھینچنے لگے،
’’ تو تو پھنس گیا یار۔۔‘‘ راجو بولا
’’ ارے میرے کو کیا مالوم تھا کہ وہ اپنی بھاشا نہیں بولتی۔۔۔‘‘
’’ مگرچھوکری ہے ایکدم آئٹم ‘‘ راجو زیر لب مسکرا کر بولا
’’ روتی بہت ہے شالی ‘‘
’’ سو ریلی ہے کیا؟‘‘
’’ ہاں یار بڑی مشکل شے شوئی ہے، وہ تو بول کہ رجنی بھابھی نے شنبھال لیا نئی تو میری تو واٹ لگ گئی تھی ‘‘
’’ تو کیا سوچ کے اسکو اپنے ساتھ لایا‘‘
’’شوچتا کون ہے یار، اکیلی بارش میں رشتے پہ بیٹھی تھی، میں لے کے آگیا ‘‘
’’آگے کیا کرنے کا ہے ‘‘ راجو نے پوچھا،
’’ مالوم نئی ۔۔۔شوچا نئی ‘‘
’’ سوچنے کا کیا ہے یار۔۔۔۔چھوکری ملی ہے۔۔۔لے لینے کا۔۔۔‘‘ راجو بے شرمی سے ہنسنے لگا
’’ کیا بات کرتا ہے ۔۔۔ وہ دکھیاری ہے یار۔۔نئی نئی ۔۔۔یہ گناہ ہے۔۔‘‘ مشتاق کی آواز میں سخت احتجاج تھا۔
راجو تیز تیز کش لینے لگا۔۔اچانک اس نے مشتاق کی طرف دیکھا،مشتاق آنکھ دبا کر بولا ’’ ویسے چھوکری ایکدم مشت ہے ‘‘
دونوں ہنسنے لگے۔
صبح رجنی اور مشتاق لڑکی کے ساتھ بیٹھے اسکی بولی سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ، رجنی کو جیسے ہی چمکا کہ لڑکی نیپالی سے ملتی جلتی زبان بول رہی ہے جو اس نے اپنی ایک سیٹھانی کے گھر میں اس کے ایک مہمان کے منہ سے سنی تھی تواس نے فکر مندی سے گردن ہلاتے ہوئے کہا،
’’ اتاکائے ہونار۔؟
مشتاق چپ رہا پھر بولا ’’ میرا تو مشتک کام نئی کر تا‘‘
رجنی کے دماغ میں پھر ایک آئیڈیا چمکا، وہ بولی ’’ ارے وہ کوزی بلدنگ کا واچ مین ہے نا ،وہ پن ایسی بھاشا بولتا ہے اسکو بلاکے لا ‘‘
مشتاق پھرتی سے اٹھا مگر وہ جونہی باہر نکلا، دو ٹوپی پہنے ہوئے شخص جن کی بڑی بڑی داڑھیاں تھیں اسکے سامنے آ گئے۔
’’ اسلام علیکم مشتاق بھائی‘‘ نوجوان شخص نے کہا،
’’وعلیکم شلام بھائی میاں، شب خیریت؟‘‘ مشتاق نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
’’ الحمدا للہ ۔۔اچھا مشتاق بھائی، ہم نے سنا ہے کہ ۔۔۔وہ لڑکی تمہارے پاس ہے‘‘ نو جوان نے ایک پل کے توقف کے بعد پوچھا،
مشتاق کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی ، وہ خاموشی سے انکی شکلیں دیکھتا رہا،پھر بولا ’’ جی بھائی میاں وہ اندر دوکان میں ہے ‘‘
مشتاق کا جواب سنتے ہی نوجوان نے بزرگ کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا،
بزرگ بولے ’’یہ وہی لڑکی ہے نا جو کھاڑی کے پاس والی بیٹھی چال میں رہتی تھی ‘‘
’’ مالوم نئی کہاں رہتی تھی ،میں بھنگار لینے کھاڑی کی طرف گیا تھا،یہ مجھے وہاں ملی ‘‘
’’اور تم اسے اپنے ساتھ لے آئے؟‘‘
’’ وہ بھری بارش میں رشتے پر اکیلی بیٹھی تھی ، میں اور کیا کرتاچچا‘‘
’’ ہاں بھائی اس حالت میں تم نے بلکل ٹھیک کیا ۔۔۔۔ ۔۔مگر یہ یہاں نہیں رہ سکتی‘‘ بزرگ بولے
مشتاق خاموش رہا، بزرگ پھر بولے، ’’ اس کے شوہر کا پانچ روز پہلے انتقال ہو گیا تم کو تو معلوم ہوگا۔۔؟
نہیں جی مجھے نئی مالوم۔۔۔لڑکی شے تو بات نئی کر شکتے، وہ اپنی بھاشا نئی بولتی‘‘
’’ اسکا شوہر۔۔۔۔ وہ مسلمان تھا ‘‘
’’ اچھا ‘‘
لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ مسلمان ہے‘‘
’’ اچھا۔۔۔ایشاکیوں۔۔؟؟ ‘‘ مشتاق نے حیرانی سے پوچھا
چند پلوں کے لئے خاموشی چھا گئی، بزرگ نے مشتاق کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے،
’’ چلو بیٹھ کر بات کرتے ہیں، یہ معاملہ تھوڑا سمجھنے کا ہے‘‘
مشتاق پھرتی سے دوکان کے اندر سے کرسی اور مونڈھے اٹھا لایا، بزرگ اور جوان بیٹھ گئے ، چائے کی دوکان پر جمع لڑکے پاس آکر کھڑے ہو گئے ،عرفان اور ورما بھی ،جو چہل قدمی کر کے واپس لوٹ رہے تھے بھیڑ دیکھ کر رک گئے، بزرگ نے بغیر رکے بولنا شروع کیا،
’’ بات یہ ہے مشتاق بھائی کہ چال کے سب لوگ مرنے والے کو ہندو سمجھتے تھے، مگر جب وہ اسکی میت نہلانے لگے تو دیکھا کہ۔۔۔۔..‘‘
’’کیا دیکھا چچا‘‘
’’ میت کی ختنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ میت کی ختنہ!! !!۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشتاق نے بزرگ کی با ت کاٹ دی ، اسکی صورت پر سوال برسنے لگے،
’’ ہاں بھائی، میت ختنہ والی تھی اور اسکے گھٹنوں پر دو گول نشان بھی تھے جو سجدہ کرتے ہوئے پڑ جاتے ہیں ،کمار اسکا اصلی نام نہیں تھا‘‘
’’ اچھا تو یہ لڑکی کمار کی بیوی۔۔۔۔۔‘‘
’’ ہاں۔۔اس رات کیا ہوا کہ میت نہلانے والے بہت پریشانی میں میرے پاس آ ئے اور بولے کہ میں میت کو دیکھ لوں ، کہیں بعد میں کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے میں نے میت دیکھی اور فیصلہ کیا کہ میت مسلمان ہے اور دفنائی جانی چاہئے ‘‘
پلکیں جھپکاتے لوگ خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، مشتاق نے کھکھار کر گلا صاف کیا اور بولا،
’’ مگر چچا کمار نے اپنے مشلمان ہو نے کی بات چھپائی کیوں۔۔۔ ؟
بزرگ نے کچھ تامل کیا، کچھ کہنا چاہا پھر لوگوں کی طرف ایک اچٹتی نظر ڈالی اور چپ رہے۔
مشتاق پھر بولا، ’’ اور یہ لڑکی تو بندی لگاتی ہے اشکے ماتھے اور ہاتھ پر گودنے کے نشان بھی ہیں ایکدم ہندو کے مافک ‘‘
بزرگ نے اسکی طرف یوں دیکھا جیسے وہ کوئی نادان بچہ ہو، پھر اس کے پاس جھک کر دھیمے لہجے کر بولے ،
’’ بات سمجھتے کیوں نہیں مشتاق بھائی۔۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمان اور ہندو ؤں کے محلے بٹ گئے، لوگ اپنی اصلی پہچان چھپانے پر مجبور ہو گئے ،نا م تک بدل ڈالے۔۔کل ہی کی تو بات ہے ، اتنی جلدی کیسے بھول گئے تم‘‘
مشتاق کی آنکھیں کھلی رہ گئیں ، ’’ میں تو شچ میں بھول گیا تھا چچا۔۔تو۔۔۔۔؟‘‘
بزرگ نے اثبات میں سر ہلایا ۔
مشتاق نے فکر مندی سے اپنی پیشانی پرہاتھ پھیرا، پھر بولا۔۔۔’’ تو ابھی۔۔پھر۔۔اس لڑکی کا کیا۔۔۔۔؟
’’ اور کیا، اسکو اس کے مانباپ کے گھر بھیجنا پڑیگا لیکن کسی کو انکا پتہ ٹھکانہ معلوم نہیں ہے، میں نے اس کے پڑوسیوں سے بات کی وہ بولتے ہیں لڑکی سال بھر سے کمار کے سا تھ رہتی تھی، پاس پڑوس میں اسکا کسی سے میل جول نہیں تھا، کسی کو نہیں معلوم کہاں سے آئی ہے،اور اسکے مانباپ کہاں رہتے ہیں ، مشکل یہ ہے کہ لڑکی ہماری زبان نہیں بولتی‘‘
مشتاق کی آنکھیں چمکیں وہ مسکراتے ہوئے بولا ’’ وہ کوزی بلدنگ کا واچ میں ہے نا چچا وہ یہ بھاشا بولتا ہے، میں اسکو بلا کر لاتا ہوں‘‘
’’ واچ مین سے بھی بات ہو جا ئے گی، مگر فی الحال تو اس لڑکی کو پردے میں رکھنے کا انتظام کرنا پڑیگا ‘‘
’’ پردے میں!!‘‘
’’ سخت پردے میں ، پورے چار مہینے دس دن‘‘ بزرگ کا لہجہ تحکمانہ تھا
چار مہینے۔۔۔۔۔۔مگر کیوں۔۔۔؟ ‘‘
بزرگ کے چہرے پر استہزا آمیز مسکراہٹ پھیل گئی ’’ کیسے مسلمان ہو مشتاق،اتنا بھی نہیں جانتے کہ شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو عدت میں رہنا پڑتا ہے‘‘
’’ عدت !! ‘‘
’’ ہاں، آ خر وہ ایک مسلمان کی بیوہ ہے،۔۔اسے عدت پوری کرنی پڑیگی‘‘ ابکی با رجوان شخص بولا
مشتاق کے ماتھے پر بل پڑ گئے اس نے گلا صاف کیا اور بولا ’’ اپن لوگ کو ایکبار لڑکی شے بات کر نی چاہئے ، میرے کو تو وہ لڑکی ہندو لگتی ہے‘‘
’’ کیا بکواس کرتے ہو مشتاق ، بزرگ کی آواز میں غصہ امڈ آیا، ’’ عورت کسی بھی مذہب کی ہو ،مسلمان سے شادی کرنے کے بعد مسلمان ہو جاتی ہے، ہمارے پاس فتوی موجود ہے‘‘
’ ’ لوگ بت بنے سن رہے تھے، کہ اچانک لڑکی پردہ ہٹا کر باہر آگئی، اور مشتاق کی آڑ میں کھڑی ہو گئی، وہ بمشکل اٹھارہ سے بیس سال کی ہوگی ، پہاڑی حسن کی پر کشش سادگی اسکے پورے سراپا سے عیاں تھی، اسکے گورے رنگ میں زردی جھلک رہی تھی، بوٹے سے قد اور سڈول جسم کے ساتھ وہ گڑیا سی معلوم پڑ تی تھی، وہ نظریں جھکائے چپ چاپ کھڑی رہی۔بزرگ نے ایک نظر اسکی طرف دیکھا اور نظریں جھکا لیں مگر اوروں کی نگاہیں اس پر جمی رہیں،عرفان نے ابرو کے اشارے سے ورما کی توجہ لڑکی کے ہاتھوں کی طرف مبذول کی، اسکے ہاتھ گودے ہوئے تھے۔
اپنے بیچ اس لڑکی کو لاچاری سے کھڑا دیکھ کر بزرگ کے چہرے پر الجھن نمایاں ہو گئی،باقی لوگ اس تماشے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھیں اس واقعہ کا انجام کیا ہوتا ہے، انکی آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں اور وہ مشتاق کی طرف اپنی مسکراہٹیں پھینک رہے تھے، خاموشی کے کچھ اورپل گزرے ، پھر مشتاق کچھ بے چین ہو کر بولا،
’’ اسکے پردے کا بندوبست کیشے ہو گا چچا‘‘
بزرگ نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے کہا ’’کسی مسلمان خاندان کو ڈھونڈنا پڑیگا جو اسے اپنے ساتھ رکھنے پر راضی ہو جائے ‘‘
سب پھر سوچوں میں ڈوبنے لگے، مشتاق پھر بولا ’’ مگروہ اپنی کھولی میں بھی رہ شکتی ہے ‘‘
’’ ارے کیسی بات کرتے ہو، بھول گئے کیا ،یہ تم کو رستے پر ملی تھی، کیونکہ کھولی کے مالک نے اسے کھولی سے باہر نکال دیا تھا، وہ چال ٹوٹنے والی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ ابھی ٹائم ہے چچا۔۔۔چالی ٹوٹنے تک یہ وہاں آرام سے رہ شکتی ہے ‘‘
’’ یہ نہیں ہو سکتا‘‘ بزرگ نے جھنجھلا کر جواب دیا’’ جوان بیوہ کو اکیلے کیسے چھوڑا جا سکتا ہے ، اسے کسی عورت کے ساتھ رکھنا پڑیگا، ایک مسلمان عورت کی حفاظت ہمارا فرض ہے ‘‘
کافی دیربحث کرنے کے بعد یہ طے پایا کہ بتول بی سے، جو اس علاقے کی بزرگ ہستی تھیں اور جن کے گھر ہر جمعہ کو تبلیغ کا اجتماع ہو تا تھا ، مشورہ کیا جائے اور لڑ کی کو انکی تحویل میں دیا جائے، اس فیصلے پر پہنچتے ہی بزرگ اور انکے ساتھی کے چہروں پر اطمینان پھیل گیا ، بزرگ نے بتول بی سے فون پر کافی دیر تک بات کی، پھر واچ مین کو بلوا یا گیا اور ساری بات لڑکی کو سمجھائی گئی، وہ خاموشی سے سنتی رہی اور اسی خاموشی سے بزرگ کے ساتھ بتول بی کے گھر روانہ ہوگئی۔ مجمع چھٹ گیا۔
انکے جاتے ہی مشتاق نے جیب سے اپنی ڈائری نکالی اور اسکے ورق پلٹنے لگا،بتول بی کے گھر کے افراد کے نام ڈائری میں موجود تھے جن میں مولوی حمایت علی اور انکے بیٹے متین کا نا م بھی تھا۔
تین دن بعد مشتاق اس واقعہ کو تقریباََبھول چکا تھا کہ ایک صبح بتول بی کی ملازمہ شیلا اسکی دوکان پر آئی اور وہ لڑکی کی خیریت پو چھے بغیر نہ رہ سکا،پتہ چلا کہ بتول بی لڑکی کوہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھتی ہیں،اسے نماز پڑھنا سکھاتی ہیں، اسکا خیال رکھتی ہیں مگر لڑکی بلکل خاموش رہتی ہے،اورکثر روتی ہے ،مشتاق نے ملازمہ سے کہا کہ وہ لڑکی سے دوستی کرنے کی کوشش کرے اور اسکے متعلق ہر بات مشتاق کو بتائے ، اسکے بدلے وہ دوکان سے کوئی بھی سامان مفت لے سکتی ہے، ملازمہ اس آفرسے خوش ہو گئی۔
ایک ہفتے بعد ملازمہ گھبرائی ہوئی پھر دوکان پر آئی اور مشتاق کو بتایا کہ اسنے آج صبح کے وقت لڑکی کو فلیٹ کی پچھلی بالکنی پر دیکھا ،وہ سورج کی طرف منہ کئے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی اور منہ میں کچھ بدبدا رہی تھی۔
’’ پھر تو نے کیا کیا؟‘‘ مشتاق نے فکرمندی سے پوچھا،
’’ میں کیا کر تی مشتاق بھا ئی ، تم کو بتانے آگئی‘‘
’’ اور کسی کو تو نہیں بتایا نا؟ ‘‘
’’ نہیں‘‘
’’ شاباش۔۔۔۔۔ اچھا شن شیلا، لڑکی کو سنبھال لینا، اور سورج پوجاکی بات بتول بی یا گھر والوں کو مالوم نئی پڑنا چاہئے‘‘
شیلا کے ساتھ اس گفتگو کے بعد مشتاق کی زندہ دلی ایکدم غائب ہو گئی، اس کے ماتھے پر لکیر وں نے ڈیرہ جما دیا، اب وہ جمعہ کے علاوہ بھی مسجد میں دیکھا جانے لگا، ایک دن نماز کے بعداس نے مسجد کے باہر مولوی حمایت علی کے بیٹے متین کو دیکھا تو لپک کر اس کی طرف یوں بڑھا جیسے اسی کا انتظار کر رہا تھا ،متین اسے دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرایا،مشتاق اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا پھر بولا،
’’ میت کی ختنہ نے پٹرا کر دیا ، ورنہ میں لڑکی کو تمہارے گھر کبھی جانے نہ دیتا‘‘
متین نے بے تکلفی سے مشتاق کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور کان کے پاس پھسپھسایا۔۔
’’ کیوں بیکار میں ٹینشن لیتے ہو مشتاق بھائی،۔۔ وہ لڑکی ہندو ہے‘‘
مشتاق کے ماتھے کی لکیریں پیچیدہ ہو گئیں،وہ خاموشی سے اسے گھورتا رہا پھر بولا۔۔’’ تو کیا ہندو کسی دوشرے اللہ کا بندہ ہے؟‘‘
متین سٹپٹاگیا اور تیز قدموں سے مسجد سے باہرنکل گیا۔

اس رات راجو اور مشتاق جب چرس کا دم لگانے سڑک کے بیچو بیچ اگے پیپل کے پیڑ کے نیچے بیٹھے تو مشتاق بہت غصے میں تھا،
’’ ابے تو کائے کے واسطے ٹینشن لیتا ہے، وہ مسلمان بڈھا جولے کے گیا چھوکری کو، سارا ٹینشن تواس کا ہے‘‘
’’ مگر وہ چچا جانتا نئی ہے متین کی اصلیت۔۔۔ یہ لوگ اشکو نیک مولوی حمایت علی کا نیک بیٹا سمجھتے ہیں ‘‘
’’ تیرے کو کیا مگر۔۔؟ تیری کون لگتی ہے وہ چھوکری ۔۔؟
’’ ابے میں اشکو رشتے پہ سے اٹھا کے لایا تھا۔۔یاں۔۔ یاں میری دوکان میں ایک رات شوئی تھی وہ۔۔۔‘‘
’’ میں بولا تھاتیرے کو لے لے۔۔ لے لے اسکی ۔۔پن توبولا یہ پاپ ہے ،ابے تو پاپ کر لیتا تو وہ آج دوسرے پاپ سے بچ جاتی نا ‘‘
’’ وہ کیشے بے ‘‘
’’ وہ تیرے پریم میں پڑ جاتی اور چچا کے ساتھ اس سالے حرامی متین کے گھر پہ جانے کو راجی نئی ہوتی۔۔۔‘‘
’’ اور پھر وہ چا چاچھوکری کو اور میرے کو کوڑوں سے مار ڈالتا۔۔‘‘
’’ کائے کو ؟ لڑکی آڈلٹ ہے اور پھرپولیس نئی ہے کیا ‘‘ راجو پر چرس چڑھنے لگی تھی،
مشتاق نے جواب دینا چاہا مگر الفاظ گڈ مد ہو گئے ، اسکے ہونٹ ٹیڑھے ہوکر پچک گئے وہ دانت بھینچے خاموش بیٹھا رہا۔
رات بے بسی سے اسکو دیکھتی رہی۔

دوروز بعد وہ لڑکی مشتاق کی دوکان پر موجود تھی۔
جونہی نوکر نے فون پرمشتاق کو اطلاع دی، وہ چلا آیا، لڑکی کو دیکھ کر نہ تو اسے حیرت ہوئی نہ وہ پریشان ہوا،اس نے نوکر کو لڑکی کا خیال رکھنے کی ہدایت دی اور آٹو میں بیٹھ کر چلا گیا، کچھ دیر بعد رجنی اور نیپالی چوکیدار کو ساتھ لیکر لوٹا، دوکان کے اندر گیا اور دوکان کاپردہ گرادیا۔
اسی رات عشاء کی نماز کے بعد وہی بزرگ چند لوگوں کے ساتھ بہت تیز قدموں سے چلتے ہوئے گل مہر روڈ میں داخل ہوئے اور مشتاق کی دوکان کے پاس رک کردھاڑے،
’’ مشتاق باہر آؤ ‘‘
مشتاق باہر آیا،بزرگ نے گھور کر اسے دیکھا مگر انکی نظر کے تیکھے پن کے جواب میں مشتاق پر سکون رہا اور مسکرا کر بولا،
’’ اچھا ہوا چچا آپ آگئے میں آپ کی راہ دیکھ رہا تھا، آپ کا فون نمبر نہیں تھا ورنہ میں آپ کو بلا لیتا، آؤ چچا بیٹھو‘‘
’’ ہم بیٹھنے نہیں آئے ہیں، تم نے کیا سوچ کر لڑکی کو واپس بلایا‘‘
’’ میں کیوں بلاؤنگا چچا ، وہ خود آئی ہے‘‘
’’ تم بتول بی کی نوکرانی سے اسکے بارے میں پو چھ تاچھ نہیں کرتے تھے‘‘ بزرگ گرج کر بولے،
’’ تو کیا گناہ کرتا تھا، میں اٹھا کے لایا تھا اشکو روڈ شے۔۔۔تو میری بھی کچھ جمے واری بنتی ہے ۔۔بنتی ہے کہ نئی بنتی ہے؟؟
’’ ہم سے زبان لڑاتا ہے بے شرم، ایک عدت میں بیٹھی عورت کو بے پردہ کر تے ہوئے تجھے اللہ کا خوف نہیں آیا؟ بزرگ کی آواز مزید اونچی ہو گئی،
’’ وہ میری دوکان پر مدد مانگنے آئی ، تو کیا اش کو بھگا دوں‘‘ مشتاق نے سکون سے جواب دیا،
بزرگ کچھ کہنے سے پہلے ہی چپ ہو گئے،لوگوں کی بھیڑ جمع ہو چکی تھی،عرفان جو آفس سے لوٹ رہا تھا بھیڑ میں شامل تھا اس نے بزرگ کو سلام کیا اور مہذبانہ لہجے میں بولا،
’’ بہتر ہو گا آپ لڑکی سے بات کر لیں، اس طرح بحث کرنے سے تو صرف تماشہ ہوگا اور مسلۂ کا کوئی حل نہیں نکلے گا‘‘
’’ میں لڑکی کو بلاتا ہوں‘‘ مشتاق فورا بولا، اس نے چوکیدار کو اشارہ کیا،چوکیدارنے دوکان کے دروازے پر جا کر پہاڑی زبان مین کچھ کہا،لڑکی باہر آگئی، اسکا چہرہ کھملایا ہوا تھا ، آنکھیں سوج رہی تھیں،وہ بیمار لگ رہی تھی، مشتاق نے چوکیدار کی طرف دیکھا اور عرفان سے بولا،’’ یہ آ دمی پہاڑی ہے اور ہندی بولتا ہے، یہ دونوں کی بات دونوں کو شمجھا دیگا‘‘
بزرگ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا پھر لڑکی سے مخاطب ہو کر بولے،
’’ بیٹی یہ آدمی بولتا ہے تم اس کے پاس مدد مانگنے آئی ہو۔کیا یہ سچ ہے؟‘‘
چوکیدار نے لڑکی سے بات کی پھر بولا ’’ یہ بولتی ہے ہاں مدد مانگنے آئی تھی‘‘
’’ تم کو مدد چاہئے تھی تو بتول بی سے بولتی یہاں کیوں آئی، تم کو بتایا تھا کہ عدت میں عورت پردے میں رہتی ہے۔۔۔۔کیا تکلیف تھی ایسی تمکو ۔۔۔۔بتاؤ ‘‘
بزرگ کو یہ سوال کئی بار دوہرانا پڑا،چوکیدار نے لڑکی کا حوصلہ بڑھایا،آخر کار اس نے چوکیدار سے بہت دھیمے لہجے میں کچھ کہا،
’’ یہ بولتی ہے۔۔۔بولتی ہے کہ کل رات وہ سورہی تھی تو لڑکے نے اس کے بدن کے اوپر سے چادر کھینچ کرا تاری دی تھی‘‘ چوکیدار بولا
’’ کیا!!۔۔ کون۔۔۔۔کون ۔۔کون تھا وہ لڑکا۔۔۔اس گھر میں تو ایک ہی لڑکا ہے ،عبدل متین ‘‘ بزرگ کی آواز انکا ساتھ نہیں دے رہی تھی انکی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
’’ ہاں۔۔۔۔ یہ بولتی ہے ہاں۔۔ وہی لڑکا تھا ابدل متین‘‘ چوکیدار بولا،
اس کے بعد خا صا ہنگامہ ہو گیا، بزرگ نے متین کی حمایت میں کافی دلیلیں پیش کیں مگر لڑکی اپنی بات پر اڑی بزرگ بحث کرتے رہے تب مشتاق بولا،
’’ میں نے خودمتین سے بات کی تھی چچا، ا س کا وچار ہے کہ لڑکی ہندو ہے، اورہندو لڑکی پر ہاتھ ڈالنا جائز ہے‘‘
بزرگ کے چہرے پر ایک ساتھ کئی رنگ ابھر آئے،مشتاق بزرگ کا چہرہ ٹٹول رہا تھاجس پر کشمکش صاف عیاں تھی، عرفان نے مورچہ سنبھالا،
’’ یہ کیسے پتہ چلا کہ لڑکی ہندو ہے‘‘
’’ یہ چھپ چھپ کے سورج کی پوجا کرتی تھی وہاں بتول بی کے گھر پہ ‘‘ مشتاق بولا
’’ لاحول ولاقوت۔۔۔۔لڑکی کافر ہے۔۔!!! ‘‘بزرگ چیخ پڑے
چند منٹوں کے لئے خاموشی چھا گئی، تجسس کے مارے لوگوں کی پیشانیاں سکڑ گئیں
’’ تو کیا فرق پڑتا ہے چچا، لڑکی بے شہا را ہے ، آپ نا اشکو اپنے گھر لے جاؤ ‘‘ مشتاق بولا
’’ مگر یہ کافر ہے، سورج کی پوجا کرتی ہے، جس گھر میں دن رات تبلیغ ہو تی ہے وہاں سورج کی پوجا۔۔ تو کیا ہم سبکا ایمان خراب کرنا چاہتا ہے،بے ایمان‘‘ بزرگ تقریباغرائے،
’’ لیکن۔۔۔لیکن حضرت ، اس کا مرحوم شوہرتو مسلمان تھا ،آ پ نے اپنی آنکھوں سے اسکی ختنہ دیکھی ہے ،اسلئے ہمارا فرض ہے کہ لڑکی کو اسلام کے ۔۔۔ ‘‘ ایک داڑھی والاشخص آ گے بڑھ کر بولا
’’ ختنہ مسلمان ہو نے کا ثبوت نہیں ہے بھائی، بہت سے غیر مسلم بھی ختنہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ ختنہ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں‘‘ عرفان اس شخص کی بات کاٹتے ہوئے مظبوط لہجے میں بولا ،
ایکدم سناٹا چھا گیا، صرف لڑکی کی سسکیاں سنائی دیتی رہیں،بزرگ نے ایک قہر بھری نظر سب پر ڈالی تیزی سے پلٹے اور وہاں سے چل پڑے، مجمع چھٹ گیا۔
لیکن عرفا ن رکا رہا اور جونہی لوگ تتر بتر ہوئے اس نے نہایت سنجیدگی اور خلوص سے مشتاق کو سمجھایاکہ یہ معاملہ اب بہت پیچیدہ ہو گیا ہے ، مشتاق اگر اپنی خیریت چاہتا ہے تو فور ا سے پیشتر اسے لڑ کی کو اپنی دوکان سے ہٹادینا چاہئے، ورنہ وہ خواہ مخواہ مصیبت میں پھنس جائیگا، مسجد سے آنے والے یہ مسلمان اس کی زندگی حرام کر سکتے ہیں ۔
لیکن عرفان کی لاکھ کوشش کے باوجود مشتاق کی سمجھ میں یہ منطق نہیں آئی، اس نے چوکیدار کی مدد سے یہ معلو م کر لیا تھاکہ لڑکی کمار کے ساتھ ہماچل سے بھاگ کر ممبئی آئی تھی ، واپس گئی تو اسکے باپ اور بھائی اسکی جان کے درپے ہو جائینگے ، واپس جانے کے خیال سے ہی وہ کانپنے لگتی تھی، عرفان نے مشورہ دیا کہ عورتوں کی مدد کرنے والی کسی سنستھا میں لڑ کی کو بھیجدیا جائے ،لیکن مشتاق کا کہنا تھا کہ ایسی سنستھاؤ ں پر اسے قطعی بھروسہ نہیں ہے، آئے دن اخباروں میں انکا کچا چھٹا چھپتا رہتا ہے اور چونکہ پہاڑی چوکیدار دوسرے چوکیداروں کے ساتھ رہتا ہے اسلئے اس کی کھولی میں رکھنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہو تا۔
نصف رات کے بعد جب عرفان رخصت ہوا تو مشتاق نے دیکھا کہ لڑکی دوکان میں سو چکی ہے،مشتاق نے دوکان کا دروازہ بھیڑ کر ٹاٹ کا پردہ کھول دیا اور خود سامنے کی فٹ پاتھ پر چٹائی بچھا کر لیٹ گیا۔
رات گئے راجو نے اسکو جھنجھوڑ کر جگا دیا، اسے لڑکی کے واپس آ جانے کی خبر اسی وقت ملی تھی،
’’ تو نے ابھی تک بھگایا نئی اپنی آئٹم کو سالے ‘‘
’’ کدھر بھگاؤں بے ‘‘ مشتاق بگڑ کر بولا
’’ تو مریگا گھونچو، وہ چا چا تیری واٹ لگانے والا ہے‘‘ راجو نے اندیشوں سے بھرا سر ہلایا
’’ تو۔۔؟۔۔۔۔میں اسکو بھری برشات میں۔۔۔۔‘‘
’’ تو پھر چالو ہوگیا ۔۔ سالے تو کباڑی ہے کباڑی۔۔اپنا کام کر سمجھا۔۔ جاستی ہیرو مت بن‘‘
راجو کے جانے کے بعدمشتاق کی رات سوتے کم اور جاگتے زیادہ گذری ،اس کی آنکھوں کے سامنے اخبارون کی وہ تمام سرخیاں گھومنے لگیں جو ہندو مسلم لڑکے لڑکی کے بارے میں یا فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں تھیں۔
صبح لڑکی کو رجنی بھابھی کے حوالے کر کے وہ سارا دن مارا مارا پھرتا رہا ، بظاہر وہ کباڑ جمع کر رہا تھا مگر در اصل وہ اپنی بے چینی پر قابو پانے کے لئے سر گرداں تھا۔رات گئے جب وہ لوٹا تو لڑکی سو چکی تھی، اسکے چہرے پر چھائی ہوئی شفاف سی معصومیت اسکی خوبصورتی کو دوبالا کر رہی تھی، مشتاق ٹکٹکی لگائے اسکو دیکھتا رہا۔ پھر فٹ پاتھ پر چٹائی بچھا کر سو گیا۔
لڑکی کو دوکان میں رہتے ہوئے اب تین دن گذر چکے تھے ، ایک انجانا سا خدشہ مشتاق کو جکڑنے لگا تھا، اس کا جی چاہتا کہ لڑکی کو کچھ روپیہ دے کر روانہ کر دے مگر جب وہ اس ارادے سے اس کی طرف دیکھتا تو نہ جانے کیا دیکھتا کہ کچھ بھی نہ کر پاتا۔
اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ دوکانوں اور باکڑوں پر کام کرنے والے لڑکے اسکی دوکان پر بے وجہ کسی نہ کسی بہانے آنے جانے لگے ہیں،پنواڑی کا بھائی جب اپنے بال سنوار کر سیٹی بجاتے دوکان کے سامنے سے گذرتا ہے تو دوسرے لڑکے مند مند مسکراتے ہیں، استری کرنے والا لڑکا اب روزانہ کلف لگے استری شدہ کپڑے پہنتا ہے، ریڈیو زوروں سے بجنے لگے ہیں اور رجنی بھابھی پر سبکی مہربانیاں بڑھنے لگی ہیں۔
پھر پانچویں دن کی رات رجنی اسکے پاس پیڑ تلے آ بیٹھی اور بولی،
’’ اے مشتاک، اپن کی چھوکری کو آج کام مل گیا رے، چانگلا مانس ہے پگار پن مست ہے‘‘
رجنی نے بتایا کہ کل شام وڈ لینڈ اپارٹمنٹ میں رہنے والا ملہوترا دوکان پر کچھ سامان لینے آیا تھا ، اس نے لڑکی کو دیکھا اور اسکے بارے میں رجنی سے دریافت کیا پھرآج دوپہر کو دوبارہ آیا اور لڑکی کو نوکری پر رکھ لیا۔
مشتاق کی بانچھیں کھل گئیں،
رجنی نے مزید بتایا کہ لڑ کی کا کام ایکدم آسان ہے اس کو صاحب کے گھر پر ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا ہے، کھانے سے پہلے بار میں ساتھ بیٹھنا ہے، پارٹی میں ساتھ جانا ہے، سینیما ساتھ دیکھنا ہے، خریداری ساتھ ساتھ کرنا ہے پھر ہر رات اپنے ٹھکانے پر واپس چلے جانا ہے، وہ ا نکے گھر میں نہیں رہ سکتی مگر صاحب اسکے لئے دوسرے گھر کا بندوبست کر دیگا۔
مشتاق کی بانچھیں گر گئیں۔
اگلے دن وہ پھر مارا مارا پھرتا رہا۔
اس رات اس نے خود راجو کو بلوایا اور اسکی ساری روداد کہہ سنائی۔راجو بیڑی کے تیز تیز کش لیتا رہا اور مشتاق کو گھور کر دیکھتا رہا پھر بولا،
’’’ ایک بات سچی سچی بتا ، تو نے تو ا پناٹانکا نئی بھڑایا ہے نا اسکے ساتھ ۔۔‘‘
’ نئی یار میرے تو بال بچے ہیں ‘‘ مشتاق کی آواز میں تھکن تھی،
’’ تو پھر سن۔۔میرے پاس اس سے جاستی دھانسو آئیڈیا ہے ، ملہوترا کے واسطے تو چھوکری کو بھوت کچھ سیکھنا پڑینگا ،پن ادھر کچھ پن سیکھنا سکھانے کا نئی ہے۔۔۔ اور کمائی سمجھ منہ توڑ ‘‘
راجو کا دھانسو آئیڈیا سن کر مشتاق ہتھے سے اکھڑ گیا ، اور گالیاں بکنے لگا، راجو کڑوی سی ہنسی ہنسا اور بولا،
’’ دیکھ بھائی۔۔تو نے پھوکٹ میں چھوکری کو اپنی دوکان میں رکھیلا ہے، پھوکٹ میں اس کے اوپر کھرچا کر ریلا ہے ،تیرے کو تو چھوکری کی لینے کا نئی ہے، اور یہ چھوکرے سب لائین میں لگے پڑے ہیں، اور ابی ملہوترہ بھی لائن میں آ گئیلا ہے کیا۔۔۔ لڑ کی کا گڈ لک اچھا ہے، پھر تو کیوں پھو کٹ میں بھیجا فرائی کرتا ہے یار‘‘
’’ کیا مطلب۔۔کیا مطلب ہے تیرا بے‘‘
’’ دیکھ بھائی۔۔۔ میرے والے آئیڈیا پہ چلیگا تو بھوت کمائیگا، ۔۔۔مگر تیرے کو پسند نئی ہے تو چل۔۔تیل لینے جا۔۔۔۔۔ اورملہوترا کے پاس بھیج دے ، ۔۔چار پیسے وہ کمائیگی دو تو کمائیگا، مگر اتنا یاد رکھ کہ کدھر پن جائے چھوکری کو دینی تو پڑیگی۔۔ تو پھر ملہوترا کو دے نا ، نئی تو یہ لونڈے لے لینگے،۔۔۔۔ ‘‘
مشتاق آپے سے باہر ہو گیا ، وہ راجو کی طرف لپکا، راجو فوراََ وہاں سے کھسک گیا ،مشتاق اٹھا اورتیز ی سے دوکان کے اندر گھس گیا، اسکی شہ رگ پھڑک رہی تھی ، سربھنبھنارہا تھا، ہونٹ خشک تھے اورسارا جسم تنا ہوا تھا، لڑکی منہ پر دوپٹے ڈالے سو رہی تھی، ’’ شالی‘‘ وہ دانت کچکچا کر پھسپھسایا اور ہاتھ بڑھا کر لڑکی کے چہرے پر سے دوپٹہ کھینچ لیا، لڑکی نے نے آہستہ سے آنکھیں کھول دیں اسکی طرف مند نظروں سے دیکھا اور کروٹ بدل کر سو گئی۔
مشتاق کو محسوس ہوا کہ اچانک اسکا دل موم جیسا ہو گیا ہے، وہ باہر نکل گیا۔
دوسرے دن وہ پھر در بددر پھرتا رہا، سائیں بابا بستی میں اس چال کو گرانے کا کام جاری تھا جس میں لڑکی کمار کے ساتھ رہتی تھی، ایک خستہ بلڈنگ کی مسماری کی تیاریاں ہو رہی تھیں، اسکے باسی کوچ کرنے کی تیا ری میں تھے،پرانا فرنیچر ، ردی اخبار ، بگڑی شکلوں کے برتن، مکسر جوسر،کتابیں، پرانے خطوط، تصویریں، پرانے کمپیو ٹر اور دیگر سامان گھروں کے باہر جمع تھا ، جگہ جگہ ملبہ پڑا تھا۔
مشتاق کمپیوٹر اسکرین اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔
’’ سنا ہے چھوٹے سے اش ڈ بے نے لوگوں کو بہت قریب کر دیا ہے، دنیا شکڑی ،چھوٹی ہو ئی پھرتنگ ہو گئی ، اب میری چھوکری کے لئے اس میں جگہ نہیں ہے ‘‘
پھروہ اکتا گیا اور ملبہ ٹٹولنے لگا،اکھڑی ہوئی اینٹیں، ٹوٹی ہوئی چھتیں، نکلے ہوئے آہنی جنگلے ،رنگین دیواروں کے رنگ برنگے ٹکڑے، ۔۔۔۔
۔۔۔۔’’یہ اینٹیں کدھر جڑی تھیں ، یہ دیواریں کہاں کھڑی تھیں، وہاں اور کیا کیا جڑا تھا، کون کون رہتا تھا انکے نیچے،کیشے رہتا تھا، ان پر کون شے رنگ چڑھے تھے ، ان رنگوں کو کش نے چنا تھا، کیوں چنا تھا، کوزی بلڈنگ کی مینا دیدی کہتی ہے کہ شپنوں کے بھی رنگ ہوتے ہیں ، ان رنگوں میں شپنے تھے یا ان شپنوں میں رنگ تھے، کیا یہ بھاؤنا کے رنگ ہیں ، کیا اس ملبے میں چھوکری کا گھر بھی ہے ، جش کے لئے وہ ہماچل سے کمار کے ساتھ بھاگ کر آئی تھی ؟ ۔۔۔یہ پرانے فوٹو یہ خط ، گھر ،یادیں یہ شب یہاں ملبے میں پھینک کر لوگ اونچی اونچی میں رہنے جا رہے ہیں، اونچے لوگوں کیے مافک ،ہماری بشتی ترقی کر رہی ہے، یہ میں کیا بے کار بات شوچ رہا ہوں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشتاق بنا کچھ لئے لوٹ گیا۔
چلتے چلتے اس موڑ پر پہونچا جہاں سائیں بابا بستی سے آنے والی شکستہ سڑک ختم ہو تی تھی اور گل مہر روڈ شروع ہوتا تھا، وہ رک گیا اور آ نکھیں سکیڑ کر دیکھنے لگا، بلند و بالا فلک بوس عمارتوں کے بیچ مسجد کے مینار جھکے ہوئے نظر آرہے تھے،چند گز کے فاصلے پر بسی سائیں بابا بستی میں پیپل کی گھنی چھاؤں میں چھپا سائیں بابا مندر گم سم بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشتاق آگے بڑھ گیا۔
اب مشتاق کے چہرے پر ایک سنگین سی سنجیدگی چھائی رہنے لگی، وہ چھبتی ہوئی نظروں سے آس پاس کے لڑکوں اور دوکان پر آ نے والوں کو ایسے دیکھتا جیسے سبکو للکار رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکے اپنی اصل اوقات پر واپس لوٹ آئے ۔
جلد ہی مشتاق اور لڑکی ان حالات کے عادی ہوتے چلے گئے،لڑکی نے دوکان کے ایک کونے میں چولہا رکھ لیا،وہ کھانا بناتی، دوکان میں موجود کباڑ کو ترتیب سے رکھتی ،بیکری کے نل سے پانی بھر لاتی ،اور پڑوس کی بلڈنگ کے چوکیدار کے باتھ روم میں نہا لیتی،مشتاق فٹ پاتھ پر سوتا۔
لڑکی ہمیشہ خاموش رہتی، ہم زبان نہ ہونے کے باوجود وہ اوروں کے بیچ مطمئن اور قانع نظر آتی ، رجنی نے بہت کوشش کی کہ چوکیدار کی مدد سے لڑکی کے ماضی کا کچھ پتہ چلے،لیکن وہ ہر سوال کے جواب میں چپ رہتی، اسکی آنکھوں سے اداسی کا گہرا رنگ برسنے لگتا وہ انگلی سے زمین پر لکیریں کھینچنے لگتی،مشتاق دوکان کے کونے میں بیٹھا ان لکیروں کو دیکھتا اور اسکا دل بوند بوند پگھل کر اسکی شریانوں میں بہنے لگتا۔
وقت گذرا اور دونوں مستقبل کے دامن میں چھپے اندیشوں سے بے خبر، زندگی کے سجھائے ہوئے راستوں پرزندگی کیساتھ چلنے لگے تھے۔
مشتاق نے رفتہ رفتہ اپنی زندگی میں تازگی کا احساس محسوس کیا، اسکی دوکان کی طرح اسکی زندگی میں بھی ایک ترتیب نظر آنے لگی، بے قیمت کباڑ کے پیچھے سے جھانکتا لڑکی کا کمسن خوبصورت چہرہ ، بہت بیش قیمت دکھائی پڑتا، وہ جب تازہ گرم روٹیاں اسکے سامنے پروستی تو مشتاق ایک انجانی خوشی سے دوچار ہو تا ،اسے محسوس ہو تا جیسے ممبئی کی سخت کوش، سنگین اور پتھریلی فظاؤں میں موسیقی گھل گئی ہے، اسکی بیوی عمر میں اس سے کافی آگے تھی،اور ایک نوجوان ساتھی کی آرزو اکثر اس کے دل میں کالی رات میں چمکنے والے جگنوؤں کی طرح جگمگا تی تھی، ،مشتاق نے اب ان جگنوؤں کو اپنے دل میں رقص کرتے ہوئے محسوس کیا،اور اسکے چہرے کی لکیریں غائب ہونے لگیں، اسکی آنکھوں میں نمی گھل گئی ،وہ نئے جوش اور مسرت کے ساتھ اپنے کام میں جٹ گیا۔
زندگی کی یہ نئی چال اسے اپنے فریب میں پھانس کر نہ جانے کس منزل کی طرف لے جاتی کہ ایکدن شیو سینا کے نکڑ والے پارٹی آ فس میں کچھ نئے چہرے نظر آئے،اور مشتاق کو طلب کیاگیا۔
علاقے میں شیو سینا کی دھاک تھی،خصوصا باکڑے، ٹھیلے،اور چھابڑی لگا کر دھندہ کرنے والے ’’ ہفتہ ‘‘بھرنے کے باوجود انکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے، مشتاق کی چھوٹی سی دوکان بھی اسی زمرے میں آتی تھی، لہذا مشتاق فورا حا ضر ہو گیا۔
’’ تو نے ایک ہندو لڑکی کو اپنی دوکان میں بند کر کے رکھا ہے۔۔۔کیوں؟‘‘ ایک تلک دھاری شخص نے پوچھا
’’ نہیں بھائی میاں بند کرکے نہیں رکھا ہے، وہ اپنی مرضی شے رہتی ہے، اش کا کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہے‘‘ مشتاق نے جواب دیا۔
’’ جن لڑکیوں کے پاس ٹھکانہ نہیں ہو تا ، تو سب کو اپنی دوکان میں رکھے گا‘‘وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا، سب لوگوں نے ٹہاکا لگایا،
’’ وہ میرے کو گلی میں ملی تھی، بھوکی پیاشی دو دن سے بارش میں روڈ پہ بیٹھی تھی‘‘
’’ تو ہم کائے کے واسطے ہیں۔۔۔ہاں؟۔۔تو لڑکی کو ادھر آفس میں کیوں لے کر نہیں آیا۔۔۔ہاں ؟۔۔۔ہم بیٹھے ہیں نا جنتا کی سیوا کرنے کے لئے۔۔ہاں؟
مشتاق چپ رہا، آفس میں موجود لوگوں کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔
’’ ایک ہندو لڑکی ایک مسلمان کے پاس۔۔۔کیا مطلب ہے اسکا؟ ۔۔ ہندو مسلم کرائے گا کیا تو؟۔۔ ہاں۔۔؟
’’ لڑکی بالغ ہے ،اپنی مرضی شے رہتی ہے‘‘
’’ بہت ہوشیاری دکھاتا ہے ۔۔۔ہاں؟ ۔۔۔ کس کو دکھاتا ہے ہوشیاری ۔۔۔ لڑکی ہندو ہے مالوم ہے نا۔۔۔۔۔ہاں؟
مشتاق خاموش رہا، آفس میں موجود لوگوں کی تیوریاں بل کھانے لگیں،
مشتاق خاموش سر جھکائے کھڑا رہا، وہ شخص تمتماتی آنکھوں سے اسے گھورتا رہا پھر ہاتھ نچا کر بولا’’ چل چل ۔۔۔نکل ابھی نکل۔۔ کل صبح لڑکی کو ادھر حاضر کر دینا سمجھا۔۔۔ سمجھا کہ نئی۔۔۔ ؟‘‘
وہ رات مشتاق پر بھاری تھی، اس نے رجنی اور عرفان سے مدد طلب کی ،یہ واضح تھا کہ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں سوائے اسکے کہ وہ لڑکی کو شیو سینا کے دفتر میں حاضر کر دے، جب یہ بات لڑکی کو معلوم ہوئی تو وہ بری طرح سہم گئی،اور چوکیدار کی منتیں کرنے لگی کہ اسے کسی کے بھی حوالے نہ کیا جائے، سب نے مزید کئی تجویزیں سجھائیں مگر لڑکی کی حفاظت ہر جگہ مشکوک تھی،پھر عرفان جو خاموشی سے سن رہا تھا ، دفعتابولا،
’’ لڑکی کی شادی کر دو‘‘
’’ کونی کرنار ‘‘ طویل وقفے کے بعد رجنی نے پوچھا،
’’ جو یہ ذمہ داری لے سکتا ہو‘‘ عرفان نے کہا، ۔۔۔
سب کی نظریں ایک کے بعد ایک مشتاق کی طرف گھوم گئیں،
’’ لیکن میں تو شادی شدہ ہوں‘‘ مشتاق نے بوکھلا کر جواب دیا ۔
آخر کار چوکیدار لڑکی کو چند روز تک اپنے ایک چوکیدار دوست کی فیملی کے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گیا،چونکہ وہ بھی پہاڑی تھا اور گل مہر روڈ سے کافی دورہتا تھا اسلئے شیو سینا سے نمٹنے کے لئے اوروں کے مقابلے موزوں ترین تھا حالانکہ یہ ڈر بھی تھا کہ اگر اسکی بلڈنگ کی سوسائٹی کو لڑکی کی موجودگی کا پتہ چل گیا تو اسکی نوکری جاتی رہیگی۔
لڑکی کو اسی رات رخصت کر دیا گیا، جانے سے پہلے وہ مشتاق کے سامنے پل بھر کو رکی اور پھر اسکے پیروں پر جھک گئی،مشتاق کی آنکھیں بے اختیار بھر آئیں۔
دوسرے روز مشتاق یہ خبر دینے کہ وہ لڑکی صبح سے غائب ہے، جب آفس پہونچا تووہاں اسی مسلمان بزرگ کو بیٹھا دیکھ کر اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں،الفاظ اسکے حلق میں اٹک گئے،اور اس سے پہلے کہ تلک دھاری شخص کچھ بولے بزرگ طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر جما کر بولے،
’’یہ لو جہاد ہے برخور دار یہ نام تو سنا ہو گا تم نے۔۔۔؟ ہندو لڑکی ہو یا مسلمان، اسے دوسرے مذہب کے شکنجے سے بچانا ہمارا جہاد ہے، اور یہ جہاد ہر ایمان والے کے لئے فرض ہے‘ ‘
’’ لڑ کی آج صبح شے غائب ہے‘‘ مشتاق تیوریاں چڑھا کر بولا،
یہ سنتے ہی وہ تلک دھاری شخص بپھر گیا،
’’ جھوٹ بولتا ہے یہ۔۔۔اسکے من میں پاپ ہے ۔۔۔اسی نے لڑکی کو غائب کیا ہے، اس نے اسکو کڈ نیپ کیا ہے۔۔۔یہ بدمعاش۔۔۔
بزرگ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا اور خشمگیں نظروں سے مشتاق کو گھور نے لگے،
’’تمہاری ضد کی وجہ سے فرقہ وارنہ فساد ہو سکتا ہے میاں، شرافت سے لڑکی کو ان لوگوں کے حوالے کر دو، وہ ہندو ہے اسے ہندو کے پاس ہونا چاہئے، میت کی ختنہ نے دھوکہ نہ دیا ہوتا تو ہم پہلے دن ہی اس لڑکی کو انکے حوالے کر دیتے، اگر لڑکے لڑکیاں پیار ویارہ کے چکر میں پھنس کر ایکدوسرے کے مذہب میں میں گھس پیٹ کرتے رہینگے تو مذہب کا توجنازہ نکل جائیگا ‘‘ بزرگ خطبہ دینے لگے۔
دونوں اشخاص ہر طرح سے مشتاق کو ڈراتے اور قانون کی دھمکیاں دیتے رہے، مگرمشتاق اپنی بات پر اڑا رہا۔
دوسرے دن پولیس نے مشتاق کو گرفتار کر لیا۔
مشتاق کے خلاف ایف آر آ ئی درج کی گئی تھی کہ ا س نے ایک ہندو لڑکی کو ا غوا کیا ہے اور اسے کہیں روپوش کر دیا ہے۔گرفتاری سے پہلے مشتاق نے اپنی جمع کی ہوئی ساری رقم لڑکی کے لئے بھجوادی ۔
پولیس نے پہلے سختی پھر سفاکی کے ساتھ مشتاق کے ساتھ پوچھ تاچھ کا سلسلہ شروع کیا، مشتاق صبر سے اس کڑی آزمائش سے گذرتا رہا مگر اپنی زبان بند رکھی،اسکی گرفتاری کی خبر سن کر اسکی حاملہ بیوی گاؤں سے بچوں سمیت چلی آئی،اور ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔
سارا واقعہ جان لینے کے بعد بیوی پولیس اسٹیشن پہونچ گئی اور مشتاق کے سر پر کھڑے ہو کر واویلا مچانے لگی ، حالانکہ عرفان اور رجنی نے اسے یقین دلایا کہ مشتاق کی نیت محض لڑکی کی حفاظت تھی اور کچھ نہیں، لیکن لڑکی مشتاق کی دوکان میں رہتی تھی ، یہ بات بیوی کے گلے میں کانٹے کی طرح پھنس گئی اور اسکا سانس اکھڑ گیا،اسے اسپتال پہونچا گیا اور اسکی چیخوں سے اسپتال کی دیواریں کپکپانے لگیں۔
بچی قبل از وقت پیدا ہوئی ، اسے ان کیو بیٹر میں رکھا گیا ، ماں کی حالت مخدوش تھی اسے آکسیجن گیس پر رکھا گیا۔
مشتاق کو اپنی مختصر سی دنیا متزلزل نظر آئی ، دل میں رقص کرتے ہوئے جگنو سچ کی لپلپاتی دھوپ کی تپش میں جھلس گئے ، اسکے چہرے کی لکیریں اورگہری ہو گئیں مگر اس نے ضبط کا دامن پھسلنے نہیں دیا۔
عدالت میں کیس کی سنوائی شروع ہو ئی ، مشتاق اپنے بیان پر قائم رہا، پر سی کیوشن کی طرف سے ٹھوس ثبوت پیش کئے گئے جو ثابت کرتے تھے کہ لڑکی ایک رات پہلے تک مشتاق کے پاس تھی، یہ سلسلہ چلتا رہا اور جانے کون سا موڑ لیتا کہ ایک دن لڑکی خود عدالت میں حاضر ہو گئی، لڑکی کے بیان کے بعد مشتاق کو اغوا کے الزام سے بری کر دیا گیا۔
رہائی کے فورا بعد مشتاق جب اپنی بیوی سے ملنے اسپتال پہونچا تو بیوی نے نو زائیدہ بچی کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھلوائی کہ وہ اب اس لڑکی سے کوئی واسطہ ر نہیں کھیگا، ورنہ وہ وہ بچی سمیت جان دے دیگی۔
یہ قسم مشتاق کی روح پر دھرنا دیکر بیٹھ گئی،اسکے کندھے جھک گئے۔
اس پر چپی سوار ہو گئی۔
بیوی کی صحت یا بی کے بعد بیوی بچوں سمیت جب مشتاق گاؤں کے لئے چلا تب بھی چپی اس پر سوار رہی۔
لڑکی اسکے بعد کسی کو نظر نہیں آئی، کسی نے اسے ڈھونڈ نے کی کوشش بھی نہیں کی۔
ایک ہفتے بعد وہ لوٹا ،اس نے دوکان سامان سمیت فروخت کر دی اور خود کھاڑ ی کے پیچھے ویران سڑک پر جہاں سے اکا دکا گاڑیاں گزر جاتی تھیں،ایک مختضر سی کھولی میں بند دروازے کے پیچھے رہنے لگا۔
چپی ہنوز اس پر سوار تھی۔
وقت گزرتا رہا کہ گزر جانا اسکی عنایت ہے۔ زندگی حسب معمول جاری رہی۔
اور پھر گل مہر روڈاور سائیں بابا گلی کے باسیوں میں مشتاق کی معجزاتی شخصیت کی کہانیاں ایک ہی رفتار سے گردش کرنے لگیں، عرفان اور ورما ایک شام اسکی کھولی میں پہونچے، دروازہ کھلا تھا اورعورتوں کا ہجوم اندر باہر جمع تھا، مشتاق اندر کھولی کے فرش پر سر جھکائے دو زانو بیٹھا تھا،اسکی داڑھی کافی بڑھی ہو ئی تھی،جسم نحیف و نزار ہو چکا تھا اور چہرے پر ایک بے نیازی پھیلی تھی، وہاں پر موجود عورتیں سر پر آنچل ڈالے، آنکھوں میں گہری عقیدت لئے چند لمحوں کی ملاقات کی امید میں گھنٹوں سے انتظار میں کھڑی تھیں ، پتہ چلا کہ شب و روز کی مسلسل عبا دت سے مشتاق با با نے معرفت کے اعلی درجات حاصل کر لیے ہیں،بابا نہ آنکھیں کھولتے نہ منہ سے بولتے ہیں اور نہ کان سے سنتے ہیں، حاجت مند انکے سامنے بیٹھ جاتا ہے اور بابا چند گہرے سانس لیتے ہیں اور اپنی روحانی بصیرت سے سامنے بیٹھے انسان کے دل و دماغ کا سارا احوال جان لیتے ہیں پھر حاجت مند کومٹی کی ایک چٹکی دے دیتے ہیں، حاجت مند شفا پا جاتے ہیں۔
مجمع کے چھٹ جانے کے بعد ورما اور عرفان اندر جا کرمشتاق کے سامنے بیٹھ گئے، مشتاق نے فورا آنکھیں کھول دیں، اسکے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری اور دھیرے دھیرے اسکی آنکھوں میں اتر ی، عرفان اور ورما نے محسوس کیا کہ وہ مسکراہٹ ایک دھار دار نشتر بن کر سیدھے ان پر نشانہ سادھ رہی ہے۔
،دونوں نے اپنی پسلیوں میں اس نشتر کی تیز کراری چبھن محسوس کی اور سر جھکا لیا۔
مشتاق نے آنکھیں بند کر لیں اور مراقبے میں ڈوب گیا۔

ختم شد

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *